اچھی زندگی گزارنے کا طریقہ

قال علی علیه السلام 

فدارھا علی کل حال و احسن الصحبہ لھا فیصفو عیشك

حضرت علی علیہ السّلام نے فرمایا:

ہمیشہ بیوی کے ساتھ نیکی کریں اور اس کے ساتھ پیار و محبت سے رہیں تاکہ تمہاری زندگی اچھی گزرے 

📚مکارم الاخلاق ،ص 218

امت کے بہترین مرد

قال رسول اللّٰه صلى الله عليه و آله و سلم:

خیر الرجال من امتی الذین لا یتطاولون علی اھلیھم و یحنون علیھم ولا یظلمونھم 

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:

 میری امت کے ںہترین مرد وہ ہیں جو اپنی فیملی کیلئے غصیلے اور متکبر نہ ہوں بلکہ رحم اور نوازش کرنے والے ہوں اور اپنی فیملی کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچائیں ۔   

📚مکارم الاخلاق ص 216

بیوی پر تشدد کی سزا

قال رسول اللّٰه صلى الله عليه و آله و سلم:

فای رجل لطم امراته لطمة ، امر الله عزوجل مالك خازن النيران فيطمه علي حر وجهه سبعىن لطمة فى نار جهنم .
 رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے چہرے پر ایک تھپڑ مارے تو خدا جہنم کے نگہبان کو حکم فرماتا ہے کہ اس کے منہ پر ستر (70) تھپڑ مارو۔ 

📚 مستدرك الوسائل ج14 ص 250

ایمان اور کفر کا معیار

قال رسول اللّٰه صلى الله عليه و آله و سلم:

حبّ علیّ إیمان و بغضه کفر. 
  پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: 
علی(ع) کی محبت ایمان اور دشمنی کفر ہے.


📚 1. «احمد بن حنبل» کتاب المناقب، ص171مخطوط.
2. «حاکم ابو عبد الله نیشابوری»  کتاب مستدرک ج3، ص129، چاپ حیدرآباد دکن.
3. «احمد بن حجر عسقلانی»  کتاب لسان المیزان ج5، ص161، چاپ حیدرآباد.
4. «آلوسى» کتاب روح المعانی ج2، ص17 چاپ منیریه مصر.
5. «ذهبی» کتاب میزان الاعتدال ص236، چاپ حیدرآباد.
6. «خطیب خوارزمی» کتاب المناقب ص226، چاپ تبریز.
7. «نور الدین هیثمی» کتاب مجمع الزوائد ج9، ص133، چاپ مکتبه القدسی، قاهره.
8. «ابن ابى الحدید» کتاب شرح نهج‌البلاغه ج4، ص520، چاپ مصر.
9. «ابن حجر هیتمى» کتاب الصواعق المحرقه، ص172، چاپ محمدیه مصر.
10. «خطیب بغدادی» کتاب موضح اوهام الجمع و التفریق ج1، ص41، چاپ حیدرآباد دکن.
11. «طبری» کتاب ذخائر العقبى ص91، چاپ مکتبه القدسی مصر.
12. «سیوطی»کتاب تاریخ الخلفاء، ص66، چاپ میمنیه مصر.
13. «قندوزى» کتاب ینابیع الموده، ص47 و 213 و 247 چاپ اسلامبول.
14. «نور الدین هیثمی»  کتاب مجمع الزوائد ج9، ص132، چاپ مکتبه القدسی، قاهره.
15. «شیخ حسن عدوى حمراوى»  کتاب مشارق الانوار ص 122، چاپ مصر.
16. «علامه طحاوی»  کتاب مشکل الآثار ج1، ص48، چاپ حیدرآباد دکن.
17. «ابن عبد البر» کتاب الاستیعاب ج2، ص460، چاپ حیدرآباد الدکن.
18. «قاضی موسى بن عیاض یحصبى» کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفى ج2، ص41.
19. «شیخ محمد بهجت دمشقی» کتاب نقد عین المیزان، ص14، چاپ مجله قیمریه.
20. «سید محمد بن یوسف تونسى» مشهور به «کافی»  کتاب السیف الیمانی المسلول ص 49.

بیوی سے اظہارِ محبت کی تاثیر

قال رسول اللّٰه صلى الله عليه و آله و سلم:

قول الرجل للمراة انی احبك لا یذھب من قلبھا ابدا

مرد کا اپنی بیوی کو یہ کہنا کہ مجھے تم سے محبت ہے ، ھمیشہ بیوی کے دل میں رہتا ہے

📚 وسائل الشیعہ ج14ص10

قال رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم:

للمرأة علي زوجها ان يشبع بطنها، و يكسو ظهرها، ويعلمها الصلاة والصوم والزكاة ان كان في مالها حق، ولاتخالفه في ذلك 

 رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:

عورت کا حق ہے کہ شوہر اسے نان نفقہ اور لباس دے ۔ اور نماز ، روزہ ، زکات (اگر عورت کے مال پر زکوٰۃ بنتی ہے تو) کی تعلیم دے اور عورت کو بھی چاہیے کہ ان امور میں اپنے شوہر کی مخالفت نہ کرے.

📚مستدرک الوسائل ج14ص 243

بیٹی کو خوش کرنے کا صلہ

قال رسول اللّٰه صلى الله عليه و آله و سلم: 

من دخل السوق فاشتري تحفة فحملها الي عياله كان كحامل صدقة الي قوم محاويج وليبدا بالاناث قبل الذكور فان من فرح ابنته فكانما اعتق رقبة من ولد اسماعيل ومن اقر بعين ابن فكانما بكي من خشية الله ومن بكي من خشية الله ادخله الله جنات النعيم 

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:

اگر کوئی شخص بازار جائے اور اپنی فیملی کیلئے گفٹ خریدے تو اس کا اجر و ثواب اس شخص کی مانند ہے جو ضرورت مندوں کو صدقه دیتا ہے۔
 اور جب گفٹ گھر لے جائے تو  پہلے بیٹیوں کو دے ، کیونکہ جس نے بیٹی کو خوش کیا تو گویا اس نے نسل اسماعیل سے غلام آزاد کیا ، اور جس نے اپنے بیٹے کو خوش کیا تو گویا اس نے خوف خدا میں آنسو بہائے اور جو خوف خدا میں رویا تو وہ جنتی ہے.

📚وسائل الشیعہ ج15ص227

روز قیامت کے حساب میں آسانی

قال رسول اللّٰه صلى الله عليه و آله و سلم:

حَسِّنْ خُلقَكَ يُخَفِّفِ اللّّه ُ حِسابَكَ .

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: 
 اپنا اخلاق اچھا کرو تاکہ قیامت کے دن خدا آپ سے حساب میں آسانی فرمائے

📚 بحار الانوار + میزان الحکمہ

دنیا کے مقابلے میں نفس انسانی کی عظمت

قال امام سجاد علیه السلام:

مَنْ کَرُمَتْ عَلَیْهِ نَفْسُهُ هَانَتْ عَلَیْهِ اَلدُّنْیَا

امام سجاد علیہ السّلام نے فرمایا:

جو شخص اپنی شخصیّت کو محترم و مکرم جانے، دنیا اس کی نظر میں پست اور بے قیمت ہو جاتی ہے.

   📚 تحف العقول،  ج1، ص278

حق گوئی کی طاقت

قال الامام على عليه‌ السلام:

قَليلُ الْحَقِّ يَدْفَعُ كَثيرَ الباطِلِ كَما اَنَّ الْقَليلَ مِنَ النّارِ يُحْرِقُ كَثيرَ الْحَطَبِ

امام علی علیہ السّلام نے فرمایا:
  حق اگرچہ تھوڑا بھی ہو، زیادہ باطل کو نابود کر دیتا ہے بالکل اسی طرح جیسے تھوڑی سی آگ، زیادہ لکڑیوں کو جلا دیتی ہے.

📚 غررالحكم، ح6735

غصہ پینے کے فوائد

قالَ الامام موسی بن جعفر علیه السلام:
مَن کَفَّ غَضَبَهُ عَنِ النّاسِ کَف َّ اللّه ُ عَنهُ عَذابَ یَومِ القِیامَة

امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام نے فرمایا:
جس شخص نے لوگوں پر غصہ کرنے سے پرہیز کیا، خداوند اسے عذابِ قیامت سے محفوظ فرمائے گا.

📚 الکافی، ج2، ص305.

اعتدال پسندی    

قال الامام علی علیه ‌السلام:

کُنْ سَمْحا ولا تَکُنْ مُبَذِّرا، وکُنْ مُقَدِّرا ولا تَکُنْ مُقَتِّرا؛

🔹سخی بنوں لیکن فضول خرچ نہیں اور کم خرچ بنو؛ لیکِن کنجوس نہیں.


📚 نهج البلاغة، حکمت ۳۳

حقیقی دوست

قال الامام علی علیه السلام:

اَلصَّدیقُ الصَّدُوقِ مَنْ نَصَحَکَ فی ‌عَیْبِکَ، وَ حَفِظَکَ فی غَیْبِکَ وَ آثَرَکَ عَلی نَفْسِهِ.
 حضرت علی علیہ السّلام نے فرمایا:
سچا دوست وہ ہے؛
🔶 جو تمہارے عیبوں کے بارے میں تمہیں نصیحت کرے (تمہارا خیر خواہ ہو)؛
🔶 تمہاری غیر موجودگی میں تمہاری عزت و آبرو کی حفاظت کرے؛
🔶 اپنی ذات پر تمہیں فوقیت دے، (ایثار کرنے والا ہو).

📚 میزان الحکمة، ج5، ص311.

مکمل غذا کی خصوصیات

حَدَّثَ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ اَلسَّكُونِيِّ عَنْ  جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ  أَبِيهِ عَنْ  آبَائِهِ عَنْ  عَلِيٍّ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ قَالَ قَالَ  رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ :  اَلطَّعَامُ إِذَا جَمَعَ أَرْبَعَ خِصَالٍ فَقَدْ تَمَّ إِذَا كَانَ مِنْ حَلاَلٍ وَ كَثُرَتِ اَلْأَيْدِي عَلَيْهِ وَ سُمِّيَ اَللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى فِي أَوَّلِهِ وَ حُمِدَ فِي آخِرِهِ.

سکونی روایت کرتا ہے کہ امام جعفر صادق ع نے اپنے آباء سے نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ص نے فرمایا:
جس کھانے میں یہ چار خصوصیات جمع ہو جائیں وہ ایک مکمل غذا ہے؛
1- حلال طریقے سے اسے مہیا کیا گیا ہو
2- اس کے کھانے میں زیادہ ہاتھ مشغول ہوں یعنی مل بیٹھ کر اسے کھایا جائے
3- کھانا شروع کرنے سے پہلے اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کا نام لیا جائے یعنی بسم اللّٰہ پڑھی جائے
4- کھانا کھانے کے بعد اللّٰہ تعالٰی کا شکر ادا کیا جائے

معاني الأخبار، ج1، ص375.

اپنی مشکلات کس سے بیان کریں

قَالَ اَلْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ: قَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ: 
يَا حَسَنُ إِذَا نَزَلَتْ بِكَ نَازِلَةٌ فَلاَ تَشْكُهَا إِلَى أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ اَلْخِلاَفِ وَ لَكِنِ اُذْكُرْهَا لِبَعْضِ إِخْوَانِكَ فَإِنَّكَ لَنْ تُعْدَمَ خَصْلَةً مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ إِمَّا كِفَايَةً بِمَالٍ وَ إِمَّا مَعُونَةً بِجَاهٍ أَوْ دَعْوَةً فَتُسْتَجَابُ أَوْ مَشُورَةً بِرَأْيٍ.

حسن بن راشد کہتے ہیں کہ امام صادق علیہ السّلام نے فرمایا:
اے حسن اگر تم پر کوئی مصیبت یا سختی آ جائے تو مخالفین (غیر مومن) میں سے کسی کے سامنے اس کی شکایت نہ کرنا بلکہ بعض برادران ایمانی کے سامنے اس کا ذکر کرنا، کیونکہ یہ کام ان چار خصوصیات سے خالی نہیں ہے؛
1- یا تو وہ مال کے ذریعے تمہاری ضرورت کو پورا کرے گا
2- یا اپنے مقام و منصب کے توسط سے تمہاری حاجت روائی میں مدد کرے گا
3- یا (تمہاری حاجت کی برطرفی کے لئے) دعا کرے گا کہ جو (بارگاہ خداوندی میں) قبول ہوگی
4- یا تجھے کوئی مشورہ دے گا کہ جو رفع مشکلات میں تمہارے لیے بہتر ثابت ہو گا۔1

اہم نکات
🔶 غیر مومن کے سامنے شکایت کرنے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کیونکہ کسی فعل کی شکایت در حقیقت اس کے فاعل کی شکایت ہوتی ہے، تو اس لحاظ سے دشمنان خدا کے سامنے خدا کی شکایت ان کی خوشی کا باعث بنتی ہے لہذ اس سے منع کیا گیا ہے۔
2- مومن کے سامنے شکایت کی دلیل یہ کہ روایت میں آیا ہے کہ برادر مومن کے سامنے اپنی مصیبت کا ذکر کرنا ایسے  ہے جیسے خدا کے سامنے ذکر کیا ہو۔2

1. الکافي، ج8، ص170.
2. البضاعة المزجاة، محمد حسین، ج2، ص524

بدترين انسان

قال امام رضا علیه السلام:

إِنَّ شَرَّ النّاسِ مَنْ مَنَعَ رِفْدَهُ وَ أَكَلَ وَحْدَهُ وَ جَلَدَ عَبْدَهُ

بے شک بدترين انسان وہ ہے کہ جو:
 ➖ لوگوں کی مدد نہ کرے
 ➖ اکیلا بیٹھ کر کھائے 
 ➖ اپنے غلام پر تشدد کرے


📚 تحف‌العقول، ص448.

مومن کی صفات

تحریر: اسد عباس اسدی

روی ان رسول الله  صلی الله  علیه وآله وسلم قال:یکمل الموٴمن ایمانه حتی یحتوی علیه مائة وثلاث خصالٍ:فعل وعمل و نیة وباطن وظاهر فقال امیر المؤمنین علیه السلام:یا رسول الله صلی الله  علیه وآله وسلم ما المائة وثلاث خصال؟فقال صلی الله  علیه وآله وسلم:یا علی من صفات المؤمن ان یکون جوال الفکر،جوهری الذکر،کثیراً علمه عظیماً حلمه،جمیل المنازعة  ۔

(بحار الانوار ،ج/ ۶۴ باب علامات المومن،حدیث/ ۴۵ ،ص/ ۳۱۰  )

ترجمہ :

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ مومن کامل میں ایک سو تین صفتیں ہوتی ہیں اور یہ تمام صفات پانچ حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں صفات فعلی،صفات عملی،صفات نیتی اور صفات ظاہری و باطنی۔ اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے اللہ  کے رسول وہ ایک سو تین صفات کیا ہیں؟حضرت نے فرمایا:”اے علی ﷼ مومن کے صفات یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ فکر کرتا ہے اور علی الاعلان اللہ  کا ذکر کرتا ہے،اس کا علم ،حوصلہ وتحمل زیادہ ہوتا ہے اور دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتا ہے “

حدیث کی شرح :

یہ حدیث حقیقت میں اسلامی اخلاق کا ایک مکمل دورہ ہے ،جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے بیان فرمارہے ہیں ۔اس کا خلاصہ پانچ حصوں میں ہوتا ہے جو اس طرح ہیں:فعل،عمل،نیت،ظاہر اور باطن۔

فعل و عمل میں کیا فرق ہے؟

فعل ایک گزرنے والی چیز ہے،جس کو انسان کبھی کبھی انجام دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عمل ہے جس میں استمرار پایا جاتاہے یعنی جو کام کبھی کبھی انجام دیا جائے وہ فعل کہلاتا ہے اور جو کام مسلسل انجام دیا جائے وہ عمل کہلاتاہے ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

مومن کی پہلی صفت ” جوال الفکر“ ہے

یعنی مومن کی فکر کبھی جامد وراکد نہیں ہوتی وہ ہمیشہ فکر کرتا رہتا ہے اور نئے مقامات پر پہونچتا رہتا ہے۔ وہ تھوڑے سے علم سے قانع نہیں ہوتا ۔یہاں پر حضرت نے مومن کی پہلی صفت فکر کو قراردیا ہے جس سے فکر کی اہمیت واضع ہو جاتی ہے ۔مومن کا سب سے بہترین عمل تفکر ہے۔ اور یہاں پر ایک بات قابل غور ہے اور وہ یہ کہ ابوذرۻ کی بیشتر عبادت تفکر ہی تھی۔اگر ہم کاموں کے نتیجہ کے بارے میں فکر کریں تو ان مشکلات میں مبتلا نہ ہوں جن میں آج گھرے ہوئے ہیں۔

مومن کی دوسری صفت”جوہری الذکر“ہے:

بعض نسخوں میں” جهوری الذکر “بھی آیاہے ۔ہماری نظر میں دونوں ذکر کو ظاہر کرنے کے معنی میں ہے۔ذکر کو ظاہری طور پر انجام دنیا قصد قربت کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی احکام میں ذکر جلی اور ذکر خفی دونوں موجودہیں۔صدقہ اور زکوٰة مخفی بھی ہے اور ظاہری بھی،ان میں سے ہرایک کااپنا خاص فائدہ ہے جہاں پر ظاہری ہے وہاں تبلیغ ہے اور جہاں پر مخفی ہے وہ اپنا مخصوص اثر رکھتی ہے ۔

مومن کی تیسری صفت” کثیراً علمہ“ ہے ۔

یعنی مومن کے پاس علم زیاد ہوتا ہے۔حدیث میں ہے کہ ثواب،عقل اور علم کے مطابق ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ ایک انسان دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے مقابل دوسرا انسان سو رکعت نماز پڑھے مگر ان دو رکعت کا ثواب اس سے زیاد ہو ۔واقعیت بھی یہی ہے کہ عباد ت کے لئے ضریب ہے اور عبادت کی اس ضریب کا نام علم وعقل ہے۔

مومن کی چوتھی صفت”عظیماً حلمہ“ ہے

یعنی مومن کا علم جتنا زیادہ ہوتا ہے اس کا حلم بھی اتنا ہی زیاد ہوتا ہے ۔ایک عالم انسان کو سماج میں مختلف لوگوں سے روبرو ہونا پڑتا ہے اگر اس کے پاس حلم نہیں ہوگا تو مشکلات میں گھر جائے گا ۔مثال کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حلم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔گذشتہ اقوام میں قوم لوط سے زیادہ خراب کوئی قوم نہیں ملتی اور ان کا عذاب بھی سب سے دردناک تھا فلما جاء امرنا جعلنا عٰلیهاسافلها وامطرنا علیها حجارة من سجیل منضود [2] اس طرح کہ ان کے شہر اوپر نیچے ہوگئے اور بعد میں ان کے او پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ان سب کے باوجود جب فرشتے اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لئے آئے تو پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے، اور ان کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دی جس سے وہ خوش ہوگئے،بعدمیں قوم لوط کی شفاعت کی ۔فلما ذهب عن ابراهیم الروع و جاته البشریٰ یجادلنا فی قوم لوط ان ابراهیم لحلیم اواه منیب [3] ایسی قوم کی شفاعت کے لئے انسان کو بہت زیادہ حلم کی ضرورت ہے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی ،حلم اور ان کے وسیع القلب ہونے کی نشانی ہے۔بس عالم کو چاہئے کہ اپنے حلم کو بڑھائے اور جہاں تک ہو سکے اصلاح کرے نہ یہ کہ اس کو چھوڑ دے۔

مومن کی پانچوین صفت”جمیل المنازعة“ہے

یعنی اگرمومن کو کسی کے کوئی بحث یا بات چیت کرنی ہوتی ہے تو اس کو نرم لب و لہجہ میں انجام دیتا ہے اورجنگ و جدال نہیں کرتا ۔آج ہمارے سماج کی حالت بہت حسا س ہے ،خطرہ ہم سے صرف دو قدم کے فاصلے پر ہے۔ان حالات میں عقل کیا کہتی ہے؟کیا عقل یہ کہتی ہے ہم کسی بھی موضوع کو بہانہ بنا کرجنگ کے ایک جدید محاذ کی بنیاد ڈال دیں،یا یہ کہ یہ وقت آپس میں متحد ہونے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا وقت ہے؟

جب ہم خبروں پر غور کرتے ہیںتو سنتے ہیں کہ ایک طرف تو تحقیقی وفد عراق میں تحقیق میں مشغول ہے دوسر طرف امریکہ نے اپنے آپ کو حملہ کے لئے تیارکرلیا ہے اور عراق کے چاروں طرف اپنے جال کو پھیلا کر حملہ کی تاریخ معین کردی ہے۔دوسری خبر یہ ہے کہ جنایت کار اسرائیلی حکومت کا ایک ذمہ دار آدمی کہہ رہا ہے کہ ہمیں تین مرکزوں (مکہ ،مدینہ،قم)کو ایٹم بم کے ذریعہ تہس نہس کردینا چاہئے۔کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ بات واقعیت رکھتی ہو؟ایک دیگر خبر یہ ہے کہ امریکیوں کا ارادہ یہ ہے کہ عراق میں داخل ہونے کے بعد وہاں پر، اپنے ایک فوجی افسر کو تعین کریں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ہم پر مسلط ہو گئے تو کسی بھی گروہ پر رحم نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی گروہ کو کوئی حصہ دیںگے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ جب ہمارے یہاںمجلس میں کوئی ٹکراوپیدا ہو جاتا ہے یا اسٹوڈنٹس کا کوئی گروہ جلسہ کرتا ہے تو دشمن کامیڈیا ایسے معاملات کی تشویق کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔کیا یہ سب کچھ ہمارے بیدار ہو نے کے لئے کافی نہیں ہے؟کیا آج کا دن اعتصموا بحبل الله  جمیعاً ولا تفرقوا وروز وحد ت ملی نہیں ہے؟عقل کیا کہتی ہے؟اے مصنفوں،مئلفوں،عہدہ داروں،مجلس کے نمائندوں،اور دانشمندوں ! خداکے لئے بیدار ہو جاؤ کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم کسی بھی موضوع کو بہانہ بنا کر جلسہ کریں اور ان کو یونیورسٹی سے لے کر مجلس تک اور دیگر مقامات پر اس طرح پھیلائیں کہ دشمن اس سے غلط فائدہ اٹھائے؟میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی اعتراض بھی ہے تو ا س کو ”جمیل المنازعة“ کی صورت میں بیان کرنا چاہئے کیونکہ یہ مومن کی صفت ہے۔ہمیں چاہئے ک قانون کو اپنا معیار بنائیں او روحدت کے معیاروںکو باقی رکھیں۔

اکثر لوگ متدین ہیں ،جب ماہ رمضان یا محرم آتا ہے تو پورے ملک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دین سے محبت ہے۔آگے بڑھو اور دین کے نام پر جمع ہو جاؤ اور اس سے فائدہ اٹھاؤ وحدت ایک زبردست طاقت اور سرمایہ ہے ۔

 [2] سورہٴ ہود: آیہ/ ۸۲                                           [3] سورہٴ ہود: آیہ/ ۷۴ و ۷۵

والدین کے حقوق احادیث کی روشنی میں

 

والدین کے حقوق احادیث کی روشنی میں

تحریر: اسد عباس اسدی

قال الله تعالی:و قضی ربک الا تعبدوا الا ایاه و بالوالدین احسانا اما یبلغن عندک الکبر احدهما، او کلاهما فلا تقل لهما اف و لا تنهرهما و قل لهما قولا کریما… (1(

اور آپ کےپروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کےسوا کسی کی بندگی نہ کرو  اور والدین کےساتھ نیکی کرو اور اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں اف تک مت کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت اور تکریم سے بات کرنا۔

وَ اخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَبِّ ارْحَمْهُما كَما رَبَّياني‏ صَغيراً (2(

اورمہرومحبت کےساتھ انکےآگے انکساری کاپہلوجھکائےرکھواوردعاکرو: پروردگارا ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے )پالا تھا۔

ہمارا وجود والدین کی بدولت ہےاورہماری اولادکاوجودہمارےوجودسے پیوستہ ہےوالدین کےساتھ ہماراسلوک اورانکا احترام اور نیکی کرنا اس بات کا موجب بنتا ہے کہ آیندہ ہماری اولاد بھی حق شناس، قدرداں اور اچھائی کریں ہماری اولادہمارےساتھ وہی سلوک اختیارکرےگی جس طرح ہم اپنےوالدین سےکیاکریں گے ۔

جس طرح خدا کا حق اداکرنا اوراسکی نعمات کی شکرگزاری کرناہماری توانائی سےباہرہےاسی طرح والدین کاحق اداکرنا اور ان کی زحمات کی قدردانی کرنا ایک مشکل کام ہے صرف ان کےسامنے انکساری کےساتھ پہلو جھکائے رکھنا اور تواضع اورفروتنی کےپر کو ان دو فرشتوں کےلئے بچھائے رکھنا ہمارے اختیار میں ہے۔اسکےباوجود ماں باپ کےمقام کی شناخت اور خدا کےہاں ان کی قدرو منزلت ہونا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ ان کا کچھ حق ادا ہو سکے۔

اس چالیس حدیث کےمجموعےمیں جو آپ مطالعہ کریں گے وہ ہمیں والدین کی نسبت سے اپنے وظائف سے ٓشنا کرے گا اللّہ کی توفیق ہمارےشامل حال ہو کہ ہم بھی والدین کےساتھ نیکی کرنے والوں میں سےہوں چونکہ خدا کی رضایت ان ہستیوں کی رضایت میں ہے۔ یا اللّہ !ہمیں بھی والدین کی زحمات کی قدر دانی کرنے والوں میں سےقرار دے اور ہمیں اچھی نسل کی تربیت کرنے کی توفیق دےجو با ایمان ،حق شناس اورنیکو کارہو۔

  1. سب سے بڑا فرض

برالوالدین اکبرفریضة. (3(

امیر المونین علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: سب سے اہم اور بڑا فرض والدین کےساتھ نیکی کرنا ہے ۔

  1. بہترین اعمال

قال الصادق(ع): افضل الاعمال الصلاة لوقتها، و بر الوالدین و الجهاد فی سبیل الله. (4(

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: بہترین کام وقت پر نماز پڑھنا ،والدین سے نیکی کرنا ، اور خدا کی راہ میں جہاد کرنا ہے ۔

  1. والدین سے انس رکھنا

فقال رسول الله(ص): فقر مع والدیک فوالذی نفسی بیده لانسهما بک یوما و لیلة خیر من جهاد سنة. (5(

ایک مرد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کےپاس آیا اور عرض کرنے لگا  میرے والدین بوڑھے ہو چکےہیں اور میرے ساتھ مانوس ہونے کی وجہ سے وہ میرے  جہاد پر جانے کو راضی نہیں ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا :تم اپنے والدین کےپاس بیٹھ جا اس ذات کی قسم جس کی قبضے میں میری روح ہے تمہارا ان کےساتھ ایک دن بیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے (اگر جہاد واجب عینی نہ ہو(

  1. پسندیدہ کام

عن ابن مسعود قال: سئلت رسول الله(ص):ای الاعمال احب الی الله عز و جل؟ قال:الصلاة لوقتها، قلت ثم ای شی ء؟ قال: بر الوالدین، قلت: ثم ای شیء؟ قال: الجهاد فی سبیل الله. (6(

ابن مسعود بیان کرتا ہے کہ: رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ خدا کےہاں پسندیدہ کام کونسا ہے ؟

فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا ،اس کےبعد کونسی چیز افضل ہے؟ فرمایا:ماں باپ کےساتھ نیکی کرنا ، اسکےبعد؟فرمایا : خدا کی راہ میں جہاد کرنا۔

  1. والدین کو دیکھنا

قال رسول الله(ص):ما ولد بار نظر الی ابویه برحمة الا کان له بکل نظرة حجة مبرورة.فقالوا: یا رسول الله و ان نظر فی کل یوم مائة نظرة؟قال: نعم، الله اکبر و اطیب. (7(

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا: جب کوئی نیک اولاد اپنے والدین کومہربانی   کےساتھ نگاہ کرتا ہے تو اللّہ تعالی اسےہر نگاہ پر ایک حج مقبول کا ثواب عطا کرتا ہے ، پوچھا گیا اگر دن میں سو بار دیکھا جائے؟ فرمایا   ہاں خدا پاک اور بڑا ہے۔

  1. والدین کی عظمت

عن ابی الحسن الرضا(ع) قال:ان الله عز و جل امر بثلاثة مقرون بها ثلاثة اخری: امر بالصلاة و الزکاة، فمن صلی و لم یزک لم تقبل منه صلاته و امر بالشکر له و للوالدین، فمن لم یشکر والدیه لم یشکر الله، و امر باتقاء الله و صلة الرحم، فمن لم یصل رحمه لم یتق الله عز و جل. (8(

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہےکہ: خدا نے تین چیزوں کو تین چیزوں کےساتھ بجا لانے کاحکم دیا ہے

1۔ نماز کو زکوۃ کےساتھ بجا لانے کا حکم دیا ہے، پس جو نماز پڑھے اور زکاۃ نہ دے اس کی نماز بھی قبول نہیں ہے ۔

2۔ خود خدا   اور  والدین  کی سپاسگزاری کا حکم دیا ہے ، پس جو بھی والدین کی شکر گزاری نہ کرے خدا کا شکر گزار نہیں ہے

3۔تقوی الھی اور   صلہ  رحم   کا حکم دیا ہے پس جو صلہ رحم انجام نہیں دے اس نے تقوی الھی کو اختیار نہیں کیا ہے

  1. والدین کا احترام

قال الصادق(ع):بر الوالدین من حسن معرفة العبد بالله اذ لا عبادة اسرع بلوغا بصاحبها الی رضی الله من حرمة الوالدین المسلمین لوجه الله تعالی. (9(

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہے کہ: والدین کےساتھ نیکی کرنا اچھے بندوں کی شناخت میں سے ہے کیونکہ کسی بھی مسلمان کی عبادت اتنا جلدی خدا کی رضایت تک  نہیں پہنچ سکتی ہے جتنا والدین کی حرمت کی رعایت کرنا۔

  1. اطاعت والدین

قال رسول الله(ص): من اصبح مطیعا لله فی الوالدین اصبح له بابان مفتوحان من الجنة و ان کان واحدا فواحدا-(10(

رسول اکرم نے فرمایا کہ: جو بھی شخص والدین کےمیں بارے دستور خدا کو  انجام دے خدا اس کےلئے جنت کےدو دروازے کھول دیتا ہے اور اگر کوئی والدین میں سے ایک کاحق  ادا کرے  تو ایک دروازہ کھولا جائے گا ۔

  1. والدین کی اطاعت کی ارزش

قال رسول الله(ص): العبد المطیع لوالدیه و لربه فی اعلی علیین. (11(

رسول خدا فرماتے ہے کہ: جو بھی شخص اپنے   ماں باپ اور اپنے پروردگار کا مطیع ہو تو قیامت کےدن بلند ترین مقام پر ہوگا۔

  1. والدین کا قرض ادا کرنا

عن رسول الله(ص):من حج عن والدیه او قضی عنهما مغرما بعثه الله یوم القیامة مع الابرار. (12(

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتےہےکہ :جو شخص اپنے ماں باپ کی نیت سےحج انجام دےیاان کا قرض  چکادےتوخدا وندعالم قیامت کےدن اس کو نیک بندوں کےساتھ محشور کرے گا۔

  1. خشنودی والدین

من ارضی والدیه فقد ارضی الله و من اسخط والدیه فقد اسخط الله. (13(

رسول خدا نے فرمایا کہ: جو بھی شخص اپنے والدین کو خوش کرے اس نے خدا کو خوش کیا ہے اور جو اپنے والدین کو ناراض کرے اس نے خدا کو ناراض کیا ہے ۔

  1. والدین سے نیکی کا صلہ

عن الصادق(ع) قال:بینا موسی بن عمران یناجی ربه عز و جل اذ رای رجلا تحت عرش الله عز و جل فقال: یا رب من هذا الذی قد اظله عرشک؟فقال: هذا کان بارا بوالدیه، و لم یمش بالنمیمة. (14(

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہے کہ : جب حضرت موسی علیہ السلام اپنے پروردگار سے مناجات میں مشغول تھے اس وقت عرش الھی کےسائے میں ایک شخص کو دیکھا جو ناز اور نعمت  میں پل رہا تھا، موسی نے عرض کیا خدایا یہ شخص کون ہے کہ جس پر آپ کےعرش نے سایہ کیا ہوا ہے ؟

خدا نے فرمایا : یہ وہ شخص ہے جو اپنے والدین سے نیکی کیا کرتا  تھا اور سخن چین نہیں تھا۔

  1. والدین کی خاطر سفر کرنا

قال رسول الله(ص):سر سنتین بر والدیک، سر سنة صل رحمک. (15(

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا کہ: دو سال سفر کرو اور والدین سے نیکی کرو ،اور ایک سال سفر کرو اور صلہ رحم انجام دو ۔ [یعنی اگر والدین اتنا دور ہو ں کہ دو سال کی مسافت طے کرنا پڑے پھر بھی ان تک جائے اور نیکی کرے تو  یہ کام بہت ارزشمند ہے  .

  1. والدین اور عمر اور روزی میں اضافہ

قال رسول الله(ص(

من احب ان یمد له فی عمره و ان یزاد فی رزقه فلیبر والدیه و لیصل رحمه. (16(

جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اسکی عمر طولانی ہو اور رزق میں اضافہ ہو تو اپنے والدین سے اچھائی کرے اور صلہ رحم بجالائے۔

  1. والدین سے نیکی کےآثار

عن حنان بن سدیر قال: کنا عند ابی عبد الله(ع) و فینا میسر فذکروا صلة القرابة فقال ابو عبد الله(ع):

یا میسر قد حضر اجلک غیر مرة و لا مرتین، کل ذلک یؤخر الله اجلک، لصلتک قرابتک، و ان کنت ترید ان یزاد فی عمرک فبر شیخیک یعنی ابویک. (17(

حنان ابن سدیر بیان کرتا ہے کہ : ہم امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور میسر نامی شخص بھی ہمارے ساتھ تھا ، صلہ رحمی کی بات چلی تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اے میسر  کئی بار تمہاری موت آچکی تھی ہر بار خدا وند عالم نے تمہارے صلہ رحمی کی وجہ سے موت کو ٹال دیا ہے اگر تم یہ چاہتے ہو کہ خدا وند عالم تمہاری عمر میں اضافہ کر ے تو تم اپنے دونوں بزرگوں  یعنی والدین سے نیکی کیا کرو ۔

  1. پہلے ماں سے نیکی کیا کرو

عن ابی عبد الله(ع) قال:جاء رجل الی النبی(ص) فقال: یا رسول الله من ابر؟قال(ص): امک،قال: ثم من؟قال(ص): امک،قال: ثم من؟قال(ص): امک،قال: ثم من؟قال(ص): اباک. (18(

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہے کہ: ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کےپاس آیا اور کہا  کہ: اے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کس کےساتھ نیکی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا اپنی  ماں کےساتھ نیکی کرو، اس کےبعد کس کےساتھ نیکی کیا کروں؟ فرمایا اپنی ماں کےساتھ ، اس کےبعد؟ فرمایا اپنی  ماں کےساتھ ، اسکےبعد؟ فرمایا تمہارے باپ کےساتھ نیکی کیا کرو۔

  1. والدین سے نیکی کرنے کا نتیجہ

عن رسول الله(ص) قال:بروا اباءکم یبرکم ابناءکم، عفوا عن نساء الناس تعف نسائکم. (19(

رسول خدا نے فرمایا : تم لوگ اپنے  باپ سے نیکی کیا کرو تاکہ تمہارے فرزندان تمہارے ساتھ نیکی کیا کریں ، اور لوگوں کی ناموس سے چشم پوشی کرنا تاکہ تمہاری ناموس سے چشم پوشی کی جائے۔

  1. والد کا حق

 سال رجل رسول الله(ص): ما حق الوالد علی ولده؟ قال: لا یسمیه باسمه، و لا یمشی بین یدیه، و لا یجلس قبله و لا یستسب له. (20(

امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہے کہ: ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے سوال کیا کہ: والد کا حق اولاد پر کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا : والد کو اپنے نام سے نہ بلانا ، راستہ چلتے ہوئے اس آگے نہ چلنا ، اس سے پہلے نہ بیٹھنا ، اور کوئی ایسا کا م نہ کرنا جسکی وجہ سے لوگ اس کےباپ کو گالی دیں  ۔

  1. والدین کو دیکھنا عبادت ہے

نظر الولد الی والدیه حبا لهما عبادة. (21(

اولاد کا اپنے والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھنا عبادت ہے ۔

  1. والدین سے اچھا سلوک

عن ابی ولاد الحناط قال: سالت ابا عبد الله(ع) عن قول الله:«و بالوالدین احسانا» فقال: الاحسان ان تحسن صحبتهما و لا تکلفهما ان یسالاک شیئا هما یحتاجان الیه. (22(

ابی ولاد کہتا ہے کہ : میں نے اس آیہ(و بالوالدین احسانا)  کامعنی امام صادق علیہ السلام سے پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: والدین سے نیکی کرنے کا معنی یہ ہےکہ ان کےساتھ تمہارا برتاو اچھا ہو اور ان کو کسی چیز کےمانگنے کےلئے محتاج نہ کرنا (ان کی درخواست سے پہلے پورا کرنا .

  1. اولاد کا وظیفہ والدین کےساتھ

قال ابو عبد الله(ع):لا تملا عینیک من النظر الیهما الا برحمة و رقة، و لا ترفع صوتک فوق اصواتهما، و لا یدیک فوق ایدیهما و لا تتقدم قدامهما. (23(

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں  کہ: والدین کو مہر و محبت کی نظر کے بغیر اور اپنی آواز  ان کی آواز سے اونچا نہ کرنا اور اپنے ہاتھ کو ان کی ہاتھ سے بلند نہ کرنا  اور ان سے پہلے راستہ نہ چلنا۔

  1. نیابت والدین

قال ابو عبد الله(ع):ما یمنع الرجل منکم ان یبر والدیه حیین او میتین، یصلی عنهما و یتصدق عنهما و یحج عنهما و له مثل ذلک، فیزیده الله(عز و جل) ببره و صلاته خیراً کثیراً. (24(

کونسی چیز مانع ہے کہ انسان اپنے والدین سے نیکی کرے چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ ، اس طریقے سے نیکی کرے کہ والدین کی نیت سے نماز پڑھے ، صدقہ دے حج بجا لائے اور روزہ رکھے کیونکہ اگر کوئی  ایسا کرے تو اس کا ثواب والدین کو پہنچے گا اور اس شخص کو بھی اسی مقدار ثواب دیا جائے گا ، اس کےعلاوہ خدا وند عالم اس شخص کو اسکی نیکی اور نماز کی وجہ سے اس سے بہت زیادہ نیکی عطا کرے گا ۔

  1. برےوالدین سے نیکی  کرنا

عن ابی جعفر(ع) قال: ثلاث لم یجعل الله (عز و جل) لاحد فیهن رخصة اداء الامانة الی البر و الفاجر و الوفاء بالعهد للبر و الفاجر و بر الوالدین برین کانا او فاجرین. (25(

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہے کہ : تین ایسی چیزیں ہیں کہ جن کو خدا وند عالم نے ترک کرنے کی اجازت نہیں دی ہے ۔

1۔امانت کا واپس کرنا چاہے اچھا آدمی ہویا   فاسق

2۔عھد کا پورا کرنا چاہے اچھا آدمی ہو یا برا

3۔والدین کےساتھ اچھائی کرنا چاہے وہ اچھے ہوں یا برے

  1. مشرک والدین سے سلوک

فیما کتب الرضا(ع) للمامون:بر الوالدین واجب، و ان کانا مشرکین و لا طاعة لهما فی معصیة الخالق. (26(

امام رضا علیہ السلام نے جو خط مامون کو لکھا  اس میں یہ بھی تھا کہ : ماں باپ سے نیکی کرنا لازم ہے اگرچہ وہ کافر اور مشرک ہوں لیکن خدا کی معصیت میں ان کی اطاعت نہ کرنا۔

  1. والدین کی قبر کی زیارت کرنا

عن رسول الله(ص) قال: من زار قبر والدیه او احدهما فی کل جمعة مرة غفر الله له و کتب برا. (27(

جو بھی شخص ہر جمعہ کو ماں باپ یا ان میں سے ایک کی قبر کی زیارت کرے خدا اس کو بخش دے گا اور اس کو نیک آدمیں شمار کیا جائے گا۔

  1. جنت اور والدین سے نیکی

عن ابی الحسن(ع) قال: قال رسول الله(ص):کن بارا و اقتصر علی الجنة و ان کنت عاقا فاقتصر علی النار. (28(

امام رضا علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا کہ : ماں باپ سے نیکی کرو تاکہ تمہاری پاداش بہشت ہو لیکن اگر ان کےعاق شدہ  بنو گے تو تم جہنمی بن جاؤ گے ۔

  1. والدین کو تیز نگاہ سے دیکھنا

عن ابی عبد الله(ع) قال: لو علم الله شیئا ادنی من اف لنهی عنه، و هو من ادنی العقوق و من العقوق ان ینظر الرجل الی والدیه فیحد النظر الیهما. (29(

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ: اگر اف سے چھوٹی کوئی چیز ہوتا تو خدا اس سے روک لیتا  اور اف کہنا عاق کےمراتب میں سے کمترین مرتبہ ہے ، اور عاق کی ایک قسم یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو تیز نگاہ سے د یکھے۔

  1. غضب کی نگاہ سے دیکھنا

عن ابی عبد الله(ع) قال: من نظر الی ابویه نظر ماقت، و هما ظالمان له، لم یقبل الله له صلاة. (30(

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ: جو بھی شخص نفرت کی نگاہ سے اپنے والدین کی طرف دیکھےاگرچہ انہوں نے ان پر ظلم کیا ہو ، تو اس کی نماز خدا کی درگاہ میں قبول نہیں ہو گی۔

  1. والدین کو غمگین کرنا

قال امیرالمؤمنین(ع):من احزن والدیه فقد عقهما. (31(

امیر المومنین نے فرمایا: جو بھی  اپنے والدین کو غمگین کرے اس نے والدین کےحق کی رعایت نہیں کی ہے۔

  1. والدین سے بی ادبی کا نتیجہ

عن ابی جعفر(ع) قال:

ان ابی نظر الی رجل و معه ابنه یمشی و الابن متکی ء علی ذراع الاب، قال: فما کلمه ابی مقتا له حتی فارق الدنیا(32(

امام باقر علیہ السلام  فرماتے ہیں  کہ: میرے والد نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جس کا بیٹا اس کےبازو پر تکیہ کئے چل رہا تھا (جب امام نے اس واقعہ  کو دیکھا تو )امام علیہ السلام مرتے دم تک اس بیٹے سے ناراض ہو کر بات نہیں کی ۔

  1. باپ سے لڑنا

قال ابو عبد الله(ع): ثلاثة من عازهم ذل:الوالد و السلطان و الغریم. (33(

امام جعفرصادق  علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :جو  شخص ان تین گروہ سے لڑا وہ خوار ہوا : باپ ، سلطان حق، اور مقروض۔

  1. عاق والدین سے بچنا چاہیے

قال رسول الله(ص):ایاکم و عقوق الوالدین، فان ریح الجنة توجد من مسیرة الف عام و لا یجدها عاق و لا قاطع رحم. (34(

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  فرماتے ہیں  کہ: تم لوگ والدین کے عاق ہونے سے بچو کیونکہ جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت تک سونگھی جائے گی مگر عاق والدین اور قطع رحم کرنے والا اس سے محروم رہے گا ۔

  1. عاق والدین اور بدبختی

عن الصادق(ع) قال:لا یدخل الجنة العاق لوالدیه و المدمن الخمر و المنان بالفعال للخیر اذا عمله. (35(

امام صادق علیہ السلام  نے فرمایاکہ: عاق والدین ،شراب خوراور وہ نیکی کرنے والا شخص جو احسان جتاتا ہے  جنت میں داخل نہیں ہونگے۔

  1. عاق والدین اور عاقبت کار

قال رسول الله(ص):اربعة لا ینظر الله الیهم یوم القیامة، عاق و منان و مکذب بالقدر و مدمن خمر. (36(

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  فرماتے ہیں کہ: چہار گروہ ایسے ہیں کہ خدا وند عالم قیامت کےدن  ان کی طرف نہیں دیکھے گا ،عاق والدین ، منت گزار ،منکر قضا و قدر اور شرابخور۔

  1. عاق والدین کی سزا

قال رسول الله(ص):ثلاثة من الذنوب تعجل عقوبتها و لا تؤخر الی الاخرة:عقوق الوالدین، و البغی علی الناس و کفر الاحسان. (37(

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا : تین لوگوں کےگناہوں کی سزا قیامت تک نہیں رکھے گا (یعنی اسی دنیا میں ہی  اسے سزا ملے گی) عاق والدین، لوگوں پر ظلم و ستم کرنے والا، اور احسان اور نیکی کےبدلے میں ناسپاس شخص۔

  1. عاق والدین

عن ابی عبد الله(ع) قال:الذنوب التی تظلم الهواء عقوق الوالدین. (38(

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: عاق والدین وہ گناہ ہے جو ہوا کو تاریک [تیرہ و تار] کر دیتا ہے ۔

  1. عاق والدین اور شقی

قال الصادق(ع):عقوق الوالدین من الکبائر لان الله (عز و جل) جعل العاق عصیا شقیا. (39(

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ: عاق والدین گناہ کبیرہ میں سے ہے کیونکہ خدا نے  عاق والدین کو گناہ کار اور شقی قرار دیا ہے۔

  1. عاق والدین اور ہلاکت

عن ابی عبد الله(ع):ان رسول الله(ص) حضر شابا عند وفاته فقال(ص) له:قل: لا اله الا الله،قال(ع): فاعتقل لسانه مرارا فقال(ص) لامراة عند راسه: هل لهذا ام؟قالت: نعم انا امه،قال(ص): افساخطة انت علیه؟قالت: نعم ما کلمته منذ ست حجج،قال(ص) لها: ارضی عنه،قالت: رضی الله عنه برضاک یا رسول الله فقال له رسول الله(ص): قال: لا اله الا الله قال(ع): فقالها… ثم طفی… (40(

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ: ایک جوان کےمرتے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اسکےسراہنے پہنچ گئے اور فرمایا : لا الہ الا اللّہ پڑھو وہ جوان نہ پڑھ سکا ( گونگ ہو گیا ) چند بار تکرار کیا پھر بھی نہ پڑھ سکا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس عورت سے سوال کیا جو اس کےپاس بیٹھی تھی کیا اسکی ماں زندہ ہے؟ عورت نے جواب دیا ،جی ہاں میں اس کی ماں ہوں ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا کیا تم اس جوان سے ناراض ہو؟ عورت نے جواب دیا، جی میں نے چھے سال سے بات نہیں کی   پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس سے کہا کہ تم اس سے راضی ہو جا ، عورت نے کہا یا رسول اللّہ خدا اس سے راضی ہوں میں آپ کی خاطر اس سے راضی ہوئی ہوں ، اس کےبعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا پڑھو لا الہ اللّہ اس وقت جوان کی زبان سے لا الہ اللّہ جاری ہوا اور کچھ دیر کےبعد وہ مر گیا۔

  1. عاق والدین کےاعمال

قال رسول الله(ص):یقال للعاق اعمل ما شئت فانی لا اغفر لک و یقال للبار اعمل ما شئت فانی ساغفر لک. (41(

رسول خدا نے فرمایا کہ: ۔خدا کی طرف سے ۔ عاق والدین کو کہا جائے گا جو کچھ انجام دینا ہے انجام دو میں تمہیں نہیں بخشوں گا اور نیک کام (والدین کےلیے) کرنے والے سے کہے گا جو کام انجام دینا چاہتے ہو انجام دو میں تمہیں بخش دونگا۔

  1. والدین سے نیکی اور گناہ کا بخش دینا

قال علی بن الحسین(ع):جاء رجل الی النبی(ص) فقال: یا رسول الله ما من عمل قبیح الا قد عملته فهل لی توبة؟فقال له رسول الله(ص):فهل من والدیک احد حیّ؟قال: ابی قال: فاذهب فبره.قال: فلما ولی قال رسول الله(ص):لو کانت امه. (42(

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا کہ: ایک مرد رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللّہ کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جو میں نے انجام نہ دیا ہو ، کیا میں توبہ کر سکتا ہوں؟رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس مرد نے جواب دیا جی ہاں میرا باپ زندہ ہے ، پیامبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا: جا اور اس سے نیکی کر (تاکہ تمہارے گناہ بخش دئے جائیں ) جب وہ چلے گئے تو پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا کاش اگر اس کی ماں زندہ ہوتی! (یعنی اگر اسکی ماں زندہ ہوتی اور وہ اس سے نیکی کرتا  اس کی گناہ جلد بخش دیے جات
ے

حوالہ جات

 

(23)- بحار الانوار، ج 74، ص 79.

 

(24)- بحار الانوار، ج 74، ص 46.

(25)- بحار الانوار، ج 74، ص 56.

(26)- بحار الانوار، ج 74، ص 72.

(27)- کنز العمال، ج 16، ص 468.

(28)- اصول کافی، ج 2، ص 348.

(29)- اصول کافی، ج 4، ص 50.

(30)- اصول کافی، ج 4، ص 50

(31)- بحار الانوار، ج 74، ص 64.

(32)- حار الانوار، ج 74، ص 64.

(33)- بحار الانوار، ج 74، ص 71.

(34)- بحار الانوار، ج 74، ص 62.

(35)- بحار الانوار، ج 74، ص 74.

(36)- بحار الانوار، ج 74، ص 71.

(37)- بحار الانوار، ج 74، ص 74.

(38)- بحار الانوار، ج 74، ص 74.

(39)- بحار الانوار، ج 74، ص 74.

(40)- بحار الانوار، ج 74، ص 75.

(41)- بحار الانوار، ج 74، ص 80.

(42)- بحار الانوار، ج 74، ص 82.

(1)- سورہ اسراء: 23.

 

(2)- سورہ اسراء: 24

(3)- میزان الحکمة، ج 10، ص 709.

(4)- بحار الانوار، ج 74، ص 85.

(5)- بحار الانوار، ج 74، ص 52.

(6)- بحار الانوار، ج 74، ص 70.

(7)- بحار الانوار، ج 74، ص 73.

(8)- بحار الانوار، جلد 74، ص 77.

(9)- بحار الانوار، ج 74، ص 77.

(10)- کنز العمال، ج 16، ص 467.

کنز العمال، ج 16، ص 470.

(11)- کنز العمال، ج 16، ص 467.

(12)- کنز العمال، ج 16، ص 468.

(13)- کنز العمال، ج 16، ص 470.

(14)- بحار الانوار، ج 74، ص 65.

(15)- بحار الانوار، ج 74، ص 83

(16)- کنز العمال، ج 16، ص 475.

(17)- بحار الانوار، ج 74، ص 84.

(18)- بحار الانوار، ج 74، ص 49.

(19)- کنز العمال، ج 16، ص 466.

(20)- بحار الانوار، ج 74، ص 45.

(21)- بحار الانوار، ج 74، ص 80.

(22)- بحار الانوار، ج 74، ص 79.

نماز تہجد کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

 

نماز تہجد کی اہمیت  قرآن و حدیث کی روشنی میں

تحریر. ساجد محمود

المصطفی العالمیہ یونیورسٹی

 

 

نماز تہجد کی محبوبیت

اَنَسِ بنِ مالِكٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّهَ صلي الله عليه و آله يَقُولُ: اَلرَّكْعَتانِ فِى جَوْفِ اللَّيْلِ اَحَبُّ اِلَىَّ مِنَ الدُّنْيا وَما فِيْها.[1]

رسول خدا صلي الله عليه و آله فرماتے ہیں:رات کے اندھیرے میں دو رکعت نماز پڑھنا میری نظر میں،  دنیا اور اس میں موجود تمام اشیاء سے بہتر ہے۔

آخرت کا  زیور

عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عليه السلام قالَ: اَلمالُ وَآلْبَنُونُ زينَةُ الْحَيوةِ الدُّنْيا وَثَمانُ رَكَعاتٍ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ وَالْوَتْرُ زينَةُ الآخِرَةِ، وَقَدْ يَجْمَعُهَا اللّهُ لاَِقْوامٍ. [2]

امام صادق عليه السلام نے فرمایا: مال و دولت اور اولاد،  دنیا کی زندگی کے زیور ہيں، لیکن رات کے آخری حصہ میں آٹھ رکعت اور ایک رکعت نماز «وتر» پڑھنا آخرت کا زیور ہیں اور بعض اوقات اللہ تعالی ان تمام زیوروں کو  ایک خاص گروہ ( جس پر اس کی خاص عنایت ہوتی ہے) کے لئے اکٹھا کر دیتا ہے۔

اللہ کی دوستی کا معیار

عَنْ جابِرِ بْنَ عَبْدِاللّهِ الاْنـْصارِى قالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّهِ صلي الله عليه و آله يَقُولُ: مَا اتَّخَذَّ اللّهُ اِبْراهِيمَ خَليلاً اِلاّ لاِِطْعامِهِ الطَّعامَ، وَصَلاْتِهِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيامٌ.  [3]

جابربن عبدالله انصارى(رضی اللہ عنہ)  کہتے ہيں: میں نے رسول خدا صلي الله عليه و آله کو فرماتے سنا:  خدا تعالی نے حضرت خلیل کو دو کاموں کی وجہ سے اپنا دوست اور خلیل  اختیار کیا:

1۔ دوسروں کو کھانا کھلانا

2۔ نمازتہجد کا پڑھنا جب کہ لوگ سو رہے ہوتے۔

سعادت کا سبب

قالَ النَّبِىُّ صلي الله عليه و آله: خَيْرُكُمْ مَنْ اَطابَ الْكَلامَ وَاَطْعَمَ الطَّعامَ وَصَلّى بِاللَّيْلِ وَ النّاسُ نِيامٌ. [4]

پيامبر اكرم صلى الله عليه و آله  نے فرمایا: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے کہ جو اچھی بات کرے، لوگوں کو کھانا کھلاۓ اور جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز تہجد پڑھے۔

بهترين نماز

عَنْ رَسُولِ اللّهِ صلي الله عليه و آله قالَ: اَفْضَـلُ الصَّـلاةِ بَـعْدَ الصَّـلاةِ الْمَـكْتُوبَةِ الصَّـلاةُ فِى جَوْفِ الَلَّيْل۔[5]

رسول بزرگوار اسلام صلى الله عليه و آله نے فرمایا: واجب نماز کے بعد بہترین نماز  رات کی تاریکی میں نماز تہجد پڑھنا ہے۔

دنیا  اور اس میں پائی جانے والی تمام اشیاء  سے بہتر

عَنْ رَسُولِ اللّهِ صلي الله عليه و آله قالَ: رَكْعَتانِ يَرْكَعُهُما اِبْنُ آدَمَ فِى جَوْفِ اللَّيْلِ الآخِرِ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الدُّنْيا وَما فِيها، وَلَوْلا اَنْ اَشُقَّ عَلى اُمَّتِى لَفَرَضْتُهُما عَلَيْهِمِ[6].

رسول اكرم صلى الله عليه و آله نے فرمایا: جب کوئی  شخص رات کی تاریکی میں دو  رکعت نماز  پڑھے تو وہ نماز  دنیا و مافیہا سے بہتر ہے، اور اگر  یہ امر میری امت پر دشوار نہ ہوتا  تو میں ان دو رکعت نماز کو ان پر واجب کر دیتا۔

خیر و سعادت کے دروازے

قالَ رَسُولُ اللّهِ صلي الله عليه و آله لِمَعاذِبْنِ جَبَلٍ فِى غَزْوَةِ تَبُوكٍ: وَاِنْ شِئْتَ أَنْبَأْتُكَ بِاَبْوابِ الْخَيْرِ؟ قالَ: قُلْتُ: اَجَلْ يارَسُولَ اللّهِ قالَ: اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُكَفِّرُ الْخَطيئَةَ، وَقِيامُ الرَّجُلِ فِى جَوْفِ اللَّيْلِ يَبْتَغى وَجْهَ اللّهِ، ثُمَّ قَرَءَ هذِهِ الآيَةَ: «تَتَجافى جُنُوبُهُمْ عَنِ المَضاجِعِ»[7].

