تعصب،قرآن کی نگاه میں
نگارش: غلام یسین
کسی بھی چیز یا شخص کے ساتھ غیر منطقی اور غیر معقول وابستگی انسان کی بد ترین صفت ہے جسے تعصب کہا جاتا ہے ۔ تعصب بنی نوع انسان کے معنوی تکامل کی راہ میں شدید رکاوٹ ہے۔ گذشتہ امتوں کے دین الہی سے انحراف کا ایک اہم سبب یہی تعصب اور غیر معقول وابستہ ہو نا ہے ۔ وہ تعصب کی بنیاد پر اپنے آباؤ و اجدادکی اندھی تقلید پر قائم رہے جس کی وجہ سے راہ ہدایت سے بھٹک گئے۔ قرآن کریم کی رو سے اندھی تقلید کا اصلی سبب جاہلانہ تعصب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ متعصب افراد اپنے اجداد کی پیروی کے نتیجے کسی دین کو قبول کرنے کےلئے تیار نہیں ہوتے اگرچہ وہ دین انسانی فطرت اور عقل کے عین مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن نے تعصب کو انسانوں کے زوال، گمراہی اور جہنمی ہونے کا سبب قرار دیاہے ۔ فرعون اور قوم موسی علیہ السلام نے حضرت موسی علیہ السلام کو کہا تھا:
قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَاءَنَا وَ تَكُونَ لَكُمَا الْكِبرِْيَاءُ فىِ الْأَرْضِ وَ مَا نحَنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ۔(یونس،۷۸)؛
وہ کہنے لگے: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس راستے سے پھیر دو جس پرہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ملک میں تم دونوں کی بالادستی قائم ہو جائے؟ اور ہم تو تم دونوں کی بات ماننے والے نہیں ہیں۔
اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مشرکین نے کہا:
بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَیْنا عَلَیْهِ آباءَنا (بقرہ، ۱۷۰)
ہم اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلیں گے ۔
امیر المؤمنین علیہ السلام کی نگاہ میں ابلیس لعین تعصب کا بانی ہے :
«الَّذِي وَضَعَ أَسَاسَ الْعَصَبِيَّةِ...»؛ شیطان نے ہی تعصب کی بنیاد ڈالی ہے ۔(نہج البلاغہ، دشتی، ج۱، ص۱۹۳) کیونکہ اس نے کہا تھا کہ :
قالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَني مِنْ نارٍ وَ خَلَقْتَهُ مِنْ طين۔ (ص، ۷۶)
میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ اللہ نے مجھے آگ سے خلق کیا ہے اور آدم کو مٹی سے ۔
آج دنیا تعصب کی آگ میں جل رہی ہے ۔ کہیں قومی تعصب، کہیں مذہبی تعصب اور کہیں لسانی اور زبانی تعصب تاہے اور اسی تعصب کی بنا پر لوگ ایک دوسرے پر برتری جتلاتے ہیں ۔ قوم و مذہب و ملت کو کامیابی اور نیک بختی کا اصلی سبب جانا جاتا ہے ۔ آنکھوں پر تعصب کے ایسے پردے لٹک چکےہیں کہ حق و باطل کی پہچان ختم ہوچکی ہے یہاں تک کہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹی گواہیوں کا رواج عام ہو گیا ہے ۔ قوم پرستی اور قبیلہ پروری کی بنیاد پر اپنے خاندان کے افراد کو ہر حال میں سچا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ سچا ثابت کرکے ہی دم لیا جاتا ہے جبکہ اسلام نے اس سے سختی سے منع کیاہے بلکہ اسے شیطانی عمل قرار دیاہے ۔اگر تعصب کے شعلے بجھ جائیں تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ ہم ان شاء اللہ اس مقالے میں تعصب کےساتھ مربوط آیات کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ متعدد آیات میں دنیا کے مسلمانوں کی ایک اہم مشکل تعصب ہے اوراسی تعصب کی وجہ سے اسلامی معاشرے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے قاصر ہیں۔
قومی تعصب
کسی قوم یا گروہ کے ساتھ وابستہ ہونا ، قومی یا حزبی تعصب کہلاتا ہے ۔ یہ ایسا تعصب ہے جو انسان کو حقیقت سمجھنے اور ماننے سے روکتا ہے ۔ انسان کسی قوم یا گروہ کے رہبر اور رہنما سے اتنا متاثر ہو جاتا ہے کہ حق کا معیار صرف اسی کے افکار کو سمجھتا ہے اور تمام درست اور نا درست کو اسی ترازو پر تولتا ہے ۔ پس جو کچھ لیڈر کہتاہے بغیر کسی کمی اور زیادتی کےاسی کو قبول کر لیتا ہے اور اپنے آپ کو اصلاح پسند اور معیار حق سمجھنے لگتا ہے ۔لہٰذا قرآن مجید اس کے متعلق فرماتا ہے :
وَ إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُواْ فىِ الْأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نحنُ مُصْلِحُونَ (بقره،11)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں: ہم تو بس اصلاح کرنے والے ہیں۔
کسی ایک گروہ یا قوم کے ساتھ منسلک ہونا اور دوسروں کو ناحق سمجھنا نجات کا سبب نہیں بلکہ ایمان اور نیک عمل نجات کا وسیلہ ہے جیسا کہ قرآن ارشاد فرماتا ہے :
مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ عَمِلَ صالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ (بقره، 62)
