امام موسیٰ کاظم  علیہ السلام نے کتنے سال جیل میں گزارے؟

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے کتنے سال جیل میں گزارے؟

ہمارے شیعوں کے ساتویں امام موسیٰ بن جعفر ؑ کی ولادت صفر کے مہینے میں 128 ہجری ، ابووہ - مکہ اور مدینہ کے درمیان -میں ہوئی (محمد باقر مجلسی، جلاء العیون، چاپ نهم، قم، نشر سرور، 1382 ش، ص 891.) مشہور قول کے مطابق امام علیہ السلام کی 37 اولادیں تھیں (شیخ مفید، ارشاد، ج2، ترجمة سید هاشم رسولی محلاتی، چاپ 2، تهران، انتشارات علمیه اسلامیه، ص 236.) امام علیہ السلام کی شہادت 25 رجب 183 کو بغداد کی ایک جیل میں ہوئی(ابن شهر آشوب، مناقب، ج4، نجف، مطبعه الحیدریه، سال 1376، ص 349.) ۔ واضح رہے کہ امام علیہ السلام کی شہادت نوجوانی میں نہیں ہوئی شہادت کے وقت امام علیہ السلام کی عمر مبارک 55 سال تھی اور امام علیہ السلام کی مدت قید 5 یا 6 سال سے زیادہ نہیں تھی ۔ امام علیہ السلام کی زندگی کا زیادہ تر دور عباسی حکومت کے ساتھ گزرا۔ آپ علیہ السلام نے کئی عباسی خلفاء کی خلافت کو دیکھا اور ہارون الرشید عباسی کے دور میں زیادہ وقت قید میں گزارا ۔ امام علیہ السلام تقریباً 9 سال منصور عباسی کے ساتھ رہے،بظاہر منصور آپ پر معترض نہیں ہوا تھا (علامه مجلسی، پیشین، 896.) مہدی عباسی کے دور میں کچھ وقت جیل میں گزارا لیکن مہدی کو کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر امام کو رہا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا (. علامه مجلسی، بحارالانوار، جلد 48.) ہادی عباسی کے دور میں بھی امام علیہ السلام آزاد رہے، اگرچہ اس کی حکومت ایک سال سے زیادہ نہیں چل سکی ۔

امام (ع) کی قید کا سب سے طویل عرصہ ہارون الرشید کےدور میں تھا۔ سنہ 179 ہجری میں اپنی خلافت کو مضبوط کرنے کے لیے ہارون نے امام موسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرنے کے لیے حج کیا... ہارون نے فضل بن ربیع کو بھیجا اور اس نے امام علیہ السلام نماز پڑھتے ہوئےگرفتار کر لیا اور بصرہ لے جا کر قید کر دیا (علامه مجلسی، جلاء العیون، پیشین 899.) اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ امام علیہ السلام کی شہادت 183 ہجری میں ہوئی ، قید کی مدت ہارون کے دور میں چار سال سے زیادہ نہ تھی۔

زاهدی گلپایگانی لکھتے ہیں: امام موسیٰ بن جعفر (ع) چار سال قید میں رہے جس میں سے ایک سال بصرہ عیسیٰ بن جعفر کے زندان میں گزارا اور بقیہ وقت کچھ فضل بن یحییٰ برمکی کے زندان میں اور کچھ فضل بن ربیع کے زندان گزر گیا اور آخری سال سندی بن شاہک کے زندان میں۔ (زاهدی گلپایگانی، زندگانی چهارده معصوم، چاپ دوم، مشهد، کتابفروشی جعفری، 1360، ص 201)

کتاب منتخب التوارخ میں کتاب رجال کبیر سے متعدد روایات نقل کی ہیں کہ حضرت موسیٰ بن جعفر (ع) چار سال قید میں رہے۔(محمد جواد نجفی، ستارگان درخشان، جلد 9، تهران ، کتابفروشی اسلامیه، ص 58.)

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ امام علیہ السلام کی تمام اولادیں ایک ہی بیوی سے نہیں تھیں، بلکہ جیسا کہ ارشاد شیخ مفید میں ہے:

امام علیہ السلام کی اولاد میں سے ہر ایک کنیز سےیا ایک ہی کنیز سےچند اولادیں تھیں ۔ (شیخ مفید، پیشین، 236.)

نتیجہ

حضرت موسیٰ بن جعفر ؑنے چار یا پانچ سال عباسی دور خلافت میں قید میں گزارے اور باقی وقت مدینہ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارا۔

امام علی ؑ کی نظر میں حکومت کا معیار اور حاکم کی خصوصیات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام علی ؑ کی نظر میں حکومت کا معیار اور حاکم کی خصوصیات

اسد عباس اسدی

مقدمہ

اگرچہ پیغمبر گرامی اسلام ﷺ کی وفات کے بعد اور خلفائے راشدین کی خلافت میں امام علی ؑنے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ خلافت ان کا حق ہے لیکن مورخین کے مطابق جب حضرت عثمان کی وفات کے بعد مسلمان امام علی ؑ کے پاس آئے تو امام ؑ نے ان کی درخواست کو رد کر دیا اور فرمایا: مجھے چھوڑ دو اور کسی اور کو چن لو، میں تمہارا مشیر رہوں گا۔[1]

لیکن لوگوں نے اتنا اصرار کیا کہ امام کو خلافت قبول کرنا ہی پڑی ۔ طبری کے مطابق جملہ سات افراد کے علاوہ (سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عمر، محمد بن مسلمہ، اسامہ بن زید، نعمان بن البشیر اور زید بن ثابت ) مہاجرین اور انصار نے امام ؑ کی بیعت کی ۔[2] سب سے پہلے جس نے امامؑ کی بیعت کی وہ طلحہ بن عبداللہ اور زبیر بن العوام تھے۔ چاروں خلفاء میں سے صرف علی ؑمسلمانوں کی درخواست سے اور مہاجرین اور انصار کے عمومی ووٹ کی بنیاد پر خلیفہ منتخب ہوئے ۔

علی ؑ کو حکومت کے مسائل اور مشکلات کا علم تھا

حضرت عثمان کی وفات کے بعد جب لوگوں نے امام ؑ کی بیعت کرنا چاہی تو امام ؑ نے فرمایا: اگر تم پہلے والی روش پر چلنا چاہتے ہو تو کسی اور کو منتخب کر لو ، کیونکہ ہم اس چیز کا خیرمقدم کرتے ہیں جو مختلف جہات رکھتی ہے ۔۔۔

خلفاء ثلاثہ کے دور میں اسلام کے احکام بدلے گئے، اسی وجہ سے امام کی انقلابی اصلاحات کی مخالفت کی گئی، امام فرماتے ہیں: اس معاملے میں دل ثابت قدم اور عقلیں مستحکم نہیں رہیں، سچائی کے افق پر بدعنوانی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں، اور سیدھا راستہ کہیں گم ہے۔ محتاط رہو! اگر میں آپ کی دعوت قبول کر لوں تو میں آپ کے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو میں جانتا ہوں اور میں اس اور اس کی باتوں اور الزام لگانے والوں کی ملامتوں پر کان نہیں دھروں گا، اگر آپ مجھے چھوڑ دیں تو میں آپ میں سے ہوں، شاید میں آپ سے زیادہ امیر کا فرمانبردارر ہوں ۔ ایسے حالات میں میرے لیے تمہارا امیر بننے سے بہتر ہے کہ میں تمہارا وزیر اور مشیر بن جاؤں [3]۔

بعض مخالفین نے امامؑ کے اس قول کو عذر کے طور پر استعمال کیا ہے اور کہا ہے: اگر وہ پیغمبر اکرم ﷺ کی طرف سے خلافت پر فائز تھے تو انہیں ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی ، لیکن ان لوگوں کا جواب، شیعہ و سنی منابع میں بہت سے شواہد کے علاوہ ، امامؑ کے خطبہ میں بھی بیان ہوا ہے۔

امام ؑ بخوبی جانتے ہیں کہ مسلمانوں نے خلفائے راشدین کے دور میں بالخصوص تیسرے خلیفہ کے دور میں حقیقی اسلام سے دوری اختیار کر لی ہے۔ اسلامی حکومت کے عہدوں کو اپنی مرضی سے سونپنا اور بیت المال کی تقسیم غیر منصفانہ طور پر کرنا اور ذاتی خواہشات کے مطابق یہ عمل تیسرے خلیفہ کے زمانے میں اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اس لیے امام ؑجانتے تھے کہ اگر کوئی سنت نبوی پر عمل کرنا چاہے تو اسے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بعد کے واقعات نے بھی ثابت کیا کہ امامؑ کی پیشین گوئی درست تھی۔

اس وجہ سے جب لوگوں نے آپ سے بیعت کرنا چاہی تو علی ؑ نے فرمایا:

مجھے چھوڑ دو، کیونکہ تم میرے عدل پر عمل کرنے کی استقامت نہیں رکھتے، امیر المومنین ؑ اپنے آپ کو خلافت کے لائق سمجھتے ہیں اور رسول ﷺ کے بعد امامت کے لیے سب سے زیادہ لائق شخص ہیں، اس لیے اپنے انکار کی وجہ بیان کرتے ہوئے رکاوٹوں اور مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ حالات انتہائی انتشار کا شکار ہیں، مسلمانوں کے سامنے مزید ہنگامہ خیز مستقبل ہے، جان لو کہ اگر تم نے میری بیعت کی تو اسلامی معاشرہ کی اصلاح کے لیے تمہیں مشکل وقت سے گزرنا پڑے گا ۔

حکومت کے اولین دنوں سے علی ؑکی مخالفت

اپنی خلافت کے دوسرے ہی دن امام ؑنے اعلان فرمایا :کہ میرا طریقہ رسول اللہ ﷺکے طریقے کے مطابق ہے، کوئی بھی دوسرے سے برتر نہیں ہے ، کل کو کوئی یہ نہ کہے کہ ابو طالب کے بیٹے نے ہمیں ہمارے حقوق سے محروم کر دیا ،کیونکہ سب خدا کے بندے ہیں اور بیت المال خدا کا ہے اور سب برابر کے شریک ہیں ۔ کل سب کو آنا چاہیے تاکہ جو مال میسر ہے وہ آپس میں تقسیم ہو جائے، عربوں کو عجمیوں پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ صرف طلحہ، زبیر، عبداللہ بن عمر، سعید بن عاص اور مروان حکیم اس تقسیم سے خوش نہیں تھے ۔ جب مسلمان مسجد میں جمع تھے تو یہ چند لوگ مسجد کے کونے میں ایک دوسرے کے پاس بیٹھے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے، اس کے بعد "ولید بن عقبہ" امام ؑ کے پاس آئے اور کہا:

آپ نے بدر کے دن ہمارے قریبی رشتہ داروں کو قتل کر دیا۔ لیکن آج ہم آپ سے اس شرط پر بیعت کرتے ہیں کہ آپ ہمیں وہی رقم ادا کریں گے جو حضرت عثمان کے زمانے میں ہمیں ادا کی جاتی تھی اور عثمان کے قاتلوں کو قتل کریں گے اور اگر ہم آپ سے خوف زدہ ہوئے تو ہم شام اور معاویہ کے ساتھ مل جائیں گے!

امام ؑنے فرمایا:

بدر ایک خدائی فریضہ تھا، اور جہاں تک بیت المال کا مسئلہ ہےتو یہ میرے اختیار میں نہیں کہ میں اس میں اضافہ یا کمی کروں، میں وہی کروں گا جو اللہ نے کہا، اورباقی رہا قاتلان عثمان کا معاملہ تو اگر ممکن ہوتا تو میں اسی وقت کر لیتا، اگر تم مجھ سے ڈرتے ہو تو میں تمہیں امان دیتا ہوں ، تم کیوں ڈرو گے؟ ولید نے اپنے دوستوں کو ساری بات بتائی تو وہ افسردہ ہو کر الگ ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے امامؑ کو اطلاع دی کہ وہ لوگوں کو خفیہ طور پر دعوت دے رہے ہیں کہ آپ کو خلافت سے ہٹا دیں اور بیعت توڑ دیں۔

امام ؑ کا قرآن اور رسول اللہ ﷺکے طریقے پر پابند رہنا

اس واقعہ کے بعد امام ؑ مسجد میں تشریف لے گئے اور ممبر پر تشریف فرما ہوئے اور اعلان فرمایا :

خدا نے تقویٰ کے سوا کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دی اور اس کا اجر آخرت میں ملے گا۔

پھر فرمایا:

میں قرآن اور سنت رسولﷺ کے علاوہ کوئی طریقہ اختیار نہیں کروں گا، جو اس سے مطمئن نہیں وہ جہاں چاہے جا سکتا ہے، جو خدا کی اطاعت کرتا ہے اور اس کے فرمان کے مطابق حکومت کرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔

آپ ممبر سے اترے، دو رکعت نماز پڑھی اور پھر طلحہ اور زبیر کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا:

خدا کی قسم، کیا ایسا نہیں تھا کہ میں نے بیعت کو حقیر سمجھا اور تم نے خوشی سے بیعت کر لی؟ وہ کہنے لگے:جی ایسا ہی ہے ۔

فرمایا :

تو یہ کیا صورت حال ہے جو آپ کی طرف سے دیکھ رہا ہوں ؟

وہ کہنے لگے:

ہم نے بیعت کی کہ آپ ہم سے مشورہ کیے بغیر کچھ نہیں کریں گے اور ہمیں دوسروں پر فضیلت دیں گے، لیکن آپ نے بیت المال کو برابر تقسیم کر دیا اور ہم سے مشورہ تک نہ کیا ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

استغفار کرو (کہ میں خدا کی مرضی کے خلاف تم سے ایسی کوئی شرط قبول کروں ) ابھی بتاؤ کہ میں نے تمہاری حق تلفی کی ہے یا تم پر ظلم کیا ہے؟

کہنے لگے :معاذ الله

تو امام نے فرمایا :

کیا مسلمانوں میں سے کسی کے متعلق کوئی حکم یا کوئی حق تھا جس سے میں لاعلم تھا یا حاصل کرنے سے قاصر تھا؟

عرض کی : نہیں!

توامام نے فرمایا: پھر تم کیوں مخالفت کرتے ہو؟

وہ کہنے لگے:

اس لیے کہ آپ بیت المال کی تقسیم میں عمر بن خطاب کے خلاف جا رہے ہو اور ہمیں دوسروں کے برابر کر رہے ہو، حالانکہ غنیمت ہماری تلوار سے جیتی گئی تھی ۔

امام نے پھر فرمایا :

لیکن میں تو حکومت نہیں کرنا چاہتا تھا، آپ نے مجھے اس کی دعوت دی اور اصرار کیا، مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے انکار کیا تو جھگڑا ہو جائے گا۔ ذمہ داری قبول کرنے کے بعد میں نے خدا کی کتاب اور سنت رسول ﷺکی طرف دیکھا ، میں نے وہی کیا جو کتاب و سنت نے میری رہنمائی کی، مجھے آپ کے مشورہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ، اگر آپ سے مشورہ کی ضرورت محسوس ہوئی تو میں آپ سے مشورہ کروں گا،لیکن بیت المال مساوی تقسیم کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی حکم دیا تھا اور خدا کی کتاب بھی یہی کہتی ہے، لیکن چونکہ آپ نے کہا کہ ہم نے زیادہ محنت کی ہے، آپ جانتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے اسلام کی سب سے زیادہ مدد کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ ﷺنےبیت المال کی تقسیم میں ان میں اور دوسروں میں فرق نہیں کیا۔

امام علی ؑ کی حکومت کی بنیاد مساوات ہے

امام کے بعض اصحاب نے معاویہ کی سخاوت اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے عفو و درگزر کو دیکھ کر امام ؑسے کہا:

اے امیر المومنین! لوگ عموماً دنیا میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہیں، اگر آپ عرب اور قریش کے امرا کو بیت المال سے کچھ زیادہ دیتے تو حالات بہتر ہوتے اور تفرقہ پیدا نہ ہوتا اور آپ رعایا کے درمیان انصاف کر سکتے، آخر میں بیت المال کو برابر تقسیم کرتے !

امام ؑنے جب دیکھا کہ بیت المال کی مساوی تقسیم پر آپ کے اصحاب کے ایک گروہ نے اعتراض کیا اور اسے سیاست کے خلاف سمجھا تو فرمایا:

اتامرونی ان اطلب النصر بالجور فیمن ولیت علیه! والله لااطور به۔۔۔[4]

کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی فتح کے لیے ان سے مدد مانگوں جن پر میں حکومت کرتا ہوں؟ خدا کی قسم میں جب تک زندہ ہوں ایسا کام ہرگز نہیں کروں گا ۔۔۔

اگر مال میرا ہوتا تو میں اسے لوگوں میں برابر تقسیم کر دیتا ۔ محتاط رہو! مال دینا فضول خرچی اور اسراف ہے، اس کے کرنے والے کو دنیا میں تو فخر ہو سکتا ہے لیکن آخرت میں اس کی ذلت و رسوائی کا باعث ہو گا، جس نے اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ خرچ کیا اور اس کے اہل کے سپرد نہ کیا اللہ تعالیٰ اسے ان کی شکر گزاری سے محروم کر دے گا اور ان کی محبت کو کسی اور کی طرف موڑ دے گا ، اس لیے اگر کسی دن اس کا پاؤں پھسل جائے اور اسے ان کی مدد کی ضرورت پڑ جائے، تو وہ سب سے بُرے دوست اور سب سے زیادہ ملامت کرنے والے ہوں گے۔

بیت المال میں علی ؑکے طریقے پر سنی علماء کے بزرگوں کی تعریف

ابن ابی الحدید نے کہا ہے: حضرت عمر بن خطاب جب خلافت پر پہنچے تو انہوں نے بعض کو بعض پر ترجیح دی ، اور بیت المال کی تقسیم میں مساوات نہیں کی۔

حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں بھی حضرت عمر نے یہ تجویز پیش کی تھی لیکن حضرت ابوبکر نے اسے قبول نہیں کیا اورکہا:

خدا نے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دی۔

ابن ابی الحدید اس کے بعد حضرت عمر کے اس عمل کو درست ثابت کرنے کے لیے مزید کہتا ہے:

یہ اجتہاد ی معاملہ ہے اور مسلمانوں کا خلیفہ اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کر سکتا ہے، حالانکہ ہمارے نزدیک علی ؑ کی پیروی بہتر ہے، خاص طور سے چونکہ حضرت ابوبکر نے ایسا نہیں کیا اور اگر یہ خبر درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوںمیں برابر تقسیم کرتے تھے تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺکا قول حجت ہے[5]۔

ابن ابی الحدید نے دوسری جگہ کہا:

اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابوبکر نے بیت المال کو مساوی تقسیم کیا تو کسی نے اس پر اعتراض کیوں نہیں کیا؟ ! اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : وہ نبی کریم کے بعد تھا، اور لوگ نبی کی تقسیم کے عادی تھے، لیکن جب حضرت عمر خلافت پر آئے تو انہوں نے کچھ لوگوں کو برتری دی اور ان کے بعد حضرت عثمان نے اس برتری کو بڑھا دیا، یہ طریقہ 22 سال تک چلتا رہا اور لوگ اس کے عادی ہو گئے، اس لیے لوگوں کو اس حالت سے واپس لانے سے یہ مسائل پیدا ہوئے[6]۔

حکومت کا معیار اور امام کی خصوصیات ،علی ؑ کی نظر میں

امام ؑ کی قیادت مکتب کے اصولوں اور تقویٰ و فضیلت کے معیار اور منطقی اور انسانی طریقوں پر مبنی ہے،

امام علیہ السلام رہبری و امامت کی خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہیں:

...فهو من معادن دینه، و اوتاد ارضه قدالزم نفسه العدل، فکان اول عدله نفی الهوی عن نفسه، یصف الحق و یعمل به، لایدع للخیر غایة الا امها ولامظنة الا قصدها، قد امکن الکتاب من زمامه فهو قائده و امامه[7]...

"وہ (جو لائق امامت ہے) خدا کے خزانوں میں سے ایک ہے اور زمین کے ستونوں میں سے ایک ہے۔ اس نے اپنے آپ کو انصاف کا پابند کیا ہے اور انصاف کے راستے پر اس کا پہلا قدم ذاتی خواہشات سے بچنا ہے۔ وہ حق کا چہرہ جیسا ہے دکھاتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے، اس کے سوا کوئی نیکی نہیں ہے جس نے اس پر پختہ ارادہ کیا ہو اور جہاں اچھا خیال ہوتا ہے وہ اس کی پیروی کرتا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو خدا کی کتاب کے اختیار میں رکھا اور اسے اپنا پیشوا اور امام بنایا۔۔۔

امام ؑنہ صرف مکتب کے عالم ہیں بلکہ وہ خود مکتب کو نافذ کرنے میں سب کے پیشوا ہیں اور اقتدار حاصل کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے ذاتی انا نہیں لاتے ، مقصد کے حصول کے لیے خواہ وہ کتنا ہی مقدس اور بلند کیوں نہ ہو انصاف سے انحراف نہیں کرتے ۔ ان کے طرز قیادت اور سیاست کی تعریف کتابوں اور مکاتب سے ہوتی ہے اور وہ اس کے علاوہ کسی اور بات کو نہیں مانتے۔

امام ؑنے اسی خطبہ کے ایک اور حصے میں اس حقیقت کا تذکرہ کیا اور فرمایا:

.. فلا تقولوا بمالا تعرفون، فان اکثر الحق فیما تنکرون واعذروا من لاحجة لکم علیه - و هو انا - الم اعمل فیکم بالثقل الاکبر و اترک فیکم الثقل الاصغر، قدرکزت فیکم رایة الایمان و وقفتکم علی حدود الحلال والحرام[8]...

لہٰذا وہ بات نہ کہو جو تم نہیں جانتے، زیادہ تر حق بات اس میں ہوتی ہے جس کا تم انکار کرتے ہو، اور جس کے خلاف تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں اور وہ میں ہوں، دیکھو کیا میں تم میں سے ہوں مکتب اور آپ ﷺکی عظیم میراث - قرآن – کے مطابق عمل نہیں کیا اور آپ کو اس سے گران مایہ میراث (عترت) نہیں دی، میں نے آپ کے معاشرے کے مرکز میں ایمان کا جھنڈا بلند کیا اور آپ کو اس کے بارے میں آگاہ کیا۔ اور آپ کو حال و حرام کی حدیں بتائیں اور میں نے تم کو اپنے حکم سے عفت کا لباس پہنایا اور قول و فعل سے تم میں نیکیاں پھیلائیں اور انسانی اخلاق کے خدوخال دکھائے۔ لہٰذا، اپنے تخیل کو استعمال کریں جہاں آنکھ اس کی گہرائی کو نہ دیکھ سکے اور آپ کے دماغ میں ایسا کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔"

اس خطبہ میں امام ؑ نے ایک اور حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا اور وہ یہ ہے کہ امام ؑ کی پالیسی کا جائزہ لینے اور جانچنے میں کسی کو سیاسی نقطہ نظر کی حدود میں نہیں پھنسنا چاہیے اور وہ اپنے دورِ حکومت کو اپنی خلافت کے چند سالوں تک محدود سمجھتے تھے اور معاویہ کے دورِ حکومت سے موازنہ کرتے تھے۔اور بنی امیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ علی علیہ السلام سیاست میں مہارت نہیں رکھتے تھے، اس لیے وہ اپنے حریف سے شکست کھا گئے۔

بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف انصاری کو لکھے خط میں امام علیہ السلام نے اپنی سنگین مسئولیت کا ذکر کیا:

ااقنع من نفسی بان یقال: هذا امیرالمؤمنین ولا اشارکهم فی مکاره الدهر او اکون اسوة لهم فی جشوبة العیش[9]...

کیا میں اپنے کو قانع کروں کہ کہا جائے : میں امیر المومنین ہوں؟ لیکن کیا مجھے زمانے کی مشکلات اور تکالیف میں لوگوں کے ساتھ شریک نہیں ہونا چاہیے؟ اور زندگی کی تلخیوں میں ان کا رہبر و رہنما نہیں بننا چاہیے ؟

علی ؑ کی حکومت میں ہر چیز کی بنیاد حق پر ہے اور اصول و معیار حق پر مرکوز ہیں اور کوئی مصلحت ان کی پالیسی اور حق کی پیروی میں ذرہ برابر بھی انحراف کا باعث نہیں بن سکتی۔

فوالذی لااله الا هو انی لعلی جادة الحق و انهم لعلی مزلة الباطل [10]

اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں حق کے راستے پر ہوں اور وہ باطل کی لغزش پر ہیں۔

جی ہاں، امام کی زندگی کے تمام پہلو مکتب کے معیار پر مرتب ہوتے ہیں، اور ان کی زندگی کے کسی بھی پوشیدہ اور کھلے پہلو کو مکتب کے کردار سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔حق کی اسی مرکزیت کی وجہ سے امام علیہ السلام نے اپنے حق کے حصول کے لیے ابو سفیان کی مدد کی پیشکش کو سختی سے رد کر دیا تھا۔

علی ؑ کے نزدیک حکومت کی قبولیت کی بنیاد اور معیار

امیر المومنین علی ؑ کا ہدف عدل کی حکمرانی کو قبول کرنا اور اخلاقی اور انسانی فضائل و کمالات کو بحال کرنا ہے۔ امام کا ہدف رسول خداﷺ کا ہدف ہے، یقیناً اس عظیم مقصد میں علی علیہ السلام اور ان کا پاکیزہ خاندان ہمیشہ کامیاب و کامران رہا۔ ہمیں تنگ نظر نہیں ہونا چاہیے اور سیاسی نظریات کے اسیر نہیں ہونا چاہیے اور علی علیہ السلام کے دور حکومت کو ان کی خلافت کے پانچ سال تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے ان کی سیاست ابدی ہے۔ وہ صدیوں بعد بھی انسانیت کی دنیا پر راج کر رہے ہیں کیونکہ ایک حقیقی سیاست دان وہ ہوتا ہے جو اپنی اندرونی طاقت سے لامحدود عالمی اثر پیدا کر سکتا ہے ، ایک عظیم سیاستدان ایک نایاب وجود ہے۔


[1] ۔ تاریخ طبری، ج 3، قسمت پنجم، ص 152- حوادث سال 35۔

[2] ۔ همان 1۔

[3] ۔ نہجالبلاغه، خطبه 92۔

[4] ۔ نهج البلاغه، خطبه 126; ابن قتیبه، الامامة والسیاسه، ج 1، ص 153; تحف العقول، ص 131; فروع کافی، ج 4، ص 31; مفید، المجالس، ص 95; امالی طوسی، ج 1، ص 197.

[5] ۔ شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید، ج 8، ص 111.

[6] ۔ شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید، ج 7، صص 35-43.

[7] ۔ نهج البلاغه، خطبه 87.

[8] ۔ نهج البلاغه، خطبه 87.

[9] ۔ نهج البلاغه، نامه 45.

[10] ۔ نهج البلاغه، خطبه 197.

قیام امام حسینؑ کا مقصد، امام (ع) کے ارشادات کی روشنی میں

قیام امام حسینؑ کا مقصد، امام (ع) کے ارشادات کی روشنی میں

عاشورا کو سمجھنے کیلئے امام حسینؑ کی حیات طیبہ اور آپ کی شخصیت و منزلت کے بارے میں کامل مطالعہ ضروری ہے ۔ پھر قیام کے دوران مختلف مقامات پر آپ کے ارشادات و بیانات کا باغور مطالعہ کرے اوراپنے قیام کے فلسفہ اور حقیقت کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے ان سے آگاہی حاصل کرے۔

امام حسین علیہ السلام کے مقصد قیام کو جاننے کے لئے سب سے بہترین اور سب سے مطمئن سند خود آپ کے یا دیگر ائمہ معصومینؑ کے ارشادات اور بیانات ہیں۔ آپ کے سارے خطبات، ارشادات، خطوط، وصیت نامے جو کہ آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کے سلسلہ میں ہیں نیز ائمہ معصومینؑ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کے لئے وارد زیارت ناموں میں بھی آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا گیا ہے ذیل میں بعض کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

1 امام حسین علیہ السلام نے مکہ مکرمہ میں عالم اسلام کے مختلف علاقوں کے علماء و دانشوروں کے اجتماع میں ایک ولولہ انگیز اور دندان شکن خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ نے اس خطبہ میں دین اور مسلمانوں کے عقائد کے تحفظ کے لئے علماء اور بزرگان شہر کی عظیم ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی نیز بنی امیہ کے مظالم کے سامنے ان کی خاموشی اور اموی حکمرانوں کی دین دشمن سیاست کے مقابلہ میں ان کے سکوت پر ان کی سرزنش اور تنقید کی۔ نیز بنی امیہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون اور صلح و مصالحت کو ناقبل بخشش گناہ قرار دیا۔
امام علیہ السلام نے ظالم نظام کے خلاف اپنے اقدامات جو کہ چند برس بعد ایک انقلاب کی شکل میں سامنے آئے، کے مقصد کا اعلان اس طرح فرماتے ہیں:

خدایا! تو جانتا ہے کہ ہم جو کچھ انجام دے رہے ہیں (جیسے اموی حکمرانوں کے خلاف خطبے اور اقدامات) یہ سب حکومت اور دنیا کی ناچیز متاع میں سبقت کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ ہم تیرے دین کی نشانی لوگوں کو دکھا دیں (برپا کریں) اور تیری سرزمین پر اصلاح کو ظاہرو آشکار کریں۔ میں چاہتا ہوں کے تیرے ستم رسیدہ بندے امن و امان میں رہیں اور تیرے احکام و قوانین پر عمل کیا جائے۔

(تحف العقول،ص ۲۳۹)

ان جملات میں غور و فکر سے یزید کے دور میں امام حسینؑ کے اقدامات کے چار اصل مقصد سامنے آتے ہیں:

الف: حقیقی اسلام کی نشانیوں کو زندہ کرنا۔

ب: اسلامی مملکت کے لوگوں کی حالت کی اصلاح و بہبودی۔

ج: ستم رسیدہ لوگوں کے لئے امن و امان کی فراہمی۔

د: احکام و واجبات الٰہی پر عمل کے لئے مناسب مواقع فراہم کرنا۔

2 امام حسینؑ نے مدینہ سے رخصتی کے وقت اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا اور اس میں اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح تحریر فرمایا:

میں نے فتنہ و فساد اور ظلم و زیادتی کی خاطر قیام نہیں کیا بلکہ میں صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں۔

میں تو امر بالمعروف، نہی عن لمنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے جد اور اپنےوالد علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں(عمل کرنا چاہتا ہوں)

(کتاب الفتوح، ابن اعثم کوفی ج۵ ص۲۱)

ایک دوسرے مقام پرفرماتے ہیں:

خدایا! مجھے معروف(نیکی) سے محبت ہے اور میں منکر (برائی) کو ناپسند کرتا ہوں۔

(مقتل الحسین، خوارزمی، ج۱،ص۱۸۶)

ائمہ معصومین علیہم السلام کی زبانی امام حسین علیہ السلام کی مختلف زیارتوں میں یہ تعبیر بکثرت مشاہدہ کی جاتی ہے :

اَشْهَدُ اَنَّکَ قَدْ اَقَمْتَ الصَّلوهَ وَآتَیْتَ الزَّکوهَ وَاَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنْ الْمُنْکَرِ۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی،نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا ۔

اس عبارت کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مندرجہ ذیل مقاصد ہو سکتے ہیں:

الف: امت رسولؐکی امور کی اصلاح

ب: امر بالمعروف

ج: نہی عن المنکر

د: رسول خدا اور امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرنا جیسے نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔

3 امام حسین علیہ السلام نے مکہ میں قیام کے دوران اہل کوفہ کے خطوط کے جواب میں جو خط تحریر فرمایا تھااس خط میں اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح تحریر فرمایاتھا:

میری جان کی قسم ! حاکم وہی ہے جو کتاب خدا پر عمل کرے ، عدل و انصاف کو قائم کرے، حق پر عقیدہ وایمان رکھے اور اپنے آپ کو راہ خدا میں وقف کر دے والسلام۔

(تاریخ طبری، ج۵،ص۳۵۳)

امام علیہ السلام اس خط میں قیام کا مقصد ایک ایسی حکومت کےقیام کے لئے کوشش قرار دیتے ہیں کہ جس کا حاکم و پیشوا مندرجہ ذیل صفات و خصوصیات کا حامل ہو:

الف: کتاب خدا کے مطابق حکومت کرے۔

ب: معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کرے۔

ج: دیندار اور دین خدا پر عقیدہ و ایمان رکھنے والاہو۔

د: اپنےاآپ کو خدا اور مقاصد الٰہیہ کے لئے وقف کر دے۔

4 امام حسینؑ نے اپنی مدد اور تعاون کی خاطر بصرہ کے بزرگوں کو ایک خط لکھا اور اسی میں اپنے قیام کا مقصد اس طرح تحریر فرمایا:

میں تمھیں کتاب خدا اور سنت رسولؐ خداکی طرف بلاتا ہوں اس لئے کہ سنت کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہےا ور بدعت کو زندہ کر دیا گیا ہے۔

(تاریخ طبری ج۵ص ۳۵۷)

امام ، عبداللہ بن مطیع کے جواب میں فرماتے ہیں:

کوفیوں نے میرے پاس خط لکھا ہے اور مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں ان کے پاس جاؤں اس لئے کہ انھیں امید ہے کہ میری قیادت میں حق کی نشانیاں زندہ اور بدعتیں نیست و نابود ہوں گی۔
(الاخبار الطوال ص ۳۶۴)

امام حسین نے بصرہ کے شیعوں کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا:

میں تمھیں حق کی نشانیوں کو زندہ کرنے اور بدعتوں کو نیست و نابود کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔
(الاخبار الطوال ص ۳۴۲)

امام نے ان خطوط اور جوابات کی روشنی میں قیام عاشورا کے مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد کا علم حاصل ہوتا ہے:

الف: خدا کی کتاب اور رسولؐخدا کی سنت کی طرف دعوت اور اس پر عمل

ب: ان بدعتوں کو نیست و نابود کرنا جو احکام الٰہی اور سنت نبوی کی جگہ بیٹھ گئی ہیں۔

ج: رسول خدا؈ کی نابود سنت کو زندہ کرنا اور حق و حقیقت کی نشانیوں کو قائم کرنا۔

5 امام حسینؑ نے منزل بیضہ میں حر بن یزید ریاحی کےلشکر سے روبرو ہونے کے بعد ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ نے اس خطبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے ارشاد کو دلیل بناتے ہوئے مقصد قیام کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

اے لوگو! جو شخص کسی ظالم حاکم کو دیکھے جو کہ حرام خدا کو حلال کر رہا ہو، خدا کے عہد و پیمان کو توڑ رہا ہو، رسول خداؐ کی سنت کی خلاف ورزی کر رہا ہو اور بندگان خدا کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتائو کر رہا ہو لیکن وہ شخص اس کے خلاف قول و فعل کے ذریعہ اٹھ کھڑا نہ ہو تو خدا پر ہے کہ اسے بھی اس ستمگر کے ٹھکانے تک پہونچا دے۔
اے لوگو! جان لو کہ ان لوگوں نے شیطان کی فرمانبرداری کو قبول کر لیا ہے اور ان فرمان الٰہی کی اطاعت سے آزاد ہو گئے ہیں ، فساد کو ظاہر کیا ہے اور حدود الٰہی کو معطل کر دیا ہے اور مسلمانوں کے بیت المال کو اپنے آپ سے مخصوص کر دیا ہے، حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام کر دیا ہےاور میں مسلمانوں کے امور میں تبدیلی لانے کے لئے سب سے لائق انسان ہوں۔

(تاریخ طبری ج ۵ص ۴۰۳)

اس خطبہ سے سید الشہداء کے قیام کا مقصد یہ سمجھا جاتا ہے کہ بنی امیہ کے حکمرانوں بالخصوص یزید ملعون نے اسلام کے خلاف قدم اٹھائے تھے او وہ مندرجہ ذیل ہیں:

الف: شیطان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور خدا کی فرمانبردار کو بالائے طاق رکھنا۔

ب: روئے زمین پر فتنہ و فساد برپا کرنا۔

ج: حدود الٰہی کو معطل کرنا۔

د: بیت المال کو اپنی جاگیر بنالینا۔

ھ: حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کرنا۔

اسی لئے ہم امام حسینؑ کی زیارت میں اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے احکام الٰہیہ اور سنت رسول خدا و امیر المومنین صلوات اللہ علیہما کو نافذ و قائم فرمایا ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام کیا۔ نماز قائم کی، زکات ادا کی، نیکیوں کا حکم دیا، برائیوں سے روکا اور مسلمانوں کو وعظ و نصیحت کے ذریعہ اپنے دین و آئین کی طرف دعوت دی۔

نیز عرض کرتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا اور مسلمانوں کو ان دونوں چیزوں کی طرف دعوت دی۔

6 امام حسینؑ نے منزل ذُو حُسَم پر اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح بیان فرمایا :

کیاتم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے روکا نہیں جا رہا ہے؟! ایسے حالات میں تو مرد مومن کو دیدار الٰہی کا خواہاں ہوناچاہئے۔ میں ایسی موت کو صرف شہادت جانتا ہوں اور ظالمین کے ساتھ زندگی کو ننگ و عار کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتا۔

امام علیہ السلام نے ذلت برداشت نہ کرنے کو قیام کے ایک دوسرے مقصد کے تحت مختلف خطبات میں بیان فرمایا ہے منجملہ جیسا عبیداللہ ابن زیاد نے امام حسینؑ کے سامنے دو راستے رکھے تھے یا شہادت یا بیعت یزید، تو آپ نے ارشاد فرمایا:
ذلت ہم سے دور ہے اور خدا، رسول خداؐ اور صاحبان ایمان نے ایسے ننگ و عار کو ہمارے لئے ذرہ برابر بھی پسند نہیں کیا ہے۔

(اثبات الوصیہ، ص ۱۶۶)

نیز فرمایا:
ذلت و رسوائی قبول کرنا ہم سے بہت دور ہے اس لئے کہ خدا و رسول نے اس سے انکار فرمایا ہے۔

(مقتل الحسینؑ خوارزمی ج۲ص۷)

اس حصہ میں قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ امام حسینؑ نے ذلت کو قبول نہ کرنے کی نسبت امر خدا، رسول اکرمؐ اور صا حبان ایمان کی جانب دی ہے اس لئے کہ حقیقی صاحب ایمان حکم خدا اور سنت نبوی ؐ کی پیروی کی بنا پر کبھی بھی ذلت قبول نہیں کرےگا۔

امام حسینؑ نے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے:

خدا کی قسم میں بیعت کے عنوان سے ذلیل و خوار آدمی کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دوں گا اور نہ ہی غلاموں کی طرح فرار اختیار کروں گا۔

(الارشاد ج۲ص۹۸)

نیزارشادفرمایا:

عزت کے ساتھ مرجانا ذلت کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے بہتر ہے۔

(مناقب ابن شہر آشوب ج۴ص ۷۵)

امام کے ان ارشادات سے ان اغراض و مقاصد کا علم ہوتا ہے:

الف: حق کو رائج کرنا اور اس پر عمل کرنا۔

ب: باطل کو رائج ہونے سے روکنا اور اس پر عمل کرنے سے بازرکھنا۔

ج: دنیا کی ذلت وخواری والی زندگی کو قبول نہ کرنا اور آخرت کی سعادت مند زندگی کو منتخب کرنا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام زیارت اربعین میں قیام حسینی کے مقصد کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:

وَبَذَلَ مُهْجَتَهُ فیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبادَکَ مِنَ الْجَهالَةِ، وَحَیْرَةِ الضَّلالَةِ۔

(تہذیب الاحکام، ج۶،ص۱۲۶)

امام حسین نے تیری راہ میں اپنی جان فدا کر دی تاکہ تیرے بندوں کو نادانی اور گمراہی کی سرگردانی و حیرانی سے نجات دلائیں۔

امام صادق کے ارشاد کی روشنی میں سید الشہداء کے مقصد قیام کو مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد میں پیش کیا جا سکتا ہے:

الف: مسلمانوں کو خدا کے احکام اور اپنے فرائض کی بے خبری سے نجات دلانا۔

ب: بندگان خدا کو گمراہی سے نجات دلانا، انھیں دین کے حقیقی رہنمائوں کی اطاعت و پیروی کے لازم ہونے سے آگاہ کرنا۔

نتیجہ

امام حسین علیہ السلام کے بیانات و ارشادات سے نکالے گئے اغراض و مقاصد میں مختصر غور وفکر کرکے یہ دیکھاجا سکتا ہے کہ آپ اپنے قیام کا مقصد اور علت اسلامی معاشرہ میں کثیر تعداد میں پھیلے منکرات اور برائیوں کا مقابلہ کرنا اور مسلمانوں کے درمیان معروف اور نیکیوں کو رائج کرنا ہے۔ لہٰذا آپ کے قیام کے اصلی فلسفہ کو ایک جامع ہدف و مقصد میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے اور وہ حقیقی اسلام کو زندہ کرنا اور اپنے جد کے دین سے بدعتوں اور تحریفوں کو نکال باہر کرنا ہے۔ البتہ امام نے اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو وسیلہ قرار دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام وصیت نامہ میں تحریر فرمایا تھا:

اُرِیْدُاَن آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ اَنْھَی عَنِ الْمُنْکَر۔

اور جیسا کہ بیان کیا گیا امام حسین علیہ السلام کی زیارتوں میں آیا ہے:

اَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنْ الْمُنْکَرِ۔

وضاحت:
اگر امام حسینؑ اپنے قیام کا مقصد وعلت بدعتوں کے رواج، کتاب خدا کی مخالفت، حلال و حرام خدا، سنت نبوی کی نابودی، شیطان کو محور بنانا اور اہلبیت کو چھوڑنا، فساد، ظلم و زیادتی، بے انصافی، اسلامی معاشرہ میں بدامنی، دور الٰہی کو معطل کرنا اور بیت المال کو اپنی ملکیت بنا لینا وغیرہ قرار دیتے ہیں تو یہ تمام چیزیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ معاشرہ میں منکرات حد سے زیادہ پھیل چکے تھے کہ آپ نے اپنا فریضہ نہی عن المنکر قرار دیا۔ نیز اگر امام حسینؑ اسلامی معاشرہ کو کتاب خدا، سنت نبوی پر عمل، حق کی نشانیوں کو زندہ کرنا، امن و امان پیدا کرنا، امت کے امور کی اصلاح کرنا وغیرہ کی جانب دعوت دیتے ہیں تو یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معروف نامی چیز سماج سے رخصت ہو گئی تھی یا کم ازکم نابود کے دہانے پر تھی۔اسی لئے اگر امام حسینؑ نے بیعت یزید سے انکار کر دیا اور آپ نے ایسا کرکے ایک طرف تو اپنے آپ کو شہادت اور حکومت یزید کے مقابلہ میں ثابت قدم رہنے کا اعلان کر دیا تو دوسری جانب یزید کی حکومت کو سرنگوں کرنے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لئے سعی و کوشش فرمائی۔

درحقیقت انکار بیعت، نہی عن المنکر، معروف کو رائج کرنے، بنی امیہ کی بدعتوں اور مظالم کے سامنے خاموشی کی حرمت کے سلسلہ میں مسلمانوں پر اتمام حجت کرنے کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ ایسی حکومت کی بیعت کرنا یا اس کے سامنے خاموشی اختیار کرنا منکر کو رائج کرنے اور معروف سے مقابلہ کرنے کے علاوہ عام لوگوں کے لئے اموی حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے عذر و بہانہ بنتا تھا۔

دوسرے لفظوں میں امام معصوم ہونے کے لحاظ سے امام حسینؑ کی سیرت میں جو بات مسلم اور ناقابل انکار نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ جیسی شخصیت اس بات کے لئے تیار نہیں تھی کہ وہ یزید جیسے آدمی کی بیعت کرے اور اس کی حکومت کو قانونی حکومت تسلیم کرے۔ اس لئے کہ آپ معاویہ کے دور حکومت اس کے بعد یزید کے دور حکومت میں امت مسلمہ کی گمراہی کی گہرائی دیکھ کر اس نتیجہ تک پہونچے تھے کہ اب وعظ و نصیحت اور پر جوش خطبوں کے ذریعہ اس انحراف و گمراہی کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے جو اسلامی معاشرہ نیز حکومت کے سیاسی اور اعتقادی بنیادوں میں رچ بس چکی ہے۔ لہٰذا اب امام کی نظرمیں امت مسلمہ کی واحد راہ علاج اور نجات ایک ہمہ گیر قیام ہے۔

تحریفات عاشورا 

تحریفات عاشورا

مقدمہ
پچھلے کچھ عرصے سے ،کہ جب سے مجالس یا بعض مدارس کے جلسوں میں شرکت کرنے ،پڑھنے یا سننے کا موقع ملا ،اور خصوصا سوشل میڈیا میں مختلف مقررین خصوصا پنجابی یا سرائیکی خطباء کے ویڈیو کلپس وغیرہ سننے کا اتفاق ہوا (یہاں پر جاہل ذاکرین یا گلوکاروں کی بات نہیں ہو رہی بلکہ وہ خطباء کہ جو اپنے آپ کو مصلحین و ناصحین ملت سمجھتے ہیں اور تبلیغ دین کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں)،تو ایک افسوس ناک نکتہ کی طرف متوجہ ہوا کہ اگرچہ یہ خطباء اور منبری حضرات تبلیغ بھی فرماتے ہیں،اصلاحی گفتگو بھی کرتے ہیں، غالی ذاکرین وغیرہ کی مذمت بھی کرتے ہیں لیکن ان کی ساری محنت و زحمت اور تبلیغ دین اس وقت برباد ہو جاتی ہے کہ جب وہی خطیب صاحب مصائب اور ذکر امام حسین ع کرتے ہوئے انتہائی ضعیف بلکہ جعلی واقعات پڑھنا شروع کرتا ہے اور آگے بیٹھے ہوئے سادہ لوح مومنین یہ سمجھ کر کہ چونکہ خطیب صاحب نے اپنی تقریر میں بھرپور تبلیغ کی ہے اور بار بار بزرگ علمائے کرام کا حوالہ بھی دیا ہے لہذا اس کی ہر بات مستند ہے اور آواز بھی کافی رقت آمیز ہے تو بس بغیر سوچے سمجھے اس کی ہر بات اور واقعہ قبول کر لیتے ہیں۔اور پھر بھرپور انداز میں گریہ ہوتا ہے اور خطیب صاحب کی اگلی کئی مجالس و محافل کی تاریخیں ایڈوانس بک ہو جاتی ہیں۔خطیب صاحب اس بات پر مطمئن ہوتے ہیں کہ اگلے کئی پروگرام مل گئے ،بانی کی واہ واہ ہو جاتی ہے کہ اتنے زبردست اور اصلاحی مبلغ اسلام کو دعوت دی اور سامعین بے چارے اپنی سادہ لوحی اور عدم مطالعہ کی بنیاد پر ،اس جھوٹ اور ضعف پر مشتمل مصائب سن کر ،گریہ فرما کر ،اس کو عین عبادت سمجھتے ہوئے ،اپنے آپ کو اجز عظیم کا مستحق سمجھ لیتے ہیں
ابھی کچھ دن پہلے ایک خطیب صاحب کا مصائب کسی نے کلپ کی صورت میں مجھے بھیجا اور اس کی حقیقت اور اعتبار جاننے کے لیے مجھ سے کچھ سوالات بلکہ اعتراضات کیے ،پہلے پہل تو بندہ حقیر نے یہی عرض کیا کہ جن کی ویڈیو ہے،آپ انہی سے پوچھیں کہ انہوں نے کہاں سے اس واقعہ کو لیا ہے لیکن معترض نے کہا کہ وہ یہ سوال ان خطیب صاحب سے کر چکے ہیں لیکن انہوں نے شاید مصروفیت کی بنا پر جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔اب وہ واقعہ کیا تھا ،اس کی تفصیل لکھنا تو یہاں ممکن نہیں،لیکن عنوان مضمون ، کربلا سے مخدرات عصمت و طہارت سلام اللہ علیہا کا کوفہ و شام کا سفر، تھا کہ جس میں موصوف نے فرمایا تھا کہ کربلا سے کوفہ،پھر شام تک 21 راتوں کا سفر تھا اور شمر ملعون نے کسی کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ ان کو سونے نہیں دینا اور پھر 21 راتوں تک یہ مخدرات عصمت و طہارت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوئیں،اور پھر چند ایک اور واقعات ،اب ایک لمحے کو یہی خیال آتا ہے کہ فوج یزید ملعون سے یہ بعید نہیں کہ وہ ایسا حکم دیں،کیونکہ وہ درندہ صفت ملعونین،ظلم کی ہر انتہا تک جا سکتے تھے اور یقینا گئے بھی تھے۔لیکن کیا اس فارمولے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی طرف سے تاریخ گھڑنا جائز ہو جائے گا،یقینا کربلا میں مصائب کی انتہاء ہو گئی لیکن ہم مجبور ہیں کہ وہی واقعات بیان کریں کہ جو مستند اور معتبر کتب تاریخی میں موجود ہیں۔وگرنہ ان مبلغین و ناصحین اور جاہل ذاکرین میں کیا فرق رہ جائے گا،وہ بھی تو یہی بہانہ تراش کر جھوٹے،جعلی اور ضعیف روایت مصائب پڑھتے ہیں کہ رونا اور رلانا مقصد ہے ،چاہے جھوٹ کے ذریعے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔بندہ نے اس واقعے کی تلاش میں ،اپنی لائبریری میں موجود کتب میں سرچ شروع کی تو کچھ نہیں ملا،بلکہ معتبر ترین کتب تاریخ کربلا میں تو سرے سے منازل سفر کا تذکرہ موجود ہی نہیں اور جن میں ہے ان میں بھی نہایت مختصر طریقے سے،لیکن اس مذکورہ بالا واقعہ کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔اسی طرح ایک اور خطیب صاحب کو بندہ نے خود سنا کہ وہ ذکر مصائب میں کسی شیریں نامی خاتون کے حوالے سے بڑی طویل و عریض کہانی سنا رہے تھے لیکن جب کتب مستند کی ورق گردانی کی تو ایسا کوئی واقعہ نہیں ملا،البتہ ملا کاشفی اور آقا دربندی کی داستانوں میں اس جیسے کئی واقعات بھرے پڑے ہیں۔ایسے ہی ایک اور خطیب صاحب کو ایک علمی جلسے میں یہ فرماتے سنا کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹیوں کی غربت کی یہ حالت تھی کہ ان کے پاس ایک چادر تھی جس سے وہ باری باری نماز ادا کرتی تھیں۔لا حول و لا قوہ الا باللہ۔اب کہاں تک ایسے واقعات گنوائے جائیں ،لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ جب ان فاضل شخصیات (کہ جن کے ناموں کے ساتھ حجت الاسلام و المسلمین،علامہ،بحر المصائب،مفسر تاریخ کربلاء،مقرر شعلہ بیان،مبلغ اسلام،مفکر اسلام ۔۔۔اور پتا نہیں کیا کیا القاب لگائے جاتے ہیں)کو دوسروں پر تنقید کا موقع ملے تو اس کو دائرہ اسلام سے بھی خارج کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور جب کوئی سننے والا ،ان سے کسی واقعہ کی سند مانگ لے تو جاہل،حاسد،دشمن عزاء،لا علم وغیرہ وغیرہ القاب سے یاد کرتے ہیں۔
انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ اب موجودہ منبر کی صورتحال ،آہستہ آہستہ پھر انہی حالات کی طرف پلٹ رہی ہے کہ جن حالات سے آیت اللہ العظمی الشیخ محمد حسین النجفی رحمت اللہ علیہ نے ساری زندگی مقابلہ کر کے ،اصلاح کی کوشش کی تھی۔فرق اتنا ہے کہ پہلے مدمقابل شہباز پاکستان،سلطان پاکستان،شہنشاہ مصائب،وغیرہ وغیرہ تھے،اب مقابلہ میں حجت الاسلام و المسلمین،علامہ،مولانا ،مفکر،مبلغ وغیرہ وغیرہ ہیں۔
اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ان موجودہ اکثر واعظین کی حالت ان گزشتہ ان پڑھ ذاکرین سے بھی بدتر ہے۔وہ بےچارے تو ان پڑھ تھے،جاہل تھے،سنی سنائی روایات پر یقین کر کے آگے بیان کر دیتے تھے،نا کوئی تحقیق کا ملکہ اور نا مطالعہ کی جستجو لیکن موجودہ خطبا ،نجف و قم کے فارغ التحصیل،سلطان الافاضل کی اسناد کے حامل،لیکن منبر کے حالات پہلے سے بدتر۔وہی اخلاقی بیماریاں جو پہلے جاہل ذاکرین میں تھیں کہ جن کی نشاندہی ایت اللہ العظمی نجفی نے اصلاح المجالس و المحافل میں کی تھی،اب وہی بیماریاں موجودہ واعظین و خطباء میں بدرجہ اتم موجود ہیں،فیسوں کا مک مکاء،جھوٹی روایات ،ضعیف مصائب،تفویض و غلو سے بھرپور افکار،بدخلقی،نمود و نمائش،لابی سسٹم،گروپ بندی،غرور و تکبر وغیرہ وغیرہ
ان خطبائ کرام اور واعظین کی خدمت میں کہ جو اپنے آپ کو مدارس دینیہ اور علماء و بزرگان سے منسلک سمجھتے ہیں، گزارش ہے کہ آپ میں اور دیگران میں کچھ فرق ہونا چاھیے،اگر ایک سادہ ذاکر یا پیشنماز یا ابتدائی قسم کا خطیب کسی بھی سادہ سی کتاب کو حوالہ بنا کر مصائب یا فضائل بیان کرے تو شاید اس کی طرف سے تو قابل قبول ہو،لیکن حوزہ علمیہ سے فارغ التحصیل فاضل شخصیت اگر کسی فقیہ و مجتہد کا بھی حوالہ کسی تاریخی واقعے میں بیان کرے تو قابل قبول نہیں ہے کیونکہ تاریخ و بیان روایات میں تقلید نہیں ،تحقیق ہے۔تاریخی واقعات میں سند ،مورخ و کتب تاریخ ہوتی ہیں،خصوصا تاریخ اسلام وتاریخ تشیع اور واقعہ کربلا،کہ جہاں معاملہ مزید سخت اور حساس ہے کیونکہ یہاں پر صرف بیان تاریخ نہیں بلکہ نسبت بہ نبی اکرم ص اور آئمہ اطہار ع بھی ہے۔اور چھوٹی سی لغزش بھی خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔
اس تحریر کے اختتام میں اساتذہ تاریخ ،متخصصین تاریخ تشیع،متخصصین علوم رجال الحدیث اور کتب علوم تاریخ سے ماخوذ کچھ نکات تاریخ کربلا اور مقتل شناسی کے حوالے سے پیش خدمت ہیں
1۔واقعات تاریخی میں کربلا اور عاشورا حسینی ع تاریخ بشریت کا اہم ترین اور پر اثر ترین واقعہ ہے جس کی نظیر ملنا ناممکن ہے۔یہ واقعہ نا صرف اپنی مظلومیت و ظالمین کی بربریت بلکہ قیامت تک آنے والے ہر انسان کی زندگی میں تاثیر گزار ہونے کے لحاظ سے بھی بے مثال ہے۔
2۔اس واقعہ کو زندہ رکھنے میں جہاں دیگر عوامل دخیل ہیں ،وہیں سب سے بڑا عامل اور سبب عزاداری سید الشہداء ع ہے۔
3۔ہر عظیم واقعہ جہاں اپنے اندر بے شمار نتائج و اثرات رکھتا ہے وہیں ہمیشہ سے کچھ مفاد پرست عناصر ،دنیوی مفادات حاصل کرنے کے لیے یا سادہ لوح اور لاعلم افراد اپنی عقیدت کی پیاس بجھانے کے لیے ،یا مخالفین ،اس واقعہ کی تاثیر مثبت کو کم کرنے کے لیے تحریف کا سہارا لیتے ہیں۔واقعہ کربلا اس حوالے سے بھی کم نظیر ہے کہ جتنی تحریف و تغیر تبدل کرنے کی کوشش ،چاہے وہ عقیدت کی بنیاد پر ہو،مخالفت کی بنیاد پر ہو یا مفاد پرستی کی بنیاد پر ہو ،اس واقعے میں کی گئی ہے اور کی جا رہی ہے ،اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
4۔واقعہ کربلا اور عاشورا حسینی ع میں جہاں معنوی تحریف کی گئی ہے وہیں پر لفظی تحریف کی بھی بھرمار ہے ،اگر یوں کہا جائے کہ آج جو کربلا بیان کی جا رہی ہے ،اور اصل کربلاء جو مورخین اور علمائ بزرگ کی کتابوں میں موجود ہے ،ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے تو یہ عین حقیقت ہے۔
5۔جو نقصان آج مفاد پرست افراد ، مشن و ہدف کربلاء و عاشورا کو پہنچا رہے ہیں،یہ اس نقصان سے کئی گنا بڑا ہے کہ جو امام عالی مقام ع کی ذات اور ان کی آل پاک اور اصحاب علیہم السلام کے ابدان کو پہنچایا گیا تھا۔
6۔اس سے مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ شہادت امام حسین ع کا جو فائدہ ان کے قاتلین ملعونین اٹھانا چاھتے تھے ،وہ تو نا اٹھا سکے کیونکہ عاشورہ کے بعد سیدہ زینب سلام اللہ علیہا،امام سید الساجدین ع ،سیدہ ام کلثوم ع،سیدہ فاطمہ بنت الحسین کے خطبات نے یزیدی مشن کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں پھر جب تک منبر علماء و فقہاء و اہل علم و تقوی کے پاس رہا تو حقیقی واقعات بھی بیان ہوتے رہے اور مشن حسینی ع بھی نسل در نسل منتقل ہوتا رہا ۔لیکن جب منبر ،نا اہل افراد اور مفاد پرستوں کے ہاتھ آیا تو انہوں نے اسی مشن کو برباد کرنا شروع کر دیا کہ جس کی حفاظت سیدہ زینب و امام سجاد علیہم السلام کرتے رہے۔منبر سے کربلاء کا وہ چہرہ دکھایا جانے لگا کہ جو بالکل حقیقت کے برعکس تھا۔عاشورا کا مقصد گریہ اور بکا کو قرار دیا جانے لگا۔اور عاشورہ کا صرف مظلومانہ پہلو ہی عوام الناس تک پہنچایا جانے لگا۔
7۔جب عاشورا کا مقصد اصلی ہی گریہ و ماتم و عزاء و بکاء کو قرار دیا گیا تو شعراء و مصنفین بھی میدان میں آئے اور اسی مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے دھڑادھڑ کتب مقاتل و مرثیہ لکھنا شروع کر دیں۔خصوصا آٹھویں یا نویں صدی سے لے کر چودھویں صدی تک جو کتب لکھی گئیں ان میں سے غالب کتب اسی مقصد کو لے کر لکھی گئیں۔اور آہستہ آہستہ یہ نظریہ پروان چڑھایا گیا کہ کربلاء کا مقصد گریہ و ماتم و عزاداری ہے اور اس مقصد کے لیے چاہے جھوٹ اور ضعیف روایات کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
8۔تاریخ اسلام بالعموم اور عاشورا و کربلا شناسی بالخصوص ،متخصصین علماء تاریخ و رجال شناسان و محدثین کرام کا موضوع ہے اور اس حوالے سے انہی کی بیان کردہ روایات تاریخی مورد قبول ہوں گی۔اور اس میں واقعہ کی سند،متن،دیگر قرائن کو مد نظر رکھا جائے گا،مسائل تاریخی و روائی میں خوابوں ،خیالوں،شعراء کے مرثیوں ،خطیبوں کے خطابات،مصائب خوانوں کے مصائب وغیرہ کی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں ہو گی جب تک ان کا استناد کسی معتبر ذریعہ پر نہیں ہو گا۔
9۔تاریخ عاشورہ و کربلاء میں علماء علم تاریخ کے اقوال کے مطابق،اگر کوئی واقعہ ،معتبر کتب تاریخ کہ جو چھٹی یا حد اکثر ساتویں صدی ہجری تک کے زمانہ میں لکھا گیا ہو اور کامل اسناد بھی موجود ہوں اور ان علماء و بزرگان نے ان پر اعتماد کیا ہو تو وہ قابل قبول ہو گا اور اگر ایسا نہ ہو،اور ساتویں یا آٹھویں صدی ھجری کے بعد والی کتب میں لکھا گیا ہو اور پچھلی کتابوں سے مختلف ہو اور سند کے بغیر لکھا گیا ہو تو ان کی کوئی حیثیت نہیں چاہے لکھنے والا اپنے وقت کا فقیہ اعظم ہی کیوں نا ہو۔کیونکہ قبول قول تاریخی کا معیار اور ہے اور فقہ و کلام وغیرہ کے معیارات اور ہیں۔ان کو مخلوط نہیں کرنا چاہیے۔
10۔جن کتب کو علماء علم تاریخ غیر معتبر اور ضعیف قرار دیں ،ان سے نقل قول سے سخت پرہیز کیا جانا چاہیے۔اور کوشش کی جانی چاہیے کہ انہی کتب سے روایت کو اخذ کیا جانا چاہیے کہ جن پر علماء تاریخ اعتماد کرتے ہوں
ذیل میں(شعبہ علوم تاریخ کے اساتذہ کے مطابق) کچھ کتب معتبرہ و غیر معتبرہ کے اسماء بیان کیے جاتے ہیں۔
چند کتب معتبرہ
1۔ وقعة الطف / اصل مقتل ابی مخنف (تحقیق شدہ از استاد محمد هادی یوسفی غروی و ماخوذ از تاریخ طبری و دیگر کتب معتبرہ، نہ کہ عام کتب خانوں اور دکانوں میں موجود ضعیف روایات پر مشتمل مقتل ابی مخنف)
2۔الارشاد شیخ مفید
3۔تاریخ طبری کی روایات کربلاء
4۔لہوف یا ملہوف سید ابن طاووس
5۔مقتل الحسین ع خوارزمی
6۔مقاتل الطالبین ابو الفرج اصفہانی
7۔الفتوح ابن اعثم کوفی
8۔تاریخ یعقوبی احمد بن ابی یعقوب
9۔اخبار الطوال ابو حنفیہ دینوری
10۔مثیر الاحزان و منیر سبل الاشجان ابن نما حلی
11۔نفس المہموم شیخ عباس قمی
12۔منتہی الآمال شیخ عباس قمی
13۔حماسہ حسینی شہید مرتضی مطہری
14۔شہید انسانیت علامہ علی نقی نقن
15۔مجاہد اعظم ظفر امروہی
16۔سعادت الدارین فی مقتل الحسین ایت اللہ محمد حسین النجفی
17۔ تاریخ قیام و مقتل جامع سید الشہداء گروہ تاریخ قم و آقای مہدی پیشوائی
18۔عاشورہ آثارھا و پیامد ھا۔آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
19۔عاشورہ شناسی و حقیقت عاشورہ از آقای اسفندیاری
20۔الصحیح من مقتل سید الشہداء و اصحابہ ع از گروہ دارالحدیث با رہنمائی استاد آقای محمد محمدی ری شہری
21۔تاملی در نہضت عاشورہ رسول جعفریان
22۔لؤلؤ و مرجان از محدث نوری

کچھ کتب ضعیف و غیر معتبرہ کے نام
1۔نور العین فی مشہد الحسین ع
2۔روضہ الشہداء کاشفی
3۔المنتخب طریحی
4۔محرق القلوب
5۔اسرار الشہادہ ،مقتل دربندی
6۔ناسخ التواریخ
7۔الدمعہ الساکبہ
8۔تظلم الزهراء محمد تقی سپہر
9۔معالی السبطین محمد مہدی حائری
وغیرہ
نوٹ، مندرجہ بالا کتب معتبرہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان میں جو کچھ درج ہے وہ من وعن درست ہے خصوصا کتب معاصر۔بلکہ ان میں چونکہ بیان شدہ اکثر واقعات قدیم اور معتبر کتب سے ماخوذ ہیں لذا ان کو زیر مطالعہ رکھنے میں حرج نہیں لیکن اس کے باوجود شرائط قبول روایات تاریخی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔اسی طرح کتب غیر معتبرہ یا ضعیفہ کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کتب صد در صد جھوٹ پر مبنی ہیں بلکہ ان میں موجود اکثر مواد ضعیف اور مجعول ہے لذا ان سے پرہیز بہتر ہے۔اور ان کتب سے نقل قول یا نقل روایت احتیاط کے خلاف ہے۔
لذا کم از کم ہمارے وہ خطباء جو مدارس اور علماء بزرگ سے مربوط ہیں،ان کو چاہیے کہ مصائب کربلاء،روایات تاریخی ،واقعات آئمہ اطہار ع میں کمال احتیاط کا مظاہرہ فرمائیں۔اور صرف کتب معتبرہ سے ہی مصائب و دیگر واقعات اخذ کریں۔اور کتب ضعیفہ یا واقعات ضعیفہ و مجعولہ سے اپنے اور اپنے سننے والوں کے دامن کو بچائیں۔
اگلی اقساط میں ان شاءاللہ کوشش کی جائے گی کہ تحریفات عاشورا کے عنوان سے تفصیل سے ان ضعیف و مجعول واقعات کو بیان کیا جائے کہ جو اکثر و بیشتر ہمارے منبروں سے بیان ہوتے ہیں اور ان کے بارے تفصیلی تحقیق سندی و محتوائی بیان کی جائے تاکہ کربلاء کے عظیم واقعہ میں ہونے والی تحریفات کی پہچان ہو جائے اور ان کے آگے بند باندھنے کا انتظام ہو سکے۔ جاری ہے۔۔۔۔۔

 گھر میں کبوتر رکھنا ؟

گھر میں کبوتر رکھنا ؟

کبوتر ایک حلال گوشت پرندہ ہے. [1] کبوتر ، پالنا ان سرگرمیوں میں سے ایک ہے جو مختلف اقوام میں بہت مقبول ہے اور انسانی فطرت اس سے ہم آہنگ ہے. لیکن دینی ابحاث میں ، کبوتر پالنے اور کبوتر بازی میں بہت فرق ہے ، اور ان کا حکم بھی متفاوت ہے ۔ کبوتر‌ بازی میں کوئی حرج نہیں اگر دوسروں کیلئے پریشانی کا باعث نہ ہو البتہ اچھا کام بھی نہیں ہے .[2]
روایات میں ذکر ہوا ہے کہ کبوتر پالنا مستحب ہے اور اس کے اثرات بھی ہیں.
یہاں ہم ایسی روایات کو ذکر کریں گے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے گھروں میں بھی کبوتر تھے۔

آئمه اطهار(علیہم السلام)کا کبوتر پالنا

1 ابو حمزه ثمالى کہتے ہیں : میرے پوتے کے چند کبوتر تھے میں نے غصے میں انہیں ذبح کر دیا. [کچھ عرصہ بعد] مکہ گیا قبل از طلوع آفتاب امام باقر(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا . جب سورج طلوع ہوا ، تو بہت سارے کبوتر وہاں دیکھے، سوچا کہ امام سے کبوتر پالنے کے مسائل پوچھوں گا اور لکھوں گا ابھی سوچ رہا تھا کہ میں نے تو کبوتروں کو ذبح کر دیا تھا اگر کبوتر پالنے میں خیر نہ ہوتا تو امام علیہ السلام کیوں پالتے، امام(ع) نے فرمایا: « تم نے سارے کبوتر ذبح کر کے اچھا کام نہیں کیا۔۔۔»۔ [3]
2 عبد الکریم بن صالح کہتا ہے : میں امام صادق(ع) کے پاس گیا ، دیکھا کہ تین سرخ کبوتر امام کے بستر پر بیٹھے ہیں اور اپنے فضلہ سے بستر کو خراب کر رہے ہیں ۔ میں نے عرض کی قربان جاؤں انہوں نے آپ کا بستر گندا کر دیا ہے ، امام علیہ السلام نے فرمایا :
«کعوئی مسئلہ نہیں ، بہتر ہے کہ گھر میں رہیں».[4]
3 محمّد بن کرامه کہتے ہیں: میں نے امام موسى بن جعفر(ع) کے گھر ایک جوڑا کبوتروں کا دیکھا جن کے پر سبز اور تھوڑے سرخ تھے ، امام ان کیلئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر رہے تھے. [5]
اس کے علاؤہ بھی کبوتر پالنے کی تاکید موجود ہے ۔
4 زید شحام نقل کرتے ہیں: امام صادق(ع) کے سامنے کبوتروں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: « گھروں میں کبوتر رکھا کرو، اچھا ہوتا ہے».[6]

گھروں میں کبوتر پالنے کے اثرات روایات میں ذکر ہوئے ہیں بطور نمونہ چند یہ ہیں

شیاطین گھر سے دور رہتے ہیں
امام صادق(ع) نے فرمایا: «کبوتر انبیاء کرام کے پرندوں میں سے ہیں جو وہ گھروں میں رکھتے تھے ، جس گھر میں کبوتر ہوں وہاں جن اہل خانہ کو نقصان نہیں پہنچاتے ؛ کیونکہ سفهاء جن گھر میں کبوتروں سے کھیلنے میں مصروف رہتے ہیں اور اہل خانہ کو تنگ نہیں کرتے».[7]
امام صادق(ع) سے ایک اور جگہ نقل ہوا ہے کبوتروں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے، شیاطین بھاگ جاتے ہیں .[8]

گھر کی حفاظت
امام صادق(ع) نے فرمایا:
«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ یَدْفَعُ بِالْحَمَامِ عَنْ هَدَّةِ الدَّار»؛[9]
خدا وند کبوتروں کے وسیلہ سے گھروں کو تباہ ہونے سے بچاتا ہے . منظور از «هَدَّةِ الدَّارِ» گھر کی تباہی کا معنی بھی اور گھر کے ضعیف افراد کو ضرر سے بچانا بھی ہے .[10]

رفع تنہائی
ایک شخص نے پیغمبر خدا (ص) سے تنہائی کے خوف کی
شکایت کی. پیغمبر(ص) نے اسے فرمایا:
«ایک جوڑا کبوتر لے لو ».[11]
امام صادق(ع) نے فرمایا:
«میرے ساتھ گھر میں کبوتر رکھو تاکہ میرے ہمدم بنیں» ۔[12]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
[1]. امام خمینی، توضیح المسائل (محشّی)، گردآورنده، بنی‌هاشمی خمینی، سید محمدحسین، ج 2، ص 594، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ هشتم، 1424ق.
[2]. برای اطلاعات بیشتر ر.ک: 12685؛ حکم کبوتر بازی
[3]. عبد الله بن بسطام، حسین بن بسطام، طبّ الأئمة(ع)‏، محقق: خرسان، محمد مهدى‏، ص 111، قم‏، دار الشریف الرضی‏، چاپ دوم‏، 1411ق‏.
[4]. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق، غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 6، ص 548، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ چهارم، 1407ق.
[5]. طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص 130، قم، شریف رضی، چاپ چهارم، 1412ق.
[6]. الکافی، ج ‏6، ص 547؛ شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعة، ج 11، ص 517، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ق.
[7]. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 60، ص 93، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ق؛ شیخ حر عاملی، هدایة الأمة إلی أحکام الأئمة(ع)، ج 5، ص 127، مشهد، مجمع البحوث الإسلامیة، چاپ اول، 1414ق.
[8]. شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، محقق، غفاری، علی اکبر، ج 3، ص 350، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ق.
[9]. الکافی، ج ‏6، ص 547.
[10].بحار الأنوار، ج ‏62، ص 19.
[11]. مکارم الأخلاق، ص 129.
[12]. الکافی، ج ‏6، ص 548؛ فیض کاشانی، محمد محسن، الوافی، ج 20، ص 857، اصفهان، کتابخانه امام أمیر المؤمنین علی(ع)، چاپ اول، 1406ق.

تربیت اولاد ، تعلیمات اہل بیت کی روشنی میں




تربیت اولاد ، تعلیمات اہل بیت کی روشنی میں



اسد عباس اسدی

ہرانسان کی زندگی کا ایک اہم مسئلہ بچوں کی تربیت اور ان کو ادب سکھانا ہوتا ہے اور یہ بچوں کا حق ہوتا ہے کہ جو والدین کو ادا کرنا ہوتا ہے ۔ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں اس موضوع کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے ۔ امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : جاء رجل الی النبی فقال : یا رسول اللہ ما حق ابنی ھذا قال : تحسن اسمہ و ادبہ ، وضعہ موضعا حسنا ۔ایک شخص اپنے بچے کا ہاتھ پکڑ کر رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ میرے بچے کا مجھ پر کیا حق ہے ؟تو پیغمبراکرم نے فرمایا:بچے کا اچھا نام رکھو ، اچھی تربیت کرو اور بچوں کو نیک ماحول مہیا کرو ۔

بچوں کی تربیت کا اہتمام

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : وتجب للولد علی والدہ ثلاث خصال : اختیارہ لوالدتہ و تحسن اسمہ و المباغۃ جی تادیبہ ۔

تین چیزیں والدین پر بچوں کا حق ہیں، 1 اچھا مربی, 2 اچھا نام رکھیں, 3 اوران کی تربیت کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنا۔

پیغمبراکرم فرماتے ہیں : لان یودب احدکم ولدہ خیر لہ من ان یتصدق بنصف صاع کل یوم ۔

اکر آپ میں سے ہر ایک اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرے تو یہ خدا کی راہ میں گندم اور جو کا صدقہ دینے سے بہتر ہے ۔

ایوب بن موسی پیغمبر خدا سے روایت کرتے ہیں : ما نحل والد ولدا نحلا افضل من ادب حسن

والدین کی طرف سے بچوں کے لئے نیک ادب اور اچھی تربیت سے بڑھ کرکوئی ہدیہ نہیں ہے

امام علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسین علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: والادب خیر میراث

ادب بہترین میراث ہے ( والدین کی طرف سے بچوں کے لئے )

انسان کے کمال میں تربیت کا اثر

حضرت علی علیہ السلام ، پیغمبراکرم سے نقل کرتے ہیں: یعرف المؤ من منزلتہ عنـد ربـہ بأن یربى ولدا لہ كافیا قبل الموت

خدا کی نگاہ میں مومن کی قدر و منزلت بچوں کی اچھی تربیت کرنے میں ہے تاکہ مرنے سے پہلے وہ بے فکر ہو جائے

تربیت کرنے کا مناسب ترین وقت

بچپن اورنوجوانی تربیت کے لئے مناسب ترین وقت ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کو اچھا اخلاق اور آداب اسلامی سکھائیں کیونکہ اس ٹائیم میں بچہ صرف اپنے ماں باپ اور گھر کے ماحول سے واقف ہوتا ہے یعنی اس کے کان اور آنکھیں بندھی ہوئی ہیں آپ جیسے چاہیں اس کی روحی و فکری تربیت کر سکتے ہیں اس وقت میں بچے کی روح انتہائی حساس ہوتی ہے یعنی ایک کیمرے کی مانند جو اسے دکھاتے جائیں گے وہ فلم بناتا جائے گا پھر بتدریج اس کو بڑھاتا جائے گا اگر اس دوران والدین بچے کی تربیت میں سستی کریں اور خود بچوں کے لیے نمونہ عمل نہ بنیں تو صرف روک ٹوک پر اکتفاء کریں تو بچے بجائے اچھا اثر لینے کے برا اثر لیں گے گھر سرے باہر برے اخلاق کا مظاہرہ کریں گے ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کووصیت فرماتے ہیں: وانما قلب الحدث کالارض الخالیہ ما القی فیھا من شی قبلتہ فبادرتک بالادب قبل ان یقسمو قلبک ویشتغل لبک

بےشک نوجوان کا دل خالی زمین کی طرح ہے جو آمادہ ہے کہ اس میں بیج بویا جائے پس اس میں اپنی تربیت کا بیج بوئیں قبل اس کے کہ زمین سخت ہو جائے اور اس کا ذہن دوسری چیزوں میں مشغول ہو جائے

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : یا بنی ان تادیت صغیرا انتفعت بہ کبیرا و من عنی بالادب اھتم بہ ، و من اھتم بہ تکلف علمہ و من تکلف علمہ اشتد لہ طلبہ ومن اشتد لہ طلبہ ، ادرک بہ منفعتہ فاتخذہ ، عادتہ ، و ایاک و الکسل منہ ، و الطلب بغیرہ

اے میرے بیٹے : اگر بچپن میں ادب سیکھا تو جوانی میں اس سے فائدہ اٹھاو گے ۔ اے بیٹے : جو بھی ادب و معرفت چاہتا ہے اس کی تلاش بھی کرتا ہے

بچے کے کان میں آذان و اقامت کہنے کی اہمیت و فضیلت

ایک ایسا مستحب عمل کہ جس کی پیغمبر اسلام اور آئمہ اہل بیت نے سب سے زیادہ تاکید کی ہے وہ یہ ہے کہ ماں باپ کو چاہیے بچے کی ولادت کے بعد سب سے پہلے بچے کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں کیونکہ اسکے بچے پر روحانی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو بچے کو کئی قسم کی آفات و بلییات سے محفوظ رکھتے ہیں ۔

1 شیطان بچے سے دور رہتا ہے

سکونی امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا : من ولد لہ مولود فلیوذن فی اذنہ الیمنی باذان الصلوۃ ، ولیقم فی اذنہ الیسری فانھا عصمۃ من الشیطان الرجیم[1] ۔

جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اسکو چاہیے کہ بچے کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہے کیونکہ یہ عمل بچے کو شیطاں کے شر سے محفوط رکھتا ہے ۔

ایک اور مقام پر امام علی پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں : فان ذلک عصمۃ من الشیطان الرجیم و الافزاع لہ [2] ۔

بچے کے کان میں آذان و اقامت کہنا بچے کو شیطان سے محفوظ رکھتا ہے اور بچہ خواب میں بھی نہیں ڈرتا ۔

پیغمبر اسلام حضرت علی سے فرماتے ہیں : یا علی اذا ولد لک غلام او جاریۃ فاذن فی اذنہ الیمنی و اقم فی الیسری ، فانہ لا یضرہ الشیظان ابدا[3] ۔

اے علی ۔ اگر آپ کا بیٹا یا بیٹی پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں کیونکہ اس سے شیطان کبھی بھی بچے کو نقصان نہیں پہنچا پائے گا ۔

امام حسین پیغمبر اسلام سے نقل فرماتے ہیں: من ولد لہ مولود فاذن فی اذنہ الیمنی ، واقام فی اذنہ الیسری لم تضرہ ام الصبیان[4] ۔

جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کو چاہیے کہ بچے کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہے کیونکہ یہ عمل بچے کو ام الصبیان [5] سے محفوط رکھتا ہے ۔

2 پیغمبراسلام کا امام حسن و امام حسین کے کان میں آذان دینا

ابو رافع کہتا ہے ان النبی اذن فی اذن الحسن و الحسین حین ولدا و امر بہ[6] ۔

پیغمبر اسلام نے امام حسن اور امام حسین کے کان میں آذان کہی اور ایسا کرنے کا حکم فرمایا ۔

3 امام کاظم کا اپنے بیٹے امام رضا کے کان میں آذان کہنا

علی بن میثم اپنے باپ سے نقل کرتا ہے

قال سمعت امی تقول : سمعت نجمہ ام الرضا تقول فی حدیث : لما وضعت ابنی علیا دخل الی ابوہ موسی بن جعفر فناولتہ ایاہ فی خرفۃ بیضاء فاذن فی اذنہ الیمنی ، و اقام فی الیسری ، و دعا بماء الفرات فحنکہ بہ ، ثم ردہ الی فقال : خذیہ ؛ فانہ بقیۃ اللہ فی ارضہ[7] ۔

میں نے اپنی ماں سے سنا ہے وہ کہتی ہیں : امام رضا کی والدہ نجمہ کہتی ہیں کہ جب امام رضا پیدا ہوئے ابھی سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے کہ امام کاظم کمرے میں داخل ہوئے اور اپنے بیٹے کو ہاتھوں پہ اٹھایا دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی پحر آب فرات طلب کیا اور آب فرات کی گھٹی دی اور مجھے واپس دیتے ہوئے فرمایا بقیۃ اللہ زمین پر ہیں۔

بچے کا نام رکھنے کا حکم

جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا نام رکھا جاتا ہے اور یہ سنت ہے والدین کو چاہیے بچے کا اچھا نام انتخاب کریں کیونکہ ساری زندگی بچے کو اسی نام سے پکارا جانا ہے

سنت نام گذاری

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : لا یُولَد لَنا وَلَدٌ اِلّا سَمَّیناهُ مُحَمَّداً،فَاِذا مَضی سَبعَةُ اَیامٍ فَاِن شِئنا غَیِّرنا وَاِلّا تَرَکنَا [8]

ہم اپنے ہر بچے کا نام محمد رکھتے ہیں پھر ساتویں دن اگر نام تبدیل کرنا ہو تو تبدیل کرتے ہیں وگرنہ محمد ہی رہنے دیتے ہیں

اچھا نام اور حق اولاد

حق الولد علی الوالد ان یحسن اسمہ و یحسن ادبہ [9]

والد پر بچے کا حق ہے کہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : قال رسول اللہ ان اول ما ینحل احدکم ولدہ الاسم الحسن ، فلیحسن احدکم اسم ولدہ[10]

پیغمبر فرماتے ہیں بہترین ہدیہ جو آپ اپنے بچے کو دیتے ہیں وہ اچھا نام ہے پس اپنے بچوں کیلئے اچھے نام انتخاب کریں

موسی بن بکر حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں : اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن ، فلیحسن احدکم اسم ولدہ [11]

مرد کی پہلی نیکی اور احسان بچے پر یہ ہے اسکا اچھا سا نام منتخب کریں پس اپنے بچوں کے لئے بہتریں ناموں میں سے انتخاب کریں۔

قیامت کے دن اچھے نام کی تاثیر

وفی الخبر ان رجلا یؤتی فی قیامہ و اسمہ محمد ، فعقول اللہ لہ : ما استحییت ان عصیتنی و انت حبیبی ، و انا استحیی ان اعذبک و انت سمیی حبیبی [12]

روایت میں آیا ہے قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا جس کا نام محمد ہو گا اللہ تعالی کی طرف سے اسے خطاب کیا جائے گا کہ تجھے شرم نہ آئی میری معصیت کرتے ہوئے حالانکہ تو میرے حبیب کا ھم نام ہے ، مجھے شرم آتی ہے تجھے عذاب دیتے ہوئے کیونکہ تو میرے حبیب ۔ محمد مصطفی کا ہم نام ہے

امام صادق علیہ السلام اپنے اجداد سے نقل فرماتے ہیں : اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد : الا لیقم کل من اسمہ محمد ، فلیدخل الجنۃ لکرامۃ سمیہ محمد [13]

قیامت کے دن ایک ندا دی جائے گی کہ جس کا نام محمد ہے وہ محمد مصطفی کے ھم نام ہونے کے صدقے سیدھا جنت میں چلا جائے

روز قیامت انسانوں کو ان کے ناموں سے پکارا جائے گا

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: استحسنوا اسماءکم فانکم تدعون بھا یوم القیامۃ : قم یا فلاں بن فلاں الی نورک ، قم یا فلاں بن فلاں لا نور لک [14]

اپنے اچھے نام رکھو کیونکہ قیامت کے دن آپ کو اپنے ناموں سے پکارا جائے گا، کہ اے فلان بن فلاں اٹھو اور اپنے نور کی جانب چلو ۔۔۔

بیٹوں کیلئے بہترین نام

ابن عمر پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں : احب الاسماء الی اللہ عبداللہ و عبدالرحمن [15]

اللہ تعالی کے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں

ایک شخص نے اپنے بچے کے نام کے بارے میں امام صادق علیہ السلام سے مشورت کی تو امام نے اسے فرمایا : سمہ اسما من العبودیہ فقال : ای الاسماء ھو قال : عبد الرحمن [16]

خدا کی بندگی والے ناموں میں سے ایک رکھ لو تو اس نے پوچھا کون سا رکھوں تو امام نے فرمایا عبد الرحمن رکھ لو۔

پیغمبر اکرم سے روایت نقل ہے آپ نے فرمایا: من ولد لہ اربعۃ اولاد و لم یسمہ احدھم باسمی فقد جفانی [17]

جس کے چار بیٹے ہوں اور ایک کا نام بھی محمد نا ہو تو اس نے میرے حق میں جفا کی ہے ۔

ابو ہارون کہتا ہے میں مدینہ میں امام صادق علیہ السلام کا ہمنشین تھا کچھ دن امام علیہ السلام نے مجھے نہ دیکھا کچھ دن بعد جب میں امام کے پاس گیا تو امام نے فرمایا : لم ارک منذ ایام یا ابا ھارن فقلت : ولد لی غلام ۔ فقال : بارک اللہ لک ، فما سمیتہ ؟ قلت: سمیتہ محمدا۔ فأقبل بخدہ نحو الارض و ھو یقول: محمد ، محمد ، محمد حتی کان علصق خدہ بالارض ، ثم قال : بنفسی و بولدی و باھلی و بأبوی و باھل الارض کلھم جمیعا الفداء لرسول للہ ، لا تسبہ ولا تضربہ ولا تسیء الیہ ، و اعلم أنہ لیس فی الرض فیھا اسم مھمد الا و ھی تقدس کل یوم [18]

اے ابو ہارون کچھ دن سے آپ کو نہیں دیکھا میں نے عرض کی مولا خدا نے مجھے بیٹا دیا ہے ، فرمایا مبارک ہو بچے کا نام کیا رکھو گے ؟ میں نے عرض کی محمد مولا نے جیسے ہی محمد کا نام سنا تھوڑا سا جھکے اور فرمایا محمد ، محمد ، محمد پھر فرمایا میں میرے ماں باپ بیوی بچے بلکہ روئے زمین پر رہنے والے سب لوگ رسول اللہ پر قربان جائیں ، کبھی اپنے بچے کو گالی نہ دینا اور اس سے بد سلوکی بھی نہ کرنا

ابو امامہ روایت کرتے ہیں آپ (ص) نے فرمایا: من ولد لہ مولود ذکر فسمی محمدا حبا و تبرکا باسمی ، کان ھو و مولودہ فی الجنہ [19]

جس کسی کا بیٹا پیدا ہو اور وہ مجھ سے محبت اور تبرک کیلئے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بچہ دونوں جنت میں جائیں گے

جابر ،پیغمبراکرم سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا: فما من بیت فیہ اسم محمد الا اوسع اللہ علیھم الرزق ، فاذا سمیتموہ فل تضربوہ و لا تشتموہ [20]

جس گھر میں نام محمد ہو خداوند متعال اس گھر میں رزق کو بڑھا دیتا ہے پس اگر اپنے بچے کا نام محمد رکھا ہے تو اسے مارنا بھی نہیں اور اسےگالی بھی مت دینا ۔

نام محمد، خیروبرکت ہے

امام رضا فرماتے ہیں : البیت الذی فیہ محمد یصبح اھلہ بخیر و یمسون بخیر [21]

جس گھر میں محمد کا نام ہو اس گھر میں رہنے والوں پر خیر و برکت رہتی ہے

پیغمبراکرم نے فرمایا: اذاسمیتم الولد محمد فاکرموہ ، و أوسعوا لہ فی المجلس ، ولا تقبھوا لہ وجھا [22]

اگر اپنے بچے کا نام محمد رکھو تو اس کا احترام کرو اور اپنی محفلوں میں اسے جگہ دو اور اس کے کاموں کو نا پسند مت کرو

انس بن مالک نقل کرتے ہیں پیغمبر اکرم نے فرمایا : کیسے اپنے بچوں کا نام محمد رکھتے ہواور پھر انہیں نفریں کرتے ہو؟

اسحاق بن عمار کہتے ہیں میں امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی خداوند متعال نے مجھے بیٹا عطا کیا ہےتو امام علیہ السلام نے فرمایا : ألا سمیتہ محمد قلت : قد فعلت ۔ قال: فلا تضرب محمدا ولا تشتمہ جعلہ اللہ قرۃ عین لک فی حیاتک و خلف صدق بعدک [23]

کیا تم نے اپنے بچے کا نام محمد نہیں رکھا ؟ میں نے عرض کی مولا محمد ہی رکھا ہے تو مولا نے فرمایا محمد کو نہ مارنا اور نہ گالی دینا کیونکہ جب تک تم زندہ ہو خدا تیرے لیئے آنکھوں کا نور قرار دے گا اور تیرے مرنے کے بعد تیرا نیک و صادق جانشین قرار دے گا ۔

نام علی وآئمہ اہل بیت علیہم السلام

سلیمان جعفری کہتا ہے سمعت اباالحسن یقول: لا تدخل فقر بیتا فیہ اس محمد او أحمد أو علی أو الحسن أو الحسین أو جعفر أو طالب أو عبداللہ أو فاطمہ من النساء [24]

میں نے ابوالحسن سے سنا آپ نے فرمایا : جس گھر میں محمد،احمد،علی، حسن،حسین ،جعفر،طالب،عبداللہ،یا فاطمہ نام ہو اس گھر میں کبھی فقر و تنگدستی داخل نہیں ہو سکتی۔

پیغمبروں کے نام

پیغمبراکرم نے فرمایا : اذا کان اسم بعض أھل البیت اسم نبی لم تزل البرکۃ فیھم [25]

اگراہل خانہ میں سے کسی کا نام کسی نبی کے نام پر ہو تو ان میں خیر و برکت رہتی ہے ۔

اصبغ بن نباتہ امام علی سے اور امام علی رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ما من اھل بیت فیھم اسم نبی الا بعث اللہ عزوجل الیھم ملکا عقدسھم بالغداۃ والعشی [26]

جس گھر میں اہل خانہ میں سے کسی کا نام کسی نبی کے نام پر ہو گا تو خدا اس گھر پر ایک فرشتہ مقرر کر دے گا جو صبح و شام ان پر تقدیس کرے گا۔

ابو وہب جسمی پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں : تسموا بأسماء الأبیاء وأحب الأسماء الی اللہ عبداللہ و عبدالرحمن ۔۔۔ و أقبحھا حرب و مرۃ[27]

اپنے لئے پیغمبروں کے نام انتخاب کرو۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ نام عبداللہ و عبدالرحمن ہیں اور برے نام حرب و مرہ ہیں۔

فرعونوں اور بادشاہوں کے نام

عمر نقل کرتے ہیں کہ ہمسر پیغمبر اکرم جناب ام سلمی کے بھائی کا بیٹا پیدا ہوا تو اسکا نام ولید رکھا گیا جب پیغمبر اکرم کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا : سمیتموہ باسم فراعنتکم غیروا اسمہ ، فسموہ عبداللہ[28] ۔

بچے کا نام اپنے فرعونوں کے ناموں پہ رکھ دیا ہے اسکا نام چینج کرو اور عبداللہ رکھو

ابوھریرہ سے نقل ہے کہ اسی ماجرہ کے بارے میں رسول اللہ سے روایت نقل ہے آپ نے فرمایا : سمیتموہ بأسامی فراعنتکم لیکونن فی ھذہ الامۃ رجل یقال لہ الولید وھو شر علی ھذہ الأمۃ من فرعون علی قومہ[29] ۔

بچے کا نام اپنے فرعونوں کے ناموں پہ رکھ دیا ہے ، اگاہ ہو جاو اس امت میں ایک ایسا شخص آنے والا ہے جس کا نام ولید ہو گا اور اس کی برائیاں اور بدکرداریاں آپ کے فرعونوں سے کہیں زیادہ ہوں گی ۔

بچوں کے نام دشمنان اہل بیت پر رکھنے سے شیطان خوش ہوتا ہے

جابر روایت کرتا ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے ایک نوجوان سے فرمایا : مااسمک قال: محمد ۔ قال : بم تکنی قال : ابو جعفر : لقد احتظرت من الشیطان احتظارا شدیدا ۔ ان الشیطان اذا سمع منادیا ینادی : یامحمد او یا علی ذاب کما یذوب الرصاص حتی اذا سمع منادیا ینادی باسم عدو من اعدائنا ۔ اھتز و اختال [30] ۔

آپ کا نام کیا ہے ؟ کہا محمد ۔ فرمایا : آپ کی کنیت کیا ہے؟ کہا علی ۔ تو حضرت نے فرمایا : آپ نے اس کنیت سے اپنے کو شیاطین کے شر سے محفوظ کر لیا ہے ۔ جب شیطان سنتا ہے کہ محمد یا علی کا نام پکارا گیا ہے پریشان ہو جاتا ہے اور جب ہمارے دشمنوں کا نام پکارا جائے تو خوشحال ہو جاتا ہے ۔

پیغمبراکرم ناپسندیدہ ناموں کو تبدیل کرنے کا حکم فرماتے تھے

مفصلی نقل کرتا ہے بادشاہ روم کی طرف سے ایک مسیحی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو پیغمبر اکرم (ص) نے اس سے پوچھا ما اسمک فقلت: اسمی عبدالشمس ، فقال لی: بدل اسمک فأنی سمیتک عبدالوھاب[31]،

آپ کا کیا نام ہے ؟ عرض کی عبدالشمس تو آپ ص نے فرمایا : اپنا نام تبدیل کرو میں نے آپ کا نام عبدالوھاب رکھ دیا ہے۔

سھل بن سعد کہتا ہے کان رجل من اصحاب النبی اسمہ أسود ، فسماہ رسول اللہ أبیض [32]

پیغمبر کے ایک صحابی کا نام اسود (سیاہ) تھا تو آپ(ص) نے اسکا نام تبدیل کر کے ابیض (سفید) رکھ دیا ۔

عتبہ بن سلمی کہتے ہیں : کان النبی اذا أتاہ الرجل و لہ اسم لا یحبہ حولہ[33] ۔

اگر کوئی شخص پیغمبر کے پاس آتا اور آپ ص کو اس کا نام اچھا نہ لگتا تو آپ ص اس کا نام چینج کر دیتے ۔

حسین بن علوان امام صادق اور امام اپنے اجداد سے نقل فرماتے ہیں۔

ان رسول اللہ کان یغیر الاسماء القبیحہ فی الرجال و البلدان [34]

جن بچوں اور شہروں کے نام اچھے نہیں ہوتے تھے آپ (ص) انہیں چینج کر دیتےتھے ۔

شہداء کے نام اور یادیں زندہ رکھنا

ابن قداح امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے : قال جاء الرجل الی نبی فقال : ولد لی غلام فماذا أسمہ قال : أحب الاسماء الی حمزہ[35]

ایک شخص پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ میرا بیٹا ہوا ہے اس کا نام کیا رکھوں ؟ تو آپ ص نے فرمایا میرا پسندیدہ نام حمزہ ہے ۔

ختنہ کرنے کا بیان

ختنہ کرنا ایک ایسی سنت ہے جس کی تاکید پیغمبر اسلام اور تمام آئمہ نے فرمائی ہے ولادت کے ساتویں روز بچے کا ختنہ کرنا چاہیے ساتویں روز ختنہ کرنے میں بہت ساری حکمتیں پوشیدہ ہیں ۔ امام علی پیغمبر اسلام سے نقل کرتے ہیں : اختتنوا اولادکم یوم السابع فانہ اطھر و اسرع نباتا للحم و اروح للقلب [36]۔