رسول خدا صلي الله عليه و آله نے جنگ تبوک میں جناب معاذ بن جبل سے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمھیں خیر و سعادت کے دروازوں  کے متعلق خبر دوں؟ اس نے کہا : اے  اللہ کے رسول! فرمائیں ! پيامبر صلي الله عليه و آله نے فرمایا: وہ دروازے یہ ہيں:

1۔ روزہ ہے کہ جو آتش جہنم سے سپر ہے

2۔ صدقہ ہے کہ  جو خطاؤں کو مٹا دیتا ہے

3۔  انسان کا رات کی تاریکی میں خدا کی رضا  کی خاطر نماز کے لئے بیدار ہونا، اور پھر اس آیت  “تَتَجافى جُنُوبُهُم عَنِ المَضاجِعِ” کی تلاوت فرمائی۔

جبرئیل کی سفارش

قالَ رَسُولُ اللّهِ صلي الله عليه و آله: مـازالَ جَبْـرَئيلُ يُوصينـِى بِقِـيامِ اللَّيْلِ حَتّـى ظَنـَنْتُ اَنَّ خِـيارَ اُمَّـتى لَـنْ يَـنامُوا.  [8]

رسول خدا صلى الله عليه و آله نے فرمایا: جبرئیل ہمیشہ سے مجھے نماز تہجد کی سفارش کرتا رہا ہے یہاں تک میں نے گمان کیا کہ میری امت کے بہترین افراد رات کو ہر گز نہیں سو سکیں گے۔

مؤمن کا  افتخار

يَقُولُ الصّادِقُ عليه السلام: ثَلاثَةٌ هُنَّ فَخْرُ المُؤْمِنِ وَزينَةٌ فِى الدُّنْيا وَاْلآخِرَةَ: الَصَّلاةُ فِى آخِرِ اللَّيْلِ، وَ يَأْسُهُ مِمّا فِى اَيْدىِ النّاسِ، وَوِلايَةُ اْلاِمامِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ۔[9]

امام صادق عليه السلام نے فرمایا: تین چیزیں مؤمن کے لئے افتخارہیں اور دنیا اور آخرت کے لئے زیب و زینت ہیں۔

1۔ رات کے آخری حصہ میں نماز تہجد کا پڑھنا

2۔ جو چیز لوگوں کے پاس ہے اس سے  بے نیاز ہونا

3۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کے خاندان میں سے امام معصوم کی ولایت کو قبول کرنا

مؤمن کا شرف

قالَ اَبُو عَبْدِاللّهِ عليه السلام: شَرَفُ الْمُؤْمِنِ صَلاتُهُ بِاللَّيْلِ، وَعِزُّهُ كَفُّ الاَذى عَنِ النّاسِ.   [10]

امام صادق عليه السلام نے فرمایا: مؤمن کی شرافت ، نماز تہجد میں ہے اور اس کی  عزت اور بزرگواری اس میں ہے کہ   لوگوں کو اذیت نہ پہنچاۓ۔

فخر و مباهات الهى کا سبب

عَنِ النَّبِىِّ صلي الله عليه و آله: اِذا قـامَ الْعَبْدُ مِنْ لَذيذِ مَضْـجَعِهِ وَالنُّعـاسُ فِى عَيْنَـيْهِ لِيُـرْضِىَ رَبَّـهُ جَلَّ وَ عَزَّبِصَـلاةِ لَيْلِهِ، بـاهَى اللّهُ بِهِ مَلائِـكَتَهُ، فَقـالَ: اَمـا تَرَوْنَ عَـبْدى هذا، قَدْ قـامَ مِنْ لَذيذِ مَضْـجَعِهِ اِلى صَـلاةٍ لَمْ اَفْـرُضْها عَـلَيْهِ اِشْـهَدُوا اَنِّى قَـدْ غَفَـرْتُ لَهُ.   [11]

پيامبر اكرم صلى الله عليه و آله نے فرمایا: جب انسان اللہ تعالی کی رضا کی خاطر خواب آلود آنکھوں کے ساتھ اپنے آرام دہ بستر سے اٹھتا ہے۔ اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے فخر و مباہات کرتے ہوۓ، فرماتا ہے: آیا تم نے میرے اس بندہ کو دیکھا ہے کہ جو اپنی میٹھی نیند چھوڑ کر اس نماز کو پڑھنا چاہتا ہے کہ جسے میں نے  اس پر واجب بھی نہیں کی ہے، تم اس بات کے گواہ رہنا کہ میں نے اس کے گناہوں کو بخش دیا ہے۔

   اجر عظیم

عَنْ اَبِى عَبْدِاللّهِ عليه السلام قالَ: ما مِنْ عَمَلٍ حَسَنٍ يَعْمَلُهُ الْعَبْدُ اِلاّوَلَهُ ثَوابٌ فِى الْقُرْآنِ اِلاّ صَلاةُ اللَّيْلِ فَاِنَّ اللّهَ لَمْ يُبَيِّنْ ثَوابَها لِعَظيمِ خَطَرِهِ عِنْدَهُ فَقالَ: «تَتَجا فى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفا وَطَمَعَا وَمِمّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ ما اُخْفِىَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِّ اَعْيُنٍ جَزاءً بِما كانُوا يَعْملُونَ».

امام صادق عليه السلام نے فرمایا: ۔نماز تہجد کے علاوہ اللہ تعالی نے انسان کے ہرعمل  کا ثواب( کہ جسے وہ انجام دیتا ہے)  قرآن مجید میں بیان کیا ہے، سواۓ نماز تہجد کے چونکہ اللہ کے نزدیک اس کا ثواب بہت عظیم ہے۔  پھر اس آیت کی تلاوت کی : «تَتَجا فى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفا وَطَمَعَا وَمِمّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ ما اُخْفِىَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِّ اَعْيُنٍ جَزاءً بِما كانُوا يَعْملُونَ»۔   [12]    (رات کے وقت) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ بیم و امید سے اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں۔  پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے (اچھے) اعمال کے صلہ میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا نعمتیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔

ایک رکعت

عَنْ رَسُولِ اللّهِ صلي الله عليه و آله قالَ: عَلَيْكُمْ بِصَلاةِ اللَّيْلِ وَلَوْرَكْعَةً واحِدَةً، فَاِنَّ صَلاةَ اللَّيْلِ مِنْهاةٌ عَنِ اْلاِثْمِ، وَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ تَبارَكَ وَ تَعالى، وَتَدْفَعُ عَنْ اَهْلِها حَرَّ النَّارِ يَوْمَ القِيامَةِ۔[13]

رسول خدا صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا: نماز تہجد پڑھا کرو  اگرچہ ایک رکعت ہی کیوں نہ ہو، چونکہ نماز تہجد انسان کو گناہوں سے بچاتی ہے اور   غضب الہی سے نجات دینے کا سبب بنتی ہے اور  قیامت کے دن کی آگ کی تپش  کو دور کرتی ہے۔

شیعہ  اور نماز تہجد

قالَ الصّادِقُ عليه السلام: لَيْسَ مِنْ شيعَتِنا مَنْ لَمْ يُصَلِّ صَلاةَ اللَّيْل۔[14]

امام صادق عليه السلام نے فرمایا: جو نماز تہجد نہ پڑھے ہمارے شیعہ میں سے نہیں ہے۔

وضاحت: شیخ مفید فرماتے ہیں: اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے مخلص شیعوں میں سے نہیں ہے  اس سے منظور یہ ہے کہ جوشخص نماز شب کی فضیلت  کا معتقد نہ ہو وہ ہمارے شیعوں میں سے نہیں ہے۔

نماز کے لئے بیدار کرنا

قالَ رَسُولُ اللّهِ صلي الله عليه و آله: رَحِمَ اللّهُ رَجُلاً قامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلّى وَاَيْقَظَ اِمْرَأَتَهُ فَصَلَّتْ، فَاِنْ اَبَتْ نَضِحَ فِى وَجْهِهَا المآءَ، رَحِمَ اللّهُ اِمْرَأَةً قامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ وَاَيْقَظَتْ زَوْجَها، فَاِنْ اَبى نَضِحَتْ فِى وَجْهِهِ المآءَ[15].

رسول خدا صلى الله عليه و آله نے فرمايا: خدا رحمت کرے اس شخص پر کہ جو  رات کے ایک حصہ میں بیدار ہو اور نماز تہجد پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے تا کہ وہ بھی نماز پڑھے، اگر وہ بیدار نہ ہو تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے تاکہ وہ وہ بیدار ہو اور خدا رحمت کرے اس عورت پر کہ جو اپنی میٹھی نیند سے اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی بیدار کرے ، اگر وہ بیدار نہ ہو  تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے تاکہ وہ بیدار ہو جاۓ( البتہ یہ کام رضایت اور تمایل کی صورت میں ہونا چاہیے)۔

نماز تہجد کی نیت

قالَ رَسُولُ اللّهِ صلي الله عليه و آله: ما مَنْ عَبْدٍ يُحَدِّثُ نَفسَهُ بِقِيامِ ساعَةٍ مِنَ اللَّيْلِ فَيَنامُ عَنْها اِلاّ كانَ نَوْمُهُ صَدَقَةً تَصَدَّقَ اللّهُ بِها عَلَيْهِ وَكَتَبَ لَهُ اَجْرَما نَوى[16].

رسول خدا صلي الله عليه و آله و سلم نے فرمایا:   اگر کوئی شخص  نماز تہجد کے پڑھنے   کی  نیت سے   سو جاۓ تو اس کا سونا بھی صدقہ شمار ہوتا ہے اور اگر وہ سویا رہے اور وقت گزر جاۓ تو  خدا وند سبحان اسے اس کی اس نیت کے بدلے میں نماز تہجد کے پڑھنے کا ثواب عطا کرے  گا۔

.[1] بحارالأنوار، ج ۸۷، ص ۱۴۸

.[2]  بحارالأنوار، ج ۸۷، ص150

بحارالأنوار، ج ۸۷، ص ۱۴۴ . .[3]

ایضا، ص ۱۴۲ .  ۔[4]

[5] ۔.  كنز العمال، ۷/۲۱۳۹۷ .

[6] ۔.  كنز العمال، ۷/۲۱۴۰۵

[7] ۔ بحارالأنوار، ج ۸۷، ص ۱۲۳

۔ ایضا، ص139 [8]

[9] ۔.   ایضا، ص ۱۴۰

[10] ۔ بحارالأنوار، ج ۸۷، ص ۱۴۱

[11] ۔ بحار الانوار،ج ۸۷، ص ۱۵۶

[12] ۔ وسائل الشيعه، ج ۵، ص ۲۸۱

[13] ۔ كنز العمال، ۷/۲۱۴۳۱ .

[14] ۔.   بحارالأنوار، ج ۸۷، ص ۱۶۲

[15] ۔ ميزان الحكمة، ج ۵/۱۰۴۴۶

[16] ۔ ایضا، ج ۵/۱۰۴۷۰

قرآن و حدیث کی روشنی میں والدین کی اطاعت

 

قرآن و حدیث کی روشنی میں والدین کی اطاعت

ساجد محمود

المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی

 خلاصہ

 بندوں میں سب سے مقدم حق، والدین کا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کتاب و سنت میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے۔یہی والدین  در حقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ انسان کا وجود والدین کے مرہون منت ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالٰی نے بھی کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کے ادائیگی کی تلقین کی ہے۔ نیز جہاں شرک سے اجتناب کی تعلیم دی تو وہیں ساتھ میں والدین کے ساتھ صحیح روش اپنانے کی ترغیب دی۔ اسی طرح محمد و آل محمد(علیھم السلام) کے فرامین   بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دے رہے ہیں، جس طرح والدین نے بچپن میں بچے پر رحم کیا، اس کی ضروریات کا لحاظ کیا، اس کے درد کو اپنا درد سمجھا، اس کی ضرورت کو اپنی ضرورت خیال کیا، اس کی تکلیف کے دفعیہ میں حتٰی الامکان سعی کی، اس طرح بڑھاپے میں بچوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ والدین کو نعمت سمجھیں، ان کی خدمت اپنے لئے اعزاز قرار دیں، اپنے گھر میں  ان کا قیام اپنے لیے رحمت تصور کریں۔

 افسوس ناک صورت حال یہ ہے  کہ موجودہ دورمیں معاشرہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہے اور مسلمان اپنی روایات اور اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں اور آئے روز والدین کے ساتھ بدسلوکی، تشدد اور قتل جیسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب ایک معمول بن چکاہے۔ اسی لئے اس تحقیق میں کوشش کی گئي ہے کہ والدین کی اطاعت سے متعلق احکام خداوندی  اور معصومین (علیھم السلام) کے فرمودات ، والدین کی اطاعت کے دنیوی و اخروی فوائد،والدین کی نافرمانی کے دنیوی اور اخروی  نقصانات اولاد کے فرائض   اس کے علاوہ والدین کے حقوق سے متعلق چند فقہی مسائل وغیرہ  کو بیان کیا جائے تاکہ معاشرے میں والدین کے مقام کو  کما فی السابق آئندہ نسل کے لئے زندہ اور پایندہ رکھا جائے۔

قرآنی آیات کی روشنی میں والدین کی اطاعت

اللہ تعالی، والدین  کی اطاعت کے بارے میں فرماتا ہے:   «وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ،﴿۱۴﴾ وَ إِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ؛﴿15﴾ [1] اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا (کیونکہ) اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹا (وہ تاکیدی حکم یہ تھا کہ) میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کر (آخرکار) میری ہی طرف (تمہاری) بازگشت ہے۔ اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کر اور اس شخص کے راستہ کی پیروی کر جو (ہر معاملہ میں) میری طرف رجوع کرے پھر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے۔ تو (اس وقت) میں تمہیں بتاؤں گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

صاحب مجمع البیان اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا ۔ یہاں پر چونکہ خداتعالی نے اپنی نعمتوں کے شکر  کے بجا لانے  کا امر فرمایا ہے، اس لئے اشارہ کے ساتھ اس بات کا  تذکر دیتا ہے کہ  ہر منعم کا شکر واجب  اور لازم ہے ، اسی وجہ سے ماں باپ( اپنے فرزند  پراحسان کرتے ہيں) والدین کا ذکر کیا ہے  اور ہمارے پر واجب کیا ہے کہ والدین کی اطاعت کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کریں اور ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ سلوک کریں۔ اللہ تعالی نے اپنی شکر گذاری کے بعد والدین کی شکر گزاری کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چونکہ خداوند عالم،  انسان کا خالق ہے اور والدین اس انسان کی خلقت  اور حفاظت کا  وسیلہ ہیں۔ [2]

قرآنِ مجید میں  ایک اور جگہ پر خدا تعالی فرماتا ہے:

وَٱعْبُدُوا ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِ‌كُوابِهِۦ شَيْـًٔا ۖ وَبِٱلْوَ‌ٰلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًا وَبِذِى ٱلْقُرْ‌بَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْجَارِ‌ ذِى ٱلْقُرْ‌بَىٰ وَٱلْجَارِ‌ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلْجَنۢبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورً‌ا.[3]

”اور تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اہل قرابت کے ساتھ بھی اور پاس رہنے والے پڑوسی کے ساتھ اور ہم مجلس کے ساتھ بھی اور مسافر کے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضہ ہیں ۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کوپسند نہیں کرتا ہے جواپنے کو بڑا سمجھتے اور شیخی مارتے ہوں ۔” اس آيت میں خدا تعالی نے اپنی عبادت  کے بیان کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دے کر والدین کے حقوق  اور عظمت کو واضح کر دیا ہے۔

سورہ بقرہ میں خدا تعالی  انفاق کے بارے میں فرماتا ہے :

یسْـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَآ أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ‌ۢ فَلِلْوَ‌ٰلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَ‌بِينَ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا۟ مِنْ خَيْر فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ۔[4]

”لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟ آپؐ فرما دیں کہ جو کچھ مال تم کو خرچ کرنا ہو تو ماں باپ کا حق ہے اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا، محتاجوں اور مسافر کااور جو نیک کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔” آیۃ مذکورہ میں خالق کائنات نے اپنے بندوں میں سب سے زیادہ انفاق کا مستحق  والدین کو قرار دیا ہے۔

ایک مقام پر والدین کو اُف تک کہنے سے اور جھڑکنے سے منع فرمایا، ارشادِ ربانی ہے:

وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلْوَ‌ٰلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ ٱلْكِبَرَ‌ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْ‌هُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِ‌يمًا ﴿٢٣﴾ وَٱخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ ٱلذُّلِّ مِنَ ٱلرَّ‌حْمَةِ وَقُل رَّ‌بِّ ٱرْ‌حَمْهُمَا كَمَا رَ‌بَّيَانِى صَغِيرً‌ا ۔[5]

”اور تیرے ربّ نے حکم دیا کہ تم صرف اس کی ہی عبادت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو۔ اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی اُف نہ کہو (یعنی ‘ہوں ‘بھی مت کرنا) اورنہ ہی ان کوجھڑکنا اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت و محبت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرما جیسے اُنہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا اور پرورش کی۔”

اس کے علاوہ قرآن نے تمام انبیاے کرام کے پیغامِ رسالت میں والدین کی برتر حیثیت کو بیان کیا ہے اور مطلق احکام کی صورت میں بھی والدین کو توحید کے بعد سب سے اونچا درجہ دیا ہے:

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَ بَنِىٓ إِسْرَ‌ٰٓ‌ءِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا ٱللَّهَ وَبِٱلْوَ‌ٰلِدَيْنِ إِحْسَانًا۔[6]

”اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے قول و قرار لیاکہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرنا اور ماں باپ کی اچھی طرح خدمت کرنا۔”

قرآن مجید نے والدین سے حسنِ سلوک کا نہ صرف حکم الٰہی بیان کیاہے بلکہ حسن سلوک کے لیے عقلی دلیل بھی مہیا کی ہے:

وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ بِوَ‌ٰلِدَيْهِ إِحْسَـٰنًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُۥ كُرْ‌هًا وَوَضَعَتْهُ كُرْ‌هًا ۖ وَحَمْلُهُۥ وَفِصَـٰلُهُۥ ثَلَـٰثُونَ شَهْرً‌ا ۚ حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُۥ وَبَلَغَ أَرْ‌بَعِينَ سَنَةً قَالَ رَ‌بِّ أَوْزِعْنِىٓ أَنْ أَشْكُرَ‌ نِعْمَتَكَ ٱلَّتِىٓ أَنْعَمْتَ عَلَىَّ وَعَلَىٰ وَ‌ٰلِدَىَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَـٰلِحًا تَرْ‌ضَىٰهُ وَأَصْلِحْ لِى فِى ذُرِّ‌يَّتِىٓ ۖ إِنِّى تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّى مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ۔[7]

” اور ہم نے انسان کواپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیاہے۔ اس کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا اوربڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا تیس مہینے (میں پورا ہوتا ہے)یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور چالیس برس کو پہنچتا ہے تو کہتا ہے: اے میرے پروردگار! مجھ کو اس پر مداومت دیجئے کہ میں آپ کی نعمتوں کاشکر کیا کروں جو آپ نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطافرمائی ہیں اور میں نیک کام کروں جس سے آپ خوش ہوں اور میری اولاد میں بھی میرے لیے خیر پیداکردیجئے، میں آپ کی جناب میں توبہ کرتاہوں اور میں فرمانبردار ہوں ۔”

حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صفات بیان کرتے ہوئے والدین کے ساتھ ان کے حسن سلوک کا خصوصی ذکر کیا: وَبَرًّ‌ۢا بِوَ‌ٰلِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارً‌ا عَصِيًّا۔[8]

”اور وہ اپنے والدین کے خدمت گزار تھے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے نہ تھے۔”

عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بچپن میں جو گفتگو کی تھی، اس میں بھی والدہ سے حسنِ سلوک کا خاص تذکرہ ہے:وَجَعَلَنِى مُبَارَ‌كًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَـٰنِى بِٱلصَّلَو‌ٰةِ وَٱلزَّكَو‌ٰةِ مَا دُمْتُ حَيًّا؛ وَبَرًّ‌ۢا بِوَ‌ٰلِدَتِى وَلَمْ يَجْعَلْنِى جَبَّارً‌ۭا شَقِيًّا۔[9]

”اورمجھ کو برکت والا بنایا میں جہاں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰة کا حکم دیا جب تک میں دنیا میں زندہ رہوں اور اپنی والدہ کے ساتھ حُسن سلوک کرنے والا ہوں اور مجھ کو سرکش بدبخت نہیں بنایا۔”

روایات معصومین (ع) کی روشنی میں والدین کی اطاعت

آئمہ معصومین(علیهم السلام) نے بہت سی روایات میں مسلمانوں کو  اپنے والدین کی اطاعت اور رحیمانہ سلوک کی سفارش کی ہے   اور امت  مسلمہ کو اس بات کی تعلیم دی کہ والدین کی اطاعت و فرماں برداری اپنے لئے لازم کرلو۔ اس ضمن میں   چند  احادیث  بہ طور مثال ذکر کرتے ہيں:

  1. رسول خدا ( صلّی الله علیہ و آلہ ) نے فرمایا:

“العبدُ المطیعُ لوالدیهِ و لرّبه فی أعلی علّیین”وہ شخص کہ  جو اپنے خدا اور والدین کا مطیع ہو گا ، (قیامت کے دن) اس کا مقام اعلی علیین میں ہوگا۔ [10]

  1. امام علی ( علیہ السّلام ) نے فر مایا:

“حقّ الوالِدِ أن یُطیعَهُ فی کلّ شئٍ الاّ فی معصیهِ اللهِ سبحانَهُ”اولاد پر والدین کا حق ہے یہ کہ معصیت خدا کے علاوہ تمام موارد میں ان کی اطاعت کريں۔ [11]

  1. عَنِ النَّبِیِّ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) أَنَّهُ قَالَ: ثَلَاثَهٌ لَا یَحْجُبُونَ عَنِ النَّارِ الْعَاقُّ لِوَالِدَیْهِ وَ الْمُدْمِنُ لِلْخَمْرِ وَ الْمَانُّ بِعَطَائِهِ قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا عُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ قَالَ یَأْمُرَانِ فَلَا یُطِیعُهُمَا؛ [12] رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے فرمایا:

 تین قسم کے لوگ جہنم سے نہیں بچ سکتے 1۔ والدین کے عاق 2۔ دائمی شراب خور 3۔ صدقہ دے کر جتلانے والا، کہا گیا : یارسول اللہ! عاق والدین سے کیا مراد ہے؟ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے فرمایا: والدین اپنے فرزندکو کسی کام کرنے کا حکم دیں اور وہ ان کی اطاعت نہ کرے۔

قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُ الْوَالِدِ قَالَ أَنْ تُطِیعَهُ مَا عَاشَ فَقِیلَ وَ مَا حَقُّ الْوَالِدَهِ فَقَالَ هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لَوْ أَنَّهُ عَدَدَ رَمْلِ عَالِجٍ وَ قَطْرِ الْمَطَرِ أَیَّامَ الدُّنْیَا قَامَ بَیْنَ یَدَیْهَا مَا عَدَلَ ذَلِکَ یَوْمَ حَمَلَتْهُ فِی بَطْنِهَا؛

پیامبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم)سے کسی نے عرض کی: یا رسول اللہ! باپ کا کیا حق ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے فرمایا:جب تک تم زندہ ہو اس کی اطاعت کرو۔ پھر سؤال کیا: ماں کا کیا حق ہے؟حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے فرمایا: ھیہات، ھیہات ؛ بہت دور ہے ، بہت دور ہے(کہ اس کا کوئی حق ادا کرے! پھر فرمایا: اگر کسی شخص کی عمر بیابان  اور ریگستان کے ذروں اور  بارش کے قطروں  کے برابر ہو اور وہ اپنی ماں کی خدمت کرتا رہے  تب بھی یہ تمام  خدمت،  حمل کے دوران ایک دن کی اٹھائی گئی تکلیف کے برابر  نہيں ہو سکتی۔[13]

  1. امام سجاد (ع) نے صحیفہ سجادیہ کی 24ویں دعا کی ابتدا میں درود وسلام کے بعد اپنے ماں باپ  کے حق میں دلنشین اور بہت پیارے انداز میں  اللہ تعالی سے درخواست کی ہے کہ وہ انہیں ان کا مطیع اور فرمانبردار بنادے:  : «أللَّهُمَّ اجْعَلْنی أهَابَهُما هَیبَهَ السُّلْطانِ العَسُوفِ وَ أبوَّهُمَا بِوَّ الأمَّ الرَّؤوفِ، وَاجعَلْ طَاعَتِی لِوالدَی وَ بِرّی بِهِما أقرَّلعَینی مِنْ وَقدهِ الوَسنانِ، وَأثْلَجَ لِصَدری مِنْ شَوبَهٍ الظَّمْآنِ حَتَّی أوثِرَ عَلَی هَوای هَواهُمَا، وَأقدَّمَ عَلَی رضای رَضاهُمَا، وَأسْتَکثَرَ برَّبَهُمَا بِی وَ إنْ قَلَّ وَأسْتَقِلَّ بِرّی بِهِما وَ إنْ کثُرَ؛

خدایا! مجھے توفیق دے کہ میں اپنے ماں باپ سے اس طرح ڈروں جیسے کسی جابر سلطان سے ڈرا جاتا ہے اور ان کے ساتھ اس طرح مہربانی کروں جس طرح ایک مہر بان ماں اپنی اولاد کے ساتھ مہربانی کرتی ہے۔ اور پھر میری اس اطاعت کو اور میرے اس نیک برتاؤ کو میری آنکھوں کے لئے اس سے زیادہ خوشگوار بنا دے جتنا خواب آلود آنکھوں میں نیند کا خمار خوشگوار ہوتا ہے اور اس سے زیادہ باعث سکون بنا دے جتنا  پیاسے کے لئے پانی کا ایک گھونٹ باعث سکون بنتا ہے تاکہ میں اپنی خواہش کو ان کی خواہش پر مقدم کروں اور ان کی رضا  کو اپنی رضا پر ترجیح دوں۔ ان کے مجھ پر کیے گئے احسانات کو زیادہ سمجھوں، چاہے وہ قلیل ہی کیوں نہ ہوں  اور اپنی خدمات کو قلیل تصور کروں چاہے وہ کثیر ہی کیوں نہ ہوں۔ [14]

  1. حضرت امام زین العابدین(علیه السلام)ایک اور دعا میں خداوند متعال سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کی اولاد کو اپنے والدین کا مطیع قرار دے دے اور فرمایا: “وَ اجْعَلْهُمْ لِی مُحِبِّینَ، وَ عَلَیَّ حَدِبِینَ مُقْبِلِینَ مُسْتَقِیمِینَ لِی، مُطِیعِینَ ، غَیْرَ عَاصِینَ وَ لَا عَاقِّینَ وَ لَا مُخَالِفِینَ وَ لَا خَاطِئِین”

 ترجمہ: خدایا! انہیں میرا  چاہنے والا اور میرے حال پر مہربانی کرنے والا اور میری طرف توجہ کرنے والا اور میرے حق میں سیدھا اور اطاعت گذار بنا دے ، جہاں نہ معصیت کریں نہ عاق ہوں ، نہ مخالفت کریں اور غلطی کریں۔[15]

والدین کی اطاعت کے دنیوی اور اخروی فائدے

والدین کی اطاعت کےبہت سے دنیوی اور اخروی فوائد ہیں کہ جن میں سے چند کی طرف اشارہ کرتے ہيں۔

1.      والدین کی طرف محبت بھری نگاہ  کرنا عبادت ہے

 رسول خدا صلی الله علیه و آله فرماتے ہيں:” نظر الولد الی والدیه حباً لهما عباده”[16]  بچے کا اپنے والدین کو محبت بھری نگاہ سے دیکھنا عبادت ہے۔

روایات میں ہے کہ چند چیزوں کی طرف نگاہ کرنا، عبادت شمار ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک قرآن مجید ہے کہ جس کی طرف نگاہ کرنا عبادت ہے اور اس کے علاوہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ ایک شخص نے خانہ کعبہ کے پاس حضرت ابوذر (رضی اللہ تعالی عنہ) سے پوچھا: حضرت علی(علیہ السلام) کے چہرے کی طرف  زیادہ کیوں دیکھتے ہو؟ تو فرمایا:  النّظر الی علی بن أبی طالب عباده، و النّظر الی الوالدین برأفۃ و رحمۃ عباده.حضرت علی(علیہ السلام) کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھنا عبادت ہے؛ اسی طرح والدین کی طرف محبت اور رحمت کی نظر کرنا ، عبادت ہے۔

2.      والدین کے ساتھ نیکی،  اسلام کی راہ میں جہاد ہے

پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله نے فرمایا: “برّ الوالدین یجزی عن الجهاد”[17]والدین سے نیکی کرنا جہاد سے بھی کفایت کرتا ہے۔ (جہاد  کے برابر ہے)۔

3.      طویل عمر  اور کثرت رزق کا باعث ہے

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے فرمایا: انّه ربّما کان قد بقی من عمر الانسان ثلث سنین ثم انّه یحسن الی والدیه و یصل أرحامه فیؤخّره الله الی ثلثین سنه و انّ منهم من یبقی من عمره ثلاثون سنه ثم انّه یقطع أرحامه أو یعق والدیه فیمحو الله سبحانه الثلاثین و یثبت مکانها ثلاث سنین، و قال رسول الله صلی الله علیه و آله : رأیت فی المنام رجلا قد اتاه ملک الموت لقبض روحه فجاء برّه بوالدیه فمنعه منه.[18]

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کی عمر ، تین سال باقی رہ جاتی ہے ؛ لیکن اس کا والدین کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی کرنے  کی وجہ سے  خدا تعالی اس کی عمر کو تیس سال میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس کے برعکس، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کی عمر تیس سال باقی رہتی ہوتی ہے ؛ لیکن قطع رحمی اور والدین کو اذیت و آزار دینے کی وجہ سے اس کی یہ تیس سالہ عمر تین سال میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پیامبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے خواب میں دیکھا کہ ملک الموت ، قبض روح کے لئے ایک شخص کے پاس آیا ؛ لیکن والدین کے ساتھ نیکی  نے اس کی زندگی کوبچا لیا۔

اس کے علاوہ ایک اور حدیث میں بیا ن ہوا ہے کہ : عن حنان بن سدیر قال: کنا عند ابی عبد الله(ع) و فینا میسر فذکروا صلة القرابة فقال ابو عبد الله ع):یا میسر قد حضر اجلک غیر مرة و لا مرتین، کل ذلک یؤخر الله اجلک، لصلتک قرابتک، و ان کنت ترید ان یزاد فی عمرک فبر شیخیک یعنی ابویک. [19]

حنان ابن سدیر بیان کرتا ہے کہ : ہم امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور میسر نامی شخص بھی ہمارے ساتھ تھا ، صلہ رحمی کی بات چلی تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اے میسر  کئی بار تمہاری موت آچکی تھی ہر بار خدا وند عالم نے تمہارے صلہ رحمی کی وجہ سے موت کو ٹال دیا ہے اگر تم یہ چاہتے ہو کہ خدا وند عالم تمہاری عمر میں اضافہ کر ے تو تم اپنے دونوں بزرگوں  یعنی والدین سے نیکی کیا کرو ۔

4.      والدین کے ساتھ نیکی، خوشگوار زندگی  کا باعث بنتی ہے

معصوم فرماتے ہیں:

 لذّه العیش فی البرّ بالوالدین[20]خوشگوار زندگی کی لذت ، ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے میں مضمر ہے۔

وضاحت: وہ لوگ کہ جو اپنی اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں اپنے والدین کے ساتھ شفیق اور مہربان    نہیں  ہوتے   بلکہ اس کے برعکس  غیض و غضب سے پیش آتے ہيں، صرف یہ نہیں کہ آخرت میں عذاب پروردگار کے مستحق قرار پائیں گے بلکہ وہ دنیا کی کسی لذت  اور خوشی سے بھی بہرہ مند نہیں ہوں گے۔ ہم اپنے زمانے میں  اس بات کے شاہد ہیں کہ جو لوگ  اپنے والدین کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ پیش نہیں آتے ، کس طرح  ان کے گھر  تباہ و برباد  ہو جاتے ہيں اور ہمیشہ زندگی میں مصیبتوں کا شکار رہتے ہیں!  پس جو لوگ اس دنیا میں  پرسکون اور خوشگوار زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ، انہیں چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی، محبت اور شفقت کا سلوک کریں، تاکہ   مسرت اور خوشی سے بھرپور  زندگی کی لذت حاصل کر سکیں۔

5.      موت میں آسانی کا باعث ہے

امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

“من أحبّ أن یخفّف اللّه عزّ و جّل عنه سکرات الموت فلیکن بوالدیه بارّا”[21]  جو شخص سکرات موت کی تلخی سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے والدین سے نیکی کے ساتھ پیش آئے۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے:

 عن ابی عبد الله(ع):ان رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) حضر شابا عند وفاته فقال(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) له:قل: لا اله الا الله،قال(ع): فاعتقل لسانه مرارا فقال(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) لامراة عند راسه: هل لهذا ام؟قالت: نعم انا امه،قال(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم): افساخطة انت علیه؟قالت: نعم ما کلمته منذ ست حجج،قال(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) لها: ارضی عنه،قالت: رضی الله عنه برضاک یا رسول الله فقال له رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم): قال: لا اله الا الله قال(ع): فقالها… ثم طفی…[22]

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

ایک جوان کےمرتے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اسکےسراہنے پہنچے اور فرمایا : لا الہ الا اللّہ پڑھو وہ جوان نہ پڑھ سکا ( گونگا ہو گیا ) چند بار تکرار کیا پھر بھی نہ پڑھ سکا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس عورت سے سوال کیا جو اس کےپاس بیٹھی تھی کیا اسکی ماں زندہ ہے؟ عورت نے جواب دیا ،جی ہاں میں اس کی ماں ہوں ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا کیا تم اس جوان سے ناراض ہو؟ عورت نے جواب دیا، جی میں نے چھے سال سے بات نہیں کی  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس سے کہا کہ تم اس سے راضی ہو جا ، عورت نے کہا یا رسول اللّہ خدا اس سے راضی ہوں میں آپ کی خاطر اس سے راضی ہوئی ہوں ، اس کےبعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا پڑھو لا الہ اللّہ اس وقت جوان کی زبان سے لا الہ اللّہ جاری ہوا اور کچھ دیر کےبعد وہ مر گیا۔

6.        جہنم کی آگ سے سپر ہے

روایت میں آیا ہے :

“انّ أبی قد کبر جداً و ضعف فنحن نحمله اذا اراد الحاجه فقال ان استطعت أن تلی ذلک منه فافعل و لقّمه بیدک فانّه جنۃ لک غدا”[23]

ایک شخص نے امام صادق(علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کی 🙁 میرا باپ اتنا  بوڑھا اور ناتوان ہو چکا ہے کہ قضاء حاجت کے لئے  ہم اسے اپنے کندھوں  پر اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ امام صادق(علیہ السلام) نے فرمایا: اگر تو  قدرت رکھتا ہے تو  تم خود اس کام کو انجام دو اور خود تم اس کے منہ میں  لقمہ دو چونکہ تیرا یہ عمل، کل روزقیامت جہنم سے سپر بنے گا [ اور تجھے بہشت لے جائے گا]

7.        جو والدین کے ساتھ نیکی کرتے ہيں، ان کے بچے بھی ان کے ساتھ نیکی سے پیش آئیں گے۔

امام صادق(علیہ السلام) فرماتے ہيں:

“برّوا أبائکم یبرّ کم أبناؤکم”[24] تم اپنے والدین کے ساتھ نیکی سے پیش آؤ ،  تمھاری اولاد تم سے نیکی کا برتاؤ کرے گی۔

8.        والدین سے نیکی کرنے والا ، مورد رحمت پروردگار قرار پاتا ہے

پیامبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ فرماتے ہيں۔ “رحم الله امرءً اعان والده علی برّه”[25] خدا رحمت کرے اس شخص پر کہ جو  باپ کے ساتھ نیکی کے  کاموں میں ہاتھ بٹائے۔

9.        والد کی دعا  اپنی اولاد کے بارے میں رد نہیں ہوتی

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہيں:

“ثلاث دعوات لایحجبن عن الله تعالی: دعاء الوالد لولده اذا برّه”[26]  تین دعائیں کبھی رد نہیں ہوتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب فرزند اپنے والد کے ساتھ نیکی کرے اور اس کا والد اس کے لئے دعاء خیر کرے۔

10.معرفت پروردگار کا باعث بنتی ہے

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہيں:

“برّ الوالدین من حسن معرفه العبد باللّه” [27] ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، انسان کے عارف باللہ ہونے کی علامات میں سے ہے۔

11.موت میں تاخیر کا باعث بنتی ہے

رسول خدا صلی الله علیه و آله فرماتے ہيں:

” رأیت بالمنام رجلاً من أمّتی قد أتاه ملک الموت لقبض روحه، فجاء برّه بوالدیه فمنعه منه”[28]

میں نے خواب میں اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ ملک الموت اس کی روح کو قبض کرنے کے لئے آیا ہوا ہے، لیکن اسی اثناء میں والدین کے ساتھ کی گئی نیکی نے آ کر اسے موت کے منہ سے بچا لیا۔

12.والدین سے نیکی، حج کا ثواب رکھتی ہے

رسول خدا صلی الله علیه و آله فرماتے ہيں:

” ما من ولد بارّ ینظر الی والدیه نظر رحمه الاّ کان له بکلّ نظره حجّه مبروره؛ فقالوا: یا رسول الله! و ان نظر فی کلّ یوم مأه» قال: نعم، الله أکبر و أطیب” [29]

جو  شخص اپنے والدین کی طرف  شفقت بھری نظر  سے دیکھے تو  اللہ تعالی اسے  ہر نگاہ کے بدلے میں ایک حج مقبول کا ثواب دیتا ہے، اصحاب نے پوچھا: یا رسول اللہ!  اگر وہ شخص ہر روز سو بار نگاہ کرے تو ؟ فرمایا: تب بھی،  چونکہ خدا تعالی بزرگ  اور کریم   ہے ( ثواب عطا کرے گا)۔

12.والدین سے نیکی کرنے والا کبھی فقیر نہیں ہوتا

امام صادق علیه السلام فرماتے ہیں:

” فلیکن بوالدیه بارّاً فاذا کان کذلک لم یصبه فی حیاته فقرا أبداً”[30]

۔۔۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ سکرات موت کی تلخی اس پر آسان ہو تو اسے چاہیے کہ والدین کے ساتھ نیکی کرے۔ اگر ایسا کرے گا  تو اپنی دنیوی زندگی میں کبھی فقیر نہیں ہو گا۔

13.قیامت کے دن، نیک لوگوں کےسردار  ہوں گے

روایت میں آیا ہے : سید الأبرار یوم القیامه رجل برّ والدیه[31]  جو لوگ اپنے والدین کے ساتھ نیکی اور خوش خلقی سے پیش آتے ہیں وہ قیامت کے دن،  نیک لوگوں کے سردار ہوں گے۔

وضاحت:  یقینا یہ شخص قیامت کے دن نیکوکار ہے اور دنیوی زندگی میں بھی خوشبختی اور سعادت کا موجب ہے۔

14.والدین کے ساتھ نیکی کرنے والا، عرش الہی کے زیر سایہ ہوگا

ایک روات میں آیا ہے: انّ موسی یناجی ربّه اذ رأی رجلاً تحت ظلّ العرش فقال: «یا ربّ من هذا الّذی قد أظلّه عرشک؟»، قال: هذا کان بارّاً بوالدیه۔[32]

حضرت موسی علیه السلام کوہ طور پر اپنے پروردگار کے ساتھ مناجات کرنے کے لئے تشریف لے گئے، اسی اثنا میں آپ نے عرش خدا کے زیر سایہ ایک آدمی کا مشاہدہ کیا۔ عرض کی : اے پروردگار! یہ کون ہے کہ جو تیرے عرش کے زیر سایہ رہتا ہے؟ آواز  آئی ۔  یہ وہ شخص ہے کہ جو اپنے والدین کے ساتھ مہربانی اور شفقت سے پیش آتا تھا۔

والدین کی نافرمانی کے دنیوی اور اخروی  نقصانات

والدین کی نافرمانی اور حکم عدولی کے نقصانات نہ صرف  آخرت کی زندگی  تک محدود  ہیں بلکہ دنیا میں بھی اس گناہ کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔

1.عاق والدین جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکتا

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

اِیَّاکُمْ وَعُقُوْقِ الْوَلِدَیْنِ فَاِنَّ رِیْحَ الجَنَّةِ یُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَةِ اَلْفِ عَامٍ وَلَا یَجِدُ ھَا عَاقٍ وَّلَاقَاطِعُرَحِمٍ۔[33]
“خبردار! والدین کی ناراضگی سے پرہیز کرو ۔ بے شک بہشت کی خوشبو ایک ہزار سال دور کے فاصلے سے سونگھی جا سکتی ہے  لیکن ماں باپ کے عاق اور رشتہ داروں سے قطعِ تعلق کرنے والا جنت کی خوشبو محسوس نہیں کر سکے گا۔”

2.غضب پروردگار کا باعث بنتی ہے

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہی سے روایت ہے:  مَنْ اَسْخَطَ وَالِدَیْہِ فَقَد اَسْخَطَ اللّٰہَ وَمَنْ اَغْضَبَھُمَا فَقَدْاَغْضَبَاللّٰہَ۔[34]
“جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا تو گویا اس نے اللہ کو ناراض کیا ۔ اور جس نے ان دونوں کو غضب ناک کیا تو اس نے اللہ کو غضب ناک کیا۔”

3.اذیت رسول  خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم)  کا باعث بنتی ہے

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: مَنْ آذیٰ وَالِدَیْہِ فَقَدْآذَانِی وَمَنْ آذَانِیْ آذَیٰ اللّٰہَ وَمَنْ آذیٰ اللّٰہَ فَھُوَ مَلْعُوْنٌ۔[35]
“جس کسی نے اپنے والدین کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ہے اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی پس وہ ملعون ہے۔”

4.کوئی عمل صالح قبول نہیں ہوتا

  آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے: وَلیَعْمَل الْعَاقُ مَاشآءَ اَنْ یَعْمَلَ فَلَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ  [36]  “ماں باپ کو جس نے ناراض کیا پھر وہ جتنا بھی چاہے عمل کرے بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

5.والدین کا نا فرمان ملعون ہے

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے: مَلْعُوْنٌ مَلْعُوْنٌ مَنْ ضَرَبَ وَالِدَیْہِ، مَلْعُوْنٌ مَلْعُوْنٌ مَنْ عَقَّ وَالِدَیْہِ ۔[37]

“ملعون ہے، ملعون ہے وہ شخص جس نے اپنے والدین کو مارا۔ ملعون ہے، ملعون ہے وہ شخص جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا ہو۔”

6.عاق والدین،  نماز قبول نہيں ہوتی

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ: مَنْ نَظَرَاِلٰی اَبَوَیْہِ نَظَرَ مَاقِتٍ وَّھُمَا ظَالِمَانِ لَہ لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ لَہُ صَلوٰةً ۔[38]“جو کوئی اپنے والدین کی طرف غصے سے نظر کرے گا حالانکہ والدین اولاد کے حق میں ظالم ہوں پھر بھی اللہ اس کی نماز قبول نہیں کرے گا۔”

7.فرعون کے ساتھ جہنم میں ہو گا

  آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مزید ارشاد فرمایا:

بَیْنَ الْاَنْبِیَاءِ وَالْبَاردَرَجَةٌ وَبَیْنَ الْعَاقِ وَالْفَرَاعِنَہِ دَرَکَةُ ۔[39] “والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بہشت میں پیغمبروں سے صرف ایک درجہ کے فرق پر ہو گا۔ اور والدین کا عاق شدہ جہنم میں فراعنہ سے صرف ایک درجہ نیچے ہو گا۔”

8.گدائی و بد نصیبی کا سبب

   مدینہٴ منورہ کے ایک دولت مند جوان کے ضعیف ماں باپ زندہ تھے۔ وہ جوان ان کے ساتھ کسی قسم کی نیکی نہیں کرتا تھا اور انہیں اپنی دولت سے محروم کیے ہوئے تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس جوان سے اس کا سب مال و دولت چھین لیا۔ وہ ناداری ، تنگ دستی اور بیماری میں مبتلا ہو  پریشانی  کی زندگی  اور بد نصیبی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گیا۔جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا جو کوئی ماں باپ کو تکلیف پہنچاتا ہے اُسے اس جوان سے عبرت حاصل کر نی چاہیئے۔
دیکھو ! اس دنیا میں اس سے مال ودولت واپس لے لی گئی ، اس کی ثروت و بے نیازی فقیری میں اور صحت بیماری میں تبدیل ہو گئی۔ اس طرح جو درجہ اس کو بہشت میں حاصل ہونا تھا ، وہ ان گناہوں کے سبب اُس سے محروم ہو گیا۔ اس کی بجائے آتشِ جہنم اس کے لیے تیار کی گئی ۔ [40]

اولاد کے وظائف

اولاد کے وظائف کے بارے میں  معصومین (علیھم السلام)  کی بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں کہ ان میں سے چند ایک احادیث کو درج ذیل بیان کیا گیا ہے۔

1.حسن سلوک

عن ابی ولاد الحناط قال: سالت ابا عبد الله(ع) عن قول الله:«و بالوالدین احسانا» فقال: الاحسان ان تحسن صحبتهما و لا تکلفهما ان یسالاک شیئا هما یحتاجان الیه.  [41]

ابی ولاد کہتے ہیں کہ: میں نے اس آیہ(و بالوالدین احسانا)  کا معنی امام صادق علیہ السلام سے پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: والدین سے نیکی کرنے کا معنی یہ ہے کہ ان کے ساتھ تمہارا برتاو اچھا ہو اور انہیں کچھ مانگنے کے لئے محتاج نہ کرنا (ان کی درخواست سے پہلے پورا کرنا)

2.مہر و محبت کا برتاؤ کرنا

قال ابو عبد الله(ع):لا تملا عینیک من النظر الیهما الا برحمة و رقة، و لا ترفع صوتک فوق اصواتهما، و لا یدیک فوق ایدیهما و لا تتقدم قدامهما.[42]

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں  :

 والدین کو مہر و محبت کی نظر کے بغیرنظر  نہ کرنااور اپنی آواز  ان کی آواز پر بلند نہ کرنا اور اپنے ہاتھ کو ان کے ہاتھ سے اوپر نہ رکھنا  اور ان سے آگے راستہ نہ چلنا۔

3.والدین کی نیابت میں اعمال صالح بجالانا

قال ابو عبد الله(ع):ما یمنع الرجل منکم ان یبر والدیه حیین او میتین، یصلی عنهما و یتصدق عنهما و یحج عنهما و له مثل ذلک، فیزیده الله(عز و جل) ببره و صلاته خیراً کثیراً.[43]

کونسی چیز مانع ہے کہ انسان اپنے والدین سے نیکی کرے چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ ، اس طریقے سے نیکی کرے کہ والدین کی نیت سے نماز پڑھے ، صدقہ دے حج بجا لائے اور روزہ رکھے کیونکہ اگر کوئی ایسا کرے تو اس کا ثواب والدین کو پہنچے گا اور اس شخص کو بھی اسی مقدار ثواب دیا جائے گا ، اس کےعلاوہ خدا وند عالم اس شخص کو اسکی نیکی اور نماز کی وجہ سے اس سے بہت زیادہ نیکی عطا کرے گا ۔

4.برے والدین سے نیکی کرنا

عن ابی جعفر(ع) قال: ثلاث لم یجعل الله (عز و جل) لاحد فیهن رخصة اداء الامانة الی البر و الفاجر و الوفاء بالعهد للبر و الفاجر و بر الوالدین برین کانا او فاجرین.[44]

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہے :

تین ایسی چیزیں ہیں کہ جن کو خدا وند عالم نے ترک کرنے کی اجازت نہیں دی ہے 1۔امانت کا واپس کرنا چاہے اچھا آدمی ہویا  فاسق۔2۔عھد کا پورا کرنا چاہے اچھا آدمی ہو یا برا۔3 ۔والدین کےساتھ اچھائی کرنا چاہے وہ اچھے ہوں یا برے۔

5.مشرک والدین سے نیکی کا  برتاو کرنا

فیما کتب الرضا(ع) للمامون :بر الوالدین واجب، و ان کانا مشرکین و لا طاعة لهما فی معصیة الخالق.[45]

امام رضا (علیہ السلام )نے جو خط مامون کو لکھا  اس میں یہ بھی تھا کہ : ماں باپ سے نیکی کرنا لازم ہے اگرچہ وہ کافر اور مشرک ہوں لیکن خدا کی معصیت میں ان کی اطاعت نہ کرنا۔

والدین کی قبر کی زیارت کرنا

عن رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) قال: من زار قبر والدیه او احدهما فی کل جمعة مرة غفر الله له و کتب برا.[46]

جو شخص بھی ہر جمعہ کو ماں باپ یا ان میں سے ایک کی قبر کی زیارت کرے خدا اس کو بخش دے گا اور اس شمار کا نیک آدمیوں کیا جائے گا۔

6.والدین کی نافرمانی سے بچنا

قال رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم):ایاکم و عقوق الوالدین، فان ریح الجنة توجد من مسیرة الف عام و لا یجدها عاق و لا قاطع رحم. [47]

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  فرماتے ہیں  کہ: تم لوگ والدین کے عاق ہونے سے بچو کیونکہ جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت تک سونگھی جائے گی مگر عاق والدین اور قطع رحم کرنے والا اس سے محروم رہے گا ۔

7.والدین کو حقارت سے  نہ دیکھنا

عن ابی عبد الله(ع) قال: لو علم الله شیئا ادنی من اف لنهی عنه، و هو من ادنی العقوق و من العقوق ان ینظر الرجل الی والدیه فیحد النظر الیهما.[48]

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

 اگر اف سے چھوٹی کوئی چیز ہوتی تو خدا اس سے روک لیتا  اور اف کہنا عاق کےمراتب میں سے کمترین مرتبہ ہے، اور عاق کی ایک قسم یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو غضب آلود نگاہ سے د یکھے۔

8.نیکی سے پیش آنا

قال علی بن الحسین(ع):جاء رجل الی النبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) فقال: یا رسول الله ما من عمل قبیح الا قد عملته فهل لی توبة؟فقال له رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم):فهل من والدیک احد حیّ؟قال: ابی قال: فاذهب فبره.قال: فلما ولی قال رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم):لو کانت امه.[49]

امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا کہ: ایک مرد رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللّہ کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جو میں نے انجام نہ دیا ہو ، کیا میں توبہ کر سکتا ہوں؟رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  )نے فرمایا کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس مرد نے جواب دیا جی ہاں میرا باپ زندہ ہے، (پیامبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  )نے فرمایا: جا اور اس کےساتھ نیکی کر (تاکہ تمہارے گناہ بخش دئے جائیں ) جب وہ چلے گیا  تو پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا کاش اگر اس کی ماں زندہ ہوتی! (یعنی اگر اسکی ماں زندہ ہوتی اور وہ اس سے نیکی کرتا  اس کے گناہ جلد بخش دیے جاتے)۔

9.غضب آلود نگاہ سے دیکھنا

عن ابی عبد الله(ع) قال: من نظر الی ابویه نظر ماقت، و هما ظالمان له، لم یقبل الله له صلاة.[50]

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جو شخص بھی نفرت کی نگاہ سے اپنے والدین کی طرف دیکھےاگرچہ انہوں نے ان پر ظلم ہی کیا ہو ، تو اس کی نماز خدا کی درگاہ میں قبول نہیں ہو گی۔

10.والدین کو  خوش رکھنا

قال امیرالمؤمنین(ع):من احزن والدیه فقد عقهما[51] امیر المومنین نے فرمایا: جو بھی  اپنے والدین کو غمگین کرے، اس نے والدین کےحق کی رعایت نہیں کی ہے۔

11.والدین سے بے ادبی سے پیش نہ آنا

عن ابی جعفر(ع) قال:ان ابی نظر الی رجل و معه ابنه یمشی و الابن متکی ء علی ذراع الاب، قال: فما کلمه ابی مقتا له حتی فارق الدنیا۔[52]

امام باقر علیہ السلام  فرماتے ہیں :

 میرے والد نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جس کا بیٹا اس کےبازو پر تکیہ کئے چل رہا تھا (جب امام نے اس واقعہ  کو دیکھا تو ) اس بیٹے سے ناراض رہے اورامام علیہ السلام نے  مرتے دم تک اس سےبات نہیں کی ۔

 قرآن و حدیث کی روشنی میں اطاعت والدین کی حدود و قیود

قرآن کریم، والدین کی اطاعت کی حدو د بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ؛[53] اور ہم نے انسان کو وصیت کی ہے یعنی حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور (یہ بھی کہ) اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک بنا جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے تو میں تمہیں بتاؤں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

اگر تمھارے والدین تمھیں توحید کو ترک کرنے اور جہالت کی طرف  لے  جانا چاہیں  تو اس صورت میں ان کی نافرمانی ضروری ہے۔  کبھی کبھاروالدین کی طرف سے اس طرح کی تلاش اور دعوت  دلسوزی اور محبت  پر مبنی ہوتی ہے، اس لئے اس طرح کہتے ہيں: میرے بیٹے!اگر ہم فلاں طاغوت کی اطاعت نہ کریں تو اس صورت میں ہمارا کھانا پینا  اور رہن سہن خطرہ میں پڑ جائے گا، ہمارا مال و متاع اور عزت و آبرو اس وقت اس بات سے وابستہ ہے کہ ہم ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اطاعت کريں اور یہ چیزیں بعض اوقات اولاد کی تحقیر کی صورت میں سامنے آتی  ہيں، مثلا ، والدین کہتے ہيں کہ تم اس بات کو نہيں سمجھتے، جو تم سے بڑی اور محترم شخصیات ہيں،  اسی طرح سے  ان کی   اطاعت اور  خدمت کرتے چلی  آ‏ئی ہيں ، اس طرح ان کی زندگی ہر خطرہ سے محفوظ رہي ہے۔  یا یہ کہا جاتا ہے ،یہ ہمارے خاندان اور قوم کا مسئلہ ہے کہ فلاں را ستہ کو اپناتے ہوئے فلاں کام انجام دیں۔

شہیددستغیب اس بارے میں لکھتے ہيں:

والدین کے امر و نہی واجبات عینی اور محرماتِ الٰہی کے مقابل میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے ہیں۔ مثلاً والدین،  اگر اولاد کو شراب پینے کا حکم دیں یا اُس کو واجب نماز روزے سے روکیں تو ایسی صورت میں والدین کی اطاعت ممنوع ہے۔ چنانچہ سورہٴ لقمان کی پندرھویں آیت میں اس بات کی تصریح فرمائی ہے: وَاِنْ جَاھَدَکَ عَلٰے اَنْ یُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ فَلَا تُعِطھُمَا”اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اس بات پر مجبور کریں کہ تم میرا شریک کسی ایسی چیز کو قرار دو جس کا تمہیں کچھ علم نہیں، تو تم ان کی اطاعت نہ کرنا۔”

یہ حدیث شریف اس آیت کریمہ کی تائید کرتی ہے:”  لَاطَاعَةَ لِمَخلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ”مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اس میں خالق کی نافرمانی ہو۔” ان دو صورتوں کے علاوہ تمام مستحبات و مکروہات اور مباحات بلکہ واجب کفائی انجام دینے کی صورت میں والدین کی رضایت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔اگر یہ عمل والدین کی ناراضگی کا سبب بن جائیں یا تکلیف کا موجب ہوں تو ان کی مخالفت کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔  اسی مخالفت کو عاق کہتے ہیں۔ مثلاً بیٹا غیر واجب سفرپر جانا چاہتا ہو لیکن والدین جانی و مالی ضرر کے اندیشے سے یا اس کے ساتھ شدید محبت کی بنا پر جدائی کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے اسے سفر پر جانے سے منع کریں اور بیٹا منع کرنے کے باوجود سفر پر جائے تو اس صورت میں معصیت کا سفر ہوگا اور حرام ہوگا۔ ایسے سفر میں نماز و روزہ قضا نہیں ہو گا۔

مختصر یہ کہ ہر وہ مخالفت جو والدین کی ناراضگی ، رنجش اور اذیت کا سبب بن جائے، حرام ہے۔مگر یہ کہ ان کی اطاعت اولاد کے لیے ناقابل برداشت ہو یا دینی اور دنیوی ضرر کا موجب ہو۔ مثلاً والدین اولاد کو شادی کرنے سے منع کریں، جبکہ شادی کے بغیر زندگی گزارنا دشوار ہو یا عسر و حرج در پیش ہوتا ہو یا یہ کہ والدین بیٹے سے کہیں کہ بیوی کو طلاق دے دو جبکہ یہ حکم دونوں میاں بیوی کے لیے نقصان کا باعث ہو۔ ایسی صورت میں والدین کی اطاعت واجب نہیں لیکن ایسے امور جن میں والدین مخالفت کے باوجود ناراض نہ ہوتے ہوں اور ان کو کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی ہو، ایسے موقعوں پر مخالفت کا حرام ہونا یا اطاعت کا واجب ہونا میرے علم میں نہیں ہے۔ بہتر ہے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ تا حد امکان ان اوامر کو بجا لائیں اور مخالفت سے پرہیز کریں۔ خصوصاً جبکہ والدین اولاد کی مصلحت ملحوظ خاطر رکھ کر امر و نہی کریں اور اس میں ان کی ذاتی غرض نہ ہو۔  ۔ [54]

مناقب میں  روایت ہے کہ ایک دن امام حسین (ع) کے پاس سے عبد الرحمن بن عمرو بن عاص گذرا،  تو اس نے  لوگوں سے کہا:جو بھی اس شخص کو دیکھنا چاہے کہ جو میرے نزدیک تمام اہل آسمان اور اہل زمین سے محبوب ترین ہے،  وہ اس شخص کو دیکھے، اگرچہ میں جنگ صفین کے بعد  سے اس کے ساتھ ہمکلام نہیں ہوا ۔ابو سعید خدری اسے لے کر  آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام حسین (ع) نے اسے فرمایا:” آیا تو جانتا تھا کہ میں اہل آسمان کے نزدیک محبوب ترین ہوں؟!اس کے باوجود بھی تم نے جنگ صفین میں میرے باپ پر تلوار کھینچی؟! خدا کی قسم! میرا باپ میرے سے بہتر تھا، عبد الرحمان نے عذر خواہی کی اور کہا: آخر کیا کرتا چونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم)نے مجھے نصیحت کی تھی کہ اپنے باپ کی  اطاعت کرنا۔ حضرت  نے فرمایا:” آیا تم نے فرمان خدا نہیں سنا ہے کہ فرمایا:” وَ إِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا”[55]،”اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اس بات پر مجبور کریں کہ تم میرا شریک کسی ایسی چیز کو قرار دو جس کا تمہیں کچھ علم نہیں، تو تم ان کی اطاعت نہ کرنا۔”  اس کے علاوہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم)  کا فرمان نہيں سنا:” (ماں باپ یا جس کسی کی اطاعت تم پر واجب ہے  وہ)  اطاعت  پسندیدہ ہونی چاہیے اور وہ اطاعت کہ جس میں نافرمانی ہو وہ  پسندیدہ نہیں ہے، پھر امام حسین (ع) نے اضافہ فرمایا: آیا یہ  فرمان نہیں سنا : ” لَاطَاعَةَ لِمَخلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِق “مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اس میں خالق کی نافرمانی ہو۔[56]

والدین کی امر و نہی میں اختلاف کا حل

جب کبھی والدین کے احکام میں تضاد واقع ہو جائے مثلاً باپ کہے کہ فلاں کام کرو، ماں کہے کہ وہ کام نہ کرو تو ایسی صورت میں کوشش کی جائے کہ دونوں کو راضی رکھا جا سکے اور اگر کوئی دونوں کو راضی نہ کر سکے تو ماں کی خوشنودی کو ترجیح دے۔ چونکہ ابتدائے خلقت میں باپ سے پہلے ماں کے حقوق انسان پر عائد ہوتے ہیں کیونکہ ماں زیادہ تکالیف سہتی ہے۔ خصوصاً ایّامِ حمل، وضعِ حمل اور دودھ پلانے کی زحمات ماں ہی برداشت کرتی ہے۔ ماں اس لیے بھی زیادہ نیکی کا استحقاق رکھتی ہے کہ عورت پیدائشی طور پر مرد کی نسبت نازک مزاج اور احساساتی  ہوئی ہے۔ وہ اولاد کی معمولی سی تکلیف کو دیکھ کر تڑپ جاتی ہے، بیتاب ہو جاتی ہے مامتا اُسے بے قابو کر دیتی ہے۔ اس کے برعکس باپ کی عقل و ہوش مضبوط اور مزاج سنجیدہ ہوتا ہے وہ اولاد کی تکلیف سے کم متاثر ہوتا ہے۔ باپ احساس کر لیتا ہے کہ بیٹا میری مخالفت ذاتی دشمنی کی بنا پر نہیں بلکہ ماں کی خاطر داری کی بنا پر کر رہا ہے۔ اس لیے وہ مخالفت سے ناراض نہیں ہوتا۔[57]

نتیجہ

  ہمارا وجود والدین کی بدولت ہے اور ہماری اولاد کا وجود ہمارے وجود سے پیوستہ ہے والدین کےساتھ ہمارا سلوک اور انکا احترام اور نیکی کرنا اس بات کا موجب بنتا ہے کہ آیندہ ہماری اولاد بھی حق شناس اورقدرداں ہوں ہماری اولا دہمارے ساتھ وہی سلوک اختیار کرے گی جس طرح ہم اپنے والدین سے کیا کریں گے ۔ جس طرح خدا کا حق اداکرنا اور اسکی نعمتوں کا شکر کرنا ہماری توانائی سے باہر ہے اسی طرح والدین کاحق ادا کرنا اور ان کی زحمات کی قدردانی کرنا ایک مشکل کام ہے صرف ان کے سامنے انکساری کےساتھ پہلو جھکائے رکھنا اور تواضع اور فروتنی کے پر کو ان دو فرشتوں کے لئے بچھائے رکھنا ہمارے اختیار میں ہے۔

 اخلاق اور شرافت انسانی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دو گوہروں  کی پاسداری کریں اور  ان کی حیات میں احسان اور نیکی کریں اور  ان کی وفات کے بعد صدقات اور نیک کام سے یاد کیا کریں ۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ والدین کے متعلق اسلام کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور خصوصاً  ان کے مقام و مرتبہ کے متعلق جو احکامات اور فرمودات معصومین (علیھم السلام ) ہیں ، انہيں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مختلف پروگراموں کے ذریعے عام کرے اورمعاشرے کے تمام طبقات اس معاملے میں اہم کردار اداکریں تاکہ مسلم معاشرہ میں والدین اور بزرگوں کو ان کا کھویا ہوا مقام مل سکے۔

 فہرست مصادر

  1. . حویزی، عبد علی بن جمعه، تفسیر نور الثقلین، اسماعیلیان، قم، ۱۴۱۵ ه ق.
  2. . شیخ محمد حسن نجفی، جواهر الکلام، جامعه مدرسین، قم، ۱۴۱۷ ه ق ـ ضیاء الدین عراقی، تعلیقه علی العروه، جامعه مدرسین، قم.
  3. . طباطبایی، محمد حسین، ترجمه تفسیر المیزان، دفتر انتشارات اسلامی، قم ، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ ه.ش.
  4. ابن شعبه، حسن بن علی، تحف العقول، مترجم احمد جنتی، امیر کبیر، تهران، ۱۳۸۲ ه ش.
  5.  امام سجاد(علیه السلام)، صحیفه سجادیه، دفتر نشر الهادی، قم، چاپ اول، ۱۳۷۶ش.
  6. بحارالانوار،: دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
  7. بروجردی حسین، جامع الاحادیث شیعه، فرهنگ سبز، تهران، ۱۳۸۲ ه ش
  8. پاینده، ابوالقاسم ، نهج الفصاحه، دنیای دانش، تهران، ۱۳۸۲ ه ش.
  9. دستغیب،عبد الحسین، گناهان کبیره، جامعه مدرسین، قم، ۱۳۸۸ ه ش.
  10. راغب اصفهانی، مفردات فی الفاظ القرآن، دار الشامیه، بیروت، ۱۴۰۴ ه ق
  11. طبرسی، فضل بن حسن ، ترجمه تفسیر مجمع البیان، فراهانی، تهران، چاپ اول، ۱۴۱۴ ه ق
  12. قرآن کریم
  13. متقی هندی ،علاء الدین علی بن حسام، کنز العمال، بیروت، 1403 ھ۔
  14. مجلسی، محمد باقر، امام شناسی، سرور، قم، ۱۳۸۴ ه ش.
  15. نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ، مؤسسه آل البیت علیهم السلام ، قم، چاپ اول، ۱۴۰۸ق.

