ساجد علی جمالی
ایم فل تاریخ اہل بیت
جامعۃ المصطفی العالمیہ قم ایران
Sajidalijamali14@gmail.com
مقدمہ
حسن بن علی بن محمد (232۔260 ھ )، امام حسن عسکریؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے گیارہویں امام ہیں۔ آپ امام علی نقیؑ کے فرزند اور امام مہدیؑ کے والد ہیں۔ آپ کا مشہور لقب عسکری ہے جو حکومت وقت کی طرف سے آپ کو شہر سامراء جو اس وقت فوجی چھاونی کی حیثیت رکھتا تھا، میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کیے جانے کی طرف اشارہ ہے۔ آپ کے دوسرے القاب میں ابن الرضا، ہادی، نقی، زکی، رفیق اور صامت مشہور ہیں۔
حکومت وقت کی کڑی نگرانی کی وجہ سے اپنے پیرکاروں سے رابطہ برقرار رکھنے کے لئے آپ نے مختلف شہروں میں نمائندے مقرر کئے اور وکالت سسٹم کے تحت اپنے نمایندوں سے رابطے میں رہے۔ عثمان بن سعید آپ کے خاص نمائندوں میں سے تھے جو آپؑ کی شہادت کے بعد غیبت صغریٰ کی ابتدا میں امام زمانہ(عج) کے پہلے نائب خاص بھی رہے ہیں۔
امام حسن عسکریؑ 8 ربیع الاول سنہ 260 ھ کو 28 سال کی عمر میں سامرا میں شہید ہوئے اور اپنے والد امام علی نقیؑ کے جوار میں دفن ہوئے۔ ان دونوں اماموں کا مدفن حرم عسکریین کے نام سے مشہور ہے اور عراق میں شیعہ زیارتگاہوں میں سے ایک ہے۔ یہ حرم دو مرتبہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مسمار ہوا۔ پہلا حملہ 22 فروری 2006 ء کو جبکہ دوسرا حملہ اس کے 16 مہینے بعد یعنی 13 مئی 2007ء کو کیا گیا۔
نسب
امام حسن عسکریؑ کا نسب آٹھ واسطوں سے شیعوں کے پہلے امام علی بن ابی طالبؑ سے ملتا ہے۔ آپؑ کے والد گرامی شیعہ اثنا عشریہ کے دسویں امام امام علی النقیؑ ہیں۔ شیعہ مصادر کے مطابق آپ کی والدہ کنیز تھی جنکا نام حُدیث یا «حدیثہ» تھا[1]۔کچھ اور اقوال کے مطابق آپکی مادر گرامی کا نام "سوسن"[2]اور "عسفان"[3]یا "سلیل"[4]بتایا گیا ہے اور دوسری عبارت میں"کانت من العارفات الصالحات"( یعنی وہ عارفہ اور صالحہ خواتین میں سے تھیں") کے ساتھ آپ کا تعارف کروایا گیا[5]۔
آپ کا صرف ایک بھائی جعفر تھا جو امام حسن عسکری کے بعد امامت پر دعوا کرنے کی وجہ سے جعفر کذاب کے نام سے معروف ہوا اور امام حسن عسکری کی اور کوئی اولاد ہونے سے انکار کرتے ہوئے خود کو امامت کی میراث کا اکیلا دعویدار قرار دیا[6]۔سید محمد اور حسین آپ کے دوسرے بھائی تھے[7]۔
القاب
آپ کے القاب صامت، ہادی، رفیق، زکی، نقی لکھے گئے۔ کچھ مورخین ںے آپکا لقب خالص بھی کہا۔ ابن الرضا کے لقب سے امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکریؑ مشہور ہوئے[8]۔ امام حسن عسکریؑ کے والد محترم امام علی نقی نے تقریباً 20 سال اور 9 مہینے سامراء میں زندگی بسر کی۔ اسی وجہ سے یہ دو امام عسکری کے نام سے مشہور ہوئے، عسکر سامراء کا ایک غیر مشہور عنوان تھا[9]۔جیسے امام حسن اور امام حسن عسکری کے مشترک نام ہونے کی وجہ سے امام حسن عسکری کو اخیر کہا جاتا ہے[10] ۔
احمد بن عبیداللہ بن خاقان نے امام عسکریؑ کی ظاہری صورت یوں بیان کی ہے: آپ کالی آنکھیں، بہترین قامت، خوبصورت چہرہ اور مناسب بدن کے مالک تھے۔
کنیت
آپؑ کی کنیت ابو محمد تھی۔ بعض کتابوں میں ابوالحسن[11]، ابو الحجہ[12]، ابوالقائم[13]مذکور ہیں۔
تولد:
معتبر منابع کے مطابق آپ مدینہ میں پیدا ہوئے[14]۔ بعض نے آپ کی جائے پیدائش سامرا ذکر کی ہے[15]۔کلینی اور اکثر متقدم امامی منابع آپ کی ولادت ربیع الثانی ۲۳۲ھ [16]شمار کرتے ہیں۔ بلکہ اسے امام نے خود ایک روایت میں بیان کیا ہے[17]۔ شیعہ و سنی بعض قدیمی مصادر میں حضرت کی ولادت 231ھ میں ہونے کا ذکر ہے[18]۔شیخ مفید نے اپنے بعض آثار میں گیارہویں امام کی ولادت کو 10 ربیع الاخر ذکر کی ہے[19]۔ چھٹی صدی میں یہ قول متروک ہو گیا اور اس کی جگہ 8 ربیع الاول معروف ہو گیا[20]اور امامیہ کے ہاں یہی مشہور قول بھی ہے۔ بعض اہل سنت اور شیعہ مآخذ حضرت کی پیدائش کا سال ۲۳۱ ھ نیز لکھتے ہیں[21]۔
ازواج:
مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ نے بالکل زوجہ اختیار نہیں کی اور آپکی نسل ایک کنیز کے ذریعے آگے بڑھی جو کہ حضرت مہدی(عج) کی مادر گرامی ہیں۔ لیکن شیخ صدوق اور شہید ثانی نے یوں نقل کیا ہے کہ امام زمان(عج) کی والدہ کنیز نہ تھیں بلکہ امام عسکریؑ کی زوجہ تھیں[22]۔
منابع میں امام مہدی(عج) کی والدہ کے مختلف اور متعدد نام ذکر ہوئے ہیں اور منابع میں آیا ہے کہ امام حسن عسکریؑ کے زیادہ تر خادم رومی، صقلائی اور ترک تھے[23]اور شاید امام زمانہ(عج) کی والدہ کے نام مختلف اور متعدد ہونے کی وجہ امام حسن عسکری کی کنیزوں کی تعداد کا زیادہ ہونا ہی ہو یا پھر امام مہدی(عج) کی ولادت کو خفیہ رکھنے کی وجہ سے آپ کی والدہ کے نام متعدد بتائے جاتے تھے۔
لیکن جو بھی حکمت تھی۔ آخری صدیوں میں امام زمانہ (عج) کی والدہ کے نام کے ساتھ نرجس کا عنوان شیعوں کے لئے باعث پہچان تھا۔ دوسری طرف جو سب سے مشہور نام منابع میں ملتا ہے وہ صیقل ہے[24]۔دوسرے جو نام ذکر ہوئے ہیں ان میں سوسن [25]، ریحانہ اور مریم[26]بھی ہیں۔
اولاد:
اکثر شیعہ اور سنی منابع کے مطابق، آپ کے اکلوتے فرزند امام زمانہ(عج) ہیں جو کہ محمد کے نام سے مشہور ہیں[27]۔
امام حسن عسکریؑ، حضرت امام زمانہ(عج) کے والد ہونے کے ناطے[28]، امام حسن عسکریؑ کی شخصیت کا یہ پہلو اہل تشیع کے نزدیک جانا پہچانا ہوا ہے۔ اور امامیہ (اہل تشیع) کے نزدیک مشہور ہے ہے کہ امام مہدی(عج) کی ولادت 15 شعبان سنہ 255 ھ کو ہوئی، لیکن تاریخ میں اور مختلف قول بھی موجود ہیں جن کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 254 ھ یا سنہ 256 ھ میں ہوئی ہے[29]۔
آپ کی اولاد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض نے تین بیٹے اور تین بیٹیوں کا کہا ہے۔ اسی قول سے ملتا جلتا قول اہل تشیع کے نزدیک بھی موجود ہے[30]؛ خصیبی نے امام مہدی(عج) کے علاوہ امام حسن عسکری ؑ کی دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور دلالہ ذکر کیے ہیں[31]۔ ابن ابی الثلج نے امام مہدی کے علاوہ ایک بیٹے کا نام موسی ، اسی طرح دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور عائشہ (یا ام موسی) بتائے ہیں[32]۔ لیکن انساب کی کتابوں میں مذکورہ نام، امام حسن عسکریؑ کے بہن بھائیوں کے طور پر ملتے ہیں[33] جو شاید ان مورخوں نے آپ کی اولاد کے عنوان سے ذکر کر دیے ہیں۔ اس کے برعکس، بعض اہل سنت کے علماء جیسے ابن جریر طبری، یحیٰ بن صاعد اور ابن حزم کا عقیدہ ہے کہ آپ کی کوئی اولاد تھی ہی نہیں[34]۔ لیکن مذکورہ بالا روایات کو دیکھا جائے تو یہ ایک بے بنیاد دعوے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
سامرا آمد:
بچپنے میں ہی امام حسن عسکری، اپنے والد گرامی امام ہادی کے ساتھ جبری طور پر عراق طلب کر لئے گئے اس زمانے میں عباسیوں کا دارالحکومت سامرا تھا یہاں آپ کو تحت نظر رکھا گیا ۔بعض کتابوں میں 236 ھ کو اور [35]بعض میں ۲۳۳ ھ کو اس سفر کا سال قرار دیا ہے[36]۔ مذکور ہے۔ امام حسن عسکری نے اپنی اکثر عمر سامرا میں گزاری اور مشہور ہے کہ صرف آپ ہی وہ امام ہیں جو حج پہ نہیں گئے، لیکن عیون اخبار الرضا اور کشف الغمہ میں راوی نے آپ سے ایک حدیث نقل کی ہے اور وہ انہوں نے مکہ میں امام سے سنی ہے[37]، مکہ کے اس سفر کے علاوہ جرجان کی طرف ایک سفر کا بھی ذکر ہوا ہے[38]۔
آپ کے دورۂ امامت میں معتز عباسی (۲۵۲-۲۵۵ ھ)، مہتدی (۲۵۵-۲۵۶ ھ) و معتمد (۲۵۶-۲۷۹ ھ)۔[39] عباسی خلیفہ رہے۔
امامت کی مدت اور دلائل
