نہضت ِعاشورا کے پیغامات

ڈاکٹر محمد فرقان  گوہر

جامعہ المصطفی العالمیہ ایران 

 

خلاصہ

واقعہ کربلا   کاروان بشریت کے لیے عبرت کی داستان ہے۔ یہ  حریت و آزادی کی جدوجہد سکھاتی ہے۔ انسانی سماج کو اعلی انسانی اقدار کی خاطر ظلم سے ٹکرانے کا سبق دیتی ہے۔ان سب سے بڑھ کر  یکتا پرستی کا سبق دیتی ہے، جس کے تحت انسان  اپنے تمام اعمال کی سمت و سو کادرست تعین کرسکتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی اس جدوجہد میں شریک تمام کرداراور ان کا اس راستے میں اٹھایا جانے والا  ہر قدم خداوند متعال کی خوشنودی کی خاطر تھا اور یوں تحریک عاشورا خلوص نیت کی معراج ہے۔ 

حرف آغاز

محر م الحرام کا چاند جب افق عالم پر طلوع کرتا ہے تو   غم کے سیاہ بادل ہر شیعہ علی علیہ السلام کے دل پر چھا جاتے ہیں اور  اس  بے مثال  قربانی کی یاد میں کھو جاتے ہیں  جو عاشور کے روز میرے مولا و آقا نے کربلا کی سرزمیں پر خدا کے حضور پیش  کی۔ ساتھ ہی ساتھ میں یہ سوال بھی ہر حسینی کے دل میں اٹھتا ہے کہ عاشور ا ئے حسینی ہمارے لیے کیا پیغام لائی ہے؟ ہم نے اپنے مولا کی اس قربانی کو کیسے خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ اس تحریر ی  کاو ش میں سعی کی گئی  ہے کہ واقعات عاشورا سے  کچھ نمونے قارئین کی نذر کیے جائیں ، البتہ اختصار کے پیش نظر یہاں تین اہم پیغامات پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔

تحریر میں موجود دو  کلیدی الفاظ "عاشورا "اور" پیغام " کی تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے ۔ عاشورا سے مراد کیا روز عاشورا ہے ؟ کیا فقط دسویں محرم الحرام کا  دن ہی عاشور ہے ؟اگر زبان دانوں سے پوچھیں گے تو وہ تو ایسا ہی کہیں گے کہ ہاں۔ عاشور یعنی دسویں کا دن اور عاشوراے محرم یعنی محرم کی دسویں تاریخ۔لیکن  عقیدت کی زبان میں  عاشور ا کسی  دن کانام نہیں ہے  بلکہ عاشورا ایک  نشان  راہ ہے جو اہل حق کو حق پہ چلنے میں ہر دشواری سہنے کی ہمت دیتا ہے ۔

 عاشور ا فقط ایک لفظ نہیں بلکہ ایک تاریخی واقعیت ہے ۔عاشورا   فقط ایک جنگ کا نام بھی نہیں ہے بلکہ ایک نہضت و تحریک ہے جس کا ظاہری آغاز مدینہ سے ہوا اور شام میں جا کر ختم ہو گئی لیکن واقعیت کے اعتبار سے عاشورا ظلم کے خلاف جنگ کا وہ تسلسل ہے جو انبیائے الہی نے آغاز کیا اور آج بھی وہ جنگ جاری ہے اورتب تک  جاری رہے گی  جب تک  زمین میں عدل و انصاف کی فضا قائم نہیں ہو جاتی۔

  عاشورا فقط اک قربانی   نہیں بلکہ قربانیوں کی اعلی ترین منزل کا نام ہے ۔ عاشورا میں محض سجدے کا نہیں، بلکہ سجدے میں سرکٹانے کا پیغام بھی شامل ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ   عاشورا کو ایک خاص مکان و زمان میں اورچند افراد میں منحصر کرنا کوتاہ بینی ہے،اگرچہ ان افراد کی عظمتوں کے کیا  کہنے جو کربلا میں اس تحریک کا حصہ بنے ،لیکن عاشورا کی تحریک نے جو  فکر دی ہے وہ تاریخ کے ہر زندہ  دل انسان کے اندر تا  روز قیامت ظلم و ستم کے خلاف لڑنے کی تڑپ پیدا کرتی ہے ۔