اپنے بچوں کا ولادت کے ساتویں روز ختنہ کریں کیونکہ یہ عمل بچے کیلیے پاکیزہ تراور بچے کی جسمانی نشونما میں جلدی اور بچے کی روح کی تراوت کا سبب بنتا ہے ۔

علی علیہ السلام فرماتے ہیں : اختتنو اولادکم یوم السابع ، ولا یمنعکم حر و لا برد فانہ طھر للجسد[37] ۔

اپنے بچوں کا ولادت کے ساتویں روز ختنہ کریں اور کبھی بھی گرمی یا سردی آپ کو روکنے نہ پائے کیونکہ ختنہ جسم کی طھارت اور پاکیزگی ہے ۔

نومولود کا سر مونڈوانے کا حکم

ولادت کے ساتویں روز بچے کا سر منڈوانا سنت ہے مان باپ کو چاہیے ساتویں دن بچے کا سر منڈوائیں مرحوم شیخ حر عاملی صاحب وسائل الشیعہ نے 15 ویں جلد میں تقریبا تیس روایتیں ذکر کرتے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ساتویں روز بچے کا سر منڈوانا سنت موکد ہے ۔ امام صادق اپنے اجداد سے نقل کرتے ہیں : ان رسول اللہ امر بحلق شعر الصبی الذی یولد بہ المولود عن راسہ یوم سابعہ [38]۔

رسول اکرم نے دستور فرمایا کہ ولادت کے ساتویں روز بچے کا سر منڈوا دو ۔

علی بن جعفر کہتے ہیں میں نے اپنے بھائی امام موسی کاظم سے ساتویں دن سر منڈوانے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : اذا مضی سبعہ ایام فلیس علیہ حلق[39] ۔

اکر سات روز گزر جائیں تو پھر سر منڈوانے کا فائدہ نہیں ۔

بالوں کے برابر صدقہ دینا

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : وحلقت فاطمہ رووسھما – الحسن و الحسین – وتصدقت بوزن شعرھما فضۃ [40]۔

سیدہ فاطمہ نے اپنے دونوں بچوں – امام حسن و امام حسین – کے سر منڈوائے تو بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ دی۔

عقیقہ کرنے کا حکم

بچے کی ولادت کے ساتویں روز بچے کا سر منڈوانے کے بعد باپ خدا کی راہ میں جانور قربان کرے اور فقیروں میں اپنے دوستوں میں اور ھمسایوں میں تقسیم کرے ، اس سنت اسلامی کو عقیقہ کہتے ہیں ۔ اسلام میں عقیقہ کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اور یہ ایسا مستحب ہے کہ جو بچے کے بالغ ہونے تک باپ کے ذمہ ہے اور بالغ ہونے کے بعد خود بچے کے ذمہ باقی رہتا ہے اور یہ اتنی زیادہ تاکید ان حکمتوں کی وجہ سے ہے جو عقیقہ میں چھپی ہوئی ہیں ۔

1 بیمہ سلامتی

سمرہ ،پیغمبر اکرم سے نقل کرتا ہے ،آپ نے فرمایا : کل غلام رھینۃ بعقیقۃ[41] ۔

ہر بچہ عقیقہ سے بیمہ ہوتا ہے ۔

امام صادق رسول خدا سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا : کل مولود مرتھن بعقیقہ فکہ والداہ او ترکاہ [42] ۔

ہر مولود کی سلامتی اس کے عقیقہ کرنے میں ہے اب والدیں کے ذمہ ہے کہ وہ بچے کا عقیقہ کرتے ہیں یا نہیں ۔

2 عقیقہ روز ہفتم

امام صادق فرماتے ہیں : الغلام رھن بسابعۃ بکبش یسمی فیہ یعق عنہ [43] ۔

ھر بچے کی سلامتی جانور قربان کرنے کے ساتھہ جڑی ہے جو اس کی طرف سے عقیقہ کیا جاتا ہے ۔

پیغمبر اسلام فرماتے ہیں : اذا کان یوم سابعہ فاذبح فیہ کبشا [44] ۔

بچہ جب سات دن کا ہو جائے تو ایک کبش ذبح کریں

3 پیغمبر نے حسنین کا عقیقہ کیا

امام صادق فرماتے ہیں : سمی رسول اللہ حسنا و حسینا یوم سابعھما و شق من اسم الحسن و الحسین و عق عنھما شاۃ شاۃ [45] ۔

پیغمبر اسلام نے ساتویں روز حسن و حسین کا نام رکھا نام حسین حسن سے لیا گیا ہے اور ہر ایک کیلئے گوسفند عقیقہ کیا ۔

4 سیدہ فاطمہ نے حسنین کا عقیقہ کیا ۔

امام صادق فرماتے ہیں : عقت فاطمہ عن ابیھا صلوات اللہ علیھما و حلقت رووسھما فی الیوم السابع [46] ۔

فاطمہ الزہراء نے ساتویں روز اپنے دونوں بچوں کا عقیقہ کیا اور ان کے سر منڈوائے ۔

5 امام باقر کا اپنے بچوں کا عقیقہ کرنا

ولد لابی جعفر غلامان ، فامر زید بن علی ان یشتری لہ جزورین للعقیقہ [47]۔۔۔

امام باقر کے دو بچے ہوئے تو امام نے زید بن علی کو حکم دیا کہ دو اونٹ عقیقہ کے لیے لے آو ۔

6 امام حسن عسکری کا امام زمانہ کے لیے عقیقہ کرنا ۔

ابراھیم بن ادریس کہتا ہے وجہ الی مولای ابو محمد ۔۔۔ بکبشین و کتب : بسم اللہ الرحمن الرحیم عق ھین الکبشین عن مولاک و کل ھناک اللہ و اطعم اخوانک ففعلت[48] ۔۔۔۔۔ ،

میرے مولا امام حسن عسکری نے دو گوسفند میرے پاس بھیجے اور ساتھہ لکھہ بھیجا ، بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ دو گوسفند اپنے مولا امام زمان کے لیئے عقیقہ کرو ان کا گوشت کھاو اور اپنے بھائیوں کو بھی کھلاو تو میں نے ایسا ہی کیا ۔

7 بیٹے اور بیٹی کا عقیقہ ایک ہی ہے

پیغمبر اسلام فرماتے ہیں : العقیقۃ شاۃ من الغلام و الجاریۃ سواء [49] ۔

عقیقہ ایک گوسفند ہے اور اس میں بیٹی بیٹے کا کوئی فرق نہیں

8 عقیقہ یا اس کے برابر صدقہ دینا ۔

عبداللہ بن بکر کہتے ہیں کنت عند ابی عبداللہ فجاءہ رسول اللہ عمہ عبداللہ بن علی ، فقال: یقول لک عمک انا طلبنا العقیقہ فلم نجدھا ، فما تری نتصدق بثمنھا ؟ قال: لا ۔ ان اللہ یحب اطعام الطعام و اراقۃ الدماء [50] ۔

امام صادق کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ آپ علیہ السلام کے چچا کا قاصد آیا اور عرض کرنے لگا آپ کے چچا کہتے ہیں : میں عقیقہ کے لیے گوسفند ڈھونڈتا رہا ہوں لیکن نہیں ملا ، آپ کی کیا رائے ہے نقدی پیسے صدقہ کر دوں ؟ تو امام نے فرمایا ایسا نہ کرنا کیونکہ خدا اطعام اور خوں بھانے کو پسند کرتا ہے ۔

محمد بن مسلم کہتا ہے ولد لابی جعفر غلامان ، فامر زید بن علی ان یشتری لہ جزورین للعقیقۃ وکان رمن غلاء ۔ فاشتری لہ واحدۃ و عسرت علیہ الاخری ، فقال لابی جعفر و قد عسرت علی الاخری ، فاتصدق بثمنھا ؟ قال: لا ، اطلبھا فان عزوجل یحب اھراق الدماء و اطعام الطعام [51] ۔

امام باقر کے دو بیٹے ہوئے تو امام نے زید بن علی کو حکم فرمایا کہ عقیقہ کیلئے دو اونٹ لے آو ان دنوں روزحار زرا اطھا نہیں تھا زید بن علی صرف ایک ہی اونٹ خرید سکے ، امام سے عرض کرتا ہے دوسرا اونٹ خریدنا میرے لیے مشکل ہے کیا اونٹ کی قیمت صدقہ کرسکتا ہوں ؟ تو امام نے فرمایا کوشش کرو اونٹ خریدوکیونکہ خدا خون بھانے اور اطعام کرنے کو پسند کرتا ہے

بچے کا نام رکھنے کا حکم

جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا نام رکھا جاتا ہے اور یہ سنت ہے والدین کو چاہیے بچے کا اچھا نام انتخاب کریں کیونکہ ساری زندگی بچے کو اسی نام سے پکارا جانا ہے

سنت نام گذاری

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : لا یُولَد لَنا وَلَدٌ اِلّا سَمَّیناهُ مُحَمَّداً،فَاِذا مَضی سَبعَةُ اَیامٍ فَاِن شِئنا غَیِّرنا وَاِلّا تَرَکنَا [52]

ہم اپنے ہر بچے کا نام محمد رکھتے ہیں پھر ساتویں دن اگر نام تبدیل کرنا ہو تو تبدیل کرتے ہیں وگرنہ محمد ہی رہنے دیتے ہیں

اچھا نام اور حق اولاد

حق الولد علی الوالد ان یحسن اسمہ و یحسن ادبہ [53]

والد پر بچے کا حق ہے کہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : قال رسول اللہ ان اول ما ینحل احدکم ولدہ الاسم الحسن ، فلیحسن احدکم اسم ولدہ[54]

پیغمبر فرماتے ہیں بہترین ہدیہ جو آپ اپنے بچے کو دیتے ہیں وہ اچھا نام ہے پس اپنے بچوں کیلئے اچھے نام انتخاب کریں

موسی بن بکر حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں : اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن ، فلیحسن احدکم اسم ولدہ [55]

مرد کی پہلی نیکی اور احسان بچے پر یہ ہے اسکا اچھا سا نام منتخب کریں پس اپنے بچوں کے لئے بہتریں ناموں میں سے انتخاب کریں

قیامت کے دن اچھے نام کی تاثیر

وفی الخبر ان رجلا یؤتی فی قیامہ و اسمہ محمد ، فعقول اللہ لہ : ما استحییت ان عصیتنی و انت حبیبی ، و انا استحیی ان اعذبک و انت سمیی حبیبی [56]

روایت میں آیا ہے قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا جس کا نام محمد ہو گا اللہ تعالی کی طرف سے اسے خطاب کیا جائے گا کہ تجھے شرم نہ آئی میری معصیت کرتے ہوئے حالانکہ تو میرے حبیب کا ھم نام ہے ، مجھے شرم آتی ہے تجھے عذاب دیتے ہوئے کیونکہ تو میرے حبیب ۔ محمد مصطفی کا ہم نام ہے

امام صادق اپنے اجداد سے نقل فرماتے ہیں : اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد : الا لیقم کل من اسمہ محمد ، فلیدخل الجنۃ لکرامۃ سمیہ محمد [57]

قیامت کے دن ایک ندا دی جائے گی کہ جس کا نام محمد ہے وہ محمد مصطفی کے ہم نام ہونے کے صدقے سیدھا جنت میں چلا جائے

روز قیامت انسانوں کو ان کے ناموں سے پکارا جائے گا

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: استحسنوا اسماءکم فانکم تدعون بھا یوم القیامۃ : قم یا فلاں بن فلاں الی نورک ، قم یا فلاں بن فلاں لا نور لک [58]

اپنے اچھے نام رکھو کیونکہ قیامت کے دن آپ کو اپنے ناموں سے پکارا جائے گا، کہ اے فلان بن فلاں اٹھو اور اپنے نور کی جانب چلو

بیٹوں کیلئے بہترین نام

ابن عمر پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں : احب الاسماء الی اللہ عبداللہ و عبدالرحمن [59]

اللہ تعالی کے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں

ایک شخص نے اپنے بچے کے نام کے بارے میں امام صادق علیہ السلام سے مشورت کی تو امام نے اسے فرمایا : سمہ اسما من العبودیہ فقال : ای الاسماء ھو قال : عبد الرحمن [60]

خدا کی بندگی والے ناموں میں سے ایک رکھ لو تو اس نے پوچھا کون سا رکھوں تو امام نے فرمایا عبد الرحمن رکھ لو۔

پیغمبر اکرم سے روایت نقل ہے آپ نے فرمایا: من ولد لہ اربعۃ اولاد و لم یسمہ احدھم باسمی فقد جفانی [61]

جس کے چار بیٹے ہوں اور ایک کا نام بھی محمد نا ہو تو اس نے میرے حق میں جفا کی ہے ۔

ابو ھارون کہتا ہے میں مدینہ میں امام صادق علیہ السلام کا ہمنشین تھا کچھ دن امام علیہ السلام نے مجھے نہ دیکھا کچھ دن بعد جب میں امام کے پاس گیا تو امام نے فرمایا : لم ارک منذ ایام یا ابا ھارن فقلت : ولد لی غلام ۔ فقال : بارک اللہ لک ، فما سمیتہ ؟ قلت: سمیتہ محمدا۔ فأقبل بخدہ نحو الارض و ھو یقول: محمد ، محمد ، محمد حتی کان علصق خدہ بالارض ، ثم قال : بنفسی و بولدی و باھلی و بأبوی و باھل الارض کلھم جمیعا الفداء لرسول للہ ، لا تسبہ ولا تضربہ ولا تسیء الیہ ، و اعلم أنہ لیس فی الرض فیھا اسم مھمد الا و ھی تقدس کل یوم [62]

اے ابو ھارون کچھ دن سے آپ کو نہیں دیکھا میں نے عرض کی مولا خدا نے مجھے بیٹا دیا ہے ، فرمایا مبارک ہو بچے کا نام کیا رکھو گے ؟ میں نے عرض کی محمد مولا نے جیسے ہی محمد کا نام سنا تھوڑا سا جھکے اور فرمایا محمد ، محمد ، محمد پھر فرمایا میں میرے ماں باپ بیوی بچے بلکہ روئے زمین پر رہنے والے سب لوگ رسول اللہ پر قربان جائیں ، کبھی اپنے بچے کو گالی نہ دینا اور اس سے بد سلوکی بھی نہ کرنا

ابو امامہ روایت کرتے ہیں آپ (ص) نے فرمایا: من ولد لہ مولود ذکر فسمی محمدا حبا و تبرکا باسمی ، کان ھو و مولودہ فی الجنہ [63]

جس کسی کا بیٹا پیدا ہو اور وہ مجھ سے محبت اور تبرک کیلئے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بچہ دونوں جنت میں جائیں گے

جابر پیغمبراکرم سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا: فما من بیت فیہ اسم محمد الا اوسع اللہ علیھم الرزق ، فاذا سمیتموہ فل تضربوہ و لا تشتموہ [64]

جس گھر میں نام محمد ہو خداوند متعال اس گھر میں رزق کو بڑھا دیتا ہے پس اگر اپنے بچے کا نام محمد رکھا ہے تو اسے مارنا بھی نہیں اور اسےگالی بھی مت دینا ۔

نام محمد، خیروبرکت ہے ۔

امام رضا فرماتے ہیں: البیت الذی فیہ محمد یصبح اھلہ بخیر و یمسون بخیر [65]

جس گھر میں محمد کا نام ہو اس گھر میں رہنے والوں پر خیر و برکت رہتی ہے

پیغمبراکرم نے فرمایا: اذاسمیتم الولد محمد فاکرموہ ، و أوسعوا لہ فی المجلس ، ولا تقبھوا لہ وجھا [66]

اگر اپنے بچے کا نام محمد رکھو تو اس کا احترام کرو اور اپنی محفلوں میں اسے جگہ دو اور اس کے کاموں کو نا پسند مت کرو

انس بن مالک نقل کرتے ہیں پیغمبر اکرم نے فرمایا : کیسے اپنے بچوں کا نام محمد رکھتے ہواور پھر انہیں نفریں کرتے ہو؟

اسحاق بن عمار کہتے ہیں میں امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی خداوند متعال نے مجھے بیٹا عطا کیا ہےتو امام علیہ السلام نے فرمایا : ألا سمیتہ محمد؟ قلت : قد فعلت ۔ قال: فلا تضرب محمدا ولا تشتمہ جعلہ اللہ قرۃ عین لک فی حیاتک و خلف صدق بعدک [67]

کیا تم نے اپنے بچے کا نام محمد نہیں رکھا ؟ میں نے عرض کی مولا محمد ہی رکھا ہے تو مولا نے فرمایا محمد کو نہ مارنا اور نہ گالی دینا کیونکہ جب تک تم زندہ ہو خدا تیرے لیئے آنکھوں کا نور قرار دے گا اور تیرے مرنے کے بعد تیرا نیک و صادق جانشین قرار دے گا ۔

اولاد کی شخصیت میں ماں کے دودھ کی تاثیر

ایک اہم نکتہ جس کا ماں کو خصوصی خیال رکھنا چاہیے وہ بچے کو دودھ پلانا ہے اگرچہ بعض لوگ اتنے اہم مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دیتے مگر اسلام نے اس مسئلہ کی طرف خصوصی توجہ دی ہے

بعض اوقات ماں باپ بہت ہی اچھے اور متدین ہوتے ہیں مگر اولاد منحرف ہو جاتی ہے اور جب ہم ان کے منحرف ہونے کی وجہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ ماں کا بچے کو دودھ پلانے میں بے توجہی کرنا ہے اگر ماں دودھ پلانے میں بچے پر تھوڑا زیادہ توجہ اور عنایت کرتی تو ایسا کبھی نہ ہوتا کیونکہ شیر خوارگی کے دوران بچے کی نہ صرف جسمانی گروتھ ہوتی ہے بلکہ روحانی گروتھ بھی ہوتی ہے ماں کے دودھ کے ساتھ ماں کی گفتار اور رفتار بھی بچے پر اثر انداز ہوتی ہے ۔

پیغمبر گرامی اسلام اور آئمہ اہل بیت کی روایات میں ، بچے کو دودھ پلانے کی اہمیت کے بارے میں خصوصی ہدایات ذکر ہوئی ہیں

ماں کا بچے کو دودھ پلانے کا اجر و ثواب

امام صادق ، پیغمبر گرامی اسلام سے روایت کرتے ہیں : أنما امرأۃ دفعت من بیت روجھا شیأمن موضع ترید بہ صلاحا نظراللہ الیھا و من نظراللہ الیہ لم یعذبہ ، فقالت أم سلمہ : یا رسول اللہ ذھب الرجل بکل خیر فأی شیء للنساء المساکین فقال : بلی اذا حملت المرأۃ کانت بمنزلۃ الصائم القائم المجاھد بنفسہ و مالہ و فی سبیل اللہ ، فاذا وضعت کان لھا من الاجر ما لا یدری أحد ما ھو لعظمہ فاذا ارضعت کان لھا بکل مصۃ کعدل عتق محرر من ولد اسماعیل فاذا فرغت من رضاعہ ضرب ملك کریم علی جنبھا و قال : استأنفی العمل فقد غفر لك[68] ۔

جو خاتون شوہر کا گھر مرتب کرنے کیلئے سامان اٹھاتی ہے اور گھر کو مرتب کرتی ہے تو خدا اس پر نظر کرم کرتا ہے اور جس پر خدا کی نظر کرم ہو اس کو کبھی عذاب نہیں ہو سکتا

أم سلمی نے کہا : یا رسول اللہ تمام نیکیاں تو مرد لے گئے عورتوں کے حصے میں بھی کچھ ہے ؟ تو پیغمبر نے فرمایا : ہاں عورت جب حاملہ ہوتی ہے تو وہ اس مجاھد کی مانند ہے جو دن میں روزہ رکھے راتوں کو عبادت کرے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اپنی جان و مال سب کچھ قربان کر دے ، اور جب بچہ پیدا کرتی ہے تو اسکا اتنا ثواب ہے کہ کوئی درک بھی نہیں کر سکتا اور جب بچے کو دودھ دیتی ہے تو ہر دفعہ دودھ پلانے کا ثواب اولاد اسماعیل سے غلام آزاد کرانے کے برابر ہے اور جب دودھ پلا لے تو ایک فرشتہ اس کے پہلو میں آ کے کہتا ہے خدا نے تیرے تمام گناہ معاف کر دیئے ۔

ایک اور روایت میں آپ (ص) حولاء عطارہ کو فرماتے ہیں

فاذا وضعت حملھا و أخذت فی رضاعہ فما یمص الولد مصۃ من لبن أمہ الا کان بین یدیھا نورا ساطعا یوم القیامۃ یعجب من رآھا من الاولین و الآخرین ، و کتبت صائمۃ قائمۃ ۔۔ فاذا فطمت ولدھا ، قال الحق جل ذکرہ : یا أیتھا المرأۃ : قدغفرت لك ما تقدم من الذنوب ، فاستأنفی العمل[69] ۔

پس جب ماں بچے کو جنم دیتی ہے اور اسے اپنا دودھ پلاتی ہے تو جتنی دفعہ بچہ دودھ پیتا ہے تو ہر دفعہ کے بدلے میں قیامت کے دن ایک نور پیدا ہوگا ہر آنے والوں اور گذرے ہوؤں میں سے اس نور کو دیکھے گا تو حیران رہ جائے گا اور ماں کے نامہ اعمال میں روزہ دار اور شب زندہ دار کا ثواب لکھا جائے گا ۔۔۔ اگر ماں بچے کو دوھ نہ پلائے تو خدا کی آواز آتی ہے اے خاتون اپنے بچے کو دودھ پلا میں تیرے سارے گناہ معاف کر دوں گا ۔

بہترین دودھ

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : لیس للصبی لبن خیر من لبن أمہ[70]

بچے کیلئے ماں سے بہتر اور کوئی دودھ نہیں ۔

امام صادق (ع) امیر المؤمنین سے نقل کرتے ہیں : ما من لبن رضع بہ الصبی أعظم برکۃ علیہ من لبن أمہ[71]

بچے کیلئے ماں کے دودھ سے بڑھ کر کوئی دودھ بھی با برکت نہیں ہوسکتا ۔

(جاری ہے )



[1] وسائل الشیعہ ، ج15 ، ص 136 ؛ مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 137 ۔

[2] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 138 ۔

[3] تحف العقول ، ص 14 ۔

[4] کنز العمال ، ج 16 ، ص 457 ۔

[5] یہ ایک بیماری ہے جس میں بچے کو غش پڑتے ہیں ۔ فرھنگ جامع ، ج 1 ، ص 45 ۔

[6] کنز العمال ، ج 16 ، ص 599 ۔

[7] وسائل الشیعہ ، ج15 ، ص 138 ۔

[8] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 127 ۔

[9] کنز العمال ۔ ج 16 ، ص 477 ۔

[10] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 122 ۔

[11] ھمان ، ص 126

[12] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 130 ۔

[13] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 128 ۔

[14] عدۃ الداعی ۔ ص 78 ۔

[15] کنزالعمال ، ج 16 ، ص 417 ۔

[16] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص125 ۔

[17] عدۃ الداعی ۔ ص 77 ۔

[18] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص126 ۔

[19] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص125 ۔

[20] مجموعہ ورام ، ص 26 ۔

[21] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص127 ۔

[22] ھمان ، ج 15 ص 127 ؛ کنزالعمال ، ج 16 ص 418

[23] مکارم الاخلاق ، ص 25 ۔

[24] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص129 ۔

[25] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص129

[26] وسائل الشیعہ ، ج 157 ، ص 125 ۔

[27] کنز العمال ، ج 16 ، ص 200 ۔

[28] کنز العمال ، ج 16 ، ص 592

[29] ھمان ، ج 16 ، ص 430 ۔

[30] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 126 ۔

[31] مستدر الوسائل ، ج 15 ، ص 128 ۔

[32] کنز العمال ، ج 16 ، ص 596 ۔

[33] ھمان ، ص 596 ۔

[34] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 123 ۔

[35] ھمان ، ص 129 ؛ کنز العمال ، ج 16 ، ص 423 ۔

[36] کنز العمال ، ج 167 ، ص 436 ؛ وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 165 ، تھورے فرق کے ساتھہ مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 149 ۔

[37] تحف العقول ، ص 119 ۔

[38] مستدک الوسائل ، ج 15 ، ص 142 ۔

[39] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 169 ۔

[40] ھمان ، ج 15 ، ص 159 ۔

[41] کنزالعمال ، ج 16 ، ص 431 ؛ کتاب العیال ، 1 ، ص 216 و 433 ۔

[42] مستدرک الوسائل ج 15 ، ص 140 ۔

[43] بحار الانوار ، ج 43 ، ص 256 ۔

[44] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 143 ۔

[45] بحار الانوار ، ج 43 ، ص 257 ۔

[46] ھمان ، ص 256 – 257 ۔

[47] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 146 ۔

[48] محمد جواد طبسی ، حیاۃ الامام العسکری ، ص 80 ۔

[49] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 142 ۔

[50] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 146 ۔

[51] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 146 ۔

[52] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 127 ۔

[53] کنز العمال ۔ ج 16 ، ص 477 ۔

[54] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 122 ۔

[55] ھمان ، ص 126

[56] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 130 ۔

[57] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 128 ۔

[58] عدۃ الداعی ۔ ص 78 ۔

[59] کنزالعمال ، ج 16 ، ص 417 ۔

[60] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص125 ۔

[61] عدۃ الداعی ۔ ص 77 ۔

[62] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص126 ۔

[63] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص125 ۔

[64] مجموعہ ورام ، ص 26 ۔

[65] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص127 ۔

[66] ھمان ، ج 15 ص 127 ؛ کنزالعمال ، ج 16 ص 418

[67] مکارم الاخلاق ، ص 25 ۔

[68] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 175 ۔

[69] مستدرک الوسائل م ج 15 ، ص 156 ۔

[70] ھمان ، ج 15 ، ص 1567 نقل از صحیفہ الرضا ، ص 42

[71] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 175 ۔




حکومت امام علی ، جغرافیہ اور نمائندے (گورنر)


حکومت امام علی ، جغرافیہ اور نمائندے (گورنر)

اسد عباس اسدی

گلستان زہراء کپور والی سیالکوٹ

مقدمہ

رسول اللہ کی رحلت کے 25 سال بعد حضرت علی علیہ السلام نے اہل حجاز ، مصر، بصرہ، کوفہ اور دیگر مناطق اسلامی کے عوامی نمائندوں کے اصرارکی وجہ سے خلافت اور مسلمانوں پر حکمرانی قبول فرمائی ۔مدینہ منورہ نے 25 ذی الحجہ بروز جمعہ 35 قمری کو انتہائی خوبصورت منظر دیکھا، اس دن تمام مصری و عراقی مہاجرین، انصار، جنگجوؤں اور انقلابیوں نے بیعت کی علامت کے طور پر پیغمبر اسلام کے چچازاد بھائی اور داماد حضرت علی بن ابی طالب کی بیعت کیلئے ہاتھ بڑھایا [1]۔امام علی (ع) نے اسلامی معاشرے کی ذمہ داری اس وقت سنبھالی جب معاشرہ مناطق اسلامی کے حکمرانوں کے مظالم اور مالی بدعنوانیوں سے شدید متاثر تھا۔ اس وقت اسلامی معاشرہ خاص طور پر دو بڑے مسائل سے دوچار تھا: نمبر ایک کرپشن یعنی حکام کی مالی بدعنوانیاں ، نمبر دونالائق اور نااہل حکمرانوں کی موجودگی۔ اس لیے امام علی علیہ السلام کی حکومت کے سب سے اہم پروگرام ان دو معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف جنگ کرنا تھا۔ حضرت علی (ع) نے بیعت کے دوسرے ہی دن اپنے پہلےخطبہ میں، بیت المال کی تقسیم پر اعتراض کیا، جسے حکمرانوں اور ان کے حواریوں میں بغیر حساب کتاب کے تقسیم کیا جارہاتھا اور اس سے طبقاتی فرق پروان چڑھ رہا تھا۔

فرمایا اے لوگو! میں تمہیں پیغمبر اسلام کے بتائے ہوئے روشن راستے پر چلاؤں گا اور اپنے احکام کو برابری کی بنیادوں پر جاری کروں گا ، میں جو کہتا ہوں اسے انجام دو اور جس سے منع کرتا ہوں اس سے بچو۔ میں جب ایسے لوگوں کو جو کہ دنیا کی رنگینیوں میں کھو چکے ہیں انہیں ان کے شرعی حقوق سے آگاہ کروں تو وہ مجھ پر تنقید نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ ابو طالب کے بیٹے نےہمیں ہمارے حقوق سے محروم کر دیا ہے ۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کی وجہ سے دوسروں سے افضل ہے، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ فضیلت کا معیار کچھ اور ہے۔ افضل وہ ہے جو خدا اور رسول کی دعوت پر لبیک کہے اور اسلام قبول کرے۔ اس صورت میں تمام لوگ حقوق کے معاملے میں دوسروں کے برابر ہوں گے۔ تم خدا کے بندے ہو اور مال خدا کا مال ہے اور تم میں برابر تقسیم ہوگا ۔ کوئی بھی دوسرے سے برتر نہیں ہے۔ کل بیت المال تمہارے درمیان تقسیم ہو گا اور اس میں عرب اور عجمی برابر ہوں گے[2]۔ دوسری طرف امام علی علیہ السلام نے ایک دلیرانہ سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے حضرت عثمان کے لگائے گئے گورنروں کو برطرف کرنے کا حکم دیا اور ان کی جگہ بلاد اسلامی کی حکمرانی کے لیے صحابہ اور تابعین میں سے قابل اور ممتاز لوگوں کو مقرر کیا۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ خلافت کے آغاز سے لے کر اب تک امام کی اہم ترین حکومتی پالیسیوں میں سے ایک اسلامی حکومتی ڈھانچے میں کرپشن اور نااہل لوگوں کے خلاف جنگ تھی۔ ہم اس تحریر میں امام علیہ السلام کے کارندوں کا تعارف ، ان کی حکومت کے علاقوں کی شناخت پر بحث کریں گے اور امام علیہ السلام کی نا اہل اور ظالمین کے ساتھ مبارزہ آرای کے چند نمونے ذکر کریں گے۔
گورنر امام على(ع) کی نگاہ میں

قرآن کریم نے مختلف آیات میں امانت داری ، ہمدردی، اور اہلیت و لیاقت کو ایک حاکم (گورنر) کی خصوصیات میں سے ذکر کیا ہے[3] ، امیر المومنین نے قرآن کی تعلیمات کے عین مطابق ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جو درج بالا خصوصیات کے حامل تھے۔ امام علی علیہ السلام نے مالک اشتر کے عہد نامہ میں ایک اچھے حاکم ( گورنر) کی چند خصوصیات کی طرف اشارہ کیاہے مثلا بہترین سابقہ ، ناانصافی کا سبب نہ بننا،بہترین تجربہ ، اسلام اور اس کے مسائل میں زیادہ متقی ہونا، لالچی نہ ہونا۔ خوشامد پسند نہ ہونا وغیرہ [4]۔

امام علیؑ منصب خلافت کو فرض اور امانت سمجھتے تھے، نہ کہ اقتصادی اور سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ، نہج البلاغہ کے پانچویں خط میں آذربائیجان کےنمائندہ ( گورنر) اشعث بن قیس کو فرماتےہیں: حکومت آپ کے لیے روٹی اور پانی کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ آپ کی گردن پر امانت ہے، اور آپ کو اپنے اعلیٰ افسران کا فرمانبردار ہونا چاہیے[5]۔ سرکاری اہلکاروں کے لیے امیر المومنین کا ایک اہم ترین پروگرام، ان کے رویے اور اعمال کی مکمل اور درست نگرانی تھا۔ آپ علیہ السلام عہد نامہ مالک اشتر میں فرماتے ہیں: دیانتدار جاسوسوں کو بھیج کر کارکنوں کے کام کی نگرانی کریں، کیونکہ مسلسل اور خفیہ معائنہ انہیں قابل اعتماد ہونے اور اپنے ماتحتوں کو برداشت کرنے کی ترغیب دے گا، اپنے اعوان اور انصار پر کڑی نظر رکھیں۔ اگر ان میں سے کوئی غداری کا ارتکاب کرتا ہے اور آپ کے خفیہ ایجنٹ متفقہ طور پر رپورٹ کرتے ہیں تو اس گواہی سے مطمئن ہو جائیں اور انہیں جرم کےمطابق سزا دیں تاکہ دوسروں کے لیے مثال بن جائے[6]۔ابن ابی الحدید نہج البلاغہ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ امیر المومنین انتقادات و پیشنهادات اور شکایات کا گھر تھے اور لوگ اپنی شکایات اس گھر میں جمع کرواتے تھے [7]اس طرح تمام شعبوں میں مختلف لوگوں کی مختلف آ راء امام علیہ السلام تک پہنچتی تھیں اور آپ علیہ السلام ان کےحل کیلئے ہدایات جاری فرماتے تھے۔

حکومت امام على(ع) کی جغرافیاى حدود

اگر حکومت امام علی علیہ السلام کی جغرافیائی حدود کی بات کی جائے تو ہم اس پورے علاقہ کو پانچ اہم حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں البتہ یاد رہے کہ امام کے زمانے میں داخلی جنگوں کی وجہ سے فتوحات کا سلسلہ رک گیا تھا اور یہ جغرافیائی حدود حضرت عثمان کے دور کی ہیں :

1 ۔جزیرہ نما عرب کی ریاست۔

2 ۔ مصر۔

3 ۔عراق۔

4 ۔ ایران۔

5 ۔ شام ۔

لازم بذکر ہے کہ شام کا علاقہ معاویہ کی بغاوت و سرکشی کی وجہ سے حضرت علی کی حکومت کے علاقے میں شامل نہیں ہوا اگرچہ امام علیہ السلام نے کوشش کی اور معاویہ کے ساتھ جنگ صفین بھی لڑی لیکن شام کا علاقہ معایہ کے زیر اثر رہا اور اب ہم ان پانچ خطوں کی جغرافیائی حدود کو اختصار سے بیان کریں گے۔
شبه جزیره عربستان کا علاقہ

جزیرہ نما عرب جو کہ اسلام کی اصل ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں فتح ہوا ، عہد نبوی اور اس کے بعد کے ادوار میں اسے اسلامی حکومت کی سرزمین کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ علاقہ پانچ حصوں پر مشتمل تھا۔

ا) حجاز: حجاز کی سرزمین جزیرہ نما کے مغربی حصے میں بحیرہ احمر کے ساتھ اور یمن کے شمالی حصے اور تہامہ کے مشرق میں ہے۔ مکہ، مدینہ اور طائف اس خطے کے اہم اور قدیمی ترین شہروں میں سے ہیں۔ اس وقت بھی یہ خطہ سعودی عرب کے سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے۔

ب) تہامہ: یہ ایک نشیبی سرزمین ہے جو بحیرہ احمر کے ساحل سے شروع ہو کر نجران کی سرزمین تک پھیلی ہوئی ہے۔

ج) نجد: یہ جزیرہ نما میں ایک پہاڑی سطح مرتفع ہے جو جنوب سے یمن، شمال سے عراق، مغرب سے حجاز اور مشرق سے الاحساء تک پھیلا ہوا ہے، ریاض اسی سطح مرتفع پر واقع ہے۔

د) یمن: یہ جزیرہ نما کے جنوب مغرب میں بحیرہ احمر کے قریب ایک علاقہ ہے۔ یہ سرزمین عرب کی بہترین آب و ہوا اور سب سے زیادہ آبادی والا خطہ ہے، جس کا سب سے اہم شہر "صنعا" ہے جسے آج بھی یمن کا دارالحکومت سمجھا جاتا ہے۔

ہ) یمامہ: یہ جزیرہ نما عرب کے قلب میں ایک سرزمین ہے جسے بعض لوگ نجد کا حصہ سمجھتے ہیں۔ آج یہ سرزمین سعودی عرب میں ہے اور اسے ’’عارض‘‘ کہا جاتا ہے۔

یمامہ کے لوگوں نے 9 ہجری میں اورعام الفود میں اسلام قبول کیا لیکن پھر مسیلمیٰ کذاب کی نبوت کے دعوے کے ساتھ دین سے پھر گئے اور 12 ہجری میں خالد بن ولید نے ان سے جنگ کی اور یمامہ کو فتح کیا[8]۔
شبه جزیره عربستان میں گورنرز

ان پانچ خطوں میں سے ہر ایک ،ایک صوبہ سمجھا جاتا تھا جس کے بہت سے شہر ہوتے تھے اور ہر شہر کا ایک حاکم ہوتا تھا ، تاریخ میں تمام شہروں کے حکمرانوں کا ذکر نہیں ملتا۔ اس لیے جزیرہ نما علاقے میں امام علی کی حکومت کے تمام نمائندوں (گورنروں ) کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور صرف مکہ، مدینہ اور یمن کے شہروں کے حکمرانوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن پر ہم بحث کریں گے۔
مکه و طائف کے گورنر (نمائندے)

مکہ حجاز کا ایک مشہور اور اہم شہر ہے جو بحیرہ احمر کے قریب ہے جو جدہ کی بندرگاہ کے ذریعے اس سمندر سے جڑا ہوا ہے۔ یہ شہر اسلامی دنیا کا سب سے اہم اور مقدس ترین شہر ہے۔ اس شہر کی فتح آٹھویں ہجری میں ہوئی[9]۔ امیر المومنین کے دور خلافت میں یہ شہر ان کی حکومت کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور اس کے گورنر ابو قتادہ انصاری اور قثم بن عباس تھے[10] ۔ ہم یہاں دونوں کا مختصر تذکر ہ کرتے ہیں۔
ابوقتاده انصارى

ان کا نام حارث بن ربیع ہے لیکن تاریخ میں اپنی کنیت "ابو قتادہ" سے زیادہ مشہور ہیں۔ مورخین اور رجالیون کی نگاہ میں تاریخ کی معروف اور شاندار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ابو قتادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاص اصحاب میں سے تھے جنہوں نے رسول اللہ کے ساتھ تمام جنگوں میں حصہ لیا آپ رسول اللہ کی فوج کا جنگجو اور بہادر آدمی کہلائے جاتے تھے ۔ رحلت کے بعد امام علی علیہ السلام کے قریبی ساتھی تھے ،امام کی خلافت کے آغاز میں ابو قتادہ کو شہر مکہ کے گورنر کے عہدے پر مقرر کیا گیا تھا اور کچھ ہی عرصے کے بعد جنگ جمل کے موقع پر حضرت علی (ع) نے انہیں ان کی بے مثال بہادری کی وجہ سے جنگ میں شرکت کے لیے مکہ سے واپس بلایا اور ان کی جگہ قثم بن عباس کو بھیج دیا ۔ آپ نے تینوں جنگوں میں اپنی شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے اور امام کی مدد و نصرت میں ہمیشہ پیش پیش رہے [11]۔
قثم بن عباس

مکہ کے دوسرے اور آخری گورنر قثم بن عباس تھے، جوامام علی علیہ السلام کی شہادت تک اس منصب پر فائز رہے۔

رسول اللہ کے چچا عباس بن عبدالمطلب کے دس بیٹے تھے جن میں سے چار امام علی کے گورنر تھے۔ عبداللہ بن عباس بصرہ کا گورنر، عبیداللہ بن عباس یمن کے گورنر اور مدینہ کے گورنر تما م بن عباس اور مکہ کے گورنر قثم بن عباس۔

قثم ایک فیاض انسان تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازے اور تدفین میں شریک ہوئے ،کہتے ہیں کہ وہ آخری شخص تھا جو رسول اللہ کی قبر مبارک سے نکلا ، علماء رجال نے اسے ثقہ اور قابل اعتماد شخص کے طور پر ذکر کیا ہے، قثم بن عباس نے بخارا اور سمرقند کی فتح جو معاویہ کے دور میں ہوئی تھی میں حصہ لیا اور جنگ میں مارا گیا ، ان کی قبر سمرقند میں ہے[12]۔
مدینه میں گورنر

یثرب یا مدینہ منورہ ، مکہ کے شمال مشرق میں اور حجاز کے علاقے میں واقع ہے۔ یہ شہر عالم اسلام کے بڑے شہروں میں سے ایک اور عظمت و حرمت کے لحاظ سے دوسرا اسلامی شہر ہے۔ یہ شہر رسول اللہ کی ہجرت کے بعد 35 ہجری تک اسلامی حکومت اور خلافت کا مرکز رہا[13] ۔

اس شہر میں امام علی علیہ السلام کے گورنر یہ تھے:
1سهل بن حنیف
2 ابوحبیش تمیم بن عمرو
3 تمّام بن عباس
4 ابو ایّوب انصارى
5حارث بن ربی

مورخین اور سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ جب امام سپاہ جمل سے لڑنے عراق گئے تو آپ نے "سہل بن حنیف" کو مدینہ شہر کا گورنر مقرر کیا اور وہ جنگ صفین تک اس عہدے پر رہے[14]۔ سہل کے بعد ابو جیش تمیم بن عمرو کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا[15] ۔ بعض مورخین نے کہا ہے کہ سہل کے بعد تمام بن عباس کو مدینہ کا مقرر کیا گیا۔ "تمام" جنگ نہروان کے اختتام تک مدینہ کا گورنر تھا[16] ۔تمام کے بعد ابو ایوب مدینہ کا گورنر بنا، وہ "بُسر بن ارطات" کی لوٹ مار اور جرائم تک مدینہ کا گورنر رہا اور اس کے بعد مجبورا کوفہ جا کر مولا علی کے ساتھ جا ملا [17]۔ ابو ایوب کے بعد حارث بن ربیع کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا اور وہ امیر المومنین کی شہادت تک اس عہدے پر فائز رہے [18]۔

اب ہم مختصراً ان بزرگوں کے احوال زندگی بیان کریں گے۔
سهل بن حنیف انصارى خزرجى

سہل جس کی کنیت ابو محمد تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم اصحاب اور انصار میں سے تھے اور ایک عظیم الشان آدمی تھے۔ مورخین کے مطابق اس نے رسول خدا کے شانہ بشانہ تمام جنگوں میں حصہ لیا۔ آپ نے 12 ہجری میں عقبہ منیٰ میں پیغمبر اسلام کے دست مبارک پر بیعت کی اور اسلام قبول کیا اور "نقبہ" میں سے تھے۔ غزوہ احد میں وہ ان بزرگوں میں سے تھے جو علی (ع) کے ساتھ رہے اور رسول اللہ (ص) کو نہیں چھوڑا۔

ہجرت کے پہلے سال سہل رات کو اپنے قبیلے کے لکڑی کے بتوں کو توڑ کر ایک بیوہ انصاری عورت کے گھر لے جاتے اور کہتے: ان کو جلا دو اور استعمال کرو۔ سہل کی موت کے بعد بھی حضرت علی (ع) ان کی شجاعت و جوان مردی کو یاد کرتے رہتے تھے ۔

رحلت رسول خدا کے بعد، سہل ان لوگوں میں سے ایک تھا جو علی (ع) کے ساتھ رہے اور ان بارہ لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نےحضرت ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور ان کی خلافت کی مخالفت کی۔

وہ 36 ہجری میں جب امام عراق اور جنگ جمال کی طرف بڑھے تو مدینہ کا گورنر مقرر ہوا۔ وہ جنگ صفین تک اسی مقام پر رہے اور جنگ صفین کے دوران علی (ع) کی دعوت پر جنگ میں گئے۔ جنگ کے بعد اسے فارس کی گورنری پر مقرر کیا گیا۔لازم الذکر ہے کہ سہل اپنے بھائی عثمان بن حنیف کے ساتھ "شرطۃ الخمیس" کا حصہ تھے[19]۔

آخر کار سنہ 38 ہجری میں سہل نےشہر کوفہ میں اپنی فانی زندگی کو الوداع کیا اور اپنی موت سے علی (ع) کو بہت غمگین کر دیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے آپ کو سرخ کپڑے میں کفن دیا اور اس پر نماز پڑھی اور پچیس تکبیریں کہیں۔ تکبیروں کی کثرت سہل کی شخصیت کی عظمت کو ظاہر کرتی ہیں ۔
تمیم بن عمرو

تمیم بن عمرو، جس کی کنیت ابو حبیش یا ابوالحسن مازنی تھی ، امیر المومنین کے اصحاب میں سے تھے۔ وہ کچھ عرصہ مدینہ کی گورنر رہے۔ شیخ طوسی کہتے ہیں کہ ابو حبیش کا مدینہ کے گورنر کا زمانہ سہل بن حنیف سے پہلے کا تھا، لیکن "ابن اثیر جزری" نے ان کی حکومت کا زمانہ سہل کے بعد کا لکھا ہے[20]۔
تمّام بن عبّاس

تمام بن عباس بن عبدالمطلب رسول اللہ کے چچازاد بھائی اور جناب عباس کے دسویں اور آخری بیٹے ہیں۔ ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے۔ ابن اثیر جزری اور ابن عبد البر نے بیان کیا ہے کہ جب سہل بن حنیف کو علی (ع) نے جنگ صفین میں شرکت کے لیے بلایا تو تمام کو مدینہ کی گورنری پر مقرر کیا گیا۔ یہ روایت جزری کے الفاظ کے خلاف ہے جو سہل بن حنیف، تمیم بن عمرو کے بعد مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔ لہٰذا شیخ طوسی کی روایت کو صحیح مانتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ابو حبیش مدینہ کے پہلے گورنر تھے، اس کے بعد سہل اور پھر تمام بن عباس بالترتیب مدینہ کے دوسرے اور تیسرے گورنر تھے۔
ابوایّوب انصارى

خالد بن زید، ابو ایوب انصاری خزرجی، رسول اللہ کے عظیم اصحاب میں سے تھے۔ مدینہ میں داخل ہوتے ہی پیغمبر اسلام انہی کے گھر میں اترے ۔ ابو ایوب اہل مدینہ کے رسول اللہ کے ساتھ پیمان عقبہ میں موجود تھے، - اور نبی کریم سے بیعت کی۔ اس کے علاوہ آپ نے رسول اللہ کی تمام جنگوں میں شرکت کی۔ ابو ایوب حجۃ الوداع کے قافلے کے مسافروں میں سے تھے، جو غدیر خم میں موجود تھے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے: اس دن میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: مَن کُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِىٌ مَوْلاهُ رسول اللہ کی وفات کے بعد ابو ایوب حضرت علی کے خاص ساتھیوں میں سے ہو گئے۔ وہ ان بارہ لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی اور ان کے مخالفین میں سے تھے۔ ابو ایوب جمل، صفین اور نہروان کی لڑائیوں میں امام کے ساتھ تھے اور دشمنوں سے لڑتے رہے۔ جنگ نہروان کے بعد اسے مدینہ شہر کا گورنر مقرر کیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ ابو ایوب امیر المومنین کی شہادت کے بعد مسلمان مجاہدین کے ساتھ روم گئے اور کفار سے جنگ کی۔ ان کی وفات 51 ہجری میں قسطنطنیہ شہر کے قریب ہوئی اور ان کی لاش شہر کی فصیل کے پاس دفن ہوئی۔ ان کی قبر اب استنبول شہر میں مسلمانوں کے لیے زیارت گاہ ہے[21]۔
حارث بن ربیع انصارى

مدینہ شہر کے آخری گورنر تھے جو امام علی علیہ السلام کی شہادت تک اس عہدے پر فائز رہے۔ علامہ سید محسن امین اور علامہ مامقانی نے حارث بن ربیع کو حارث بن ربیع بن زیاد غطفانی عباسی مانتے ہیں اور اپنی سوانح عمری میں ذکر کیا ہے کہ وہ ان اولین ہجرت کرنے والوں میں سے تھے [22]۔
یمن میں نمائندے

یمن جزیرہ نما عرب کے جنوب مغرب میں اور بحیرہ احمر کے قریب ایک سرزمین ہے۔ یہ خطہ ساسانی دور سے اسلام کے عروج تک ایرانی حکومت کے تابع رہا[23]۔ یمن 10ہجری میں حضرت علی علیہ السلام نے فتح کیاتو لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور رسول اللہ کے بھیجے ہوئے نمائندہ یعنی حضرت علی (ع) کے ہاتھ پر بیعت کی[24]۔
عبیدالله بن عباس

سنہ 36 ہجری میں آپ کو علی (ع) نے یمن کے علاقے کے گورنر کے عہدے کے لیے منتخب کیا اور اس سرزمین پر بھیجا۔ آپ نے 40 ہجری میں "بصر بن ارطہ" کی لوٹ مار اور جنایت تک یہاں حکومت کی[25]۔
مصر میں نمائندے

مصر دنیا کے قدیم ترین اور مشہور خطوں میں سے ایک ہے اور اس کی تہذیب قدیم اور تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ یہ سرزمین افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ہے، جو شمال سے بحیرہ روم، مشرق سے شام اور بحیرہ احمر، جنوب سے نوبی ، سوڈان اور مغرب سے طرابلس سے جڑی ہوئی ہے۔ اس سرزمین کو عمرو بن عاص نے 21 ہجری بمطابق 17 ستمبر 642 عیسوی کو حضرت عمر کے دور خلافت میں فتح کیا اوریہ اسلامی حکومت کا علاقہ بن گیا[26]۔ سن 36 ہجری میں جب علوی حکومت کے گورنر اسلامی علاقوں اور شہروں میں بھیجے گئے تو قیس بن سعد کو مصر کی گورنری پر مقرر کیا گیا ۔ وہ جنگ صفین تک اس عہدے پر فائز رہے، یہاں تک کہ امام علیہ السلام نے نا چاہتے ہوئے بعض حواریوں کے اسرار پر اسے حکومت سے ہٹا دیا ۔ ان کے بعد محمد بن ابی بکر مصر کی گورنری پر فائز ہوئے۔ وہ بھی زیادہ عرصہ حکومت نہ کرسکے اور انتہائی دردناک طریقے سے شہید کر دیئے گئے ۔

ان کے بعد مالک اشتر نخعی کو گورنر مقرر کیا گیا تاکہ وہ بے چین اور سوگوار مصر کو پرسکون کر سکیں، لیکن مصر پہنچنے سے پہلے انہیں قلزم کے علاقے میں معاویہ نے زہر دے کر شہید کر وا دیا اور اس کے بعد مصر امام کے ہاتھ سے نکل گیا اور عمرو عاص نے معاویہ کی طرف سے اس علاقے پر قبضہ کرلیا ۔

اب ہم ان تینوں بزرگوں کامختصرزندگینامہ بیان کرتے ہیں ۔

قیس بن سعد بن عبادہ انصاری

قیس بن سعد بن عبادہ قبیلہ خزرج کا سربراہ ، رسول خدا کا صحابی اورمدنی مسلمانوں میں سے پہلے مسلمان ہیں۔ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد وہ دس سال رسول اللہ کے خادم رہے اور اس عرصے میں جب وہ جوان تھے تو ان کے پاس تعلیم پائی اور سنت نبوی سے آشنا ہوئے۔ اس نے رسول خدا کی تمام جنگوں میں شرکت کی۔

رسول اللہ کی وفات کے بعد وہ خلافت کے مخالفین میں سے تھے۔ 25 سال کی خاموشی اور صبر کے بعد، قیس نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ چونکہ قیس مصر کی فتح میں موجود تھا اور کچھ عرصے سے یمن کا رہنے والا تھا اور مصر کے حالات سے واقف تھا، اس لیے اس کے انتظام اور تعاون کی وجہ سے امام نے ماہ صفر 36 ہجری میں اسے مصر کی گورنری پر مقرر کیا۔

امیر المومنین کی خلافت میں مصر کو ایک خاص فضیلت حاصل تھی کیونکہ حضرت علی (ع) مصر پر غلبہ حاصل کرکے معاویہ کے خلاف ایک نیا محاذ کھول سکتے تھے اور اسے دو اطراف سے محاصرہ کر سکتے تھے۔ اس بنا پر معاویہ نے بھی مصر کو امام کی حکومت کی سرزمین سے آزاد کرانے کی بھرپور کوشش کی۔

معاویہ قیس کی منصوبہ بندی اور انتظام و انصرام سے بخوبی واقف تھا کیونکہ اس نے دیکھا تھا کہ وہ اپنے دور اقتدار کے اسی مختصر عرصے میں ایک پرامن اور مضبوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ شروع میں معاویہ نے قیس کو پیار اور محبت سے بھرا خط لکھا اور اس کے بعد اس سے عہدہ اور دولت کا وعدہ کیا۔ قیس اور اس کے درمیان خط و کتابت جاری رہی یہاں تک کہ آخری خط میں قیس کا واضح جواب معاویہ تک پہنچ گیا۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا:

اے بت پرست کی اولاد ! آپ چاہتے ہیں کہ میں علی سے الگ ہو جاؤں اور آپ کی اطاعت کروں! تم مجھے دھمکی دے رہے ہو کہ علی کے ساتھی اس سے منہ موڑ کر تمہاری طرف ہو گئے ہیں! قسم ہے خدا کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اگر علی کا میرے سوا کوئی مددگار باقی نہ رہے اور میرا ان کے سوا کوئی نہ ہو تو میں تم سے صلح نہیں کروں گا اور تمہاری اطاعت نہیں کروں گا اور خدا کے دشمن کو اس کے دوست پر کبھی ترجیح نہیں دوں گا[27]۔

یہ خط ملنے کے بعد معاویہ قیس سے مایوس ہوا لیکن مصر اور قیس کو یونہی چھوڑ دینا آسان نہیں تھا اس لیے کوئی اور حیلہ ڈھونڈنے لگ گیا ۔ اور وو دوسرا حیلہ امام کی نگاہ میں قیس کا مقام کم کرنا اور آئے روز جھوٹی افواہیں تھیں جیسا کہ عراق اور شام کے لوگوں میں یہ بات پھیلائی کہ قیس نے معاویہ کی بیعت کر لی ہے۔

صفین میں موجود عراقی فوج میں معاویہ اور قیس کی بیعت کی افواہ بہت تیزی سے پھیل گئی۔ ایک طرف اشعث بن قیس اور اس کے اتحادی جیسے منافق لوگ اور دوسری طرف جاہل دوستوں نے علی (ع) پر قیس کو معزول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ امام فرماتے تھے: تجھ پر افسوس! میں قیس کو تم سے بہتر جانتا ہوں۔ خدا کی قسم! اس نے خیانت نہیں کی اور یہ معاویہ کی چال ہے[28]، امام کی باتوں کا ان کے دلوں اور سطحی سوچ پر کوئی اثر نہیں ہوا اور امام اپنی باطنی خواہش کے خلاف رائے عامہ کے دباؤ کی وجہ سے قیس کو مصر کی حکومت سے برطرف کرنے پر مجبور ہوئے۔

مصر کی حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد قیس مدینہ روانہ ہوا اور سہل بن حنیف کے ساتھ صفین میں امام کے ساتھ شریک ہوا اور جنگ صفین اور اس کے بعد جنگ نہروان میں شریک رہا ۔ جنگ صفین اور نہروان میں ان کی دانائی اور شجاعت تاریخ کے سنہری صفحات پر روشن ہے۔

قیس ،شرطة الخمیس میں سے تھا اور امام حسن مجتبیٰ کی فوج کے کمانڈروں میں سے تھا۔ اسلام کی ترقی کے لیے زندگی بھر جدوجہد کی اور بالآخر 59 یا 60 قمری میں انتقال کر گئے۔

جرات و شجاعت، ایمان و یقین، عبادت و روحانیت، عدل و امانت، تقویٰ و پرہیزگاری، عفو و درگزر، تعاون و حکمت، محبت اور ولایت قیس بن سعد کی اہم خصوصیات میں سے تھیں[29]۔
محمد بن ابى بکر

محمد بن ابی بکر حضرت علی علیہ السلام کے دور میں مصر کے دوسرے گورنر تھے۔ ان کے والد ابوبکر اور والدہ اسماء بنت عمیس ہیں۔ جنگ موتہ میں جعفر بن ابی طالب کی شہادت کے بعد "اسماء" ابوبکر کی بیوی بنیں اور ہجرت کے دسویں سال محمد کی ولادت ہوئی۔ ابوبکر کی وفات کے بعد امام علی نے اسماء سے شادی کی۔ لہٰذا محمد جو کہ ایک بچہ تھے، اپنی والدہ کے ساتھ ، حضرت علی کے گھر میں داخل ہوئے اور علی (ع) کے گھر تربیت و پرورش پائی ان کا شمار خاص اصحاب اور شاگردوں میں ہوتا ہے ، بیٹے کی حیثیت سے علی کے ساتھ رہے اور جنگ جمل اور صفین میں حصہ لیا[30]۔

امیر المومنین علی علیہ السلام کو محمد بن ابی بکر سے بہت محبت تھی فرمایا : "محمد ابو بکر کے خون سے میرا بیٹا ہے"۔ چنانچہ جب محمد کی شہادت کی خبر امام تک پہنچی تو آپ بہت غمگین اور رنجیدہ ہوئے اور بصرہ کے گورنر ابن عباس کو محمد کی شہادت کے بارے میں ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اس کی تفصیل یوں بیان کی: محمد ایک مہربان بیٹا ، محنتی اور مرد میدان ہے [31]۔

محمد بھی علی (ع) سے محبت کرتے تھے۔ جنگ جمل میں امام کا ساتھ دینا اور اپنی بہن کی فوج کے ساتھ تصادم اس محبت کو ظاہر کرتا ہے[32]۔ آخر کار محمد 38ھ میں مصر میں شہید ہوئے۔
مالک اشتر

مالک بن حارث نخعی، ملقب بہ "اشتر" ، ایک بہادر عراقی عرب اور تابعین کے بزرگوں میں سے ایک ہے۔ ملک اشتر ،امیر مومنین کے خاص مددگاروں میں سے تھا جنہوں نے جمل و صفین کی لڑائیوں میں حصہ لیا اور ناکثین و قاسطین پر اپنی تلوار چلائی۔ مکتب امام کے پروردہ اور اپنے استاد کی طرح مختلف صفات کے حامل تھے۔ ہمت اور طاقت، نرمی اور رواداری،فصاحت و بلاغت،جیسی صفات ان میں عیاں تھیں۔ آپ کو عثمان نے شام جلاوطن کر دیا اور پھر 33 ہجری میں کوفہ واپس آکر قیام جرعہ شروع کیا ۔

اس کے بعد مالک اس وقت کے خلیفہ کے خلاف عوامی تحریک میں مصری انقلابیوں اور کوفی جنگجوؤں کے ساتھ مدینہ گئے اور اس تحریک میں حصہ لیا۔ حضرت علی (ع) کو خلافت ملی تومالک نے حضرت علی کی بیعت کی اور ہمیشہ علی (ع) کے ساتھ رہے اور جنگ صفین کے اختتام پر مصر کے گورنر مقرر ہوئے۔ مالک کے کردار کے بارے میں ہم صرف نہج البلاغہ کے 38ویں خط کا حوالہ دیں گے جو علی علیہ السلام نے مصر کے لوگوں کو اس وقت لکھا تھا جب وہ مصر پر حکومت کرنے گئے تھے اور یہ ان کا بہترین تعارف ہے:

"امابعد، میں نے آپ کے پاس خدا کا ایک بندہ بھیجا جو خوف کے دنوں میں نہیں سوتا اور خوف کی گھڑیوں میں دشمن سے منہ نہیں ہٹاتا۔ وہ بدکرداروں پر جلتی ہوئی آگ سے زیادہ سخت ہے۔ وہ مالک پسرحارث مذحجى ہے۔ جہاں سچ ہے وہاں اس کی سچائی سنو اور اس کی اطاعت کرو، وہ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ اس کی رفتار کم نہ ہو اور تلوار کند نہ ہو ، اگر وہ آپ کو حرکت کرنے کا حکم دے تو حرکت کریں اور اگر کھڑے ہونے کا کہے تو کھڑے ہو جائیں کیونکہ وہ میرے حکم کے سوا کچھ نہیں کرتا[33] ۔ ۔۔

آخر کار جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے مالک اشتر نخعی کو 39 ہجری میں مصر کے علاقے قلزم میں معاویہ کے کارندوں نے زہر دے کر شہید کر دیا۔

ان کی موت نے علی (ع) کو بہت غمگین کردیا حضرت نے فرمایا:

اے مالک! خدا کی قسم تمہاری موت نےایک عالم کو بوڑھا اور ایک عالم کو خوشحال کر دیا ہےیعنی مالک کی موت شیعوں کے لیے مشکل اورشامیوں کیلئے خوشی کا باعث تھی[34]۔
عراق

یہ سرزمین جنوب سے عرب اور خلیج فارس، شمال سے ترکی، مشرق سے ایران اور مغرب سے شام کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ خلافت اسلامیہ کے دور میں عراق میں خوزستان کے کچھ حصے شامل تھے۔ ظہورِ اسلام سے پہلے یہ سرزمین ایرانی حکومت کا حصہ سمجھی جاتی تھی، یہاں تک کہ سنہ 12 قمری ہجری میں مسلمانوں نے اسے فتح کرنے کے لیے کارروائی کی اور سات سال بعد 19 قمری ہجری سنہ 642 عیسوی میں اسے فتح کیا۔
سرزمین عراق تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے

الف) دریائے فرات کا مغربی علاقہ، اس علاقے کا زیادہ تر حصہ صحرائی ہے اور اس کا سب سے اہم شہر حیرہ ہے۔

ب) عراق کا مرکزی علاقہ جس میں بین النهرین کے جنوبی علاقے کی سرزمین شامل ہے اور شمال سے مدائن (تسفون) سے منسلک ہے اور موصل کے آس پاس تک پھیلا ہوا ہے۔

ج) موصل کا علاقہ اور جزیرہ۔ اس علاقے میں بین النهرین کا شمالی حصہ شامل ہے[35]۔ امام علی (ع) کے زمانے میں ان تینوں خطوں میں بہت سے اہم شہر تھے جیسے کوفہ، بصرہ، مدائن وغیرہ، ان علاقوں میں امام کے نمائندے اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔

عراق میں نمائندے

عراق کی سرزمین اسلامی حکومت کی حدود میں شمار ہوتی تھی۔ اس ریاست میں بہت سے شہر، قصبے اور اضلاع تھے، جن میں سے مشہور کوفہ - امام کی حکومت کا مرکز - بصرہ اور مدائن تھے۔ ان شہروں کے علاوہ دوسرے شہر جیسے انبار، ہیت، فرات، جزیرہ وغیرہ اس سرزمین میں واقع تھے۔
کوفه میں نمائندے

کوفہ بین النہرین کا ایک شہر ہے اور اس کے جنوب میں ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہ شہر 17 ہجری میں بصرہ شہر کے قیام کے بعد سعد بن ابی وقاص کے حکم سے تعمیر کیا گیا۔ یہ شہر 36 ہجری میں امیر المومنین کی حکومت کا مرکز بنا[36]۔ امام علیہ السلام نے عمارہ بن شہاب کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا۔ عمارہ جب کوفہ کے قریب پہنچا تو عثمانی حکمران ابو موسیٰ اشعری نے اسے شہر میں داخل نہ ہونے دیا اور وہ وہاں سے مدینہ چلا گیا[37]۔اس واقعہ کے بعد بعض بزرگوں جیسے مالک اشتر کے اصرار پر امام (ع) نے ابو موسیٰ اشعری کو کوفہ کے گورنر کے عہدے پر برقرار رکھا۔ کوفہ پر ابو موسیٰ کی حکومت زیادہ دیر قائم نہ رہی۔ آپ کو جنگ جمل سے پہلے کوفہ کے گورنر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا [38]۔ ابو موسیٰ اشعری کی برطرفی کے بعد قرظة بن کعب انصارى جو رسول اللہ ص کے اصحاب میں سے تھا، کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا[39]۔ واضح رہے کہ امام علی علیہ السلام کے 12 رجب 36 ہجری کو کوفہ پہنچنے اور اسے اسلامی حکومت کے مرکز کے طور پر منتخب کرنے کے بعد، امام نے شہر کے انتظامی امور کو سنبھال لیا اور صرف جنگ صفین اور نہروان پر جاتے وقت عقبہ بن عمرو[40] اور هانى بن هوذه [41]کو کوفہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔

ہم مختصراً ابو موسیٰ اشعری اور قرظة بن کعب انصارى کی زندگیوں کا تذکرہ کرتے ہیں، جن میں سے ہر ایک تھوڑی دیر کے لیے کوفہ کے گورنر کے عہدے پر فائز رہا۔
ابوموسى اشعرى

عبداللہ بن قیس جسے ابو موسیٰ اشعری کے نام سے جانا جاتا ہے، مکہ میں اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھا۔ اس نے جعفر بن ابی طالب کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ ہجرت نبوت کے ابتدائی سالوں میں مسلمانوں پر مشرکین کے ظلم و ستم کی وجہ سے ہوئی۔

ابو موسیٰ اشعری ہجرت کے ساتویں سال اور جنگ خیبر کے دوران حبشہ سے مسافروں اور مہاجرین کے قافلے کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔حضرت عمر کےدور میں کچھ عرصے کے لیے بصرہ کا گورنر رہا اور حضرت عثمان کے دور میں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔پھر حضرت عثمان کی خلافت کے آخر ی ایام میں سعید بن عاص کی برطرفی کے بعد ابو موسیٰ کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا اور حضرت علی علیہ السلام کی خلافت میں بعض صحابہ کے اصرار کی وجہ سے وہ مختصر عرصے کے لیے اس عہدے پر فائز رہے[42] ۔

قرظة بن کعب انصارى

قرظہ مدینہ کا رہنے والا اور رسول اللہ ص کے اصحاب میں سے تھے۔ آپ نے احد اور دیگر جنگوں میں حصہ لیا۔ رسول اللہ کے بعد، یاران علی میں شمار ہوتا تھا ۔ جمل ، صفین ،نہروان میں حصہ لیا۔ قرظ انصاری کی وفات 40 ہجری میں کوفہ میں ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا بیٹا " عمرو بن قرظه " شہدائے کربلا میں سے ہے[43]۔
بصره میں نمائندے

بصرہ شط العرب کے مغربی ساحل پر واقع ایک شہر ہے اور یہ عراق کا پہلا شہر ہے جو اسلامی دور میں حیرہ کی فتح کے بعد قمری کیلنڈر کے 15ویں سال میں عاصم بن دلف کی رہنمائی میں تعمیر کیا گیا تھا[44]۔ عثمان بن حنیف بصرہ شہر کے پہلے علوی گورنر تھے جو 36 ہجری میں امیر المومنین (ع) کے حکم سے اس شہر میں گئے لیکن کچھ عرصہ بعد انہیں طلحہ اور زیبر نے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا اور شہر سے نکال دیا[45]۔ عبداللہ بن عباس دوسرے گورنر تھے جنہیں جمل کی تاریخی جنگ کے بعد یہاں بھیجا گیا تھا[46]۔

اب ہم ان دو عظیم شخصیات کی زندگیوں پر مختصرگفتگو کریں گے۔
عثمان بن حنیف انصارى

عثمان بن حنیف قبیلہ اوس سے ہیں، سہل بن حنیف کے بھائی - مدینہ شہر کے علوی گورنر تھے۔ بعثت کے قریب مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں۔ سقیفہ میں بیعت کے دوران ابوبکر کی مخالفت کرتے ہوئے امیر المؤمنین کی خلافت کا دفاع کرتے رہے، عثمان بن حنیف ان بارہ لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر کی خلافت پر اعتراض کیا[47]۔

عثمان بن حنیف ایک ماہر اور بصیرت والا شخص تھا [48]جسے امام نے خلافت کے آغاز میں بصرہ شہر کی گورنری کے لیے مقرر کیا تھا۔ وہ حُکیم بن جبله کے ساتھ بصرہ میں داخل ہوا اور شہر کے امور کا انتظام سنبھال لیا[49]۔

ابن حنیف نے بصرہ پر تقریباً پانچ ماہ حکومت کی۔ اس کے بعد حضرت عائشہ، طلحہ اور زبیر مسلح لشکر کے ساتھ بصرہ شہر میں داخل ہوئے۔ ابن حنیف کو گرفتار کر کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے سر اور چہرے کے تمام بال نکال کر شہر سے باہر نکال دیا گیا۔ امام علی علیہ السلام کا مشہور خط عثمان بن حنیف کو بصرہ کے گورنر کے دور میں جاری کیا گیا تھا۔ عثمان نے 60 ہجری میں کوفہ میں وفات پائی[50]۔
عبدالله بن عباس

عبداللہ عباس کے دس بیٹوں میں سے ایک اور رسول خدا کے اصحاب اور امام علی کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ کو علم فقہ اور تفسیر قرآن، اور شاعری میں مہارت حاصل تھی ، ابن عباس ایک فصیح انسان تھے اور امیر المومنین کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ آپ علیہ السلام کے ساتھ جمل، صفین اور نہروان کی جنگوں میں شریک ہوئے اور جنگ جمل کے بعد آپ کو بصرہ کا گورنر منتخب کیا گیا ۔ عبداللہ بن عباس حضرت علی کے باوفا ساتھی تھے اور جنگ صفین میں حضرت کے ترجمان تھے، امیر المومنین نے ان کا تعارف قاضی اور ثالث کے طور پر کرایا، لیکن اہل عراق نے انہیں قبول نہیں کیا![51] ان کی علی (ع) سے علیحدگی اور بصرہ کے بیت المال میں خیانت کے بارے میں مورخین اور علماء کے درمیان بحث ہے۔ آیت اللہ خوئی لکھتے ہیں: عبداللہ بن عباس ایک عظیم انسان اور امیر المومنین اور حسنین علیہم السلام کے محافظ تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے: جنگ جمل میں امیر المومنین کی فتح کے بعد آپ نے عبداللہ بن عباس کو حضرت عائشہ کے پاس بھیجا کہ وہ مدینہ چلی جائیں اور بصرہ میں قیام نہ کریں۔ ابن عباس حضرت عائشہ کے پاس آئے جو اس وقت بصرہ میں بنی خلف کے محل میں تھیں۔ اس نے محل میں داخل ہونے کی اجازت مانگی، لیکن حضرت عائشہ نے اجازت نہ دی۔ عبداللہ بغیر اجازت محل میں داخل ہوا توکمرہ کو خالی پایا اور حضرت عائشہ نے خود کو پردوں کے پیچھے چھپا لیا تھا۔ابن عباس کمرے کے وسط میں بیٹھ گیا توحضرت عائشہ نے پردے کے پیچھے سے ابن عباس سے کہا:

آپ نے بغیر اجازت داخل ہو کر اور بغیر اجازت قالین پر بیٹھ کر خلاف ورزی کی ہے۔ ابن عباس نے کہا: ہم آپ سے زیادہ آداب و سنت کو جانتے ہیں، اور آپ نے ہم سے رسم و رواج سیکھے! جان لو کہ یہ تمہارا گھر نہیں ہے۔ تمہارا گھر وہ ہے جس میں پیغمبر نے تمہیں رہائش دی اور تم خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی اور جان پر ظلم کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ جب بھی آپ اس گھر میں جائیں گے تو ہم آپ کی اجازت کے بغیر وہاں داخل نہیں ہوں گے اور آپ کے گھر کے قالین پر نہیں بیٹھیں گے۔ پھر ابن عباس نے امام علی کا پیغام ان تک پہنچایا۔
مدائن میں نمائندے

مدائن، مدینہ کی جمع ہے اس سے مراد سات شہر ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں، تیسفون مدائن کا سب سے بڑا شہر اور ایران کی ساسانی حکومت کے بادشاہوں کا دارالحکومت تھا[52]۔

یہ خطہ دجلہ کے مغربی اور مشرقی ساحلوں پر واقع ہے اور امیر المومنین کے دور خلافت میں آپ کی حکومت میں تھا اور درج ذیل شخصیات نے گورنر کی حیثیت سے اس علاقے میں اپنے فرائض سرانجام دیے:

1 حذیفہ بن یمان[53]

2 یزید بن قیس ارحبى[54]

ان دونوں کے علاوہ تین اور افراد سعد بن مسعود ثقفی[55]، لام بن زیاد [56]، عدی بن حاتم کے ماموں اور ثابت بن قیس بن خطیم ظُفرى [57]بھی تاریخ میں مدائن کے گورنر بتائے گئے ہیں۔

اب ہم حذیفہ اور یزید کی زندگیوں کا مختصرذکر کریں گے۔

حُذیفة بن یمان

حذیفہ پیغمبر اسلام کے عظیم اور ممتاز اصحاب میں سے تھے حذیفہ نے اپنے والد کے ساتھ جنگ احد میں شرکت کی۔ اس جنگ میں ان کے والد شہید ہوئے۔ احد کے بعد، آپ نے رسول اللہ کے دور میں تمام اسلامی جنگوں میں حصہ لیا۔ حذیفہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ منافین کو جانتے تھے ، جب منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو قتل کرنا چاہا تو وحی الٰہی نے ان کے منصوبے کو ناکام بنا دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حذیفہ سے پوچھا: کیا تم انہیں جانتے ہو؟ عرض کی نہیں جانتا تو حضور نے حذیفہ کو ان کے نام بتائے۔ اس کے بعد حذیفہ ان منافقین کو اچھی طرح جانتا تھا جنہوں نے اپنے چہروں پر اسلام کا نقاب اوڑھ رکھا تھا۔ رسول خدا(ص) کی وفات کے بعد حذیفہ ان لوگوں میں سے تھے جو علی(ع) کے ساتھ کھڑے تھے۔ مسعودی لکھتے ہیں: سنہ 36 ہجری میں حذیفہ کوفہ یا مدائن میں بیمار ہوئے ۔ حضرت عثمان کے قتل اور لوگوں کی علی (ع) کی بیعت کی خبر ان تک پہنچی۔ حذیفہ نے کہا مجھے مسجد لے چلو اور باجماعت نماز کا اعلان کرو۔ لوگوں کے جمع ہونے کے بعد حذیفہ کو منبر پر بٹھایا گیا۔ اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

لوگو! مسلمانوں نے علی کی بیعت کی۔ اب تقویٰ اختیار کرو اور اس کی حمایت کرو۔ اس لیے کہ وہ روز اول سے حق پر تھا اور وہ نبی کے بعد قیامت تک کے لوگوں میں سب سے افضل ہے۔پھر حذیفہ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور کہا: خدایا! تم گواہ ہو کہ میں نے علی کی بیعت کی ہے ۔حضرت نے ان کو خط بھی لکھا: ۔۔۔میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ پوشیدہ اور ظاہر میں تقویٰ اختیار کرو اور ہر وقت خدا کے عذاب سے آگاہ رہو۔ اچھے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرو اور دشمنوں کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔ نرمی سے کام کرو اور لوگوں کے ساتھ دین اور انصاف کے معیار کے مطابق برتاؤ کرو کیونکہ تم خدا کے سامنے ذمہ دار ہو۔مظلوم کی مدد کریں۔ لوگوں کے دھوکہ سے بچیں۔ جب تک ہو سکے اچھا راستہ چنو کیونکہ خدا نیک لوگوں کو جزا دیتا ہے۔۔۔

حذیفہ مدائن پرکچھ عرصہ حکومت کرنے کے بعد اسی شہر میں انتقال کر گئے [58]۔
یزید بن قیس ارحبى

یزید بن قیس ہمدانی قبیلہ بنی ارہب سے تھا اور کوفہ میں رہنے والا تھا۔ یزید ہجری کی تیسری اور چوتھی دہائی میں کوفہ کے مشہور اور عظیم لوگوں میں سے اور جنگجوؤں اور اسلامی انقلابیوں میں سے تھا۔ ۔ شہر کوفہ کے ظالم حکمران ولید بن عقبہ اور سعید بن عاص کے سامنے کھڑے ہو گئے۔کچھ عرصہ جلاوطن بھی رہے ،حضرت عثمان کے قتل کے بعد یزید نے امام علی علیہ السلام کی بیعت کی اور جنگ جمل میں شرکت کی۔ جنگ جمل کے بعد اس نے مدائن کے علاقے کے گورنر کے طور پر کام شروع کیا ، اور اس کے بعد یزید نےشہر کوفہ کے پولیس کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دیں ، جنگ نہروان کے بعد اسے اصفہان، حمدان اور رے کی گورنری پر بھی مقرر کیا گیا[59]۔
جزیره میں نمائندے

جزیرہ دجلہ اور فرات کے درمیان ایک سرزمین ہے جس میں بین النہرین کا شمالی حصہ بھی شامل ہے۔ اس علاقے میں نصیبین، موصل، سنجار، آمد، ھیت اور عانات شہر واقع تھے،اس کے علاوہ قرقیسیا ، حران، رقہ اور قنسرین کے شہر بھی اسی علاقے میں واقع ہیں جو معاویہ کے زیرِ اقتدار تھے ، اس دور میں یہ علاقہ عراق اور شام کی افواج کی حملہ گاہ تھا[60]۔ ان خطوں کا پہلا علوی حکمران ملک اشتر تھا، وہ اس منصب کے لیے جنگ جمیل کے بعد منتخب ہوئے تھے، انہوں نے امیر المومنین کے گورنر کے طور پر اس علاقے میں مختصر وقت کے لیے خدمات انجام دیں[61]، ان کے بعد امام علی (ع) نے کمیل بن زیاد نخعى کو اس علاقے کا گورنر مقرر کیا [62]۔
کمیل بن زیاد نخعى

کمیل یمانى امیر المومنین کے خاص، قریبی اور وفادار پیروکاروں میں سے تھے۔ کمیل کچھ عرصے تک علی (ع) کی طرف سے "هیت" علاقے کا حکمران تھا۔ حجاج جب عراق کا گورنر بنا تو اس نے کمیل کو طلب کیا۔ کمیل کو اس کے منصوبے کا پتہ چل گیا اور وہ بھاگ گیا۔ حجاج نے بیت المال سے کمیل کےخاندان کا حصہ منقطع کر دیا۔ کمیل 83 ہجری میں نوے سال کی عمر میں حجاج کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
عراق میں دیگر نمائندے

عالى

صوبہ عالی بغداد کے مغرب میں ایک علاقہ ہے جس میں چار اضلاع شامل ہیں: انبار، بادرویا ، قصر بُلّ اور مسکن۔ اس علاقے کا مرکز انبار شہر تھا[63]۔ ابو حسن بکری صوبہ عالی میں امیر المومنین کا گورنر تھا[64] ۔



زوابی

زاوبی، زاب کی جمع، جس کا مطلب ہے پانی کی ندی، بغداد کے بالائی اور زیریں علاقوں میں پانی کی چار ندیوں کا نام تھا جہاں لوگ رہتے تھے[65]۔ اس علاقے کا گورنر سعد بن مسعود ثقفى تھا[66] ۔

کسکر

یہ عراق کا قدیم ترین عیسائی نشین شہر تھا جو کوفہ اور بصرہ کے درمیان اور دریائے دجلہ کے کنارے واقع تھا۔ عیسائی کتابوں میں اس کا ذکر" کَشکَر " کے نام سے ملتا ہے،جنگ جمل کے بعد قدامة بن عجلان کو اس شہر کا حاکم مقرر کیا گیا[67] اور اس کے بعد قعقاع بن شورکو اس جگہ بھیجا گیا[68]۔

جَبُّل

یہ کوفہ سے بغداد جاتے ہوئے نعمانیہ اور وسط کے درمیان ایک شہر تھا۔ سلیمان بن صُرد خزاعى کچھ عرصہ جَبُّل شہر کا حکمران تھا[69]۔

بهقباذات

یہ بغداد کے تین علاقوں کا نام ہے جو انوشیروان کے والد قباذ بن فیروز سے منسوب ہے۔ کوفہ میں جنگ جمل اور امیر المومنین کے قیام کے بعد " قرظة بن کعب " کو علاقہ بهقباذات کا گورنر مقرر کیا گیا[70]۔

بُهَرسِیر

بہرسیر بغداد اور مدائن کے قریب ایک علاقے کا نام ہے جو دجلہ کے مغربی علاقے میں واقع ہے اور بعض نے اسے مدائن کے سات شہروں میں سے ایک سمجھا ہے۔

جنگ جمل کے خاتمے اور امام علی (ع) کی کوفہ میں آمد کے بعد وسیع اسلامی ملک کے بعض ایسے علاقوں میں گورنر بھیجے گئے جہاں ابھی تک کوئی گورنر نہیں تھا۔ ان علاقوں میں بُهَرسِیر بھی تھا جہاں عدی بن حارث (عدی بن حاتم) کو گورنر مقرر کیا گیا تھا[71]۔

عین التمر

کوفہ کے مغربی علاقے میں انبار شہر کے قریب ایک قصبہ ہے جو 12 ہجری میں فتح ہوا تھا۔

مالک بن کعب ارحبى اس علاقے میں امام علی علیہ السلام کا نمائندہ تھا[72]۔

فرات کا علاقہ

بلاذری کہتے ہیں: عبیدہ سلمانی فرات کے علاقے میں حضرت علی کا گورنر تھا[73]۔

ایران کا علاقہ (مملکت فُرس یا فارسیان)

ایران ایک قدیم سرزمین ہے جس میں تہذیب و ثقافت اور ایک بہت ہی تاریخی پس منظر ہے۔ یہ سرزمین شمال سے دریاى خزر اور صحرائے خوارزم ، جنوب سے خلیج فارس اور بحیرہ عمان، مغرب سے زاگرس پہاڑ، مشرق سے جیہون اور مغربی علاقے میں دریائے سندھ اور پامیر سے جڑی ہوئی ہے۔ اسلامی دور میں موجودہ مقام کے علاوہ ایران میں خلیج فارس کے جنوبی جزائر اور بحیرہ عمان شامل تھے۔ عراق کی فتح کے بعد، عرب مسلم فوجوں کی طرف سے ایرانی سرزمینوں کی فتح شروع ہوئی۔ ایران میں مسلمانوں کی فتوحات کی تاریخ سنہ 19 ہجری سے شروع ہوتی ہے جس کا تعلق جنگ نهاوند سے ہے۔ یہ فتوحات 34 ہجری میں یزدگرد کی موت تک جاری رہیں۔ اسلامی دور میں ایران میں عراق کے علاقوں اور جنوبی جزائر اور خلیج فارس اور بحیرہ عمان کے ساحلوں کے علاوہ وسیع زمینیں شامل تھیں جہاں اس وقت کے اہم اور خوشحال شہر تھے: اہواز، سوس ( شش)، توسٹر (شوشتر)، ہمدان، نہاوند، فارس، اسبہان (اصفہان)، آذربائیجان، رے، خراسان، سیستان (سیستان)، طبرستان اور...[74]

امیر المومنین علیہ السلام کے دور خلافت میں یہ علاقے آپ علیہ السلام کی حکومت کا حصہ سمجھے جاتے تھے اور ان علاقوں میں آپ کے نمائندے تھے۔
ایران میں نمائندے

ایران بہت وسیع تھااس میں بہت سے شہر شامل تھے۔ اور امام کی طرف سے گورنروں کو مقرر کیا گیا اور اس کا انتظام سنبھالنے کے لیے بھیجا گیا۔ ان میں سے بہت سے عہدیداروں کے نام تاریخ میں مذکور ہیں، ذیل میں ہم صرف ان کے نام اور ان کے دور حکومت کا ذکر کریں گے اور اختصار کے پیش نظر ان کی سوانح حیات کو چھوڑ دیں گے۔

اهواز

جنگ صفین سے پہلے امیر المومنین (ع) نے " خرّیت بن راشد " کو اہواز کی امارت پر مقرر کیا۔ وہ ان علاقوں میں گیا اورمعاملات کو منظم کیا۔ جب صفین کی جنگ حکیمیت سے ختم ہوئی تو خریت کو اس کے نتیجے کا علم ہوا۔ اسے یہ بات پسند نہ آئی اور اہواز کے خزانے سے لیس لشکر کے ساتھ امام (ع) کے ساتھ جنگ ​​کا اعلان کیا[75]۔ امام نے اپنے ایک بہادر ساتھی کو جس کا نام معقل بن قیس تھا اس کو دبانے کے لیے بھیجا اور آخر کار خریت کو قتل کر دیا گیا۔

کرمانشاہ

جب امام علی علیہ السلام 36 ہجری میں مدینہ سے عراق کے لیے روانہ ہوئے تو آپ نے "عبدالرحمن بودل بن ورقع خزاعی" کو سرزمین ماهان کی گورنری کے لیے بھیجا تھا[76]۔

اصفهان و همدان اور رى

جنگ جمل اور کوفہ میں امیر المومنین کے قیام کے بعد " مخنف بن سلیم " کو آپ علیہ السلام نے اصفہان اور ہمدان کا گورنر مقرر کیا۔ وہ تقریباً چھ ماہ تک اصفہان اور ہمدان کے حکمران رہے، جب صفین کی جنگ شروع ہوئی تو امام کی اجازت سے جنگ میں گئے۔ جب وہ عراق روانہ ہوئے تو اصفہان میں "حرث بن ربیع" اور حمدان میں "سعید بن وهب" نے جگہ لے لی[77]۔ یزید بن قیس ارحبى ، ہجری کی تیسری اور چوتھی دہائی کی ایک اور سیاسی شخصیت ہے، جو جنگ صفین کے بعد اور جنگ نہروان سے پہلے اصفہان، رے اور حمدان کی گورنری پر مقرر ہوئے۔

ابن اثیر نے الکامل میں ذکر کیا ہے: جنگ نہروان کے بعد امام علی علیہ السلام نے " حُجَیّه تیمى " کو، رے کی گورنری پر مقرر کیا تھا[78] اوریہ تقرری غالباً اس وجہ سے ہوئی تھی کہ "یزید بن قیس" کی حکومت کا علاقہ بہت وسیع تھا اور اس کی درخواست پر اس علاقے کے لیے ایک اور حاکم مقرر کیا گیا تھا۔
قزوین

ربیع بن خیثم کوفی جو بظاہر مشہد میں مدفون ہے، کچھ عرصے کے لیے قزوین کا گورنر رہا[79]۔
فارس

فارس کے گورنروں میں سے جن کا نام تاریخ میں مذکور ہے " زیاد بن ابیه " ہے۔ سنہ 39 میں اسے امام نے فارس کی گورنری پر مقرر کیا اور " بُسر " کی غارت گری تک اس سرزمین پر حکومت کی[80]۔

اس کے علاوہ بھی فارس کے شہروں میں گورنر تھے جن کے نام تاریخ میں مذکور ہیں۔ پہلا، منذر بن جارود، اصطخر فارس کا گورنر[81]، اور دوسرا اردشیر خُرّ کا گورنر "مَصقلة بن هبیره شیبانى"[82]۔
کرمان

بلاذری لکھتے ہیں: امیر المومنین نے عبدالله بن اھتم کو کرمان کی گورنری پر مقرر کیا[83]۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ تقرری جنگ جمل اور کوفہ میں امیر المومنین کے مستقر ہونے کےبعد ہوئی تھی۔

کرمان کے دوسرے گورنر زیاد بن ابیہ تھے۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ وہ 39 ہجری میں فارس اور کرمان کی گورنری پر تعینات ہوئے[84]۔
آذربائیجان

آذربائیجان میں پہلا گورنر " اشعث بن قیس " تھا۔ وہ اس علاقے میں حضرت عثمان کا گورنر تھا جسے امام نے مختصر وقت کے لیے اپنے نمائندہ کے طور پر باقی رکھا[85]۔ ان کے بعد سعید بن حارث خزاعى جو کچھ عرصے کے لیے سرکاری پولیس کے انچارج رہے، آذربائیجان کی گورنری پر تعینات ہوئے[86]۔ آذربائیجان کے ایک اور گورنر قیس بن سعد انصاری ہیں۔ مصر کی گورنری سے برطرف اور جنگ صفین میں شرکت کے بعد آذربائیجان کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے[87]۔

سجستان (سیستان)

عون بن جعدہ سیستان کے علاقے میں علی (ع) کا پہلا گورنر تھا۔ ان کے بعد ربعى بن کَأْس اس سرزمین کا گورنر بنا[88]۔

خراسان

امیرالمومنین علی علیہ السلام ، 36 ہجری میں جب عراق کے لیے روانہ ہوئے تو اپنے بھانجے" جعدة بن هبُیره " کو خراسان کی گورنری پر مقرر کیا[89] ۔خراسان کا ایک اور گورنر خُلید بن قرّه تھا[90] ۔
بحرین اور عمّان میں گورنر

بحرین خلیج فارس کا ایک جزیرہ تھا اور ایران کے ان علاقوں میں سے ایک تھا جسے ایران کی فتوحات کے دوران بغیر خون بہائے فتح کیا گیا تھا[91]۔ امام علی علیہ السلام نے 36 ہجری میں " عمر بن ابى سلمه " کو بحرین کا گورنر مقرر کیا۔

عمر بن ابى سلمه مخزومى سال دو ہجری کو حبشہ کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ ان کے والد ابو سلمہ اولین مسلمانوں میں سے تھے اور حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے تھے اور جنگ احد میں شہید ہوئے تھے۔ ابو سلمہ کی شہادت کے بعد عمر کی والدہ ام سلمہ نے رسول اللہ سے شادی کی[92]۔

عمر کے بعد نعمان بن عجلان زرقى کو بحرین کا گورنر مقرر کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ نعمان بحرین کے ساتھ ساتھ عمان کے بھی گورنر تھے[93]۔ عمان میں علی (ع) کا ایک اور گورنرحلو بن عوف ازدى تھا۔
شام

بلاد شام یا سوریه مغربی ایشیا کا ایک خطہ ہے جو بحیرہ روم کے مشرق میں ہے جو شمال سے تروس پہاڑوں، مشرق سے فرات اور جنوب سے عربستان سے جڑا ہوا ہے۔ شام میں، لبنان، فلسطین اور اردن کے علاقے شامل ہیں۔ تاریخی منابع میں "شام" کی اصطلاح سے مراد ایک وسیع خطہ ہے، جس میں سات اہم شہر تھے: فلسطین، اردن، حمص، دمشق، قنسرین، عواصم اور ثغود[94] ۔ شامات کے علاقے کی فتح کا آغاز 24 رجب 12 ہجری بمطابق 14 اکتوبر 633 عیسوی کو ہوا اور آخر کار مئی 637 عیسوی کی مناسبت سے ربیع الآخر 16 ہجری میں بیت المقدس کی فتح پر اختتام پذیر ہوا[95] ۔ امیر المومنین کے دور خلافت میں شام کا علاقہ معاویہ کے زیر تسلط تھا اور اسی وجہ سے شام کو اسلامی حکومت کی سرزمین میں واپس کرنے کے لیے جنگ صفین ہوئی۔ اپنی خلافت کے آغاز میں ماہ صفر 36 ہجری میں امیر المومنین نے " سهل بن حنیف " کو سرزمین شام کا گورنر بنا کر بھیجا، لیکن وہ شام میں داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہوئے [96]۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ تاریخ طبرى، ج3، ص457؛ الکامل، ج3، ص194۔

[2] ۔ شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید، ج7، ص35؛ فروغ ولایت، ص349.

[3] ۔ یوسف، 55؛ اعراف، 18؛ قصص، 26؛ بقره، 247.

[4] ۔ نهج البلاغه، ترجمه امامى و آشتیانى، ج3، ص137.

[5] ۔ همان، ص8.

[6] ۔ همان، ص147.

[7] ۔ شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید، ج17، ص87.

[8] ۔ اطلس تاریخ اسلام، ص246؛ تاریخ تحلیلى اسلام، شهیدى، ص4؛ معجم البلدان، ج2، ص159 و 252.

[9] ۔ معجم البلدان، ج5، ص210.

[10] ۔ الکامل، ج3، ص398.

[11] ۔ الاستیعاب، ج4، ص161؛ اعیان الشیعه، ج2، ص418 و ج14، ص305؛ اسد الغابه، ج6، ص250؛ الاصابه، ج4، ص158؛ قاموس الرجال، ج3، ص28.

[12] ۔ اسد الغابه، ج4، ص393؛ الاصابه، ج3، ص226؛ الاستیعاب، ج3، ص275؛ معجم رجال الحدیث، ج14، ص76؛ قاموس الرجال، ج8، ص514؛ ترجمه الغارات، ص533. مادر قُثم زنى است به نام امّ الفضل لبابه. او دومین زن مسلمان بود که در مکه اسلام آورد.

[13] ۔ معجم البلدان، ج5، ص97.

[14] ۔ الاستیعاب، ج2، ص92؛ اسد الغابه، ج2، ص470؛ الاصابه، ج2، ص87؛ انساب الاشراف، ج2، ص157؛ قاموس الرجال، ج5، ص356.

[15] ۔ اسدالغابه، ج1، ص260؛ اعیان الشیعه، ج3، ص640؛ قاموس الرجال، ج2، ص428؛ معجم رجال الحدیث، ج3، ص380.

[16] ۔ الاستیعاب، ج1، ص187؛ اسد الغابه، ج1، ص253؛ الاصابه، ج1، ص186؛ قاموس الرجال، ج2، ص418؛ اعیان الشیعه، ج3، ص637.

[17] ۔ الاستیعاب، ج1، ص187؛ اسد الغابه، ج1، ص253؛ الغارات، ج2، ص602؛ قاموس الرجال، ج2، ص429.

[18] ۔ اعیان الشیعه، ج4، ص304؛ قاموس الرجال، ج3، ص29 و ج2، ص421.

[19] ۔ الاستیعاب، ج2، ص92؛ اسد الغابه، ج2، ص470؛ الاصابه، ج2، ص87؛ طبقات، ج3، ص471؛ معجم رجال الحدیث، ج8، ص335؛ قاموس الرجال، ج5، ص353؛ اعیان الشیعه، ج7، ص320؛ منتهى الآمال، ج1، ص376.

[20] ۔ اسد الغابه، ج1، ص253؛ الاستیعاب، ج1، ص186؛ الاصابه، ج1، ص186؛ قاموس الرجال، ج2، ص418؛ اعیان الشیعه، ج3، ص637.



[21] ۔ الاستیعاب، ج1، ص403؛ اسدالغابه، ج2، ص94؛ الاصابه، ج1، ص405؛ قاموس الرجال، ج4، ص115؛ معجم رجال الحدیث، ج7، ص23.

[22] ۔ اعیان الشیعه، ج4، ص306؛ تنقیح المقال، ج1، ص244.

[23] ۔ معجم البلدان، ج5، ص511؛ فرهنگ معین، ج6، ص2339.

[24] ۔ المغازى، ج2، ص1079.

[25] ۔ الکامل، ج3، ص201؛ اعیان الشیعه، ج1، ص446.

[26] ۔ اطلس تاریخ اسلام، ص405؛ معجم البلدان، ج5، ص160؛ فرهنگ معین، ج6، ص1989.

[27] ۔ الغدیر، ج2، ص100.

[28] ۔ تاریخ طبرى، ج3، ص554؛ مختصر تاریخ دمشق، ج21، ص110؛ انساب الاشراف، ج2، ص391؛ بحارالانوار، ج33، ص538.

[29] ۔ اسد الغابه، ج4، ص424؛ طبقات ابن سعد، ج6، ص52؛ الکامل، ج3، ص266؛ قاموس الرجال، ج8، ص535؛ معجم الرجال الحدیث، ج14، ص93؛ الجمل، ص105؛ تاریخ بغداد، ج1، ص178؛ انساب الاشراف، ج2، ص408.