[1]  لقمان/14 ـ 15۔

[2]   طبرسی، فضل بن حسن، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ج 19، ص172۔

5سورة النساء/ 36

۶سورة البقرة/215

۷ سورة اسراء/24

۸سورة البقرة/83

۹سورة الاحقاف/15

[8]سورة المریم/14

[9] سورة المریم/31 و 32

[10] ابوالقاسم پایندہ، نہج الفصاحہ، ص578

[11] سید رضی، نہج البلاغہ، حکمت ۳۳۹

[12] آیت اللہ بروجردی، جامع الاحادیث شیعہ، ج26، ص920

[13] نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج15، ص182

[14] محمدی ری شہری ، میزان الحکمہ، ج 10، ص 718

[15] امام سجاد (علیہ السلام)، صحیفہ سجادیہ، ص122

18تحف العقول، ص ۴۴؛ کشف الغُمّہ، ص ۲۴۳؛ بحارالأنوار، ج ۷۲، ص ۸۰٫۱۰۷ – بحارالأنوار، ج ۷۴، ص ۴۵٫

19نہج الفصاحہ، ح ۱۰۸۶٫

[18] میزان الحکمہ، باب الاحسان الی الوالدین؛ بحارالأنوار، ج ۷۱، ص ۸۱٫۱۱۱ – بحارالأنوار، ج ۷۴، ص ۸۴٫۱۱۲ – أنوار النعمانیہ، ج ۳، ص ۸۵ (نور فی عقوق الوالدین و قطع رحم

[19] بحار الانوار، ج 74، ص 84

[20] ایضا

[21] ایضا، ص81

[22] بحار الانوار، ج 74، ص 75.

[23] ایضا، ج ۷۱، ص ۵۶؛ اصول کافی، ج ۲، ص ۱۶۲٫

[24] ایضا، ج ۷۱، ص ۶۵٫

[25] ایضا

[26] ایضا

[27] ایضا

[28] ایضا، ص80

[29] ایضا

[30] ایضا، ص81

[31]   ایضا،ص86

[32]   کشف الاسرار وعدہ الابرار، ج ۵، ص ۵۴۲٫

35دستغیب، عبد الحسین، گناہان کبیرہ،ج1، ص118

[34] مستدرک، باب نکاح،باب75

[35] ایضا

[36] ایضا

[37] ایضا

[38] دستغیب، عبد الحسین، گناہان کبیرہ،ج1، ص118۔

[39] ایضا

[40] ایضا

43بحار الانوار، ج 74، ص 79

44 ایضا، ج 74، ص 79

[43] بحار الانوار، ج 74، ص 46.

[44] ایضا، ج 74، ص 56.

[45] ایضا، ج 74، ص 72.

[46] کنز العمال، ج 16، ص 468.

[47] بحار الانوار، ج 74، ص 62.

[48] صول کافی، ج 4، ص 50.

[49] بحار الانوار، ج 74، ص 82.

[50] اصول کافی، ج 4، ص 50

[51] بحار الانوار، ج 74، ص 64.

[52] ایضا، ج 74، ص 64.

[53] عنکبوت/8

[54]  شہید دستغیب، گناہان کبیرہ، ج 1، ص130۔

[55] سورہ لقمان؛ آیہ 15

[56]  علّامہ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ج 16، ص328۔

[57]  شہید دستغیب، گناہان کبیرہ، ج 1، ص132۔

عزت کے اسباب قرآن و حدیث کی روشنی میں

 

ساجد محمود

المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی

خلاصہ

یہ آرٹیکل درحقیقت عزت کے بارے میں لکھا گیا ہے چونکہ انسان فطرتا عزت کا خواہاں ہے لہذا انسان کو عزت اور آبرو کے مفہوم کا علم ہونا چاہیے کہیں جھوٹی عزت (ذلت) کو عزت سمجھ کر تکبر اور ذلت کا شکار نہ ہو جاۓ۔ لہذا اس تحریر میں عزت اور کرامت میں  فرق، عزت اور تکبر میں فرق، عزت کی اقسام، حقیقی عزت کے عوامل اور اسباب وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ حقیقت میں عزت مند اور آبرومند وہ شخص ہے کہ جوعزت کاسرچشمہ اللہ کی ذات اقدس کو قرار دے۔

عزت اور کرامت میں فرق

عام طور پر عزت اور کرامت کے الفاظ کو مترادف اور ہم معنی سمجھا جاتا ہے  جب کہ تھوڑی سی دقت کرنے سے ان دو کلمات کے معانی  کو ایک دوسرے سے جدا کیا جا سکتا ہے۔

کرامت «کَرَم» کے مادے سے بنا ہےجس کا معنی بخشش اور نعمت دینا ہے۔[1]کرم اگر خداوند متعال کا وصف ہو تو اس سے مراد احسان اور اللہ تعالی کی واضح اور آشکار نعمت ہے۔اگر کرم بندہ  کی صفت قرار دی جاۓ تو  اس صورت میں کرم پسندیدہ اخلاق اور افعال کا نام ہے کہ جو انسان کے اعضاء و جوارح سے ظاہر ہوتے ہيں۔[2]  ۔ اسی وجہ سے  کچھ علماء نے ان دو کلمات کے  درمیان فرق کو اس طرح بیان کیا ہے: «عزیز شخص وہ ہوتا ہے کہ جو یہ نہيں چاہتا کہ کوئی دوسرا  اس پر حکم چلاۓ اور کریم وہ شخص ہے کہ جو اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ حکم اس کے نفع میں دیا جاۓ»۔[3]  اس کے علاوہ اگر ان کلمات کے متضاد کو دیکھا جاۓ تب بھی ان کے معانی واضح ہو جاتا ہیں چونکہ کرامت کا متضاد خساست  اور بخل ہے جب کہ عزت کا متضاد ذلت و خواری ہے۔[4]

عزت اور تکبر میں فرق

کچھ لوگ جہالت اور نادانی کی بناء پر عزت کو تکبر اور ذلت کو تواضع سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ذلت بھرے  کام بھی انجام دیتے ہيں اسی وجہ سے بزرگان دین نے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ مختلف کاموں کو انجام دینے سے پہلےان کے رذائل اور  فضائل  اور ان کے درمیان پاۓ جانے والے فرق کو پہچان لیں۔

اسی وجہ سے علماء اخلاق نےتکبر کی تعریف  اس طرح کی ہے :جب  انسان دشمنی ، عناد اور سرکشی کی وجہ سے حقیقت کو قبول کرنے سے انکار کرے تو اسےتکبر کہتے ہيں۔[5] اس لئے عزت مند انسان اپنے آپ کو شرافت میں ایک بڑا انسان سمجھتا  ہے اور دوسروں کا احترام کرتے ہوۓ   ان کو حقارت و ذلت کی نگاہ سے نہيں دیکھتا جب کہ متکبر انسان اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے اسی وجہ سے حق بات اور نصیحت  اس پر گران گذرتی ہےاسی لئے وہ دوسروں کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔

حقیقی عزت کے عوامل اور اسباب

عزت کے اسباب اور عوامل مندرجہ ذیل ہیں:

1)      انسان کا  خدا سے ارتباط

چونکہ تمام عزتوں  کا منشاء اور سرچشمہ ذات پروردگار ہے اور اس کے علاوہ باقی سب کچھ فقر و ذلت  کا سراپا ہيں۔ جو شخص یہ چاہے کہ اسے عزت اور وقار ملے اور ذلت و پستی سے نجات حاصل کرے تو اسے چاہیے کہ وہ الہی راستے پر گامزن ہو جاۓ ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کا مطیع محض  اور فرمانبردار بن جاۓ۔

قرآن مجید فرماتا ہے:

«مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا»[6]؛ جو کوئی عزت کا طلبگار ہے (تو وہ سمجھ لے) کہ ساری عزت اللہ ہی کیلئے ہے۔ مندرجہ ذیل آیت میں عزت مندی اور  آبرو  کے حصول کے رمز اور راز کو سبیل خدا ، نیک کردار اور درست عقائد  کو  جانا  گیا ہے: «إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ»[7] ؛ (لہٰذا وہ عزت کو خدا سے طلب کرے) اچھے اور پاکیزہ کلام اس کی طرف بلند ہوتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند کرتا ہے (یا اللہ نیک عمل کو بلند کرتا ہے)

 عزت مند لوگوں کے  امام حسین ابن علی (علیہ السلام) کہ جو تمام انسانوں میں خدائي ترین انسان تھے  اور ان کے تمام وجود کو عشق خدا نے پر کر رکھا تھا ۔ آپ (علیہ السلام) عزت و سربلندی تک پہنچنے کے لئے فرماتے ہيں: “يا من خصّ نفسه بالسّموّ والرّفعة فاوليائه بعزّه و يعتزّون يا من جعلت له الملوك نير المذلة علي اعناقهم فهم من سطواته خائفون”[8]  ؛ اے وہ خدا کہ جو بلند اور رفیع (اور عزت )  و مقام  کا مالک  ہے  پس جو اللہ کے دوست ہیں وہ اس کی عزت کے صدقے میں عزیز اور آبرومند ہو جاتے ہيں، اے وہ خدا کہ جس نے  (ظالم) بادشاہوں  کو  ذلت کا طوق پہنا کر خاک مذلت پر بٹھا دیا ہے ، اس لئے وہ تیری عزت و عظمت کے مقابلے میں سخت پریشان اور ڈرے ہوۓ ہيں۔

یقینا، عزت اسی ذات کے ہاتھ میں ہے اور جو بھی لیاقت رکھتا ہو وہ اللہ کی دی ہوئی عزت سے مفتخر ہو سکتا ہے جیسا کہ ہم قرآن میں تلاوت کرتے ہیں:«قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُوءْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَيَ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ»[9]؛ (اے رسول(ص)!) کہو: اے خدا تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے۔ تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے، ہر قسم کی بھلائی تیرے قبضہ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

امام صادق (علیہ السلام) سے سؤال کیا گیا  کہ آیا اللہ تعالی نے بنی امیہ کو حکومت عطا کی؟ (اور ان کو عزت بخشی)؟!!

فرمایا:نہ ، ایسا نہيں ہے بلکہ خدا تعالی نے ہمیں حکومت دی تھی ، لیکن بنی امیہ نےاسے ہم اسے ‏غصب کر لیا ،( اور خلافت کے لباس کو نا حق  اپنے جسم پر پہن لیا) [10]جیسا کہ حضرت علی  (علیہ السلام) فرماتے ہيں: «واللّه لقد تقمصها ابن ابي قحافة»[11] ؛ آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کی قسم فلاں شخص( ابن ابی قحافہ) نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا۔  علی  (علیہ السلام) نے فرمایا: «العزيز بغير الله ذليل»[12]؛ وہ صاحب عزت کہ جو اللہ کے علاوہ کسی اور سے عزت لیتا ہے وہ حقیقت  میں ذلیل و پست  ہے۔اور فرمایا: من أعزَّ بغير الله أهلكهُ العزّ [13]؛ جو شخص اللہ کے راستے سے ہٹ کر عزت حاصل کرے وہی (ناروا )عزت اس کی ہلاکت( ابدی) کی موجب بنتی ہے۔

2)      خدا ،  رسول  اور آئمہ طاہرین کی اطاعت

جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ عزت ذاتی اللہ تعالی کی ذات سے مختص ہے اور عزت اعطائی اور عنائی (وہ عزت کہ جو اللہ کسی کو عطا اور عنایت کرے) رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور مؤمنین کے لئے ہے«وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوءْمِنِينَ»[14]؛ حالانکہ ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول(ص) اور مؤمنین کیلئے ہے لیکن منافق لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں۔  مؤمنین کا اکمل اور اتم مصداق ہمارے آئمہ معصمومین  (علیہم السلام) ہیں۔

ایک شخص نے امام حسن مجتبی  (علیہ السلام) سے پوچھا: «فيك عظمةٌ قال: لا، بل فيّ عزّةٌ قال الله تعالي «وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوءْمِنِينَ»[15] ؛ آیا آپ  (علیہ السلام) کے اندر عظمت ہے ، فرمایا: نہيں، بلکہ میں صاحب عزت ہوں جیسا کہ خدا تعالی فرماتا ہے: «وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوءْمِنِينَ»؛ حالانکہ ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) اور مؤمنین کیلئے ہے لیکن منافق لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں۔

امام حسین  (علیہ السلام) نے فرمایا:

” الا و ان الدعی ابن الدعی قد رکز بین اثنتین بین السلۃ و الذلۃ  و ھیھات منّا الذلۃ یابی اللہ ذالک لنا و رسولہ  والمؤمنون و حجور طابت و طھرت” اے فوج اشقیاء !تمھارے نا مشروع امیرنے مجھے دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا ہے ، یا ذلت کے ساتھ بیعت یزید کر لوں یا جنگ کے لئے آمادہ ہو جاؤں” ھیھات منّا الذلۃ” اور ذلت ہم خاندان عصمت و طہارت سے کوسوں دور ہے” یابی اللہ ذالک لنا و رسولہ  والمؤمنون و حجور طابت و طھرت” یہ کیسے ممکن ہے کہ وحدہ لاشریک کے دروازے پر سر جھکانے والا انسان ، پروردہ  آغوش رسالت، فاطمہ کے دودھ سے پلنے والا انسان ، غیرت مند باپ کا غیرت  مند بیٹا اور دنیا کے سب سے عظیم انسان کا عظیم نواسہ یزید جیسے فاسق او رفاجر کی بیعت کر ے یہ ممکن نہیں۔

پس جب کہ ثابت ہو گیا کہ  رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آئمہ معصومین اللہ کی طرف سےعزیز اور آبرومند ہيں ۔  قرآن نے لوگوں کو اس عزت تک پہنچنے کے لئے دو راستے  دکھا‌ۓ ہیں اور اس طرف دعوت دی ہے۔

         ‌أ.            تشویق اور نمونہ عمل قرار دینا

اللہ تعالی فرماتا ہے:

 «لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا»[16]؛   بے شک تمہارے لئے پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات میں (پیروی کیلئے) بہترین نمونہ موجود ہے۔ ہر اس شخص کیلئے جو اللہ (کی بارگاہ میں حاضری) اور قیامت (کے آنے) کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہےاور امام حسین  (علیہ السلام) سے نقل ہوا ہے کہ فرمایا: “و لكم فيّ اسوةٌ” میں تمھارے لئے بہترین نمونہ عمل ہوں۔

     ‌ب.            اطاعت اور فرمانبرداری

خداوند ‏عظیم قرآن مجید میں پیامبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آئمہ اطہار کی پیروی اور اطاعت پر تاکید کرتے  ہوۓ  فرماتا ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَي اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُوءْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً» [17]؛ اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمانروائی کے حقدار ہیں)۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع (یا جھگڑا) ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹاؤ اگر تم اللہ اور آخرت کے روز پر ایمان رکھتے ہو تو یہ طریقہ کار تمہارے لئے اچھا ہے اور انجام کے اعتبار سے عمدہ ہے۔

اور اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے رسول کےاخلاق حسنہ کی بھی تعریف کی: «انّك لعلي خُلُق عظيم»[18] ؛ اور بےشک آپ(ص) خلقِ عظیم کے مالک ہیں۔

پس اس طرح پیامبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آئمہ اطہار  (علیہ السلام) کہ ان میں سے ہر ایک عزت کے سرچشمہ سے پیوستہ ہيں اور یہ ذوات مقدسہ ہمارے لئے عزت مندی کا سبب ہیں۔[19]

امام سجاد  (علیہ السلام) فرماتے  ہيں:

 «اطاعة ولاةِ الأمر تمام العزّة»[20]؛  سب اولی الامر کی اطاعت کاملا عزت اور شرف ہے ( ساری کی ساری عزت کا خلاصہ آئمہ اطہار کی اطاعت ہے)۔

امام حسین  (علیہ السلام) سے کسی نے عرض کی اے فرزند رسول کوئی ایسی حدیث کہ جو آپ نے رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے بلاواسطہ سنی ہو، بیان فرمائیں: حضرت نے فرمایا: اللہ تعالی عظیم اور باشرافت کاموں کو دوست رکھتا ہے اور پست اور ذلت آمیز کاموں کو ناپسند کرتا ہے “[21]

ہاں، البتہ عزت مند انسان ، باعزت و احترام والی بات کرتا ہے ، ظرف سے وہی کچھ باہر ٹپکتا ہے جو اس میں موجود ہوتا ہے۔

3)      قرآن  (کتاب عزیز) کے ساتھ متمسک رہنا

قرآن مجید کلام الہی اور پروردگار  عالم کی قدرت ، عزت اور علم و حکمت کا جلوہ ہے اور اس کی نورانی آیات خداوند متعال کی عزت و عظمت کی نشاندہی کرتی ہيں۔قرآن کریم ایک مسلمان کےلئے عزت و شرافت کے حصول کے لئے نسخہ کیمیا ہے چونکہ خود قرآن عزیز و آبرومند ہے: «إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ * لا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلا مِنْ خَلْفِهِ…»[22]؛   جن لوگوں نے ذکر (قرآن) کا انکار کیا جب وہ ان کے پاس آیا حالانکہ وہ ایک زبردست (معزز) کتاب ہے۔ باطل کا اس کے پاس گزر نہیں ہے وہ نہ اس کے آگے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے یہ اس ذات کی طرف سے نازل شدہ ہے جو بڑی حکمت والی ہے (اور) قابلِ ستائش ہے۔ چونکہ  خداوندمتعال کہ جو عزت و بزرگی کا سرچشمہ ہے اس کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔

“تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ”[23] ؛ یہ کتاب (قرآن) اس خدا کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو (سب پر) غالب ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔  جس نے بھی قرآن کے دامن کو تھاما اس نے عزت کا راستہ اختیار کیا۔ خداوند عالم فرماتا ہے: “وَيَرَي الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَيَهْدِي إِلَي صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ” [24]؛ اور جنہیں علم دیا گیا ہے وہ جانتے ہیں وہ کچھ (قرآن) آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور وہ غالب اور لائقِ ستائش (خدا) کے راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔   ہاں، البتہ مسلمانوں کی عزت اس میں ہے  کہ وہ قرآن کہ جو حبل المتین اور اللہ کی مضبوط رسی ہے اس کو تھام لیں اور اس کے فرامین کے مطابق کامل عمل کریں، لہذا قرآن مجید فرماتا ہے: “وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَيَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُون”[25]؛   اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو اور اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے کہ تم آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت (فضل و کرم) سے بھائی بھائی ہوگئے۔ اور تم آگ کے بھرے ہوئے گڑھے (دوزخ) کے کنارے پر کھڑے تھے جو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

ایک اور آیت میں فرماتا ہے:

“فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ۔۔وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۖ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ” [26]؛پس آپ(ص) مضبوطی سے اسے تھامے رہیں جس کی آپ(ص) کی طرف وحی کی گئی ہے۔ یقیناً آپ سیدھے راستہ پر ہیں ۔ اور بےشک وہ (قرآن) آپ(ص) کیلئے اور آپ(ص) کی قوم کیلئے بڑا شرف اور اعزاز ہے اور عنقریب تم لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

علی  (علیہ السلام) فرماتے ہيں:

 “و عزّا لاتهزمُ انصارُهُ” [27]؛قرآن اپنے دوستوں کے لئے عزت کا تحفہ دیتا ہے کہ جس کے بعد شکست اور مغلوبیت نہيں ہے۔ اور فرمایا: “و عزّا لِمَنْ تَوَلاّه”[28] ؛  اور عزت اور قدرت اس کے لئے ہے کہ جو قرآن کے احکام کی اطاعت کرے۔

4)      مؤمنین کی صفات سے متصف ہونا

ہر انسان کی شخصیت اس کی عزت کی مرہون منت ہے۔ انسان ، اپنی شخصیت کی عزت و تکریم میں ساری چیزوں (حتی  کھانے پینے) سے زیادہ نیازمند ہوتا ہے، چونکہ کھانے پینے کی تکلیف اور اذیت برطرف ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ حقارت کہ جو ذلت ، خواری اور عزت نہ ہونے کی وجہ سے کسی شخص یا معاشرے کی روح و روان  کو دامنگیر ہوتی ہے وہ آسانی سے پیچھا نہيں چھوڑتی ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو عزیز اور آبرومند خلق کیاہے«وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ»  اور اسے کبھی بھی ذلت پذیری اور عزت کے ہاتھ جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔امام صادق نے فرمایا: “انّ اللّه فوّض الي المؤمن أموره كلّها و لم يفوّض اليه ان يكون ذليلاً أما تسمع الله يقول” : «وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوءْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لا يَعْلَمُونَ» فالمؤمن يكون عزيزا و لايكون ذليلاً ان المؤمن اعزّ من الجبل…»[29]؛ خدا تعالی نے مؤمن کو (اس کی زندگی کے ) تمام امور کے انتخاب میں خود مختاربنا  دیا ہے  لیکن اس کو اس بات کا اختیار نہیں دیا کہ وہ ذلت  قبول کرے ، آیا اللہ کے اس فرمان کو نہیں سنا کہ فرمایا: ( عزت اللہ ، اس کے رسول اور مؤمنین کے لئے ہے لیکن منافق لوگ نہیں جانتے )؛ پس مؤمن ہمیشہ عزیز اور آبرومند  ہے اور ہرگز ذلت کو قبول نہیں کرتا، بتحقیق مؤمن پہاڑ سے بھی زیادہ محکم اور عزیز ہے ( کہ جو طوفانوں سے نہيں لرزتا)۔ امام حسین  (علیہ السلام) نے بھی فرمایا:” مؤمن ذلت قبول نہیں کرتا، خداوند متعال اور پیامبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بھی مؤمنین کو ایسا کرنے کی اجازت نہيں دی ہے۔”هيهات منا الذلة قط اخذ الدنية یابی الله ذلك و رسوله”۔ [30]

جو کچھ بیان ہوا اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عزت و آبرو کے عوامل اور اسباب میں سے ایک  ایمان لاکر اور اللہ کی طرف میلان پیدا کر کے مؤمنین کی صف میں قرار پانا ہے، بلکہ اس سے بھی بالا تر یہ ہے  کہ نہ تنہا مؤمن ہونا عزت آفرین  ہے بلکہ مؤمنین کے ساتھ تعلق اور میل ملاپ بھی رکھنا عزت آور ہے۔ چونکہ صلح اور کینہ چھپے راستوں سے  ایک سینہ سے دوسرے سینے میں چلے جاتے ہيں۔  جیسا کہ فارسی زبان میں کہتے ہيں۔

صحبت طالح تو را طالح كند صحبت صالح تو را صالح كند؛ یعنی طالح (بدبخت اور بے ایمان) کی دوستی تجھے بدبخت اور رسوا کر  دے گی اور نیک لوگوں کی رفاقت تجھے نیک بنا دے گی۔ جیسا کہ ناپاک لوگوں کی ہمراہی اور دوستی (بالخصوص منافقین اور کفار کی دوستی) ذلت و خواری کا باعث بنتی ہے۔[31] بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا * الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُوءْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا»[32] ؛  منافقوں کو سنا دیجیے! کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔وہ (منافق) جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں۔ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لئے ہے (اس کے اختیار میں ہے)۔  مندرجہ بالا آیت سے اس بات کا استفادہ ہوتا ہے کہ جو لوگ عزت و آبرو کسب کرنا چاہتے ہيں ان کو مؤمنین کے ساتھ تعلق اور ارتباط رکھنا چاہیےچونکہ مؤمنین عزت کے اصلی سرچشمہ یعنی خدا تعالی کے ساتھ ارتباط رکھے ہوۓ ہيں نہ کفار و منافقین کے ساتھ راہ و رسم پیدا کرتے ہیں۔

5)      اصالت خانوادگی ( خاندانی شرافت)

وراثت اور تربیت انسان کی شخصیت کی تعمیر کے اصلی عوامل میں سے ہیں۔ وہ لوگ کہ جو معزز گھرانوں میں پیدا ہوتے ہيں اور  باعزت ماں باپ کی گود میں آنکھ کھولتے ہيں اور شرافت و عزت کے ماحول میں پرورش پاتے ہيں وہ عزت کے خواہاں اور خاندانی شرافت کے نگہبان ہوتے ہيں، ایسے لوگ یا بالکل ذلت قبول نہيں کرتے یا پھر کم تر زیر بار ذلت جاتے ہيں اور اللہ تعالی بھی ان جیسےلوگوں کی عزت کا محافظ ہوتا ہے۔ حضرت موسی اور جناب خضر کی داستان میں پڑھتے ہیں: وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ.»[33]؛  باقی رہا دیوار کا معاملہ تو وہ اس شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان بچوں کا خزانہ (دفن) تھا۔ اور ان کا باپ نیک آدمی تھا۔ تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ بچے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں اور یہ سب کچھ پروردگار کی رحمت کی بناء پر ہوا ہے۔ اور میں نے جو کچھ کیا ہے اپنی مرضی سے نہیں کیا (بلکہ خدا کے حکم سے کیا) یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ اوپر والی بیان شدہ آیت سے پتہ چلتا ہے کہ خداتعالی بہترین بندوں کے ذریعے مؤمن کے بچوں کی (مالی اور معنوی) عزت کی حفاظت کرتا ہےاور ایسے فرزند بھی اپنی اصالت خانوادگی کے نگہبان ہوتےہيں۔امام حسین  (علیہ السلام) فرماتے  ہیں: «و هيهات منا الذّلة… و جدودٌ طابت و حجورٌ طهرت و انوفٌ حميّةٌ و نفوسٌ ابيّةٌ لاتؤثر طاعة اللئام علي مصارع الكرام…»[34] ؛ بہت بعید ہے کہ ہم  ذلت اور خواری کو قبول کریں،خدا اور رسول نے ہمیں اس طرح کی اجازت نہيں دی ہے اور ہمارے خاندان کی شریف اور پاک دامن مائیں ،  عزت نفس  اور ہمت بلند رکھنے والا خاندان ہرگز اجازت نہيں دیتا کہ ہم  ذلیل اور پست لوگوں کی اطاعت کو شرافت مندانہ موت  پر ترجیح دیں۔

6)      جہاد و شہادت

شرافت مند افراد اور عزت مند معاشرہ ہمیشہ ستم گر، بے شخصیت اور ذلیل بدمعاشوں کے ذریعے سے مورد ہجوم قرار پاتے ہيں، لیکن وہ لوگ کہ جو عزت ، شرافت اور پاسداری کی پہلی صف میں قرار پاتے  ہیں وہ مجاہدین فی سبیل اللہ  اور شہداء ہيں۔ وہ کوشش کرتے ہيں کہ اپنی جان نثار کر کے اپنی عزت و شرافت کی حفاظت کریں اور خود بھی ہمیشہ ہمیشہ کی عزت و عظمت سے سر افراز ہوں۔ قرآن کریم ان جیسے بہادر لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے: «فَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَي الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُـلاًّ وَعَدَ اللّهُ الْحُسْنَي وَفَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَي الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا * دَرَجَاتٍ مِّنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً»[35]؛مسلمانوں میں سے بلا عذر گھر میں بیٹھے رہنے والے اور راہِ خدا میں مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ نے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو درجہ کے اعتبار سے بیٹھے رہنے والوں پر فضیلت دی ہے اور یوں تو اللہ نے ہر ایک سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔ مگر اس نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کے ساتھ فضیلت دی ہے۔یعنی اس کی طرف سے (ان کے لئے) بڑے درجے، بخشش اور رحمت ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔ایک اور آیت میں تلاوت کرتے ہيں: «وَكَفَي اللَّهُ الْمُوءْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا»[36]؛  اور اللہ نے مؤمنوں کو جنگ (کی زحمت) سے بچا لیا اور اللہ بڑا طاقتور (اور) غالب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) فرماتے  ہیں:

 «فرض الله الجهاد عزّا للاسلام»[37] ؛اللہ تعالی نے جہاد کو اسلام کی عزت و سربلندی کے لئے واجب قرار دیا ہے۔

امام حسین  (علیہ السلام) نے حر بن ریاحی کے جواب میں کہ جب اس نے جہاد و شہادت سے ڈرایا تو آپ نے جہاد و شہادت کی عزت آوری کے بارے میں فرمایا: «ليس شأني شأنِ مَنْ يخافَ الموت ما اهونَ الموتُ علي سبيل نيل العِزّ و احياء الحقّ، ليس الموت في سبيل العزّ الاّ حياةً خالدةً و ليست الحياة مع الذّل الا الموت الذي لا حياة معه افبالموت تخوّفني؟ هيهات حاش سهمك و خاب ظنّك لست اخاف الموت ان نفسي لاكبر من ذلك و همّتي لاعلي من ان احملِ الضيم خوفا من و هل تقدرونَ علي اكثرَ من قتلي؟! مرحبا بالقتل في سبيل الله ولكنّكم لايقدرون علي هدم مجْدي و محو عزّتي و شرفي فاذا لا ابالي من القتل» [38]؛ میں ان لوگوں میں سے نہيں ہوں کہ جو موت (شہادت)   سے ڈرتے ہیں اور کتنا آسان ہے  عزت ابدی اور دین حق   کو زندہ کرنے کے لئے جان پر کھیلا جاۓ۔ عزت تک پہنچنے کے لئے  جان دینے کا نتیجہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کے علاوہ اور کچھ نہيں ہے اور ذلت آمیز زندگی سواۓ ایسی موت کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ جس میں کسی قسم کی زندگی کی رمق موجود نہ ہو۔ آیا تو مجھے موت اور شہادت سے ڈراتا ہے؟! بہت بعید ہے  (کہ تو مجھے راہ حق سے پلٹا دے)  تیرا نشانہ خطا گیا ہےاور تیرا یہ  خیال باطل ہے۔ میں اور موت سے ڈروں؟! ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میں اور میری ہمت و حوصلہ اس سے بہت بلند ہے کہ موت کے ڈر سے ظلم و ستم کو برداشت کروں۔ تم لوگ مجھے قتل کرنے کے علاوہ کر ہی کیا سکتے  ہو؟! درود و سلام ہو ، اللہ کی راہ میں قتل ہو جانے پر( لیکن اس بات کو یاد رکھنا) کہ تم لوگ میری عزت اور عظمت  اور شرف ابدی کو نابود نہیں کر سکتے، لہذا میں موت و شہادت در راہ خدا سے بالکل ہی نہيں ڈرتا۔

یہی امام حسین(علیہ السلام) کے الفاظ تھے کہ جنہوں نے حربن یزید کو عزت ابدی کی طرف کھینچا  اور ہمیشہ کے لئے  حر کو عزت مند اور آبرو دار بنا لیا ۔

ایک اور جگہ پر فرماتے ہيں:”موتٌ في عزّ خيرٌ من حياةٍ في ذُلٍّ”[39] عزت کی موت ذلت کی زندگی سے (کئی درجے) بہتر ہے۔

7)      بصیرت ، علم اور آگاہی

ایک اور عامل کہ جو عزت و شرف آفرینی میں مہم ترین رول ادا کرتا ہے وہ دینی بصیرت و آگاہی کے علاوہ زمانہ شناسی ہے۔ قرآن مجید صاحبان علم و آگاہی کی عزت و رفعت اور مقام کے بارے میں یوں بیان کرتا ہے: «يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ»[40] ؛  اللہ ان لوگوں کے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے در جے بلند کرتا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہواللہ اس سے بڑا باخبر ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ایمان اور مؤمنین عزت آفرین ہیں ۔

امام صادق  (علیہ السلام) سے سؤال کیا گیا  کہ آیا اللہ تعالی نے بنی امیہ کو حکومت عطا کی؟ (اور ان کو عزت بخشی؟) فرمایا:نہ ، ایسا نہيں ہے بلکہ خدا تعالی نے ہمیں حکومت دی تھی ، لیکن بنی امیہ نے ہم سے اسے ‏غصب کر لیا ،( اور خلافت کے لباس کو نا حق  اپنے جسم پر پہن لیا) [41]

انسان عالم دشمن کے ذلت آور سازشوں کا شکار نہیں ہوتا ۔ امام علی (علیہ السلام)فرماتے ہيں: جو شخص زمان شناس ہو وہ زمانے کے فتنوں سے غافل (عاجز) نہیں ہوتا بلکہ ان کا آمادگی کامل کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔[42]

اسی طرح بصیرت کے  نقطہ مقابل یعنی جہل اور بے خبری انسان کی ذلت کا باعث بنتے ہيں۔ علی  (علیہ السلام) فرماتے ہيں: «والجهل ذُلّ»نادانی  اور جہالت( دین اور زمانے سے بے خبری) ذلت و رسوائی ہے۔

امام حسین  (علیہ السلام)( کہ جو  معزز اور آبرومند لوگوں کے پیشوا تھے) کے اصحاب کا جان تک کھیل جانےکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے نے ہمیشہ ہمیشہ کی عزت و آبرو کو تخلیق کیا اور جس کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عزت مند اور جاوید ہو گئےاور یہ وہی بصیرت و آگاہی تھی۔ ان سب کے سرفہرست جب ابوالفضل العباس صاحب رشادت تھے کہ جنہوں نے ذلت آمیز امان نامہ کو قبول نہ کیا  چونکہ آپ بہت زیادہ بصیرت کے مالک تھے۔امام صادق  (علیہ السلام) نے فرمایا: «كان عمّنا العباس نافذَ البصيرة»[43] ؛ کہ ہمارے چچا عباس نہایت ہی صاحب بصیرت تھے۔ عمر  ابن سعد (کہ جس نے اتنی زیادہ ذلت و خواری کو برداشت کیا،اس کی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری تیز بینی اور بصیرت کا نہ ہونا تھا۔ ابن زیاد نے اس فکری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوۓہزار چہرے، پست اور ذلیل  شخص یعنی شبث بن ربعی کو ان کے ساتھ ہمراہ کیا تاکہ قتل حسین(علیہ السلام) کی توجیہ کرے۔  شبث نے کوشش کی کہ کسی طرح عمربن سعد کے ذہن میں یہ بات ڈالے کہ حسین  (علیہ السلام) کافر حربی ہیں کہ جن کا قتل واجب ہے!!اسی وجہ سے ان کا قتل ماہ حرام (محرم ) میں جائز ہے۔[44]

عزت  کے دشمن لوگ

البتہ اس دنیا میں  کچھ ایسے لوگ بھی پاۓ جاتے ہیں کہ جو عزت اور آبرو کے دشمن ہیں اور وہ دو گروہ ہيں۔

1)      ظالم سلاطین

ستمگر اور ظالم لوگ سلاطین اور بادشاہوں کے روپ میں طول تاریخ  میں معاشرے کی ذلت و خواری  کا باعث بنے ہيں اور عزت کو خراب کرنے کے درپے رہے ہيں۔ قرآن مجید میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: «قالت إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ»[45]؛ ملکہ نے کہا بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور اس کے معزز باشندوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور ایسا ہی (یہ لوگ) کریں گے۔

حدیث میں ہے لوگ عزت کو (ظالم) بادشاہوں  کی اطاعت میں ڈھونڈتے ہيں  وہ ہرگز  عزت نہ پا سکیں گے(البتہ ذلت و خواری ان کا مقدر بنے گی)۔ «والناس يطلبونها في ابواب السلاطين»۔[46]

2)      منافقین

خدا تعالی فرماتا ہے:«يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَي الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوءْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لا يَعْلَمُونَ»[47]؛  وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم لَوٹ کرمدینہ گئے تو عزت والے لوگ وہاں سے ذلیل لوگوں کو نکال دیں گے حالانکہ ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور مؤمنین کیلئے ہے لیکن منافق لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں۔

نتیجہ گیری

در نتيجه منافقین عزّت ستيزي  تو کرتے ہيں لیکن ذلت سے  گریز نہیں کرتے

فہرست منابع

  1. ابن شعبه، علي ، تحف العقول
  2. ابن فارس، معجم مقائیس اللغة
  3. ابن منظور، لسان العرب
  4. ابوعلم، توفيق ، كتاب اهل البيت (مصر، مطبعه سعادت)
  5.  اسحاقي، سيد حسين ، جام عبرت، قم، انتشارات دفتر تبليغات اسلامي، 1381۔
  6. اصفهانی، راغب ، المفردات فی غریب القرآن
  7. آمدي،عبدالواحد ، غرر الحكم (قم) دفتر تبليغات اسلامي
  8. جوادی آملی ، توحید در قرآن
  9. ري شهري، محمدي ، ميزان الحكمة، (دارالحديث، چاپ دوّم، 1419 هـ.ق)
  10. قرآن کریم
  11.  قریشی، قاموس قرآن
  12. قمي، شيخ عباس ، مفاتيح الجنان، دعاي امام حسين در روز عرفه
  13.  قمي، شيخ عباس ، نفس المهموم، تهران، كتاب فروشي علميه اسلاميه، 1374 ه
  14. مجلسي، محمد باقر ، بحارالانوار، (بيروت، مؤسسة الوفا)
  15. مصطفوی، حسن ، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم
  16. مصطفی، ابراهیم ، المعجم الوسیط،
  17. مكارم ، استاد ناصر شيرازي و همكاران، تفسير نمونه، (دار الكتب الاسلامية1370)
  18. موسوی جزائری، فروق اللغات فی التمییز بین مفاد الکلمات
  19. موسوی همدانی، ترجمه‌ی المیزان
  20. نہج البلاغہ

 

[1] ۔ راغب اصفهانی، المفردات فی غریب القرآن، ص707

[2] ۔ قریشی،ایضا، ج6، ص103

[3] ۔ موسوی جزائری، فروق اللغات فی التمییز بین مفاد الکلمات، ص 176.

[4] ۔ حسن مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج3، ص305

[5] ۔ ابراهیم مصطفی، المعجم الوسیط، ص 773۔

[6] ۔   فاطر، آيه10.

[7] ۔ ایضا

[8] ۔ شيخ عباس قمي، مفاتيح الجنان، دعاي امام حسين در روز عرفه، ص483.

[9] ۔ آل عمران، آيه26.

[10] ۔ محمدي ري شهري، ميزان الحكمة، (دارالحديث، چاپ دوّم، 1419 هـ.ق) ج5، ص1956.

[11] ۔ نهج البلاغه، خطبه شقشقيه.

[12] ۔  محمد باقر مجلسي، بحارالانوار، (بيروت، مؤسسة الوفا) ج75، ص10.

[13] ۔ ميزان الحكمة، ج5، ص1957.

[14] ۔ منافقون، 8.

[15] ۔ بحارالانوار، همان، ج44، ص106، روايت15.

[16] ۔  احزاب، آيه21.

[17] ۔ نساء، آيه59.

[18] ۔ قلم، آيه4.

[19] ۔ ر. ك: استاد ناصر مكارم شيرازي و همكاران، تفسير نمونه، (دار الكتب الاسلامية1370)، ج3، ص434.

[20] ۔ ميزان الحكمة، (همان)، ج5، ص1958، روايت 12838 و ر.ك علي بن شعبه، تحف العقول، ص283

[21] ۔ ابن ابي جمهور احسائي.

[22] ۔   فصلت،42۔

[23] ۔ زمر، آيه1.

[24] ۔ سبا، آيه6.

[25] ۔ آل عمران، آيه103.

[26] ۔ زخرف، آيات43 ـ 44.

[27] ۔ محمد دشتي، نهج البلاغه، خطبه198، ص418.

[28] ۔ ایضا

[29] ۔ ميزان الحكمة، ج5، ص1957.

[30] ۔ بحارالانوار، ج45، ص8.

[31] ۔ بنی صدر جب تک کہ امام خمینی کے ساتھ تھا صاحب عزت و وقار تھا لیکن جب وہ منافقین کے ہاتھوں چڑھا عورتوں کے لباس میں ذلت و رسوائی کے ساتھ فرار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ «فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ۔

[32] ۔ نساء،139و 138.

[33] ۔ كهف، 82.

[34] ۔ بحارالانوار، ج45، ص8.

[35] ۔ نساء 95ـ 96.

[36] ۔ احزاب، 25.

[37] ۔ نهج البلاغه، ص682، حكمت 252.

[38]  ۔ توفيق ابوعلم، كتاب اهل البيت (مصر، مطبعه سعادت) ص448، و ر.ك ملحقات احقاق الحق، ج11، ص601.

[39] ۔ ایضا

[40] ۔ مجادله، 11.

[41] ۔ علي بن شعبه، تحف العقول، ص98.

[42] ۔  ایضا، ص 265۔

[43] ۔ شيخ عباس قمي، نفس المهموم، تهران، كتاب فروشي علميه اسلاميه، 1374 هـ، ص176.

[44] ۔ سيد حسين اسحاقي، جام عبرت، قم، انتشارات دفتر تبليغات اسلامي، 1381، ج2، ص104.

[45] ۔ نمل، 34.

[46] ۔ سيد محمد حسين عاملي، (از علماي قرن 11 هـ.ق) اثنا عشرية، چاپ قديم، ص155.

[47] ۔ منافقين، 8۔

نماز کے فضائل قرآن و حدیث کی روشنی میں

نماز کے فضایل  قرآن و حدیث کی روشنی میں

تحریر.ساجد محمود

نماز ، خدا تعالی کی طرف سے ایک ایسا عطیہ ہے کہ جو  انسان کو   فلاح و سعادت«حی علی الفلاح»، بہترین عمل «حی علی خیر العمل»اور ستون دین«الصلوة عمود الدین» [1]  کے عنوان سے دیا گیا ہے۔ نماز، انسانیت کی رفعت کی  وہ معراج ہے«الصلوة معراج المؤمن» [2]  کہ جو انسانی روح کی بلندی اور اخلاقی ملکات کے حصول اور فساد و تباہی سے  نجات  کا باوقار  راستہ ہے ،«إن الصلوة تنهی عن الفحشاء و المنكر.»[3]

انسان کوعبودیت و بندگی کا تمغہ اس   الہی خوبصورت راستے سے ہی  میسر ہو سکتا ہے کہ اگر  انسان نماز کو اس   کی شرائط  اور مقدمات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ بطور احسن ادا کرے ۔ اگر انسان اس عبادت الہی ( کہ جو خاشعین کے علاوہ دوسر ے لوگوں پر بہت سخت ہے)[4] کو بہ خوبی  انجام دے تو  اس نیک عمل کے نتیجہ  میں بہت سے  عظیم فردی، اجتماعی، دنیوی اور اخروی آثار سامنے آ تے ہيں۔ اس مقالہ میں ہم اس عبادت  و بندگی  کے  تمام  آثار کو بیان نہيں  کرنا چاہتے بلکہ ان کے صرف وہ آثار کہ جو برزخ اور آخرت سے مربوط ہیں ، ان کی طرف اشارہ کرتے ہيں۔

 آیات الہی ميں نماز کے آثار ( نماز  توجہ یا بغیر توجہ کے پڑھنا)

  1. نماز پڑھنے سے خدا تعالی اپنے بندے کو یاد کرتا ہے

خدا تعالی سورہ طہ میں فرماتا ہے : «اقم الصلوة لذكری» [5]؛ نماز ، ذکر اور یاد خدا ہے۔ اور جب اس آیت مجیدہ  کو اس آیت شریفہ«فاذكرونی اذكُركم …» [6]کے ساتھ ملا کر تفسیر کريں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ جب بندہ اپنے خدا کو یاد کرتا ہے تو در  نتیجہ خدا تعالی بھی اسے یاد کرتا ہے۔[7] مفسرین نے اس آیت شریفہ«فاذكرونی اذكُركم …» کے ذیل میں(  کہ بندوں کی یادآوری سے کیا مراد ہے؟ ) بہت سے مختلف اقوال ذکر کیے ہيں۔ ان میں سے کچھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

جب انسان ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح انجام  دیتے نماز کو قائم کرتا ہے تو اس صورت میں اسے خدا تعالی کی طرف سے دو انعام ملتے ہیں:

  1. اجر دریافت کرتا ہے (لهم اجرهم)
  2. اسے ایسا اطمینان کامل حاصل ہوتا ہے  (لا خوف …)  کہ اس کے بعد اسے کسی قسم کا اضطراب،  پریشانی  اور غم  کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

پس اللہ تعالی فرماتا ہے

  • ‌أ. تم مجھے “دنیا” میں یاد کرو میں تمھیں ( آخرت) میں یاد کروں گا۔
  • ‌ب. تم مجھے دعا کے ذریعے یاد کرو تو میں تمھیں اس دعا کی اجابت اور قبولیت کے ساتھ یاد کروں گا ( یہ استجابت دعا دنیا، برزخ اور قیامت میں نصیب ہو سکتی ہے)۔
  • ‌ج. مجھے نعمتوں کی زیادتی  میں یاد کرو تاکہ تمہیں مشکلات میں یاد کروں۔[8]
  1. شفاعت کبری سے بہرہ مندی

 پروردگار سورہ اسراء میں اپنے حبیب سے خطاب کرتے ہوۓ فرماتا ہے: “وَ مِنَ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَكَ عَسی أَنْ یَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقاماً مَحْمُوداً»؛ رات کے کچھ حصہ میں جاگتا رہ  اور نماز تہجد ادا کر کہ یہ نماز تہجد فقط تیرے پر واجب ہے کہ قریب ہے کہ خدا تجھے مقام محمود (شفاعت کبری  ) تک پہنچا دے۔ پس اس نماز تہجد  کا نتیجہ مقام محمود تک پہنچنا ہے اور اس آیت کی تفسیر میں  فریقین (شیعہ و اہل سنت) کی  روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مقام محمود سے مرادرسول اکرم ـ صلّی الله علیه و آله ـ کی شفاعت کبری ہے۔[9]

  1. اجر الہی کا استحقاق اور اطمینان کامل کا حصول

حق تعالی سورہ بقرہ میں فرماتا ہے: «إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّكاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لا هُمْ یَحْزَنُونَ.» [10]

یہاں دو انعاموں کا ذکر ہے

  1. انسان اجر دریافت کرتا ہے (لهم اجرهم)
  2. اسے ایسا  اطمینان کامل حاصل ہوتا ہے  (لا خوف …)  کہ اس کے بعد اسے کسی قسم کا اضطراب،  پریشانی  اور غم  کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

 برزخ میں نماز کے آثار

  1. وحشت قبر سے امان

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: «ان الصّلاة تأتی الی المَیّتِ فی قبره بصورة شخص انور اللّونِ یونسُهُ فی قبره و یدفَعُ عنه اهول البرزخ»؛  نماز ایک سفید چہرے والی انسانی صورت میں  قبر کے اندر  داخل ہوتی ہے اور اس مرنے والے کے لئے مونس قرار پاتی ہے اور اس سے برزخ کی وحشتوں کو بر طرف کرتی ہے۔[11]

امام باقر  (علیہ السلام) فرماتے  ہيں: «من اتمَّ ركوعَهُ لم یَدخُلْهُ وحْشَةُ القبْرِ»؛  جس کا رکوع تمام اور کامل ہو وہ کسی صورت میں بھی وحشت قبر سے دچار نہيں  ہو گا۔

  1. نماز، قبر میں انسان کی مونس

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:  “الصلاةُ انس فی قبره و فراش تحت جنبه و جواب لمنكر و نكیر”؛ نماز قبر میں (نماز گزار کی ) مونس ہے  اور بہترین فرش اور منکر و نکیر کا جواب ہے۔[12]

  1. قبر میں ملائکہ کے دیدار کا موجب

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:  من مشی الی مسجد یطلب فیہ الجماعۃ ” جو شخص نماز با جماعت میں شرکت کے لئے مسجد کی طرف قدم اٹھائے” کا ن لہ بکل خطوۃ سبعون الف  حسنۃ” اس کےہر قدم کے اٹھانے پر ستر ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ ” و یرفع لہ من الدرجات مثل  ذالک” اور ستر ہزار درجات بلند ہوتے ہیں” و ان مات و ھو علی ذالک” اگر اسی حالت میں مر جآۓ تو ” وکّل اللہ بہ سبعین الف ملک یعوّ د نہ فی قبرہ و یونسونہ فی وحدتہ و یستغفرون لہ حتی یبعث اللہ ” خدا وند ستر ہزار فرشتوں کو اس کی قبر میں بھیجتا ہے کہ اس کی عیادت کریں۔ اس کی تنہائی کے مونس بنے رہيں اور قیامت تک اس  کے لئے استغفار کرتے رہيں”[13]۔

  1. وحشت قبر سے نجات کا باعث

امام باقر  (علیہ السلام) فرماتے  ہيں: «من اتمَّ ركوعَهُ لم یَدخُلْهُ وحْشَةُ القبْرِ»  جس کا رکوع تمام اور کامل ہو وہ کسی صورت میں بھی دچار وحشت قبر نہيں  ہو گا۔[14]

قیامت کے دن نماز کے آثار

  1. نماز کے ساۓ میں سارے اعمال  کی قبولیت

امام علی  (علیہ السلام) نے نہج البلاغہ میں فرمایا: كلُّ شی من عملك تبع لصلاتك [15]ہر عمل نماز کے تابع ہے ۔ در نتیجہ دوسرے  اعمال کا عروج نماز کے زیر سایہ ہے۔ «إن قبلت قبلت ما سواها و إن ردَّت ردت ما سواها»[16] اگر نماز قبول ہو گئي تو دوسرے سارے اعمال قبول ہو جائيں گے اور اگر یہ رد کر دی گئی تو بقیہ  سارے اعمال رد کر دیے جائيں گے۔

  1. نماز، توشہ آخرت

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: الصلاة زادُ للمؤمن من الدنیا الی الاخره» ؛  نماز ، دنیا میں مؤمن کے لئے آخرت کا  زادراہ ہے۔[17]

  1. نماز، بہشت میں داخل ہونے کی باعث

امام صادق  (علیہ السلام) نے فرمایا:”بتحقیق تمھارا پروردگار مہربان ہے،  تھوڑے عمل کو بھی  قبول کر  لیتا ہے اگر چہ انسان دو رکعت ہی خدا کے لئے بجا لاۓ، خدا تعالی اس نماز کے صدقے میں اسے بہشت میں داخل کر دے گا۔[18]

  1. عذاب سے معافی اور بہشت میں بغیر حساب کے داخل ہونے کا باعث

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: «قال الله ـ عزّوجل ـ اِنّ لعبدی علیّ عهداً اِن اقام الصلوة لوقتها اَن لا اُعَذِّبَهُ و اَن اُدخلهُ الجَنّه بغیر حساب»[19]— میں اپنے بندہ کے ساتھ  وعدہ کرتا ہوں، اگر میرا بندہ نماز کو اس کے اوقات میں  بجا لاۓ  تو اسے عذاب نہ کروں گا  اور بغیر حساب کے اسے جنت میں داخل کر دوں گا۔

 اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے ہی ایک اور روایت نقل ہے کہ جو شخص نماز کو چالیس دن تک با جماعت ادا کرے کہ حتی تکبیرۃ الاحرام بھی اس سے نہ چھوٹے  تو اس کے لئے جہنم کی آگ اور نفاق سے آزادی لکھ دی جاۓ گي۔[20]

امام علی  (علیہ السلام) نے نہج البلاغہ میں فرمایا: كلُّ شی من عملك تبع لصلاتك  ہر عمل نماز کے تابع ہے ۔ در نتیجہ دیگر اعمال کا عروج نماز کے زیر سایہ ہے۔ «إن قبلت قبلت ما سواها و إن ردَّت ردت ما سواها»  اگر نماز قبول ہو گئي تو دوسرے سارے اعمال قبول ہو جائيں گے اور اگر یہ رد کر دی گئی تو بقیہ  سارے اعمال رد کر دیے جائيں گے۔

  1. نماز، آخرت کی زینت

امام صادق  (علیہ السلام) نے فرمایا: «انّ الله ـ عزّوجل ـ قال: الْمالُ وَ الْبَنُونَ زِینَةُ الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ انّ الثمان ركعات التی یُصلّیها العبد اللیل زینةُ الآخرة»؛[21]“اللہ تعالی نے مال اور اولاد کو  دنیا کی زینت لیکن آٹھ رکعت نماز کو جو آخر شب میں انسان  بجا لاتا ہے  اسے آخرت کی زینت قرار دیا ہے ۔

  1. ریاکار نمازی کی سزا آتش جہنم ہے

امام صادق  (علیہ السلام) نے فرمایا:” جب قیامت کا دن آۓ گا  تو  اس دن ایک نمازی کو لایا جاۓ گا  اور وہ خود بھی نمازی ہونے کا دعوی  کرنے والا ہو گا۔ اس سے کہا جاۓ گا:”تو نے اس لئے نماز پڑھی کہ لوگ تیری تعریف کریں، اس وقت فرشتوں کو حکم ملے گا کہ اس ریاکار نمازی کو جہنم کی آگ  میں جھونک دیں۔[22]

 

  1. نماز کو سبک شمار کرنے والا نمازی حوض کوثر پر رسول خدا کے دیدار سے محروم ہوگا

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: «لیس منّی من استخفَّ صلاته لا یردُ علیَّ الحوض لا و الله»؛[23] جو شخص نماز کو سبک اور  ہلکا شمار کرے وہ میری امت میں سے نہيں ہے، خدا کی قسم! وہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات نہ کر سکے گا۔

  1. نماز کا نہ پڑھنا آتش جہنم میں گرنے کا باعث

مولا علی  (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں دوزخیوں کے جواب کو نقل کرتے ہوۓ فرماتے  ہيں کہ جب ان سے پوچھا جاۓ گا کہ کون سی چیز باعث بنی کہ تم جہنمی بن گئے تو جواب ملے گا کہ ہم نمازی نہ تھے: «ما سللكم فی سقر قالوا لم نَكُ من المصلین.» [24]

  1. نماز کو ضا‏‏ئع کرنے والا کا قارون، فرعون اور ہامان کے ساتھ حشر و نشر

رسول خد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:” لا تضیعوا صلاتكم، فانّ من ضیّع صلاتهُ حَشَرَهُ الله قارون و فرعون و هامان ـ لعنهم الله و اخزاهم ـ و كان حقّاً علی الله ان یُدخِلَهُ النار مع المنافقین، فالویلُ لمن لم یحافظ صلاتهُ»[25]؛ اپنی نمازوں کو ضا‏ئع نہ کروچونکہ جو نماز کو ضائع کرے گا، خدا تعالی اسے قارون، فرعون اور ہامان کے ساتھ محشور کرے گا، خدا تعالی ان پر لعنت کرےاور ان کو رسوا کرے۔ اور خدا  کا حق بنتا  ہے کہ وہ  ان بے نمازیوں کو منافقین کے ساتھ جہنم کی آگ میں بھیج دے۔ پس افسوس ہے اس شخص پر کہ جو نماز کی حفاظت نہ کرے۔

  1. شفاعت سے محرومیت

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:”جو شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کر ے اس کا نام جہنم کے دروازہ پر دوزخیوں کے زمرہ میں لکھا جاتا ہے۔[26]

روایات میں نماز کو چھوڑنے، کوتاہی یا سستی کرنے سے متعلق بہت سے آثار ذکر کیے گئے ہیں جن کو بطور خلاصہ ذکر کرتے ہيں۔

  • ‌أ. نماز تہجد کے پڑھنے سے انسان کی قبر بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ کی مانند ہو جاتی ہے
  • ‌ب. جو شخص نمازپنجگانہ کی محافظت کرےوہ قیامت کے دن خدا تعالی  سے ملاقات کرے گا۔
  • ‌ج. جو شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کر دے تو وہ خدا اور سول کے غضب سے امان میں نہ ہو گا۔
  • ‌د. جو شخص نماز جمعہ پڑھنے کے لئے قدم اٹھاتا ہے تو اس کا جسم جہنم کی آگ پر حرام ہو جاتا ہے ۔
  • ‌ه. نمازی کے لئے زمین کا وہ ٹکڑا کہ جس پر اس نے سجدہ کیا اور نماز ادا کی قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دے گا( کہ جو قبول ہو گی)۔
  • ‌و. نماز پل صراط سے گزرنے کا پاسپورٹ ہے ( کہ جس طرح محبت علی  (علیہ السلام) پل صراط سے گزرنے کا پاسپورٹ ہے)۔

نماز کو اس کے اوقات میں پڑھنے اور  صحیح طریقے سے اسے ادا کرنے  اور نماز کو چھوڑنے کے یہ تو چند ایک  آثار ہیں  اس کے علاوہ اس  عبادت   کے  اور بہت سے آثار  دوسری  روایات میں ذکر کیے گئے ہيں۔[27]

 

 

 

[1] ۔ وسائل الشیعه، ج 4، ص 27

[2] ۔ اعتقادات، علامه مجلسی، ص 29 امام خمینی رحمة الله علیه کی کتاب،   سر الصلوة سے نقل کرتے ہوۓ  ، ص 7.