جس طرح کے شیخ مفید لکھتے ہیں کہ حسن بن علی (امام عسکری) اپنے والد (امام ہادی) کی شہادت کے سال ۲۵۴ قمری کے بعد، اپنے معاصرین میں سے فضیلت اور برتری رکھنے کی وجہ اور امام ہادیؑ کی روایات کے مطابق آپؑ اہل تشیع کے گیارہویں امام ہیں[40]۔ علی بن عمر نوفلی، امام ہادیؑ سے ایک روایت نقل کرتا ہے: „امام ہادیؑ کے ساتھ آپ کے گھر کے صحن میں بیٹھا تھا کہ آپ کا بیٹا محمد-ابو جعفر- کا گزر ہوا، میں نے عرض کی: میں آپ پر قربان جاؤں! آپ کے بعد ہمارا امام یہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: میرے بعد امام حسن ہو گا۔
بہت کم تعداد میں محمد بن علی کی امامت (جو کہ امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی دنیا سے چلے گئے) اور جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی ہے جعفربن علی کو اپنا امام سمجھتے تھے، امام ہادیؑ کے اکثر دوستان اور یاران نے امام حسن عسکریؑ کی امامت کو قبول کیا مسعودی، شیعہ اثنا عشری کو امام حسن عسکریؑ اور آپ کے فرزند کے پیروکاروں میں سے مانتا ہے کہ یہ فرقہ تاریخ میں قطیعہ کے نام سے مشہور ہوا ہے[41]۔
امام عسکریؑ ۲۵۴ تا ۲۶۰ تک ۶ سال کی مدت امامت کے فرائض انجام دیتے رہے پھر انکی شہادت کے بعد ان کے بیٹے امام زمانؑ امامت پر فائز ہوئے ۔
سیاسی حالات
امام حسن عسکریؑ کی امامت عباسی تین خلفاء کی خلافت کے دور میں تھی: معتز عباسی(252-255ھ)، مہتدی (255-256ھ) اور معتمد (256-279ھ)۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور میں عباسی حکومت امیروں کیلئے ایک بازیچہ بن چکی تھی خاص طور پر ترک نظامی سپہ سالاروں کا حکومتی سسٹم میں مؤثر کردار تھا ۔امام کی زندگی کی پہلی سیاسی سرگرمی اس وقت تاریخ میں ثبت ہوئی جب آپ کا سن 20 سال تھا اور آپ کے والد گرامی زندہ تھے ۔آپ نے اس وقت عبدالله بن عبدالله بن طاہر کو خط لکھا جس میں خلیفۂ وقت مستعین کو باغی اور طغیان گر کہا اور خدا سے اس کے سقوط کی تمنا کا اظہار کیا۔یہ واقعہ مستعین کی حکومت کے سقوط سے چند روز پہلے کا ہے ۔ عبد اللہ بن عبد اللہ عباسی حکومت میں صاحب نفوذ اور خلیفۂ وقت کے دشمنوں میں سے سمجھا جاتا تھا[42]۔
مستعین کے قتل کے بعد اس کا دشمن معتز تخت نشین ہوا ۔حضرت امام حسن عسکری کے مقتول خلیفہ کی نسبت احتمالی اطلاعات کی بنا پر معتز نے شروع میں آپ کی اور آپ کے والد کی نسبت ظاہری طور پر کسی قسم کے خصومت آمیز رویہ کا اظہار نہیں کیا ۔حضرت امام علی نقی کی شہادت کے بعد شواہد اس بات کے بیان گر ہیں کہ امام حسن عسکری کی فعالیتیں محدود ہونے کے باوجود کسی حد تک آپ کو آزادی حاصل تھی ۔آپ کی امامت کے ابتدائی دور میں آپ کی اپنے شیعوں سے بعض ملاقاتیں اس بات کی تائید کرتی ہیں لیکن ایک سال گزرنے کے بعد خلیفہ امام کی نسبت بد گمان ہو گیا اور اس نے 255ق میں امام کو زندان میں قید کر دیا لہذا امام آزار و اذیت میں گرفتار ہو گئے ۔نیز امام حسن عسکری اس کے بعد کے خلیفہ مہتدی ک دور میں بھی زندان میں ہی رہے ۔256ق میں معتمد کی خلافت کے آغاز میں اسے شیعوں کے مسلسل قیاموں کا سامنا کرنا پڑا اور امام زندان سے آزاد ہوئے ۔ایک دفعہ پھر امام کو موقع ملا کہ وہ اپنے شیعوں کو مرتب و منظم کرنے کیلئے معاشرتی اور مالی پروگراموں کا اہتمام کر سکیں۔امام کی یہی فعالیتیں وہ بھی عباسی دار الحکومت میں ایک دفعہ پھر ان کیلئے پریشانی کا موجب بن گئیں۔ پس 260 ق میں معتمد کے دستور پر امام حسن عسکری کو دوبارہ زندانی کیا گیا اور خلیفہ روزانہ امام سے مربوط اخبار کی چھان بین کرتا [43]۔ ایک مہینے کے بعد امام زندان سے آزاد ہوئے لیکن مامون کے وزیر حسن بن سہل کے گھر میں نظر بند کر دئے گئے جو واسط نامی شہر کے قریب تھا [44]۔
قیام اور شورشیں
امام حسن عسکریؑ کے زمانے میں شیعوں کی جانب سے عباسیوں کے خلاف تحریکیں اٹھیں اور کچھ سوئے استفادہ کی بنیاد پر علویوں کے نام سے شورشیں برپا ہوئیں۔
علی بن زید اور عیسی بن جعفر کا قیام
یہ دونوں علوی امام حسن مجتبیؑ کے ممتاز صحابہ میں سے تھے ۔انہوں نے سال ۲۵۵ ہجری کو کوفہ میں قیام کیا۔ معتز عباسی نے سعید بن صالح کی سرکردگی میں فوج بھیج کر اس قیام کو شکست دی [45]۔
علی بن زید بن حسین
یہ امام حسینؑ کی اولاد میں سے تھا ۔انہوں نے مهتدی عباسی کے زمانے میں کوفہ میں قیام کیا۔ شاه بن میکال ایک بڑی فوج کے ساتھ اس کے مقابلے میں آیا لیکن شکست سے دو چار ہوا ۔ معتمد عباسی جب تخت نشین ہوا تو اس نے کیجور ترکی کو اس کے مقابلے کیلئے بھیجا ۔ علی بن زید نے پسپائی اختیار کی اور فرار ہو گیا بالآخر سنہ257 ہجری میں قتل ہوا [46]
احمد بن محمد بن عبدالله
اس نے معتمد عباسی کے زمانے میں مصر کے برقہ اور اسکندریہ کے درمیان قیام کیا۔ بہت بڑی تعداد اپنے پیروکاروں کی پیدا کر لی اور خلافت کا ادعا کیا ۔ترک خلیفہ نے کارگزار احمد بن طولون کو اسکے مقابلے کیلئے بھیجا تا کہ اس کے اطرافیوں کو اس سے جدا اور منتشر کرے۔احمد بن محمد بن عبد اللہ نے مقاومت کی اور انہوں نے اسے قتل کر دیا [47]۔
صاحب زنج کی شورش
علی بن محمد عبدالقیسی نے سال ۲۵۵ق میں معتمد عباسی کے دور میں قیام کیا۔ اس نے اپنے آپ کو علویوں سے منسوب کیا جبکہ وہ نسب کے لحاظ سے علوی نہیں تھا کیونکہ اکثر نسب شناسانعبداقیس کی شاخ میں قرار دیتے ہیں[48]۔ نیز وہ کردار کے لحاظ سے بھی علویوں کے نزدیک نہیں تھا [49]وہ عقیدے کے لحاظ سے خوارج کا ہم عقیدہ تھا[50]۔امام حسن عسکری نے واضح طور پر اعلان کیا تھا صاحب زنج اہل بیت سے نہیں ہے [51]۔اس نے غلاموں کی آزادی کے نعرے کے ساتھ بصره کے مدینۃ الفتح اور کرخ کے درمیان بئر نخل نامی محلے سے قیام کا آغاز کیا ۔طولانی مدت تک اس نے عباسیوں کے سامنے مقاومت کی جو 15 سال تک جاری رہی ۔نہایت کار سال ۲۷۰ھ میں قتل ہو گیا[52]۔
شیعوں سے رابطہ
امام حسن عسکری کے دور میں معاشرے میں اکثریتی مذہب اہل سنت تھا اور اسی طرح عباسیوں کی جانب سے شیعہ سخت حالات میں ہونے کی وجہ سے تقیہ کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ان حالات میں امام حسن عسکری نے شیعوں کے امور چلانے کیلئے اور وجوہات شرعی کی جمع آوری کیلئے مختلف علاقوں میں اپنے وکیلوں کو روانہ کرتے تھے[53]۔
امام سے ملاقات
جاسوسی کے پیش نظر شیعوں کیلئے ہر وقت امام سے ملاقات کرنا نہایت مشکل تھا یہاں تک کہ خلیفۂ عباسی کئی مرتبہ بصرہ گیا تو جاتے ہوئے امام کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتا تھا ۔اس دوران امام کے اصحاب آپ کی زیارت کیلئے اپنے آپ کو تیار رکھتے تھے [54]۔اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیعوں کیلئے مستقیم طور پر امام سے ملنا کس قدر دشوار تھا۔ اسماعیل بن محمد کہتا ہے: جہاں سے آپ کا گزر ہوتا تھا میں وہاں کچھ رقم مانگنے کے لئے بیٹھا اور جب امامؑ کا گزر وہاں سے ہوا تو میں نے کچھ مالی مدد آپ سے مانگی[55]۔ ایک اور راوی نقل کرتا ہے کہ ایک دن جب امامؑ کو دار الخلافہ جانا تھا ہم عسکر کے مقام پر آپ کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئے، اس حالت میں آپ کی جانب رقعہ توقیعی (یعنی کچھ لکھا ہوا) ہم تک پہنچا جو کہ اسطرح تھا: کوئی مجھ کو سلام اور حتیٰ میری جانب اشارہ بھی نہ کرے، چونکہ مجھے امان نہیں ہے[56]۔اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ خلیفہ کس حد تک امام اور شیعوں کے درمیان روابط کو زیر نظر رکھتا تھا۔ البتہ امام اور آپ کے شیعہ مختلف جگہوں پر آپس میں ملاقات کرتے تھے اور ملاقات کے مخفیانہ طریقے بھی تھے جو چیز آپ اور شیعوں کے درمیان رابطہ رکھنے میں زیادہ استعمال ہوئی وہ خطوط تھے اور بہت سے منابع میں بھی یہی لکھا گیا ہے[57]۔
امام کے نمائندے