[30] ۔ قاموس الرجال، ج9، ص18؛ معجم رجال الحدیث، ج14، ص230؛ منتهى الآمال، ج1، ص397 ـ 398.

[31] ۔ نهج البلاغه، نامه 35، ترجمه سید جعفر شهیدى.

[32] ۔ قاموس الرجال، ج9، ص20.

[33] ۔ نهج البلاغه، نامه 38، ترجمه سید جعفر شهیدى، ص312.

[34] ۔ اعیان الشیعه، ج9، ص38؛ معجم رجال الحدیث، ج14، ص161؛ قاموس الرجال، ج8، ص643.

[35] ۔ اطلس تاریخ اسلام، ص141؛ معجم البلدان، ج4، ص105.

[36] ۔ معجم البلدان، ج4، ص557.

[37] ۔ تاریخ طبرى، ج3، ص463؛ الکامل، ج3، ص201؛ اعیان الشیعه، ج1، ص446.

[38] ۔ اسد الغابه، ج6، ص307؛ اعیان الشیعه، ج1، ص446.

[39] ۔ الکامل، ج37، ص260.

[40] ۔ وقعه صفین، ص121.

[41] ۔ الغارات، ج1، ص18.

[42] ۔ اسد الغابه، ج6، ص206.

[43] ۔ اعیان الشیعه، ج8، ص449.

[44] ۔ دائرة المعارف تشیّع، ج3، ص262؛ معجم البلدان، ج1، ص510.

[45] ۔ تاریخ طبرى، ج3، ص462؛ الکامل، ج3، ص201؛ اعیان الشیعه، ج1، ص446.

[46] ۔ اعیان الشیعه، ج8، ص56؛ قاموس الرجال، ج6، ص426؛ معجم رجال الحدیث، ج10، ص236؛ انساب الاشراف، ج2، ص169.

[47] ۔ بحارالانوار، ج28، ص189 ـ 203؛ معجم رجال الحدیث، ج11، ص107؛ تنقیح المقال، ج2، ص245؛ قاموس الرجال، ج7، ص116.

[48] ۔ الاستیعاب، ج3، ص90.

[49] ۔ الطبقات، ج5، ص48.

[50] ۔ اعیان الشیعه، ج8، ص139 ـ 141.

[51] ۔ اعیان الشیعه، ج8، ص55 ـ 57؛ منتهى الآمال، ج1، ص385؛ اسد الغابه، ج3، ص290.

[52] ۔ معجم البلدان، ج5، ص88.

[53] ۔ اعیان الشیعه، ج4، ص604.

[54] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص464؛ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357.

[55] ۔ انساب الاشراف، ج2، ص158.

[56] ۔ همان، ص296؛ الاصابه، ج3، ص501.

[57] ۔ الاصابه، ج1، ص195؛ قاموس الرجال، ج2، ص465.

[58] ۔ اعیان الشیعه، ج4، ص591 ـ 606؛ قاموس الرجال، ج3، ص141 ـ 148؛ شخصیتهاى اسلامى شیعه، ج2، ص235 ـ 284.

[59] ۔ تاریخ طبرى، ج3، ص370 ـ 375 و 494؛ الفتوح، ج2، ص170 ـ 181؛ الغدیر، ج9، ص30؛ طبقات، ج5، ص32؛ اعیان الشیعه، ج10، ص305.

[60] ۔ معجم البلدان، ج2، ص156؛ اطلس تاریخ اسلام، ص144؛ وقعه صفین، ص12.

[61] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص465؛ وقعه صفین، ص12؛ بحارالانوار، ج32، ص358.

[62] ۔ قاموس الرجال، ج8، ص600؛ معجم رجال الحدیث، ج14، ص128؛ منتهى الآمال، ج1، ص393.

[63] ۔ معجم البلدان، ج1، ص174.

[64] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص464؛ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357.

[65] ۔ معجم البلدان، ج3، ص174.

[66] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص464؛ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357.

[67] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص465؛ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357.

[68] ۔ انساب الاشراف، ج2، ص160.

[69] ۔ معجم البلدان، ج1، ص103.

[70] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص646؛ انساب الاشراف، ج2، ص165؛ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357.

[71] ۔ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357.

[72] ۔ تاریخ یعقوبى، ج2، ص195.

[73] ۔ انساب الاشراف، ج2، ص176.

[74] ۔ اطلس تاریخ اسلام، ص277؛ معجم البلدان، ج1، ص343.

[75] ۔ ترجمه الفتوح، ص735.

[76] ۔ الفتوح، ج2، ص268.

[77] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص446 و 464؛ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357؛ تنقیح المقال، ج3، ص207.

[78] ۔ الکامل، ج3، ص288.

[79] ۔ قاموس الرجال، ج4، ص336.

[80] ۔ الاستیعاب، ج2، ص663؛ انساب الاشراف، ج2، ص162؛ الغارات، ج2، ص464.

[81] ۔ شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید، ج18، ص57؛ انساب الاشراف، ج2، ص163.

[82] ۔ انساب الاشراف، ج2، ص160.

[83] ۔ همان، ص176.

[84] ۔ الاستیعاب، ج2، ص663.

[85] ۔ انساب الاشراف، ج2، ص159.

[86] ۔ قاموس الرجال، ج5، ص27.

[87] ۔ انساب الاشراف، ج2، ص161 و 301.

[88] ۔ اعیان الشیعه، ج6، ص452؛ انساب الاشراف، ج2، ص176؛ وقعه صفین، ص12؛ بحارالانوار، ج32، ص357.

[89] ۔ الفتوح، ج2، ص268؛ بحارالانوار، ج32، ص357.

[90] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص464؛ وقعه صفین، ص12.

[91] ۔ معجم البلدان، ج1، ص411؛ فرهنگ معین، ج5، ص245.

[92] ۔ اسد الغابه، ج4، ص183؛ قاموس الرجال، ج8، ص156؛ انساب الاشراف، ج2، ص158.

[93] ۔ اسد الغابه، ج5، ص334؛ انساب الاشراف، ج2، ص158.

[94] ۔ تاریخ یعقوبى، ج2، ص195.

[95] ۔ اطلس تاریخ اسلام، ص139؛ معجم البلدان، ج3، ص353.

[96] ۔ تاریخ طبرى، ج3، ص462؛ الکامل، ج3، ص201؛ اعیان الشیعه، ج1، ص446.

مختصر تعارف گلستان زہراء

(تعارف، اہداف ،کارکردگی اور آینده پروگراموں کا ایک مختصر جائزہ)

گلستان زہراء،ایک خالص دینی،علمی اورتبلیغی پلیٹ فارم ہے کہ جس کی تشکیل کا مقصد مومنین و مومنات خصوصاً نوجوان نسل کی دینی و فکری تربیت انجام دینا ہے۔ایسی تربیت کہ جس کی بنیاد علم اور تقویٰ پر ہو۔اور جس کی عمارت محکم دلیلوں پر قائم ہو۔اور آج کی نسل جدید ،اسلامی تعلیمات کو اس کے اصلی اور حقیقی منابع سے ،بغیر کسی ملاوٹ اور تحریف کے،حاصل کر سکے۔اور دین مبین اسلام کے خلاف ہونے والی اندرونی اور بیرونی سازشوں کے خلاف فرنٹ لائن کا کردار ادا کر سکیں، تاکہ آج کی نئی نسل اس آیت کا مصداق بن سکے

كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ۔ (العمران ،۱۱۰)

تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اہداف اور مقاصد

1. اسلامی معارف و مبانی کی تعلیم و ترویج کےلیے تعلیم اور تبلیغ کے میدان میں ایک منظم تحریک شروع کرنا ۔

2. احیاء عزاداری سید الشہدا اور مقصد قیام امام حسین علیہ السلام ۔

3. خرافات، بدعات اور انحرافات سے پاک معتبر اسلامی معارف کی ترویج ۔

4. مومنین کو صحیح اعتقادات کے مبانی اور معارف سے آگاہ کرنا ۔

5. فکری اور ثقافتی انحرافات کا مقابلہ کرنے کےلیے صحیح اسلامی تعلیمات کی ترویج اور اصلاح معاشرہ کےلیے اقدامات۔

7. ایسے نوجوانوں کی تحقیق کے میدان میں رہنمائی و حوصلہ افزائی جو صحیح اسلامی نقطہ نظر کو جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں ۔

8. جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا سے بھرپور استفادہ کرنا ۔

9. طلباء و طالبات کے درمیان مختلف موضوعات کے علمی مقابلوں کا انعقاد ۔

10. ، اسلامی دروس اور لیکچرز کی ریکارڈنگ اور مختلف میڈیا پلیٹ فارمز پر ان کی نشر و اشاعت۔

فعالیت

1۔جامعہ مسجد امام علی علیہ السلام ، جس میں نماز پنجگاہ کے علاوہ ، دعا و مناجات اور ہر روز کا درس اخلاق اور نماز جمعہ کا مرکزی اجتماع شامل ہیں ۔

2۔قدیمی امام بارگاہ جس میں عشرہ محرم کے علاوہ مختلف مناسبات کی سالانہ مجالس عزاء برپا ہوتی ہیں ۔

3۔ فلٹر پلانٹ ، جس سے ہر روز اہل علاقہ مستفید ہوتے ہیں ۔

4 ۔ قرآن و دینیات سینٹر

5 ۔ عید الاضحی کے موقع پر اجتماعی قربانی کا اہتمام

6 ۔ ماہ مبارک رمضان میں تقسیم راشن و عیدی

7 ۔ مختلف دینی موضوعات پر علمی و تربیتی مقابلوں کا انعقاد

8۔ گلستان زہراء یوٹیوب چینل کا قیام

9۔فیس بک پر ایک علمی اورتبلیغی پیج کا قیام کہ جس پر ہر روز آیات قرآنیہ،احادیث معصومین، ؑ معتبر تاریخی واقعات،اور اخلاق پر مبنی پوسٹس ۔

10۔واٹس ایپ پر مومنین کرام کی علمی اور فکری تربیت اور اخلاقی ارتقاء کے پیش نظر گروپ کا قیام،کہ جس میں ہر روز بلا ناغہ روایات معتبرہ، اخلاقی واقعات،مختلف مناسبتوں کے حوالے سے پوسٹس شئیر کی جاتی ہیں۔

11۔ مختلف مقامات پر ،تعطیلات کے ایام میں ورکشاپس کا انعقاد اور کالج اور یونیورسٹی کے طلاب کے لیے مختصر ایام میں معارف دینی سے آشنائی کا بہترین موقع۔کہ جس میں نوجوانان ملت کی علمی،فکری اور اخلاقی تربیت کا انتظام کیا جائے گا۔

12 ۔ ضرورت مندوں کی حاجت روائی۔

گلستان زہراء ، کپورو والی ، سیالکوٹ

رابطہ: 03006151465 - 03192437646

امام سجاد علیہ السلام کی اخلاقی سیرت

امام سجاد علیہ السلام کی اخلاقی سیرت

مقدمہ

قرآن و حدیث کی تعلیمات میں اخلاق و کردار پر بہت زیادہ دیاگیا ہے اور اسلام کے تمام پیروکاروں کو اخلاقیات سے مزین ہونے کی تاکید کی گئی ہے ، اس لئے کہ یہ جہاں انسان کی شخصیت کو نکھارتا ہے وہیں معاشرے کو خوبصورت اور حسین بناتا ہے،اسی اخلاق سے اقوام و ملل کی کامیابی و کامرانی وابستہ رہی ہے ۔

اخلاق و کردر کی اہمیت و عظمت کو پیش نظر رکھتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد ہی اتمام و اکمال اخلاق قرار دیاہے ؛ قرآن مجید اسی مقصد کی حکایت کرتے ہوئے فرماتاہے :"انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق"۔ (۱)رسول اکرم ؐ نے اسی اخلاقی سیرت کی وجہ سے کچھ ہی دنوں میں جاہل عرب بدوؤں کے دلوں کو رام کیا اور انہیں اسلام کے آفاقی آئین و تعلیمات سے بہرہ مند فرمایا۔

یہ صرف رسول اکرم ؐ کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ آپ کے تمام جانشینوں نے دین اسلام کی تعلیمات کی ترویج و اشاعت میں اپنی اخلاقی سیرت سے بہت زیادہ استفادہ کیاہے ، انہوں نے پہلے اپنے اخلاق و کردار سے لوگوں کے قلوب میں جگہ بنائی اس کے بعد اسلام کی تعلیمات اور احکام و قوانین کو پیش کیا ۔

امام سجاد علیہ السلام کی سیرت و زندگی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ، حالانکہ بعض لوگوں نے اس عظیم ہستی کو بیمار کے لقب سے یاد کیاہے جب کہ آپ کی بیماری واقعۂ عاشورہ کے چند دنوں تک محدود تھی اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا تھا ، تقریباًسبھی لوگ اپنی عمر کے ایک حصہ میں بیمار ہوتے ہیں ، ہم سب جانتے ہیں کہ امام سجاد علیہ السلام کی اس بیماری میں الٰہی حکمت و مصلحت کار فرماتھی ، در اصل خداوندعالم ان دنوں آپ کے کاندھے سے جہاد و دفاع کی ذمہ داری اٹھا لینا چاہتاتھا تاکہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد آپ کے کاندھے پر امامت و امانت کی ذمہ داری ڈالی جاسکے اور اپنے والد گرامی کے بعد چونتیس یا پینتیس برس تک زندہ رہ کر نہایت سخت اور پر آشوب دور طے کرسکیں ۔

امام سجاد علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے وفات پدر کے بعد کی ذمہ داریوں کو اور اسلام کے واقعی چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے جہاں اپنی دلیری و شجاعت کا مظاہرہ فرمایا، اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا وہیں، دعا و مناجات اور اپنی اخلاقی سیرت سے بھی بھرپور سہارا لیاہے ۔اسی لئے یہاں امام سجاد علیہ السلام کی اخلاقی سیرت اور آپ کے برجستہ صفات کے کچھ نمونے پیش کئے جارہے ہیں تاکہ ان سے ہم اپنی زندگی میں استفادہ کرکے اپنی دنیا و آخرت کو سنوار سکیں ۔

1۔ کثرت عبادت

امام علیہ السلام کی عبادت و ریاضت کے بارے میں کچھ بیان کرنا ، سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ،اس لئے کہ امام صرف عبادت گزار نہیں تھے بلکہ ایسے عبادت گزار تھے جن پر دنیا کے تمام عبادت گزاروں کو افتخار تھا ، آپ کو عبادت گزاروں کی زینت کہاگیا ہے،آپ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ آپ کا لقب ہی "زین العابدین" پڑ گیا۔جب آپ عبادت کے لئے خداوندعالم کی بارگاہ میں کھڑے ہوتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ایک انتہائی معمولی غلام ، عظیم بادشاہ کے سامنے کھڑا ہے ؛ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : میرے والد جس وقت نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو ایسا معلوم ہوتاہے تھا کہ ایک معمولی سا غلام ایک عظیم ترین بادشاہ کے سامنے کھڑا ہے ، خوف خدا سے سارا بدن لرزنے لگتا تھا ، چہرۂ مبارک زرد ہو جاتا تھا اور اس طرح سے نماز بجا لاتے تھے کہ گویا یہی زندگی کی آخری نماز ہے ۔ (۲)

امام علیہ السلام کی عبادت کا امتیاز یہ ہے کہ آپ کی عبادت و ریاضت کو دیکھ کر لوگوں کے دل میں خدا کی عبادت کرنے کا جذبہ بیدار ہوتاتھا اور لوگ خداوندعالم کی عبادت کے سلسلے میں اپنی رغبت کا مظاہرہ کرتے تھے ؛ شیخ مفید رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام کے ایک بھانجے کا بیان ہے کہ میری والدہ ہمیشہ مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے ماموں جان کے پاس گزارا کرو۔قسم خدا کی !میں جب بھی امام کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا بلکہ علم و دانش اوراخلاق و فضیلت کے گوہر آبدار لے کر آتاتھا ، امام علیہ السلام جس وقت بارگاہ خداوندی میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو امام کی حالت دیکھ کر خدا کی عظمت و بزرگی میری نظروں کے سامنے مجسم ہو جایا کرتی تھی ۔ (۳)

2۔ عفو و بخشش

عام طور سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کو معاف کردینا عفو و بخشش ہے چاہے وہ معاف کرنے کی قدرت رکھتے ہوں یا نہیں ؛ حالانکہ عفو کا مفہوم اس وقت صادق آتا ہے جب انسان کے پاس معاف کرنے کی قدرت ہو ۔ائمہ طاہرین علیہم السلام کی بخشش کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ آپ حضرات نے اس وقت بخشش کا بھرپور مظاہرہ فرمایا جب ان کے پاس انتقام لینے کے سارے ذرائع موجود تھے ؛ امام سجاد علیہ السلام نے بھی اس وقت معاف کیا جب وہ اپنے دشمن سے بھرپور انتقام لے سکتے تھے ۔

مروی ہے کہ امام علیہ السلام کا ایک رشتہ دار آپ کی خدمت میں آیا ، اس وقت شمع امامت کے پروانے امام کے ارد گرد موجود تھے ۔ وہ شخص جیسے ہی امام کی خدمت میں پہونچا ، حضرت کو برا بھلا کہنے لگے اور تھوڑی دیر تک دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد چلا گیا ۔سارے اصحاب امام کے ایک جنبش لب کے منتظر تھے ، امام حکم دیں اور اس کو اس کے کئے کی سزا دی جائے ۔

امام نے تھوڑی دیر بعد فرمایا : تم لوگوں نے اس کی ساری باتیں سنیں ، اب میرے ہمراہ اس کے گھر چلو ۔

تمام اصحاب نے سوچا کہ امام اس سے اس کے کئے کا بدلہ لینے جا رہے ہیں ، اسی لئے ایک صحابی نے کہا : آقا ! جب وہ موجود تھا اسی وقت اس کا جواب دینا چاہئے تھا ، آپ صرف ایک اشارہ کردیتے ، ہم آپ کے اشارے کے منتظر تھے ۔

امام نے مسکرا کر آیۂ مبارکہ کی تلاوت فرمائی :[وَ الْكاظِمينَ الْغَيْظَ وَ الْعافينَ عَنِ النَّاسِ وَ اللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنين]" مومنین وہ ہیں جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا تو احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے"۔ (۴)

اصحاب نے امام کی مبارک زبان سے یہ آیۂ کریمہ سنی تو سمجھ گئے کہ امام بدلہ لینے نہیں بلکہ اپنے لطف و کرم کا مظاہرہ کرنے کے لئے تشریف لے جارہے ہیں ۔امام اس شخص کے گھر پہونچے ، آپ نے کہلوایا کہ اس سے کہہ دو کہ میں علی بن الحسین آیا ہوں ۔ وہ شخص امام کی آواز کر یہ سمجھا کہ وہ بدلہ لینے کے لئے آئے ہیں اسی لئے وہ جنگ کرنے کی نیت سے اسلحہ وغیرہ لے کر باہر نکلالیکن امام نے اس کی فکر کے برخلاف انتہائی نرم لہجہ میں فرمایا :

"بھائی !ابھی تھوڑی دیر پہلے جو کچھ تم نے میرے بارے میں کہا ہے اگر وہ باتیں میرے اندر پائی جاتی ہیں تو خدا مجھے معاف کرے اور اگر میری ذات میں وہ چیزیں نہیں ہیں تو میں خدا کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ خدا تمہیں معاف کرے"۔

یہ نرم و نازک لہجہ اور ملائمت سے بھرپور انداز گفتگو دیکھ کر وہ شخص شرم سے پانی پانی ہوگیا ، پھر امام کے پاس آکر ان کی پیشانی کا بوسہ دیا اور شرمندہ لہجے میں کہنے لگا : آقا! جو کچھ کہا تھا اس کا شائبہ تک آپ کی ذات میں ہے ، آپ کی ذات والاصفات ان باتوں سے کہیں بلند و برتر ہے ۔ (۵)

امام علیہ السلام کی بخشش سے متعلق صرف یہی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے ڈھیروں واقعات تاریخ میں ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ امام قدرت رکھنے کے باوجود انتقام کے بجائے انہیں معاف کردیتے تھے ۔امام کے اس طرز زندگی سے یہ درس ملتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لئے عفو و بخشش کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے ، اس سے جہاں قلبی سکون ملتا ہے وہیں لوگوں کی قربت و محبت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔

3۔ احسان و مروت

ایک دن امام علیہ السلام کی ایک کنیز آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہی تھی ، اچانک اس کے ہاتھوں سے پانی کا ظرف گر کر امام کے سر مبارک پر لگا اور وہ مجروح ہوگیا ۔ امام علیہ السلام نے اپناچہرہ کنیز کی جانب گھمایا ، کنیز بہت گھبرائی ہوئی تھی ، اس کی سمجھ میں نہیں آ رہاتھا کہ کیا کرے ، جیسے ہی امام نے اپنا چہرہ گھمایا اس نے فوراً آیۂ کریمہ کی تلاوت کی :

[والکاظمین الغیظ]"مومنین " اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں "۔

امام نے فرمایا : میں نے اپنے غصہ کو پی لیا۔

کنیز نے آیۂ مبارکہ کے اگلے حصے کی تلاوت کی : [والعافین عن الناس]"اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں "۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : میں نے تمہیں معاف کیا ۔

کنیز نے آیت کے آخری حصے کی تلاوت کی : [واللہ یحب المحسنین ]" اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

امام نے کنیز پر احسان کرتے ہوئے فرمایا : جا ؤ میں نے تمہیں راہ خدا میں آزاد کیا ۔ (۶)

امام علیہ السلام کے احسان اور مروت کے دوسرے واقعات بھی ہیں جنہیں بحار الانوار کی ۴۶ویں جلد میں ملاحظہ کیا جاسکتاہے ۔

ارباب نظر جانتے ہیں کہ امام علیہ السلام غلاموں اور کنیزوں کو خریدتے تھے اور پھر انہیں ایک مدت کے بعد آزاد کردیتے تھے ، لیکن جتنے دنوں تک انہیں اپنے پاس رکھتے تھے ، ان سے خدمت لینے سے زیادہ ان کی اسلامی تربیت فرماتے تھے جب ان کی تربیت مکمل ہوجاتی تھی تو آزاد کردیتے تھے تاکہ وہ اپنے اپنے علاقوں اور شہروں میں جاکرحقیقی اسلام کی تبلیغ کریں۔اگر کنیز کی آزادی کے سلسلے میں یہ سوال کیاجائے کہ امام نے اسے کیوں آزاد کیا تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جب امام عام غلاموں اور کنیزوں کودین کی تبلیغ کے لئے آزاد کردیتے تھےتویہ کنیزتو قرآنی بصیرت کی حامل تھی، اسے فوراً آزاد کرنا زیادہ ضروری تھا تاکہ وہ اپنے شہر میں جاکر حقیقی اسلام کے ساتھ ساتھ قرآنی تعلیمات کی بھی ترویج و اشاعت کرے ۔

4۔ دوستوں کے ساتھ حسن سلوک

امام سجاد علیہ السلام اپنےاصحاب و انصار اور چاہنے والوں کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھتے تھے ، امام کا کردار صداقت و امانت ، مہر و محبت ، سخاوت و بردباری سے مملو تھا ، آپ اپنے دوستوں اور چاہنےو الوں سے ملتے وقت تمام تر اخلاقی صفات کا مظاہرہ فرماتے تھے ۔

مروی ہے کہ زید بن اسامہ بستر مرگ پر زندگی کے آخری لمحات گزار رہے تھے ، امام علیہ السلام عیادت کے لئے تشریف لائے اور سرہانے بیٹھ گئے ، آپ نے دیکھا کہ زید کی آنکھوں میں آنسو ہیں ۔ امام نے دریافت کیاکہ رونے کا سبب کیاہے ؟ زید نے کہا : مولا!پندرہ ہزار دینار کا مقروض ہوں لیکن میرے پاس نہیں کہ میں انہیں ادا کرکے خدا کی بارگاہ میں جاؤں۔امام نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا:رونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ، تمہارا قرض میرے ذمہ ، میں سب ادا کردوں گا ۔ (۷)

لیکن امام علیہ السلام کے حسن سلوک کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ جن دوستوں اور چاہنے والوں کو پہچانتے تھے ان کے علاوہ ان چاہنے والوں کا بھی احترام کرتے تھے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے جو آپ سے آشنائی نہیں رکھتے تھےاور حضرت کی شخصیت ان کے لئے نامعلوم تھی ۔

طاوؤس کا بیان ہے کہ میں نے ایک سال حج کے دوران صفا میں ایک جوان کو دیکھا جس کے چہرے پر ہیبت و جلالت تھی لیکن جسمانی اعتبار سے وہ لاغر اور ضعیف تھا ، جسم پر بہت اچھا لباس بھی نہیں تھا ، اس کا سر آسمان کی طرف تھا اور وہ یہی کہہ رہاتھا :

عریان کما تری جائع کما تری ، فما تری فیما تری یا من یری و لا یریٰ" میں برہنہ ہوں جیسا کہ تو دیکھ رہاہے ، بھوکا ہوں جیسا کہ تو مشاہدہ کررہاہے ، پس تو اپنے مشاہدے میں کیا دیکھ رہاہے ، اے وہ جو سب کچھ دیکھ سکتا ہے لیکن اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا"۔

میں خداوندعالم کے ساتھ اس نامعلوم شخص کی گفتگو کو سن کر متحول ہوا ، اچانک میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک طبق آیا جو ایک یمانی چادر سے ڈھکا ہواتھا ، اس وقت انہوں نے میری جانب ایک محبت آمیز نگاہ ڈال کر فرمایا :اے طاوؤ س ۔

میں نے کہا : جی فرمائیے ۔مجھے اس بات سے بہت حیرت تھی کہ وہ مجھے کیسے پہنچانتے ہیں حالانکہ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھاتھا۔

انہوں نے فرمایا : کیا تمہیں بھی ایسے طبق کی ضرورت ہے ؟

انہوں نے اس طبق سے پردہ ہٹا یا ، اس میں لباس وغیرہ موجود تھے ، میں نے کہا : نہیں ،مجھے لباس وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس طبق کے وسط میں جو چیز ہے اس میں سے تھوڑا سا مجھے عنایت کردیجئے ۔انہوں نے اس میں سے تھوڑا سا دیا ۔

پھر ہم وہاں سے "مروہ" پہونچے ، وہاں لوگ کی بھیڑ میں نظروں سے غائب ہوگئے ، میں سوچ رہاتھا کہ وہ فرشتہ تھا یا پھر کوئی ولی خدا ؟ اچانک ایک آواز آئی : اے طاوؤ س ! تم پر افسوس ہے ، تم نے اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا ، وہ جن و انسان کے امام ہیں ، وہی سید الساجدین ، امام زین العابدین ہیں ۔

یہ سنتے ہی میں امام کے پیچھے دوڑا ، ایک جگہ انہیں دیکھ کر ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور پھر اس وقت تک ان سے جدا نہیں ہوا جب تک میں نے ان سے بھرپور دنیاو ی و اخروی فائدہ نہ حاصل کرلیا۔ (۸)

5۔دشمنوں کے ساتھ بہترین برتاؤ

ہمارا یہ دستور ہے کہ جب ہمارا کوئی دشمن مصیبت میں گرفتارہوتاہے تو مدد کرنے کی بات تو دور ، اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی مصیبت کی سختی کو بڑھا دیتے ہیں اور چند لوگوں کو جمع کرکے اس کی حالت کا مضحکہ اڑاتے ہیں ؛ لیکن ائمہ طاہرین ؑ کی سیرت کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی بہترین سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں ؛ امام علی علیہ السلام نے ضربت لگنے کے بعد اس وقت اپنے قاتل کو دودھ کا پیالہ دیاجب اسے گرفتار کرکے لایاگیا اور امام کا یہ سلوک دیکھ کر دشمن بھی رونے لگا ۔

امام سجاد علیہ السلام نے بھی اپنے اب و جد کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے صرف دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اپنے دشمنوں کو بھی پناہ دی اور ان کے ساتھ بہترین برتاؤ روا رکھا ۔مروان بن حکم کی ذات شیعوں کے لئے نامعلوم نہیں ہے ، اس نے خاندان عصمت و طہارت کے ساتھ جو برتاؤ کیا ہے اسے تاریخ بھلا نہیں سکتی ، لیکن اس کے ساتھ بھی آپ کا سلوک حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے ۔ تاریخ کا بیان ہے کہ اہل مدینہ نے حکومت یزید سے اظہار نفرت کے لئے شورش برپا کی تو مروان کی تمام تر جمع پونجی معرض خطر میں آگئی اور اسے خاندان کے تحفظ کی فکر ہوئی ، اس نے اس وقت اہل مدینہ میں سے جس کی جانب بھی رجوع کیا ، سبھی نے تحفظ دینے سے انکار کردیا ، کوئی شخص اس کے گھر والوں کو اپنے پاس رکھنے کے لئے راضی نہیں تھا ۔ مروان بہت پریشان تھا ، وہ خوب جانتا تھا کہ اگر لشکر شام اور لشکر اہل مدینہ میں تصادم ہوا تو ہر صورت میں بنی امیہ اور خصوصاًاس کے خاندان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا ، اگر لشکر یزید کو فتح ہوئی تو اہل مدینہ انتقاماًبنی امیہ کو جو ان کی دسترس میں ہیں ، زندہ نہ چھوڑیں گے اور اگر اہل مدینہ کے لشکر کو فتح ہوئی تو اس کے فوجی فتح کے بعد اپنے مخالفین کو تہہ تیغ کرنے سے باز نہیں آئیں گے اور بنی امیہ کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں گے ، اس طرح نجات کا کوئی راستہ نظر نہ آرہاتھا۔

اس اضطراب اور پریشانی کے عام میں اسے امام زین العابدین ؑکا نام یاد آیا اور امید کی ایک کرن نظر آئی ، سوچا کہ امام اپنے زمانہ کے ایک عظیم ترین انسان ہیں ، زہد و تقویٰ ، عصمت و عفت کے معدن ہیں ، مگر کیا وہ یہ عنایت کریں ، وہ ہمیں پناہ دیں گے ؟ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس نے امام کے خاندان سے کتنی بدسلوکیاں کی ہیں ؟ کیا امام ان سب کو بھول جائیں گے ۔ وہ اسی امید و بیم کی کیفیت میں امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : میرے گھر والوں کو براہ کرم آپ اپنی پناہ میں لے لیں ۔ امام نے کسی تامل کے بغیر قبول کرلیا ۔ (۹)

اصل میں امام علیہ السلام اپنے اقدام سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مروان بدترین انسان ہے لیکن میں بہترین انسان ہوں ، اس لئے میرے چاہنے والوں کو بھی ایسے سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔

6۔ جانوروں کے ساتھ سلوک

امام علیہ السلام انسانوں کے ساتھ ساتھ بے زبان جانوروں کےساتھ بھی بہترین سلوک کا مظاہرہ کرتے تھے ، مروی ہے کہ امام جب حج کی غرض سے مکہ کا سفر کرتے تھے تو کبھی اپنے اونٹ کو تازیانہ نہیں مارتے تھے بلکہ جب دیکھتے تھے کہ یہ تھک گیاہے تو اسے تھوڑی دیر کے چھوڑ دیتے تھے تاکہ وہ اپنی تھکن دور کرلے۔ (۱۰)

آپ جانوروں پر بہت زیادہ مہربان رہتے تھے ؛ ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ ا لسلام سے مروی ہے کہ میں کچھ لوگوں کے ہمراہ اپنے والد امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھے اسی وقت ایک ہرن آئی والد ماجدکے نزدیک آکر گریہ کرنے لگی۔

اصحاب نے سوال کیا : مولا یہ کیا کہہ رہی ہے ؟

فرمایا : یہ کہہ رہی ہے کہ میرے بچے کو فلاں شکاری نے قید کرلیا ہے ، کل اس نے دودھ نہیں پیا ہے ، اسے میرے پاس بلا دیجئے تاکہ میں اسے دود پلا سکوں ۔

امام نے ایک شخص کو اس شکار ی کے پاس بھیجا کہ اس بچہ کو لے آئے ، جب وہ لے آیا تو وہ ہرن بیتابی کا مظاہرہ کرنے لگی اور بچے کو اپنے سینے سے لگا کر دودھ پلانے لگی ۔ امام نے شکاری سے کہا کہ اسے آزاد کردو ، شکاری نے امام کی خاطر اسے آزاد کردیا ، امام نے بچے کو اس کے ماں کے حوالے کردیا ۔ ہرن بلند آواز سے کچھ کہہ کر صحرا کی جانب چلی گئی ۔

لوگوں کے پوچھنے پر امام نے بتایا کہ وہ شکاری کے لئے خدا کی بارگاہ میں دعا کرتے ہوئے گئی ہے ۔ (۱۱)

7۔ غریبوں کی امداد و نصرت

امام علیہ السلام اپنی دولت و ثروت کا زیادہ تر حصہ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کردیاکرتے تھے ، آپ کے حالات زندگی میں یہ بات مرقوم ہے کہ آپ راتوں کو بھیس بدل کر غذا اور طعام کے تھیلے نیز درہم و دینار اپنے دوش پر رکھ کر مفلسوں اور حاجتمندوں کے گھر پہونچایا کرتے۔ (۱۲) اکثر اوقات تو کسی کو اپنے ہمراہ مدد کے لئے بھی نہیں لیتے تھے ، آپ نہیں چاہتے تھے کہ اپنے خدمت گاروں سے مدد لیں اور آپ کا یہ عمل لوگوں میں مشہو رہو اور اس طرح وہ بے چارہ مفلس و حاجتمند اپنے مددگاروں کو پہچان لے اور شرمندہ ہو ۔ آپ کے اس عمل نے مدینہ میں پوشیدہ خیرات کرنے کا طریقہ رائج کردیا ۔ کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ خیرات و صدقہ دینے والا کون ہے ، آپ خود فرماتے ہیں کہ پوشیدہ خیرات سے جہنم کے شعلے بجھ جاتے ہیں ۔

بعض لوگ امام کی گوشہ نشینی کو دیکھتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ آپ حاجتمندوں اور فقراء کی مدد کیوں نہیں کرتے حالانکہ سارا مدینہ جانتا تھا کہ یہاں کوئی مرد نیکوکار ایسا ہے جو شب کی تاریکیوں میں فقراء و مساکین کو ان کے اخراجات اور سامان پہونچایا کرتا ہے ۔ امام نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ خود کو ظاہر کریں اور بتائیں کہ یہ پوشیدہ خیرات و امداد کرنے والے وہ خود ہیں تاکہ جن لوگوں کی مدد کی جارہی ہے وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ فلاں شخص ہماری مدد کررہاہے اور پھر شرمندہ ہوں یا وہ لوگ جو آپ کو ملامت کرتے ہیں وہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں ۔ آپ خود فرماتے تھے کہ جب میری آنکھ بند ہو گی تب اہل مدینہ کو معلوم ہوگا کہ یہ کون شخص تھا جو فقراء کی مدد کرتاتھا ۔ ہاں ! آپ کے انتقال کے بعد جب غسل دیا جانے لگا تو آپ کے دوش مبارک پر سیاہ گھٹے کا نشان لوگوں نے دیکھا اور سمجھ گئے کہ فقراء کےآذوقہ کی جو بوریاں آپ اپنے کاندھے پر لے جاتے تھے یہ اسی کا نشان ہے ۔ (۱۳)

اس کے علاوہ فریقین کی معتبر کتابوں میں لکھاہے کہ امام علیہ السلام مدینہ کے سو غریب خانوادے کا آذوقہ فراہم کرتے تھے ۔

امام علیہ السلام کی بخشش و خیرات اور غریبوں کی امداد کی عظمت و اہمیت اس وقت اور زیادہ روشن و آشکار ہوگی جب اس وقت کے مدینہ کے حالات کو پیش نظر رکھا جائے گا ، ارباب نظر جانتے ہیں کہ عمال یزید کے وحشیانہ حملے اور لوٹ مار کے بعد اہل مدینہ کے افلاس اور ان کی اقتصادی حالت انتہائی نا گفتہ بہ تھی ، ایسے میں کھلے ہاتھ ہر شخص کی مدد کرنا حیرت انگیز ہے۔ ہمارا لاکھوں سلام ہو اس منفرد عطا و بخشش پر ۔

8۔ عذاب قیامت کا خوف

امام علیہ السلام نے اپنی شہادت کے کچھ لمحے قبل بھی لوگوں کو اخلاق کا درس دیتے ہوئے قیامت کی یاد تازہ رکھنے اور عذاب قیامت سے ڈرنے کی تاکید فرمائی ہے ، حالانکہ آپ معصوم تھے ، آپ کے سلسلے میں گناہوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن پھر بھی آخری لمحے آُ کے لبوں پر عجیب و غریب فقرے تھے ؛ ملاحظہ فرمائیے :

آپ نے بستر شہادت پر اپنے فرزند امام باقر علیہ السلام سے فرمایا :بیٹا ! میں نے اپنے اونٹ پر سوار ہوکر بیس مرتبہ خانۂ خدا کی زیارت کی ہے اور ایک مرتبہ بھی اسے تازیانہ نہیں مارا ہے ۔

پھر اس کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا : قیامت کے دن قصاص اتنا سخت ہوگا کہ میں نے اس کے خوف سے ایک مرتبہ بھی اپنے اونٹ کو تازیانہ نہیں مارا۔

چنانچہ اسی مہربانی کی وجہ سے جب امام کی شہادت ہوئی تو وہی اونٹ تین دنوں تک امام کی قبر مبارک پر سر پٹکتا رہا اور بالآخر غم و اندوہ سے وہیں پر جان دے دی ۔ (۱۴)

آئیے ! خداوندعالم کی بارگاہ میں دعا کریں : معبود ! ہمیں اپنی زندگی میں امام علیہ السلام کی اخلاقی سیرت کی تاسّی کرنے کی توفیق عطا فرما تاکہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور سکے ؛ آمین یا رب العالمین۔

حوالہ جات :

۱۔قلم/۴

۲ ۔ خصال ، شیخ صدوق ؒ ص ۵۱۷

۳ ۔ ارشاد شیخ مفید ، ص ۲۳۸

۴ ۔آل عمران /۱۳۴

۵۔ارشاد ، شیخ مفید ، ص۲۴۰

۶ ۔ الارشاد شیخ مفید ، ج۲ ص ۱۴۶؛ بحار الانوار ج۴۶ ص ۵۶

۷۔ الارشاد ، شیخ مفید ، ص ۲۴۲

۸۔ معاجز الولایہ ، کاظمینی بروجردی ص ۱۷۵

۹ ۔ منتہی الآمال ، شیخ عباس قمی ، ص ۴۰۲ ، امام سجاد کے حالات کے ذیل میں

۱۰۔ بحار الانوار ، علامہ مجلسی ج۴۶ ص ۱۴۸

۱۱۔ بحار الانوار ، علامہ مجلسی ، ج۴۵ ص ۳۶

۱۲۔ مناقب آل ابی طالب ، ابن شہر آشوب ، ج۴ ص ۱۵۴ پر زہری کا بیان نقل کیاہے کہ میں نے رات میں امام سجاد کو دیکھا کہ وہ اپنے کاندھے پر ایک تھیلا لے کر مدینہ میں گشت کررہے ہیں ؛ نیز ملاحظہ فرمائیے : ابو نعیم اصفہانی ، حلیۃ الاولیاء ج۳ ص ۱۳۶؛ بحار الانوار ج۴۶ ص ۸۸؛ طبقات کبری ، ابن سعد ج۵ ص ۲۲؛

۱۳۔ حلیۃ الاولیاء ، ابو نعیم اصفہانی ج۳ ص ۱۴۰؛ بحار الانوار ، علامہ ج۴۶ ص ۸۸

۱۴۔تذکرہ الخواص ، سبط ابن جوزی ص ۳۲۷؛ مناقب ابن شہر آشوب ج۴ ص ۱۵۴؛ علامہ مجلسی ج۴۶ ص ۸۸

۱۵ ۔بحار الانوار ، علامہ مجلسی ، ج۴۶ ص ۱۴۸

پیغمبر اکرم ﷺ کےالقاب

پیغمبرگرامی اسلام کےالقاب
پیغمبر اسلام کے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں جن میں سے ہم بعض القاب کا ذکر کرتے ہوئے ان کی مختصر وضاحت کریں گے ۔
۱۔ احمد
قرآن مجید نے پیغمبر کو اس لقب سے یاد کیا ہے اور اسی سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ حضرت کو اسی لقب سے "انجیل "میں بھی یاد کیا گیا ہے ۔
ارشاد ہوتاہے : "و مبشراً برسولٍ يأتي من بعدي اسمه احمد" میں اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہے۔
احمد کے معنی ہیں "حمد کرنے والا"اور چونکہ رسول اکرم پروردگار کی حمد کیا کرتے تھے یعنی حقیقی حمد و شکر کو انجام دیتے تھے لہذا انہیں احمد کہا گیا ہے ،روایات میں ہے کہ لوگ آپ کی کثرت عبادت کی وجہ سے آپ پر اعتراض کیا کرتے تھے تو آپ فرماتے تھے : الم اکن عبداً شکوراً ؟ آیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟
۲۔محمود
آپ کا ایک لقب محمود بھی ہے چنانچہ آپ کا اسم گرامی قرآن مجید میں محمد ہے اور آپ کو محمد اور محمود کہا گیا ہے کیوں کہ آپ کی تمام صفات لائق تعریف ہیں قرآن مجید فرماتا ہے : ’’انك لعلیٰ خلق عظيم‘‘ اور آپ اخلاق کے بلند ترین درجے پر فائز ہیں
۳۔ امی
یعنی"جس سے کسی سے تعلیم حاصل نہ کی ہو" چنانچہ قرآن مجید کا ارشاد گرامی ہے :’’ وما كنت تتلوا من قبله من كتابٍ ولا تخطّه بيمينك اذاً لارتاب المبطلون‘‘
اور اے پیغمبر ! آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی قرآن پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ یہ اہل باطل شبہہ میں پڑ جاتے۔
لیکن تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود قرآن جیسی کتاب لانا اہل باطل کے شک کو بالکل مسترد کر دیتا ہے ۔چنانچہ پہلے بھی ہم اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ خود آپ کا امی ہونا ہی آپ کے معجزات میں سے ہے ۔ ایسا انسان جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان پڑھ ہے اور وہ ایسی کتاب لے آئے جس میں تمام علوم موجود ہوں ،یہ کتاب اپنے آپ کو کتاب ہدایت کے ذریعہ پہچنواتی ہے اور ہدایت کے معنی راستہ بتانے اور مقصد تک پہنچانے کے ہیں اسی وجہ سے بہت سی آیات میں فلسفی دلیلوں کو بطور مختصر اور قابل فہم بیان کیا گیا ہے قرآن کوئی فقہ کی کتاب نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ایسے ایسے قوانین اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے کہ جس کے سامنے بشریت آج بھی سر تعظیم خم کئے ہوئے ہے ۔کیا کسی میں جرأت ہے کہ وہ قرآنی قوانین کے مانند عبادی ،سیاسی،معاشرتی ،اور جزا اور سزا سے متعلق قوانین لے آئے ؟’’ قل لئن اجتمعت الانس والجن علي ان ياتوا بمثل هذا القرآن لايأتون بمثله ولو كان بعضهم لبعضٍ ظهيراً‘‘ آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لا سکتے ،چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔
۴۔ کریم
یہ لقب قرآن کریم سے لیا گیا ہے:’’اِنَّهُ لَقَولُ رَسُولٍ كَرِيمٍ‘‘بے شک یہ ایک معزز فرشتے کا بیان ہے
آپ نے اپنی مکی زندگی میں زیادہ مصیبتوں کا سامنا کیا حتیٰ کہ آپ کو پتھر مارےگیا اور آپ پہاڑوں میں پناہ لیتے تھے لیکن جب حضرت خدیجہ (س) اور امیرالمومنین علیہ السلام آپ کے پاس پہونچتے تو آپ کو یہی کہتے ہوئے پاتے تھے"اَللَّهُمَّ اَهْدِ قَوميِ فَاِنَّهُمْ لايَعْلَمُونَ" پروردگار میری قوم کی ہدایت فرما یہ نادان ہیں ۔
جس روز آپ ۱۲ ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ میں وارد ہوئے اور اپنے کسی صحابی کو یہ کہتے سنا کہ "الیوم یوم الملحمہ" آج جنگ کا دن ہے تو آپ نے امیرالمومنین علیہ السلام کو بھیجا اور یہ کہلوایا کہ لوگوں کے درمیان یہ اعلان کر دیں کہ "الیوم یوم المرحمۃ" آج کا دن مرحمت اور عفو کا دن ہے ۔
۵۔ رحمت
یہ لقب بھی قرآن کریم نے آپ کو دیا ہے : ’’وما ارسلناك الا رحمة للعالمين‘‘اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔
حضرت ختمی مرتبت کی رأفت و رحمت و مہربانی کو دیکھتے ہوئے قرآن مجید کا ارشاد گرامی ہے :’’فلعلَّك باخع نفسك علي آثارهم ان لم يؤمنوا بهذا الحديث اسفا ‘‘تو کیا آپ شدت افسوس سے ان کے پیچھے اپنی جان خطرہ میں ڈال دیں گے ، اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے ؟
آپ کے حاالات سے یہ بتہ چلتا ہے کہ آپ کی زندگی میں افسوس بھی تھا ،آپ کا شیوہ راز و نیاز تھا ،صبر تھا نیز رنج و مصیبت بھی ۔
’’لقد جائكم رسول من انفسكم عزيز عليه ماعنتم حريص عليكم بالمؤمنين رئوف رحيم‘‘
یقیناً تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم میں سے ہے ،اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے ،وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مؤمنین کے حال پر شفیق و مہربان ہے ۔
۶۔ متوکل
آپ کے القاب میں سے ایک لقب متوکل ہے جس کے معنی خود کو چھوڑ کر پروردگار پر بھروسہ رکھنے والے کے ہیں ۔
آپ سے جو دعائیں ماثور ہیں ان میں اس طرح وارد ہوا ہے : ’’اللهم لاتكلني الي نفسي طرفة عين ابداً‘‘
پروردگار مجھے ایک لمحہ کے لئے میرے حال پر نہ چھوڑنا ،کہا جاتا ہے کہ ایک دشمن نے آپ کو ایک جنگ میں تنہا سوتا دیکھ کر فوراً تلوار نکالی اور آپ سرہانے آکھڑا ہوا اور کہنے لگا : اے محمد اب تمہیں کون مجھ سے بچا سکتا ہے ؟ فرمایا: خدا ،یہ جملہ اتنا سخت تھا کہ وہ شخص لرزنے لگا اور تلوار نیچے لاتے وقت اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی ۔حضرت اٹھے اور تلوار اٹھائی اور تلوار اس کے سر پر کھینچ کر پوچھا : کون ہے جو تجھے بچا سکے ؟ کہنے لگا : آپ کا رحم وکرم ،یہ سنتے ہی حضرت نے اسے معاف کر دیا ۔آپ ایسے کام جن کا پورا ہونا لوگوں کی نظروں میں ناممکن ہوتا ہے ،اسے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے کر گزرتے تھے ۔
اسی توکل کا نتیجہ تھا کہ آپ کے پاس سب کچھ موجود تھا ۔آپ دنیا کو چھوڑ کر خدا پر بھروسہ رکھتے تھے ،اسی لئے آپ کی نظر میں دنیا کی کوئی اہمیت نہ تھی ،منقول ہے کہ آپ فرماتے تھے :دنیا کی مثال اس درخت کے سایے کے مانند ہے جس کے نیچے آدمی تھوڑی دیر آرام کرتا ہے ۔مختصر یہ ہے کہ آنحضرت متوکل تھے یعنی آپ اپنے اوپر نہیں ،خدا پر بھروسہ رکھتے تھے ،نہ ہی دوسروں پر ،اور نہ ہی دنیا پر بھروسہ رکھتے تھے ۔
۷۔ امین
آنحضرت کے دیگر القاب میں سے ایک لقب امین ہے ۔یہ ایسا لقب ہے جس کے ذریعہ عرب اسلام سے قبل حضرت کو مخاطب کیا کرتے تھے ۔تاریخ بتاتی ہے کہ قبل از بعثت آپ کے اندر غیرمعمولی کمالات موجود تھے منجملہ عفت ،صداقت ،محروموں کی امداد، اچھے معاشرتی آداب و رسوم کی رعایت ،خصوصاً صفائی اور امانتداری ،یہ ایسے صفات ہیں جنکی وجہ سے آپ عرب میں مشہور ہو گئے تھے ،جناب ابوطالب فرماتے ہیں : میں نے حضرت کو کبھی برہنہ نہیں دیکھا ،حتیٰ کہا جاتا ہے کہ کسی نے آنحضرت کو قضائے حاجت کی حالت میں نہیں دیکھا ۔
جس روز آپ کو یہ حکم ملا کہ آپ اپنی تبلیغ علانیہ شروع کردیں ،آپ نے قریش کے بزرگوں کو جمع کیا تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دیں اور سب سےپہلے جو چیز ان سے پوچھا وہ یہی تھی کہ : تم لوگوں نے مجھ کو کیسا پایا؟ سب نے جواب دیا : بے شک آپ صادق اور امین ہیں ۔
عبداللہ بن جزعان نامی شخص جو فقیر تھا اور اسے گھر کی ضرورت تھی جبکہ آنحضرت کی عمر اس وقت صرف سات سال تھی لیکن آپ بچوں کو جمع کرتے تھے اور گھر بنوانے میں اس کی مدد کرتے تھے ۔یہاں تک کہ اس کے گھر کا نام ہی "دار النصرہ " رکھ دیا اور کچھ لوگوں کو مظلوموں کی مدد کرنے کے لئے معین کر دیا ۔
آنحضرت نہایت مودب طریقہ سے چلتے تھے ،ادب سے بیٹھتے تھے اور ادب سے بات کرتے تھے ،ہمیشہ مسکرایا کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ کو "ضحوک" کہا جانے لگا ۔
آپ شیرین کلام اور فصیح تھے اور کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے ،جہاں تک ممکن ہوتا لوگوں سے لطف و مہربانی سے پیش آتے تھے اور یہ ایسی چیزیں ہیں جو تاریخ کی رو سے مسلم اور یقینی ہیں ۔
۸۔عبداللہ
یہ لقب بھی قرآن کا دیا ہوا ہے ۔سبحان الذي اسري بعبده ليلا من المسجد الحرام الي المسجد الأقصي الّذي باركنا حوله لنريه من آياتنا انه هو السميع البصير پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک ،بے شک وہ ذات سمیع و بصیر ہے
یوں کہنا بہتر ہوگا کہ یہ لقب آنحضرت کے بہترین القاب میں سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ تشہد میں رسالت سے پہلے اس کا ذکر ہے ، عبودیت کے چند مراتب ہیں جس میں سب سے اونچا مرتبہ لقاء اللہ ہے جسے قرآن مجید نے متعدد مقامات پر بیان کیا ہے ،چنانچہ یہ ایک ایسا مرتبہ ہے جہاں دل صرف اپنے پروردگار کی طرف جھکتا ہے"لاتلهيهم تجارة ولا بيع عن ذكر الله" تجارت اور خرید و فروش انہیں خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتی ہے۔
یہ وہ مرتبہ ہے جہاں دل عشق پروردگار سے لبریز ہو جاتا ہے ،اور پھر انسان اپنی زندگی میں کسی بھی ہم و غم کو نہیں آنے دیتا یعنی اس کی نظر میں خدا رہتا ہے صرف خدا ۔۔۔ اور اس کا دل اطمینان و وقار سے بھر جاتا ہے :" الا بذكر الله تطمئن القلوب"پھر انسان کی زندگی میں اضطراب کی کیفیت کا بالکل خاتمہ ہوجاتا ہے ،" الا انَّ اولياء الله لا خوف عليهم ولاهم يحزنون"
بے شک اولیاء خدا کے لئے نہ کوئی خوف ہے نہ حزن و اندوہ آنحضرت معصوم تو تھے ہی ساتھ ہی ساتھ دوسروں کا گناہ بھی آپ کو رنجیدہ خاطر کرتا تھا ۔عبادت میں آپ کو بہت لطف آتا تھا بلکہ کثرت عبادت سے آپ کے پیروں میں ورم آجاتا تھا اس لئے سورۂ طٰہ نازل ہوا اور آپ کو کثرت عبادت سے منع کیا ۔
۹۔ مصطفیٰ
یہ لقب امت اسلامیہ کے لئے باعث افتخار ہے اسکے معنی "منتخب"کے ہیں خدا نے آپ کو تمام موجودات کے درمیان سے چنا اور کیوں نہ منتخب قرار پائیں ؟
آپ مختلف ابعاد کے مالک تھے ،آپ کو مقام جمع الجمعیٰ حاصل تھا ،جس جگہ عفو و رحمت اور ایثار و فداکاری کی بات آتی آپ کا نام سر فہرست ملتا ہے ،جس وقت حاتم طائی کی بیٹی مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر کر کے لائی گئی اور اسلام قبول کر لیا تو آپ نے اسے اس کے بھائی عدی بن حاتم کے پاس بھیج دیا،عدی نے اپنی بہن سے باتیں سننے کے بعد رسول اسلام سے ملاقات کا ارادہ کیا تاکہ نزدیک سے اسلام کا مشاہدہ کرے اور اس سے آشنا ہو سکے اور اسلام کو سمجھ کر اسے قبول کرے ،ان کا بیان ہے کہ : میں پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ گھر جا رہا تھا کہ ایک عورت نے راستے میں رسول سے کچھ کہنا چاہا ،چنانچہ حضرت رکے اور اس کی باتوں کو سنا اور نہایت ہی لطف اورمہربانی کا مظاہرہ کیا اس نے حضرت کو بہت زیادہ دیر کھڑے رہنے پر مجبور کیا لیکن اس کے باوجود آپ نے اس کی بات نہیں کاٹی بلکہ آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا۔
عدی کہتے ہیں : اس بات کی وجہ سے آنحضرت کی رسالت مجھ پر روشن ہو گئی جب میں گھر پہنچا تو وہاں انداز زندگی بالکل سادہ تھا ،گھر کا فرش بھیڑ کی کھال سے بنا ہوا تھا ،کھانے میں جو کی روٹی اور نمک تھا جس کی وجہ سے میرے سامنے آپ کے نبوت کی دوسری دلیل بھی ظاہر ہوگئی ۔جو انسان اتنی قدرت اور تمکنت رکھتا ہو ،اس کے اس قدر مرید اور چاہنے والے ہوں اس کی زندگی اس قدر سادہ ہے ؟اور آخر کار آپ کا معجزہ دیکھ کر میں آپ پر ایمان لے آیا اور مسلمان ہو گیا
حضرت نے مجھ سے فرمایا : تم تو دین اور عقیدے کے اعتبار سے ٹیکس کو حرام جانتے ہو کیوں لوگوں سے ٹیکس وصول کرتے ہو ؟ اس بات سے آنحضرت کی نبوت میرے سامنے ظاہر ہو گئی ۔
وہ پیغمبر جس کی رقت قلب کا یہ عالم ہے کہ جب اس بچے کے رونے کی آواز سنتے جس کی ماں نماز میں مشغول ہے تو اپنی نماز جلد ختم کر دیتے ہیں،یہی پیغمبر جب اس بچی کو دیکھتے ہیں جس نے اپنا پیسہ گم کر دیا ہے تو اس کو پیسا دیتے ہیں اور اس کی سفارش کیلئے اس کے گھر تک جاتے ہیں اور یہی پیغمبر جب یہ دیکھتےہیں کہ دھوکے باز یہودی سازش اور پیمان شکنی کے ذریعہ اسلام کی ترقی کی راہ میں حائل ہو رہے ہیں تو ان کے سات سو افراد کے قتل کا حکم دے دیتے ہیں اور اسی کو مقام جمع الجمعیٰ یا مختلف ابعاد کا مالک کہتے ہیں۔
عموماً اگر انسان زہد ،عبادت اور ریاضت نفس کا راستہ اختیار کر لے تو لوگوں سے اس کے تعلقات سرد ہو جاتے ہیں اور معاشرے میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں رہ جاتی اور اس طرح وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت نہیں کر پاتا کیوں کہ اس کا اخلاقی پہلو ضعیف ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود پیغمبر کا اخلاقی کردار نہایت قوی یا بلند تھا ،بعثت سے قبل غار حرا آپ کی عبادت گاہ تھی ،آپ عبودیت کی معراج پر فائز تھے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود قرآن آپ کے اخلاق حسنہ کی گواہی دیتا ہے اور لوگوں کے سامنے آپ کی ملنساری پر مہر تصدیق لگاتا ہے ۔ "فبما رحمۃٍ من اللہ لنت لھم ولو کنتَ فظاً غلیظ القلب لانفضوا من حولک"یعنی اے پیغمبر آپ گفتار ، رفتار ،زبان ،عمل کے ذریعہ لوگوں کو اپنے اطراف سے بھگاتے نہیں بلکہ انہیں چیزوں کے ذریعہ لوگ آپ کے چاروں طرف پروانوں کی طرح چکر لگا رہے ہیں اور اگر کوئی آپ کی اتباع کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ رقیق القلب بنے قسی القلب نہ ہو
مختصر یہ کہ آپ کی ذات گرامی تمام صفات کمالیہ کی مالک تھی حالانکہ ان صفات کو اپنے اندر جمع کرنا بہت مشکل اور دشوار امر ہے ،آپ عالم، عاشق خدا ،عارف ،دشمنوں کے لئے سخت ،شجاع،خوشرو،عاقل ،آخرت کو اہمیت دینے والے بلکہ دنیا کو بھی اہمیت دینے والے تھے ،ساتھ ہی ساتھ زاہد ،سرگرم عمل اور ثبات قدم کے مالک تھے ۔
آپ کے القاب بہت زیادہ ہیں جس طرح آپ کے صفات کمالیہ بے شمار ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر ہم فقط انہیں چند القاب کے بیان پر اکتفاء کر رہے ہیں ۔


بلغ العلیٰ بکمالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صلّوا علیہ و آلہ

 اعمال شبِ عاشور اور روز عاشور 

اعمال شبِ عاشور اور روز عاشور

▪ گریہ وزاری کےساتھ شبِ بیداری کریں. ▪ زیارات امام حسین۴ پڑھیں.
▪ 4 رکعت نماز دو دو رکعت کر کے بجا لائیں ( نیت دو رکعت نماز شبِ عاشور پڑھتا ھوں/پڑھتی ھوں قربۃ اللہ) ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد 50 بار سورۃ اخلاص باقی نماز فجر کیطرح ھے.

▪ چار رکعت نماز دو دو رکعت کر کے بجا لائیں ( نیت اوپر درج ھے لیکن طریقہ مختلف ھے جو نیچے درج ہے.)

پہلی دو رکعت: نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد دس (10) بار آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد دس (10) بار سورۃ اخلاص.

اگلی دو رکعت: نماز کی پہلی رکعت میں الحمد کے بعد دس(10) بار سورۃ الفلق اور دوسری رکعت الحمد کےبعد دس (10) بار سورۃ الناس. باقی نماز فجر کیطرح پڑھیں.

اوپر والی نماز پڑھنے کے بعد ایک ھی جگہ پر بیٹھ کر 100 بار سورۃ اخلاص پڑھیں.

▪ جتنا زیادہ ھوسکے قاتلانِ امام حسین۴ پہ زیادہ سے زیادہ لعنتیں بھیجیں:
اللھم العن قتلۃ الحسین ۴ و اصحا بہٍ.

بحوالہ مفاتیح الجنان 523.

روز عاشورا

روز عاشورا محمد و آل محمد علیہم السلام پر مصیبت کا دن ہے. عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام نے اسلام کی بقا کی خاطر اپنا بھرا گھر اور اپنے انصار کو خدا کی راہ میں قربان کر دیا، ہمارے آئمہ معصومین علیہم السلام نے اس دن کو گریہ و زاری سے مخصوص کر دیا ہے. لہٰذا عاشور کے دن گریہ و زاری، مجلس و ماتم اور عزا کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے.

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
اگر کوئی آج کے دن زیارت امام حسین علیہ السلام بجا لائے، آپ کی مصیبت پر خوب روئے اور اپنے گھر والوں اور اعزہ واقارب کو بھی رونے کا حکم دے، اپنے گھر میں عزا برپا کرے اور آپس میں ایک دوسرے سے رو کر ملے، ایک دوسرے کو ان الفاظ میں تعزیت و تسلیت پیش کرے:
"عَظَّمَ اللّٰہُ اُجُورَنٰا بِمُصٰابِنٰا بِالحُسَینِ عَلَیہِ السَّلَام وَ جَعَلَنَا وَاِیَّاکُم مِنَ الطَّالِبِینَ بِشَارِہِ مَعَ وَلِیِّہِ الاِمَامِ المَھدِی مِن آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیہِمُ السَّلَام."
خدا وند عالم اس کو بہت زیادہ اجر عطا فرمائے گا.

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اگر کوئی عاشور کے دن ہزار مرتبہ "سورہ قل اللہ احد" پڑھے تو خدا وند عالم اس کی طرف رحمت کی نظر فرمائے گا.

روز عاشور امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر ہزار مرتبہ اس طرح لعنت بھیجنے کا بہت زیادہ ثواب ہے:
"اَللّٰھُمَّ العَن قَتَلَۃَ الحُسَینِ وَ اَصحٰابِہِ."

🔷 اعمال روز عاشورا 🔷

روز عاشورگریہ وزاری کرنا،
اور مصیبت زدوں کی طرح صورت بنانا،
ننگے سر و ننگے پیر رہنا،
آستینوں کو اوپر چڑھانا،
گریبان کو چاک کرنا،
سارے دن فاقہ سے رہنا،
عصر کے وقت فاقہ شکنی کرنا،
قاتلان امام حسین علیہ السلام پر لعنت بھیجنا،
صبح کے وقت جب کچھ دن چڑھ جائے تو صحرا یا کوٹھے پر جاکر اعمال عاشورا بجا لانے کی تاکید ہے.

🔷 سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کی مختصر زیارت پڑھے:
"اَلسَّلاَم ُعَلَیکَ یٰا اَبٰا عَبدِ اللّٰہِ. اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ یَابنَ رَسُولِ اللّٰہِ. اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم وَ رَحمَۃُ اللّٰہ وَ بَرَکٰاتُہ."

🔷اس کے بعد دو رکعت نماز زیارت عاشورا مثل نماز صبح بجا لائے.
🔷پھر دورکعت نماز زیارت امام حسین علیہ السلام اس طرح کہ قبر امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرے اور نیت کرے کہ دو رکعت نماز زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھتا ہوں قربۃ الی اللہ، نماز تمام کرنے کے بعد زیارت عاشورہ پڑھے.

🔷امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
اس دعا کو سات مرتبہ اس طرح پڑھے کہ گریہ و زاری کی حالت میں یہ دعا پڑھتا ہوا سات مرتبہ آگے بڑھے اور اسی طرح سات مرتبہ پیچھے ہٹے:
"اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّااِلَیہِ رَاجِعُونَ رِضاً بِقَضَائِہِ وَ تَسلِیماً لِاَمرِہ."

اور
🔷 امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
جو شخص عاشور کے دن دس مرتبہ اس دعا کو پڑھے تو خدا وند عالم تمام آفات وبلائے ناگہانی سے ایک سال تک محفوظ رکھتا ہے.
"اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ بِحَقِّ الحُسَینِ وَ اَخِیہِ وَ اُمِّہِ وَ اَبِیہِ وَ جَدِّہِ وَ بَنِیہِ وَ فَرِّج عَنِّی مِمَّا اَنٰا فِیہِ بِرَحمَتِکَ یٰا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ."

🔷 شیخ مفید نے روایت کی ہے کہ جب بھی عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا چاہیں تو آنحضرت کی قبر مطہر کے قریب کھڑ ے ہوں اور یہ زیارت پڑھیں:
(زیارت ناحیہ مقدسہ)

🔷 دعائے علقمہ.

🔷 عاشور کے آخروقت کی زیارت.

نوٹ:۔ عاشور کو آخری وقت پانی سے فاقہ شکنی کرے اور ایسی غذا کھائے جو مصیبت زدوں کی غذا ہو. لذیذ کھانے سے پرہیز کریں .....

کربلا میں یزیدی فوج  کی تعداد کتنی تھی؟

کربلا میں یزیدی فوج کی تعداد کتنی تھی؟
کربلا میں یزیدی فوج کی تعداد کے بارے اختلافِ رائے پایا جاتاہے۔
اختلاف کا سبب یہ ہے کہ کربلا میں اگرچہ جنگ کی اصل کمانڈ عبداللہ بن زیاد کے ہاتھ میں تھی لیکن اس نے جنگ کی سربراہی دو افراد کے سپرد کی:
عمر بن سعد اور شمر بن ذی الجوشن ؛
اور ان دونوں کی سربراہی میں مختلف کمانڈر تھے، جیسے: یزید بن رکاب کلبی، حسین بن نمیر، مغیرہ بن رحیمہ، کعب بن طلعہ، شبث بن ربعی، حجاز بن ابجد، عمر بن حجاج زبیدی، یزید بن حرث، عرزہ بن قیس (اسی طرح شبث بن عمر، مالک بن نسیر کندی، سنان بن انس، خولی بن یزید اصبحی، حرمله بن کامل اسدی، قیس بن اشعث کندی)۔
یزیدی فوج کے مذکورہ کمانڈروں میں سے ہر ایک کے دستے میں شامل سپاہیوں کی تعداد کو مؤرخین نے تفصیل سے نقل کیا ہے جن میں پانچ سو سے لے کر چار ہزار افراد تک شامل تھے۔
تاریخی کتابوں میں موجود ان تمام فوجی دستوں میں شامل سپاہیوں کی تعداد کو جمع کیا جائے تو تیس ہزار سے کچھ زیادہ تعداد بنتی ہے۔
اور چونکہ مؤرخین نے کربلا میں یزیدی لشکر کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۳۳ ہزار تک ذکر کی ہے، اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ کربلا میں یزیدی لشکر کی تعداد، ۳۳ ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔

عزاداری  امام حسین علیہ السلام ، تاریخ کے آئینہ میں

عزاداری امام حسین علیہ السلام ، تاریخ کے آئینہ میں

محرم کی عزاداری سے مراد واقعہ کربلا کی یاد میں منعقد ہونے والے خاص مراسم ہیں۔ شیعہ حضرات ہر سال محرم الحرام کے مہینے میں سنہ 61 ہجری کو کربلا میں پیش آنے والے واقعے کو یاد کر کے عزاداری مناتے ہیں جس میں امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کو یزیدی فوج نے بے دردی کے ساتھ شہید کیا تھا۔ حضرت زینب، امام سجادؑ، ام البنین اور رباب وغیرہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے امام حسینؑ پر عزاداری منعقد کی۔ اسی طرح کمیت اسدی اور دعبل خزاعی نے امام باقرؑ، امام صادقؑ اور امام رضاؑ کے زمانے میں امام حسینؑ کی مصیبت میں اشعار کہے ہیں۔ شروع میں عزاداری کی ان محفلوں میں امام حسینؑ کی مصیبت کو اشعار میں بیان کرنے کے ذریعے آپؑ پر گریہ و زاری کی جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ ان محافل میں مرثیہ سرائی، نوحہ خوانی اور سینہ زنی وغیرہ بھی انجام پانے لگے۔ ایران میں آل بویہ، صفویہ اور قاجاریہ کی حکومت کے دوران عزاداری کے مراسم پورے ملک میں پھیل گئے ۔
آئمہ اہل بیت کے دور میں عزاداری
واقعۂ عاشورا کے بعد امامؑ پر گریہ و زاری کرنے والی ہستیوں میں سب سے پہلے آپؑ کے فرزند امام زین العابدینؑ، آپؑ کی بہن زینب بنت علیؑ اور ام کلثوم تھیں۔ مقاتل کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے کہ حضرت زینبؑ جب اسیری کے وقت اپنے بھائی کی لاش کے قریب سے گزری تو بھائی کی لاش پر ان الفاظ میں نوحہ کیا جس نے دوست اور دشمن سب کو رلا کر رکھ دیا:
اے میرے نانا محمدؐ! تجھ پر آسمان کے فرشتے سلام بھیجتے ہیں یہ صحرا کی گرم ریت پر پڑا ہوا لاشہ تیرے حسینؑ کا ہے۔ اے نانا تیری بیٹیاں اسیر ہو کر شام جارہی ہیں اور ان کے چہروں پر مصیبت کے گرد و غبار آن پڑا ہے۔
ان کے علاوہ آپؑ کی بیٹیاں اور زوجۂ مکرمہ رباب بنت امرؤ القیس وغیرہ نے کربلا میں شہداء کے لاشوں پراور بعدازاں کوفہ اور پھر شام میں عزاداری اور مرثیہ سرائی کا اہتمام کیا۔ یہاں تک کہ جب اسیران کربلا کا قافلہ شام میں وارد ہوا اور امام سجادؑ اور حضرت زینب(س) کے خطبوں سے جب لوگوں پر حقیقت عیاں ہوئی اور یزید اور اس کے کارندوں کے ظلم و ستم کا پتہ چلا تو بنی امیہ کی خواتین نے بھی شہدائے کربلا پر گریہ کی اور شام میں تین دن یا 7 دن سوگ منایا گیا۔
جب اسیران کربلا کا قافلہ شام سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو امام سجادؑ کے حکم پر بشیر بن جذلم نے اشعار کے ذریعے اہل مدینہ کو اہل بیتؑ کی آمد کی خبر دی تو اہل مدینہ نے اہل بیت کی مصیبت میں گریہ و زاری کئے۔ اسی طرح مدینے میں موجود اہل بیت کی خواتین نے عزاداری برپا کر کے مدینے میں سوگ منائیں جن میں زینب بنت عقیل، ام البنین اور رباب‌ شامل ہیں۔
امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے دور امامت میں کمیت اسدی اور امام رضاؑ کے دور امامت میں دعبل خزاعی نامور شیعہ مرثیہ گو شعراء میں سے تھے جنہوں نے امام حسینؑ کی شان میں مرثیہ خوانی کی ہیں۔ اس دور میں امام حسینؑ کی مصیبت کو اشعار کی صورت میں حکایت کرنے والوں کو "مُنشِد" کہا جاتا تھا۔
عزاداری میں وسعت
آل‌بویہ کے برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت وقت کی جانب سے شیعوں پر لگائے گئے پابندیوں کا خاتمہ ہوا اور سنہ352 ق میں تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت کی جانب سے روز عاشورا کو سرکاری طور پر چھٹی اور سوگ کا اعلان کیا گیا اور اس دن خرید و فروخت پر پابندی لگا دی گئی، قصائیوں کو حکم دیا گیا کہ اس دن کے احترام میں کسی جانور کو ذبح نہ کیا جائے اور کھانے پینے کے مراکز میں کھانا وغیره تیار نہ کیا جائے اور بازاروں میں عزاداری کے خیمے نصب کئے گئے۔ آل‌بویہ کے دور میں شیعیان عزاداری کے مراسم کو "الناحیہ" یا "الرثا" کے عنوان سے منعقد کرتے تھے۔
تیموریوں کے دور میں ذاکرین کھلے عام بغیر کسی روک ٹوک کے ائمہؑ کی شان میں منقبت پڑھا کرتے تھے اور مداحی کی اصطلاح اسی زمانے سے رائج ہوئی اسی طرح روضہ خوانی کی اصطلاح بھی اس دور کے بعد سے رواج پانے لگا جس کی وجہ بھی یہ تھی کہ اسی دور میں ملا حسین واعظ کاشفی نے روضۃ الشہدا نامی کتاب تحریر کی جو ہر خاص و عام میں اس قدر مقبول ہوئی کہ عزاداری کی اکثر محفلوں میں اسی کتاب کے مطالب سے استناد کیا جانے لگا۔ یوں رفتہ رفتہ اس کتاب کے مطالب نقل کرنے والوں کو روضہ خوان کا نام دیا جانے لگا اور گذر زمان کے ساتھ امام حسینؑ کی مصیبت بیان کرنے والے ہر شخص کو اس نام سے یاد کرنے لگا۔
سلسلہ صفویہ میں شاہ اسماعیل صفوی کے حکم سے ایران کا سرکاری مذہب شیعہ قرار دینے کے بعد امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کی یاد میں عزاداری اپنے عروج پر پہنچ گئی اس دور میں باقاعدہ حکومتی پشت پناہی اور صفویہ خاندان کے بادشاہوں کی موجودگی میں نوحہ خوانی، سینہ زنی اور عزاداری کے مراسم برگزار ہونے لگے۔ اس کے بعد سے ایران میں باقاعدہ طور پر امام بارگاہوں اور عزاداری سے مربوط موقوفات تشکیل پائے۔ افشاریہ دور میں نادرشاہ نے عزاداری پر کچھ پابندیاں عاید کی۔ سلسلہ زندیہ میں پہلی بار تعزیہ اور شبیہ خوانی کے مجالس کا انعقاد ہوا۔
سلسلہ قاجاریہ میں تعزیہ خوانی کا فروغ
قاجاریہ دور میں عزاداری خاص کر تعزیہ کے مراسم اپنے عروج پر پہنچ گئے تھے۔ناصرالدین‌شاہ عزاداری کے مجالس میں تجملات اور اشرافیت کا موجب بنا اور بعض اوقات محرم کے پہلے عشرے میں وہ واعظوں اور مجالس میں شرکت کرنے والوں کی طرف مٹھی بھر بھر کر سکے پھینکتے تھے۔ قمہ زنی سمیت "شمایل‌کشی"، زنجیرزنی اور رسم 41 منبر وغیرہ ناصرالدین‌شاه کے دور میں ایجاد یا رواج پانے ہونے والے مراسمات میں سے ہیں۔
قاجاریہ دور میں عزاداری کے مراسمات میں آنے والی تبدیلوں میں سے ایک "میرزا ملکم خان" اور "میرزا فتح علی آخوندزادہ" جیسے روشنفکروں کے توسط سے عزاداری پر ہونے والے اعتراضات ہیں۔ شام غریبان کے مراسم کا رواج مظفرالدین شاہ کے دور میں ہوا۔ اس دور میں امام حسینؑ کی عزاداری محرم کے علاوہ صفر میں بھی برگزار ہونے لگی۔
رضا خان کے دور میں عزاداری
اگرچہ رضاخان اپنی اقتدار کے ابتدائی سالوں میں عزاداری کی مجالس میں شرکت کرتے تھے لیکن بعد میں روشنفکری کے نام پر آہستہ آہستہ مجالس سے دور ہونے لگے اور یہ دوری آخر کار عزاداری پر مختلف پابندیاں عاید کرنے تک جا پہنچی۔ سن 1314 ہجری شمسی کو کشف حجاب کے قانون کو لاگو کرتے ہوئے اس نے مختلف مناطق کے گورنروں کو حکم دیا کہ محرم اور صفر میں عزاداری کی جلوسیں نکالنے سے روکا جائے اور عزاداری کی مجلسوں میں لوگوں کو کرسیوں اور بینچوں پر بیٹھنے کی تشویق کی جائے۔ مشہد میں مسجد گوہرشاد کے واقعے کے بعد عزاداری کی مجالس پر پابندیوں میں اضافہ ہوا اور شہری پولیس کو عزاداری کی مجلسیں برگزار ہونے سے روکنے کی خصوصی احکامات جاری ہوئے۔ یہاں تک کہ بعض شہروں میں مجالس برپا کرنے والوں اور ان مجالس کے خطیبوں کو گرفتار کر کے قید خانوں تک پہنچایا گیا۔
رضا خان کے مذکوره اقدامات کے مقابلے میں شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے عزاداری کے مجالس کو جاری رکھنے کی بھر پور کوشش شروع کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے عزاداری کے ایام میں طلاب کو مختلف مناطق میں تبلیغ اور خطابت کیلئے بھیجنا شروع کیا۔ اسی طرح انہوں نے ان مجالس کی اصلاح کی خاطر بھی بعض اقدامات انجام دیئے۔ قم میں شبیہ‌ خوانی کی ممانعت کی اور تعزیہ خوانی کے مجالس کو روضہ‌خوانی میں تبدیل کیا۔
سنہ 1320 ہجری شمسی کو رضاخان کی سرنگونی کے بعد عزاداری کی مجالس پر عاید پابندیاں بھی رفتہ رفتہ اپنے اختتام کو پہنچیں یوں ایک دفعہ پھر قمہ‌زنی، قفل‌ بندی، زنجیرزنی، شاخ‌حسینی وغیرہ جیسے مراسم برپا ہونے لگے۔
عراق میں عزاداری
جنوبی عراق میں، ماتمی جلوس اور مجالس عزاداری جیسے مراسم ماہ محرم کے پہلے عشرے کے معمول کی خصوصیات میں شامل ہیں اور یہ مراسمات عاشورا کے دن عروج کو پہنچتے ہیں۔ لگتا ہے کہ کربلا سے دور واقع ممالک میں عاشورا کے مراسمات کی رعایت زیادہ دقیق ہے: مراسمات کی رعایت کے یہ نمونے ـ جو مرکز کی نسبت اطراف میں زیادہ قابل دید ہیں ـ وہ جانے پہچانے اور مانوس مثالیں ہیں جو بہت سے مذاہب میں دکھائی دیتے ہیں۔
انڈونیشیا میں عزاداری
انڈونیشیا میں مراسم عزاداری کا سلسلہ سترویں صدی کے وسط سے آغاز ہوا جو تابوت کے نام سے مشہور ہے اور یہ کلمہ عربی زبان کے تابوت سے ماخوذ ہے جولکڑی کے صندوق پر اطلاق کیا جاتا ہے ۔
بنکولو کے علاقے میں تابوت کی شکل میں عزاداری کا آغاز شیخ برهان الدین - جو سنگولو کے امام کے نام سے جانے جاتے ہیں - نے 1685 میلادی میں کیا تھا ۔ اگرچہ بعض مورخین کی نظر میں محکم تاریخی شواہد کے نہ ہونے کی وجہ سے عزاداری کے آغاز کے حوالے سے کسی تاریخ کا معین کرنا مشکل امر ہے لیکن قرائن سے ایسا لگتا ہے کہ تابوت کی صورت میں عزاداری کا یہ سلسلہ وہاں کے لوگوں نے ان شیعہ مومنین کی عزاداری سے متاثرہوکرکیا تھا جو مارلبورو قلعہ کی تعمیر کیلئے بنگلہ دیش اور جنوبی ہندوستان سے انگلینڈکی حکومت کے ذریعے وہاں لائے گئے تھے اور یہ شیعہ مذہب کے ماننے والے تھے ۔
عزاداری کا یہ سلسلہ رفتہ رفتہ اس علاقے کی ثقافت سےہم آہنگ ہونے کے بعد وہاں کے خاص رسومات میں شمار ہونے لگا اور بتدریج اسکا دائرہ جزیره سوماترا کے دوسرے علاقے جیسے پائینان ، پادانگ ، پاریامان ، مانینجاو ، پیدی، بندا آچه، مولابوه، و سینکیل () تک پھیلتا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہاں کے بعض علاقوں سے عزادری کا یہ سلسلہ کسی حد تک کم ہوگیا ہے لیکن بنکولو اور پاریامان میں بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے ۔
1980 کے عشرے کے بعد انڈونیشیا میں عزاداری امام حسین علیہ السلام نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے جو گزشتہ ادوار کی عزاداری سے مختلف ہے عصر حاضر میں عزاداری کا دائرہ کافی وسیع ہوچکا ہے اور اب مساجد اور امام بارگاہوں کے علاوہ لوگوں کے گھروں میں بھی عزاداری کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ انڈونیشیا کے لوگ ماہ محرم کے پہلے عشرے میں عزاداری سید الشہدا کو خاص اہتمام کے ساتھ انجام دیتے ہیں عزاداری کا یہ سلسلہ دہم محرم بروز عاشورا اپنے عروج کو پہنچتا ہے ۔
انڈونیشیا میں مکتب اہلبیت علیہم السلام کے پیروکار، شروع شروع میں تابوت کی صورت میں عزاداری کو ایک خاص طریقے سے کربلا کے شہدا ء کی یاد کو زندہ رکھنے کے غرض سے مناتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہاں کے لوگوں کا رہن سہن بھی کافی حد تک عزاداری کے عمل میں موثر ثابت ہوا ہے اسی لئے بنکولوکے علاقے میں عزاداری کیلئے سترہ تابوت کا اہتمام کیا جاتا ہے جو سترہ خاندانوں کے اس عمل کی نشاندہی کرتا ہے جن کے توسط سے پہلی بار عزاداری کا یہ عمل انجام پایا تھا ۔
چند اہم رسومات
1رسم خاک برداری: رسم خاکبرداری بنکولو کے علاقے میں یکم محرم کو نماز عشاء کے بعد تقریبا رات 8 بجے انجام پاتی ہے اور یہ کام ایسے شخص کے ذمے لگایا جاتاہے جو سفید لباس میں ملبوس ہو اور یہ امام عالی مقام کی صداقت اور پاکیزگی نفس کی علامت سمجھا جاتا ہے
2 دو دوک پِنجه : رسم دودوک پِنجه چار اور پانچ محر الحرام کو انجام پاتی ہے ؛ عام طور پرپنجہ کی ساخت وساز میں تانبا یا چاندی کو استعمال کیا جاتا ہے اور ہرتابوت کے ہمراہ ایک پنجہ ضرور ہوتاہے ۔ وہاں کے لوگوں کے مطابق پنجہ ایک مقدس وسیلہ ہے جسکی حفاظت ہرحال میں ضروری ہے اور سال میں ایک مرتبہ اسے گلاب اور لیمو کے پانی سے دھویا جاتا ہے اور اس عمل کو وہاں کے لوگ اپنی زبان میں دودوک پِنجه کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔
3کیلے کے تنے کا کاٹا جانا: یہ رسم 5 محرم الحرام کو انجام دی جاتی ہے اس عمل کو امام عالی مقام کی تلوار کی کاٹ کے مظہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے کہ گویا امام عالی مقام دشمنان اهل بیت علیہم السلام سے نبرد آزما ہونے کیلئے آمادہ ہورہے ہوں ، اس عمل کا انجام دینے والا شخص جنگی لباس میں ملبوس ہوتا ہے اور ایک ہی وار میں کیلے کے تنے کو کاٹ دیتا ہے ۔
3 سات محرم کو ماتم اور سینہ زنی: ماتم اور سینہ زنی کی صورت میں عزاداری امام مظلوم علیہ السلام 7 محرم کو تمام عزاداران نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد اپنے ساتھ پِنجه، عمامه، شمشیر وغیرہ لئے ہوے درگاہ کے اطراف میں صف بستہ ہوکر گریہ و زاری کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ اس شکل میں عزاداری کرنا امام عالی مقام کی مظلومانہ شہادت پرمغموم ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے ۔
4 کارناوال پِنجه (کاروان پنجہ ): کارناوال پِنجه کی صورت میں عزاداری آٹھ محرم الحرام کی شب تقریبا شام 7بجے سے رات 9 بجے تک علاقہ بنکولو کی تمام شاہراہوں میں انجام پاتی ہے جس میں عزاداران امام مظلوم تابوت کے اندر پنجوں کو رکھ کرجلوس عزا کی صورت میں عزاداری میں مصروف ہوتے ہیں ۔
5 کارناوال سِرابَن: شب نہم محرم الحرام شام 5 بجے سے رات 9 بجے تک عزاداران امام مظلوم علیہ السلام پنجوں کے علاوہ سفید عماموں کو چھوٹے سے تابوت میں رکھ کر پنجوں کے ساتھ گماتے ہیں اور یہ تابوت سبز اور سفید رنگ کے جھنڈوں سے مزین ہوتے ہیں ان جھنڈوں میں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے نام ہاے مبارک تحریر کیے جاتے ہیں اسطرح عزاداری کرنے کو کارناوال سِرابَن کے نام سے یاد کیا جاتاہے
6رسم سوگ اور غم: نہم محرم الحرام کے دن سوگ اور غم کے نام سے عزاداری امام حسین علیہ السلام کو ایک نیا رخ دیا جاتا ہے اور صبح 7 بجے سے شام 4 بجے تک یہ سلسلہ برقرار رہتا ہے ،سوگوار فضا کے باعث اس پوری مدت میں کسی قسم کا کوئی کام انجام نہیں پاتایہاں تک کہ تابوت سے متعلق رسم سوزخوانی کو بھی انجام نہیں دیا جاتا ۔
7رسم هایَک تابوئیک: دہم محرم روز عاشورا کے دن تابوئیک - تابوت -کو ( حقیقت جنگ کربلا ) کے عنوان سے لوگوں کیلئے نمایش کے طور پیش کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ غروب آفتاب تک جاری رہتا ہے اور غروب آفتاب کے بعد دونوں تابوئیک - تابوت -کو ساحل سمندر میں لیجاکر سمندر کے حوالے کیا جاتا ہے ۔
پاک و ہند
ہند و پاک میں عاشورا کے مراسم اور آداب میں ـ کچھ اضافات اور استثنائی آداب کے ساتھ ـ ایرانی روشوں کی پیروی کی جاتی ہے۔ تاہم دلچسپ امر یہ حقیقت ہے کہ وہاں حتی سنیوں سمیت مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو بھی عاشورا کے آداب و رسوم میں فعال کردار ادا کرتے ہیں اور ایام عزاداری میں سنی کے جداگانہ آداب و رسوم بھی ہیں۔بر صغیر پاک و ہند میں عاشورا کے نمایاں آداب و رسوم کی خصوصیات میں سے حرم امام حسینؑ کے عظیم ہنرمندانہ نمونے ہیں جو عزاداروں کے جلوس میں اٹھائے جاتے ہیں یا پھر پھیوں والے چوپایوں پر رکھے جاتے ہیں۔روز عاشورا کے آخری اوقات میں ـ یہ نمونے جنہیں اصطلاحا تعزیہ کہا جاتا ہے ـ یا مقامی قبرستان میں کربلا سے موسوم کسی مقام پر دفنائے جاتے ہیں یا پانی کے سپرد کئے جاتے ہیں۔بیان شہادت امام حسینؑ ـ جس کو ایران میں روضہ خوانی اور ہندوستان اور پاکستان میں مجلس کہا جاتا ہے ـ یا تو کھلی فضا میں انجام پاتا ہے یا خاص قسم کی عمارتوں میں، جنہیں امام باڑہ، امام بارگاہ یا عاشور خانہ اور ماتم خانہ کہا جاتا ہے۔
لاہور میں عزاداری کی تاریخ
بیسویں صدی کے ادیب، مولوی نور احمد چشتی، نے لاہور کی تہذیب کے بارے میں اپنی کتاب ”یادگارِ چشتی“ (سنِ تصنیف 1859ء) میں اس صدی کے لاہور میں عزاداری کا نقشہ بھی پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: لاہور میں عزاداری، سال 1857 اہل اسلام کا سالِ نو ماہِ غم، یعنی محرم، جس کو پنجابی زبان میں ”دہے “ کہتے ہیں، سے شروع ہوتا ہے۔ یہ مہینہ ہمارے نزدیک بہت غم و الم کا ہے کیوں کہ اس میں جناب حضرت امام حسین علیہ السلام نے مع اپنے وابستگان کے، میدان کربلا میں جام شہادت نوش کیا ۔
لاہور میں عزاداری کے واضح اور مستند شواہد حضرت داتا گنج بخش اور بیبیاں پاکدامناں کے علاوہ شاہ حسین زنجانی اور حضرت میاں میر کے عہد میں بھی ملتے ہیں اور پھر ملا احمد ٹھٹھوی اور قاضی نور اللہ شوشتری کے عہد میں بھی عزاداری پورے اہتمام سے تھی۔ محمد بلخی، جو یکم محرم 1035 ھجری/3 اکتوبر 1625ء کو لاہور پہنچا،لکھتا ہے:
”سارا شہر محرم منارہا تھا اور دسویں محرم کو تعزیے نکالے گئے،تمام دکانیں بند تھیں۔ اتنا رش تھا کہ بھگڈر مچنے سے تقریبا 50 شیعہ اور 25 ہندؤ اپنی جان گنوابیٹھے۔
لاہورمیں پرانے شہر میں اندرون موچی دروازے کا علاقہ اہمیت کا حامل ہے، جہاں کا محلہ شیعاں دنیا بھر میں عزاداری کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ موچی دروازے ہی کی نثار حویلی بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے جہاں قزلباش خاندان نے 1800 کے اوائل میں محرم کی مجالس کرنا شروع کیں اور اب ماڈل ٹاؤن کے جامعہ المنتظر اور اس سے آگے راۓ ونڈ روڈ تک پھیلی نئی آبادیوں میں قائم عزا خانوں میں سینکڑوں کی تعداد میں علم اور ماتمی جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ سر نوازش علی خان قزلباش کا انتقال 1890ء میں ہوا اور عزاداری کا کام ان کے چھوٹے بھائی نواب ناصر علی کے ذمے آیا جو 1898ء میں انتقال کر گئے، جس کے بعد یہ انتظام نواب فتح علی کے ذمے تھا۔ آج بھی لاہور میں نثار حویلی کا جلوس وقت کے اعتبار سے طویل ترین جلوس ہے جو 24 گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہنے کے بعد بھاٹی دروازے میں کربلا گامے شاہ پر ختم ہوتا ہے۔ گامے شاہ اور مائی گاماں دراصل دونوں مجذوب تھے، جو عاشور کے دن سر پر گتے کا تعزیہ رکھ کر کرشن نگر سے داتا دربار تک آتے تھے جہاں اس وقت دریائے راوی بہتا تھا اور یہاں تعزیہ ٹھنڈا کر دیتے تھے۔ یہ امام باڑہ یوں بنا کہ سنہ 1805 میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے ایک سال تعزیہ نکالنے شہر میں تعصباً تعصباً موقوف کر کے منادی کرادی کہ کرادی کہ جو کوئی تعزیہ نکالے گا سخت سزا یاب ہو گا۔ تب سید گامے شاہ نے یہاں تعزیہ بنوایا اور ماتم کرایا۔ جب رتن سنگھ گرجاکھیہ نے جو عدالتی شہر لاہور کا تھا، سنا تو اس نے اس کو گرفتار کر منگوایا اور ضرب و شلاق کرائی۔ کہتے ہیں کہ بوقت شب کو کچھ خوف آیا اور اس باعث سے اس نے اس سید کو کچھ نذر دے کر رہا کر دیا تب سے یہ مکان مشہور ہوا۔ بابا گامے کا انتقال ہوا تو اسے داتا دربار کے عقب میں دفن کیا گیا اور اس جگہ کا نام کربلا گامے شاہ پڑ گیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نواب ناصر علی خان کے علاوہ اردو ادیب اور اردو صحافت کے پہلے شہید آزادی علامہ محمد باقر دہلوی کے فرزند شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کا بھی مزار موجود ہے۔ ان کے علاوہ مفتی جعفر حسین اور علامہ مفتی کفایت حسین اور علامہ سید اظہر حسن زیدی مدفون ہیں۔
لاہور کا دوسرا بڑا تاریخی مرکز وسن پورہ میں ہے جہاں عزاداری کی بنیاد مولانا سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم نے ڈالی تھی اور انہیں کے گھر میں بعد ازاں پہلا جامعہ المنتظر کھلا تھا جو بعد میں ماڈل ٹاؤن منتقل ہو گیا۔ پرانے دریائے راوی کے کنارے سے کچھ دور آباد ہونے والی اس بستی میں لاہور کی اہل تشیع کی پہلی جامع مسجد علامہ سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم نے تعمیر کروائی تھی۔ علامہ سید علی الحائری کا خاندان عشروں تک یہاں رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب لاہور میں واحد ذوالجناح نوابین کا تھا لیکن پھر الف شاہیوں اور آغا شاہ زمان نے بھی ذوالجناح رکھنے شروع کیے اور 2008ء میں لاہور میں 60 سے زیادہ ذوالجناح تھے اور شہر میں 7 محرم کو 7 ذوالجناح نکلنے کی روایت بدستور قائم ہے۔ لاہور شہر کے طول و عرض میں 1000 سے زیادہ مقامات پر مجالس امام حسین کا سلسلہ محرم کی پہلی شب سے شروع ہو کر چہلم امام تک جاری رہتا ہے اور اسی طرح لاہور میں کربلا گامے شاہ بھی محرم کی مجالس کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔ موچی دروازہ میں مبارک اور نثار حویلی اور وسن پورہ کی مسجد علامہ حائری کے علاوہ ہزاروں عزاء خانوں میں سے چند نام اس طرح ہیں۔ رباط حیدریہ موچی دروازہ، حسینہ حال جس کا پرانا نام امام باڑہ تکیہ نتھے شاہ تھا، امام باڑہ ارسطو جاہ رجب، امام باڑہ سید واجد شاہ، امام باڑہ کشمیریاں، امام باڑہ شیر گڑھیاں، امام باڑہ غلام علی اور ڈپٹی غلام حسن، امام باڑہ رضا شاہ صفوی، امام باڑہ ایوب شاہ، امام باڑہ لال حویلی، امام باڑہ خواجگان نارووالی، امام باڑہ جعفر علی میر، امام باڑہ قصر سکندر، امام باڑہ غریب نینوا، امام باڑہ امیر پہلوان اور اکبر شاہ، امام باڑہ سیدے شاہ اور خواجہ علی محمد، امام باڑہ بازار حکیماں اور تکیہ میراثیاں، امام باڑہ مائی عیداں، حسین منزل، مبارک بیگم، کاشانہ رضویہ، گامے شاہ، ایرانیاں، حسینیہ پاک نگر، مرزا نتھا، ڈاکٹر ریاض علی شاہ (جہاں لاہور میں صبح کی سب سے پہلی مجلس ہوتی ہے) امام باڑہ علی مسجد، قصر حسن، مسجد نور، رشی بھون، شیخ سعادت علی، سید اظہر حسن زیدی، عطیہ اہلبیت، دربار حسینی، بھوگیوال، ریلوے بیرکس، بی بی پاک دامناں، قصر زہرہ، آغا شاہ زمان، امام باڑہ مظفر علی شمسی، حافظ کفایت حسین، کرنل فدا حسین، سجادیہ، خواجہ ذو الفقار علی، امامیہ ہال، خیمہ سادات، بیت السادات، باغ گل بیگم، قصر بتول، سید شوکت حسین رضوی، سادات منزل، گلستان زہرا، خانہ زینبیہ، نجف منزل، شاہ نجف گلبرگ، اسد بخاری، میڈم نور جہان، مراتب علی شاہ، علی رضا آباد، کلسی ہاؤس، زیدی ہاؤس، پانڈو اسٹریٹ، بلاک سیداں، بلتستانیہ، جامعۃ المنتظر، سیٹھ نوازش علی، کوٹھے پنڈ، مرزا محمد عباس، مومن پورہ، باٹاپور، سید حسن عباس زیدی، وجاہت عطرے، عالم شاہ، سیدن شاہ، جیا موسٰی، کٹرہ ولی شاہ، الف شاہ دلی دروازہ، سوڈیوال، شاہ خراسان، محلہ داراشکوہ، حویلی میاں خان، لال پُل مغلپورہ اور کاشانہ شیخ دولت علی۔
لاہور میں اردو مجالس کے علاوہ فارسی، عربی، پنجابی اور کشمیری مجالس کا بھی رواج رہا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ختم ہو چکا ہے یا پھر شاید کسی ایک جگہ پر جاری ہو۔ کشمیری مجالس کا رواج تو ابھی ستر کے عشرے کے آواخر تک خوب تھا اور کشمیری ذاکرین میں موسیٰ شاہ اور احمد علی کو بہت مقبولیت تھی۔ اسی طرح لاہور میں جن علماء نے اپنے علم و فضل کے چراغ روشن کیے ان میں مہدی خطائی، ملا ابراہیم، ملا معصوم، ملا فقیر اللہ، عماد الدین، راجو بن حامد، ابوالقاسم حائری، سید علی الحائری، شیخ عبدالعلی ہروی تہرانی، آغائے بارھوی، ارسطو جاہ سبزواری، شمس العلماء سید سردار حسن، علامہ ابن حسن نو نہروی، علامہ ہندی، سید کلب حسین، ضمیر الحسن نجفی، حافظ کفایت حسین اور لکھنؤ کے علامہ نقی عرف نقن میاں، حافظ ذو الفقار علی، مولانا اظہر حسن زیدی، فاتح ٹیکسلا مولانا بشیر، ابن حسن نجفی، مرزا یوسف حسین اور ضامن حسین، مولانا ظفر مہدی، حافظ سیف اللہ، اسماعیل دیوبندی، مرتضیٰ حسین فاضل، نصیر الاجتہادی، مفتی جعفر حسین، مولانا اختر عباس، علامہ طیب الجزائری، مولانا اکبر عباس اور افسر عباس، سید محمد جعفر زیدی، محبوب ہمدانی اور سید ظفر حسین کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی فہرست میں ایک نام غلام الحسنین ‘‘پنڈت نیک رام‘‘ کا ہے جو ہندو سے شیعہ ہوئے تھے اور پھر انہوں نے اپنی ساری زندگی فضائل و مصائب آل محمد بیان کرنے میں گزار دی۔
اسی طرح سے لاہور میں، ذاکرین، مرثیہ نگاروں، شعرائے اہلبیت، سلام ،سوز اور نوحہ خوانوں کی بھی ایک نہایت طویل فہرست ہے جن میں سے چند نام یہ ہیں۔ منظور حسین برا، ریاض حسین موچھ، سائیں اختر حسین، حامد علی بیلا، بشیر علی ماہی، رجب علی، سید ناصر جہان، نذر حسین، پرویز مہدی، میر ناظم حیسن ناظم، شکور بیدل، اداکار محمد علی، منظور جھلا، سید نازش رضوی، آفتاب حسین لکھنوی، فیروز علی کربلائی، مشیر کاظمی، فیروز علی کربلائی، ظہور حیدر جارچوی، کاظمی برادران، سہیل بنارسی، سید جرار حسین، سید محسن علی، امانت علی، فتح علی، پیارے خان، حسین بخش گلو، چھوٹے غلام علی، شوکت علی، غلام علی، ڈاکٹر صفدر حسین، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حکیم احمد شجاع، قیصر بارھوی، وحید الحسن ہاشمی، پروفیسر مسعود رضا خاکی، میر ناظم حسین ناظم، سیف زلفی، ظفر شارب، جعفر طاہر، جوش ملیح آبادی، وغیرہ۔
ملتان میں عزاداری کی تاریخ
قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی۔ محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران عزاداری تذکر کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔
راولپنڈی میں عزاداری
راولپنڈی میں عزاداری کے ڈانڈے کوئی پانچ سو سال قبل سید کسراں نامی گاؤں سے ملتے ہیں جس کے بعد تیلی محلے،شاہ چن چراغ، ڈھوک رتہ امرال اور متعدد دیگر عزاخانوں کے بعد اسلام آباد میں کراچی سے دارالحکومت منتقل ہونے کے ساتھ ہی عزاداری کی بنیاد پڑگئی اور آج محرم میں پچاس سے زائد مقامات پر مجالس ہوتی اور جلوس نکلتےہیں۔ یہاں کے معروف عزا خانوں میں کرنل مقبول، بوہڑ بازار، مدرسہ فاطمیہ، مبارک بانو، لڈن شاہ، زین العابدین، سید محمد آغا رضوی، بیت الکاظم، ساگری، خیام اہلبیت، قصر سجاد، قصر موصومہ قم، مریڑ چوک، جعفریہ مسلم ٹاؤن، علی مسجد سیٹلائٹ ٹاؤن، قصر ابوطالب، قصر علمدار، موہن پورہ، بارگاہ زینب، ناصر العزا، چٹی ہٹیاں، ابو محمد اور قصر الحسین کے علاوہ متعدد دیگر عزا خانے شامل ہیں۔
حیدرآباد میں عزاداری کی تاریخ
حیدرآباد تالپور حکمرانوں کا دارالخلافہ تھا اور یہ اس وقت تک رہا جب تک چارلس نپیئر نے سندھ فتح کر کے اس کا دارالحکومت کراچی منتقل نہیں کر دیا۔ تالپور خاندان کی اکثریت شیعہ مسلک سے وابستہ تھی لہذا حیدرآباد، خیرپور اور روہڑی میں عزاداری نے سرکاری سرپرستی میں فروغ پایا۔