پیغام سے کیا مراد ہے ؟کیا صرف منہ سے کہی ہوئی بات ہی پیغام کا درجہ رکھتی ہے یا نہیں ،بلکہ پیغام ایک عام اور وسیع  مفہوم رکھتا ہے ؟سادہ لفظوں میں کہوں کہ جب ہم پیغام عاشورا کی بات کرتے ہیں تو کیا صرف وہی باتیں پیغام کہلائیں گی کہ جو میرے مولاو آقا اور ان کے اہل بیت اور اصحاب  کی زبان مبارک سے ہم تک پہنچی ہیں یا نہ ؟بلکہ وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے ہمیں واقعہ عاشور سے سمجھ میں آتی ہیں۔

مثال کے طور پہ  ہم دیکھتے  ہیں کہ حربن یزید ریاحی  جو کل تک لشکر یزید ی کا ایک اہم کمانڈر تھا ،وہ عاشور کے دن اپنے لشکر کو چھوڑ کر لشکر حسین کا حصہ بن چکا ہے  یہ وہی حر ہے جو امام علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کو مجبور کر کے یہاں لایا ہے ،میرے مولا ٰ کا اسے معاف کردینا بھی ہمارے لیے یہ پیغام رکھتا ہے کہ انسان چاہے جتنا بھی گناہ گار ہو ،اسے خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ،اور اہل بیت پیامبر کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں ۔شہید مطہری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ وہ عظیم طاقت جو حر بن یزید کو کھینچ کر لائی وہ قوت جاذبہ تھی جو میرے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کے پاس تھی،[1]یہ حقیقت  اور سچائی کا چراغ تھا جو میرے مولا نے اس کے سینے میں جلایا ،جس سے اس کا دل  و ضمیر روشن ہو گیا اور حقیقت دیکھنےکے بعد وہ ایک دو راہے پر کھڑا ہو گیا جہاں ایک طرف دنیا ہے ،لذتیں ہیں ،عیش و نوش ہے ،مال و دولت و مقام و ثروت ہے دوسری طرف بھوک و پیاس کی شدت ہے ،بے سرو سامانی ہے لیکن اس کے باوجود حقیقت و سچائی ہے ،خداپرستی  اور آخرت ہے ۔یہاں پہ میرے مولا کی قوت جاذبہ نے حر کو اپنی طرف جذب کرلیا اور کل تک مادیت پسندی  کے جھنجھٹ میں پھنس کر  وہ جس فوج کا ساتھ دے رہا تھا آج اسی کے مقابل کھڑا ہو گیا ۔ وہ حقیقت تک پہنچ گیا تھا ۔اس کے سامنے مادی گری اور دنیا کی ظاہری زیبائی بے معنی سی ہوگئی تھی  اس لیے وہ اپنے تمام ظاہری مقامات سے منہ پھیر کر امام حق کے سامنے سر جھکا کر معافی کی امید لیے ہاتھ جوڑے کھڑا بس یہی سوچ رہا تھا کہ کس منہ سے وہ امام سے کہے کہ وہ اسے معاف کردیں ۔ کیونکہ آج غریب کربلا اسی کی وجہ سے ہی تودشمنوں کے نرغے میں  گھر چکا ہے ،ہمت کرکے کہ ہی دیا ھل لی من  توبہ "کیا میرے جیسے کے لیےبھی  توبہ کا امکان ہے ؟اب امام علیہ السلام تو رحمت الہی کا مظہر ہیں وہ کیسے کسی کو ناامید کر سکتے ہیں ۔فرمایا آو حر میرے پاس آو تم ہمارے مہمان ہو ۔تمہاری خاطر تواضع کرتے ہیں ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا تمہاری توبہ قبول نہ کرے  اور علی اکبر نے فرمایا کہ بنی ریاح کا حر یعنی آزاد شخص کتنا اچھا حر ہے ۔[2]

اس مثال کی روشنی میں ہم اس نتیجے پہ پہنچ سکتے ہیں کہ جب ہم پیغام عاشورا کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد فقظ ،زبانی و کلامی پیغام ہی نہیں بلکہ ان کی رفتار و کردار  سے ماخوذ مجموعی سیرت بھی عظیم پیغام کا درجہ رکھتی ہے، کیونکہ اس میں  ایسی باتیں نہفتہ ہیں جو انسانی زندگی کو سنوار سکتی ہیں ۔فقط سننے  والے کان اور دیکھنے کیلئے دل کی آنکھیں چاہییں ۔اس  وضاحت کے بعد  اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ عاشورا ہمیں کیا پیغام دیتی ہے ؟