جو کوئی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ایک نیک عمل بجا لائے تو ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
دینی تعصب
قرآن کریم گذشتہ اقوام کے دینی تعصب کے بارے متعدد مقامات پر گفتگو کرتا ہے جیسا کہ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کے بارے میں فرماتا ہے:
قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَ نَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَاؤُنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ(اعراف،70)
انہوں نے کہا : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کریں اور جن کی ہماری باپ دادا پرستش کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں؟ پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے لیے وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔
تعصب کی وجہ سے ان کی نگاہ میں توحید الہی ایک خوفناک امرتھا اور بے شعور بتوں کی پوجا اہم کام تھا۔
یہودیوں کا مذہبی تعصب
الف) دوسرے ادیان پر برتری
تعصب کی بنا پر یہودی ہمیشہ اپنے دین کو دوسرے ادیان پر برتر سمجھتے تھے ۔ اپنے دین کو حق دوسرے ادیان کو باطل سمجھتے تھے چنانچہ وہ کہتے تھے :
وَ قَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً (بقره،80)
اور ( یہودی )کہتے ہیں: ہمیں تو جہنم کی آگ گنتی کے چند دنوں کے علاوہ چھو نہیں سکتی۔
لیکن اللہ تعالی نے ان کو دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا:
قُلْ أَتخَّذْتمُ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يخُلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلىَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ(بقره،80)
(اے رسول)کہدیجیے:کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھاہے کہ اللہ اپنے عہد کے خلاف ہرگز نہیں کرے گا یا تم اللہ پر تہمت باندھ رہے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے ۔
حق اور کامیابی کا معیار خدا پر ایمان اور عمل صالح ہے نہ تعصب کی بنا پر کسی مذہب اور دین کے ساتھ وابستہ ہو جانا۔ اللہ تعالی صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں اس نکتہ کی طرف یوں اشارہ فرتا ہے :
وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَتِ أُوْلَئكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ(بقره، 82)
اور جو ایمان لائیں اور اچھے اعمال بجا لائیں، یہ لوگ اہل جنت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
ایک اور مقام پر فرماتا ہے :
بَلىَ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ محُسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يحَزَنُونَ(بقره،112)
ہاں! جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا اور وہ نیکی کرنے والاہے تو اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی حزن۔
ب) اپنے آپ کو حق اور دوسروں کو باطل سمجھنا
یہود و نصاری نہ صرف اپنے آپ کو حق اور دوسروں کو باطل سمجھتے ملکہ ایک دوسروے کو نیچا دیکھانے کےلئے ہمیشہ آپس میں جھکڑتے رہتے تھے ۔ قرآن مجید نے ان کی اس ذہنیت کی یوں منظر کشی کی ہے :
وَ قالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصارى عَلى شَيْءٍ وَ قالَتِ النَّصارى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلى شَيْءٍ وَ هُمْ يَتْلُونَ الْكِتابَ كَذلِكَ قالَ الَّذينَ لا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ فيما كانُوا فيهِ يَخْتَلِفُونَ (بقره، 113)
اور یہود کہتے ہیں: نصاریٰ کا مذہب کسی بنیاد پر استوار نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں : یہود کا مذہب کسی بنیاد پر استوار نہیں، حالانکہ وہ (یہود و نصاریٰ) کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اس طرح کی بات جاہلوں نے بھی کہی، پس اللہ بروز قیامت ان کے درمیان اس معاملے میں فیصلہ کرے گا جس میں یہ اختلاف کرتے تھے۔
اسی طرح یہود و نصاری اپنے آپ کو ہدایت یافتہ اور دوسرے ادیان کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کے ساتھ منسلک ہونے کی دعوت دیتے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دین ابراہیمی کی پیروی کرنے کا حکم دیا جیسا کہ قرآن میں ارشاد فرمایا:
وَ قالُوا كُونُوا هُوداً أَوْ نَصارى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْراهيمَ حَنيفاً وَ ما كانَ مِنَ الْمُشْرِكينَ (بقره،135)
وہ لوگ کہتے ہیں: یہودی یا نصرانی بنو تو ہدایت یافتہ ہو جاؤ گے، ان سے کہدیجیے : (نہیں)بلکہ یکسوئی سے ملت ابراہیمی کی پیروی کرو اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھے۔
