اہل سنت کے آئمہ، فقہاء اور علماء امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی میں

 

ساجد محمود

کارشناسی ارشد (رشتہ تفسیر)

Sajjidali3512@gmail.com

نسب

 حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چھٹے جانشین اور سلسلہ عصمت کی آٹھویں کڑی  ہیں آپ کے والد ماجد امام محمدباقر علیہ السلام تھے۔ آپ منصوص من اللہ معصوم تھے،علامہ ابن خلقان تحریر فرماتے ہیں کہ آپ سادات اہل بیت علیہم  السلام سے تھے اورآپ کی فضیلت اور آپ کا فضل و کرم بیان کا  محتاج  نہیں ہے۔[1]

والدہ

 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی والدہ جناب ام فروة بنت قاسم بن محمد بن ابو بكر ہیں اور جناب ام فروۃ بنت قاسم کی والدہ اسماء بنت عبد الرحمن بن ابو بكر ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک فرمان میں بھی اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ جس میں امام فرماتے ہیں: ولدني أبو بكر مرتين۔

ولادت

آپ 17 ربیع الاول 83 ھ مطابق 702ء   مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کی ولادت تاریخ کو خدا نے بڑی عزت دے رکھی ہے ایک احادیث میں ہے کہ اس تاریخ کو روزہ رکھنا ایک سال کے روزہ کے برابر ہے ۔امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ میرا فرزند ان چند مخصوص افراد میں سے ہے جن کے وجود سے خدا نے بندوں پر احسان فرمایا ہے اور یہی میرے بعد میرا جانشین ہو گا۔

 اسم گرامی ، کنیت اور القاب

آپ علیہ السلام کا اسم گرامی جعفر ۔ آپ کی کنیت عبد اللہ ،ابو اسماعیل ، اور آپ کے القاب صادق، صابر ،فاضل ، طاہر وغیرہ ہیں ۔علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی ظاہری زندگی میں حضرت جعفر بن محمد علیہ السلام کو صادق کے لقب سے ملقب فرمایا تھا ۔

علما ء لکھتے ہیں کہ جعفر  جنت میں ایک شیریں نہر کا نام ہے اسی کی مناسبت سےآپ کا لقب جعفر رکھا گیا ہے ،کیونکہ آپ کا فیض عام جاری نہر کی طرح تھا لہذا اسی لقب سے ملقب ہوئے ۔[2]

اولاد

 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی اولاد کی تعداد دس ہے کہ جن میں سے سات بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں کہ جن کے نام درج ذیل ہیں:

1: اسماعيل، 2: عبداللہ، 3:أسماء کہ جن کی کنیت ام فروة ہے۔ان کی والدہ جناب فاطمہ بنت حسين بن علی بن حسين ہیں۔

4: امام موسى كاظم علیہ السلام ، 5: محمد کہ جو( ديباج)کے نام سے معروف ہیں۔ 6: اسحاق، 7:فاطمہ كبرىٰ۔ان کی والدہ جناب حميدہ بربريہ ہیں۔

8: عباس،9:علی، 10: فاطمہ صغرىٰ۔یہ مختلف ماؤں کے بطن سے ہیں۔

بادشاہان وقت

آپ کی ولادت کے وقت عبد الملک بن مروان بادشاہ وقت تھا پھر ولید، سلیمان ،عمربن عبد العزیز بن عبد الملک ،ہشام بن عبدالملک ،ولید بن یزید بن عبد الملک ،یزید الناقص ،ابراہیم بن ولید اور مروان الحمار اسی ترتیب سے خلیفہ مقرر ہوئے مروان الحمار کےبعد سلطنت بنی امیہ کا چراغ گل ہوگیا اور بنی عباس نے حکومت پہ قبضہ کرلیا ۔بنی عباس کا پہلا بادشاہ ابو العباس ،سفاح اور دوسرا منصور دوانقی ہوا ہے ۔ اسی منصورنے اپنی حکومت کے دوسال گزرنے کہ بعد امام جعفر صادق علیہ السلام کو زہرسے شہیدکردیا۔[3]

علمی سرگرمیاں

امام صادق علیہ السلام کے دور امامت میں بنی امیہ اپنی اقتدار اور بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف تھی اسی بنا پر لوگوں خاص کر شیعوں کو کسی حد تک مذہبی آزادی نصیب ہوئی جس سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے امام علیہ السلام نے نے مختلف موضوعات پر علمی اور عقیدتی مباحث کا سلسلہ شروع فرمایا۔ اس علمی اور مذہبی آزادی جو آپ سے پہلے والے اماموں کو کمتر نصیب ہوئی تھی کی وجہ سے علم  کے متلاشی آپ کے علمی جلسات اور محافل میں آزادی سے شرکت کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ، کلام اور دیگر مختلف موضوعات پر آپ سے بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں۔[4]

ایک سوال اور اس کا جواب

بسا اوقات بعض افراد کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم معصومین علیہم السلام کے فضائل بیان کرتے ہیں تو اس میں علم کی نشر و اشاعت کے بارے میں فقط امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام کا اسم مبارک دیکھنے کو ملتا ہے؟ باقی آئمہ علیہم السلام نے علمی ترقی اور علوم آل محمد کی نشر و اشاعت کے لیے اقدامات کیوں نہیں کئے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم معصومین علیہم السلام کے فضائل و مناقب کو بیان کرتے ہیں تو جو فضائل و مناقب اور صفات جمیلہ و حمیدہ ایک معصوم علیہ السلام کے لیے بیان کرتے ہیں وہ دوسرے کے لیے نہیں کرتے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صفات اور مناقب دوسرے آئمہ علیہم السلام  میں نہیں پائے جاتے ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ تمام آئمہ علیہم السلام ایک ہی طرح کے فضائل اور صفات جمیلہ و حميدہ کے مالک ہیں جو صفات ایک معصوم علیہ السلام میں پائی جاتی ہیں وہی صفات تمام میں پائی جاتی ہیں کیونکہ تمام نور واحد ہیں اور معصومین علیہم السلام  میں سے ہر معصوم علیہ السلام اپنے زمانے کے تمام افراد سے کمال اور فضائل کے اعتبار سے افضل و اکمل ہوتے ہیں، لیکن ہر معصوم علیہ السلام کے زمانے کے حالات اور تقاضے دوسرے معصوم علیہ السلام سے فرق کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر معصوم علیہ السلام سے ظاہر ہونے والی صفات اور کمالات دوسرے معصوم علیہ السلام سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر معصوم علیہ السلام نے اپنے زمانے میں جو موقف اختیار کیا ہے اور جس روش کو اپنایا وہ دوسرے معصوم علیہ السلام مختلف ہوتا ہے مثلاً حضرت علی علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام سے شجاعت کا ظہور باقی معصومین علیہم السلام سے ظاہر ہونے والی شجاعت کی طرح نہیں ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں مشرکین و کفار اور اپنی ظاہری خلافت کے زمانے میں باغیوں اور فتنہ گروں کے خلاف مختلف جنگوں میں اپنی شجاعت  اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں  ایک الگ انداز سے اپنی شجاعت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جبکہ باقی معصومین علیہم السلام بھی اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے شجاع اور بہادر تھے لیکن اس کے باوجود ان کے بارے میں کسی جنگ میں شجاعت کا مظاہرہ کرنے کا کوئی واقعہ تاریخ میں نہیں ملتا کیونکہ باقی آئمہ علیہم السلام اپنے زمانے کے حالات اور تقاضوں کے مطابق صبر اور جنگ نہ کرنے کا راستہ اختیار کرنے پر مامور تھے۔

لہذا امام باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس طرح مختلف علوم کو دنیا میں پھیلایا اور ان کی نشر و اشاعت کے بارے میں اقدامات کئے اس طرح باقی آئمہ علیہم السلام نے نہیں کیا کیونکہ ان دونوں ذوات مقدسہ کو ایک ظالم حکومت کے اختتام اور دوسری حکومت کی ابتداء میں کچھ عرصہ فراہم ہوا جس میں ہر دو ظالم حکومتیں اپنے مسائل میں الجھی ہوئی تھیں لہذا امام باقر علیہ السلام‌ اور امام صادق علیہ السلام نے اس فرصت سے فائدہ اٹھایا اور علوم آل محمد کی نشر و اشاعت کے لیے بھر پور کوشش کی اور مختلف اقدامات کئے، جبکہ دوسرے آئمہ علیہم السلام نے اپنے زمانے کے تمام افراد سے زیادہ علم رکھنے کے باوجود ایسا نہیں کیا کیونکہ انہیں کوئی ایسا  موقع فراہم نہیں ہوا جو ان دو ذوات مقدسہ کو ہوا ہے اسی لیے وہ علوم آل محمد کی نشر و اشاعت کے لیے اس طرح اقدام نہیں کر پائے۔

شاگردان

اس میں کوئی شک نہیں کہ خداوند متعال نے اہل بیت علیہم السلام کو بے مثال علوم اور معارف  سے نوازا  ہے ۔معصوم امام، رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جانشین ہیں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد امت کے ہادی ہیں۔ جس طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خداوند متعال نے علوم اور معارف عطا فرمائے اور ان علوم اور معارف کو سیکھنے میں وہ کسی استاد کے محتاج نہیں تھے اسی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے جا نشینوں کے پاس بھی خدائی علم ہے اور وہ اس علم کو سیکھنے میں کسی استاد کے محتاج نہیں ہیں، لہذا تاریخ میں یہ ثابت کرنا        ناممکن ہے کہ کوئی بشر معصومین علیہم السلام کے پاس اپنا علمی مسئلہ لے کر آیا ہو اور انہوں نے اس کی علمی مشکل حل نہ کی ہو بلکہ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو بڑے بڑے افراد یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ :لَوْ لاَ عَلِی لَھَلَکَ فَلَان...

اب ہم اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ تاریخ میں کن کن افراد نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے زانوئے ادب طے کیا اور سالہا سال امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد رہے۔ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کے مختلف علاقوں سے تقریباً چار ہزار افراد امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کسب فیض کیا یہاں تک کہ بعض حضرات امام جعفر صادق علیہ السلام کے مخالفین کے پیشوا تھے لیکن ان کے پاس جو کچھ تھا سب امام جعفر صادق علیہ السلام کا عطا کردہ تھا۔ شیخ طوسی اپنی رجال میں  3200 روایوں کا نام لیتے ہیں جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایات نقل کی ہیں۔[5] شيخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں آپ کے راویوں کی تعداد 4000 نقل کرتے ہیں۔[6]  اب  ہم  امام جعفر صادق علیہ السلام کے چار ہزار شاگردوں میں سے فقط  چند  مشہور  شاگردوں کا مختصر  تعارف کرواتے ہیں ۔ البتہ ان چار ہزار افراد میں شیعہ بھی ہیں اور سنی بھی ہیں، اس مختصر تحقیق میں فقط اہل سنت کے آئمہ، فقہاء اور علماء کا ذکر کریں گے کہ جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے زانوئے ادب طے کیا  ۔

اہل سنت کے آئمہ، فقہاء اور علماء کہ جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فيض کیا:

1۔ ابو حنیفہ

نعمان بن زوطی المعروف اہل کابل اور کوفہ میں پیدا ہوا، کوفہ میں ہی بڑا ہوا، بعد میں بغداد منتقل ہو گیا اور 150 ہجری میں فوت ہوا. وہ حنفی گروہ کا پیشوا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا اور اس بات کو اہل سنت کے معتبر علماء نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ آلوسی اہل سنت کے مشہور علماء میں سے ہیں وہ اپنی کتاب مختصر تحفۃ الاثنی عشریہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :وهذا أبو حنيفة - رضي الله تعالى عنه - وهو بين أهل السنة كان يفتخر ويقول بأفصح لسان: لولا السنتان لهلك النعمان، يريد السنتين اللتين صحب فيهما لأخذ العلم الإمام جعفر الصادق - رضي الله تعالى عنه -. وقد قال غير واحد أنه أخذ العلم والطريقة من هذا ومن أبيه الإمام محمد الباقر ومن عمه زيد بن علي بن الحسين - رضي الله تعالى عنهم؛ یہ ابو حنیفہ ہیں در حالیکہ اہل سنت کے درمیان،ہمیشہ( امام صادق علیہ السلام کی شاگردی پر) فخر کرتے تھے اورفصیح زبان میں کہتے تھے: اگردو سال (امام صادق علیہ السلام کی شاگردی کے) نہ ہوتے تو نعمان ( یعنی میں ابو حنیفہ) ہلاک ہو جاتا ۔ ابوحنیفہ کی دو سال سے مراد وہ دو سال ہیں کہ جس میں انہوں نے امام صادق (علیہ السلام) سے کسب علم کیا، اور بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نے علم و طریقت، ان (یعنی امام صادق علیہ السلام) سےاوران کے پدربزرگوار امام محمد باقر (علیہ السلام) اوران کےعم،زید بن علی بن الحسین علیہم السلام   سےحاصل کیا ہے۔[7]

اور اسی شاگردی کی وجہ سے ابوحنیفہ خود اعتراف کرتا ہے : مَا رَأيتُ أفقهَ مِن جَعفَرِ بنِ مُحَمَّد ؛ میں نے جعفر بن محمد سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا۔[8]