پہلا پیغام :توحید محوری  

توحید محوری سے مراد یہ ہے کہ انسان  اپنی زندگی کے تمام تر  اعمال اور سرگرمیوں  کا مرکز صرف اور صرف خدا کی ذات کو قرار دے۔جب ہم عاشورا پر محض  تاریخی نقطہ نظر سے نگاہ ڈالیں تو تحریک عاشورا ،زمان و مکان کی قید میں محصور ایک واقعہ ہے، جو تاریخی و سیاسی علل و اسباب کی بنیاد پر60ھجری کو  امام کی  ہجرت سے شروع ہوتا ہےاور 61 ہجری10 محرم کو یہ مرحلہ اختتام پذیر ہوجاتا ہے، یا زیادہ سے زیادہ اسیران کربلا کی رہائی پر ختم ہوجاتا ہے۔جو بھی تاریخ کے دریچوں سے انسانوں کی سرگذشت کا تھوڑا بہت مطالعہ رکھتاہو، وہ یقینا اس نکتہ سے اتفاق  کرے گا کہ  تاریخ  بشریت، ظلم و ستم کی داستانوں سے بھری پڑی ہے  ۔مصر کے فرعونوں سے لے کر مغلستان کے بدتہذيب منگولوں تک تاریخ و سیاست  کا ہر ورق انسانوں کے خون سے رنگین ہو ا لیکن وقت کی دھول نے سب کو فراموشی کی نذر کردیا اور آج  فقط عجائب گھروں میں ان کے آثار ہی باقی رہ گئے ۔لیکن کربلا کی داستان زمان و مکان اور افراد کے اعتبار سے محدود ہونے کے باوجود اثر اندازی کے اعتبار سےجس وزن و قامت کے ساتھ کھڑی ہے، اس کی مثال ہمیں کہیں بھی نہیں ملتی ۔تاریخ نے آج بھی اسے ویسا ہی یاد رکھا ہوا ہے جیسا کہ 14 سو سال پہلے تھا ۔

اب کوئی پوچھے کہ دیگر تاریخی واقعات کا کربلا کی داستان سے کیا فر ق ہے ؟ایسا کیوں ہوا کہ وہ سب داستانیں فراموشی کی نذر ہوگئیں جبکہ اسے آج تک یاد رکھا گیا؟

 اس کی وجہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے اس واقعے کو تشکیل دیا او ر ان سب  میں مہم ترین عنصر توحید کا ہے ۔کربلا  کی داستان کا اصل حسن ہی یہی ہے کہ اس کا مرکزی نکتہ نگاہ خلوص نیت  اوریکسوئی کے ساتھ رضائے خداوندی کا حصول تھا۔آغاز  سے لے کر تک اس داستان کے ہر مرحلے پہ آپ کو خدائی رنگ نظر آئیں گے ۔

اگرچہ داستان کربلا کے ہر قدم پر آپ کو خدا محوری کی بے نظیر مثالیں ملیں گی جن کا شمار ہمارے بس سے باہر ہے ۔ہم فقط یہاں چند ایک  نمونے ذکر کیے دیتے ہیں ۔

  • مدینہ سے الوداع کے وقت امام حسین علیہ السلام کی دعا:

 امام حسین علیہ السلام  کو جب  یقین ہو گیا کہ مدینہ چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے   تو نانا  کی مزار اطہر پہ تشریف لائے اوردو رکعت نماز ادا کی،جب نماز سے فارغ ہوئے تو  ان کلمات میں خدا کے حضور دعا کی

اَللّهُمَّ اِنَّ هذا قَبْرُ نَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ صلّى اللّه عليه و آله وَاَنَا ابْنُ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَقَدْ حَضَرنى مِنَ اْلا مْرِ ما قَدْ عَلِمْتَ

اَللّهُمَّ اِنِّى اُحِبُّ الْمَعْرُوفَ وَاُنْكِرُ الْمُنْكَرَ واءساءلُكَ ياذَاالْجَلالِ وَالاْ كْرامِ بِحَقِّ الْقَبْرِ وَمَنْ فِيهِ اِلاّ اخْتَرْتَ لى ما هُو لَكَ رِضىً وَلِرَسُولِكَ رِضىً [3]