امام حسین علیہ السلام کےبارےمیں ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات

امام حسین علیہ السلام کےبارےمیں ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات


١۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: (ان الحسین مصباح الھدی و سفینتہ النجاۃ)حسین [ع] ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے۔١
٢۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:(نظر الی الحسین فقال : یا عبرة کل مومن فقال انا یا ابتاہ قال نعم یا بنی )
امام علی علیہ السلام نے اپنے فرزند کی طرف دیکھا اور فرمایا:اے وہ جس کے نام اور یاد کی وجہ سے ہر مومن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں امام حسین علیہ السلام نے فرمایا آپ[ع] کی مراد میں ہوں؟ امام[ع] نے فرمایا :ہاں اے فرزند۔٢
٣۔حضرت زھراء[س] فرماتی ہیں:( فلما صارت الستة کنت لا احتاج فی الیلہ الظلماء الی مصباح و جعلت السمع اذا خلوت فی مصلی التسبیح و التقدیس فی بطنی)
جب امام حسین[ع] چھ ماہ میں داخل ہوئے درحالیکہ ابھی بطن میں تھے تو اندھیری رات میں مجھے کسی چراغ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اور خدا کی عبادت کے دوران ،تسبیح اور ذکر خدا کی آواز سنائی دیتی تھی۔٣
٤۔امام حسن مجتبی علیہ السلام فرماتے ہیں : (ان الذی یوتی الی ،فاقتل بہ ،و لکن لا یوم کیومک یا ابا عبد اللہ)
جو چیز میری شھادت کا باعث بنے گی وہ زہر ہے جس کے ذریعے مجھے شھید کیا جائیگا لیکن یا ابا عبد اللہ کوئی بھی دن عزا اور مصیبت میں آپ کے دن جیسانہیں ہو گا۔٤۔
٥۔امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں :( انا قتیل العبرة،لا یذکر المومن الا استعبر،)
میں وہ شہید ہوں جسے رلا رلا کر مارا گیا کوئی بھی مومن مجھے یاد نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کے آنکھوں سے اشک غم جاری ہوتے ہیں۔٥
٦۔امام سجادعلیہ السلام فرماتے ہیں: ( انا ابن من بکت علیہ ملائکتہ السماء ،انا ابن من ناحت علیہ الجن فی الارض والطیر فی الھواء)
میں اس کا بیٹا ہو جس پر آسمانی فرشتوں نے گریہ کیا اور زمین پر جنوں اور ہوامیں پرندوں نے بھی نوحہ خوانی کی ۔٦
٧۔امام باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں :( مابکت علی احد بعد یحیی بن زکریا ،الا علی الحسین بن علی فانھا بکت علیہ اربعین یوما)

حضرت یحیی بن زکریا علیہ السلام کی شہادت کے بعد آسمان نے کسی پر گریہ نہیں کیا ،مگر اما م حسین علیہ السلام کی شہادت پر آسمان نے چالیس دن تک گریہ کیا ۔٧۔
٨۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:( ان البکاء و الجزع مکروہ للعبد فی کل ما جزع،ما خلا البکاء و الجزع علی الحسین بن علی فانہ فیہ ماجور)
ہر قسم کی مشکلات و مصائب پر گریہ کرنا مکروہ ہے مگر امام حسین[ع] کی مصیبت پر گریہ وزاری کرنے کا ثواب ہے ۔٨
٩۔امام موسی کاظم علیہ السلام کی حالت امام رضا علیہ السلام کی زبانی :( کان ابی اذا دخل شھر المحرم لا یری ضاحکا و کانت الکابة تغلب علیہ،حتی یمضی منہ عشرة ایام،فاذاکان یوم العاشر کان ذالک الیوم یوم مصیبتہ و حزنہ و بکائہ و یقول ھو الیوم الذی قتل فیہ الحسین )
جب ماہ محرم شروع ہو جاتا تو میرے والد بزرگوار کے چہرے پر خوشی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور آپ[ع] حزن و ملال میں رہتے ۔یہاں تک کہ روز عاشورا انکی عزاداری اور گریہ کرنے کا دن ہوتا تھا آپ فرماتے کہ اس دن امام حسین کو شھید کر دیا گیاتھا۔٩
١٠۔امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :(ان یوم الحسین اقرح جفوننا واسبل دموعنا و اذل عزیزنا بارض کرب و بلا و اورثتنا الکرب و البلاء الی الانقضائ)
بے شک امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کے دن نے ہمارے آنکھوں کو خستہ و مجروح کر دیا ہے اور ہمارے آنسووں کو جاری کر دیا ہے ہمارےعزیزوں کو خفت اٹھانی پڑی اس دن کی مصیبت نے ہمیشہ کے لئے غمگین اور داغدار کر دیا ہے ۔١٠
١١۔امام جواد علیہ السلام فرماتے ہیں:( من زار الحسین لیلة ثلاث عشرین من شھر رمضان و ھی لیلة اللتی یرجی ان تکون لیلة القدر و فیھا یفرق کل امر حکیم صافحة اربعة و عشرون الف ملک و نبی کلھم یستاذن اللہ فی زیارة الحسین فی تلک اللیلة)
جو شخص ماہ رمضان کی تئیسویں رات کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرتا ہے تو چار ہزار فرشتے اورانبیاء اس زائر سے مصافحہ کرتے ہیں اور سب کے سب خداوند سے اس رات کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے اذن طلب کرتے ہیں ۔١١
١٢۔امام نقی علیہ السلام فرماتے ہیں:(من خرج من بیتہ یرید زیارة الحسین بن علی فصار الی لفرات فاغتسل منہ کتبہ اللہ من الفلحین فاذاسلم علی ابی عبدا للہ کتب من الفائزین،فاذافرغ من صلاتہ اتاہ ملک فقال :ان رسول اللہ یقروئک السلام و یقول لک :اما ذنوبک ،فقد غفر لک فاستانف العمل)

جو شخص بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے قصد سے اپنے گھر سے نکلے اور فرات میں غسل کرے تو خداوند عالم اسکا نام فلاح پانے والوں میں لکھتا ہے اور جب وہ امام[ع] پر سلام کرتا ہے تو اسکا نام فائزین میں لکھتا ہے اور پھر جب وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے تو ایک فرشتہ اسے کہتا ہے کہ رسول خدا نے تجھے سلام کہا ہے اور تم سے فرمایا ہے کہ تیرے سارے گناہ معاف ہوگئے ہیں لھذا تم نئے سرے سے اعمال انجام دو۔١٢

١٣۔امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں :(اللھم انی اسئلک بحق المولود فی ھذا الیوم المو عود لشادتہ قبل استھلالہ و ولادتہ ،بکتہ السماء و من فیھا والارض و من علیھا،ولما یظائلا بتیھا ،قتیل العبرة و سید الاسرة الممدود بانصرة یوم الکرة،المعوض من قتلہ ان الائمة من نسلہ و الشفاء فی تربتہ)
پروردگارا!میں تجھے اس نومولود کا واسطہ دیتا ہوں جس کی ولادت سے پہلے اسکی شھادت کا وعدہ ہوا تھا وہ جس کی مصیبت پر اہل آسمان نے آسمان پر اور زمین پر اہل زمین نے گریہ کیا حالانکہ اس نے ابھی زمین پر قدم نہیں رکھاتھا ۔وہ جس کی شھادت گریہ و زاری کا باعث ہے وہ بزرگ خاندان جو رجعت کے وقت خدا کی نصرت سے کامیاب ہو گا جس کی شہادت کو جزا کے طور پر ان کی نسل سے امامت اور ان کی تربت میں شفارکھ دی ۔١٣
١٤۔امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف فرماتے ہیں :(فلئن اخرتنی الدھور،و عاقنی عن نصرک المقدور،ولم اکن لمن حاربک و ھاربک محاربا ولمن نصب لک العداوة مناصبا فلا ندبنک صباحا و مساءا ولاءبکین علیک بدل الدموع دما)
اگرچہ میں آپ کے زمانے میں نہیں تھا اور تقدیر نے مجھے آپکی نصرت کرنے سے روکے رکھا اور آپ کے دشمنوں سے جھاد نہ کر سکا اور آپ پر اٹھتی ہوئی تلواروں کو روک نہ سکا لیکن شب و روز آپ پر آنسو بہاتا ہوں اور اشک کے بدلے خون کے آنسو روتا ہوں۔١٤

منابع:
١۔مستدرک الوسائل ، ص٣١٨ باب ٤٩
٢۔بحار الانوار،ج٤٤ص٢٨٠
٣۔بحار الانوار، ج٤٣ ،ص٢٧٣ الدمعة الساکبة ص٢٥٩
٤۔بحار الانوار ،ج٤٥ ،ص٢١٨ ۔امالی شیخ صدوق،ص١١٦
٥۔بحار الانوار ، ج ٤٤،ص٢٨٤ ۔امالی صدوق ص١٣٧
٦۔بحار الانوار،ج٥٤،ص٧٤ عوالم ج١٧،ص٤٨٥
٧۔کامل الزیارات ص ٩٠ ۔بحار الانوار ،ج٤٥ص٢١١
٨۔کامل الزیارات، ص١٠٠ ۔بحار الانوار ،ج ٤٤،ص٢٩١
٩۔امالی الصدوق،ص١٢٨بحار الانوار ، ج٤٤ ص٢٨٤
١٠ ۔امالی شیخ صدوق ص١٢٨ بحار الانوار،ج٤٤ص٢٨٤
١١۔وسائل الشیعة ،ج١٠ ص ٣٧٠ باب ٥٣
١٢۔وسائل الشیعة ج١٠ ص ٣٨٠ ابواب المزار ج١٠
١٣۔ مصباح المتہجد،ص٢٥٨۔۔بحار الانوار،ج٩٨،ص٣٤٧
١٤۔بحار الانوار،ج٩٨ ص٣٢٠۔

اصحاب امام حسین علیہ السلام کا تعارف

اصحاب امام حسین علیہ السلام کا تعارف

مقدمہ
واقعہ کربلا اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا اصحاب کی شہادت تمام انسانوں خصوصا مسلمانوں اور پیروان قرآن کے لئے انسان ساز اور مشعل راہ ہے مکتب عاشورا ہمیں درس دیتا ہے کہ راہ خدا میں قیام عزت اور سعادت ابدی ہے ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہمیشہ کی ذلت اور رسوائی ہے ؛انی لا اری الموت الا السعادہ عالیجاہ مع الظالمین الا برما ؛میں سعادت کی موت کو ذلت کی زندگی گزارنے سے بہتر سمجھتا ہوں اصحاب امام حسین علیہ السلام جنہوں نے عاشورا کے دن امام علیہ السلام کی رکاب میں جام شہادت نوش کیا ان کی تعداد بہتر ہے( 72)لیکن بعض مورخین سید بن طاووس رح نے زیادہ تعداد لکھی ہے عاشور کی رات امام حسین علیہ السلام نے جب اپنے اصحاب سے خطاب کیا تو فرمایا میں اپنے اصحاب سے زیادہ باوفا کسی صحابی کو نہیں جانتا اور جیسے اصحاب مجھے ملے ہیں ایسے کسی کو نصیب نہیں ہوئے اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کے اصحاب خدا کے نزدیک بلند مقام رکھتے تھے خدا انبیاء اور اولیاء الہی کا سلام ہو ان پر جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اس مصیبت پر صبر کیا رحمت الہی اور فوز عظیم اور ابدی سعادت کو پایا طوبی لھم و حسن مأب امام حسین علیہ السلام کے تمام اصحاب ایک بلند مقام رکھتے ہیں لیکن ان مختصر تحقیق میں سے فقط دو اصحاب کا تذکر ہ ہو گا :
1۔حبیب ابن مظاہر
نام، کنیت اور نسب
حبیب بن مُظَہَّر (یا مُظاہر) بن رئاب ابن اشتر بن حجوان بن فقعس بن طریف بن عمرو بن قیس بن حارث بن ثعلبہ بن دودان بن اسد اسدی کندی فقعسی۔ متقدم مآخذ میں ان کے والد کا نام "مظاہر" کی صورت میں اور بعض منابع میں مُظَہَّر کی صورت میں بیان ہوا ہے۔ مامقانی نے افواہ عامہ اور زیارات سے استناد کرتے ہو گیائے "مُظاہر" کو صحیح گردانا ہے۔ تاہم سید محسن امین عاملی لکھتے ہیں: زیادہ تر قدیم تاریخی اور غیر تاریخی کتب میں "مُظَہَّر بر وزنِ "مُطَہَّر" منقول ہے اور صحیح بھی یہی ہے اور یہ جو متاخرہ کتب میں "مظاہر" لکھا جاتا ہے، قدما کے ضبط و ثبت کے خلاف ہے۔
فضائل
حبیب مرد عابد و پارسا تھے، تقوی اور حدود الہیہ کی رعایت کرتے تھے، حافظ قرآن تھے، اور ہر شب عبادت و مناجات میں مصروف ہوتے تھے اور امام حسینؑ کے بقول ہر شب ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے۔ پاک و پاکیزہ اور سادہ زندگی گذارتے تھے، اس قدر دنیا سے بے رغبت تھے اور زہد کو اپنی زندگی کے لئے نمونۂ عمل بنائے ہوئے تھے کہ جس قدر بھی انہیں مال و دولت اور امان ناموں کی پیشکش ہوئی، انہوں نے قبول نہ کیا اور کہا: "اگر ہم زندہ رہیں اور امام حسینؑ کی مظلومیت کی حالت میں قتل کردیں تو رسول خداؐ کے حضور ہمارے پاس کوئی عذر نہ ہوگا (اور ہمیں معاف نہ کیا جائے گا)۔
عصر نبوی(ص)
واضح نہیں ہے کہ حبیب صحابہ میں سے ہیں یا تابعین میں سے تاہم ابن کلبی اور ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ انہیں رسول خداؐ کی صحبت کی سعادت ملی ہے۔شیخ طوسی کا کہنا ہے کہ امام علی، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے اصحاب میں سے ہیں لیکن انہوں نے صحابہ کی فہرست میں ان کا نام درج نہيں کیا ہے اور شیخ طوسی کے اس کام سے ظاہر ہوتا ہے کہ حبیب صحابہ میں سے نہیں ہیں۔ اسی طرح استیعاب اور اسد الغابہ کے مؤلفین نے بھی انہیں رسول اللہ کے صحابہ میں نہیں لکھا ہے۔
امام علیؑ کا دور
حبیب مدینہ چھوڑ کر امیرالمؤمنینؑ کے ساتھ کوفہ چلے گئے اور آپؑ کے ساتھ جہاد و کوشش میں مصروف ہوئے اور آپؑ کے اصحاب خاص کے زمرے میں قرار پائے اور آپؑ کے علوم کے حاملین میں شمار ہوئے۔ حضرت علیؑ نے انہیں علم منایا و بلایا عطا کیا تھا۔ حبیب شرطۃ الخمیس کے رکن خاص تھے اور شرطۃ الخمیس خطرات کی صورت میں فوری رد عمل کے لئے تشکیل یافتہ مسلح دستے کا نام ہے جس میں امام علیؑ کے مخلص اور مطیع ساتھی شامل تھے۔ واقعہ عاشورا سے برسوں قبل میثم تمار کا بنو اسد کی مجلس سے گذر ہوا تو دونوں نے ایک دوسرے کو شہادت کی بشارت اور شہادت کی کیفیت کی خبر دی اور اسی علم منایا کا نتیجہ تھا جو انہوں نے امیر المؤمنینؑ سے سیکھا تھا اور وہ دونوں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی خبر رکھتے تھے۔
امام حسینؑ کا دور
کوفہ میں معاویہ بن ابی سفیان کی موت (سنہ 60 ہجری) کے بعد حبیب اور کوفہ کے بعض شیعہ اکابرین ـ منجملہ سلیمان بن صُرَد، مسیب بن نَجَبَہ اور رفاعہ بن شداد بجلی نے بیعت یزید سے انکار کیا اور امام حسینؑ کو خط لکھا اور آپؑ کو امویوں کے خلاف قیام کی دعوت دی؛ اور مسلم بن عقیل کوفہ آئے تو ان افراد نے ان کی نصرت کی۔حبیب بن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ خفیہ طور پر لوگوں سے مسلم کے لئے بیعت لیتے تھے اور اس راہ میں ان دو نے کوئی قصور روا نہيں رکھا۔ ابن زیاد کوفہ آیا اور لوگوں پر دباؤ ڈالا تو انہوں نے مسلم کا ساتھ چھوڑ اور بیعت توڑ دی چنانچہ قبیلۂ بنو اسد نے حبیب اور مسلم بن عوسجہ کو پناہ دی تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے اور موقع پاکر دونوں خفیہ طور پر کوفہ سے نکل گئے۔ وہ دن کی روشنی میں ابن زياد کے جاسوسوں اور گماشتوں کی نظروں سے کہیں چھپ جاتے تھے اور راتوں کو سفر کرتے تھے حتی کہ امام حسینؑ کی لشکر گاہ تک پہنچے۔ بالآخر وہ سات محرم الحرام کو کربلا میں امام حسینؑ کے قافلے سے جاملے۔

کربلا میں
حبیب کربلا پہنچتے ہیں تو ایک بار امامؑ کی نسبت اپنی وفاداری میدان عمل میں ثابت کردی۔ جب دیکھا کہ امامؑ کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم اور آپؑ کے دشمنوں کی تعداد کثیر ہے تو امامؑ سے عرض کیا: "قریب ہی قبیلۂ بنو اسد کا مسکن ہے؛ آپ اجازت دیں تو میں جاکر آپ کی مدد کی دعوت دوں ،شاید خدا انہیں ہدایت دے دے "، امامؑ نے اجازت دی تو حبیب عجلت کے ساتھ اپنے قبیلے میں پہنچے اور ان کو موعظت و نصیحت کی لیکن عمر سعد نے ایک لشکر بھیج کر بنو اسد کو امامؑ کی طرف آنے سے روک لیا۔
عصر 9 محرم
ایک شخص اس روز عمر سعد کا ایک خط امام حسین کے لئے لایا تو حبیب بن مظاہر نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: ظلم و ستم والوں کے پاس مت جاؤ۔ 9 محرم کی عصر کو حبیب بن مظاہر نے خیام امام پر حملے کا ارادہ رکھنے والی دشمن کی سپاہ کو نصیحت کرتے ہوئے امام حسینؑ اور آپؑ کے اصحاب کے اوصاف بیان کئے اور انہیں جنگ سے پرہیز کرنے کی تلقین کی۔
شب عاشورا
شب عاشورا نافع بن ہلال نے حبیب کو اصحاب کی وفاداری اور استواری کے سلسلے میں زینب بنت علی کی فکرمندی سے آگاہ کیا تو حبیب اور ہلال مل کر اصحاب کی طرف گئے اور انہیں اکٹھا کرکے سب امام حسینؑ کی خدمت جی میں حاضر ہوئے اور اعلان کیا کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک خاندان رسولؐ کی حمایت و حفاظت کریں گے۔
روز عاشور
عاشورا کے دن امام حسینؑ نے اپنے قلیل لشکر کا میسرہ (بایاں بازو) حبیب بن مظاہر کے سپرد کیا اور میمنہ (دایاں بازو) زہیر بن قین کے حوالے کیا اور پرچم اور قلب (مرکز) کی قیادت حضرت عباس کو سونپ دی۔
امام حسینؑ نے لشکر یزید سے مخاطب ہوکر اپنا حسب و نسب بیان کیا اور اپنے فضائل گنواتے ہوئے رسول خداؐ کی حدیث هذان سيدا شباب اهل الجنة ؛یہ دو امام حسنؑ اور امام حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں)، کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا "تمہارے درمیان ایسے لوگ ہیں جنہوں نے یہ حدیث رسول اللہؐ سے سنی ہے؛ اس اثناء میں شمر بن ذی الجوشن نے کہا: "میں نے خدا کی عبادت شک و تردد کے ساتھ کی ہوگی اگر میں سمجھ لوں کہ کیا کہہ رہے ہو! حبیب بن مظاہر نے جواب دیا: اے شمر! تم ستر شکوک کے ساتھ خدا کی عبادت کرتے ہو اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم سچ کہہ رہے ہو اور تم واقعی نہیں سمجھتے ہو کہ امامؑ کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ تمہارا قلب سیاہ ہوچکا ہے اور اس پر مہر لگی ہوئی ہے۔ جنگ کے آغاز پر ـ جب عمر بن سعد بن ابی وقاص کے لشکر سے ایک ایک فرد نکل کر مبارز طلب کرتا تھا، حبیب اور بریر ہمدانی میدان میں آئے لیکن امام حسینؑ نے انہیں روکا۔
ابو ثمامہ نے امام حسینؑ کو وقت نماز کی یادآوری کرائی تو امامؑ نے فرمایا: ان (سپاہ یزید) سے کہو کہ جنگ روک لیں تاکہ ہم نماز ادا کریں۔ حصین بن نمیر (یا حصین بن تمیم) نے کہا: تمہاری نماز قبول نہیں ہوتی۔ حبیب بن مظاہر نے جواب دیا: تم سمجھتے ہو کہ آل رسولؐ کی نماز قبول نہیں ہوتی اور تمہاری نماز قبول ہوگی اے شراب خوار (اے گدھے)! اور اس پر حملہ کیا اور اپنی شمشیر پیچھے ہٹاتے ہوئے حصین کے گھوڑے کے منہ پر وار کیا، حصین گھوڑے سے گر گیا اور اشقیاء نے لپک کر اسے حبیب کے حملے سے نجات دلائی۔
مسلم بن عوسجہ لڑکر زخمی، اپنے خون میں رنگے ہوئے تھے، زندگی کے آخری لمحات گذار رہے تھے اور زمین پر گرے ہوئے تھے۔ امام حسینؑ حبیب کے ساتھ مسلم کے پاس پہنچے۔ امام حسینؑ نے فرمایا: اے مسلم! خدا تمہاری مغفرت فرمائے اور آیت قرآنی: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً؛ایمان والوں میں کچھ اشخاص ہیں جنہوں نے سچ کر دکھایا اسے جو انہوں نے اللہ سے عہد و پیمان کیا تھا تو ان میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنا وقت پورا کر لیا اور ان میں سے کچھ انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے بات میں ذرا بھی تبدیلی نہیں کی)" کی تلاوت کی؛ حبیب قریب آئے اور کہا: "تمہارا قتل ہونا، مجھ پر بہت بھاری ہے لیکن میں تمہیں جنت کی خوشخبری دیتا ہوں؛ مسلم بن عوسجہ نے کمزور سی آواز میں کہا: "خداوند متعال تمہیں خیر کی بشارت دے"؛ حبیب نے کہا: "اگر میری شہادت قریب نہ ہوتی تو میرے لئے خوشی کی بات ہوتی کہ تم مجھے وصیت کرتے اور جو کچھ تمہارے لئے اہم ہے میں تمہارے لئے انجام دیتا اور دین اور قرابتداری کے حوالے سے تمہارا حق ادا کرتا؛ مسلم نے گوشۂ چشم سے سیدالشہداؑ کی طرف اشارہ کیا اور کہا: میں تمہیں امام حسینؑ کے حق میں وصیت کرتا ہوں، خدا تم پر رحم کرے "جب تک تمہارے بدن میں جان ہے ان کا دفاع کرو اور ان کی نصرت سے ہاتھ نہ کھینچو"، حبیب بن مظاہر نے کہا: میں تمہاری وصیت پر عمل کروں گا اور عمل کرکے تمہاری آنکھیں روشن کروں گا۔
روز عاشور حبیب کی رجز خوانی
روز عاشورا حملوں کے دوران حبیب بن مظاہر کا رجز کچھ یوں تھا:
أنا حبيب و أبي مُظَهَّر فارس هيجاء وحرب تسعر
میں حبیب ہوں اور میرے والد مُظَہَّر ہیں میدان کارزار کا شہسوار ہوں اور جنگ کی بھڑکتی ہوئی آگ ہوں
وأنتم أعد عدة و أكثر ونحن أوفی منكم و أصبر
تمہیں عددی برتری حاصل ہے لیکن ہم (راہ حق میں) تم سے زیادہ وفادار اور زیادہ صابر ہیں۔
ونحن أعلی حجة وأظهر حقاً وأتقی منكم و أعذر
ہم اظہر اور اعلی حجت ہیں درحقیقت ہم تم سے زیادہ پرہیزگا اور زيادہ مقبول ہیں۔
شہادت
حبیب بن مظاہر، عمر رسیدہ ہونے کے باوجود شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے شمشیر زنی کر رہے تھے۔ انہوں نے 62 اشقیاء کو ہلاک کر ڈالا اور اسی اثناء میں بدیل بن مریم عقفانی نامی شقی نے ان پر حملہ کیا اور ان کی پیشانی کو تلوار کا نشانہ بنایا اور دوسرے تمیمی شخص نے نیزے سے حملہ کیا حتی کہ حبیب زین سے زمین پر آرہے، ان کی سفید داڑھی ان کے سر سے جاری خون سے خضاب ہوئی۔ بعد ازاں بدیل بن مریم نے ان کا سر تن سے جدا کر دیا۔ بروایت دیگر، تمیمی شخص بدیل بن مریم نے حبیب پر تلوار کا وار کیا اور دوسرے تمیمی نےنیزہ مارا جس کی وجہ سے وہ زمین پر آ گرے اور جب اٹھنا چاہا تو حصین بن نمیر نے ان کے سر کو تلوار سے زخمی کیا اور ابن صریم نے گھوڑے سے اتر کر ان کا سر تن سے جدا کیا۔ اسی اثناء میں امام حسینؑ حبیب کی بالین پر پہنچے اور فرمایا: عندالله احتسب نفسي وحماة اصحابي۔ یعنی: میں اپنی اور اپنے حامی اصحاب کی پاداش کی توقع خداوند متعال سے رکھتا ہوں۔ اور اس کے بعد مسلسل اس آیت کریمہ "إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ؛ بلاشبہ ہم اللہ کے ہیں اور بلاشبہ ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ کی تلاوت کرتے رہے۔ بعض مقاتل میں ہے کہ امام حسینؑ نے حبیب سے مخاطب ہوکر فرمایا: "لله درك يا حبيب، لقد كنت فاضلا تختم القرآن في ليلة واحدة"؛ آفرین ہو تم پر اے حبیب! تم ایک فاضل انسان تھے اور ہر شب ایک ختم قرآن کرتے تھے۔ حبیب بن مظاہر کا ایک کم سن فرزند قاسم تھا جس نے بالغ ہوکر اپنے والد کے قاتل بدیل بن مریم کو ہلاک کردیا۔
مدفن
حبیب بن مظاہر اسدی، قبیلۂ بنی اسد سے تعلق رکھتے تھے اور قبیلے میں ہر د ل عزیز اور محترم تھے چنانچہ انہوں نے حبیب کو قبر امام حسینؑ سے 10 میٹر کے فاصلے پر دفن کیا۔
زیارت نامہ
پندرہ شعبان کے لئے مخصوص زیارتِ امام حسینؑ اور آپ ؑ کے دوسرے زیارت ناموں میں حبیب بن مظاہر کا ذکر ہوا ہے اور امام زمانہؑ کی طرف سے وارد ہونے والی زیارت ناحیہ میں حبیب کو ان الفاظ سے سلام کیا گیا ہے: "السلام علی حبيب بن مظاهر الاسدی"؛ سلام ہو حبیب بن مظاہر اسدی پر۔
2۔ عبداللہ بن عمیر کلبی
تعارف
جناب وہب کا تعلق قبیلۂ بنی عُلَیم سے تھا۔ بعض منابع میں ان کانام وہب بن عبد اللہ آیا ہے بعض میں وہب بن جناب یا حباب مذکور ہے۔
کربلا پہنچنا
ابو مخنف نے نقل کیا ہے کہ نخیلہ میں لوگ جنگ کیلئے تیار ہو رہے ہیں ان سے استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا فاطمہ بنت رسول اللہ سے جنگ کیلئے تیار ہو رہے ہیں ۔انہوں نے جواب دیا :اللہ کی قسم! میں مشرکوں اور کفار سے امیدوار تھا اور اب امیدوار ہوں کہ فرزند رسول اللہ سے جنگ کرنے والوں سے بر سر پیکار ہونے کا ثواب مشرکوں سے جنگ کرنے سے کمتر ثواب کا درجہ نہیں رکھتا ہے۔اپنی بیوی کے پاس آئے اور ماجرا اور اپنے ارادے سے آگاہ کیا ۔ اس نے کہا خدا نے تمہیں نیکی کی جانب ہدایت کی ہے اسے انجام دو اور مجھے بھی ساتھ لے چلو۔
روز عاشورا
دس محرم کی صبح عمر بن سعد کے امام حسین ؑ کی جانب تیر پھینکنے سے جنگ کا آغاز ہوا۔ابتدائے جنگ میں عمر بن سعد کی جانب سے زیاد بن ابو سفیان کے آزاد کردہ غلام یسار اور عبید اللہ بن زیاد کے آزاد کردہ غلام سالم میدان میں آیا اور اس نے مبارزہ طلب کیا۔ حبیب بن مظاہر اور بریر بن خضر اپنی جگہ سےاٹھے تو حضرت امام حسین ؑ نے انہیں بیٹھنے کا حکم دیا تو اس اثنا میں قوی ہیکل جسامت کے مالک عبد اللہ بن عمیر نے امام سے اذن جہاد لیا۔ امام نے اجازت دی۔وہ وارد میدا ہوئے تو عبد اللہ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟انہوں نے اپنا تعارف کروایا۔ تو یسار نے جواب دیا ہم تمہیں نہیں جانتے ہیں۔زہیر، حبیب یا بریر ہمارے مقابلے کیلے آئیں۔ آپ نے جواب دیا: ان میں سے کوئی بھی تیرے مقابلے میں نہیں آئے گا مگر تم اس سے بہتر ہو۔یہ کہہ کر اس نے یسار پر حملہ کیا تو اسکے پاؤں اکھڑ گئے۔ اسی دوران سالم نے اس پر حملہ کیا۔اصحاب امام نے بلند آواز سے اسے اس بات کی طرف متوجہ کیا لیکن وہ متوجہ نہ ہوا۔سالم نے اس پر وار کیا۔ عبد اللہ بن عمیر اس کے وار کو بائیں ہاتھ پہ روکا جس کے نتیجے میں اس کی بائیں انگلیاں قطع ہو گئیں۔ اب عبد اللہ اس پر حملہ آور ہوئے اور ایک ضرب سے اس کا کام تمام کردیا۔ اس دوران وہ یہ رجز پڑھ رہے تھے:
إن تنكروني فأنا ابن كلب حسبي ببيتي في علیم حسبي
إني امرؤ ذو مرة و عصب و لست بالخوار عند النكب‏
إني زعيم لك أم وهب بالطعن فيهم مقدما و الضرب‏
ضرب غلام مؤمن بالرّب‏ حتي يذوق القوم مس الحرب
اگر مجھے نہیں پہچانتے ہو تو میں کلب کا بیٹا ہوں اور سمجھ دار مرد میدان ہوں اور میرے لئے یہ افتخار کافی ہے۔
میں ایک دلیر شخص ہوں مصیبت کے وقت خوار اور زبون حال نہیں ہوتا ہوں۔
اے ام وہب!میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں نیزے اور شمشیر سے جنگ کروں گا۔ ۔۔
اسی دوران اس کی بیوی ام وہب ایک لکڑی کے ہمراہ اس کی جانب بڑھی۔عبد اللہ نے اپنی بیوی کو واپس لوٹانا چاہا لیکن اس نے عبد اللہ کا لباس تھام رکھا تھااور کہہ رہی تھی :میں تجھے نہیں چھوڑوں گی یہاں تک کہ میں بھی تمہارے ساتھ شہید نہ ہو جاؤں۔ اس دوران امام حسین ؑ نے بلند آواز میں کہا :خدا اہل بیت کی جانب سے تمہیں جزائے خیر عطا کرے آؤ اور عورتوں کے پاس بیٹھ جاؤ کیونکہ خدا نے عورتوں پر جہاد واجب نہیں کیا ہے یہ سننا تھا کہ وہ واپس عورتوں کے پاس پلٹ آئی۔
ٍظہر عاشور سے پہلے لشکر کے بائیں بازو کے سپہ سالار شمر بن ذی الجوشن نے اپنے فوجیوں کے ہمراہ امام پر حملہ کیا۔اس میں ہانی بن ثبیت اور بکیر بن حی تیمی نے عبد اللہ بن عمیر پر حملہ کیا اور انہیں شہید کر دیا۔ طبری کے بقول عبد اللہ بن عمیر امام حسین ؑ کی فوج کے دوسرے شہید ہیں۔
ام وہب
عبد اللہ کی شہادت کے بعد ام وہب ان کے سرہانے پہنچی اور انکے سر و صورت کو صاف کرنا شروع کیا اور کہا :تمہیں جنت مبارک ہو ۔ اسی اثنا میں شمر نے اپنے غلام "رستم " سے کہا کہ گرز اس کے سر پر مارو۔اس نے ایسا ہی کیا اور ام وہب شہید ہو گئیں۔کہتے ہیں وہ واقعۂ کربلا کی پہلی شہید خاتون ہیں۔

حضرت عباس ابن علی ؑکے فضائل و کمالات فریقین کی  نظر میں

حضرت عباس ابن علی ؑکے فضائل و کمالات فریقین کی نظر میں

مقدمہ
جب امام حسین کے اصحاب کی زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کہ وہ آپ کے نور ہدایت سے خوب بہرہ مند ہوئے اور فضیلت و عظمت کے آسمان پر اس طرح چمکے کہ وہ لوگوں کے لئے مشعل راہ قرار پائے اور ان کے نام نیکو کاروں کی فہرست کی زینت بنے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان لکھنے سے عاجز ہو جاتا ہے دوسرے لفظوں میں اس کا قلم گونگا ہو جاتا ہے خاص کر جب حیدر کرار علی ابنِ ابی طالب کے فرزند دلاور حضرت عباسؑ کی شان میں کچھ لکھنا چاہتا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ جناب عباس ؑکے فضائل سن کر کچھ لوگ حیرت زدہ ہو جائیں کہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک شخص ایسے مقام و مرتبے پر فائز ہو جائے کہ خود معصوم امام اس کی تعظیم و احترام کریں۔ لیکن جب ہم اس نکتہ کی طرف توجہ کریں گے تو پھر شاید ہمارے لیے تعجب آور نہ ہو یا حیرت میں کمی کا باعث ہوں کہ حضرت عباسؑ مولا علی ابن ابی طالب ؑکے فرزند ہیں اور فطرت انسانی کا تقاضہ ہے کہ ہر شخص اپنے ماں باپ کی صفات کو ان سے حاصل کرتا ہے۔ بلکہ تعجب اس وقت ہوتا ہے جب معاملہ اس کے برعکس ہو یعنی اولاد شکل و شمائل اور اخلاق و کردار میں اپنے والدین سے شبہات نہ رکھتی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب عباسؑ کو شجاعت و بہادری اپنے بابا شیر خدا علی ابن ابی طالبؑ سے وراثت میں ملی ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جس طرح امیرالمومنین ؑ پیغمبر خدا ﷺ کے حامی و مددگار اور ان کی قوت بازو تھے، جناب عباس ؑ کو بھی اپنے امام وقت کے ساتھ یہی نسبت تھی۔
حضرت عباس کی فضیلت میں اگر ہمیں معصومین سے نقل شدہ کوئی روایت بھی نہ ملے تو ان کی تعریف کے لئے آیات قرآنی ہی کافی ہیں۔ آپ قرآن مجید میں بیان شدہ مومنین کی صفات کا حقیقی مصداق ہیں جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَٱلَّذِینَ ءَامَنُواوَہاجَرُوا وَجٰہدُوا فِی سَبِیلِ ٱللَّہ وَٱلَّذِینَ ءَاوَوا وَّنَصَرُوۤا أُولٰئكَ ہمُ ٱلمُؤمِنُونَ حَقّا لَّہم مَّغفِرَۃوَرِزقكَرِیم؛جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی اور جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں ان کے لیے بخشش اور بہترین رزق ہے)
ایک اور مقام پر فرمایا ہے:وَٱلَّذِینَ ہاجَرُوا فِی سَبِیلِ ٱللَّہ ثُمَّ قُتِلُوۤا أَو مَاتُوالَیَرزُقَنَّہمُ ٱللَّہ رِزقًا حَسَنا وَإِنَّ ٱللَّہ لَہوَ خَیرُ ٱلرَّ ٰزِقِینَ؛ اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، پھر قتل کر دیے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھّا رزق دے گا اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے۔
حضرت عباس نے راہ خدا میں ہجرت کی، جہاد کیا اور شہید ہوئے۔ اور باوجود اس کے کہ امام حسین کو چھوڑ کر جانا چاہتے تو جانے کا راستہ بھی ان کے لئے کھلا تھا لیکن انہوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی امام ؑ کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آئمہ معصومین کی نگاہ میں حضرت عباس ؑ کا بڑا مقام ہے، آپ ان کے نزدیک قابل ستائش ہیں، امام صادق ؑسے حضرت عباس ؑ کا پورا زیارت نامہ نقل ہوا ہے اور اس زیارت نامہ میں امام صادق ؑنے ان کے ساتھ اس طرح عقیدت کا اظہار کیا ہے کہ گویا وہ معصوم امام ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ساری زندگی پیغمبرگرامی اسلام ﷺ اور آئمہ معصومین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گزاری۔
امام صادق ع اس زیارت نامہ میں فرماتے ہیں:جِئْتُکَ یَا ابْنَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَافِدا إِلَیْکُمْ وَ قَلْبِی مُسَلِّمٌ لَکُمْ وَ تَابِعٌ وَ أَنَا لَکُمْ تَابِعٌ وَ نُصرتِی لَکُمْ مُعَدَّۃحَتَّى یَحْکُمَ اللہ وَ ہوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ فَمَعَکُمْ مَعَکُمْ لا مَعَ عَدُوِّکُمْ إِنِّی بِکُمْ وَ بِإِیَابِکُمْ [وَ بِآبَائِکُمْ‏] مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَ بِمَنْ خَالَفَکُمْ وَ قَتَلَکُمْ مِنَ الْکَافِرِینَ قَتَلَ اللہ أُمَّۃقَتَلَتْکُمْ بِالْأَیْدِی وَ الْأَلْسُنِ؛ اے امیرالمومنین(ع) کے فرزند آپ کا مہمان ہوں میرادل آپ کے حوالے اور تابع ہے اور میں آپکا پیروکارہوں میں آپکی نصرت پر آمادہ ہوں یہاں تک کہ خدا فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے آپکے ساتھ ہوں آپ کے ساتھ نہ کہ آپ کے دشمن کے ساتھ بے شک میں آپ پر اور آپکے وآپس آنے پر ایمان رکھتا ہوں اور آپکے مخالف اور آپکے قاتل سے میرا کوئی تعلق نہیں خدا قتل کرے اس گروہ کو جس نے ہاتھ اور زبان سے آپکے ساتھ جنگ کی۔
بلاشبہ حضرت عباس کا معنوی کمالات اور فضائل کے اتنے بلند مرتبہ پر فائز ہونا ان کے اعلی ترین انسانی اقدار کو اپنانے اور گناہ اور گناہ گاروں سے دوری کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالی کی مخلصانہ بندگی اولیائے اولیاء الہی یعنی آئمہ معصومین ﷩ کی اطاعت اور ان کے سامنے عاجزی و انکساری ان کی روحانی شخصیت کی نشوونما اور کمالات اور وجودی اقدار کے حصول کا باعث بنی ہے۔ حضرت عباس کی ذات ان گنت کمالات و فضائل کی حامل ہے لیکن یہاں پر ہم اس مقالہ کی کی ظرفیت اور وسعت کو مدنظر رکھتے ان کی چند نمایاں خصوصیات کا اختصار کے ساتھ ذکر کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔
تعارف
نام: عباس
والد : حضرت علی ابن ابی طالب
والدہ : فاطمہ بنت حزام جو کہ ام البنین کے کے نام سے مشہور ہیں۔
ولادت : ۴ شعبان المعظم ۲۶ ہجری
مقام ولادت: مدینہ منورہ
ازدواج: آپ نے چالیس سے پینتالیس ہجری کے درمیان عباس ابن عبدالمطلب کی اولاد میں سے لبابہ نامی خاتون سے شادی کی۔
اولاد: لبابہ سے حضرت عباس ؑ کے دو بیٹے فضل و عبید اللہ متولد ہوئے۔ بعض کتابوں حضرت عباس ؑکے اور بیٹوں کا ذکر بھی کیا اور ان کے نام حسن، قاسم اور محمد تھے اور ایک بیٹی کا ذکر بھی ہے۔
شہادت: حضرت عباس ابن علی ؑ ۶۱ ہجری دس محرم الحرام کو امام حسینؑؑ کا ساتھ دیتے ہوئے میدان کربلا میں شہید ہوئے۔
محل دفن: حضرت عباسؑ شہر کربلا میں مدفون ہیں۔ ان کا روضہء مبارک حضرت امام حسین ؑکے حرم مطہر کے شمال مشرق میں واقع ہے اور شیعیان جہان کے لئے اہم زیارت گاہ ہے۔
کنیات
ابوالفضل
جناب عباس کی مشہور ترین کنیت ابو الفضل ہے۔ یہ کنیت آپ کی بے کراں فضیلت و عظمت کی نشانی ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک آپ کی ساری زندگی مختلف فضائل اور خصوصیات کا آئینہ ہے۔ مورخین نے نقل کیا ہے کہ حضرت عباس کو ابوالفضل کہہ کر پکارنا دو وجوہات کی بنا پر ہے:
الف: ان کے بیٹے کا نام فضل تھا۔
ب: کیونکہ ان کی ساری زندگی فضیلتوں کا مجموعہ ہے اسی وجہ سے انہیں ابالفضل کہا جاتا ہے ہے۔
اور یہ دوسری وجہ زیادہ بہتر نظر آتی ہے۔ ان کی اور بھی کنیات ہیں لیکن اختصار کی خاطر اسی ایک کنیت کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔
القاب
قمر بنی ہاشم
کلباسی نے اپنی کتاب خصائص العباسیہ میں اور دیگر مصنفین نے بھی لکھا ہے حضرت عباس انتہائی حسین و جمیل تھے اسی وجہ سے انہیں قمر بنی ہاشم کہا جاتا ہے۔
باب الحوائج
حضرت عباس اپنی خدا کاری قاری اخلاص اور اعلیٰ انسانی اقدار کا حامل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی کے نزدیک ایک بلند مقام اور خاص اکرام و آبرو رکھتے ہیں۔ حضرت عباس ع باب الحوائج ہیں اور ان کے توسل سے حاجات کی برآوری ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مقام شفاعت عطا فرمایا ہے۔
طيّار
یہ ایسا لقب ہے جس کے ساتھ امام سجاد نے اپنے چچا کو پکارا ہے اور اس کے ذریعے حضرت عباس ؑکے معنوی مقام و منزلت کو لوگوں پر آشکار کیا ہے۔ امام زین العابدین فرماتے ہیں:رَحِمَ اللَّہ عَمِیَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وأَبْلی وفَدی أَخاہ بِنَفْسِہ حَتَّی قُطِعَتْ یَداہ فَأَبْدَلَہ اللَّہ عَزَّوَجَلَّ مِنْہما جِناحَیْن یَطیرُ بِہما مَعَ الْمَلائِکَۃفی‌ الْجَنَّۃکَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبی‌طالِبْ علیہ السلام؛ وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّہ تَبارَکَ وَتَعالی مَنْزِلَۃیَغبِطَہ بِہا جَمیعَ الشُّہدَاءِ یَوْمَ القِیامَۃ؛ اللہ تعالیٰ میرے چچا عباس ؑ پر رحم کرے، کہ جنہوں نے ایثار کا مظاہرہ کیا اور اپنی جان کو سختیوں میں ڈالا، اپنے بھائی پر جان قربان کر دی یہاں تک کہ اس کے دونوں بازو بدن سے جدا ہو گئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان بازؤوں کے بدلے انہیں دو پر عطاء فرمائے اور وہ بہشت میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں۔
سقّا
حضرت عباس کو سقا بھی کہا جاتا ہے۔ منصب سقایت، حج کی تاریخ میں ایک اہم اور عظیم منصب جانا جاتا ہے۔ پیاسوں کو پانی پلانا مستحبات میں سے ہے لیکن کبھی اسے واجبات دینی میں شمار کیا جاتا ہے۔ حضرت عباس ؑنے یہ لقب اپنے بابا علی ؑسے ورثے میں پایا ہے۔ انہوں نے جنگ بدر میں دشمن کی سپاہ کے قریب واقع ایک کنویں سے پانی لا کر لشکر اسلام جو سیراب کیا ۔
حضرت عباس ؑنے مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کربلا تک کاروان امام حسین ؑ کی سقّائی کے فرائض انجام دیے۔
خوارزمی نے مقتل حسین ؑ میں لکھا ہے کہ جب امام حسینؑ نے دیکھا کہ خیموں میں پانی نہیں ہے اس وقت اپنے بھائی حضرت عباس ؑ کی سربراہی میں تین سپاہیوں کا کو پانی لینے کے لئے بھیجا اور عمر سعد اور ان کے درمیان جنگ ہوئی اس کے بعد پانی کی بیس مشکیں بھرکے خیام کی طرف واپس آئے اس موقع پر امام حسین ؑ نے حضرت عباس ؑ کو سقا کا لقب عطا کیا۔
تاریخ کی کتابوں میں ان کے بیت سارے القابات درج ہیں لیکن مقالہ کی ظرفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تمام القابات کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
حضرت عباس ع کے فضائل علماءِ فریقین کی نگاہ میں
حضرت عباس کے بلند مرتبہ ہونے میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ جس طرح وہ شکل وشمائل کے لحاظ خوبصورت تھے یہاں تک کہ قمر بنی ہاشم کا لقب پایا اسی طرح وہ اخلاق حسنہ کا پیکر بھی تھے۔ ان کا وجود مبارک اقدار انسانی کا حامل تھا اور وہ خدا، رسول ؐ اور امام وقت کے مطیع فرمانبردار تھے۔ شیعہ و اہل سنت علماء نے ان کے بہت سارے فضائل بیان کیے ہیں اور ان بے شمارخصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے ہم یہاں پر اس مقالے کی ظرفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی چند نمایاں خصوصیات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کا شرف حاصل کریں گے۔
۱۔ اعلی نسب
امام حسین ؑ کے اصحاب میں سے سب سے اعلی نسب حضرت عباس ؑ کا ہے۔ آپ بنو ہاشم کے چشم و چراغ کہ جس کی عظمت و جلالت سے انکار ممکن نہیں ۔ ان کے والد ماجد رسول خدا ؐ کے وصی، ولی مومنین، امام متقین ہیں اور شجاعت میں احد، بدر، خندق و خیبر میں لشکر اسلام کو فتح دلوانے کلیدی کردار ادا کرنے والی شخصیت کا نام علی ابن ابی طالب ؑ ہے۔ تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ رسول خدا ؐکے بعد سب سے عالم، دانا اور بافضیلت شخصیت حضرت علی ؑ کی ہے۔ حضرت عباسؑ کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ امامت کے شجرہ طیبہ سے متصل ہیں اور فرزندان رسول خدا ؐ اور کے بھائی ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت حزام ہیں۔ حزام کی شرافت ، شجاعت اور سخاوت کا چرچہ زبان زد عام خاص تھا۔
تین اماموں کا تربیت یافتہ ہونا
حضرت عباس ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے تین معصوم اماموں ( حضرت علیؑ، امام حسینؑ ، امام حسن ؑ) کے زیر سایہ پروان چڑھے اور ان سے تربیت حاصل کی۔ ان سے دینی تعلیمات اور اخلاق حسنہ کی تعلیم حاصل کی اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقام عبودیت پر پہنچے۔ بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ حضرت عباسؑ عصمت میں معصومین ﷩کے برابر نہیں ہیں لیکن عصمت میں ان سے نزدیک ترین فرد ضرور ہیں۔
علم و معرفت
حضرت عباس کی ولادت باسعادت ایسے گھرانے میں ہوئی جو علم و حکمت کا خزانہ تھا، جناب عباس ؑنے حضرت علی ؑ,امام حسن ؑاور امام حسین ؑسے کسب فیض کیاہے اور بلند ترین علمی مرتبہ پر فائز ہیں۔ حضرت ابوالفضل العباسؑ، آئمہ معصومین ﷩ کی اولاد کے فقہا ء اور دانشمندوں میں سے تھے، جیسا کہ بزرگ علماء و محدثین نے ان کی شان میں بیان کیا ہے: "ہو البحر من اى النواحى اتيتہ" و یا "فلجتہ المعروف و الجواد ساحلہ"۔
مرحوم علامہ محمد باقر بيرجندى نےبھی تحریر کیا ہے:
ان العباس من اكابر الفقہا و افاضل اہل البيت، بل انہ عالم غير متعلم و ليس فى ذلك منافاہ لتعلم ابيہ اياہ؛ بیشک حضرت عباس ؑ بزرگ فقہاء اورخاندان نبوت کی نمایاں شخصیتوں میں سے تھے، بلكہ وہ عالم غیر معلم تھےاور اس کا اس بات سے کوئی ٹکراؤنہیں ہےکہ انھوں نے اپنے والد حضرت امام علی ؑسے کسب فیض کیا تھا۔
استقامت و ایمان راسخ
جب بھی استقامت کا تذکرہ ہوتا ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے بلا تردید استقامت، معرفت اور بصیرت کا نتیجہ ہے۔ اوضاع و احوال یہ تھے کہ ایک طرف سے ایک اہم ذمہ داری کو نبھانا ہے! جنگ، سخت ہے اور دشمن کے مقابلے میں تعداد انتہائی کم! حالات، حالات انتہائی سخت ہیں، گرمی، بھوک اور پیاس کی شدت! لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود آخری دم تک حضرت عباس ع کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ سخت ترین آزمائش اور مصیبت کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اپنی زمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے میں کامیاب ہوئے۔
حضرت عباس پختہ ایمان کے مالک تھے تھے اور امام حسین ؑ موامامِ برحق مانتے تھے۔ انہوں نے پوری زندگی اپنے وقت کے اماموں کی اطاعت کی اور ہر موقع پر ان کی حمایت اور مدد کرتے رہے۔امام صادق ؑ اپنے چچا حضرت عباس ؑ کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کان العباس۔۔۔ صلب الایمان؛ عباس ابن علی ؑ پختہ ایمان کے مالک تھے۔
تاریخ اور مقتل کی کتابوں میں میں میدان کربلا کا ایک واقعہ نقل ہوتا ہے کہ جب شمر ابں ذی الجوشن آیا اور پوچھا کہ میرے بھانجے عبداللہ، جعفر، عباسؑ اور عثمان کہاں ہیں؟ اس وقت وہ تمام خاموش رہے تو امام حسین ؑنے فرمایا اسے جواب دو اگرچہ وہ فاسق ہے لیکن تمہارا ماموں ہے۔ انہوں نے شمر سے مخاطب ہو کر کہا: بتا کیا کہنا چاہتا ہے؟ آپ میرے بھانجے ہیں میں آپ کے لئے امان نامہ لے کر آیا ہوں خو کو اپنے بھائی حسین ؑکے ساتھ موت کے منہ میں نہ دھکیلو اور امیر مؤمنین یزید لعنہ کی بیعت کر لو۔
حضرت عباس نے اس کے جواب میں فرمایا: خدا تیرے ہاتھ قطع کرے تیرے اس امان نامہ پر لعنت ہو اے دشمن خدا! کیا تو مجھے حکم دیتا ہے کہ میں اپنے بھائی اور اپنے سردار سردار حسین ابن فاطمہ ؑ کو چھوڑ دوں اور ملاعین ابن ملاعین کی اطاعت جر لوں۔ حضرت عباس ؑ اور ان کے بھائیوں نے شمر کو اپنے آپ سے دور بھگایا اور امان نامہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ شمر غصہ کی حالت میں اپنے لشکر کی سمت پلٹ گیا۔
بصیرت
دین کی مکمل شناخت اور اس پر پختہ یقین، اپنے وظیفہ اور ذمہ داری سے آگاہی، اپنے زمانے کے امام اور حجت الہی کی معرفت، حق و باطل کی پہچان اور دوست اور دشمن کے بارے میں علم رکھنے کا نام بصیرت ہے۔
معرکہ کربلا میں شہادت پانے والے تمام کے تمام اہل بصیرت تھے اسی لیے تو ان کے دلوں مین نہ دشمن کا خوف نہ موت کا ڈر بلکہ سب عاشقانہ طور پر جام شہادت نوش کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ امام حسینؑ ہی امام وقت ہیں انہی کی اقتدا ہی صراط مستقیم ہے اور ان کی نصرت دین الہی کی نصرت ہے خدا اور اس کے رسول ص کی نصرت ہے لہذا انہوں امام وقت کا ساتھ دیا اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گئے۔
حضرت عباس ؑ بھی صاحب بصیرت تھے امام صادق ؑ ان کی شان میں فرماتے ہیں:"كان عمنا العباس نافذا البصيرہ؛ ہمارےچچاعباس ؑ نافذ البصیرت (ذہین سمجھدار اور دقیق) تھے"
ادب و احترام
حضرت عباس کی صفات جمیلہ میں سے ادب و احترام اور عاجزی و انکساری بھی ہے وہ ادب و احترام اور حسن خلق کا پیکر کار اور عاجزی و انکساری کا بہترین نمونہ تھے۔ حضرت عباس ؑ اپنے آپ کو اپنے دونوں بھائیوں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے برابر نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہیں اپنا امام مانتے تھے اور ہمیشہ ان کے مطیع و فرمانبردار رہتے تھے۔ ہمیشہ ان سے «یابن رسول اللہ»، «یاسیدی» یا ایسے ہی دیگر القابات کے ساتھ مخاطب ہوتے تھے۔
عبادت
حقیقی عبادت و بندگی، انسان کے جسم و روح کا اللہ تعالیٰ کے حضور خشوع و خضوع کا اظہار کرنا ہے، اور اس کا سرچشمہ انسان کا ایمان ہے۔ انسان، ایمان اور معرفت کے جتنے بلند درجے پر فائز ہو گا، اس کی عبادت اتنی ہی عمیق ہوگی، عبادت کا جذبہ اتنا زیادہ اور اس کی روح کے لئے اتنی ہی لذت بخش اور آدام بخش ہوگ۔ حقیقی بندگان خدا دنیا و آخرت میں ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔ وہ آخرت میں روشن و درخشاں چہروں کے ساتھ محشور ہوں گے، اور دنیا میں عبادت و بندگی کے اثرات ان کے چہروں پر ظاہر ہوں گے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے: سیماہم فی وُجُوہہم مِنْ اَثَرِ السُّجُودِ؛ ان (یعنی بندگانِ خدا) کی علامت، ان کے چہروں پر سجدے کا نشان ہے۔
حضرت عباسؑ، اپنے پروردگار کے حقیقی عبادت گزار تھے۔ اور ان کے چہرہ مبارک پر عبادت کے آثار نمایاں تھے۔ طویل سجدوں کا اثر اس کی پیشانی پر کندہ تھا۔ یہاں تک کہ ان کا قاتل کہتا ہے کہ: وہ خوبصورت چہرے کے مالک اور ہدایت یافتہ تھے، سجدے کا نشان ان پیشانی پر چمک رہا تھا۔
حضرت عباس ؑ نے اپنی زندگی کی آخر رات، امام حسینؑ کے دیگر وفادار ساتھیوں کے سمیت، اللہ تعالیٰ کے ساتھ راز و نیاز اور عبادت میں مصروف رہے۔
اس رات کو خیمے روشنی میں ڈوبے ہوئے تھے، اور دعا کے لئے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے قنوت کی سبز راہیں آسمان سے ٹکرا رہی تھیں، عاشقانہ راز و نیاز کی دھیمی دھیمی صدائیں کربلا کی گرم ہوا میں اس طرح پھیلی ہوئی تھیں اور فضا کو دلنشین بنائے ہوئے تھیں، یہاں تک کہ بعض نے لکھا ہے کہ: اس رات دشمنوں کے لشکر میں تبدیلی رونما ہوئی، اور ان میں سے بتیس لوگ امام حسین ؑ کے ساتھ مل گئے۔
اطاعت
حضرت عباس نے اپنی پوری زندگی خدا اور اس کے رسول ص اور اپنے امام وقت کی اطاعت میں گزاری ہے۔ اور بیس سال کی مدت مدت جو امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے ساتھ گزاری ہے کسی تاریخ میں نہیں ملتا کہیں پر آپ نے اپنے وجود کا اظہار کیا ہو کہیں یہ کہا ہو کہ آپ بھی علیؑ کے بیٹے ہیں اور میں بھی انہی کا بیٹا ہوں ہو کبھی ان کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کیا نہ کوئی خطبہ دیا کچھ بھی نہیں فقط اور فقط اطاعت امام۔
ان کی اطاعت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب امام مجتبی ؑکے جنازے پر تیر برسائے گئے تو اس وقت جناب عباس ؑ کی عمر 26 یا 27 سال تھی۔آپ سوچیں کہ ایک بہادر اور طاقتور جوان کھڑا ہو اور اس کے سامنے اس کے بھائی کے جنازے پر تیر برسائے جائیں تو وہ کبھی بھی اس گستاخی کا بدلہ لئے بغیرچین سے نہیں بیٹھے گا۔ لیکن اس وقت جیسے ہی حضرت عباس ؑ نے ہاتھ قبضہ تلوار پر رکھا تو امام حسین ؑ فرمایا: اے میرے بھائی تلوار کو نیام ڈالو تو عرض کیا: جیسے آپ حکم فرمائیں اور تلوار نیام میں ڈال دی۔ تہذیب الاحکام میں حضرت عباس ؑ کی زیارت میں اس طرح نقل ہوا ہے:(اشہد) انك مضيت على بصيرۃمن امرك مقتديا بالصالحين ومتبعا للنبيين؛ میں گواہ ہوں کہ آپ نے بصیرت کے ساتھ احکام الٰہی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، نیک لوگوں کی پیروی اور پیغمبرؐ کی اتباع کرتے ہوئے زندگی گزاری۔
کامل الزیارات اور مفاتیح الجنان میں جو زیارت امام صادق ؑسے نقل ہوئی ہے اس میں امام صادق ؑنے آپ کی اطاعت کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں سلام کیا ہے: السَّلامُ عَلَیْکَ أَیُّہا الْعَبْدُ الصَّالِحُ الْمُطِیعُ للہ وَ لِرَسُولِہ وَ لِأَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ؛ سلام ہو آپ پرکہ آپ خدا کے پارسا بندے ہیں آپ اﷲ، کے اس کے رسول ص، امام علی، امام حسن اور امام حسین علیہم السّلام کے اطاعت گذار ہیں۔
حضرت عباس سپاہ امام حسین ؑ کے سپہ سالار تھے اور یہ بات امام حسینؑ کے نزدیک ان کی اہمیت و مقام و منزلت کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود حضرت عباس ؑ اپنے امام کی معرفت کے اس درجے پر تھے کہ ان کے نزدیک امام وقت کی اطاعت کے سامنے ان تمام چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ حضرت عباسؑ کے نزدیک امام کے حکم کے سامنے اگر، مگر یا تاخیر گنجائش نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ خود خود کو امام وقت کے فرمان کی اطاعت کے لیے آمادہ و تیار رکھتے۔ حکم امام کی انجام دہی میں دقت، سرعت اور استقامت ان کی اطاعت کے درجے کو بیان کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اطاعت کا وہ درجہ انہیں عطا فرمایا ہے کہ وہ حضرت علی ؑکے اس قول کے مصداق قرار پاتے ہیں۔ امام علی ؑنے فرمایا:مَنْ صَبَرَ عَلَى طَاعَۃاَللَّہ سُبْحَانَہ عَوَّضَہ اَللَّہ سُبْحَانَہ خَيْرا مِمَّا صَبَرَ عَلَيْہ؛ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے اس کے صبر سے بہتر اجر عطاء فرماتا ہے۔
امام حسین کے ساتھ انس و محبت
حضرت عباس کے علاوہ امام حسین کے اور بھائی بھی تھے جیسے محمد بن حنفیہ یا اور دوسرے بھائی کہ جو کربلا میں شہید ہوئے۔ لیکن ان سب میں سے حضرت عباسؑ کو امام حسین ؑکے ساتھ جس قدر الفت اور محبت تھی اتنی کسی اور کو نہیں تھی، اگر اس محبت کا ان کے دوسرے بھائیوں کی امام حسین ؑکے ساتھ موازنہ کیا جائے تو حضرت عباس ؑ کی محبت کا درجہ ان سے بہت بلند ہے اور اس کی وجہ سب کی معرفت ہے جس کو جتنی امام ؑ کی معرفت تھی وہ اتنا زیادہ امام ؑکے قریب تھا اور ان سے اتنی ہی زیادہ محبت اور الفت رکھتا تھا۔ جس طرح حضرت عباس ؑامام حسین ؑکے ساتھ محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے تھے تو امام حسین ؑ بھی اس کے بدلے میں بھی کے ساتھ اسی طرح محبت کرتے تھے۔ جیسا کہ ہم واقعہ کربلا میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ امام حسین ؑنے کسی اور صحابی کی شہید ہونے پر اتنے غم اور دکھ اور بے کسی کا اظہار نہیں کیا جتناحضرت عباس ؑ کی شہادت پر کیا۔ اور اس کی وجہ امام حسین ؑ کی ان کے ساتھ محبت تھی۔اور ظاہر ہے حضرت عباس ؑ تنہا وہ شہید ہیں کہ جنہوں نے شہادت کے وقت امام حسین ؑ کو اپنے سرہانے پہنچنے کے لئے بلایا۔
پرچم دار لشکر
جب امام حسین کے اصحاب کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سب کے سب بہادر اور مرد میدان تھے اور امام حسین ؑکے وفادار تھے لیکن اس کے باوجود امام حسین ؑنے پرچم حضرت عباسؑ کے ہاتھ میں تھمایا اور انہیں اپنے لشکر کا سپاہ سالار قرار دیا ۔ تاریخ اور مقاتل کی کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت امام حسینؑ جب حضرت عباس ؑ کی شہادت کے وقت ان کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا: الآن انکسر ظھری و قلت حیلتی؛ اب میری کمر ٹوٹ چکی ہے اور میں بے بس ہو گیا ہوں۔
اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ حضرت عباس ؑ ان کے لشکر سالار اور ان کا آخری سہارا تھے۔
شجاعت
شجاعت کا مطلب فقط میدان جنگ میں جا کر جنگ کرنا اور تلوار چلانا نہیں ہے بلکہ شجاعت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اپنے غصے پر قابو پانے کو بھی شجاعت کے مصادیق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اپنے غصے پر قابو پا کر اپنے مد مقابل کو معاف کر دینا بھی شجاعت کہلاتا ہے۔ رضائے الٰہی کے لئے میدان جنگ میں اپنی تلوار نیام میں ڈالنے والے کو بھی شجاع کہا جاتا ہے۔
حضرت عباس کی ایک نمایاں خصوصیت ان کی شجاعت ہے اور شجاعت بھی ایسی کہ جس کا دشمن نے بھی اعتراف کیا ہے۔ حضرت عباس ؑ نامور جنگجو اور شجاع بہادر تھے تھے انہوں نے جرآت اور شہامت کو اپنے والد حیدر کرار سے ورثے میں لیا وہ ہمیشہ میدان جنگ میں میں پرچم کو بلند رکھ بلند رکھتے اور تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر بجلی کی طرح سے لشکر اعداء پر پر حملہ کرتے تھے۔ جب انہوں نے دریائے فرات کے کنارے موجود دشمن کی فوج پر حملہ کیا تو چار ہزار کے لشکر کو راہ فرار دکھائی اور تقریباً ان میں سے اسی جفا کاروں کو جہنم واصل کیا۔

ولایت مداری
حضرت عباس کی صفات میں سے ایک صفت ولایت مداری وہ اپنے وقت کے امام کے حکم کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی یا سستی سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ پوری طاقت و توانائی کے ساتھ اس کو بجا لاتے تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی امامت کے زیر سایہ گزاری۔ ایک روایت میں راوی نقل کرتا ہے کہ میں حضرت امام جعفر صادق ؑکے ساتھ امام حسین ؑ کی زیارت کرنے کے بعد حضرت عباس ؑ کی زیارت کے لئے گیا، امام صادق ؑ حضرت عباس ؑ کی قبر مبارک پر گر گئے اور ان الفاظ کے ساتھ ان سے مخاطب ہوئے:
اے میرے چچا! میں گوہی دیتا ہوں آپ نے اپنے وقت کے امام کے سامنے سر تسلیم خم کیا، ان کی تصدیق اور تائید کی، ان کے ساتھ وفاداری کی اور ان کے خیرخواہ و جانثار تھے۔ آپ نے اپنے بھائی کے لئے جان دینے سے دریغ نہیں کیا اور ان پر اپنی جان فدا کردی۔
وفاداری
شب عاشور جب امام حسین نے اپنے تمام اصحاب سے بیعت کا حق اٹھایا اور چراغ بجھا کر ان سے فرمایا کہ رات کی تاریکی ہے جو کوئی مجھے چھوڑ کر اپنے وطن جانا چاہے چلا جائے۔ اس وقت پہلی شخصیت جس نے وفاداری اور جان نثاری کا اعلان کیا وہ حضرت عباس ؑتھے آپ نے عرض کیا: اے میرے امام! میں کیسے آپ کو چھوڑ کر چلا جاؤں؟ کیا آپ کے بغیر زندہ رہوں؟ خدا ہمیں ایسا کرنے کی طاقت نہ دے کہ ہم آپ کو دشمنوں کے سامنے تنہا چھوڑ کر چلے جائیں۔ ہم آپ کے ساتھ رہیں گے اور آخری دم تک آپ کی حمایت اور نصرت کریں گے۔
جناب زینب کبریٰ فرماتی ہیں: حضرت عباس ؑ اپنے بھائیوں کو فرما رہے تھے۔ کل جنگ کا ہونا حتمی ہے آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا ہماری بھی وہی رائے ہے جو آپ کی رائے ہے۔ اس وقت حضرت عباس ؑنے فرمایا: اگر ایسا ہے تو میری ایک وصیت ہے کہ ہم جب تک زندہ ہیں فرزند زہرا امام حسین ؑ کو کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے۔ کل اپنی جان قربان کرنا اور اپنے خون کے آخری قطرے تک امام ؑ کا دفاع کرنا۔ اگلے دن جب حضرت عباس ؑنے امام حسین ؑکے اصحاب کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا تو اپنے بھائیوں سے فرمایا :آگے بڑھو تاکہ میں دیکھ لو کے آپ نے خدا اور اس کے رسول ؐکی خوشنودی کےحصول کے لیے لئے فداکاری کی ہے یہ پھر ان کے تینوں بھائی میدان جنگ میں گئے اور شہید ہوئے اور حضرت عباس ؑان کی شہادت دیکھ رہے تھے۔
فداکاری
حضرت عباس نے روز عاشور فداکاری کی ایک مثال قائم کی آپ نے اپنے زندگی میں امام حسین ؑاور اہل بیت ﷩ کو کوئی صدمہ نہیں پہنچنے دیا۔ حضرت عباس ؑ دین کے دفاع اور اپنے امام وقت کی حمایت و نصرت کے لئے اس طرح پر عزم تھے کہ ان کے پاس جو کچھ بھی اسے قربان کرنے کے حاضر تھے۔ اور بالآخر جب خیمہ گاہ کی طرف بچوں کے لئے پانی لا رہے تھے تو دشمنان خدا کے ہاتھوں شہید ہوئے پہلے آپ کا دایاں بازو قلم ہوا تو آپ نے فرمایا: خدا کی قسم اگر تم نے میرا دایاں ہاتھ بدن سے جدا کیا ہے لیکن میں اپنے دین کا دفاع جاری رکھو گا اور اپنے امام ؑ کی حمایت کروں گا جو صاحب یقین اور رسول امینؐ کے نواسے ہیں۔
پھر کربلا کے میدان میں دیکھا گیا کہ پہلے ان کا دایاں بازو قلم ہوا پھر بایاں بازو بھی قلم ہو گیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے خیام حسینی تک پانی پہنچانے کی کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ ایک تیر مشکیزہ میں لگا اور سارا پانی بہہ گیا۔
اخوت و برادری کا عملی ثبوت
حضرت عباس کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ان کی اخوت و برادری ہے جو کہ ان کے تمام فضائل میں سے ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اس کو ان کے زیارت نامہ میں علیحدہ طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت عباس ؑ کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں: السَّلامُ عَلَی أبى الفَضلِ العَبّاسِ بنِ أمیرِ المُؤمِنینَ، المُواسى أخاہ بِنَفسِہ؛ جس کا معنا و مفہوم یہ ہے کہ آپ اچھے بھائی تھے اور آپ نے اخوت و برادری کا حق ادا کر دیا۔
جس طرح حضرت ہارون اور حضرت موسی ؑدو بھائی تھے اور ان کی اخوت و برادری بے نظیر تھی اور اس کے بعد نبی مکرم اسلام ﷺ اور حضرت ؑ اخوت و برادری کا ایک اسوہ کامل تھے اور پھر امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی برادری اور اخوت کی ایک مثال تھی اور اگر اخوت اور برادری کی چوتھی مثال دینا چاہیں تو وہ امام حسین ؑاور حضرت عباس ؑ کی ہے۔
رشک شہداء
قیامت کے دن شہداء حضرت عباس کی شہادت پر رشک کریں گے اور ان جیسا مقام حاصل کرنے کی حسرت کریں گے۔
امام سجاد سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں:و ان العباس عنداللہ تبارک و تعالی منزلۃیغبطہ علیہا جمیع الشہداء یوم القیامۃ؛ حضرت عباس ؑ کا اللہ تبارک و تعالی کے بزدیک وہ مقام و مرتبہ ہے کہ قیامت کے دن تمام شہداء اس پر رشک کریں گے۔
پیغمبر اسلام ﷺ مرتبہ شہادت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فَوْقَ كُلِّ ذِی بِرٍّ بِرٌّ حَتَّى يُقْتَلَ الرَّجُلُ فِی سَبِيلِ اللَّہ فَإِذَا قُتِلَ فِی سَبِيلِ اللَّہ فَلَيْسَ فَوْقَہ بِرٌّ۔۔۔؛ ہر نیکی سے بالاتر ایک اور نیکی ہے یہاں تک کہ انسان راہ خدا میں شہید ہو جائے اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے سے بڑھ کر کوئی اور نیکی نہیں۔
ان دو روایات کے مطابق اگر شہادت بالاترین مرتبہ اور سب سے بڑی فضیلت شمار ہوتی ہے لیکن شہداء کے مراتب برابر نہیں ہیں اور حضرت عباس ؑ ان مراتب میں سب سے بالا ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔
حضرت عباس ابن علی ابن ابی طالب کے بحر ِفضائل و کمالات سے چند فضائل بیان کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے خداوند عال بندہ حقیر کی اس عدنی سی سعی کو قبول فرمائے۔ اس ناچیز سے عمل کو سرکار باوفا حضرت عباس علمدار ؑ کی ذات مقدس کو ہدیہ کرتا ہوں۔ ذات احدیت اسے میرے لئے توشہء آخرت قرار دے۔ خداوند ذوالجلال ہمیں بھی حضرت عباس ؑ کی طرح اپنے وقت کے امام کی معرفت نصیب فرمائے اور ان کا بہترین ساتھی اور مددگار قرار دے۔

آمین !یا رب العالمین۔

یوم عاشورا کے روزے یا فاقہ کشی کی شرعی حیثیت  

یوم عاشورا کے روزے یا فاقہ کشی کی شرعی حیثیت

عاشورا کا دن اسلامی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ امام حسین (ع) نے اس دن لازوال قربانی پیش کر کے ، تمام اہل شعور کو ظلم وبربریت، بے راہ روی اور فسق و فجور کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔ تاہم یہ دن تاریخی لحاظ سے مزید کچھ پیچیدگیاں رکھتا ہے۔ ذیل میں چند ایک سوالات ہیں جس کے تحت مسئلہ کی نوعیت کا اندازہ ہو سکے گا۔

عاشورا کیا ایک مقدس و بابرکت دن ہے؟

قبل از اسلام اس دن کی کیا اہمیت تھی؟

اسلامی فقہ کی رو سے اس دن روزہ واجب ہے یا مستحب؟ یا پھر مکروہ یا حرام؟ یا پھر مباح ہے، بلکہ متروک ہے؟

1۔تاریخی پس منظر:

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہودیوں کے ہاں اس دن کا روزہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اس لیے ان کے تصورات اس دن کے حوالے سے اسلامی میراث میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ البتہ بلا شک یہودی اور اسلامی کیلنڈر جدا جدا ہیں، پھر ان کے ہاں عاشورا کی اہمیت کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر جواد علی اور دیگر مورخین کا جواب یہ ہے کہ یہودیوں کےاپنے کیلنڈر کے حساب سے پہلے مہینے کی دسویں تاریخ کی اہمیت ہے۔(المفصل فی تاریخ العرب، ج۶، ص۳۳۹)

ابوریحان بیرونی نے بھی اسی کی وضاحت میں کہا ہے کہ اس دن کے روزے کو کبور(کیپور kipur)کہا جاتا ہے۔کپور یا کبور وہی کفارہ ہی ہے، کیونکہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اس دن کا روزہ گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔حتی کہ ان کے ہاں اس روزے کو ترک کرنے کی سزا قتل بتائی گئی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ نویں تاریخ غروب سے ایک گھنٹہ پہلے سے دسویں تاریخ غروب کے آدھ گھنٹہ بعد تک روزہ رکھا جا تا تھا۔ (الآثار الباقیۃ، ص۲۷۷)

2۔من گھڑت روایات:

دوسری بات یہ ہے کہ عاشورا کے دن اسلامی تاریخ میں نہایت ہی غم و اندوہ بھری تاریخ رقم ہوئی ہے، خاندان رسالت کے افراد بے دردی سے شہید کر دیے گئے، یزیدیوں نے جشن منایا اور باقاعدہ اسرائیلی روایات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس دن کو بابرکت دن قرار دے کر اپنی تبلیغات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ چنانچہ حضرت آدم کی خلقت ، ان کا جنت میں بھیجا جانا، ان کی توبہ کا قبول ہونا، اسی طرح عرش و کرسی ، زمین و آسماں، چاند ستاروں ،سورج اور بہشت کی خلقت سب اسی دن سے منسوب ہو گئی، صرف یہی نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم خلیل ع کی ولادت، ان کا آگ سے نجات پانا، حضرت موسی ع اور ان کی قوم کا فرعون کے چنگل سے بچ نکلنا، حضرت عیسی مسیح ع کا آسمانوں پر جانا، اور ادریس کا مکان رفیع پر بلند ہونا، نوح کی کشتی کا کنارے لگنا، سلیمان کا ملک عظیم پر فائز ہونا ، یونس کا مچھلی کے شکم سے نجات پاجانا، یعقوب کی بینائی لوٹ آنا، یوسف کا کنویں سے نجات پاجانا، اور ایوب کی پریشانیاں ختم ہونا ، حتی کہ آسمان میں سب سے پہلی بارش کا نزول الغرض تاریخ انسانیت کا ہر اچھا واقعہ اسی دن پیش آیا ہے۔ (رسالۃ المسلسل الاميريہ، ص 20-۲۱)جھوٹ کے کوئی پير نہیں ہوتے، تبھی تو آسمان و زمین اور سورج ، چاند ستارے اور شمسی نظام تشکیل پانے سے پہلے عاشورا کے دن کا وجود فرض کر لیا گیا اور کسی کو اعتراض تک نہ ہوا؟ در اصل افسانوی باتیں زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہیں۔

3۔اہل بیت (ع) کے لیے یوم غم و اندوہ:

اگلی بات یہ ہے کہ یہ دن کسی اور کے لیے جتنا ہی بابرکت کیوں نہ ہو، کم از کم آل رسول ع کے لیے نہایت ہی اندوہ ناک دن ہے۔ اس لیے آل رسول نے اسے نحس دن قرار دیا ہے۔ (کافی،ج۴، ص۱۴۶)

4۔فقہی آراء اور حدیثی شواہد

اس دن کے روزہ کے حوالے سے فقہائے اہل سنت میں دو نظریات ہیں، امام ابوحنیفہ کے ہاں وجوب کا نظریہ ہے، امام شافعی سے «وجوب و عدم وجوب» دونوں نقل ہوئے ہیں، امام احمد سے بھی دونوں روایتیں ملتی ہیں، جبکہ باقی فقہاء واجب نہ ہونے کے قائل ہیں۔

بعض شیعی روایات کے مطابق عاشورہ کا روزہ ماہ رمضان المبارک کے روزوں سے پہلے موجود تھا، اس کے بعد متروک ہو گیا۔(من لا یحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۸۵) ۔

متروک ہونے سے مراد کیا ہے؟

ایک روایت کے مطابق یہاں متروک سے مراد بدعت ہونا ہے، (کافی ، ج۴، ص۱۴۶)تاہم اس کی سند صحیح نہیں ہے ۔ ایک اور روایت امالی طوسی میں ہے(اگرچہ وہ بھی مجہول السند ہے) کہ راوی امام صآدق ع سے عاشوراء کے روزے کے متعلق سوال کرتا ہے ، تو آنحضرت فرماتے ہیں کہ اگر اہل بیت کی شرمندگی کا ارادہ رکھتے ہو تو پھر روزہ رکھو۔۔۔پھر آنحضرت وضاحت کرتے ہیں کہ اس دن آل ابی سفیان نے قتل حسین ع کی خوشی میں روزہ رکھا۔۔۔

اس روایت سے عنوان ثانوی(شباہت بنی امیہ) کے تحت روزہ رکھنے سے منع کا نتیجہ ملتا ہے۔

قرآن کریم میں یوم عاشور کے روزے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بطور کلی قرآن میں ماہ رمضان کے علاوہ صرف منت اور کفارے کے روزوں کا تذکرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے روزے کا تذکرہ قرآن میں نہیں ہے۔

کچھ روایات میں اس روزے کی فضیلت بتائی گئی ہے، اسے «ایک سال کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا ہے»(یہودیوں کی طرح)،

یہ روایت شیعہ کے ہاں تہذیب و استبصار میں اور اہل سنت کی صحیح مسلم میں نہایت قریب قریب مضمون کے ساتھ موجود ہے۔ اس لیے کچھ فقہاء نے یہ تفصیل دی ہے کہ اس دن کو بابرکت قرار دیتے ہوئے، روزہ رکھنا بدعت ہے، جبکہ اہل بیت ع کے حزن و غم میں روزہ رکھنا مستحب ہے، آیت اللہ خوئی اسی نظریے کے قائل ہیں۔ اس سے پہلے ابن ادریس، محقق حلی اور صاحب جواہر نے بھی یہی رائے قائم کی ہے۔ تاہم مجلسی نے مرآۃ العقول میں اس روایت کو تقیہ پر محمول گردانا ہے،(مرآۃ العقول، ج۱۶، ص۳۶۰) جس کی کوئی خاص وجہ سامنے نہیں آ سکی۔

ایک اور بات جو ہمارے ہاں رائج ہے کہ اس دن آدھا پونا روزہ رکھا جائے، جسے فاقہ کشی کہا جاتا ہے، یعنی صبح سے لیکر عصر عاشور تک بھوکے پیاسے رہیں، اس حوالے سے ایک روایت موجود ہے ، تاہم اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ یہ روایت شیخ طوسی نے مصباح میں نقل کی ہے ۔ اور آقای خوئی کی تحقیق مطابق اس کا طريق مجہول ہے۔ لہذا یہ روایت مرسلہ کے حکم میں ہے۔ (المستند فی العروۃ الوثقی، صوم، ج۲، ص۲۰۷)

اس روایت کے مطابق امام صادق ع ، عبداللہ بن سنان کو حکم دیتے ہیں کہ روزہ رکھو تاہم (باقی روزوں کی مانند نہیں) کہ باقاعدہ سحری کے وقت اٹھ کر نیت کرو کہ روزے سے ہوں، اسی طرح افطار کرو بغیر دعا کیے، اور مکمل دن کے روزے سے پرہیز کرو، اور عصر کے تقریبا ایک گھنٹہ بعد افطار کر دو، کیونکہ اس وقت اہل بیت کے ساتھ جنگ کی آگ بجھ چکی تھی۔

( صمه من غير تبييت، و افطره من غير تشميت، و لا تجعله يوم صوم كملا، و ليكن إفطارك بعد صلاة العصر بساعة على شربة من ماء فإنّه في مثل هذا الوقت من ذلك اليوم تجلّت الهيجاء عن آل رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم(مصباح المتہجد، ج۲، ص۷۸۲)۔

5۔تجزیہ و تحلیل:

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس دن کی فضیلت ثابت نہیں ہے۔ روزہ رکھنا بھی اگر برکت وغیرہ کے حصول کی نیت سے نہ ہو تو باقی دنوں کی طرح مباح ہے، روزے کی فضیلت تبھی ثابت ہو سکتی ہیں، جب خود اس دن کو بافضیلت مانا جائے، جبکہ ایسا کوئی عندیہ ہماری روایات میں نہیں ملتا ۔ اس لیے فقط روزے کی فضیلت پر سند کی درستگی ، مسئلے کو حل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

صحیح بخاری کی روایات کے حوالے سے بھی ایک نکتہ کا بیان شاید ضروری ہو کہ اس مورد میں روایات میں تضاد پایا جاتا ہے، ایک روایت کے مطابق قریش مکہ ، جاہلیت کے زمانے میں اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور رسول خدا (ص) بھی اسی طریقہ پر کاربند تھے۔ (بخاری ، ج۱، ص ۳۴۱باب صيام عاشورا)جبکہ اسی صحیح کی دوسری روایت کے مطابق رسول خدا (ص) کو مدینہ پہنچنے تک اس روزے کے بارے میں بالکل علم ہی نہ تھا، اور یہودیوں نے آپ کو اس بارے میں بتایا ، تو پھر آپ نے روزہ رکھا، (بخاری ، ج۱، ص۳۴۱، باب صيام عاشورا)۔ اور اگر اس روزے کی اتنی ہی فضیلت ثابت تھی تو حضرت عبداللہ بن عمر رض،جن کا شمار پڑھے لکھے اور بافہم اصحاب میں ہوتا ہے، اسے کیوں مکروہ قرار دیتے تھے۔ (فتح الباری، ج۴، ص۲۸۹)

اس سے بھی زیادہ قابل غور بات ابن جوزی نے «الموضوعات» میں کی ہے، جہاں وہ من گھڑت روایات کی وجوہات پہ روشنی ڈالتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ایک اہم وجہ قصہ خوان حضرات تھے، جس طرح آجکل منبر پہ بیٹھ کر مختلف کہانیاں سنائی جاتی ہیں، اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، یہ رسم بڑی پرانی ہے۔ اس دور میں بھی قصہ خوانی کا دور دورہ تھا۔ بازاروں کے چوراہوں پر ، گلی کوچوں اور دیگر عمومی مقامات میں لوگ وعظ و نصیحت اور تبلیغ کی غرض سے مختلف باتیں سنا سنا کر لوگوں سے داد تحسین اور پیسے بٹورتے تھے۔ ابن جوزی کے کلام سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ قصہ خوان حضرات کاایک اہم موضوع عاشورا کے فضائل کا بیان تھا، وہ نقل کرتے ہیں کہ ایک قصہ خواں صاحب جب ڈھیر سارے فضائل سنا چکا ، تو اس سے پوچھا کہ یہ روایات جو تو نے فضایل عاشورا میں پڑھی ہیں، ان کی سند کیا ہے؟ کس استاد سے یہ تعلیم حاصل کی ہے؟ اس نے جواب دیا، یہ کسی نے نہیں بتائیں، بلکہ ابھی فی الفور میرے دماغ میں آئی ہیں۔ (ابن جوزی، الموضوعات، ج۱، ص۴۴)

حزن و غم میں روزہ رکھنے کی تاکید یا اس کے استحباب کا تصور بھی نہایت درجہ عجیب ہے۔ جس کی مذہبی رسوم و رواج میں مثال نہیں ملتی۔ چنانچہ بعض روایات کا یہ کہنا کہ یہ روزے کا نہیں ، بلکہ غم و اندوہ کا دن ہے،(کافی، ج۴، ص۱۴۷، ح۷) اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ روزہ غم و اندوہ سے زیادہ خوشی اور برکت کے موقع پر ہوتا ہے، چنانچہ عید غدیر کا روزہ مستحب ہے۔ حتی کہ خود عاشورا کے حوالے سے ایک روایت جس میں روزے کا حکم دیا گیا ہے، وہاں اشارہ دیا گیا ہے کہ گذشتہ دور میں یہ عید کا دن تھا، اس لیے تم بھی روزہ رکھو، (مجمع الزوائد، ج۳، ص۱۸۵)

خود امام حسین ع کی سیرت میں اس دن کا روزہ یکسر طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے، جبکہ نماز پر بڑی تاکید موجود ہے۔ اگر اس دن کے روزے کی تاکید ہوتی ، جیسا کہ بعض روایات میں عندیہ ملتا ہے کہ امام علی ع اس پر بڑی تاکید کرتے تھے،(مصنف عبدالرزاق، ح7836) تو امام حسین ع قطعا کسی نہ کسی انداز میں اپنے والد بزرگوار کے اس تاکیدی رویے کو عملی جامہ پہنا کر اس دنیا سے جاتے۔

آخری بات یہ ہے کہ غم و اندوہ اور سوگواری کی وجہ سے کھانے پینے سے اجتناب ایک فطری امر ہے، اس کے لیے کسی روایت کی ضرورت نہیں ہے۔شیخ طوسی کی مذکورہ روایت کو بھی اسی فطری امر کا بیان قرار دیا جا سکتا ہے۔

صلح امام حسن علیہ السلام کے اسباب ، شرائط اور نتائج

صلح امام حسن علیہ السلام کے اسباب ، شرائط اور نتائج

مقدمہ

دور حاضر میں نئی نسل کا ہر جوان امام حسن علیہ السلام سے متعلق ایک سوال ضرور کرتا ہے وہ یہ کہ آپ علیہ السلام نے صلح کیوں کی؟ لہذا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آپ وارث قرآن و عترت تھے پھر آپ نے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی؟ آپ چاہتے تو اس کے ساتھ جنگ کرتے یہاں تک کہ شہید ہوجاتے۔ آخر وہ کونسے اسباب تھے جن کی وجہ سے آپ صلح کرنے پر مجبور ہوگئے؟ مذکورہ سوالوں کا جواب خود امام حسن علیہ السلام کے اقوال سے دیا گیا ہے ، امام حسن علیہ السلام ایک مقام پر صلح کے معترض کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: قسم ہے پالنے والے کی میں نے حکومت اس وجہ سے معاویہ کو سپرد کردی کہ میرا کوئی مددگار نہ تھا اور اگر میرے مددگار ہوتے تو اس کے خلاف شب و روز لڑتا حتی کہ خداوند متعال میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرتا ۔ ایک مقام پر وھب جھنی نے سوال کیا کہ لوگ معاویہ سے جنگ اور صلح کے درمیان مشوش ہیں آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم اگر معاویہ سے جنگ کروں گا تو یہی لوگ مجھے اسیر بنا کر اسکے سامنے پیش کردیں گے۔ ایک مقام پر حجر ابن عدی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ زیادہ تر لوگ صلح کی طرف راغب اور جنگ سے روگردان ہیں چنانچہ میں نے نہیں چاہا کہ انہیں ایسی چیز (جنگ) پر مجبور کروں جس کو وہ ناپسند کرتے ہیں، پس میں نے اسی کو مصلحت سمجھا کہ معاویہ کے ساتھ مسالمت آمیز رویہ اپناؤں اور اپنے اور اس کے درمیان جنگ کو بند کردوں؛ میں نے دیکھا کہ خون کا تحفظ خون بہانے سے بہتر ہے اور اس کام سے میرا ارادہ تمہاری خیر خواہی اور بقاء کے سوا کچھ نہ تھا۔ اے حجر جیسا تم چاہتے ہو لوگ ویسا نہیں چاہتے، میں نے یہ قدم تم جیسے شیعیوں کی حفاظت کے لئے اٹھایا ہے ۔ کسی نے گستاخانہ لہجہ اختیار کرکے امام حسن مجتبی علیہ السلام سے کہا: (اے مؤمنوں کو ذلیل کرنے والے)، تو آپ نے فرمایا: میں نہیں ہوں بلکہ (مؤمنوں کو عزت دینے والا) ہوں؛ کیونکہ جب میں نے دیکھا کہ تم (پیروان آل محمد(ص)) میں سپاہ شام کا مقابلہ کرنے کی قوت نہیں ہے تو میں نے اپنی حکومت دے دی تاکہ ہم اور تم باقی رہیں۔ ایک مقام پر آپ صلح کے معترض کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میری صلح ویسی ہی ہے جیسے رسول کی صلح، حدیبیہ میں تھی بس فرق اتنا ہے کل جن سے صلح کی گئی تھی وہ تنزیل (قرآن)کے منکر تھے اور آج جن سے صلح ہورہی ہے وہ تاویل (تفسیر ) کے منکر ہیں ۔ اسکے بعد اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر میں یہ کام نہ کرتا تو روئے زمین پر ایک شیعہ بھی زندہ نہ رہتا اور یہ (معاویہ اور اس کے حامی) سب کو (چن چن کر) قتل کرتے۔ بعض نادان (صلح کی اہمیت سے بے خبر )لوگوں کی سرزنش کرتے ہوئے آپ ارشاد فرماتے ہیں: تم لوگوں پر وائے ہو کہ، تمہیں کیا معلوم کہ میں نے کیا کیا ہے؟ خدا کی قسم میں نے جو کام انجام دیا ہے وہ ہمارے شیعیوں کے لئے ان پر سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے بھی زیادہ بہترہے ۔

صلح امام حسن علیہ السلام کے علل و اسباب

1- امام علیہ السلام کا علم

شیخ صدوق نے اپنے اسناد کے ساتھ ابی سعید عقیصا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: جب میں حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچا اور آپ سے عرض کی: اے فرزند رسول خدا جب آپ کو معلوم ہے کہ حق آپ کے ساتھ ہے ، پهر کیوں آپ نے گمراه اور ظالم کے ساتھ صلح کی ہے ، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ابو سعید! معاویہ کے ساتھ میری صلح کے علل و اسباب وہی ہیں جو رسول خدا (ص) کے مکہ والوں اور بنی ضمره کے ساتھ صلح کے تھے ، اہل مکہ کافر ہیں، تنزیل (قرآن کریم کی ظاہری آیات) کی بنا پر، اور معاویہ اور اس کے اصحاب بهی کافر ہیں تاویل (قرآن کریم کے آیات کے باطن) کی بنا پر۔ اے ابوسعید! کیا تم نے جناب خضر (ع) کے واقعہ کو نہیں سنا کہ اس لڑکے کو کشتی میں سوراخ کرنے کی وجہ سے قتل کر ڈالا، اور اس گری ہوئی دیوار کی مرمت کردی، جناب موسی علیہ السلام نے ان کے کاموں پر اعتراض کیا، کیونکہ انہیں ان کاموں کا راز معلوم نہیں تها، لیکن جس وقت ان کاموں کی علت کو سمجھ لیا تو اس پر راضی ہوگئے، اسی طرح میری صلح ہے اور چونکہ تمہیں اس کا راز معلوم نہیں ہے اس وجہ سے اس پر اعتراض کرتے ہو ۔

2- دین کا تحفظ

حضرات آئمہ علیہم السلام کے نزدیک ، دین کی حفاظت، اور اہل بیت(ع) کی تعلیمات کا زنده کرنا سب سے بنیادی عنصر ہے ، چنانچہ حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: سلامة الدین احبّ الینا من غیره ، یعنی دین کا تحفظ، ہمارے نزدیک دوسری تمام چیزوں سے زیاده محبوب ہے ۔ اس بنا پر حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی صلح کی ایک اہم علت ، دین کا تحفظ ،قرار دیا جاسکتا ہے ،کیونکہ اسلامی معاشره کے حالات اس طرح تھے کہ معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے میں اصل دین ہی ختم ہوجاتا ، اس کے علاوه اسلامی معاشره کے بیرونی حالات اس بات کی عکاسی کرر ہے تھے کہ مشرقی روم، مسلمانوں پر فوجی حملہ کرنے کے لئے تیار تها۔ دوسری طرف سے اس وقت کے مسلمان بهی ثقافتی لحاظ سے ایسے حالات میں تھے جو جنگ و خونریزی کو دین اور مقدسات کے سلسلہ میں ایک قسم کی بدبینی سمجھ ر ہے تھے ، جیسا کہ حضرت امام حسن (علیه السلام) نے اپنے چاہے والوں کے اعتراض کے جواب میں فرمایا: انّی خشیت أن یجتثّ المسلمون عن وجه الارض فاردت ان یکون للدّین ناعی، میں اس بات سے خوف زده ہوں کہ کہیں زمین سے مسلمانوں کی جڑوں کا خاتمہ نہ کردیا جائے، اور کوئی بهی مسلمان باقی نہ ر ہے ، اسی وجہ سے میں صلح کرکے دین خدا کی حفاظت کی ہے۔

3- مصالح عمومی

عام مصلحتوں کی رعایت کرنا، سب سے زیاده عقلمندی اسٹراٹیجک ہوتی ہے ، جو دلسوز اور آزادی خواه رہبروں خصوصا الہی رہبروں کی طرف سے ہوتی ہے ، چونکہ وه حضرات عام مصلحتوں کو ذاتی یا کسی خاص گروه کی مصلحتون پر قربان نہیں کرتے، حضرت امام حسن(علیہ السلام) نے بهی خونریزی سے روک تهام اور مسلمانوں کی مصلحتوں کی پیش نظر صلح کی، جیسا کہ آپ نے فرمایا: میں نے صلح قبول کی ہے تاکہ خونریزی سے روک تهام کرسکوں اور اپنی اور اپنے اہل خانہ اور اپنے اصحاب کی جان کی حفاظت کی ہے۔

آپ کو معلوم تها کہ کچھ لوگ مجھے مذل المومنین کہیں گے اور بعض لوگ آپ کی بے احترامی اور توہین کریں گے، لیکن آپ نے ان تمام سختیوں کو برداشت کیا تاکہ عام مصلحتیں خطره میں نہ پڑجائیں، کیونکہ معاویہ سے جنگ کرنا، نہ کوفیوں کے فائده میں تها، نہ شام والوں کے مفاد میں، بلکہ اس سے رومیوں کے عالم اسلام پر حملہ کا راستہ فراہم ہوتا، چنانچہ ابن واضح یعقوبی تحریر کرتے ہیں: معاویہ سن 41ہجری میں شام واپس آیا اور جب اسے معلوم ہوا کہ رومیوں کا ایک بڑا لشکر حملہ کے لئے آگے بڑھ رہا ہے ۔۔۔ تو اس نے ایک لاکھ دینار بهیج کر صلح کرلی۔ شاید اسی دلیل (عام مصلحتوں کی رعایت) کی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت امام حسن علیہ السلام کے لئے فرمایا تها: بے شک یہ میرا بیٹا مسلمانوں کا امام ہے ، امید ہے کہ خداوندعالم اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروه کے درمیان صلح کرائے گا۔ حضرت امام حسن (ع) کی صلح، حضرت حضرت امام حسین (ع) کے قیام کا راستہ ہموار کرنے والی شئی ہے ، جیسا کہ علامہ سید عبد الحسین شرف الدین صاحب تحریر کرتے ہیں: حضرت امام حسن (علیہ السلام) کو اپنی جان کی قربانی دینے سے دریغ نہیں تها، اور حضرت امام حسین (علیہ السلام) راه خدا میں آپ سے زیاده قربانی دینے والے نہیں تھے ، آپ نے اپنی جان کو خاموش اور آرام آرام جہاد کے لئے روک رکھا تها، شہادت کربلا، قبل اس کے کہ حسینی هو، حسنی ہے ، صاحب نظر دانشوروں کی نظر میں امام حسن (علیہ السلام) کا دن فداکاری کے مفہوم میں بہت زیاده آمیختہ تها روزعاشوره امام حسین علیہ السلام کے نسبت، کیونکہ حضرت امام حسن (علیہ السلام) نے اس دن، فداکاری کے موقع پر، ایک خستگی ناپذیر اور پائیدار قهرمان کے کردار کو ایک مظلومانہ صورت میں مغلوب کے انداز میں ادا کیا، شهادت عاشورا، اس دلیل کی بنا پر پهلے حسنی ہے ، اس کے بعد حسینی ہے ، کہ امام حسن (علیہ السلام) نے اس کی راه هموار کی، اس کے وسائل کو تیار کیا، امام حسن (علیہ السلام) کی مکمل کامیابی اس بات پر متوقف تهی کہ آپ اپنے حکیمانه صبر و پائیداری کی بنا پر حقیقت کو واضح کریں اور اس روشنی کی نور میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) نصرت اور پرشکوه و ابدی کامیابی کو حاصل کریں، گویا یه دونوں گوہر پاک راستہ پر چلنے کے لئے ایک زبان ہوگئے تھے ، کہ حکیمانہ پائیداری کا کردار حضرت امام حسن علیہ السلام کا ہو اور انقلابی اور شجاعانہ قیام حضرت امام حسین علیہ السلام کا ہو».