اس کے باوجود ابو حنیفہ اس کوشش میں تھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی مخالفت کرے اور کسی علمی مسئلہ میں انہیں شکست دے وہ خود کہتا ہے : جب منصور دوانیقی نے جعفر بن محمد کو حاضر کیا تو مجھے بھی بلایا اور کہا : لوگ جعفر بن محمد کے گرویدہ ہو گئے ہیں اس کو شکست دینے کے لیے مشکل سوال تیار کر، میں نے چالیس مشکل سوال تیار کیے. ایک دن منصور نے مجھے بلایا جب  مجلس میں داخل ہوا تو اچانک میری نگاہ جعفر بن محمد پر پڑی، دیکھا کہ وہ منصور کے دائیں جانب بیٹھے ہیں، جب میں نے انہیں دیکھا تو مجھ پر  ان کی ہیبت اور عظمت کا ایسا رعب  طاری ہوا کہ جب منصور نے میری یہ حالت دیکھی تو مجھے سے سلام نہیں لیا۔ میں نے سلام کیا اور منصور کے اشارے سے بیٹھ گیا۔منصور نے اپنا رخ امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف کیا اور کہا :یہ ابو حنیفہ ہے، انہوں نے فرمایا : اسے جانتا ہوں، پھر منصور نے اپنا رخ میری طرف کیا اور کہا : اے ابو حنیفہ اپنے سوال جعفر بن محمد کے سامنے بیان کر۔ اس کے بعد میں نے سوال کرنا  شروع کئے جو سوال کرتا تھا اس کا جواب  دیتے کہ اس کے بارے میں تیرا عقیدہ یہ ہے، اہل مدینہ  کا عقیدہ یہ ہے اور ہمارا عقیدہ یہ ہے۔ بعض مسائل میں میرے عقیدہ کے موافق ، بعض مسائل میں اہل مدینہ کے موافق اور بعض مسائل میں دونوں کے مخالف تھے۔ اسی ترتیب سے میں نے چالیس سوال پوچھے اور انہوں نے جواب دیئے۔ جب تمام سوالوں کا جواب دے چکے ابو حنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف اشارہ کر کے کہا : اعلم النّاس اعلمهم باختلاف النّاس ۔[9]

مالک بن انس

اس کا نام مالک ہے، کنیت ابو عبداللہ، لقب امام دار الہجرہ ہے۔ سلسلۂ نسب مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر ہے۔ امام مالک 93 ہجری میں پیدا ہوا۔مدینہ میں عبداللہ بن مسعود والے گھر میں رہتا تھا ۔امام مالک خالص عرب تھے۔ بزرگوں کا وطن یمن تھا۔ اسلام کے بعد ان کے خاندان والوں نے مدینہ میں سکونت اختیار کر لی۔ اسے جعفر بن سلیمان عباسی کے زمانے میں مدینہ میں قتل کیا گیا اور تازیانے لگائے گئے اور اس کو اتنا گھسیٹا گیا کہ اس کا بازو بدن سے جدا ہو گیا اور آخر کار 179 ہجری میں فوت ہو گیا۔ یک بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا۔ اہل سنت علماء میں سے نووی اپنی کتاب تہذیب، شبلنجی اپنی کتاب نور الابصار، سبط جوزی اینی کتاب تذکرہ، امام شافعی اپنی کتاب مطالب، ابن حجر مکی اپنی کتاب صواعق، شیخ سلیمان اپنی کتاب ینابیع الموده اور ابو نعیم اپنی کتاب حلیہ میں میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مالک بن انس امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا۔[10]

وہ خود کہتا ہے : کچھ عرصہ جعفر بن محمد کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا،میں نے انہیں تین حالتوں میں دیکھا ہے: نماز پڑھ رہے ہوتے تھے یا روزے کی حالت میں ہوتے تھے یا قرآن کی تلاوت کر رہے ہوتے تھے، میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا کہ وضو کے بغیر حدیث کو نقل کیا ہو : ولایتکلّم بمالایعینه و کان من العلماء العباد و الزهاد الذین یخشون اللّه؛ جو چیز مفید نہیں ہوتی تھی اسے تکلم نہیں کرتے تھے عابد،زاہد اور خوف خدا رکھنے والے علماء میں سے تھے۔ و ما رات عین و لا سمعت اذن ولاخطر علی قلب بشرٍ افضل من جعفر بن محمد الصادق علماً و عبادةً و ورعاً؛ علم، پرہیزگاری اور عبادت میں جعفر بن محمد سے بڑھ کر نہ ہی میری آنکھ نے کسی کو دیکھا ہے اور نہ ہی میرے کان نے سنا ہے۔[11]

3۔سفیان ثوری

سفیان بن سعید بن ثوری کوفی 91 ہجری میں پیدا ہوئے، کچھ عرصہ بغداد میں رہے، بعد میں کوفہ منتقل ہو گئے اور 161 ہجرت میں انتقال کر گئے۔یہ بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔ اہل سنت علماء میں سے مختلف نے اپنی کتابوں جیسے تہذیب، نورالابصار، تذکرہ، صواعق، ینابیع الموده اور حلیہ میں اعتراف کیا ہے کہ سفیان ثوری امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔[12] اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ جس   میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسے انتہائی اہم امور کے بارے میں وصیت کی اور اس نے اس کو نقل کیا۔[13]

اہل سنت عالم دین محمد بن طلحہ اپنی کتاب میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے کچھ شاگردوں کے نام ذکر کرتے ہیں  کہ ان میں سے ایک سفیان ثوری بھی ہے وہ لکھتے ہیں  : الإمام جعفر الصادق (عليه السلام) ... هو من عظماء أهل البيت وساداتهم (عليهم السلام) ذو علوم جمة ، وعبادة موفرة ، وأوراد متواصلة ، وزهادة بينة ، وتلاوة كثيرة ، يتتبع معاني القرآن الكريم ، ويستخرج من بحره جواهره ، ويستنتج عجائبه ، ويقسم أوقاته على أنواع الطاعات ، بحيث يحاسب عليها نفسه ، رؤيته تذكر الآخرة ، واستماع كلامه يزهد في الدنيا ، والاقتداء بهديه يورث الجنة ، نور قسماته شاهد أنه من سلالة النبوة ، وطهارة أفعاله تصدع أنه من ذرية الرسالة . نقل عنه الحديث ، واستفاد منه العلم جماعة من الأئمة وأعلامهم مثل : يحيى بن سعيد الأنصاري ، وابن جريج ، ومالك بن أنس ، والثوري ، وابن عيينة ، وشعبة ، وأيوب السجستاني ، وغيرهم (رض) وعدوا أخذهم عنه منقبة شرفوا بها وفضيلة اكتسبوها ؛ امام جعفر صادق علیہ السلام اہل بیت(علیہم السلام) کےعظیم اور بزرگ افراد میں سے ہیں- وہ کثیرالعلم،اور دائمی عبادت گزار انسان تھے اور ہمیشہ یاد خدا میں رہتے تھے ان کا زہد و تقویٰ سب پر آشکار تھا،قرآن کی کثرت سے تلاوت کرتے تھے،قرآن کے معانی و مفاہیم پر محققانہ و ماہرانہ نظر رکھتے تھے،اور قرآن کے معانی ومفاہیم کے سمندر سے جواہرات( قیمتی مطالب ومفاہیم ومعانی )  کا استخراج کرتے تھے،اور قرآن سے عجائب(نئی اور تازہ چیزیں )کا نتیجہ نکالتےتھے،انہوں نے اپنے اوقات کو اللہ کی مختلف اطاعات اور عبادات کے لئے تقسیم کر رکھا تھا اس طریقہ سےان اوقات میں اپنے محاسبہ نفس میں مشغول رہتے تھے- ان کا دیدار،آخرت کی یاد دلاتا تھا، اوران کا کلام سننا،دنیا میں زہد و تقویٰ کا باعث بنتا تھا،ان کے نقش قدم پہ چلنا جنت کا راہنما تھا،ان کے حسین وخوبصورت چہرہ کا نوراس بات کا گواہ تھا کہ وہ انبیاء کی اولاد اور ان کی نسل سے ہیں،اور ان کے اعمال وافعال کی طہارت و پاکیزگی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ رسالت و نبوت کی ذریت ہیں،ائمہ و بزرگ اساتذہ جیسے:يحيى بن سعيد انصاري،ابن جريج،مالك بن انس،(سفيان) ثوری،(سفيان) ابن عيينہ، وشعبہ،وايوب السجستانی اوران کےعلاوہ دوسرے افراد نے امام صادق علیہ السلام سے کسب علم کیا اور ان(امام صادق علیہ السلام) کی شاگردی اوران سے کسب علم کو اپنے لئے باعث فخروفضیلت سمجھتے تھے کہ جس سے وہ (ائمہ و بزرگان اہل سنت) آراستہ تھے ۔ [14]

سفيان بن عیینہ

سفیان بن عیینہ بن ابی عمران الکوفی 107 ہجری کو کوفہ میں پیدا ہوئےاور 198 ہجری کو دنیا سے انتقال کر گئے ۔ انہوں  نے ابوحنیفہ کے زمانے میں اپنی نوجوانی کے ایام میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فيض کیا۔ اہل سنت کے مختلف علماء نے اپنی کتابوں جیسے تہذیب ،نورالابصار ،تذکرہ ،صواعق ،ینابیع الموده ،حلیہ اور فصول میں لکھا ہے کہ سفیان بن عیینہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔[15]

ابو المحاسن ظاہری اہل سنت کے حنفی علماء میں سے ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں بعض آئمہ اور علمائے اہل سنت کے نام ذکر کیے ہیں جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فيض کیا ہے اور انہیں میں سے سفيان بن عیینہ بھی ہے وہ لکھتے ہیں : [ما وقع من الحوادث سنة 148] وفيها توفي جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبى طالب رضي الله عنهم، الإمام السيد أبو عبد الله الهاشمي العلوي الحسيني المدني ... وكان يلقب بالصابر، والفاضل، والطاهر، وأشهر ألقابه الصادق ... وحدث عنه أبو حنيفة وابن جريج وشعبة والسفيانان ومالك وغيرهم. وعن أبي حنيفة قال: ما رأيت أفقه من جعفر بن محمد ؛ (جو واقعات سن 148 ہجری قمری میں رونما ہوئے ان کو بیان کرتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ ) اس سال ( امام) جعفر صادق (علیہ السلام) ابن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) نے وفات پائی وہ، امام و آقا تھے ابا عبداللہ ان کی کنیت تھی، اور وہ ہاشمی، علوی، حسینی اور مدنی تھے ۔ ان کو صابر، فاضل اور طاہر جیسے القاب سے پکارا جاتا تھا اور ان کا سب سے مشہور لقب صادق تھا۔ابوحنيفہ، ابن جريج، اور شعبہ اور سفيان بن عيينہ، سفيان، ثوری، مالک اور دوسرے افراد نے ان سے روایتیں نقل کی ہیں۔ ابو حنیفہ سے نقل ہوا کہ وہ کہتے تھے : میں  نے جعفر بن محمد( امام صادق علیہ السلام) سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا۔[16]

5۔ابن جریح

عبد الملک بن عبد العزیز بن جریح مکی اہل سنت کے علماء میں سے ہیں اور 80 ہجری کو ظاہراً بغداد میں پیدا ہوئے اور 149 یا 150 ہجری کو دنیا سے رحلت کی۔یہ بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔شیخ صدوق نے (ما یقبل من الدعاوی بغیر بیّنۃ) کے باب میں ایک روایت نقل کی ہے کہ جس کے سلسلہ سند میں ابن جریح بھی ہے اور اسی طرح اصول کافی میں  حلیت متعہ کے باب میں ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ جو افراد متعہ کے قائل ہیں ان میں سے ایک ابن جریح  بھی ہے۔ جب کسی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے متعہ کے حلال ہونے کے بارے میں سوال کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا : الق عبدالملک بن جریح فاسأله عنها فانّ عنده منها علماً ؛ عبد الملک بن جریح سے ملاقات کر اور اس سے متعہ کے حلال ہونے کے بارے میں سوال کر کیونکہ  اس کے  پاس اس  کے بارے میں علم ہے۔[17]

6۔یحیی بن سعید انصاری

یحیی بن سعید بن قیس انصاری بنی نجار قبیلے سے تھا اور 143 ہجری کو ہاشمیہ میں دنيا سے انتقال کیا۔ منصور دوانیقی کی حکومت میں مدینہ کا قاضی تھا. یہ بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا۔[18] ابن صباغ مالکی اپنی کتاب میں کچھ افراد کے نام ذکر کرتے ہیں جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے سے روایات نقل کی ہیں اور ان میں سے یحیی بن سعید انصاری بھی ہیں ہے وہ لکھتے ہیں : كان جعفر الصادق ابن محمّد بن عليّ بن الحسين عليهم السلام ... وروى عنه جماعة من أعيان الاُمّة وأعلامهم مثل : يحيى بن سعيد وابن جريج ومالك بن أنس والثوري وابن عيينة وأبو حنيفة وشعبة وأبو أيّوب السجستاني وغيرهم ؛ جعفر الصادق ابن محمد بن علي بن الحسين عليہم السلام ان سے امت کے بزرگ علماء اور اساتذہ کی جماعت جیسے : يحیی بن سعيد، ابن جريج، مالك بن انس، الثوری، ابن عيينہ اور أبو حنيفہ و شعبہ اور ابو ايّوب  سجستانی اور دوسر ے لوگوں نے روایتیں نقل کی ہیں۔[19]

7۔قطان

ان کا مکمل نام یحییٰ بن سعید القطان بن فروخ تمیمی بصری ابو سعید کنیت اورنسبت القطان تمیمی تھی۔ آبائی وطن بصرہ  تھا ، وہیں سنہ120ھ میں ان کی ولادت ہوئی اور 198 ہجری میں ان کی وفات ہوئی. یہ اہل سنت کے بزرگان اور محدثین میں سے ہیں اور صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہیں۔ اہل سنت علماء  نے اپنی کتابوں جیسے تہذیب، ینابیع الموده اور اس کی مثل دوسری کتابوں میں تصریح کی ہے کہ قطان، امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا [20]اور شیعہ علماء میں  سے  شیخ نجاشی اور ابن داؤد نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا۔[21]