اے اللہ یہ تیرے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ کی قبر مبارک ہے اور میں تیرے نبی کی بیٹی کا بیٹا ہوں اور میرے ساتھ جو کچھ پیش آیا ہے وہ  تو جانتا ہے ،اے اللہ بیشک میں نیکی کو دوست رکھتا ہوں اور برائی سے نفرت کرتا ہوں اور اے  جلال و عظمت والی  ذات  اس قبر مبارک اور صاحب قبر کے حق کا واسطہ دے کر ،تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تومیرے لیے وہی  فیصلہ کر جس میں تیری اور تیرے رسول کی رضامندی اور خوشنودی ہو۔

  • دوسری طرف  جب آن حضرت کربلا پہنچے اور ابن زیاد کا دھمکی آمیز خط دریافت کیا تو اسے زمین پہ پٹخ  دیا اور  فرمایا :

َ لَا أَفْلَحَ قَوْمٌ اشْتَرَوْا مَرْضَاةَ الْمَخْلُوقِ بِسَخَطِ الْخَالِقِ [4]

فلاح کا راستہ نہیں دیکھ پائے گی وہ قوم جس نے مخلوق کو راضی کرنے میں خالق کی ناراضگی خرید لی ۔یہ  جملہ بتلا رہا ہے کہ کربلا اس کے برعکس عمل کا نام ہے۔ وہاں خالق کی   رضامندی اصلی حیثیت رکھتی ہے اور باقی چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔

  • تیروں کے سائے میں نماز

عمر و ابن کعب کو جو ابو ثمامہ صائدی کے نام سے معروف ہے،امام کے اصحاب میں سے ہے جب  زوال کے وقت آکر ا  امام کی خدمت میں نماز ظہر  پڑھنے کا کہا ؛تو امام علیہ السلام اسے دعا کرتے ہیں کہ اے ابوثمامہ :خداوند تجھے نمازیوں میں سے قرار دے ۔[5]

اور پھر نماز جماعت کی صفیں مرتب ہوگئیں اور تیروں کے سائے میں خدائی فوج نے نماز عشق ادا کی ۔

  • ایک تیر جس نے جنگ ختم کردی

عاشورا کی صبح سب سے پہلا تیر عمر ابن سعد نے پھینکا اور پھینک کر کہنے لگا کہ امیر یعنی ابن زیاد علیھما اللعنہ  ،کے سامنے یہ گواہی ضرور دینا کہ حسین علیہ السلام کی طرف سب سے پہلا تیر انداز جس نے امام حسین علیہ السلام کی طرف تیر پھینکا میں تھا ۔[6]اس تیر سے جنگ کا آغاز ہوا اور یہ جنگ پھر ایک ہی تیرپہ ختم ہوئی جب میرے مولا حسین تنہا رہ گئے ،گھوڑے پہ سوار تھے ،زخموں کی شدت سے خستہ حال تھے کہ ایک تیر آتا ہے اور آنحضرت کے سینے میں پیوست ہوجاتا ہے اور آپ ذوالجناح سے زمین پہ آتے ہیں اور اسی حالت میں فرما تے ہیں:

رضا بقضائك و تسليما لامرك ، لا معبود سواك ، يا غياث المستغيثين

بار الہا:میں تیری ہی رضا پہ راضی ہوں اور تیرے حکم کے سامنے سراپا تسلیم ہوں ،تیرے سوا کوئی لائق پرستش نہیں ،اے فریاد کرنے والوں کے فریاد رس۔[7]

ان مثالوں کو دیکھنے کے بعد اس نتیجہ پہ پہنچنا کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ کربلا کی تحریک  للہیت کے جذبات سے لبریز تھی ۔ امام حسین علیہ السلام اپنے سفر کے آغاز سے ہی دعا مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ میرے لیے اس راستے کا انتخاب فرما جس میں تیر ی رضایت اور خوشنودی ہواور جب اپنے جان نثاروں کو قربان کرکے خود درگاہ الہی میں پیش ہو رہے تھے تب بھی خداوند متعال کی رضا پر رضامندی کا اظہارکیا ۔

یہی توحید محوری اور محبت الہی کا وہ درس  ہے ، جونہضت عاشورا نے اور بالخصوص اما م حسین علیہ السلام نے امت اسلامی کو دیا ۔