4- شیعیوں کی حفاظت

شیعوں کی حفاظت اگرچہ عام مصلحتوں میں سے ہے ، لیکن چونکہ شیعہ حضرات، دین کے محافظ و پاسدار اور اہل بیت علیہم السلام کی موالی تھے ان کی جان کی حفاظت ایک خاص اہمیت رکھتی تهی، حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے خاص شیعہ، جنگ جمل، جنگ صفین، اور جنگ نہروان میں شہید ہوگئے تھے اور ان میں سے بہت کم تعداد باقی بچی تھے اور اگر جنگ ہوجاتی، تو عراق (کوفہ) کے لوگوں کی کمزوری کی وجہ سے حضرت امام حسن (علیہ السلام) اور شیعوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا، کیونکہ اس صورت میں معاویہ ان کو نیست و نابود کردیتا۔ اسی وجہ سے حضرت امام حسن (علیہ السلام) نے صلح کی ایک وجہ اپنے شیعوں کی حفاظت قرار دیتے ہوئے فرمایا: شیعوں کی حفاظت نے مجھے صلح پر مجبور کردیا، اور اس موقع پر میں نے مناسب سمجها کہ جنگ کو کسی دوسری دن کے لئے چهوڑ دیا جائے۔

5- لوگوں کی طرف سے حمایت نہ ہونا اور سرداروں کا خیانت کرنا

حکومت کا تشکیل دینا اوراس کا دفاع کرنا، عوام کی حمایت کا محتاج ہوتا ہے ، اگر کوفه کے لوگ آپ کی حمایت کرتے اور آپ کی لشکر کے سرداران آپ کے ساتھ خیانت نہ کرتے، تو آپ کبهی صلح نہ کرتے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: «خدا کی قسم! میں نے اس وجہ سے صلح کی ہے کہ میرا کوئی مددگار نہ تها، اگر میرے مددگار ہوتے تو معاویہ سے رات و دن جنگ کرتا یہاں تک کہ خداوندعالم اس کے اور ہمارے درمیان حکم کرتا»۔

معاویہ، حضرت امام حسن (علیہ السلام) کے لشکر میں ہمیشہ مخفی طریقہ سے منافقوں سے خط و کتابت برقرار کئے ہوئے تها کہ اگر حسن بن علی (ع) کو قتل کر ڈالو تو ہر ایک کو 2 لاکھ دینار دوں گا ، اور ان کو لشکر شام کا سردار بنا دوں گا، چنانچہ اس طریقہ کار سے معاویہ نے اکثر منافقوں کو اپنی طرف متوجہ کررکھا تها یہاں تک کہ وه حضرت امام حسن علیہ السلام کو قتل کردینے کے درپہ ہوگئے تھے ۔

جنگ کے واقعہ میں بهی امام علیہ سلام نے «حکم» کو 4000 افراد کے ساتھ معاویہ کے لشکر کی طرف بهیجا اور حکم دیا کہ منزل انبار میں قیام کرنا یہاں تک کہ میرا حکم پہنچے، ادهر سے معاویہ نے بهی «حکم» کے پاس ایک ایلچی بهیجا کہ اگر تو حسن بن علی(ع) کو چهوڑ کر ادهر چلا آئے تو میں تمہیں شام کی کوئی ولایت دید ونگا اور 5 لاکھ درہم اس کو فوری دیدئے، چنانچہ وه شخص امام علیہ السلام کو چهوڑ کر اپنے قبیلہ والوں اور دوستوں میں سے 200 لوگوں کو ساتھ معاویہ سے جا ملا. اس کے بعد امام علیہ السلام نے قبیلہ بنی مراد سے ایک شخص کو 4000 افراد کے ساتھ انبار کی طرف روانہ کیا لیکن وه بهی معاویہ کا دهوکہ کھا کر اس سے ملحق ہوگیا۔

امام حسن (علیہ السلام) کے لشکر میں بعض منافقین جو خوارج میں سے تھے ، انہوں نے بعض لوگوں کو امام حسن علیہ السلام کے خلاف بھڑکا رکھا تها ، جو آپ کے خیمہ پر حملہ بول کر وہاں سب کچھ غارت کرچکے تھے ، یہاں تک کہ انہوں نے آپ کے نیچے سے جانماز بهی کھینچ لی تهی، جب امام علیہ السلام کے سامنے ایسے حالات پیش آئے، تو آپ اپنے چند باوفا اصحاب کے ساتھ مدائن کی طرف روانہ ہوگئے، رات کی تاریکی میں «جرّاح بن سنان» نامی شخص امام علیہ السلام کے پاس آیا اور آپ کے گهوڑے کی لگام کو پکڑتے ہوئے بولا: اے حسن! تم کافر ہوگئے ہو، جس طرح تمہارے باپ بهی کافر ہوگئے تھے ! اور اس نے خنجر سے آپ کی ران مبارک پر حملہ کردیا اور آپ زخمی ہوگئے۔

حضرت امام حسن (علیہ السلام) نے لوگوں کا امتحان لینے کے لئے معاویہ سے جنگ کے بارے میں فرمایا:«اگرتم لوگ جنگ کے لئے تیار ہو تو میں صلح کو قبول نہیں کرتا اور اپنی تلواروں پر بهروسہ کرتے ہوئے نتیجہ کو خدا پر چهوڑتے ہیں، لیکن اگر تم زنده رہنے کو پسند کرتے ہو تو صلح قبول کرلوں اور تمہارے لئے امان لے لوں»، اس موقع پر مسجد کے ہر گوشہ سے آواز بلند ہورہی تهی: (البقیه، البقیه) ہم باقی رہنا چاہتے ہیں، ہم باقی رہنا چاہتے ہیں،اور صلح پر دستخط کرتے ہیں،(الکامل فی التاریخ، جلد 3، صفحه 406؛ تذکرة الخواص، صفحه 199) اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: «خدا کی قسم! اگر میں معاویہ سے جنگ کروں تو یہ لوگ میری گردن پکڑ کر اسیر بنا کر معاویہ کے حوالہ کردیں گے۔»

لہذا گزشتہ مطالب کے پیش نظر یہ کہا جائے : حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی صلح، ایک شجاعانہ ورزش تاریخ تهی جو موقع و محل اور حالات کے پیش نظر وجود میں آئی۔

حضرت امام حسن (علیہ السلام) نے صلح کو اس وجہ سے قبول نہیں کی کہ آپ موت سے ڈرتے تھے یا معاویہ کے ساتھ سازباز کرنا چاہتے تھے ، چونکہ آپ اسی علی(ع) کے بیٹے تھے کہ جن کی شجاعت کی توصیف کرتے ہوئے جناب جبرئیل نے اعلان کیا: لافتی الا علی لاسیف الا ذوالفقار۔

اور اس طرح عبید الله بن زبیر کو صلح پر اعتراض کا جواب دیا: «وائے ہو تجھ پر! تو کیا کہتا ہے ؟ مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ میں جو عرب میں سب سے بہادر شخص کا بیٹا ہوں، اور فاطمہ زہرا، سیدة نساء العالمین کا لخت جگر ہوں، میں کسی سے ڈروں، وائے ہو تجھ پر! میرے اندر خوف اور ناتوانی نہیں پائی جاتی، میری صلح کی وجہ تم جیسے مددگار تھے جو مجھ سے محبت اور دوستی کا دم بهرتے تھے لیکن دل میں میری نابودی کی تمنا لئے ہوئے تھے ۔۔۔»

صلح امام حسن علیہ السلام کی شرائط

امام حسن(ع) کے صلح نامہ کی چندشرائط تھیں کہ ہر شرط کا ایک خاص پیغام تھا۔

شرط اول:

هذا ما صالح عليه الحسن بن علی بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان صالحه علي أن يسلّم إليه ولاية أمر المسلمين، علي أن يعمل فيهم بكتاب اللّه و سنّة رسوله صلي الله عليه و آله و سلم ۔

امام حسن(ع) کی ایک شرط یہ تھی کہ معاویہ قرآن اور سنت رسول کے مطابق عمل کرے گا۔ (بحار الأنوار ج 44 ص 65، الغدير ج 11 ص 6 )

اس بند کا واضح یہ معنی و پیغام ہے کہ امام حسن(ع) جانتے تھے کہ معاویہ قرآن اور سنت رسول پر عمل نہیں کرتا بلکہ اپنی مرضی کے مطابق جو دل میں آتا ہے کرتا ہے۔ اس لیے کہ معاویہ جب کوفہ میں آیا تو سب سے پہلے اس نے یہی کہا تھا کہ: إنی واللّه ما قاتلتكم لتصلّوا و لا لتصوموا و لا لتحجّوا و لا لتزكوا إنّكم لتفعلون ذلک. و إنّما قاتلتكم لأتأمّر عليكم، و قد أعطاني اللّه ذلک و أنتم كارهون ۔

میں نے اس لیے صلح نہیں کی کہ تم لوگوں سے کہوں کہ نماز پڑھو، زکات دو اور حج کرو بلکہ میں یہ چاہتا تھا کہ تم لوگوں پر سوار ہو کر تم پر حکومت کروں۔ (مقاتل الطالبين ص 45 ؛ شرح ابن ابي الحديد ج 16 ص 15)

شرط دوم:

اس صلح نامے کے مطابق معاویہ کو کوئی حق نہیں ہے کہ اپنے بعد کوئی خلیفہ اور جانشین معیّن کرے، بلکہ معاویہ کے بعد خلافت امام حن(ع) کو ملے گی لیکن تھوڑے ہی وقت کی بات تھی کہ معاویہ نے بعض کو لالچ، ڈرا دھمکا اور بعض کو قتل کر کے یزید کو لوگوں کے سروں پر سوار کر دیا۔ معاویہ نے اس کام سے عملی طور پر صلح نامے کی ایک شقّ کی خلاف ورزی کی تھی۔

شرط سوم:

معاویہ کو کوئی حق نہیں کہ علی بن ابي طالب امير المؤمنين(ع) کو سبّ و لعن کرے۔ أن يترک سبّ أمير المؤمنين و القنوت عليه بالصلاة و أن لا يذكر عليّاً إلاّ بخير۔ (مقاتل الطالبيين اصفهانی: ص 26 ؛ شرح نهج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 4 ص 15)

و قال آخرون أنه أجابه علي أنه لا يشتم علياً و هو يسمع و قال ابن الاثير: ثم لم يف به أيضا. (الامامة و السياسة - ابن قتيبة الدينوري،ج 1 ص 185) ۔

لیکن معاویہ نے اپنے پہلے ہی مدینہ کے سفر میں حضرت علی(ع) پر سبّ و لعن کرنے کا حکم صادر کیا۔

یہ روایت صحیح مسلم میں كتاب الفضائل باب فضائل علی بن ابي طالب نقل ہوئی ہے کہ معاویہ نے سعد بن أبی وقاص سے کہا کہ: مالک لا تسبّ أبا تراب۔ تم کیوں ابو تراب کو گالی نہیں دیتے؟ تو سعد بن وقاص نے کہا کہ: مجھے جب بھی علی(ع) کے بارے میں رسول خدا(ص) کا فرمان یاد آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: أنت منّي بمنزلة هارون من موسی۔ یا جب میں نے سنا کہ آیت تطہير علی(ع) کے حق میں نازل ہوئی تو رسول خدا نے علی، زہرا، حسنين(عليہم السلام) کو یمنی چادر کے نیچے جمع کیا اورکہا: هؤلاء أهل بيتی۔ بس میں اسی لیے علی(ع) کو گالی نہیں دے سکتا۔

(صحیح مسلم ج 4 ص 1871؛ سنن الترمذي ج 5 ص 301 ؛ فتح الباري ج 7 ص 60 ؛ السنن الكبري ج 5 ص 107 )

زمخشری نے ذکر کیا ہے کہ: قال الزمخشری والحافظ السيوطی: إنّه كان في أيّام بني اميّة أكثر من سبعين ألف منبر يلعن عليها عليّ بن أبي طالب بما سنّه لهم معاوية من ذلک ۔

زمخشری نے اپنی کتاب ربيع الابرار میں لکھا ہے کہ: معاویہ کے دور حکومت میں 80 ہزار منبروں سے علی(ع) پر سبّ و لعن کی جاتی تھی ۔ (ربيع الأبرار زمخشيري: 2/186؛ النصائح الكافية لمحمّد بن عقيل: 79، عن السيوطي ؛ الغدير: 2/102، 10/266 ؛ النص والاجتهاد: 496)

ابن ابی الحدید نے ذکر کیا ہے کہ: إنّ معاوية أمر الناس بالعراق و الشام و غيرهما بسب علي(ع) و البراءة منه۔ و خطب بذلک علي منابر الإسلام ، و صار ذلک سنة في أيام بني أمية إلي أن قام عمر بن عبد العزيز رضي اللّه تعالي عنه فأزاله. و ذكر شيخنا أبو عثمان الجاحظ أن معاوية كان يقول في آخر خطبة الجمعة : اللّهم إن أبا تراب الحد في دينك ، و صد عن سبيلك فالعنه لعناً و بيلا ، و عذبه عذاباً أليماً و كتب بذلك إلي الافاق ، فكانت هذه الكلمات يشاربها علي المنابر ، إلي خلافة عمر بن عبد العزيز ۔

معاویہ کے دور حکومت میں نماز جمعہ کے خطبوں میں علی(ع) پر سبّ و لعن کرنا واجبات میں سے ایک واجب شمار ہوتا تھا بلکہ اس سے بالا تر کہ یہ کام اس وقت امت اسلامی میں ایک سنت کے طور پر رائج ہو چکا تھا۔ اس سبّ و لعن کو عمر ابن عبد العزیز نے ترک کروایا تھا۔

پس صلح نامے کی اس شقّ پر بھی معاویہ نے عمل نہیں کیا اور خلاف سنت رسول اہل بیت(ع) سے اپنی دشمنی کو جاری رکھا۔

شرط چہارم:

صلح نامے میں امام حسن(ع) نے معاویہ سے کہا کہ تم تمام شیعیان کی جان، مال اور ناموس کی حفاظت کرو گے اور ان کے سارے حقوق کی رعایت کرو گے۔ اب دیکھتے ہیں کہ معاویہ نے علی(ع) کے شیعوں کے ساتھ کیا کیا ؟ ابن ابی الحديد نے کہا ہے کہ: معاویہ نے سرکاری طور پر حکم دیا کہ جہاں پر شیعہ کو دیکھو اس کو قتل کر دو۔ اگر دو بندے گواہی دیں کہ فلاں بندے کا علی سے تعلق و رابطہ ہے تو اس بندے کی جان اور مال کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ابن ابي الحديد نے ایک بہت ہی درد ناک بات لکھی ہے کہ: حتّي إنّ الرجل ليقال له زنديق أو كافر أحبّ إليه من أن يقال شيعة علی۔

اگر کسی کو کہا جاتا کہ تم زندیق یا کافر ہو تو یہ اس کے لیے بہتر تھا کہ اس کو علی(ع) کا شیعہ کہا جائے۔( اللہ اکبر) (شرح نہج البلاغة ابن أبي الحديد ج 11 ص 44 ) ۔ علی بن جہم اپنے باپ کو لعنت کرتا تھا کہ اس نے کیوں میرا نام علی رکھا ہے،كان يلعن أباه، لم سمّاه عليّاً۔ (لسان الميزان ،ج4 ، ص 210 )

ابن حجر کہتا ہے کہ: كان بنو أمية إذا سمعوا بمولود اسمه علي قتلوه، فبلغ ذلك رباحاً فقال هو علي، و كان يغضب من علي، و يحرج علي من سماه به۔ بنی امیہ جب بھی سنتے تھے کہ فلاں نو مولود بچے کا نام علی ہے تو وہ اسکو قتل کر دیتے۔ (تہذيب التہذيب ،ج 7 ، ص 281)

صلح امام حسن علیہ السلام کے نتائج

اگرچہ امام مجتبٰی علیہ السلام کی صلح سخت حالات میں حقیقی مسلمانوں کے لئے بڑی صبر آزما اور تلخ تھی لیکن اس صلح کے اپنے بہت سے فوائد اور برکات بھی عالم اسلام کو نصیب ہوئے جنہیں ہم اختصار کے ساتھ ذیل میں بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
1 ۔ اسلام کی حفاظت:

امیرالمؤمنین(ع) کی شہادت کے بعد اچانک حالات اتنے بگڑے کہ اسلام پر ایک طرف تو خارجی دشمن حملہ کردینا چاہتا تھا تو دوسری طرف خود مسلمانوں کی صفوں میں موجود منافقین کا ایک بڑا اور قوی ٹولہ تھا اور چونکہ امام معصوم کا سب سے بنیادی فریضہ اسلام کی حفاظت اور شریعیت کی پاسداری ہوتا ہے لہذا امام حسن(ع) نے پسر ہندہ سے صلح کرکے اسلام کے سر سے تمام خطرات ٹال دئیے اور اسلام کی بقا اور اس کی تحفظ کی تقدیر کو بصورت دستاویز صلح تحریرکردیا۔ اسی بنا پر خود امام حسن علیہ السلام نے صلح کرنے کے دلائل میں سے ایک اسلام کی بقا کو قرار دیا ہے: مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں روئے زمین سے سچے مسلمانوں کا خاتمہ نہ ہوجائے اور کوئی ان میں سے باقی نہ بچے ۔لہذا میں نے صلح کرکے دین خدا کو بچانے کی کوشش کی ہے۔
2 ۔ قتل و غارتگری سے سے گریز:

جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں جب کسی علاقہ میں جنگ ہوتی ہے تو وہاں کے باشندوں کو بہت سی سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پس اگر جنگ ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے ہو اور جنگ سے وہ مطلوبہ مقصد حاصل بھی ہورہا ہو تو ان تمام سختیوں اور مصائب کو برداشت کرنا اہمیت رکھتا ہے۔لیکن ایسی جنگ کہ جس سے مقصد حاصل نہ ہو اور صرف جس سے معاشرے میں مسائل و مشکلات میں اضافہ ہی ہو تو اس سے ہر سجھدار اور ہمدرد حکمراں کے لئے کنارہ کش ہونا ہی بہتر ہے اور اس زمانے میں معاویہ سے جنگ کی بھی یہی کیفیت تھی یعنی اگر معاویہ سے جنگ جاری رہتی تو اس سے مقصد کو کسی صورت حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خود امام حسن علیہ السلام معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کی غرض کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میں نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ معاویہ کے ساتھ صلح کرلوں اور جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو ٹھنڈا کردوں اور اس کا مقصد تمہاری بھلائی اور خیر خواہی کے کچھ اور نہ تھا۔
3 ۔ سرکش معاویہ کو مہار کرنا:

صلح کے تمام شرائط اس امر کے غماز تھے کہ معاویہ حکومت کرنے کے سلسلہ میں امام حسن علیہ السلام کی تأئید کا محتاج ہے اور یہ صلح معاویہ کو اس چیز کا پایبند بناتی ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کرے اور حدود الہی سے تجاوز نہ کرنے دے۔
اسی چیز کی جانب امام محمد باقر علیہ السلام اشارہ فرماتے ہیں جب آپ سے کسی صحابی نے سوال کیا: کہ کیسے امام حسن(ع) کے پاس مقام پیغمبر و علی(ع) ہے جبکہ انہوں نے خلافت کو معاویہ کے سپرد کردیا تھا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:خاموش ہوجاؤ! چونکہ امام مجتبٰی علیہ السلام خود بہتر طور پر جانتے تھے کہ کیا کرنا ہے۔اگر امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو اسلام میں بہت عظیم و خطرناک امر ظاہر ہوجاتا۔
4 ۔ لوگوں کے سامنے معاویہ کی حقیقت سے پردہ اٹھانا:

معاویہ مکر و فریب اور لوگوں کو دھوکہ دینے میں بہت ماہر تھا اور وہ اپنے مقام و مرتبہ کو لوگوں کی نگاہوں میں بلند دکھانے کے لئے کبھی اپنے کو رسول اللہ کا سالہ، کبھی شام کی حکومت کا ۲۰ برس کا تجربہ حاکم،کبھی امت کی بھلائی کا ڈھنڈورہ پیٹنے والا بنتا تھا اور ان سب چیزوں سے وہ لوگوں پر یہ عیاں کرنا چاہتا تھا کہ ہم تو پابند عہد ہیں اور صلح چاہتے ہیں اور حسن صلح سے بھاگ رہے ہیں۔لیکن جیسے ہی صلح ہوئی اور معاویہ نے اپنی اصلیت دکھانا شروع کردی اور لوگوں پر اس کی حقیقت آشکار ہوگئی۔
5 ۔ صلح ،قیام عاشورا کی تمہید:

معاویہ نے اپنے علنی اعتراف اور کردار کے ذریعہ صلح کے بہت سی شرطوں کو پیروں تلے روند دیا تھاچنانچہ معاویہ کی یہ مخالفتیں،اور لوگوں پر ظلم و تعدی سبب بنیں جن کے سبب لوگوں میں ایک بیداری کی لہر دوڑی اور انقلاب کربلا وجود میں آگیا جس کے اثرات اور برکتیں آج بھی عالم اسلام میں مشاہدہ کی جاسکتی ہیں۔
6 ۔ بنی امیہ کا تدریجی زوال:

امام حسن علیہ السلام نے صلح کے لئے وہ شرائط رکھے جن کی پابندی کرنا نسل بنی امیہ کی وبال جان بن گیا آخر کار وہ اپنی اصلی چولے سے باہر آنے لگے جس کے سبب عوام بیدار ہونے لگی اور بنی امیہ کی مکاریوں کو سمجھنے لگیں جس کے بعد بنی امیہ کی بساط لپیٹ دی گئی۔
7۔اہل بیت(ع) کی محبوبیت میں اضافہ:

امام حسن علیہ السلام نے معاویہ جسیے بد عہد کے ساتھ صلح کر کے اور اس کی پابندی کرکے اہل بیت(ع) کے درمیان مصلح اکبر اور لوگوں اور معاشرہ میں ایک خیرخواہ رہبر اور ہمدرد امام کے طور پر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی یہی وجہ ہے کہ آج بھی اہل بیت (ع) کے مکتب کو دنیا میں ہدایت و سعادت کا مکتب تصور کیا جاتا ہے جس سے دل آپ حضرات کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔چنانچہ عباسیوں نے لوگوں کے دلوں میں موجود اہل بیت عصمت و طہارت(ع) کی اسی محبت اور اہل بیت کے حق ان تک پہونچانے کا نعرہ لگاکر اپنے قیام کا آغاز کیا اور خاندان رسول اللہ(ص) کی محبوبیت کے سبب کامیاب ہوگئے۔

شخصیت و ایمان حضرت ابو طالب علیہ السلام



بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
جب دین اسلام جزیرۃ العرب میں ظاہر ہوا تو کفار اور مشرکین مکہ نے اس نئے دین کی بھرپور مخالفت کی کیونکہ انہوں نے جب اپنے اہداف کو خطرے میں دیکھا تو ہر حیلہ و بہانہ سے دین اسلام کے چراغ کو خاموش کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ کفار مکہ نے دین اسلام کی ترقی روکنے کے لیے ہر طرح دھمکی اور لالچ دینے والے حربوں سے استفادہ کیا۔ شہر مکہ کی اس خوف و رعب جیسی صورتحال میں حضرت محمد (ص) کے ساتھ رہنا اور انکا ساتھ دینا، یہ کسی جانی خطرے سے کم نہیں تھا، لیکن ان تمام جانی اور مالی خطرات سے بالا تر ہو کررسول خدا کی حمایت کرنے والوں میں فقط حضرت خدیجہ اور حضرت ابو طالب کا نام لیا جا سکتا ہے کہ جہنوں نے تاریخ اسلام کی گواہی کے مطابق اسلام کے نو پا شجر کی آبیاری کرنے کے لیے کسی بھی قربانی اور فدا کاری سے دریغ نہیں کیا۔ ان اسکے باوجود بھی بعض شیعہ مخالف کتب میں حضرت ابو طالب کے بارے میں بعض ایسے مطالب دیکھے جاتے ہیں کہ جن سے ان مصنفین کی تاریخ اسلام کی اس عظیم شخصیت سے دشمنی اور حسد ظاہر ہوتا ہے۔ بے شک تاریخ اسلام میں حضرت ابو طالب کے مؤمن و مسلمان ہونے کے بارے میں جو بہت سے دلائل اور شواہد ذکر کیے گئے ہیں، اگر مسلمانوں کی کسی دوسری من پسند شخصیت کے بارے میں ان دلائل کا فقط ایک حصہ بھی تاریخ کی کتب میں نقل کیا گیا ہوتا تو بلا شک وہ تاریخ اسلام کی سب سے پسندیدہ شخصیت ہوتی، لیکن اس میں کیا راز ہے کہ اتنے محکم و واضح دلائل ہونے کے باوجود بھی آج تک بعض مسلمان حضرت ابو طالب کو کافر قرار دیتے ہیں ، ایک باریک بین اور با بصیرت انسان آسانی سے یہ بات جان سکتا ہے کہ ان لوگوں کا حضرت ابو طالب کے بارے میں ایسی باتیں کرنے سے ہدف فقط انکی اولاد اور خاص طور پر امیر المؤمنین علی (ع) سے اپنے بغض و کینہ کا اظہار کرنا ہے۔
حضرت ابو طالب کی خانوادگی زندگی
نسب اور ولادت
آپ کا نسب عبد مناف بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب ہے۔ آپ اپنی کنیت ابو طالب سے مشہور تھے[1]۔ ابن عنبہ اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں جس میں آپ کو عمران کے نام سے یا کیا گیا ہے[2]۔
حضرت محمدؐ کی ولادت سے 35 سال پہلے آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کے والد عبدالمطلب جو پیغمبر اکرمؐ کے جد امجد بھی ہیں، تمام مورخین انہیں عرب قبائل کا سردار اور ادیان ابراہیمی کے مبلغ اعظم کے نام سے جانے جاتے ہیں۔آپ کی والدہ فاطمہ بنت عمرو بن عائذ مخزومی ہیں[3] ۔
ابوطالب اور پیغمبر اکرمؐ کے والد عبداللہ سگے بھائی تھے[4] ۔
زوجہ اور اولاد
حضرت ابوطالب کو الله نے ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسد کے بطن سے چار بیٹے: طالب، عقیل،‌ جعفر اور حضرت علیؑ عطا کئے۔ بعض مآخذ میں ام ہانی (فاخِتہ) اور جُمانَہ کو آپ کی بیٹی قرار دی گئی ہیں[5] ۔ بعض دیگر مآخذ میں آپ کی ایک اور بیٹی رَیطَہ (أسماء) کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ اسی طرح "طُلَیق" کے نام سے ایک اور بیٹے نیز "عَلَّہ" کے نام سے ایک اور زوجہ کا بھی نام لیا جاتا ہے[6] ۔
پیشہ اور منصب
ابو طالبؑ مکہ میں حجاج کی میزبانی اور سقّائی کے مناصب پر فائز تھے۔ وہ تجارت سے بھی منسلک تھے اور عطریات اور گندم کی خرید و فروخت کرتے تھے[7] ۔ امیرالمؤمنینؑ سے منقولہ ایک حدیث ـ نیز مؤرخین کے اقوال کے مطابق ـ حضرت ابو طالبؑ تہی دست ہونے کے باوجود قریش کے عزیز اور بزرگ تھے اور ہیبت و وقار اور حکمت کے مالک تھے[8]۔ ابو طالبؑ کی فیاضی اور جود و سخا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ "جس دن وہ لوگوں کو کھانے پر بلاتے قریش میں سے کوئی بھی کسی کو کھانے پر نہیں بلاتا تھا[9] ۔ ابو طالبؑ نے سب سے پہلے عصر جاہلیت میں حلف اور قسم کو، مقتول کے وارثوں کی شہادت میں، لازمی قرار دیا اور اسلام نے اس کی تائید و تصدیق کی[10] ۔ حلبی کہتے ہیں: ابو طالبؑ نے اپنے والد ماجد حضرت عبد المطلب بن ہاشمؑ کی مانند شراب نوشی کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا[11]۔
رسول اکرمؐ کی کفالت اور سرپرستی
ابو طالبؑ نے اپنے والد کی ہدایت پر اپنے آٹھ سالہ بھتیجے حضرت محمدؐ کی سرپرستی کا بیڑا اٹھایا [12]۔ ابن شہرآشوب کہتے ہیں: جناب عبد المطلب نے وقت وصال کے وقت ابو طالبؑ کو بلوایا اور کہا: بیٹا ! تم محمدؐ کی نسبت میری محبت کی شدت سے آگاہ ہو، اب دیکھونگا کہ ان کے حق میں میری وصیت پر کس طرح عمل کرتے ہو"۔ ابو طالبؑ نے جوابا کہا: ابا جان ! مجھے محمدؐ کے بارے میں سفارش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ میرا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے۔
ابن شہر آشوب مزید کہتے ہیں: "عبد المطلبؑ" کا انتقال ہوا تو ابو طالبؑ نے رسول خداؐ کو کھانے پینے اور لباس و پوشاک میں اپنے اہل خانہ پر مقدم رکھا[13]۔ ابن ہشام لکھتے ہیں: "ابو طالبؑ رسول خداؐ پر خاص توجہ دیتے تھے؛ اور آپؐ پر اپنے بیٹوں سے زیادہ احسان کرتے تھے، بہترین غذا آپؐ کے لئے فراہم کرتے تھے اور آپؐ کا بستر اپنے بستر کے ساتھ بچھا دیتے تھے اور ان کو ہمیشہ ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے [14]۔ ابو طالبؑ اپنے بیٹوں بیٹیوں کو کھانا کھلانے کے لئے دسترخوان بچھاکر کہا کرتے تھے کہ "رک جاؤ کہ میرا بیٹا (رسول خداؐ) آ جائے [15]۔
رسول اللہؐ کے حامی و پشت پناہ
تاریخی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو طالبؑ نے قریش کے دباؤ، سازشوں دھونس دھمکیوں اور ان کی طرف لاحق خطرات کے مقابلے میں رسول اکرمؐ کی بےشائبہ اور بےدریغ حمایت جاری رکھی۔ گوکہ ابو طالبؑ کی عمر رسول اللہؐ کی بعثت کے وقت پچھتر برس ہوچکی تھی، تاہم انہوں نے ابتداء ہی سے آپؐ کی حمایت و ہمراہی کو ثابت کر دکھایا۔ انہوں نے قریش کے عمائدین سے باضابطہ ملاقاتوں کے دوران رسول اللہؐ کی غیر مشروط اور ہمہ جہت حمایت کا اعلان کیا [16]۔ یعقوبی کے مطابق یہ حمایت اور محبت اس حد تک تھی کہ جناب ابو طالبؑ اور ان کی زوجہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت اسد(س) رسول اللہؐ کے لئے ماں باپ کی صورت اختیار کرگئے تھے[17] ۔ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت ابوطالب کی وفات کے وقت فرمایا: جب تک ابوطالب بقید حیات تھے قریش مجھ سے خوف محسوس کرتے تھے[18] ۔ شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ جس دن ابوطالب کی وفات ہوئی جبرئیل پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئے اور کہا: مکہ سے باہر نکلو کیونکہ اب اس میں آپ کا کوئی حامی اور مددگار نہیں رہا [19]۔
بیٹے کو ہدایت
جب غار حرا میں خدا کا کلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہؤا تو علی علیہ السلام آپ (ص) کے ہمراہ تھے چنانچہ آپ (ص) نے سب سے پہلے اپنے وصی و جانشین اور بھائی کو دعوت دی اور علی علیہ السلام نے لبیک کہتے ہوئے رسول اللہ (ص) کی امامت میں نماز ادا کی اور جب گھر آئے تو اپنے والد کو ماجرا کہہ سنایا اور کہا :میں رسول اللہ (ص) پر ایمان لایا ہوں تو مؤمن قریش نے ہدایت کی: بیٹا! وہ تم کو خیر و نیکی کے سوا کسی چیز کی طرف بھی نہیں بلاتے ، تم ہر حال میں آپ (ص) کے ساتھ رہو[20]۔
شریک حیات کو ہدایت
سرپرستی کا اعزاز ملا تو رسول اللہ (ص) کو گھر لے آئے اور اپنی اہلیہ کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: «یہ میرے بھائی کے فرزند ہیں جو میرے نزدیک میری جان و مال سے زیادہ عزیز ہیں؛ خیال رکھنا! مبادا کوئی ان کو کسی چیز سے منع کرے جس کی یہ خواہش کریں » اور حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا بھی ایسی ہی تھیں اور ان کو پالتی رہیں اور ان کی ہر خواہش پوری کرتی رہیں اور رسول اللہ (ص) کے لئے مادر مہربان تھیں [21]۔
کفر کے خلاف جدوجہد
وہ اپنے والد ماجد (حضرت عبدالمطلب) کی مانند یکتاپرستی کے راستے پر گامزن رہے اور کفر و شرک اور جہل کے زیر اثر نہیں آئے۔
مشرکین کے مد مقابل آہنی دیوار
مورخین نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ابوطالب (ع) رسول خدا (ص) کو بہت دوست رکھتے تھے اور اپنے بیٹوں پر بھی اتنی مہربانی روا نہیں رکھتے تھے جتنی کہ وہ رسول اللہ (ص) پر روا رکھتے تھے؛ ابوطالب (ع) رسول اللہ (ص) کے ساتھ سویا کرتے تھے اور گھر سے باہر نکلتے وقت آپ (ص) کو ساتھ لے کر جاتے تھے؛ مشرکین نے ابوطالب علیہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آزار و اذیت پہنچانے کا وہ سلسلہ شروع کیا جو حیات ابوطالب (ع) میں ان کے لئے ممکن نہ تھا، چنانچہ رسول اللہ (ص) نے خود بھی اس امر کی طرف بار بار اشارہ فرمایا ہے[22]۔
ابو طالب کی خدمت میں قریش کا آخری وفد
رسول اللہ (ص) نے شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعدپھر حسبِ معمول دعوت وتبلیغ کا کام شروع کردیا اور اب مشرکین نے اگر چہ بائیکاٹ ختم کردیا تھا لیکن وہ بھی حسب معمول مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے اور اللہ کی راہ سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے اور جہاں تک ابو طالب کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی دیرینہ روایت کے مطابق پوری جاں سپاری کے ساتھ اپنے بھتیجے کی حمایت وحفاظت میں لگے ہوئے تھے لیکن اب عمر اَسّی (80) سال سے متجاوز ہوچلی تھی۔ کئی سال سے پے در پے سنگین آلام وحوادث نے خصوصاً محصوری نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے قویٰ مضمحل ہوگئے تھے اور کمر ٹوٹ چکی تھی، چنانچہ گھاٹی سے نکلنے کے بعد چند ہی مہینے گزرے تھے کہ انہیں سخت بیماری نے آن پکڑا۔ اس موقع پر مشرکین نے سوچا کہ اگر ابوطالب کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد ہم نے اس کے بھتیجے پر کوئی زیادتی کی تو بڑی بدنامی ہوگی۔ اس لیے ابوطالب کے سامنے ہی نبی(ص) سے کوئی معاملہ طے کرلینا چاہیے۔ اس سلسلے میں وہ بعض ایسی رعائتیں بھی دینے کے لیے تیار ہوگئے جس پر اب تک راضی نہ تھے۔ چنانچہ ان کا ایک وفد ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ ان کاآخری وفد تھا۔ ابن اسحاق وغیرہ کا بیان ہے کہ جب ابوطالب بیمار پڑ گئے اور قریش کو معلوم ہوا کہ ان کی حالت غیر ہوتی جارہی ہے تو انہوں نے آپس میں کہا : دیکھو ! حمزہ اور کچھ دیگر مسلمان ہوچکے ہیں اور محمد(ص) کا دین قریش کے ہر قبیلے میں پھیل چکا ہے۔ اس لیے چلو ابو طالب کے پاس چلیں کہ وہ اپنے بھتیجے کو کسی بات کا پابند کر یں اور ہم سے بھی ان کے متعلق عہد لے لیں۔ کیونکہ واللہ! ہمیں اندیشہ ہے لوگ ہمارے قابو میں نہ رہیں گے۔ ایک روایت یہ ہے کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ بڈھا مر گیا اور محمد (ص) کے ساتھ کوئی گڑ بڑ ہوگئی تو عرب ہمیں طعنہ دیں گے۔ کہیں گے کہ انہوں نے محمد (ص) کو چھوڑے رکھا۔(اور اس کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت نہ کی) لیکن جب اس کا چچا مر گیا تو اس پر چڑھ دوڑے۔ بہرحال قریش کا یہ وفد ابوطالب کے پاس پہنچا اور ان سے گفت وشنید کی۔ وفد کے ارکان قریش کے معزز ترین افراد تھے، یعنی عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام ، امیہ بن خلف ،ابو سفیان بن حرب اور دیگر اشرافِ قریش جن کی کل تعداد تقریبا ً پچیس تھی۔
انہوں نے کہا: اے ابو طالب ! ہمارے درمیان آپ کا جو مرتبہ ومقام ہے اسے آپ بخوبی جانتے ہیں۔ اور اب آپ جس حالت سے گزر رہے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ آپ کے آخری ایام ہیں، ادھر ہمارے اور آپ کے بھتیجے کے درمیان جو معاملہ چل رہا ہے اس سے بھی آپ واقف ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ انہیں بلائیں اور ان کے بارے میں ہم سے کچھ عہد وپیمان لیں اور ہمارے بارے میں ان سے عہد وپیمان لیں، یعنی وہ ہم سے دستکش رہیں اور ہم ان سے دستکش رہیں۔ وہ ہم کو ہمارے دین پر چھوڑ دیں اور ہم ان کو ان کے دین پر چھوڑ دیں۔
اس پر ابو طالب نے آپ(ص) کو بلوایا اور آپ(ص) تشریف لائے تو کہا: بھتیجے ! یہ تمہاری قوم کے معزز لوگ ہیں، تمہارے ہی لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں کچھ عہد وپیمان دے دیں اور تم بھی انہیں کچھ عہد وپیمان دے دو۔ اس کے بعد ابوطالب نے ان کی یہ پیشکش ذکر کی کہ کوئی بھی فریق دوسرے سے تعرض نہ کر ے۔جواب میں رسول اللہ(ص) نے وفد کو مخاطب کر کے فرمایا : آپ لوگ یہ بتائیں کہ اگر میں ایک ایسی بات پیش کروں جس کے اگر آپ قائل ہوجائیں تو عرب کے بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے زیرِ نگیں آجائے توآپ کی رائے کیاہوگی ؟ بعض روایتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ(ص) نے ابو طالب کو مخاطب کرکے فرمایا: میں ان سے ایک ایسی بات چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کے تابع فرمان بن جائیں اور عجم انہیں جزیہ ادا کریں۔ ایک روایت میں یہ مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا : چچا جان ! آپ کیوں نہ انہیں ایک ایسی بات کی طرف بلائیں جو ان کے حق میں بہتر ہے۔ انہوں نے کہا: تم انہیں کس بات کی طرف بلانا چاہتے ہو ؟۔ آپ نے فرمایا: میں ایک ایسی بات کی طرف بلانا چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کا تابع فرمان بن جائے اور عجم پر ان کی بادشاہت ہوجائے...ابن اسحاق کی ایک روایت یہ ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا : آپ لوگ صرف ایک بات مان لیں جس کی بدولت آپ عرب کے بادشاہ بن جائیں گے اور عجم آپ کے زیر ِ نگیں آجائے گا۔ بہر حال جب یہ بات آپ(ص) نے کہی تو وہ لوگ کسی قدر توقف میں پڑ گئے اور سٹپٹا سے گئے۔ وہ حیران تھے کہ صرف ایک بات جو اس قدر مفید ہے اسے مسترد کیسے کر دیں ؟ آخر کار ابو جہل نے کہا : اچھا بتاؤ تو وہ بات کیا ہے ؟ تمہارے باپ کی قسم ! ایسی ایک بات کیا دس باتیں بھی پیش کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں۔ آپ(ص) نے فرمایا : آپ لوگ لا الٰہ الا اللّٰہ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔ اس پر انہوں نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر اور تالیاں بجا بجا کر کہا : محمد! (ص) تم یہ چاہتے ہو کہ سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالو ؟ واقعی تمہارا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ پھر آپس میں ایک دوسر ے سے بولے : اللہ کی قسم! یہ شخص تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔ لہٰذا چلو اور اپنے آباء واجداد کے دین پر ڈٹ جاؤ، یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس شخص کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی اپنی راہ لی[23]۔
ایمان ابو طالب پر چند دلیلیں
ایمان ابو طالب شیعہ اور اہل سنت کے درمیان ایک اہم موضوع رہا ہے ، علمائے شیعہ نے مخالفین کے دلائل کے کافی شافی جوابات دیئے ہیں ، رسول خدا(ص) اور ائمہ اہل بیت (ع) کی احادیث کی روشنی میں، ابو طالب(ع) کے ایمان پر ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، تاہم مخالفین کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے ان کے ایمان پر دلائل کافیہ اور براہین قاطعہ قائم کئے ہیں، جن میں سے بعض کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔
ابو طالب(ع) کی ذاتی روش
ہم نے دیکھا کہ ابو طالب(ع) ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے حبشہ کے بادشاہ کو اسلام کی دعوت دی، وہی جنہوں نے اپنے بیٹے کو دعوت دی اور حکم دیا کہ نماز میں اپنے چچا زاد بھائی(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے جاملیں۔ وہی جنہوں نے اپنی زوجۂ مکرمہ فاطمہ بنت اسد(س) اور اپنی اولاد کو اسلام کی دعوت دی ہے۔ اور اپنے بھائی حمزہ کو دین اسلام میں ثابت قدمی کی تلقین کی اور ان کے اسلام لانے پر سرور و شادمانی کا اظہار کیا اور اپنے بیٹے علی (ع)کی حوصلہ افزائی کی[24]۔
انہوں نے بیٹے یعنی علی(ع)کو رسول اکرم(ص) کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو انہيں منع نہيں کیا بلکہ بیٹے جعفر سے کہا کہ جاکر بائیں جانب سے ان کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور نماز ادا کریں[25]۔
انہوں نے رسول خدا(ص) کا ساتھ دیتے ہوئے تمام مصائب کو جان کی قیمت دے کر خریدا اور زندگی کے آخری لمحے تک آپ(ص) کی حمایت سے دست بردار نہ ہوئے۔ اور حتی کہ موت کے لمحات میں قریش اور بنو ہاشم کو جو وصیتیں کیں وہ ان کے ایمان کامل کا ثبوت ہیں۔
ابو طالب(ع) کی وصیت قریش کے نام
ترجمہ: جب حضرت ابو طالب(ع) کا آخری وقت ہؤا اور قریش کے عمائدین ان کے گرد جمع ہوئے تو آپ نے انہیں وصیت کی اور فرمایا: "اے گروہ قریش! تم خلق الله میں خدا کی برگزیدہ قوم ہو میں تمہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے بارے میں نیکی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ قریش کے امین اور عالم عرب میں صادق ترین (سب سے زیادہ سچے اور راست باز) فرد ہیں؛ آپ(ص) ان تمام صفات محمودہ کے حامل ہیں جن کی میں نے تمہیں تلقین کی؛ وہ ہمارے لئے ایسی چیز لائے ہیں جس کو قلب قبول کرتا ہے جبکہ دوسروں کی ملامت کے خوف سے زبان اس کا انکار کرتی ہے۔
خدا کی قسم! گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ حتی دیہاتوں اور گرد و نواح کے لوگ اور لوگوں کے پسماندہ طبقات آپ(ص) کی دعوت قبول کرتے ہیں اور آپ(ص) کے کلام کی تصدیق کرتے ہیں اور آپ(ص) کے امر (نبوت و رسالت) کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں ۔۔۔ اے گروہ قریش! آپ(ص) تمہارے باپ کے فرزند ہیں لہذا آپ(ص) کے لئے یار و یاور اور آپ(ص) کی جماعت کے لئے حامی و ناصر بنو۔
خدا کی قسم! جو بھی آپ(ص) کے راستے پر گامزن ہوگا وہ ہدایت پائے گا اور جو بھی آپ(ص) کی ہدایت قبول کرے گا، سعادت و خوشبختی پائے گا؛ اور اگر میرے اجل میں تأخیر ہوتی اور میں زندہ رہتا تو آپ (ص) کو درپیش تمام مشکلات [بدستور] جان و دل سے قبول کرتا اور بلاؤں اور مصائب کے سامنے [بدستور] آپ(ص) کا تحفظ کرتا[26]۔
ابو طالب(ع) نے بنو ہاشم سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا :
يا معشر بني هاشم! أطيعوا محمدا وصدقوه تفلحوا وترشدوا ۔
ترجمہ: اے جماعت بنی ہاشم حضرت محمد( ص) کی اطاعت کرو اور ان کی تصدیق کرو تاکہ فلاح اور بہتری اور رشد و ہدایت پاؤ[27]۔
حضرت ابو طالب(ع) کے بعض اشعار
اِن ابن آمنة النبی محمدا -- عندی یفوق منازل الاولاد۔
ترجمہ: حقیقتا فرزند آمنہ(ص) کی شان و منزلت میرے نزدیک میری اولاد پر فوقیت رکھتی ہے۔
ان کا مشہور ترین قصیدہ "قصیدہ لامیہ" کے عنوان سے مشہور ہے جس کا آغاز اس مطلع سے ہوتا ہے:
خليلي ما أذني لاول عاذل --- بصغواء في حق ولا عند باطل۔
ترجمہ: میرے ہم نشین! میں کسی صورت میں بھی ملامت کرنے والوں کی بات نہیں سنتا اور حق کی راہ میں کسی حالت میں بھی کفر اور باطل کی طرف مائل نہیں ہوتا[28]۔
علامہ امینی کہتے ہیں:
میں یہ نہ جان سکا کہ رسول خدا (ص) کی نبوت کی تصدیق اور رسالت نبی(ص) کی گواہی اور شہات کو کس طرح ہونا چاہئے کہ ابو طالب(ع) کے اشعار میں تصدیق و شہادت پر مبنی بے شمار اور مختلف النوع عبارتیں ملتی ہیں جس کو شہادت و تصدیق اور گواہی و اقرار و ایمان نہیں سمجھا جاتا؟ ان بےشمار عبارتوں میں سے صرف ایک عبارت کسی اور شخص کی شاعری یا نثر میں پائی جاتی تو سب کہہ دیتے کہ "یہ شخص مسلمان ہے لیکن منکرین کے نزدیک اتنی ساری عبارتیں ابو طالب(ع) کے اسلام و ایمان کی دلیل نہیں ہیں! اور یہ انکار حیرت اور عبرت کا سبب ہے [29]۔
ابن ابی الحدید کہتے ہیں:
ابو طالب(ع) کے یہ اشعار جداگانہ طور پر شایت قطعیت تک نہ پہنچ سکیں لیکن ان کی شاعری کی مجموعی دلالت تواتر کی حد تک پہنچ گئی ہے؛ اور ان کے اشعار ایک موضوع میں اشتراک رکھتے ہیں اور وہ مشترکہ موضوع رسول اللہ(ص) کی نبوت و رسالت کی تصدیق ہے[30]۔
ان اشعار میں سے ایک کچھ یوں ہے:
اے شاہد الہی! گواہ رہنا کہ میں پیغمبر احمد(ص)کے دین پر ہوں۔ یا دیگر اشعار میں کہتے ہیں: الله نے اپنے نبى محمد(ص)كو عزت و کرامت عطا کی ہے؛ پس باعزت ترین اور بہترین خلق خدا لوگوں کے درمیان احمد(ص)ہیں؛ وہ، وہ ہیں جو بنو ہاشم میں سے بہتر و افضل احمد(ص)ہیں جنہیں زمانۂ فترت (یعنی انبیاء کی غیر موجودگی کے زمانے) ميں اللہ تعالی نے رسول بنا کر بھیجا۔ یا پھر کہتے ہیں: میں نے اپنے پروردگار کے رسول(ص) کی مدد و حمایت کی؛ اپنی بجلی (صاعقہ) کی سی تلوار سے اللہ کے رسول(ص) کی پشت پناہی کرتا ہوں؛ اس حامی و پشت پناہ کی مانند جو اپنے نبی(ص) کا ہمدرد ہے[31]۔
سے ابوطالب علیہ السلام نے یہ اشعار کہے:
وأبیضَ یسْتَسقى الغَمامُ بِوَجْههِ - ثِمالُ الیتامى عِصْمَةٌ للأَرامِلِ
ترجمہ: وہ سفید رو جس کے نورانی چہرے کی برکت سے لوگ بارش کے بادل کی التجا کرتے ہیں وہی جو یتیموں کا سرمایۂ سرور اور بیواؤوں کی پناہگاہ ہے۔
یلوذ به الهُلاّكُ من آل هاشمٍ - فَهُمْ عِنْدَهُ فی نِعمةٍ وفواضلٍ
ترجمہ: بنوہاشم کے بے چارہ افراد اس کی پناہ لیتے ہیں اور جب تک اس کے قریب ہوتے ہیں نعمت و بخشش میں زندگی بسر کرتے ہیں[32]۔
ألم تعلموا أنا وجدنا محمدا - نبيا كموسى خط في أول الكتب
ترجمہ: كيا تم نہيں جانتے كہ ہم نے محمد(ص)کو موسي(ع) كى طرح خدا كا نبى پايا ہے؟ يہ امر تمام كتابوں كى ابتداء (یا انبیاء سلف کی کتب) میں مذكور ہے
نبي أتاه الوحي من عند ربه - ومن قال: لا، يقرع بهاسن نادم
ترجمہ: وہ پیغمبر ہیں اور وحی اللہ کی جانب سے ان پر نازل ہوتی ہے اور جو اس حقیقت کا انکار کرے ندامت کی وجہ سے انگشت بدندان رہ جائے گا
يا شاهد الله علي فاشهد - إني على دين النبي أحمد - من ضلّ فی الدّین فانّی مهتد
ترجمہ: اے اللہ کی طرف کے شاہد (اے آسمانی گواہ) تو گواہ رہ کہ بے شک میں پیغمبر خدا احمد مختار(ص) کے دین پر ہوں؛ جو دین میں گمراہ ہوا (سو ہوا لیکن)، میں ہدایت یافتہ ہوں
أنت الرسول رسول الله نعلمه - عليك نزل من ذي العزة الكتب
ترجمہ: آپ بھیجے گئے (رسول) ہیں، اللہ کے بھیجے ہوئے، ہم یقین کے ساتھ اس حقیقت کو جانتے ہیں آپ کی طرف صاحب عزت (خدا) کی طرف سے کتب نازل ہوئی ہیں
أنت النبیُّ محمّدُ - قرمٌ أغرُّ مسوَّدُ۔
ترجمہ: آپ خدا کے پیغمبر محمد(ص)ہیں اور آپ بزرگوار اور نورانی بزرگ و آقا و سید ہیں
لمسوّدینَ أكارم - طابوا وطاب المولدُ۔
ترجمہ: ان لوگوں کے لئے جو کریم ہیں اور پاک ہیں اور پاک بزرگوں کی نسل سے ہیں
نعم الاُرومةُ أصلُها - عمرو الخضمّ الأوحدُ۔
ترجمہ: آپ کی نسل اور آپ کا نسب بہترین ہے جو عمرو (ہاشم بن عبدمناف) کی طرف لوٹتا ہے جو بہت زیادہ بخشنے والے اور بےمثل و مانند تھے
أو تؤمنوا بكتاب منزل عجب - على نبي كموسى أوكذي النون۔
ترجمہ:یا ایمان لاؤ اور عجیب کتاب پر جو نازل ہوئی ایک نبی پر جو موسی یا یونس کی طرح ہیں
وظلم نبي جاء يدعو إلى الهدى - و أمر أتي من عند ذي العرش قيم۔
ترجمہ: جو نبى ہدايت كى طرف بلانے آيا اس پر ظلم ہوا ، وہ صاحب عرش كى طرف سے آنے والى گراں بہا چيز كى طرف لوگوں كو بلانے آيا تھا
لقد أكرم الله النبي محمدا - فاكرم خلق الله في الناس أحمد۔
ترجمہ: الله نے اپنے نبى محمد(ص)كو عزت و کرامت عطا کی ہے؛ پس باعزت ترین اور بہترین خلق خدا لوگوں کے درمیان احمد(ص)ہیں
وخير بني هاشم أحمد - رسول الإله على فترة۔
ترجمہ: بنو ہاشم میں سے بہتر و افضل احمد(ص)ہیں جو اللہ کے رسول(ص) ہیں زمانۂ فترت (یعنی انبیاء کی غیر موجودگی کے زمانے) ميں
والله لا أخذل النبي - ولا يخذله من بني ذوحسب۔
ترجمہ: الله كى قسم نہ ميں نبى كو بے يار ومدد گار چھوڑوں گا اور نہ ہى ميرے شريف ونجيب بيٹے آپ(ص) كو تنہا چھوڑ سكتے ہيں
أتعلم ملك الحبش أن محمدا - نبيأ كموسى والمسيح ابن مريم۔
ترجمہ: کیا جانتے ہو اے بادشاہ حبشہ! کہ بےشک محمد(ص)نبی ہیں موسی اور عیسی بن مریم(ع) کی طرح
أتى بالهدى مثل الذي أتيا به - فكل بأمر الله يهدي ويعصم۔
ترجمہ: ہدایت و کتاب لے کے آئے جس طرح کہ موسی اور عیسی کتاب لے کر آیئے تھے اور یہ سب اللہ کے حکم سے ہدایت پاتے اور گناہوں سے بچتے ہیں
وانكم تتلونه في كتابكم - بصدق حديث لا حديث الترجم۔
ترجمہ: اور تم نصاری اس خبر کو اپنی کتاب میں سچی خبر کے ساتھ پڑھتے ہو نہ ایسے کلام میں جو گمان و تخمین پر مبنی ہو
فلا تجعلوا لله ندا فاسلموا - فان طريق الحق ليس بمظلم۔
ترجمہ: پس اللہ كے ساتھ كسى كو شريك قرار نہ دو اور اسلام قبول کرو کیونکہ حق کا راستہ تاریک نہیں ہے
فصبرأ أبا يعلى على دين أحمد - وكن مظهرا للدين وفقت صابرا۔
ترجمہ: اے ابا یعلی (حمزہ)! دین احمد(ص)پر صبر و استقامت کرو اور اپنا دین آشکار کردو خدا تمہیں صبر و استقامت کی توفیق دے
وحط من أتى بالحق من عند ربه - بصدق وعزم لا تكن حمز كافرا۔
ترجمہ: جو (پیغمبر(ص)) اپنے پروردگار کی طرف حق و حقیقت کے ساتھ آئے ہیں ان کی حفاظت صدق دل اور عزم راسخ کے ساتھ کرنا اور کبھی بھی کافر نہ ہونا
فقد سرني أن قلت: انك مؤمن - فكن لرسول الله في الله ناصرا۔
ترجمہ: بےشک مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے کہا کہ تم مؤمن ہوچکے ہو پس اللہ کی راہ میں رسول اللہ(ص) کے حامی و ناصر بن کے رہنا
وباد قريشا في الذي قد أتيته - جهارا، وقل: ما كان أحمد ساحرأ۔
ترجمہ: اپنا ایمان قریش کے سامنے اپنے ایمان اور عقیدے کا کھل کر اظہار کرو اور کہہ دو کہ احمد(ص)ساحر نہیں ہیں[33]۔
حدیث قدسی
حضرت ابو طالب(ع) پر جہنم کی آگ حرام ہے:
جبرائیل رسول اللہ(ص) پر نازل ہوئے اور کہا: يا محمد إن الله جل جلاله يقرئك السلام ويقول: إني قد حرمت النار على صلب أنزلك، وبطن حملك، وحجر كفلك، فقال: يا جبرئيل بين لي ذلك، فقال: أما الصلب الذي أنزلك فعبد الله ابن عبد المطلب، وأما البطن الذي حملك فآمنة بنت وهب، وأما الحجر الذي كفلك فأبو طالب بن عبد المطلب وفاطمة بنت أسد۔
ترجمہ: بتحقیق اللہ جل جلالہ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے: میں نے آگ کو حرام قرار دیا اس صلب پر جو آپ کو دنیا میں لے کر آئی، اور اس کوکھ پر جس نے آپ کو حمل کیا اور اس آغوش پر جس نے آپ کی پرورش کی۔ میں نے کہا: یا جبرائیل! وضاحت کیجئے؛ تو جبرائیل نے کہا: جو صلب آپ کو دنیا میں لائی وہ عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں اور جس کوکھ نے آپ کو حمل کیا وہ آمنہ بنت وہب ہیں اور جس آغوش نے آپ کی پرورش کی وہ ابو طالب(ع) اور فاطمہ بنت اسد ہیں[34]۔
دوسری روایت میں ہے کہ خداوند متعال نے جبرائیل کے زبانی رسول خدا(ص) سے فرمایا: اے (محمد(ص))! خداوند متعال نے جہنم کی آگ حرام کردی اس صلب پر جس نے آپ کو منتقل کیا (یعنی آپ کے باپ دادا)، اس کوکھ پر جس میں آپ پروان چڑھے (والدہ مکرمہ)، اور اس دامن اور گود پر جس نے آپ کی پرورش کی (ابو طالب(ع) اور فاطمہ بنت اسد(س))[35]۔
احادیث معصومین(علیہم الاسلام)
رسول اللہ(ص) نے فرمایا:
وقال صلى الله عليه وآله يحشر ابو طالب يوم القيمة في زى الملوك وسيما الانبياء عليهم السلام
ترجمہ: ابو طالب(ع) قیامت کے روز بادشاہوں کے زمرے اور انبیاء علیہم السلام کی صورت میں محشور کئے جائیں گے[36]۔
رسول خدا(ص) نے ابو طالب(ع) اور خدیجہ(س) کی وفات کے موقع پر فرمایا:
اجتمعت على هذه الامة في هذه الايام مصيبتان لا أدري بأيهما أنا أشد جزعا، يعني مصيبة خديجة وأبي طالب. وروي عنه أنه قال: إن الله، عزوجل، وعدني في أربعة: في أبي وأمي وعمي وأخ كان لي في الجاهلية
ترجمہ: ان دنوں اس امت پر دو مصیبتیں اکٹھی ہوئی ہیں، نہ معلوم کہ مجھے ان دو مصیبتوں میں سے کس پر زیادہ صدمہ پہنچا ہے، خدیجہ کی مفارقت پر یا ابوطالب کی جدائی پر۔ اور مروی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: خدا نے مجھے قیامت میں چار افراد کی مغفرت کا وعدہ (یا شفاعت کا اذن) دیا ہے: میرے والد ((ع))، میری والدہ (آمنہ(ع))، میرے چچا ابو طالب(ع)، اور میرا بھائی جن کا انتقال جاہلیت کے دور میں ہوا تھا[37]۔
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
۔۔۔ اس خدا کی قسم! جس نے محمد(ص)کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے کہ اگر میرے والد روئے زمین پر تمام گنہگاروں کی شفاعت کریں تو اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائے گا؛ کیا میرے والد جہنم میں عذاب میں مبتلا ہونگے اور ان کا بیٹا قسیم الجنۃ والنار (جنت اور دوزخ کا تقسیم کرنے والا) ہوگا؟ اس خدا کی قسم! جس نے محمد(ص)کو نبی برحق بنا کر مبعوث فرمایا ہے کہ ابو طالب(ع) کا بتحقیق ابو طالب(ع) کا نور تمام خلائق کے انوار کو بجھادے گا سوائے پانچ انوار کے: محمد کا دور اور میرا نور اور فاطمہ کا نور اور حسن کا نور اور حسین کا نور اور ان کے بیٹوں کو نور جو امام ہیں، جان لو کہ ان کا نور ہمارے نور سے ہے جس کو اللہ نے خلقت آدم سے دو ہزار سال قبل خلق فرمایا تھا[38]۔
امیرالمؤمنین(ع)فرماتے ہیں:
إن أبي حين حضره الموت شهده رسول الله صلى الله عليه واله فأخبرني فيه بشئ أحب إلي من الدنيا وما فيها
ترجمہ: میرے والد حالت موت میں پہنچے تو رسول(ص) نے ان کی بالین پر حاضر ہوئے اور ان (میرے والد) کے بارے میں مجھے ایسی بشارت دی جو میرے لئے دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے[39]۔
امام سجاد(ع) نے فرمایا:
واعجبا كل العجب أيطعنون على أبي طالب أو على رسول الله صلى الله عليه وآله وقد نهاه الله أن يقر مؤمنة مع كافر في غير آية من القرآن ؟ ولا يشك أحد أن فاطمة بنت أسد رضي الله عنهما من المؤمنات السابقات فانها لم تزل تحت أبي طالب جتى مات أبو طالب رضي الله عنه
ترجمہ: کس قدر عجیب ہے اور کتنی حیرت کی بات ہے؛ کیا وہ ابو طالب(ع) پر الزام لگاتے ہیں یا وہ درحقیقت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ پر طعن و تشنیع کررہے ہیں؟ حالانکہ خداوند متعال نے اپنے رسول(ص) کو قرآن میں ایک سے زیادہ آیات میں منع کیا ہے کہ وہ مؤمن خاتون کو کافر مرد کے پاس نہ رہنے دیں؛ اور کسی کو بھی اس حقیقت میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا ان مؤمنات میں سے ہیں جو سابقین اولین کے زمرے میں آتے ہیں اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ وہ آخری لمحے تک ابو طالب(ع) کے نکاح میں رہیں[40]۔
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
لو وضع إيمان أبي طالب في كفة ميزان وإيمان هذا الخلق في الكفة الأخرى لرجح إيمانه ثم قال: ألم تعلموا أن أمير المؤمنين عليا عليه السلام كان يأمر أن يحج عن عبد الله وابنه وأبي طالب في حياته ثم أوصى في وصيته بالحج عنهم؟
ترجمہ: بے شک اگر ابوطالب (علیہ السلام) کا ایمان ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور تمام خلائق کا ایمان دوسرے پلڑے میں تو ابوطالب (علیہ السلام) کا ایمان ان سب پر بھاری ہوگا؛ اور فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ امیرالمؤمنین(ع)اپنی حیات میں حکم دیا کرتے تھے کہ (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ کے والد ماجد) عبد اللہ بن عبدالمطلب، اور ان کے فرزند، اور آپ(ص) کی والدہ (آمنہ(س) اور ابو طالب(ع) کے لئے حج بجا لایا جائے اور اپنی شہادت کے وقت اپنی وصیت میں ہدایت کی کہ ان حضرات کی جانب سے حج بجا لایا جاتا رہے[41]۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
ان أبا طالب من رفقاء النبيين والصديقين والشهداء والصالحين وحسن اولئك رفيقا
ترجمہ: بےشک ابو طالب(ع) انبیاء، صدیقین، شہدائے راہ خدا اور صالحین کے رفیق و ہم نشین ہیں اور یہ بہت ہی اچھے رفیق ہیں[42]۔
امام رضا(ع) نے فرمایا:
كان نقش خاتم أبى طالب عليه السلام: "رَضِيتُ بِاللهِ رَبّاً وَبِإِبنِ أَخِي مُحَمَّدٍ نَبِيّاً " وَبِإِبنِي عَلِيٍ لَهُ وَصِيّاً۔
ترجمہ: ابو طالب علیہ السلام کی انگشتری کا نقش یہ تھا: "میں نے اللہ کو اپنے پروردگار کے طور پر، اپنے بھتیجے محمد(ص)کو اپنے پیغمبر کے طور پر اور اپنے بیٹے علی(ع)کو آپ(ص) کے وصی کے طور پر پسند کیا [43]۔
بزرگان دین اور علماء کے اقوال
شیخ طوسی کہتے ہیں: اس حقیقت پر امامیہ کا اجماع ہے کہ ابو طالب(ع) مسلمان تھے؛ اس سلسلے میں ان کے درمیان اختلاف نہیں ہے۔ ان کے پاس یقین تک پہنچا دینے والے دلائل ہیں جو ایمان ابو طالب(ع) پر علم پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں [44]۔
امین الاسلام طبرسی کہتے ہیں: کہ اہل بیت(ع) کا اجماع ایمان ابو طالب(ع) پر مبنی ہے اور ان کا اجماع حجت ہے[45]۔
فتّال نیشابوری کہتے ہیں: شیعیان آل محمد(ص) کے مذہب برحق نے اجماع کیا ہے اس حقیقت پر کہ ابو طالب(ع)، عبد اللہ بن عبدالمطلب(ع) اور آمنہ بنت وہب سب مؤمن تھے اور یہ اجماع حجت ہے [46]۔
فخار بن معد موسوی کہتے ہیں: کہ ایمان ابو طالب(ع) کے سلسلے میں اہل بیتِ رسول خدا(ص) کا اجماع اور شیعہ علماء کا اتفاق ہمارے لئے کافی ہے اور اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے [47]۔
سید بن طاؤس کہتے ہیں: ایمان ابو طالب(ع) پر عترتِ رسول(ص) کے تمام علماء کا اتفاق ہے؛ نیز وہ کہتے ہیں: عترت (یعنی اہل بیت(ع)) ابو طالب(ع) کے باطن سے بیگانوں کی نسبت زیادہ آگاہ ہیں؛ نیز شیعیان اہل بیت(ع) نے اس موضوع پر اجماع کیا ہوا ہے اور اس بارے میں متعدد کتب تصنیف کی ہیں[48]۔
علامہ مجلسی کہتے ہیں: شیعیان اہل بیت(علیہم السلام ) کا ابو طالب(ع) کے اسلام پر اجماع ہے اور انہیں یقین ہے کہ ابو طالب(ع) نے رسول خدا(ص) کی بعثت کے آغاز میں ہی اسلام قبول کیا اور انھوں نے قبل ازاں بھی کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی، بلکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اوصیاء میں سے تھے اور یہ حقیقت اس قدر شیعیان آل رسول(ص) کے درمیان مشہور ہے کہ حتی مخالفین بھی اس کو شیعہ سے نسبت دیتے ہیں۔ ان کے ایمان پر احادیث و روایت متواترہ شیعہ اور سنی کے منابع و مصادر سے نقل ہوئی ہیں؛ اور ہمارے بہت سے علماء اور محدثین نے اس موضوع پر مستقل کتب تالیف کی ہیں تا کہ یہ حقیقت کسی سے مخفی نہ رہے[49]۔
مخالفین کے اعتراضات اور ان کے جوابات
پہلا اعتراض
سیدنا مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ : أَيْ عَمِّ، قُلْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ : يَا أَبَا طَالِبٍ، تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَالاَ يُكَلِّمَانِهِ، حَتَّى قَالَ آخِرَ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ : عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ، مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ فَنَزَلَتْ : (مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ[50]) وَنَزَلَتْ : (إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ[51])
”جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بن المغیرہ کو دیکھا تو فرمایا: اے چچا لا اله الا الله کہہ دیں کہ اس کلمے کے ذریعے اللہ کے ہاں آپ کے حق میں گواہی دے سکوں ۔ اس پر ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : اے ابوطالب ! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے منحرف ہو جائیں گے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اپنی بات ابوطالب کو پیش کرتے رہے اور بار بار یہ کہتے رہے، حتیٰ کہ ابوطالب نے اپنی آخری بات یوں کی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لا اله الا الله کہنے سے انکار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے جب تک روکا نہ گیا، اللہ تعالیٰ سے آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرما دیں :
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ [52]
نبی اور مؤمنوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے استغفار کریں، اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اس کے بعد کہ انہیں ان کے جہنمی ہونے کا واضح علم ہو جائے۔
پہلے اعتراض کا جواب
1۔اس روایت کی سند میں سعید بن مسیب وہ شخص ہے جو امیرالمؤمنین(ع)کی دشمنی کے حوالے سے جانا جاتا تھا اور علی(ع)سے اس کا انحراف واضح ہے چنانچہ کسی کے بارے میں دشمن اور معاند شخص کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
بخاری ہی نے اپنی کتاب میں برائت کے نزول کے بارے میں لکھا ہے:
عن الْبَرَاء رضى الله عنه قَالَ آخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ بَرَاءَة ۔
ترجمہ: براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت سورہ برائت ہے۔
بہرصورت تاریخ گواہ ہے کہ ابو طالب علیہ السلام نے بعثت کے دسویں سال مکہ میں وفات پائی ہے اوراس سال کو نبی اکرم(ص) نے ابو طالب(ع) اور سیدہ خدیجۃالکبری (س) کی وفات کی بنا پر عام الحزن (یا صدمے کا سال) کا نام دیا ہے جبکہ سورہ توبہ اور آیت 113 سمیت اس کی تمام آیتیں دس سال بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں اور سورہ برائت مشرکین کو پڑھ کر سنانے کے لیے علی(ع)کا مکہ روانہ کرنے کا واقعہ تاریخ کے ماتھے پر جھلک رہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں قرآن نازل کرتے ہوئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ”[53]بے شک آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے[54]۔
۔2۔ اس آیت کے شان نزول کا ایمان ابوطالب سے کوئی تعلق نہیں تفصیل کے لیے امام فخرالدین رازی کی تفسیر سے رجوع کریں۔
دلیل نمبر 3:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں :
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ: قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، قَالَ: لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي قُرَيْشٌ، يَقُولُونَ: إِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَكَ، فَأَنْزَلَ اللهُ : إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ [55]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے کہا (لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ) کہہ دیں ۔ میں قیامت کے روز اس کلمے کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا ۔ انہوں نے جواب دیا : اگر مجھے قریش یہ طعنہ نہ دیتے کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے اس بات پر آمادہ کر دیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی : إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ[56]۔یقیناً جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ، البتہ جسے اللہ چاہے ہدیات عطا فرمادیتا ہے [57]۔
رددلیل۔3۔
حضرت ابوہریرہ کا یہ واقع بیان کرنا ہی اس روایت کے ابطال کے لیے کافی و شافی ہے کیونکہ حضرت ابوھریرہ فتح مکہ کے بعد ایمان لائے اور وصال ابوطالب کے وقت ان کی موجودگی ہی بعید ازعقل ہے۔
دلیل نمبر 4 :
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :
مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : يا رسول الله، هل نفعت أبا طالب بشيء فإنه كان يحوطك ويغضب لك؟ قال: نعم، ھو فی ضحضاح من نار، لولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار
اے اللہ کے رسول ، کیا آپ نے ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا وہ تو آپ کا دفاع کیا کرتے تھے اور آپ کےلیے دوسروں سے غصے ہو جایا کر تے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ہاں ! ( میں نے اُنہیں فائُدہ پہنچایا ہے ) وہ اب با لائی طبقے میں ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہو تے[58]۔
حا فظ سہیلی رحمہ اللہ (ھ581-508) فرماتے ہیں :
وظاھر الحديث يقتضي أن عبدالمطلب مات علي الشرك
”اس حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات کے متقاضى ہیں کہ عبدالمطلب شرک پر فوت ہوئےتھے[59]۔حا فظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (733-853ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
فھذا شان من مات علي الكفر، فلو كان مات علي التوحيد لنجا من النار أصلا والاحاديث الصححة والاخبار المتكاثرة طاقحة بذلك ۔
یہ صورت حال تو اس شخص کی ہوتی ہےجو کفر پر فوت ہوا ہو۔ اگر ابوطالب توحید پر فوت ہوتے تو آگ سے مکمل طور پر نجات پا جاتے۔ لیکن بہت سی احادیث و اخبار اس (کفر ابو طالب) سے لبریز ہیں[60]۔
رد دلیل۔4۔5
اس روایت سے ایمان ابوطالب ثابت ہوتا ہے اور یہ روایت اوپر دی گئی 3 دلیلوں کو باطل کرتی ہے۔ وہ اس طرح کے خدا کے حضور کسی گناہگار کی سفارش کرنا اور اسے عذاب میں نرمی دلانا یا عذاب سے چھڑانا شفاعت کہلاتا ہے۔ اور اگر ابوطالب نعوذبااللہ مشرک تھے تو مشرک شفاعتِ رسولؐ پا ہی نہیں سکتا ۔ اور روایت چونکہ بتا رہی ہے کہ ابوطالب کے عذاب میں رسولؐ پاک کی وجہ سے کمی آئی تو ثابت ہوا کہ ابو طالب مسلمان تھے تبھی تو شفاعت ِ رسولؐ انہیں نصیب ہوئی
دلیل نمبر 5 :
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم وذكر عنده عمه فقال : ‏‏‏‏ لعله تنفعه شفاعتي يوم القيامة، ‏‏‏‏ فيجعل في ضحضاح من النار يبلغ كعبيه يغلي منه دماغه.
انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ کے چچا (ابوطالب) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”شاید کہ ان کو میری سفارش قیامت کے دن فائدہ دے اور ان کو جہنم کے بالائی طبقے میں رکھا جائے جہاں عذاب صرف ٹخنوں تک ہو اور جس سے (صرف) ان کا دماغ کھولے گا[61]۔
رد دلیل۔4۔5
اس روایت سے ایمان ابوطالب ثابت ہوتا ہے اور یہ روایت اوپر دی گئی 3 دلیلوں کو باطل کرتی ہے۔ وہ اس طرح کے خدا کے حضور کسی گناہگار کی سفارش کرنا اور اسے عذاب میں نرمی دلانا یا عذاب سے چھڑانا شفاعت کہلاتا ہے۔ اور اگر ابوطالب نعوذبااللہ مشرک تھے تو مشرک شفاعتِ رسولؐ پا ہی نہیں سکتا ۔ اور روایت چونکہ بتا رہی ہے کہ ابوطالب کے عذاب میں رسولؐ پاک کی وجہ سے کمی آئی تو ثابت ہوا کہ ابو طالب مسلمان تھے تبھی تو شفاعت ِ رسولؐ انہیں نصیب ہوئی
دلیل نمبر6 :
سیدنا عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ مُنْتَعِلٌ بِنَعْلَيْنِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ
”جہنمیو ں میں سب سے ہلکے عذاب والے شخص ابو طالب ہوں گے۔ وہ آگ کے جوتے پہنے ہوں گے جن کی وجہ سے اُن کا دماغ کھو ل رہا ہو گا[62]۔
رد دلیل۔6۔
اس حدیث یا روایت کو کتب میں حدیث ضحضاح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اولاً : حدیث ضحضاح کے بارے میں تمام منقولہ اقوال کا راوی مغیرہ بن شعبہ ہے جو بنوہاشم کے حق میں ایک بخیل (اور بقولے ظنین اور متہم) شخص ہے کیونکہ ان کے ساتھ اس کی دشمنی مشہور ہے اور وہ ان کے ساتھ دشمنی کا اظہار کرتا تھا؛ اور مروی ہے کہ ایک دفعہ اس نے شراب نوشی کی اور جب نشہ چڑھ گیا تو کسی نے پوچھا: بنو ہاشم کی امامت کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے تو اس نے کہا: خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی ہاشمی کے لیے خیر و خوبی نہیں چاہتا؛ مغیرہ علاوہ ازيں فاسق شخص تھا۔ ابن ابی الحدید کہتے ہیں: محدثین و مفسرین کا کہنا ہے کہ حدیث ضحضاح کو سب نے ایک ہی شخص سے نقل کیا ہے اور وہ شخص مغیرہ بن شعبہ ہے جس کا بغض بنو ہاشم بالخصوص علی علیہ السلام کی نسبت مشہور و معلوم ہے اور اس کا قصہ (قصۂ زنا) اور اس کا فسق ایک غیر مخفی امر ہے۔۔
ثانیاً : فرض کریں کہ اگر ابو طالب(ع) مؤمن اور مسلمان نہ ہوتے تو پھر رسول خدا(ص) کی طرف سے ان کے لیے شفاعت کی امید چہ معنی دارد؟ جب کہ شفاعت مشرک اور کافر کے شامل حال ہوتی ہی نہیں۔
دلیل نمبر 7 :
خلیفہ راشد سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ
جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ کے چچا فوت ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جا کر انہیں دفنا دیں۔ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جائیں اور انہیں دفنا دیں، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔ میں ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا [63]۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں :
إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجِئْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کے گمراہ چچا فوت ہو گئے ہیں ان کو کون دفنائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں[64] ۔
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ[65] اور امام ابنِ جارود (550ھ) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
یہ حدیث نص قطعی ہے کہ ابوطالب مسلمان نہیں تھے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی نے نماز جنازہ تک نہیں پڑھی۔
رد دلیل۔7۔
درج بالا روایت کی رد کے لیے یہی کافی ہے کہ ان 3 روایات کے راویان میں میں مجہول، کاذب اور نواصب راوی ہیں لہذا ان پہ بحث و جرح کا جواز ہی نہیں ۔ حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو رجال کشی ،رجالِ نجاشی ۔
دلیل نمبر 8:
سیدنا اُسامہ رضی اللہ عنہ کا انتہائی واضح بیان ملاحظہ ہو:
‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ [66]۔
عقیل اور طالب دونوں ابوطالب کے وارث بنے تھے، لیکن (ابو طالب کے بیٹے) سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اُن کی وراثت سے کچھ بھی نہ لیا کیونکہ وہ دونوں مسلمان تھے جبکہ عقیل اور طالب دونوں کا فر تھے [67]۔
یہ روایت بھی بین دلیل ہے کہ ابوطالب کفر کی حا لت میں فوت ہو گئے تھے۔ اسی لیے عقیل اور طالب کے برعکس سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اُن کے وارث نہیں بنے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:
لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ ۔
نہ مسلمان کافر کا وارث بن سکتا ہے نہ کافر مسلمان کا[68]۔
امام ابنِ عساکر رحمہ اللہ (499-571ھ) فرماتے ہیں:
وقيل : إنهُ أَسلَمَ وَلَا يَصِحٌ إسلامُهُ
ایک قول یہ بھی ہے کہ ابوطالب مسلمان ہو گئے تھے، لیکن ان کا مسلمان ہونا ثابت نہیں ہے[69] ۔
ابوطالب کے ایمان لائے بغیر فوت ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت صدمہ ہوا تھا۔ وہ ہقیناً پوری زندگی اسلام دوست رہے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے وہ ہمیشہ اپنے دل میں ایک نرم گو شہ رکھتے رہے لیکن اللہ کی مرضی کہ وہ اسلام کی دولت سے سرفراز نہ ہو سکے۔ اس لیے ہم اُن کے لیے اپنے دل میں نرم گو شہ رکھنے کے باوجود دُعا گو نہیں ہو سکتے۔
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (700-774ھ) ابو طالب کے کفر پر فوت ہونے کے بعد لکھتے ہیں:
وَلَوْلَا مَا نَهَانَا اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ، لَاسْتَغْفَرْنَا لابي طَالب وترحمنا عَلَيْهِ [70]۔
اگر اللہ تعالیٰ نی ہمیں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم ابوطالب کے لیے استغفار کر تے اور اُن کے لیے رحم کی دعا بھی کرتے!۔
رد دلیل۔8۔
دلیل نمبر 8 میں بیان کردہ روایات چونکہ دلیل 4 اور 5 سے متصادم ہیں لہذا نواصب حضرت ابوطالب علیہ السلام کو نعوذبااللہ کافر قرار دینے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگانے کے بعد اپنے بیانات کے تضاد کی وجہ سے اپنے عقیدہ میں باطل ہیں
وفات اور عام الحزن
ابوطالب کی تاریخ وفات کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ شیخ طوسی 26 رجب دسویں بعثت کو روز وفات سمجھتے ہیں [71]۔
یعقوبی ماہ رمضان میں حضرت خدیجہ کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت ابوطالب کی وفات کو حضرت خدیجہ کی وفات کے تیسرے دن قرار دیتے ہیں اور وفات کے وقت آپ کی عمر 86 یا 90 سال بتاتے ہیں[72]۔ بعض مورخین 1 ذی‌ القعدہ اور بعض 15 شوال کو آپ کا یوم وفات قرار دیتے ہیں[73]۔
آپ کی وفات کے دن پیغمبر اکرمؐ نے سخت گریہ فرمایا اور حضرت علیؑ کو غسل و کفن دینے کا حکم دیا اور آپؐ نے ان کے لئے طلب رحمت کی دعا کی[74]۔
آپ کے جسد خاکی کو مکہ میں آپ کے والد گرامی عبدالمطلب کے ساتھ قبرستان حُجون میں سپرد خاک گیا گیا[75]۔
پیغمبر اکرمؐ نے حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ(س) کی وفات کے سال کو عامُ الحُزْن کا نام دیا[76]۔


[1] ۔ (بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۲۸۸؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۱۲۱)
[2] ۔ (ابن عنبہ، عمده الطالب، ۱۳۸۰ق، ص۲۰)
[3] ۔ (طبری، تاریخ الطبری، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۲؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۳۸۴ق، ج۲، ص۱۱۱)
[4] ۔ (ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۹۳ )
[5] ۔ (ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ص۱۵۸-۱۶۷)
[6] ۔ (ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۱۲۱ و ۱۲۲)
[7] ۔ (تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 13؛ابن قتیبه، محمد، المعارف، ص 575)
[8] ۔ (تاریخ یعقوبی، ج2، ص14؛قمی، عباس، الکنی و الالقاب، ج1، ص108 و 109)
[9] ۔ (انساب الاشراف، ج2، ص288)
[10] ۔ (سنن نسایی، ج 8، ص 2 – 4)
[11] ۔ (سیره حلبی، ج 1، ص 184)
[12] ۔ (سیره ابن‌هشام، ج 1، ص 116، دلائل النبوه، ج 2، ص 22)
[13] ۔ (مناقب، ج 1، ص 36)
[14] ۔ ( طبقات ابن‌ سعد، ج 1، ص 119)
[15] ۔ (ابن شہر آشوب، مناقب، ج 1، ص 37)
[16] ۔ (سیره ابن هشام، ج1، ص172 و 173)
[17] ۔ (تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 14)
[18] ۔ (ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج ۶۶، ص۳۳۹؛ ابن اثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۱۶۴)
[19] ۔ (مفید، ایمان ابی طالب، ۱۴۱۴ق، ص۲۴)
[20] ۔ (امام علی صدای عدالت انسانی، ج 1.2، ص 77 . 78)
[21] ۔ ( تاريخ انبيإ، ج3، سيدہاشم رسولی محلاتی، ص 76)
[22] ۔ ( تاريخ طبری ،ج 2، ص 229)
[23] ۔ ( ابن ہشام ۱/۴۱۷ تا ۴۱۹ ، ترمذی حدیث نمبر ۳۲۳۲ (۵/۳۴۱) مسند ابی یعلیٰ حدیث نمبر ۲۵۸۳ (۴/۴۵۶ ) تفسیر ابن جریر )

[24] ۔ (الصحيح من سيرة النبي ، ج3 ص232۔شرح نهج البلاغه، ج 13، ص272)
[25] ۔ ( سیره حلبیه، ج 1، ص433۔ ابن اثير، اسدالغابة في معرفة الصحابة، ج1، ص287)
[26] ۔ (الإكتفاء بما تضمنه من مغازی رسول الله والثلاثة الخلفاء، ج1، ص295۔سبل الهدى والرشاد فی سیرة خیر العباد، ج2، ص429۔ السیرة الحلبیة، ج2، ص49۔ سمط النجوم العوالی فی أنباء الأوائل والتوالی، ج1، ص394) ۔
[27] ۔ (الغدیر، ج 7، ص367۔ "تذكرة الخواص ، ص5۔ السيوطي جلال الدين، الخصائص الكبرى ج1 ص87۔ السيرة الحلبية ج1 صص372-375، سيرة زيني دحلان هامش الحلبية 1: 92، 293 ۔ أسنى المطالب ص10۔ )
[28] ۔ (شیخ مفید، ایمان ابی طالب، ص 18)
[29] ۔ (الغدیر، ج 7، ص341)
[30] ۔ (ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج14، ص 78)
[31] ۔ (ابن ابی الحدید، وہی ماخذ)
[32] ۔ (دینوری، المجالسة وجواهر العلم، ج1 ص432۔ذهبی، تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر، ج1، ص53۔سیوطی، الخصائص الكبرى، ج1، ص146۔صالحی شامی، سبل الهدى والرشاد، ج1، ص8)
[33] ۔ (محمد بن إسحاق بن یسار، سیرة ابن إسحاق، ج2، ص 138۔امینی، عبدالحسین، الغدير ج 7 ص 382 و 383۔العاملي، السيد جعفر مرتضي، الصحيح من سيرة النبي الاعظم(ص)، ج3 ص230۔ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج14، ص 78)
[34] ۔ ( معانی الاخبار ، ص 137 )
[35] ۔ (اصول کافی /ج1/ص371 و الصحیح/ج4/ص15)
[36] ۔ (ابن بابویه قمی، الامامة والتبصرة، ص176)
[37] ۔ (تاریخ یعقوبی، ج 2، ص35)
[38] ۔ (مجلسی، بحار الانوار، ج35 ص110۔کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، ص80)
[39] ۔ ( بحارالانوار، ج35، ص113)
[40] ۔ (بحارالانوار، ج 35، ص157۔شرح نهج البلاغه، ج 14، ص69۔نجم الدین العسکری، ابوطالب حامی الرسول، صص48،49)
[41] ۔ (امینی، الغدیر، ج 7، ص380۔ ابن أبي الحديد شرح نهج البلاغه، ج14 ص68)
[42] ۔ (الكراجكى، ابي الفتح محمد بن علي، کنز الفوائد، ص80)
[43] ۔ (المدني، السيد علي ابن معصوم، الدرجات الرفيعة، ص60)
[44] ۔ (طوسی، تفسير التبیان، ج 8، ص164)
[45] ۔ (طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج 4، ص31)
[46] ۔ (نیشابوری، فتال، روضه الواعظین، ص138)
[47] ۔ (موسوی، فخار بن معد، الحجة علی الذاهب، ص64)
[48] ۔ (الطرائف، ص398)
[49] ۔ (بحارالانوار، ج 35، ص138)
[50] ۔ (التوبة : 113)
[51] ۔ (القصص : 56)
[52] ۔ (التوبة : 113)
[53] ۔ (القصص : ٥٦)
[54] ۔ ( صحیح البخاری : 3884)
[55] ۔ (28،القصص : ٥٦)
[56] ۔ (28-القصص : ٥٦)
[57] ۔ ( صحیح مسلم : 55/1، ح:25)
[58] ۔ (صحیح البخاری : 548/1، ح : 3883، صحیح المسلم : 115/1۔ ح : 209)
[59] ۔ (الروض الانف : 19/4)
[60] ۔ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 241/7)
[61] ۔ (صحیح البخاری : 548/1، ح3885، صحیح المسلم : 115/1، ح210)

[62] ۔ (صحیح المسلم : ح : 515)
[63] ۔ (مسند الطيالسي : ص : 19، ح، 120، وسنده‘ حسن متصل )
[64] ۔ ( مسند الامام احمد : 97/1، سنن ابي داؤد : 3214، سنن النسائي : 190، 2008، واللفظ لهٗ، وسندهٗ حسن )
[65] ۔ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 114/7)
[66] ۔ (صحیح بخاری 1588)
[67] ۔ (صحیح البخاری:1588،صحیح المسلم:33/2،ح:1614مختصراً)
[68] ۔ (صحیح البخاری:551/2،ح:6764، صحیح المسلم:33/2،ح:1614)
[69] ۔ (تاریح ابن عساکر:307/66)
[70] ۔ (سیرةالرسول ابن کثیر:132/2)
[71] ۔ (یوسفی غروی، موسوعة التاریخ الإسلامی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۶۴۰ )
[72] ۔ (یعقوبی، تاریخ الیعقوبی(الاعلمی)، ج۱، ص۳۵۴ )
[73] ۔ (مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج ۱، ص۴۵)
[74] ۔ (مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۳۵، ص۱۶۳، ابن جوزی، تذکرہ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج ۱، ص۱۴۵)
[75] ۔ (بلارذی، انساب الاشراف، ۱۴۲۰ق، ج ۱، ص۲۹)
[76] ۔ ( مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج ۱، ص۴۵)

حضرت زینب(س) کا محمل پر سر مار کر زخمی کرنا

حضرت زینب(س) کا محمل پر سر مار کر زخمی کرنا

🔹مرحوم محدث قمی صاحب مفاتیح الجنان اپنی دو کتابوں ، نَفَس المهموم اور منتهی الآمال میں واقعہ کربلا کی روایات کو مفصل ذکر فرماتے ہیں. آپکی بعض گزارشات معتبر اور قدیمی منابع مانند ابومخنف ، امالی صدوق اور شیخ مفید سے نقل ہیں اور بعض اپنے ہم عصروں سے لی گئی ہیں جو کہ مورد بررسی ہیں .