 

8۔محمد بن اسحاق

محمد بن اسحاق بن یسار صاحب مغازی مدینہ میں پیدا ہوئے۔مکہ میں رہتے تھے اور 151 ہجری میں بغداد میں  انتقال کر گئے۔اہل سنت علماء میں صاحب تہذیب اور صاحب ینابیع الموده اور شیعہ علماء میں سے شیخ طوسی نے اپنی  کتاب رجال، علامہ نے اپنی کتاب خلاصہ میں  اعتراف کیا ہے کہ محمد بن اسحاق امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔[22]

9۔شعبہ بن حجاج

شعبہ نام اور ابو بسطام کنیت ہے۔ والد کا نام حجاج تھا، ان کے والد قصبہ واسط کے قریب ایک دیہات تہیمان کے رہنے والے تھے۔ 83ھ میں یہاں ہی  ان کی ولادت ہوئی۔ عام تذکرہ نگار ان کی جائے پیدائش واسط کو بتاتے ہیں مگر سمعانی نے لکھا ہے کہ واسط نہیں بلکہ اس کے ایک قریہ میں ان کی ولادت ہوئی۔ شعبہ اہل سنت کے بزرگان میں سے تھے اور اہل سنت علماء اپنی کتابوں جیسے تہذیب ،صواعق ،حلیہ ،ینابیع الموده، فصول، تذکرہ میں اعتراف کرتے ہیں کہ یہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔[23]

ابن تیمیہ اپنی کتاب میں کچھ افراد کے نام ذکر کرتا ہے جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فيض کیا اور ان میں شعبہ بن حجاج کا نام بھی ذکر کرتا،وہ لکھتا ہے : فإن جعفر بن محمد لم يجيء بعد مثله وقد أخذ العلم عنه هؤلاء الأئمة كمالك وابن عيينة وشعبة والثوري وابن جريج ويحيى بن سعيد وأمثالهم من العلماء المشاهير الأعيان؛ بیشک جعفر بن محمد ( امام جعفر صادق علیہ السلام) کے بعد ان کے مثل کوئی نہیں آیا اور اہل سنت کے بہت سے ائمہ و بزرگ علماء جیسے:مالک،سفیان بن عیینہ اورشعبہ،سفیان ثوری،ابن جریج، یحیی بن سعید اور اسی طرح دوسرے مشہور و معروف بزرگ علماء  نے امام صادق علیہ السلام سےعلم حاصل کیا۔[24]

10۔ ایوب سجستانی

ایوب بن ابی تمیمہ سجستانی بصری اہل سنت کے بزرگ فقہاء میں سے ہیں اور 65 سال کی عمر میں 131 ہجری میں طاعون کی بیماری سے بصرہ میں فوت ہوئے. اہل سنت علماء نے اپنی کتابوں جیسے تہذیب ،نورالابصار ،تذکرہ ،صواعق ،حلیہ اور فصول میں لکھا ہے کہ ایوب سجستانی امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا۔[25]

 

راويان

اہل سنت محدثین میں سے بہت سے ایسے نام دیکھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے احادیث نقل کی ہیں۔ ان میں سے بعض افراد کے نام ذکر کرتے ہیں :

1۔اسماعیل بن جعفر سے  ترمذی اور نسائی میں     روایات نقل کی گئی ہیں۔

2۔حاتم بن اسماعیل سے  بخاری کے علاوہ صحاح میں     روایات نقل کی گئی ہیں۔

3۔حسن بن صالح بن حی

4۔حسن بن عیاش سے مسلم اور نسائی نے  روایات نقل کی ہیں۔

5۔حفص بن غیاث  سے  مسلم، ابی داؤد اور ابن ماجہ نے   روایات نقل کی ہیں۔

6۔ زہیر بن محمد تمیمی

7۔زید بن سعید انماطی

8۔سعید بن سفيان اسلمی

9۔سفيان ثوری

10۔سلیمان بن بلال

11۔شعبہ بن حجاج

12۔ابو عاصم ضحاک بن مخلد نبیل

13۔سفیان بن عیینہ سے ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے   روایات نقل کی ہیں ۔

14۔عبداللہ بن میمون قداح  سے  ترمذی نے  روایات نقل کی ہیں ۔

15۔عبد العزیز بن عمران زہری سے ترمذی نے نقل کیا ہے ۔

16۔عبد العزیز بن محمد دراوردی سے مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایات نقل کی ہیں ۔

17۔عبد الوہاب بن عبد الحمید الثقفی سے مسلم، ترمذی، ابن داؤد اور ابن ماجہ نے روایات نقل کی ہیں ۔

18۔عثمان بن فرقد

19۔امام مالک سے ترمذی، مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایات نقل کی ہیں ۔

20۔محمد بن اسحاق بن یسار

21 ۔حمد بن ثابت بنانی صحیح ترمذی میں ۔

22۔حمد بن میمون زعفرانی صحیح ابی داود میں۔

23۔سلم بن خالد زنجی۔

24۔معاویۃ  بن عمار دہنی  مسند احمد و افعال العباد میں۔

25۔موسی بن عمیر قرشی۔

26۔الامام الکاظم  صحیح ترمذی  اور  ابن ماجہ  میں۔

27۔ابوحنیفہ نعمان ثابت۔

28۔وہیب بن خالد  صحیح مسلم میں۔

29۔یحیی بن سعید انصاری  صحیح مسلم  اور  نسائی میں۔

30۔حیی بن سعید قطان  صحیح ابی داود  اور  نسائی میں۔

31۔یزید بن عبداللّه بن الهاد۔

32۔ابوجعفر رازی۔[26]

 

 

مآخذ

1۔محمد ذہبی، تذکرة الحفاظ، بیروت، داراحیاء التراث العربی۔

2۔محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1395۔

3۔الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، ط 2، بیروت، دارالکتب العربی، 1390۔

4۔ابن حجر العسقلانی، تہذیب التہذیب، بیروت، دارالفکر، 1404 ق، اول۔

5۔تہذیب الکمال، بہ نقل از دراساتٌ و بحوثٌ مؤتمر الامام جعفر بن محمد الصادق، مجمع جہانی اہل بیت، 1382 هـ.ش۔

6۔ مختصر تاریخ العرب، عفیف البعلبکی، بیروت، دارالعلم للملایین، 1967 م۔

7۔ابن تيميہ الحراني الحنبلی، ابوالعباس احمد عبد الحليم (متوفاى 728 هـ)، منہاج السنۃ النبويۃ  ، مؤسسۃ قرطبۃ، الطبعۃ: الاولى، 1406ه۔

8۔الاتابكی، جمال الدين ابی المحاسن يوسف بن تغری بردى (متوفاى874هـ)، النجوم الزاہرة فی ملوك مصر والقاہرة، ناشر: وزارة الثقافۃ والارشاد القومی ۔ مصر۔

9۔الشافعی، محمد بن طلحہ(متوفاي652هـ)، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول (ع)، ص 436 ، تحقيق : ماجد ابن احمد العطيہ۔

10۔المالكی المکی، علی بن محمد بن أحمد المعروف بابن الصباغ (متوفاي885هـ)، الفصول المہمۃ  فی معرفۃ الائمۃ، دار الحديث للطباعۃ والنشر  مركز الطباعۃ والنشر فی دار الحديث ۔قم، الطبعۃ  الاولى: 1422 – 1379 ش۔

 


[1] ۔دفیات الاعیان ،ج۱،ص105۔

[2] ۔ ارجح المطالب ،ص361۔

[3] ۔انوار الحسینیہ، ص 50۔

[4] ۔ زندگانی امام صادق علیہ السلام، ص 61۔

[5] ۔ اختیار معرفۃ الرجال، ج 3، ص 419۔

[6] ۔ الارشاد ،ج 2، ص 254۔

[7] ۔ مختصر تحفۃ الاثنی عشریہ۔

[8] ۔ تذکرة الحفاظ، ج1، ص 166۔

[9] ۔ اعلام الہدایہ، ج1، ص 229۔

[10] ۔ تہذیب التہذیب، ج 1، ص 88۔

[11] ۔ اعلام الہدایۃ، ج 8، ص 229 ـ 230۔

[12] ۔ اعلام الہدایہ،ج 1 ، ص 229۔

[13] ۔ اعلام الہدایہ،ج 1 ، ص 230۔

[14] ۔ مطالب السؤول في مناقب آل الرسول (ع)، ص 436۔

[15] ۔ اعلام الہدایہ،ج 1 ، ص 230۔

[16] ۔ النجوم الزاہرة في ملوك مصر والقاہرة، ج 2 ص 68۔

[17]۔ اعلام الہدایہ،ج 1  ص 230 و 231۔

[18] ۔ اعلام الہدایہ،ج 1  ص 230 و 231۔

[19] ۔ الفصول المہمۃ في معرفۃ الأئمۃ، ج 2 ص 907-908۔

[20] ۔ اعلام الہدایۃ، ج 8، ص 232۔

[21] ۔ اعلام الہدایۃ، ج 8، ص 232۔

[22] ۔ تہذیب الکمال، ج 2، ص 419۔

[23] ۔ تہذیب الکمال، ج 2، ص 419۔

[24] ۔ منہاج السنۃ  النبويۃ، ج 4 ص 126۔

[25] ۔ مختصر تاریخ العرب، ص 193۔

[26] ۔ دائرة المعارف، ص 617، ج 10۔ مختصر تاریخ العرب، ص 193۔

ریاست مدینہ کو درپیش اقتصادی چیلنجزسے نمٹنے کےلیے  رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ

 

ڈاکٹر تصور عباس خان

اشاریہ

مشرکین مکہ جانتے تھے کہ رسول اکرم ﷺ کا الہی پیغام بہت جلد جزیرۃ العرب کے طول و عرض میں پھیل جائے گا اسی وجہ سے انہوں نے پہلے دن سے ہی مختلف ہتھکنڈے اپنانا شروع کر دئیے جیسے مسلمانوں کو روحانی اور جسمانی اذیتیں پہنچانا ؛ مختلف قسم کی تہمتیں لگانا ، بے احترامی کرنا ، جھوٹے پروپیگنڈے کرنا وغیرہ  لیکن بالآخر  جب اسلام کے آفاقی پیغام کو پھیلنے سے نا  روک سکے تو اقتصادی اور معاشی نقصان پہنچانا ان کا آخری حربہ ٹھہرا ، مکہ میں تین سال کا اقتصادی اور اجتماعی بائیکاٹ ؛اسی طرح مدینہ میں ہجرت کے بعدبھی مسلمانوں کے خلاف مختلف اقتصادی  حربے استعمال کرتے رہے اور مسلمانوں پر  جنگوں کو بھی مسلط کیا لیکن ان سب  کے باوجود  مدینہ میں اسلامی حکومت کے قیام کے محض دس سالوں میں  نا صرف جزیرۃ العرب بلکہ دور دراز کی ایمپائرز جیسے روم و فارس وغیرہ  تک اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا ۔ تو اس مقالہ کے بنیادی سوالات یہی ہیں کہ مکہ میں اقتصادی اور معاشرتی پابندیوں اور  مکہ سے ہجرت کے وقت مسلمانوں کے اموال کی غارت اور اسی طرح ، پورے جزیرۃ العرب میں مشرکین کی طرف سے ریاست مدینہ  کی برآمدات اور درآمدات کو نشانہ بنانے کے باجود اسلامی حکومت  کی معیشت نے کیسے استحکام حاصل کیا ؟ رسول اکرم ﷺ نے کونسی پالیسی اختیار کی جس کی وجہ سے ریاست مدینہ کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو  سکی ؟ مہاجرین اور بے گھر افراد کےلیے کیا صرف صفہ نام کی پناہ گاہ  ہی تھی یا اس کے علاوہ بھی  اپنا گھر اسکیم جیسی کوئی اسکیم تھی ؟ اور نبی اکرم ﷺ نے اس ضمن میں کیا اقدامات کیے ؟ بے روزگار افراد کو روزگار فراہمی کےلیے نبی اکرم ص نے کونسے اقدامات کیے ؟ مکہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا اور قریش مکہ نے جزیرۃ العرب کے قبایل سے معاہدے کر رکھے تھے جس کی بنا پر مسلمانوں کو دھمکی دے چکے تھے کہ اگر مدینہ میں اسلامی حکومت قائم کرنے کا سوچا تو پورے جزیرۃ العرب میں پابندیاں لگا دیں گے اور پھر یہ صرف دھمکی نہیں تھی بلکہ عملدرآمد بھی کیا تو نبی اکرم ﷺ نے ان کے مقابلہ کرنے کےلیے اور جزیرۃ العرب کی منڈیوں تک رسائی کےلیے کیا پالیسی اپنائی ؟کیا نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو دیکھتے ہوئے آج اس مہنگائی اور بیروزگاری کے زمانے میں  کوئی  قابل عمل پالیسی بنائی جا سکتی ہے ؟ سب سے پہلے ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ عالم اسباب ہے چاہے انبیا کا زمانہ یا امام کا ، معجزہ بہت کم رونما ہوتا ہے ۔ انبیا لوگوں کی ہدایت کےلیے آئے تھے اور قرآن مجید کے مطابق تو رسول اکرم ﷺ اسوہ حسنہ ہیں ان کی بنائی گئی پالیسیسوں سے آج بھی اسی طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے جس طرح پہلے کیا جا سکتا تھا ۔ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے خصوصا اقتصادی پابندیوں اور مشکلات کے حل کےلیے کئی ایک بنیادی اقدامات اٹھائے جن میں مھاجرین کو گھروں  اوربنیادی ضروریات کی فراہمی ، مختلف طریقوں سے روزگار کی فراہمی ، تجارت اور زراعت کی تشویق اوردشمن کے مفادات کو جوابی وار میں خطرے میں ڈالنے جیسی پالیسیوں کا انتخاب کیا ۔  جن کی تفصیل انشاء اللہ  اسی مقالہ میں بیان کی جائے گی ۔