اولین اور اہم ترین  درس جو کربلا سے ہم کو لینا ہے وہ ہے ہی یہی کہ اپنی زندگی کی تمام تر فعالیتوں  activitiesاور کوششوں کا محور اور مرکز خدا کی ذات کو قرار دیں ۔چاہے وہ فردی زندگی سے مربوط ہو ں یا اجتماعی زندگی سے ،چاہے وہ مذہبی خدمات  ہوں یا معیشتی یا سیاسی یا پھر سماجی ۔سب میں محوریت اور مرکزیت خدا کی ذات کو قرار دینی چاہیے۔یہ کربلا کے ہر شہید کا پیغام ہے ۔اورجو لوگ ایسا کرلینے میں کامیاب ہوجائیں  انکے حوصلے اسقدر بلند ہو جاتے ہیں کہ ظلم کے اونچے اونچے پہاڑ بھی سامنے آ جائیں تب بھی ٹکرا جاتے ہیں   ۔

دوسراپیغام: حریت و آزادی

دوسرا اہم ترین پیام جو نہضت عاشورا نے دیاہے وہ ہے حریت اور آزادی کا پیغام ۔قانون کی زبان میں آزادی کی اصطلاح  غلامی کے مقابلے میں استعمال ہوتی ہے کہ جو آج کے زمانے میں اپنا مفہوم کھو چکی ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر آزادی اور حریت کا ایک اور مفہوم بھی ہے  جس سے مرادیہ ہے کہ انسان پستیوں سے نجات حاصل کرے اور اپنی انسانیت کی بلندی کی حفاظت کرے۔داستان کربلا  ہمیں اسی آزادی کا پیغام دیتی ہے اوریہ پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلئے ہے چونکہ حریت ایک مقبول اور پسندیدہ صفت ہے  جس کا مفھوم یہ ہے کہ  انسان کسی بھی  دین یا  مذہب  سے تعلق رکھتا ہو اسے  تقدس انسانیت کو پامال کرنے کا حق نہیں، کیونکہ اس کے اپنے ضمیر اور شعور کی آواز اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتی  کہ وہ کسی  بھی ظالم ،جابر اور طاغوت کے آگے سر جھکائے اور اپنی انسانیت کا سودا کرے۔

عصر حاضر کا انسان جوطرح طرح سے قید و بند کا شکار ہو چکاہے وہ کربلا سے یہ درس لے سکتا ہے کہ انسانوں کو اللہ نے آزاد خلق کیا ہے اور اگر دین و مذہب کے پابند نہ بھی بنو تو  بھی کم از کم اپنی انسانیت کو تو محفوظ رکھو اور آپ جیسی یا اپنے سے  بھی پست اور گھٹیا مخلوق کی غلامی تو قبول نہ کرو۔

قرآن کریم کے مطابق ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے اہداف میں سے ایک ہدف لوگوں کو جاہلیت اور غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانا ہے،جیسا کہ سورہ اعراف میں ہے :

وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ[8]

ترجمہ :اور وہ رسول ان لوگوں سے سنگین بوجھ اورگلے کے طوق اتار دیتا ہے ۔

یہاں پہ کونسا بوجھ ہے اور کونسے طوق ہیں جن سے پیامبر گرامی ص نے آکر چھٹکارا دینا  ہے؟ یقینا یہ تعصب، نابرابری، نادانی اور جاہلیت کے طوق ہیں جن میں انسانیت گرفتار تھی اور پیامبر نے انہیں آکر چھٹکارا دیا۔اور۶۱ ہجری یعنی پیغمبر کی ہجرت کے ۶۰ سال بعد اُسی رسول ص کے نواسے نے جب  لوگوں کو ایک بار پھر انہی جاہلیت کی زنجیروں میں جکڑے دیکھا  تو رہا نہ گیا اور اپنے نانے کا پیغام ان الفاظ میں لوگوں کے کانوں تک پہنچایا:

ويلكم يا شيعة آل أبي سفيان ! إن لم يكن لكم دين، وكنتم لا تخافون المعاد، فكونوا أحرارا في دنياكم[9]

افسوس ہے تم پہ اے  یزید کے مددگارو،اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور آخرت کا بھی تمہیں کوئی ڈر نہیں تو کم از کم دنیا میں تو آزاد رہو۔