🔍 اس کے باوجود آپ ایک دقیق اور نقّاد شخصیت تھے

آپ مشهور داستانوں میں سے ایک داستان حضرت زینب کا بھائی کا کٹا ہوا سر دیکھ کر محمل پر سر مارنے والی داستان کا بھی رد فرماتے ہیں.

🖋 کتاب منتهی الآمال میں لکھتے ہیں :

«ذكر محامل و هودج ، مسلم جصّاص کی خبر کے علاؤہ کہیں نہیں ، اور اس خبر کو اگرچہ علامہ مجلسی نے بھی نقل کیا ہے لیکن ان کی خبر کا ماخذ منتخب طريحى اور كتاب نور العين ہے حالانکہ یہ دونوں کتابیں اھل فن حدیث پر مخفی نہیں ہیں ۔ سر زخمی کرنے اور چند معروف اشعار کی حضرت زینب کے ساتھ نسبت دینا درست نہیں ، وہ بی بی جو عقیلہ بنی ہاشم ہیں ، عالمه غير معلّمه ہیں ، صاحب مقام رضا و تسليم ہیں. اور پھر معتبر مقاتل سے معلوم ہوتا ہے کہ جن اونٹوں پر بیبیوں کو سوار کیا گیا ان پر پلان نہیں تھے »

جیسا کہ اس عالم بزرگوار نے کہا ہے کہ یہ دو کتابیں ، منتخب طریحی اور نورالعین ، تحریف‌ شدہ اور غیر معتبر کتابوں میں سے ہیں . البتہ جو معتبر منابع سے نقل کیا ہے اس میں تو کوئی اشکال نہیں لیکن جو مطالب نامعلوم جگہوں سے لئے ہیں ان کا کوئی اعتبار نہیں.

نکتہ ۔

بعض لوگ اس داستان کو قمہ زنی کے جواز کی دلیل بناتے ہیں.

جناب علی اکبر

📌 جناب علی اکبر

◀️ امام حسین(ع) کا سب سے بڑا بیٹا ، ماں جناب لیلیٰ تھیں.

◀️ وہ راوی حدیث، مرد رشید، شجاع، راستگو، پاک، درستکار اور اخلاق میں اور شکل و صورت میں رسول خدا(ص) جیسا تھا

◀️جناب علی اکبر، نے سپاہ ابن زیاد کی طرف سے دئے گئے امان نامہ کو رد کر دیا۔

◀️اگرچه سن جناب اکبر کے بارے میں بہت سارے اقوال موجود ہیں ، لیکن 23 سال یا 27 سال درست ہے .

◀️ آپ کے زیارت نامہ کے مطابق کہ جو اھل بیت سے نقل ہوا ہے ، علی اکبر کی بیوی بھی تھی اور احتمال یہ ہے کہ دو بچے بھی تھے جن میں سے ایک کا نام حسن تھا .

◀️ آپ کربلا میں بنی ہاشم کے پہلے شھید تھے.

◀️علی اکبر میدان جنگ میں وارد ہوتے ہوئے فرماتے ہیں:

میں علی، فرزند حسین بن علی(ع) ہوں ،

خدا کی قسم ہم جانشینی پیغمبر کیلئے جس سے زیادہ حق دار ہیں.

آپ (دشمنان) کو نیزہ و تلوار سے اتنا ماریں گے کہ نیزے ٹوٹ جائیں گے اور تلواریں ٹیڑھی ہو جائیں گیں .

◀️جب جنگ زیادہ شدید ہوئی تو آپ ث کافی دشمنوں کو واصل جہنم کیا ، بابا حسین کے پاس آئے اور عرض کی:

بابا جان!، پیاس کی شدت ہے اور لوہے (زره) کے وزن نے بے قرار کر دیا ہے . کیا پانی ہے ؟ امام روئے اور فرمایا: «بیٹاجان!، کہاں سے پانی لے آؤں؟، تھوڑا اور جنگ کریں بہت جلد رسول‌خدا سے ملاقات کرو گے وہ ت

ہیں کوثر سے سیراب کریں کہ اس کے بعد کبھی پیاس نہیں رہو گے

◀️مُرَّة بن‌مُنْقِذ بن‌نُعْمان عَبدي لَيْثي کہتا ہے اگر یہ جوان میرے پاس سے گزرا تو میں اسے قتل کروں گا پس جب علی اکبر اسکے قریب سے گزرے اس نے وار کیا علی اکبر زمین پر جا گرے دشمن نے محاصرہ کر لیا اور تلواروں کے وار کر کر کے شھید کر دیا.

◀️علي‌‌اکبر نے وقت آخر آواز دی:

«باباجان! خداحافظ، یہ نانا محمد ہیں جو آپکو سلام دے رہے ہیں اور کہ دہے ہیں جلدی میرے پاس آجاؤ».

پھر آپ کی روح پرواز کر گئی.

◀️امام حسین(ع) نے علی اکبر کی شھادت کے وقت ،جلدی سے خود کو اپنے جوان بیٹے تک پہنچایا چہرے کا بوسا لیا گلے کا خون لیا اور آسمان کی طرف پھینک دیا.

◀️علی اکبر کے زیارت نامہ میں ہے:

صلی الله علیک و علی عترتک و اهل بیتک و آبائک و ابنائک.

📚ابن قولویه، کامل الزیارت، ص۴۱۶، ۲۹۳؛

📚ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۲۱۲؛

📚یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۶؛

📚ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۱۴؛

📚شيخ مفيد، الارشاد، ج2، ص106؛

📚طبري، تاريخ الامم و الملوک، ج5، ص446؛

📚خوارزمی، مقتل الحسین، ج۲، ص۳۰.

 مصائب امام حسین(ع)

مصائب امام حسین(ع)

📌 ضحّاک مشرقی ان دس لوگوں میں سے ایک تھا جو کربلا میں زندہ رہ گئے تھے ،

ابو مخنف سے کہتا ہے :

عاشورا کے دن امام حسین(ع) نے ایسی بات فرمائی کہ خواتین اور بچوں میں کہرام برپا ہو گیا.

📣 امام حسین، دشمن کے لشکر کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: سنو اور دیکھو میں کس لیئے یہاں آیا ہوں ، جلدی نہ کرو . اگر میری بات صحیح ہو تو انصاف کرنا [اور مجھے چھوڑ دینا ] لیکن اگر میرا عذر قابل قبول نہ ہو فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَ شُرَكاءَكُمْ ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَ لا تُنْظِرُونِ‏.

یہ آیات قرآن جو امام حسین نے تلاوت کی ہیں یہ حضرت نوح کی اپنی قوم کے ساتھ گفتگو ہے

. مضمون آیه یہ ہے کہ [اگر میری بات درست نہ ہو] اپنی فوجوں کو اکٹھا کریں اور مجھے مہلت دیئے بغیر قتل کر دیں!

↩️ یہ بات سن کر بچوں اور خواتین کا گریہ بلند ہوا . امام حسین نے علی اکبر اور جناب عباس کو بھیجا تاکہ انہیں چپ کروائیں اور فرمایا اپنے آنسو سنبھال کر رکھیں.

جب خواتین خاموش ہو گئیں تو اپنی گفتگو کو آگے بڑھایا اور فرمایا:

دیکھو میں کون ہوں ؟

میرا نسب دیکھو . کیا میں رسول اللہ کا بیٹا نہیں ہوں؟

کیا میں رسول اللہ کے چچا زاد بھائی اور اس کے وصی کا بیٹا نہیں ہوں؟

کیا رسول اللہ نے میرے اور میرے بھائی امام حسن کے بارے میں نہیں فرمایا تھا کہ ہم جوانان جنت کے سردار ہیں ؟

⚠️ خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں بول رہا. اگر یقین نہیں آتا تو جابر بن عبدالله ، ابوسعید خُدری ، سهل بن سعد اور انس بن مالک سے پوچھ لو .

کہا یہ کافی نہیں کہ میرا خون بہانے سے رک جاؤ ؟

کیا میں نے کوئی قتل کیا ہے جس کا قصاص کرنا چاہتے ہو ؟

امام سجاد (ع) کا دیوار میں سر مار کر خود کو زخمی کرنا

امام سجاد (ع) کا دیوار میں سر مار کر خود کو زخمی کرنا

کیا اس روایت کی کوئی سند ہے ؟

آقای محدث نوری ، کتاب دارالسلام میں فرماتے ہیں

۔۔قال الراوي: لما سمع علي بن الحسين عليه السّلام سقوط الرأس في حجر الجارية الحسناء، قام على طوله و نطح‏ جدار البيت‏ بوجهه. فكسر أنفه و شجّ رأسه و سال دمه على صدره، و خرّ مغشيا عليه من شدة الحزن و البكاء.

امام سجاد علیہ السلام نے مجلس عزا کا اہتمام کیا امام حسین علیہ السلام کی مصیبت سن کر برداشت نہ کر سکے اور زور سے دیوار میں سر مارا ، سر اور ناک سے خون سینے تک بہنے لگا ، شدت حزن سے آپ بیھوش ہو گئے ( دار السلام ج2 ص175)

📍 جواب

کتاب دار السلام میں موجود یہ روایت ضعیف ہے اور قابل اعتنا نہیں ہے.

مرحوم میرزای نوری اس روایت کو اس طرح بیان فرماتے ہیں ؛

«علماء متاخرین کی بعض کتب میں بیان ہوا ہے»

📍 اشکالات

1️اس گزارش کا منبع مشخص نہیں ہے اور نہیں معلوم کس عالم نے کس کتاب میں اس واقعہ کو ذکر کیا ہے .

2️اس واقعہ کی کوئی سند بھی ذکر نہیں ہوئی ، یہ روایت بے سند اور مرسل ہے.

3️اس واقعہ کے راوی کا نام بھی مشخص نہیں ہے.

4️اس واقعہ کو محدثین میں سے بزرگ علماء متقدمین نے نقل نہیں کیا ، واضح ہے کہ اگر یہ سچ ہوتا تو بزرگان ضرور نقل فرماتے .

📍 نکتہ

بعض لوگ اس واقعہ کو زنجیر زنی کے جواز کی دلیل بناتے ہیں

 نہضت عاشورا کے پیغامات

نہضت ِعاشورا کے پیغامات

ڈاکٹر محمد فرقان  گوہر

جامعہ المصطفی العالمیہ ایران 

 

خلاصہ

واقعہ کربلا   کاروان بشریت کے لیے عبرت کی داستان ہے۔ یہ  حریت و آزادی کی جدوجہد سکھاتی ہے۔ انسانی سماج کو اعلی انسانی اقدار کی خاطر ظلم سے ٹکرانے کا سبق دیتی ہے۔ان سب سے بڑھ کر  یکتا پرستی کا سبق دیتی ہے، جس کے تحت انسان  اپنے تمام اعمال کی سمت و سو کادرست تعین کرسکتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی اس جدوجہد میں شریک تمام کرداراور ان کا اس راستے میں اٹھایا جانے والا  ہر قدم خداوند متعال کی خوشنودی کی خاطر تھا اور یوں تحریک عاشورا خلوص نیت کی معراج ہے۔ 

حرف آغاز

محر م الحرام کا چاند جب افق عالم پر طلوع کرتا ہے تو   غم کے سیاہ بادل ہر شیعہ علی علیہ السلام کے دل پر چھا جاتے ہیں اور  اس  بے مثال  قربانی کی یاد میں کھو جاتے ہیں  جو عاشور کے روز میرے مولا و آقا نے کربلا کی سرزمیں پر خدا کے حضور پیش  کی۔ ساتھ ہی ساتھ میں یہ سوال بھی ہر حسینی کے دل میں اٹھتا ہے کہ عاشور ا ئے حسینی ہمارے لیے کیا پیغام لائی ہے؟ ہم نے اپنے مولا کی اس قربانی کو کیسے خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ اس تحریر ی  کاو ش میں سعی کی گئی  ہے کہ واقعات عاشورا سے  کچھ نمونے قارئین کی نذر کیے جائیں ، البتہ اختصار کے پیش نظر یہاں تین اہم پیغامات پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔

تحریر میں موجود دو  کلیدی الفاظ "عاشورا "اور" پیغام " کی تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے ۔ عاشورا سے مراد کیا روز عاشورا ہے ؟ کیا فقط دسویں محرم الحرام کا  دن ہی عاشور ہے ؟اگر زبان دانوں سے پوچھیں گے تو وہ تو ایسا ہی کہیں گے کہ ہاں۔ عاشور یعنی دسویں کا دن اور عاشوراے محرم یعنی محرم کی دسویں تاریخ۔لیکن  عقیدت کی زبان میں  عاشور ا کسی  دن کانام نہیں ہے  بلکہ عاشورا ایک  نشان  راہ ہے جو اہل حق کو حق پہ چلنے میں ہر دشواری سہنے کی ہمت دیتا ہے ۔

 عاشور ا فقط ایک لفظ نہیں بلکہ ایک تاریخی واقعیت ہے ۔عاشورا   فقط ایک جنگ کا نام بھی نہیں ہے بلکہ ایک نہضت و تحریک ہے جس کا ظاہری آغاز مدینہ سے ہوا اور شام میں جا کر ختم ہو گئی لیکن واقعیت کے اعتبار سے عاشورا ظلم کے خلاف جنگ کا وہ تسلسل ہے جو انبیائے الہی نے آغاز کیا اور آج بھی وہ جنگ جاری ہے اورتب تک  جاری رہے گی  جب تک  زمین میں عدل و انصاف کی فضا قائم نہیں ہو جاتی۔

  عاشورا فقط اک قربانی   نہیں بلکہ قربانیوں کی اعلی ترین منزل کا نام ہے ۔ عاشورا میں محض سجدے کا نہیں، بلکہ سجدے میں سرکٹانے کا پیغام بھی شامل ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ   عاشورا کو ایک خاص مکان و زمان میں اورچند افراد میں منحصر کرنا کوتاہ بینی ہے،اگرچہ ان افراد کی عظمتوں کے کیا  کہنے جو کربلا میں اس تحریک کا حصہ بنے ،لیکن عاشورا کی تحریک نے جو  فکر دی ہے وہ تاریخ کے ہر زندہ  دل انسان کے اندر تا  روز قیامت ظلم و ستم کے خلاف لڑنے کی تڑپ پیدا کرتی ہے ۔

پیغام سے کیا مراد ہے ؟کیا صرف منہ سے کہی ہوئی بات ہی پیغام کا درجہ رکھتی ہے یا نہیں ،بلکہ پیغام ایک عام اور وسیع  مفہوم رکھتا ہے ؟سادہ لفظوں میں کہوں کہ جب ہم پیغام عاشورا کی بات کرتے ہیں تو کیا صرف وہی باتیں پیغام کہلائیں گی کہ جو میرے مولاو آقا اور ان کے اہل بیت اور اصحاب  کی زبان مبارک سے ہم تک پہنچی ہیں یا نہ ؟بلکہ وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے ہمیں واقعہ عاشور سے سمجھ میں آتی ہیں۔

مثال کے طور پہ  ہم دیکھتے  ہیں کہ حربن یزید ریاحی  جو کل تک لشکر یزید ی کا ایک اہم کمانڈر تھا ،وہ عاشور کے دن اپنے لشکر کو چھوڑ کر لشکر حسین کا حصہ بن چکا ہے  یہ وہی حر ہے جو امام علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کو مجبور کر کے یہاں لایا ہے ،میرے مولا ٰ کا اسے معاف کردینا بھی ہمارے لیے یہ پیغام رکھتا ہے کہ انسان چاہے جتنا بھی گناہ گار ہو ،اسے خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ،اور اہل بیت پیامبر کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں ۔شہید مطہری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ وہ عظیم طاقت جو حر بن یزید کو کھینچ کر لائی وہ قوت جاذبہ تھی جو میرے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کے پاس تھی،[1]یہ حقیقت  اور سچائی کا چراغ تھا جو میرے مولا نے اس کے سینے میں جلایا ،جس سے اس کا دل  و ضمیر روشن ہو گیا اور حقیقت دیکھنےکے بعد وہ ایک دو راہے پر کھڑا ہو گیا جہاں ایک طرف دنیا ہے ،لذتیں ہیں ،عیش و نوش ہے ،مال و دولت و مقام و ثروت ہے دوسری طرف بھوک و پیاس کی شدت ہے ،بے سرو سامانی ہے لیکن اس کے باوجود حقیقت و سچائی ہے ،خداپرستی  اور آخرت ہے ۔یہاں پہ میرے مولا کی قوت جاذبہ نے حر کو اپنی طرف جذب کرلیا اور کل تک مادیت پسندی  کے جھنجھٹ میں پھنس کر  وہ جس فوج کا ساتھ دے رہا تھا آج اسی کے مقابل کھڑا ہو گیا ۔ وہ حقیقت تک پہنچ گیا تھا ۔اس کے سامنے مادی گری اور دنیا کی ظاہری زیبائی بے معنی سی ہوگئی تھی  اس لیے وہ اپنے تمام ظاہری مقامات سے منہ پھیر کر امام حق کے سامنے سر جھکا کر معافی کی امید لیے ہاتھ جوڑے کھڑا بس یہی سوچ رہا تھا کہ کس منہ سے وہ امام سے کہے کہ وہ اسے معاف کردیں ۔ کیونکہ آج غریب کربلا اسی کی وجہ سے ہی تودشمنوں کے نرغے میں  گھر چکا ہے ،ہمت کرکے کہ ہی دیا ھل لی من  توبہ "کیا میرے جیسے کے لیےبھی  توبہ کا امکان ہے ؟اب امام علیہ السلام تو رحمت الہی کا مظہر ہیں وہ کیسے کسی کو ناامید کر سکتے ہیں ۔فرمایا آو حر میرے پاس آو تم ہمارے مہمان ہو ۔تمہاری خاطر تواضع کرتے ہیں ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا تمہاری توبہ قبول نہ کرے  اور علی اکبر نے فرمایا کہ بنی ریاح کا حر یعنی آزاد شخص کتنا اچھا حر ہے ۔[2]

اس مثال کی روشنی میں ہم اس نتیجے پہ پہنچ سکتے ہیں کہ جب ہم پیغام عاشورا کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد فقظ ،زبانی و کلامی پیغام ہی نہیں بلکہ ان کی رفتار و کردار  سے ماخوذ مجموعی سیرت بھی عظیم پیغام کا درجہ رکھتی ہے، کیونکہ اس میں  ایسی باتیں نہفتہ ہیں جو انسانی زندگی کو سنوار سکتی ہیں ۔فقط سننے  والے کان اور دیکھنے کیلئے دل کی آنکھیں چاہییں ۔اس  وضاحت کے بعد  اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ عاشورا ہمیں کیا پیغام دیتی ہے ؟

پہلا پیغام :توحید محوری  

توحید محوری سے مراد یہ ہے کہ انسان  اپنی زندگی کے تمام تر  اعمال اور سرگرمیوں  کا مرکز صرف اور صرف خدا کی ذات کو قرار دے۔جب ہم عاشورا پر محض  تاریخی نقطہ نظر سے نگاہ ڈالیں تو تحریک عاشورا ،زمان و مکان کی قید میں محصور ایک واقعہ ہے، جو تاریخی و سیاسی علل و اسباب کی بنیاد پر60ھجری کو  امام کی  ہجرت سے شروع ہوتا ہےاور 61 ہجری10 محرم کو یہ مرحلہ اختتام پذیر ہوجاتا ہے، یا زیادہ سے زیادہ اسیران کربلا کی رہائی پر ختم ہوجاتا ہے۔جو بھی تاریخ کے دریچوں سے انسانوں کی سرگذشت کا تھوڑا بہت مطالعہ رکھتاہو، وہ یقینا اس نکتہ سے اتفاق  کرے گا کہ  تاریخ  بشریت، ظلم و ستم کی داستانوں سے بھری پڑی ہے  ۔مصر کے فرعونوں سے لے کر مغلستان کے بدتہذيب منگولوں تک تاریخ و سیاست  کا ہر ورق انسانوں کے خون سے رنگین ہو ا لیکن وقت کی دھول نے سب کو فراموشی کی نذر کردیا اور آج  فقط عجائب گھروں میں ان کے آثار ہی باقی رہ گئے ۔لیکن کربلا کی داستان زمان و مکان اور افراد کے اعتبار سے محدود ہونے کے باوجود اثر اندازی کے اعتبار سےجس وزن و قامت کے ساتھ کھڑی ہے، اس کی مثال ہمیں کہیں بھی نہیں ملتی ۔تاریخ نے آج بھی اسے ویسا ہی یاد رکھا ہوا ہے جیسا کہ 14 سو سال پہلے تھا ۔

اب کوئی پوچھے کہ دیگر تاریخی واقعات کا کربلا کی داستان سے کیا فر ق ہے ؟ایسا کیوں ہوا کہ وہ سب داستانیں فراموشی کی نذر ہوگئیں جبکہ اسے آج تک یاد رکھا گیا؟

 اس کی وجہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے اس واقعے کو تشکیل دیا او ر ان سب  میں مہم ترین عنصر توحید کا ہے ۔کربلا  کی داستان کا اصل حسن ہی یہی ہے کہ اس کا مرکزی نکتہ نگاہ خلوص نیت  اوریکسوئی کے ساتھ رضائے خداوندی کا حصول تھا۔آغاز  سے لے کر تک اس داستان کے ہر مرحلے پہ آپ کو خدائی رنگ نظر آئیں گے ۔

اگرچہ داستان کربلا کے ہر قدم پر آپ کو خدا محوری کی بے نظیر مثالیں ملیں گی جن کا شمار ہمارے بس سے باہر ہے ۔ہم فقط یہاں چند ایک  نمونے ذکر کیے دیتے ہیں ۔

  • مدینہ سے الوداع کے وقت امام حسین علیہ السلام کی دعا:

 امام حسین علیہ السلام  کو جب  یقین ہو گیا کہ مدینہ چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے   تو نانا  کی مزار اطہر پہ تشریف لائے اوردو رکعت نماز ادا کی،جب نماز سے فارغ ہوئے تو  ان کلمات میں خدا کے حضور دعا کی

اَللّهُمَّ اِنَّ هذا قَبْرُ نَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ صلّى اللّه عليه و آله وَاَنَا ابْنُ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَقَدْ حَضَرنى مِنَ اْلا مْرِ ما قَدْ عَلِمْتَ

اَللّهُمَّ اِنِّى اُحِبُّ الْمَعْرُوفَ وَاُنْكِرُ الْمُنْكَرَ واءساءلُكَ ياذَاالْجَلالِ وَالاْ كْرامِ بِحَقِّ الْقَبْرِ وَمَنْ فِيهِ اِلاّ اخْتَرْتَ لى ما هُو لَكَ رِضىً وَلِرَسُولِكَ رِضىً [3]

اے اللہ یہ تیرے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ کی قبر مبارک ہے اور میں تیرے نبی کی بیٹی کا بیٹا ہوں اور میرے ساتھ جو کچھ پیش آیا ہے وہ  تو جانتا ہے ،اے اللہ بیشک میں نیکی کو دوست رکھتا ہوں اور برائی سے نفرت کرتا ہوں اور اے  جلال و عظمت والی  ذات  اس قبر مبارک اور صاحب قبر کے حق کا واسطہ دے کر ،تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تومیرے لیے وہی  فیصلہ کر جس میں تیری اور تیرے رسول کی رضامندی اور خوشنودی ہو۔

  • دوسری طرف  جب آن حضرت کربلا پہنچے اور ابن زیاد کا دھمکی آمیز خط دریافت کیا تو اسے زمین پہ پٹخ  دیا اور  فرمایا :

َ لَا أَفْلَحَ قَوْمٌ اشْتَرَوْا مَرْضَاةَ الْمَخْلُوقِ بِسَخَطِ الْخَالِقِ [4]

فلاح کا راستہ نہیں دیکھ پائے گی وہ قوم جس نے مخلوق کو راضی کرنے میں خالق کی ناراضگی خرید لی ۔یہ  جملہ بتلا رہا ہے کہ کربلا اس کے برعکس عمل کا نام ہے۔ وہاں خالق کی   رضامندی اصلی حیثیت رکھتی ہے اور باقی چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔

  • تیروں کے سائے میں نماز

عمر و ابن کعب کو جو ابو ثمامہ صائدی کے نام سے معروف ہے،امام کے اصحاب میں سے ہے جب  زوال کے وقت آکر ا  امام کی خدمت میں نماز ظہر  پڑھنے کا کہا ؛تو امام علیہ السلام اسے دعا کرتے ہیں کہ اے ابوثمامہ :خداوند تجھے نمازیوں میں سے قرار دے ۔[5]

اور پھر نماز جماعت کی صفیں مرتب ہوگئیں اور تیروں کے سائے میں خدائی فوج نے نماز عشق ادا کی ۔

  • ایک تیر جس نے جنگ ختم کردی

عاشورا کی صبح سب سے پہلا تیر عمر ابن سعد نے پھینکا اور پھینک کر کہنے لگا کہ امیر یعنی ابن زیاد علیھما اللعنہ  ،کے سامنے یہ گواہی ضرور دینا کہ حسین علیہ السلام کی طرف سب سے پہلا تیر انداز جس نے امام حسین علیہ السلام کی طرف تیر پھینکا میں تھا ۔[6]اس تیر سے جنگ کا آغاز ہوا اور یہ جنگ پھر ایک ہی تیرپہ ختم ہوئی جب میرے مولا حسین تنہا رہ گئے ،گھوڑے پہ سوار تھے ،زخموں کی شدت سے خستہ حال تھے کہ ایک تیر آتا ہے اور آنحضرت کے سینے میں پیوست ہوجاتا ہے اور آپ ذوالجناح سے زمین پہ آتے ہیں اور اسی حالت میں فرما تے ہیں:

رضا بقضائك و تسليما لامرك ، لا معبود سواك ، يا غياث المستغيثين

بار الہا:میں تیری ہی رضا پہ راضی ہوں اور تیرے حکم کے سامنے سراپا تسلیم ہوں ،تیرے سوا کوئی لائق پرستش نہیں ،اے فریاد کرنے والوں کے فریاد رس۔[7]

ان مثالوں کو دیکھنے کے بعد اس نتیجہ پہ پہنچنا کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ کربلا کی تحریک  للہیت کے جذبات سے لبریز تھی ۔ امام حسین علیہ السلام اپنے سفر کے آغاز سے ہی دعا مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ میرے لیے اس راستے کا انتخاب فرما جس میں تیر ی رضایت اور خوشنودی ہواور جب اپنے جان نثاروں کو قربان کرکے خود درگاہ الہی میں پیش ہو رہے تھے تب بھی خداوند متعال کی رضا پر رضامندی کا اظہارکیا ۔

یہی توحید محوری اور محبت الہی کا وہ درس  ہے ، جونہضت عاشورا نے اور بالخصوص اما م حسین علیہ السلام نے امت اسلامی کو دیا ۔

اولین اور اہم ترین  درس جو کربلا سے ہم کو لینا ہے وہ ہے ہی یہی کہ اپنی زندگی کی تمام تر فعالیتوں  activitiesاور کوششوں کا محور اور مرکز خدا کی ذات کو قرار دیں ۔چاہے وہ فردی زندگی سے مربوط ہو ں یا اجتماعی زندگی سے ،چاہے وہ مذہبی خدمات  ہوں یا معیشتی یا سیاسی یا پھر سماجی ۔سب میں محوریت اور مرکزیت خدا کی ذات کو قرار دینی چاہیے۔یہ کربلا کے ہر شہید کا پیغام ہے ۔اورجو لوگ ایسا کرلینے میں کامیاب ہوجائیں  انکے حوصلے اسقدر بلند ہو جاتے ہیں کہ ظلم کے اونچے اونچے پہاڑ بھی سامنے آ جائیں تب بھی ٹکرا جاتے ہیں   ۔

دوسراپیغام: حریت و آزادی

دوسرا اہم ترین پیام جو نہضت عاشورا نے دیاہے وہ ہے حریت اور آزادی کا پیغام ۔قانون کی زبان میں آزادی کی اصطلاح  غلامی کے مقابلے میں استعمال ہوتی ہے کہ جو آج کے زمانے میں اپنا مفہوم کھو چکی ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر آزادی اور حریت کا ایک اور مفہوم بھی ہے  جس سے مرادیہ ہے کہ انسان پستیوں سے نجات حاصل کرے اور اپنی انسانیت کی بلندی کی حفاظت کرے۔داستان کربلا  ہمیں اسی آزادی کا پیغام دیتی ہے اوریہ پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلئے ہے چونکہ حریت ایک مقبول اور پسندیدہ صفت ہے  جس کا مفھوم یہ ہے کہ  انسان کسی بھی  دین یا  مذہب  سے تعلق رکھتا ہو اسے  تقدس انسانیت کو پامال کرنے کا حق نہیں، کیونکہ اس کے اپنے ضمیر اور شعور کی آواز اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتی  کہ وہ کسی  بھی ظالم ،جابر اور طاغوت کے آگے سر جھکائے اور اپنی انسانیت کا سودا کرے۔

عصر حاضر کا انسان جوطرح طرح سے قید و بند کا شکار ہو چکاہے وہ کربلا سے یہ درس لے سکتا ہے کہ انسانوں کو اللہ نے آزاد خلق کیا ہے اور اگر دین و مذہب کے پابند نہ بھی بنو تو  بھی کم از کم اپنی انسانیت کو تو محفوظ رکھو اور آپ جیسی یا اپنے سے  بھی پست اور گھٹیا مخلوق کی غلامی تو قبول نہ کرو۔

قرآن کریم کے مطابق ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے اہداف میں سے ایک ہدف لوگوں کو جاہلیت اور غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانا ہے،جیسا کہ سورہ اعراف میں ہے :

وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ[8]

ترجمہ :اور وہ رسول ان لوگوں سے سنگین بوجھ اورگلے کے طوق اتار دیتا ہے ۔

یہاں پہ کونسا بوجھ ہے اور کونسے طوق ہیں جن سے پیامبر گرامی ص نے آکر چھٹکارا دینا  ہے؟ یقینا یہ تعصب، نابرابری، نادانی اور جاہلیت کے طوق ہیں جن میں انسانیت گرفتار تھی اور پیامبر نے انہیں آکر چھٹکارا دیا۔اور۶۱ ہجری یعنی پیغمبر کی ہجرت کے ۶۰ سال بعد اُسی رسول ص کے نواسے نے جب  لوگوں کو ایک بار پھر انہی جاہلیت کی زنجیروں میں جکڑے دیکھا  تو رہا نہ گیا اور اپنے نانے کا پیغام ان الفاظ میں لوگوں کے کانوں تک پہنچایا:

ويلكم يا شيعة آل أبي سفيان ! إن لم يكن لكم دين، وكنتم لا تخافون المعاد، فكونوا أحرارا في دنياكم[9]

افسوس ہے تم پہ اے  یزید کے مددگارو،اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور آخرت کا بھی تمہیں کوئی ڈر نہیں تو کم از کم دنیا میں تو آزاد رہو۔

آج کی دنیاجدید سرمایہ دارانہ ذہنیت  کی زنجیروں میں جکڑی جا چکی ہے اور جدت کے نام پہ وہ دنیا کے بڑے بڑے شیطانوں کی غلام ہو چکی ہے ۔یہی سبب ہے ان کی بات کو بغیر کسی منطق و دلیل کے قبول کر لیا جاتا ہے ۔اسی لیے امام حسین علیہ السلام کے مذکورہ بالا کلمات کو آج کی دنیا کے جدت پسند لوگوں کو آج کی زبان میں اس طرح مخاطب کیا جاسکتا ہے کہ اے دین داری کو زحمت اور قید سمجھنے والو،اگر تمہیں آزاد ہی رہنا ہے تو اپنی افکار کو آزاد چھوڑ دو اور امریکہ اور دنیائے غرب کی غلامی کے طوق و زنجیر اپنے گلے سے اتار پھینکو۔

تاریخ انسانیت،انسانوں کے استحصال اور ان کی غلامیوں سے بھری پڑی ہے ۔لیکن جو غلامی آج کی دنیا میں ہے اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی ۔اس لیے کہ آج کی غلامی افکار  و نظریات اور ثقافت  و سیاست کی غلامی ہے ۔

آج  ہم فقط وہی سوچتے ہیں جو دنیا کے بڑے شیاطین چاہتے ہیں کہ ہم سوچیں ۔فقط انہی چیزوں کو دیکھتے ہیں جو امریکہ و دنیائے غرب ہمیں دکھلانا چاہتی ہے ۔ہم نے اپنی آنکھوں پہ انہی کی دی ہوئی عینکیں لگا رکھی ہیں ۔بہت بڑی  غلطی ہے کہ مغربی دنیا آج آزادی فکر کی قائل ہے ۔ ہاں آزادی بیان کا نعرہ اور پاسداری کسی حد تک ہے، لیکن فکری آزادی ایک الگ حقیقت ہے۔ ان کی سوچ کے مطابق معقولیت کا معیار صرف غرب ہے اور یوں ان کی خواہش ہے کہ  پوری دنیا انہی کی طرح سوچے ،پوری دنیا انہی کی فکر کو پڑھ کر اپنی فکر بنائے  ۔آزادی کی تعریف اور حدود و قیود کا تعین خود مغربی دنیا کرتی ہے اور وہ اپنے میڈیا کے پھیلائے ہوئے جال سے جسے چاہیں اس آزادی کی ٹرین سے پیادہ  کر دیتے ہیں۔ البتہ افسوس تو مشرق زمیں کے ان مغرب زدہ باشندوں پر ہے جنہوں نے مغربی افکار ورفتار کو رواج دینے کی قسم کھا رکھی ہے اور وہ بھی اسلام زدائی میں انہی کےآلہ کار  بن گئے ہیں ۔ایسے سب لوگوں کے لیے سالار شہیدان کا یہی پیغام ہے کہ اگر تمہاری نظر میں دین نام کی چیز کسی اہمیت کی حامل نہیں اور روز قیامت کا بھی تمہیں کوئی ڈر نہیں تو کم از کم اس دنیا میں تو آزادی کو اپنا شیوہ زندگی بناو  اور فکری آزادی کے ساتھ حقائق کو دیکھو اور محسوس کرو۔

تیسرا پیغام : اعلی انسانی اقدار کی جدوجہد

آج ہم سب مادیت کے نشے میں گم سم دنیا کی چند روزہ زندگی کو اپنا ہدف سمجھ بیٹھے ہیں اور  مادیت کی تیزرفتار میں انسانیت کو داو پر لگا چکے ہیں۔ مال و دولت یا مقام و کرسی کواپنی حقیقی کامیابی  سمجھتے ہیں ۔ کربلا ہمیں ریاست و اقتدار کے بجائے اعلی انسانی اقدار کی خاطر جدوجہد کرنا سکھاتی ہے۔ عدل و انصاف، مساوات اور انسانی کرامت  جیسے اقدار جن کو یزید  و ابن زیاد جیسے  بدکردار حکمرانوں نے مسخ کر دیا تھا۔

اگر قرآن پر نظر ڈالیں تو وہ تاریخ بشریت سے مختلف نمونے ہمارے سامنے لاکر رکھ دیتاہے تاکہ ہم اس حقیقت کو واضح انداز میں سمجھ سکیں ،کبھی فرعوں مصر کی مثال ، کبھی قارون کی مثال ،کبھی نمرود کی  تو کبھی ہامان و شداد کی ،وہ جن کی زیب و زینت ،شان و شوکت پہ دنیا رشک کرتی نظر آتی تھی لیکن زمانے کی چکی میں پس کر سب کے سب درس عبرت بن گئے ۔یہ سب مثالیں اس حقیقت کو بخوبی عیاں کرتی ہیں کہ  استضعاف و استکبار کا تسلسل بقا نہیں رکھتا،  یہ  فرعونوں کا شیوہ ہے کہ جن کا انجام خاک میں مل جانے کے سوا اور کچھ نہیں اس کے مقابلے میں انبیاء اور پاکیزہ کردار و اعلی ظرف لوگ ہیں کہ جو اپنے اصولوں اور سچے کردار کی بنیاد پر  دنیا کے تمام فرعونوں کے سامنے سربلند نظر آتے ہیں ۔ان دونوں کے انجام میں جو بنیادی فرق ہے وہ صاحبان بصیرت کےلیے درس  زندگی ہے۔

کربلا کی داستان بھی انہی دو قسم کے انسانوں کے آمنا سامناکرنے کی ایک مثال ہے جہان ایک طرف زمانے کا فرعون ،یزید کی شکل میں جبکہ دوسری طرف زمانے کا موسی علیہ السلام میرے مولا حسین علیہ السلام ک شکل میں آمنے سامنے ہیں ۔ جہاں ظاہری اعتبار سے دنیا کے تمام مادی وسائل  لشکر یزید کےپاس ہیں اور ظاہری فتح بھی اسی کا مقدر بنتی ہےاور چند روز وہ اس خوشی میں مست بھی رہتا ہےلیکن کب تک ؟کب تک خوش رہتا ؟ بالکل دیگر فرعونوں کی طرح اس کا انجام بھی پوری دنیا نے دیکھا ۔لیکن اس کے مقابلے میں لشکر حسینی کو دیکھو جو ظاہری اعتبار سے شکست کھانے کے باوجود آج بھی سر بلند ہے ۔ صرف اس لیے کہ ان کا ہدف اعلی انسانی اقدار اور حیات جاوداں تھی۔ ان کا مقصدخدا اور دین خدا تھا ۔ان کا ہدف بلند تھا ،اور جب ہدف بلند ہو تو کارنامہ زندگی خود بخود بلند ہوجاتا ہے ۔

آج ہم کربلا کی اس عظیم تربیت گاہ سے اگر فائدہ اٹھانا  چاہتے ہیں، ا گر ہم چاہتے ہیں کہ کربلا والوں کے رنگ میں رنگے جائیں تو اپنے اپنے گریبان میں جھانک کردیکھیں کہ کیا ہم اسی طرح بیدار ہیں جس طرح لشکر حسینی کا ہر پیر و جواں بیدار تھا ؟ ہماری افکار و اطوار و اقدار   مائل بہ پستی ہیں یا بلندی؟ ہم اپنے معاشرے کو ارتقائی شعور دینے کے لیے کچھ  کر پا رہے ہیں یا نہیں۔

مصادر و مآخذ:

قرآن کریم

ابو مخنف كوفى، لوط بن يحيى، وقعة الطفّ، 1جلد، جامعه مدرسين - ايران ؛ قم، چاپ: سوم، 1417 ق.

ابن طاووس، على بن موسى، اللهوف على قتلى الطفوف / ترجمه فهرى، 1جلد، جهان - تهران، چاپ: اول، 1348ش.

حسينى موسوى، محمد بن أبي طالب، تسلية المُجالس و زينة المَجالس (مقتل الحسين عليه السلام)، مؤسسة المعارف الإسلامية - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1418 ق.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار (ط - بيروت)، 111جلد، دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

شہید مرتضی مطہری، حماسہ حسینی۔

 

 


[1] ۔ حماسہ حسینی ج ۱ ص ۱۰۸  

[2] علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص14۔

[3] ۔ تسلیۃ المجالس و زنینۃ المجالس، ج2، ص155۔ بحارالانوار ج ۴۴ ص۳۲۸  ۔

[4] ۔ بحارالأنوار  ج   44   ص  382    باب 37۔

[5] ابو مخنف ، وقعۃ الطف، ص229۔

[6] ابو مخنف ، وقعۃ الطف، ص217۔

[7] ۔ اقتباس از حماسہ حسینی ج ۱ ص ۱۵۳   ۔

[8] ۔ اعراف آیہ ۱۵۷ 

[9] ۔ سید ابن طاوس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ص120۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار ج ۴۵  ص ۵۱  ۔

محمد بن عثمان عمری (دوسرے نائبِ امام)

محمد بن عثمان عمری ؒ (دوسرے نائبِ امام)

سید مبشر مہدی اشہر

ایم فل اردو ادبیات

11 ہجری قمری میں پیغمبرِ اکرم ؐ کی وفات ِحسرت آیات کے  ساتھ ہی نبوّت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد ہدایتِ انسانی کے لیے سلسلہءِ امامت کا آغاز ہوا۔جانشینِ رسول ؐ  و امامِ اول حضرتِ علیؑ سے امامِ یازدھم حسن عسکری ؑ تک گیارہ آئمہ اہلبیت نے امتِ مسلمہ کی رہنمائی اور تعلیماتِ دین کی محافظت  کا فریضہ سر انجام دیا ۔اسی دوران میں بنوامیّہ کی  ظالم و جابر حکومت کے قیام اور زوال کے بعد بنو عباس کی حکومت قائم ہوئی۔آئمہ اہلبیت ؑ اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ برتاؤ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بنو عباس کی مخاصمت اور ظلم و جبر بنو امیّہ سے کچھ کم نہیں رہا۔

عباسی خلیفہ  معتمد عباسی کے دور میں امام حسن عسکری ؑ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا ۔ بارھویں امام  حضرت امام مہدی ؑ نے اپنے والدِ گرامی کے نمازِ جنازہ کی امامت کے بعد بنو عباس کی عداوت اور مکدّر سیاسی فضا کو دیکھتے ہوئے حالات ناسازگار ہونے کے باعث  غیبت  اختیار کر لی۔یہ 260  ہجری قمری کا زمانہ تھا۔اعیان ِ حکومت  کے ساتھ ساتھ عوام الناس سے پوشیدہ ہونے اور اپنے شیعوں سے  براہِ راست رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے امامؑ نے اپنے والد گرامی کے محترم اصحاب میں سے ایک معتمد علیہ شخص عثمان بن سعید  عَمری کو اپنا نمائندہ خاص مقرر کیا  تاکہ  مومنین سے بالواسطہ رابطہ برقرار رہے۔یہ  غیبتِ صغریٰ کا آغاز تھا۔

آئمہ اہلبیت ؑ  پر  جابر حکومتوں  کی کڑی نگرانی اور جاسوسی  سے  شیعوں کوآئمہ سے رابطہ کرنے میں مشکلات  پیش آتی رہیں ۔انھی مشکلات کو دیکھتے ہوئے عوام الناس  میں آئمہ  اہلبیت  اپنے ثقہ اور امین اصحاب میں سے  نمائندے  اور وکیل مقرر کرتے رہے اور یہ سلسلہ امامِ چہارم علی بن حسین ؑ زین العابدین  کے دور ہی سے شروع ہو چکا تھا ۔بعد میں آنے والے آئمہ نے بھی اپنے تربیت یافتہ اور قابلِ اعتماد اصحاب  میں سے  وکلاء اور سفیروں کا تعین و تقرر حسب ِ سابق جاری رکھا۔ انھی وکلا اور سفرا کے ذریعے اموالِ شرعی بھی جمع کر کے امام ؑ تک پہنچائے  جاتے رہے۔گیارھویں امام کے بعد تو اس چیز کی مستقل ضرورت آن پڑی تھی  اس لیے 260 ہجری میں  نائب کا تقرر کیا گیا۔امامِ زمانہؑ اور  عوام کے درمیان نائبین کےذریعے رابطے اور  غیبتِ صغریٰ کا دورانیہ تقریباً 70 برس تک جاری رہا ۔260 ہجری سے 329 ہجری تک کے اس دورانیے میں چار اشخاص بطورِ نائب  گزرے ہیں انھی چاروں کو نوّاب ِ اربعہ کی اصطلاح سے موسوم کیا جاتا ہے۔  دینی امور کی انجام دہی اور امام ؑ کے وجود کو مخفی رکھتے ہوئے عوام الناس اور امام ؑ کے درمیان سفارت  جیسی ذمہ داریاں  ان کے کاندھوں  پر تھیں۔

نواب ِ اربعہ کے متعلق  معلومات   سب سے پہلے شیخ صدوق ؒ کی کتاب  " کمال الدین و تمام النعمۃ" میں اور بعد میں شیخ طوسیؒ کی کتاب "الغیبۃ" میں مذکور ہیں۔پہلے نائب عثمان بن سعید  ؒ پانچ سال جب کہ دوسرے نائب محمد بن عثمانؒ کی مدتِ نیابت 40 سال (265ھ سے 305ھ ) ان کی وفات تک رہی۔ہرنائب اپنے بعد میں آنے والے نائب کی بحکم ِ امام ؑ تعیین کی اطلاع  بوقتِ وفات دیتا رہا۔محمد بن عثمانؒ  ان میں سے دوسرے فرد ہیں جو اپنے والد اور پہلے نائب عثمان بن سعیدؒ کے بعد اس منصب پر فائز ہوئے ۔ان کی  کنیّت ابو جعفر  جب کہ القاب میں عَمری اور زیات مشہور ہیں۔ان کی تقرری بھی امام ِ زمانہ ؑ کی طرف سے وارد شدہ ایک توقیع ہی  کے ذریعے ہوئی  جس  میں ان سے ان کے والد کی وفات پر تعزیت بھی کی گئی ہے۔اس توقیع   سے اقتباس درج ذیل ہے۔

"تمھارے والد نے نیک زندگی گزاری اور قابلِ ستائش وفات پائی ۔خدا ان پر رحمت نازل فرمائے اور ان کو اپنے دوستوں کے ساتھ ملا دے۔وہ لوگوں کے امورِ دینیہ میں کوشاں رہے۔انھوں نے ہر وہ کام کیا جس سے وہ مومنین سے نزدیکی اور خدا کا قُرب حاصل کریں ۔خدا ان کے چہرے کو روشن  اور ان کی خطاؤں کو معاف فرمائے۔۔۔۔۔ یہ ان کی نیک بختی کی انتہا تھی کہ خدا نے انھیں تم سا فرزند عطا فرمایا ۔ تم ان کے خلفِ صالح ہو، ان کے قائم مقام ہو اور ان کے لیے طلبِ رحم کرنے والے ہو۔"

محمد بن عثمان ؒنے جیسے ہی اپنا منصب سنبھالا    اپنے والدِ محترم  کی طرح شیعان ِ اثنا عشریہ سے ان کے اموالِ شرعی  زکوۃ و خمس اور ہدایا وغیرہ وصول کرنے کے لیے وکلا و سفراء مقرر کیے جو  جمع شدہ اموال ِ شرعی اور خطوط کو ان تک بحفاظت پہنچاتے تھے۔دور دراز کے علاقوں کے شیعوں کے ساتھ رابطے کا ایک منظم نظام  استوار کیا  ۔محمد بن عثمانؒ ان اموال کو امامؑ کی رضامندی اور اجازت سے مطلوبہ مقامات پر خرچ کیا کرتے تھے۔نائبین حضرات شیعان ِ آلِ محمد کو درپیش تمام مسائل ِ شرعی ، علمی اور اعتقادی کو تحریری شکل میں امام ؑ تک پہنچاتے تھے اور امام ؑ کی طرف سے دیا گیا تحریری جواب واپس لوگوں تک پہنچانا بھی انھی کی ذمہ داری تھی۔

محمد بن عثمانؒ اور ان کے والد اصحاب ِ آئمہ میں  اہم مقام کے حامل تھے۔دونوں باپ بیٹے کے متعلق شیخ طوسی کی کتاب الغیبۃ میں وارد ایک توقیع میں وارد ہے کہ

"عثمان بن سعید عمری اور ان کا بیٹا دونوں قابلِ اعتماد اور ثقہ ہیں وہ جو کچھ  بھی تم تک پہنچائیں وہ میری جانب سے ہے اور جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ میری طرف سے ہے۔ان (دونوں ) کی بات سُنو اور ان کی پیروی کرو۔کیوں کہ وہ ثقہ اور امین ہیں۔"

محمد بن عثمانؒ کے امام ؑ کے نزدیک مقام و مرتبے کے حوالے سے علامہ طبرسی نے علامہ کلینی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ  اسحاق بن یعقوب کے خط کے جواب میں  امامؑ نے ارشاد فرمایا :

"محمد بن عثمان امین اور ثقہ ہیں اور ان کی تحریر میری تحریر ہے۔"

دوسرے نائبین کی طرح محمد بن عثمانؒ بھی    بغداد میں رہائش پذیر رہے جب کہ اس دور کے زیادہ تر شیعہ قم ، نیشا پور، خراسان ، ہمدان ، کوفہ ، یمن اور مصر وغیرہ میں آباد تھے۔ایسی صورتِ حال میں جب کہ عباسی  حکومت بارھویں امامؑ کی تلاش میں سرگرم تھی اور حکومتی جاسوس جا بجا پھیلے ہوئے تھے۔ حکومتی دارالحکومت بغداد میں سُنّی مرکزیت کی موجودگی میں  لوگوں کے درمیان غیر معروف طریقے سے تمام امور اور ذمہ داریوں کو بخیروخوبی انجام دینا اتنا آسان نہیں تھا ۔محمد بن عثمان نے حالات کا صحیح ادراک کرتے ہوئے دانش مندی سے معتدل روش کو اختیار کیا اور ہر امر میں حفاظت اور فعالیت کو مخفی رکھنا  اپنی پہلی ترجیح  قرار دیا۔ان کی اس عمومی روش اور محفوظ پالیسیوں کی بدولت عباسی حکومت میں اہلِ تشیّع کوبھی اہم عہدوں پر فائز رہنے کا موقع ملا ۔

نوابِ اربعہ اپنے منصب کے تقاضے کے مطابق  اپنی نجی زندگی میں  تقویٰ ، پرہیز گاری اور عدالت کے مرتبے پر فائز رہے ۔ مشہور دعاؤں میں سے دعائے سمات ، دعائے افتتاح اور زیارتِ آلِ یٰسین محمد بن عثمان کے توسُّط ہی سے نقل ہوئی ہیں ۔نائبِ دوّم دینی علوم میں بھی  مہارت رکھتے تھے۔محمد بن عثمان کی دُختر امِّ کلثوم کا بیان ہے کہ :

" میرے پدرِ بزرگوار نے کئی جلدوں پر مشتمل کتاب تصنیف کی تھی جس میں امام حسن عسکری ؑ اور اپنے پدر بزرگوار سے حاصل کیے ہوئے علوم  اور احکام کو جمع کیا تھا ۔انھوں نے اپنے انتقال کے وقت وہ سارا سامان (اپنے بعد والے تیسرے نائبِ امامؑ )حسین بن رَوح ؒ کے حوالے کردیا تھا۔"

محمد بن عثمانؒ وہ خوش نصیب ہیں کہ امام ِ زمانہ کی زیارت سے شرف یاب ہوتے رہے انھی سے مروی ہے کہ امامِ زمانہ ؑ ہر سال حج میں تشریف لاتے ہیں اور لوگوں سے ملاقات بھی کرتے ہیں لیکن لوگ انھیں پہچان نہیں سکتے۔میری آخری ملاقات بھی ان سے حج کے موقع پر ہوئی تھی۔جب وہ خانہ خدا کے قریب اس دعا میں مشغول تھے۔"خدایا میرے وعدے کو پورا فرما ۔ خدایا مجھے دشمنوں سے انتقام لینے کا موقع عطا فرما۔"

دنیوی مال و دولت اور جاہ و مرتبہ کی خواہش  ہمیشہ انسان  کے لیے ایک آزمائش رہی ہے ۔اہلِ تشیّع میں سے بھی ہردور میں کچھ افراد اموالِ دنیوی کے لالچ میں امامِ حق سے منحرف ہوتے رہے ہیں ۔زمانہ غیبتِ امام میں تو یہ خطرہ مزید بڑھ گیا تھا  کیوں کہ عوام کا امامؑ کے ساتھ براہِ راست رابطہ نہیں تھا ۔ ایسی صورتِ حال میں نواب ِ اربعہ کے لیے اموالِ دنیوی کے لالچ میں منحرف و گمراہ ہونے والےا شخاص کی نشان دہی کرنا اور عوام کو ان سے دور رہنے کی ہدایت کرنا  ایک اہم ذمے داری تھی۔

پہلے نائب عثمان بن سعید ؒ کی وفات کے بعد ابنِ ہلال کرخی منحرف ہوگیا تھا اور محمد بن عثمانؒ کی جگہ نیابت کا دعویٰ کردیا ۔ تو اس شخص کی رد میں امامؑ کی طرف سے وارد شدہ توقیع کی عبارت درج ذیل تھی۔

"میں بے زار ہوں ابن ِ ہلال سے اور اُن سے جو اس سے دوری اختیار نہ کریں ۔خدا اسے نہ بخشے جو کچھ میں نے کہا ہے ۔ اس کو اسحٰق اور اس کے ہم وطنوں کو بتا دو ۔"

اس کی مثل محمد بن نصیر النمیری تھا ۔ یہ بھی امام حسن عسکری ؑ کے اصحاب میں سے تھا اس نے بھی امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ جب اس کا گمراہ کُن عقیدہ ظاہر ہوا تو دوسرے نائب محمد بن عثمانؒ  نے اس سے برائت کا اظہار کیا ۔تیسرا  منحرف ہونے والا شخص  اصحاب ِ امام یازدھم میں سے محمد بن  علی بن ہلال  تھا۔اس نے منحرف ہوکے امام ؑ کے وکیل ہونے کا دعویٰ کیا اور محمد بن عثمان کی نیابت کا انکار کیا ۔ اموالِ  امام میں سے خیانت کا مرتکب ہوا ۔ اس پر امام ؑ کی طرف سے لعنت اور برائت کی توقیع وارد ہوئی۔

اس کے علاوہ ان کے دور کے اہم واقعات میں سے ایک صاحب ِ زنج کا قیام تھا جو خود کو زیدی سادات سے منسوب کیا کرتا تھا۔ یہ شخص پندرہ برس تک عباسی حکومت کے لیے دردِ سر بنا رہا۔دوسرا اسماعیلیہ کی شاخ قرامطہ کا ظاہر ہونا تھا   یہ  فرقہ بھی  عباسیوں سے برسرِ پیکار رہا۔یہ دونوں واقعات عباسی حکومت کی نظر میں اثنا عشری  شیعوں کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتے تھے۔لیکن امامِ زمانہ ؑ کی رہنمائی سے  محمد بن عثمان کی یہ  دانش مندانہ روش رہی کہ وہ ان دونوں تحریکوں سے دُور اور لا تعلق رہے ۔امامِ زمانہؑ کی طرف سے ابوالخطاب قرامطی کی مذمت میں وارد ہونے والی توقیع کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے شیعوں کو ان غلط اور گمراہ فرقوں سے میل جول رکھنے سے منع کررہے ہیں۔

محمد بن عثمانؒ چالیس سال تک امامِ زمانہ ؑ کے نائب ِ خاص کے عہدے پر فائز رہے ۔ انھوں نے احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ۔ اپنی وفات سے دو ماہ قبل اپنی قبر کھدوائی ۔ لوگوں نے استفسار کیا تو بتایا کہ مجھے امام ؑ نے  میری وفات کی خبر دی ہے اور میں اپنی تاریخ ِ وفات سے آگاہ ہوں  ۔اپنے بعد بحکمِ امام تیسرے نائب حُسین بن رَوح کی تقرری کا اعلان کیا اور جمادی الاول 305 ہجری کو وفات پائی۔خدا ان پر رحم فرمائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتابیات

الغیبۃ     شیخ طُوسی

الاحتجاج       علامہ طبرسی

اکمال الدین و تمام النعمۃ      شیخ صدوق

نقوشِ عصمت     علامہ ذیشان حیدر جوادی


 
شخصیت  حضرت زینب سلام اللہ علیہا
اسد عباس اسدی
 assadabbas409@gmail.com 
    مقدمہ
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت تاریخ اسلام میں اور خصوصا نہضت کربلا میں انتہائی تاثیر گزار شخصیت ہے معاصر میں شیعہ اور سنی محققان نے حضرت زینب کی شخصیت کے مختلف پہلؤں پر قابل ذکر تحقیقات کی ہیں ، متاخرین کی تالیفات میں سے کتاب زینب کبریٰ تالیف جعفر النقدی ، ناسخ التواریخ حضرت زینب تالیف عباسقلی خان سپھر، مع بطلہ کربلا تالیف محمد جواد مغنیہ ، السیدہ زینب تالیف باقر شریف القرشی ، المراۃ العظیمہ تالیف حسن الصفار ، الخصائص الزینبیہ تالیف نور الدین الجزائری ،  قابل ذکر ہیں ۔
اور سنیوں کی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت پر  لکھی گئی کتابوں میں سے ، زینب بنت علی تالیف عبدالعزیز سید الاھل ،  العقیلۃ الطاہرہ تالیف احمد فہمی محمد المصری ،  حفیدۃ الرسول تالیف احمد الشرباصی الازہری ، بطلۃ کربلا تالیف عایشہ بنت الشاطی ، ابنۃ الزہراء  بطلۃ الفداء  زینب تالیف علی احمد شلبی ، السیدہ زینب تالیف موسی محمد علی ، قابل ذکر ہیں ۔
زینب بنت علیؑ
زینب (س)  دختر علی بن ابی طالب (ع) اور فاطمہ زہرا (س) ، آپ کی کنیت  ام کلثوم اور ام حسن  [1]ہے ، آپ کا مشہور ترین لقب ، الکبری ہے ۔ الصدیقہ الصغری ، العقیلہ  [2]، عقیلہ بنی ہاشم  [3]، عارفہ ، کاملہ ، عالمہ اور عابدہ آل علی ، سب آپکے القاب ہیں [4] ۔  اگر نسب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو شریف ترین نسب حضرت زینب (س) کا ہے ، نانا رسول اللہ ، بابا علی ، ماں فاطمہ ، بھائی حسنین کریمینؑ
زمان ولادت
آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں آپ کی بہن ام کلثوم کی طرح قدیم منابع میں کوئی معتبر روایت نہیں ملتی ، بعض متاخر کتابوں میں ، 5 جمادی الاولیٰ سال پنجم یا ششم ہجری ، ماہ شعبان سال ششم ، اور ماہ رمضان سال نہم ہجری ذکر ہوا ہے  [5]۔ سیوطی رسالہ الزینبیہ میں کہتے ہیں : زینب کبری پانچ سال قبل از رحلت رسول اللہ دنیا میں آئیں  [6]۔ آپکی تاریخ ولادت میں اختلاف یہ سوال ایجاد کرتا ہے کہ آپ حضرت فاطمہ کی بڑی بیٹی ہیں یا چھوٹی ؟
سنی  علماء کی نگاہ میں  
 اہل سنت مؤرخین اور نسب شناسان نےحضرت زینب کا سال تولد ذکر نہیں کیا ، اور  یہ کہ حضرت زہراء کی کون سی بیٹی بڑی ہے بطور صریح اظہار نظر نہیں کیا ،  بعض نے تو حضرت زینب کا نام جناب ام کلثوم کے بعد ذکر کیا ہے حضرت زہراء کی اولاد کی یہ ترتیب پہلی بار اپنی  کتاب الطبقات الکبری ابن سعد (م 230 ) میں ذکر ہوئی ہے  [7]اور اس کے بعد دیگران نے جیسے : ابن عبدالبر قرطبی ( م 463 ) اپنی کتاب استعاب میں ، ابن اثیر (م 630 )  اپنی کتاب اسد الغابہ میں ، ابن حجر عسقلانی  (م852 )  اپنی کتاب الاصابہ  میں اسی ترتیب سے نقل کرتے ہیں ۔
اور دوسر ی طرف مسعودی اپنی کتاب التنبیہ و الاشراف  [8]میں ، ابن قتیبہ (م 282 ) المعارف [9] میں ،  ابن حزم (م 456 ) جمھرہ انساب العرب [10] میں ، ابن جوزی (م597 ) المنتظم[11] میں ،  الشافعی (م562) مطالب السؤول میں ، سبط ابن جوزی (م654) تذکرۃ الخواص[12] میں ، ابن ابی الحدید  نہج البلاغہ کی شرح [13]میں ، حضرت زہراء ؑ کی اولاد کا ذکر کرتے وقت  حضرت زینب کے حلات کا سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں[14] ۔ ابن جوزی تصریح کرتے ہیں کہ زینب ، حضرت فاطمہ کی  تیسری اور ام کلثوم چوتھی بیٹی ہیں[15]   ۔
شیعہ علماء کی نگاہ میں
اکثر شیعہ علماء نے حضرت فاطمہ زہراء کی اولاد کے ذکر میں  حضرت زینب کو پہلے نمبر پر شمار کیا  ہے [16]
حضرت علی علیہ السلام کی بیٹیوں کے ایک جیسے نام ہونے کی وجہ سے  اکثر مؤرخین کو حضرت علی کی بیٹیوں کے حالات زندگی لکھنے میں مشکل کا سامنا رہا
العبیدلی  (م277)  ایک نسب شناس تھا کتاب اخبار الزینبیات  میں حضرت علی کی بیٹیوں کو  بہت واضح اور روشن انداز میں ذکر کرتا ہے ، یہ معتقد ہے کہ حضرت زہراء کی دوسری بیٹی کا نام بھی زینب تھا  حضرت فاطمہ نے خود اپنی بیٹی کا نام زینب رکھا لیکں رسول اللہ نے اپنی خالہ کے ساتھ شباہت [17]کی وجہ سے اس بچی کی کنیت ام کلثوم رکھ دی[18]  ۔ العبیدلی ام کلثوم کو زینب الوسطی ٰ کہتے ہیں اور زینب الصغریٰ ایک اور بیٹی کو سمجھتے ہیں کہ جس کی شادی محمد بن عقیل کے ساتھ ہوئی  [19]۔    شیخ  مفید حضرت زہرا کی دوسری بیٹی کو زینب صغری ٰ جانتے ہیں اور اس کی کنیت ام کلثوم ذکر کرتے ہیں   ۔ مسعودی اسی کو زینب کبری ٰ  کہتے ہیں  ۔ الزبیری  نصب شناس متقدم  اپنی کتاب " نسب قریش " میں ام کلثوم کو الکبری ٰ  کا لقب دیتے ہیں
اکثر شیعہ علماء کرام حضرت زینب کو  حضرت زہراء کی بڑی بیٹی جانتے ہیں جیساکہ ، شیخ مفید  الارشاد میں ، اربلی کشف الغمہ میں ، طبرسی اعلام الوری میں ، زینب کو الکبری اور ام کلثوم کو زینب صغری ذکر کرتے ہیں ۔ قرائن اور شواہد بھی یہی اشارہ کرتے ہیں کہ حضرت زینب بڑی بیٹی ہیں ۔
 حضرت زینب کی خصوصیات
حضرت زینب  بے شمار فضائل و کمالات کی مالک ہیں جن کو ایک مقالہ میں ذکر نہیں کیا جا سکتا  ، بطور نمونہ چند فضیلتیں  ملاحظہ فرمائیں
علم
کوفہ اور دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار حضرت زینب کا عالمانہ کلام و خطبات آپ کے علمی کمالات کا واضح ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد ماجد حضرت علیؑ اور والدہ ماجدہ حضرت زہراؑ سے احادیث بھی نقل کی ہیں.[20]
اس کے علاوہ آپ کوفہ میں حضرت علیؑ کی خلافت کے دوران خواتین کے لئے قرآن کی تفسیر کا درس بھی آپ کی علم دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے[21]۔ [16]
حضرت زينبؑ رسول اللہؐ اور علی و زہراءؑ کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسولؐ تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں[22]۔
حضرت زینبؑ نے حضرات معصومینؑ سے متعدد حدیثیں مختلف موضوعات میں نقل کی ہیں منجملہ: شیعیان آل رسولؐ کی منزلت، حب آل محمد، واقعۂ فدک، ہمسایہ، بعثت وغیرہ.
سننے والوں کیلئے آپ کے خطبات اپنے والد ماجد امیر المؤمنین حضرت علیؑ کے خطبات کی یاد تازہ کرتے تھے[23]۔ کوفہ اور یزید کے دربار میں آپ کا خطبہ نیز عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ آپ کی گفتگو اپنے والد گرامی کے خطبات نیز اپنی والدہ گرامی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدکیہ کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے[24]۔
کوفہ میں آپ کے خطبے کے دوران ایک بوڑھا شخص روتے ہوئے کہہ رہا تھا:
"میرے ماں باپ ان پر قربان ہو جائے، ان کے عمر رسیدہ افراد تمام عمر رسیدہ افراد سے بہتر، ان کے بچے تمام بچوں سے افضل اور ان کی مستورات تمام مستورات سے افضل اور ان کی نسل تمام انسانوں سے افضل اور برتر ہیں[25]۔
عبادت
حضرت زینب كبریؑ راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں آپ نے کبھی بھی نماز تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں[26]۔ آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔ فاطمہ بنت الحسینؑ کہتی ہیں:
شب عاشور پھوپھی زینبؑ مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے[27]۔
خدا کے ساتھ حضرت زینبؑ کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ حسینؑ نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا:
"یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل" ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا[28]۔
صبر و استقامت
حضرت زینبؑ صبر و استقامت میں اپنی مثال آپ تھیں۔ آپ زندگی میں اتنے مصائب سے دوچار ہوئیں کہ تاریخ میں آپ کو ام المصائب کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ کربلا میں جب اپنے بھائی حسینؑ کے خون میں غلطاں لاش پر پہونچیں تو آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کیا:
بار خدایا! تیری راہ میں ہماری اس چھوٹی قربانی کو قبول فرما[29]۔
آپ نے بارہا امام سجّادؑ کو موت کے منہ سے نکالا؛ منجملہ ان موارد میں سے ایک ابن زیاد کے دربار کا واقعہ ہے، جب امام سجّادؑ نے عبید اللہ بن زياد سے بحث کی تو اس نے آپؑ کے قتل کا حکم دیا. اس موقع پر حضرت زینبؑ نے بھتیجے کی گردن میں ہاتھ ڈال کر فرمایا: "جب تک میں زندہ ہوں انہیں قتل نہيں کرنے دونگی[30]۔
واقعۂ کربلا  ، شب عاشورا
شیخ مفید امام سجاد ؑ سے یوں روایت کرتے ہیں: شب تاسوعا میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا اور پھوپھی زینب ہمارے پاس تھیں اور امام حسین میری دیکھ بھال میں مصروف تھے کہ امام حسین خیمے میں گئے جہاں ابوذر غفاری کے غلام جوین انکے ساتھ تھے۔ آپ اپنی تلوار کو تیز کرتے ہوئے یہ شعر پڑھ رہے تھے:
یا دهر افّ لک من خلیل                            کم لک بالاشراق والاصیل
اے دنیا! تیری دوستی پر افسوس! کتنے ایسے خلیل                            تمہیں پانے والے اشراق اور اصیل ہیں
من صاحب او طالب قتیل                         والدّہر لا یقنع بالبدیل
ان میں سے کچھ صاحب اور طالب قتیل ہیں                   اور زمانہ بدیل پر قناعت نہیں کرتا
پس امام حسین نے ان اشعار کی دو تین مرتبہ تکرار کی یہاں تک کہ میں نے آپ کے مقصود کو پا لیا، مجھ پر گریہ غالب ہوا لیکن میں آنسو پی گیا اور میں جان گیا مصیبت نازل ہونے والی ہے۔ میری پھوپھی رقت قلبی (جو عورتوں کی خصوصیت ہے) کی وجہ سے یہ سننے کی طاقت نہ لا سکی، جلدی سے اٹھیں اور میرے والد کے پاس پہنچیں تو مخاطب ہوئیں: واہ مصیبتا! کاش مجھے موت آ جاتی،آج میری ماں فاطمہ، باپ علی اور بھائی حسن فوت ہو گئے، اے گذشتگان کے جانشین! باقی رہ جانے والوں کی ڈھارس! یہ سننا تھا کہ امام حسین نے انکی طرف نگاہ کی اور فرمایا: اے بہن! شیطان تجھ پر غلبہ حاصل نہ کر لے، آپ نے بھری ہوئی آنکھوں سے فرمایا: اگر پرندے کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو وہ سو جائے گا۔
پس حضرت زینب ؑ نے کہا:‌ مجھ پر وائے ہو! کیا یہ بزور شمشیر تمہاری جان لیں گے؟ ایسا ہے تو یہ مجھے اور زیادہ غمگین کر دیا اور یہ میرے لئے زیادہ ناقابل برداشت ہے یہ کہہ کر پھوپھی نے اپنا چہرہ پیٹ لیا اور گریبان پارہ پارہ کر لیا، آپ بیہوش ہو کر گر گئیں۔ پس حسین ؑ اٹھے اور پانی کے چھینٹے آپ کے چہرے مارے اور فرمایا:
اے بہن! خدا کا خوف کیجئے، صبر اور شکیبائی اختیار کیجئے! جان لیجئے کہ اہل زمین اس دنیا سے چلے گئے اور نہ ہی اہل آسمان باقی نہیں رہے گے، ہر چیز فانی ہے صرف وہ وجہ اللہ باقی رہے گا جس نے اپنی قدرت سے خلق کیا اور پھر انہیں اپنی طرف لوٹائے گا اور وہ یگانہ و یکتا ہے۔ میرے والد مجھ سے بہتر تھے اور میری والدہ مجھ سے بہتر تھی اسی طرح میرے بھائی بھی مجھ سے بہتر تھے اور رسول خدا صلّی اللّه علیہ و آلہ ہمارے اور سب مسلمانوں کیلئے نمونۂ عمل ہیں۔
امام نے ان الفاظ کے ساتھ انکی دلداری کی اور فرمایا: اے بہن! میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں تم میرے بعد اس قسم کو مت توڑنا، جب دیگران پر حزن و غم طاری ہو تو آپ میری خاطر اپنا گریبان چاک نہ کریں، چہرہ مت پیٹیں اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں۔ یہ کہہ کر حضرت زینب کو میرے پاس بٹھا دیا اور اپنے اصحاب کے پاس چلے گئے[31]۔
عصر عاشور جب سیدہ زینبؑ نے دیکھا کہ امام حسینؑ خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے مجروح جسم کو گھیرے میں لے کر آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور عمر ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:
يابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبد اللهِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَيهِ. (ترجمہ: اے سعد کے بیٹے! ابو عبد اللہ (امام حسنؑ) کو قتل کیا جارہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہو؟!)[32]۔
ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبریؑ نے بآواز بلند پکار کر کہا: "وا اَخاهُ وا سَیِّداهُ وا اَهْلِ بَیْتاهْ ، لَیْتَ السَّماءُ اِنْطَبَقَتْ عَلَی الْاَرضِ وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّهْل.(ترجمہ: آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیمبرؐ! کاش آسمان زمین پر گرتا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گرجاتے)[33]۔
حضرت زینبؑ نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا. آپ اپنے بھائی کی بالین پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: "اے میرے اللہ! یہ قربانی ہم سے قبول فرما[34]۔
محافظہ امامت
مظلوم کربلا کی شہادت کے بعد زینب کبریٰ کی اصل ذمہ داری   سلسلہ امامت کو منقطع ہونے سے بچانا تھا   ہمارا اعتقاد ہے کہ سلسلہ امامت کی چوتھی کڑی سید سجاد(ع) ہیں ،چنانچہ عبیداللہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو دستور دیا تھا کہ اولاد امام حسین (ع) میں سے تمام مردوں کو شہید کئے جائیں،دوسری طرف مشیت الہی یہ تھی کہ مسلمانوں کیلئے ولایت اور رہبری کایہ سلسلہ جاری رکھا جائے ، اس لئے امام سجاد (ع) بیمار رہے اور آپ کا بیمار رہنا دوطرح سے آپ کے  زندہ رہنے کیلئے مدد گار ثابت ہوا۔1۔ امام وقت کا دفاع کرنا واجب تھا جو بیماری کی وجہ سے آپ سے ساقط ہوا ۔2۔ دشمنوں کے حملے اور تعرضات سے بچنے کا زمینہ فراہم کرنا تھا جو بیماری کی وجہ سے ممکن ہوا۔کہاں کہاں زینب (س) نے امام سجاد (ع)کی حفاظت کی؟جلتے ہوئے خیموں سے امام سجاد (ع) کی حفاظت تاریخ کا ایک وحشیانہ ترین واقعہ عمر سعد کا اھل بیت امام حسین (ع) کے خیموں کی طرف حملہ کر کے مال واسباب کا لوٹنا اور خیموں کو آگ لگانا تھا ۔ اس وقت اپنے وقت کے امام سید الساجدین (ع) سے حکم شرعی پوچھتی ہیں: اے امامت کے وارث اور بازماندگان کے پناہ گاہ ! ہمارے خیموں کو آگ لگائی گئی ہے ، ہمارے لئے شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا انہی خیموں میں رہ کر جلنا ہے یا بیابان کی طرف نکلنا ہے؟!امام سجاد (ع) نے فرمایا:آپ لوگ خیموں سے نکل جائیں۔ لیکن زینب کبری (س) اس صحنہ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی تھیں، بلکہ آپکا امام سجاد (ع) کی نجات کیلئے رکنا ضروری تھا۔راوی کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا تھا خیموں سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے اور ایک خاتون بیچینی کےعالم میں خیمے کے در پر کھڑی چاروں طرف دیکھ رہی تھیں، اس آس میں کہ کوئی آپ کی مدد کو آئے ۔ پھر آپ ایک خیمہ کے اندر چلی گئی ۔ اور جب باہر آئی تو میں نے پوچھا : اے خاتون !اس جلتے ہوئے خیمے میں آپ کی کونسی قیمتی چیز رکھی ہوئی ہے ؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہی ہے کہ آگ کا شعلہ بلند ہورہا ہے؟!زینب کبری (س)یہ سن کر فریاد کرنے لگیں :اس خیمے میں میرا ایک بیماربیٹا ہے جو نہ اٹھ سکتا ہے اور نہ اپنے کو آگ سے بچا سکتا ہے ؛جبکہ آگ کے شعلوں نے اسے گھیر رکھا ہے ۔آکر کار زینب کبری (س) نے امام سجاد (ع) کو خیمے سے نکال کر اپنے وقت کے امام کی جان بچائی ۔شمر کے سامنے امام سجاد(ع) کی حفاظت
امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد لشکر عمر سعد خیمہ گاہ حسینی کی طرف غارت کے لئے بڑھے ۔ایک گروہ امام سجاد (ع) کی طرف گئے ، جب کہ آپ شدید بیمار ہونے کی وجہ سے اپنی جگہ سے اٹھ نہیں سکتے تھے ۔ ایک نے اعلان کیا کہ ان کے چھوٹوں اور بڑوں میں سے کسی پربھی رحم نہ کرنا ۔دوسرے نے کہا اس بارے میں امیر عمر سعد سے مشورہ کرے ۔ شمر ملعون نے امام (ع) کو شہید کرنے کیلئے تلوار اٹھائی ۔ حمید بن مسلم کہتا ہے : سبحان اللہ ! کیا بچوں اوربیماروں کو بھی شہید کروگے؟! شمر نے کہا : عبید اللہ نے حکم دیا ہے ۔ حضرت زینب (س) نے جب یہ منظر دیکھا تو امام سجاد (ع) کے قریب آئیں اور فریاد کی: ظالمو! اسے قتل نہ کرو۔ اگرقتل کرنا ہی ہے تو مجھے پہلے قتل کرو ۔آپ کا یہ کہنا باعث بنا کہ امام (ع)کے قتل کرنے سے عمر سعد منصرف ہوگیا۔-4-امام سجاد (ع) کو تسلی دینا
جب اسیران اہل حرم کوکوفہ کی طرف روانہ کئے گئے ، تو مقتل سے گذارے گئے ، امام(ع) نے اپنے عزیزوں کو بے گور وکفن اور عمر سعد کے لشکر کے ناپاک جسموں کو مدفون پایا تو آپ پر اس قدر شاق گزری کہ جان نکلنے کے قریب تھا ۔ اس وقت زینب کبری (س) نے آپ کی دلداری کیلئے ام ایمن سے ایک حدیث نقل کی ،جس میں یہ خوش خبری تھی کہ آپ کے بابا کی قبر مطہر آیندہ عاشقان اور محبین اہلبیت کیلئےامن اورامید گاہ بنے گی۔لِمَا أَرَى مِنْهُمْ قَلَقِي فَكَادَتْ نَفْسِي تَخْرُجُ وَ تَبَيَّنَتْ ذَلِكَ مِنِّي عَمَّتِي زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيٍّ الْكُبْرَى فَقَالَتْ مَا لِي أَرَاكَ تَجُودُ بِنَفْسِكَ يَا بَقِيَّةَ جَدِّي وَ أَبِي وَ إِخْوَتِي فَقُلْتُ وَ كَيْفَ لَا أَجْزَعُ وَ أَهْلَعُ وَ قَدْ أَرَى سَيِّدِي وَ إِخْوَتِي وَ عُمُومَتِي وَ وُلْدَ عَمِّي وَ أَهْلِي مُضَرَّجِينَ بِدِمَائِهِمْ مُرَمَّلِينَ بِالْعَرَاءِ مُسَلَّبِينَ لَا يُكَفَّنُونَ وَ لَا يُوَارَوْنَ وَ لَا يُعَرِّجُ عَلَيْهِمْ أَحَدٌ وَ لَا يَقْرَبُهُمْ بَشَرٌ كَأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الدَّيْلَمِ وَ الْخَزَرِ فَقَالَتْ لَا يَجْزَعَنَّكَ مَا تَرَى فَوَ اللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَعَهْدٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى جَدِّكَ وَ أَبِيكَ وَ عَمِّكَ وَ لَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ‏ مِيثَاقَ أُنَاسٍ مِنْ هَذِه الْأُمَّةِ لَا تَعْرِفُهُمْ فَرَاعِنَةُ هَذِهِ الْأَرْضِ وَ هُمْ مَعْرُوفُونَ فِي أَهْلِ السَّمَاوَاتِ أَنَّهُمْ يَجْمَعُونَ هَذِهِ الْأَعْضَاءَ الْمُتَفَرِّقَةَ فَيُوَارُونَهَا وَ هَذِهِ الْجُسُومَ الْمُضَرَّجَةَ وَ يَنْصِبُونَ لِهَذَا الطَّفِّ عَلَماً لِقَبْرِ أَبِيكَ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ لَا يَدْرُسُ أَثَرُهُ وَ لَا يَعْفُو رَسْمُهُ عَلَى كُرُورِ اللَّيَالِي وَ الْأَيَّامِ وَ لَيَجْتَهِدَنَّ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَ أَشْيَاعُ الضَّلَالَةِ فِي مَحْوِهِ وَ تَطْمِيسِهِ فَلَا يَزْدَادُ أَثَرُهُ إِلَّا ظُهُوراً وَ أَمْرُهُ إِلَّا عُلُوّا-5- بحار ، ج۴۵، ص۱۷۹ ۱۸۰  خود امام سجاد (ع) فرماتے ہیں : کہ جب میں نے مقدس شہیدوں کے مبارک جسموں کو بے گور وکفن دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا ۔یہاں تک کہ میری جان نکلنے والی تھی ، میری پھوپھی زینب(س) نے جب میری یہ حالت دیکھی تو فرمایا: اے میرے نانا ،بابا اور بھائیوں کی نشانی ! تجھے کیا ہوگیا ہے؟ کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ تیری جان نکلنے والی ہے ۔تو میں نے جواب دیا کہ پھوپھی اماں ! میں کس طرح آہ وزاری نہ کروں ؟جب کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بابا اور عمو اور بھائیوں اور دیگر عزیزو اقرباء کو خون میں لت پت اور عریان زمین پر پڑے دیکھ رہا ہوں۔اور کوئی ان کو دفن کرنے والے نہیں ہیں۔ گویا یہ لوگ دیلم اور خزر کے خاندان والے ہیں ۔زینب (س) نے فرمایا: آپ یہ حالت دیکھ کر آہ وزاری نہ کرنا ۔خدا کی قسم ،یہ خدا کے ساتھ کیا ہوا وعدہ تھا جسے آپ کے بابا ، چچا ،بھائی اور دیگر عزیزوں نے پورا کیا ۔خدا تعالی اس امت میں سے ایک گروہ پیدا کریگا جنہیں زمانے کےکوئی بھی فرعون نہیں پہچان سکے گا ۔ لیکن آسمان والوں کے درمیان مشہور اور معروف ہونگے۔ان سے عہد لیا ہوا ہے کہ ان جدا شدہ اعضاء اور خون میں لت پت ٹکڑوں کو جمع کریں گے اور انہیں دفن کریں گے۔وہ لوگ اس سرزمین پر آپ کے بابا کی قبر کے نشانات بنائیں گےجسے رہتی دنیا تک کوئی نہیں مٹا سکے گا۔سرداران کفر والحاد اس نشانے کو مٹانے کی کوشش کریں گے، لیکن روز بہ روز ان آثار کی شان ومنزلت میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا
دربار ابن زیاد میں امام سجاد (ع) کی حفاظت
قَالَ الْمُفِيدُ فَأُدْخِلَ عِيَالُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا عَلَى ابْنِ زِيَادٍ فَدَخَلَتْ زَيْنَبُ أُخْتُ الْحُسَيْنِ ع فِي جُمْلَتِهِمْ مُتَنَكِّرَةً وَ عَلَيْهَا أَرْذَلُ ثِيَابِهَا وَ مَضَتْ حَتَّى جَلَسَتْ نَاحِيَةً وَ حَفَّتْ بِهَا إِمَاؤُهَا فَقَالَ ابْنُ زِيَادٍ مَنْ هَذِهِ الَّتِي انْحَازَتْ فَجَلَسَتْ نَاحِيَةً وَ مَعَهَا نِسَاؤُهَا فَلَمْ تُجِبْهُ زَيْنَبُ فَأَعَادَ الْقَوْلَ ثَانِيَةً وَ ثَالِثَةً يَسْأَلُ عَنْهَا فَقَالَتْ لَهُ بَعْضُ إِمَائِهَا هَذِهِ زَيْنَبُ بِنْتُ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ص فَأَقْبَلَ عَلَيْهَا ابْنُ زِيَادٍ وَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَحَكُمْ وَ قَتَلَكُمْ وَ أَكْذَبَ أُحْدُوثَتَكُمْ فَقَالَتْ زَيْنَبُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَكْرَمَنَا بِنَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ ص وَ طَهَّرَنَا مِنَ الرِّجْسِ تَطْهِيراً إِنَّمَا يَفْتَضِحُ الْفَاسِقُ ۔۔۔ ثُمَّ الْتَفَتَ ابْنُ زِيَادٍ إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقِيلَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ فَقَالَ أَ لَيْسَ قَدْ قَتَلَ اللَّهُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ فَقَالَ عَلِيٌّ قَدْ كَانَ لِي أَخٌ يُسَمَّى عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ قَتَلَهُ النَّاسُ فَقَالَ بَلِ اللَّهُ قَتَلَهُ فَقَالَ عَلِيٌّ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَ الَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَقَالَ ابْنُ زِيَادٍ وَ لَكَ جُرْأَةٌ عَلَى جَوَابِي اذْهَبُوا بِهِ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ فَسَمِعَتْ عَمَّتُهُ زَيْنَبُ فَقَالَتْ يَا ابْنَ زِيَادٍ إِنَّكَ لَمْ تُبْقِ مِنَّا أَحَداً فَإِنْ عَزَمْتَ عَلَى قَتْلِهِ فَاقْتُلْنِي مَعَهُ فَنَظَرَ ابْنُ زِيَادٍ إِلَيْهَا وَ إِلَيْهِ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ عَجَباً لِلرَّحِمِ وَ اللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّهَا وَدَّتْ أَنِّي قَتَلْتُهَا مَعَهُ‏ دَعُوهُ فَإِنِّي أَرَاهُ لِمَا بِهِ فَقَالَ عَلِيٌّ لِعَمَّتِهِ اسْكُتِي يَا عَمَّةُ حَتَّى أُكَلِّمَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ ع فَقَالَ أَ بِالْقَتْلِ تُهَدِّدُنِي يَا ابْنَ زِيَادٍ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ الْقَتْلَ لَنَا عَادَةٌ وَ كَرَامَتَنَا الشَّهَادَة-    بحار ،ج۴۵،ص۱۱۷،۱۱۸۔جب خاندان نبوت ابن زیاد کی مجلس میں داخل ہوئی ؛ زینب کبری دوسری خواتین کے درمیان میں بیٹھ گئیں ؛ تو ابن زیاد نے سوال کیا : کون ہے یہ عورت ، جو دوسری خواتین کے درمیان چھپی ہوئی ہے؟ زینب کبری نے جواب نہیں دیا ۔ تین بار یہ سوال دہرایاتو کنیزوں نے جواب دیا : اے ابن زیاد ! یہ رسول خدا (ص) کی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا (س)کی بیٹی زینب کبری (س)ہے ۔ ابن زیاد آپ کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اس خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں ذلیل و خوار کیا اور تمھارے مردوں کو قتل کیا اور جن چیزوں کا تم دعوی کرتے تھے ؛ جٹھلایا ۔ابن زیاد کی اس ناپاک عزائم کو زینب کبری (س)نے خاک میں ملاتےہوئے فرمایا:اس خدا کا شکر ہے جس نے اپنے نبی محمد مصطفیٰ (ص) کے ذریعے ہمیں عزت بخشی ۔ اورہرقسم کے رجس اور ناپاکی سے پاک کیا۔ بیشک فاسق ہی رسوا ہوجائے گا ۔جب ابن زیاد نے علی ابن الحسین (ع)کو دیکھا تو کہا یہ کون ہے؟ کسی نے کہا : یہ علی ابن الحسین (ع)ہے ۔تو اس نے کہا ؛کیا اسے خدا نے قتل نہیں کیا ؟ یہ کہہ کر وہ بنی امیہ کا عقیدہ جبر کا پرچار کرکے حاضرین کے ذہنوں کو منحرف کرنا چاہتے تھے اور اپنے جرم کو خدا کے ذمہ لگا کر خود کو بے گناہ ظاہر کرنا چاہتا تھا ۔امام سجاد (ع) جن کے بابا او ر پوراخاندان احیاء دین کیلئے مبارزہ کرتے ہوئے بدرجہ شہادت فائز ہوئے تھے اور خود امام نے ان شہداء کے پیغامات کو آنے والے نسلوں تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی تھی ، اس سے مخاطب ہوئے : میرا بھائی علی ابن الحسین (ع) تھا جسے تم لوگوں نے شہید کیا ۔ابن زیاد نے کہا : اسے خدا نے قتل کیا ہے ۔امام سجاد (ع) نے جب اس کی لجاجت اور دشمنی کو دیکھا تو فرمایا: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ -7- زمر ۴۲۔
 اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلالیتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی روحوں کو بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے ۔ اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے ،اس کی روح کو روک لیتا ہے ۔ اور دوسری روحوں کو ایک مقررہ مدّت کے لئے آزاد کردیتا ہے - اس بات میں صاحبان فکر و نظر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔ابن زیاد اس محکم اور منطقی جوا ب اور استدلال سن کر لا جواب ہوا تو دوسرے ظالموں اور جابروں کی طرح تہدید پر اتر آیا اور کہنے لگا : تو نے کس طرح جرات کی میری باتوں کا جواب دے ؟! جلاد کو حکم دیا ان کا سر قلم کرو ۔ تو اس وقت زینب کبری (س) نے سید سجاد (ع)کو اپنے آغوش میں لیا اور فرمایا:اے زیاد کے بیٹے ! جتنے ہمارے عزیزوں کو جو تم نے شہید کیا ہے کیا کافی نہیں؟!خدا کی قسم میں ان سے جدا نہیں ہونگی ۔ اگر تو ان کو شہید کرنا ہی ہے تو پہلے مجھے قتل کرو۔یہاں ابن زیاد دوراہے پر رہ گیا کہ اس کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ؟ ایک طرف سے کسی ایک خاتون اوربیمار جوان کو قتل کرنا ۔ دوسرا یہ کہ زینب کبری (س)کو جواب نہ دے پانا۔ یہ دونوں غیرت عرب کا منافی تھا ۔اس وقت عمرو بن حریث نے کہا: اے امیر! عورت کی بات پر انہیں سزانہیں دی جاتی، بلکہ ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنا ہوتا ہے ۔ اس وقت ابن زیاد نے زینب کبری(س) سے کہا: خدا نے تمھارے نافرمان اور باغی خاندان کو قتل کرکے میرے دل کو چین اور سکون فراہم کیا ۔اس معلون کی اس طعنے نے زینب کبری(س) کا سخت دل دکھا یااورلادیا ۔ اس وقت فرمایا: میری جان کی قسم ! تو نے میرے بزرگوں کو شہید کیا، اور میری نسل کشی کی ، اگر یہی کام تیرے دل کا چین اور سکون کا باعث بنا ہے تو کیا تیرے لئے شفا ملی ہے ؟! ابن زیاد نے کہا : یہ ایک ایسی عورت ہے جو قیافہ کوئی اور شاعری کرتی ہے ۔ یعنی اپنی باتوں کو شعر کی شکل میں ایک ہی وزن اور آہنگ میں بیان کرتی ہے ۔ جس طرح ان کا باپ بھی اپنی شاعری دکھایا کرتا تھا ۔زینب کبری (س) نے کہا: عورت کو شاعری سے کیا سروکار؟! لیکن میرے سینے سے جو بات نکل رہی ہے وہ ہم قیافہ اور ہم وزن ہے-8-۔آخر میں مجبور ہوا کہ موضوع گفتگو تبدیل کرے اور کہا: بہت عجیب رشتہ داری ہے کہ خدا قسم ! میرا گمان ہے کہ زینب چاہتی ہے کہ میں اسے ان کے برادر زادے کے ساتھ قتل کروں؛ انہیں لے جاؤ؛ کیونکہ میں ان کی بیماری کو ان کے قتل کیلئے کافی جانتاہوں۔اس وقت امام سجاد(ع) نے فرمایا : اے زیاد کے بیٹے ! کیا تو مجھے موت سے ڈراتے ہو ؟ کیا تو نہیں جانتا ، راہ خدا میں شہید ہونا ہمارا ورثہ اور ہماری کرامت ہے ۔
فاطمہ صغریٰ کی حفاظت
دربار یزید میں ایک مرد شامی نے جسارت کے ساتھ کہا : حسین کی بیٹی فاطمہ کو ان کی کنیزی میں دے دے ۔ فاطمہ نے جب یہ بات سنی تو اپنی پھوپھی سے لپٹ کر کہا : پھوپھی اماں ! میں یتیم ہوچکی کیا اسیر بھی ہونا ہے ؟!!فَقَالَتْ عَمَّتِي لِلشَّامِيِّ كَذَبْتَ وَ اللَّهِ وَ لَوْ مِتُّ وَ اللَّهِ مَا ذَلِكَ لَكَ وَ لَا لَهُ فَغَضِبَ يَزِيدُ وَ قَالَ كَذَبْتِ وَ اللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لِي وَ لَوْ شِئْتُ أَنْ أَفْعَلَ لَفَعَلْتُ قَالَتْ كَلَّا وَ اللَّهِ مَا جَعَلَ اللَّهُ لَكَ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ تَخْرُجَ مِنْ مِلَّتِنَا وَ تَدِينَ بِغَيْرِهَا فَاسْتَطَارَ يَزِيدُ غَضَباً وَ قَالَ إِيَّايَ تَسْتَقْبِلِينَ بِهَذَا إِنَّمَا خَرَجَ مِنَ الدِّينِ أَبُوكِ وَ أَخُوكِ قَالَتْ زَيْنَبُ بِدِينِ اللَّهِ وَ دِيْنِ أ بِي وَ دِيْنِ أَخِي اهْتَدَيْتَ أَنْتَ وَ أَبُوكَ وَ جَدُّكَ إِنْ كُنْتَ مُسْلِماً قَالَ كَذَبْتِ يَا عَدُوَّةَ اللَّهِ قَالَتْ لَهُ أَنْتَ أَمِيرٌ تَشْتِمُ ظَالِماً وَ تَقْهَرُ لِسُلْطَانِكَ فَكَأَنَّهُ اسْتَحْيَا وَ سَكَتَ وَ عَادَ الشَّامِيُّ فَقَالَ هَبْ لِي هَذِهِ الْجَارِيَةَ فَقَالَ لَهُ يَزِيدُ اعْزُبْ وَهَبَ اللَّهُ لَكَ حَتْفاً قَاضِياً فَقَالَ الشَّامِيُّ مَنْ هَذِهِ الْجَارِيَةُ فَقَالَ يَزِيدُ هَذِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ الْحُسَيْنِ وَ تِلْكَ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ الشَّامِيُّ الْحُسَيْنُ ابْنُ فَاطِمَةَ وَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ الشَّامِيُّ لَعَنَكَ اللَّهُ يَايَزِيدُ تَقْتُلُ عِتْرَةَ نَبِيِّكَ وَ تَسْبِي ذُرِّيَّتَهُ وَ اللَّهِ مَا تَوَهَّمْتُ إِلَّا أَنَّهُمْ سَبْيُ الرُّومِ فَقَالَ يَزِيدُ وَ اللَّهِ لَأُلْحِقَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَضُرِبَ عُنُقُهُ-3  بحار،ج۴۵ ص ۱۳۶،۱۳۷۔زینب کبری(س) نے شہامت اور جرئت کے ساتھ مرد شامی سے مخاطب ہوکر کہا: خدا کی قسم تو غلط کہہ رہا ہے ، تمھاری کیا جرئت کہ تو میری بیٹی کو کنیز بنا سکے؟!!یزید نے جب یہ بات سنی تو غضبناک ہوا اور کہا: خدا کی قسم یہ غلط کہہ رہی ہے ۔ میں اگر چاہوں تو اس بچی کو کنیز ی میں دے سکتا ہوں۔زینب کبری (س) نے کہا : خدا کی قسم تمھیں یہ حق نہیں ہے ؛ مگر یہ کہ ہمارے دین سے خارج ہو جائے۔یہ بات سن کر یزید نے غصے میں آکر کہا : میرے ساتھ اس طرح بات کرتی ہو جبکہ تیرے بھائی اور باپ دین سے خارج ہوچکے ہیں ۔زینب کبری(س) نے کہا:اگرتو مسلمان ہو اور میرے جد اور بابا کے دین پر باقی ہو تو تواورتیرے باپ داداکو میرے باپ دادا کے ذریعے ہدایت ملی تھی۔یزید نے کہا : تو جھوٹ بولتی ہو اے دشمن خدا ۔زینب کبری(س) نے فرمایا: تو ایک ظالم انسان ہو اور اپنی ظاہری قدرت اور طاقت کی وجہ سے اپنی بات منوانا چاہتے ہو۔اس بات سے یزید سخت شرمندہ ہوا اور چپ ہوگیا۔اس وقت مرد شامی نے یزید سے دوبارہ کہا :اس بچی کو مجھے دو ۔یزید نے اس سے کہا :خاموش ہوجا !خدا تجھے نابود کر ے ۔اس شامی نے کہا: آخر یہ بچی کس کی ہے؟!یزید نے کہا: یہ حسین کی بیٹی ہے ۔ اور وہ عورت زینب بنت علی ابن ابیطالب ہے ۔اس مرد شامی نے کہا : حسین !!فاطمہ اورعلی (ع) کا بیٹا؟! جب ہاں میں جواب ملا تو کہا: اے یزید ! خدا تجھ پر لعنت کرے ! پیامبر(ص) کی اولادوں کو قتل کرکے ان کی عترت کو اسیر کرکے لے آئے ہو!خدا کی قسم میں ان کو ملک روم سے لائے ہوئے اسیر سمجھ رہا تھا ۔یزید نے کہا : خدا کی قسم ! تجھے بھی ان سے ملحق کروں گا ۔ اس وقت اس کا سر تن سے جدا کرنے کا حکم دیا ۔
بھائی کی شہادت پر رد عمل
حضرت زینبؑ بھائی امام حسینؑ کے بے جان جسم کے پاس کھڑے ہوکر مدینہ کی طرف رخ کیا اور دل گداز انداز ميں نوحہ گری کرتے ہوئے کہا:
وا محمداه بناتك سبايا و ذريتك مقتلة تسفي عليهم ريح الصبا، و هذا الحسين محزوز الرأس من القفا مسلوب العمامة و الردا، بابي من اضحي عسكره في يوم الاثنين نهبا، بابي من فسطاطه مقطع العري، بابي من لا غائب فيرتجي و لا جريح فيداوي بابي من نفسي له الفدا، بابي المهموم حتي قضي، بابي العطشان حتي مضي، بابي من شيبته تقطر بالدماء، بابي من جده محمد المصطفي، بابي من جده رسول اله السماء، بابي من هو سبط نبي الهدي، بابي محمد المصطفي، بابي خديجة الكبري بابي علي المرتضي، بابي فاطمة الزهراء سيدة النساء، بابي من ردت له الشمس حتي صلي.
ترجمہ: اے محمد یہ آپ کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہوکر جارہی ہیں. یہ آپ کے فرزند ہیں جو خون میں ڈوبے زمین پر گرے ہوئے ہیں، اور صبح کی ہوائیں ان کے جسموں پر خاک اڑا رہی ہیں! یہ حسین ہے جس کا سر پشت سے قلم کیا گیا اور ان کی دستار اور ردا کو لوٹ لیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی سپاہ کو سوموار کے دن غارت کی گئیں، میرا باپ فدا ہو اس پر جس کے خیموں کی رسیاں کاٹ دی گئیں! میرا باپ فدا ہو اس پر جو نہ سفر پر گیا ہے جہاں سے پلٹ کر آنے کی امید ہو اور نہ ہی زخمی ہے جس کا علاج کیا جاسکے! میرا باپ فدا ہو اس پر جس پر میری جان فدا ہے؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کو غم و اندوہ سے بھرے دل اور پیاس کی حالت میں قتل کیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی داڑھی سے خون ٹپک رہا تھا! میرا باپ فدا ہو جس کا نانا رسول خداؐ ہے اور وہ پیغمبر ہدایتؐ، اور خدیجۃالکبریؑ اور علی مرتضیؑ، فاطمۃالزہراؑ، سیدة نساء العالمین کا فرزند ہے، میرا باپ فدا ہو اس پر وہی جس کے لئے سورج لوٹ کے آیا حتی کہ اس نے نماز ادا کی[35]... حضرت زینبؑ کے کلام اور آہ و فریاد نے دوست اور دشمن کو متاثر و مغموم کیا اور سب کو رلا دیا[36]۔
دربار كوفہ
کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ
عاشورا کے بعد اہل بیت کے اسیروں کو بازار میں لایا گیا۔ کوفہ میں زینب بنت علی نے ایک اثردار خطبہ دیا جس نے لوگوں پر بہت زیادہ اپنا اثر چھوڑا۔
بُشر بن خُزیم اسدی حضرت زینبؑ کے خطبے کے بارے میں کہتا ہے:
اس دن میں زینب بنت علیؑ کو دیکھ رہا تھا؛ خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح فصیح و بلیغ نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی بن ابیطالبؑ کی زبان سے بول رہی تھیں۔ آپ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر ایک غضبناک لہجے میں فرمایا: "خاموش ہوجاؤ"! تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گردن میں باندھی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی[37]۔ حضرت زینب کا خطاب اختتام پذیر ہوا لیکن اس خطبے نے کوفہ میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی تھی اور لوگوں کی نفسیاتی کیفیت بدل گئی تھی۔ راوی کہتا ہے: کہ علیؑ کی بیٹی کے خطبے نے کوفیون کو حیرت زدہ کر دیا تھا اور لوگ حیرت سے انگشت بدندان تھے۔
خطبے کے بعد شہر میں [یزیدی] حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کی علامات ظاہر ہونے لگیں چنانچہ اس حکومت کے خلاف احتمالی بغاوت کے سد باب کیلئے اسیروں کو حکومت کے مرکزی مقام دار الامارہ لے جانے حکم دیا گیا[38]۔
حضرت زینبؑ دیگر اسیروں کے ہمراہ دارالامارہ میں داخل ہوئیں اور وہاں حاکم کوفہ عبید اللہ بن زياد کے ساتھ آپ نے مناظرہ کیا[39]۔
حضرت زینبؑ کی تقریر نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے اور بنو امیہ کو رسوا کردیا۔ اس کے بعد عبید اللہ بن زياد نے اسیروں کو قید کرنے کا حکم دیا. کوفہ اور دارالامارہ میں حضرت زينبؑ کے خطبات، امام سجادؑ، ام کلثوم اور فاطمہ بنت الحسین، کی گفتگو، عبداللہ بن عفیف ازدی اور زید بن ارقم کے اعتراضات نے کوفہ کے عوام میں جرأت پیدا کر دی یوں ظالم حکمران کے خلاف قیام کا راستہ ہموار ہوا؛ کیونکہ کوفہ والے حضرت زینبؑ کا خطبہ سننے کے بعد نادم و پشیمان ہوگئے اور خاندان عصمت و طہارت کے قتل کا بدنما داغ جو ان کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بن گیا تھا کو مٹانے کیلئے راہ کسی راہ حل تلاش کرنے لگے یوں ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ آخرکار مختار کی قیادت میں خون حسین ابن علی کے انتقام کیلئے قیام کیا۔
شام
واقعۂ کربلا کے بعد یزید نے ابن زیاد کو اسرائے اہل بیت کو شہیدوں کے سروں کے ہمراہ شام بھیجنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اہل بیت اطہارؑ کا یہ کاروان شام روانہ ہوا[40]۔
اسرائے اہل بیتؑ کے شام میں داخل ہوتے وقت یزید کی حکومت کی جڑیں مضبوط تھیں؛ شام کا دارلخلافہ دمشق جہاں لوگ علیؑ اور خاندان علی کا بغض اپنے سینوں میں بسائے ہوئے تھے؛ چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ لوگوں نے اہل بیت رسولؐ کی آمد کے وقت نئے کپڑے پہنے شہر کی تزئین باجے بجاتے ہوئے لوگوں پر خوشی اور شادمانی کی کیفیت طاری تھی گویا پورے شام میں عید کا سماں تھا[41]۔
لیکن اسیروں کے اس قافلے نے مختصر سے عرصے میں اس شہر کی کایہ ہی پلٹ کر رکھ دی۔ امام سجّادؑ اور حضرت زینبؑ نے خطبوں کے ذریعے صراحت و وضاحت کے ساتھ بنی امیہ کے جرائم کو بے نقاب کیا جس کے نتیجے میں ایک طرف سے شامیوں کی اہل بیت دشمنی، محبت میں بدل گئی اور دوسری طرف سے یزید کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا تب یزید کو معلوم ہوا کہ امام حسینؑ کی شہادت سے نہ صرف اس کی حکومت کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوئی بلکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہونے شروع ہو گئی تھی۔
دربار یزید
یزید نے ایک با شکوہ مجلس ترتیب دیا جس میں اشراف اور سیاسی و عسکری حکام شریک تھے[42]۔ اس مجلس میں یزید نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی[43]۔
یزید نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کے ساتھ امام حسینؑ کے مبارک لبوں کی بے حرمتی کرنا شروع کیا[44] اور رسول اکرمؐ اور آپ کی آل کے ساتھ اپنی دشمنی کو علنی کرتے ہوئے کچھ اشعار پڑھنا شروع کیا جن کا مفہوم کچھ یوں ہے:
"اے کاش میرے آباء و اجداد جو بدر میں مارے گئے زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ قبیلہ خرزج کس طرح ہماری تلواروں کی ستم کا نشانہ بنا ہے، تو وہ اس منظر کو دیکھ کر خوشی سے چیخ اٹھتے: اے یزید! تہمارے ہاتھ کبھی شل نہ ہو! ہم نے بنی‌ہاشم کے بزرگان کو قتل کیا اور اسے جنگ بدر کے کھاتے میں ڈال دیا اور اس فتح کو جنگ بدر کی شکست کے مقابلے میں قرار دیا۔ بنی ہاشم نے سیاسی کھیل کھیلا تھا ورنہ نہ آسمان سے کوئی چیز نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی وحی اتری ہے[45]۔ میں خُندُف[46] کے نسل میں سے نہیں ہو اگر احمد(حضرت محمد) کی اولاد سے انتقام نہ لوں۔
اتنے میں مجلس کے ایک کونے سے حضرت زینبؑ اٹھی اور بلند آواز میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ یزید کے دربار میں جناب زینبؑ کے اس خطبے نے امام حسینؑ کی حقّانیت اور یزید کے باطل ہونے کو سب پر واضح اور آشکار کیا۔
خطبے کے فوری اثرات
حضرت زینبؑ کے منطقی اور اصولی خطبے نے دربار یزید میں موجود حاضرین کو اس قدر متأثر کیا خود یزید کو بھی اسرائے آل محمد کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اہل بیتؑ کے ساتھ کسی قسم کی سخت رویے سے پرہیز کرنا پڑا [47]۔
دربار میں حضرت زینبؑ کی شفاف اور دوٹوک گفتگو سے یزید کے اوسان خطا ہونے لگے اور مجبور ہو کر اس نے امام حسینؑ کی قتل کو ابن زیاد کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اسے لعن طعن کرنا شروع ہو گیا[48]۔
یزید نے اطرافیوں سے اسرائے آل محمد کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اس موقع پر اگرچہ بعض نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو بھی قتل کیا جائے لیکن نعمان بن بشیر نے اہل بیتؑ کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا مشورہ دیا[49]۔ اسی تناظر میں یزید نے اسراء اہل بیت کو شام میں کچھ ایام عزاداری کرنے کی اجازت دے دی۔ بنی امیہ کی خواتین منجملہ ہند یزید کی بیوی شام کے خرابے میں اہل بیتؑ سے ملاقات کیلئے گئیں اور رسول کی بیٹیوں کے ہاتھ پاؤں چومتی اور ان کے ساتھ گریہ و زاری شریک ہوئیں۔ تین دن تک شام کے خرابے میں حضرت زینبؑ نے اپنے بھائی کی عزاداری برگزار کی[50]۔
آخرکار اسرائے اہل بیتؑ کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ پہنچایا گیا[51]۔
حضرت زینب کے خطبہ کے چند اقتباسات :
 سیدہ زينبؑ نے حمد و ثنائے الہی اور رسول و آل رسول پر درود وسلام کے بعد فرمایا:
اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا.
اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کردیئے ہیں؛ اور آل رسولؐ کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہوچکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان ومنزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کررہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خودنمایی کررہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منارہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: "بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟. آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے . اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے . اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے . کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ  وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ۔
ترجمہ: اور یہ کافر ایسا نہ سمجھیں کہ ہم جو ان کی رسی دراز رکھتے ہیں یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے ہم تو صرف اس لیے انکی رسی دراز رکھتے [اور انہیں ڈھیل دیتے] ہیں[52].
اس کے بعد فرمایا : اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے کیا یہ انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو پردے میں بٹها رکھا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے. تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی. تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر شہر پھرائے . تیرے حکم پر دشمنان خدا اہل بیت رسولؐ کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے. اور لوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے لوگ سب ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں. ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں. آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے. آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں. آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے.
اس شخص سے بھلائی کی کیا امید ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں حمزہ بن عبدالمطلبؑ کا جگر چبایا ہو. اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو. وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے.
اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ "آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں!
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علیؑ کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے!
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہوگا اور تو فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھےگا جبکہ تو نے اپنے ظلم و ستم کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندان کے ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں پر لگے زخموں کو گہرا کردیا ہے اور دین کی جڑیں کاٹنے کے لئے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے! تو نے اولاد رسول کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے ہیں.
تو نے خاندان عبد المطلب کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں.
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے. تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا.
اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا! تب انہیں معلوم ہو گا کہ کون زیادہ برا ہے مکان کے اعتبار سے اور زیادہ کمزور ہے لاؤ لشکر کے لحاظ سے؟! اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے . اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا. اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے. تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا. نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا . اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا . خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں . بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں . "اور انہیں جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں، ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ، اپنے پروردگار کے یہاں رزق پاتے ہیں".
اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے . اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے . پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعہ تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا . اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا . ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ "کیا برا بدل (انجام) ہے یہ ظالموں کے لیے" ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں.       
فاتح شام کی واپسی
حضرت زینب اور امام سجاد کی تقریروں نے شام کے اوضاع و احوال کو برعلیہ یزید متحول کیا ۔ جس کے بعد یزید نے اپنا روش تبدیل کر کے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ یزید کو معلوم ہوا کہ اب اہلبیتعليه‌السلام کو مزید شام میں ٹھہرانا اس کی مفاد میں نہیں، لہذااس نے اہلبیت اطہارعليه‌السلام کو مدینہ واپس بھیجنے کا انتظام کیا ۔
فارسی کے اشعار میں فاتحانہ واپسی کو شاعر نے زکر کیا [53] جس کا مفہوم یہ ہے :
کہ زینب کبری (س) نے شام اور شام والوں (یزیدیوں )کوتباہ کرکے نکلیں ۔زمین کربلا سے لےکر کوفہ اور شام تک جہاں جہاں آپ نے قدم رکھا ؛ فتح کرکے نکلیں۔علی  کے لب ولہجے اور دردناک فریاد میں کربلا کا الم ناک واقعہ کوفہ والوں کے سامنے تفصیل سے بیان فرما کرچلیں ۔صاف الفاظ میں کہہ دوں کہ اس دلیر اور عظیم خاتون نے اپنے بیان اور خطاب کے ذریعے اپنے دشمن کو بوکھلا کر رکھ دیں
شعلہ بیان خطبے کے ذریعے یزید اور ان جیسے ظالموں کے ایوانوں کی بنیاد یں قلع قمع کرکے نکلیں ۔ جب آپ کو اسیر بناکر شام لائی گئی تو اس وقت شام والے شراب نوشی میں مصروف اور جشن منارہے تھے ؛ لیکن جب آپ شام سے نکلنے لگیں تو اس وقت شام کو ، شام غریبان میں بدل کرنکلیں ۔
بحار الانوار میں بیان ہوا ہے کہ جب ہندہ یزید کی بیوی نے اپنا خواب اسے سنایا تو وہ بہت زیادہ مغموم ہوا ۔ اور صبح کو اہل بیت اطھارعليه‌السلام کو دربار میں بلایا اور کہا : میں پشیمان ہوں ۔ ابھی آپ لوگوں کو اختیار ہے کہ اگر شام میں رہنا چاہیں تو رہائش کا بندوبست کروں گا اور اگر مدینہ جانا چاہیں تو سفر کے لئے زاد راہ اور سواری کا انتظام کروں گا ۔
اس وقت زینب کبری ٰ (س)نے یزید سے مطالبہ کیا کہ ان کو اپنے شہیدوں پر رونے کا موقع نہیں ملا ہے ، ان پر رونے کیلئے کسی مکان کا بندوبست کیا جائے ، اس طرح تین دن شام میں مجلس عزا برپا ہوئی اور اہل شام کے تمام خواتین اس مجلس میں شریک ہوگئیں ، یہا ں تک کہ ابوسفیان کے خاندان میں سے ایک عورت بھی باقی نہیں تھی جو امام حسینعليه‌السلام پر رونے اور اہلبیتعليه‌السلام کی استقبال کیلئے نہ آئی ہو۔[54]
جب فاتح شام کی روانگی کا وقت آیا تو زرین محمل کا انتظام کیا گیا تو شریکۃ الحسین(س) نے بشیر بن نعمان سےکہا : اجعلوھا سوداء حتی یعلم الناس انا فی مصیبۃ و عزاء لقتل اولادالزہرا(س) ۔ ان محملوں کو سیاہ پوش بنائیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہم اولاد زہرا (س)کے سوگ اور مصیبت میں ہیں ۔
جب اہلبیتعليه‌السلام عراق پہنچے اور زمین کربلا میں وارد ہوئے تو دیکھا کہ جابر بن عبداللہ انصاریرحمه‌الله اور بنی ہاشم کے کچھ افراد سید الشہداعليه‌السلام کے قبر مبارک پر زیارت کرتے ہوئے رورہے ہیں ۔ لہوف کے مطابق ۲۰ صفر کو شہدا کے سروں کو ان کے مبارک جسموں سے ملائے گئے۔[55]
زینب کبری (س) اپنے بھائی کی قبر سے لپٹ کر فریاد کرنے لگی: ہای میرا بھیا ہای میرا بھیا ! اے میری ماں کا نور نظر ! میری آنکھوں کا نور ! میں کس زبان سے وہ مصائب اور آلام تجھے بیان کروں جو کوفہ اور شام میں ہم پر گذری ؟ اور پست فطرت قوم نے کس قدر آزار پہنچائی؟ناسزا باتیں سنائی ؟
وفات حضرت زینب ؑ
کتاب اخبار الزینبیات (العبیدلی) تنہا ایسی کتاب ہے جس میں حضرت زینب ؑ کی رحلت کے زمان و مکان کو ذکر کیا گیا ہے  ، اس کتاب کے مطابق   حضرت زینب کی وفات 15 رجب 62 قمری کو مصر میں ہوئی ہے  [56]۔ گرچہ احتمال قوی یہی ہے کہ حضرت زیہنب کی وفات 62 ہجری کو واقعہ کربلا کے کچھ عرصہ بعد ہی ہوئی ہے کیونکہ اس  کے بعد تاریخ میں  بی بی کے بارے میں کوئی گزارش موجود نہیں  ہے لیکن العبیدلی کی خبر پر مورخین اتنا اعتماد نہیں کرتے اس لئے بی بی کے محل وفات اور  مدفن میں اختلاف پایا جاتا ہے۔   
حضرت زینب  سے منقول چند روایات
1۔ الا من مات على حب آل محمد مات شهیدا
 آگاه ہو جائیں جو بھی محبت آل محمد پر مرے شہید ہے  [57]
2۔ و نحن وسیلته فى‏ خلقه و نحن خاصته و محل‏ قدسه و نحن حجته فى غیبه و نحن ورثه انبیائه...ہم خدا اور اسکی مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں .ہم   خدا کے برگزیدہ ہیں   محل پاکی  ، راہنماہاى روشن خداکی روشن رہنما ء اور   وارث پیغمبران خدا ہیں[58] .
3۔ خَیْرٌ لِلِنّساءِ انْ لایَرَیْنَ الرِّجالَ وَلایَراهُنَّ الرِّجالُ.
عورت کی شخصیت کی حفاظت  کیلئے بہترین چیز یہ ہے کہ کوئی مرد اسے نہ دیکھے اور وہ مردوں کے دیکھنے کا سبب نہ بنے[59]   .
4۔ ما یَصَنَعُ الصّائِمُ بِصِیامِهِ إذا لَمْ یَصُنْ لِسانَهُ وَ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ وَ جَوارِحَهُ.
جو روزه دار اپنی   زبان ، کان  ، آنکھ اور اپنے   دیگر اعضاء و جوارح  کو  کنٹرول نہیں کرتا  اسکے روزہ کا کوئی فائدہ نہیں  ۔ [60]
5۔ الرَّجُلُ اُحَقُّ بِصَدْرِ دابَّتِهِ، وَ صَدْرِ فِراشِهِ، وَالصَّلاهِ فی مَنْزِلِهِ إلاَّ الاْمامَ یَجْتَمِعُ النّاسُ عَلَیْهِ۔
ہر شخص اپنی سواری اور گھر کی تزیین  اور اسمیں اقامہ نماز   کی نسبت دوسروں پر اولویت رکھتا ہے لیکن امام جماعت کہ کس کے پیچھے لوگ نماز پڑھتے ہیں سب پر اولویت رکھتا ہے [61]۔
6۔ خابَتْ أُمَّهٌ قَتَلَتْ إبْنَ بِنْتِ نَبِیِّها.
وہ لوگ کبھی سعادت مند نہیں ہو سکتے جو اپنے نبی کی اولاد کا قتل کریں [62] 
 