مکہ میں مسلمانوں کا اقتصادی اور معاشرتی  بائیکاٹ

مکہ کے مشرکین نے بھانپ لیا تھا کہ رسول اکرم ﷺ کا الہی پیغام بہت جلد جزیرۃ العرب کے طول و عرض میں پھیل جائے گا اسی لیے اس الہی پیغام کو  دبانے کےلیے سب سے پہلے  کوشش کی کہ رسول اکرم ﷺ کو شہید کر دیا جائے ۔ انہوں نے کوشش بھی کی لیکن حضرت ابوطالبؑ ان کے مقاصد کے حصول میں ایک سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے جن کی فداکاری کی بدولت مشرکین مکہ کو مایوس ہونا پڑا ۔مشرکین نے اعلان کر دیا کہ جب تک حضرت محمد ﷺ کو ہمارے حوالے نہیں کیا جاتا ،اس وقت تک مسلمانوں کےساتھ اقتصادی اور معاشرتی بائیکاٹ  رہے گا ۔ کتبت الصحیفۃ القاطعۃ الظالمۃ الا یبایعوا احدا من بنی ھاشم و لا یناکحوھم و لا یعاملوھم حتی یدفعوا الیھم محمدا فیقتلوہ (یعقوبی ، تاریخ یعقوبی ،  ج2، ص31) یعنی  مسلمانوں کے ساتھ  تجارتی اور اقتصادی سرگرمیاں ممنوع قرار پائیں ، رسول اکرم ص اور آپ کے عزیز و رشتہ داروں کے ساتھ ہر قسم کی خرید و فروخت؛شادی بیاہ  اور  کسی قسم کا رابطہ رکھنا جرم قرار پایا یہاں تک بنی ہاشم نبی اکرم ﷺ کو مشرکین کے حوالے نا کر دیں اور وہ انہیں شہید نا کر دیں ۔ یہ ایسا معاہدہ نہیں تھا کہ لکھ دیا اور بس ، بلکہ مشرکین مکہ اس  پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کےلیے باقاعدہ نظارت کرتے تھے ، ان کا ھم و غم یہی تھا کہ مکہ کےتمام لوگ اس معاہدے کی پاسداری کریں اور مشرکین مکہ نے دن رات ایک کر دیا تا کہ اس معاہدے کی خلاف ورزی نا ہو ، ان سخت حالات  کی وجہ سے پیغمبر اکرم ﷺ اور آپ کے قرابت دار اور رشتہ دار نے بعض مصلحتوں کی بنا پر شعب ابی طالب میں جانا مناسب سمجھا ۔   (زرگری نژاد ، تاریخ صدر اسلام، ص 279-028)

ان حالات کو دیکھتے ہوئے  نبی اکرم ﷺ اور ابوطالب ؑ  نے مسلمانوں کے ساتھ ایک وادی میں جا کر سکونت اختیار کی جسے شعب ابی طالب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ تین سال کا بائیکاٹ تھا اور مکہ میں مسلمانوں کے گزارے گئے یہ  تین سال پیغمبر اکرم ﷺ اور مسلمانوں کےلیے بہت زیادہ سخت تھے ۔ مشرکین سوچ رہے تھے مسلمان ہار مان لیں گے اور اپنے عقیدے سے ہاتھ اٹھا لیں گے لیکن ان پابندیوں نے مسلمانوں کے عزم و حوصلے اور بلند کر دئیے اور ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوتا گیا ۔

اس دوران جتنا عرصہ رسول اکرم ﷺ؛ حضرت ابوطالبؑ اور حضرت خدیجہ ؑکا مال و دولت چلا ، مسلمانوں نے گزارا کیا جیسا کہ یعقوبی کے الفاظ ہیں: فاقام و معہ جمیع بنی ھاشم و بنی المطلب فی الشعب ثلاث سنین حتی انفق رسول اللہ مالہ ، و انفق ابوطالب مالہ ، و انفقت خدیجہ بنت خویلد مالھا ، و صاروا الی حد الضر الفاقۃ ۔ (: یعقوبی ، تاریخ یعقوبی ، ج2، ص31) لیکن جیسے ہی یہ سب  ختم ہوا ، مسلمانوں کے حالات خراب ہو گئے ، بھوک نے پوری وادی میں ڈیرے جما لیے، یہاں تک کہ  ناچار درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے  ۔بچے بھوک سے روتے تھے تو مشرکین مکہ ان کی آوازوں کو سنتے اور اپنی خام خیالی میں سوچتے تھے کہ بہت جلد مسلمان ہار مان لیں گے ۔ ابن اثیر کی روایت کو مان لیا جائے تو بعض بچے بھوک کی وجہ سے فوت بھی ہو گئے تھے ۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں مسلمانوں کی حالت کیا رہی ہو گی ؟۔ ( بلاذری ،انساب الاشراف ، 1/234-261؛ابن سعد ، طبقات ، 1/209؛ ابن اثیر،تاریخ بزرگ اسلام و ایران ، ص505؛ یعقوبی ، تاریخ یعقوبی1/389)

اس دوران چند ایک مسلمان ایسے بھی تھے جو خود مسلمان ہو گئے تھے لیکن ان کے قریبی رشتہ دار مسلمان نہیں ہوئے تھے تو وہ رشتہ داری کی بنا پر رات کے اندھیرے میں غذائی مواد اور راشن شعب ابی طالب میں پہنچانے میں کامیاب ہوئے ۔ (: ابن واضح یعقوبی ، تاریخ یعقوبی ،1/389 ؛ بلاذری ، انساب الاشراف ،1/261؛ابن اثیر ،  اسد الغابہ ،؂5/439ُ )کئی مرتبہ تو حضرت علی علیہ السلام نے مشرکین کے تمام تر سخت پہروں کے باوجود راشن کی فراہمی کو یقینی بنایا ۔  (رسول جعفریان ، سیرت رسول ص 361/ شرح نہج البلاغہ ،13/256 ) ان تمام تر مشکلات کے باوجود مسلمانوں کے ایمان میں ذرا بھر تزلزل نا  آیا ۔ ان میں اتحاد اور وحدت کو مزید تقویت ملی ، رسول اکرم ﷺ کو موقع ملا کہ لوگوں کے نزدیک اور ان کے درمیان رہ کر ان کی تربیت کریں اور ان کے ایمان کو مضبوط کریں ، مومنین کی بھی رسول اکرم ﷺ سے محبت میں اضافہ ہوا اور پہلے سے زیادہ ان کی حفاظت کا بندوبست کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ  حضرت ابوطالب ؑ رات کو ان کے سونے کی جگہ تبدیل کرتے رہتے کبھی رسول اکرم ﷺ کےبستر کی جگہ تبدیل کر دیتے تو کبھی حضرت علی علیہ السلام کو ان کے بستر پر لٹا دیتے  یعنی عزت ، غیرت اور مشرکین سے مقابلےکا ولولہ جیسے مفاھیم اجاگر ہو کر مسلمانوں کے کردار میں نمایاں نظر آ رہے تھے  ۔

لیکن سب سے بڑا ہتھیار جو مسلمانوں کے پاس تھا وہ تھی استقامت ، وہ تھا صبر ، خود پیغمبر اکرم ﷺ کا صبر ، جب آپ رہبر اور راہنما ہوں اور دیکھ رہے ہوں کہ آپ کے سامنے بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں ، لوگوں کے چہرے بھوک کی وجہ سے زرد پڑ گئے ہیں ، تھکاوٹ مرجھائے چہروں سے عیاں ہے تو بتائیں اس رہبر کے دل پر کیا گزرتی ہوگی ؟ رہبر اور راہنما بھی ایسا جو رحمت للعالمین ہو شفقت اور مہربانی کا مجسمہ ہو ۔ صرف خداوندمتعال ہی اس دل کی کیفیت جان سکتا ہے لیکن ان سب مشکلات کے باوجود رسول اکرم ﷺ نے صبر کیا اور استقامت کی اور لوگوں کو بھی صبر اور استقامت کا درس دیتے (ابن ھشام ،سیرت محمد رسول اللہ ، ص466،ابن اثیر ،کامل تاریخ بزرگ اسلام و ایران ، ص99 )(حضرت ابوطالبؑ نے بھی نا صرف خود صبر و استقامت سے کام لیا بلکہ دوسروں کو  بھی تلقین کرتے تھے ۔ (بلاذری ، انساب الاشراف ، 1/95-96، طبرسی ، اعلام الوری ،1/126، ابن ھشام زندگانی محمد پیامبر اسلام ، 1/352) مسلمانوں کی اس استقامت اور صبر کو دیکھتے ہوئے وہ نوید ملی جس نے مشرکین مکہ کو مایوس کر دیا ۔

پابندیوں بارے مسودہ دیمک چاٹ چکی تھی ، الفاظ پڑھے نہیں جا رہے تھے اور مسلمان شعب ابی طالب سے باہر آ گئے ْ۔ لیکن ایک ہی سال میں تین دن کے وقفے کے ساتھ  حضرت ابوطالبؑ اور حضرت خدیجہؑ کی وفات نے نبی اکرم ﷺ کو غمزدہ کر دیا ۔ فرمایا : یہ دونوں مصیبتیں اتنی سخت  ہیں کہ سمجھ نہیں آ رہی کس کو زیادہ بڑی مصیبت کہوں ؟۔ حضرت خدیجہؑ کی وفات پر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا گریہ کر رہی تھیں اور بار بار پوچھ رہیں تھیں کہ بابا میری ماں کہاں ہے ؟ جبرائیل امین نازل ہوئے اور فرمایا  : سیدہ فاطمہ سے کہہ دیجہئے کہ خداوندمتعال نے جنت میں یاقوت سے بنا گھر حضرت خدیجہؑ کےلیے تیار کروایا ہے آپ کی والدہ گرامی وہاں ہیں جہاں نا غم ہے اور نا حزن و ملال ۔ قل لفاطمۃ ان اللہ تعالی بنی لامک بیتا فی الجنۃ من قصب لا نصب فیہ و لا صخب۔ ( یعقوبی ، تاریخ یعقوبی ، 2/35 ) رسول اکرم ﷺ کےلیے یہ سال بہت مصیبتوں کا سال تھا اور آپ نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا  یا آج کی اصطلاح میں بیان کریں تو ایک دن نہیں ، تین دن نہیں بلکہ  پورا سال سوگ کا اعلان فرمایا ۔

دوسری بیعت عقبہ کے بعد مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کا گرین سگنل مل گیا لیکن مشرکین مکہ جانتے تھے کہ مدینہ میں جا کر اپنی حکومت بنا لیں گے لہذا ان کی کوشش تھی کہ یہ ہجرت نا ہونے پائے ورنہ مسقتبل قریب میں بہت بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں ، لہذا جو بھی ہجرت کا ارادہ کرتا اس کا مال و دولت لوٹ لیتے ، جب مسلمان ہجرت کر گئے تو  ان کے پیچھے ان کی زمینوں اور دکانوں پر قبضہ کر لیا گیا باغات اپنے قبضے میں لے لیےگئے  یعنی وہ چاہتے تھے اقتصادی طور پر جتنا نقصان کر سکتے ہو ان کا کر لو ۔  یہ سب مسلمانوں کی ہمت ، استقامت اور صبر کا نتیجہ نکلا کہ تیرہ  سال مشکلات میں گزارنے کے بعد مدینہ میں  کم از کم مشرکین مکہ کے ظلم و ستم سے نجات مل گئی  ۔

مدینہ میں اقتصادی چیلنجز

اگرچہ  مدینہ میں پہنچنے کے بعد وہاں کے چیلنجز  اور مسائل کی کیفیت تبدیل ہو گئی  ۔ یہاں بھی مشکلات تھیں لیکن ان کی نوعیت اور تھی ، سب سے بڑا مسئلہ مھاجرین کے گھر اور روزگار کا تھا ۔ مدینہ میں کوئی منظم حکومت تو تھی نہیں الٹا سب مھاجرین خالی ہاتھ مدینہ پہنچے تھے جس کی وجہ سے بنیادی ضرورتیں پوری کرنا بھی مشکل ہو گیا تھا  ۔ ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے ضروری تھا کہ رسول اکرم ﷺ ایسی پالیسی  اپناتے جس سے نا صرف مسلمانوں کی معیشت مضبوط ہوتی ساتھ آئندہ کےلیے مشرکین کی طرف سے ممکنہ پابندیوں کا مقابلہ  بھی کیا جاسکتا ۔

اسی لیے پیغمبر اکرم ﷺ نے مختلف جہتوں پر کام شروع کروایا ۔ اگر ہم صرف ان کاموں کی لسٹ بھی تیار کرنا چاہیں تو اس کےلیے بھی کئی صفحات درکار ہیں لیکن اس مختصر مقالہ میں تین چیزوں کے بارے میں ذکر کریں گے ۔ پہلی چیز کہ مھاجرین کی رہائش اور ان کے گھروں کےلیے پیغمبر اکرم ﷺ نے کونسی پالیسی اپنائی ؛ دوسرا لوگوں کو روزگار کی فراہمی کےلیے کیا اقدامات اٹھائے اور تیسرا تازہ حکومت نے تجارت کو فروغ کیسے دیا ؟

مہاجرین کی رہائش بارے پالیسیاں

سب سے بنیادی اور اہم کام جو نبی اکرم ﷺ نے انجام دیا جس نے معاشرے کی کئی مشکلات کو حل کر دیا وہ مھاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ تھا ۔ اس بھائی چارے کی فضا اور ایثار و فداکاری کے جذبے نے معاشرے کے رہن سہن کو تبدیل کر دیا ۔ جس کے ثمرات زندگی کے کئی شعبوں میں نظر آنے لگے ۔