آج کی دنیاجدید سرمایہ دارانہ ذہنیت  کی زنجیروں میں جکڑی جا چکی ہے اور جدت کے نام پہ وہ دنیا کے بڑے بڑے شیطانوں کی غلام ہو چکی ہے ۔یہی سبب ہے ان کی بات کو بغیر کسی منطق و دلیل کے قبول کر لیا جاتا ہے ۔اسی لیے امام حسین علیہ السلام کے مذکورہ بالا کلمات کو آج کی دنیا کے جدت پسند لوگوں کو آج کی زبان میں اس طرح مخاطب کیا جاسکتا ہے کہ اے دین داری کو زحمت اور قید سمجھنے والو،اگر تمہیں آزاد ہی رہنا ہے تو اپنی افکار کو آزاد چھوڑ دو اور امریکہ اور دنیائے غرب کی غلامی کے طوق و زنجیر اپنے گلے سے اتار پھینکو۔

تاریخ انسانیت،انسانوں کے استحصال اور ان کی غلامیوں سے بھری پڑی ہے ۔لیکن جو غلامی آج کی دنیا میں ہے اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی ۔اس لیے کہ آج کی غلامی افکار  و نظریات اور ثقافت  و سیاست کی غلامی ہے ۔

آج  ہم فقط وہی سوچتے ہیں جو دنیا کے بڑے شیاطین چاہتے ہیں کہ ہم سوچیں ۔فقط انہی چیزوں کو دیکھتے ہیں جو امریکہ و دنیائے غرب ہمیں دکھلانا چاہتی ہے ۔ہم نے اپنی آنکھوں پہ انہی کی دی ہوئی عینکیں لگا رکھی ہیں ۔بہت بڑی  غلطی ہے کہ مغربی دنیا آج آزادی فکر کی قائل ہے ۔ ہاں آزادی بیان کا نعرہ اور پاسداری کسی حد تک ہے، لیکن فکری آزادی ایک الگ حقیقت ہے۔ ان کی سوچ کے مطابق معقولیت کا معیار صرف غرب ہے اور یوں ان کی خواہش ہے کہ  پوری دنیا انہی کی طرح سوچے ،پوری دنیا انہی کی فکر کو پڑھ کر اپنی فکر بنائے  ۔آزادی کی تعریف اور حدود و قیود کا تعین خود مغربی دنیا کرتی ہے اور وہ اپنے میڈیا کے پھیلائے ہوئے جال سے جسے چاہیں اس آزادی کی ٹرین سے پیادہ  کر دیتے ہیں۔ البتہ افسوس تو مشرق زمیں کے ان مغرب زدہ باشندوں پر ہے جنہوں نے مغربی افکار ورفتار کو رواج دینے کی قسم کھا رکھی ہے اور وہ بھی اسلام زدائی میں انہی کےآلہ کار  بن گئے ہیں ۔ایسے سب لوگوں کے لیے سالار شہیدان کا یہی پیغام ہے کہ اگر تمہاری نظر میں دین نام کی چیز کسی اہمیت کی حامل نہیں اور روز قیامت کا بھی تمہیں کوئی ڈر نہیں تو کم از کم اس دنیا میں تو آزادی کو اپنا شیوہ زندگی بناو  اور فکری آزادی کے ساتھ حقائق کو دیکھو اور محسوس کرو۔

تیسرا پیغام : اعلی انسانی اقدار کی جدوجہد

آج ہم سب مادیت کے نشے میں گم سم دنیا کی چند روزہ زندگی کو اپنا ہدف سمجھ بیٹھے ہیں اور  مادیت کی تیزرفتار میں انسانیت کو داو پر لگا چکے ہیں۔ مال و دولت یا مقام و کرسی کواپنی حقیقی کامیابی  سمجھتے ہیں ۔ کربلا ہمیں ریاست و اقتدار کے بجائے اعلی انسانی اقدار کی خاطر جدوجہد کرنا سکھاتی ہے۔ عدل و انصاف، مساوات اور انسانی کرامت  جیسے اقدار جن کو یزید  و ابن زیاد جیسے  بدکردار حکمرانوں نے مسخ کر دیا تھا۔