حاکم کی طرف سے شدید محدودیت کی وجہ سے امامؑ نے اپنے شیعوں سے رابطہ رکھنے کے لئے کچھ نمائندوں کا انتخاب کیا ان افراد میں ایک آپ کا خاص خادم عقید تھا جس کو بچپن سے ہی آپ نے پالا تھا، اور آپ کے بہت سے خطوط کو آپ کے شیعوں تک پہنچاتا تھا[58]۔ اسی طرح آپکے خادم جس کی کنیت ابو الادیان تھی اس کے ذمےبعض خطوط پہنچانا تھا[59]۔ لیکن جو امامیہ منابع میں باب کے عنوان سے (امام کا رابط اور نمائندہ) پہنچانا جاتا تھا وہ عثمان بن سعید ہے اور یہی عثمان بن سعید امام حسن عسکریؑ کی وفات کے بعد اور غیبت صغریٰ کے شروع کے دور میں پہلے باب کے عنوان سے یا دوسرے لفظوں میں سفیر، وکیل اور امام زمان(عج) کے خاص نائب میں سے تھا[60]۔
مراسلہ نگاری
امام کا اپنے شیعوں سے رابطہ خطوط کے ذریعے بھی تھا ۔نمونے کے طور پر علی بن حسین بن بابویہ [61] اور قم کے لوگوں کے خط کو ذکر کیا سکتا ہے [62] شیعہ اپنے مسائل اور مختلف موضوعات کے متعلق سوالات خط کی صورت میں لکھتے اور امام انہیں تحریری صورت میں جواب دیتے تھے ۔
معارف دینی کی وضاحت
آخری آئمہ کے زمانے میں امامت سے مربوط ابہامات اور پیچیدگوں کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسن عسکری ؑکے اقوال اور خطوط میں اس کے متعلق ارشادات کا مشاہدہ کرتے ہیں جیسے زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی [63]۔اگر امامت کا سلسلہ منقطع ہوجائے اور اس کا تسلسل ٹوٹ جائے تو خدا کے امور میں خلل واقع ہو جائے گا [64]۔ زمین پر خدا کی حجت ایسی نعمت ہے جو خدا نے مؤمنوں کو عطا کی ہے اور اس کے ذریعے ان کی ہدایت کرتا ہے [65]۔
اس زمانے کی ایک اور دینی تعلیم کہ جس کی وجہ سے شیعہ تحت فشار رہے وہ مومنین کو آپس میں صبر کی تلقین انتظار فرج کا پیغام ہے جو امام کے ارشادات میں زیادہ بیان ہوا ہے [66]۔اسی طرح آپ کی احادیث میں شیعوں کے درمیان باہمی منظم ارتباط اور باہمی بھائی چارے کی فضا کے قیام کے بارے میں بیشتر تاکید ملاحظہ کی جا سکتی ہے[67]۔
تفسیر قرآن
امام حسن عسکری ؑ کے مورد توجہ قرار پانے والی چیزوں میں سے ایک تفسیر قرآن کا عنوان ہے ۔تفسیر قرآن کا ایک مکمل اور تفصیلی متن امام حسن عسکری(تفسیر امام حسن عسکری) سے منسوب ہے کہ جو امامیہ کے قدیمی آثار میں شمار ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ امام کی طرف اس کتاب کی نسبت درست نہ ہونے کی صورت میں بھی اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ تفسیری ابحاث کی نسبت امام حسن عسکریؑ کی شہرت نے اس کتاب کے امام کی طرف منسوب ہونے کے مقدمات فراہم کئے ہیں ۔
کلام اور عقائد
ایسے حالات میں امامیہ کی رہبری اور امامت حضرت امام حسن عسکری ؑ کے ہاتھ آئی جب امامیہ کی صفوں میں بعض ایسی اعتقادی مشکلات موجود تھیں جن میں سے کچھ تو چند دہائیاں پہلے اور کچھ آپ کے زمانے میں پیدا ہوئیں۔ان اعتقادی مسائل میں سے خدا کی جسمیت کی نفی ایک مسئلہ تھا کہ جو کافی سال پہلے پیدا ہوا تھا اور ممتاز ترین اصحاب ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم کے درمیان اس کی وجہ سے اختلافات پائے جاتے تھے ۔امام حسن عسکری کے زمانے میں اس مسئلے نے اتنی شدت اختیار کی کہ سہل بن زیاد آدمی نے امام کو خط لکھ کر آپ سے راہنمائی حاصل کرنے کی درخواست کی۔
امام نے اسے جواب دیتے ہوئے ابتدائی طور پر اللہ کی ذات کے متعلق بحث کرنے سے پرہیز کرنے کا کہا پھر قرآنی آیات سے اس مسئلہ کی جانب ہوں اشارہ فرمایا کہ قرآن میں اس طرح آیا ہے :
اللہ واحد و یکتا ہے، وہ نہ تو کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس سے پیدا ہوا ہے۔ اسکا کوئی نظیر و ہمتا نہیں ہے ۔وہ پیدا کرنے والا ہے پیدا ہونے والا نہیں ہے ۔ جسم اور غیر جسم سے جسے چاہے خلق کرسکتا ہے ۔وہ خود جسم و جسمانیت سے مبرا ہے۔۔۔۔کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے وہ بصیر اور سمیع ہے ۔[68]
فقہ
علم حدیث میں آپ کو فقیہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے [69]۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے درمیان اس لقب سے خصوصی طور پر پہچانے جاتے تھے ۔اسی بنیاد پر فقہ کے بعض ابواب میں آپ سے احادیث منقول ہیں۔ البتہ امامیہ مذہب کی فقہ کا بیشترین حصہ حضرت امام جعفر صادق ؑ سے ترتیب شدہ ہے اور اس کے بعد فقہ نے اپنے تکمیلی مراحل طے کئے ہیں لہذا امام حسن عسکری کی زیادہ تر احادیث ان فروعی مسائل کے بارے میں ہیں جو اس دور میں نئے پیدا ہوئے تھے یا ان مسائل کے بارے میں ہیں جو انکے زمانے میں چیلنج کے طور پر پیش ہوئے ۔مثال کے طور پر رمضان کے آغاز کا مسئلہ اور خمس کی بحث [70]۔
شہادت:
مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ ربیع الاول سنہ۲۶۰ ھ کے شروع میں معتمد عباسی کے ہاتھوں 28 سال کی عمر میں مسموم ہوئے اور اسی مہینے کی 8 تاریخ کو 28 سال کی عمر میں سرّ من رأی (سامرا) میں جام شہادت نوش کرگئے[71]۔ البتہ ربیع الثانی اور جمادی الاولی میں شہید ہونے کے بارے میں بھی بعض روایات ملتی ہیں[72]۔ طبرسی نے اعلام الوری میں لکھا ہے کہ اکثر امامیہ علما نے کہا ہے کہ امام عسکری زہر سے مسموم ہوئے اور اس کی دلیل امام صادقؑ کی ایک روایت ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں «و الله ما منّا الا مقتول شہيد»[73].بعض تاریخی گزارشات کے مطابق یہ سمجھ میں آتا ہے کہ معتمد سے پہلے کے دو خلیفے بھی امام عسکریؑ کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ معتز عباسی نے حاجب کو حکم دیا کہ وہ امامؑ کو کوفہ کے راستے میں قتل کرے لیکن لوگوں کو جب پتہ چلا تو یہ سازش ناکام ہوئی [74]۔ ایک اور گزارش کے مطابق مہتدی عباسی نے بھی امام کو زندان میں شہید کرنے کا سوچا لیکن انجام دینے سے پہلے اس کی حکومت ختم ہوئی[75]۔ امام عسکریؑ سامرا میں جس گھر میں اپنے والد ماجد امام علی نقی علیہ السلام دفن ہوئے تھے ان کے پہلو میں دفن ہوئے [76]۔
حرم
امام عسکری کی شہادت کے بعد آپؑ کو آپ کے والد گرامی امام علی النقیؑ کے جوار میں دفن کیا گیا[77]۔ بعد میں اس جگہ ایک بارگاہ بنی جو حرم امامین عسکریین سے مشہور ہے۔ امامین عسکرینؑ کا حرم دو بار وہابی دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بن چکا ہے۔ پہلا حملہ 22 فروری 2006ء کو[78] دوسرا حملہ سولہ ماہ بعد یعنی 13 جون 2007ء کو ہوا [79]۔ تخریب حرم عسکریین اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ 2008ء کو حرم کی تعمیر نو شروع ہوگئی۔اور 2015ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔
امام کے اصحاب
(۱) ابراہیم بن مَہزیار اہوازی
تیسری صدی ہجری کے شیعہ محدث، امام محمد تقی علیہ السلام کے صحابی اور امام علی نقی علیہ السلام و امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایات نقل کرنے والے روات میں سے ہیں۔ ابراہیم خوزستان (ایران) کے علاقہ دورق کے رہنے والے تھے۔[80] نجاشی کے بقول ان کے والد عیسائی تھے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔[81] ان کی ولادت اور وفات کے سلسلہ میں معلومات دسترس میں نہیں ہیں۔ اس کے باوجود بعض محققین نے بعض دلائل و قرائن سے استناد کرتے ہوئے ان کے زندگی کا زمانہ 195 سے 265 ھ کے درمیان گمان کیا ہے۔[82]ان دلائل میں سے بعض یہ ہیں کہ وہ امام محمد تقی ؑ (شہادت 220 ھ)[83] کے صحابی تھے امام حسن عسکری ؑ کی شہادت (260 ھ) کے بعد بھی زندہ تھے[84] اور بعض روایت میں انہیں امام زمانہ ؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے۔[85]