ج) اپنے آپ کو آخرت کا حقدار سمجھنا
یہودیوں کی بدترین صفت یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو آخرت کی بے پایان نعمتوں کا مستحق گردانتے تھے حالانکہ قرآن کریم نے ان کے اس دعوے کو واضح طور پر جھٹلا یا ہے اور ان کو چیلنج کیا ہے کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو تو دلیل لے آؤ اور وہ دلیل موت کی تمنا ہے ، چنانچہ قرآن کریم میں ہم پڑھتے ہیں:
قُلْ إِن كاَنَتْ لَكُمُ الدَّارُ الاَخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُاْ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ. (بقره،94)
کہدیجیے: اگر اللہ کے نزدیک دار آخرت دوسروں کی بجائے خالصتاً تمہارے ہی لیے ہے اور تم ( اس بات میں ) سچے بھی ہو تو ذرا موت کی تمنا کرو۔
قرآن کی نگاہ میں حقیقی مومن وہ ہیں جو کبھی حق کو کسی دوسری چیز پر قربان نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ حق کی سربلندی کی سعی کرتے ہیں جیسا کہ سورہ توبہ میں ارشاد رب العزت ہے:
قُلْ إِنْ كانَ آباؤُكُمْ وَ أَبْناؤُكُمْ وَ إِخْوانُكُمْ وَ أَزْواجُكُمْ وَ عَشيرَتُكُمْ وَ أَمْوالٌ اقْتَرَفْتُمُوها وَ تِجارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسادَها وَ مَساكِنُ تَرْضَوْنَها أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ جِهادٍ في سَبيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفاسِقينَ. (توبه،24)
کہدیجیے:تمہارے آباءاور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ اموال جو تم کماتے ہو اور تمہاری وہ تجارت جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری پسند کے مکانات اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔
آباؤ و اجداد کی تقلید
قرآن کریم نے مشرکین کی جانب سے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کی شدت سے مذمت کی ہے اور اس عجیب اور بے دلیل منطق کی نفی کی ہے چنانچہ فرمایا ہے :
وَ إِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُواْ مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ ءَابَاءَنَا أَوَ لَوْ كاَنَ ءَابَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْا وَ لَا يَهْتَدُونَ. (بقره،170)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے، خواہ ان کے آباء و اجداد نے نہ کچھ عقل سے کام لیا ہو اور نہ ہدایت حاصل کی ہو۔
البتہ یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ آباؤ اجداد کی تقلید ہر صورت میں قابل مذمت نہیں ہے بلکہ اگر وہ عقلمند اور ہدایت یافتہ افراد تھے تو نہ صرف ان کی تقلید قابل مذمت نہیں بلکہ ان کی اتباع عین عقلانیت ہے۔اگرچہ آیات قرآنی کا لحن بتا رہا ہے کہ مشرکین کے اجداد عقلمند نہ تھے بلکہ نادان اور جاہل افراد تھے ۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آباؤ اجداد کی اندھی تقلید اور پیروی کی مذمت کی ہے اور اسج سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انسان کے چشم و گوش بند ہو جاتے ہیں اور انسان ہدایت کے راستے کو گم کر بیٹھتا ہے ۔ (تفسير نمونه، ج1، ص: 576) سوره مائده میں اپنے بزرگوں کی پیروی کرنے والے اہل کتاب کے بارے میں آیا ہے :
قُلْ يَأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُواْ فىِ دِينِكُمْ غَيرْ الْحَقّ وَ لَا تَتَّبِعُواْ أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّواْ مِن قَبْلُ وَ أَضَلُّواْ كَثِيرًا وَ ضَلُّواْ عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ. (مائده، 77)
کہدیجیے: اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو پہلے ہی گمراہی میں مبتلا ہیں اور دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی گمراہی میں ڈال چکے ہیں اورسیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔
اسی سورہ میں ایک اور مقام پر بتایا گیا ہےکہ آباؤ اجداد کی اندھی تقلید حق کو تسلیم کرنے سے رکاوٹ ہے :
وَ إِذَا قِيلَ لهَمْ تَعَالَوْاْ إِلىَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَ إِلىَ الرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَاءَنَا أَ وَ لَوْ كاَنَ ءَابَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْا وَ لَا يهَتَدُونَ. (مائده، 104)
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو دستور اللہ نے نازل کیا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں: ہمارے لیے وہی دستور کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، خواہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور ہدایت پر بھی نہ ہوں۔