اگر قرآن پر نظر ڈالیں تو وہ تاریخ بشریت سے مختلف نمونے ہمارے سامنے لاکر رکھ دیتاہے تاکہ ہم اس حقیقت کو واضح انداز میں سمجھ سکیں ،کبھی فرعوں مصر کی مثال ، کبھی قارون کی مثال ،کبھی نمرود کی  تو کبھی ہامان و شداد کی ،وہ جن کی زیب و زینت ،شان و شوکت پہ دنیا رشک کرتی نظر آتی تھی لیکن زمانے کی چکی میں پس کر سب کے سب درس عبرت بن گئے ۔یہ سب مثالیں اس حقیقت کو بخوبی عیاں کرتی ہیں کہ  استضعاف و استکبار کا تسلسل بقا نہیں رکھتا،  یہ  فرعونوں کا شیوہ ہے کہ جن کا انجام خاک میں مل جانے کے سوا اور کچھ نہیں اس کے مقابلے میں انبیاء اور پاکیزہ کردار و اعلی ظرف لوگ ہیں کہ جو اپنے اصولوں اور سچے کردار کی بنیاد پر  دنیا کے تمام فرعونوں کے سامنے سربلند نظر آتے ہیں ۔ان دونوں کے انجام میں جو بنیادی فرق ہے وہ صاحبان بصیرت کےلیے درس  زندگی ہے۔

کربلا کی داستان بھی انہی دو قسم کے انسانوں کے آمنا سامناکرنے کی ایک مثال ہے جہان ایک طرف زمانے کا فرعون ،یزید کی شکل میں جبکہ دوسری طرف زمانے کا موسی علیہ السلام میرے مولا حسین علیہ السلام ک شکل میں آمنے سامنے ہیں ۔ جہاں ظاہری اعتبار سے دنیا کے تمام مادی وسائل  لشکر یزید کےپاس ہیں اور ظاہری فتح بھی اسی کا مقدر بنتی ہےاور چند روز وہ اس خوشی میں مست بھی رہتا ہےلیکن کب تک ؟کب تک خوش رہتا ؟ بالکل دیگر فرعونوں کی طرح اس کا انجام بھی پوری دنیا نے دیکھا ۔لیکن اس کے مقابلے میں لشکر حسینی کو دیکھو جو ظاہری اعتبار سے شکست کھانے کے باوجود آج بھی سر بلند ہے ۔ صرف اس لیے کہ ان کا ہدف اعلی انسانی اقدار اور حیات جاوداں تھی۔ ان کا مقصدخدا اور دین خدا تھا ۔ان کا ہدف بلند تھا ،اور جب ہدف بلند ہو تو کارنامہ زندگی خود بخود بلند ہوجاتا ہے ۔

آج ہم کربلا کی اس عظیم تربیت گاہ سے اگر فائدہ اٹھانا  چاہتے ہیں، ا گر ہم چاہتے ہیں کہ کربلا والوں کے رنگ میں رنگے جائیں تو اپنے اپنے گریبان میں جھانک کردیکھیں کہ کیا ہم اسی طرح بیدار ہیں جس طرح لشکر حسینی کا ہر پیر و جواں بیدار تھا ؟ ہماری افکار و اطوار و اقدار   مائل بہ پستی ہیں یا بلندی؟ ہم اپنے معاشرے کو ارتقائی شعور دینے کے لیے کچھ  کر پا رہے ہیں یا نہیں۔

مصادر و مآخذ:

قرآن کریم

ابو مخنف كوفى، لوط بن يحيى، وقعة الطفّ، 1جلد، جامعه مدرسين - ايران ؛ قم، چاپ: سوم، 1417 ق.

ابن طاووس، على بن موسى، اللهوف على قتلى الطفوف / ترجمه فهرى، 1جلد، جهان - تهران، چاپ: اول، 1348ش.

حسينى موسوى، محمد بن أبي طالب، تسلية المُجالس و زينة المَجالس (مقتل الحسين عليه السلام)، مؤسسة المعارف الإسلامية - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1418 ق.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار (ط - بيروت)، 111جلد، دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

شہید مرتضی مطہری، حماسہ حسینی۔

 

 


[1] ۔ حماسہ حسینی ج ۱ ص ۱۰۸  

[2] علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص14۔

[3] ۔ تسلیۃ المجالس و زنینۃ المجالس، ج2، ص155۔ بحارالانوار ج ۴۴ ص۳۲۸  ۔

[4] ۔ بحارالأنوار  ج   44   ص  382    باب 37۔

[5] ابو مخنف ، وقعۃ الطف، ص229۔

[6] ابو مخنف ، وقعۃ الطف، ص217۔

[7] ۔ اقتباس از حماسہ حسینی ج ۱ ص ۱۵۳   ۔

[8] ۔ اعراف آیہ ۱۵۷ 

[9] ۔ سید ابن طاوس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ص120۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار ج ۴۵  ص ۵۱  ۔