ان کے تین بیٹے حسین، علی و محمد تھے۔ محمد امام حسن عسکری ؑ کے اصحاب میں سے تھے[86] اور ایک روایت کے مطابق امام زمانہ ؑ کی خدمت میں شرفیاب ہو چکے ہیں[87]۔ محقق معاصر علی اکبر غفاری کے مطابق ان کا نام کتب رجال میں ذکر نہیں ہوا ہے[88]۔ بعض شیعہ منابع رجالی و روایی میں ان کی کنیت ابو اسحاق نقل ہوئی ہے[89]۔شیعہ منابع روایی میں ابراہیم بن مہزیار سے احادیث نقل ہوئی ہیں۔ آیت اللہ خوئی کے مطابق، 50 سے زیادہ روایات کی سند میں ان کا نام ذکر ہوا ہے۔ شیعہ ماہرین رجال کے درمیان ان کی روایات کے معتبر ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ان کی وثاقت کے اثبات کے لئے کتاب کامل الزیارات کی بعض روایات کی سند میں ان کا نام ذکر ہونے سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ بعض علمائے رجال نے کامل الزیارات میں کسی راوی کے نام کے ذکر ہونے کو ایک عمومی وثاقت کے دلائل میں سے قرار دیا گیا ہے۔
(۲) عُثمان بن سعید عَمْری (متوفی 265 ھ سے قبل)
اَبو عَمرو کے نام سے مشہور، امام زمانہؑ کی غیبت صغری کے زمانے میں نواب اربعہ میں سے پہلے نائب خاص ہیں۔ آپ کو امام علی نقیؑ، امام عسکریؑ اور امام مہدیؑ کے اصحاب میں سے شمار کیا گیا ہے لیکن کیا آپ کا شمار امام محمد تقی کے اصحاب میں بھی ہوتا ہے یا نہیں، اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ سنہ 260 ھ میں امام مہدیؑ کی امامت کے آغاز سے لے کر تقریبا 6 یا 7 سال تک آپ امام زمانہؑ کے نائب خاص رہے۔ پھر ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان عمری اس عہدہ پر فائز ہوئے۔ نیابت کے دوران آپ بغداد چلے گئے اور نیابت کا پورا عرصہ وہیں پر ہی مقیم رہے۔ بغداد سمیت عراق کے مختلف شہروں میں انہوں نے اپنے وکلاء مقرر کر رکھے تھے جو شرعی وجوہات کو لوگوں سے جمع کرکے ان تک پہنچاتے تھے۔ امام مہدی ؑ نے ان کی وفات پر ان کے بیٹے محمد بن عثمان کو تسلیتی خط تحریر فرمایا۔ مختلف متون روایی میں عثمان بن سعید کو متعدد القابات جیسے زَیّات و عَمْری سے یاد کیا گیا ہے۔ عثمان بن سعید کی تاریخ ولادت سے متعلق کوئی دقیق معلومات نہیں ہیں۔ لیکن کہا گیا ہے کہ آپ گیارہ سال کی عمر سے ہی امام محمد تقیؑ کے خادم کے طور پر امام کے گھر میں کام کرتے تھے اور بعد میں امام نے انہیں اپنا نمائندہ بنایا یوں آپ امام کے با اعتماد اصحاب میں سے تھے۔[90]
آپ امام علی نقی ؑ، امام حسن عسکری ؑ اور امام زمانہ ؑ کے بھی وکیل رہے ہیں اسی بنا پر ہمیشہ ان حضرات معصومین کے بھی مورد اعتماد ٹھہرے ہیں۔ عثمان بن سعید شروع میں سامرا میں رہتے تھے اور امام حسن عسکری ؑ کی شہادت کے بعد وہ بغداد چلے گئے۔ اس وقت سامرا عباسیوں کا دار الخلافہ اور فوجی چھاونی تھا جو اپنی حکومت کے آغاز سے ہی آئمہ معصومین کے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ روا نہیں رکھتے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ احتمال زیادہ قوی ہے کہ عثمان بن سعید نے اسی وجہ سے سامراء سے بغداد کی طرف ہجرت کی اور وہاں پر کرخ نامی جگہ کو جو ایک شیعہ نشین علاقہ تھا، سکونت کیلئے انتخاب کرکے اسے شیعوں کی رہبری کیلئے مرکز قرار دے دیا۔[91]
(۳) محمد بن حسن صفار قمی
امامیہ مکتب کے محدث، فقیہ اور امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ صفار متعدد رسالوں کے مصنف تھے لیکن وہ مستقل شکل میں ہم تک نہیں پہنچے ہیں۔ شیعہ ائمہ کے فضائل، خصوصیات اور دلائل پر مشتمل احادیث کا مجموعہ بنام بصائرالدرجات ان سے منسوب ہے۔
محمد بن حسن صفار قمی اعرج کے نام سے معروف عیسی بن موسی بن طلحہ اشعری کے ایرانی غلاموں میں سے تھے۔[92] اسی مناسبت سے اشعری سے منسوب ہیں۔ تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے۔ وفات کا سال ۲۹۰ قمری قم مذکور ہے[93] جو غیبت صغری سے متصل تھا۔[94]
شیخ طوسی کے مطابق وہ امام حسن عسکریؑ کے صحابی تھے۔ انکی صحابیت عمدہ ترین شاہد سوالات کا مجموعہ ہے جن کے متعلق انہوں نے امام حسن عسکریؑ سے استفسار کیا تھا۔[95]ممکن ہے یہ خط و کتابت ائمہ کی طرف سے وکالتی نظام کے تحت انکے وکیل اور نمائندہ ہونے کی بیان گر ہو۔
حدیثی منابع میں انہیں ممولہ کے لقب سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جبکہ منابع میں کبھی حمولہ بھی آیا ہے۔ بعض منابع میں امام حسن عسکریؑ سے پوچھے گئے سوالات کے مجموعے کو بھی ممولہ کہا گیا ہے۔[96]
(۴) ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری، (متوفی 305 ھ)
امام زمانہ (عج) کے نواب اربعہ میں سے دوسرے نائب خاص ہیں۔ انھوں نے ابتداء میں امام زمانہ (ع) کے وکیل اور اپنے والد عثمان بن سعید عمری کے معاون اور بعد میں اپنے والد کی موت کے بعد آپ (ع) کے دوسرے نائب خاص کے عنوان سے چالیس سال تک خدمات انجام دیں۔ محمد بن عثمان کی نیابت کے حوالے سے امام حسن عسکری (ع) کی روایت اور امام زمانہ (ع) کی توقیع مبارک میں تصریح ہونے کے باوجود امام زمانہ (ع) کی غیبت کے دوران آپ کی عمومی نیابت کے فرائض انجام دینے والے نائبین میں سے بعض نے ان کی نیابت خاص کے بارے میں شک و تردیک کا اظہار کیا ہے اور بعض نے ان کے مقابلے میں امام کی جانب سے نیابت کا دعوی بھی کیا۔ اپنے والد کی طرح محمد بن عثمان نے بھی بعض معاونین کا انتخاب کیا جو ان وکالتی اور نیابتی امور کی انجام دہی میں ان کی مدد کرتے تھے۔ محمد بن عثمان اپنے زمانے کے فقہاء میں سے تھے اور علم فقہ میں وہ صاحب تالیف بھی تھے اسی طرح امام مہدی (ع) کے بارے میں ان سے بعض روایات بھی نقل ہوئی ہیں۔ بعض مشہور دعائیں جیسے دعائے سمات، دعائے افتتاح و زیارت آل یاسین وغیرہ نیز ان کے ذریعہ سے نقل ہوئی ہیں۔
محمد بن عثمان عمری کی تاریخ پیدائش کے بارے میں دقیق معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ دینی منابع میں ان کا نام محمد بن عثمان بن سعید (امام مہدی (ع) کے پہلے نائب خاص کے عنوان سے) اور ان کی کنیت ابو جعفر ذکر ہوئی ہے۔ آپ کا تعلق بنی اسد کے قبیلہ سے تھا۔[97]ان کے بارے میں حدیثی اور رجالی منابع میں اس کے علاوہ کوئی اور کنیت ذکر نہیں ہوئی ہے۔[98] البتہ ان کے کئی القاب مختلف منابع میں ذکر ہوئے ہیں: کبھی ان کو عَمْری[99]کہا گیا ہے۔ اکثر رجالی اور حدیثی کتابوں میں انہیں اسی نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اسی طرح ان کو اسدی[100] اور کہیں کوفی[101] کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ سمان[102] اور عسکری[103] بھی ان کے القاب میں سے ہیں۔
(۵) ابو القاسم حسین بن روح نوبختی (متوفی 326ھ)
امام زمانہ(عج) کے تیسرے نائب خاص، امام حسن عسکریؑ کے اصحاب اور بغداد میں محمد بن عثمان (دوسرے نائب خاص) کے قریبی معتمدین میں سے تھے۔ محمد بن عثمان نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں امام زمانہؑ کے حکم سے حسین بن روح کو اپنا جانشین مقرر کیا۔نیابت کے ابتدائی دور میں حسین بن روح بنی عباس کے حکام کے یہاں ممتاز مقام و منصب کے حامل تھے۔ لیکن بعد میں ان کے تعلقات خراب ہو گئے یوں آپ کو کچھ مدت کیلئے مخفیانہ زندگی گزارنا پڑا اور آخر کار پانچ سال کیلئے زندان بھی جانا پڑا۔
حسین بن روح کے دوران نیابت کے اہم ترین واقعات میں سے ایک شلمغانی کا واقعہ ہے جو ان کا مورد اعتماد وکیل تھا لیکن گمراہی کا شکار ہوا۔ اس بنا پر امام زمانہؑ کی طرف سے ان کی مذمت میں توقیعات بھی صادر ہوئیں۔بعض فقہی کتابوں کی تصنیف اور علمی مناظرات میں مختلف موضوعات پر عبور اور تسلط رکھنے کی بنا پر آپ کو علمی حلقوں میں ممتاز حیثیت حاصل تھی یہاں تک کہ بعض احادیث کی کتابوں میں کرامات بھی ان سے منسوب کی گئی ہیں۔