 
 
 
 
[1]  انساب الطالبيين،‌ ابن عنبه، المجدي في انساب الطالبيين، علي بن محمد العلوي، قم، مكتبة المرعشي النجفي، 1409، ص 18
[2]  الاصيلي في انساب الطالبيين، ابن الطقطقي الحسني، قم مكتبة‌ المرعشي النجفي، 1418، ص 58
[3]  مقاتل الطالبيين، ابي الفرج اصفهاني، موسسه الاعلمي للمطبوعات، ص 95
[4]  زينب الكبري، جعفر النقدي، نجف، مطبعة الحيدرية، ص17
[5]  زينب الكبري، ص 18؛ فاطمة‌الزهراء بهجة‌ قلب المصطفي، احمد الرحماني الهمداني، ‌تهران، ‌نشر المرضية، 1372ش،‌ ص 634
[6]   زينب(س) الكبري،‌ جعفر النقدي، ص 28، وفيات الائمة،‌ ص 431
[7]  الطبقات الكبري، ج6، ص 19
[8]   التنبيه و الاشراف، علي بن الحسين المسعودي، بيروت، دار و مكتبة ‌الهلال، 1421، ص 274
[9]  المعارف، عبدالله بن مسلم بن قتيبه، الهيئة المصرية للطباعة الكتاب، چاپ ششم، ص 211
[10]  جمهرة انساب العرب، ابن حزم الاندلسي، بيروت، ‌دارالكتب العلمية،  1422، ص 37
[11]  المنتظم، ابن الجوزي، بيروت، دارالكتب العلمية، 1412، ج5، ص 69
[12]  تذكرة‌ الخواص، سبط بن الجوزي، بيروت، موسسة اهل البيت، 1401، ص288
[13]  شرح نهج البلاغه، ابن ابي الحديد، ج9، ‌ص 242
[14]   جمهرة ‌انساب العرب، ابن حزم اندلسي، بيروت، دارالكتب العلمية، 1424، 37-38
[15]  تذكرة الخواص، ص 288
[16]  مناقب اميرالمومنين علي بن ابي‌طالب، ‌محمد بن سليمان الكوفي،‌ قم،‌ مجمع احياء ‌الثقافة‌ الاسلامية، 1423،‌ ص 683، الهداية ‌الكبري، حسين بن حمدان الخصيبي، (م334)، موسسه البلاغ،‌ ص 94
[17]  رحلة ابن بطوطة، ج1،‌ ص 92
[18]  اخبار الزينبيات، يحيي بن حسن العبيدلي،  نشره محمد جواد مرعشي نجفي، بي جا، بي تا، ص 123-124، رحلة ابن بطوطه، محمد بن عبدالله الطنجي، ابن بطوطة، بيروت، ‌المكتبة ‌العصرية، 1425، ج1، ص 92
[19]  اخبار الزينبيات، ص 125
 [20]  ابن عساکر ،اعلام النساء ، ص ۱۸۹
[21] دلائل الامامہ طبری ، ج۳ ، ص۵۷
[22] نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج۱۶ ، ص ۲۱۰
[23]  احمد بہشتی ، زنان نامدار در قرآن و حدیث ، ص ۵۱
[24] سید کاظم ارفع ، حضرت زینب سیرہ عملی اہل بیت ، ص ۸۸
[25]  سید ابن طاووس ، اللہوف ، ص ۱۷۹
[26] جعفر النقدی ، ص ۶۱
[27]  محلاتی ، رحاحین الشریعہ ، ۱۳۴۹ ش ، ج۳ ، ص۶۲
[28]  زبیح اللہ محلاتی ، ج۳ ، ص ۶۲
[29]  سید علی نقی فیض الاسلام ، خاتون دوسرا ، ص ۱۸۵
[30]  محمد باقر مجلسی ، بحارالانوار ، ج۴۵ ، ص۱۱۷
[31]  مفید ، الارشاد ، ۱۳۷۲ ش ، ج ۲ ، ص ۹۴-۹۳
[32]  علی نظری منفرد ، قصہ کربلا ، ص ۳۷۱
[33]  سید ابن طاووس ، ص ۱۶۱-۱۵۹
[34]  علی نقی فیض الاسلام ، ص ۱۸۵
[35]  ابو مخنف ، وقعہ الطف ، ص ۲۵۹
[36]  ابو مخنف ، وقعہ الطف ، ص ۲۹۵
[37]  احمد صادقی اردستانی ، ص ۲۲۷ – ۲۲۸
[38]  احمد صادقی اردستانی ، ص ۲۴۶
[39]  ابو مخنف ، وقعہ الطف ، ص ۲۹۹
[40]  شہید سید عبد الکریم ہاشمی نژاد ، ص ۳۲۶
[41]  محمد محمدی اشتہاردی ، ص ۳۲۷ -۳۲۸ 
[42]  سید عندالکریم ہاشمی نژاد ، ص ۳۳۰
[43]  محمد محمدی اشتہاردی ، ص ۲۴۸
[44]  حسن الہی ، زینب کبری عقیلہ بنی ہاشم ، ص ۲۰۸
[45]  ابو مخنف ، وقعہ الطف ، ص ۳۰۶ – ۳۰۷
[46]  یزید کی دادی
[47]  مجلسی ، بحار الانوار ، ج ۴۵ ، ص ۱۳۵
[48]  شیخ مفید ، الارشاد ، ص ۳۵۸
[49]   مجلسی ، بحار الانوار ، ج ۴۵ ، ص ۱۳۵
[50]  ابو مخنف ، وقعہ الطف ، ص ۳۱۱
[51]  ابن عساکر ، اعلام النساء ، ص ۹۱
[52]  سورہ آل عمران آیت ۱۷۸ ؛ اردو ترجمہ سید علی نقی نقن ؛ مجلسی ، بحار الانوار ، ص ۱۳۳
 [53]    سیرہ واندیشہ حضرت زینب، ص۳۱۳۔
[54]   ۔ تاریخ طبری ، ج۳ ، ص۳۳۹۔
 [55]   ۔ ناسخ التواریخ حضرت زینب کبریٰ۔
[56]  اخبار الزينبيات، ص 116
[57]  اثبات الهداة، ج۲
[58]  مشارق انوار الیقین، ص ۵۱
[59]  بحارالأنوار: ج ۴۳، ص ۵۴، ح ۴۸
[60]  مستدرک الوسائل، ج ۷، ص ۳۳۶، ح ۲
[61]  مجمع الزّوائد، ج ۸، ص ۱۰۸
[62]  مدینه المعاجز، ج ۳، ص ۴۳۰

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا قم میں ورود

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا قم میں ورود

 

ساجد محمود

کارشناسی ارشد (رشتہ تفسیر)

Sajjidali3512@gmail.com

ولادت
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی محترمہ ہیں۔آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ہجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور ممتاز صاحبزادی ہیں۔

القاب

  شیخ عباس قمی اس کے  بارے میں لکھتے ہیں :امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ ،جلیلہ اور  معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں۔آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا ۔یہ لقب انہیں  اپنے بھائی امام ہشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ زمانے نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مسلسل گرفتاریوں اور شہادت کے ذریعے آپ سے باپ کی محبت چھین لی تھی لیکن بڑے بھائی کے شفقت بھرے ہاتھوں نے آپ کے دل پر غم کے بادل نہیں آنے دیئے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے بہت زیادہ مانوس تھیں، انہی  کے پر مہر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔آپ کے مزید القاب میں طاہرہ، عابدہ، رضیہ، تقیہ، عالمہ، محدثہ، حمیدہ اور رشیدہ شامل ہیں جو اس عظیم خاتون کے فضائل اور خوبیوں کا ایک گوشہ ظاہر کرتے ہیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیعیان اہل بیت (س) کا ایک گروہ کافی دور سے امام موسی کاظم علیہ السلام کی زیارت کیلئے آیا لیکن آپ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اس گروہ میں شامل افراد امام علیہ السلام سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے تھے کہ جو انہوں نے لکھ کر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو سونپ دیئے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ان تمام سوالات کے جوابات لکھ کر دوسرے دن انہیں واپس کر دیئے۔واپس جاتے ہوئے اس گروہ کی امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے اس واقعے کی خبر امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے وہ سوالات اور جوابات دکھاؤ۔ جب امام علیہ السلام نے ان سوالات اور جوابات کو دیکھا تو فرمایا: ابوها فداها؛یعنی ایسی بیٹی کا باپ اس کے صدقے ہو جائے۔

 

 

ولادت تا ہجرت

اس عظیم القدر سیدہ نے ابتدا ہی سے ایسے ماحول میں پرورش پائی جہان والدین اور بہن بھائی سب کے سب اخلاقی فضیلتوں سے آراستہ تھے۔عبادت  اور  زہد، پارسائی اور تقوی، صداقت اور حلم، مشکلات اور مصائب میں صبر و استقامت، جود و سخا، رحمت و کرم، پاکدامنی اور ذکر و یاد الہی، اس پاک سیرت اور نیک سرشت خاندان کی ابھری ہوئی خصوصیات تھیں۔ سب برگزیدہ اور بزرگ اور ہدایت و رشد کے پیشوا، امامت کے درخشان گوہر اور سفینہ بشریت کے ہادی  تھے۔

علم و دانش کا سرچشمہ 

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے ایسے خاندان میں پرورش پائی جو علم و تقوا اور اخلاقی فضایل کا سرچشمہ تھا۔ آپ سلام اللہ علیہا کے والد ماجد حضرت موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ (ع) کے فرزند ارجمند حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ امام رضا علیہ السلام کی خصوصی توجہات کی وجہ سے امام ہفتم کے سارے فرزند اعلی علمی اور معنوی مراتب پر فائز ہوئے اور اپنے علم و معرفت کی وجہ سے معروف و مشہور ہوگئے۔

ابن صباغ ملکی کہتے ہیں: امام موسی کاظم علیہ السلام  کے ہر فرزند کی اپنی ایک خاص اور مشہور فضیلت ہے۔اس میں شک نہیں ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے فرزندوں میں حضرت رضا علیہ السلام کے بعد علمی اور اخلاقی حوالے سے حضرت سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا علمی اور اخلاقی مقام سب سے  بلند  ہے۔یہ والا مقام حضرت سیدہ معصومہ کے ناموں اور القاب اور ان کے بارے میں آئمہ کی زبان مبارک سے بیان ہونے والی تعاریف و توصیفات سے آشکار ہے۔ اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ سیدہ معصومہ بھی ثانی زہرا حضرت زینب کی  طرح عالمہ غیر مُعَلَّمہ  ہیں۔عالمہ ہیں مگر ان کا استاد نہیں ہے۔

دعوت نامہ

ان دونوں بہن بھائیوں کے درمیان محبت اور انس انتہائی گہرا تھا، لہذا امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کیلئے  بہت  مشکل تھی اور  یہ جدائی امام علی رضا علیہ السلام کیلئے بھی قابل برداشت نہیں تھی۔ لہذا مرو میں مستقر ہونے کے بعد امام علی رضا علیہ السلام نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو ایک خط لکھا اور ایک با اعتماد غلام کے ذریعے اس کو مدینہ بھجوایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ راستے میں کہیں نہ رکے تا کہ وہ خط جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچ سکے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا بھی خط ملتے ہی سفر کے لئے آمادہ  ہو گئیں اور مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔

ایران کی طرف ہجرت اور قم میں داخل ہونا

تاریخ قم کے مؤلف نے یوں لکھا ہے: سنہ200 ہجری میں مامون عباسی نے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کو مدینے سے "مرو" بلایا۔ مامون کا اصلی مقصد امام علیہ السلام کو اپنے نزدیک رکھ کر ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا لیکن اس نے افکار عمومی میں یہ مشہور کرایا کہ مامون نے امام رضا علیہ السلام کو اپنی ولایت عہدی(جانشینی) کیلئے بلایا ہے۔ سنہ 201 ہجری میں آپ کی بہن حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا  نے اپنے بھائی کے دیدار کی خاطر "مرو" کا سفر کیا ۔ اس سفر میں حضرت معصومہ نے اپنے خاندان اور قریبی رشتہ داروں کے ایک قافلے کے ساتھ ایران کی جانب سفر کیا۔ جب ساوہ کے مقام پر پہنچیں تو اہل بیت کے دشمنوں نے اس کاروان  پر حملہ کیا ان کے ساتھ لڑائی میں آپ کے سب بھائی اور بھتیجے شہید ہو گئے۔ حضرت معصومہ  سلام اللہ علیہا  نے جب اپنے سب عزیزوں کے جنازوں کو خون میں غلطاں دیکھا تو سخت بیمار ہو گئیں۔ اس حادثے کے بعد آپ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ انہیں قم کی طرف لے جائے۔

دوسرے قول کے مطابق جب آپ کی بیماری کی خبر آل سعد تک پہنچی تو انہوں نے ارادہ کیا کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے قم تشریف لانے کی درخواست کریں ، لیکن موسی بن خزرج جو کہ  امام رضا علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے، نے اس کام میں پہل کی اور حضرت  معصومہ  سلام اللہ علیہا کی خدمت میں جا کر آپ کے اونٹ کی مہار پکڑی، آپ کو قم کی طرف لے آئے اور اپنے گھر میں ٹھرایا۔  بعض منابع کے مطابق آپ 23 ربیع الاول کو اہل قم کے والہانہ استقبال میں قم میں وارد ہوئیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے 17 دنوں تک قم میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اس طرح اپنی زندگی کے آخر ی ایام اللہ تعالٰی کے ساتھ راز و نیاز اور انتہائی خضوع و خشوع کے ساتھ بسر فرمائے ۔آپ کی عبادت گاہ موسی بن خزرج کا گھر تھا جو کہ اب ستیہ یا بیت النورکے نام سے مشہور ہے۔

زیارت کی فضیلت

وہ روایات جو آپ کی زیارت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں آپ کے فضائل کی بہترین سند ہیں کیونکہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے پیروکاروں کو اس مرقد مطہر و منور کی زیارت کی تشویق فرمائی ہے نیز اس کا بہت عظیم ثواب بیان فرمایا ہے یہ ثواب ایسا ہے کہ جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اولاد میں امام رضا علیہ السلام کے بعد فقط آپ ہی کے سلسلے میں کتابوں میں ملتا ہے ۔حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے سلسلے میں ائمہ معصومین سے متعدد احادیث و روایت نقل ہوئی ہیں, ہم یہاں فقط چند روایات ذکر کرتے  ہیں:

1۔قم کے نامور محدث  سعد ابن سعدکہتے ہیں :میں امام رضا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہؤا تو امام ہشتم علیہ السلام نے مجھ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے  سعد! ہماری ایک قبر تمہارے ہاں ہے۔میں نے عرض کیا:میری جان آپ پر فدا ہو؛ کیا آپ فاطمہ بنت موسی بن جعفر کے مزار کی بات کررہے ہیں؟ فرمایا:  مَنْ زارَها فَلَهُ الجَنَّةُ ؛ جو شخص ان کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے ان کی زیارت کرے، اس کے لئے بہشت ہے۔[1]

2۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: مَن زارَها عَارِفاً بِحَقِّها فَلَهُ الجَنَّةُ ؛ جو کوئی ان کی زیارت کرے اور ان کے حق کی معرفت رکهتا ہو اس پر جنت واجب ہے۔[2]  ایک اور حدیث میں ہے کہ:  ان کی زیارت بہشت کے ہم پلہ ہے۔

3۔ نیز فرمایا:« اِنَّ زيارَتَها تُعادِلُ الْجَنَّةَ ؛ جو شخص ان کی زیارت کرے اس کی جزا بہشت ہے۔[3]

4۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: « مَنْ زارَ الْمَعْصُومَةَ عَارِفاً بِحَقِّها فَلَهُ الجَنَّةُ ؛جو شخص از روئے معرفت آپ کی زیارت کرے اس کا انعام جنت ہے۔[4]

5۔ نیز فرمایا :مَنْ زارَ الْمَعْصُومَةَ بِقُمْ كَمَنْ زارَني ؛ جو شخص قم میں حضرت معصومہ (س) کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی ہے۔[5]

6۔ اس سلسلے میں روایت ہے کہ ابن الرضا امام محمد تقی الجوادعلیہ السلام نے فرمایا: مَن زارَ قَبرَ عَمَّتي بِقُمَّ ، فَلَهُ الجَنَّةُ ؛جو شخص قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے بہشت اس پر واجب ہے۔[6]

7۔ایک مؤمن امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے مشہد گیا اور وہاں سے کربلا روانہ ہوا اور ہمدان کے راستے کربلا چلا گیا۔ سفر کے دوران اس نے خواب میں امام رضا علیہ السلام کی زیارت کی اور امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: کیا ہوتا اگر تم سفر کے دوران قم سے عبور کرتے اور میری ہمشیره کی زیارت کرتے؟۔

8۔آقای   خوانساری لکهتے ہیں: روایت ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص میری زیارت کے لئے نہ آسکے( رے) میں میرے بهائی (حمزه ) کی زیارت کرے یا قم میں میری ہمشیره معصومہ کی زیارت کرے اس کو میری زیارت کا ثواب ملے گا۔[7]

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا : اِنَّ لِلّهِ حَرَمَا وَ هُوَ مَكَّةُ وَ لِرَسولِهِ حَرَمَا وَ هُوَ الْمَدينَةُ وَ لِاَميرِ الْمُؤمِنيينْ حَرَمَا وَ هُوَ الْكُوفَةُ وَ لَنا حَرَمَا و هُوَ قُمْ وَ سَتُدْفَنُ فيهِ اِمْرَأَةٌ مَنْ وُلْدي تُسَمّي فاطِمَةُ مَنْ زارَها وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ؛ خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے رسول کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے ، امیرالموٴمنین کے لئے ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے ہمارے لئے ایک حرم ہے اور وہ قم ہے ، عنقریب وہاں میری اولاد میں سے ایک خاتون دفن کی جائے گی جس کا نام فاطمہ ہوگا   جو بھی اس کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی۔ راوی کہتا ہے  امام علیہ السلام نے یہ حدیث اس وقت ارشاد فرمائی کہ جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی والدہ حاملہ بھی نہ ہوئی تھیں ۔[8]

اس روایت سے خصوصا اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ولادت سے قبل یہ حدیث صادر ہوئی بخوبی اندازہ ہوتا ہے  کہ حضرت فاطمہ معصومہ کا قم میں دفن ہونا خداوند عالم کے اسرار میں سے ایک سر خفی ہے اور اس کا تحقق مکتب تشیع کی حقانیت کی ایک عظیم دلیل ہے۔

اگرچہ یہ ساری روایات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کی فضیلت اور اہمیت پر دلالت کرتی ہیں لیکن ان روایات میں بعض نکات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جیسے: جنت کا واجب ہونا، جنت کے برابر ہونا، بہشت کا مالک ہوجانا، جو لفظ ( لہ) سے  سمجھے جاتے ہیں اور ان کی زیارت کا حضرت رضا علیہ السلام کی زیارت کے برابر ہونا اور حضرت رضا علیہ السلام کا اپنے شیعہ سے شکوہ کرنا جس نے حضرت معصومہ سلام الله علیہا کی زیارت نہیں کی تهی۔

حضرت معصومہ علیہا السلام کی زیارت کی سفارش صرف ایک امام نے نہیں فرمائی ہے بلکہ تین اماموں (علیہم السلام) نے ان کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے: امام صادق، امام رضا و امام جواد علیہم السلام  اور دلچسپ  بات یہ  ہے کہ امام صادق  علیہ السلام نے حضرت معصومہ کی ولادت با سعادت سے بہت پہلے بلکہ آپ (س) کے والد امام کاظم علیہ السلام کی ولادت سے بهی پہلے ان کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے۔

دوسرا دلچسپ نکتہ پانچویں روایت ہے جس میں حضرت معصومہ کی زیارت امام رضا علیہ السلام کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔ زید شحّام نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ : یا بن رسول الله جس شخص نے آپ میں سے کسی ایک کی زیارت کی اس کی جزا کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:  جس نے ہم میں سے کسی ایک کی زیارت کی ، كَمَنْ زَارَ رَسُولَ اللَّهِ ص ؛ اس شخص کی طرح ہے جس نے رسول خدا صلی الله و علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کی ہو  چنانچہ جس نے سیده معصومہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا  کی زیارت کی در حقیقت اس نے رسول خدا کی زیارت کی ہے اور پهر حضرت رضا علیہ السلام  جو سیدہ معصومہ کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قراردیتے ہیں فرماتے ہیں  :أَلَا فَمَنْ زَارَنِي وَ هُوَ عَلَى غُسْلٍ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ‏ ؛ آگاه رہو کہ جس نے غسل زیارت کرکے میری زیارت کی وه گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح کہ وه ماں سے متولد ہوتے وقت گناہوں سے پاک تها۔[9] ان احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیده معصومہ سلام الله کی زیارت گناہوں کا کفاره بهی ہے اور جنت کی ضمانت بهی ہے بشرطیکہ انسان زیارت کے بعد گناہوں سے پرہیز کرے۔

دو حدیثوں میں امام صادق اور امام رضا علیہما السلام نے زیارت کی قبولیت اور وجوب جنت کے لئے آپ (س) کے حق کی معرفت کو شرط قرار دیا ہے اور ہم آپ (س) کی زیارت میں پڑهتے ہیں :يا فاطِمَة ا ِشْفَعی لی فِی الْجَنَّة ِ، فَا ِنَّ لَكَ عِنْدَاللّْہ ِشَأْناً مِنَ الشَّأْن ؛اے فاطمہ جنت میں میری شفاعت فرما کیونکہ آپ کے لئے خدا کے نزدیک ایک خاص شأن و منزلت ہے۔ امام صادق علیہ السلام کے ارشاد گرامی کے مطابق تمام شیعیان اہل بیت علیہم السلام  حضرت سیده معصومہ سلام الله کی شفاعت سے جنت میں داخل ہوں  گے اور زیارت نامے میں ہے کہ آپ ہماری شفاعت فرمائیں کیونکہ آپ کے لئے ایک خاص شأن و منزلت ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ یہ شأن، شأنِ ولایت ہے جو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو حاصل ہے اور اسی منزلت کی بنا پر وه مؤمنین کی شفاعت فرمائیں گی اور اگر کوئی اس شأن کی معرفت رکهتا ہو اور آپ کی زیارت کرے تو اس پر جنت واجب ہے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا سے منقول روایات

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے فضائل اور کمالات کے مختلف پہلو ہیں  اس مختصر مقالہ میں یہ وسعت نہیں ہے کہ تمام پہلوؤں کو   بیان کیا جائے، حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی فضائل و کمالات کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ سے بعض روایات نقل ہوئی ہیں ان میں سے فقط تین کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

عَنْ فاطِمَهَ بِنْتِ مُوسَي بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ فاطِمَهَ بِنْتِ الصادِقِ جَعْفَرِِ بْنِ مُحَمَدٍ، عَنْ فاطِمَهَ بِنْتِ الْباقِرِ مُحَمَدِ بْنِ عَلِيٍ، عَنْ فاطِمَهَ بِنْتِ السَجادِ عَلِيِ بْنِ الْحُسَيْنِ زَينِ الْعابِدينَ، عَنْ فاطِمَهَ بِنْتِ رَسُولِ اللهِ(ص)، قالَتْ قالَ رَسُولُ اللهِ: اَلا مَنْ ماتَ عَلي حُبِ آلِ مُحَمَدٍ ماتَ شَهِيداً؛ حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام فاطمہ بنت امام جعفر صادق علیہ السلام سے وہ فاطمہ بنت امام باقر علیہ السلام سے وہ فاطمہ بنت امام سجاد علیہ السلام سے وہ فاطمہ بنت امام حسین علیہ السلام سے وہ زینب بنت امیر الموٴمنین علیہ السلام وہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہاسے نقل فرماتی ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فر مایا : آگاہ ہو جاوٴ کہ جو آل محمد کی محبت پر مرے گا وہ شہید مرا ہے۔[10]

حضرت علی علیہ السلام اور ان کے شیعوں کی قدر و منزلت

حَدَّثَتْنَا فَاطِمَةُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضَا ع قَالَتْ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ وَ زَيْنَبُ وَ أُمُّ كُلْثُومٍ بَنَاتُ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ ع قُلْنَ حَدَّثَتْنَا فَاطِمَةُ بِنْتُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع قَالَتْ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ع قَالَتْ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع قَالَتْ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ وَ سُكَيْنَةُ ابْنَتَا الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع عَنْ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عَلِيٍّ ع عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ص قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ لَمَّا أُسْرِيَ بِي إِلَى السَّمَاءِ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ دُرَّةٍ بَيْضَاءَ مُجَوَّفَةٍ وَ عَلَيْهَا بَابٌ مُكَلَّلٌ بِالدُّرِّ وَ الْيَاقُوتِ وَ عَلَى الْبَابِ سِتْرٌ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا مَكْتُوبٌ عَلَى الْبَابِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّه‏ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ عَلِيٌّ وَلِيُّ الْقَوْمِ وَ إِذَا مَكْتُوبٌ عَلَى السِّتْرِ بَخْ بَخْ مِنْ مِثْلِ شِيعَةِ عَلِيٍّ فَدَخَلْتُهُ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ عَقِيقٍ أَحْمَرَ مُجَوَّفٍ وَ عَلَيْهِ بَابٌ مِنْ فِضَّةٍ مُكَلَّلٍ بِالزَّبَرْجَدِ الْأَخْضَرِ وَ إِذَا عَلَى الْبَابِ سِتْرٌ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا مَكْتُوبٌ عَلَى الْبَابِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ عَلِيٌّ وَصِيُّ الْمُصْطَفَى وَ إِذَا عَلَى السِّتْرِ مَكْتُوبٌ بَشِّرْ شِيعَةَ عَلِيٍّ بِطِيبِ الْمَوْلِدِ فَدَخَلْتُهُ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ زُمُرُّدٍ أَخْضَرِ مُجَوَّفٍ لَمْ أَرَ أَحْسَنَ مِنْهُ وَ عَلَيْهِ بَابٌ مِنْ يَاقُوتَةٍ حَمْرَاءَ مُكَلَّلَةٍ بِاللُّؤْلُؤِ وَ عَلَى الْبَابِ سِتْرٌ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا مَكْتُوبٌ عَلَى السِّتْرِ شِيعَةُ عَلِيٍّ هُمُ الْفَائِزُونَ فَقُلْتُ حَبِيبِي جَبْرَئِيلُ لِمَنْ هَذَا فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ لِابْنِ عَمِّكَ وَ وَصِيِّكَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع يُحْشَرُ النَّاسُ كُلُّهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حُفَاةً عُرَاةً إِلَّا شِيعَةَ عَلِيٍّ ؛فاطمہ معصومہ علیہا السلام (اسی مذکورہ سند سے ) فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے نقل فرماتی ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا : جب شب معراج، میں بہشت میں داخل ہوا تو ایک قصر دیکھا جس کا ایک دروازہ یاقوت اور موتیوں سے آراستہ تھا اس کے دروازے پر ایک پردہ آویزاں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا: خدا کے علاوہ کوئی لائق پرستش نہیں محمد اللہ کے رسول اور علی لوگوں کے رہبر ہیں  اور اس کے پردے پر لکھا تھا :آفرین  آفرین   علی علیہ السلام کے شیعوں جیسا کون ہے؟ میں اس قصر میں داخل ہوا وہاں ایک عمارت دیکھی جو عقیق سرخ سے بنی ہوئی تھی اس کا دروازہ چاندی کا تھا جو زبرجد سے مرصع تھا اس در پر بھی ایک پردہ آویزاں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا: محمد خدا کے رسول اور علی مصطفیٰ کے وصی ہیں۔اس کے پردے پر مرقوم تھا: علی شیعوں کو حلال زادہ ہونے کی مبارک باد دے دو۔میں داخل ہوا تو وہاں زبرجد سے بنا ہوا ایک محل دیکھا جس سے بہتر میں نے نہیں دیکھا تھا اس محل کا دروازہ سرخ یاقوت کا تھا جو موتیوں سے مزین تھا اس پر ایک پردہ لٹکا تھا میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ پردے پر لکھا ہے: علی کے شیعہ ہی کامیاب ہیں۔ میں نے جبرئیل سے سوال کیا کہ یہ محل کس کا ہے جبرئیل نے کہا آپ کے چچا زاد بھائی، وصی و جانشین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کا ہے قیامت کے دن سب بجز علی کے شیعوں کے ننگے پاوٴں وارد ہونگے۔[11]

مَنْ أصْعَدَ إلی اللّهِ خالِصَ عِبادَتِهِ، أهْبَطَ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ لَهُ أفْضَلَ مَصْلَحَتِهِ؛حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا روایت کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنی خالص عبادت اللہ تعالی کی بارگاہ میں بھیجے گا خدا اپنی بہترین مصلحتیں اس کی جانب اتارے گا۔[12]

 

 


[1] ۔ عوالم العلوم:ج 21، ص 353۔

[2] ۔  بحار الانوار: ج 48 صفحہ 307۔

[3] ۔ تاريخ قم: ص 214۔

[4] ۔ عیون اخبارالرضا (ع)۔

[5] ۔ ناسخ التواريخ:ج 3، ص 68۔

[6] ۔ كامل الزيارات ، ص 536۔

[7] ۔ زبدة التصانيف، ج 6، ص 159۔

[8] ۔ تاريخ قم: ص 214۔

[9] ۔ عیون اخبار الرضا : ج 2، ص 260۔

[10] ۔اللولؤ الثمینہ: ص  217۔

[11] ۔بحار الأنوار : ج‏65، ص: 77

[12]۔میزان الحکمة: ج 2 ، ص 882۔

تعصب،قرآن کی نگاه میں

 

نگارش: غلام یسین

 

کسی بھی چیز یا شخص کے ساتھ غیر منطقی اور غیر معقول وابستگی انسان کی بد ترین صفت ہے  جسے تعصب کہا جاتا ہے ۔ تعصب بنی نوع انسان کے معنوی تکامل کی راہ میں شدید رکاوٹ ہے۔ گذشتہ امتوں کے دین الہی سے انحراف کا ایک اہم سبب یہی تعصب اور غیر معقول وابستہ ہو نا ہے ۔  وہ  تعصب کی بنیاد پر اپنے آباؤ و اجدادکی  اندھی تقلید پر قائم رہے جس کی وجہ سے راہ ہدایت سے بھٹک گئے۔ قرآن  کریم کی رو سے اندھی تقلید کا اصلی سبب جاہلانہ تعصب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ  متعصب افراد اپنے اجداد کی پیروی  کے نتیجے کسی دین کو قبول کرنے کےلئے تیار نہیں ہوتے اگرچہ وہ دین انسانی فطرت اور عقل کے عین مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن نے  تعصب کو انسانوں کے زوال، گمراہی اور جہنمی ہونے کا سبب قرار دیاہے ۔  فرعون اور قوم موسی علیہ السلام نے حضرت موسی علیہ السلام کو کہا تھا:

قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَاءَنَا وَ تَكُونَ لَكُمَا الْكِبرِْيَاءُ فىِ الْأَرْضِ وَ مَا نحَنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ۔(یونس،۷۸)؛

وہ کہنے لگے: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس راستے سے پھیر دو جس پرہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ملک میں تم دونوں کی بالادستی قائم ہو جائے؟ اور ہم تو تم دونوں کی بات ماننے والے نہیں ہیں۔

اسی  طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مشرکین نے کہا:

بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَیْنا عَلَیْهِ آباءَنا (بقرہ، ۱۷۰)

ہم اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلیں گے ۔

امیر المؤمنین علیہ السلام کی نگاہ میں ابلیس لعین تعصب کا بانی ہے :

 «الَّذِي وَضَعَ أَسَاسَ الْعَصَبِيَّةِ...»؛ شیطان نے ہی تعصب کی بنیاد ڈالی ہے ۔(نہج البلاغہ، دشتی، ج۱، ص۱۹۳)  کیونکہ اس نے کہا تھا کہ :

قالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَني‌ مِنْ نارٍ وَ خَلَقْتَهُ مِنْ طين‌۔ (ص، ۷۶)

میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ اللہ نے مجھے آگ سے خلق کیا ہے اور آدم کو مٹی سے ۔

آج دنیا تعصب کی آگ میں جل  رہی ہے ۔ کہیں قومی تعصب، کہیں مذہبی تعصب اور کہیں لسانی اور زبانی تعصب تاہے  اور اسی تعصب کی بنا پر لوگ ایک دوسرے پر برتری جتلاتے ہیں ۔ قوم و مذہب و ملت کو کامیابی اور نیک بختی کا اصلی سبب جانا جاتا ہے  ۔ آنکھوں پر تعصب کے ایسے پردے لٹک  چکےہیں کہ حق  و باطل کی پہچان ختم ہوچکی ہے یہاں تک کہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹی گواہیوں  کا رواج عام ہو گیا ہے ۔ قوم پرستی اور قبیلہ پروری کی بنیاد پر اپنے خاندان کے افراد کو ہر حال میں سچا ثابت کرنے کی کوشش  کی جاتی ہے بلکہ سچا ثابت کرکے ہی دم لیا جاتا ہے جبکہ اسلام نے اس سے سختی سے منع کیاہے بلکہ اسے شیطانی عمل قرار دیاہے ۔اگر تعصب کے شعلے بجھ جائیں تو  بہت سے مسائل خود بخود حل  ہو جائیں گے۔ ہم ان شاء اللہ اس مقالے میں تعصب کےساتھ مربوط آیات  کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ متعدد آیات میں دنیا کے مسلمانوں کی ایک اہم مشکل تعصب ہے اوراسی تعصب کی وجہ سے اسلامی معاشرے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے قاصر ہیں۔

 

قومی تعصب

کسی  قوم  یا گروہ کے ساتھ وابستہ ہونا ، قومی یا حزبی تعصب کہلاتا ہے ۔ یہ ایسا تعصب ہے جو انسان کو حقیقت سمجھنے اور ماننے سے روکتا ہے ۔ انسان کسی قوم یا گروہ کے رہبر اور رہنما سے اتنا متاثر ہو جاتا ہے کہ حق کا معیار صرف اسی کے افکار کو سمجھتا ہے اور تمام درست اور نا درست کو اسی ترازو پر تولتا ہے ۔ پس جو کچھ لیڈر کہتاہے بغیر کسی کمی اور زیادتی کےاسی کو قبول کر لیتا ہے  اور اپنے آپ کو اصلاح پسند اور معیار حق سمجھنے  لگتا ہے ۔لہٰذا قرآن مجید اس کے متعلق فرماتا ہے :

وَ إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُواْ فىِ الْأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نحنُ مُصْلِحُونَ (بقره،11)

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں: ہم تو بس اصلاح کرنے والے ہیں۔

کسی ایک گروہ یا قوم کے ساتھ منسلک ہونا اور دوسروں کو ناحق سمجھنا نجات کا سبب نہیں بلکہ ایمان اور نیک عمل نجات کا وسیلہ ہے  جیسا کہ قرآن ارشاد فرماتا ہے :

مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ عَمِلَ صالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ (بقره، 62)

جو کوئی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ایک نیک عمل بجا لائے تو ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

دینی تعصب

 

قرآن کریم گذشتہ اقوام کے  دینی تعصب کے بارے متعدد مقامات پر گفتگو کرتا ہے  جیسا کہ حضرت ہود علیہ السلام کی  قوم کے بارے میں فرماتا ہے:

قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَ نَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَاؤُنَا  فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ(اعراف،70)

انہوں نے کہا : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کریں اور جن کی ہماری باپ دادا پرستش کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں؟ پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے لیے وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔

تعصب کی وجہ سے ان کی  نگاہ میں توحید الہی ایک خوفناک امرتھا  اور بے شعور بتوں کی پوجا  اہم کام تھا۔

یہودیوں کا مذہبی تعصب

الف) دوسرے ادیان پر برتری

تعصب کی بنا پر یہودی ہمیشہ اپنے دین کو دوسرے ادیان پر برتر سمجھتے تھے ۔ اپنے دین کو حق دوسرے ادیان کو باطل سمجھتے تھے چنانچہ وہ کہتے تھے :

وَ قَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً (بقره،80)

اور ( یہودی )کہتے ہیں: ہمیں تو جہنم کی آگ گنتی کے چند دنوں کے علاوہ چھو نہیں سکتی۔

لیکن اللہ تعالی نے ان کو دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا:

قُلْ أَتخَّذْتمُ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يخُلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلىَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ(بقره،80)

(اے رسول)کہدیجیے:کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھاہے کہ اللہ اپنے عہد کے خلاف ہرگز نہیں کرے گا یا تم اللہ پر تہمت باندھ رہے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے ۔

 

حق اور کامیابی کا  معیار خدا پر ایمان اور عمل صالح ہے نہ تعصب کی بنا پر کسی مذہب اور دین کے ساتھ وابستہ ہو جانا۔ اللہ تعالی صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں اس نکتہ کی طرف یوں اشارہ فرتا ہے :

وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَتِ أُوْلَئكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ  هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ(بقره، 82)

  اور جو ایمان لائیں اور اچھے اعمال بجا لائیں، یہ لوگ اہل جنت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

ایک اور مقام پر فرماتا ہے :

بَلىَ‏ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ محُسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يحَزَنُونَ(بقره،112)

ہاں! جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا اور وہ نیکی کرنے والاہے تو اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی حزن۔

ب) اپنے آپ کو حق اور دوسروں کو باطل سمجھنا

یہود و نصاری نہ صرف اپنے آپ کو حق اور دوسروں کو باطل سمجھتے ملکہ ایک دوسروے کو نیچا دیکھانے کےلئے ہمیشہ آپس میں جھکڑتے رہتے تھے ۔ قرآن مجید نے ان کی اس ذہنیت کی یوں منظر کشی کی ہے :

وَ قالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصارى‏ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ وَ قالَتِ النَّصارى‏ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ وَ هُمْ يَتْلُونَ الْكِتابَ كَذلِكَ قالَ الَّذينَ لا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ فيما كانُوا فيهِ يَخْتَلِفُونَ (بقره، 113)

اور یہود کہتے ہیں: نصاریٰ کا مذہب کسی بنیاد پر استوار نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں : یہود کا مذہب کسی بنیاد پر استوار نہیں، حالانکہ وہ (یہود و نصاریٰ) کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اس طرح کی بات جاہلوں نے بھی کہی، پس اللہ بروز قیامت ان کے درمیان اس معاملے میں فیصلہ کرے گا جس میں یہ اختلاف کرتے تھے۔

اسی طرح یہود و نصاری اپنے آپ کو ہدایت یافتہ اور دوسرے ادیان کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کے ساتھ منسلک ہونے کی دعوت دیتے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دین ابراہیمی کی پیروی کرنے کا حکم دیا جیسا کہ قرآن میں ارشاد فرمایا:

وَ قالُوا كُونُوا هُوداً أَوْ نَصارى‏ تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْراهيمَ حَنيفاً وَ ما كانَ مِنَ الْمُشْرِكينَ (بقره،135)

وہ لوگ کہتے ہیں: یہودی یا نصرانی بنو تو ہدایت یافتہ ہو جاؤ گے، ان سے کہدیجیے : (نہیں)بلکہ یکسوئی سے ملت ابراہیمی کی پیروی کرو اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھے۔

ج) اپنے آپ کو آخرت کا حقدار سمجھنا

یہودیوں کی  بدترین صفت یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو آخرت کی بے پایان نعمتوں کا مستحق گردانتے تھے حالانکہ قرآن کریم نے ان کے اس دعوے کو واضح طور پر جھٹلا یا ہے  اور ان کو چیلنج کیا ہے کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو تو دلیل لے آؤ اور وہ دلیل موت کی تمنا ہے ، چنانچہ قرآن کریم میں ہم پڑھتے ہیں:

قُلْ إِن كاَنَتْ لَكُمُ الدَّارُ الاَخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُاْ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ. (بقره،94)

کہدیجیے: اگر اللہ کے نزدیک دار آخرت دوسروں کی بجائے خالصتاً تمہارے ہی لیے ہے اور تم ( اس بات میں ) سچے بھی ہو تو ذرا موت کی تمنا کرو۔

 قرآن کی نگاہ میں حقیقی مومن وہ ہیں جو کبھی حق کو کسی دوسری چیز پر قربان نہیں کرتے  بلکہ ہمیشہ  حق کی سربلندی کی سعی کرتے ہیں  جیسا کہ سورہ توبہ میں ارشاد رب العزت ہے:

قُلْ إِنْ كانَ آباؤُكُمْ وَ أَبْناؤُكُمْ وَ إِخْوانُكُمْ وَ أَزْواجُكُمْ وَ عَشيرَتُكُمْ وَ أَمْوالٌ اقْتَرَفْتُمُوها وَ تِجارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسادَها وَ مَساكِنُ تَرْضَوْنَها أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ جِهادٍ في‏ سَبيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفاسِقينَ. (توبه،24)

کہدیجیے:تمہارے آباءاور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ اموال جو تم کماتے ہو اور تمہاری وہ تجارت جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری پسند کے مکانات اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔

آباؤ و اجداد کی تقلید

قرآن کریم نے مشرکین کی جانب سے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کی شدت سے مذمت کی ہے اور اس عجیب اور بے دلیل منطق کی نفی کی ہے  چنانچہ فرمایا ہے :

وَ إِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُواْ مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ ءَابَاءَنَا أَوَ لَوْ كاَنَ ءَابَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْا وَ لَا يَهْتَدُونَ. (بقره،170)

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے، خواہ ان کے آباء و اجداد نے نہ کچھ عقل سے کام لیا ہو اور نہ ہدایت حاصل کی ہو۔

البتہ یہ بات واضح  کردینا ضروری ہے کہ  آباؤ اجداد کی تقلید ہر صورت میں قابل مذمت نہیں ہے بلکہ  اگر وہ عقلمند  اور ہدایت یافتہ افراد تھے تو نہ صرف ان کی تقلید قابل مذمت نہیں بلکہ ان کی اتباع عین عقلانیت ہے۔اگرچہ آیات قرآنی کا لحن بتا رہا ہے کہ مشرکین کے اجداد عقلمند نہ تھے بلکہ نادان اور جاہل افراد تھے ۔

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر  آباؤ اجداد کی اندھی تقلید  اور پیروی کی  مذمت  کی  ہے اور اسج سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس  کی وجہ سے انسان کے چشم و گوش بند ہو جاتے ہیں  اور انسان ہدایت کے راستے کو گم کر بیٹھتا ہے ۔ (تفسير نمونه، ج‏1، ص: 576) سوره مائده میں  اپنے بزرگوں کی پیروی کرنے والے اہل کتاب  کے بارے میں آیا ہے :

قُلْ يَأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُواْ فىِ دِينِكُمْ غَيرْ الْحَقّ‏ وَ لَا تَتَّبِعُواْ أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّواْ مِن قَبْلُ وَ أَضَلُّواْ كَثِيرًا وَ ضَلُّواْ عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ. (مائده، 77)

کہدیجیے: اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو پہلے ہی گمراہی میں مبتلا ہیں اور دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی گمراہی میں ڈال چکے ہیں اورسیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔

اسی سورہ میں ایک اور مقام پر بتایا گیا ہےکہ آباؤ اجداد کی اندھی تقلید حق کو تسلیم کرنے سے رکاوٹ ہے :

وَ إِذَا قِيلَ لهَمْ تَعَالَوْاْ إِلىَ‏ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَ إِلىَ الرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَاءَنَا أَ وَ لَوْ كاَنَ ءَابَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْا وَ لَا يهَتَدُونَ. (مائده، 104)

اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو دستور اللہ نے نازل کیا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں: ہمارے لیے وہی دستور کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، خواہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور ہدایت پر بھی نہ ہوں۔

حقیقی عزت و افتخار

متعصب اور ضدی لوگ اپنے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کو ہی عزت و افتخار کا حقیقی سبب جانتے ہیں  جبکہ قرآن کریم نے ان کی اس سوچ پر قلم بطلان کھینچا ہے اور  ایمان اور عمل صالح کو عزت اور افتخار کا حقیقی سبب قرار دیا ہے ۔چنانچہ سورہ نساء میں ارشاد فرماتا ہے :

وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تجَرِى مِن تحَتِهَا الْأَنْهَارُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا وَ مَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا. (نساء،122)

اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں عنقریب ہم انہیں ایسی جنتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہ وہاں ابد تک ہمیشہ رہیں گے، اللہ کا سچا وعدہ ہے اور بھلا اللہ سے بڑھ کر سچی بات کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟

 تعصب کے آثار

1۔ حق سے انکار

قرآن کریم ،ضدی اور متعصب اہل کتاب کے بارے فرماتا ہے کہ اہل کتاب کے علماء ، پیغمبر اسلام کو اچھی طرح پہچانتے تھے لیکن ان کا ایک گروہ ایسا تھا جو حق کو چھپاتا اور اس کا انکار کرتا تھا۔(تفسير نمونه، ج‏1، ص 499)قرآن میں ارشاد رب العزت ہے :

الَّذِينَ آتَيْناهُمُ الْكِتابَ يَعْرِفُونَهُ كَما يَعْرِفُونَ أَبْناءَهُمْ وَ إِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَ هُمْ يَعْلَمُونَ.(بقره، 146)

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول)کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور ان میں سے ایک گروہ جان بوجھ کر حق کو چھپا رہا ہے۔

اگرچہ اہل کتاب کے ایک گروہ نے واضح نشانیاں دیکھ کر اسلام قبول کر لیا جیسا کہ یہودی عالم عبد اللہ بن سلام جس نے اسلام قبول لیا تھا کہتا ہے: میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے  بیٹے سے زیادہ پہچانتا ہوں۔(تفسير نمونه، ج‏1، ص 499)

قرآن کریم  میں متعدد مقامات پر بتایا گیا ہے کہ تعصب ہی حق سے انکار کا اصلی سبب ہے ۔ ہم ذیل میں اس بارے میں چند آیات کی تلاوت کرتے ہیں:

وَ قالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَ قالَتِ النَّصارى‏ الْمَسيحُ ابْنُ اللَّهِ ذلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْواهِهِمْ يُضاهِؤُنَ قَوْلَ الَّذينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (توبه،30)

اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں ان لوگوں کی باتوں کے مشابہ ہیں جو ان سے پہلے کافر ہوچکے ہیں، اللہ انہیں غارت کرے، یہ کدھر بہکتے پھرتے ہیں؟

سورہ اعراف میں فرماتا ہے:

قالُوا أَ جِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَ نَذَرَ ما كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتِنا بِما تَعِدُنا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقينَ (اعراف،70)

انہوں نے کہا : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کریں اور جن کی ہماری باپ دادا پرستش کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں؟ پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے لیے وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو.

سورہ یونس میں یوں آیا ہے :

قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا عَمَّا وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا وَ تَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِياءُ فِي الْأَرْضِ وَ ما نَحْنُ لَكُما بِمُؤْمِنينَ (يونس، 78)

وہ کہنے لگے: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس راستے سے پھیر دو جس پرہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ملک میں تم دونوں کی بالادستی قائم ہو جائے؟ اور ہم تو تم دونوں کی بات ماننے والے نہیں ہیں۔

سورہ رعدہ میں فرماتا ہے:

وَ الَّذِينَ ءَاتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَ مِنَ الْأَحْزَابِ مَن يُنكِرُ بَعْضَهُ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَ لَا أُشْرِكَ بِهِ إِلَيْهِ أَدْعُواْ وَ إِلَيْهِ مَابِ(رعد، 36)

اور جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ آپ کی طرف نازل ہونے والی کتاب سے خوش ہیں اور بعض فرقے ایسے ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے، کہدیجئے: مجھے تو صرف یہ حکم ملا ہے کہ میں اللہ کی بندگی کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں، میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوںاوراسی کی طرف مجھے رجوع کرناہے.

2.  تکبر

اہل کتاب منطقی بات کو ماننے والے نہ تھے اور اپنی کتاب میں موجود احکام کو پس پشت ڈال دیتے تھے۔ اگر ان سے پوچھا جاتا کہ تمہارے اس کام کی دلیل کیاہے تو وہ  نسلی تعصب کو دلیل بتاتے تھے ۔(تفسير نمونه، ج‏2، ص: 485) لہٰذا دینی اور قومی تعصب حق کو سمجھنے سے رکاوٹ اور انسان کے اندر غرور پیدا ہونے کا سبب ہے ۔ ایسے تعصب کے متعلق قرآن کریم یوں ارشاد فرماتا ہے:

أَ لَمْ تَرَ إِلىَ الَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلىَ‏ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلىَ‏ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَ هُم مُّعْرِضُونَ * ذَالِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ وَ غَرَّهُمْ فىِ دِينِهِم مَّا كَانُواْ يَفْترَونَ (آل عمران،23، 24)

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیاہے انہیں کتاب خدا کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کج ادائی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتا ہے۔  ان کا یہ رویہ اس لیے ہے کہ وہ کہتے ہیں:جہنم کی آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو نہیں سکتی اور جو کچھ یہ بہتان تراشی کرتے رہے ہیں اس نے انہیں اپنے دین کے بارے میں دھوکے میں رکھا ہے۔

ایک اور مقام پر فرماتا ہے:

وَ قَالَتِ الْيَهُودُ وَ النَّصَارَى‏ نَحنُ أَبْنَؤُاْ اللَّهِ وَ أَحِبَّؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم بَلْ أَنتُم بَشرَ مِّمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَ لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا  وَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ(مائده، 18)

اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، کہدیجیے: پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے؟ بلکہ تم بھی اس کی مخلوقات میں سے بشر ہو، وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی حکومت ہے اور (سب کو)اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

۳۔ دینی رہنماؤں کے بارے غلو

آسمانی  اور الہی ادیان سے انحراف کا ایک اہم اور اصلی سر چشمہ یہ ہے کہ لوگ اپنے دینی رہنماؤں کے بارے میں غلو سے کام لیتے  ہیں اور ان کو حد سے بڑھا دیتے ہیں ۔ ان کے ساتھ والہانہ محبت اور عقیدت  کے نتیجے میں ایسی صورتحال پیش آتی ہے۔لہٰذا غلو کی وجہ سے یکتاپرستی کی بنیاد کھوکھلی ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام غلو اور غالیوں کےساتھ سختی سے پیش آتا ہے  حتی کہ کفار سے بھی زیادہ غالیوں کی مذمت کی گئی ہے۔ (تفسير نمونه، ج‏4، ص: 221)

حضرت عیسی علیہ السلام کے بارےمیں عیسائیوں نے غلو کیا اور ان کو اللہ کا بیٹا بنا دیا۔ قرآن کریم نے ان کے باطل عقیدے پر خط بطلان کھینچا ہے ، ان کو غلو سے منع کیااور فرمایا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے نہیں بلکہ حضرت مریم سلام للہ علیہا کے بیٹے ہیں :

يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا في‏ دينِكُمْ وَ لا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلاَّ الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسيحُ عيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَ كَلِمَتُهُ أَلْقاها إِلى‏ مَرْيَمَ وَ رُوحٌ مِنْهُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَ رُسُلِهِ وَ لا تَقُولُوا ثَلاثَةٌ انْتَهُوا خَيْراً لَكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلهٌ واحِدٌ سُبْحانَهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ وَ كَفى‏ بِاللَّهِ وَكيلاً (نساء، 171)

اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو،بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور اس کی طرف سے وہ ایک روح ہیں، لہٰذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہو کہ تین ہیں، اس سے باز آ جاؤ اس میں تمہاری بہتری ہے، یقینا اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، آسمانوں اور زمین میں موجود ساری چیزیں اسی کی ہیں اور کارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔

اس آیت کی روشنی میں عیسائیوں کے مندرجہ ذیل نظریات کو باطل قرار دیا گیا ہے:

۱۔ حضرت عیسی علیہ السلام  ، اللہ کے نہیں بلکہ صرف حضرت مریم علیہا السلام کے فرزند ہیں۔

۲۔ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے فرزند نہیں بلکہ اس کے نبی ہیں۔

۳۔ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے فرزند نہیں بلکہ کلمۃ اللہ ہیں۔

۴۔ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے فرزند نہیں بلکہ روح اللہ ہیں۔

۴۔ فهم حق  میں رکاوٹ

تعصب کبھی انسان کےلئے حق کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے جیساکہ یہودی تعصب اور قوم پرستی  کی وجہ سے اپنے آپ کو سب سے بہتر قوم اور اللہ کے فرزند سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ ہم سے امتحان نہیں لے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سب سے پہلے ان کی قوم پرستی حق سمجھنے سے مانع بن گئی اور پھر حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ قرآن کریم میں اس بات کی طرف اشار ہ ہوا ہے  کہ یہ قومی تعصب  یہودیوں کی بے خبری اور حقائق سے نابلد رہنے کا سبب ہے:

وَ حَسِبُواْ أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُواْ وَ صَمُّواْ ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُواْ وَ صَمُّواْ كَثِيرٌ مِّنهْمْ  وَ اللَّهُ بَصِيرُ بِمَا يَعْمَلُونَ(مائده،71)

اور ان کاخیال یہ تھا کہ ایسا کرنے سے کوئی فتنہ نہیں ہو گا اس لیے وہ اندھے اور بہرے ہو گئے پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی پھر ان میں اکثر اندھے اور بہرے ہو گئے اور اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔

قوم پرستی کی وجہ سے  انسان کی آنکھوں اور کانوں پر پردے پڑ جاتے ہیں اور انسان حق کو دیکھنے  اور سننے سے  محروم ہوجاتے ہیں  بلکہ اپنے افکار و نظریات پر ڈٹ جاتے ہیں۔

فَتَقَطَّعُواْ أَمْرَهُم بَيْنهَمْ زُبُرًا كلُ حِزْبِ بِمَا لَدَيهْمْ فَرِحُونَ. (مومنون، 53)

مگر لوگوں نے اپنے (دینی) معاملات میں تفرقہ ڈال کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اب ہر فرقہ اپنے پاس موجود (نظریات) پر خوش ہے۔

فیصلہ جات میں تعصب  کی ممانعت

قرآنی دستور کے مطابق معاشرے میں عدل و انصاف کا حکم دیا  گیا ہے مخصوصا یتیموں اور بیویوں کے حق میں۔ پس ضروری ہے کہ اپنے فیصلہ جات میں تعصب اور قوم پرستی کو بالائے طاق رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔چنانچہ اللہ تعالی ، قرآن کریم میں اہل ایمان کو عدل و انصاف کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ وَ لَوْ عَلى‏ أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقيراً فَاللَّهُ أَوْلى‏ بِهِما فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوى‏ أَنْ تَعْدِلُوا وَ إِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبيراً (نساء،135)

اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہار ے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ حتی گواہی کے موارد میں قومی، لسانی، مذہبی تعصبات سے بالا تر ہو کر گواہی دی جائے اور گواہی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہونی چاہئے  اگرچہ اپنے رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

۵۔  گناه کا سرچشمہ

قرآن کریم کی نگاہ میں تعصب اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کو گناہ اور فحشاء کا سرچشمہ کہا گیا ہے۔ تعصب رکھنےوالے لوگ جب برے اور قبیح افعال انجام دیتے تو کہتے ہیں کہ ہم اس لئے یہ کام کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے آباؤاجداد کو یہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔قرآن نے  ان کی یوں نقشہ کشی کی ہے :

وَ إِذا فَعَلُوا فاحِشَةً قالُوا وَجَدْنا عَلَيْها آباءَنا(اعراف، 28)

اور جب یہ لوگ کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے۔

اس سے بالاتر یہ کہ کبھی  نعوذ باللہ اپنی بے حیائی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف دے دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے :

وَ اللَّهُ أَمَرَنا بِها(اعراف، 28)

اور اللہ نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو واضح اور روشن جواب دیا ہے کہ برائی کا حکم دینا  خدا کا کام نہیں بلکہ یہ شیطان کا کام ہے۔اللہ  تو صرف نیکیوں اور اچھائیوں کا حکم دیتا ہے ۔ تم اللہ پر  بہتان باندھتے ہو۔   اسی آیت میں فرماتا ہے:

قُلْ إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ (اعراف، 28)

کہدیجیے:اللہ یقینا بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تعصب جیسی مہلک بیماری سے نجات عطا فرمائے ۔

 

 

پیغمبر اکرم ﷺ کی متعدد ازدواج مستشرقین کی نظر میں

 

محسن مختار فانی

ایم فل تفسیر و علوم قرآن

جامعہ المصطفی العالمیہ قم المقدسہ  ایران

 

مقدمہ

نبی اکرم ﷺ اور ان کے خاندان کی زندگی کا ایک  بہت بڑا مسئلہ رسول خدا کی بیویوں کی کثرت ہے۔ ان میں سے کچھ ، نبی کے زمانے کے حقائق اور تقاضوں سے قطع نظر ، کثرت ازدواج کو پیغمبر ﷺ  کی زندگی میں ایک نقطہ ضعف سمجھتے ہیں اور یہ کہ نبی ﷺ  کی تعدد ازدواج سوائے ہوس کے کچھ نہیں تھی ، جبکہ ایسا نظریہ یہ نبیﷺ  کے خلاف تھمت اور  الزام کے سوا کچھ نہیں ہے  اور حتیٰ کہ بعض مستشرقین نے بھی اس نظریے کو صبر اور حوصلہ سے مسترد کر دیا ہے۔ ہم نے مستشرقین منفی خیالات کا اظہار کیا اور مختصر طور پر ہر ایک کو جواب دیا ، اور پھر ہم کثرت ازدواج کے بارے میں مثبت اور منصفانہ رائے لائے۔ ان تمام نظریات کے بعد ، ہم نے جانچ پڑتال کی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی شادیوں کی کثرت نہ صرف جسمانی خواہشات کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک جامع کی فراہمی اور خاص طور پراس وقت کا تقاضا تھا اور  اس میں سیاسی ، سماجی اور ثقافتی مقاصد شامل تھے۔

نبی اکرم ﷺ  کی کثرت ازدواج بارے میں مستشرقین کے خیالات

نبی اکرم ﷺ  کی کثرت ازدواج بارے میں مستشرقین کے منفی نقطہ نظر میں چند نکات قابل ذکر ہیں۔

1- بعض مستشرقین کو نبی کریم ﷺ کی شخصیت کا صحیح اندازہ نہیں ہے اور ان کے تمام اعمال بشمول تعدد ازدواج ، مادی شمار کیا ہے۔

2: کچھ مستشرقین ، کیونکہ وہ عیسائی اور مذہبی ہیں ، شادیوں کو انسانوں کی روحانیت اور تقدس سے متصادم سمجھتے ہیں۔

 3: کچھ مغربی مصنفین اموی ، عباسی ، عثمانیوں اور مسلمان بادشاہوں ،جن کے پاس صرف اسلام کا نام پیغمبر کا جانشین تھا ،  انہوں   نے پیغمبر اسلام ﷺ کے اس عمل کو   بد سلوکی سے منسوب کیا۔

4: کچھ دوسروں نے جھوٹی روایات  ، جو مسلمانوں کی  تاریخ اور احادیث کی کتابوں  میں درج تھی ان کو ایک  ذرائع کے طور پر استعمال کیا۔

5: چونکہ کچھ مستشرقین  ،سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے محدود تھے ، اس لیے ان میں سے بعض کا اسلام اور حضور نبی اکرم ﷺ اور ان کے خاندان کے بارے میں متعصبانہ نقطہ نظر نے بھی ان غلط فیصلوں کی راہ ہموار کی ہے۔( عبد المحمدی، حسین، مستشرقان و پیامبر اعظم، ص195و 196)

اگر ہم پیغمبر اسلام ﷺ اور ان کے خاندان کی ذاتی زندگی کے بارے میں مستشرقین کے بیانات کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ: جب بھی اسلام اور غیر اسلام کے درمیان مقابلے اور چیلنجز ہوتے ہیں ، مستشرقین نے پیغمبر اسلامﷺ  کی زندگی کے بارے میں زیادہ جنونی اور غیر منطقی  نقطہ نظر اختیار کیا ہے ، اور جب بھی کم چیلنجز ہوئے انہوں نے اس مسئلے کا زیادہ حقیقت پسندانہ مطالعہ کیا ہے۔ اس وجہ سے ، مستشرقین پیغمبرﷺ  کی کثرت ازدواج  کے بارے میں مختلف انداز میں فیصلہ کرتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ کی  کثرت ازدواج  کے بارے میں مستشرقین  کی منفی تفسیر؛

  جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے ، مستشرقین پیغمبرﷺ  کی کثرت ازدواج  کے بارے میں مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ یہاں ہم پہلے ان لوگوں کے خیالات پیش کرتے ہیں جنہوں نے پیغمبرﷺ  کی کثرت ازدواج  کو غیر قانونی سمجھا ہے ، پھر ان کی تنقید میں ہم دوسری قسم کے بیانات کا حوالہ دیں گے جنہوں نے نسبتا   درست تجزیے فراہم کیے ہیں۔( نجمی، محمدصادق، سیري درصحیحین، ص،300-290.)

گوستاو لوبن (1841-1931م)

کتاب’  تمّدن اسلام و عرب‘ میں لکھتا ہے کہ؛ اگر محمدﷺ  کو تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو یہ صرف ضرورت سے زیادہ محبت ہے جو اسے عورتوں سے تھی۔ ( گوستاو لوبون، تمّدن اسلام و عرب،ص120.) وہ نبی کریم ﷺ  کی ازواج مطہرات کی کثرت کی وجہ کو عورتوں سے محبت میں سمجھتا ہے اور لکھتا ہے: رسول اللہ ﷺ  اپنے آخری دور میں عورتوں میں بہت دلچسپی رکھتے تھے  اور اس امر کو دوسروں سے پوشیدہ بھی نہ رکھا ، اور فرمایا؛  ’’مجھےاس دنیا میں تین چیزیں  پسند ہیں: خوش بو ، عورت اور نماز جو میری آنکھوں کا نور ہے ‘‘۔ عورتوں سے پیغمبر کی اس محبت نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ نبیﷺ  نے ان عورتوں کی عمر کی بھی  پرواہ نہیں کی جن سے اس نے شادی کی تھی۔ اس نے عائشہ نامی ایک دس(10) سالہ لڑکی سے شادی کی اور اکیاون(51) سالہ خاتون میمونہ  کا انتخاب کیا۔ عورتوں سے اس کی محبت کی وجہ سے ، ایک دن ، زید (اس کا گود لیا ہوا بیٹا) کی بیوی پر نظر پڑی اور اس سے اس قدر پیار ہو گیا کہ زید نے اسے طلاق دے دی اور اس کی شادی نبیﷺ  سے کر دی۔ چونکہ مسلمان اس کو غلط سمجھتے تھے ، اس لیے قرآن کی آیات نازل ہوئیں اور اس نے کہا کہ یہ شادی مصلحت کی بنیاد پرتھی۔ مسلمان بھی خاموش رہے۔( عبد المحمدی، حسین، مستشرقان و پیامبر اعظم، ص:197.)

بالآخرجب پیغمبر کو احساس ہوا کہ بہت سی بیویاں ہونا پریشانیوں اور مشکلات کا سبب بنتا ہے تو آپ نے مسلمانوں کو چار سے زیادہ بیویاں رکھنے سے منع کیا۔( گوستاو لوبون، تمدن اسلام و عرب،ترجمہ: سیدہاشم رسولی محلاتی،ص116-125.)

گستاو لوبن کے نظریہ کی تردید:

اگر ہم گستاولوبن کے نظریہ کو رد کرنا چاہیں تو اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ  مسٹر گستاولوبن نے پہلے  اپنے الفاظ پر توجہ نہیں دی کیونکہ انہوں نے خود کہا تھا کہ نبیﷺ  کی یہ انتہائی محبت نبیﷺ کی زندگی کے آخری حصے میں تھی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ نبیﷺ نے  جوانی میں ایسی محبت نہیں تھی اور اپنی زندگی کے اختتام پر پچاس سال کی عمر میں انتہائی محبت تھی۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر یہ معاملہ تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی پہلی بیوی (خدیجہ) سے جب تک کہ وہ پچاس سال کے نہیں تھے ، خود کو راضی کیوں کیا؟ پھر اس نے کہا کہ "نبیﷺ  آخر میں سمجھ گیا کہ بہت سی بیویوں کا ہونا پریشانیوں اور مشکلات  کا باعث بنتا ہے ، مسلمانوں کے لیے چار سے زیادہ بیویاں رکھنا حرام ہے۔تو یہاں پہ ہم یہ کہیں گے کہ جو اشکال زیادہ بیویوں پروارد ہوتاہے وہ چار عورتوں پر بھی  بنتا ہے ، اور اگر ایسا ہے تو پھر ان کو  چار عورتوں کی  اجازت بھی نہیں دینی چاہیےبلکہ کہتے کہ ایک عورت کافی ہے ، لہذا گستاو لوبن کا یہ بیان دانشمندانہ نہیں ہے۔

رابرٹ ساوتی (17741843 م)

انیسویں صدی کے ہسپانوی مصنفین میں سے ایک’’ رابرٹ ساوتی‘‘ نبی ﷺ  کی مختلف شادیوں اور نبیﷺ  کی شخصیت کے بارے میں لکھتا ہے:

محمد ﷺ نے معاشرے کے تانے بانے کے خلاف کوئی نئی چیز نہیں بنائی۔ اس نے معاشرے کی بدکاریوں اور توہین کو ویسے ہی قبول کیا جیسا کہ وہ پہلے سے تھا۔ دوسرے مذاہب کے بانیوں نے اپنی خواہشات کو پورا کرنے میں کوئی  دلچسپی نہیں لی اور خود کو محفوظ رکھا، لیکن محمد نے انسانی جبلتوں پر اس طرح کا تسلط حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس نے اپنے آپ کو ان جبلتوں کے خلاف کمزور سمجھا اور اپنے اندر اتنی طاقت نہیں پائی کہ ان جبلتوں پر قابو پا سکے۔( ر.ک :   Das Lebrn and die Lehre des Mohammd: ص ،  . x-x1   ی ا شخصیت محمد، توره آ ندره و محمد و پیدایش اسلام، مارگولیوت، ص176.)

رابرٹ ساوتی کے نظریہ کی تردید:

ہم جناب رابرٹ ساوتی کو  اس طرح جواب دیں گے کہ کثرت ازدواج کا مسئلہ ایک سماجی اور ثقافتی مسئلہ ہے جو مختلف اوقات اور مقامات اور مختلف معاشروں میں رائج ہے ، اور رسول اللہ ﷺ  کی شادیاں ایک جنسی جبلت نہیں تھیں بلکہ ایک جامع  اور معاشرہ کی ترویج تھی ۔رسول اللہ ﷺ کی زندگی اور رسول اللہ ﷺکے کردار کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  ہمیشہ ایک جامع  اور معاشرہ کی ترویج کے لیے کوشاں رہے۔

ویلیام موئیر(18191905 م)

اپنی چار جلدوں پر مشتمل’’  زندگی محمد ﷺ  و تاریخ اسلام‘‘ کے عنوان سے لکھی گٗی کتاب میں بیان کرتا ہے:

جہاں مدینہ میں حالات بدل رہےتھے۔ وہاں دنیاوی طاقت ، عزائم اور خود اطمینان ،نبیﷺ  کی زندگی کے عظیم مقصد کے ساتھ جلدی شا مل ہو رہےتھے اور یہ سب کچھ دنیاوی طریقوں سے حاصل ہوتا ہے۔ آسمانی پیغامات آزادانہ طور پر سیاسی کارروائی کے جواز کے لیے بھیجے جاتے ہیں ... درحقیقت،جبلت اور ذاتی انتہا پسندی نہ صرف جائز ہے ، بلکہ الہی فرمان کے اثبات سے بھی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ( عبد المحمدی، حسین، مستشرقان و پیامبر اعظم، ص:198)

 ایک خاص اجازت اور استحقاق دیا گیا ہے جو نبی کو کئی بیویاں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ ( سرویلیام موئیر، زندگی محمد، فصل37،ص520.)

ویلیام موئیر کے نظریہ کی تردید:

یہاں یہ کہنا چاہیے کہ یہ سچ ہے کہ رسول اللہ ﷺ  کی یہ شادیاں حکم الٰہی کی منظوری کے ساتھ تھیں ، لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ یہ جنسی جبلت نہیں تھی ، اس میں کئی مقاصد موجود تھے، جن پر ہم بعد میں بات کریں گے ، انشاء اللہ۔ اور مسٹر ویلیام موئیر نے مدینہ کے حالات پر غور کرتے ہوئے ایک طرف توجہ دی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک فطری اور ذاتی انتہا پسندی ہے جبکہ دوسری طرف رسول اللہ ﷺ  کی ان شادیوں کےعظیم مقاصد اور ارادے تھے جو عین مدینہ کے حالات کے مطابق تھے۔

امیل منغم

مستشرقین  میں سے ایک اور امیل منغم پیامبر ﷺ کی کثرت ازدواج کے حوالے سے نظریہ بیان کرتا ہے کہ محمد ﷺ  کی شادیوں کا آغاز، ان کا عورتوں سے زیادہ محبت کی وجہ سے ہوا اور کہتا ہے:( قرآن پژوهی خاورشناسان ، شماره 21 پاییز و زمستان ، 1395، ص ، 64.)

"شعر محمد بالعقد الاخیر من عمره بمیل کبیر الی نساء "  نبی ﷺ کی زندگی کے آخری ادوار میں ،محمدﷺ  کے  اشعار، خواتین میں زیادہ دلچسپی کے حوالے سے تھے ۔( فواد محمود، افترائات المستشرقین علی الاصول العقیده فی الاسلام ، ص 213.)

امیل منغم کے نظریہ کی تردید:

مسٹر امیل منغم کے جواب میں یہی کہا جانا چاہیے کہ جومسٹر گستاو لوبن کے نظریہ کے ردمیں ہم نے کہا کہ آیا یہ ممکن ہے کہ نبیﷺ  کو جوانی میں عورتوں میں اتنی دلچسپی نہ ہو اورعمر کے  آخری حصہ  میں جب وہ پچاس سال کے ہو جائیں تو عورتوں سے   انتہائی محبت ہو ۔ نبی ﷺ  کے لیے ایسے الفاظ،الزامات اور ان کی شخصیت کی اہمیت کو کم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

نبی کریم ﷺ کی  کثرت ازدواج  کے بارے میں مستشرقین  کی منصفانہ تفسیر؛

ان میں سے کچھ مستشرقین  ،رسول اللہ ﷺ کی  کثرت ازدواج  کے بارے میں منصفانہ نظریہ رکھتے ہیں جن میں بعض کے نظریات کو ہم یہاں پر  مختصر بیان کریں گے۔

ویل دورانٹ(1885 1981م)

مشہور مغربی مصنف ویل دورانٹ   نبیﷺ کی  کثرت ازدواج  کے تجزیے میں لکھتا ہے:

پیامبر اکرمﷺ  نے دس خواتین  سے شادی کی اور دو کنیزیں  بھی تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ مغرب کے لوگوں نے  اس کو اپنایا ہے۔ لیکن اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا  کہ اس وقت بہت سے قبائلیوں کی اموات کی وجہ سے بیویوں کی کثرت، ایک اخلاقی فریضہ تھا۔ پیامبر اکرمﷺ کے زمانہ میں کثرت ازدواج معمول اور رواج تھا ۔ اسی وجہ سے پیامبر اکرمﷺ نے بھی کثرت ازدواج کو اپنایا۔ لیکن یہ بات قابل دید ہے کہ نبی اکرم  ﷺ  کا یہ کام  جنسی جبلت یا جنسی غریزہ  نہیں کی تھا۔( ویل دورانٹ، تاریخ تمدن ، ۴/ ۲۲۰، ترجمہ : ابوالقاسم پاینده ، ص ۳۲- ۳۴ . عبد المحمدی، حسین، مستشرقان و پیامبر اعظم، ص، 216.)

جان دیون پورٹ  (17891877م)

اسلام پسندمستشرقین نے  ایک کتاب "عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمد و قرآن  " اسلام کی طرف منصفانہ نگاہ کرتے ہوئےاور پیامبر اکرم ﷺ  کادفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

مشرق میں بیویوں کی کثرت عزت مآب ابراہیم علیہ السلام کے بعد سے عام ہے... حضرت محمد ﷺ  ایک ایسے عمل کو جائز سمجھتے تھے جس کا نہ صرف احترام کیا جاتا تھا بلکہ اسے سابقہ دور میں خدا نے برکت اور رحمت قرار دیا تھا اور نئے دور میں بھی اسے جائز اور قابل احترام قرار دیا گیا تھا۔( عبد المحمدی، حسین، مستشرقان و پیامبر اعظم، ص، 215.) لذا پیامبر اکرم ﷺ  اس تہمت اور شہوت پرستی سے بری و ذمہ ہیں  ۔ ( عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمد و قرآن  ، ترجمہ، سید غلام رضا سعیدی ، ص 171و 176).

اگر نبی اکرم ﷺ کی ازدواج شہوت پر مبنی ہوتی تو  ضروری تھا کہ پیامبر ﷺ اپنی زینت اور نما ئش کے لیے ایسے وسایل کا استعمال کرتے جس میں خوبصورتی کا اظہار ہوتا ہے جبکہ کافی  آیات  نفی کی نشاندہی کرتی ہیں  اور تمام خواتین کو اس کے استعمال سے روکا بھی جاتا ہے۔ اس معاملے میں نو(9) عورتوں کی پاسداری اور پیامبر اکرم ﷺ کی طرف نسبت اپنی انسانیت اور ان  کے عظیم درجے پر فائز ہونے کی بہترین دلیل بھی ہے۔( عقیقی بخشایشی، ہمسران رسول خدا، ص 80.)