حقیقی عزت و افتخار
متعصب اور ضدی لوگ اپنے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کو ہی عزت و افتخار کا حقیقی سبب جانتے ہیں جبکہ قرآن کریم نے ان کی اس سوچ پر قلم بطلان کھینچا ہے اور ایمان اور عمل صالح کو عزت اور افتخار کا حقیقی سبب قرار دیا ہے ۔چنانچہ سورہ نساء میں ارشاد فرماتا ہے :
وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تجَرِى مِن تحَتِهَا الْأَنْهَارُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا وَ مَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا. (نساء،122)
اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں عنقریب ہم انہیں ایسی جنتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہ وہاں ابد تک ہمیشہ رہیں گے، اللہ کا سچا وعدہ ہے اور بھلا اللہ سے بڑھ کر سچی بات کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟
تعصب کے آثار
1۔ حق سے انکار
قرآن کریم ،ضدی اور متعصب اہل کتاب کے بارے فرماتا ہے کہ اہل کتاب کے علماء ، پیغمبر اسلام کو اچھی طرح پہچانتے تھے لیکن ان کا ایک گروہ ایسا تھا جو حق کو چھپاتا اور اس کا انکار کرتا تھا۔(تفسير نمونه، ج1، ص 499)قرآن میں ارشاد رب العزت ہے :
الَّذِينَ آتَيْناهُمُ الْكِتابَ يَعْرِفُونَهُ كَما يَعْرِفُونَ أَبْناءَهُمْ وَ إِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَ هُمْ يَعْلَمُونَ.(بقره، 146)
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول)کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور ان میں سے ایک گروہ جان بوجھ کر حق کو چھپا رہا ہے۔
اگرچہ اہل کتاب کے ایک گروہ نے واضح نشانیاں دیکھ کر اسلام قبول کر لیا جیسا کہ یہودی عالم عبد اللہ بن سلام جس نے اسلام قبول لیا تھا کہتا ہے: میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے بیٹے سے زیادہ پہچانتا ہوں۔(تفسير نمونه، ج1، ص 499)
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بتایا گیا ہے کہ تعصب ہی حق سے انکار کا اصلی سبب ہے ۔ ہم ذیل میں اس بارے میں چند آیات کی تلاوت کرتے ہیں:
وَ قالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَ قالَتِ النَّصارى الْمَسيحُ ابْنُ اللَّهِ ذلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْواهِهِمْ يُضاهِؤُنَ قَوْلَ الَّذينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (توبه،30)
اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں ان لوگوں کی باتوں کے مشابہ ہیں جو ان سے پہلے کافر ہوچکے ہیں، اللہ انہیں غارت کرے، یہ کدھر بہکتے پھرتے ہیں؟
سورہ اعراف میں فرماتا ہے:
قالُوا أَ جِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَ نَذَرَ ما كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتِنا بِما تَعِدُنا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقينَ (اعراف،70)
انہوں نے کہا : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کریں اور جن کی ہماری باپ دادا پرستش کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں؟ پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے لیے وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو.
سورہ یونس میں یوں آیا ہے :
قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا عَمَّا وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا وَ تَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِياءُ فِي الْأَرْضِ وَ ما نَحْنُ لَكُما بِمُؤْمِنينَ (يونس، 78)
وہ کہنے لگے: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس راستے سے پھیر دو جس پرہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ملک میں تم دونوں کی بالادستی قائم ہو جائے؟ اور ہم تو تم دونوں کی بات ماننے والے نہیں ہیں۔
سورہ رعدہ میں فرماتا ہے:
وَ الَّذِينَ ءَاتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَ مِنَ الْأَحْزَابِ مَن يُنكِرُ بَعْضَهُ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَ لَا أُشْرِكَ بِهِ إِلَيْهِ أَدْعُواْ وَ إِلَيْهِ مَابِ(رعد، 36)
اور جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ آپ کی طرف نازل ہونے والی کتاب سے خوش ہیں اور بعض فرقے ایسے ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے، کہدیجئے: مجھے تو صرف یہ حکم ملا ہے کہ میں اللہ کی بندگی کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں، میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوںاوراسی کی طرف مجھے رجوع کرناہے.