آپ کی تاریخ پیدایش کے حوالے سے کوئی دقیق معلومات دستیاب نہیں ہے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم جبکہ نوبختی، روحی[104] اور قمی[105] کے القاب سے ملقب ہیں۔ ایران کے شہر آبہ (ساوہ کے نزدیک) کی زبان بولنے اور وہاں کے باسیوں سے رفت و آمد کی وجہ سے آپ کو قمی کہا جاتا تھا[106]۔ لیکن اکثر منابع میں آپ نوبختی کے نام سے مشہور ہیں۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ماں کی طرف سے خاندان نوبختی سے تعلق رکھتا تھا اسلئے اس نام سے مشہور ہوئے ہیں[107]۔ بعض مورخین کے مطابق آپ کا تعلق قم کے ایک قبیلہ بنی نوبخت سے تھا اور امام زمانہ کے پہلے نائب عثمان بن سعید کی نیابت کے دوران بغداد چلے گئے تھے[108]۔
(۶) علی بن محمد سَمُرِیّ (متوفی 329 ھ)
غیبت صغری کے زمانے میں امام زمانہ (عج) کے چوتھے اور آخری نائب خاص ہیں جو حسین بن روح نوبختی کے بعد تین سال کیلئے عہدہ نیابت پر فائز رہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ ان کے مکاتبات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آنجناب (ع) کے اصحاب میں سے تھے۔ ان کی مدت نیابت باقی نائبین خاص کی نسبت مختصر رہی ہے لیکن تاریخی منابع میں اس کی کوئی خاص علت بھی ذکر نہیں ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت وقت کی جانب سے شدید دباؤ اور اس دور کے سیاسی و سماجی حالات کی وجہ علی بن محمد سمری کی نیابت کے دوران ان کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھی دوسروں کی نسبت واضح کمی آگئی تھی۔ امام زمانہ (ع) کی طرف سے آپ کے نام صادر ہونے والی توقیع جس میں امام (ع) نے آپ کی موت اور نیابت خاصہ کی مدت کے اختتام کی خبر دی تھی جو ان کی زندگی میں واقع ہونے والے اہم واقعات میں سے ہیں۔ ان کی وفات سے امام زمانہ (ع) کے ساتھ براہ راست رابطہ منقطع ہوا یوں غیبت کبری کا دور شروع ہو گیا۔
علی بن محمد سمری کی تاریخ ولادت کسی منابع میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔ ان کی کنیت ابوالحسن[109] اور ان کا لقب سَمَری، سَیمُری، سَیمَری و یا صیمَری بتا یا جاتا ہے لیکن وہ سَمَری کے نام سے مشہور تھے۔ سَمَّر یا سُمَّر یا صیمر بصرہ کے کسی گاؤں کا نام ہے جہاں ان کے اقارب زندگی بسر کرتے تھے[110]۔
علی بن محمد سمري ایک دیندار شیعہ خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کا خاندان ائمہ معصومین کی خدمت گزاری کے حوالے سے مشہور تھے اور ان کی اسی خاندانی شرافت کی وجہ سے امام زمانہ کے نائب خاص کے عہدے پر فائز ہونے میں انہیں زیادہ مخالفتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا[111]۔
یعقوبی کے مطابق ان کے خاندان کے بہت سارے اکابرین بصرہ میں وسیع املاک و جائداد کے مالک تھے جنھوں نے ان املاک کی نصف آمدنی گیارہویں امام(ع) کے لئے وقف کی تھی۔ امام(ع) ہر سال مذکورہ آمدنی وصول کرتے اور ان کے ساتھ خط و کتابت کرتے تھے[112]۔
علی بن محمد سمری کے بعض دیگر اقارب میں سے علی بن محمد بن زیاد ہیں جو امام حسن عسکری(ع) کے وکلاء میں سے تھے جنہوں نے امام زمانہ (عج) کی امامت کے اثبات کی غرض سے الاوصیاء کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے[113]۔
شیخ طوسی نے انہیں علی بن محمد صیمری کے عنوان سے امام حسن عسکری کے اصحاب کے زمرے میں شمار کیا ہے[114]۔ اور ان کے حضرت امام حسن عسکری(ع) کے ساتھ مکاتبات بھی نقل ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وہ خود کہتے ہیں: امام حسن عسکری (ع) نے مجھے لکھا کہ "تمہیں گمراہ کرنے والا ایک فتنہ پیش آنے والا ہے۔ پس اس سے ہوشیار رہو اور اس سے پرہیز کرو" اس کے تین دن بعد بنی ہاشم کیلئے ایک ناگوار حادثہ پیش آیا جس کی وجہ سے بنی ہاشم کیلئے بہت ساری دشواریاں پیش آئیں۔ اس وقت میں نے امام کو ایک خط لکھا اور سوال کیا کہ آیا وہ فتنہ جس کے بارے میں آپ نے پیشن گوئی کی تھی یہی ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا نہیں وہ اس کے علاوہ ہے لہذا اپنی حفاظت کریں۔ اس کے کچھ دن بعد عباسی خلیفہ معتز بالله کے قتل کا واقعہ پیش آیا[115]۔
(۷) محمد بن حسین بن ابی الخطاب زید زَیّات ہمدانی کوفی (متوفی 262 ھ)
ابن ابی الخطاب کے نام سے معروف ہیں۔ ان کا شمار شیعہ محدثین اور تین اماموں امام محمد تقی علیہ السلام، امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے اصحاب میں ہوتا ہے۔کلینی (متوفی 328 یا 329 ھ) نے اصول کافی میں مختلف مقامات پر محمد بن الحسین اور ابن قولویہ نے [116] محمد بن الحسین بن ابی الخطاب کے نام سے ان کا ذکر کیا ہے۔
نجاشی نے ان کا نام، کنیت اور ان کے والد کا نام یوں ذکر کیا ہے: محمد بن الحسین بن ابی الخطاب ابو جعفر الزَّیات الہمدانی[117]
علامہ حلّی نے بھی اسی صورت میں ذکر کیا ہے البتہ ظاہر ہوتا ہے کہ الحسین کے بجائے ابی الحسین ذکر کیا ہے[118]۔
تین اماموں کی مصاحبت
مامقانی نے انہیں امام محمد تقی (ع)، امام علی نقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ان سے منقول روایات کا سلسلہ کبھی تین اور چھ واسطوں کے ذریعے ائمہ سے متصل ہو کر امیرالمومنین علی (ع) پر منتہی ہوتا ہے[119]۔
نجاشی نے ان کی روایات کو مورد اطمینان قرار دیا ہے اور انہیں اجلّہ محدثین شیعہ، کثیر الروایہ، ثقہ، شناختہ شدہ اور صاحب تصنیف کے الفاظ سے یاد کیا ہے[120]۔
کثرت روایات، ان کی احادیث اور تین اماموں کے زمانے کو درک کرنے کی وجہ سے بعض مآخذ میں ان کا شمار ان افراد میں سے کیا ہے جو بچپن میں ائمہ کی خدمت میں رہے ہیں[121]۔ آقا بزرگ تہرانی نے ان کی عمر تقریبا سو سال ذکر کی ہے[122]۔
آثار
نجاشی نے درج ذیل آثار کو ان سے منسوب کیا ہے:کتاب التوحیدکتاب المعرفة و البداءکتاب الرد علی اہل القدرکتاب الامامةکتاب اللؤلؤةکتاب وصایا الائمة علیہم السّلامکتاب النّوادر۔[123]
خود ابن ابی الخطاب سے اس سے زیادہ تالیفات کی روایت مروی ہے۔ [124]
(۸) داؤد بن قاسم بن اسحاق (متوفی 261 ھ)
ابو ہاشم جعفری و داود بن قاسم جعفری کے نام سے مشہور، شیعوں کے چار ائمہ امام علی رضا، امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے شمار ہوتے ہیں۔ وہ موثق اور امامیہ کے معروف راویوں میں ہیں۔
ان کا مکمل نام اور نسب: داوود بن قاسم بن اسحاق بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب ہے۔ ان کے والد قاسم بن اسحاق اصحاب امام صادقؑ [125]اور محمد بن عبداللہ، معروف بنام نفس زکیہ کے طرفداروں میں تھے۔ نقل ہوا ہے کہ وہ نفس زکیہ کی طرف سے امیر یمن مقرر ہوئے اس سے پہلے کہ وہ اپنے فرائض نبھانا شروع کرتے نفس زکیہ قتل ہو گئے[126]۔
ابو ہاشم کی دادی (قاسم بن اسحاق کی ماں)، ام حکیم بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر تھی۔ ان کے فرزند ابو ہاشم امام جعفر صادق ؑ کے خالہ کے بیٹے تھے[127]۔
ان کی زندگی کی تفصیلات معلوم نہیں ہیں لیکن بعض مصادر کی صراحت کے مطابق بغداد نشین تھے[128]۔ اور احتمال ہے کہ وہ دوم ہجری کے آخری سالوں میں پیدا ہوئے کیونکہ مدینہ سے مرو کے سفر امام رضاؑ کے دوران شہر ایذہ (ایذج) میں امام کی ملاقات کیلئے گئے ہیں[129]۔
شیعوں اور ائمہ کے درمیان رابطے کا وسیلہ وکالت تھی کہ جس کی خلفای عباسی کی طرف سے کڑی نگرانی ہونے لگی اور غیبت امام زمان (عج) کا زمانہ نزدیک آنے لگا تھا۔ ابو ہاشم جعفری ائمہؑ کے مورد اعتماد صحابی تھے جو غیبت صغرا کے زمانے میں ایک مدت کیلئے وکیل رہے[130]۔
روایت کرنے والے
شیعہ محدثین کی ایک جماعت نے اس سے نقل حدیث کیا جیسے علی بن ابراہیم قمی، یحیی بن ہاشم، اسحاق بن محمد نخعی، سہل بن زیاد آدمی، محمد بن حسان، ابو احمد بن راشد، احمد بن محمد بن عیسی، محمد بن عیسی، محمد بن ولید، محمد بن احمد علوی، احمد بن اسحاق، محمد بن زیاد، احمد بن ابی عبداللہ برقی، فضل بن شاذان نیشابوری، سعد بن عبداللہ اشعری، عبد اللہ بن جعفر حمیری و[131] ...