[3]  ۔عنكبوت، 45.

[4] ۔ بقره، 45.

[5] ۔ طه، 14.

[6] ۔ بقره، 152.

 [7] ۔ تفسیر نور، ج 7، ص 330.

[8] ۔ تفسیر كبیر فخر رازی، ج 4، ص 144،   تفسیر نمونه، ج 1، ص 515  سے تھوڑے تصرف  اور  اضافات کے ساتھ نقل کرتے ہوۓ۔

[9] ۔ المیزان، ج 13، ص 242،   تفسیر نمونه، ج 12،  آیت کے ذیل میں.

 [10] ۔ بقره، 255.

 

[11]۔ لئالی الاخبار، ج4، ص 1.

[12]۔ بحارالانوار، ج 79، ص 232۔

 [13] ۔ وسائل الشیعه، ج 5، ص 372.

[14] ۔ بحارالانوار، ج 6، ص 244.

[15] ۔ نهج البلاغه، نامه 27، به نقل از كتاب رازهای نماز، آیة الله جوادی آملی، ص 18.

  [16] ۔  كافی، ج 3، ص 268، به نقل از كتاب «رازهای نماز» آیة الله جوادی آملی،‌ ص 10۔

[17] ۔ بحارالانوار، ج 79، ص 232۔

 [18] ۔ مستدرك سفینة البحار، ج 3، ص 147۔

[19] ۔ كنز العمال، ج 7، حدیث 19036

[20] ۔ محجة البیضاء، ج 1، ‌ص 244،   كتاب فتح العزیز، ج 4،‌ ص 288 ( میں اسی حدیث سے ملتی جلتی حدیث)

[21] ۔ بحارالانوار، ج 84، ص 152، ثواب الاعمال، ص 41 .

[22]۔  بحارالانوار، ج 69، ص 301.

 [23]۔  وسائل الشیعه، ج 4، ص 24،  آل البیت والی چھاپ.

 [24]۔ نهج البلاغه، خطبه 199.

 [25]  ۔ بحارالانوار، ج 79، ص 202۔

  [26]۔  كنز العمال، ج 7، حدیث 19090

[27]  ۔ اس تحقیق کی اكثر روایات کا استفادہ  معجم فقهی  سے کیا گیا ہے اور اس کے ایڈریس اسی سوفٹ ویر کے مطابق ہیں۔

قیادت و رھبری نھج البلاغہ کی روشنی میں

 

قیادت ورہبری نہج البلاغہ کی روشنی میں

تحریر: تصورعباس 

روایات میں حضرت علی علیہ السلام کو جنت میں جانے والوں کا قائد بیان کیا گیا ہے جیسے پیغمبر اکرم  (صلی الله علیه و آله وسلم) کا ارشاد گرامی ہے  قائد الامۃ الی الجنۃ ، یا دوسری تعبیر ہے کہ   معراج کے موقع پر پیغمبراکرم  (صلی الله علیه و آله وسلم) کو ایک قصر دکھایا گیا اوروحی کی گئی کہ یہ قصر حضرت علی علیہ السلام کاہے کیونکہ ان میں یہ تین صفات پائی جاتی ہیں (انہ سید للمسلمین وامام المتقین و قائد الغرالمحجلین)

اور اس مختصر تحریر میں مراد قیادت  کا عمومی معنی حکمرانی  اوررہبری ہے اورحکمران بھی، یقینایہ حکمران اوررہبر ایک قسم کا قائد ہے جو پوری قوم کی کشتی کو سعادت اورخوشبختی کے ساحل پر بھی لاسکتا ہے اور قوم کی بدبختی کا سبب بھی بن سکتا ہے اس لیے ہم زیادہ تر رہبر اورحاکم جیسے الفاظ سے استفادہ کریں گے  ۔یعنی  ایک کلی معنی کرتے ہوئے رہبر اورقائد وہی حاکم اورپیشوا ہیں اوریہ مترادف الفاظ ہیں .

اظہاریہ :

قرآن کے بعد اسلامی کتب میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل کتاب نہج البلاغہ ہے کہ جس کے مطالب زمانے میں رونما ہونے والے حالات کے ساتھ باہمی سازگاری کی وجہ سے آج بھی اتنی  تروتازگی اورجذابیت کے حامل ہیں کہ جوتقریبا چودہ سو سال پہلے تھے ۔ ان مطالب کی جاودانی اور جذابیت پرنہ ہی   تاریخ میں رونما ہونے والے حالات کے مدوجذر  اپنا اثرچھوڑسکے اورنہ ہی دشمنی اورعداوت کے شعلوں کی تمازت نے اثر ڈالا ۔بلکہ اس کے برعکس ان مطالب میں حقانیت پر مبنی اورموجود اخلاقی ،انسانی اورالہی اصولوں کی مہکتی خوشبو نے نہ تنھا اپنے گلستان میں بسنے والوں کو معطر کیا بلکہ کوسوں دوربسنے والوں نے بھی بنی آدم کے لیے بنائے جانے والے قانون کی بنیاد اوراساس  اسی کتاب کےایک خط کو قراردیا،کہ جو اس کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

مختلف موضوعا ت پر موجود مطالب کے بحرعمیق میں ایک موضوع جس پر مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے مختلف زاویوں سے اس کے خدوخال کو واضح کرکے، انسان کو مطالب کے عظیم سمندر کے سامنے لاکھڑا کیا ہے ، وہ ہے معاشرے کی قیادت اوررہبری۔ امام علی علیہ السلام نے اس موضوع سے متعلق مختلف تعبیروں جیسے امامت ،امارت ،حکومت ،ولایت ،قیادت ،خلافت اوران جیسے دوسرے مشتقات کے ذریعے وسیع پیمانے پر بحث کی ہے اوراس موضوع کی اہمیت کو بیان کیا ہے   اورایسے سنہری اصول بیان کیے ہیں کہ  اگر کوئی معاشرہ ان پر عمل پیراہوجائے تویقینا وہ معاشرہ کسی جنت سے کم نہیں ہوگا ۔

اس مختصر تحریر میں اسی موضوع پر حضرت علی علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں مختلف زاویوں سے بحث کی گئی ہے اور حضرت علی علیہ السلام کے کلام پر مشتمل جامع اورکامل کتاب یعنی نہج البلاغہ کو تحقیق کا مرکز دیتے ہوئے اوراس سے استفادہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے ۔

باب اول

(۱):قیادت ورہبری کا معنی

قیادت عربی زبان کا لفظ ہے جو قود  سے لیا گیا ہے یعنی کسی کے آگے چلنا ،رہبری  اور راہنمائی کرنا وغیرہ، جیسے کہا جاتاہے، قیادۃ الجیش یعنی لشکر کی کمانڈاوررہبری کرنا یا قائد الجیش یعنی آرمی کمانڈروغیرہ  جو ایک آرمی کا کمانڈر،راہنما اوررہبرہوتا ہے ۔

روایات میں حضرت علی علیہ السلام کو جنت میں جانے والوں کا قائد بیان کیا گیا ہے جیسے پیغمبر اکرم  (صلی الله علیه و آله وسلم) کا ارشاد گرامی ہے  قائد الامۃ الی الجنۃ ، یا دوسری تعبیر ہے کہ   معراج کے موقع پر پیغمبراکرم  (صلی الله علیه و آله وسلم) کو ایک قصر دکھایا گیا اوروحی کی گئی کہ یہ قصر حضرت علی علیہ السلام کاہے کیونکہ ان میں یہ تین صفات پائی جاتی ہیں (انہ سید للمسلمین وامام المتقین و قائد الغرالمحجلین )[1]

اوراس مختصر تحریر میں مراد قیادت  کا عمومی معنی حکمرانی  اوررہبری ہے اورحکمران بھی، یقینایہ حکمران اوررہبر ایک قسم کا قائد ہے جو پوری قوم کی کشتی کو سعادت اورخوشبختی کے ساحل پر بھی لاسکتا ہے اور قوم کی بدبختی کا سبب بھی بن سکتا ہے اس لیے ہم زیادہ تر رہبر اورحاکم جیسے الفاظ سے استفادہ کریں گے  ۔یعنی  ایک کلی معنی کرتے ہوئے رہبر اورقائد وہی حاکم اورپیشوا ہیں اوریہ مترادف الفاظ ہیں ۔

 (۲):قیادت ورہبری کی اہمیت امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں

قیادت ورہبری کی ضرورت اتنی واضح اورآشکارہے کہ جس کا کوئی عقل مند انسان انکار نہیں کرسکتا ۔قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ انما انت منذر ولکلّ قوم ھاد۔[2]تم صرف ڈرانے والاہو اورہرقوم کے لیے ایک ہادی اوررہبرہے .

اسی طرح قرآن ناطق نے بھی نہج البلاغہ میں اس کی ضرورت اوراہمیت کو تقریبا ۶۹مقامات پر واشگاف الفاظ میں بیان کیا ہے ،حضرت علی علیہ السلام انسانی معاشرے میں صالح رہبر ی اورقیادت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں: انہ لابدللناس من امیر بر  او  فاجر یعمل فی امرتہ المومن ویستمتع فیھا الکافر ویبلغ اللہ فیھا الاجل ویجمع بہ الفی ء ویقاتل بہ العدو وتامن بہ السبل ویؤخذبہ للضعیف من القوی حتی یستریح بر ویستراح من فاجر ۔[3]

حالانکہ کھلی ہوئی بات ہے کہ نظام انسانیت کے لیے ایک حاکم کا ہونا بہرحال ضروری ہے چاہے نیک کردارہویا فاسق کہ حکومت کے زیرسایہ ہی مومن کو کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے اورکافر بھی مزے اڑا سکتا ہے اور اللہ ہر چیز کو اس کی آخری حد تک پہنچا دیتا ہے اورمال غنیمت وخراج وغیرہ جمع کیا جاتا ہے اوردشمنوں سے جنگ کی جاتی ہے اورراستوں کومحفوظ کیا جاتاہے ،طاقتور سے کمزور کا حق لیاجاتاہے تاکہ نیک کردار انسان کو راحت ملے اوربدکردار انسان سے آسایش میں ہوں ۔[4]

اگرچہ امیرالمومنین کا یہ بیان ظاہرا خوارج کے اس پوچ عقیدہ کی نفی کے لیے بیان کیا گیا جو ان کے ذہن میں تھا کہ لاحکم الا للہ ۔لیکن حقیت یہ ہے کہ علی علیہ السلام نے اس مختصر عبارت میں رہبری اورقیادت کی اہمیت کوواضح  کرنے کے لیے ایک سنہری اصول دیا ہے کہ انسان ایک معاشرتی اوراجتماعی موجود ہے جورہبری اورقیادت کے بغیر نہیں جی سکتا ہاں حکمرانوں اوررہبروں میں فرق ہے کبھی رہبر اورحاکم صالح افراد ہوتے ہیں اورکبھی فاسق اورفاجر ۔حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :

اماالامرۃ البرۃ فیعمل فیھا التقی واماالامرۃ الفاجرۃ فیتمتع فیھا الشقی[5] صالح اورنیک قیادت کے سائے میں نیک لوگ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کرتے ہیں اورفاجر اورفاسق قیادت میں شقی اوربدبخت لوگ استفادہ کرتےہیں ۔

مذکورہ بالامطالب کا مطلب یہ ہے کہ انسانی معاشرہ میں رہبری اورقیادت ایک ضروری  امر ہے اگر ایک صالح اورظلم وستم سے پاکیزہ قیادت میسر نہ ہوتو یقینا ایک فاسد حکومت قائم ہوجائے گی جس طرح کہ خود خوارج نے امام علی علیہ السلام کی قیادت اوررہبری کو ٹھکرایا اورذوالثدیہ کی حکمرانی کے چنگل میں پھنس کر برحق امام کے خلاف شورش کردی اوربعد میں بھی کسی رہبر اورحکمران کے بغیر نہ رہ سکے جو قیادت اوررہبری کی اہمیت کی روشن مثال ہے ۔

قیادت ورہبری کی اہمیت واضح کرنے کے لیے مولائے متقیان کے یہ بیانات کافی ہیں البتہ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا بھی فایدہ سے خالی نہیں ہے کہ عصرحاضر میں بعض مغربی مفکرین  جیسے مارکس وبر،نے حکومت اورسیاسی نظام کے ایک پہلو کی طرف توجہ کرنے کی وجہ سے  واضح  غلطی کا شکارہواہےاور حکومت اورسیاسی نظام کو سرمایہ داروں کا آلہ اورطبقاتی کشمکش کا سبب جانا ہے[6] درحالانکہ خود یہی لوگ صاحب قدرت اورحکومت رہے ہیں ۔اور دوسری بات یہ کہ اگر مارکس کی بات عمومی ہے تو ان کی حکومتیں بھی اس میں شامل ہیں اورتیسری بات یہ کہ خداپرست اورالہی لوگ جیسے حضرت علی علیہ السلام جنہوں نےواشگاف الفاظ میں تمام  مسائل کی طرف اشارہ  کیا ہے ،جہاں حکومت کی ضرورت اوراہمیت کو بیان کیا ہے وہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ حکومت اورحکمرانی صالح اورظلم وستم سے پاک بھی ہوسکتی ہے اورفاسد بھی ،ایک صالح حکمران اوررہبر کی صفات کیاہے اوراس کے برعکس ایک فاسد اورفاجر حکمران کی خصوصیات کیا ہیں درحالانکہ دوسروں کی باتیں ان مطالب سے عار ی ہیں ۔

(۳):قیادت اوررہبری  کا فلسفہ

اگر انسان خطبہ شقشقیہ کو غور سے پڑھے تو معلوم ہوتا ہے کہ قیادت اوررہبری کا فلسفہ کیا ہے ۔ کیوں ایک معاشرہ بغیر رہبر کے نہیں رہ سکتا اگرچہ چند ایک حکمرانوں کے علاوہ باقی تمام نے اس فلسفہ کو بھلا کر اس کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قیادت ورہبری کا فلسفہ وہی ہے جو امام علی علیہ السلام نے مدینہ کے لوگوں کے ہجوم کے بعد فرمایا کہ جو تیسرے خلیفہ کے قتل کے بعد جمع ہوا تھا :أماوالّذی فلق الحبۃ ،وبرا النسمۃ ،لولاحضورالحاضر،وقیام الحجۃ بوجود الناصر،ومااخذ اللہ علی العلماء الایقاروا علی کظۃ ظالم ،لاسغب مظلوم ،لالقیت حبلھا علی غاربھا؛آگاہ ہوجاو وہ خدا گواہ ہے جس نے دانہ کو شگافتہ کیاہے اورذی روح کو پیدا کیا ہے کہ اگر حاضرین کی موجودگی اورانصارکے وجود سے حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اوراللہ کا اہل علم سے یہ عہدنہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اورمظلوم کی بھوک پر چین سے نہ بیٹھنا تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکادیتا۔[7]

جی ہاں اگر مارکس جیسے لوگ اس قیادت اوررہبری کے فلسفہ کو جان لیں تو کبھی بھی اس کو سرمایاداروں کا آلہ کار نہ کہتے ،کیونکہ امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں حکومت کو قبول کرنا یعنی ایک سنگین ذمہ داری کو اپنے عہدہ لینا ہے اگروہ ذمہ داری انسان قبول نہ کرے یا نہ کرسکتا ہوتو خود حکومت کی وقعت امام کی نظر میں امام کا اسی خطبے کا اگلاجملہ ہے کہ فرمایا:ولالفیتم دنیاکم ھذہ ازھدعندی من عفطۃ عنز!؛اورتم دیکھ لیتے کہ تمھاری دنیا میری نظر میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے ۔[8]

 (۴):حکمرانوں کی اقسام

جیسا کہ اوپر اشارہ کیاجاچکا ہے کہ انسان ایک معاشرتی موجود ہے کہ جو کسی حکومت اوررہبری کے بغیر نہیں رہ سکتا اوراسی پیاس کو بجھانے کی خاطر کبھی اسے اچھے اورنیک رہبر نصیب ہوتے ہیں کہ جو انسانوں کو اخلاقی کمالات کے ساتھ ساتھ دنیوی عروج بھی نصیب کرتے ہیں اوربعض ایسے بھی ہوسکتے ہیں کہ جو انسان کی زندگی میں تاریکیوں کے اضافہ کے سوا کچھ نہیں کرپاتے ۔اوریہ دونوں برابرنہیں ہیں ،خود امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : فانه لا سواء امام الهدی و امام الردی[9] کہ ہدایت اورسیدھا راستہ دکھانے والارہبر اورامام ،اورگمراہ کرنے والا امام ہرگزبرابر نہیں ہوسکتے ۔بعض رہبر اورقائد سخت مشکلات کو بھی برداشت کرکے لوگوں کی دنیا اورآخر ت سنوارتے ہیں ۔حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم  (صلی الله علیه و آله وسلم) کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ولیھم وال فاقام واستقام حتی ضرب الدین بجرانہ [10]

لوگوں کے امور کاذمہ دار ایساحاکم بنا جو خود بھی سیدھے راستہ پر چلا اورلوگوں کو بھی اسی راستہ پر چلایا یہانتکہ دین محکم اورپایدارہوگیا۔

ایک اورخطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں :امام من اتقی وبصیرۃ من اھتدی [11](پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم )متقین کے امام اورطلبگاران ہدایت کے لیے آنکھوں کی بصارت تھے ۔

خود امیرالمومنین علیہ السلام کہ جس نے عدل وانصاف کی جنگ لڑی اورپورے دردمندانہ طریقے سے حکومت کی باگ ڈور صرف اس لیے سنبھالی تاکہ مظلوم کو اس کا حق واپس دلایا جاسکے ، ایسے رہبر کی مظلومیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جو معاشرے میں حق وانصاف کی بنیادوں کو مستحکم کرنے  اور مظلوموں  کی مدد کرنے میں اپنا سب کچھ قربان کردے ۔جس کی سیرت اس کے قول کی بڑھ کر تصدیق کرے لیکن لوگ اس کے وجود کی نعمت سے غفلت کریں یقینا بدبختی ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اس عظیم نعمت کا کفران کیا اوربالآخر حجاج بن یوسف ثقفی جیسے ظالم حکمران کا دوردیکھا  ۔حضرت علی علیہ السلام اپنے حکومتی ہدف کی طرف اشارہ کرتے  ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اللهم اِنّك تعلم اَنّه لم یكن الذى كان مِنّا منافسةً فی سلطان و لَاالتِماس شى ءٍ من فضول الحُطام و لكن لنَرُدَّ المَعالم مِن دینك و نُظهِر الاِصلاح فی بلادك، فیأمن المظلومون مِنْ عبادك و تقامُ المعطَّلةُ مِن حدودك۔[12].

خدایا!توجانتا ہے کہ قیام اورحکومت سے ہمارامقصد ، قدرت کا عشق اورمال ودولت کا حصول نہیں ہے بلکہ ہدف صرف یہ ہے کہ تمہارے دین کو اس جگہ پر کہ جہاں تھا لوٹاسکیں اورتیرے شہروں میں اصلاح کرسکیں تاکہ تیرے مظلوم بندے امان میں رہیں اورتیری جن حدود کر ترک کردیا گیا ہے ان کو قائم کرسکیں ۔

اوردوسری طرف فاسد حکمران بھی ہیں جو صرف دنیا پرستی کے اسیر ہیں جنہوں نے حکمرانی کو ہدف قراردیتے ہوئے اس تک پہنچنے میں سب جائز وناجائز کو انجام دیا ۔وہ تمام کام جن کی دین اسلام کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار بھی اجازت نہیں دیتیں ان کوبھی کرگزرنے میں ذرا برابرہچکاہٹ محسوس نہ کی اورزندگی کے چارروز اسی غفلت میں گزاردیئے ۔جنہوں  نے نہ صرف لوگوں پر ظلم کیا بلکہ اپنے اوپر بھی ظلم وستم کیا امیرالمومنین ایسے ظالم اورجابر حاکم کے بارے میں رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے ، ارشاد فرماتے ہیں :یؤتی یوم القیامۃ بالامام الجائر ولیس معہ نصیر ولاعاذرفیلقی فی نار جھنم فیدورفیھا کما تدورالرحی ثم یرتبط فی قعرھا ۔[13]  قیامت کے دن ظالم رہبر کا پیش کیا جائے گا جس کا اس دن کوئی مددگارنہیں ہوگا اورنہ ہی عذرخواہی قبول کرنے والا، اس کو جھنم کے شعلوں میں جھونک دیا جائے گا اوروہاں چکی کی طرح چکر کھائے گا اوراس کے بعد اس کو قعرجھنم میں جکڑدیا جائے گا ۔

حضرت علی علیہ السلام کا اصلی درد اورغم یہ تھا کہ افسوس ہے  کہ لوگ نیک اورصالح رہبری اورقیادت  کو نہ صرف قبول نہ کریں بلکہ اس کو کمزوربنانے کے لیے کمرباندھ لیں جس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ فاسق اورفاجر حکمران مسلط ہوجائیں گے ۔امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں ۔ولکننی آسی ان یلی امرھذہ الامۃ سفھاؤھاوفجارھا فیتخذوا مال اللہ دولاوعبادہ خولا و الصالحین حربا والفاسقین حزبا [14]مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ امت کی زمام احمقوں اورفاسقوں کے ہاتھ چلی جائے وہ مال خدا کو اپنی املاک اوربندگان خدا کو اپنے غلام بنا لیں ،نیک لوگوں سے جنگ کریں اورفاسق لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرلیں ۔

شاید یہاں پر یہ سوال پیدا ہو کہ حقیقتا صالح اورنیک رہبری تو امام معصوم انجام دے سکتا ہے کہ جس کی حکمرانی اوررہبری میں عدل وانصاف قائم ہوسکتا ہے ایک عام انسان کیسے ایسی حکومت قائم کرسکتا ہے ؟جواب بہت سادہ ہے ہر حکمران جو عدل وانصاف کو قائم کرنے کے لیے  اپنی قدرت کو وسیلہ بنائے وہ  ایساکرسکتاہے جس کے دل میں لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ ہو۔ یقینا شریر اورمفسد لوگ اس کی حکومت میں ختم نہیں ہوسکتے لیکن ان کے خاتمے کے لیے اورعدل وانصاف کو قائم کرنے کے لیے کوشش توکرسکتاہے اوروہ صفات جو ایک رہبر میں ہونی چاہییں اگران کو اپنا لے تو اس کی شہرت بھی ایک عادل بادشاہ کے طورپر ہوسکتی ہے مسلمان تو دور کی بات آغاز اسلام میں نجاشی بادشاہ  کے لیے پیغمبر اکرم  (صلی الله علیه و آله وسلم)کی زبانی یہ الفاظ کہ تم(مسلمانوا)  حبشہ چلے جاو وہاں کا حاکم عادل اورمہربان ہے نجاشی مسلمان  نہیں تھا لیکن انسانی اصولوں کا پابند تھا ۔.

باب دوم :

ایک رہبر اورحکمران کی صفات

یقینا ایک  رہبر اورحکمران جو لوگوں کو دنیا اورآخرت کی سعادت دینا چاہتا ہے ان کی مشکلات کو دورکرنا چاہتاہے اس میں چند ایک ایسی صفات ہونی چاہییں جو اس کے عمل کی تصدیق کریں اورلوگوں کااعتماد اس پرباقی رہے ہم یہاں امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں ان صفات کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک وہ جو خود حاکم کی شخصی صفات ہیں اوردوسری وہ جو اس کے اوراسکی رعیت کے باہمی ارتباط کو بیان کرتی ہیں ۔

الف:ذاتی  صفات :

(۱):تذکیہ نفس

تذکیہ نفس کی افادیت کاکوئی منکر نہیں ہے کیونکہ جس موضوع کو خداوندنے گیارہ قسمیں کھانے کے بعد ذکر کیا ہو قدافلح من زکّٰھا وقدخاب من دسّٰھا؛[15]کہ سعادت اورکامیابی صرف اس کا مقدر بنے گی جو تذکیہ نفس کے زیور سے آراستہ ہوگا  اس کی اہمیت میں ذرہ برابرشک کی گنجائش نہیں رہتی۔تذکیہ نفس ہر انسان کے لیے ضروری ہے لیکن ایک رہبر اورراہنما کے لیے اس کی ضرورت اوراہمیت دوسروں کی نسبت بڑھ جاتی ہے کیونکہ انسان کی زندگی  نشیب وفرازکا نام ہے اورتذکیہ نفس انسان کو اس سعادت اورشقاوت کے نشیب وفراز سے ڈھکی وادی سے  نکال کر سعادت کے ساحل پر لاکھڑا کرتا ہے   کیونکہ انسان کا نفس ایک سرکش گھوڑے کی مانند ہے اگر تذکیہ نفس کے تازیانوں سے رام نہ کیا جائے تو انسان کے دامن میں بدبختی اورتباہی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا خصوصا ایک رہبر اورراہنما کے لیے کہ جس کے کاندھے پر اپنے بوجھ کے ساتھ عوامی قافلے کی مہار بھی موجود ہے اسی لیے مولائے کائنات امیرالمومنین علیہ السلام مالک اشتر کو لکھے گئے خط میں ارشاد فرماتےہیں کہ :فلیکن احب الذخائر الیک ذخیرۃ العمل الصالح ،فاملک ھواک ،وشح ّ بنفسک عما لایحل لک [16]  ؛ تمھارا محبوب ترین ذخیرہ عمل صالح کو ہانا چاہیے ،خواہشات کوروک کررکھو اورچیز حلال نہ ہو اس کے لیے نفس کو صرف کرنے سے بخل کرو ۔

حضرت علی علیہ السلام نے اس بیان میں تذکیہ نفس پر بہت زور دیا ہے اوراس پر اصرارفرمایا ہے کیونکہ معاشرتی زندگی کی سعادت میں قانون نافذ کرنے والوں کی لیاقت اوراہلیت خود قانون کی نسبت زیادہ موثر اوراثرانداز ہوتی ہے ۔

امام علی علیہ السلام محمد بن ابی بکر کو مخاطب کرتے ہوئے ان لوگوں کے امتیازات  کی طرف اشارہ فرماتےہیں جنہوں نے اپنے روحوں کو  تذکیہ نفس اورتقوی کے زیورسے آراستہ کیا ۔امام فرماتے ہیں :واعلموا عباداللہ ان المتقین ذھبوا بعاجل الدنیا وآجل الآخرۃ فشارکوا اھل الدنیا فی دنیاھم ،ولم یشارکوا اھل الدنیا فی آخرتھم ؛سکنوا الدنیا بافضل ماسکنت ۔۔۔بندگان خدا !یارکھو کہ پرہیزگار لوگ دنیا اورآخرت کے فوائد لے کر آگے بڑھ گئے وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہوسکے ؛وہ دنیا میں بھی بہترین زندگی گزارتےرہے ۔۔۔۔[17] حضرت علی علیہ السلام مالک کو واجبات کی ادائیگی اور ان  پرتوجہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :امرہ بتقوی اللہ ،وایثارطاعتہ ،واتباع ما امر۔۔۔۔۔۔لایسعد احدالاباتباعھا ولایشقی الامع جحودھا واضاعتھا ؛سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو، اس کی اطاعت کرو اورجن فرائض وسنن کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کی اتباع کے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا اورکوئی ان کے انکار اورضائع کرنے کے بغیر شقی اوربدبخت نہیں ہوسکتا۔[18]

حضرت علی علیہ السلام واجبات کی ادائیگی کو خاص اہمیت دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ : ولیکن فی خاصۃ ما تخلص بہ للہ دینک اقامۃ  فرائضہ التی ھی لہ خاصۃ ؛اورتمھارے وہ اعمال جنھیں صرف اللہ کے لیے انجام دیتے ہوان میں سے سب سے اہم کام فرائض کی انجام دہی ہے خالصا خدا کےلیے ۔[19]

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام اپنی فوج کے کمانڈر شریع بن ھانی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :اتق اللہ فی کل صباح ومساء ۔۔۔۔۔۔سمت بک الاھواء الی کثیر من الضرر فکن لنفسک مائعا رادعا ؛صبح وشام اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنے نفس کو اس دھوکہ باز دنیا سے بچائے رہو اوراس پر کسی حال میں اعتبار نہ کرنا اوریہ یاد رکھنا کہ اگر تم نے کسی ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کو بہت سی پسندیدہ چیزوں سے نہ روکا،تو خواہشات تم کو بہت سے نقصان دہ امور تک پہنچا دیں گی لہذا ہمیشہ اپنے نفس کو روکتے ٹوکتے رہو ۔ [20]

۲:علم وبصیرت

ایک رہبر اورراہنما کے لیے علم وبصیرت شرط ہے اوراسلامی تعلیمات میں اس کو ایک اصل کے طورپرقبول کیاگیا ہے اورمختلف مقامات پر اس بات کی طرف اشارہ  بھی کیا گیا ہے کہ حکومتی امور ان اشخاص کے ذمہ لگائے جائیں جو ان کی اہلیت اورقابلیت رکھتے ہوں،اصول کافی میں مرحوم کلینی ،شیخ صدوق اورشیخ طوسی نے عمربن حنظلہ کے ذریعے امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ جس میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مَنْ کانَ مِنکُمْ مِمَّنْ قَدْ رَوَی حَدیثَنا ونَظَرَ فی حَلالِنا وَحَرامِنا وعَرَفَ اَحْکامَنا فَلْیَرْضَوا بِهِ حَکَماً فَاِنّی قد جَعَلتُهُ عَلَیْکُم حاکماً۔۔[21] امام فرماتے ہیں کہ جو شخص تم میں سے ہماری حدیث کو بیان کرتا ہو اورہمارے حلال وحرام میں صاحب نظر اورتوجہ کرتا ہو اورہمارے احکام کو جانتا ہوتو اس کو اپنا حاکم قراردینا کہ تحقیق میں نے اسے تم پرحاکم قراردیا ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام ایک رہبر کےلیے علم اورآگاہی کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں :ثم انظر فی امورعمالک فاستعملھم اختبارا ولاتولھم محاباۃ واثرۃ فانھما جماع من شعب الجور والخیانۃ وتوخ منھم اھل التجربۃ والحیاء ؛اس کے بعد اپنے عاملوں کے معاملات پر بھی نگاہ رکھنا اورانہیں امتحان کے بعد کام سپرد کرنا اورخبردار تعلقات یا جانبداری کی بنا پر عہدہ نہ دے دینا کہ یہ باتیں ظلم اورخیانت کے اثرات میں شامل ہیں  اوردیکھو کہ جو تجربہ کار اورحیاء والے ہوں ان کو اختیار کرنا  ۔۔[22]

کیونکہ ملکی سرمایہ کو اصراف سے بچانے کا ایک راستہ یہی ہے کہ حکومتی عہدے انہیں کے سپردکیے جائیں جو اس کا عالم اورماہر ہو ورنہ انجان وزیر حد سے زیادہ امکانات کو استعمال کرے گا اوراس کا نتیجہ بھی کیفیت اورکمیت کے لحاظ سے بہت ضعیف ہوگا  ایک وزیر صنعت وتجارت اوردوسرے شعبوں میں اپنے قیمتی تجربات کے ذریعے بہت سی ملکی مشکلات کو حل کرسکتا ہے اورضروری ہے کہ کسی کو ایک عہدے کےلیے منتخب کرنے سے پہلے اس کے سابقہ کار کو مدنظررکھتے ہوئے اس کا امتحان کیاجائے کہ وہ کتنا تجربہ رکھتا ہے  حضرت علی علیہ السلام بھی اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :والقدم فی الاسلام المتقدمۃ ،فنھم اکرم اخلاقا واصح اعراضا  ؛ (اے مال عہدہ ان کو دینا )جن کہ پہلے اسلام کےمورد میں خدمات ہوں کہ ایسے لوگ خوش اخلاق اوربے داغ عزت والے ہوتے ہیں ۔ان کے اندر فضول خرچی کی لالچ کم ہوتی ہے ۔[23]

 (۳):سادگی کے ساتھ زندگی بسر کرنا

رہبری اورحکمرانی کے عہدے کو قبول کرنے سے ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے جوانسان کو ابھارتی ہیں کہ نچلے طبقہ کی طرح زندگی گزارے تاکہ  ان کے درد کو سمجھ سکے اورپھران کی مشکلات کو دورکرنے کی کوشش کرسکے ۔

حضرت علی علیہ السلام اس مقام پر اپنے عمل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :وان امامکم قد اکتفی من دنیاہ بطمریہ ،ومن طعمہ بقرصیہ ۔الاوانکم لاتقدرون علی ذلک ،ولکن اعینونی بورع واجتہاد؛یاد رکھ کہ تیرے امام نے اس دنیا سے دو پرانے کپڑے اوردوروٹیوں پر راضی رہا ہے خدا کی قسم تم اس پر قدرت نہیں رکھتے لیکن پرہیز گاری اورکوشش کے ذریعے میری مددکرو۔[24]

نھج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۲۰۹میں امام علی علیہ السلام عاصم بن زیاد جو رہبانیت اختیار کرچکا تھا امام علیہ السلام نے اس کو نصیحت کی تو وہ حیران ہوگیا کہ امام علی علیہ السلام جیسا زاھد مجھے رہبانیت سے روک رہا ہے تو امام علی علیہ السلام نے  ایک تاریخی جملہ کہا کہ جس سے قیادت اورحکمرانی کا فلسفہ روز روش کی طرف آشکار ہے امام نے فرمایا:ان اللہ تعالی فرض علی آئمۃ العدل ان یقدروا انفسھم بضعۃ الناس کیلایتبیع بالفقیر فقرہ !پروردگار نے آئمہ حق پر فرض کردیا ہے کہ اپنی زندگی کا پیمانہ کمزورترین انسانوں کو قراردیں تاکہ فقیر اپنے فقرکی بنا پر کسی پیچ وتاب کا شکار نہ ہو۔[25]

 (۴):ذہانت اورسیاسی بصیرت

رہبرکی صفات میں سے ایک جو اپنی جگہ پر حائزاہمیت ہے رہبر کی ذہانت اورسیاسی بصیرت ہے جس کی وجہ سے رہبر حسن  تدبیر کے بغیر کاموں کو انجام نہیں دیے گا اوراہداف تک پہنچنے کےلیے چارہ جوئی کرےگا اورکاموں کو درست سمت میں چلائے گا حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی حسن تدبیر سے مصرکے حاکم سے کہا کہ جو سات سال خوشحالی کے ہیں ان میں کھانے کی اشیاء کو بچایا جائے ان سات سالوں کے لیے جو آئندہ آئیں گے اورحضرت علی علیہ السلام کے کلام میں بھی ایسی چیز ملتی ہے کہ ایک حاکم ان صفات سے آراستہ ہونا چاہیے غررالحکم میں  حسن تدبیر کو حکمرانی کے قوام سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : من حسنت سیاسته دامت ریاسته ۔[26]اسی طرح اگر حسن تدبیر نہ ہوتو اس کا لازمہ حکومت اورحکمرانی کا نابود ہونا ہے : سوء التدبیر سبب التدمیر[27]اسی طرح جب مصر کی حکومت کے لیے مالک اشتر کا انتخاب کیا تومختلف وزراء کو انتخاب کرنے کے بارے میں  فرمایا: و اجعل لراس کل امر من امورک راسا منهم لا یقهره کبیرها و لا یتشتت علیه کثیرها ؛اپنے ہرحکومتی کاموں کے لیے وزراء کو انتخا ب کرنا کہ جن میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں ایک یہ کہ کام کا زیادہ ہونا اسے مغلوب اور ناتوان نہ کردے اوردوسرایہ کہ کام کا زیادہ ہونا اس کو غمگین نہ کردے ۔[28] یقینا حسن تدبیر رکھنے والاحکمران کبھی پریشان نہیں ہوگا اورہر کام کو احسن طریقے سے انجام دے گا ۔ اس شرط کی اہمیت عصرحاضر میں زیادہ روشن ہوجاتی ہے جہاں داخلی اورخارجی دشمنوں اوریجنسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورحسن تدبیر سے آراستہ حاکم کبھی مغلوب نہیں ہوگا اور بہت سی مشکلات کا مقابلے کے وقت اپنے حواس اورنفس پر مسلط رہے گا ۔

(۵):شجاعت  اورپایداری

رہبر کی صفات میں سے جس کی اپنی جگہ پر بہت اہمیت ہے شجاعت اورمستحکم ارادہ ہے ۔حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو نصیحت فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے حکومتی ڈھانچے میں ان لوگوں کو شامل کریں جو شجاع  ہوں اوردشمن کا شجاعت اوربہادری کے ساتھ مقابلہ کریں نہ یہ کہ خود ہی بھاگ جائیں یا قدرتمندلوگوں کے ڈر کی وجہ سے ان کے تابع ہوجائیں جو حکومت اورعوام کےنقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔ثم اھل النجدۃ والشجاعۃ  پھر وہ  جو رحم دل اورقدرتمند ودولتمند  لوگوں کے ساتھ ،سختی اوربہادری سے پیش آئیں ۔[29]

اسی طرح اگر حکمران اوررہبر مستحکم ارادہ کا مالک ہوگا تواپنی حکمرانی اورحکومت کے تمام ایام اورخصوصا مشکل دنوں میں اپنی پالیسیوں کو واضح اوربلاروک ٹوک جاری کرسکتا ہے جس کااچھا اثر نہ صرف عوام پر پڑے گا بلکہ اس کے حکومتی ڈھانچہ میں بھی کوئی تزلزل پیدا نہیں ہوگا

علی علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں :لاتجعلوا علمکم جھلا،ویقینکم شکا؛اذاعلمتم فاعملوا،واذا تیقنتم فاقدموا۔

خبرداراپنے علم کو جہل نہ بناواوراپنے یقین کو شک قرارنہ دو ،جب جان لو تو عمل کرو اورجب یقین ہوجائے تو قدم آگے بڑھاو۔[30]

(۶):امانتداری

بلاشبہ امانت ایسی صفت ہے کہ جس کی اسلامی تعلیمات میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اورجب اسی صفت کا ذکر رہبری اورقیادت اورنہج البلاغہ میں حکمرانو ں کے بارے میں کیا جاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ یہ قیادت اوررہبری ایک قسم کی الہی امانت ہے صحیح طریقے سے رہبری کرنا اوراسلامی قوانین کا جاری کرنا ہی امانت داری ہے ،امام علی علیہ السلام اشعث بن قیس کو مخاطب کرتے ہوئے اسی بات کی طرف اشارہ کرتےہیں کہ :یادرکھ وزارت کا عہدہ تیرے کھانے اورپینے کا وسیلہ نہیں ہے بلکہ ایک امانت ہے جو تیری گردن پر ہے ۔

امانتداری کا دوسرا رخ بیت المال کے حوالے سے ہے کہ حاکم اس میں خیانت نہ کرے اوراس کو صحیح طریقے سے خرچ کرے اس حوالے سے حضرت علی علیہ السلام نے بہت سخت اورمحکم رویہ اپنایا حتی کہ بعض لوگ مخالف بھی ہوگئے ۔حضرت علی علیہ السلام نے ہر اس شخص کو حکومتی ڈھانچے میں شامل کرنے سے انکار کردیا کہ جس کی شہرت خیانت کے حوالے سے رہی ہو اگر کوئی پہلے حاکم تھا اورخائن تھا تو سب سے پہلا کام اس کو عزل کرناتھا جس کی وجہ سے بہت سی مشکلات پیدا ہوگئیں لیکن بیت المال کا تعلق عوام سےہے جس کو قطعا برداشت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مولائے کائنات کی نگاہ میں بدترین خیانت وہ ہے جو لوگوں کے ساتھ ہو ۔امیرالمومنین (علیه السلام)مکتوب نمبر ۲۶میں اپنے بعض وزراء کو خط لکھتے ہوئے یہی چیزبیان کرتے ہوئے  ارشاد فرماتے ہیں کہ :ومن استھان بالامانۃ ورتع فی الخیانۃ [31]۔جس شخص نے بھی امانت کو معمولی تصور کیا اورخیانت کی چراگاہ میں داخل ہوگیا اوراپنے نفس اوردین کو خیانت کاری سے نہیں بچایااس نے دنیا میں بھی اپنے کو ذلت اوررسوائی کی منزل میں اتاردیا اورآخرت میں تو ذلت ورسوائی اس سے بھی زیادہ ہے اوریادرکھو کہ بدترین خیانت امت کے ساتھ خیانت ہے ۔۔

یہانتکہ امام علی علیہ السلام مالک اشتر کو واضح الفاظ میں فرماتےہیں کہ اگر کوئی امانت میں خیانت کرے اوراس کی خیانت ثابت ہوجائے تو اس سے مال واپس چھیننے کے ساتھ ساتھ جسمانی طورپر بھی سزا دینا اوراس کو معاشرے میں بھی ذلیل وخوار کرنا تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے ۔ فبسطت علیہ العقوبۃ فی بدنہ ،اخذتہ بما اصاب من عملہ ،ثم نصبتہ بمقام المذلۃ ،ووسمتہ بالخیانۃ ،وقلدتہ عارالتھمۃ ۔اوراست جسمانی اعتبار سے بھی سزادینا اورجو مال حاصل کیاہے اسے چھین بھی لینا اورمعاشرے میں ذلت کے مقام پر رکھ کر خیانت کاری کے مجرم کی حیثیت سے پہچنوانااورننگ ورسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا۔[32]اسی طرح اسی خطبہ میں ایک اورجگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی عہدے کی کرسی حاصل کرنے کےلیے اپنے آپ کو امین اورنیک ظاہر کرتے ہیں خبردار ان کا ظاہری پن تجھے دھوکہ نے بلکہ پہلے ان کا امتحان لینا کہ واقعی وہ امانتدار ہیں ان کا آپ سے پہلے حکمرانوں کے ساتھ سلوک کیسا تھا ۔۔[33]

 (۷):صداقت

صداقت کی صفت کی اہمیت رسول اکرم  صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث سے لگائی جاسکتی ہے کہ آپ  (صلی الله علیه و آله وسلم)نے فرمایا:لاتنظروا الی کثرۃ صلاتھم وصومھم وکثرۃ الحج والمعروف،وطنطنھم باللیل ،ولکن انظروا الی صدق الحدیث واداء الامانۃ ۔کہ لوگوں کی زیادہ نمازیں ،ان کے روزے ،ان کے حج اورنیکیاں اوررات کو انکی مناجات کو نہ دیکھو بلکہ ان کی صداقت اورامانت کی طرف نگاہ کرو ۔[34]

امام علی علیہ السلام نے بھی نہ صرف صداقت سے حکومت کرنے کی سفارش کی بلکہ خود صداقت پر مبنی ایک ایسی الھی حکومت قائم کی جس کی مثال نہیں ملتی ۔اور اسی وجہ سے علی علیہ السلام کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا استاد شہید مطہری لکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت میں تیسری مشکل امام کی سیاست میں صداقت اورصراحت کا ہونا تھا کہ حتی بعض اپنے لوگ بھی اس کوپسند نہیں کرتے تھے اورکہتے تھے کہ سیاست میں اتنی صداقت نہیں ہوناچاہیے بلکہ سیاست کی چاشنی تو جھوٹ اوردھوکہ ہے ۔اسی وجہ سے علی علیہ السلام کو اچھاسیاستدان نہیں سمجھتے تھے اسی وجہ سے امیرکائنات (علیه السلام) نے بھی واضح الفاظ میں فرمایا:واللہ مامعاویہ بادھی منی ولکنہ یغدرویفجرولو لا کراھیۃ الغدرلکنت من ادھی الناس ولکن کل غدرۃ فجرۃ وکل فجرۃ کفرۃ ۔۔۔۔۔

معاویہ مجھ سے زیادہ سیاستدان اورذہین نہیں ہے لیکن وہ دھوکااورفریب دیتا ہے اورگناہ کرتا ہے اگر دھوکا اورفریب گناہ نہ ہوتا تو میں زیادہ ذہین اورسیاستمدار ہوتا لیکن ہرمکروفریب گناہ ہے اورہرگناہ کفر ہے  ۔[35]

مذکورہ بالامطلب سے واضح ہوگیا کہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت صداقت کے عنصرپر قائم تھی اورصداقت کی اہمیت کے پیش نظر مالک اشتر کو بھی ارشاد فرماتےہیں کہ :وایاک والمن علی رعینک باحسانک او التزید فیما کان فعلک اوان تعدھم فتع موعدک بخلفک ان المن یبطل الاحسان والتزید یذھب بنورالحق ،والخلف یوجب المقت عنداللہ ۔[36]

اس مطلب سے واضح ہوتا ہے کہ حاکم صرف حکومت کی سیٹ تک پہنچنے کے لیے جھوٹے وعدے اورلوگوں کو فریب نہ دے لیکن آج کی سیاست میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی لوگ اپنے مذموم اہداف تک پہنچنے کےلیے جھوٹے وعدے،فریب اوردھوکے کا سہارا لیتے ہیں اورسیاست کو اسی چیز کا نام دیتے ہیں ۔

(۸):حسن سابقہ

امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں ایک وزیر کا حسن سابقہ رکھنا بہت اہم ہے اگر اس کا ماضی اس کے برے اعمال ،ظلم وستم ،خیانت اورفریب کو آشکارکرنے والا ہے تو وہ رہبری اورقیادت کے لائق نہیں ہے اوراس سلسلے میں علی علیہ السلام کا موقف سخت تھا اوربہت سی مشکلات اسی وجہ سے پیدا ہوئی امام کی نگاہ میں بہت سے فرمانراو ایسے تھے جو فرمانروائی کے قابل نہیں تھےعلی علیہ السلام نے ایک لحظہ بھی انہیں ان کے مقام پر برداشت کرنا گوارا نہ سمجھا اوردوسرا اپنے وفادارساتھیوں کو بھی اسی چیز کی تاکید فرماتے ۔مالک اشتر کو فرماتے ہیں :ان شرّوزرائک من کان لاشرار قبلک وزیرا ،ومن شرکھم فی الاثام فلایکونن لک بطانۃ ۔۔۔بدترین وزراء وہ لوگ ہیں کہ جو پہلے برے لوگوں کے وزیرتھے اوران کے گناہوں میں شریک تھے پس ایسا نہ ہو کہ ایسے افراد تمہارے ہم راز بن جائیں کیونکہ گناہگاروں کے یاورتھے اورظالم لوگوں کی مدد کرنے والے تھے پس تم ایسے افراد تلاش کرو جو فکری حوالے سے قوی اورمعاشرے میں جانی پہچانی شخصیات ہوں جنہوں نے کسی ظالم کی مددنہیں کی ایسے لوگ تیری نسبت مھربان تر ہوں گے ۔۔ان کو اپنی نجی اورسرکاری محفلوں میں دعوت کرو ۔[37]

(۹):ریاست طلبی سے پرہیز

ریاست طلبی ایک ھوای نفسانی ہے اس لیے امام علی نے مالک کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :ولاتقولن :انی مومر آمرفاطاع فان ذلک ادغال فی القلب ومنھکۃ للدین ۔ اورنہ کہنا :میں حاکم ہوں اورحکم دیتا ہوں اورحتما حکم جاری ہو ؛کیونکہ ایسی صفات دل  کے فاسد اوردین اورحکومت کی نابودی کا سبب بنتا ہے ۔[38]امام علی مالک کو فرماتے ہیں کہ خدا کی قدرت اورعظمت کو ذہن میں رکھ اورجب حاکم ہونا تجھے مغرور بنانے لگے تو خدا کی قدرت اورعظمت کی طرف نگاہ کرنا ۔اسی طرح امام مالک کو ارشاد فرماتے ہیں کہ اس حکومت کو ایک اورنگاہ سے دیکھ اوروہ یہ ہے کہ یہ حکومت ایک امتحان ہے کہ خدا نے اس کے ذریعے لوگوں پر اس کو حاکم بنا کر اس کا امتحان لیتا ہے ۔[39]

 ب:اجتماعی صفات

۱:خوش خلقی :

خوش خلقی کی اہمیت کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت کافی ہے کہ فرمایا:لوکنت فظاغلیظ القلب لانفضوا من حولک  [40]

 اور خود امام علی علیہ السلام کا یہ فرمان بھی اس کی اہمیت کو دوچندان کردیتا ہے کہ فرمایا:لاقرین کحسن الخلق ،خوش خلقی جیساکوئی ساتھی نہیں ۔[41]

نہج البلاغہ میں اس صفت کو ایک انسان کا امتیاز خاص بیان کیا گیا ہے امام علی علیہ السلام محمد بن ابوبکر اورمالک اشتر کو فرماتے ہیں کہ محبت ،مہربانی اورشاداب چہرے کے ساتھ لوگوں سے ملیں اوران کے مسائل سے آگاہی پیدا کریں امام علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :وأشعرقلبک الرحمۃ للرعیۃ ،والمحبۃ لھم ،واللطف بہم ،ولاتکونن علیہم سبعاضاریاتغتنم اکلھم،(نامہ ۵۳،ص۴۰۳،۴۰۴ترجمہ دشتی )

۲:تواضع وفروتنی

تواضع اورفروتنی ایسی صفات ہیں کہ جو ہرشخص کے لیے پسندیدہ ہیں حضرت علی علیہ السلام خطبہ نمبر ۱۹۲میں تواضع اورفروتنی کو انسان کی دنیوی اوراخروی کامیابی کا راز بتاتےہوئے لوگوں کو متوجہ کرتےہیں کہ اگر غرور اورتکبر کوئی اچھی چیز ہوتی تو خدا اپنے پیغمبروں کے لیے اسے انتخاب کرتا در حالانکہ خدا نے پیغمبروں کو تکبر اورغرور سے منع فرمایا ہے اورپیغمبران خود مومنین کے آگے تواضع اورفروتنی کرتے امام فرماتےہیں :ورضی لھم التواضع ،[42]خداوندمتعال نے انبیاء کے لیے تواضع کو انتخاب کیا ہے اسی طرح حکمت ۱۱۳میں امام تواضع کو انسان کی شخصیت کے عنوان سے یاد کرتے ہیں کہ تکبر اورغرور سے انسان کی شخصیت ظاہر نہیں ہوتی بلکہ تواضع سے ہوتی ہے فرماتے ہیں کہ لاحسب الاالتواضع [43]

ممکن ہے بعض لوگ جیسے رہبر اورحاکم ہیں کہ کسی عہدے پر پہنچ کر تکبر جیسی بیماری میں مبتلاء ہوجائیں جو ان کی بربادی اورنابودی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اسی لیے امام علی علیہ السلام مالک اشتر کو ارشاد فرماتے ہیں :اپنی رعیت کے سامنے تواضع اورانکساری سے پیش آنا۔[44]اور اسی طرح اگر کوئی سخت بات کہہ دے تو اس کو برداشت کرنے کی طاقت ایک حاکم میں ہونی چاہیے امام فرماتے ہیں :ثم احتمل الخرق منھم والعی ،ونح عنھم الضیق والانف یبسط اللہ علیک بذلک اکناف رحمتہ ؛ان میں سے اگر کوئی بدکلامی کا مظاہرہ کرے تو اسے برداشت کرو اوردل تنگی اورغرور کو دوررکھو تاکہ خدا تمھارے لیے رحمت کے دروازے کھول دے[45]

۳:لوگوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والا

حضرت امیر کے نورانی کلام سے ایک اورصفت جو ایک رہبر اورحاکم کے لیے ضروری ہے اورجس کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے وہ ہے لوگوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنا ۔کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے جس سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں جن میں عیب بھی ہوسکتے ہیں ،کیونکہ صرف معصوم ہستیاں ہی ایسی ہے اس دنیا پر جن میں کوئی عیب نہیں ورنہ دوسرے لوگ عیبوں سے بالکل پاک نہیں ہیں اسی لیے حاکم خدا کی اس(ستارالعیوب )صفت کا مظہر ہونا چاہیے جس طرح وہ خود امید رکھتا ہے کہ خدا اس کے عیبوں کو چھپائے رکھے تو وہ خدا کی مخلوق کے عیبوں پر پردہ ڈالے ،صرف یہ نہیں بلکہ مولائے کائنات کی نگاہ میں ایک حاکم ایسا ہونا چاہیے جو نہ خود عیب لوگوں کے بیان کرے اورنہ ایسے لوگوں کو اپنے پاس بیٹھنے دے جو دوسروں کے عیبوں کو تلاش کرکے انہیں رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ : فان فی الناس عیوبا،الوالی احق من سترھا ،فلاتکشفن عماغاب عنک منھا ،فانما علیک تطھیرما ظھرلک ۔۔۔۔۔فان الساعی غاش،وان تشبہ بالناصحین بہرحال لوگوں میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں اوران کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری خود والی پر ہے لہذاخبر دار جو تمہارے سامنے نہیں ہے اس کا انکشاف نہ کرنا ۔۔جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ان تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو جن اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگارسے تمنا رکھتے ہو ہرچغل خور کی تصدیق میں عجلت سے کام نہ لینا کہ چغل خور ہمیشہ خیانت کارہوتا ہے چاہے وہ مخلصین ہی کے بھیس میں کیوں نہ ہو[46]