2. تکبر
اہل کتاب منطقی بات کو ماننے والے نہ تھے اور اپنی کتاب میں موجود احکام کو پس پشت ڈال دیتے تھے۔ اگر ان سے پوچھا جاتا کہ تمہارے اس کام کی دلیل کیاہے تو وہ نسلی تعصب کو دلیل بتاتے تھے ۔(تفسير نمونه، ج2، ص: 485) لہٰذا دینی اور قومی تعصب حق کو سمجھنے سے رکاوٹ اور انسان کے اندر غرور پیدا ہونے کا سبب ہے ۔ ایسے تعصب کے متعلق قرآن کریم یوں ارشاد فرماتا ہے:
أَ لَمْ تَرَ إِلىَ الَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلىَ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلىَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَ هُم مُّعْرِضُونَ * ذَالِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ وَ غَرَّهُمْ فىِ دِينِهِم مَّا كَانُواْ يَفْترَونَ (آل عمران،23، 24)
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیاہے انہیں کتاب خدا کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کج ادائی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتا ہے۔ ان کا یہ رویہ اس لیے ہے کہ وہ کہتے ہیں:جہنم کی آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو نہیں سکتی اور جو کچھ یہ بہتان تراشی کرتے رہے ہیں اس نے انہیں اپنے دین کے بارے میں دھوکے میں رکھا ہے۔
ایک اور مقام پر فرماتا ہے:
وَ قَالَتِ الْيَهُودُ وَ النَّصَارَى نَحنُ أَبْنَؤُاْ اللَّهِ وَ أَحِبَّؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم بَلْ أَنتُم بَشرَ مِّمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَ لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا وَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ(مائده، 18)
اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، کہدیجیے: پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے؟ بلکہ تم بھی اس کی مخلوقات میں سے بشر ہو، وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی حکومت ہے اور (سب کو)اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
۳۔ دینی رہنماؤں کے بارے غلو
آسمانی اور الہی ادیان سے انحراف کا ایک اہم اور اصلی سر چشمہ یہ ہے کہ لوگ اپنے دینی رہنماؤں کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں اور ان کو حد سے بڑھا دیتے ہیں ۔ ان کے ساتھ والہانہ محبت اور عقیدت کے نتیجے میں ایسی صورتحال پیش آتی ہے۔لہٰذا غلو کی وجہ سے یکتاپرستی کی بنیاد کھوکھلی ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام غلو اور غالیوں کےساتھ سختی سے پیش آتا ہے حتی کہ کفار سے بھی زیادہ غالیوں کی مذمت کی گئی ہے۔ (تفسير نمونه، ج4، ص: 221)
حضرت عیسی علیہ السلام کے بارےمیں عیسائیوں نے غلو کیا اور ان کو اللہ کا بیٹا بنا دیا۔ قرآن کریم نے ان کے باطل عقیدے پر خط بطلان کھینچا ہے ، ان کو غلو سے منع کیااور فرمایا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے نہیں بلکہ حضرت مریم سلام للہ علیہا کے بیٹے ہیں :
يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا في دينِكُمْ وَ لا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلاَّ الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسيحُ عيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَ كَلِمَتُهُ أَلْقاها إِلى مَرْيَمَ وَ رُوحٌ مِنْهُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَ رُسُلِهِ وَ لا تَقُولُوا ثَلاثَةٌ انْتَهُوا خَيْراً لَكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلهٌ واحِدٌ سُبْحانَهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ وَ كَفى بِاللَّهِ وَكيلاً (نساء، 171)
اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو،بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور اس کی طرف سے وہ ایک روح ہیں، لہٰذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہو کہ تین ہیں، اس سے باز آ جاؤ اس میں تمہاری بہتری ہے، یقینا اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، آسمانوں اور زمین میں موجود ساری چیزیں اسی کی ہیں اور کارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔
اس آیت کی روشنی میں عیسائیوں کے مندرجہ ذیل نظریات کو باطل قرار دیا گیا ہے:
۱۔ حضرت عیسی علیہ السلام ، اللہ کے نہیں بلکہ صرف حضرت مریم علیہا السلام کے فرزند ہیں۔
۲۔ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے فرزند نہیں بلکہ اس کے نبی ہیں۔