اقوال علما
ابی جعفر برقی (متوفی 274 یا 280 ھ) ، کشی (متوفی 330 ھ)، مسعودی (متوفی 346 ھ)، نجاشی (متوفی 450 ھ)، شیخ طوسی (متوفی 460 ھ) الفہرست، او ررجال میں، ابن داوود حلی (متوفی 707 ھ)، علامہ حلی (متوفی 726 ھ) وغیرہ نے ابو ہاشم کو عالم، عابدِ زاہد، عظیم المنزلت، ائمہ کے نزدیک جلیل و شریف القدر جیسی صفات سے یاد کیا ہے۔[132]
تہمت غلو
جہاں ماہرین رجال نے ان کی تعریف بیان کی ہے وہیں کشی نے اپنے رجال میں سوانح ابو ہاشم کے آخر میں بعض روایات ذکر کی ہیں جن میں ان کی طرف غلو کی نسبت دی گئی ہے[133]۔ کشی کے علاوہ کسی اور نے غلو کی نسبت نہیں دی ہے۔
ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی طرف سے ائمہ کے معجزات کی کثیر روایات کے نقل کی وجہ سے ان کی طرف غلو کی نسبت دی گئی ہے[134]۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ان روایات میں ائمہ کے معجزات بیان کرنے کے در پے تھے کہ جو ائمہ کی نسبت نہایت اخلاص کی علامت تھے۔ صرف کشی نے غلو کی نسبت ذکر کی ہے جبکہ دیگر ماہرین نے ان سے اس نسبت کی نفی کی ہے جیسے:
مامقانی:
امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے ابو ہاشم کیلئے سفارت و وکالت کا مرتبہ ہر قسم کی توثیق و تعدیل سے بالاتر ہے۔ اس شخص کی وثاقت، جلالت اور بزرگی میں کسی قسم کا شک نہیں ہے[135]۔
آیت اللہ خوئی:
کشی کی عبارت میں غلو کی دلالت دو لحاظ سے قابل تحقیق ہے پہلی یہ کہ روایت میں تحریف ہوئی ہے یا اس سے ظاہری معنا کے علاوہ کسی اور معنا کا ارادہ کیا جائے جبکہ یہ دونوں باتیں ابو ہاشم جیسی ممتاز شخصیت کی نسبت منتفی ہیں۔ لہذا کیسے اس شخصیت کی طرف غلو کی نسبت دی جائے۔ ان کی وثاقت میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔[136]امام حسن عسکری کے وہ معجزات کہ جنہیں ابو ہاشم نے مشاہدہ کیا وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں جو یہاں ذکر ہوئے، ابو ہاشم سے مروی ہے: میں جب بھی امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے ان سے برہان و دلائل کا ہی مشاہدہ کیا ہے۔[137]
تالیفات
ابو ہاشم کی دو کتابیں اخبار ابو ہاشم اور کتاب شعر مدح اہل بیت ؑ میں ذکر ہوئی ہیں۔[138] ابن عیاش نے ان دونوں کی جمع آوری کی ہے۔[139]البتہ اب یہ دونوں کتابیں دسترس میں نہیں ہیں۔
(۸) سَہل بْن زیاد آدمی (حیات: سنہ 255 ھ)
سَہل بْن زیاد کا شمار تیسری ہجری کے شیعہ محدثین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے امام محمد تقیؑ، امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ سے روایات کو نقل کیا ہے۔ ان کا نام 2300 سے زیادہ حدیثوں کی سند میں آیا ہے۔ اس کے باوجود بھی علمائے رجال شیعہ، ان کی وثاقت پر اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ شیعوں کے بعض علمائے رجال جیسے احمد بن علی نجاشی، ابن غضائری اور سید ابو القاسم خوئی نے سہل بن زیاد کو غلو کے اتہام میں قم سے اخراج کی وجہ سے ان کی تضعیف کی ہے۔ لیکن بعض علمائے رجال جیسے وحید بہبہانی، محدث نوری اور سید محمد مہدی بحر العلوم نے ان کی توثیق کی ہے۔ شیخ اجازہ ہونا، کثرت سے روایات کرنا، کتب اربعہ کے مصنفین کا اس پر اعتماد کرنا، شیخ طوسی کا اپنی کتاب رجال میں ان کی وثاقت بیان کرنا اور اسی طرح فقہا کا ان کی روایات کی بنا پر فتوی دینا ان کی وثاقت کے دلایل میں سے ہے۔علامہ مجلسی اور سید محمد مہدی بحر العلوم کے مطابق اگر سہل کی وثاقت کو قبول نہ کیا جائے تو صرف اس لئے کہ وہ مشایخ اجازہ میں سے تھے ان کی روایات صحیح ہیں۔سہل کی رجالی اور حدیثی شخصیت کے بارے میں اور اس کی وثاقت کو ثابت کرنے کے لئے کافی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جیسے محمد جعفر طبسی کی کتاب مسند سہل بن زیاد الآدمی جو پانچ جلد پر مشتمل ہے، اس کی روایات کو ابواب فقہ کی ترتیب کے اعتبار سے جمع کیا گیا ہے۔سہل بن زیاد آدمی تیسری ہجری میں حدیث کے راوی تھے۔ انہوں نے کچھ وقت قم میں گزارا، احمد بن محمد بن عیسی اشعری نے انہیں کذّاب (جھوٹا) کہا اور قم سے باہر نکال دیا۔ اس طرح وہ شہر ری چلے گئے۔[140]سہل نے امام حسن عسکریؑ سے 15 ربیع الثانی سنہ 255 کو خط و کتابت کیا۔[141]یہ نامہ مسئلہ توحید کے بارے میں تھا کہ جسے شیخ صدوق نے اپنی کتاب توحید میں نقل کیا ہے۔[142]سہل کی کنیت ابو سعود تھی۔[143]
شیعوں کے رجال کے مصنف علی نمازی شاہرودی (متوفی 1364 ش) کے مطابق سہل بن زیاد کی شخصیت کے بارے میں دو نظریات ہیں:
1 ۔تضعیف:
یہ نظر علمائے رجال جیسے نجاشی،ابن غضائری،شیخ طوسی الفہرست میں اور آیت اللہ خویی کی ہے۔ اس گروہ کی دلیل یہ ہے کہ سہل ابن زیاد کو احمد بن محمد بن عیسی اشعری نے غلو اور جھوٹ کی نسبت دی اور قم سے اخراج کر دیا۔اس کے با وجود نمازی شاہرودی نے کہا ہے کہ اس کی احادیث میں ایسی کوئی چیز جو ضعف یا اس کے عقیدہ میں غلو کا سبب ہو، نہیں پائی جاتی اور یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اس کی طرف غلو کی نسبت کا سبب وہ روایات ہیں جو مقام و منزلت اہلبیتؑ پر دلالت کرتی ہیں۔اسی طرح سید محمد مہدی بحر العلوم کا خیال ہے کہ اگر یہ باتیں سچ ہیں تو دوسرے ضعیف راویوں کی طرح اس کی مذمت کے بارے میں بھی ائمہ معصومینؑ کی روایات ہونی چاہئے تھیں۔[144]
2 ۔توثیق:
وحید بہبہانی،عبداللہ مامقانی، محدث نوری،سید محمد مہدی بحر العلوم اور شیخ طوسی کی کتاب رجال یہ وہ علمائے رجال ہیں کہ جنہوں نے سہل بن زیاد کی توثیق کی ہے۔ کثرت سے روایات کرنا، شیخ طوسی کا اپنی کتاب رجال میں اس کی وثاقت کو درج کرنا، کتب اربعہ کے مصنفین کا اس کے اوپر اعتماد خاص طور سے شیخ کلینی کا اعتماد کرنا، شیخ اجازہ ہونا، اور فقہا کا اس کی روایات کی بنا پر فتوی دینا وغیرہ یہ سب وہ دلائل ہیں جو مندرجہ بالا علمائے رجال نے پیش کئے ہیں۔آیت اللہ خوئی نے یہ احتمال دیا ہے کہ شیخ طوسی کے ذریعہ جو سہل بن زیاد کی توثیق ہوئی ہے وہ نسخہ لکھنے والوں نے اضافہ کیا ہے یا خود شیخ طوسی سے سہو القلمی (بھولے سے لکھ گیا) ہو گئی ہے۔علامہ بحر العلوم اور علامہ مجلسی کے نظریہ کے مطابق اگر سہل کی وثاقت کو قبول نہ کیا جائے تب بھی اس کی روایات کا شمار حدیث صحیح میں ہوتا ہے اور وہ سب قابل اعتماد ہیں۔ اس لئے کہ وہ مشایخ اجازہ (جو بہت زیادہ روایات کو حفظ، اسے لکھنے اور حفظ میں دقت اور نقل حدیث میں مرجعیت کا مقام رکھے) میں سے ہے۔[145]
نقل روایت
آیت اللہ خوئی نے اپنی کتاب معجم رجال الحدیث میں فرمایا ہے کہ سہل کا نام اسناد حدیث میں 2304 بار ذکر ہوا ہے۔[146]حسن مہدوی نے اپنی کتاب «سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال» میں کہا ہے کہ الکافی میں 1537، تہذیب میں 442، استبصار میں 139، کامل الزیارات میں 9، من لا یحضر الفقیہ میں 7 اور امالی صدوق میں 3 روایت سہل سے نقل ہوئی ہیں۔[147] اسی طرح کتاب التوحید اور النوادر سہل کے آثار میں شمار کی جاتی ہیں۔[148]
سہل بن زیاد نے امام محمد تقیؑ، امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ سے روایات کو نقل کیا ہے۔[149] اس کی روایات کا موضوع اعتقادات اور فقہی زمینہ پر مشتمل ہے۔[150] محمد بن جعفر طبسی کی کتاب «مسند سہل بن زیاد آلادمی من اصحاب الامام الجواد و الہادی و العسکری علیہمالسلام» جو سہل بن زیاد کی روایات پر پانچ جلد پر مشتمل ہے اور جس کی وسائل الشیعہ کی ترتیب کے اعتبار سے جمع آوری کی گئی ہے۔ اس کتاب میں روایات کو سند کامل اور کتاب مراۃ العقول، بحار الانوار، الوافی اور اصول کافی کی شرح کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔[151]
احمد بن فضل بن محمد ہاشمی، محمد بن احمد بن یحیی، محمد بن حسن بن صَفّار، ابن قولویہ، علی بن ابراہیم، ابوالحسین اسدی و ۔۔۔ نے سہل سے روایت کی ہے۔[152] سہل بن زیاد کی رجالی شخصیت اور اس کی روایات کے سلسلے میں فارسی اور عربی زبان میں من جملہ کتابیں لکھی گئی ہیں:
«سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال» اثر حسن مہدوی: یہ کتاب سہل کی وثاقت کے اثبات کے لئے لکھی گئی ہے۔[153]سہل کے مشایخ اور راویوں کی پہچان، اس کے بارے میں علمائے رجال کے نظریات پر گفتگو اور اس کی روایات کی تحلیل وغیرہ اس کتاب کے عناوین ہیں۔[154]مرکز فقہی ائمہ اطہارؑ نے اس کتاب کو نشر کیا ہے۔دراسۃ فی شخصيۃ سہل بن زیاد و روایاتِہ اثر حیدر عبدالکریم مسجدی: اس کتاب کا محور سہل کی وہ روایات ہیں جو کتاب کافی میں نقل ہوئی ہیں اور زبان عربی میں ہے۔ سہل کی شخسیت پر گفتگو، اس کے راوی اور مشایخ وغیرہ اس کتاب کے عناوین ہیں۔[155]