رسول اکرم ﷺ نے سب سے پہلے بے گھر افراد کی رہائش کے بارے میں سوچا اور اس کےلیے کئی جہتوں پر کام کیا تا کہ لوگوں کو رہنے کےلیے گھر مل سکے جہاں عارضی پناہ گاہ قائم کی وہیں مستقل گھروں کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلیے بھی اقدامات اٹھائے ۔ سب سے پہلے مسجد النبی میں ایک عمومی پناہ گاہ قائم کی جسے صفہ کہا جاتا ہے اور اس میں رہنے والے اصحاب کو تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ( کتانی ،نظام اداری مسلمانان در صدر اسلام ،  1/477) اس کے علاوہ بہت سے انصار نے اپنے مھاجرین بھائیوں کےلیے گھروں کے دروازے کھول دئیے ۔  اگر گھر کے دو کمرے تھے تو ایک کمرہ انہوں نے مھاجر بھائی  کو دے دیا ۔ اسی طرح اگر کسی کی ملکیت میں دو گھر تھے تو اس نے اپنا ایک پورا گھر اپنے بھائی کو دے دیا ۔اس ایثار و فداکاری نے رہائش کے بہت سے مسائل حل کر دئیے تھے ساتھ رسول اکرم ﷺ نے حکومت کے نام پر ملنے والی زمینوں کو بعض مھاجرین کو لیز پر دے دیا تا کہ وہ اس زمین کو کاشت بھی کریں اس پر گھر بھی بنائیں ۔ بعض انصار نے بھی اپنی زمینوں کو ھبہ کر دیا تا کہ لوگ حکومت یا مخیرین  کی مدد سے  اس پر گھر بنا سکیں ۔ ( ابن ھشام ، زندگانی محمد پیامبر اسلام ، 1/339؛ ابن اثیر ، کامل تاریخ بزرگ اسلام و ایران ،2/141؛ واقدی ، مغازی ،3/54) اب سوچنے والی بات ہے کہ کیا آج ہمارے حکمرانوں کےلیے یہ اسوہ ہے یا نہیں ؟ کیا ان اصولوں پر عمل کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟

روزگار کی فراہمی

دوسرا بڑا مسئلہ جو مدینہ میں قائم نئی اسلامی حکومت کو در پیش تھا وہ لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا اور افراد کےلیے روزگار فراہم کرنا تھا ۔  اس ضمن میں سب سے پہلا اور اہم کام جو رسول اکرم ﷺ نے انجام دیا وہ اقتصاد میں لوگوں کی مشارکت تھی ۔ مھاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ کی وجہ سے انصار میں سے ہر کسی نے اپنے مال کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ مھاجر کو دے کر ایثار و فداکاری کی اعلی مثال قائم کردی ۔

دوسرا انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں خرچ جیسی ثقافت کو پورے معاشرے میں پھیلا دیا اور اس کے فضایل لوگوں کو بتلائے جس نے معاشرے میں بہت زیادہ اثر دکھایا ۔ مھاجرین کی مالی حمایت کو قانون کی شکل دیتے ہوئے زکات کا وجوب ایک اور اقدام تھا ۔ اس کے ساتھ حکومت کے بیت المال سے غربا کی مالی حمایت جس میں خمس ، زکات ، فی اور جنگی غنائم شامل تھے۔ ( واقدی،مغازی ،  1/103؛ ابن اثیر ، کامل تاریخ بزرگ اسلام و ایران ،2/141؛  صدر  ، اقتصاد اسلام ،ص141)

تجارت  اور زراعت کی تشویق

بیت المال سے مدد کے علاوہ رسول اکرم ﷺ کی کوشش تھی کہ لوگ خود آگے آئیں ، کوئی ہنر سیکھیں ، بے کار نا رہیں ، اس زمانے میں بھی تجارت  اور زراعت بہت بڑا ذریعہ تھا آمدن کا ۔ نبی اکرم ﷺ نے روزگار فراہم کرنے کےلیے تجارت کی تشویق کرتے تھے اور بے کار رہنے کی مذمت فرماتے تھے ۔ نبی اکرم ﷺ کوشش کرتے تھے کہ کوئی بے کار نا رہے ۔  کچھ نا کچھ بنائیں ، کوئی ہنر سیکھ لیں ۔ اس کام نے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی ۔ بے کار افراد کی مذمت ہوتی تھی ۔ (مجلسی ، بحار الانوار ،100/10؛ شیخ حرعاملی ،وسایل الشیعہ ،17/66؛کلینی ، الکافی ،5/84؛مرتضی عاملی ، السوق فی ظل الدولۃ الاسلامیۃ ، ص96/صدر ،اقتصاد اسلام صفحہ 141-142) ساتھ  مھاجرین کو تشویق  کرتے تا کہ داخلی اور خارجی تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لیں ۔ (کاتب واقدی ، طبقات ،3/54؛حرعاملی ، وسایل الشیعہ ،12/45،صدر ، اقتصاد اسلام ، ص 141-142)

ہر معاشرے کےلیے ضروری ہوتا ہے کہ بعضی غیر ملکی تاجر بھی معاشرے میں آ کر سرمایہ کاری کریں اور جو بنیادی چیزیں وہ لے کر آتے ہیں اور معاشرے کو اس کی ضرورت ہے یا معاشرے کی معیشت کےلیے مفید ہیں ،ان سے استفادہ کیا جا سکے اور اس ضمن میں سب سے بڑی چیز بیرونی تاجروں کا اعتماد اور  امنیت کا ہوتا ہے تا کہ بے فکر ہو کر آئیں اور انہیں یقین ہو کہ ان کا سرمایہ ڈوبے گا نہیں اس لیے ایک کام  یہ کیا کہ بیرونی  تاجروں کو امنیت فراہم کی تا کہ وہ تجارتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں ۔ (بیہقی ، دلایل النبوۃ ،9/9) ان کی مشکلات کو حل کیا  اور بنیادی سہولیات فراہم کیں ۔  ( ابن حجر ، الاصابہ فی تمییز الصحابہ ،2/104؛بیھقی ، دلایل النبوۃ ،9/9) ساتھ اپنے افراد کو بھی تشویق دلاتے تا کہ وہ چیزیں باہر سے لائیں جن کی مدینہ میں مارکیٹ ہو جو مدینہ کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کر سکے ۔اگر کوئی ایسا کام کرتا اور ان چیزوں کو امپورٹ کرتا جو مدینہ کی بنیادی ضروریات میں سے شمار ہوتیں تو ایسے افراد کےلیے خصوصی پیکجز کا اعلان کیا ۔ (ابن حجر ،  الاصابۃ فی تمییز الصحابہ ،1/347)

ہر معاشرے میں تاجروں کے اپنے خدشات ہوتے ہیں جنہیں دور کیے بغیر آپ داخلی سطح پر تجارت کو فروغ نہیں دے سکتے ۔ رسول اکرم ﷺ نے بھی تاجروں کے خدشات کو دور کرنے کےلیے ایسے اقدامات اٹھائے جو ان کی بھلائی میں تھے ۔ مثلا  داخلی منڈی کی جگہ کا انتخاب ایک ایسی جگہ پر کیا جہاں سے قافلے شہر میں داخل ہوتے ہوئے وہاں سے گزرتے تھے ۔ جگہ بھی وسیع ہوتی تھی پھر ان منڈیوں کے قوانین بنائے اور مقابلے کی ایسی فضا قائم کی جس سے اچھی اور معیاری چیز بھی سستے داموں خریدار کو مل جاتی ۔اسی طرح داخلی منڈیوں کو ٹیکس فری کر دیا جس سے تاجر بھی خوش تھے اور وہ بھی معیاری چیزیں سستے داموں فروخت کرتے ۔ (بلاذری ، فتوح البلدان ص 24) نا صرف ٹیکس فری کیا بلکہ اگر کوئی بھی شخص منڈی میں آ کر تجارت کرنا چاہتا  تو اسے کسی تاجر کمیٹی یا انجمن کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ۔ اس چیز نے مقامی سطح پر لوگوں میں تجارت کے شوق اور رجحان کو کافی حد تک فروغ دیا ۔ (ابن ماجہ ،2/75؛ کتانی ، نظام اداری مسلمانان در صدر اسلام ،2/24و29؛ابن حجر ،الاصابۃ فی تمییز زالصحابہ 1/347) اسی طرح ایک اور اقدام جس نے تجارت کے فروغ میں اضافہ کیا وہ مضاربہ کے قانون کا اجرا تھا۔ ( واقدی،مغازی ،  ص677؛صدر،اقتصاد اسلام ، ص67)

تجارت کے علاوہ اصحاب کو زراعت کی تشویق بھی کی جاتی کہ اگر کوئی تجارت کے شعبہ میں نہیں جاتا تو زراعت کرے  ۔ اس کےلیے جو قدم اٹھایا گیا تھا حکومت کی طرف سے  وہ تھا لوگوں کو  زمین لیز پر دینا ۔ تا کہ اصحاب اس پر زراعت کریں جیسا کہ بلاذری نے لکھا ہے رسول اکرم ﷺ نے بلال بن حارث کو زمین دی  جس میں معدنیات بھی پائی جاتی تھیں ،اسی طرح اور بھی اصحاب تھے جن کے نام تاریخ کی کتابوں میں ذکر ہیں اور پیامبر اکرم ﷺ نے انہیں زمینیں دیں ۔ (بلاذری ، فتوح البلدان ، ص 21و27و 31) یا اصحاب کو بنجر زمینیں دینا جسے قانون احیا موات کہا جاتا ہے رسول اکرم ﷺ نے یہ قانون پاس کیا تا کہ زراعت کی تشویق پیدا کی جا سکے  اور لوگ اپنا روزگار بھی بنا سکیں ۔   (ابن حجر ، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ ، 2/224و458) احیاموات یہ ہے کہ حکومت بنجر زمینیں عوام کے حوالے کر دیتی ہے کہ اسے آباد کریں اور زراعت کریں ۔ (قانون زمین و زمینداری ، تالیف سید افتخارحسین نقوی)  اب زراعت کرنے کےلیے بھی پیسے چاہیے ہوتے تھے تو نبی اکرم ﷺ نے اس مشکل کو بھی حل کر دیا ، زراعت کےلیے یا حکومت مدد کرتی یا مخیرین اور صاحب استطاعت لوگ ان کی مدد کرتے تا کہ زراعت کے وسائل  کو فراہم کیا جا سکے  ۔  ( العاملی ، السوق فی ظل الدولۃ الاسلامیۃ ،4/92؛الکتانی ، نظام اداری مسلمانان در صدر اسلام ، 1/476؛ واقدی ،مغازی 1/327)

اسی طرح مھاجرین اور انصار کے درمیان مزارعہ اور مساقات کے معاہدے بھی انجام پائے  ۔ ( صدر ، اقتصاد اسلام ، ص65/ابن الحجر، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ ، 1/221)  ان اقدامات نے کافی حد تک مسلمانوں کی اقتصادی مشکلات کو حل کر دیا تھا ۔بلاذری کی روایت کے مطابق پانی کے مسائل کو حل کرنے کےلیے کنویں کھودے جاتے جیسے وادی بطحان کی زمینوں کو سیراب کےلیے کنواں کھودا گیا یا باقی جتنے کھودے جاتے اگر اصحاب کی ملکیت ہوتے تو ان کے نام سے مشہور ہو جاتے اور فتوح البلدان میں بہت سارے کنویں اصحاب کے نام سے مشہور تھے جو ان کی ملکیت تھے ۔ ( فتوح البلدان،ص19اور23) درختوں کی کٹائی کو ممنوع قرار دیا اگر کوئی درخت کاٹتا تو دوبارہ اسی جگہ درخت لگانا بطور دیت ضروری تھا ۔

مشرکین پر مسلمانوں کا جوابی اقتصادی وار 

دشمن اس وقت تک جری ہوتا ہے جب تک اس کے مفادات کو نقصان نا پہنچے ۔ جب تک مسلمان مکہ میں تھے مشرکین کے مفادات کو خطرہ نہیں تھا اس   لیے وہ کھل کھیل رہے تھے دوسری طرف نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے بہت پہلے کیونکہ مکہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا تھا اس لیے قریش نے مختلف قبایل سے راستوں کو پر امن بنانے کے لیے معاہدے کر رکھے تھے ۔ جزیرۃ العرب کی مختلف منڈیوں تک قریش کی رسائی تھی اور ان کے افراد تعینات تھے ۔ اسی وجہ سے انہوں نے مسلمانوں کو دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر مدینہ میں حکومت قائم کرنے کا سوچا تو پورے جزیرۃ العرب میں پابندیاں لگا دیں گے ۔ نبی اکرم ﷺ یہ سب دیکھ رہے تھے اور جانتے تھے کہ جب تک دشمن کے اپنے مفادات خطرے میں نہیں پڑیں گے تب تک وہ ظلم و ستم سے ہاتھ نہیں اٹھائے گا اور مشرکین مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے اذیتیں دیتے رہیں گے اسی وجہ سے رسول اکرم ﷺ نے دشمن کے مفادات کو خطرے میں ڈالنے کےلیے کئی ایک اقدامات اٹھائے ۔ مثلا قریش کی تجارتی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ان کے راستوں کی نشاندہی اور ان نکات پر متمرکز ہوئے جہاں سے قریش کے تجارتی قافلوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا تھا ۔ ساتھ مزید کسی اقتصادی نقصان سے بچنے کےلیے اپنے افراد کو مدینہ کے اطراف میں گشت کےلیے مقرر کر دیا جومشرکین کے تجارتی قافلوں کی اطلاعات  جمع کرتے اور بعض اوقات ان پر حملہ کرتے تا کہ دوبارہ اقدام کرنے سے پہلے دشمن سو بار سوچے کہ اب ان کے مفادات بھی خطرے میں پڑ سکتےہیں ۔بلکہ بعض تاریخی روایات کی بنا پر بعض  عسکری اور سویلین کو دشمن کے تجارتی راستوں کےلیے خطرہ ایجاد کرنے کےلیے بھیجا بھی گیا ۔ ( واقدی ، مغازی ، ص15-16و197ابن ھشام ،زندگانی محمد پیامبر اسلام ، ص3 ،392)