باب سوم :

رہبر اورحاکم کی ذمہ داریاں

۱:عدل وانصاف کا قیام

عدالت ایک ایسا مقولہ ہے جو اس دور میں زیادہ تر حضرت علی علیہ السلام کی سیرت اورخلافت سے مربوط سمجھا جاتا ہے اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے عدالت کے قیام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا اوراس راستے میں اتنی مشکلات اٹھائیں کہ جو عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔

عدالت ایک چیز ہے کہ جو خدا کو پسند ہے اورخدا نے حکمرانوں پر یہ بات بھی فرض کی ہے کہ وہ عدالت کے قیام میں کوشش کریں حضرت علی علیہ السلام عدل کے قیام کو رہبروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک سے تعبیر کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ :وان افضل قرۃ عین الولاۃ استقامۃ العدل فی البلاد۔[47]کہ تحقیق والیوں کے حق میں بہترین آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان یہ ہے کہ ملک بھر میں عدل وانصاف  کا قیام ہے ۔البتہ رہبروں اورحکمرانوں کا اولین فریضہ بھی ہے تاکہ ظلم وستم سے نجات پاتے ہوئے عوام اورلوگوں تک ان کے حقوق پہنچتےرہیں ۔چاہے اس سے بعض خواص کا طبقہ ناپسندیدگی کا اظہار ہی کیوں نہ کرے اگر انصاف کا دامن پکڑا ہوا ہے تو اس کو انجام دو  ۔امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

ولیکن احب الامور الیک اوسطھا فی الحق واعمھا فی العدل اجمعھالرضی الرعیتہ۔ تمہارے لیے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہیے جو حق کے اعتبار سے بہترین ،انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اوررعایاکی مرضی سے اکثریت کے لیے پسندیدہ ہو کہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے  [48]     اسی طرح فرماتےہیں کہ    انصف اللہ ،وانصف الناس من نفسک ومن خاصۃ اھلک ،ومن لک فیہ ھوی من رعیتک فانک لاتفعل تظلم ۔اپنی ذات اپنے اہل وعیال اوررعایا میں جن سے تمھیں تعلق خاطر ہے سب کے سلسلہ میں اپنے نفس اوراپنے پروردگار سے انصاف کرنا کہ ایسا نہ کروگے تو ظالم ہوجاوگے[49]

حضرت علی علیہ السلام مالک اشترکو خطاب کرتےہوئے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ارشادفرماتےہیں کہ :لن تقدس امۃ لایوخذ للضعیف فیھا حقہ من القوی غیرمتتعتع ۔وہ امت پاکیزہ کردارنہیں ہوسکتی جس میں کمزور کو آزادی کے ساتھ طاقتور سے اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے ۔[50]

۲:اقرباء پروری سے پرہیز

ایک حاکم کے لیے بہت ہی خطرناک چیز یہی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں اورقریبی ساتھیوں کو اہمیت دے اوران میں ہی عہدے تقسیم کرے چاہے ان میں لیاقت ہویا نہ ؟ اگروہ اس لائق ہیں تو اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے لیکن نالائق لوگوں کو عہدے دینا اس بنا پر کہ وہ حاکم کے رشتہ داراوراس کے قریبی ہیں اورانہیں میں بیت المال تقسیم کرکے دوسرے لوگوں میں فرق کرنا یہ درست نہیں ہے اورتاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی ایسا کیا چاہے وہ خلیفہ ہی کیوں نہ تھا لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے دکھائی دیا اس لیے امام ایک رہبر کی ذمہ داریوں میں سے شمار کرتے ہیں کہ وہ اقرباپروری سے پرہیز کرے ۔

حضرت علی علیہ السلام کو مصقلہ بن ہبیرہ الشیبانی کی شکایت ملی کہ وہ بیت المال کو اپنے رشتہ داروں اورقریبی آدمیوں میں تقسیم کرتا ہے حضرت علی علیہ السلام نے جب یہ سنا تو بہت سخت الفاظ میں ایک خط لکھا جس میں فرماتے ہیں :انک تقسم فی ء المسلمین الذی حازتہ رماحھم وخیولھم ۔۔۔۔۔۔ولتخفن  عندی میزانا۔ (مجھے خبر ملی ہے کہ )تم مسلمانوں کے مال غنیمت کو جسے ان کے نیزوں اورگھوڑوں نے جمع کیاہے اورجس کی راہ میں ان کا خون بہایا گیا ہے اپنی قوم کے ان بدوں میں تقسیم کررہے ہو جو تمھارے خیرخواہ ہیں ،قسم اس ذات کی جس نے دانہ شگافتہ کیا ہے اورجانداروں کو پیدا کیا ہے اگر یہ بات صحیح ہے تو تم میری نظروں میں انتہائی ذلیل ہوگئے اورتمہارے اعمال کا پلہ ہلکاہوجائے گا ۔[51]

۳:مشورت

انسانی معاشروںمیں مشورت اوردوسروں کے تجربات اورافکار سے استفادہ کرنا ایک بنیادی حیثیت کی حامل چیز ہے اسی وجہ سے آج دنیا میں ہرحکمران کے ہرشعبے میں کوئی نہ کوئی مشیر ہوتا ہے اسلامی تعلیمات میں بھی مشورت کو بہت اہمیت حاصل ہے خود خاتم المرسلین کی زندگی بھی اس پر گواہ ہے مختلف جنگوں میں اصحاب سے مشورہ لینا پیغمبر اپنے لیے ضروری سمجھتے تھے اورعلی علیہ السلام مشورت کو ایک اہم پناہگاہ سمجھتے ہوئے فرماتےہیں کہ :ولامظاھرۃ اوثق من المشاورۃ مشورت سے زیادہ مضبوط کوئی پناھگاہ اورپشت پناہ نہیں ہے[52]

حضرت امام علی علیہ السلام مالک اشتر کے وظائف میں سے ایک مشورت کو شمارکرتے ہیں کہ علماء اورحکماء کے ساتھ بیٹھ کر ان سے مشورہ لے تا کہ جو چیز ملک کی مصلحت  اورفائدےمیں ہے اس کو انجام دے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ جوحکمران اپنے آپ کو مشورت سے بے نیاز سمجھتے ہیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے اورلغزشوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے ۔امام علی علیہ االسلام عھدنامہ مالک میں بعض لوگوں کی صفات بیان کرکے مالک کو منع فرمارہے ہیں کہ ان لوگوں کے ساتھ مشورہ مت کرنا فرمایا:ولاتدخلن فی مشورتک بخیلا یعدل بک عن الفضل ویعدک الفقر،ولاجبانایضعفک عن الامور ولاحریصایزین لک الشرۃ بالجوردیکھو اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا کہ وہ تم کو فضل وکرم کے راستہ سے ہٹادے گا اورفقروفاقہ کا خوف دلاتارہے گا اوراسی طرح بزدل سے مشورہ نہ کرنا کہ وہ ہرمعاملہ میں کمزور بنادے گا اورحریص سے بھی مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالمانہ طریقہ سے مال جمع کرنے کو بھی تمہاری نگاہوں میں آراستہ کردے گا ۔[53]

۴:عوام کی طرف توجہ کرنا اوران سے اچھاسلوک

ایک اہم وظیفہ اورذمہ داری جو حاکم اوررہبر پر آتی ہے  اورایسا موضوع ہے کہ جس پر مستقل طورپر بحث کی جاسکتی ہے اورحضرت علی علیہ السلام نے مختلف زاویوں سے اس پر بحث کی ہے مثلا ان پر ظلم نہ ہونے دینا ،ان سے رابطہ رکھنا اورنگہبانو ں کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی نہ کرنا ،عوام سے زیادہ دنوں تک پوشیدہ نہ رہنا ،ان سے ٹیکس لیتے وقت ان کے حالات کو دیکھنا ،ان کی مشکلات کو حل کرنے کے بارے میں سوچنا ،اگر غلطی ہوجائے تو عوام سے معافی وغیرہ مانگنا وغیرہ یہ وہ اشارے ہیں کہ جن پر حضرت علی علیہ السلام نے اپنے کلام میں نہ صرف ان کے مثبت اثرات کو بیان کیا ہے وہاں ان کی طرف توجہ نہ کرنے سے جو ایک رہبر کےلیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ان کوبھی بیان کیاہے ہم یہاں صرف اشارہ کے طورپر ذکر کرتے ہیں ۔

حضرت علی علیہ السلام برخلاف دنیوی سیاستدانوں کے جو چند اثرورسوخ والے لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں اوراپنی ناقص عقل کے مطابق سوچتے ہیں کہ یہ حکمرانی کی کرسی ان کی وجہ سے ہے اورجب تک یہ راضی ہیں اس کی اس کرسی کو کوئی نہیں چھین سکتا امام اس غلط فہمی کو دورکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ خاص اثرورسوخ والے لوگ سب سے زیادہ تیری حکومت کو نقصان پہنچائیں گے یہ وہ لوگ ہیں جو عدالت برقرارکرنے کے مخالف ہیں ،جتنا بھی دو اتنا ان کے لیے کم ہے ،مشکلات کے وقت سب سے پہلے متزلزل نظرآتے ہیں یہاں تک کہ عوام کی خصوصیات تک پہنچتے ہیں اورفرماتے ہیں :

وانما عمادالدین ،واجماع المسلمین ،والعدۃ للاعداء،العامۃ من الامۃ ،فلیکن صغوک لھم ،ومیلک معھم  دین کا ستون ،مسلمانوں کی اجتماعی طاقت ،دشمنوں کے مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتےہیں لہذا تمھارا جھکاو انہیں کی طرف ہونا چاہیے اورتمھارا رجحان انہیں کی طرف ضروری ہے ۔[54]

جی ہاں عوام ہی رہبر کی اصل طاقت ہے عوام کو مطمئن رکھنا ان کی ضروریات کو پوری کرنا ،ان کے مسائل کو سننا رہبر کی ترجیحات میں شامل ہونی چاہییں تاکہ ضرورت مند اورمظلوم کھلم کھلا اوربغیر ہچکچاہٹ کے اپنا مدعی بیان کرسکے ۔امام علی علیہ السلام فرماتےہیں :وتجلس لھم مجلسا عاما۔۔۔۔حتی یکلمک متکلمھم ۔(فریادیوں کی فریاداورعوام کے مسائل سننے کے لیے )ایک عمومی مجلس کا انعقاد کرو اوراس خدا کے سامنے متواضع رہو کہ جس نے تجھے پیدا کیاہے اپنے تمام نگہبان ،پولیس ،فوج ،اعوان وانصار سب کو دوربٹھا دو تاکہ بولنے والاآزادی سے بول سکے اورکسی طرح کی لکنت کا شکار نہ ہو ۔[55] رعایا سے محبت اورنرمی سے پیش آنا ایک رہبر کا اولین فریضہ ہونا چاہیے مولائے کائنات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتےہیں :واشعر قلبک الرحمۃ للرعیۃ ،والمحبۃ لھم واللطف بھم ولاتکونن علیھم سبعاضاریا۔رعایا کے ساتھ مہربانی اورمحبت ورحمت کو اپنے دل کا شعار بنالواورخبر دار ان کے حق میں پھاڑکھانے والے درندے کی مثل نہ ہوجاناکہ انہیں کھا جانے ہی کو غنیمت سجھے ۔[56]

عوام میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کی بہت سی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں یہ رہبر اورحاکم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی کمزوریوں اوران کے عیبوں پر پردہ ڈالے امام علی علیہ السلام مالک کو مخاطب کرتےہوئے مکتوب ۵۳میں  ارشاد فرماتےہیں کہ :لوگوں کے ان تمام عیبوں کی پردہ پوشی کرتے رہے کہ جن عیبوں کی پردہ پوشی کا اپنے لیے خدا سے تمنا رکھتےہو ۔

اسی طرح ایک اوراہم مورد جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہے وہ ہے ٹیکس لینا ،اما م علی علیہ السلام اسی مورد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ دیکھو ٹیکس کا تعلق زمینوں کی آباد کاری سے ہے ایک حاکم ٹیکس کا حقدار اس وقت ہوسکتا ہے جب اس نے زمینوں کی آبادکاری میں مدد کی ہو ان کی مشکلات کو دورکیا ہو جس نے زمینوں کو آباد کیے بغیر ٹیکس لینے پر اصرار کیا اس نے شہروں کو برباد کیا ۔[57]

۵:دنیاکو ذخیرہ نہ کرنا

آج کے حکمرانوں کاطرزعمل یہ ہے کہ وہ حکمرانی یا کسی عہدے کو غنیمت شمارکرتے ہیں اوریہی سوچتے ہیں کہ انہی دنوں میں کئی سالوں کے لیے دولت جمع کرلیں لیکن حضرت علی علیہ السلام معاشرے میں فقراورغربت کے سبب کو یہی طرزعمل بتاتے ہوئے ارشادفرماتےہیں کہ :جہاں بھی غربت اورفقرآجائے نابودی بھی حتمی ہے اورغربت معاشرے میں اس وقت آتی ہے جب حکمران دولت جمع کرنے میں لگ جائیں اوراپنی کرسی کے جانے کا خوف پیدا ہوجائے ۔حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :وانما یوتی خراب الارض من اعواز اھلھا وانما یعوز اھلھا لاشراف انفس الولاۃ علی الجمع ۔۔۔زمینوں کی بربادی اہل زمین کی تنگدستی سے پیدا ہوتی ہے اورتنگدستی کا سبب حکام کے نفس کا جمع آوری کی طرف رجحان ہوتا ہے اوران کی یہ بدظنی ہوتی ہے کہ حکومت باقی رہنے والی نہیں ہے اوروہ دوسرے لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل نہیں کرتے ۔[58]

۶:وزراء کی تشویق

حکومت ایک ماشین کی مانند ہے کہ جس کا ہر وزیر حکومت کی  اس مشینری کو چلانے میں حصہ دار ہے اما م علی علیہ السلام کی نظر میں  ایک حاکم کے لیے جو حکومت کی باگ ڈورسنبھالے ہوئے ہے ، ایک وظیفہ یہ بھی ہے کہ وزراء کی تشویق کرے جس کے دو اہم فائدے یہ ہیں ایک یہ جن وزراء کی تشویق ہوئی ہے ان کو حوصلہ ملے گا کہ ان کی محنت رایگان نہیں گئی اوردوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ دوسرے وزراء اورحکومتی اہل کار بھی دیکھیں گے تو رشک کریں گے کہ ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے ۔

امام علی علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :وواصل فی حسن الثناء علیھم ،وتعدیدما ابلیٰ ذوو البلاء منھم ،فانّ کثرۃ الذکر لحسن افعالھم تھزالشجاع ،وتحرص الناکل ،انشاء اللہ تعالی ۔اوربرابر(جوانوں اوروزراء کے ) کارناموں کی تعریف کرتے رہنا بلکہ  ان کےعظیم کارناموں کا شمار کرتے رہنا کہ ایسے کارناموں کےتذکرے بہادروں کو جوش دلاتے ہیں اورپیچھے رہ جانے والوں کو ابھارتےہیں ۔  [59]

۷:مصاحبت کے لیے اچھے لوگوں کا انتخاب کرنا

ایک اوراہم وظیفہ جو ایک رہبر اورحاکم کا بنتا ہے وہ اپنے آس پاس بیٹھے لوگوں پر توجہ ہے کیونکہ بسااوقات ایک رہبر کی شکست اوراسکی حکومت کاتختہ الٹنے کا سبب یہی لوگ بنتے ہیں لوگوں میں رہبرکی بدنامی کاسبب بھی یہی لوگ ہوتے ہیں  اسی لیے  رہبرکے لیے ضروری ہے کہ اس کے اردگرد کے لوگ متقی اورپرہیزگارہونے چاہییں ۔امام علی علیہ السلام مالک کو خبردارکرتے ہوئے  ارشادفرمایا:والصق باھل الورع والصدق،ثم رضھم علی الایطروک ولایبححوک بباطل لم تفعلہ اپنا قریبی رابطہ اہل تقوی اوراہل صداقت رکھنا اورانہیں بھی اس امر کی تربیت دینا کہ بلاسبب تمہاری تعریف نہ کریں اورکسی ایسے بے بنیاد عمل کا غرورنہ پیدا کرائیں جو تم نے انجام نہ دیا ہو کہ زیادہ تعریف سے غرورپیدا ہوتا ہے ۔[60]

رہبر کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اردگرد رہنے والے لوگ سب برابر نہیں ہونے چاہییں بلکہ نیک اوربد میں فرق ہونا چاہیے اس کی رفتار ،اس کے کردار وغیرہ میں یہ چیز ظاہر ہونی چاہیے  امام فرماتے ہیں :ولایکونن المحسن والمسی ء عندک بمنزلۃ سواء ،فان فی ذلک تزھیدا لاھل الاحسان فی الاحسان ،وتدریبا لاھل الاساء ۃ علی الاساء ۃ !دیکھو خبردار نیک اوربدکردار تمہارے نزدیک یکساں نہیں نہ ہونےپائیں کہ اس طرح نیک کرداروں میں نیکی سے بددلی پیدا ہوگی اوربدکرداروں میں بدکرداری کا حوصلہ پیدا ہوگا ۔[61]

باب چھارم :صالح رہبری اورقیادت کے آثاروبرکات

اگرچہ اس موضوع پر سیرحاصل بحث نہیں جاسکتی البتہ صرف اس لیے کہ یہ عنوان بھی تشنہ کام نہ رہے صرف اشارہ کرتے ہیں ۔خطبہ نمبر ۴۰میں امام علی علیہ السلام خوارج کے اعتراض کے جواب میں فرماتےہیں کہ آو میں بتاوں کہ حکومت اسلامی کے آثاروبرکات کیا ہیں فرمایا:

۱:مومنین کے لیے امنیت اورآزادی کاحاصل ہونا تاکہ اپنے واجبات کو اچھے طریقے سے انجام دے سکے (یعمل فی امرتہ المومن)[62]

۲:کافر اورمشرک لوگ بھی اپنے فائدے اٹھا سکیں گے اوران پر کوئی جبرنہیں ہوگا۔(ویستمتع فیھا الکافر)[63]

۳:بیت المال کو ایمان داری سے جمع کیا جائے جو لوگوں کی خوشحالی اوران کی مشکلات کے کم ہونے کا سبب بنے گا (یجمع بہ الفیء )[64]

۴:نیک رہبر کی بدولت معاشرتی امنیت حاصل ہوگی     (تامن بہ السبل )[65]

۵:مظلوم کا حق ایک ظالم سے فورا لے لیاجائے اورمظلوم کی فریاد کو سنا جائے گا چاہے ظالم کتنا ہی طاقتورکیوں نہ ہو (یوخذبہ للضعیف من القوی)[66]

حالانکہ دنیوی اورغیر الہی حکومتوں میں ایسا ممکن نہیں ہے ایسا تب ہوگا جب رہبر اورقائد صالح ہوگا اسی طرح عھدنامہ مالک اشتر میں اگر غورکریں تو امام نے خط کے شروع میں الہی اوراسلامی حکومت کہ جس کا رہبر صالح اورنیک ہو اس کی برکات کی طرف اشارہ کیا ہے مثلا

۱:شہروں کی آبادکاری صرف صالح اورنیک رہبری کا شاخسانہ ہے (جبایۃ خراجھا)[67]

۲:خداکے دشمنوں سے جنگ کرنا نہ کہ ان کے آگے سر جھکانا (جھاد عدوھا )[68]

۳:لوگوں کی اصلاح ،اچھی تربیت اوران کے رشد کی طرف توجہ کرنا (واستصلاح اھلھا )[69]

یہ مختصر سی تحریریقینا اس موضوع کا حق ادانہیں کرسکتی کیونکہ مطالب کے بحرعمیق نھج البلاغہ سے صرف چند سطور کا انتخاب کیاگیا ہے اگرچہ اس موضوع پرسیر حاصل بحث کرنے کےلیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن صرف اس موضوع کا تعارف کرانے کے لیے یہ مختصر تحریر لکھی گئی ہے  ۔

یہ مضمون اسلامک تھاٹ کے مقالہ نوسی مقابلہ کےلیے لکھا گیا تھا نام کے ساتھ حوالہ دینا یا ویب سائٹ پر مطالعہ کےلیے رکھنا بلا مانع ہے

حواله جات

 شیخ طوسی ،الامالی ،ج۱،ص۲۱۵،ح۳۲۸

 سورہ رعد،آیت ۷

نھج البلاغہ ،خطبہ ۴۰

۴

 ترجمہ ،سید ذیشان حیدرجوادی ،ص ۹۳

۵

نھج البلاغہ ،خطبہ ۴۰

۶

ارسنجانی ،حسن۔حاکمیت دولتھا، ص۶۳

۷

نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان جوادی ،خطبہ ،۳،ص۴۳

۸

ایضا

۹

نھج البلاغہ ،نامہ ۲۷

۱۰

نھج البلاغہ ،کلمات قصار۴۶۷

۱۱

ایضا،خطبہ ،۱۱۶

۱۲

 نهج البلاغه،  ترجمہ فیض الاسلام، خ۱۳۱، ص۴۰۶ ـ ۴۰۷

۱۳

نھج البلاغہ ،خطبہ ۱۶۴

۱۴

ایضا، نامہ ۶۲

۱۵

سورہ شمس ،آیت ۹اور۱۰

۱۶

نھج البلاغہ ،نامہ ۵۳

۱۷

نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،نامہ ۲۷ص۵۱۳

۱۸

ایضا ،نامہ ۵۳،ص۵۷۳

۱۹

ایضا ،ص ۵۹۱

۲۰

ایضا ،مکتوب ۵۶،ص ۶۰۰۔۶۰۱

۲۱

اصول کافی ،کلینی ،ج۳،ص۱۵۳

۲۲

ایضا ،مکتوب ۵۳،ص ۵۸۳

۲۳

ایضا

۲۴

نھج البلاغہ ،ترجمہ دشتی ،مکتوب ۴۵،ص۳۹۳۔۳۹۴

۲۵

نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،خطبہ ،۲۰۹،ص۴۲۹

۲۶

غررالحکم ،حدیث نمبر ۸۴۳۸

۲۷

ایضا،حدیث نمبر ۵۵۷۱

۲۸

نھج البلاغہ ،مکتوب ۵۳

۲۹

ایضا،ترجمہ دشتی ،مکتوب ۵۳،ص۴۰۹

۳۰

ایضا،ترجمہ ذیشان حیدرجوادی ،کلمات قصار۲۷۴

۳۱

نھج البلاغہ ترجمہ ذیشان حیدرجوادی مکتوب ۲۶ص۵۱۱

۳۲

نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،مکتوب ،۵۳،ص۵۸۵

۳۳

ایضا،ص۵۸۷

۳۴

مجلسی ،بحارالانوار،ج۷۰،ص۹

۳۵

نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدرجوادی،خطبہ ۲۰۰،ص۴۲۱

۳۶

نھج البلاغہ ،مکتوب ۵۳

۳۷

ایضا،ص۵۷۷

۳۸

ایضا ،مکتوب ۵۳،ص۵۷۴

۳۹

ایضا،

۴۰

سورہ آل عمران آیت ۱۵۹

۴۱

نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،کلمات قصار ۱۱۳،ص۶۷۰

۴۲

ایضا،خطبہ ۱۹۲

۴۳

ایضا ،کلمات قصار۱۱۳

۴۴

ایضا ،مکتوب ۵۳

۴۵

نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،مکتوب ۵۳،ص۵۸۹

۴۶

ایضا،ص۵۷۷

۴۷

ایضا،ص۵۸۱

۴۸

ایضا،ص۵۷۵

۴۹

ایضا

۵۰

ایضا۔

۵۱

نھج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ، مکتوب ۴۳،ص۵۵۵

۵۲

ایضا،کلمات قصار۱۱۳

۵۳

ایضا،مکتوب ۵۳،ص۵۷۷

۵۴

ایضا

۵۵

ایضا ،ص ۵۸۹

۵۶

ایضا،ص۵۷۳

۵۷

ایضا،ص۵۸۵

۵۸

ایضا ،ص۵۸۵

۵۹

نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،مکتوب ۵۳

۶۰

نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدرجوادی ،مکتوب نمبر۵۳،ص۵۷۷

۶۱

ایضا

۶۲

خطبہ ۴۰،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،ص۹۲

۶۳

ایضا

۶۴

ایضا

۶۵

ایضا

۶۶

ایضا

۶۷

مکتوب ۱۵۳،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،ص۵۷۲

۶۸

ایضا

۶۹

ایضا

امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شخصیت پر ایک نظر

 

امام حسن مجتبیٰ (ع ) کی شخصیت  پر ایک نظر

تحریر: ساجد محمود

حضرت امام حسن مجتبیٰ 15 رمضان کی رات 2 ہجری جنگ احد کے سال اور ایک نقل کے مطابق 3 ہجری کو پیدا ہوئے۔صاحب کتاب کشف الغمہ کمال الدین  ابن طلحہ شافعی  سےنقل کرتے ہیں کہ امام حسن کی ولادت کے متعلق صحیح ترین قول یہ ہے کہ آپ 15 رمضان تیسری ہجری کو پیدا ہوئے۔

حضرت زہرا(س)نے  اس مبارک مولود کو ولادت کے ساتویں دن ریشمی کپڑا جو حضرت جبرائیل پیامبر اکرم (ص) کے لئےلائے تھے میں لپیٹا اور پیغمبر اکرم کی خدمت میں لے کر آئیں۔حضرت نے اس مبارک(پاک) مولود کا نام حسن رکھا۔ اور ایک بکرا آپ کے لئے  عقیقہ کیا حضرت امام حسن (ص) نے سات سال اور کچھ ماہ پیامبر اکرم کے ساتھ زندگی گزاری  اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ تیس سال اور اپنے باپ کے بعد 9 سے 10 سال اکیلے  زندگی گزاری۔ آپ کا قد بڑا اور داڑھی گھنی تھی۔ لوگوں نے آپ کے والد کی شہادت کے بعد جمعہ کے دن 21 رمضان سال 40 ہجری کو آپ کی بیعت کی آپ کے  لشکر کا سپہ سالار  عبیداللہ بن عباس اور ان کے بعد قیس بن سعد بن عبادہ تھا۔

لوگوں نے جب امام (ع) کی  بیعت کی تو اُس وقت آپ کی عمر مبارک 37 سال تھی ابھی آپ کی حکومت کے 4 ماہ اور 3 دن ہی گزرے تھے کہ سال 4 ہجری کو آپ کی معاویہ کے ساتھ صلح کا واقعہ پیش آیا اس کے بعد امام مدینہ چلے گئے اور 10 سال تک وہاں قیام پذیر رہے۔

آپ کی کنیت ابو محمد اور ابوالقاسم ہے۔ مقدس ترین القاب سید، سبط، امین، حجت، برّ، تقی، اثیر، زکی، مجتبیٰ، سبط اول اور زاہد ہے، (1)

جابر بن عبداللہ کہتے ہیں: حضرت امام حسنؑ کی ولادت کے بعد آپ کی والدہ ماجدہ حضرت زہرا (س) نے حضرت علی ؑ کو فرمایا: نئے مولود کا نام رکھیئے۔ حضرت امیرالمؤمنین ؑ نے فرمایا: ان کا نام حضرت رسول خدارکھیں گے اورپھر رسول خدا نے فرمایا کہ میں ہی منتظر ہوں کہ خداوند ان کے  نام کا حکم دے۔

خداوند متعال نے جبرائیل کو وحی کی کہ محمد کے پاس ایک بچہ پیدا ہوا ہے ابھی ان کے پاس جاؤ اور انہیں فرزند کی مبارکباد دو اور محمد کو اطلاع دو کہ علی کی نسبت تیرے ساتھ ایسی ہے جیسے ہارون کی موسیٰ سے ہے۔

اپنے نومولود کا نام ہارون کے بچوں پر رکھو۔ اس حکم کے بعد جناب جبرائیل رسول خدا کے پاس پیغام لے کر آئےاور کہا علی کے فرزند کو ہارون کے فرزند جیسا نام رکھو ۔ پیامبر نے پوچھا جناب ہارون کے بچوں کا نام کیا تھا تو جبرائیل نے عرض کی اس کے بچہ کا نام شبرتھا پیامبر نے فرمایا میری زبان عربی ہے تو جبرائیل نے عرض کی اپنے فرزند کا نام حسن رکھو(2)

شیخ مفید علیہ رحمہ نے روایت کی ہے کہ کوئی بھی امام حسن سے زیادہ پیامبر کے ہمشکل نہ تھا(3)

2- امام حسن کا مقام و منزلت

2-1 : خداوند متعال کے نزدیک امام حسن اور امام حسین علیہ  السلام کی منزلت۔

حضرت پیامبر اکرم ؐ نے ایک حدیث میں حضرت امام حسن اور حسین کے رتبہ اورمقام کے بارے میں اس طرح خبر دی۔

حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْبَزَّازِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (ع) قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص):‏ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَتَمَسَّكَ بِعُرْوَةِ اللَّهِ الْوُثْقَى الَّتِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فَلْيُوَالِ [فَلْيَتَوَلَ‏] عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ (ع) فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّهُمَا مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِ. (4)

ترجمہ: میرا باپ سعد بن عبداللہ سے وہ احمد بن محمد بن عیسیٰ سے وہ اپنے باپ سے وہ محمد بن عیسی ٰ  سےوہ عبداللہ بن مغیرہ سے وہ محمد بن سلیمان البزازسے وہ عمرو بن شمرسے وہ جابرسے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: رسول خدا نے فرمایا کہ جو چاہتا ہے کہ خدا کی رسی کہ  جس کے بارے میں خدا نے قرآن میں ذکر کیا ہے کو تھامے تو اسے چاہےکہ علی و ( اولاد علی ) حسن و حسین کو دوست رکھے چونکہ خداوند متعال کی ذات فوق عرش سے ان کو دوست رکھتی ہے۔

ایک روایت میں حضرت امام رضاؑ سے جو پیامبر کے ان دو لخت جگر کی عزت کے  بارے میں ہے نقل کیا گیا ہے کہ:

 حضرت علی بن موسیٰ الرضا نے فرمایا: ایک مرتبہ عید تھی تو امام حسن و حسین کے پاس نیا لباس نہیں تھا آپ دونوں اپنی والد ماجدہ کے پاس آئے اور کہا ہمارے علاوہ مدینہ کے تمام بچہ سنورے ہوئے ہیں آپ ہمیں کیوں نہیں سنوارتی؟ حضرت فاطمہ نے کہا آپ کے کپڑے درزی کے پاس ہیں جب کپڑے آئیں گے تو آپ کو بھی بناؤں، سنواروں گی۔ جب عید کی رات آئی تو دونوں اپنی والدہ کے پاس آئے تو لباس طلب کیا تو حضرت فاطمہ (س) رو پڑی اور پھر وہی جواب انہیں دیا جب رات تاریک ہو گئی تو کسی نے دروازہ پر دستک دی حضرت فاطمہ نے کہا کون جواب آیا رسول کی بیٹی میں درزی ہوں آپ کے بچوں کا لباس لے کر آیا ہوں حضرت زہرا(س ) نے دروازہ کھولا تو ایک مرد نہایت ہی شان وشوکت کے ساتھ ایک لفافہ آپ کو دے کر چلا گیا آپ جب دروازہ کے اندر آئی اور بند لفافہ کو کھولا تو اس میں 2 قمیضیں اور 2 شلواریں ، 2 عمامہ اور 2 سیاہ جورابیں کہ جن کی پشت سرخ چمڑہ کی تھی، کو دیکھا اور پھر امام  حسن و حسین  کو نیند سے جگایا اور انہیں وہ لباس پہنایا تو اسی حالت میں رسالت مأب ؐ داخل ہوئے اور دونوں شہزادوں کو سنورے ہوئے دیکھا تو دونوں کو بغل کیا اور چوما، حضرت زہرا(س) کو کہا: کیا درزی کو دیکھا تو آپ نے فرمایا جی ہاں یا رسول اللہ جو لباس آپ نے ہمارے لئے بھیجا تھا وہ لے کر آیا تھا تو حضرت رسول ؐ نے فرمایا: وہ درزی نہیں تھا، بلکہ”رضوان” بہشت کا خازن تھا ۔ حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا کہ یا رسول اللہ اس نے آپ کو بھی خبر کیا تو حضرت نے فرمایا وہ آسمان کی طرف نہیں گیا بلکہ پہلے میرے پاس آکر خبر دی (5)

2-1-1: جوانان جنت کے سردار

بہت سی احادیث میں پیامبر اکرم ؐ نے حضرت امام حسن و حسین کو جنت کے جوانوں کا سردار معرفی کیا ہے ہم یہاں پر دو حدیثوں کا ذکر کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْقَطَّانُ قَال‏ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ بُهْلُولٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبَانٍ عَنْ سَلَّامِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذَ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنِ الْحَسَنِ‏ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ (ع) قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (ص) يَقُولُ‏ أَنَا سَيِّدُ النَّبِيِّينَ وَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ سَيِّدُ الْوَصِيِّينَ وَ الْحَسَنُ‏ وَ الْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ الْأَئِمَّةُ بَعْدَهُمَا سَادَاتُ الْمُتَّقِينَ وَلِيُّنَا وَلِيُّ اللَّهِ وَ عَدُوُّنَا عَدُوُّ اللَّهِ وَ طَاعَتُنَا طَاعَةُ اللَّهِ وَ مَعْصِيَتُنَا مَعْصِيَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيل‏. (6)

ترجمہ: علی بن محمد بن موسیٰ اپنی اسناد کے ساتھ ابی طفیل اور وہ حضرت امام حسن علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا: میں نے رسول خدا ؐ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں جنت میں رہنے والے پیامبروں کا سردار، علی اوصیا ءکا سردار اور حسن و حسین جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے بعد والے آئمہ نیک و متقی لوگوں کے سردار ہیں ہماری مدد کرنے والا خدا کی مدد کرنے والا ہے اور ہمارا دشمن خدا کا دشمن ہے اور ہماری اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور ہمارے حق میں معصیت ،  خدا کی معصیت ہے اور ہمارے لئے بس خدا ہی کافی ہے اور وہ کتنا اچھا وکیل ہے ۔

اس بارے میں ایک اور حدیث میں حضرت ختمی مرتبت سے نقل کیا گیا ہے جسے ہم یہاں پر ذکر کرتے ہیں

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ خُشَيْشٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو ذَرٍّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا مُخَوَّلٌ قَالَ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْأَسْوَدِ- عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ): الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّة. (7)

محمد بن علی بن خشیش اپنی اسناد کے ساتھ حارث ( ابوذر) سے اور وہ حضرت علی سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا حضرت رسول خدا ؐ نے فرمایا ہے کہ حسن وحسین  اہل بہشت کے جوانوں کے دو سردار ہیں۔

2-2: قیامت کے دن امام حسن و حسین کا مقام و منزلت

حَدَّثَنَا الشَّيْخُ الْفَقِيهُ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مُوسَى بْنِ بَابَوَيْهِ الْقُمِّيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَطَّارُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْأَشْعَرِيُّ عَنْ يُوسُفَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص)‏: إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ زُيِّنَ عَرْشُ رَبِّ الْعَالَمِينَ بِكُلِّ زِينَةٍ ثُمَّ يُؤْتَى بِمِنْبَرَيْنِ مِنْ نُورٍ طُولُهُمَا مِائَةُ مِيلٍ فَيُوضَعُ أَحَدُهُمَا عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ وَ الْآخَرُ عَنْ يَسَارِ الْعَرْشِ ثُمَّ يُؤْتَى بِالْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ (ع) فَيَقُومُ الْحَسَنُ عَلَى أَحَدِهِمَا وَ الْحُسَيْنُ عَلَى الْآخَرِ يُزَيِّنُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بِهِمَا عَرْشَهُ كَمَا يُزَيِّنُ الْمَرْأَةَ قُرْطَاهَا. (8)

ابن بابویہ اپنے والد سے نقل کرتے ہوئے محمد بن یحییٰ عطار کی سند کے ساتھ ابن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا ؐ نے فرمایا : جب قیامت کا دن ہو گا تو خداوند متعال کا عرش مزین کیا جائے گا اور اس کے بعد نور کے دو منبر لائے جائیں گے جن کا طول 100 میل ہوگا ایک کو عرش الہٰی کے دائیں جانب اور دوسرا عرش الہٰی کے بائیں جانب رکھا جائے گا  اس کے بعد امام حسن و حسین کو لایا جائے گا اور امام حسن ایک پر اور امام حسین دوسرے تخت پر کھڑے ہوں گے خداوند اپنے عرش کو ان کے ساتھ اس طرح زینت دے گا  کہ جس طرح عورت دو گوشواروں سے اپنے آپ کو زینت دیتی ہے ۔

ابی بن کعب سے نقل کیا گیا ہے کہ میں ایک دن پیامبر کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک امام حسن و حسین تشریف لائے اور پیامبر پر سلام کیا، پیامبر نے سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایا، مرحبابکما یا زین العرش مرحبا بکما یا زین السماوات والارض” اے عرش الہٰی اور زمین و آسمان کو زینت دینے والے خوش آمدید۔

ابن ابی کعب نے کہا یا رسول اللہ کیا آپ کے علاوہ بھی کوئی عرش الہٰی اور زمین و آسمان کو مزین کرنے والا ہے؟ تو پیامبر نے فرمایا کہ  : ہاں یہ دونوں عرش وزمین و آسمان کو مزین کرنے والے ہیں اے  ابی کعب  قسم اس خدا کی کہ جس نے مجھے پیامبری پر مبعوث کیا ہے حسن و حسین  ہدایت کے چراغ اور نجات کی کشتی اور جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ (9)

3-2: پیامبر کے نزدیک امام حسن و حسین کی منزلت

اپنے اندر حسنین کی محبت کے بارے میں پیامبر ایک حدیث میں فرماتے ہیں :

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ الزَّيْدِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبَّاسٍ وَ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ جَمِيعاً قَالَ حَدَّثَنَا مَنْ سَمِعَ بَكْرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيَّ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) لِي يَا عِمْرَانُ إِنَّ لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ مَوْقِعاً مِنَ الْقَلْبِ وَ مَا وَقَعَ مَوْقِعَ هَذَيْنِ الْغُلَامَيْنِ مِنْ قَلْبِي شَيْ‏ءٌ قَطُّ فَقُلْتُ كُلُّ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ يَا عِمْرَانُ وَ مَا خَفِيَ عَلَيْكَ أَكْثَرُ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِحُبِّهِمَا. (10)

ترجمہ: محمد بن احمد بن ابراہیم نے حسین بن علی زید اور انہوں نے اپنے والد اور انہوں نے علی بن عباس و عبدالسلام بن حرب سے اور سب نے بکر بن عبداللہ المزنی سے اور انہوں نے عمران بن حصین سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا رسول خدا نے مجھے فرمایا اے عمران ہر چیز کی دل میں ایک جگہ ہوتی ہے لیکن ان دو بچوں کے لئے میرے دل میں ایک خاص جگہ نہیں ہے۔

عمران کہتا ہے کہ میں نے عرض کی اے رسول خدا آپ کا پورا دل ان دونوں کے لئے ہے؟ تو آپ نے فرمایا اے عمران جو تجھ پر مخفی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے کہ جس کے بارے میں تونے جانا ہے خداوند متعال نے مجھے ان کی محبت کے بارے میں حکم دیا ہے (11)

ایک طولانی حدیث ہے  کہ جس کو حضرت رسول اللہ ؐ نے اہل بیت کے بارے میں بیان فرمایا ہے:

ہم یہاں پر اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے کچھ حصہ امام حسن و حسین کے بارے میں ذکر کرتے ہیں۔

 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِيَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَلَمَةَ الْأَهْوَازِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الثَّقَفِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُوسَى ابْنِ أُخْتِ الْوَاقِدِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ الْحَرَّانِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلَاءِ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ (ص) كَانَ جَالِساً ذَاتَ يَوْمٍ وَ عِنْدَهُ عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ (علیهم السلام) فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي وَ أَكْرَمُ النَّاسِ عَلَيَّ فَأَحِبَّ مَنْ أَحَبَّهُمْ وَ أَبْغِضْ مَنْ أَبْغَضَهُمْ وَ وَالِ مَنْ وَالاهُمْ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُمْ وَ أَعِنْ مَنْ أَعَانَهُمْ وَ اجْعَلْهُمْ مُطَهَّرِينَ مِنْ كُلِّ رِجْسٍ مَعْصُومِينَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَ أَيِّدْهُمْ بِرُوحِ الْقُدُسِ مِنْكَ ثُمَّ قَالَ (ص) … وَ أَمَّا الْحَسَنُ‏ وَ الْحُسَيْنُ فَهُمَا ابْنَايَ وَ رَيْحَانَتَايَ وَ هُمَا سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيُكْرَمَا عَلَيْكَ كَسَمْعِكَ وَ بَصَرِكَ ثُمَّ رَفَعَ (ص) يَدَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنِّي مُحِبٌّ لِمَنْ أَحَبَّهُمْ وَ مُبْغِضٌ لِمَنْ أَبْغَضَهُمُ وَ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَهُمْ وَ حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَهُمْ وَ عَدُوٌّ لِمَنْ عَادَاهُمْ وَ وَلِيٌّ لِمَنْ وَالاهُمْ. (12)

ترجمہ: احمد بن زیاد بن جعفر ھمدانی ایک اسناد کے ساتھ سعید بن مسیب سے اور وہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن رسول خدا ایک مسجد میں بیٹھے تھے اور آپ کے پاس حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن و حسین بھی تشریف فرما تھے تو حضرت رسول خدا ؐ نے فرمایا خدایا تو جانتا ہے کہ یہ میرے اہل بیت اور لوگوں میں سے میرے نزدیک سب سے عزیز ترین ہیں  ۔

تو دوست رکھ، جو ان کو دوست رکھے اور بغض رکھ ،اس سے کہ جو ان سے بغض رکھتا ہے اور کامیاب فرما اسے کہ جو ان کی پیروی کرتا ہے اور دشمن رکھ ہر اس کو، جو ان سے دشمنی رکھتا ہے۔ اور مدد فرما ہر اس کی ،جو ان کی مدد کرتا ہے اور ان کو ہر پلیدگی و کثافت سے پاک و منزہ قرار دے اور انہیں تمام گناہوں سے محفوظ رکھ اور اپنی طرف سے روح القدس کے ذریعے سے ان کی تائید فرما۔۔۔ اور حسن و حسین میرے دو بیٹے اور دو باغ ہیں اور دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں تیرے نزدیک آنکھ و گوشت کی طرح عزیز ہونے چاہیے اس کے بعد آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور فرمایا خدایا گواہ رہنا میں ان کے دوست کو دوست اوران کے دشمن کو دشمن رکھتا ہوں اور جو ان کے ساتھ صلح میں ہو، اس کے ساتھ صلح  اور جو ان کے ساتھ جنگ کرے ، ان کے ساتھ جنگ میں ہوں اور جو ان کا بُرا چاہے اس کا دشمن  اور جو ان کو دوست رکھے ،اس کا دوست ہوں ۔

ایک اور حدیث میں کہ جو مرثیہ حضرت نے امام حسن و حسین کی شان میں پڑھا ہے اس طرح یاد کیا جاتا ہے کہ:

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْعَلَوِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنِي جَدِّي قَالَ حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ الزُّبَيْرِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَلِيٍّ الرَّافِعِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدَّتِهِ بِنْتِ أَبِي رَافِعٍ قَالَتْ‏ أَتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ (ص) بِابْنَيْهَا الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ (ع) إِلَى رَسُولِ اللَّهِ (ص) فِي شَكْوَاهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَانِ ابْنَاكَ فَوَرِّثْهُمَا شَيْئاً قَالَ أَمَّا الْحَسَنُ فَإِنَّ لَهُ هَيْبَتِي وَ سُؤْدُدِي وَ أَمَّا الْحُسَيْنُ فَإِنَّ لَهُ جُرْأَتِي وَ جُودِي‏. (13)

ترجمہ: ابن بابویہ نے حسن بن محمد بن یحییٰ سے ایک اسناد کے ساتھ بنت ابی رافع سے روایت نقل کی ہے کہ : پیامبر کی بیماری کی حالت میں کہ جس کے بعد آپ نے دار فانی کو وداع کیا حضرت فاطمہ (س) دختر رسول خدا ؐ نے حسن و حسین علیہ السلام کو اپنے والد گرامی کی خدمت میں لے آئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ 2 آپ کے بیٹے ہیں کوئی چیز ان کے لئے میراث میں چھوڑ کر جائیں تو رسول اللہ  نے فرمایا:میں نےاپنی ھیبت اور شرافت حسن کے لئے اور اپنی جر أت و بخشش حسین کے لئے چھوڑی ہے۔

ایک اور روایت کے مطابق اپنی سخاوت وشجاعت حسین کو دی ہے ۔

محمد بن اسحاق کہتا ہے حضرت رسول ؐ کے بعد کوئی بھی شرافت و مقام میں حسن بن علی تک نہیں پہنچا ۔

امام حسن جب بھی اپنے گھر سے باہر جاتے اور ایک جگہ تشریف فرما ہوتے تو لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہو جاتے یہاں تک کہ راستے بند ہو جاتے۔ ا س کے بعد آپ واپس اپنے گھر تشریف لے جاتے اورلوگ بکھر جاتے تھے۔

میں نے مکہ کے راستے میں انہیں دیکھا جب کہ آپ اپنی سواری سے نیچے اترے اور پیدل جا رہے تھے تو  لوگ بھی آپ کی اتباع میں پیدل چل پڑے جب کہ  سعد بن وقاص بھی آپ کی معیت میں پیدل چل رہے تھے (14)

حضرت   رسول اکرمؐ نے حسنین شریفین علیہم السلام کو اپنے دو پھول  معرفی کیا ہے۔

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص):‏ الْوَلَدُ الصَّالِحُ رَيْحَانَةٌ مِنَ اللَّهِ قَسَمَهَا بَيْنَ عِبَادِهِ وَ إِنَّ رَيْحَانَتَيَّ مِنَ الدُّنْيَا الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ سَمَّيْتُهُمَا بِاسْمِ سِبْطَيْنِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ شَبَّراً وَ شَبِيراً. (15)

 ترجمہ: علی بن ابراہیم ایک اسناد کے ساتھ حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول ؐ نے فرمایا: نیک بیٹا خدا کی جانب سے ایک پھول ہے کہ جسے خدا نے اپنے بندوں میں تقسیم کیا ہے دنیا میں میرے دو پھول حسن و حسین ہیں میں نے ان دو کا نام بنی اسرائیل کے دو بچوں کے نام شبر و شبیر پر رکھا ہے۔

ابن شھر آشوب نے کہا ہے کہ اکثر (بہت ساری )تفسیروں میں وارد ہوا ہے کہ پیامبر اکرم ؐ حسنین علیہم السلام کو دو سورتوں ” قل اعوذ برالناس اور قل اعوذ برب افلق” سے تعویذ کرتے تھے اس وجہ سے ان دو سورتوں کو معوذتین کہا جاتا ہے (16)

ایک حدیث میں پیامبر اکرم ؐ  امام حسن و حسین کے دوست کو بہشت اور آپ کے دشمن کو جہنم کا مستحق قرار دیتے ہیں

وَ قَالَ رسول الله (صلّى اللَّه عليه و آله و سلّم) مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ (علیهما السّلام) أَحْبَبْتُهُ وَ مَنْ أَحْبَبْتُهُ أَحَبَّهُ اللَّهُ وَ مَنْ أَحَبَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ وَ مَنْ أَبْغَضَهُمَا أَبْغَضْتُهُ وَ مَنْ أَبْغَضْتُهُ أَبْغَضَهُ اللَّهُ وَ مَنْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ خَلَّدَهُ فِي النَّارِ. (17)

ترجمہ: شیخ مفید نے کتاب ارشاد میں نقل کیا ہے کہ حضرت رسالت مأب ؐ نے فرمایا: جو بھی حسن و حسین کو دوست رکھے میں اس کو دوست رکھتا ہوں اور جو کوئی مجھے دوست رکھے خدا اسے دوست رکھتا ہےاور جس کو خدا دوست رکھے ، جنت میں داخل کیا جائے گا اور جو کوئی بھی انہیں دشمن رکھے میں انہیں دشمن رکھتا ہوں اور جسے میں دشمن رکھوں خداوند اسے دشمن رکھتا ہے اور جسے خدا دشمن رکھے جہنم میں ڈالا جائے گا۔

3۔ حضرت امام حسن علیہ السلام کے مختصر فضائل اور مکارم اخلاق

حضرت امام حسن مجتبیٰ لوگوں میں سب سے زیادہ عابد اور پرہیز گار تھے مناقب ابن شھر آشوب اور روضۃ الواعظین میں روایت ہوئی ہے کہ حضرت امام حسن جب بھی وضو کرتے تو آپ کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا  اور آپ کا رنگ مبارک زرد ہو جاتا امام علیہ السلام سے جب اس کی وجہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: سزاوار کہ جو کوئی اپنے خدا کی بارگاہ میں کھڑا ہو تو اس کا رنگ زرد ہو جائےاور اس کے بدن پر لرزہ و کپکپی طاری ہو۔

جب امام علیہ السلام مسجد تشریف لے جاتے جیسے ہی مسجد کے دروازہ پر پہنچتے تو اپنے سر مبارک کو آسمان کی جانب بلند کر کے فرماتے تھے «الهى ضيفك ببابك يا محسن قد اتاك المسى‏ء فتجاوز عن قبيح ما عندي بجميل ما عندك يا كريم:۔

اے میرے خدا یہ تیرا مہمان  ہےکہ جو تیر ی بارگاہ میں کھڑا ہے اے احسان کرنے والےتیرے پاس تیرا گناہ گار بندہ آیا ہے پس نا پسندیدہ اور قبیح کاموں سے در گزر کر،  اپنے پسندیدہ چیزوں کے واسطہ جو تیرے پاس ہیں۔

ہم یہاں پر امام حسن علیہ السلام کی کچھ مختصر سی اخلاقی صفات و کمالات کا ذکر کرتے ہیں۔

1-3: امام کا تواضع

ابن شھر آشوب نے کتاب مناقب میں کتاب الفنون نزھۃ الابصار سے نقل کیا ہے کہ ایک دن امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کچھ فقیر لوگوں کے قریب سے گزرے جو مٹی پر بیٹھے تھے اور روٹی کے ٹکڑے اٹھاتے اور کھاتے ، امام سے بھی کہا کہ ان کے پاس سفرہ پر آکر بیٹھیں ۔

امام علیہ السلام نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور سواری سے نیچے اترے اور فرمایا خداوند متکبر لوگوں کو دوست نہیں رکھتا اور غذا تناول کرنے میں مصروف ہو گئے پھر ان لوگوں کو اپنے گھر کھانے کی دعوت دی اور انہیں لباس و غذا عطا فرمایا( 19)

2-3: امام کا کرم و سخاوت

انس بن مالک نقل کرتے ہیں   کہ ایک کنیز نے ایک پھولوں کا دستہ امام علیہ السلام کو ھدیہ پیش کیا تو امام حسن علیہ السلام نے اسے فرمایا: “تجھے خدا کی راہ میں آزاد کیا”

تو راوی کہتا ہے کہ میں نے آنحضرت کو عرض کیا ، کیا آپ نے فقط پھولوں کے ایک گلدستہ کے بدلے اسے آزا د کر دیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا خداوند متعال نے ہماری اس طرح تربیت کی ہے۔ خداوند قرآن میں سورہ نساء کی آیت نمبر 86 میں فرماتا ہے کہ «وَ إِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها»کہ جب کوئی تمہارے ساتھ اچھائی کرے تو اس کا بڑھ  کر جواب دو یا حداقل اسی طرح جواب دو اس کے بعد فرمایا بہتر اچھائی اس کو آزاد کرنا ہی ہے(20)

آپ کریم اہل بیت علیہ السلام کے نام سے معروف ہیں چونکہ آپ نے اپنی زندگی میں کئی دفعہ اپنی تمام دولت فقراء میں مساوی طور پر تقسیم کر دی ۔

ابن شھر آشوب نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ حضرت امام حسن (ع) پچیس مرتبہ پیدل حج پر گئے اور دو مرتبہ یا ایک روایت کے مطابق تین مرتبہ اپنے مال کو خدا کے ساتھ تقسیم کیا کہ آدھا مال اپنے لئے رکھا اور آدھا مال خدا کی راہ میں فقیروں کو دیا (21)

3-3: امام حسن علیہ السلام کا حلم و صبر

بہت معروف مفکر مبّرد نے کتاب کامل میں اور دوسرے بھی روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک شامی بوڑھے شخص نے جب آپ کو سواری پر سوار دیکھا تو آپ کو گالیاں دینا شروع کر دی لیکن امام حسن نے سکوت ( خاموشی ) اختیار کی جب اس شخص کی گالیاں ختم ہوئی تو حضرت امام حسن نے گشادہ روی کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوئے جب کہ آپ مسکرا رہے تھے اس شخص پر سلام کیا اور فرمایا ” اے شخص میرے خیال میں تم مسافر ہو اور لگتا ہے کہ کچھ چیز یں تم پر مشتبہ ہو گئی ہیں اگر ہم سے مدد طلب کرتے ہو تو ہم تم سے مشکلات کو برطرف کر سکتے ہیں اور تمہیں کچھ دے سکتے ہیں اور اگر ہم سے کوئی چیز چاہتے ہو تو تمہیں دے سکتے ہیں اور اگر ہم سے راہنمائی چاہتے ہو تو تمہاری راہنمائی کر سکتے ہیں اور اگر چاہتے ہو تو تمہارا سامان اٹھاؤں تو اٹھا لوں گا  اور اگر بھوکے ہو تو تمہارا پیٹ بھر سکتے ہیں اور اگر برہنہ ہو تو تمہیں لباس دیتے ہیں اور اگر نیاز مند ہو تو تمہیں بے نیاز کر دیں گے اور اگر کسی جگہ سے بھگائے گئے ہو تو ہم تمہیں پناہ دینے کے لئے تیار ہیں اور اگر کوئی حاجت رکھتے ہو تو اسے پورا کر سکتے ہیں اور اگر ہماری طرف سفر کیا ہے تو واپس جانے  تک  ہمارے مہمان ہو  اور یہ تمہارے لئے بہتر ہے چونکہ ہمارے پاس مہمان نوازی کے لئے گھر موجود ہے۔ بہت بڑا مال و منزلت تمہارے اختیار میں ہے۔

جب اس شامی مرد نے امام حسن علیہ السلام کی اس محبت آمیز گفتار کو سنا تو رونے شروع کیا اور اس طرح دگرگون ہوا اسی لمحہ یہ کلمات جاری کئے ” الشھد انک خلیفۃ اللہ فی ارضہ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہو خداوند متعال آگاہ ہے اس سے کہ اپنی رسالت کو کس میں قرار دے۔

پھر اس کے بعد فرمایا میں سمجھ رہا تھا کہ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک دشمن ترین مخلوقات میں سے ہو لیکن اب پتہ چلا ہے کہ آپ میرے نزدیک خدا کی محبوب ترین مخلوقات میں سے ہیں  اس کے بعد اس نے اپنا سامان امام علیہ السلام کے گھر منتقل کیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ کا مہمان رہا پھر اس کے بعد شام کی طرف واپس چلا گیا جب کہ خاندان رسالت کی سچی محبت اس کے دل میں تھی اور اس کا معتقد تھا ( 22)

4-3: امام حسن کا علم

ابن شھر آشوب نے روایت کی ہے کہ ایک اعرابی (بدو) عبد اللہ بن زبیر اور عمر و بن عثمان کے پاس آیا اور ان سے کچھ مسائل کے بارے میں سوال کیا چونکہ نہیں جانتے تھے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے اور واگذار کرنے لگے۔

اعرابی نے کہا لعنت ہو تم پر میں نے تم سے ضروریات دین میں سے ایک مسالہ پوچھا ہے اور تم ایک دوسرے کی طرف واگذار کر رہے ہو دین خدا میں یہ چیز روا نہیں ہے ۔

تو انہوں نے کہا اگر چاہتے ہو اس مسالہ کو جانو تو حسن و حسین علیہ السلام کے پاس جاؤ جو دینی مسائل کے  بارے میں جانتے ہیں ۔ وہ شخص جب ان کے پاس گیا تو مسالہ کو عرض کیا اور کامل جواب حاصل کیا اور پھر عبداللہ و عمرو کو خطاب کر کے چند بیت اشعار پڑھے کہ جن میں سے ایک  کا مضمون یہ ہے: خداوند متعال نے تمہارے دو رخساروں کو حسن و حسین کی دو نعلوں  میں قرار دیا ہے (23)