سہل بن زیاد الآدمی بین الوثاقۃ و الضعف: محمد جعفر طبسی کی یہ کتاب مرکز فقہی ائمہ اطہار کے انتشارات سے نشر ہوئی ہے۔[156]
(۹) محمد بن احمد بن جعفر قطان قمی
غیبت صغری میں امام زمانہ (ع) کے نائب اول اور نائب دوم کے خاص وکیلوں اور معاونوں میں سے تھے۔ شیخ طوسی نے انہیں امام حسن عسکری (ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے کہ جنہوں نے امام علی نقی (ع) کو بھی درک کیا ہے اور شیخ صدوق کے نقل کے مطابق انہیں امام عصر (ع) کے دیدار کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔روایات میں ان کے نام کے ساتھ قمی کا لفظ استعمال ہوا ہے شاید یہ ان کے محل ولادت یا ابتدائی محل زندگی کی طرف اشارہ ہو۔ وہ غیبت صغری کے زمانہ میں شہر بغداد میں مقیم تھے۔ ان کا لقب قطان (روئی فروش)[157] اور اسی طرح سے عطار[158] ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے ان کے مشغلہ کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ ان کی کنیت ابو جعفر تھی۔[159]
تین اماموں کے محضر میں
شیخ طوسی نے ان کا شمار امام حسن عسکری (ع) کے وکلاء اور اصحاب میں کیا ہے اور مزید کہا ہے کہ انہوں نے امام علی نقی (ع) کو بھی درک کیا ہے۔[160]اسی طرح سے شیخ صدوق نے انہیں بغداد کے ان وکلاء میں شمار کیا ہے جنہیں امام مہدی (ع) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے۔[161]
امام عصر سے خاص قربت
رجال کشی میں احمد بن ابراہیم مراغی سے ایک روایت ان کی مدح میں اس طرح سے ذکر ہوئی ہے:
و لیس له ثالث فی الارض فی القرب من الاصل یصفنا لصاحب الناحیة۔ [162]اس حدیث سے امام زمانہ (ع) سے ان کی قربت کا پتہ چلتا ہے۔
وکالت
اس سلسلہ میں نقل ہونے والی گزارشات سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن احمد قطان غیبت صغری کے ابتدائی سالوں میں امام زمانہ (ع) کے نائب اول و نائب دوم کے خاص وکیلوں اور قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور کبھی کبھی خود امام مہدی (ع) وجوہات شرعیہ کے سلسلہ میں بلا واسطہ ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم صادر فرمایا کرتے تھے۔[163]ان کے لقب قمی کے پیش نظر گویا ان کی وکالت اور فعالیت کا علاقہ قم تھا۔ البتہ بعض دیگر شواہد کے مطابق، غیبت صغری کے آغاز کے ساتھ ہی وہ بغداد منتقل ہو گئے اور احمد بن اسحاق و حاجز بن یزید وشاء کے ہمراہ نائب اول و نائب دوم کے معاون اعلی کے طور پر فعالیت میں مشغول ہو گئے۔[164]شیخ صدوق نے ان کا شمار بغداد کے وکلاء کے اس گروہ میں کیا ہے جو امام زمانہ (ع) کی زیارت سے شرفیاب ہوئے۔[165]محمد بن احمد بن قطان وکالت کے سلسلہ میں اعلی منزلت پر فائز تھے اور ان کا کردار معاون سفیر کا تھا اور جیسا کہ جیسا شیخ مفید کی روایت[166]سے معلوم ہوتا ہے کہ وکالت کے سلسلہ میں محمد بن احمد کا رتبہ اس قدر بلند تھا کہ بعض شیعہ انہیں امام مہدی (ع) کا نائب اور سفیر تصور کرتے تھے۔[167]
بعض گزارشات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیعوں اور امام کے درمیان خط و کتابت اور توقیعات کے صدور کا ذریعہ تھے۔[168]
نتیجہ
امام حسن عسکری علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کے حالات پڑھنے کے بعد ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کتنے مشکل حالات میں بھی ہمارے اماموں نے ہم تک دین پہنچایا جہاں امام کی طرف ایک چھوٹا سا اشارہ کرنا بھی امام یا امام کے صحابی کیلیے جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا وہاں بھی نظام وکالت رے اماوکوبرقرار رکھا اور پھر وہی نظام نائبین امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف میں نظر آتا ہے اور غیبت کبرٰی کے دور میں یہی نظام مراجع عظام کی صورت میں نظر آتا ہے تو ہمیں اس پورے نظام کی قدر کرنی چاہیے کہ کن مشکلات سے ہوتا ہوا یہ نظام ہم تک پہنچا ہے
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
[1] کلینی ، کافی ، 1391 ق ، ج 1 ، ص 503 : شیخ مفید ، الارشاد ، 1414ق ، ج 2 ، 313
[2] ابن طلحہ ، مطالب السؤل ، نجف ، 1371 ق ، ج2 ،ص78 ؛ سبط ابن جوزی ، تذکرہ الخواص ، نجف ، 1383ق ، ص 362 ۔
[3] نوبختی ، فرق الشیعہ ، نجف ، 1355ق ، ص 92
[4] مسعودی ، اثبات الوصیہ م بیروت 1409 ق ، ص 258
[5] حسین بن عبدالوہاب ، عیون النعجزات ، نجف1369ق ، ص 123
[6] طبسی ، حیاۃ الام العسکری ، ص 344- 320
[7] مفید ، الرشاد ، 1413ق ، ج 2 ، ص 311-312
[8] ابن شہر آشوب ، مناقب ، ج 4 ، ص 421
[9] ابن خلکان ، وافیات العیان ، ج 2 ، ص 94
[10] ابن شہر آشوب ، ج3 ، ص 526 ،
[11] دلائل الامامۃ ، طبری ، ص 424
[12] موسسہ الامام العسکری ، خز علی ، ج1 ، ص 32
[13] ہمان
[14] مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 258-266 ۔
[15] ابن حاتم ، الدرالنظیم ، ص 737
[16] نو بختی ، فرق الشیعہ ، 1355 ق ، ص 95
[17] ابن رستم طبری ، دلائل الامامہ ، ق1413 ، ص 423
[18] ابن ابی الثلج ، راریخ الاآئمہ مجموعہ نفسیہ ، 1396 ق ، ص 14 ۔
[19] مفید ، مسار الشیعہ ، 52 ، ابن طاووس ، الاقبال ، ج 3، ص 149
[20] ابن شہر آشوب ، مناقب ال ابی طالب ، ج 3 ، ص 523
[21] ابن ابی الثلج ، ص 14
[22] شیخ صدوق ، کمال الدین ، ج 2 ، ص 418
[23] مسعودی ، اظبات الوصیہ ۔ ص 266
[24] رک : شیخ صدوق ، کمال الدین ، ص 307
[25] ابن ابی الثلج ، مجموعہ نفیسہ ، ص 27
[26] رک : طریحی ، جامعہ المقوال ، ص 160
[27] ابن شہر آشوب ، مناقب ، ج 3 ، ص 523
[28] ابن طلحہ ، مطالب السؤل ، ج 2 ، ص 78
[29] رک : طریحی ، جامعہ المقال ، ص 190
[30] زرندی ، معارج الوصول الی معرفہ فضل ال الرسول (ص) ، ص 172
[31] خصیبی ، الہدایہ الکبری ، ص 328
[32] ابن ابی الثلج ، مجموعہ نفیسہ ، ص 22-21
[33] فخر الدین رازی ، الشجرہ المبارکہ ، ص 78
[34] ابن حزم ، جمہرۃ انساب العرب ، ص 61
[35] مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 259
[36] نوبختی ، فرق الشیعہ ، ص 92
[37] شیخ صدوق ، عیون اخباز الرضا ، 1378 ق ، ج 2 ص 135
[38] قطب الدین راوندی ، الخرائج و الجرائح ، ج 1 ، ص 425 – 426
[39] طبری ، دلائل الامامہ ، ج 1 ، 223
[40] شیخ مفید ، الارشاد ، ص 495
[41] مسعودی ، مروج الذھب ، ج 4 ، ص 112
[42] مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 263
[43] مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 268
[44] مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 269
[45] مسعودی ، مروج الذھب ، ج 4 ، ص 94
[46] ابن اثیر ، الکامل ، ج 7 ، ص 239 – 240
[47] مسعودی ، مروج الذھب ، ج 4 م ص 108
[48] تاریخ طبری ، ج 9 ، ص 410
[49] مروج الذھب ، ج 4 ، ص 108
[50] ھمان
[51] مناقب ابن شہر آشوب ، ج 4 ، ص 428
[52] مسعودی ، مروج الذھب ، ج 4 ، ص 108
[53] مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 270
[54] شیخ مفید ، الارشاد ، ص 387
[55] اربلی ، کشف الغمہ فی معرفہ الآئمہ ، ج 2 ، ص 413
[56] راوندی ، الخرائج و الجرائح ، ج 1 ، ص 439
[57] ابن شہر آشوب ، مناقب ، ج 4 ، ص 425
[58] شیخ طوسی ، الغیبہ ، ص 272
[59] شیخ صدوق ، کمال الدین م ص 475
[60] پاکتچی ، حسن عسکری ، ص 626
[61] روضات الجنان ، ج 4 ، ص 273 و274
[62] ابن شہر آشوب ، المناقب ، ج 4 ، ص 425 (بیروت)
[63] مسعودی اثبات الوصیہ ، ص 271
[64] ابن بابویہ ، کمال الدین ، ص 43
[65] رجال کشی ، ص 541
[66] مناقب ابن شہر آشوب ، ج 3 ، ص 527
[67] مناقب ابن شہر آشوب ، ج 3 ، ص 526
[68] کلینی ، کافی ، ج 1 ، ص 103
[69] طریحی ، جامع المقال ، ص 185
[70] دائرہ المعارف بزرگ اسلامی ، ج 20 ، ص 630
[71] کلینی ، کافی ، ج 1 ، 1391 ق ، ص 503
[72] مقدسی ، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان ، 1391 ، ص 530-533
[73] طبرسی ، اعلام الوری ، 1471 ق ، ج 2 ، ص 131
[74] شیخ طوسی ، الغیبہ ، 1398 ق ، ص 208
[75] مسعودی ، اثبات الوصیہ ، 1409 ق ، ص 268
[76] شیخ مفید ، الارشاد ، 1414 ق ، ج 2 ، ص 313
[77] شیخ مفید ، الارشاد ، 1414 ق ، ج 2 ، ص 313
[78] خامہ یار ، تخریب زیارتگاھھای اسلامی در کشور ہای عربی ، ص 29 و 30
[79] خامہ یار ، تخریب زیارتگاھھای اسلامی در کشور ہای عربی ، ص 30
[80] ۔ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۲۵۳.