پیغمبر اکرم ﷺ نے جو عہد نامہ مدینہ کے مشرکین اور یہودیوں کے ساتھ کیا اس کی روشنی میں مدینہ کے مشرکین اور یہودیوں نے مکہ کے مشرکین کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں متوقف کر دیں ۔ ( ابن ھشام ،سیرت محمد رسول اللہ ، 2/147-150) یہ مکہ کے مشرکین کےلیے بہت بڑا دھچکا تھا ۔ ساتھ اس کے علاوہ  جن قبایل سے خطرہ تھا کہ مدینہ کے تجارتی قافلوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ان کے ساتھ اسٹیرٹیجک معاہدے کر لیے تا کہ تجارتی قافلوں کے راستوں کو پر امن بنایا جا سکے  ۔ (ابن ھشام ، زندگانی محمد پیامبر اسلام،ص3و4؛ واقدی ،مغازی ،1/197) اور ان پالیسیوں کی وجہ سے دشمن کے تمام حربے ناکام ہوئے اور اس چیز نے انہیں پاگل بنا دیا تھا ۔ اس سے پہلے مزید شکست سے دوچار ہوتے بہت غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ سب مل کر مسلمانوں پر حملہ کریں ۔

مختلف احزاب کی طرف سے مسلمانوں کا عسکری اور اقتصادی محاصرہ

مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ابھرتی ہوئی معیشت نے مشرکین مکہ اور جزیرۃ العرب کے دوسرے مشرک اور یہودی قبائل کی نیندیں حرام کر دی تھیں ۔ مشرکین نے مختلف قبائل سے مکاتبات اور روابط کے ذریعے انہیں مسلمانوں کے ساتھ جنگ پر آمادہ کر لیا ۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو صرف عسکری نہیں تھی بلکہ بیک وقت عسکری ، اقتصادی اور نفسیاتی جنگ تھی ۔ جس کے خطرات بہت زیادہ تھے ۔ اگرچہ اقتصادی حالت بہتر ہو رہی تھی لیکن چند ایک وجوہات کی بنا پر اقتصادی حوالے سے بھی بہت خطرناک تھی ۔ اولا مسلمانوں نے اگرچہ تجارت اور زراعت کی طرف توجہ دینا شروع کر دی تھی لیکن زیادہ تر وقت جنگوں اور غزوات میں گزر رہا تھا ۔ ساتھ مدینہ میں بارشوں کی کمی کی وجہ سے زراعت بھی خطرے سے دوچار تھی اور اب پورے مدینہ کو محاصرے میں لے لیا گیا تھا جس وجہ سے باہر سے تجارت کے راستے بھی بند تھے اس لیے ایک وقت میں تو مدینہ میں غذائی مواد کی قلت کا سامنا کرنا پڑ گیا ۔

دوسرا یہ نفسیاتی جنگ بھی تھی کیونکہ بہت سے یہودی مدینہ کے اندر رہتے تھے اور خفیہ مذاکرات کے ذریعے پہلے سے ہی مشرکین اور یہودیوں کوزبان  دے چکے تھے کہ اگر مدینہ   پر حملہ کرو  گے تو اندر سے ہم بھی کھڑے ہو جائیں گے ۔ ساتھ منافقین نے بھی پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا جسے قرآن نے واضح طور پر بیان کیا ہے  اور یہ پروپیگنڈا اتنا شدید تھا کہ بہت سے ضعیف الاعتقاد مومنین بھی خوف اور دہشت میں وقت گزار رہے تھے۔سورہ احزاب کی آیات 9سے13 اور سورہ بقرہ کی آیت 214 کا ترجمہ ہے :  اے ایمان والو! اللہ کے احسان کو یاد کرو جو تم ر ہوا ۔  جب تم پر کئی لشکر چڑھ آئے پھر ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا، اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ دیکھ رہا تھا۔جب وہ لوگ تم پر تمہارے اوپر کی طرف اور نیچے کی طرف سے چڑھ آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ کے ساتھ طرح طرح کے گمان کر رہے تھے۔اس موقع پر ایماندار آزمائے گئے اور سخت ہلا دیے گئے۔اور جب کہ منافق اور جن کے دلوں میں شک تھا کہنے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو ہم سے وعدہ کیا تھا صرف دھوکا ہی تھا۔

کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تمہیں وہ (حالات) پیش نہیں آئے جو ان لوگوں کو پیش آئے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں، انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور ہلا دیے گئے یہاں تک کہ رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب ہوگی! سنو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔

یعنی یہ  ایک ایسا  وقت تھا کہ مدینہ میں موجود یہودیوں کی پیمان شکنی اور منافقوں کی سازش ایک ساتھ ظاہر ہو گئی پھردوسری طرف  پورا مدینہ دشمن کے محاصرے میں ہے لہذا  ضعیف الایمان مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔ غذائی قلت نے پریشانیوں میں اضافہ کر دیا تھا (ابن ھشام ، زندگانی محمد پیامبر اسلام ، ص171-172؛ مجلسی ، بحار الانوار ،4/50؛16/ 225؛ واقدی ، مغازی ، ص357-359 و369-370)

لہذا قرآن کہتا ہے :  جب آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ کے ساتھ طرح طرح کے گمان کر رہے تھے۔ حتی منافقین نے تو علی الاعلان کہنا شروع کر دیا تھا کہ خدا کی طرف سے کوئی مدد نام کی چیز نہیں آنے والی ۔کلمہ پڑھنے والے تم دھوکے میں مارے گئے ہو نعوذباللہ وغیرہ وغیرہ

اب جہاں عسکری مقابلہ کرنا  تھا وہاں نفسیاتی طور پر مسلمانوں کو مضبوط بنانا بھی ضروری تھا ۔ عسکری مقابلہ کےلیے تو نبی اکرم ﷺ نے جنگی حکمت عملی اپناتے ہوئے سب سے پہلے 24گھنٹے دشمن پر نظر رکھنا تھا ان کی کوئی حرکت مسلمانوں سے پوشیدہ نہیں تھی کہ اگر کہیں سے خندق پار کرتے ہیں یا پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو جوابی وار کےلیے مسلمان آمادہ باش تھے ۔ ساتھ اگر کہیں سے کامیاب ہو جاتے ہیں خندق پار کرنے میں تو بھی ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے یہ سب مشخص تھا ۔پھر یہ سب کام اصحاب کے مشورہ سے ہو رہے تھے ۔ جو مشکلات پیش آ رہی تھیں ان کا حل مدینہ کے اندر رہ کر نکالا جا رہا تھا ۔

دوسرا نفسیاتی دباو کو کم کرنا تھا جو سب سے مشکل کام تھا ۔ منافقین مسلمانوں کے ساتھ تھے وہ عقیدے کو مسلسل کمزور کر رہے تھے نبی اکرم ﷺ افراد کی تشویق کرتے اور ان میں انقلابی روح پھونکنے کےلیے خود کام بھی کرتے جیسے خندق کھودنا ۔

مسلمان انقلابی اشعار پڑھتے اور یا آج کی زبان میں قومی ترانے پڑھتے تا کہ مسلمانوں کے اندر جھاد کا جذبہ ابھارا جائے ۔ سب سے بڑھ کر نبی اکرم ﷺ ان کو غیب سے مدد الھی کا وعدہ دیتے اور دعا کرتے ۔لیکن یہ سب کافی نہیں تھا دوسری طرف ضروری تھا جہاں سے یہ اختلاف پیدا ہو رہے تھے ان راستوں کو بھی بند کیا جاتا ۔ اس لیے منافقین کی مذمت ، اگر کوئی تفرقہ کی بات کرتا یا ایسے اشعار پڑھتا جس سے تفرقہ کی بو آتی ہو ، سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ۔ اسی طرح  باہر کے دشمن کو کمزور کرنا بھی ضروری تھا  اس کےلیے اہم تھا کہ دشمن کی فوج کی وحدت اور ایکتا کو نقصان پہنچایا جائے  ۔ اس ضمن میں بھی اقدامات اٹھائے گئے  ۔ ( ابن ہشام ، زندگانی محمد پیامبر اسلام ، ص 169-1709) ساتھ دشمن کی صفوں میں شک و تردید ڈالنے کےلیے مختلف تبلیغی راستوں کا انتخاب کیا گیا جس نے دشمن کی صفوں میں مایوسی پھیلا دی حتی بعض کو دینار و درھم کا لالچ دے کر خریدا گیا تا کہ یا تو واپس چلے جائیں یا کم از کم ان کی مسلمانوں سے دشمنی میں کمی آ سکے ۔ ( واقدی ، مغازی ، جنگ ھای پیامبر گرامی ، ص 359؛حر عاملی ، وسایل الشیعہ ، 11/102)

یقینا خداوندمتعال کی مدد و نصرت سے دشمن مایوس ہوئے اور بڑے بڑے خطرات ٹلے لیکن اس کےلیے نبی اکرم ﷺ کی رہبری و راہنمائی اور دن رات کی انتھک محنت بھی تھی اور خداوندمتعال بھی مدد وہاں کرتا ہے جہاں خود انسان بھی عقل و بصیرت سے فیصلے کریں اور استقامت اور صبر کو اپناتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کریں ۔

اس کے ساتھ جہاں اندر سےمسلمانوں میں وحدت اور اتحاد کی فضا بہت ضروری تھی وہاں ان عناصر کو بے نقاب کرنا اور ان کی سازشوں سے پردہ اٹھانا ضروری تھے جو منافق تھے اور چاہتے تھے مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کر سکیں اور مسلمانوں کے ان کے اعتقاد میں تزلزل کا شکار کر سکیں ۔ اس لیے رسول اکرم ص  ایسے اشعار پڑھنے کی ممانعت کرتے جس سے کسی قسم کے تفرقہ کی بو آتی ۔ تا کہ مذہبی اور قبایلی تفرقہ ڈالنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جا سکے اسی طرح منافقین کے پروپیگنڈے کو ناکام بنانا بھی ایک قسم کا چیلنج تھا ۔جہاں اس قسم کے چیلنجز سے نمٹنے کےلیے حکمت عملی ضروری تھی ساتھ خداوندمتعال سے نصرت کی دعا بھی ضروری تھی اس لیے رسول اکرم ص خداوندمتعال سے مدد کی دعا اور درخواست کرتے۔ ساتھ دشمنوں کی صفوں میں اختلاف ایجاد کرنے کےلیے اقدامات بھی اٹھاے  تا کہ دشمن کی ایکتا کو نقصان پہنچایں اور اس کو توڑ سکیں ۔ ( واقدی ، مغازی ، ص447؛ بیھقی ، دلایل النبوۃ ، 399؛ ابن سعد ، طبقات ، ص72؛ طبرسی ، اعلام الوری ، ص134-135)

 

منابع اور مصادر

1: القرآن الکریم

2:ابن اثیر ، عزالدین بن اثیر ، کامل تاریخ بزرگ اسلام و ایران ، ترجمہ ابوالقاسم حالت و عباس خلیلی ،تہران ، موسسہ مطبوعاتی علمی ، 1371

3:ابن حجر ، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ ،قاھرہ ، سعادہ ، 1328ق

4:ابن ھشام ، زندگانی محمد پیامبر اسلام ،ترجمہ سید ھاشم رسولی ،تہران ، کتابچی ، 1375

5:ابن ہشام ، عبدالملک ،سیرت محمد رسول اللہ ، ترجمہ مسعود انصاری ، تہران ، انتشارات مولی ،1392

6:ابن واضح یعقوبی ، احمد بن ابی یعقوب ،تاریخ یعقوبی ، ترجمہ محمد ابراھیم آیتی ، تہران ، انتشارات علمی و فرھنگی ، 1371

7:بلاذری ، احمد بن یحیی ، فتوح البلدان ، ترجمہ محمد توکل ، تہران ، ناشر نقرہ ، 1337

8: ---------- انساب الاشراف ، تحقیق و ترجمہ ، ریاض زرکفی و سھیل زکار ، بیروت ، دارالفکر 1417ق

9:بیھقی ، ابوبکر احمد بن حسین ، دلا ئل النبوۃ ، ترجمہ محمود مھدوی  دامغانی ، تہران ، انتشارات علمی و فرھنگی ، 1391

10: جعفر مرتضی العاملی ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم ، قم ، دارالحدیث ، 1429ق

11: جعفریان ، رسول ، سیرۃ رسول خدا ، قم ، دلیل ما ، 1383

12:زرگری نژاد ، غلام حسین ، تاریخ صدر اسلام ، تہران ، سمت ، 1384

13:صدر ، سید کاظم ، اقتصاد اسلام ، تہران ، انتشارات دانشگاہ شہید بہشتی ، 1374

14؛ طباطبایی ، سید محمد حسین ، المیزان فی تفسیر القرآن ، ترجمہ سید محمد باقر موسوی ، ھمدانی ، قم ، دفتر انتشارات اسلامی ، 1374

15: طبرسی  ، فضل بن حسن ، اعلام الوری ، زندگانی چہاردہ معصوم ، ترجمہ عزیزاللہ عطاردی ، تہران ، اسلامیہ ، 1390

16: علامہ مجلسی ، بحارالانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطھار ، تہران ، اسلامیہ ، 1363