۳۔ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے فرزند نہیں بلکہ کلمۃ اللہ ہیں۔
۴۔ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے فرزند نہیں بلکہ روح اللہ ہیں۔
۴۔ فهم حق میں رکاوٹ
تعصب کبھی انسان کےلئے حق کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے جیساکہ یہودی تعصب اور قوم پرستی کی وجہ سے اپنے آپ کو سب سے بہتر قوم اور اللہ کے فرزند سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ ہم سے امتحان نہیں لے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سب سے پہلے ان کی قوم پرستی حق سمجھنے سے مانع بن گئی اور پھر حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ قرآن کریم میں اس بات کی طرف اشار ہ ہوا ہے کہ یہ قومی تعصب یہودیوں کی بے خبری اور حقائق سے نابلد رہنے کا سبب ہے:
وَ حَسِبُواْ أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُواْ وَ صَمُّواْ ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُواْ وَ صَمُّواْ كَثِيرٌ مِّنهْمْ وَ اللَّهُ بَصِيرُ بِمَا يَعْمَلُونَ(مائده،71)
اور ان کاخیال یہ تھا کہ ایسا کرنے سے کوئی فتنہ نہیں ہو گا اس لیے وہ اندھے اور بہرے ہو گئے پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی پھر ان میں اکثر اندھے اور بہرے ہو گئے اور اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔
قوم پرستی کی وجہ سے انسان کی آنکھوں اور کانوں پر پردے پڑ جاتے ہیں اور انسان حق کو دیکھنے اور سننے سے محروم ہوجاتے ہیں بلکہ اپنے افکار و نظریات پر ڈٹ جاتے ہیں۔
فَتَقَطَّعُواْ أَمْرَهُم بَيْنهَمْ زُبُرًا كلُ حِزْبِ بِمَا لَدَيهْمْ فَرِحُونَ. (مومنون، 53)
مگر لوگوں نے اپنے (دینی) معاملات میں تفرقہ ڈال کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اب ہر فرقہ اپنے پاس موجود (نظریات) پر خوش ہے۔
فیصلہ جات میں تعصب کی ممانعت
قرآنی دستور کے مطابق معاشرے میں عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے مخصوصا یتیموں اور بیویوں کے حق میں۔ پس ضروری ہے کہ اپنے فیصلہ جات میں تعصب اور قوم پرستی کو بالائے طاق رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔چنانچہ اللہ تعالی ، قرآن کریم میں اہل ایمان کو عدل و انصاف کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ وَ لَوْ عَلى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقيراً فَاللَّهُ أَوْلى بِهِما فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوى أَنْ تَعْدِلُوا وَ إِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبيراً (نساء،135)
اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہار ے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔
اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ حتی گواہی کے موارد میں قومی، لسانی، مذہبی تعصبات سے بالا تر ہو کر گواہی دی جائے اور گواہی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہونی چاہئے اگرچہ اپنے رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
۵۔ گناه کا سرچشمہ
قرآن کریم کی نگاہ میں تعصب اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کو گناہ اور فحشاء کا سرچشمہ کہا گیا ہے۔ تعصب رکھنےوالے لوگ جب برے اور قبیح افعال انجام دیتے تو کہتے ہیں کہ ہم اس لئے یہ کام کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے آباؤاجداد کو یہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔قرآن نے ان کی یوں نقشہ کشی کی ہے :
وَ إِذا فَعَلُوا فاحِشَةً قالُوا وَجَدْنا عَلَيْها آباءَنا(اعراف، 28)
اور جب یہ لوگ کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے۔
اس سے بالاتر یہ کہ کبھی نعوذ باللہ اپنی بے حیائی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف دے دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے :
وَ اللَّهُ أَمَرَنا بِها(اعراف، 28)
اور اللہ نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو واضح اور روشن جواب دیا ہے کہ برائی کا حکم دینا خدا کا کام نہیں بلکہ یہ شیطان کا کام ہے۔اللہ تو صرف نیکیوں اور اچھائیوں کا حکم دیتا ہے ۔ تم اللہ پر بہتان باندھتے ہو۔ اسی آیت میں فرماتا ہے:
قُلْ إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ (اعراف، 28)
کہدیجیے:اللہ یقینا بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تعصب جیسی مہلک بیماری سے نجات عطا فرمائے ۔