پانوشتها

(1)حضرت امام حسن کا زندگی نامہ،  صفحه 142

(2) چھاردہ معصومین کا زندگی نامہ صفحه303

(3) جلاء العیون، صفحه 407 ارشاد سے نقل ،  جلد 2، صفحه 5

(4) كامل الزيارات، صفحه 51

(5) جلاء العيون، صفحه 393 مناقب ابن شھر آشوب سے منقول، جلد3، صفحه 441

(6) الأمالي( للصدوق)، صفحه 558

(7) الأمالي (للطوسي)، صفحه 312

(8) الأمالي( للصدوق)، صفحه112 – بحار الأنوار، جلد ‏43، صفحه 262 و 293

(9) أنيس المؤمنين، صفحه 86

(10) كامل الزيارات، صفحه 50

(11) كامل الزيارات، صفحه 149

(12) الأمالي( للصدوق) ، صفحه 487 – 486

(13الخصال، جلد‏1، صفحه77

(14) ترجمه إعلام الورى، صفحه 304 – منتهى الآمال، شيخ عباس قمى ، جلد ‏1، صفحه 531

(15) الكافي، جلد ‏6 ، صفحه 2

(16) منتهى الآمال، شيخ عباس قمى ، جلد ‏1، صفحه 527 مناقب شھر آشوب سے منقول، جلد 3، صفحه  436-  جلاء العيون، صفحه 391 – بحار الأنوار، جلد 43، صفحه 285، حدیث 50 مناقب شھر آشوب سے منقول۔

(17) الإرشاد، جلد ‏2 ، صفحه 28

(18) منتهى الآمال، جلد ‏1، صفحه 530

(19) سيره معصومان، جلد ‏5، صفحه 23 – 22

(20) الأنوار البهية، صفحه 122 – 121

(21) منتهى الآمال، جلد ‏1، صفحه 530 مناقب شھر آشوب سے منقول ، جلد 4، صفحه 18 – جلاء العيون، صفحه 407 – العوالم، صفحه 131- 130 و 134

(22) الأنوار البهية، صفحه 123- 122

امامین صادقین علیہما السلام کا غالیوں کے ساتھ طرز عمل

December 20, 2019

تحریر : اسد عباس

تاریخ اسلام میں غلو اور غالیان ایک ایسا موضوع ہے جسے طول تاریخ اسلام میں بڑی اھمیت حاصل رہی ہے اور اتنی اھمیت کے باوجود آج بھی اس کے بعض مسائل ناشناختہ ہیں اگر ھم تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ ہمارے تمام آئمہ علیہم السلام نے ھمیشہ غالیوں کی مخالفت کی ہے اور انہیں  کبھی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیا ہم یہاں بعض آئمہ علیھم السلام کی سیرت کے چند نمونے یہاں ذکر کرتے ہیں کہ غالیوں کے ساتھ روابط رکھنے یا نا رکھنے میں ان کی سیرت کیا تھی ۔

امام باقر علیہ السلام کی سیرت   

غالی افراد ، امام باقرعلیہ السلام کی ظاھری اطاعت کر کے اپنے آپ کو وظائف اسلامی سے معاف سمجھتے تھے لیکن امام علیہ السلام نے بارھا انکو عمل صالح کی تاکید اور انکے عقائد کی تردید  فرمائی

امام فرماتے ہیں ہمارے شیعہ اھل زھد و عبادت گذار ہیں ہر روز 51 رکعت نماز پڑھتے ہیں راتوں کو عبادت اور دن میں روزہ رکھتے ہیں اپنے مال سے زکواۃ دیتے ہیں اور خانہ خدا کی زیارت کے لیے جاتے ہیں اور محرمات اللھی سے اجتناب کرتے ہیں

امام علیہ السلام سے ایک مفصل روایت منقول ہے جس میں امام اپنے شیعوں کی سیاسی صورتحال کو بیان فرماتے ہیں اور خلفا کی طرف سے آئمہ پر جو فشار تھا اسکو بیان فرماتے ہیں ھم روایت کا خلاصہ بیان کرتے ہیں ۔ امام نے فرمایا :

ھم اھل بیت نے اور ہمارے شیعوں نے قریش کے ستم دیکھے ہیں حالانکہ رسول اللہ نے رحلت کے وقت اعلان فرمایا تھا کہ ھم اھل بیت لوگوں کی نسبت ان سے اولی تر ہیں لیکن قریش نے رسول اللہ کے اس فرمان سے پشت کر لی اور ہمارے حق کو غصب کر لیا حکومت قریش کے درمیان دست بدست چلتی رہی یہاں تک کہ ھم تک پہنچ گئی لیکن لوگوں نے ہماری بیعت کو توڑ دیا جیسا کہ امیر المومنین علی اپنی شھادت تک مختلف نشیب و فراز اور حوادثات سے گزرتے رہے

پھر لوگوں نے امام حسن کی بیعت کی لیکن اس کے ساتھہ بھی خیانت کی اس کے بعد امام حسین کی 20 ھزار افراد کے ساتھہ بیعت کی لیکن اس کے ساتھہ بھی خیانت کی

منکران حق اور جھوٹے لوگوں نے جعلی احادیث کو دور تک پھیلایا تاکہ لوگوں میں ہمارے مقام و منزلت کو کم کر سکیں امام حسین کے بعد بھی یہ سیاست جاری رہی ۔ ہمارے کتنے یاران کے ہاتحہ پاوں کاٹے گئے ھمارے محبان کو زندانوں میں ڈالا گیا ان کا مال لوٹا گیا یہاں تک کہ حجاج بن یوسف کا زمانہ آگیا حجاج نے تو ہمارے شیعوں کا جینا حرام کر دیا یہاں تک کہ لوگ شیعہ کہلوانا کافر اور زندیق کہلوانے سے بد تر سمجھتے تھے [ نجاشی 1408 : 255]

امام صادق علیہ السلام کا غالیوں سے مقابله کرنے کا طریقہ کار

الف: اپنے شیعوں کو غالیوں کے خطرے سے ہوشیار   

 

1 قطع تعلقی

مولا کا پہلا اقدام اپنے شیعوں کو غالیت کے خطرہ سے آگاہ کرنا تھا تاکہ شیعیان حقیقی غالیوں سے قطع تعلق کرلیں ،  امام نے شیعوں کو مخاطب کر کے فرمایا

غالیوں سے اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیں ان کے ساتھہ کھانا پینا چھوڑ دیں ان کی طرف دست دوستی نہ بڑھائیں غالیوں کے ساتھہ کسی قسم کا علمی یا ثقافتی تعلق نہ رکھیں [ طوسی 1348 : 586 ]

2 جوانوں کے عقاید و افکار کی حفاظت

اپنے جوانوں کو غالیوں سے بچائیں تاکہ غالیوں کے غلط افکار و عقاید آپکے جوانوں پر اثر انداز نہ ہوں امام فرماتے ہیں

احذوا علی شبابکم الغلاہ لا یفسدھم الغلاہ شر خلق اللہ یصغرعن عظمتہ اللہ و یدعون الربوبیہ لعباداللہ ۔

 اپنے جوانوں کو غالیوں سے دور رکھیں تاکہ غالی آپکے جوانوں کو فاسد نہ کر سکیں غالی خدا کی بد ترین مخلوق ہیں کہ جو عظمت خدا کو کم کوتے ہیں اور خدا کے بندوں کے لیے الوھیت کو ثابت کرتے ہیں [ شیخ صدوق بی تا :264 ]

3 غالیوں سے بیزاری

آئمہ علیھم السلام ھمیشہ غالیوں سے بیزار رہے ہیں ۔ امام علی فرماتے ہیں

خداوندا میں غالیوں سے بیزاری کرتا ہوں جیسے عیسی بن مریم نے نصاری سے بیزاری کی تھی خدایا غالیوں کو ذلیل و خوار فرما اور ان سے ہرگز نرمی نہ کرنا [ گلپائیگانی 1381 ، 307 ]

ب غالیوں کے عقاید کی تکذیب

1 امام صادق کی غالیوں کے ساتھہ مقابله کی ایک طریقہ کار یہ بھی  تھا کہ امام علیہ السلام نے غالیوں کے عقاید کو جھٹلایا اور صحیح حدیث اور صحیح عقاید کی ترویج کے لیے مناسب اقدامات فرمائے ۔ شھرستانی نقل کرتا ہے کہ ” سدیر صیرفی ” امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی مولا آپ کے شیعہ آپ کے بارے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں بعض کہتے ہیں لوگوں کی ھدایت کے لیے جو چیز ضرورت ہوتی ہے وہ امام کے کان میں کہ دی جاتی ہے اور بعض کہتے ہیں امام پر وحی ہوتی ہے بعض کہتے ہیں الھام ہوتا ہے بعض کہتے ہیں امام خواب میں دیکھہ لیتے ہیں بعض کہتے ہیں امام اپنے اجداد کے لکھے ہوئے نوشتوں سے فتوی دیتے ہیں ان میں سے کون سی بات صحیح ہے ؟ امام نے فرمایا : اے سدیر ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے ھم خدا کی طرف سے اس کے بندوں پر حجت ہیں اور حلال و حرام کو خدا کی کتاب سے کہتے ہیں [ جعفریان 381 :258 ]

2 عیسی جرجانی کہتے ہیں میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کیا مولا میں نے کچھہ لوگوں سے آپ کے بارے میں کچھہ سنا ہے اجازت ہو تو عرض کروں ؟ امام نے فرمایا بتاو کیا سنا ہے تو میں نے عرض کی

فان طائفۃ منھم عبدوک و اتخزوک الھا من دون اللہ و طائفۃ اخری قالوا لک بالنبوۃ ۔۔۔۔ قال:فبکی حتی ابتلیت لحیۃ ثم قال :ان امکننی اللہ من ھولاء فلم اسفک دمائھم سفک اللہ دم ولدی علی یدی

بعض لوگ خدا کی جگہ آپ کی عبادت کرتے ہیں اور کچھہ آپ کو پیغمبر سمجھتے ہیں ۔امام نے جب یہ سنا تو امام اتنا روئے کہ ریش مبارک تر ہو گئی پھر امام نے فرمایا :

اگر خدا ایسے لوگوں کو میرے اختیار میں دے تو میں  ان کو قتل کر دوں اور اگر میں ایسا نہ کروں تو خدا میرے ہاتھوں میرے بیٹے کا خون کروائے   [ جرجانی ، بی تا :322 ]

3 امام صادق کو بعض غالی لوگ  امام مھدی سمجھتے تھے حالانکہ امام نے بارھا اس بات کی تردید فرمائی [ شیخ طوسی 1348: 300 ]

 4 بعض غالی لوگ آئمہ علیھم السلام کو نبی سمجھتے تھے حالانکہ آئمہ علیھم السلام نے ہمیشہ اس بات کی تردید فرمائی ہے امام صادق فرماتے ہیں

ھوالذی فی السماء الہ وفی الارض الہ ،قال: ھوالامام

امام نے ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو مجوس یھود نصاری اور مشرکین سے بد تر قرار دیا ہے

  ج غالیوں کی تکفیر و نفرین

      امام کا غالیوں کے ساتھہ مقابله کا ایک طریقہ غالیوں کی تکفیر اور ان پر نفرین کرنا تھا امام نے اس طریقے اسے ایک تو غالیوں کے عقید کو باطل فرمایا اور دوسرا شیعیان علی کے صحیح عقاید کی تصدیق فرمائی ۔ امام نے دو مرحلوں میں غالیوں کی تکفیر فرمائی

1 پہلے مرحلے میں غالیوں کے رھبران کی پھر ان کے افراد کی تکفیر کی کیونکہ رھبران غلو  دن بدن غالیت پھیلا رہے تھے اس لیے امام نے پہلے مرحلے میں غالیوں کے لیڈروں کی مذمت فرمائی تاکہ لوگ ان کو پہچانیں اور ان سے دوری اختیار کریں

2 دوسرے مرحلے میں امام نے ان غالیوں کی مذمت فرمائی جو ھدایت حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے اور اپنے غلط عقاید پر ڈٹے ہوئے تھے امام صادق نے غالیوں کے ایک سردار ابوالخطاب کے باے میں فرمایا : خدا اس کے فرشتوں اور اسکے بندوں کی لعنت ہو ابوالخطاب پر او کافر مشرک اور فاسق ہے    [ کشی ، بی تا :342 ]

ایک اور روایت میں امام نے غالیوں کے سردار  بشار اشعری  کے بارے میں فرمایا :بشار اشعری شیطان ہے اور اس کا کام صرف شیعوں میں انحراف پھیلانا ہے  [کشی، بی تا :342 ]

د افراد کی تربیت

امام کی غالیوں کے ساتھ مقابله کی ایک روش یہ تھی کہ امام نے غالیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اور ان کے عقاید کو باطل کرنے کیلئے  باقاعدہ افراد کی تربیت کی تاکہ وہ غالیوں کے خطرات سے شیعیان واقعی کا دفاع کر سکیں اور غالیوں کے عقاید کا رد کر سکیں ۔

امام صادق ابوالخطاب غالی کے اصحاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مفضل کو فرماتے ہیں :  یامفضل لا تقاعدوھم ولا تواکلوھم و لا تشاربوھم و لا تصفحوھم و لا تواثروھم

اے مفضل غالیوں کے ساتھہ اٹھنا بیٹھنا مت کریں ان کی ساتھ ھم غذا نہ ہوں ان کی طرف دست دوستی نہ بڑھائیں ان کے ساتھہ علمی یا فرھنگی کسی قسم کا تعلق نہ رکھیں [  شیخ طوسی 1348 : 586 ]

اگرچہ بظاہر اس حدیث میں امام مفضل کو غالیوں سے قطع تعلقی کا حکم دے رہے ہیں لیکن در حقیقت امام ان الفاظ کے ذریعہ لوگوں کی فکری تربیت فرما رہے ہیں تاکہ وہ غالیوں کا مقابلہ کر سکیں امام کے تربیت یافتہ افراد نے امام کے راستے پر چلتے ہوئے ھمیشہ غالیت کا مقابلہ کیا اور لوگوں کو غالیون کے شر سے بچاتے رہے ۔

ر معرفت کا معیار  

امام صادق نے اپنے یاران و شیعیان کو خصوصی طور پر حکم فرمایا کہ ھم اھل بیت کی شناخت و پہچان کیلئے قرآن وسنت کو معیار بنائیں ۔ امام نے شیعوں کو نصیحت فرمائی کہ غلو نہ کریں اور ہمارے بارے میں غالی جو کچھہ بھی کہتے ہیں وہ واقعیت نہیں رکھتا ۔ ہمارے بارے میں جو کچھہ ھم سے سنو صرف وہی صحیح ہے وہی قبول کریں ۔

1 امام غالیوں کے عقاید کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

لعن اللہ من قال فینا ما لا نقولہ فی انفسنا ولعن اللہ من ازالنا عن العبودیۃ للہ الذی خلقنا والیہ مانبا وبیدہ نواصینا [ ذھبی 1382 : 99 ]

2 امام نے اپنے شیعوں کو دستور دیا کہ ہماری جو احادیث قرآن و سنت کے مطابق ہوں ان کو قبول کریں باقیوں کو رد کر دیں وہ ہماری نہیں ہیں لا تقلبوا علینا حدیثا الا ما وافق القرآن والسنہ او تجدون معہ شاھدا من احادیثنا المتقدمہ ۔ ھماری حدیثوں کو قبول نہ کریں مگر یہ کہ قرآن و سنت کے مطابق ہو یا یہ کہ کوئی اور حدیث اس حدیث کے سچے ہونے کی شاھد ہو [ مجلسی 1403 : 288 ]

3 چون غالی جعلی حدیثیں بنا کر آئمہ علیھم السلام کے ساتھہ منسوب کرتے تھے اس لیے امام صادق نے غالیوں کے سردار مغیرہ بن سعد کو مخاطب ہو کر فرمایا: خداوند متعال مغیرہ بن سعد پر لعنت کرے کہ اس نے بہت ساری احادیث میرے بابا کے اصحاب کی کتابوں میں داخل کر دی ہیں کہ جو میرے بابا نے نہیں فرمائیں ، پس تقوی اللھی اختیار کرو اور جو چیز بھی قرآن وسنت کے مخالف ہو اسے رد کر دو [مجلسی 1403 : 288 ]

4 امام نےغالیوں کو مخاطب کر کے فرمایا :   توبوا الی اللہ فانھم فساق کفار مشرکون۔

خدا کی طرف لوٹ آو کیونکہ تم فاسق کافر اور مشرک ہو گئے ہو [ ذھبی 1382 : 297 ]

5 امام نے  ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :

غالیوں نے ایسی چیزیں سنی ہیں کہ جس کی حقیقت کو درک نہین کر سکے کیونکہ حقایق دینی کی شناخت کے لیے خود کو معیار بنا لیا ہے اور صرف اپنی سوچ پہ چلتے ہیں اس لیے رسول خدا کی تکذیب اور گناھوں کی جرات ان میں پیدا ہو گئی ہے [ جعفریان 1381 :263 ]

6 امام علی فرماتے ہیں : ھلک فی رجلان ، محب غال و مبغض قال

میرے بارے میں دو قسم کے لوگ ھلاکت میں ہیں ایک وہ جو مجھے حد سے بڑھاتے ہیں دوسرے وہ جو مجھے حد سے گھٹاتے ہیں [نھج البلاغہ کلمات قصار 117 ]

امام صادق اور دیگر تمام آئمہ علیھم السلام نے بڑی شدت کے ساتھہ غالیوں کا مقابلہ کیا ہے علامہ مجلسی نے تقریبا ایک ھزار روایتیں مختلف اماموں سے نقل کی ہیں [مجلسی 1403 : 365 ]

اور اسی طرح شیعیان علی کے تمام علماء و فقھاء نے غالیوں کی سخت مذمت کی  ہے شیخ مفید فرماتے ہیں غالیوں کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ غالی کافر ہیں اور یھود و نصاری سے بد تر ہیں [ شیخ مفید بی تا : 71]

 

منابع

1 قرآن

2 نھج البلاغہ

3 جزری ابن اثیر {۱۴۰۷ ق } الکامل فی التاریخ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان ج ۵

4 اشعری {۱۴۰۰ ق } المقالات الاسلامین دار النشر بیروت لبنان

5 اشعری  { بی تا } المقالات والفرق موسسہ الاعلمی للمطبوعات بیروت لبنان

 6  جرجانی { بی تا } تاریخ جرجان

7  رسول جعفریان { ۱۳۸۱ } حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ موسسہ انصاریان قم

8  محمد بن حسن حر عاملی {۱۴۱۴ } وسایل الشیعہ  دار الحیا بیروت

 9  محمد مرتضی زبیدی حسینی {۱۴۰۴ ق } تاج العروس نشر پگاہ تہران

10  خوئی {۱۴۲۴ ق } معجم رجال الحدیث ج ۳  مرکز نشر الثقافہ قم ایران

11  حسین درگاھی {۱۳۷۱ ش  } تصحیح اعتقادات الامامیہ تہران

12  ذھبی {۱۳۸۲ } میزان الاعتدال ج ۳

13  حسین بن محمد راغب اصفھانی {۱۴۱۶ ق } مفردات الفاظ القرآن تحقیق صفوان عدنان داوودی دمشق دارالقلم

14  علی ربانی گلپائیگانی {۱۳۷۱ ش } فرق و مذاھب کلامی دفتر تحقیقات و کتب درسی قم

15  شھرستانی ملل و نحل ج ۱ { بی تا } دارالمعرفہ بیروت لبنان

16  شیبی مصطفی کامل { بی تا } الصلہ بین التشیع و التصوف دارالمعارف قاھرہ

17  نعمت اللہ صالحی نجف آبادی {۱۳۸۴ } انتشارات کویر تہران

18  امالی شیخ صدوق ج ۲

19  طوسی {۱۳۴۸ } اختیار معرفہ الرجال موسسہ اھل البیت قم ایران مصحح میر داماد

20  عبداللہ فیاض {۱۴۰۶ } تاریخ الامامیہ موسسہ الاعلمی للمطبوعات بیروت لبنان

21  کشی ابو عمر {بی تا } رجال کشی

22  محمد باقر مجلسی {۱۴۰۳ } بحار الانوار دار احیاء التراث العربی الطبعہ الثانیہ گ ۲۵ بیروت

23  محمد جواد مشکور {۱۳۷۵ ش } تاریخ شیعہ و فرقہ ھای اسلام تا قرن چھارم اشراقی تہران

24  محمد معین {۱۳۷۵ ش } فرھنگ فارسی چاپ نہم انتشارات امیر کبیر تہران

25  مفید محمد بن نعمان { بی تا } الاعتقادات فی دین الامامہ

کیا امام زمان عج سے ملاقات ممکن یے

 تحریر:تصورعباس خان

وجود امام زمانہ عج پر اعتقاد اور ان کی امامت کو قبول کرنا ایک واضح مسئلہ ہے کہ جس کاشمار مذھب شیعہ کی ضروریات میں سے کیا جاتا ہے ۔عقلی ،قرآنی اورحدیثی دلائل کے ذریعے یہ اعتقاداب تک بطوراحسن روشن اورواضح کیا گیا ہے لیکن زمانہ غیبت کی خاص تاریخی شرائط کےپیش نظر بہت سی بحثیں ابھی تک تشنئہ کام پڑی ہیں مثلا زمانہ غیبت میں حضرت حجت عج کی زندگی کی خصوصیات ، شیعی نظریہ میں مسئلہ غیبت کے آثار ،فوائداورنتائج ،

 

غیبت کے طولانی ہونے کے عوامل اور اس میں لوگوں کا کردار ،ظہورکی شرائط اورعلامات وغیرہ،ابھی تک بہت کم بحثیں ہوئی ہیں کہ ان مسائل کے تمام زاویوں کوزیربحث لایا جائے انہی موضوعات کی طرح ایک موضوع  جواپنی تمام تر اہمیت وضرورت کے باوجود ابھی تک تحقیق کے ترازو میں نہیں تولا گیا وہ اس زمانے میں امام زمانہ عج کی زیارت اور ان سے ملاقات ہے کو جو امام کے آخری نائب کی رحلت کے بعد سے ابھی تک شیعوں کے درمیان رائج رہا ہے اورمختلف جہتوں اورزاویوں سے بحث اورتحقیق کا محتاج ہے اوردوسری طرف موضوع کی پیچیدگیاں ،علمی صلاحیت کے ساتھ ساتھ موضوع کی شکل اورقالب کے لحاظ سے بھی دقت کی طلبگار ہیں کیونکہ ہر قسم کی کج فکری اورافراط وتفریط اس مسئلہ کو پیش کرنے میں مشکلات ایجاد کرسکتی ہے اور اسی بناء پر انسان کاوسیع النظر اورمعتدل ہونا ،اس وادی میں قدم رکھنے کی مھمترین شرط ہے ۔

موجودہ کتابوں میں بہت کم ایسی کتابیں ملیں گی جن میں اس موضوع کے عوامل اور اس کے نتائج پر بحث کی گئی ہو زیادہ تر کتابوں میں حالات زندگی اورحکایات کو نقل کیا گیا ہے کہ ان میں سے بھی بعض عوامانہ طرز پر لکھی گئی ہیں،امام زمانہ عج کی مالاقات کے واقعات اورداستانیں بغیر کسی بحث اورتحقیق کے جمع کی گئی ہیں کہ جن کے ذریعے اس موضوع میں کئی مبھم مطالب کا اضافہ ہوا ہے اس مختصرسے مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ افراط وتفریط سے بالاتر ہوکر علمی اور روشمند طریقے سے اس موضوع پر بحث کی جائے جس کا اصلی سوال یہ ہے کہ کیا غیبت کبریٰ کے زمانہ میں حضرت امام زمانہ عج کی زیارت ممکن ہے یا نہیں ؟یا اتفاقا ملاقات ہوسکتی ہے یا نہیں ؟روایات اس بارے میں کیا کہتی ہیں ؟

شیعہ علماء اصل مسئلہ (یہ کہ زمانہ غیبت میں حضرت حجت عج کی زیارت ممکن ہے )کو اجمالا قبول کرتے ہیں اگرچہ اس مسئلہ کی خصوصیات اورجزئیات میں اختلاف نظرپایا جاتاہے اوربعض علماء نے اس مسئلہ کی تردید اوراس کا انکار کیا ہے ۔

موضوع کی تمام زاویوں سے علمی بحث کےلیے اس موضوع کو تین بابوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

۱:موضوع کی وضاحت اورموضوع کی حد بندی وغیرہ

۲:جو زیارت کو ممکن سمجھتے ہیں ان کے دلائل

۳:اورتیسرے باب میں ان علماء کے دلایل پر بحث ہوگی جو زیارت کو غیبت کے زمانہ میں ممکن نہیں سمجھتے ۔

بنیادی کلمات:ملاقات ،غیبت ،توقیع شریف ،امکان

پہلا باب :

توقیع شریف :غیبت صغری ٰ میں جب امام زمانہ عج کا تمام لوگوں سے رابط نہیں تھا بلکہ خاص نائب تھے جو لوگوں اورامام زمانہ عج کے درمیان واسطہ ہواکرتے تھے لوگوں کےمسائل امام تک پہچانا اور ان کا جواب لوگوں تک پہچانا ان کا اولین فریضہ تھا اور جوتحریر ایک خط کی صورت میں امام زمانہ عج کی طرف ان کو ملتی تھی اس کو توقیع کہاجاتاہے ۔

ملاقات کا معنی :ملاقات یعنی دوسرے شخص کے ساتھ ایساارتباط جو گفتگواورشناخت کوبھی شامل ہو ۔امام عصر عج کے ساتھ ملاقات کا اصطلاح اورعرف میں معنی یہ ہے کہ امام عج کے وجود مبارک کو دیکھنا ،گفتگوکرنا وغیرہ ہوسکتاہے یہ ملاقات عالم خواب میں ہوئی ہو یا بیداری کے عالم میں ۔

خواب میں ملاقات :ایسی ملاقات کہ جس کا ظرف اورجگہ عالم خواب ہے شخص حضرت امام زمانہ عج سے عالم خواب کے اعتبار سے ملاقات کرتاہے اور گفتگوکرتاہے ایسی ملاقات مختلف اشخاص کے لیے ممکن ہے مخصوصا جب انسان روحی اعتبارسے قوی ہواورعمل وکردار کے حوالے سے بھی پختہ ہوالبتہ عالم خواب نہ حجت ہے اور نہ شرعی اعتبار سے تکلیف کا سبب بنتا  ہے

بیداری کے عالم میں ملاقات :

یعنی انسان بیداری کے عالم میں اپنی ظاھری آنکھوں کے ذریعے حضرت حجت کی زیارت کرے اوران کے ساتھ گفتگو کرے ،ایسی ملاقات کی تین مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں

الف:حضرت حجت کی زیارت ،غیر حقیقی عنوان کے اعتبار سے :اس طرح کہ ملاقات کرنے والا اورحضرت حجت کی زیارت کرنے والا اصلا متوجہ نہ ہوکہ یہی  امام زمانہ عج ہیں اور اس کو پتہ بھی نہ چلے اوربعدمیں بھی اسے پتہ نہ چلے کہ کبھی امام کی زیارت ہوئی تھی ۔

یہ ہماری بحث سے خارج ہے کیونکہ اس کو نہ ملاقات کے وقت پتہ چلتا ہے کہ یہی امام ہیں اور نہ ملاقات کے بعد کبھی معلوم ہوتاہے کہ امام سےملاقات ہوئی تھی اور ممکن ہے کہ یہ صورت اکثر افراد کے لیے پیش آئے جس طرح کہ بعض روایات میں آیاہے اورآگے چل کران روایات کو بیان بھی کیا جائےگا۔

ب :امام سے ملاقات اس عنوان سے کہ ملاقات کرنے والا ملاقات کے وقت امام کو پہچانتا ہو کہ یہی امام زمانہ عج ہیں ۔ یہ ہماری بحث میں شامل ہے اوربحث ہوگی کہ کیاایسی ملاقات غیبت کے زمانہ میں ممکن ہےیا نہیں ؟

ج :امام سے ملاقات کرے لیکن دوران ملاقات معلوم نہ ہو کہ یہی امام زمانہ عج ہیں لیکن ملاقات کے بعد پتہ چلے کہ وہ امام زمانہ عج تھے یہ بھی ہماری بحث میں شامل ہے۔

آخری دوصورتیں ہماری بحث میں شامل ہیں البتہ اصل بحث کو شروع کرنے سے پہلے چند ایک اہم سوالات کو ذکر کرنا مناسب ہے کیونکہ ہماری یہ تحقیق انہی سوالوں کے گرد گھومتی ہے۔

کیا غیبت کبری میں امام زمانہ عج کی زیارت اور ان سے ملاقات ممکن ہے ؟اگر بالفرض ممکن ہے تو کیا سب کے لیے یہ توفیق میسر ہے یا صرف خاص اشخاص اورخاص شرائط کےساتھ ممکن ہے ؟غیبت کا معنی کیا ہے ؟کیا غیبت سے مراد اصلا امام کے وجود مبارک کانظر نہ آنا ہے یا مراد امام کا گمنام ہوناہے اگرچہ نظر آئیں ؟وغیرہ

پہلے سوال کے جواب میں کہا جاسکتاہے کہ اس کے جواب سے دوطرح سے بحث کی جاسکتی ہے اولا یہ کہ کیا عقلاممکن ہے امام سے ملاقات یا نہیں ؟اگر جواب مثبت ہے تو پھر یہ سوال ہوگا کہ کیا واقع میں بھی کسی کی امام سے ملاقات ہوئی ہے یا نہیں ؟جہاں تک امکان عقلی کاتعلق ہے کہ کیاعقلی طورپربھی امام سے ملاقات ممکن ہے؟ تو اس کا جواب واضح اورروشن ہونے کہ وجہ سے زیادہ بحث کا محتاج نہیں، کیونکہ امام سے ملاقات کے ممکن ہونے پر شیعہ علماء کا اتفاق ہے شاید کوئی ہو جس نے یہ کہا ہو کہ امام سے ملاقات عقلاممکن نہیں کیونکہ امام سے ملاقات نہ تناقض کاسبب ہے اور نہ استحالہ کا سبب تاکہ عقلی طورپر ناممکن کہیں بلکہ عقلی دلایل  الٹا ملاقات کے ممکن ہونے پر دلالت کرتے ہیں جیسے امامت کا فلفسہ ،زمین کا حجت خداسے خالی نہ ہونا ،لوگوں کا امام کے وجود کا محتاج ہونا وغیرہ اگر غیبت کے زمانے میں لوگ امام کے ظاہری وجودسے محروم ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو امام کی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ امام کے ظاہری وجود مبارک سے محرومی اس رکاوٹ کی وجہ سے ہے کہ جس کوان روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ جو روایات غیبت کے فلسفے کوبیان کرتی ہیں ان روایات میں ان رکاوٹوں کو بیان کیا گیا ہے کہ کیوں لوگ امام کے ظاہری وجودسے محروم ہیںجیسے قتل کا ڈر ،ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں پر بیعت نہ  کرنا ،لوگوں کا آمادہ نہ ہونا وغیرہ اب اگر لوگ امام کے محتاج ہیں اور ضرورت ہے تو یہ کافی نہیں ہے بلکہ ان رکاوٹوں کو ہٹانا بھی ضروری ہے جن میں سے آج سب سے زیادہ مھم اپنے آپ کی اورلوگوں کی تربیت ہے اورظہور کے زمینہ کو ہموار کرنا ہے البتہ یہ رکاوٹیں امام کے ظہور سے مانع ہیں نہ یہ کہ امام کسی ایک  شخص سے بھی نہیں مل سکتے ہوسکتاہے کہ ایک شخص میں تمام شرائط پائی جائیں اور تمام رکاوٹیں اس شخص کی نسبت ہٹ جائیں توامام سے  ملاقات  ممکن  ہوسکتی ہے ،شیخ طوسی کا بھی یہی نظریہ ہے اسی طرح وہ واقعات اورروایات جو امام کے ساتھ ملاقات کوبیان کرتی ہیں اس مسئلے کو مزید روشن کردیتی ہیں وہ چیز جس پر دقت کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کیا واقع میں بھی کسی کی ملاقات امام سے ہوئی ہے یا نہیں ؟مختلف نظریات پائے جاتے ہیں بعض اصلاقبول نہیں کرتے کہ واقع میں غیبت کبریٰ کے زمانہ میں کسی شخص کی امام سے ملاقات ہوئی ہو اوربعض قبول کرتے ہیں اوربعض قبول کرتے ہیں لیکن ہر روایت اور واقعہ کو نہیں بلکہ خاص افراد کے لیےاورخاص شرائط کے پیش نظر قبول کرتے ہیں ۔

اس مضمون میں جو چیز مہم ہے وہ دونوں طرف سے پیش کیے گئے دلائل کی تحقیق ہے ؟تاکہ مذھبی احساسات سے بالاتر ہوکر علمی معیار کی بناپر دونوں طرف کے دلائل کو علمی اصولوں کی کسوٹی پر پرکھا جائے ۔امام سے ملاقات میں جو اختلاف پایا جاتا ہے کہ بعض کہتے ہیں واقع میں ممکن ہے اوربعض نفی کرتے ہیں ۔اس اختلاف کی اصلی وجہ (خود امام کے غیب ہونے سے مراد کیا ہے؟) اس میں اختلاف ہے ۔کیا امام کے غائب ہونے کا مطلب اصلاامام کے وجود کا غائب ہونا ہے یا مراد عنوان کا مخفی ہوناہے (یعنی ممکن ہے انسان امام کو دیکھے لیکن پہچان نہ سکے اورمعلوم نہ ہوسکے کہ یہی امام ہیں ؟البتہ یہ سوال ان روایات سے پیدا ہوتا ہے جو امام کی غیبت کے بارے میں بیان ہوئی ہیں۔

 امام کے وجود کے غائب ہونے کا مطلب ہے کہ کوئی فوق العادہ طاقت کارفرما ہے اور یہ مطلب دوطرح سے سمجھا جا سکتا ہے، پہلا یہ کہ یا مراد یہ ہے کہ امام غیبت کے زمانے میں موجودہ عادی اورمادی شرائط سے بالاتر ہیں جیسا کہ شیخیہ کہتے ہیں اور جس عالم میں امام زمانہ عج ہیں اس عالم کو ھورقلیا کا نام دیتے ہیں (کہ امام ایک روح کی صورت میں موجود ہیں )یا مراد امام کا دنیا میں تصرف ہے البتہ اس قدرت تکوینی کے ذریعہ جو خداوند نے انہیں عطا کی ہے ۔ اب اگرہم غیبت سے مراد، امام کے وجودمبارک  کا غیب ہونا مراد لیں توپھر امام سے ملاقات اور ان کی زیارت کے بارے میں بحث بے فائدہ ہے کیونکہ امام کا وجود ہی اس دنیا سے غائب ہوچکاہے توملاقات اور زیارت معنی نہیں رکھتیں ، ہاں اگر مراد دوسری صورت لیں یعنی امام اس دنیا میں ہی ہیں البتہ نآشنا کے طور پر ایک اجنبی کے طور پر کہ کوئی پہچان نہیں سکتا کہ امام ہیں تو یہاں بحث فایدہ دے گی اور بحث کی جاسکتی ہے کہ کسی نے امام کی زیارت کی ہے یا نہیں ؟

اجمالی طورپر جو بات حدیثوں سے معلوم ہوتی ہے  وہ یہ ہے کہ امام، غیبت  کے زمانہ میں بھی طبیعی اوراسی جسم کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جیسا کہ اگرغیبت واقع نہ ہوتی تو امام زندگی گزارتے ۔اس بنا پر ان روایات کی طرف توجہ کرنی چاہیے جو امام کی زندگی گزارنے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں جوالفاظ اورکلمات ان حدیثوں میں آئے ہیں مثلا (لاترون شخصہ )[1]اس کو کوئی دیکھ نہیں سکتا ۔ یا (فیراھم ولایرونہ )[2]و(یری الناس ولایرونہ)[3]وہ تو لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن لوگ انہیں نہیں دیکھ سکتے  وغیرہ کہ جن کا معنی ہے امام کے وجودمبارک کانظر نہ آنا اوربعض حدیثوں میں کہاگیا ہے  (یرونہ ولایعرفونہ )[4]یعنی امام کو دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں ہیں جو واضح طورپر کہ رہی ہے کہ لوگ امام کودیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں ہیں ۔ دونوں چیزیں ظاہر ا ایک دوسرے سے فرق کرتی ہیں لیکن اگر خود الفاظ ،کلمات اور روایت کے مضمون میں توجہ کی جائے  تومعلوم ہوجائےگا کہ ان دو قسم کی روایات میں تضاد اورتعارض نام کی کوئی چیزنہیں ہے۔

پہلی قسم کی روایات میں لفظ (لایر ی )اس وقت امام کے وجود کے غائب ہونے پر دلالت کرسکتا ہے جب اس کلمہ کا ایک ہی معنی ہو تا کہ معلوم ہوسکے کہ اس کا مطلب ہے کہ اصلاامام نظر نہیں آتے لیکن دوسری روایت میں بھی اسی کلمہ کا استعمال یعنی (یرونہ ولایعرفونہ )(لوگ )امام کو دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں ہیں )تو اس کا مطلب ہے لایرونہ کے دومعنی ہیں ایک ظاھری طورپر نہ دیکھنا اوردوسرا ہے نہ پہچاننا اگرچہ دیکھ رہے ہیں ۔

پس کلمہ (یری )کے دومعنی ہیں کہ جو روایات اورآیات میں استعمال ہوئے ہیں امام علی علیہ السلام امام مھدی عج کی غیبت کے بارے میں فرماتے ہیں :

 (داخلۃ فی دورھاوقصورھا جوالۃ فی شرق ھذہ الارض وغربھا تسمع الکلام وتسلم علی الجماعۃ تری ولاتری [5])یعنی حجت خدا گھروں اوراجتماع میں تشریف لاتی  ہے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا میں چکرلگاتی ہے مختلف علاقوں کا نظارہ کرتی ہے لوگوں کی باتوں کو سنتی ہے مجلس میں موجود افراد پر سلام کرتی ہے وہ لوگوں کو پہچانتی ہے درحالانکہ خود نہیں پہچانی جاتی ۔

یہ جملہ امام علی علیہ السلام کا کہ (تسلم علی الجماعۃ )دلالت کررہا ہے کہ (لاتری )سے مراد یہ نہیں ہے کہ امام اصلا دیکھے نہیں جاتے بلکہ مراد یہ ہے کہ پہچانے نہیں جاتے پس پہلی روایات میں جو الفاظ ذکر ہوئے ہیں مثلا (لایرون )(لاتراہ )(لایری )وغیرہ  سے مراد صرف یہ نہیں ہےکہ اصلا دیکھے نہیں جاتے بلکہ مراد اس کا دوسرا معنی ہے جو قرینے سے سمجھا جاتا ہے اور وہ ہے امام کا نہ پہچانا جانا، پس دونوں معنی مرادلیے جاسکتے ہیں اس بنا پر ان دوقسم کی روایات میں تضاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ (لایری )اور(لایرون )کا معنی ہے عدم پہچان اوراس پر قرینہ اورگواہ وہ کلمات ہیں جو امام علی علیہ السلام نے فرمائے :امام کا لوگوں کے درمیان اجنبی کے طورپر آنا جانا ،مجالس اورمحافل میں تشریف لانا ،اھل مجلس پرسلام کرناوغیرہ اوراسی طرح وہ روایات جو غیبت کے زمانہ میں امام کی غیبت کو حضرت یوسف کی غیبت سے تشبیہہ دیتی ہیں جیسا کہ عنقریب آئے گا ،اسی چیز پر دلالت کرتی ہیں اسی طرح محمد بن عثمان عمری (غیبت صغری ٰ میں دوسرے خاص نائب) کا قسم یا د کرنا کہ امام ہر سال حج کے موقع پر حج کے اعمال انجام دیتے ہیں اورلوگوں سے ملاقات کرتے ہیں ۔اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ امام حاجیوں کو دیکھتے ہیں اوران کو پہچانتے ہیں اورحاجی بھی انہیں دیکھتے ہیں البتہ پہچانتے نہیں ہیں :یری الناس ویعرفھم ویرونہ ولا یعرفونہ [6])امام کے دوسرے خاص نائب کا یہ جملہ جو امام صادق علیہ السلام کی طرح استعمال کیا ہے امام کے اجنبی ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔امام کے وجود کا اصلانظر نہ آنا غیر طبیعی اورغیر عادی ہے حالانکہ روایات کہتی ہے کہ امام کی زندگی عادی اورمعمول کے مطابق ہے اوردوسرا امام کے وجود کا دنیا سے غائب ہونا معجزہ کے ذریعے ممکن ہے لیکن معجزہ تب ہے جب اس معجزہ میں خاص حکمت اورفلسفہ ہو، اس کے علاوہ معجزہ کا استعمال معنی نہیں رکھتا کیونکہ الھی سنت کا محور یہ ہے کائنات کے تمام مراحل عادی حالت میں طے ہوں اورمعجزہ صرف استثنائی صورت میں واقع ہوتاہے ۔اس بنا پر کہا جاسکتاہے کہ امام عادی زندگی اورطبیعی زندگی گزاررہے ہیں مگر کسی خاص مورد پر جہاں خود وجود کوبھی غائب ہونا پڑے اوریہ ھمیشگی نہیں ہے بلکہ ضرورت کے تحت جہاں احتیاج ہواور(لاترونہ )کی تعبیر امام کے اجنبی یعنی امام پہچانے نہ جانے کی طرف اشارہ ہے۔

 رہی یہ بات کہ کسی کوتوفیق ہوئی ہے امام سے ملاقات کی یا نہیں ؟تویہ علیحدہ موضوع ہے جس پر بعد میں بحث ہوگی۔

اب ان دونظریوں کے ذکر کیے گئے دلائل پر بحث کرتے  ہیں جو امام سے ملاقات کو ممکن یا ناممکن بناتے ہیں ۔

پہلا نظریہ :ملاقات کا ممکن ہونا :

امام سے ملاقات کے ممکن ہونے سے مراد یہ ہےکہ واقع میں بھی اگربعض لوگ تعیین کی گئی شرائط پر پورا اترسکیں تو ان  کی امام سے ملاقات ہوسکتی ہے  یعنی ایسا نہیں ہے کہ شرائط رکھنے کے باوجود بھی وہ کبھی امام کی زیارت نہیں کرسکتے وہ بزرگ ھستیاں جنہوں نے اس نظریے کو قبول کیا ہے کچھ کے نام درج ذیل ہیں :

شیخ طوسی ،سید مرتضی علم الہدی ،سید ابن طاووس ،علامہ حلی ،علامہ بحرالعلوم اورمقدس اردبیلی وغیرہ [7]۔

ان کے علاوہ علامہ مجلسی ،فیض کاشانی ،محدث نوری ،شیخ محمود عراقی ،شیخ علی اکبر نھاوندی ،محمد تقی موسوی اصفہانی ،آیت اللہ صافی گلپایگانی اورسید محمد صدر کے نام قابل ذکر ہیں ۔

پہلے نظریہ کے حامی اگرچہ اس مسئلہ کی جزئیات میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن اس بارے میں اتفاق رکھتے ہیں کہ اولا زمانہ غیبت میں اصل اوراساس امام کا مخفی ہونا ہے ثانیایہ کہ اس اصل سے استثناء کوبھی قبول کرتے ہیں ۔پہلے نظریہ کے دلائل ممکن ہے دوطرح کے ہوں   :

الف) روایات :وہ روایات جو کم از کم تیسری قسم کی ملاقات کو ثابت کرتی ہیں یعنی امام سے ملاقات بغیر پہچان کے ،لیکن ایسی ملاقات جس میں دوران ملاقات بھی معلوم ہو کہ یہی امام زمانہ عج ہیں اس کے لیے دوسرے دلائل کی ضرورت ہے یہ روایات اس پر دلالت نہیں کرتیں ۔یہ روایات دلالت کے اعتبار سے چند قسم کی بنتی ہیں :

(۱)جن روایات میں کلمہ “یرونہ) استعمال ہوا ہے جو امام کی زیارت اورملاقات پر واضح دلالت کرتا ہے جیسے ابوبصیر امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتا ہے کہ امام ان  الھی سنتوں کو بیان فرما رہے تھے جو خداوند متعال کی طرف سے انبیاء کو پیش آئیں ،فرمایا:وہ امام مھدی عج کو بھی پیش آئیں گی حضرت موسی اور حضرت عیسی کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں (اماسنتہ من یوسف فالستریجعل اللہ بینہ وبین الخلق حجابایرونہ ولایعرفونہ[8] )وہ سنت الھی جو حضرت یوسف کو پیش آئی مھدی کو بھی آئے گی اوروہ ہےلوگوں کے درمیان نآشنا اورمخفی رہنا کہ لوگ دیکھتے تھے لیکن پہچانتے نہیں تھے ۔

(۲)اس روایت کا مضمون جو محمد بن عثمان عمری سے نقل ہواہے کہ وہ قسم کھاتے ہوئے کہتے ہیں (واللہ ان صاحب ھذاالامرلیحضرالموسم کل سنۃ فیری الناس ویعرفھم ویرونہ ولایعرفونہ[9] )خدا کی قسم صاحب امر (امام زمانہ عج )ہرسال حج کے اعمال کو انجام دیتے ہیں اس طرح کہ وہ حاجیوں کو دیکھتے ہیں اورحاجی بھی اسے دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں ۔یعنی حتیٰ کہ گفتگوکے دوران بھی متوجہ نہیں ہوتے کہ یہی امام ہیں ۔اولانائب دوم کا قسم کھانا اورثانیاخود اس کا مقام ومرتبہ ملاقات امام کے مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے اورخود امام صادق علیہ السلام کی روایت کے ساتھ بھی اس کا مضمون ملتا ہے ۔

(ب)وہ روایات جو بیان کرتی ہیں کہ امام زمانہ عج عادی زندگی گزاررہے ہیں اورمعاشرہ اورلوگوں میں نآشنا کے طورپر رہتے ہیں :

(۱)جیسے صدیر صرفی امام صادق  علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ جس میں امام زمانہ عج کو حضرت یوسف سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح یوسف اپنے بھائیوں میں ناآشنا کے طور پر موجود تھا :صاحب ھذاالامر یتردد بینھم ویمشی فی اسواقھم ویطا فرشھم ولایعرفونہ حتی یاذن اللہ ان یعرفھم نفسہ کمااذن لیوسف[10] )تمہارا صاحب امر (امام زمانہ عج )لوگوں کے درمیان آتاجاتاہے بازاروں مین چکر لگاتا ہے گھروں اورمجلس میں تشریف لاتاہے ان کے ساتھ بیٹھتا ہے درحالانکہ لوگ ان کو نہیں پہچانتے مگریہ کہ امام خداوندمتعال کے اذن سے اپنا تعارف کروائیں جیسے یوسف نبی ۔

(۲)حذیفہ یمانی ایک طولانی حدیث امام علی علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ جس میں امام علی ؑ نے فرمایا :(۔۔۔ ماشیۃفی طرقھا داخلۃ فی دورھا وقصورھا جوالۃ فی شرق ھذہ الارض وغربھا تسمع الکلام وتسلم علی الجماعۃ تری ولاتری )[11] یعنی حجت خدا راستوں اورسڑکوں پر گردش کرتی ہے گھروں اورمجلسوں میں تشریف لاتی ہے تمام دنیا میں مشرق سے مغرب تک گھومتی ہے مختلف علاقوں کا نظارہ کرتی ہے لوگوں کی باتوں کو سنتی ہے مجلس میں موجود اشخاص پر سلام کرتی ہے لوگوں کو پہچانتی ہے درحالانکہ خود نہیں پہچانی جاتی ۔آخری جملہ میں جو لفظ لاتری آیا ہے اس کامعنی یہ نہیں ہے کہ اصلا ان کا وجود ہی نہیں دیکھا جاتا بلکہ پہلے فقرے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ معنی کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اجنبی کے طور پر آتے ہیں دیکھے جاتے ہیں لیکن پہچانے نہیں جاتے ۔
تیسری قسم :تیسری قسم روایات کی وہ ہے جو دلالت کرتی ہے کہ بعض خاص افراد امام کے مسکن اوررہائش سے آگاہ ہیں

(۱)مفضل امام صادق ؑ سے نقل کرتا ہےکہ امام نے فرمایا (ان لصاحب ھذاالامرغیبتین احداھماتطول حتی یقول بعضھم مات وبعضھم یقول قتل وبعضھم یقول ذھب فلایبقی علی امرہ من اصحابہ الانفریسیر لایطلع علی موضعہ احد من ولی ولاغیرہ الاالمولی الذی یلی امرہ [12] )اس امر کے صاحب(امام زمانہ  )کے لیے دوغیبتیں ہیں کہ ان میں سے ایک کچھ طولانی ہے کہ بعض کہیں گے وہ فوت ہوگئے ہیں اوربعض خیال کریں گے کہ شھید ہوگئے ہیں اوربعض کہیں گے وہ رحلت فرماگئے ہیں اوران کا کوئی اثرباقی نہیں رہا ، ماننے والا اورنہ ماننے والا کوئی بھی ان کے مسکن اوررہائش سے آگاہ نہیں ہوگا مگروہ شخص جو حضرت کے کاموں کوانجام دینے پر مامور ہو صرف ایسا شخص امام کی رہائش سے آگاہ ہوگا ۔

(۲)اسحاق بن عمار صیرفی امام صادق ؑ سے نقل کرتا ہے (للقائم غیبتان احداھما قصیرۃ والاخریٰ طویلۃ :الغیبۃ الاولیٰ لایعلم بمکانہ فیھا الاخاصۃ شیعتہ والاخری لایعلم بمکانہ فیھا الاخاصۃ موالیہ[13] )قائم کے لیے دوغیبتیں ہیں کہ ایک تھوڑی مدت والی اوردوسری طولانی مدت ہے پہلی قسم کی غیبت کی خصوصیت یہ ہے کہ  بعض خاص افراد کے علاوہ  باقی شیعہ ان کے محل زندگی سے واقف نہیں اوردوسری غیبت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ماننے والے بھی ان کے مسکن سے آگاہ نہیں ہیں مگر خاص اشخاص اورمنتخب افراد :ممکن ہے (خاصۃ موالیہ )سے مراد بہت ہی قریبی اورہمراز افراد ہوں یا جو امام کی خدمت میں ہوتے ہیں جیسا کہ پہلی روایت میں بھی پڑھا ۔بہرحال یہ روایت اور پہلی روایت کچھ خاص افراد کو مستثنی کرتی ہے کہ جو امام کے محل زندگی سے واقف ہیں حدیث کی سند بھی صحیح ہے اور اس کے راوی مثل کلینی ،محمد بن یحیی ،محمد بن حسین (ابوجعفر زیات )،حسن بن محبوب اوراسحاق بن عمار صیرفی ہیں جو بزرگ اصحاب اورمورداطمینان ہیں ۔

ان روایات کی بناء پر امام سے ملاقات کے ممکن ہونے میں کم از کم محدود طور پر تائید ہوتی ہے کیونکہ پہلی قسم کی روایات کی بنا پر لوگ امام کو ایک عام شخص تصور کرتے ہیں اورامام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کہ یہی امام ہیں پس  یہ نظریہ کہ غیبت کےزمانہ میں امام سے ملاقات ممکن ہے پہلی قسم کی روایات صراحت کے ساتھ اس پر دلالت کررہی ہیں ۔دوسری قسم کی روایات مثلا لوگوں کے درمیان امام کا آنا جانا ،سلام کرنا اور مجلسوں میں شرکت وغیرہ خود امام کے دیکھے جانے پر دلالت کرتی ہیں ۔کیونکہ ان روایات میں بحث اس سے نہیں کہ امام کا وجود مبارک نظر نہیں آتا یاامام سے ملاقات نہیں ہوتی بلکہ بحث اس سے ہے کہ امام پہچانے نہیں جاتے   جوغیبت کے فلسفہ کی وجہ سے ہے ۔

تیسری قسم کی روایات اس چیز کوبیان کررہی ہیں کہ امام کی رہائش اورمسکن سے کوئی واقف نہیں ہے سوائے چند خاص افراد کے ۔البتہ رہائشی مکان کے علاوہ دوسری جگہ پر امام سے ملاقات یا امام کی زیارت کو رد نہیں کررہیں۔

بنابر این، ان تمام روایات میں جس چیز پر زیادہ توجہ دی گئی ہے اورتاکید کی گئی ہے وہ ہے امام کا اجنبی ہونا اور نہ پہچانا جانا حضرت اس جگہ اجنبی کے طورپر ملاقات کرتے ہیں جب خود نہ چاہیں وگرنہ اگر اذن الہی سے چاہیں تو اپنا تعارف بھی کروا سکتے ہیں جیسا کہ امام صادق علیہ السلام سے نقل کی گئی روایت میں گزرچکا ہے ۔

(ب)امام کی زیارت کے واقعات

پہلا نظریہ کہ امام سے ملاقات ممکن ہے اس پر ایک دلیل روایات کی صورت میں بیان ہوئی ہے اوردوسری دلیل خود امام کی زیارت کے واقعات اور حکایات جو تاریخ میں بیان ہوئی ہیں خود دلیل ہیں کہ امام سے ملاقات ممکن ہے کیونکہ ایک چیز کا واقع ہونا بہترین دلیل ہے اس کے ممکن ہونے پر ۔

اگرچہ ہماری بحث ان ملاقاتوں سے نہیں ہے جو امام سے ہوئی ہیں بلکہ ہم ان کو بطور دلیل اس لیے نقل کررہے ہیں کہ اتنے واقعات کا نقل ہونااگرچہ شاید ہرایک واقعہ علیحدہ علیحدہ طورپر اما م کی زیارت کے ممکن ہونے پر دلیل نہ بن سکے لیکن مجموعی طورپر ان واقعات سے کم از کم اتنا اطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ  امام سے ملاقات ممکن ہے  البتہ ہماری بحث اس سے نہیں ہے کہ ہم واقعات پر علیحدہ علیحدہ بحث کریں کہ کونسا واقعہ حقیقت رکھتا ہے اور کونسا واقعہ حقیقت نہیں رکھتا اس کے لیے علیحدہ اور مستقل طورپر بحث کی ضرورت ہے یہاں ہم صرف ان کو بطور دلیل ذکرکررہے ہیں ۔

تواتر حکایات :بیداری کی حالت میں امام سے ملاقات کے واقعات  بہت زیادہ ہیں اورشیعہ علماء نے بھی ان واقعا ت کے متواتر ہونے کو اجمالی طورپر قبول کیا ہے اوراس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے آیت اللہ صافی گلپایگانی لکھتے ہیں :وہ لوگ جنہیں غیبت کبری کے آغاز سے لے کر آج کے زمانہ تک ،امام کی زیارت ہوئی ہے بہت زیادہ ہیں ،،[14]

بعض محققین نے ان واقعات کو تواتر سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے بہت سارے ان واقعات کو نقل کرنے والے اور جن کی امام سے ملاقات کے واقعات نقل ہوئے ہیں اکثر فقیہ ،زاہد اورعلمی شخصیات ہیں بنابر ایں ان واقعات کانقل ہونا اوربزرگ شخصیات مثلا سید بن طاووس ،علامہ بحرالعلوم اورمقدس اردبیلی کا خود ان افراد میں سے ہونا جن کو امام کی زیارت ہوئی ہے یہ سب دلیل ہیں امام سے ملاقات کے ممکن ہونے پر ۔

زیارت کرنے والوں کا اقرار

بہت سارے افراد نے اقرار کیا ہے کہ انہیں امام کے ساتھ ملاقات نصیب ہوئی ہے اگرچہ علماء کی روش یہ رہی ہے کہ ایسے معاملے کو مخفی اورپنھان رکھا جائے اس کے با وجود بعض نے صراحتا اس چیز کو ذکربھی کیا ہے مثلا حاج علی بغدادی [15]،سید احمد رشتی[16][17] ،علی ابن ابراہیم مھزیار[18] ،علامہ بحرالعلوم [19]،محمد علی قشنری[20] ،محمد بن عیسی بحرینی[21] ،حسن بن مثلہ جمکرانی [22]،آیت اللہ مرعشی نجفی [23]وغیرہ ہرایک نے تمام واقعہ کو نقل کیا ہے ۔ ،سید بن طاووس

پس اس بنا پر یہ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ (جن مجتھدین یا بزرگ ہستیوں کی طرف امام سے ملاقات کی نسبت دی جاتی ہے انہوں نے کہیں بھی خود اس کا ذکر نہیں کیا )یہ اعتراض قابل قبول نہیں ،کیونکہ بعض علماء جیسے مرعشی نجفی نے اپنی امام سے ملاقات کو لکھا ہے اوربیان کیا ہے ۔پس کچھ علماء اور بزرگ ہستیوں نے اپنی ملاقات کےواقعہ کو نقل کیا ہے اورکچھ نے نہیں کیا جو ہمیشہ کےلیے ایک راز بن گئے ۔

امام زمانہ عج سے اعمال اوردعاوں کا نقل ہونا :