17؛کاتب واقدی ، محمد بن سعد ، طبقات ، ترجمہ محمود مھدوی دامغانی ، تہران ، انتشارات فرھنگ و اندیشہ ، 1374

18: کتانی ، عبدالحی ،نظام اداری مسلمانان در صدر اسلام ، ترجمہ علی رضا ذکاوتی، قراگز نو ،قم ، سمت ، 1384

19: کتانی ، عبدالحی ، نظام الحکومت االنبویۃ ، بیروت ، دارالارقم ابی الارقم

2:مرتضی عاملی ، سید جعفر ، سیرت جاودانہ ، ترجمہ محمد سپھری ، تہران ، فرھنگ و اندیشہ اسلامی ، 1384

21:واقدی ، محمد بن عمر ، مغازی ، تاریخ جنگ ھای پیامبر ، ترجمہ محمود مھدوی دامغانی ، تہران ، مرکز نشر دانشگاھی ، 1369

22: یوسفی غروی ، محمد ھادی ، تاریخ تحقیقی اسلام، ترجمہ حسین علی غربی ، قم،  موسسہ

ڈاکٹر تصور عباس خان

المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی، ایران

 

صدر اسلام میں معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے  رسول  اللہ ﷺ کے سیاسی اقدامات


صدر اسلام میں معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے رسول  اللہ ﷺ کے سیاسی اقدامات

تحقیق: ممتاز حسین

خلاصہ تحقیق 

پیغمبرِ اسلام ﷺ ، اللّہ تعالیٰ کا نمائندہ  اور  اسلامی معاشرے کا رہبر ہونے  کے ناطے لوگوں کی خوشحالی اور اخروی کامیابی  کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے۔ جس طرح لوگوں کوعبادتِ خدا  اور اخلاقِ حسنہ کو اپنانے   کی ترغیب دے کر اخروی کامیابی کی راہ پر گامزن کیا   اسی طرح لوگوں کی فلاح و بہبود کے کے لئے بھی بہت موثر اقدامات کیے۔  آپ ﷺ  نےسب سے پہلے عبادتِ خد اکی انجام دہی اور ور لوگوں کے درمیان باہمی ارتباط قائم کرنے کے لئے مسجد بنائی اور اسلامی تہذیب وتمدن  کو غلبہ دینے کے لئے اسلامی حکومت قائم کی اور پھر اسلامی حکومت کی تقویت،امن و امان کے قیام اور مسلمانوں کی حفاظت کی خاطر سپاہِ اسلام تشکیل دی۔      رسولِ خدا ﷺ  نےقانون سازی  اور حقو ق  کے تعیّن کے ذریعے اخلاقی جرائم کا سدِّباب کیا  اور محبت ودوستی،  پیمان اخوت اور صلح کی ترغیب کے ساتھ معاشرے میں امن و امان قائم کیا۔ آپ  ﷺ   نے اسلامی حکومت کہ قدرت مند بنایا،  زراعت اور تجارت کو فروغ دے  کر مسلمانوں کی معاشی حالت کو بہتر کیا  اور مفاداتِ عامہ، تعلیم و تربیت ،  حفظانِ صحت  اور لوگوں کو کاروبار کی فراہمی کے لئے   بھی انتہائی مفید و موثر اقامات کئے۔
کلیدی الفاظ:  پیغمبر، اسلام،  اقدامات سیاسی، فلاح وبہبود، اسلامی معاشرہ۔

مقدمہ
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین و خاتم النبیین ابی القاسم محمد، وعلی آلہ الطیبین الطایرین  المعصومین لاسیما بقیۃ اللہ فی الارضین روحی لہ الفداء

پیغمبر اسلام ﷺ کو ایک ایسے معاشرے کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا گیا تھا کہ جو جنگ و جدال قتل و کشتار اور مختلف قسم کے خرافات اور معاشرتی اور اخلاقی پستیوں میں گھرا ہوا تھا. معاشرے میں معاشی وسائل کا فقدان تھا، مناسب رہائش میسر نہ تھی اور ہجرت و سفر کے لئے وسائل مہیا نہ تھے. یہ تمام امور معاشرے کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھے.
پیغمبر اسلام ﷺ نے ان تمام مسائل کے حل کے لیے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھ کر اسلامی تہذیب و تمدن کو رواج دیا اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا.
آپ ﷺ نے اپنی رسالت کے 23 سالوں میں اللہ تعالی کے نجات بخش احکام کی تبلیغ کی. ہر وہ چیز جو انسان کی خوش بختی اور اسے کمال تک پہنچانے کے لئے مؤثر اور لازم تھی اس کو بیان کیا اور جو چیزیں انسان کی سعادت مندی میں رکاوٹ تھیں خواہ مادی حوالے سے ہوں یا معنوی لحاظ سے ہوں ان کو بھی واضح طور پر بیان کیا۔ انسان کو کمال تک پہنچانے کے لیے نجات کا راستہ دکھایا اور تباہی سے بچنے کے لیے راہ حل تعلیم فرمایا.
 آپ  ﷺنے اسلام کے نام سے موسوم ایک ایسا نظام متعارف کروایا جو عدل و انصاف، آزادی و خود مختاری، پاکیزگی اور طہارت، خوبصورتی و کمال، محبت اور دوستی، رأفت و رحمت، صداقت و امانت، استقلال و استقامت، شہامت و قدرت، اور ایثار، عشق اور شہادت جیسے فصائل کا سر چشمہ ہے. اور شرک، ہوس پرستی، استعمار، سرمایہ کاری، ذخیرہ اندوزی، ظلم، جہل اور تمام برائیوں کے خلاف قیام کی ابتدا بھی دین اسلام نے ہی کی ہے.معاشرے کی ترقی میں انسانی کردار کو اجاگر کرنا
نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے قرآنی تعلیمات کے ذریعے لوگوں پر معاشرے کی ترقی میں ان کے کردار کو اجاگر کیا. اور ان کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ معاشرے کی ترقی اور تنزلی کا اصلی عامل انسان ہے. انسان کا مقصد اور ارادہ ہی ہے کہ جو فردی یا اجتماعی تغییر و تبدل کا باعث بنتا ہے. اس نظریے کے مطابق انسان کے اوپر ہے اللّٰہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی طرف سے کچھ ذمہ داریاں ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے: «كُلُّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡ رَهِینَةٌ؛ ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے»([1])
تمدن سازی کے لیے معاشرے کو ذمہ دار اور وظیفہ شناس افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو مصمم ارادے اور عمدہ فکر کے ساتھ معاشرے کی ترقی کے لیے سرگرم عمل رہیں اور اپنے عقائد اور تفکر کو معاشرتی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ کریں اور معاشرے میں تبدیلی اور ثقافت  کو وسعت دینے کے درپے ہوں.
دور جاہلیت میں ایک فرد کا عمل پورے قبیلے کا عمل تصور کیا جاتا تھا مثلا اگر کسی آدمی نے کوئی قتل یا کوئی جنایت کی ہے تو بجائے اس کے کہ فقط اس مجرم شخص کو سزا دی جاتی،  پورے قبیلے کو اس کا تاوان ادا کرنا پڑتا تھا اور قبائلی تعصب کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی. یہی جاہلانہ حمیت لوگوں کی فکری ترقی اور انسانی افکار کی ایجاد میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی. ([2])
لیکن پیغمبر اسلام ﷺنے   «أَلاَّ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَأُخْرَى‌؛کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا»([3])کی بنیاد پر اس تفکر کو ختم کیا، کیونکہ عرب قبیلوں کے نا معقول اور نامناسب کردار کا باعث یہی منفی تفکر تھا. اسی قانون کی بنیاد پر ہی آپ نے لوگوں کے ارادوں کو تبدیل کیا ان کو اپنے اصلی اور اعلی مقصد یعنی اللہ تعالی کی شناخت کرائی ۔جس کے ذریعے عرب کے اس جاہل معاشرے میں انقلاب برپا کیا اور ان جنگجو اور وحشی صفت لوگوں میں سے ایسے باایمان، باوقار اور قدرتمند لوگ پیدا کیے کہ وہ جس میدان میں بھی جاتے کامیابی ان کا مقدر بن جاتی تھی.
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے معاشرتی علوم کے ماہر «گی راچر» نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: «سوشیالوجی کی نگاہ میں وہ تبدیلی کہ جو کسی چیز کی ساخت اوربنیاد میں واقع ہوئی ہو انقلاب کے مترادف ہے»۔([4])
اسپولر برٹلڈ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: پیغمبر اسلام ﷺ نے ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی کہ جس میں میں قبیلے، عشیرہ، طائفہ اور سلطنت کی جگہ فرد، خاندان اور امت نے لے لی اور قبائلی نظام اگرچہ کلی طور پر ختم نہیں ہوا لیکن امت کے نام سے ایک بڑی اکائی میں مدغم ہو گیا کہ جو اسلام کے ماننے والوں اور اس کے پیروکاروں پر مشتمل تھی اور دینی تمایل کی وجہ سے ایک نئی پہچان دریافت کی. ([5])
فلیپ خلیل حتی نے نئے وجود میں آنے اسلامی معاشرے کی یوں تعریف کی ہے: ایسا سیاسی و سماجی نظام وجود میں آیا کہ جس کے روابط کا معیار، نسلی و خونی نسبت کی بجائے رابطہ دینی و ایمانی تھا. ([6])