[81] ۔ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۲۵۳.
[82] ۔ گذشته، «ابراهیم بن مهزیار»، ج۲، ص۴۵۸.
[83] ۔ طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۳۷۴.
[84] ۔ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۱۸.
[85] . صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ص۴۴۵-۴۵۳.
[86] . طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۴۰۲.
[87] . صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۴۴۲.
[88] . صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۴۶۶، پانویس.
[89] نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۶؛ مامقانی، تنقیح المقال، ۱۴۳۱ق، ج۵، ص۱۷.
[90] . جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۲.
[91] . جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۹.
[92] . نجاشی، ص۳۵۴
[93] . نجاشی،رجال نجاشی،ص354 ش948۔
[94] . جباری، ص۱۹۵ .
[95] . طوسی، الفہرست، ص۲۲۱
[96] . طوسی، الابواب، ج۱، ص۴۰۲
[97] . مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۱، ص۳۴۴.
[98] . غفارزاده، زندگانی نواب خاص امام زمان، ۱۳۷۹ش، ص۱۵۵.
[99] . نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۴۰۸.
[100] . مامقانی، تنقیح المقال، ۱۳۵۲ق، ج۳، ص۱۴۹.
[101] مامقانی، تنقیح المقال، ۱۳۵۲ق، ج۳، ص۱۴۹.
[102] . صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۵۴.
[103] . ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۶ق، ج۸، ص۱۰۹.
[104] طوسی، الغیبۃ، ۱۴۱۱ق، ص۲۲۵.
[105] . کشی، رجال کشی، ۱۳۴۸ش، ص۵۵۷.
[106] صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۵۰۳-۵۰۴.، طوسی، الغیبۃ، ۱۴۱۱ق، ص۱۹۵.، اقبال آشتیانی، خاندان نوبختی، ۱۳۴۵ش، ص۲۱۴.
[107] . اقبال آشتیانی، خاندان نوبختی، ۱۳۴۵ش، ص۲۱۴.
[108] . جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ۱۳۸۵ش، ص۱۹۲.
[109] . مامقانی، تنقیح المقال، ۱۳۵۲ق، ج۲، ص۳۰۵.
[110] . جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۴۷۹.
[111] . جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت، ص210.
[112] . جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۵۸۳ بہ نقل از اثبات الوصیہ، ۱۴۲۶ق، ص۲۵۵.
[113] . جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۴۷۹.
[114] . طوسی، رجال، ص389.
[115] . صدر، تاریخ الغیبہ، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹.
[116] . ابن قولویه، کامل الزیارات، ص۳۷.
[117] . نجاشی، رجال، ص۲۳۶.
[118] . حلی، کتاب الرجال، ص۲۸۵.
[119] . مامقانی، تتقیح المقال، ص۱۰۶
[120] . نجاشی، رجال، ص۲۳۶.
[121] . مامقانی، تتقیح المقال، ص۱۰۶ .
[122] آقابزرگ، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۲، ص۳۳۴.
[123] ۔ نجاشی، رجال، ص۲۳۶.
[124] ۔ خویی، معجم رجال الحدیث، ج۱۵، ص۲۹۱.
[125] . نجاشی، رجال، ج۱، ص۳۶۲؛ ابن عنتبہ، عمدہ الطالب، ص۴۲؛ علامہ حلی، خلاصہ الاقوال، ص۱۴۲
[126] ۔ محدث قمی، منتہی الآمال، ج۲، باب دوازدہم، ص۵۵۶؛ اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۲۶۴؛ طبری، تاریخ، ج۷، ص۵۶۱
[127] ۔ محدث قمی، الکنی و الالقاب، ج۱، صص۱۷۴ – ۱۷۵؛ ابن عنتبہ، عمدہ الطالب، صص۴۱ – ۴۲
[128] ۔ طوسی، الفہرست، ص۶۷؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۸، ص۳۶۹
[129] ۔ راوندی، الخرائج و الجرائح، ج۲، ص۶۶۱
[130] ۔ تفرشی، نقد الرجال، ج۲، ص۲۱۹؛ حائری، منتہی المقال فی احوال الرجال، ج۳، ص۲۰۸؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ص۴۱۶؛ امین، اعیان الشیعہ، ج۶، ص۳۷۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۶۵، ذیل حدیث ۱۳؛ تبریزی، ریحانہ الادب، ج۷، ص۲۹۵
[131] ۔ نکـ: اردبیلی، جامع الرواة، ج۱، ص۳۰۷؛ ابن بابویہ، مشیخہ، ص۵۱۷؛ ابن بابویہ، التوحید، صص۸۲-۸۳؛ کشی، رجال، ص۵۴۳-۵۴۴؛ نجاشی، رجال، ص۴۴۷
[132] ۔ بالترتیب برقی، رجال، ص۵۶. کشی، رجال، ص۴۷۸. مسعودی، مروج الذہب، ج۲، ص۵۵۳. نجاشی، رجال، ج۱، ص۳۶۲. طوسی، الفہرست، ص۱۸۱. طوسی، رجال، ص۴۳۱. ابن داوود، رجال، ص۱۴۶. علامہ حلی، خلاصہ الاقوال، ص۱۴۲. محدث قمی، الکنی و الالقاب، ج۱، ص۱۷۴. محدث قمی، منتہی الآمال، ج۲، باب دوازدہم، ص۵۵۶. مدرس تبریزی، ریحانہ الادب، ج۷، ص۲۹۵. صدر، تکملہ امل الآمل، ج۳، ص۳۵.قہپایی، مجمع الرجال، ج۲، ص۲۸۸- ۲۸۹. مجلسی، رجال مجلسی، ص۲۰۹. حائری، منتہی المقال فی احوال الرجال، ج۳، ص۲۰۷- ۲۰۸.امین، اعیان الشیعہ، ج۶، ص۳۷۷- ۳۷۸.مامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال، ج۲۶، ص۲۴۱.خویی، معجم الرجال الحدیث، ج۸، ص۱۲۲ - ۱۲۳.تستری، قاموس الرجال، ج۴، ص۲۵۶. اردبیلی، جامع الرواہ، ج۱، ص۳۰۷.
[133] ۔ کشی، رجال، ص۵۷۱.
[134] امین، اعیان الشیعہ، ج۶، ص۳۷۸.
[135] ۔ مامقانی، تنقیح المقال، ج۲۶، ص۲۴۷- ۲۴۸.
[136] ۔ خویی، معجم رجال الحدیث، ج۸، ص۱۲۴.
[137] ۔ محدث قمی، منتہی الآمال، ج۲، باب سیزدہم، ص۵۷۴.
[138] ۔ طوسی، الفہرست، ص۱۸۱.
[139] ۔ نجاشی، رجال، ج۱، ص۲۲۵ - ۲۲۶.
[140] ۔ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۸۵۔
[141] ۔ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۸۵۔
[142] ۔ شیخ صدوق، التوحید، ۱۳۹۸ھ، ص۱۰۱-۱۰۲۔
[143] ۔ طوسی، رجال، ۱۳۷۳ش، ص۳۸۷۔
[144] ۔ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۸۵۔ ابن غضائری، الرجال، ۱۴۲۲ھ، ص۶۶-۶۷۔ طوسی، فہرست، ۱۴۲۰ھ، ص۲۲۸۔ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۴۰۔ نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ھ، ج۴، ص۱۷۶؛ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۳۹۔ نمازی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ھ، ج۴، ص۱۷۶-۱۷۷۔
[145] ۔ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۳۹۔ نوری، خاتمہ المستدرک، مؤسسہ آل البیت، ج۵، ص۲۳۰-۲۱۳۔ بحر العلوم، الفوائد الرجالیۃ، ۱۳۶۳ش، ج۳، ص۲۳۔ طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۳۸۷۔ بحر العلوم، الفوائد الرجالیۃ، ۱۳۶۳ش، ج۳، ص۲۴۔ نمازی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ھ، ج۴، ص۱۷۶-۱۷۷۔ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۴۰۔ بحر العلوم، فوائد الرجالیہ، ۱۳۶۳ش، ج۳، ص۲۵؛ علامہ مجلسی، الوجیزۃ فی الرجال، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ص۹۱۔
[146] ۔ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۴۱-۳۴۲۔
[147] ۔ مہدوی، سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال، ۱۳۹۱ش، ص۱۵۳۔
[148] ۔ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۸۵۔
[149] ۔ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ھ، ج۲، ص۸۳۷۔
[150] ۔ مہدوی، سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال، ۱۳۹۱ش، ص۱۵۴-۱۷۷۔
[151] ۔ طبسی، مسند سہل بن زیاد الآدمی، ۱۳۹۵ش، ص۶۰۔
[152] ۔ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۳۶۵ش، المشیخۃ ج۱۰، ص۵۴۔
[153] ۔ مہدوی، سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال، ۱۳۹۱ش، ص۱۵۰۔
[154] ۔ مہدوی، سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال، ۱۳۹۱ش، پیشگفتار، ص۱۳۔
[155] ۔ دراسۃ فی شخصیۃ سہل بن زیاد و روایاتہ، پایگاہ اطلاعرسانی حدیث شیعہ۔
[156] ۔ طبسی، سہل بن زیاد الآدمی بین الوثاقۃ و الضعف، مرکز فقہی ائمہ اطہار۔
[157] ۔ طبری، دلائل الإمامة، ص۵۲۳۔
[158] ۔ رجال کشی، ص۵۳۴۔
[159] ۔ طبری، دلائل الإمامة، ص۵۲۳۔
[160] ۔ رجال شیخ طوسی، ص۴۳۶۔
[161] ۔ صدوق، کمال الدین، ص۴۴۲۔
[162] ۔ رجال کشی، ص۵۳۴۔
[163] ۔ طبری، دلائل الامامه، ص۵۱۹-۵۲۳؛ راوندی، الخرائج و الجرائح، ج۲، ص۷۰۲۔
[164] ۔ جباری، سازمان وکالت، ج۲، ص۵۵۷۔
[165] ۔ صدوق، کمال الدین، ص۴۴۲۔
[166] ۔ شیخ مفید، الإرشاد، ج۲، ص۳۶۰۔
[167] ۔ جباری، سازمان وکالت، ج۲، ص۵۵۹۔
[168] ۔ رجال کشی، ص۵۳۴۔