جو ذکر اوردعائیں امام زمانہ عج سے منسوب ہیں شیعہ کتابوں میں بغیر شک وشبہ کے ان دعاوں کا امام سے ذکر ہوناخود امام سے ہونے والی ملاقات پردلالت کرتاہے وگرنہ ان دعاوں کا امام سے منسوب کرنا درست نہیں ہےخصوصا جب علماء کسی نامعلوم چیز کو امام سے نسبت دینے میں احتیاط سے کام لیتے ہوں اورہرگز جس چیز کا امام سے صادرہونا یقینی نہ ہوتا امام سے نسبت نہیں دیتے تھے خصوصا شرعی احکام ،دعائیں اورعبادات ۔اس سے بھی زیادہ بعض ملاقاتوں میں امام نے ایک خاص حکم بھی ارشاد فرمایا جیسے  مسجد جمکران کی بنیاد رکھنا اورشیعوں کو اس مکان کی طرف توجہ کرنے کا حکم دینا جیسا کہ ۳۷۳ھ ماہ رمضان میں حسن بن مثلہ جمکرانی کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں فرمایا  ۔ امام نے اس ملاقات میں مسجد بنانا اورشیعوں کی اس مقدس مقام کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ مسجد جمکران میں دورکعت نماز جو ایک خاص طریقے سے پڑھی جائے اس کا حکم بھی دیا اوریہ مشہور ومعروف ہے بعض ملاقاتوں میں امام سے خاص دعائیں بھی نقل ہوئی ہیں جیسے آئمہ اطہار کے مزاروں کی زیارت کاخاص طریقہ ،استخارہ کرنے کا طریقہ ،رکوع میں مستحب اعمال ،قنوت میں پڑھی جانے والی دعا اورزیارت جامعہ کی نصیحت وغیرہ جو امام سے نقل ہوئی ہیں ۔ان دعاوں کا معتبر کتابوں میں موجود ہونا اوراس پر عمل محکم دلیل ہے امام سے ملاقات کے ہونے پر اوراس کونسبت دینا امام سے صرف اس وقت صحیح ہے جب اس کے امام سے نقل ہونے پر یقین یا اطمینان ہو ۔وگرنہ یہ ایک قسم کی بدعت ہوگی جو باعمل علماء سے بعید ہے کیونکہ انہوں نے حتی ایک لفظ کو بھی امام سے منسوب نہیں کیا مگریہ کہ یقین یا اطمینان حاصل ہوجائے کہ یہ امام سے نقل ہواہے چہ جائیکہ اعمال اوردعائیں وغیرہ اس بنا پر پہلا نظریہ جو ملاقات امام کو ممکن سمجھتے ہیں محکم دلایل سے ہمکنار ہے پس پہلا نظریہ ثبوتی  اعتبار سے کوئی مشکل نہیں رکھتا اورخود بعض علماء کے بیانات بھی اس کی اہمیت کردوبالا کردیتے ہیں ہم یہاں بعض بزرگ ہستیوں کے چند قول نقل کرتے ہیں ۔

(۱)سیدمرتضیٰ علم الھدی ٰ(م۴۳۶)جن کا شمار  شیخ مفید (م۴۱۳)کے ممتاز شاگردوں میں کیا جاتا ہے  اپنی کتاب “تنزیہ الانبیاء “میں لکھتے ہیں “ہمارااعتقاد یہ نہیں ہے کہ غیبت کے زمانہ میں کوئی بھی امام سے ملاقات نہیں کرسکتا اورکسی کابھی امام سے رابطہ نہیں ہے[24][25]۔ “اسی طرح کتاب “الشافی فی الامامۃ “میں اس بات کو رد کرتے ہیں کہ امام سے ملاقات نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے اثبات پر تاکید کرتے ہوئے رقمطراز ہیں “ہم ہرگز یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ امام اپنے بعض خاص ماننے والوں کے سامنے نہ آئیں بلکہ ہماری نظر میں یہ احتمال وجود رکھتا ہے (یعنی بعض افراد کے سامنے امام تشریف لاتے ہیں اور ملاقات کرتے ہیں وغیرہ )

کتاب “رسائل “میں تو واضح طور پر ملاقات کے مسئلہ کو صریحا ثابت کرتے ہوئے لکھتےہیں “امام تک دسترس جن سے کوئی ڈر نہیں ہے (شیعیان یا مکتب شیعہ کو کوئی نقصان نہیں ہے )ممکن ہے۔[26]

یعنی سید مرتضی ٰ ان لوگوں کی ملاقات کو ممکن سمجھتے ہیں جو شھرت طلبی کے پیچھے نہ ہوں ،راز فاش نہ کریں ،غلط استفادہ نہ کریں وغیرہ ان کے لیے ممکن ہے کیونکہ یہ بہت حساس مقام ہے شیعہ امام کی محبت کی وجہ سے امام سے ملاقات کرنے والے کو بہت عظیم سمجھتے ہیں اورممکن ہے آگے وہ شخص اندر سے مضبوط نہ ہو اورشیعوں کوگمراہ نہ کردے اس لیے سید مرتضی کی طرح دوسرے علماء بھی اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ چند خاص اشخاص سے ملاقات ممکن ہے جن میں تعیین شدہ شرائط پائی جائیں بلکہ سید مرتضی نے ماہرانہ نگاہ  سے دیکھتے ہوئے ایک نظریہ قائم کردیا ہے کہ ہر شخص کے لیے نہیں بلکہ جس سے شیعہ   یا مکتب تشیع کو نقصان نہ پہنچے   ۔البتہ یہ ہمارے مدعے کوواضح طورپر ثابت کررہا ہے کہ ملاقات ممکن ہے ۔

(۲)شیخ طوسی (م۴۶۰)ایک جانی پہچانی شخصیت ہے اورشیخ مفید کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں اورشیخ الطائفہ کے لقب سے مشہور ہیں کتاب الغیبہ میں لکھتے ہیں :”ہم معتقد نہیں ہیں کہ امام اپنے تمام اولیاء سے پوشیدہ اورغائب ہیں بلکہ شاید بہت سارے محبین کو نظر آتے ہوں اوران کے سامنے امام ظاہر ہوں کیونکہ کوئی بھی اپنی حالت کے علاوہ باقی لوگوں کے حالات سے آگاہ نہیں ہے پس اگر امام ایک شخص کے لیے ظاہر ہوں اس حالت میں غیبت کی جو علت تھی وہ اس شخص کی نسبت برطرف ہوگئی ہے اگر زیارت نہ ہو تو وہ جانتا ہے کہ میری اپنی بے لیاقتی ہے یا کوئی مصلحت ہے کہ امام کی زیارت نہیں ہورہی [27]”۔

شیخ طوسی ایک اورجگہ کتاب الغیبہ میں ا س بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام کی بعض اشخاص اورماننے والوں سے ملاقات ممکن ہے جیسا کہ یہ عبارت ہے “دشمن اگرچہ رکاوٹ ہیں کہ امام علنا کسی سے ملاقات کریں لیکن امام کے خصوصی ارتباط کو جو مخصوص محبین کے ساتھ پوشیدہ طور پر ہیں ان کے آگے رکاوٹ نہیں بن سکتے [28]”۔

یہ عبارت واضح طورپر دلالت کررہی ہے کہ ممکن ہے امام کا رابطہ بعض خاص افراد کے ساتھ ہو ۔

(۳)ابوالفتح کراجکی (م۴۴۹)بھی اپنی کتاب کنزالفوائد میں رقمطراز ہیں :”ہمیں یقین نہیں ہےکہ کوئی بھی غیبت کے زمانہ میں امام سے ملاقات نہیں کرتا اورامام کو نہیں پہچانتا بلکہ بعض اوقات بعض خاص محبین کے لیے ملاقات کاموقع فراہم ہوتاہے وہ امام سے ملاقات کرتے ہیں لیکن اس بات کو پوشیدہ رکھتے ہیں[29] ۔

(۴)سیدبن طاووس (م۶۶۴)کہ جن کی امام سے ملاقات کے واقعات بھی نقل ہوئے ہیں اس بارے میں کتاب الطرایف میں لکھتے ہیں :”اب جبکہ تمام شیعیان کے سامنے امام ظاہر نہیں ہیں مشکل نہیں ہے کہ بعض خاص افراد سے ملاقات کریں اور وہ امام کی گفتار اوررفتار کو الگواورنمونہ قرار دیں اور اس بات کو پوشیدہ رکھیں [30]”۔

سید بن طاووس ایک اور کتاب “کشف المحجہ “میں بھی اپنے بیٹے کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :”میرے بیٹے !اگر خدا کی عنایت شامل حال ہو تو تیرے امام تک پہچنے کا راستہ تیرے سامنے کھلا ہے[31] ۔”

(۵)محقق نائینی لکھتے ہیں :”کبھی ایسا ہوتا ہےکہ غیبت کے زمانہ میں بعض بزرگان امام زمانہ سے ملاقات کریں اورشرعی مسائل میں  حکم الہی کو  ،خود امام سے دریافت کریں [32]۔”

(۶)آقای اخوند خراسانی بھی غیبت کے زمانہ میں امام سےملاقات کو ممکن جانتے ہیں وہ لکھتے ہیں :احتمال ہے بعض منتخب اورشایستہ اشخاص امام سے ملاقات کریں اوراس ملاقات میں امام کو پہچان لیں[33] ۔”

(۷)سید محمد تقی موسوی اصفھانی !کہ جو امام سے ملاقات کی آرزو اوردعاکو حضرت امام زمانہ عج پر ایمان رکھنے والے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں لکھتے ہیں :کیونکہ روایات اورواقعات جو امام سے ملاقات کو ثابت کرتے ہیں اہل یقین کے لیے اطمینان کا باعث بنتے ہیں[34] ۔

(۸)سید محمد صدر ،اگرچہ ان واقعات کو اس لیے کہ یہ متواتر ہیں اس دلیل کو قبول نہیں کرتے اور ان سب واقعات کو سچا نہیں مانتےلیکن واقعات کے نقل کرنے والے متقی پرہیز گار افراد کی وجہ سے ان روایات کو صحیح مانتے ہوئے کہتے ہیں :

(کیونکہ بہت سارے واقعات یہ دلالت کرتے ہیں کہ نہیں ہوسکتا جان بوجھ کر سب نے جھوٹ بولاہو،اس کے علاوہ خود نقل کرنے والے افراد کا تقوا اور پرہیزگاری اور ان کا مقام ومرتبہ ان واقعات کے اعتبار میں اضافہ کردیتا ہے [35]۔”سید محمد صدر نآشناء طورپرلوگوں سے  امام کی ملاقات کوروزمرہ کا معمول سمجھتے ہیں۔

(۹)آیت اللہ صافی گلپایگانی کہ جنہوں نے خود مھدویت کے موضوع پر بہت زیادہ تحقیقات اورکتابیں لکھی ہیں اپنی کتاب منتخب الاثر میں ان واقعات کو امام کے وجود پر مہم ترین دلیل سمجھتے ہیں[36] اوراسی طرح کتاب امامت اور مھدویت میں ایک عاقل شخص کےملاقات امام زمانہ کو تردید کرنے کا انکار کرتے ہیں اور امام سے ملاقات کو یقینی طور پر مانتے ہیں۔

(۱۰)شیخ محمد جواد خراسانی معتقد ہیں کہ امام زمانہ سےملاقات ممکن ہےکیونکہ تواتر اجمالی ایک قطعی دلیل ہے جو صالح اورپرہیزگار افراد سے نقل ہوئی ہے کہ جو تقوا وپرہیزگاری اور اطمینان کے اعتبار سے ،حدیث کے راویوں سے کم نہیں [37]۔

ان علماء کے علاوہ اور بھی بہت سارےعلماء ایسے ہیں جنہوں نے زیارت کے واقعات کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے جیسے مرحوم مجلسی  بحارالانوار میں ،محدث نوری نے اپنی دو کتابیں جنۃ الماوی اورنجم الثاقب میں ،علی اکبر نھاوندی نے عبقری الحسان میں اور شیخ محمود عراقی نے دارالسلام میں نقل کی ہیں ۔

جیسا کہ ہم گذشتہ ذکر کرچکے ہیں کہ یہ سب مرحلہ ثبوتی میں بطور دلیل سمجھے جاسکتے ہیں  اورکم از کم ملاقات کے ممکن ہونے پر دلیل بن سکتےہیں البتہ ان واقعات کے صحیح اور ناصحیح ہونے سے ہماری بحث نہیں ہے کیونکہ بزرگ علماء جو اس بارے میں احتیاط سے کام لیتے تھے اور ہرواقعہ اور دعوے دار کے دعوے کو قبول نہیں کرتے تھے یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر مستقل کتاب کی ضرورت ہے اور اس مختصر سے مضمون کے دامن میں اتنی گنجائش نہیں ہے ۔

جو کچھ اوپر گزر چکا ہے اس سے پتہ چلتا ہےکہ غیبت کے زمانہ میں امام سے ملاقات ممکن ہے اگرچہ مسئلہ کی  جوجزئیات ہیں ان سب سے بحث کرنا ممکن نہیں ہے خود علماء کے بیانا ت بھی امام سے ملاقات کو ممکن قرار دیتے ہیں اور پہلے نظریہ کو ثابت کرتے ہیں ۔

دوسرانظریہ :امام سے ملاقات کا ممکن نہ ہونا

اب  یہاں دوسرانظریہ کے پیروکاروں سے بحث ہوگی جو کہتے ہیں کہ غیبت کبری میں امام سے ملاقات ممکن نہیں البتہ خود امام کی زیارت کے ممکن ہونے یا نہ ہونے میں جو اختلاف ہے اور جو نظریات پائے جاتے ہیں اگرچہ یہ اختلاف خود روایات میں استعمال شدہ  دقیق کلمات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے چار گروہ ہیں کہ جن میں سے ہر ایک گروہ کا ایک خاص نظریہ ہے جو یہ ہیں

پہلا گروہ :جو ملاقات کو ممکن سمجھتے ہیں اور تمام واقعات کو جو نقل ہوئے ہیں ان کو بھی صحیح سمجھتے ہیں ۔

دوسراگروہ :جو خود ملاقات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ غیبت کے زمانہ میں امام سے ملاقات ممکن ہے لیکن جو ملاقات امام کا دعوی کرے اس کو قبول نہیں کرتے اور اسی طرح امام سے ملاقات کےواقعات کو بھی رد کرتے ہیں ۔

تیسرا گروہ :جو ملاقات کو ممکن سمجھتے ہیں البتہ زیارت اور ملاقات سے متعلق ذکر کیے گئے واقعات میں سے صرف ان واقعات کو قبول نہیں کرتے جس ملاقات میں، ملاقات کرنے والے کو پتہ چل جائے کہ یہی امام زمانہ ہے یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ملاقات اور زیارت کے دوران پتہ چل جائے کہ یہی امام ہیں ۔

چوتھا گروہ :جو اصلا امام سےملاقات کو ناممکن سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں غیبت کے زمانہ میں اصلا امام سے ملاقات نہیں ہوسکتی ۔

پس یہاں ہماری بحث چوتھی قسم کے نظریہ سے ہے جو اصلا ممکن نہیں سمجھتے ۔

شیخ یداللہ دوزدوزانی ان افراد میں سے ہیں جو غیبت کے زمانہ میں امام سے ملاقات کو ممکن نہیں سمجھتے اورکہتے ہیں کہ امام سےملاقات اصلا ممکن نہیں ہے اور ایک مضمون لکھا “تحقیق اللطیف حول توقیع الشریف “اس مضمون میں امام زمانہ عج کے فر مان سے جو آخری نائب خاص کو خط میں لکھا گیا اس سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ممکن نہیں ہے امام سے ملاقات کرنا ۔

علی اکبر ذاکری نے بھی ایک مضمون میں[38] (ارتباط با امام زمان عج )دونوں نظریوں کو بیان کرنے اوران پر بحث کرنے کے بعد دوسرے نظریہ کو اہمیت دیتے ہوئے اس کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے دلائل کو ذکر کیا ہے کہ ان کے مہم ترین دلائل درج ذیل ہیں :

(۱)امام زمانہ عج کا خط آخری نائب خاص علی بن محمد سمری کو (کہ جس پر تفصیلی بحث اور تبصرہ بعد میں آئے گا )۔

(۲)وہ روایات جو دلالت کرتی ہیں کہ امام لوگوں کے درمیان نآشناء کے طورپر رہتے ہیں ۔

(۳)وہ روایات جو دلالت کرتی ہیں کہ امام حج کے موقع پر نظر نہیں آتے ۔

(۴)وہ روایات جو غیبت کے زمانہ میں شیعوں کے امتحان پر دلالت کرتی ہیں کہ حتماامام غائب ہوگا جس کے ذریعہ شیعوں کا امتحان لیاجائے گا کہ کون اپنے ایمان پر باقی رہتا ہے ۔

اس سے پہلے کہ دوسرے نظریہ کے دلایل پر تبصرہ کیا جائے ضروری ہے کہ جو انکار کے قایل ہیں اور کہتے ہیں کہ امام زمانہ عج کی ملاقات ممکن نہیں ،ان کی ذہنی فضا کا مطالعہ کیاجائے کہ کس انگیزہ کی بنیا د پر وہ ملاقات کو ناممکن سمجھتے ہیں ۔

ان کے دیے گئے دلائل پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے جو ملاقات کوممکن نہیں سمجھتے زیادہ تر ہدف ان کا یہ ہےکہ خرافات اورجھوٹے دعویداروں سے بچا جاسکے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کیلیئے شیعہ عوام کو گمراہ کریں اور دوسرا امام زمانہ عج کی آخری توقیع (خط)جو آخری نائب خاص کوفرمائی ۔لیکن سوال یہ ہےکہ کیا یہ خود امام کی توقیع یا دوسری روایات سے ثابت ہوسکتا ہے کہ زیارت یا ملاقات ممکن نہیں ؟اس باب میں ان کے ذکر کیے گئے دلایل اور ان پر تبصرہ کیا جائے گا ۔.

ملاقات کے ممکن نہ ہونے پر دلائل

وہ لوگ جو ملاقات امام کو ممکن نہیں سمجھتے اورکہتے ہیں کہ امام سے اصلا ملاقات ممکن نہیں ہے انہوں نے اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے چند ایک دلائل پیش کیےہیں لیکن اگر ان کے دئیے گئے دلایل پر غور کیا جائے تو سوائے امام زمانہ عج کے آخری خط کے جو آخری خاص نائب محمد بن علی سمری کو ملا تھا باقی دلایل ان کی بات ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں ہیں پس یہاں ہم روایات جو انہوں نے دلایل کے طور پر پیش کی ہیں ان کی دو قسمیں کرتے ہیں ایک امام کا آخری خط (توقیع شریف )اوردوسری باقی رویات ،تاکہ تفصیلی طور پر بحث کی جاسکے۔

الف:امام کے آخری خط کے علاوہ روایات

ان روایات کی بھی چند قسمیں ہیں :

(۱)وہ روایات جو امام کو تلاش کرنے اور امام کا کھوج لگانے سے منع کرتی ہیں مثلا روایت میں آیا ہے (من بحث فقد طلب ومن طلب فقد دل ومن دل فقد اشاط ومن اشاط فقد اشرک ) جوکسی شے کی تلاش میں ہواس کو پالے گا اورجس نے بھی پا لیا ۔۔۔

(ان دللتھم علی الاسم اذاعوہ وان عرفواالمکان دلواعلیہ[39] ) اگر امام کا نام لوگوں کو بتا دوں اس کو فاش کردیں گے اور اگر امام کی رہائش سے واقف ہوجائیں تو اس کو بھی فاش کردیں گے۔

 جیسا کہ عبارات سے معلوم ہے یہ روایات غیبت صغری کے زمانہ کی طرف اشارہ ہیں کہ جب خطرہ تھا اور جو منع کیا گیا ہے اس کا سبب یہی تھا کہ کہیں دشمن آپ عج کو گرفتار اور شھید نہ کردیں ۔لیکن غیبت کبری ٰ کے زمانہ میں یہ بات صدق نہیں کرتی ۔

(۲)وہ روایات جو امام کے نآشنا ہونے پر دلالت کرتی ہیں بعض کہتی ہیں کہ امام اصلا نہیں پہچانے جاتے البتہ اجنبی کے طورپر لوگوں میں رہتے ہیں رابطہ رکھتے ہیں جیسا کہ امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے

(ولایعرفونہ حتی یاذن اللہ ان یعرفھم نفسہ[40]) لوگ امام کو نہیں پہچانتے مگر یہ کہ امام خدا کے اذن سے اپنا تعارف نہ کرائیں ۔بعض روایات صرف حج کے موقع پر امام کے نآشنا ہونے پر دلالت کرتی ہیں جیسےکہ یہ روایت ہے (یفقدالناس امامھم یشھدالموسم فیراھم ولایرونہ[41])ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی اپنے امام تک دسترسی حاصل نہیں ہوگی امام مراسم حج میں تشریف لائیں گے لوگوں کو پہچانتے ہوں گے لیکن لوگ انہیں نہیں پہچان پائیں گے ۔

ایک اور روایت میں ارشاد فرمایا: 🙁للقائم غیبتان یشھد فی احداھماالموسم یری الناس ولایرونہ[42] )حضرت قائم عج کے لیے دو غیبتیں ہیں کہ ان دو میں سے ایک میں حج کے اعمال کےلیے تشریف لائیں گے اور لوگوں کو دیکھیں گے لیکن لوگ انہیں نہیں پہچان پائیں   گے ،یہ دونوں روایات امام صادق علیہ السلام سے منقول ہیں یہ روایات نہ صرف ملاقات یا زیارت کی نفی نہیں کرتیں بلکہ الٹا زیارت اور ملاقات کو ثابت کرتی ہیں جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے کیونکہ (لایعرفونہ )لوگ امام کو نہیں پہچانتے جیسا کہ پہلی روایت میں ہے امام کی ملاقات اور زیارت کی طرف اشارہ ہے اور دوسری روایت میں( لایرونہ) لوگ امام کو دیکھ نہیں پاتے، سے مراد بھی (لایعرفونہ) ہے کیونکہ پہلی روایت اوردوسری روایت سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا معنی بھی یہی ہے کہ پہچانے نہیں جاتے نہ اینکہ اصلا امام کا وجود مبارک ہی نظر نہیں آتا ۔

پس اس بنا پر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امام دوسرے افراد کی طرح عادی طورپر حج کے اعمال انجام دیتے ہیں لوگو ں سے ملاقات ہوتی ہے البتہ لوگ نہیں پہچان پاتے کہ یہی امام زمانہ عج ہیں ۔

اس کے علاوہ امام کے دوسرے خاص نائب محمد بن عثمان سے جو نقل ہوا ہے انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ امام ہرسال حج کے اعمال انجام دینے کے لیے تشریف لاتے ہیں اور لوگ امام کو دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں ہیں پہلی دو روایات ظاہرا اس قول کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں ۔اگر بالفرض مان لیا جائے کہ یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ امام اصلا دیکھے نہیں جاتے اور نظر نہیں آتے لیکن پھر بھی یہ فقط حج کے موسم کی طرف اشارہ ہے یعنی حج کے موقع پر نہیں دیکھے جاتے لیکن دوسری جگہوں کی نفی نہیں ہوتی ۔

(۳)وہ روایات جو دلالت کرتی ہیں کہ امام کو نہیں دیکھ سکوگے اور اس کا نام مبارک ہی زبان پر لانا جائز نہیں مثلا امام ہادی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں (انکم لاترون شخصہ ولایحل لکم ذکرہ باسمہ[43] )تم امام کو نہیں دیکھ سکو گے اور جایز نہیں ہے کہ ان کا نام لیا جائے ۔

امام رضا علیہ السلام بھی ارشاد فرماتے ہیں : (لایری جسمہ ولایسمی اسمہ [44])اما م دیکھے نہیں جاسکیں گے اور ان کو ان کے نام سے نہیں  پکاراجائے گا ۔

یہ دو روایات بھی ملاقات یا زیارت کے ممکن  ناہونے سے ربط نہیں رکھتیں ،کیونکہ پہلی روایت غیبت صغری ٰ کے زمانہ کو بیان کررہی ہے اور ان خطرات ومشکلات سے مربوط ہے جو دشمنوں نے فراہم کی ہوئی تھیں  ۔

اورجو نام سے نہ پکارنے کا مسئلہ ہے اورمنع کیا گیا ہے کہ امام زمانہ عج کو ان کے نام سے مت پکارنا اور جستجو مت کرنا تو یہ بھی غیبت صغری ٰ کی طرف اشارہ ہے جب حکمران حساس تھے اور اس طرف متوجہ تھے کہ کسی طرح امام کی جگہ کا علم ہوجائے تا کہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوسکیں اسی بنا پر بہت سارے شیعہ علماء غیبت کبریٰ میں امام زمانہ عج کے نام لینے کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ اس زمانہ میں کوئی وجہ نہیں ہے کہ امام کے نام کو چھپایا جائے یا تقیہ کیا جائے اور یہ جو عبارت پہلی روایت میں آئی ہے (لاترون شخصہ )کہ امام کے وجود مبارک کو نہیں دیکھ پائیں گے یا دوسری روایت میں آیا ہے (لایری جسمہ )امام کا وجود مبارک نظر نہیں آئے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ جس طرح دوسرے لوگوں کو دیکھتے ہیں ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں جانتے ہوئے سلام دعا کرتے ہیں ایسا نہیں ہوگا البتہ ہوسکتاہے کہ ایک شخص  ایک دفعہ کہیں ایک جگہ امام کی زیارت کرلے یا امام سے ملاقات ہوجائے تو یہ ہرگز ان روایات کے منافی نہیں ہے۔

(۴)وہ روایات جو غیبت کو شیعوں کا امتحان قراردیتی ہیں کیونکہ امتحان جو غیبت کا فلسفہ بیان ہوا ہے وہ ختم ہوجائے گا اور غیبت اور غیر غیبت میں کوئی فرق نہیں رہے گا ،اس بارے میں روایات بہت زیادہ ذکر ہوئی ہیں مرحوم نعمانی  قدس سرہ نے اپنی کتاب “الغیبہ “میں باقاعدہ طور پر ایک باب ذکر کیا ہے جس میں ان روایات کوجمع کیا گیا ہے جو کم وبیش بیس روایات بنتی ہیں ہم صرف ایک کو ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں :ابوبصیر امام صادق علیہ السلام سے امام زمانہ عج کے ساتھیوں کے بارے میں سوال کرتا ہے امام نے جواب دیا:

( مع القائم من العرب شی ء یسیر )۔ظہور امام کے وقت عربوں میں سے بہت کم لوگ امام زمانہ کے لشکر میں ہونگے ،پھر پوچھا گیا :

ان من یصف ھذاالامرمنھم لکثیر )ہم نے سنا ہے کہ امام کے لشکر میں  عرب زیادہ ہونگے ، تو امام نے فرمایا :

لابدللناس من ان یمحصواویمیزواویغربلواوسیخرج من الغربال خلق کثیر[45] )غیبت کے زمانے میں امتحان لوگوں کو اس طرح ہلا کر رکھ دے گا کہ بہت سارے اس حساس اور نازک موڑ پر منہ پھیر لیں گے ۔

یہ واضح ہے کہ یہ روایات اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ امام سب لوگوں کے سامنے نہیں آئیں گے اس طرح کہ اکثر یت امام کو دیکھ سکیں لیکن یہ ہرگز منافات نہیں رکھتا کہ کبھی اور کہیں پر خاص مصلحت کے پیش نظر کسی سے امام کی ملاقات ممکن ہو اور نہ ہی غیبت کا فلسفہ اس کے مخالف ہے ،  غیبت صغری کی خصوصیات اور اس کا غیبت کبری سے فرق یہ ہےکہ لوگوں سے رسمی اور منظم ارتباط نہیں ہے اور کوئی خاص نائب نہیں ہے کہ جس طرح غیبت صغری میں تھا لیکن غیبت کبری کا معنی ہرگزیہ نہیں ہے کہ اصلا امام کا لوگوں سے کسی قسم کا ارتباط ہی نہیں ہے حتی کہ زیارت وملاقات ۔اگر بالفرض یہ قبول کرلیا جائے تو شیخیہ نظریے اور اس نظریے میں کیا فرق رہ جائے گا ۔حقیقت یہ ہے کہ غیبت صغری میں امام کے خاص نائب تھے اور ان کا امام کےساتھ ایک منظم ارتباط تھا وہ لوگوں کے مسائل امام تک پہچانتے اور ان کے جوابات لوگوں تک لیکن غیبت کبری میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے نہ کسی کا امام کے ساتھ ارتباط خاص ہے اور نہ منظم ملاقات لیکن کوئی دلیل نہیں ہے کہ غیبت کبری میں امام نے مطلقا شیعوں سے رابطہ قطع کیا ہو اہو حالانکہ واقعات کا نقل ہونا اور مختلف دعاوں کا امام سے نقل ہونا اس کے برخلاف چیز کو ثابت کرتے ہیں ۔

جو کچھ گزر چکا ہے حقیقت یہ ہے کہ ان روایات میں سے کوئی بھی ملاقات اور زیارت امام  کےناممکن ہونے پر دلیل نہیں بن سکتیں۔

باقی رہ گئی ان کی آخری دلیل کے طورپروہ روایت جو علی بن محمد سمری کو امام زمانہ عج کی طرف سے ایک خط کے ذریعے ملی ۔

توقیع شریف:

مہم ترین دلیل جس کے ذریعے وہ ملاقات امام زمانہ عج کو ممکن نہیں سمجھتے اور انکار کرتے ہیں وہ امام کی توقیع یا خط ہے جو آخری خاص نائب علی بن محمد سمری کو ان کی وفات سے چھ دن پہلے امام زمانہ عج نے ان کو لکھا اور یہ ایسی توقیع اور فرمان ہے کہ جو دونوں گروہوں کے نزدیک مورد بحث قرار پائی ہے اس توقیع اور خط کی اہمیت کی وجہ سے ضروری ہے کہ اس روایت کے تمام زاویوں کو علمی اصولوں کی کسوٹی پر پرکھا جائے ۔

الف:توقیع شریف کی عبارت پر بحث اور اس میں موجود کلمات کی جانچ پڑتال

ب:توقیع شریف کی سند پر بحث کہ معتبر ہے یا ضعیف

ج:توقیع کی دلالت یامفاد

توقیع شریف کی عبارت

کتاب کمال الدین وتمام النعمۃ میں شیخ صدوق نے سب سے پہلی بار اس توقیع کو نقل کیا ہے اس بنا پر شیخ صدوق سب سے پہلے راوی ہیں اس توقیع کے اور دوسروں نے بھی شیخ صدوق سے نقل کیا ہے اس فرمان اور خط کی عبارت یہ ہے :

بسم اللہ الرحمن الرحیم یا علی بن محمد السمری اعظم اللہ اجراخوانک فیک ،فانک میت مابینک وبین ستۃ ایام فاجمع امرک ولا توص الی احد یقوم مقامک بعد وفاتک ،فقد وقعت الغیبۃ الثانیۃ ،فلاظھور الا بعد اذن اللہ عزوجل وذلک بعد طول الامد وقسوۃ القلوب وامتلاء الارض جورا وسیأتی شیعتی من یدعی المشاھدۃ ألافمن ادعی المشاھدۃ قبل خروج السفیانی والصیحۃ فھوکاذب مفتر ۔ولاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے اے علی بن محمد سمری !خداوند تیرے بھائیوں کو تیری وفات کا اجر عظیم عطافرمائے تو چھ دن بعد فوت جوجائے گا پس اپنے کاموں کو سمیٹ لو (اورجانے کے لیے تیار ہوجاو)اپنے بعد کسی کو بھی اپنا جانشین مقرر مت کرنا کیونکہ دوسری غیبت کا وقت آن پہنچا ہے پس ظہور نہیں ہوگا مگر خداوند عزوجل کے اذن سے اور ایسا (یعنی ظہور)زمانے کے طولانی ہونے اور دلوں کی سختی اورزمین کے ظلم وستم سے پر ہونے کے بعد ہوگا   بہت جلد شیعوں میں سے بعض میری زیارت کا دعوی کریں گے آگاہ رہنا جو بھی سفیانی کے خروج اور آسمانی فریاد سے پہلے ایسا دعوی کرے وہ جھوٹااور فریب کار ہے کوئی قدرت اور طاقت نہیں سوائے خداوند بزرگ وبرتر کے ۔

توقیع کی سند

یہ توقیع شیخ صدوق (۳۱۱۔۳۸۱)کے بقول خود ابومحمد حسن بن احمد المکتب سے سنی ہے کہ اس نے علی بن محمد سمری سے نقل کی ہے شیخ صدوق لکھتے ہیں :حدثنا ابومحمد الحسن بن احمد المکتب ۔قال :کنت بمدینۃ السلام فی السنۃ التی توفی فیھا الشیخ علی بن محمد السمری قدس اللہ روٓحہ فحضرتہ قبل وفاتہ بایام فاخرج الی الناس توقیعا نسختہ :بسم اللہ الرحمن الرحیم یا علی بن محمد السمری ۔۔۔۔۔۔)فنسخنا ھذاالتوقیع وخرجنا من عندہ ۔۔

ابومحمد حسن بن احمد نے کہا میں اس سال جس سال چوتھا نائب خاص شیخ علی بن محمد سمری فوت ہوا بغداد میں تھا اور اس کی وفات سے کچھ دن پہلے اس کے پاس گیا (علی بن محمد سمری )ایک توقیع لوگوں کے سامنے لے آئے کہ جس کی عبارت یہ ہے ۔۔۔۔۔پس میں نے اس توقیع کو لکھ لیا اور چلا گیا ۔

جو گروہ زیارت امام زمانہ عج کو ممکن نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ اس توقیع کی سند معتبر ہے اور خود مضمون بھی معتبر ہے کہ جس کو بزرگ شخصیات نے بغیر کسی واسطہ کے ایک دوسرے سے نقل کیا ہے ۔

لیکن محدث نوری اپنی کتاب نجم الثاقب اور جنۃ الماؤی میں اس توقیع کو مرسل کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس حدیث کوماننے کا مطلب ہے کہ ان تمام واقعات کو رد کردیں جو واقعات امام زمانہ عج کی ملاقات کے بارے میں نقل ہوئے ہیں مثلا سید بن طاووس کا واقعہ وغیرہ ان کے علاوہ مرحوم نھاوندی نے بھی اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے ۔

آیت اللہ صافی گلپایگانی اس روایت کی سند پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ توقیع ایک خبر واحد ہے کہ جس کی سند مرسل اور ضعیف ہے اور شیخ طوسی نے جو اپنی کتاب الغٖیبۃ میں نقل کی ہے خود اس کی طرف توجہ نہیں دی اور شیعوں نے بھی اس عبارت کو اہمیت نہیں دی ۔

لیکن ان دواقوال کی تحقیق ہونی چاہیے کہ بالآخر اس روایت کی سند ضعیف ہے یا معتبر ۔

جو توقیع ہم نے ذکر کی ہے شیخ صدوق کی کتاب سے حقیقت یہ ہے کہ اس کی سند میں شک نہیں کہ معتبر اور صحیح ہے کیونکہ توقیع فقط تین افراد کے توسط سے خود امام سے نقل ہوئی ہے اور یہ تین شخصیات جنہوں نے بغیر کسی واسطہ کے ایک دوسرے سے نقل کی ہے عبارت ہیں :

شیخ صدوق ،ابو محمد حسن بن احمد المکتب اور علی بن محمد سمری پس سند جب چوتھے نائب خاص تک متصل اور واضح ہے توا مام سے صادر ہونا قطعی اور یقینی ہے ۔ابومحمد حسن بن احمد المکتب شیخ صدوق کے ان افراد میں سے شمار کیے جاتے ہیں کہ جن سے شیخ صدوق نے روایات نقل کی ہیں پس شیخ صدوق کا حسن بن احمد پر اعتماد اور اس سے روایات اور توقیع کونقل کرنا خود دلیل ہے کہ حسن بن احمد بزرگ اور معتبر انسان تھے پس توقیع کی سند اس اعتبار سے کوئی مشکل نہیں رکھتی جس طرح محدث نوری اور مرحوم نھاوندی نے کہا ہے ۔

حتی کہ وہ اشخاص جو ملاقات امام زمانہ عج کو ممکن سمجھتے ہیں انہوں نے بھی اس حدیث کی سند کو معتبر قرار دیا ہےجیسے سید صدر جو سند توقیع کو معتبر اور صحیح سمجھتے ہیں ،سید محمد تقی موسوی ،صاحب کتاب مکیال المکارم بھی اس روایت کو صحیح ترین اور معتبر ترین روایت سمجھتے ہوئےلکھتے ہیں: کیونکہ صرف تین اشخاص کے توسط سے خود امام زمانہ عج سے نقل ہوئی ہے وہ تین اشخاص عبارت ہیں :

  (۱)شیخ اعظم ،ابوالحسن علی بن محمد سمری ،چوتھے نائب خاص

(۲)شیخ صدوق ،محمد بن علی بن الحسین بن موسی بابویہ قمی کہ جو شھرت کے اعتبار سے تعریف کے محتاج نہیں

(۳)ابومحمد حسن بن احمد المکتب کہ جس کا پورا نام ابومحمد حسن بن الحسین بن ابراہیم بن احمد بن ہشام المکتب ہے  اور شیخ صدوق نے کئی بار ان سے روایت نقل کی ہے اور ان پر درود بھیجا ہے جو اس کی صداقت اور عظیم منزلت پر دلالت کرتا ہے ۔

اسی طرح شیخ صدوق سے لے کر آج تک اس توقیع سے استناد کرنا خود دلیل ہے اس کے صحیح ہونے پر آخرکار صاحب کتاب مکیال المکارم سید محمد تقی موسوی نتیجہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں :یہ حدیث (توقیع شریف )ان قطعی روایات میں سے ہے کہ جس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے ۔

پس اس توقیع کی سند صحیح ہے اس میں کوئی مشکل نہیں ہے ۔

توقیع کی دلالت

جس طرح کہ پہلے گزرچکاہے دوسراگروہ جو ملاقات امام زمانہ عج کو ممکن نہیں سمجھتے ان کےپاس یہ قوی ترین دلیل ہے مثلا صاحب تحقیق لطیف ،یداللہ دوزدوزانی اپنے مضمون میں لکھتےہیں کہ امام زمانہ عج کا یہ جملہ (فلاظھورالابعد اذن اللہ ۔۔۔)صریحا بتا رہاہے کہ اصلا امام کے ساتھ ملاقات اور ان کی زیارت ممکن نہیں ہے البتہ غیبت صغری ٰ میں چار نائب تھے جن کا امام کے ساتھ ارتباط تھا لیکن غیبت کبری میں ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے اورکسی کا امام زمانہ عج کے ساتھ ارتباط نہیں ہے ۔

صاحب مضمون( ارتباط با امام زمان عج )علی اکبر ذاکری بھی کہتےہیں کہ اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ کسی کا بھی امام کے ساتھ نہ ارتباط ہے اور نہ ملاقات کا امکان ،کیونکہ جملہ (فلاظہور الابعد اذن اللہ ۔۔۔)لفظ ظہور کا معنی ہے کسی پوشیدہ شی کا ظاہر ہونا اورمشاہدہ اس کا نتیجہ ہے  جب  مطلق ظہور کی نفی کی گئی ہے تو مشاہدہ کی  بھی مطلقانفی ہے اسی لیے توقیع میں آگے چل کر امام زمانہ عج فرماتے ہیں :سیاتی شیعتی من یدع المشاھدہ الافمن ادعی المشاھدہ ۔۔۔۔۔)یہ جملہ تاکید ہے (لاظھور الابعد اذن اللہ ۔۔۔)کی پس اس بنا پر چاہے مشاہدہ امام کی نیابت کے دعوی کے ساتھ ہو یا بغیر نیابت کے دعوی کے ،اس کی تکذیب اور اس کا انکار ضروری ہے چاہے خود ملاقات امام زمانہ عج کا دعوی کرے یا کوئی دوسرا نقل کرے بہر حال اس روایت پر دقیق بحث کی ضرورت ہے تاکہ تمام زاویوں پر بحث کی جائے اور کوئی نتیجہ نکالا جاسکے اور اس کے لیے چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے :

اولا :جس زمانے میں یہ توقیع شریف امام زمانہ عج کی طرف سے آئی اس زمانے کی شناخت ضروری ہے

ثانیا  :جو الفاظ اور کلمات امام نے استعمال کیے ہیں ان کا صحیح معنی اور مفھوم

بغیر شک وشبہ کے اس زمانے کی صحیح شناخت اس توقیع کا صحیح معنی کرنے میں مددکارثابت ہوگی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ  امام ھادی اور امام حسن عسکری   علیھماالسلام کے زمانے میں شیعوں کا اپنے آئمہ علیھم السلام  سے ارتباط بہت تنگ اور مشکل تھا اور اسی لیے آئمہ نے مختلف علاقوں میں اپنے وکلامقرر کیے ہوئے تھے اور غیبت صغریٰ میں بھی چار نائب خاص گزرے ہیں اوراس زمانے میں شیعہ امام سے ارتباط کا معنی یہی مراد لیتے تھے کہ یہ شخص یا امام کا نائب ہے یا ان کا وکیل  ،پس ایسی فضا میں غیبت کبری کا شروع ہونا اورایسے فرمان کا امام کی طرف سے جاری ہونا بتا رہاہے کہ دراصل امام بتانا یہ  چاہتے تھے کہ غیبت صغری کا زمانہ ختم ہوچکا ہے اورغیبت کبری کا زمانہ شروع ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ جھوٹے دعویداروں کے ان دعوؤں کو رد کردیا جائے  جو نیابت کا دعوی کریں تاکہ کوئی وکیل ہونے کا دعوی نہ کرے پس اس بنا پر توقیع سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی نیابت یا وکالت کا دعوی کرے تو وہ جھوٹا ہے نہ یہ کہ مطلقا دیداریا ملاقات ہی  ممکن نہیں پس امام کا یہ فرمان ان افراد کے لیے ہے جو مذموم مقاصد رکھتے تھے تاکہ امام کی نمائندگی اور نیابت کا فائدہ اٹھا کر مختلف منافع کوحاصل کرسکیں  البتہ پھر بھی بعض دنیا طلب ،فریب کار اور جھوٹے لوگوں نے بابیت کے عنوان سے امام زمانہ عج کے خصوصی نمائندہ ہونے کا دعوی کیا اور بہت سارے  سادہ لوح افراد کو گمراہ کیا۔ بابیت ،بھائیت اور قادیانیہ میں سے ہر کسی نے بہت سارے لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کرکے  ہرایک نے ایک خاص فرقہ یا مذھب کی بنیاد رکھی یہ اس خطر ناک فکر کے چند نمونے ہیں توقیع کی عبار ت سراسرایسی خطرناک آفتوں سے بچاؤ کے لیے تھی اور امام نے اسی لیےیہ توقیع  صادر فرمائی تھی تاکہ لوگوں کو آگاہ کیا جاسکے اسی لیے شیعوں نے بھی جھوٹے دعویدار کو ہمیشہ جھٹلایا ہے  اس بنا پر زمانے کی شناخت اور اس زمانے میں مسلط شرائط ہمیں اس توقیع شریف کے معنی اور مفھوم سمجھنے میں مدد کرتی ہے شیعوں کی غیبت صغریٰ اور آغاز غیبت کبری میں ذھنی فضا ایسی تھی کہ مشاہدہ اور امام کےساتھ ارتباط وکلاء یا نائب کے ساتھ مخصوص سمجھتے تھے پس جوبھی زیارت کا دعوی کرتا مرادیہی تھی کہ وہ امام کا نائب یا وکیل ہے پس امام نے مسئلہ کی حساسیت اور اس کے منفی اثرات کے پیش نظر ایک حکیمانہ تدبیر اختیار کرتے ہوئے ایک طرف جھوٹے اور فریب کار انسانوں سے بچایا اور دوسری طرف شیعوں کو حکم دیا کہ ایسے افراد کی مذمت اور ان کی تکذیب کریں ۔اگر توقیع میں امام اس طرح سخت لہجہ اورالفاظ استعمال نہ کرتے یا توقیع صادر نہ فرماتے نہ جانے کتنے انحرافات وجود میں آتے جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

توقیع کی عبارت کےچنداہم کلمات

اس توقیع میں چند ایسے الفاظ اور کلمات استعمال ہوئے ہیں جن کا لغت کے اعتبار سے جاننا اور معنی کرنا ضروری ہے

لفظ “غیب”کا معنی یہ ہے کہ آنکھوں سے پوشیدہ ہونا ،ابن فارس نے معجم مقائیس الغۃ میں کہا ہے :یدل علی تستر الشی ء عن العیون لفظ “ظہور”غیب کا عکس ہے یعنی کسی چیز کا ظاہر اور آشکار ہونا وغیرہ (یدل علی قوۃ وبروز،ظھرالشی اذاانکشفت وبرز )

لفظ “ادعا”ایک قسم کا طلب کار ہونا ،دعوت دیناوغیرہ ،ادعا:ان تدعی حقالک اولغیرک تقول :ادعی حقااوباطلا

لفظ “مشاہدہ “مادہ شھد سے لیاگیا ہے جس کا معنی ہے دیکھنا ،آنکھوں سے درک کرنا ۔المشاھدۃ :المعاینۃ وشھدہ شھودای حضرہ فھوشاھد۔

لفظ (کاذب )اسم فاعل ہے یعنی جھوٹ بولنے والا۔الکذب :یدل علی خلاف الصدق اسی طرح مفتر یعنی کسی پر جھوٹ باندھنے والااور کسی پر جھوٹی تہمت لگانے والا پس کلی طورپر معلوم ہوا کہ غیبت کا معنی ہے آنکھوں سے پوشیدہ ہونا اور ظہور کامعنی ہے آشکار اور واضح ہونا اسی طرح لفظ ادعی کا معنی ہے کسی کو دعوت دینا وغیرہ

توقیع کی عبارت کےحصے

توقیع شریف کی عبارت کو چارحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے

(۱)علی بن محمد سمری چوتھے نائب خاص کی وفات کی خبر “یا علی بن محمد السمری ۔۔۔۔۔۔فاجمع امرک “

(۲)جانشین تعیین کرنے سے منع فرمانا :”ولاتوص الی احد یقوم مقامک بعد وفاتک فقد وقعت الغیبۃ الثانیۃ “

(۳)ظہور کی نفی یہانتکہ خداوند متعال کی طرف سے  اذن ملےگا :”فلاظھور الابعد اذن اللہ عزوجل وذلک بعد طول الامد وقسوۃ القلوب وامتلاء الارض جورا”

(۴)مشاہدہ کرنے کے دعویداروں کو جھٹلانا :”سیأتی شیعتی من یدعی المشاھدۃ الافمن ادعی ٰ المشاھدۃ قبل خروج السفیانی والصیحۃ فھوکاذب مفتر ۔”

توقیع شریف کی عبارت کے ان چار حصوں میں سے آخری دوحصوں سے ہماری بحث ہے کیونکہ پہلے حصے میں جناب علی بن محمد سمری کی وفات کی خبر ہے اور دوسرے حصے میں علی بن محمد سمری کو روکا گیا ہے کہ اپنے بعد کسی کو جانشیں قرار نہ دیں کیونکہ غٖیبت کبری ٰ کا زمانہ شروع ہورہا ہے ۔پس آخری دوحصوں سے ہماری بحث ہوگی اور جو لوگ غیبت کبریٰ میں امام زمانہ عج سےملاقات کو ممکن نہیں سمجھتے وہ انہی دو حصوں سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تیسرے حصے کا جملہ :”فلاظھورالابعد اذن اللہ عزوجل “بتا رہاہے کہ امام سےملاقات  اصلاممکن نہیں کیونکہ لانفی جنس ہے جو عمومیت پر دلالت کرتی ہے اور چوتھا حصہ بھی تیسرے حصے کے نتیجے کے طورپر پیش کیا گیا ہے کہ سفیانی کے خروج اور آسمانی ندا سے پہلے اگر کوئی زیارت یا امام سے ملاقات کا دعوی کرے تو وہ جھوٹا ہے پس تیسرے اور چوتھے حصے پر غورکرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ امام کے  ظہورسے پہلے اگر کوئی ملاقات یا زیارت کا دعوی کرتا ہے تو امام کے اس فرمان کی روشنی میں وہ جھوٹا ہے ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر تھوڑی سی توجہ کی جائے تو پتہ چل جاتا ہے کہ ایسا استدلال اور نتیجہ نکالنا حقیقت سے بہت دور ہے  کیونکہ امام زمانہ عج کے اس جملہ کو (فلاظھورالابعد اذن اللہ ۔۔۔)کو مساوی قرار دینا امام کی زیارت یا ملاقات کے اور نتیجہ نکالنا کہ جب ظہورکی نفی کی گئی ہے تو گویا ملاقات یا زیارت کی مطلقا نفی ہے توان کی پہلی لغزش اور اشتباہ یہی ہے اور دوسرا اشتباہ یہ ہے کہ توقیع کے چوتھے حصے کو تیسرے حصے کی تاکید کہا گیا ہے یعنی جب ظہور نہیں ہے تو امام نے جو جھوٹے دعویداروں کی مذمت کی ہے اور یہ ظہور کے ساتھ مربوط ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ فلاظہور۔۔)یہ جملہ جب رویات میں استعمال ہوتا ہے تو اس کا ایک خاص معنی ہے اور عموما امام زمانہ عج کے قیام کی طرف اشارہ ہوتاہے اور اس توقیع میں بھی چند ایسی تعابیر ات استعمال ہوئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہےکہ یہ امام زمانہ عج کے قیام سے مربوط ہے جب امام مھدی عج ظہورفرمائیں گے اور قیام کریں گے جیسے فلاظھورالابعد اذن اللہ عزوجل وذلک بعد طول الامد وقسوۃ القلوب وامتلاء الارض جورا “یہ سب تعابیر مثلا زمانے کا طولانی ہونا ،دلوں کی سختی اورزمین کا ظلم وستم سے بھر جانا بتارہی ہیں کہ اس عبارت میں لفظ ظہور کا لغوی معنی مراد نہیں لیاگیا بلکہ اصطلاحی معنی مراد ہے اوروہ ہے امام زمانہ عج کا علنا قیام ،پس یہ منافات نہیں رکھتا کہ غیبت کبریٰ میں کسی ایک شخص یا فقیہ یا مجتہد کے لیےامام سے ملاقات یا زیارت ممکن ہوکیونکہ علنی ظہور تو ہے نہیں کہ ہم کہیں توقیع کی عبارت اس کے مخالف ہے۔

پس یہ توقیع کم از کم اس لحاظ سے خاموش ہے کہ کیا بعض اوقات خاص مصلحت کے پیش نظر کسی ایک شخص کی امام سے ملاقات ہوجائے بلکہ نفی اوراثبات امام کے ظہور کے متعلق ہے جب امام زمانہ عج قیام فرمائیں گے باقی رہایہ کہ چوتھے حصے کو تیسرے حصے کی تاکید قرار دینا اصلادرست نہیں ہے کیونکہ چوتھا حصہ ان شیعوں کے بارے میں ہے جو امام زمانہ عج کی نیابت اور وکالت کا دعوی کریں اور تیسرا حصہ امام کے قیام کے بارے میں ہے پس یہ دونوں حصے جدا ہیں اور علیحدہ علیحدہ ہیں ۔

توقیع میں جو لفظ مشاہدہ استعمال ہوا ہے جس کا معنی ہے دیکھنا ،ان شواھد اور قرائن کے مطابق جو توقیع کے آخرمیں آئے ہیں پتہ چلتا ہے مطلقا دیکھنا مراد نہیں ہے بلکہ ایسادیکھنا جو نیابت کے دعوی کے ساتھ ہو یعنی کہے کہ میں امام کو دیکھتاہوں اور میرا امام سے رابطہ ہے ۔

المشاھدہ “پر داخل الف لام  بھی یہی بتارہی ہے کہ مراد وہ دیکھنا ہے جیسا علی بن محمد سمری نے دیکھا تھا یعنی نائب خاص تھے اور ان کا امام سے باقاعدہ رابطہ تھا اور لوگوں کے درمیان واسطہ تھے لوگ  ان کے توسط سے مسائل امام کے حضور پیش کرتے تھے ۔

ورنہ امام فرماسکتے تھے (سیاتی شیعتی من یدعی مشاھدتی  “)بغیر الف لام کے ۔الف لام کے ساتھ ذکر کرنا بتارہاہے امام زمانہ عج کی مراد عصرغیبت صغریٰ  والی نیابت ہے جس میں باقاعدہ اور منظم طریقے سے خاص نائب اور وکیل تھے جو لوگوں کے مسائل امام تک پہنچاتے تھے۔

البتہ اگر کوئی دیکھنے کا دعوی کرے تو اس کی تین صورتیں بن سکتی ہیں :

(۱)دیکھنے والا صرف یہ کہے کہ امام کی زیار ت کی ہے اور اس دعوے میں سچا بھی ہو۔

(۲)دیکھنے والادعوی کرے کہ امام کی زیارت کی ہے اور جھوٹاہو یعنی در حقیقت زیارت نہ ہوئی ہو۔

(۳)دیکھنے والادعوی کرے کہ امام کی زیارت کی ہے اور اس دعوی میں جھوٹاہو ،اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسی چیز کی امام کی طرف نسبت دے جو امام نے نہیں فرمائی ایسا شخص صفت کذاب (جھوٹا)اور مفتر (جھوٹی نسبت دینے والا)ہے اور توقیع کے آخر میں جو امام نے فرمایا ہے (سیاتی شیعتی ۔۔۔۔۔کذاب مفتر  )کا مصداق ہے

پس کیونکہ امام نے زیارت کا دعوی کرنے والے کو ان دو صفتوں سے بیان کیا ہے صرف فرض اخیر ان دونوں صفتوں کا مصداق ہے اور دوسری صورت میں کذاب کا مصداق ہے لیکن مفتر نہیں لیکن پہلا فرض یعنی کہے کہ امام کی زیارت ہوئی ہے اور سچابھی ہو تو ان دو تعبیروں (کذاب مفتر )کا مصداق نہیں ہے بلکہ توقیع کے موضوع سے ہی خارج ہے پس اگرچہ دوسر ےفرض کا احتمال ہے کہ توقیع شریف کا مصداق قرار پائے لیکن تیسرا فرض حتمی ہے ۔

پس توقیع شریف کے کلمات پر غوروخوض  کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ امام چاہتے ہیں کہ ان لوگوں کو روکا جائے جو نیابت کے جھوٹے دعویدار بنیں گے اور شیعوں کو گمراہ کریں گے کہ ان کا امام کے ساتھ ارتباط ہے تاکہ اپنے دنیوی مفادات کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں امام نے ایسے فرمان کے ساتھ شیعوں کو خبردار فرمایا کہ مبادا کسی کے غلط پروپیگنڈااور فریب میں آجائیں ،اب میرا کوئی خاص نائب نہیں ہے اور نہ خاص وکیل اسی وجہ سے شیعہ امان میں رہے اگرچہ بعض نے کوشش کی تھی شیخیہ ،بابیہ اوربھائیہ وغیرہ ان کے چند نمونے ہیں جنہوں نے امام کے فرمان کی طرف توجہ نہ دی اور بعض لوگوں کے دھوکے میں آگئے ۔

اس مسئلہ کی حساسیت کی وجہ سے شیعہ علماء ہمیشہ ان لوگوں سے دوررہے جن سے بابیت کی بو آتی تھی اور وہ دعوے دار تھے کہ امام کے ساتھ رابطہ ہے اورہمیشہ زیارت ہوتی  ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی ایسے اشخاص سے دوررہنے کی تاکید کرتے تھے کیونکہ ان سچے افراد کی شناخت جیسے بزرگ مجتہدین کے واقعات اور ان لوگوں کے درمیان تشخیص جو فقط دنیاوی مفاد کی خاطر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں ان کے درمیان تشخیص عام افراد کے لیے بہت سخت ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا پس احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔

جو کچھ بیان ہوچکا ہے اس کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ اس توقیع کے آخری حصے کے مصداق وہ اشخاص ہیں جو خاص اپنی نیابت کا دعوی بھی ساتھ کریں اور اپنے آپ کو واسطہ قراردیں امام اور شیعوں کے درمیان اور اسی طرح فلاطھور)کا معنی اصطلاحی مراد ہےیعنی امام کا قیام اور علنی ظہور جو فقط خدا کے اذن سے ہوگا پس یہ توقیع ان افراد کو شامل نہیں ہے جو کسی مصلحت کے تحت ان کو امام کی زیارت یا ملاقات کی توفیق اور سعادت حاصل ہوجائے یا خود امام چاہیں تو بعض افراد کو زیارت کراسکتے ہیں البتہ عموما ایسے اشخاص ہوتے ہیں جو روحی اعتبار سے بھی قوی ہوتے ہیں اوراما م کی زیارت کو دنیوی مفادات کے لیے استعمال نہیں کرتے اور نہ شہرت طلبی کے لیے ،وہ ہمراز امام ہوتے ہیں اوربرملااظہار کرکے لوگوں کو اپنے ارد گرد جمع نہیں کرتے ۔

پس میانہ روی اور منصفانہ نظر کے ذریعے ممکن ہے کہ ہم فرق کرسکیں کہ سچے واقعات کون سے ہیں اور جھوٹے دعویدار کونسے وہی روش جو ہمارے علماء اور مجتہدین نے اپنائی مثلا سند کی تحقیق ،دعوے کرنے والے کی وثاقت ،اس کے مذہب کا صحیح ہونا وغیرہ

نتیجتا ہم کہ سکتےہیں کہ توقیع شریف ،وکالت اور نیابت خاص کو رد کرتی ہے یعنی جو کہے کہ میں نائب خاص یا امام کا وکیل ہوں اور میر ارابطہ ہے امام کے ساتھ اس کو جھٹلانا چاہیے لیکن جو واقعات مجتہدین کے گزرے ہیں یا دوسرے واقعات تو کسی نے بھی نیابت کا دعوی نہیں کیا تاکہ اس توقیع کا مصداق قرار پائیں اور یہ درست نہیں ہے کہ کہیں ، نہیں اصلا امام سے ملاقات ممکن ہی نہیں ہے ۔اگرچہ شاید پھر بھی اس موضوع پر سیر حاصل بحث نہ ہوسکی ہولیکن کوشش کی گئی ہے کہ اس موضوع کے تمام پہلوؤں کو زیر بحث لایا جائے ۔

  ماخوذ از کتاب موعود ادیان مہدی صاحب الزمان عج مصنف تصورعباس

 