تھامس کارلایل (17951881 م)

وہ کہتے ہیں: محمدﷺ اپنے دشمنوں کے الزامات و تھمات کے باوجود کبھی بھی  شہوت کا شکار نہیں ہوئے۔ فقط دشمنی کی بنا  پر پیامبر اکرم ﷺ پر ہوس کا الزام لگایا گیا۔ محمد جیسے شخص پر ہوس کا الزام لگانا یا یہ کہنا کہ شہوت اور لذت نفس پر ان کا کنٹرول نہ تھا، ناانصافی ہے ۔ محمد ﷺ اور شہوت اور لذت نفس کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے۔( دوانی، پیامبر اسلام از نظر دانشمندان شرق و غرب، ص 85۔)

ال ۔ آ۔  سید یو(10431099م)

فرانسیسی مستشرق  ’’ال ۔ آ۔  سید یو ‘‘عورتوں کی سماجی حیثیت اور نبیﷺ  کی کثرت ازدواج کی فضیلت کو بہتر بنانے کے لیے خدا کے رسولﷺ کی کوششوں کے بارے میں لکھتا ہے:

مشرق میں عورتوں کی حالت زار کو محمدﷺ سے منسوب کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ کیونکہ اس نے عورت کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ عرب عورت تیزی سے بڑہتی ہے اور تیزی سے ٹوٹ جاتی ہے۔ فطرت اسے عاجز بناتی ہے۔ اس نے چار عورتوں سے شادی کی اور لوگوں کو مشورہ دیا کہ بیوی رکھنا بہتر ہے۔ اگر اس نے خودیعنی پیامبر اکرمﷺ نے خود اس  کا اختلاف کیا ہےتو یہ کچھ سیاسی پہلو کی وجہ سے تھا کہ اس کی شادی کے نتیجے میں کچھ قبائل نے ان کی اطاعت کی۔( زمانی ، شرق شناسی و اسلام شناسی غربیان ، ص 217. آل. آ. سید یو ، تاریخ عرب العام ،ترجمہ بہ عربی : عادل زعیتر ،ج1، نقل از : اسلام ازدیدگاه دانشمندان جہان ، ص 405عبد المحمدی، حسین، مستشرقان و پیامبر اعظم، ص، 217- 218.)

ایلیا پاو لو ویچ پطروش فسکی(18981977م)

ایک سے زیادہ شادیوں کے لیے پیغمبراکرمﷺ کی حوصلہ افزائی کے بارے میں ، وہ کہتے ہیں: کثرت ازدواج کی ترغیب زیادہ تر قدیم عربوں کا عقیدہ تھا کہ کسی بھی سیاسی رہنما کی قابلیت کو برقرار رکھنے کے لیے اس کی ازدواجی حیثیت کا وجود ضروری ہے۔( عبد المحمدی، حسین، مستشرقان و پیامبر اعظم، ص،218. اسلام ازدیدگاه دانشمندان جہان، ص، 36.)

 نظریات کا تحقیقی جائزہ

تاریخ میں کثرت ازدواج

ازدواج کی کثرت نبی  کے لیے مخصوص نہیں ہے، بلکہ بہت سے گذشتہ انبیاء من جملہ موسیٰ علیہ السلام کی سنت رہی ہے ، انجیل کی کتاب میں کوئی ایسی نص یا روایت  نہیں ہےکہ جس میں ازدواج کی کثرت کو حرام کہا گیا ہو۔ (قرآن پژوهی خاورشناسان ، شماره 21 ، پاییز و زمستان ، 1395، ص ،67.)

1: پولس نقل کرتا ہے ایک مذہبی شخص اگر وہ رہبانیت کو برقرار نہیں رکھ سکتا تو انہیں ایک عورت پر ہی اکتفا کرنا چاہیے ، لیکن دوسری صورت میں وہ جتنی عورتیں چاہے شادی کر سکتاہے۔( استنبولی ،مصطفی نساء حول الرسول ، ص 332.)

2: سٹر مارک اور جین برگ کا خیال ہے کہ مہذب قبائل اور قبیلوں میں تعدد ازدواج ایک نظام تھا اور وہ بعد میں صرف تقلید کی وجہ سے ایک شریک حیات سے مطمئن ہو گئے۔( جبری ، السیره النبویہ ، ص 154.)

3: ول ڈیورنٹ کہتا ہے: قرون وسطی کے علماء دین  کا خیال تھا کہ کثرت ازدواج ،اسلام کے اقدامات میں سے ایک ہے ، جبکہ ایسا نہیں ہے اور قدیم معاشروں میں کثرت ازدواج کا بہاؤ  ان  کے رواج کے مطابق تھا۔( حسن زمانی ، مستشرقان و قرآن ، ص 447.)

4: گستاولوبون کہتا ہے: کثیر ازدواج کا رواج قبل از اسلام ہے اور تمام مشرقی قبائل میں عام ہے ، بشمول ایرانی ، عرب و. . . تعدد ازدواج کا رواج اسلام سے بالکل بھی متعلق نہیں ہے۔( گوستاولوبون ، تمدن اسلام و غرب ، ص 90.)

کثرت ازدواج کی ضرورت

مختلف عوامل کی وجہ سے ، بہت سی خواتین اور لڑکیاں زندگی بھر شادی کی نعمتوں سے محروم رہتی ہیں اور پھر یا تو خود اپنا آپ  بیچ دیتی ہیں یا خوفناک سزا کا سامنا کرتی ہیں۔

1: مردوں کے مقابلہ میں عورتوں   کا تعدادمیں زیادہ ہونا ۔

2: مردوں کی ایک بڑی تعدادکا مختلف  حادثات کی وجہ سے مر جانا۔

3: عورتوں کا ایام مخصوصہ میں مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی نااہلی۔

4: خواتین کےمقابلہ میں  مردوں کا تنوع۔

اسلام نے کثرت ازدواج کو عمومی طور پر صرف جائز ہی نہیں سمجھا ، بلکہ کثرت ازدواج کو محدوداور مقیدبھی کیا ہے۔اور صرف یہی نہیں  کہ کثرت ازدواج عورت کی حیثیت کو گھٹانےوالےعنصر کو کم نہیں کرتا ،  بلکہ ، یہ خاندان میں خواتین کے مقام کو بلنداورمحفوظ رکھتا ہے اور کچھ مردوں کی ناجائز  زیادتی کو روکتا ہے۔(قرآن پژوهی خاورشناسان ، شماره 21 ، پاییز و زمستان ، 1395، ص ،69.)

مستشرقین کے نظریات کی تردید

حضور اکرم ﷺ  کی شادیوں کے فلسفے کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہاں ، محدود جگہ کی وجہ سے ، ہم صرف مختصر طور پر حضور ﷺکی شادیوں اور حضوراکرم ﷺ کی ذاتی زندگی کے بارے میں مستشرقین کے نظریات کی تردید کریں گے۔( عبد المحمدی، حسین، مستشرقان و پیامبر اعظم، ص، 199.)

الف) حضوراکرم  ﷺ کی شخصیت اور کردار سے متصادم

1: طول طویل عبادت۔

2: زہدو تقوی اور دنیا سے بے رغبت۔

3: شجاعت اور فداکاری۔

4: مشکلات میں استحکام اور پائیداری۔

5- حضور نبی اکرم ﷺ اور ان کے اہل خانہ کی عفت اور پاکدامنی۔

ب) تاریخی حقائق سے متصادم۔

1- پیغمبراکرم ﷺ کے تبلیغی اور سیاسی اہداف۔

2: نبی اکرمﷺ کے تعلیمی اہداف۔

3: غلاموں اور کنیزوں  کی آزادی۔

4: خواتین کے مقام کا احترام کرنا۔

5: جاہلانہ اور جھوٹی روایات اور رواج کی تردید۔

نتیجہ

نبی اکرم ﷺ کی شادیاں حکم الٰہی سے اور حکمت پر مبنی تھیں ، لہٰذا  نبی اکرم ﷺ کی شادیاں کوکسی بھی ہوس اور شہوت  پرستی والی تفسیر کرنا نا مناسب ہے ۔ اس کے نتیجے میں نبی اکرم ﷺ کی شادیوں کی بعض وجوہات قابل ذکر  ہیں:

1- نبی اکرمﷺ  نے اپنی زندگی کا بہترین دور (جوانی) یک زوجیت کے ساتھ گزارا اور خدیجہ کے زندہ رہنے تک دوسری شادی نہیں کی ، جبکہ اس وقت عرب معاشرے میں تعدد ازدواج کافی عام تھی۔

2: نبی اکرم ﷺکی زیادہ تر ازداواج ،  عام طور پر بوڑھی ، بیوہ اور بے سہارا عورتوں کے ساتھ وابستہ تھیں  جو کہ ہوس اور شہوت  کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔

3: نبی اکرم ﷺکی کچھ شادیاں یتیموں اور تنہا رہ  جانے والوں کی حفاظت اور ان لوگوں کی عزت کو محفوظ کرنے کے لیے تھیں جو پہلے عزت اور سرفرازی میں زندگی گذاررہےرہتے تھے ، جیسے سودہ ، زینب بنت خزیمہ اور ام سلمہ ۔

4: نبی اکرم ﷺ  کی کچھ دوسری شادیاں جہالت کی جھوٹی روایات کو توڑنے اور لوگوں کے ہاتھوں اور پاؤں سے جہالت کی بیڑیاں توڑنے کی وجہ سے ہوئیں ، جیسے؛ جحش کی بیٹی زینب سے شادی کی۔

5: نبی اکرم ﷺ   کی شادیوں کی ایک اور وجہ اسیروں ، غلاموں کی سرپرستی اور مختلف قبائل کے دلوں کو اسلام کی طرف راغب کرنا اور ان کے خطرے کو دور کرنا تھا۔ جیسے؛  جویریہ  سے شادی کی۔

6: نبی اکرم ﷺ   کی کچھ دوسری شادیاں سیاسی خیالات اور بعض قبائل کی اسلام کی طرف سازش کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے انجام دی گئیں ، جیسے کہ ام حبیبہ ، حفصہ اور عائشہ سے شادی کی۔(قرآن پژوهی خاورشناسان ، شماره 21 ، پاییز و زمستان ، 1395، ص ،85.)

منابع

1: آل. آ. سید یو ، تاریخ عرب العام ،ترجمہ بہ عربی : عادل زعیتر ،ج1.

 2: الاستنولی، محمود مہدی، ابونصرالسبی، مصطفی نساء حول الرسول، 1423ق.

3: الجبری، عبدالمتعال محمد ، السیره النبویہ و اوہام المستشرقین ، قاہره ؛مکتبہ وہبہ.

4: حاکم نیشابوری، المستدرک الصحیحین، کوشش مصطفی عبدالقادرعطا، بیروت؛دارالکتب العلمیہ،1411ق.

5: دوانی، علی، پیامبر اسلام از نظر دانشمندان شرق و غرب ، قم ، انتشارات اسلام .

6: عذر تقصیر  بہ  پیشگاہ  محمد  و قرآن  ،  ترجمہ، سید غلام رضا سعیدی ،،قم، دارالتبلیغ الاسلامی،تہران 1388.

7: زمانی ، محمد حسن، شرق شناسی و اسلام شناسی غربیان ، قم، بوستان کتاب 1385.

8: زمانی ،محمد حسن، مستشرقان و قرآن ،قم، بوستان کتاب 1385.

9: سرویلیام موئیر، زندگی محمد،

10: عبد المحمدی، حسین، مستشرقان و پیامبر اعظم،قم؛ترجمہ و نشر المصطفی، 1392ش.

11: عقیقی بخشایشی، ہمسران رسول خدا،قم، دارالتبلیغ الاسلامی ، چاپ سوم ، 1352ش.

12: فواد محمود، افترائات المستشرقین علی الاصول العقیده فی الاسلام.

13: گوستاو لوبون، تمدن اسلام و عرب،ترجمہ: سیدہاشم رسولی محلاتی، انتشارات کتابچی، اول، تهران،1378.

14: محمدی، ،محمد حسین ،قرآن پژوهی خاورشناسان ، شماره 21، پاییز و زمستان ، 1395.

15: نجمی، محمدصادق، سیري درصحیحین،جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، 1471.

16: ویل دورانٹ، تاریخ تمدن ، 4/ 220، ترجمہ : ابوالقاسم پاینده ،تہران؛ انتشارات علمی و فرهنگی، چاپ دازدہم، 1385ش.

 

امام حسن عسکری علیہ السلام  اور  آپکے  اصحاب


 
ساجد علی جمالی
ایم فل تاریخ اہل بیت
جامعۃ المصطفی العالمیہ قم ایران
Sajidalijamali14@gmail.com
 
مقدمہ
حسن بن علی بن محمد (232۔260 ھ )، امام حسن عسکریؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے گیارہویں امام ہیں۔ آپ امام علی نقیؑ کے فرزند اور امام مہدیؑ کے والد ہیں۔ آپ کا مشہور لقب عسکری ہے جو حکومت وقت کی طرف سے آپ کو شہر سامراء جو اس وقت فوجی چھاونی کی حیثیت رکھتا تھا، میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کیے جانے کی طرف اشارہ ہے۔ آپ کے دوسرے القاب میں ابن‌ الرضا، ہادی، نقی، زکی، رفیق اور صامت مشہور ہیں۔
حکومت وقت کی کڑی نگرانی کی وجہ سے اپنے پیرکاروں سے رابطہ برقرار رکھنے کے لئے آپ نے مختلف شہروں میں نمائندے مقرر کئے اور وکالت سسٹم کے تحت اپنے نمایندوں سے رابطے میں رہے۔ عثمان بن سعید آپ کے خاص نمائندوں میں سے تھے جو آپؑ کی شہادت کے بعد غیبت صغریٰ کی ابتدا میں امام زمانہ(عج) کے پہلے نائب خاص بھی رہے ہیں۔
امام حسن عسکریؑ 8 ربیع الاول سنہ 260 ھ کو 28 سال کی عمر میں سامرا میں شہید ہوئے اور اپنے والد امام علی نقیؑ کے جوار میں دفن ہوئے۔ ان دونوں اماموں کا مدفن حرم عسکریین کے نام سے مشہور ہے اور عراق میں شیعہ زیارتگاہوں میں سے ایک ہے۔ یہ حرم دو مرتبہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مسمار ہوا۔ پہلا حملہ 22 فروری 2006 ء کو جبکہ دوسرا حملہ اس کے 16 مہینے بعد یعنی 13 مئی 2007ء کو کیا گیا۔
نسب
امام حسن عسکریؑ کا نسب آٹھ واسطوں سے شیعوں کے پہلے امام علی بن ابی طالبؑ سے ملتا ہے۔ آپؑ کے والد گرامی شیعہ اثنا عشریہ کے دسویں امام امام علی النقیؑ ہیں۔ شیعہ مصادر کے مطابق آپ کی والدہ کنیز تھی جنکا نام حُدیث یا «حدیثہ» تھا[1]۔کچھ اور اقوال کے مطابق آپکی مادر گرامی کا نام "سوسن"[2]اور "عسفان"[3]یا "سلیل"[4]بتایا گیا ہے اور دوسری عبارت میں"کانت من العارفات الصالحات"( یعنی وہ عارفہ اور صالحہ خواتین میں سے تھیں") کے ساتھ آپ کا تعارف کروایا گیا[5]۔
آپ کا صرف ایک بھائی جعفر تھا جو امام حسن عسکری کے بعد امامت پر دعوا کرنے کی وجہ سے جعفر کذاب کے نام سے معروف ہوا اور امام حسن عسکری کی اور کوئی اولاد ہونے سے انکار کرتے ہوئے خود کو امامت کی میراث کا اکیلا دعویدار قرار دیا[6]۔سید محمد اور حسین آپ کے دوسرے بھائی تھے[7]۔
القاب
آپ کے القاب صامت، ہادی، رفیق، زکی، نقی لکھے گئے۔ کچھ مورخین ںے آپکا لقب خالص بھی کہا۔ ابن الرضا کے لقب سے امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکریؑ مشہور ہوئے[8]۔ امام حسن عسکریؑ کے والد محترم امام علی نقی نے تقریباً 20 سال اور 9 مہینے سامراء میں زندگی بسر کی۔ اسی وجہ سے یہ دو امام عسکری کے نام سے مشہور ہوئے، عسکر سامراء کا ایک غیر مشہور عنوان تھا[9]۔جیسے امام حسن اور امام حسن عسکری کے مشترک نام ہونے کی وجہ سے امام حسن عسکری کو اخیر کہا جاتا ہے[10] ۔
احمد بن عبیداللہ بن خاقان نے امام عسکریؑ کی ظاہری صورت یوں بیان کی ہے: آپ کالی آنکھیں، بہترین قامت، خوبصورت چہرہ اور مناسب بدن کے مالک تھے۔
کنیت
آپؑ کی کنیت ابو محمد تھی۔ بعض کتابوں میں ابوالحسن[11]، ابو الحجہ[12]، ابوالقائم[13]مذکور ہیں۔
تولد:
معتبر منابع کے مطابق آپ مدینہ میں پیدا ہوئے[14]۔ بعض نے آپ کی جائے پیدائش سامرا ذکر کی ہے[15]۔کلینی اور اکثر متقدم امامی منابع آپ کی ولادت ربیع الثانی ۲۳۲ھ [16]شمار کرتے ہیں۔ بلکہ اسے امام نے خود ایک روایت میں بیان کیا ہے[17]۔ شیعہ و سنی بعض قدیمی مصادر میں حضرت کی ولادت 231ھ میں ہونے کا ذکر ہے[18]۔شیخ مفید نے اپنے بعض آثار میں گیارہویں امام کی ولادت کو 10 ربیع الاخر ذکر کی ہے[19]۔ چھٹی صدی میں یہ قول متروک ہو گیا اور اس کی جگہ 8 ربیع الاول معروف ہو گیا[20]اور امامیہ کے ہاں یہی مشہور قول بھی ہے۔ بعض اہل سنت اور شیعہ مآخذ حضرت کی پیدائش کا سال ۲۳۱ ھ نیز لکھتے ہیں[21]۔
ازواج:‌
مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ نے بالکل زوجہ اختیار نہیں کی اور آپکی نسل ایک کنیز کے ذریعے آگے بڑھی جو کہ حضرت مہدی(عج) کی مادر گرامی ہیں۔ لیکن شیخ صدوق اور شہید ثانی نے یوں نقل کیا ہے کہ امام زمان(عج) کی والدہ کنیز نہ تھیں بلکہ امام عسکریؑ کی زوجہ تھیں[22]۔
منابع میں امام مہدی(عج) کی والدہ کے مختلف اور متعدد نام ذکر ہوئے ہیں اور منابع میں آیا ہے کہ امام حسن عسکریؑ کے زیادہ تر خادم رومی، صقلائی اور ترک تھے[23]اور شاید امام زمانہ(عج) کی والدہ کے نام مختلف اور متعدد ہونے کی وجہ امام حسن عسکری کی کنیزوں کی تعداد کا زیادہ ہونا ہی ہو یا پھر امام مہدی(عج) کی ولادت کو خفیہ رکھنے کی وجہ سے آپ کی والدہ کے نام متعدد بتائے جاتے تھے۔
لیکن جو بھی حکمت تھی۔ آخری صدیوں میں امام زمانہ (عج) کی والدہ کے نام کے ساتھ نرجس کا عنوان شیعوں کے لئے باعث پہچان تھا۔ دوسری طرف جو سب سے مشہور نام منابع میں ملتا ہے وہ صیقل ہے[24]۔دوسرے جو نام ذکر ہوئے ہیں ان میں سوسن [25]، ریحانہ اور مریم[26]بھی ہیں۔
اولاد:‌
اکثر شیعہ اور سنی منابع کے مطابق، آپ کے اکلوتے فرزند امام زمانہ(عج) ہیں جو کہ محمد کے نام سے مشہور ہیں[27]۔
امام حسن عسکریؑ، حضرت امام زمانہ(عج) کے والد ہونے کے ناطے[28]، امام حسن عسکریؑ کی شخصیت کا یہ پہلو اہل تشیع کے نزدیک جانا پہچانا ہوا ہے۔ اور امامیہ (اہل تشیع) کے نزدیک مشہور ہے ہے کہ امام مہدی(عج) کی ولادت 15 شعبان سنہ 255 ھ کو ہوئی، لیکن تاریخ میں اور مختلف قول بھی موجود ہیں جن کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 254 ھ یا سنہ 256 ھ میں ہوئی ہے[29]۔
آپ کی اولاد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض نے تین بیٹے اور تین بیٹیوں کا کہا ہے۔ اسی قول سے ملتا جلتا قول اہل تشیع کے نزدیک بھی موجود ہے[30]؛ خصیبی نے امام مہدی(عج) کے علاوہ امام حسن عسکری ؑ کی دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور دلالہ ذکر کیے ہیں[31]۔ ابن ابی الثلج نے امام مہدی کے علاوہ ایک بیٹے کا نام موسی ، اسی طرح دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور عائشہ (یا ام موسی) بتائے ہیں[32]۔ لیکن انساب کی کتابوں میں مذکورہ نام، امام حسن عسکریؑ کے بہن بھائیوں کے طور پر ملتے ہیں[33] جو شاید ان مورخوں نے آپ کی اولاد کے عنوان سے ذکر کر دیے ہیں۔ اس کے برعکس، بعض اہل سنت کے علماء جیسے ابن جریر طبری، یحیٰ بن صاعد اور ابن حزم کا عقیدہ ہے کہ آپ کی کوئی اولاد تھی ہی نہیں[34]۔ لیکن مذکورہ بالا روایات کو دیکھا جائے تو یہ ایک بے بنیاد دعوے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
سامرا آمد:
بچپنے میں ہی امام حسن عسکری، اپنے والد گرامی امام ہادی کے ساتھ جبری طور پر عراق طلب کر لئے گئے اس زمانے میں عباسیوں کا دارالحکومت سامرا تھا یہاں آپ کو تحت نظر رکھا گیا ۔بعض کتابوں میں 236 ھ کو اور [35]بعض میں ۲۳۳ ھ کو اس سفر کا سال قرار دیا ہے[36]۔ مذکور ہے۔ امام حسن عسکری نے اپنی اکثر عمر سامرا میں گزاری اور مشہور ہے کہ صرف آپ ہی وہ امام ہیں جو حج پہ نہیں گئے، لیکن عیون اخبار الرضا اور کشف الغمہ میں راوی نے آپ سے ایک حدیث نقل کی ہے اور وہ انہوں نے مکہ میں امام سے سنی ہے[37]، مکہ کے اس سفر کے علاوہ جرجان کی طرف ایک سفر کا بھی ذکر ہوا ہے[38]۔
آپ کے دورۂ امامت میں معتز عباسی (۲۵۲-۲۵۵ ھ)، مہتدی (۲۵۵-۲۵۶ ھ) و معتمد (۲۵۶-۲۷۹ ھ)۔[39] عباسی خلیفہ رہے۔
امامت کی مدت اور دلائل
جس طرح کے شیخ مفید لکھتے ہیں کہ حسن بن علی (امام عسکری) اپنے والد (امام ہادی) کی شہادت کے سال ۲۵۴ قمری کے بعد، اپنے معاصرین میں سے فضیلت اور برتری رکھنے کی وجہ اور امام ہادیؑ کی روایات کے مطابق آپؑ اہل تشیع کے گیارہویں امام ہیں[40]۔ علی بن عمر نوفلی، امام ہادیؑ سے ایک روایت نقل کرتا ہے: „امام ہادیؑ کے ساتھ آپ کے گھر کے صحن میں بیٹھا تھا کہ آپ کا بیٹا محمد-ابو جعفر- کا گزر ہوا، میں نے عرض کی: میں آپ پر قربان جاؤں! آپ کے بعد ہمارا امام یہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: میرے بعد امام حسن ہو گا۔
بہت کم تعداد میں محمد بن علی کی امامت (جو کہ امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی دنیا سے چلے گئے) اور جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی ہے جعفربن علی کو اپنا امام سمجھتے تھے، امام ہادیؑ کے اکثر دوستان اور یاران نے امام حسن عسکریؑ کی امامت کو قبول کیا مسعودی، شیعہ اثنا عشری کو امام حسن عسکریؑ اور آپ کے فرزند کے پیروکاروں میں سے مانتا ہے کہ یہ فرقہ تاریخ میں قطیعہ کے نام سے مشہور ہوا ہے[41]۔
امام عسکریؑ ۲۵۴ تا ۲۶۰ تک ۶ سال کی مدت امامت کے فرائض انجام دیتے رہے پھر انکی شہادت کے بعد ان کے بیٹے امام زمانؑ امامت پر فائز ہوئے ۔
سیاسی حالات
امام حسن عسکریؑ کی امامت عباسی تین خلفاء کی خلافت کے دور میں تھی: معتز عباسی(252-255ھ)، مہتدی (255-256ھ) اور معتمد (256-279ھ)۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور میں عباسی حکومت امیروں کیلئے ایک بازیچہ بن چکی تھی خاص طور پر ترک نظامی سپہ سالاروں کا حکومتی سسٹم میں مؤثر کردار تھا ۔امام کی زندگی کی پہلی سیاسی سرگرمی اس وقت تاریخ میں ثبت ہوئی جب آپ کا سن 20 سال تھا اور آپ کے والد گرامی زندہ تھے ۔آپ نے اس وقت عبدالله بن عبدالله بن طاہر کو خط لکھا جس میں خلیفۂ وقت مستعین کو باغی اور طغیان گر کہا اور خدا سے اس کے سقوط کی تمنا کا اظہار کیا۔یہ واقعہ مستعین کی حکومت کے سقوط سے چند روز پہلے کا ہے ۔ عبد اللہ بن عبد اللہ عباسی حکومت میں صاحب نفوذ اور خلیفۂ وقت کے دشمنوں میں سے سمجھا جاتا تھا[42]۔
مستعین کے قتل کے بعد اس کا دشمن معتز تخت نشین ہوا ۔حضرت امام حسن عسکری کے مقتول خلیفہ کی نسبت احتمالی اطلاعات کی بنا پر معتز نے شروع میں آپ کی اور آپ کے والد کی نسبت ظاہری طور پر کسی قسم کے خصومت آمیز رویہ کا اظہار نہیں کیا ۔حضرت امام علی نقی کی شہادت کے بعد شواہد اس بات کے بیان گر ہیں کہ امام حسن عسکری کی فعالیتیں محدود ہونے کے باوجود کسی حد تک آپ کو آزادی حاصل تھی ۔آپ کی امامت کے ابتدائی دور میں آپ کی اپنے شیعوں سے بعض ملاقاتیں اس بات کی تائید کرتی ہیں لیکن ایک سال گزرنے کے بعد خلیفہ امام کی نسبت بد گمان ہو گیا اور اس نے 255ق میں امام کو زندان میں قید کر دیا لہذا امام آزار و اذیت میں گرفتار ہو گئے ۔نیز امام حسن عسکری اس کے بعد کے خلیفہ مہتدی ک دور میں بھی زندان میں ہی رہے ۔256ق میں معتمد کی خلافت کے آغاز میں اسے شیعوں کے مسلسل قیاموں کا سامنا کرنا پڑا اور امام زندان سے آزاد ہوئے ۔ایک دفعہ پھر امام کو موقع ملا کہ وہ اپنے شیعوں کو مرتب و منظم کرنے کیلئے معاشرتی اور مالی پروگراموں کا اہتمام کر سکیں۔امام کی یہی فعالیتیں وہ بھی عباسی دار الحکومت میں ایک دفعہ پھر ان کیلئے پریشانی کا موجب بن گئیں۔ پس 260 ق میں معتمد کے دستور پر امام حسن عسکری کو دوبارہ زندانی کیا گیا اور خلیفہ روزانہ امام سے مربوط اخبار کی چھان بین کرتا [43]۔ ایک مہینے کے بعد امام زندان سے آزاد ہوئے لیکن مامون کے وزیر حسن بن سہل کے گھر میں نظر بند کر دئے گئے جو واسط نامی شہر کے قریب تھا [44]۔
قیام اور شورشیں
امام حسن عسکریؑ کے زمانے میں شیعوں کی جانب سے عباسیوں کے خلاف تحریکیں اٹھیں اور کچھ سوئے استفادہ کی بنیاد پر علویوں کے نام سے شورشیں برپا ہوئیں۔
علی بن زید اور عیسی بن جعفر کا قیام
یہ دونوں علوی امام حسن مجتبیؑ کے ممتاز صحابہ میں سے تھے ۔انہوں نے سال ۲۵۵ ہجری کو کوفہ میں قیام کیا۔ معتز عباسی نے سعید بن صالح کی سرکردگی میں فوج بھیج کر اس قیام کو شکست دی [45]۔
علی بن زید بن حسین
یہ امام حسینؑ کی اولاد میں سے تھا ۔انہوں نے مهتدی عباسی کے زمانے میں کوفہ میں قیام کیا۔ شاه بن میکال ایک بڑی فوج کے ساتھ اس کے مقابلے میں آیا لیکن شکست سے دو چار ہوا ۔ معتمد عباسی جب تخت نشین ہوا تو اس نے کیجور ترکی کو اس کے مقابلے کیلئے بھیجا ۔ علی بن زید نے پسپائی اختیار کی اور فرار ہو گیا بالآخر سنہ257 ہجری میں قتل ہوا [46]
احمد بن محمد بن عبدالله
اس نے معتمد عباسی کے زمانے میں مصر کے برقہ اور اسکندریہ کے درمیان قیام کیا۔ بہت بڑی تعداد اپنے پیروکاروں کی پیدا کر لی اور خلافت کا ادعا کیا ۔ترک خلیفہ نے کارگزار احمد بن طولون کو اسکے مقابلے کیلئے بھیجا تا کہ اس کے اطرافیوں کو اس سے جدا اور منتشر کرے۔احمد بن محمد بن عبد اللہ نے مقاومت کی اور انہوں نے اسے قتل کر دیا [47]۔
صاحب زنج کی شورش
علی بن محمد عبدالقیسی نے سال ۲۵۵ق میں معتمد عباسی کے دور میں قیام کیا۔ اس نے اپنے آپ کو علویوں سے منسوب کیا جبکہ وہ نسب کے لحاظ سے علوی نہیں تھا کیونکہ اکثر نسب شناسانعبداقیس کی شاخ میں قرار دیتے ہیں[48]۔ نیز وہ کردار کے لحاظ سے بھی علویوں کے نزدیک نہیں تھا  [49]وہ عقیدے کے لحاظ سے خوارج کا ہم عقیدہ تھا[50]۔امام حسن عسکری نے واضح طور پر اعلان کیا تھا صاحب زنج اہل بیت سے نہیں ہے  [51]۔اس نے غلاموں کی آزادی کے نعرے کے ساتھ بصره کے مدینۃ الفتح اور کرخ کے درمیان بئر نخل نامی محلے سے قیام کا آغاز کیا ۔طولانی مدت تک اس نے عباسیوں کے سامنے مقاومت کی جو 15 سال تک جاری رہی ۔نہایت کار سال ۲۷۰ھ میں قتل ہو گیا[52]۔
شیعوں سے رابطہ
امام حسن عسکری کے دور میں معاشرے میں اکثریتی مذہب اہل سنت تھا اور اسی طرح عباسیوں کی جانب سے شیعہ سخت حالات میں ہونے کی وجہ سے تقیہ کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ان حالات میں امام حسن عسکری نے شیعوں کے امور چلانے کیلئے اور وجوہات شرعی کی جمع آوری کیلئے مختلف علاقوں میں اپنے وکیلوں کو روانہ کرتے تھے[53]۔
امام سے ملاقات
جاسوسی کے پیش نظر شیعوں کیلئے ہر وقت امام سے ملاقات کرنا نہایت مشکل تھا یہاں تک کہ خلیفۂ عباسی کئی مرتبہ بصرہ گیا تو جاتے ہوئے امام کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتا تھا ۔اس دوران امام کے اصحاب آپ کی زیارت کیلئے اپنے آپ کو تیار رکھتے تھے [54]۔اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیعوں کیلئے مستقیم طور پر امام سے ملنا کس قدر دشوار تھا۔ اسماعیل بن محمد کہتا ہے: جہاں سے آپ کا گزر ہوتا تھا میں وہاں کچھ رقم مانگنے کے لئے بیٹھا اور جب امامؑ کا گزر وہاں سے ہوا تو میں نے کچھ مالی مدد آپ سے مانگی[55]۔ ایک اور راوی نقل کرتا ہے کہ ایک دن جب امامؑ کو دار الخلافہ جانا تھا ہم عسکر کے مقام پر آپ کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئے، اس حالت میں آپ کی جانب رقعہ توقیعی (یعنی کچھ لکھا ہوا) ہم تک پہنچا جو کہ اسطرح تھا: کوئی مجھ کو سلام اور حتیٰ میری جانب اشارہ بھی نہ کرے، چونکہ مجھے امان نہیں ہے[56]۔اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ خلیفہ کس حد تک امام اور شیعوں کے درمیان روابط کو زیر نظر رکھتا تھا۔ البتہ امام اور آپ کے شیعہ مختلف جگہوں پر آپس میں ملاقات کرتے تھے اور ملاقات کے مخفیانہ طریقے بھی تھے جو چیز آپ اور شیعوں کے درمیان رابطہ رکھنے میں زیادہ استعمال ہوئی وہ خطوط تھے اور بہت سے منابع میں بھی یہی لکھا گیا ہے[57]۔
امام کے نمائندے
حاکم کی طرف سے شدید محدودیت کی وجہ سے امامؑ نے اپنے شیعوں سے رابطہ رکھنے کے لئے کچھ نمائندوں کا انتخاب کیا ان افراد میں ایک آپ کا خاص خادم عقید تھا جس کو بچپن سے ہی آپ نے پالا تھا، اور آپ کے بہت سے خطوط کو آپ کے شیعوں تک پہنچاتا تھا[58]۔ اسی طرح آپکے خادم جس کی کنیت ابو الادیان تھی اس کے ذمےبعض خطوط پہنچانا تھا[59]۔ لیکن جو امامیہ منابع میں باب کے عنوان سے (امام کا رابط اور نمائندہ) پہنچانا جاتا تھا وہ عثمان بن سعید ہے اور یہی عثمان بن سعید امام حسن عسکریؑ کی وفات کے بعد اور غیبت صغریٰ کے شروع کے دور میں پہلے باب کے عنوان سے یا دوسرے لفظوں میں سفیر، وکیل اور امام زمان(عج) کے خاص نائب میں سے تھا[60]۔
مراسلہ نگاری
امام کا اپنے شیعوں سے رابطہ خطوط کے ذریعے بھی تھا ۔نمونے کے طور پر علی بن حسین بن بابویہ [61] اور قم کے لوگوں کے خط کو ذکر کیا سکتا ہے [62] شیعہ اپنے مسائل اور مختلف موضوعات کے متعلق سوالات خط کی صورت میں لکھتے اور امام انہیں تحریری صورت میں جواب دیتے تھے ۔
معارف دینی کی وضاحت
آخری آئمہ کے زمانے میں امامت سے مربوط ابہامات اور پیچیدگوں کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسن عسکری ؑکے اقوال اور خطوط میں اس کے متعلق ارشادات کا مشاہدہ کرتے ہیں جیسے زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی [63]۔اگر امامت کا سلسلہ منقطع ہوجائے اور اس کا تسلسل ٹوٹ جائے تو خدا کے امور میں خلل واقع ہو جائے گا [64]۔ زمین پر خدا کی حجت ایسی نعمت ہے جو خدا نے مؤمنوں کو عطا کی ہے اور اس کے ذریعے ان کی ہدایت کرتا ہے [65]۔
اس زمانے کی ایک اور دینی تعلیم کہ جس کی وجہ سے شیعہ تحت فشار رہے وہ مومنین کو آپس میں صبر کی تلقین انتظار فرج کا پیغام ہے جو امام کے ارشادات میں زیادہ بیان ہوا ہے [66]۔اسی طرح آپ کی احادیث میں شیعوں کے درمیان باہمی منظم ارتباط اور باہمی بھائی چارے کی فضا کے قیام کے بارے میں بیشتر تاکید ملاحظہ کی جا سکتی ہے[67]۔
تفسیر قرآن
امام حسن عسکری ؑ کے مورد توجہ قرار پانے والی چیزوں میں سے ایک تفسیر قرآن کا عنوان ہے ۔تفسیر قرآن کا ایک مکمل اور تفصیلی متن امام حسن عسکری(تفسیر امام حسن عسکری) سے منسوب ہے کہ جو امامیہ کے قدیمی آثار میں شمار ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ امام کی طرف اس کتاب کی نسبت درست نہ ہونے کی صورت میں بھی اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ تفسیری ابحاث کی نسبت امام حسن عسکریؑ کی شہرت نے اس کتاب کے امام کی طرف منسوب ہونے کے مقدمات فراہم کئے ہیں ۔
کلام اور عقائد
ایسے حالات میں امامیہ کی رہبری اور امامت حضرت امام حسن عسکری ؑ کے ہاتھ آئی جب امامیہ کی صفوں میں بعض ایسی اعتقادی مشکلات موجود تھیں جن میں سے کچھ تو چند دہائیاں پہلے اور کچھ آپ کے زمانے میں پیدا ہوئیں۔ان اعتقادی مسائل میں سے خدا کی جسمیت کی نفی ایک مسئلہ تھا کہ جو کافی سال پہلے پیدا ہوا تھا اور ممتاز ترین اصحاب ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم کے درمیان اس کی وجہ سے اختلافات پائے جاتے تھے ۔امام حسن عسکری کے زمانے میں اس مسئلے نے اتنی شدت اختیار کی کہ سہل بن زیاد آدمی نے امام کو خط لکھ کر آپ سے راہنمائی حاصل کرنے کی درخواست کی۔
امام نے اسے جواب دیتے ہوئے ابتدائی طور پر اللہ کی ذات کے متعلق بحث کرنے سے پرہیز کرنے کا کہا پھر قرآنی آیات سے اس مسئلہ کی جانب ہوں اشارہ فرمایا کہ قرآن میں اس طرح آیا ہے :
 
اللہ واحد و یکتا ہے، وہ نہ تو کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس سے پیدا ہوا ہے۔ اسکا کوئی نظیر و ہمتا نہیں ہے ۔وہ پیدا کرنے والا ہے پیدا ہونے والا نہیں ہے ۔ جسم اور غیر جسم سے جسے چاہے خلق کرسکتا ہے ۔وہ خود جسم و جسمانیت سے مبرا ہے۔۔۔۔کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے وہ بصیر اور سمیع ہے ۔[68]
فقہ
علم حدیث میں آپ کو فقیہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے [69]۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے درمیان اس لقب سے خصوصی طور پر پہچانے جاتے تھے ۔اسی بنیاد پر فقہ کے بعض ابواب میں آپ سے احادیث منقول ہیں۔ البتہ امامیہ مذہب کی فقہ کا بیشترین حصہ حضرت امام جعفر صادق ؑ سے ترتیب شدہ ہے اور اس کے بعد فقہ نے اپنے تکمیلی مراحل طے کئے ہیں لہذا امام حسن عسکری کی زیادہ تر احادیث ان فروعی مسائل کے بارے میں ہیں جو اس دور میں نئے پیدا ہوئے تھے یا ان مسائل کے بارے میں ہیں جو انکے زمانے میں چیلنج کے طور پر پیش ہوئے ۔مثال کے طور پر رمضان کے آغاز کا مسئلہ اور خمس کی بحث  [70]۔
شہادت:
مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ ربیع الاول سنہ۲۶۰ ھ کے شروع میں معتمد عباسی کے ہاتھوں 28 سال کی عمر میں مسموم ہوئے اور اسی مہینے کی 8 تاریخ کو 28 سال کی عمر میں سرّ من رأی (سامرا) میں جام شہادت نوش کرگئے[71]۔ البتہ ربیع الثانی اور جمادی الاولی میں شہید ہونے کے بارے میں بھی بعض روایات ملتی ہیں[72]۔ طبرسی نے اعلام الوری میں لکھا ہے کہ اکثر امامیہ علما نے کہا ہے کہ امام عسکری زہر سے مسموم ہوئے اور اس کی دلیل امام صادقؑ کی ایک روایت ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں «و الله ما منّا الا مقتول شہيد»[73].بعض تاریخی گزارشات کے مطابق یہ سمجھ میں آتا ہے کہ معتمد سے پہلے کے دو خلیفے بھی امام عسکریؑ کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ معتز عباسی نے حاجب کو حکم دیا کہ وہ امامؑ کو کوفہ کے راستے میں قتل کرے لیکن لوگوں کو جب پتہ چلا تو یہ سازش ناکام ہوئی  [74]۔ ایک اور گزارش کے مطابق مہتدی عباسی نے بھی امام کو زندان میں شہید کرنے کا سوچا لیکن انجام دینے سے پہلے اس کی حکومت ختم ہوئی[75]۔ امام عسکریؑ سامرا میں جس گھر میں اپنے والد ماجد امام علی نقی علیہ السلام دفن ہوئے تھے ان کے پہلو میں دفن ہوئے [76]۔
حرم
امام عسکری کی شہادت کے بعد آپؑ کو آپ کے والد گرامی امام علی النقیؑ کے جوار میں دفن کیا گیا[77]۔ بعد میں اس جگہ ایک بارگاہ بنی جو حرم امامین عسکریین سے مشہور ہے۔ امامین عسکرینؑ کا حرم دو بار وہابی دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بن چکا ہے۔ پہلا حملہ 22 فروری 2006ء کو[78] دوسرا حملہ سولہ ماہ بعد یعنی 13 جون 2007ء کو ہوا [79]۔ تخریب حرم عسکریین اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ 2008ء کو حرم کی تعمیر نو شروع ہوگئی۔اور 2015ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔
امام کے اصحاب
(۱)         ابراہیم بن مَہزیار اہوازی
 تیسری صدی ہجری کے شیعہ محدث، امام محمد تقی علیہ السلام کے صحابی اور امام علی نقی علیہ السلام و امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایات نقل کرنے والے روات میں سے ہیں۔ ابراہیم خوزستان (ایران) کے علاقہ دورق کے رہنے والے تھے۔[80] نجاشی کے بقول ان کے والد عیسائی تھے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔[81] ان کی ولادت اور وفات کے سلسلہ میں معلومات دسترس میں نہیں ہیں۔ اس کے باوجود بعض محققین نے بعض دلائل و قرائن سے استناد کرتے ہوئے ان کے زندگی کا زمانہ 195 سے 265 ھ کے درمیان گمان کیا ہے۔[82]ان دلائل میں سے بعض یہ ہیں کہ وہ امام محمد تقی ؑ (شہادت 220 ھ)[83] کے صحابی تھے امام حسن عسکری ؑ کی شہادت (260 ھ) کے بعد بھی زندہ تھے[84] اور بعض روایت میں انہیں امام زمانہ ؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے۔[85]
ان کے تین بیٹے حسین، علی و محمد تھے۔ محمد امام حسن عسکری ؑ کے اصحاب میں سے تھے[86] اور ایک روایت کے مطابق امام زمانہ ؑ کی خدمت میں شرفیاب ہو چکے ہیں[87]۔ محقق معاصر علی اکبر غفاری کے مطابق ان کا نام کتب رجال میں ذکر نہیں ہوا ہے[88]۔ بعض شیعہ منابع رجالی و روایی میں ان کی کنیت ابو اسحاق نقل ہوئی ہے[89]۔شیعہ منابع روایی میں ابراہیم بن مہزیار سے احادیث نقل ہوئی ہیں۔ آیت اللہ خوئی کے مطابق، 50 سے زیادہ روایات کی سند میں ان کا نام ذکر ہوا ہے۔ شیعہ ماہرین رجال کے درمیان ان کی روایات کے معتبر ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ان کی وثاقت کے اثبات کے لئے کتاب کامل الزیارات کی بعض روایات کی سند میں ان کا نام ذکر ہونے سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ بعض علمائے رجال نے کامل الزیارات میں کسی راوی کے نام کے ذکر ہونے کو ایک عمومی وثاقت کے دلائل میں سے قرار دیا گیا ہے۔
(۲) عُثمان بن سعید عَمْری (متوفی 265 ھ سے قبل)
اَبو عَمرو کے نام سے مشہور، امام زمانہؑ کی غیبت صغری کے زمانے میں نواب اربعہ میں سے پہلے نائب خاص ہیں۔ آپ کو امام علی نقیؑ، امام عسکریؑ اور امام مہدیؑ کے اصحاب میں سے شمار کیا گیا ہے لیکن کیا آپ کا شمار امام محمد تقی کے اصحاب میں بھی ہوتا ہے یا نہیں، اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ سنہ 260 ھ میں امام مہدیؑ کی امامت کے آغاز سے لے کر تقریبا 6 یا 7 سال تک آپ امام زمانہؑ کے نائب خاص رہے۔ پھر ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان عمری اس عہدہ پر فائز ہوئے۔ نیابت کے دوران آپ بغداد چلے گئے اور نیابت کا پورا عرصہ وہیں پر ہی مقیم رہے۔ بغداد سمیت عراق کے مختلف شہروں میں انہوں نے اپنے وکلاء مقرر کر رکھے تھے جو شرعی وجوہات کو لوگوں سے جمع کرکے ان تک پہنچاتے تھے۔ امام مہدی ؑ نے ان کی وفات پر ان کے بیٹے محمد بن عثمان کو تسلیتی خط تحریر فرمایا۔ مختلف متون روایی میں عثمان بن سعید کو متعدد القابات جیسے زَیّات و عَمْری سے یاد کیا گیا ہے۔ عثمان بن سعید کی تاریخ ولادت سے متعلق کوئی دقیق معلومات نہیں ہیں۔ لیکن کہا گیا ہے کہ آپ گیارہ سال کی عمر سے ہی امام محمد تقیؑ کے خادم کے طور پر امام کے گھر میں کام کرتے تھے اور بعد میں امام نے انہیں اپنا نمائندہ بنایا یوں آپ امام کے با اعتماد اصحاب میں سے تھے۔[90]
آپ امام علی نقی ؑ، امام حسن عسکری ؑ اور امام زمانہ ؑ‌ کے بھی وکیل رہے ہیں اسی بنا پر ہمیشہ ان حضرات معصومین کے بھی مورد اعتماد ٹھہرے ہیں۔ عثمان بن سعید شروع میں سامرا میں رہتے تھے اور امام حسن عسکری ؑ کی شہادت کے بعد وہ بغداد چلے گئے۔ اس وقت سامرا عباسیوں کا دار الخلافہ اور فوجی چھاونی تھا جو اپنی حکومت کے آغاز سے ہی آئمہ معصومین کے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ روا نہیں رکھتے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ احتمال زیادہ قوی ہے کہ عثمان بن سعید نے اسی وجہ سے سامراء سے بغداد کی طرف ہجرت کی اور وہاں پر کرخ نامی جگہ کو جو ایک شیعہ نشین علاقہ تھا، سکونت کیلئے انتخاب کرکے اسے شیعوں کی رہبری کیلئے مرکز قرار دے دیا۔[91]
(۳) محمد بن حسن صفار قمی
امامیہ مکتب کے محدث، فقیہ اور امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ صفار متعدد رسالوں کے مصنف تھے لیکن وہ مستقل شکل میں ہم تک نہیں پہنچے ہیں۔ شیعہ ائمہ کے فضائل، خصوصیات اور دلائل پر مشتمل احادیث کا مجموعہ بنام بصائرالدرجات ان سے منسوب ہے۔
محمد بن حسن صفار قمی اعرج کے نام سے معروف عیسی بن موسی بن طلحہ اشعری کے ایرانی غلاموں میں سے تھے۔[92] اسی مناسبت سے اشعری سے منسوب ہیں۔ تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے۔ وفات کا سال ۲۹۰ قمری قم مذکور ہے[93] جو غیبت صغری سے متصل تھا۔[94]
شیخ طوسی کے مطابق وہ امام حسن عسکریؑ کے صحابی تھے۔ انکی صحابیت عمدہ ترین شاہد سوالات کا مجموعہ ہے جن کے متعلق انہوں نے امام حسن عسکریؑ سے استفسار کیا تھا۔[95]ممکن ہے یہ خط و کتابت ائمہ کی طرف سے وکالتی نظام کے تحت انکے وکیل اور نمائندہ ہونے کی بیان گر ہو۔
حدیثی منابع میں انہیں ممولہ کے لقب سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جبکہ منابع میں کبھی حمولہ بھی آیا ہے۔ بعض منابع میں امام حسن عسکریؑ سے پوچھے گئے سوالات کے مجموعے کو بھی ممولہ کہا گیا ہے۔[96]
(۴) ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری، (متوفی 305 ھ)
امام زمانہ (عج) کے نواب اربعہ میں سے دوسرے نائب خاص ہیں۔ انھوں نے ابتداء میں امام زمانہ (ع) کے وکیل اور اپنے والد عثمان بن سعید عمری کے معاون اور بعد میں اپنے والد کی موت کے بعد آپ (ع) کے دوسرے نائب خاص کے عنوان سے چالیس سال تک خدمات انجام دیں۔ محمد بن عثمان کی نیابت کے حوالے سے امام حسن عسکری (ع) کی روایت اور امام زمانہ (ع) کی توقیع مبارک میں تصریح ہونے کے باوجود امام زمانہ (ع) کی غیبت کے دوران آپ کی عمومی نیابت کے فرائض انجام دینے والے نائبین میں سے بعض نے ان کی نیابت خاص کے بارے میں شک و تردیک کا اظہار کیا ہے اور بعض نے ان کے مقابلے میں امام کی جانب سے نیابت کا دعوی بھی کیا۔ اپنے والد کی طرح محمد بن عثمان نے بھی بعض معاونین کا انتخاب کیا جو ان وکالتی اور نیابتی امور کی انجام دہی میں ان کی مدد کرتے تھے۔ محمد بن عثمان اپنے زمانے کے فقہاء میں سے تھے اور علم فقہ میں وہ صاحب تالیف بھی تھے اسی طرح امام مہدی (ع) کے بارے میں ان سے بعض روایات بھی نقل ہوئی ہیں۔ بعض مشہور دعائیں جیسے دعائے سمات، دعائے افتتاح و زیارت آل‌ یاسین وغیرہ نیز ان کے ذریعہ سے نقل ہوئی ہیں۔
محمد بن عثمان عمری کی تاریخ پیدائش کے بارے میں دقیق معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ دینی منابع میں ان کا نام محمد بن عثمان بن سعید (امام مہدی (ع) کے پہلے نائب خاص کے عنوان سے) اور ان کی کنیت ابو جعفر ذکر ہوئی ہے۔ آپ کا تعلق بنی اسد کے قبیلہ سے تھا۔[97]ان کے بارے میں حدیثی اور رجالی منابع میں اس کے علاوہ کوئی اور کنیت ذکر نہیں ہوئی ہے۔[98] البتہ ان کے کئی القاب مختلف منابع میں ذکر ہوئے ہیں: کبھی ان کو عَمْری[99]کہا گیا ہے۔ اکثر رجالی اور حدیثی کتابوں میں انہیں اسی نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اسی طرح ان کو اسدی[100] اور کہیں کوفی[101] کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ سمان[102] اور عسکری[103] بھی ان کے القاب میں سے ہیں۔
(۵) ابو القاسم حسین بن روح نوبختی (متوفی 326ھ)
امام زمانہ(عج) کے تیسرے نائب خاص، امام حسن عسکریؑ کے اصحاب اور بغداد میں محمد بن عثمان (دوسرے نائب خاص) کے قریبی معتمدین میں سے تھے۔ محمد بن عثمان نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں امام زمانہؑ کے حکم سے حسین بن روح کو اپنا جانشین مقرر کیا۔نیابت کے ابتدائی دور میں حسین بن روح بنی عباس کے حکام کے یہاں ممتاز مقام و منصب کے حامل تھے۔ لیکن بعد میں ان کے تعلقات خراب ہو گئے یوں آپ کو کچھ مدت کیلئے مخفیانہ زندگی گزارنا پڑا اور آخر کار پانچ سال کیلئے زندان بھی جانا پڑا۔
حسین بن روح کے دوران نیابت کے اہم ترین واقعات میں سے ایک شلمغانی کا واقعہ ہے جو ان کا مورد اعتماد وکیل تھا لیکن گمراہی کا شکار ہوا۔ اس بنا پر امام زمانہؑ کی طرف سے ان کی مذمت میں توقیعات بھی صادر ہوئیں۔بعض فقہی کتابوں کی تصنیف اور علمی مناظرات میں مختلف موضوعات پر عبور اور تسلط رکھنے کی بنا پر آپ کو علمی حلقوں میں ممتاز حیثیت حاصل تھی یہاں تک کہ بعض احادیث کی کتابوں میں کرامات بھی ان سے منسوب کی گئی ہیں۔
آپ کی تاریخ پیدایش کے حوالے سے کوئی دقیق معلومات دستیاب نہیں ہے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم جبکہ نوبختی، روحی[104] اور قمی[105] کے القاب سے ملقب ہیں۔ ایران کے شہر آبہ (ساوہ کے نزدیک) کی زبان بولنے اور وہاں کے باسیوں سے رفت و آمد کی وجہ سے آپ کو قمی کہا جاتا تھا[106]۔ لیکن اکثر منابع میں آپ نوبختی کے نام سے مشہور ہیں۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ماں کی طرف سے خاندان نوبختی سے تعلق رکھتا تھا اسلئے اس نام سے مشہور ہوئے ہیں[107]۔ بعض مورخین کے مطابق آپ کا تعلق قم کے ایک قبیلہ بنی نوبخت سے تھا اور امام زمانہ کے پہلے نائب عثمان بن سعید کی نیابت کے دوران بغداد چلے گئے تھے[108]۔
(۶)  علی بن محمد سَمُرِیّ (متوفی 329 ھ)
غیبت صغری کے زمانے میں امام زمانہ (عج) کے چوتھے اور آخری نائب خاص ہیں جو حسین بن روح نوبختی کے بعد تین سال کیلئے عہدہ نیابت پر فائز رہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ ان کے مکاتبات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آنجناب (ع) کے اصحاب میں سے تھے۔ ان کی مدت نیابت باقی نائبین خاص کی نسبت مختصر رہی ہے لیکن تاریخی منابع میں اس کی کوئی خاص علت بھی ذکر نہیں ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت وقت کی جانب سے شدید دباؤ اور اس دور کے سیاسی و سماجی حالات کی وجہ علی بن محمد سمری کی نیابت کے دوران ان کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھی دوسروں کی نسبت واضح کمی آگئی تھی۔ امام زمانہ (ع) کی طرف سے آپ کے نام صادر ہونے والی توقیع جس میں امام (ع) نے آپ کی موت اور نیابت خاصہ کی مدت کے اختتام کی خبر دی تھی جو ان کی زندگی میں واقع ہونے والے اہم واقعات میں سے ہیں۔ ان کی وفات سے امام زمانہ (ع) کے ساتھ براہ راست رابطہ منقطع ہوا یوں غیبت کبری کا دور شروع ہو گیا۔
علی بن محمد سمری کی تاریخ ولادت کسی منابع میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔ ان کی کنیت ابوالحسن[109] اور ان کا لقب سَمَری، سَیمُری، سَیمَری و یا صیمَری بتا یا جاتا ہے لیکن وہ سَمَری کے نام سے مشہور تھے۔ سَمَّر یا سُمَّر یا صیمر بصرہ کے کسی گاؤں کا نام ہے جہاں ان کے اقارب زندگی بسر کرتے تھے[110]۔
علی بن محمد سمري ایک دیندار شیعہ خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کا خاندان ائمہ معصومین کی خدمت گزاری کے حوالے سے مشہور تھے اور ان کی اسی خاندانی شرافت کی وجہ سے امام زمانہ کے نائب خاص کے عہدے پر فائز ہونے میں انہیں زیادہ مخالفتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا[111]۔
یعقوبی کے مطابق ان کے خاندان کے بہت سارے اکابرین بصرہ میں وسیع املاک و جائداد کے مالک تھے جنھوں نے ان املاک کی نصف آمدنی گیارہویں امام(ع) کے لئے وقف کی تھی۔ امام(ع) ہر سال مذکورہ آمدنی وصول کرتے اور ان کے ساتھ خط و کتابت کرتے تھے[112]۔
علی بن محمد سمری کے بعض دیگر اقارب میں سے علی بن محمد بن زیاد ہیں جو امام حسن عسکری(ع) کے وکلاء میں سے تھے جنہوں نے امام زمانہ (عج) کی امامت کے اثبات کی غرض سے الاوصیاء کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے[113]۔
شیخ طوسی نے انہیں علی بن محمد صیمری کے عنوان سے امام حسن عسکری کے اصحاب کے زمرے میں شمار کیا ہے[114]۔ اور ان کے حضرت امام حسن عسکری(ع) کے ساتھ مکاتبات بھی نقل ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وہ خود کہتے ہیں: امام حسن عسکری (ع) نے مجھے لکھا کہ "تمہیں گمراہ کرنے والا ایک فتنہ پیش آنے والا ہے۔ پس اس سے ہوشیار رہو اور اس سے پرہیز کرو" اس کے تین دن بعد بنی ہاشم کیلئے ایک ناگوار حادثہ پیش آیا جس کی وجہ سے بنی ہاشم کیلئے بہت ساری دشواریاں پیش آئیں۔ اس وقت میں نے امام کو ایک خط لکھا اور سوال کیا کہ آیا وہ فتنہ جس کے بارے میں آپ نے پیشن گوئی کی تھی یہی ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا نہیں وہ اس کے علاوہ ہے لہذا اپنی حفاظت کریں۔ اس کے کچھ دن بعد عباسی خلیفہ معتز بالله کے قتل کا واقعہ پیش آیا[115]۔
(۷)  محمد بن حسین بن ابی الخطاب زید زَیّات ہمدانی کوفی (متوفی 262 ھ)
ابن ابی الخطاب کے نام سے معروف ہیں۔ ان کا شمار شیعہ محدثین اور تین اماموں امام محمد تقی علیہ السلام، امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے اصحاب میں ہوتا ہے۔کلینی (متوفی 328 یا 329 ھ) نے اصول کافی میں مختلف مقامات پر محمد بن الحسین اور ابن قولویہ نے [116] محمد بن الحسین بن ابی الخطاب کے نام سے ان کا ذکر کیا ہے۔
نجاشی نے ان کا نام، کنیت اور ان کے والد کا نام یوں ذکر کیا ہے: محمد بن الحسین بن ابی الخطاب ابو جعفر الزَّیات الہمدانی[117]
علامہ حلّی نے بھی اسی صورت میں ذکر کیا ہے البتہ ظاہر ہوتا ہے کہ الحسین کے بجائے ابی الحسین ذکر کیا ہے[118]۔
تین اماموں کی مصاحبت
مامقانی نے انہیں امام محمد تقی (ع)، امام علی نقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ان سے منقول روایات کا سلسلہ کبھی تین اور چھ واسطوں کے ذریعے ائمہ سے متصل ہو کر امیرالمومنین علی (ع) پر منتہی ہوتا ہے[119]۔
نجاشی نے ان کی روایات کو مورد اطمینان قرار دیا ہے اور انہیں اجلّہ محدثین شیعہ، کثیر الروایہ، ثقہ، شناختہ شدہ اور صاحب تصنیف کے الفاظ سے یاد کیا ہے[120]۔
کثرت روایات، ان کی احادیث اور تین اماموں کے زمانے کو درک کرنے کی وجہ سے بعض مآخذ میں ان کا شمار ان افراد میں سے کیا ہے جو بچپن میں ائمہ کی خدمت میں رہے ہیں[121]۔ آقا بزرگ تہرانی نے ان کی عمر تقریبا سو سال ذکر کی ہے[122]۔
آثار
نجاشی نے درج ذیل آثار کو ان سے منسوب کیا ہے:کتاب التوحیدکتاب المعرفة و البداءکتاب الرد علی اہل القدرکتاب الامامةکتاب اللؤلؤةکتاب وصایا الائمة علیہم السّلامکتاب النّوادر۔[123]
خود ابن ابی الخطاب سے اس سے زیادہ تالیفات کی روایت مروی ہے۔ [124]
(۸) داؤد بن قاسم بن اسحاق (متوفی 261 ھ)
 ابو ہاشم جعفری و داود بن قاسم جعفری کے نام سے مشہور، شیعوں کے چار ائمہ امام علی رضا، امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے شمار ہوتے ہیں۔ وہ موثق اور امامیہ کے معروف راویوں میں ہیں۔
ان کا مکمل نام اور نسب: داوود بن قاسم بن اسحاق بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب ہے۔ ان کے والد قاسم بن اسحاق اصحاب امام صادقؑ [125]اور محمد بن عبداللہ، معروف بنام نفس زکیہ کے طرفداروں میں تھے۔ نقل ہوا ہے کہ وہ نفس زکیہ کی طرف سے امیر یمن مقرر ہوئے اس سے پہلے کہ وہ اپنے فرائض نبھانا شروع کرتے نفس زکیہ قتل ہو گئے[126]۔
ابو ہاشم کی دادی (قاسم بن اسحاق کی ماں)، ام حکیم بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر تھی۔ ان کے فرزند ابو ہاشم امام جعفر صادق ؑ کے خالہ کے بیٹے تھے[127]۔
ان کی زندگی کی تفصیلات معلوم نہیں ہیں لیکن بعض مصادر کی صراحت کے مطابق بغداد نشین تھے[128]۔  اور احتمال ہے کہ وہ دوم ہجری کے آخری سالوں میں پیدا ہوئے کیونکہ مدینہ سے مرو کے سفر امام رضاؑ کے دوران شہر ایذہ (ایذج) میں امام کی ملاقات کیلئے گئے ہیں[129]۔
شیعوں اور ائمہ کے درمیان رابطے کا وسیلہ وکالت تھی کہ جس کی خلفای عباسی کی طرف سے کڑی نگرانی ہونے لگی اور غیبت امام زمان (عج) کا زمانہ نزدیک آنے لگا تھا۔ ابو ہاشم جعفری ائمہؑ کے مورد اعتماد صحابی تھے جو غیبت صغرا کے زمانے میں ایک مدت کیلئے وکیل رہے[130]۔
روایت‌ کرنے والے
شیعہ محدثین کی ایک جماعت نے اس سے نقل حدیث کیا جیسے علی بن ابراہیم قمی، یحیی بن ہاشم، اسحاق بن محمد نخعی، سہل بن زیاد آدمی، محمد بن حسان، ابو احمد بن راشد، احمد بن محمد بن عیسی، محمد بن عیسی، محمد بن ولید، محمد بن احمد علوی، احمد بن اسحاق، محمد بن زیاد، احمد بن ابی عبداللہ برقی، فضل بن شاذان نیشابوری، سعد بن عبداللہ اشعری، عبد اللہ بن جعفر حمیری و[131] ...
اقوال علما
ابی جعفر برقی (متوفی 274 یا 280 ھ) ، کشی (متوفی 330 ھ)، مسعودی (متوفی 346 ھ)، نجاشی (متوفی 450 ھ)، شیخ طوسی (متوفی 460 ھ) الفہرست، او ررجال میں، ابن داوود حلی (متوفی 707 ھ)، علامہ حلی (متوفی 726 ھ) وغیرہ نے ابو ہاشم کو عالم، عابدِ زاہد، عظیم المنزلت، ائمہ کے نزدیک جلیل و شریف القدر جیسی صفات سے یاد کیا ہے۔[132]
تہمت غلو
جہاں ماہرین رجال نے ان کی تعریف بیان کی ہے وہیں کشی نے اپنے رجال میں سوانح ابو ہاشم کے آخر میں بعض روایات ذکر کی ہیں جن میں ان کی طرف غلو کی نسبت دی گئی ہے[133]۔ کشی کے علاوہ کسی اور نے غلو کی نسبت نہیں دی ہے۔
ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی طرف سے ائمہ کے معجزات کی کثیر روایات کے نقل کی وجہ سے ان کی طرف غلو کی نسبت دی گئی ہے[134]۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ان روایات میں ائمہ کے معجزات بیان کرنے کے در پے تھے کہ جو ائمہ کی نسبت نہایت اخلاص کی علامت تھے۔ صرف کشی نے غلو کی نسبت ذکر کی ہے جبکہ دیگر ماہرین نے ان سے اس نسبت کی نفی کی ہے جیسے:
مامقانی:
امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے ابو ہاشم کیلئے سفارت و وکالت کا مرتبہ ہر قسم کی توثیق و تعدیل سے بالاتر ہے۔ اس شخص کی وثاقت، جلالت اور بزرگی میں کسی قسم کا شک نہیں ہے[135]۔
آیت اللہ خوئی:
کشی کی عبارت میں غلو کی دلالت دو لحاظ سے قابل تحقیق ہے پہلی یہ کہ روایت میں تحریف ہوئی ہے یا اس سے ظاہری معنا کے علاوہ کسی اور معنا کا ارادہ کیا جائے جبکہ یہ دونوں باتیں ابو ہاشم جیسی ممتاز شخصیت کی نسبت منتفی ہیں۔ لہذا کیسے اس شخصیت کی طرف غلو کی نسبت دی جائے۔ ان کی وثاقت میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔[136]امام حسن عسکری کے وہ معجزات کہ جنہیں ابو ہاشم نے مشاہدہ کیا وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں جو یہاں ذکر ہوئے، ابو ہاشم سے مروی ہے: میں جب بھی امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے ان سے برہان و دلائل کا ہی مشاہدہ کیا ہے۔[137]
تالیفات
ابو ہاشم کی دو کتابیں اخبار ابو ہاشم‌ اور کتاب شعر‌ مدح اہل بیت ؑ میں ذکر ہوئی ہیں۔[138] ابن عیاش نے ان دونوں کی جمع آوری کی ہے۔[139]البتہ اب یہ دونوں کتابیں دسترس میں نہیں ہیں۔
(۸) سَہل بْن زیاد آدمی (حیات: سنہ 255 ھ)
سَہل بْن زیاد  کا شمار تیسری ہجری کے شیعہ محدثین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے امام محمد تقیؑ، امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ سے روایات کو نقل کیا ہے۔ ان کا نام 2300 سے زیادہ حدیثوں کی سند میں آیا ہے۔ اس کے باوجود بھی علمائے رجال شیعہ، ان کی وثاقت پر اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ شیعوں کے بعض علمائے رجال جیسے احمد بن علی نجاشی، ابن غضائری اور سید ابو القاسم خوئی نے سہل بن زیاد کو غلو کے اتہام میں قم سے اخراج کی وجہ سے ان کی تضعیف کی ہے۔ لیکن بعض علمائے رجال جیسے وحید بہبہانی، محدث نوری اور سید محمد مہدی بحر العلوم نے ان کی توثیق کی ہے۔ شیخ اجازہ ہونا، کثرت سے روایات کرنا، کتب اربعہ کے مصنفین کا اس پر اعتماد کرنا، شیخ طوسی کا اپنی کتاب رجال میں ان کی وثاقت بیان کرنا اور اسی طرح فقہا کا ان کی روایات کی بنا پر فتوی دینا ان کی وثاقت کے دلایل میں سے ہے۔علامہ مجلسی اور سید محمد مہدی بحر العلوم کے مطابق اگر سہل کی وثاقت کو قبول نہ کیا جائے تو صرف اس لئے کہ وہ مشایخ اجازہ میں سے تھے ان کی روایات صحیح ہیں۔سہل کی رجالی اور حدیثی شخصیت کے بارے میں اور اس کی وثاقت کو ثابت کرنے کے لئے کافی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جیسے محمد جعفر طبسی کی کتاب مسند سہل بن زیاد الآدمی جو پانچ جلد پر مشتمل ہے، اس کی روایات کو ابواب فقہ کی ترتیب کے اعتبار سے جمع کیا گیا ہے۔سہل بن زیاد آدمی تیسری ہجری میں حدیث کے راوی تھے۔ انہوں نے کچھ وقت قم میں گزارا، احمد بن محمد بن عیسی اشعری نے انہیں کذّاب (جھوٹا) کہا اور قم سے باہر نکال دیا۔ اس طرح وہ شہر ری چلے گئے۔[140]سہل نے امام حسن عسکریؑ سے 15 ربیع الثانی سنہ 255 کو خط و کتابت کیا۔[141]یہ نامہ مسئلہ توحید کے بارے میں تھا کہ جسے شیخ صدوق نے اپنی کتاب توحید میں نقل کیا ہے۔[142]سہل کی کنیت ابو سعود تھی۔[143]
شیعوں کے رجال کے مصنف علی نمازی شاہرودی (متوفی 1364 ش) کے مطابق سہل بن زیاد کی شخصیت کے بارے میں دو نظریات ہیں:
1 ۔تضعیف:
یہ نظر علمائے رجال جیسے نجاشی،ابن غضائری،شیخ طوسی الفہرست میں اور آیت‌ اللہ خویی کی ہے۔ اس گروہ کی دلیل یہ ہے کہ سہل ابن زیاد کو احمد بن محمد بن عیسی اشعری نے غلو اور جھوٹ کی نسبت دی اور قم سے اخراج کر دیا۔اس کے با وجود نمازی شاہرودی نے کہا ہے کہ اس کی احادیث میں ایسی کوئی چیز جو ضعف یا اس کے عقیدہ میں غلو کا سبب ہو، نہیں پائی جاتی اور یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اس کی طرف غلو کی نسبت کا سبب وہ روایات ہیں جو مقام و منزلت اہلبیتؑ پر دلالت کرتی ہیں۔اسی طرح سید محمد مہدی بحر العلوم کا خیال ہے کہ اگر یہ باتیں سچ ہیں تو دوسرے ضعیف راویوں کی طرح اس کی مذمت کے بارے میں بھی ائمہ معصومینؑ کی روایات ہونی چاہئے تھیں۔[144]
2 ۔توثیق:
وحید بہبہانی،عبداللہ مامقانی، محدث نوری،سید محمد مہدی بحر العلوم اور شیخ طوسی کی کتاب رجال  یہ وہ علمائے رجال ہیں کہ جنہوں نے سہل بن زیاد کی توثیق کی ہے۔ کثرت سے روایات کرنا، شیخ طوسی کا اپنی کتاب رجال میں اس کی وثاقت کو درج کرنا، کتب اربعہ کے مصنفین کا اس کے اوپر اعتماد خاص طور سے شیخ کلینی کا اعتماد کرنا، شیخ اجازہ ہونا، اور فقہا کا اس کی روایات کی بنا پر فتوی دینا وغیرہ یہ سب وہ دلائل ہیں جو مندرجہ بالا علمائے رجال نے پیش کئے ہیں۔آیت اللہ خوئی نے یہ احتمال دیا ہے کہ شیخ طوسی کے ذریعہ جو سہل بن زیاد کی توثیق ہوئی ہے وہ نسخہ لکھنے والوں نے اضافہ کیا ہے یا خود شیخ طوسی سے سہو القلمی (بھولے سے لکھ گیا) ہو گئی ہے۔علامہ بحر العلوم اور علامہ مجلسی کے نظریہ کے مطابق اگر سہل کی وثاقت کو قبول نہ کیا جائے تب بھی اس کی روایات کا شمار حدیث صحیح میں ہوتا ہے اور وہ سب قابل اعتماد ہیں۔ اس لئے کہ وہ مشایخ اجازہ (جو بہت زیادہ روایات کو حفظ، اسے لکھنے اور حفظ میں دقت اور نقل حدیث میں مرجعیت کا مقام رکھے) میں سے ہے۔[145]
نقل روایت
آیت اللہ خوئی نے اپنی کتاب معجم رجال الحدیث میں فرمایا ہے کہ سہل کا نام اسناد حدیث میں 2304 بار ذکر ہوا ہے۔[146]حسن مہدوی نے اپنی کتاب «سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال» میں کہا ہے کہ الکافی میں 1537، تہذیب میں 442، استبصار میں 139، کامل الزیارات میں 9، من لا یحضر الفقیہ میں 7 اور امالی صدوق میں 3 روایت سہل سے نقل ہوئی ہیں۔[147] اسی طرح کتاب التوحید اور النوادر سہل کے آثار میں شمار کی جاتی ہیں۔[148]
سہل بن زیاد نے امام محمد تقیؑ، امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ سے روایات کو نقل کیا ہے۔[149] اس کی روایات کا موضوع اعتقادات اور فقہی زمینہ پر مشتمل ہے۔[150] محمد بن جعفر طبسی کی کتاب «مسند سہل بن زیاد آلادمی من اصحاب الامام الجواد و الہادی و العسکری علیہم‌السلام» جو سہل بن زیاد کی روایات پر پانچ جلد پر مشتمل ہے اور جس کی وسائل الشیعہ کی ترتیب کے اعتبار سے جمع آوری کی گئی ہے۔ اس کتاب میں روایات کو سند کامل اور کتاب مراۃ العقول، بحار الانوار، الوافی اور اصول کافی کی شرح کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔[151]
احمد بن فضل بن محمد ہاشمی، محمد بن احمد بن یحیی، محمد بن حسن بن صَفّار، ابن قولویہ، علی بن ابراہیم، ابوالحسین اسدی و ۔۔۔ نے سہل سے روایت کی ہے۔[152] سہل بن زیاد کی رجالی شخصیت اور اس کی روایات کے سلسلے میں فارسی اور عربی زبان میں من جملہ کتابیں لکھی گئی ہیں:
«سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال» اثر حسن مہدوی: یہ کتاب سہل کی وثاقت کے اثبات کے لئے لکھی گئی ہے۔[153]سہل کے مشایخ اور راویوں کی پہچان، اس کے بارے میں علمائے رجال کے نظریات پر گفتگو اور اس کی روایات کی تحلیل وغیرہ اس کتاب کے عناوین ہیں۔[154]مرکز فقہی ائمہ اطہارؑ نے اس کتاب کو نشر کیا ہے۔دراسۃ فی شخصيۃ سہل بن زیاد و روایاتِہ اثر حیدر عبدالکریم مسجدی: اس کتاب کا محور سہل کی وہ روایات ہیں جو کتاب کافی میں نقل ہوئی ہیں اور زبان عربی میں ہے۔ سہل کی شخسیت پر گفتگو، اس کے راوی اور مشایخ وغیرہ اس کتاب کے عناوین ہیں۔[155]
سہل بن زیاد الآدمی بین الوثاقۃ و الضعف: محمد جعفر طبسی کی یہ کتاب مرکز فقہی ائمہ اطہار کے انتشارات سے نشر ہوئی ہے۔[156]
(۹) محمد بن احمد بن جعفر قطان قمی
 غیبت صغری میں امام زمانہ (ع) کے نائب اول اور نائب دوم کے خاص وکیلوں اور معاونوں میں سے تھے۔ شیخ طوسی نے انہیں امام حسن عسکری (ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے کہ جنہوں نے امام علی نقی (ع) کو بھی درک کیا ہے اور شیخ صدوق کے نقل کے مطابق انہیں امام عصر (ع) کے دیدار کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔روایات میں ان کے نام کے ساتھ قمی کا لفظ استعمال ہوا ہے شاید یہ ان کے محل ولادت یا ابتدائی محل زندگی کی طرف اشارہ ہو۔ وہ غیبت صغری کے زمانہ میں شہر بغداد میں مقیم تھے۔ ان کا لقب قطان (روئی فروش)[157] اور اسی طرح سے عطار[158] ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے ان کے مشغلہ کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ ان کی کنیت ابو جعفر تھی۔[159]
تین اماموں کے محضر میں
شیخ طوسی نے ان کا شمار امام حسن عسکری (ع) کے وکلاء اور اصحاب میں کیا ہے اور مزید کہا ہے کہ انہوں نے امام علی نقی (ع) کو بھی درک کیا ہے۔[160]اسی طرح سے شیخ صدوق نے انہیں بغداد کے ان وکلاء میں شمار کیا ہے جنہیں امام مہدی (ع) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے۔[161]
امام عصر سے خاص قربت
رجال کشی میں احمد بن ابراہیم مراغی سے ایک روایت ان کی مدح میں اس طرح سے ذکر ہوئی ہے:
و لیس له ثالث فی الارض فی القرب من الاصل یصفنا لصاحب الناحیة۔ [162]اس حدیث سے امام زمانہ (ع) سے ان کی قربت کا پتہ چلتا ہے۔
وکالت
اس سلسلہ میں نقل ہونے والی گزارشات سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن احمد قطان غیبت صغری کے ابتدائی سالوں میں امام زمانہ (ع) کے نائب اول و نائب دوم کے خاص وکیلوں اور قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور کبھی کبھی خود امام مہدی (ع) وجوہات شرعیہ کے سلسلہ میں بلا واسطہ ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم صادر فرمایا کرتے تھے۔[163]ان کے لقب قمی کے پیش نظر گویا ان کی وکالت اور فعالیت کا علاقہ قم تھا۔ البتہ بعض دیگر شواہد کے مطابق، غیبت صغری کے آغاز کے ساتھ ہی وہ بغداد منتقل ہو گئے اور احمد بن اسحاق و حاجز بن یزید وشاء کے ہمراہ نائب اول و نائب دوم کے معاون اعلی کے طور پر فعالیت میں مشغول ہو گئے۔[164]شیخ صدوق نے ان کا شمار بغداد کے وکلاء کے اس گروہ میں کیا ہے جو امام زمانہ (ع) کی زیارت سے شرفیاب ہوئے۔[165]محمد بن احمد بن قطان وکالت کے سلسلہ میں اعلی منزلت پر فائز تھے اور ان کا کردار معاون سفیر کا تھا اور جیسا کہ جیسا شیخ مفید کی روایت[166]سے معلوم ہوتا ہے کہ وکالت کے سلسلہ میں محمد بن احمد کا رتبہ اس قدر بلند تھا کہ بعض شیعہ انہیں امام مہدی (ع) کا نائب اور سفیر تصور کرتے تھے۔[167]
بعض گزارشات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیعوں اور امام کے درمیان خط و کتابت اور توقیعات کے صدور کا ذریعہ تھے۔[168]
نتیجہ
امام حسن عسکری علیہ السلام  اور آپ کے اصحاب کے حالات پڑھنے کے بعد ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کتنے مشکل حالات میں بھی ہمارے اماموں نے ہم تک دین پہنچایا جہاں امام کی طرف  ایک چھوٹا سا اشارہ کرنا بھی امام یا امام کے صحابی کیلیے جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا وہاں بھی نظام وکالت رے اماوکوبرقرار رکھا  اور پھر وہی نظام نائبین امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف میں نظر آتا ہے اور غیبت کبرٰی کے دور میں یہی نظام مراجع عظام کی  صورت میں نظر آتا ہے تو ہمیں اس پورے  نظام کی قدر کرنی چاہیے کہ کن مشکلات سے ہوتا ہوا یہ نظام ہم تک پہنچا ہے
والسلام علیکم  ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 
 
[1]  کلینی ، کافی ، 1391 ق ، ج 1 ، ص 503 : شیخ مفید ، الارشاد ، 1414ق ، ج 2 ، 313
[2] ابن طلحہ  ، مطالب السؤل ، نجف ، 1371 ق ، ج2 ،ص78 ؛  سبط ابن جوزی ، تذکرہ الخواص ، نجف ، 1383ق ، ص 362 ۔
[3]  نوبختی ، فرق الشیعہ ، نجف ، 1355ق ، ص 92
[4]  مسعودی ، اثبات الوصیہ م بیروت 1409 ق ، ص 258
[5] حسین بن عبدالوہاب ، عیون النعجزات ، نجف1369ق ، ص 123
[6]  طبسی ، حیاۃ الام العسکری ، ص 344- 320 
[7]  مفید ، الرشاد ، 1413ق ، ج 2 ، ص 311-312 
[8]  ابن شہر آشوب ، مناقب ، ج 4 ، ص 421
[9]  ابن خلکان ، وافیات العیان ، ج 2 ، ص 94  
[10]  ابن شہر آشوب ، ج3 ، ص 526 ،
[11] دلائل الامامۃ ، طبری ، ص 424
[12]  موسسہ الامام العسکری ، خز علی ، ج1 ، ص 32
[13]  ہمان  
[14]  مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 258-266 ۔
[15]  ابن حاتم ، الدرالنظیم ، ص 737
[16]  نو بختی ، فرق الشیعہ ، 1355 ق ، ص 95
[17]  ابن رستم طبری ، دلائل الامامہ ، ق1413 ، ص 423
[18]  ابن ابی الثلج ، راریخ الاآئمہ  مجموعہ نفسیہ ، 1396 ق ، ص 14 ۔
[19]  مفید ، مسار الشیعہ ، 52 ، ابن طاووس ، الاقبال ، ج 3، ص 149
[20]  ابن شہر آشوب ، مناقب ال ابی طالب ، ج 3 ، ص 523
[21]  ابن ابی الثلج ، ص 14
[22]  شیخ صدوق ، کمال الدین ، ج 2 ، ص 418
[23]  مسعودی ، اظبات الوصیہ ۔ ص 266
[24] رک : شیخ صدوق ، کمال الدین ، ص 307 
[25] ابن ابی الثلج ، مجموعہ نفیسہ ، ص 27
[26]  رک : طریحی ، جامعہ المقوال ، ص 160 
[27]  ابن شہر آشوب ، مناقب ، ج 3 ، ص 523
[28]  ابن طلحہ ، مطالب السؤل ، ج 2 ، ص 78
[29]  رک : طریحی ، جامعہ المقال ، ص 190
[30]  زرندی ، معارج الوصول الی معرفہ فضل  ال الرسول (ص) ، ص 172
[31]  خصیبی ، الہدایہ الکبری ، ص 328
[32]  ابن ابی الثلج ، مجموعہ نفیسہ ، ص 22-21
[33]  فخر الدین رازی ، الشجرہ المبارکہ ، ص 78
[34]  ابن حزم ، جمہرۃ انساب العرب ، ص 61
[35]  مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 259
[36]  نوبختی ، فرق الشیعہ ، ص 92
[37]  شیخ صدوق ، عیون اخباز الرضا ، 1378 ق ، ج 2 ص 135
[38]  قطب الدین راوندی ، الخرائج و الجرائح ، ج 1 ، ص 425 – 426
[39] طبری ، دلائل الامامہ ، ج 1 ، 223
[40]  شیخ مفید ، الارشاد ، ص 495
[41]  مسعودی ، مروج الذھب ، ج 4 ، ص 112
[42]  مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 263
[43]  مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 268 
[44]  مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 269
[45] مسعودی ، مروج الذھب ، ج 4 ، ص 94
[46] ابن اثیر ، الکامل ، ج 7 ، ص 239 – 240
[47]  مسعودی ، مروج الذھب ، ج 4 م ص 108
[48]  تاریخ طبری ، ج 9 ، ص 410
[49]  مروج الذھب ، ج 4 ، ص 108
[50] ھمان
[51] مناقب ابن شہر آشوب ، ج 4 ، ص 428
[52]  مسعودی ، مروج الذھب ، ج 4 ، ص 108
[53]  مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 270
[54]  شیخ مفید ، الارشاد ، ص 387
[55]  اربلی ، کشف الغمہ فی معرفہ الآئمہ ، ج 2 ، ص 413
[56]  راوندی ، الخرائج و الجرائح ، ج 1 ، ص 439 
[57]  ابن شہر آشوب ، مناقب ، ج 4 ، ص 425
[58]  شیخ طوسی ، الغیبہ ، ص 272
[59]  شیخ صدوق ، کمال الدین م ص 475 
[60] پاکتچی ، حسن عسکری ، ص 626
[61] روضات الجنان ، ج 4 ، ص 273 و274
[62] ابن شہر آشوب ، المناقب ، ج 4 ، ص 425 (بیروت)
[63]  مسعودی اثبات الوصیہ ، ص 271
[64]  ابن بابویہ ، کمال الدین ، ص 43
[65]  رجال کشی ، ص 541
[66]  مناقب ابن شہر آشوب ، ج 3 ، ص 527
[67]  مناقب ابن شہر آشوب ، ج 3 ، ص 526
[68]  کلینی ، کافی ، ج 1 ، ص 103
[69]  طریحی ، جامع المقال ، ص 185
[70]  دائرہ المعارف بزرگ اسلامی ، ج 20 ، ص 630
[71]  کلینی ، کافی ، ج 1 ، 1391 ق ، ص 503
[72]  مقدسی ، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان ، 1391 ، ص 530-533
[73]  طبرسی ، اعلام الوری ، 1471 ق ، ج 2 ، ص 131
[74]  شیخ طوسی ، الغیبہ ، 1398 ق ، ص 208
[75]  مسعودی ، اثبات الوصیہ ، 1409 ق ، ص 268
[76]  شیخ مفید ، الارشاد ، 1414 ق ، ج 2 ، ص 313
[77]  شیخ مفید ، الارشاد ، 1414 ق ، ج 2 ، ص 313
[78]  خامہ یار ، تخریب زیارتگاھھای اسلامی در کشور ہای عربی ، ص 29 و 30
[79] خامہ یار ، تخریب زیارتگاھھای اسلامی در کشور ہای عربی ، ص 30
[80] ۔ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۲۵۳.
[81] ۔ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۲۵۳.
[82] ۔ گذشته، «ابراهیم بن مهزیار»، ج۲، ص۴۵۸.
[83] ۔ طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۳۷۴.
[84] ۔ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۱۸.
[85] . صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ص۴۴۵-۴۵۳.
[86] . طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۴۰۲.
[87] . صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۴۴۲.
[88] . صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۴۶۶، پانویس.
[89] نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۶؛ مامقانی، تنقیح المقال، ۱۴۳۱ق، ج۵، ص۱۷.
[90] . جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۲.
[91] . جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۹.
[92] . نجاشی، ص۳۵۴
[93] . نجاشی،رجال نجاشی،ص354 ش948۔
[94] . جباری، ص۱۹۵ .
[95] . طوسی، الفہرست، ص۲۲۱
[96] . طوسی، الابواب، ج۱، ص۴۰۲
[97] . مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۱، ص۳۴۴.
[98] . غفارزاده، زندگانی نواب خاص امام زمان، ۱۳۷۹ش، ص۱۵۵.
[99] . نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۴۰۸.
[100] . مامقانی، تنقیح المقال، ۱۳۵۲ق، ج۳، ص۱۴۹.
[101]  مامقانی، تنقیح المقال، ۱۳۵۲ق، ج۳، ص۱۴۹.
[102] . صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۵۴.
[103] . ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۶ق، ج۸، ص۱۰۹.
[104] طوسی، الغیبۃ، ۱۴۱۱ق، ص۲۲۵.
[105] . کشی، رجال کشی، ۱۳۴۸ش، ص۵۵۷.
[106] صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۵۰۳-۵۰۴.، طوسی، الغیبۃ، ۱۴۱۱ق، ص۱۹۵.، اقبال آشتیانی، خاندان نوبختی، ۱۳۴۵ش، ص۲۱۴.
[107] . اقبال آشتیانی، خاندان نوبختی، ۱۳۴۵ش، ص۲۱۴.
[108] . جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ۱۳۸۵ش، ص۱۹۲.
[109] . مامقانی، تنقیح المقال، ۱۳۵۲ق، ج۲، ص۳۰۵.
[110] . جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۴۷۹.
[111] . جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت، ص210.
[112] . جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۵۸۳ بہ نقل از اثبات الوصیہ، ۱۴۲۶ق، ص۲۵۵.
[113] . جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۴۷۹.
[114] . طوسی، رجال، ص389.
[115] . صدر، تاریخ الغیبہ، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹.
[116] . ابن قولویه، کامل الزیارات، ص۳۷.
[117] . نجاشی، رجال، ص۲۳۶.
[118] . حلی، کتاب الرجال، ص۲۸۵.
[119]  . مامقانی، تتقیح المقال، ص۱۰۶
[120]  . نجاشی، رجال، ص۲۳۶.
[121]  . مامقانی، تتقیح المقال، ص۱۰۶ .
[122] آقابزرگ، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۲، ص۳۳۴.
[123] ۔ نجاشی، رجال، ص۲۳۶.
[124] ۔ خویی، معجم رجال الحدیث، ج۱۵، ص۲۹۱.
 
[125] . نجاشی، رجال، ج۱، ص۳۶۲؛ ابن عنتبہ، عمدہ الطالب، ص۴۲؛ علامہ حلی، خلاصہ الاقوال، ص۱۴۲
[126] ۔ محدث قمی، منتہی الآمال، ج۲، باب دوازدہم، ص۵۵۶؛ اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۲۶۴؛ طبری، تاریخ، ج۷، ص۵۶۱
[127] ۔ محدث قمی، الکنی و الالقاب، ج۱، صص۱۷۴ – ۱۷۵؛ ابن عنتبہ، عمدہ الطالب، صص۴۱ – ۴۲
[128] ۔ طوسی، الفہرست، ص۶۷؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۸، ص۳۶۹
[129] ۔ راوندی، الخرائج و الجرائح، ج۲، ص۶۶۱
[130] ۔ تفرشی، نقد الرجال، ج۲، ص۲۱۹؛ حائری، منتہی المقال فی احوال الرجال، ج۳، ص۲۰۸؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ص۴۱۶؛ امین، اعیان الشیعہ، ج۶، ص۳۷۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۶۵، ذیل حدیث ۱۳؛ تبریزی، ریحانہ الادب، ج۷، ص۲۹۵
[131] ۔ نکـ: اردبیلی، جامع الرواة، ج۱، ص۳۰۷؛ ابن بابویہ، مشیخہ، ص۵۱۷؛ ابن بابویہ، التوحید، صص۸۲-۸۳؛ کشی، رجال، ص۵۴۳-۵۴۴؛ نجاشی، رجال، ص۴۴۷
[132] ۔ بالترتیب برقی، رجال، ص۵۶. کشی، رجال، ص۴۷۸. مسعودی، مروج الذہب، ج۲، ص۵۵۳. نجاشی، رجال، ج۱، ص۳۶۲. طوسی، الفہرست، ص۱۸۱. طوسی، رجال، ص۴۳۱. ابن داوود، رجال، ص۱۴۶. علامہ حلی، خلاصہ الاقوال، ص۱۴۲. محدث قمی، الکنی و الالقاب، ج۱، ص۱۷۴. محدث قمی، منتہی الآمال، ج۲، باب دوازدہم، ص۵۵۶. مدرس تبریزی، ریحانہ الادب، ج۷، ص۲۹۵. صدر، تکملہ امل الآمل، ج۳، ص۳۵.قہپایی، مجمع الرجال، ج۲، ص۲۸۸- ۲۸۹. مجلسی، رجال مجلسی، ص۲۰۹. حائری، منتہی المقال فی احوال الرجال، ج۳، ص۲۰۷- ۲۰۸.امین، اعیان الشیعہ، ج۶، ص۳۷۷- ۳۷۸.مامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال، ج۲۶، ص۲۴۱.خویی، معجم الرجال الحدیث، ج۸، ص۱۲۲ - ۱۲۳.تستری، قاموس الرجال، ج۴، ص۲۵۶. اردبیلی، جامع الرواہ، ج۱، ص۳۰۷.
[133] ۔ کشی، رجال، ص۵۷۱.
[134] امین، اعیان الشیعہ، ج۶، ص۳۷۸.
[135] ۔ مامقانی، تنقیح المقال، ج۲۶، ص۲۴۷- ۲۴۸.
[136] ۔  خویی، معجم رجال الحدیث، ج۸، ص۱۲۴.
[137] ۔  محدث قمی، منتہی الآمال، ج۲، باب سیزدہم، ص۵۷۴.
[138] ۔  طوسی، الفہرست، ص۱۸۱.
[139] ۔  نجاشی، رجال، ج۱، ص۲۲۵ - ۲۲۶.
[140] ۔ نجاشی، رجال ‏النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۸۵۔
[141] ۔ نجاشی، رجال ‏النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۸۵۔
[142] ۔ شیخ صدوق، التوحید، ۱۳۹۸ھ، ص۱۰۱-۱۰۲۔
[143] ۔  طوسی، رجال، ۱۳۷۳ش، ص۳۸۷۔
[144] ۔ نجاشی، رجال ‏النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۸۵۔ ابن ‏غضائری، الرجال، ۱۴۲۲ھ، ص۶۶-۶۷۔ طوسی، فہرست، ۱۴۲۰ھ، ص۲۲۸۔ خویی، معجم ‏رجال ‏الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۴۰۔ نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ھ، ج۴، ص۱۷۶؛ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۳۹۔ نمازی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ھ، ج۴، ص۱۷۶-۱۷۷۔
[145] ۔ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۳۹۔ نوری، خاتمہ المستدرک، مؤسسہ آل‌ البیت، ج۵، ص۲۳۰-۲۱۳۔ بحر العلوم، الفوائد الرجالیۃ، ۱۳۶۳ش، ج‌۳، ص۲۳۔ طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۳۸۷۔ بحر العلوم، الفوائد الرجالیۃ، ۱۳۶۳ش، ج‌۳، ص۲۴۔ نمازی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ھ، ج۴، ص۱۷۶-۱۷۷۔ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۴۰۔ بحر العلوم، فوائد الرجالیہ، ۱۳۶۳ش، ج۳، ص۲۵؛‌ علامہ مجلسی، الوجیزۃ فی الرجال، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ص۹۱۔
[146] ۔  خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۴۱-۳۴۲۔
[147] ۔  مہدوی، سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال، ۱۳۹۱ش، ص۱۵۳۔
[148] ۔  نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۸۵۔
[149] ۔  طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ھ، ج۲، ص۸۳۷۔
[150] ۔  مہدوی، سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال، ۱۳۹۱ش، ص۱۵۴-۱۷۷۔
[151] ۔  طبسی، مسند سہل بن زیاد الآدمی، ۱۳۹۵ش، ص۶۰۔
[152] ۔  طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۳۶۵ش، المشیخۃ ج۱۰، ص۵۴۔
[153] ۔  مہدوی، سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال، ۱۳۹۱ش، ص۱۵۰۔
[154] ۔  مہدوی، سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال، ۱۳۹۱ش، پیشگفتار، ص۱۳۔
[155] ۔ دراسۃ فی شخصیۃ سہل بن زیاد و روایاتہ، پایگاہ اطلاع‌رسانی حدیث شیعہ۔
[156] ۔  طبسی، سہل بن زیاد الآدمی بین الوثاقۃ و الضعف، مرکز فقہی ائمہ اطہار۔
[157] ۔ طبری، دلائل الإمامة، ص۵۲۳۔
[158] ۔ رجال کشی، ص۵۳۴۔
[159] ۔ طبری، دلائل الإمامة، ص۵۲۳۔
[160] ۔ رجال شیخ طوسی، ص۴۳۶۔
[161] ۔ صدوق، کمال الدین، ص۴۴۲۔
[162] ۔ رجال کشی، ص۵۳۴۔
[163] ۔ طبری، دلائل الامامه، ص۵۱۹-۵۲۳؛ راوندی، الخرائج و الجرائح، ج۲، ص۷۰۲۔
[164] ۔ جباری، سازمان وکالت، ج۲، ص۵۵۷۔
[165] ۔ صدوق، کمال الدین، ص۴۴۲۔
[166] ۔ شیخ مفید، الإرشاد، ج۲، ص۳۶۰۔
[167] ۔ جباری، سازمان وکالت، ج۲، ص۵۵۹۔
[168] ۔  رجال کشی، ص۵۳۴۔