:کلینی ،اصول کافی ،ج۱،ص۳۲۸ انتشارات دارالکتب الاسلامیہ [1]

: شیخ صدوق ،کمال الدین وتمام النعمۃ ،ج۲،ص ۳۴۶ ؛کلینی ،اصول کافی ،ج ۱ ،ص ۳۲۷[2]

:اصول کافی ،ج۱،ص۳۲۹[3]

:کمال الدین وتمام النعمہ ،ج۲،ص۳۵۰[4]

:نعمانی ،الغیبہ ،ص۱۴۲ انتشارات مکتبۃ الصدوق [5]

:کمال الدین ،ج۲،۴۴۰،؛شیخ طوسی ،الغیبہ ،ص۳۶۲،انتشارات موسسہ المعارف الاسلامیہ [6]

:ان بزرگان کی زیارت کے واقعات سے مزید آگاہی کے لیے محدث نوری کی کتاب جنۃ الماوی اور نجم الثاقب ،بحارالانوار ج۵۳وغیرہ [7]

:کمال الدین ،ج۲،ص۳۵۰؛بحارالانوار،ج۵۱،ص۲۲۴؛قطب الدین راوندی،الخرائج والجرائح،ج۲،ص۹۳۷[8]

:کمال الدین ،ج۲،ص۴۴۰؛شیخ طوسی ،الغیبہ ص۳۶۳[9]

:نعمانی ،الغیبہ ،ص۱۶۳؛بحارالانوار ج۵۲،ص۱۵۴[10]

:نعمانی ،الغیبہ ص۱۴۲[11]

:نعمانی ،الغیبہ ص۱۷۱؛شیخ طوسی ،الغیبہ ،ص۱۶۱،بحارالانوار،ج۵۲،ص۱۵۲[12]

:اصول کافی ،ج۱،ص۳۴۰؛نعمانی ،الغیبہ ،ص۱۸۸،بحارالانوار ،ج۵۲،ص۱۵۵[13]

منتخب الاثر ،ص۵۲۰:[14]

:شیخ عباس قمی ،مفاتیح الجنان ،ترجمہ موسوی دامغانی ،ص۷۹۷ چاپ پنجم [15]

:ھمان ،ص۹۱۲[16]

:مسعود پورسید آقایی ،میر مھر ،ص۱۰۱،چاپ اول ،نشر حضور،قم [17]

:ھمان ،ص۸۷[18]

ھمان ،ص،۸۵ [19]

: ھمان ،ص،۶۱ [20]

: ھمان ،ص،۸۵ [21]

: ھمان ،ص۶۹ [22]

: ھمان ،ص۶۹ [23]

:سید مرتضیٰ ،تنزیہ الانبیاء ،ص۱۸۲،انتشارات بوستان کتاب ،قم [24]

:نقل از مجلہ حوزہ ،ش۷۰۔۷۱،ص۱۲۸[25]

:رسائل ،ج۲،ص۲۹۷،انتشارات خیام ،قم [26]

:شیخ طوسی ،الغیبہ ،ص۹۸[27]

:ھمان ،ص۹۸[28]

:ابوالفتح کراجکی ،کنزالفوائد ،ج۲،ص۲۱۸،انتشارات دارالذخائر ،قم[29]

:سید ابن طاووس ،الطرایف ،ج۱،ص۱۸۵[30]

:سید بن طاووس ،کشف المحجہ ،ص۱۵۴[31]

:محقق نائینی ،فوائدالاصول ،ج۳ ،ص۱۵۰ ،انتشارات موسسہ نشر اسلامی قم [32]

:اخوند خراسانی ،کفایۃ الاصول ،(ایک جلدی )ص۲۹۱[33]

:مکیال المکارم ،ترجمہ سید مھدی حائری ،ج۲،ص۵۰۵ [34]

:تاریخ الغیبۃ الصغریٰ ،ج۱،ص۶۴۲[35]

: : لطف اللہ صافی گلپایگانی ،منتخب الاثر ،ص۵۲۰[36]

:مھدی منتظر ،ص۵۴[37]

:مجلہ حوزہ ،سال دوازدھم ،ش۷۰۔۷۱ ص۷۵ (یہ مجلہ پندرہ شعبان کی مناسبت سے ایک کتاب کی شکل میں شائع ہوا اورلوگوں کے استقبال وجہ سے ایک کتاب کی شکل میں کئی بار جھپ چکاہے ۔[38]

:اصول کافی ،ج۱،ص۳۲۳[39]

:نعمانی ،الغیبہ ،ص۱۶۳؛بحارالانوار ،ج۱۲،ص۲۸۳[40]

:کمال الدین ،ج۲،ص۳۵۱؛اصول کافی ،ج۱،ص۳۳۷[41]

:اصول کافی ،ج۱،ص۳۳۹[42]

:اصول کافی ،ج۱،ص۳۲۸[43]

:اصول کافی ،ج۱،ص۳۲۳؛کمال الدین ،ج۲،ص۳۷۰[44]

:نعمانی ،الغیبہ ،ص۲۰۴[45

(ماخوذ از کتاب موعود ادیان مہدی صاحب الزمان عج ،مصنف تصورعباس

کیا غیبت کبری میں امام زمان عج کا نام لینا جائز ہے

تحریر:تصورعباس خان

غیبت کبری کے آغاز سے ایک بحث چلی آرہی ہے کہ کیا امام مھدی کا نام جو پیغمبر نے بیان کیا ہے(محمد) کیاغیبت کبریٰ میں یہ نام  لینا جائز ہے یا نہیں؟ اور اس کی وجہ وہ روایات ہیں کہ جو آئمہ معصومین(ع) سے نقل  ہوئی ہیں بعض میں سختی سے منع کیا گیا ہے کہ امام مھدی (ع)کا نام نہ لیا جائے  اور بعض میں اجازت دی گئی ہے علماء کے درمیان اس بارے میں تین اقوال ہیں ؛

پہلا قول ؛امام مھدی کا یہ نام (م۔ح۔م۔د۔)کسی زمانہ میں بھی لینا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ امام ظھور کریں اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں جنھوں نے اس قول کو اختیار کیا ہے چند ایک روایات ہیں کہ جن سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ امام کانام لینا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ امام کا ظھور ہو جائے ۔ محمد بن زیاد نے امام موسیٰ بن جعفر (ع)سے روایت کی ہے کہ امام موسیٰ کاظم (ع) نے فرمایا”تخفی علی الناس ولادتہ ولایحل لھم تسمیتہ حتیٰ یظھرہ اللہ فیملابہ الارض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلما” (وسائل الشیعہ،ج،۱۶،ص،۲۴۲،باب،۳۳)

”اس (امام مھدی)کی ولادت کو لوگوں سے مخفی رکھاگیا ہے اور اس کانام لینا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ خداوند تعالی ان کا ظھور فرما دے اور وہ زمیں کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح کہ وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہو گی ۔

دوسرا قول ؛ ہر جگہ کہ جہاں امام کی جان کو خطرہ ہو صرف وہاں امام کا نام لینا جائز نہیں ہے یعنی یہ قول مخصوص ہے غیبت صغری سے جب امام کی زندگی کو خطرہ تھا ۔

عبداللہ بن جعفر حمیری نے محمد بن عثمان عمری(امام کے دوسرے نائب خاص) سے پوچھا کیا خلف(امام حسن عسکری کے جانشین) کو دیکھا ہے جواب دیا ہاں خداکی قسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں تک کہ امام کے نام کے بارے میں بحث ہوئی تو محمد بن عثمان(دوسرے نائب خاص)سے امام کے نام کے بارے میں پوچھاتو انہوںنے جواب دیا کہ تم پر ایسا سوال کرنا حرام ہے اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا اور نہ میں اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام یا حلال کر سکتا ہوں جو کچھ کہا ہے انہی(امام)کی طرف سے ہے ۔۔۔۔۔۔ابو محمد(امام حسن عسکری )شھید ہوے (ظاھرااس وقت لوگوں کے درمیان مشہور یہ تھا کہ )اس کا کوئی جانشین نہیں تھااب اگر امام کا نام لیا جائے تو لوگ امام مھدی کی تلاش میں لگ جائیں گے پس خدا سے ڈرو اور اس بات سے پرہیز کرو(کہ امام کانام نہ لو) ” (وسائل الشیعہ ،ج۱۶ص،۲۴۰،؛اصول کافی ،ج،۱،ص،۳۲۹،الخرائج والجرائح ،ج،۳،ص،۱۱۱ )

اس قسم کی بہت سی روایات ہیں جو اس قسم کے مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اگر تمہارے نام لینے سے امام کی جان کر خطرہ ہو سکتا ہو تو تمہارے لیے امام کا نام لینا حرام ہے کیوں کہ اس طرح لوگ امام کو تلاش کرنا شروع کر دیتے اس لیے خود امام نے ایک توقیع میں فر یایا ”ملعون ملعون من سمانی فی محفل من الناس “(وسائل الشیعہ  ،ج۱۶ص،۲۴۲،باب،۳۳)ملعون ہے ملعون ہے وہ شخص کہ جو ایک ایسی محفل میں میرا نام لے کہ جس میں لوگ جمع ہوں ان روایات میں غور وفکر کرنے سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اگر امام کا نام لینے سے کوئی خطرہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور بعد والی روایات جو کہ مطلقا امام کا نام لینے کی اجازت دیتی ہیں ان کو بھی اسی مورد پر حمل کیا جا سکتا ہے شیخ حر آملی کہتے ہیں ‘ھذا دال علی اختصاص النھی بالخوف وترتب المفسدہ’  ” یعنی یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ اگر خوف ہو اور امام کانام لینے سے امام کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہو تو حرام ہے (مطلقا حرام نہیں ہے)

تیسراقول؛ بعض بزرگان اور علماء امام کانام لینے کو جائز سمجھتے ہیں اور چند ایک روایات کو دلیل کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ جس میں آئمہ نے خود امام مھدی نام لیا ہے جیسے

شیخ صدوق نے محمد بن ابراھیم کوفی سے نقل کیا ہے کہ امام حسم عسکری نے اپنے بیٹے کی ولادت پر عقیقہ کیا اور اس عقیقے کاگوشت بعض لوگوں کی طرف  بھجوایا تا کہ غریب اور نادار لوگوں میں تقسیم کریں اور فرمایا” ھذا من عقیقۃ ابنی محمد”یہ میرے بیٹے محمد کے عقیقہ کا حصہ ہے (وسائل الشیعہ،ج،۱۶ص۲۴۳،کمال الدین و اتمام النعمہ ،ج۲،ص۴۲۳)

ابو غانم امام حسن عسکری کاخادم کہتا ہے کہ”ولد لا بی محمد مولودفسماہ محمد عرضہ علی اصحابہ یوم الثالث وقال ھذاصاحبکم من بعدی وخلیفتی علیکم وھوا لقائم”(کمال الدین واتمام النعمہ ،ج۱ ،ص۴۴،)

 جب امام حسن عسکری کا بیٹا پیدا پوا تو اس کا نام محمد رکھا اور فرمایا کہ یہ میرے بعد تمہارا امام اور میرا جانشین ہے اور یہی قائم ہے شیخ حر آملی کہتے ہیں کہ بہت سی روایات ایسی ہیں کہ جوکہتی ہیں کہ اس دور میں امام کا نام لینا جائز ہے اور ہمارے بہت سے علماء اور بزرگان نے اپنی تاریخی ،کلامی  ، اصولی اور حدیثی کتب میں صراحت کےساتھ امام کا نام ذکر کیا ہے جیسے علامہ حلی ، محقق،فاضل مقداد ، سید مرتضی اور سید بن طائوس ۔۔۔۔۔۔۔اور وہ لوگ کہ جو مطلقا حرمت کے قائل ہوں کہ کسی زمانہ میں بھی امام کا نام لینا جائز نہیں ہے بہت کم ہیں ۔

محمد بن عثمان عمری ،امام حسن عسکری سے روایت نقل کرتے ہیں کہ امام(ع)نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوے فر مایا :

” ان الارض لا تخلو من حجت اللہ علی خلقہ وان من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ فقال ان ھذا حق کما ان النھار حق فقیل ، یابن رسول اللہ من الحجۃ والامام بعدک ؟فقال؛ ابنی محمد ھو الامام و الحجۃ بعدی فمن مات و لم یعرفہ مات میتۃ جاھلیۃ “”(طبرسی ، اعلام الوریٰ ص،۴۴۲،وسائل الشیعہ ج،۱۶ ص،۲۴۶،بحار الانوار ،ج ،۱۶،ص۱۶۰)

تحقیق زمین اور اس پر بسنے والے لوگ کبھی حجت خدا سےخالی نہ ہوں گے اور جو بہی مر جائے اور اپنے زمانہ کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو جاھلیت کی موت مرا ہے پھر فرمایا یہ مسلہ ایک روشن دن کی طرح واضح اور آشکار حقیقت ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا پوچھا گیا کہ فرزند رسول آپ کے بعد حجت اور امام کون ہے ؟تو امام نے فرمایا کہ میرا بیٹا محمد وہ امام اور میرے بعد حجت ہے پس جو بھی مر جائے اور اس کی معرفت نہ رکھتا ہو وہ جاھلیت کی موت مراہے”۔    

علماء استدلال کرتے ہیں کہ امام کے نام کی پہچان بھی امام کی معرفت کا حصہ ہے پس کیسے اس کو مخفی رکھاجاسکتا ہے اور اس نام کا لینا مطلقا حرام ہے

نتیجتا ہم کہ سکتے ہیں کہ اگرچہ ہم تیسرے قول کو مان بھی لیں کہ امام کا نام لینا غیت کبری میں جائز ہے لیکن امام کی عظمت اور ان کی عظیم قدرومنزلت کی بنا پر ان کے نام کی بجائے امام کا لقب استعمال کیا جائے جیسا کہ عربوں میں یہی رواج ہے کہ اصل نام لینے سے پرہیز کرتے ہیں اور زیادہ تر لقب یا کنیت استعمال کرتے ہیں۔اسی  لیے جو غیبت کبری میں امام کے نام لینےکو جائز سمجھتے ہیں ان کی مراد بھی یہ نہیں ہے کہ حتما صرف امام کا نام لینا چاہیے نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہماری مراد یہ ہے کہ یہ جو لوگ کہتےہیں کہ امام کا نام لینا مطلقا حرام ہے ایسا نہیں ہے بلکہ لے سکتے ہیں اگرچہ بہتر یہی ہے کہ نام کی بجائے امام کا لقب یا کنیت استعمال کی جائے 

امام موسی کاظم علیہ السلام کا غالیوں کے ساتھ طرز عمل

 

تحریر: اسدعباس

 

فرقہ بشیریہ [ ممطورہ ]

یہ فرقہ محمد بن بشیر کے ساتھہ منسوب ہے محمد بن بشیر قبیلہ بنی اسد سے تھا اور کوفہ کا رہنے والا تھا[1]

یہ ابتدا میں امام کاظم کے اصحاب میں سے تھا[2] لیکن بعد میں غالی ہو گیا[3] شیخ طوسی نے اسے رجال طوسی میں امام کاظم کے راویان میں شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ انہ غال ملعون[4]  یہ غالی اور ملعون تھا

البتہ بعض نے اس کے راوی ہونے کا انکار کیا ہے[5] یہ ایک شعبدہ باز شخص تھا اور اپنی شعبدہ بازی سے لوگوں کو بیوقوف بناتا تھا یہ امام رضا کے زمانے تک زندہ رھا[6] اور آخر کار ھارون کے دور حکومت میں قتل کر دیا گیا[7]

محمد بن بشیر کے غالیانہ عقاید

1 امام کاظم کی الوھیت کا دعوی کیا

2 امام کی بنوت کا دعوی کیا

علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ یہ عقیدہ الوھیت و نبوت امام کے دور میں مطرح ہوا ہے[8] لیکن صاحب کتاب شبھہ الغلو عند الشیعہ کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ امام کی وفات کے بعد مطرح ہواہے  [9]

3 امام کاظم کی امامت کا انکار کیا

امام کی امامت کا انکار اس لیے کیا تاکہ امام کی الوھیت کا پرچار کر سکے

4 دو خداوں کا قائل تھا [10]

محمد بن بشیر کا عقیدہ تھا  کہ ظاھر انسان آدم اور باطن انسان ازلی ہے اسی وجہ سے ھشام بن سالم نے اس کے ساتھہ مناظرہ کیا لیکن پھر بھی یہ اپنے عقیدہ سے  باز نہ آیا[11]

5 امام کی غیبت کا عقیدہ رکھتا تھا

لوگوں سے کہتا تھا کہ یہ موسی بن جعفر حقیقی نہیں ہیں حقیقی موسی بن جعفر غائب ہے

 6 امام کی شھادت کے بعد امام کی رحلت کا انکار کیا[12]

محمد بن بشیر اس عقیدہ میں فرقہ واقفیہ کے ساتھہ مطابقت رکھتا تھا کیونکہ واقفیہ کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ امام ھفتم مھدی ہیں اور غائب ہیں اور ایک دن ظہور کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کر دیں گے [13]

7 امام لوگوں میں موجود ہیں اھل نور کو نور اور اھل کدورت کو کدورت نظر آتے ہیں[14]  پس لوگ امام کو درک کرنے سے عاجز ہیں حالانکہ امام لوگوں کے درمیان موجود ہیں لیکن لوگ امام کو نہیں دیکھتے [15]

8 امام زندان میں نہیں گئے بلکہ غائب ہوئے ہیں وہ قائم اور مھدی ہیں[16]

9 امام کاظم نے محمد بن بشیر کو اپنا وصی قرار دیا اپنی انگوٹھی محمد بن بشیر کو دی اور تمام علوم اسے تعلیم فرمائے[17]

10 محمد بن بشیر نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹے  سمیع کو اپنا جانشین مقرر کیا اور کہا سمیع کے بعد جس کو سمیع مقرر کرے گا وہی مفترض الطاعۃ ہو گا یہاں تک کہ موسی بن جعفر ظہور فرمائیں اسوقت تک اپنے واجبات مالی محمد بن بشیر کے جانشین کو دیں[18]

11 اس فرقے کے لوگ تناسخ کے قائل تھے ان کے نزدیک امام ایک ہی تھا کہ جو ایک بدن سے دوسرے بدن میں منتقل ہوتا تھا[19]

12 بشریہ حلول کے قائل تھے ان کے نزدیک جو بھی جو بھی حضرت محمد مصطفی کے ساتھ نسبت رکھتا ہے محمد مصطفی کہ جو پروردگار ہیں ان میں حلول کرتے ہیں محمد مصطفی کو نہ کسی نے جنا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہے وہ پردوں میں چھپا ہوا ہے[20]

13 صرف پانچ وقت کی نماز اور روزوں کو مانتے تھے باقی تمام عبادات کا انکار کرتے تھے

14 محرم کے ساتھہ نکاح کو جائز سمجھتے تھے اور بچوں کی اولادوں سے نکاح کو بھی حلال سمجھتے تھے اور آیۃ شریفہ ، اویزوجھم ذکرانا و اناثا[21] ،  کو اپنی دلیل بناتے تھے[22] ۔

فرقہ شناسی کی کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ اس فرقے کے لوگ امام علی بن موسی ان کی اولاد اور امام کاظم اور ان کی اولاد میں سے جس نے بھی امامت کا دعوی کیا تو اس فرقے کے لوگوں نے اسے نعوذ باللہ حرام زادہ اور کافر کہا اور ان کے پیروکاروں کو بھی کافر سمجھتے تھے اور ان کی جان و مال کو حلال سمجھتے تھے[23]

محمد بن بشیر امام کاظم علیہ الاسلام کی نگاہ میں

امام کاظم نے محمد بن بشیر پر لعنت فرمائی ہے اور اسے جھوٹا کہا ھے اور شیعوں کو اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے اور امام نے ھمیشہ محمد بن بشیر کے لئے بددعا کی ہے کہ خدایا لوگوں کو اس کے شر سے محفوظ فرما اور اسے جھنم کی آگ کا مزہ چکھا

 1 محمد بن عمر کشی ، بطائنی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام کاظم سے سنا امام نے فرمایا:

خدا محمد بن بشیر پر لعنت کرے اسے جھنم میں ڈالے وہ مجھہ پر جھوٹ باندھتا ہے امام نے اس سے بیزاری کی ہے اور خدا کی بارگاہ میں دعا کی ہے خدایا محمد بن بشیر جو کچھہ بھی میرے بارے میں کہتا ہے میں اس سے بیزار ہوں خدا مجھے اس سے نجات دے[24]

امام اس حدیث کو ادامہ دیتے ہوئے علی بن حمزہ بطائنی کہ جو اس حدیث کا راوی ہے کو اگاہ فرماتے ہیں کہ کوءی بھی مجھہ پر جھوٹ باندھنے کی جرات نہیں کر سکتا مگر یہ کہ خدا اسے جھنم کی آگ کا مزہ چکھائے ۔ پھر مولا فرماتے ہیں خداوند ان کو وہ سزا دے جو ان کے لیے مقرر کر رکھی ہے اور انہیں جھنم کی آگ کا مزہ چکھا خدا محمد بن بشیر پر لعنت کرے مجھہ پر جھوٹ باندھتا ہے میں اس سے بیزار ہوں خدایا تیری بارگاہ میں دعا کرتا ہوں مجھے محمد بن بشیر نجس – کہ جس کے نطفہ میں شیطان شریک ہے – کے شر سے امان عطا فرما[25] ۔

اس روایت سے ھمیں معلوم ہوتا ہے کہ بیان ، مغیرہ اور محمد بن بشیر جیسے افراد جھالت کی وجھہ سے غلو نہیں کرتے تھے بلکہ جان بوجھہ کر عمدا غلو کرتے تھے

2  علی بن حدید مدائنی نقل کرتے ہیں جب امام کاظم نے محمد بن بشیر کے خرافات سنے[26] تو اس پر تین بار لعنت کی اور فرمایا : خدا محمد بن بشیر کو جھنم کی گرمی اور بد ترین موت دے[27]

جس شخص نے محمد بن بشیر کے عقاید امام کو بتائے امام سے پوچھتا ہے خود محمد بن بشیر سے آپ کی الوھیت کا دعوی سنا ہے تو کیا اس کا خون مجھہ پر حلال ہے ؟ اسے قتل کر دوں ؟ امام نے فرمایا ، حل واللہ دمہ ، خداقسم میں آپ پر محمد بن بشیر کا خون حلال کرتا ہوں اور ہر اس پر جو اس سے ایسی باتیں سنے

امام اپنی گفتگو کو ادامہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ محمد بن بشیر نے خدا کواور مجھے اور میرے اجداد کو گالی دی ہے یہ بہت بڑی گالی ہے اور اس کی سزا بھی بڑی سخت ہے[28] ۔ سوال کرنے والا امام سے پوچھتا ہے اگر میں قدرت رکھنے کے باوجود محمد بن بشیر کو قتل نہ کروں تو کیا میں گناھکار ہوں ؟ امام نے فرمایا : اس صورت میں محمد بن بشیر کے گناہوں کے دو برابر تیرے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے اور محمد بن بشیر کے گناہ بھی کم نہیں ہوں گے ۔ کیا تم جانتے ہو قیامت کے دن سب سے افضل شھدا کون ہوں گے ؟ پھر فرماتے ہیں قیامت کے دن سب سے برترین شھدا وہ ہوں گے جو خدا اور اس کے رسول کی ظھر الغیب [پشت پردہ] مدد کرتے ہیں[29]

3 امام رضا محمد بن بشیر کے جھوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس نے میرے بابا پر جھوٹ باندھے ہیں خدا اسے جھنم کی آگ میں ڈالے[30]

4 علی بن حمزہ کہتا ہے  میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ جو محمد بن بشیر سے بد تر موت مرا ہو[31]

5 آیۃ اللہ خوئی بعض روایات کے سلسہ کو ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ یہ محمد بن بشیر وہ غالی ملعون نہیں ہے[32] بلکہ یہ اور ہے اس بات سے ھم اندازا لگا سکتے ہیں کہ امام کاظم علیہ السلام نے محمد بن بشیر کے خلاف جو اقدامات فرمائے ہو کامیاب بھی ہوئے ہیں

۱کشی پیشین ص 478 ؛ نوبختی پشین ص 83

[2]  محمد بن حسن طوسی،رجال طوسی ،قم : جامعہ مدرسین ، 1415 ،ص344 ،حسن بن یوسف [ حلی خلاصۃ الاقوال ۔ چاپ دوم ،نجف :المطبعۃ الحیدریہ 1381 ، ص 393، سید ابوالقاسم خوئی ، معجم رجال الحدیث ، بی جا: بی نا ، بی تا ،ج،16 ، ص 137

[3] کشی ، پیشین ، ص 342 و 477 ؛ حلی پیشین ، ص393

[4] طوسی،رجال، پیشین ، ص 344

[5]  آیۃ اللہ خوئی نے اشارہ کیا ہے [ولم تثبت لہ اصلا و المذکور فی الروایات غیرہ ] {سید ابوالقاسم خوئی ، پشین ، ج 16 ، ص 142 ۔} ؛ محمد تقی شوستری نے اس کے راوی ہونے کا انکار کیا ہے [محمد تقی شوستری ، قاموس الرجال ،قم : جامعہ مدرسین ، 1419 ، ج9 ، ص 140 ۔

[6]  کشی ، پشین ، ص 302 ؛ شیخ حسن بن زین الدیں ، التحریر الطاووسی ، قم : مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی نجفی ، 1411 ، ص 524 ۔

[7]  کشی ، پشین ، ص481 ؛ خوئی ، پیشین ، ج 16 ، ص 140 ۔

[8]  وہ لکھتے ہیں { و ادعی الالوھیہ لہ و النبوہ لنفسہ من قبلہ ولما توفی موسی قال نالوقف علیہ } [ مجلسی پیشین ج 27 ، ص 29 ]

1وہ لکھتے ہیں [ وقال بربوبیتہ بعد وفاتہ و ادعی النبوہ لنفسہ ] ۔ عبدالرسول غفار ، شبھہ الغلو عند الشیعہ ، بیروت : دارالمحجۃ البیضاء 1415 ، ص 80

[10]  اشعری قمی ، پیشین ، ص 91 ؛ کشی ، پیشین ، 478

[11]  اشعری قمی ، المقالات و الفرق ، چاپ دوم ، تھران ؛ علمی و فرھنگی ، 1360 ، ص 91 ؛ کشی ، پیشین ، 478

[12]  کشی ، پیشین ، ص 477 ؛ نوبختی ، پیشین ، ص 83 ۔

[13]  حسن حسین زادہ شانہ چی ، [واقفیہ] ، تاریخ اسلام ، پائیز 1384 ، ص 58 ۔

[14]  یعنی اس کے اپنے جیسا انسانی و بشری شکل و صورت میں نظر آتے ہیں

[15]  کشی ، پیشین ، ص 477 -478 ؛ اشعری قمی ، پیشین ، ص 63 ۔

[16]  کشی ، پیشین ، ص 478 ؛ نوبختی ، پیشین ، ص 83 ؛ اشعری قمی ، پیشین ، ص 91 ۔

[17]  کشی ، پیشین ، ص 478 ؛ اشعری قمی ، پیشین ، ص 91 ؛ نوبختی ، پیشین ،ص 83 ۔

[18]  کشی ، پیشین ، ص 478 ؛ اشعری قمی ، پیشین ، ص 91-92 ؛ نوبختی ، پیشین ،ص 83 ۔

[19]  نوبختی ، ص83  ؛ اشعری قمی ، پیشیب ص 92 ۔

[20]  اشعری قمی ، پیشین ، ص 60

[21]  شوری 42 آیۃ 50 ۔

[22]  نوبختی ،  پیشین  ، ص 84 ؛ اشعری قمی ، پیشین ، ص 92 ؛ خوئی ، پیشین ، ج 16 ، ص 138 ۔

[23]  نوبختی ، ھمان ، ص 83 –84  ؛ اشعری قمی ، ھمان ، ص 92 ۔

[24]  کشی ، پیشین ، ص 483 ۔

[25]  ھمان

[26]  محمد بن بشیر دعوی کرتا تھا کہ جس امام کو تم دیکھہ رہے ہو یہ وہ امام موسی بن جعفر نہیں ہے کہ جو خدا اور ہمارے درمیان حجت خدا ہے  [ ھمان ، ص 482 ]

[27]  کشی پیشین ، ص 482 ؛ خوئی ، پیشین ، ج 16 ، ص 140

[28]  کشی پیشین ، ص 482

[29]  احتمالا ظھر الغیب سے مراد پوشیدہ ےا چھپ کے ہے ، ظھر الغیب : ما غاب عنک ، [ صاحب ابن عباد ، پیشین ، ج 3 ص 464 ] ؛ کشی ، پیشیب ، ص 482 ؛ مجلسی ، پیشین ، ج 25 ص 313

[30]  امام فرماتے ہیں : وکان محمد بن بشیر یکذب علی ابی الحسن موسی علیہ السلام  فاذاقہ اللہ حر الحدید { کشی ، پیشین ، ص 302  ؛ شیخ حسن بن زین الدین ، پیشین ، ص 524 }

[31]  کشی ، پیشین ، ص 300 ؛  گروہ محققین  ، فی رحاب اھل البیت چاپ دوم ، بی جا : المجمع العالمی لاھل البیت ، 1426 ، ج 36 ، ص 140

[32]  خوئی ، پیشین ، ج 16 ، ص 142 ۔

امام رضا علیہ السلام کا غالیوں کے ساتھ طرز عمل

تحریر: اسد عباس

 

امام کا محمد بن بشیر و بشریہ سے مقابله

 ۱ محمد بن بشیر نے جن غالیانہ عقاید کی نسبت امام ظم کی طرف دی ،امام رضا نے ایک روایت میں محمد بن بشیرکے جھوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : خدا محمد بن بشیر کو جھنم کی آگ میں ڈالے[1] ۔

۲ امام رضا نے واقفیہ فرقے کا بطور جدی مقابلہ کیا ان کو کافر اور جھوٹا کہا اور فرمایا:  اگر ایسا ہوتا کہ خداوند آدم کی اولاد میں سے کسی ایک کو بھی  زندہ رکھتا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد مصطفی کوزندہ رکھتا[2] ۔

۳ امام رضا اپنے بھائی کہ جو عقیدہ رکھتا تھا کہ ہمارے اجداد زندہ ہیں  کے عقاید کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہمارے والد اور دیگر اجداد دنیا سے چلے گئے ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرم دنیا سے رحلت فرما گئے ہیں اسی طرح ہمارے اباواجداد بھی دنیا سے چلے گئے ہیں[3] ۔

۴ ایک اور روایت میں آپ رسول خدا کی رحلت کی تاکید کرتے ہیں : باخدا میرے پدر بزرگوار دنیا سے چلے گئے ہیں اس کا مال تقسیم ہو چکا ہے اور اس کی کنیزوں نے شادیاں کر لی ہیں[4] ۔

۵ ایک اور روایت میں حضرت علی کی شھادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :        جیسے علی علیہ السلام کی رحلت ہو گئی ہے اسی طرح میرے بابا امام موسی کاظم کی رحلت بھی ہو گئی ہے[5] ۔

    ۶ ابو جریر قمی امام رضا سے پوچھتے ہیں آیا آپ کے والد گرامی دنیا سے چلے گئے ہیں ؟ پھر پوچھتا ہے مولا آپ تقیہ تو نہیں کر رہے مجھے بتائیں آپ کے والد گرامی دنیا سے چلے گئے ہیں ؟ امام نے شدت سے تقیہ کرنے کا انکار کیا اور فرمایا: میرے والد گرامی دنیا سے چلے گئے ہیں اور میں ان کا وصی اور امام وقت ہوں[6] ۔

۷ ایک اور جگہ امام علیہ السلام  احمد بن ھلال کو فرماتے ہیں : واقفیوں کو جا کے بتاو کہ میں نے خود اپنے والد گرامی کو غسل دیا ہے[7] ۔

علامہ مجلسی کہتے ہیں بہت ساری روایات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ امام رضا نے خود اپنے والد گرامی کوغسل دیا ہے[8] ۔

یونس بن ظبیان سے مقابله

جیسا کہ پہلے اشارہ کر چکے ہیں یونس بن ظبیان امام رضا کے دور کےمشہور غالیوں میں سے تھا جب امام نے اس کے غالیانہ عقاید کو سنا تو سخت ناراض ہوئے اور جو شخص یونس بن ظبیان کے عقاید کو امام کی محفل میں نقل کررہا تھا امام نے اس کو بھی محفل سے نکال دیا اور اسے کہا: خدا تجھہ پر اور جس شخص نے تجھے ایسے عقاید بیان کیے ہیں اس پر لعنت کرے خدا یونس بن ظبیان پر ھزار بار لعنت کرے اور ہر لعنت میں ہزار ہزار اور لعنتیں ہوں۔

پھر مولا فرماتے ہیں: یونس بن ظبیان اور ابوالخطاب اور ان دونوں کے یاران خدا کے بدترین عذاب میں اکٹھے ہوں گے[9] ۔

  محمد بن فرات و دیگر غالیوں سے مقابله

محمد بن فرات نے نبوت و بابیت کا دعوی کیا یہ شراب خوار تھا نماز نہیں پڑھتا تھا امام نے ابتدا میں اسے بہت پیار سے سمجھایا کہ شراب پینا چھوڑ دے ، نماز پڑا کر اور غالیانہ عقید سے توبہ کر لے[10] لیکن اس نے امام کی دعوت کو قبول نہیں کیا تو پھر امام نے سخت الفاظ میں اس کی مذمت فرمائی اور کہا اس نے تو ابوالخطاب سے بھی زیادہ تکلیفیں امام صادق کو پہنچائی ہیں

1 ایک اور روایت میں امام نے بیان بن سمعان ، مغیرہ بن سعید ، ابوالخطاب اور محمد بن بشیر پر ان کے غالیانہ عقاید کی وجہ سے لعنت کی ہے اور فرمایا ہے کہ خدا ان کو جھنم کی آگ میں جلائے۔ یہ محمد بن فرات ایسا شخص تھا جس نے امام کے دور میں امام پر جھوٹ باندھے ہیں[11] ۔

2 ایک اور روایت میں امام نے غالیوں اور مفوضہ کو کافر اور مشرک کہتے ہوئے ارشاد فرمایا :    جو بھی غالیوں اور مفوضہ کے ساتھہ تعلق رکھے گا ان کے ساتھہ کھائے پیئے گا ، ان کے ساتھہ رشتہ جوڑے گا یا ان کو امان دے گا یا ان کے غالیانہ عقاید کی تصدیق کرے گا تو وہ خدا کی ولایت اور ہماری ولایت سے خارج ہو جائے گا[12] ۔

3 ایک اور حدیث میں امام نے فرمایا: جو غالیوں کے ساتھہ دوستی کرتے ہیں وہ ھم اھل بیت کے ساتھہ دشمنی کرتے ہیں اور جو غالیوں کے ساتھہ رابطہ رکھتے ہیں وہ ھم اھل بیت سے قطع تعلق کرتے ہیں ، جو غالیوں سے خوبی کرتے ہیں وہ ھم اھل بیت سے بدی کرتے ہیں ، جو غالیوں کا احترام کرتے ہیں وہ ھم اھل بیت کی اھانت کرتے ہیں ، اور جو غالیوں کی رصدیق کے تو اس نے ہماری تکذیب کی ، اور پھر آخر حدیث میں فرماتے ہیں ہمارے شیعوں میں سے کوئی بھی غالیوں سے تعلق نہ رکھے[13] ۔

مقابله با افکار غالیانہ

1 تاکید بر جنبہ بشری آئمہ

امام نے ایسے افراد کی سختی سے مذمت فرمائی ہے کہ جو سمجھتے تھے لوگ آئمہ علیہ السلام کے بندے ہیں[14] ۔ امام اباصلت ھروی کو قسم کھا کر فرماتے ہیں: کہ ھم نے کھبی کوئی ایسی بات نہیں کی  اگر لوگ ہمارے بندے ہیں تو پس ان کو کیسے بیچیں[15] ۔

مامون امام سے پوچھتا ہے کہ مجھہ تک یہ خبر پونچی ہے کہ لوگ آپ کے بارے میں غلو کرتے ہیں تو امام نے جواب میں رسول خدا کی ایک حدیث بیان فرمائی جس میں رسول خدا نے ارشاد فرمایا :  مجھے میرے حق اور حد سے زیادہ نہ بڑھائیں کیونکہ خداوند متعال نے مجھے رسول بنانے سے پہلے اپنا بندہ بنایا ہے[16] اس کے بعد امام حضرت علی کی حدیث بیان کرتے ہیں جس میں مولا علی نے فرمایا : دو قسم کے لوگ میری وجہ سے ھلاک ہوں گے حالانکہ میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے ۱ ایسے دوست جو مبالغہ کرتے ہیں ۲ ایسے دشمن جو افراط کرتے ہیں[17] ۔

یہ دو حدیث بیان کرنے کے بعد امام فرماتے ہیں: ھم اھل بیت ان لوگوں سے بیزار ہیں جو لوگ ھمیں حد سے بڑھاتے ہیں اور ھمارے بارے غلو کرتے ہیں ،ھم غالیوں سے ایسے ہی بیزار ہیں جیسے عیسی نصارا سے[18] ۔

ایک حدیث میں امام رضا اپنے بشری ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 ھم کسی کی اولاد ہیں اور کوئی ہماری اولاد ہے ،ھم مریض بھی ہوتے ہیں اور صحت مند بھی ، کھاتے بھی ہیں اور پیتے بھی ہیں ، بول بھی کرتے ہیں اور پاخانہ بھی ، نکاح بھی کرتے ہیں اور سوتے بھی ہیں ، خوش بھی ہوتے ہیں اور پریشان بھی ، زندگی بھی رکھتے ہیں اور موت بھی ، حشر و نشر سوال و جواب ھمارا بھی ہوگا[19] ۔

ایک شخص نے امام کے سامنے کہا کہ علی رب ہیں تو امام غصے کی وجہ سے کانپنے لگے اور فرمایا : کیا علی کھاتا پیتا نہیں تھا ، کیا علی نے شادی نہیں کی ، کیا وہ خدا کی عبادت نہیں کرتے تھے کیا وہ خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری نہیں کرتے تھے پھر فرمایا کیا ممکن ہے کوئی ان صفات کے باوجود خدا ہو ؟ اگر علی ان صفات کے ساتھہ خدا ہو سکتا ہے تو پھر تم سب خدا ہو[20] ۔

من گھڑت احادیث کا مقابله

امام کے زمانہ میں غالیوں کا ایک کام جعلی حدیثیں بنانا تھا خصوصا مغیرہ بن سعد کے زمانے میں یہ کام شروع ہوا  غالی لوگ حدیثیں بناتے تھے اور اصحاب آئمہ کی کتابوں میں شامل کرتے تھے

1 ابراھیم بن ابی محمود نے جعل حدیث کے بارے میں امام سے پوچھا تو امام نے فرمایا : ہمارے مخالفین نے خصوصا ہمارے فضائل کے باب میں حدیثیں گھٹری ہیں اور انہیں تین قسم میں تقسیم کیا  ہے ۱ غالیانہ اخبار ۲ اخبار تقسیر ۳ ہمارے دشمنوں پر لعن و مذمت کی تصریح کی اخبار ۔ پھر آگے امام فرماتے ہیں : جب لوگ کوئی ایسی خبر سنیں جس میں ہمارے بارے میں غلو کیا گیا ہو تو ایسی روایات اور بیان کرنے والوں کو مورد لعن قرار دیں[21] ۔

2 یونس بن عبد الرحمن نے سفر عراق میں اصحاب آئمہ کی کتابوں کو لیا اور اس کی نسخہ برداری کی جب امام کو چیک کروایا تو امام نے بہت ساری حدیثوں کو جعلی قرار دیا اور فرمایا یہ ابوالخطاب غالی کا کام ہے اس نے اپنے مکروحیلہ سے ہمارے اصاب کی کتابوں میں جعلی حدیثیں وارد کر دی ہیں خدا اس پر لعنت کرے[22] ۔

3 ایک اور روایت میں امام فرماتے ہیں ہماری وہ حدیثیں جو قرآن و سنت کے معیار کے مطابق ہیں صرف وہی قبول کریں اور باقیوں کو چھوڑ دیں وہ ہماری حدیثیں نہیں ہیں[23] ۔

4 حیسن بن خالد امام کے یاران میں سے ہے امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی لوگ شیعوں کے ساتھہ جبروتشبیہ کی نسبت دیتے ہیں ،تو امام نے اس سے پوچھا ، یہ حدیثیں آئمہ سے زیادہ نقل ہوئی یا پیغمبر سے ؟ ابن خالد کہتا ہے ، احادیث پیغمبر زیادہ ہیں لیکن لوگ کیتے ہیں پیغمبر نے کوئی ایسی نہیں فرمائی بلکہ پیغمبر کے ساتھہ بسبت دیتے ہیں ، تو امام فرماتے ہیں : میرے والدین کے بارے میں بھی اسی طرح جھوٹی نسبت دیتے ہیں یعنی میرے والدین نے ایسی کوئی حدیث نہیں فرمائی[24] ۔

5 محمد بن زرعہ حضرمی ایک جعلی روایت نقل کرتا ہے کہ امام صادق نے فرمایا: میرا بیٹا کاظم پانچ چیزوں میں انبیا کے ساتھہ شباھت رکھتا ہے ، اس کے ساتھہ حسد کیا جائے گا جیسے حضرت یوسف کے ساتھہ حسد کیا گیا اور وہ غائب ہوں گے جیسے حضرت یونس غائب ہوئے تھے وغیرہ وغیرہ ، تو امام نے محمد بن زارعی کو جھوٹا کہا اور فرمایا : امام صادق نے یہ حضرت قائم کے بارے میں فرمایا تھا نہ کہ میرے بیٹے کے بارے میں[25] ۔

 6امام ایک اور جگہ فرماتے ہیں: غالی کافر ہیں اور مفوضہ مشرک ہیں[26]  ۔

[1]  ۔ وکان محمد بن بشیر یکذبہ علی ابی الحسن موسی فاذاقہ اللہ حر الحدید ۔ شیخ طوسی ، ھمان ، ص 302 ؛ حسن بن زین الدین ، التحریر الطاووسی ، پیشین ، ص 524 ۔

[2]   شیخ طوسی ، پیشین ، ص 458 ۔

[3]  کلینی ، پیشین ، ج1 ، ص 380 ۔

[4]  شیخ صدوق ، کمال الدین و تمام النعمۃ ، چاپ دوم ، تھران : اسلامیہ ، 1395 ، ج1 ، ص39-40 ؛ ھمو ، عیون الرضا ، پیشین ، ج1 ، ص 106 ۔

[5]  ۔ واللہ ذاق الموت کما اذاقہ علی بن ابی طالب ۔ شیخ صدوق ، عیون اخبار الرضا ، ھمان ، ج1 ، ص 234 ۔

[6]  کلینی ، پیشین ، ج1 ، ص380 ۔

[7]  ۔ قل لھم انی غسلۃ فقلت اقول لھم انک غسلۃ قال نعم ۔ کلینی ، پیشین ، ج1 ، ص 385 ۔

[8]  ۔ اخبار کثیرہ دالہ علی حضورالرضا عندالغسل ۔ محمد باقر مجلسی ، بحارالانوار ، تھران : اسلامیہ ، 1363 ، ج 27 ، ص 289 ۔

[9]  شیخ طوسی ، پیشین ، ص 232 – 233 ۔

[10]  ھمان ، ص 554 ؛ سید ابوالقاسم خوئی ، پیشین ، ج18 ، ص 135 ۔

[11]  شیخ طوسی ، ھمان ، ص 303 ۔

[12]  شیخ صدوق م پیشین ، ج2 ،ص 203 ؛ شیخ حر عاملی ، پیشین ، ج5 ، ص 380 ۔

[13]  شیخ صدوق ، ھمان ، ج1 ، ص 143 ؛ طبرسی ، پیشین ، ج2 ، ص415 ۔

[14]  کلینی ، پیشین ، ج1 ، ص 187 ۔

[15]  شیخ صدوق ، پیشین ، ج 2 ، ص 184 ۔

[16]  شیخ صدوق ، پیشین ، ج2 ، ص 201

[17]  شیخ صدوق ،پیشین ، ج 2 ، ص 201 ۔

[18]  ھمان

[19]  شیخ صدوق پیشین ، ج1 ، ص 214 ؛ اربلی ، پیشین ، ج 2 ، ص 812 ۔

[20]  طبرسی ، پیشین ، ج2 ، ص 439 ۔

[21]  شیخ صدوق ، پیشین ، ج1 ، ص 304 ؛ محمد بن جریر بن رستم طبری ، دلائل الامامہ قم : بعثت ، 1413 ، ص 24 ۔

[22]  شیخ طوسی ، پیشین ، ص 224 ۔

[23]  ھمان ۔

[24]  شیخ صدوق ، التوحید ، پیشین ، ص 364 ؛ شیخ صدوق ، پیشین ، ج2  ، ص 130 ۔

[25]  شیخ صدوق ، پیشین ، ص 477 ؛ سید ابوالقاسم خوئی ، پیشین ، ج 9 ، ص 314 ۔

[26]  صدوق ، عیون الرضا ، ص 218 – 219 ؛ مجلسی ، پیشین ص 273 ۔

 

امام ہادی و امام اسکری علیہماالسلام کا غالیوں کے ساتھ طرز عمل

تحریر: اسد عباس

 

1 امام ھادی علیہ السلام کی فارس بن حاتم غالی کی مذمت

امام ھادی ایک ایرانی شیعہ علی بن عبداللہ دنیوی سے فرماتے ہیں:

فارس بن حاتم دروغ گو و خیانت کار شخص ہے آپ جو وجوھات شرعی فارس کے ھاتھوں بھیجتے ہیں وہ ھم تک نہیں پہنچتے ، آپ اس کو وجوھات نہ دیا کریں بلکہ ایوب نوح کو دیا کریں[1] ۔

امام نے ایوب نوح کو نامہ لکھا کہ شیعیان جبال [ ایران ] کو بتاو کہ فارس جھوٹا ، منحرف اور خیانت کار ہے[2] ۔

ایک اور روایت میں امام ھادی نے فرمایا فارس فتنہ گر ہے اور لوگوں کو بدعات کی طرف دعوت دینے والا ہے[3] ۔

ابراھیم بن یعقوبی امام کو خط لکھتا ہے اور فارس بن حاتم کے انحرافات کے بارے میں پوچھتا ہے تو امام فرماتے ہیں فارس کے ساتھہ آمد و رفت چھوڑ دو اور اگر وہ تمہارے پاس آئے تو اس کی تحقیر کرو[4] ۔

ایک اور روایت میں امام فرماتے ہیں جو شخص بھی فارس بن حاتم کو قتل کرے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا[5] ۔

امام ھادی فرماتے ہیں فارس بن حاتم فتنہ گر اور بدعتی ہےجو اس کو قتل کرے گا میں اس کی جنت کا ضامن ہوں[6] ۔

2 امام ھادی کی محمد بن نصیر نمیری کی مذمت

نصر بن صباح کہتے ہیں کہ امام ھادی نے محمد بن نصیر نمیری اور کچھہ دیگر غالیوں پہ لعنت فرمائی ہے[7] ۔

امام ھادی نے محمد بن نصیر سے برائت فرمائی ہے اور اپنے تمام شیعوں کو محمد بن نصیر اور ابن بابای قمی سے دور رہنے کا حکم فرمایا ہے اور ان دونوں پر لعنت فرمائی ہے امام نے ان دونوں کو فتنہ گر ، فریب کار ، اور ان کو بد دعا کی ہے[8] ۔

3 امام ھادی علیہ السلام کی علی بن حسکہ اور قاسم یقطینی کی مذمت

محمد بن عیسی روایت کرتے ہیں کہ امام ھادی نے فرمایا خداوند قاسم یقطینی اور ابن حسکہ پر لعنت کرے شیطان ان میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ خرافاتی باتیں کرتے ہیں[9] ۔

احمد بن محمد عیسی قمی امام ھادی کو خط لکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ علی بن حسکہ و قاسم یقطینی خود کو آپ کا شیعہ کہتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ آیہ ان الصلاۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر[10] ۔ ایسے شخص کی طرف اشارہ ہے جو اھل رکوع و سجود نہیں تھا اور زکواۃ سے مراد ایک شخص ہے نا کہ درھم و دینار ، اور اسی طرح گناہوں کی تاویل کرتے ہیں ۔ تو امام نے فرمایا : ایسا عمل یا عقیدہ ، ہمارا دین نہیں ہے اس سے دوری کریں[11] ۔

امام کو بتایا گیا کہ ابن حسکہ اپ کو خدا اور خود کو نبی سمجھتا ہے اور نماز ،زکات ، حج ، روزہ اور دوسرے احکام کی غالیانہ اور انحرافانہ تاویل کرتا ہے تو امام نے فرمایا: ابن حسکہ جھوٹا ہے خدا کی لعنت ہو اس پر ، میں اسے اپنا شیعہ نہیں مانتا ۔ باخدا قسم خداوند متعال نے محمد اور اس سے پہلے تمام نبیوں کو دین حنیف نماز ، زکات ، روزہ اور ولایت کے لیے مبعوث کیا ہے اور حضرت محمد نے خدائے وحدہ لا شریک کے علاوہ کسی کی تبلیغ نہیں کی ھم محمد مصطفی کے بیٹے اور خدا کے بندے ہیں شرک نہیں کرتے اگر ھم خدا کی اطاعت کریں تو خدا ھم پر رحم کرے گا اور اگر خدا کی نافرمانی کریں تو وہ ھم پر عذاب نازل کرے گا ۔ میں ھر اس شخص سے دوری کرتا ہوں جو غالیانہ عقاید رکھے اور خدا کے دین میں تاویلات کرے پھر امام فرماتے ہیں ایسے لوگوں پر خدا کی لعنت ہواور یہ جہاں بھی ملیں ان کا سر پتھروں سے پھاڑ دو[12] ۔

4 امام ھادی کی ابن بابایی قمی کی مذمت

امام نے ابن بابایی قمی پر لعنت فرمائی ہے اور اس سے دوری فرمائی ہے

نصر بن صباح کہتے ہیں کہ امام ھادی نے ابن بابایی قمی ، محمد بن نصیر نمیری اور فارس بن حاتم پرلعنت فرمائی ہے[13] ۔

ایک اور روایت میں امام فرماتے ہیں :

ابن بابایی قمی گمان کرتا ہے کہ میں نے اسے پیغمبر بنا کے بھیجا ہے اور بابیت کا دعوی کرتا ہے خدا کی لعنت ہو اس پر ، شیطان کے دھوکے میں آ گیا ہے جو بھی اس قسم کے افکار قبول کرتا ہے خدا کی لعنت ہو اس پر ، پھر امام اپنے چاہنے والے کو حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں : جھاں بھی ابن بابایی کو دیکھو قتل کر دو اور کوشش کرنا پتھر سے اس کا سر کچلنا ، ایسا ضرور کرنا ابن بابایی نے ھمیں بہت تکلیفیں دیں ہیں[14] ۔

5 امام ھادی کی فتح بن یزید جرجانی کی مذمت

فتح بن یزید دوسرے غالیوں کی طرح فتنہ گر اور فریب کار نہیں تھا اس لیے امام نے اس پر لعنت نہیں کی بلکہ یہ اپنی کم علمی کی وجہ سے بعض اوقات غلو کر جاتا تھا اور امام اسے سمجھاتے تھے تو یہ سمجھہ جاتا تھا ۔ یہ خود نقل کرتا ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ آئمہ چونکہ علم غیب رکھتے ہیں تو خدا ہیں لیکن پھر میں امام ھادی علیہ السلام کی خدمت کرنے کی وجہ سے اپنے غالیانہ عقید کو چھوڑ دیا[15] ۔

 

6 امام ھادی کی احمد بن محمد سیاری کی مذمت

احمد بن محمد سیاری اور دوسرے ایسے افراد جو تحریف قرآن کا عقیدہ رکھتے تھے امام نے فرمایا: قرآن میں کسی قسم کی کوئی تحریف نہیں ہوئی اور تمام اسلامی فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی[16] ۔

7 امام ھادی کی عروہ بن یحیی النحاس الدھقان کی مذمت

  یہ امام کے یاران میں سے تھا بغداد میں امام کا وکیل تھا لیکن بعد میں غالی ہو گیا امام پر جھوٹ باندھتا تھا امام نے اس پر لعنت فرنائی ہے سر انجام امام کی نفرین کے ساتھہ مر گیا[17] ۔

8 امام ھادی کی عقیدہ تجسیم کی مذمت

ابراھیم بن محمد ھمدانی امام ھادی کو خط لکھتا ہے اور عرض کرتا ہے مولا آپ کے شیعوں توحید کے بارے میں اختلاف ہو گیا ہے بعض تجسیم کے قائل ہو گئے ہیں اور بعض دوسرے تشبیہ کے ، وضاحت فرمائیں ، تو مولا ابراھیم بن محمد ھمدانی کو جواب لکھتے ہیں ، خدا کی ذات کو مبرہ و منزہ جانیں ، لیس کمثلہ شیء وھوالسمیع البصیر[18] ، خدا کی مثل کوئی نہیں وہ سمیع و بصیر ہے[19] ۔

محمد بن فرج رخجی امام کو خط لکھتا ہے ھشام بن حکم ، جسم ، اور ھشام بن سالم ، صورت ، خدا کے قائل ہیں وضاحت فرمائیں تو امام فرماتے ہیں ایسے خرافاتیوں سے دوری رکھیں اور خدا کی پناہ مانگیں شیطان سے ، جو کچھہ یہ کہتے ہیں ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں[20] ۔

[1]  ۔ ایوب بن نوح ۔ یہ فارس میں امام ھادی کا وکیل تھا

[2]  ۔ فاشھر فعل فارس فی اصحابنا الجبلین و غیرھم من موالینا ۔ ھمان ، ص 525 ۔

[3]  ۔ ھذا فارس یعمل من قبلی فتانا داعیا الی البدعۃ ۔ ھمان ، ص 525 ۔

[4]  ۔ لا تحفلن بہ و ان اتاک فاستخف بہ ۔ ھمان ، ص 522 ۔

[5]  ۔ ان ابا الحسن العسکری امر بقتل فارس بن حاتم القزوینی و ضمن لمن قتلہ الجنتۃ ۔ ھمان ، ص 523 ۔

[6]  و دمہ ھدر لکل من قتلہ ، فمن ھذا الذی یریحنی منہ و یقتلہ و انا ضامن لہ علی اللہ الجنۃ ۔ ھمان ، 524 ۔

[7]  ۔ فانی محذرک و جمیع موالی و انی العنھما علیھما لعنۃ اللہ ۔۔۔۔۔ ، طوسی ، اختیار معرفۃ الرجال [ رجال کشی ] ، ص 520 ۔

[8]  ۔۔۔۔ لعن ھولاء الثلاثۃ علی بن محمد عسکری ۔ طوسی ، اختیار معرفۃ الرجال [ رجال الکشی ] ، 520 ۔

[9]  ۔ ان شیطانا تراءی للقاسم فیوحی الیہ زخرف القول غرورا ۔ طوسی ، اختیار معرفۃ الرجال [ رجال الکشی ] ، ص 518 ۔

[10]  سورہ عنکبوت ، آیہ 45 ۔

[11]  فکتب علیہ السلام لیس ھذا دیننا فاعتزلہ ۔ اختیار معرفۃ الرجال [ رجال الکشی ] ، ص 517 ۔

[12]  کذب ابن حسکہ علیہ لعنۃ اللہ ۔۔۔ فان وجدت من احد منھم خلوۃ فاژدخ راسہ بالصخر ۔ طوسی ، اختیار معرفۃ الرجال ، ص 518 – 519 ۔

[13]  ۔لعن ھولاء الثلاثۃ علی بن محمد العسکری ۔  طوسی ، اختیار معرفۃ الرجال ، ص 520 ۔

[14]  ۔ کتب الی العسکری ابتداء منہ ابرا الی اللہ من الفھری و الحسن بن محمد بن بابا القمی فابرا منھما ۔۔۔ ، طوسی ، اختیار معرفۃ الرجال  [ رجال کشی ] ، ص 520 ، اس روایت میں عسکری سے مراد امام ھادی ہیں ۔

[15]  ۔ جعلنی اللہ فداک فرجت عنی و کشفت ما لبس الملعون علی فقد کان اوقع فی خلدی انکم ارباب ۔ مسعودی ، اثبات الوصیہ ، ص 236 ؛ اربلی ، کشف الغمہ ، ج 2 ، ص 896 ۔

[16]  ۔ اجتمعت الامۃ قاطبۃ لا اختلاف بینھم فی ذلک ان القرآن حق لا ریب فیہ عند جمیع فرقھا ۔۔۔ فاذا شھد الکتاب بتصدیق خبر و تحقیقہ ۔۔۔ طبرسی ، احتجاج ، ج 2 ، ص 450 ۔

[17]  کشی ، 1418 : ح 1008 ۔

[18]  سورہ شوری ، آیہ 11 ۔

[19]  ۔۔ فکتب ع بخطہ سبحان من لا یحد و لا یوصف ، لیس کمثلہ شیء و ھو السمیع العلیم ۔ او قال البصیر ۔ کلینی ، کافی ، ج 1 ، ص 102 ؛ صدوق ، التوحید ، ص 100 ۔

[20]  ۔ دع عنک حیرۃ الحیران و استعذ باللہ من الشیطان ، لیس القول ما قال الھشامان ۔ کلینی ، کافی ، ج 1 ، ص 106 ؛ صدوق ، الامالی ، ص 351 ؛ صدوق ، التوحید ، ص 97 ۔