مسجد کی تأسیس
رسول خدا ﷺ  کا مدینہ میں ہجرت کے بعد معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے سب سے پہلا اقدام مسجد کی تعمیر اور اسے اسلامی ثقافتی مرکز قرار دینا ہے. چونکہ آپ ﷺحکومت اسلامی کی تشکیل دینا چاہتے تھے اسی لئے مدینہ میں آمد کے پہلے دن ہی مسلمانوں سے مسجد کی تعمیر کے بارے میں اپنی خواہش کا اظہار کیا. ([7])
مذہبی، اعتقادی اور معاشرتی طرز عمل کو بطور نمونہ پیش کرنے اور اس کے اثبات کے لئے سب سے اہم اور مؤثر اجتماعی عنصر، مساجد ہیں. یہ عظیم مرکز روز تاسیس سے ہی اپنے تغییر ساز اور محقق کردار کے باعث معاشرتی ترقی، شرک کے قلع قمع اور اتحاد امت کے لئے موثر ثابت  ہوا اور تعلیم و تربیت کے مواقع کی فراہمی میں اور معاشرتی مسائل پر بحث کرنے کے لئے اہم مقام قرار پایا.([8])
در حقیقت پیغمبر اسلام ﷺایک ایسا  مرکز قائم کرنا چاہتے تھے کہ جس میں حزب اسلامی کے تمام اراکین ہفتے میں ایک بار جمع ہوں اور اسلام و مسلمین کے مفادات کے لیے مشاورت کریں.  مسجد تمام تر سیاسی، سماجی اور فوجی سرگرمیوں کا مرکز تھی. اگر پیامبر ﷺ کوئی عہد و پیمان باندھتے،  اسلامی معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی بھی فیصلہ کرتے یا بعض امور کے بارے میں کوئی حکم صادر فرماتے تو اس کا اعلان مسجد میں ہوتا تھا. در اصل مسجد کو مسلمانوں کے لئے اطلاع رسانی کا ایک بہترین مرکز شمار کیا جاتا تھا. اگر کسی شخص نے پیامبر اسلام ﷺ  سے کوئی  سوال پوچھنا ہوتا یا اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا  ،   تومسجد میں آ جاتا تھا.  ([9])
مسجد کی تعمیر سے مسلمانوں کے لئے ایک دوسرے سے مرتبط رہنے ، اپنی مشکلات  اورمسائل پر بحث  کرنے میں آسانی ہو ئی اور مشرکین کے سامنے اپنی طاقت کے اظہار میں بھی مدد ملی.اسلامی حکومت کا قیام
پیغمبر اکرم ﷺ  کے لئے  حکومت اسلامی کے قیام کے بغیر اپنے عظیم مقصد تک پہنچنا ممکن   نہ تھا ۔اسی وجہ سے آپﷺ  نے مدینہ میں ہجرت کے بعد اسلامی تہذیب و تمدن کو رائج کرنے، دین اسلام کو عالم پر غالب کرنے،  معاشرے میں عدالت کے قیام اور مسلمانوں کے حقوق اور ان کی جان و مال کے تحفظ کے لیے مدینہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی. ایک ایسی حکومت کہ جس کے تمام  قوانین و ضوابط، اصول وفروع  اور معاشرتی، اقتصادی، نظامی، سیاسی اور مذہبی اصولوں کی بنیاد دین اسلام پر تھی، رسول اللہ ﷺ کی حکومت میں دین اسلام عملی صورت میں نظر آتا تھا. درحقیقت ان کی حکومت کا دوسرا نام دین، اور دین کا دوسرا نام ان کی حکومت تھی.([10])
جو لوگ دین کو سیاست سے جدا سمجھتے ہیں ان کے برخلاف؛ دین فقط نصیحتوں اور فردی  مسائل کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور عالمی اصولوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے کہ جو انسان کی تمام زندگی اور بالخصوص معاشرتی اور سیاسی مسائل پر مشتمل ہے.
دین کا   کام مستضعفین اور ستم زدہ لوگوں کو ظالموں کے چنگل سے نجات دلانا اور ستمگاروں کی حکومت کا خاتمہ ہے. پس واضح ہے کہ ان عظیم اہداف کا حصول اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں تھا. کون ہے جو اس عظیم اور مقدس ہدف کا تعاقب کرے، کون  ہے جو اپنی نصیحتوں کے ذریعے عدل کا نظام کا قائم کرے، کون ہے جو قید اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے قیدیوں کے ہاتھ اور پاؤں کو آزاد کرے  اور ان زنجیروں کو توڑ ے، جس جہان میں تہذیب و تمدن کی ترویج کے تمام وسائل اور ذرائع ابلاغ بد تہذیب، مفسد اور تباہ کار لوگوں کے ہاتھ میں ہوں، کون ہے جو اس صورتحال میں عدالت اور آزادی کے صحیح اصول اور تعلیم و تربیت کی درست روش کو رائج  کرے اور کمالات اخلاقی کو لوگوں کے دلوں میں پروان چڑھائے. تو معلوم ہوا کہ ان تمام امور کو فقط وہی شخص انجام دے سکتا ہے جس کا انحصار تنظیم اور اقتدار پر ہو.
اگر رسول خدا ﷺ  دین کو تیزی کے ساتھ عالم میں پھیلانے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے حکومت کا ابتدائی ڈھانچہ بنانے اور اس کے حصول کے بعد پہلی فرصت میں حکومت کی بنیاد رکھی اور حکومت اسلام کے اتحاد اور قدرت کے وسیلہ سے ان اہداف کا تعاقب کیا.سپاہ اسلام کا قیام
کسی بھی ملک کے سیاسی استقلال کے لیے، اس کے حاکم کی کامیابی کا اصلی عامل ایک طاقتور فوج کا قیام ہے تاکہ دشمن کے مقابلے میں اپنے ملک کی کی حدود کی حفاظت کر سکے اور اپنے ملک کے باشندوں کے لیے ایک پر اطمینان زندگی گزارنے کا ماحول پیدا کر سکے.
پیغمبر اسلام ﷺ نے اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی حکومت کی تشکیل کے بعد سپاہ  اسلام قائم کی تاکہ ظالموں اور ستم گروں کے خلاف جہاد کر سکیں اور مستضعفین کو تحفظ فراہم کر سکیں.
نبی اکرم ﷺ  کے لیے ان اہداف کا حصول فقط ایک منظم، مسلح اور قوی فوج کے وجود سے ہی ممکن تھا.([11])
اگرچہ اس زمانے میں پیغمبر ﷺ  کے پاس ایک ہم آہنگ اور جنگی فوج موجود نہ تھی، جو لوگ بھی جنگی مہارت رکھتے تھے جنگ میں شریک ہوتے تھے.  ([12])
اس کے باوجود پیغمبر ﷺ ہمیشہ اپنی فوج کو مسلح کرنے اور اسے جنگ کے لئے آمادہ کرنے کے درپے رہتے تھے اور جہاں بھی نئے اسلحے کی خبر ملتی تو اسے خریدنے کی کوشش کرتے، حتی کہ اپنی فوج کی ضروریات پورا کرنے کے لیے حکومتی اموال میں سے بھی خرچ کرتے تھے.
تاریخ یعقوبی اور سیرت ابن ہشام میں آیا ہے کہ بیت المال کی آمدنی کا کافی حصہ جنگی امور پر صرف ہوتا تھا جیسے فوج کے لیے اسلحے کی فراہمی اور ان کی خورد و نوش کے اخراجات وغیرہ۔ ([13])قانون سازی
کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی، معاشرتی برائیوں پر قابو رکھنے، اس میں رہنے والے افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایک مناسب قانون کی ضرورت ہوتی ہے. تاکہ معاشرے کے افراد اس پر عمل کرتے ہوئے ایک پرسکون زندگی گزار سکیں.
رسول  خدا ﷺ کا وظیفہ انسانوں کو کمال کی آخری حد اور سعادت تک پہنچانا تھا جیسا کہ ان کے بعثت کے مقصد سے واضح ہے لہذا وہ اپنے ساتھ ایسا قانون لائے تھے کہ انسان کو کمال تک پہنچانے کے لئے جس کی اشد ضرورت تھی.
قوانین کی جو کتاب آپ ﷺ ساتھ لائے تھے اس میں انسان کے کمال اور سعادت مندی تک رسائی، اور جہالت، شرک، نفاق بے عدالتی، تفرقہ اور اس قسم کی دوسری اخلاقی پستیوں سے نجات کا مکمل راہ حل موجود تھا.
اس کتاب کی قانون سازی کرنے والی خود اللہ تعالیٰ کی علیم حکیم اور قادر ذات تھی اور اس قانون کو لوگوں تک پہنچانے اور معاشرے میں اس کا اجراء کرنے والے رسول اعظم ﷺ تھے لہذا اس پر عمل کرنا سعادت انسانی کی ضمانت تھا. اس قانون میں انسان کی زندگی کے تمام شعبہ جات، خواہ فردی ہوں یا اجتماعی، سب کو مدنظر رکھا گیا تھا. جو چیز یں انسان کی خوشبختی اور سعادت کا باعث بنتی ہیں یا انسان کی شقاوت اور بدبختی کے عوامل میں سے ہیں،  سب کچھ اس کتاب میں بیان کیا گیا تھا. ([14])
صدر اسلام میں معاشرے کی ترقی و خوشحالی کے لئے حضور اکرم ﷺ کی خدمات کا اندازہ ان کی لوگوں کے باہمی روابط اور معاملات میں آسانی کے لئے وسیع قانون گذاری  کرنے سے لگایا جا سکتا ہے. آپﷺ  نے انصاف کی فراہمی، وکالت وضمانت، مساقات و مزارعہ، مضاربہ اور اجارہ وغیرہ اور اسی طرح مالی احکام جیسے خمس، زکات، خراج اور جزیہ وغیرہ کو اسلامی معاشرے میں رائج کیا.([15])حقوق کا تعین
پیغمبر اسلام ﷺ  کا ایک اور اقدام کہ معاشرے پر جس کے حیرت انگیز اثرات مرتب ہوئے وہ معاشرتی قوانین کو وضع کرنا یا ان کی اصلاح کرنا ہے. اس دور میں خواتین معاشرے کا کمزور ترین طبقہ شمار ہوتی تھیں اور ان کے حقوق کا لحاظ نہیں کیا جاتا تھا. آپ ﷺ نے قرآن کی تعلیمات کی بنیاد پر پر جاہلانہ رسومات کے خلاف قیام کیا اور خواتین کے حقوق متعین فرمائے. 
سب سے اہم مسئلہ وارثت کا تھا. عرب اپنی غلط اور غیر منصفانہ رسومات کی وجہ سے خواتین اور بچوں کو وراثت سے محروم رکھتے تھے. قرآن مجید نے اس ناجائز قانون کو باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا: لوگوں کو چاہیے کہ ان کے ماں، باپ یا قریبی رشتہ دار جو مال چھوڑ کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ان میں سے کچھ حصہ خواتین کو بھی دیں خواہ کم ہو یا زیادہ. اور اس بات کی تاکید کی کہ کسی کو دوسرے کا حصہ غصب کرنے کا حق حاصل نہیں ہے.([16])
اللہ تعالی نے بیٹوں اور بیٹیوں کی وراثت کے حکم کو بیان کرتے ہوئے سورہ نساء میں فرمایا ہے: «لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَیَیۡنِ؛ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے» اس آیت کا اشارہ فقط اس بات کی طرف نہیں ہے کہ خواتین کا وراثت حاصل کرنا مسلم حکم الہی ہے. بلکہ اس آیت میں خواتین کی وراثت کو اس قانون شرعی کی بنیاد قرار دیا گیا ہے اور مرد کی وراثت کو عورت کی وراثت کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے تاکہ مرد اپنی وراثت کی مقدار معلوم کرنے کے لیے پہلے عورت کی وراثت معلوم کرنے کے محتاج ہوں. ([17])
اس  کے  علاوہ اور بھی بہت ساری آیات میں خواتین کے حقوق بیان ہوئے ہیں، پیامبرﷺ  نے ان احکامات کو معاشرے میں جاری کیا اور جاہلانہ رسومات کا خاتمہ کیا.محبت اور دوستی کی فضا قائم کرنا
معاشرے کی خوشحالی، امن و امان کے قیام اور ترقی کے لیے محبت کا عنصر  بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے. دلوں میں الفت ڈالنا اور روحوں کو آپس میں جوڑنا ایک مشکل کام ہے. بالخصوص ان افراد کے درمیان دوستی کو قائم کرنا کہ جو طویل مدت تک ایک دوسرے کے ساتھ جنگ اور قتل و کشتار میں مشغول رہے ہوں. لیکن پیغمبراسالم ﷺ  نے نرمی اور شائستگی سے دلوں کو متحول کیا اور حق کی طرف مائل کیا. پیغمبرﷺ کو ایسی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا گیا تھا کہ اگر ان میں سے کسی آدمی کو کوئی ایک تھپڑ مارتا تو اس کی وجہ سے جنگ و خونریزی کا بازار گرم ہو جاتا تھا. لیکن ان کا یہ عظیم معجزہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالی پر ایمان کے باعث ان دشمنیوں کو ختم کیا اور باہمی محبت اور دوستی کو رائج کیا کیا. ([18])
اگر پیغمبر ﷺ مکہ اور مدینہ کے مسلمانوں کے درمیان محبت اور دوستی کی فضا قائم نہ کرتے تو معاشرے میں اس طرح تبدیلی واقع نہ ہوتی جس طرح آپ چاہتے تھے .
یہ رسول خدا ﷺ  کی تبلیغ  کا ہی نتیجہ تھا کہ اوس و خزرج کے دو قبیلے دیرینہ دشمنی، طویل اور خونی جنگوں کو بھول کر اسلامی تعلیمات اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں ایک دوسرے کے دوست بن گئے. بعض تاریخی منابع کے مطابق دونوں قبیلے بعد میں مسلمان ہوگئے اور اسلام کی خدمت میں میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتے تھے. اگر  اوس قبیلہ والے دین کے لئے کوئی کام کرتے تھے تو قبیلہ خزرج کے لوگ  اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتے تھے جب  تک اس سے بڑھ کر کوئی خدمت انجام نہ دیں.([19])
 
قرآن مجید میں ایک مقام پر ان  دو قبیلوں کی دوستی کو یوں بیان کیا گیا ہے:
«وَ أَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَ لٰکِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَکِيمٌ‌؛ اور ان کے دل ایک دُوسرے کے ساتھ جوڑ دیے تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے» ۔([20])صلح کی ترغیب
پیغمبراسلام ﷺ  ہمیشہ لوگوں کو باہمی اختلاف ختم کرنے اور صلح کرنے اور راہ اعتدال اختیار کرنے کی تلقین فرماتے تھے. جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو صلح کا عنصر آپ ص کی سیرت میں نمایاں نظر آتا ہے.
رسول خدا ﷺ   کا ہدف کلمہ توحید کو جہان کے کونے کونے میں پہنچانا اور لوگوں کو طاغوت کے چنگل اور جہالت سے نکال کر ابدی سعادت اور کمال انسانی تک لے جانا تھااسی وجہ سے آپ  ﷺ جنگ شروع ہونے سے پہلے دشمن کو اسلام کی طرف دعوت دیتے تھے اور کبھی بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ جنگ کا آغاز مسلمانوں کی طرف سے ہو.
جنگ سے پہلے اسلام کی دعوت دینا فقط ایک نظر یہ نہیں ہے بلکہ اگر تاریخ اسلام کی تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک حقیقت ہے اور پیغمبر اسلام ﷺ  تمام جنگوں میں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے. ([21])
اگر جنگ کے درمیان دشمن کی طرف سے صلح اور جنگ بندی کی پیشکش ہوتی تو آپ  ﷺ اللہ تعالی کے اس واضح قانون؛
 «وَإِن جَنَحُوا۟ لِلسَّلۡمِ فَٱجۡنَحۡ لَهَا وَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِیعُ ٱلۡعَلِیم؛ (اور اے نبیؐ) اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقیناً وہی سننے اور جاننے والا ہے» ([22])
کی بنا پر ان کی پیشکش کو قبول کرلیتے تھے. تاریخ اسلام میں رسول خدا ﷺ کی اس سیرت حسنہ کے بے شمار نمونے موجود ہیں جیسے صلح حدیبیہ اور نجران کے نصرانیوں کے ساتھ باندھا گیا پیمان نامہ وغیرہ.امن و امان کا قیام
امن و امان کا قیام کسی بھی معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے اس  کے حصول کے لیے انسان کا مسلسل جدوجہد کرنا اس کی اہمیت کی دلیل ہے ۔  امن و امان کا قیام  ہر حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ امنیت کی مختلف جہات ہیں جیسے امنیت سیاسی، امنیت اقتصادی و مالی وغیرہ.
مدینہ میں وارد ہونے کے بعد پیغمبرخدا ﷺ کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے اہم مسئلہ مدینہ میں امن کا نہ ہونا ہے لہذا پآپ ﷺ  کے لئے ضروری تھا کہ امن و امان کے قیام کے لیے اقدامات کریں.
رسول اللہ  ﷺ نے قرآن کی تعلیمات کے زیر سایہ قانون گذاری کی، اسلامی معاشرے میں امن کے قیام کے لیے مسلمانوں کو ان احکامات کی پاپندی کرنے کا حکم دیا اور مختلف قبیلوں کے ساتھ صلح کے معاہدے کیے اور عدالت کے قیام کے ساتھ معاشرے میں افراد کی جان و مال کو تحفظ فراہم کیا اور مسلمانوں اور اسلامی حکومت کی حفاظت کے لئے سپاہ اسلامی تیار کی تاکہ مسلمان، دشمنوں کے حملے سے محفوظ رہیں اور اطمینان سے زندگی گزار سکیں.پیمان اخوت
رسول خدا ﷺ کا ایک معجزہ آسا کارنامہ اخوت و برادری قائم کرنا ہے. پیغمبرﷺ نے مہاجرین کی مالی حالت کے مدنظر انصار اور مہاجرین کے درمیان اخوت کو قائم کیا اور ایک مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنا دیا. اس پیمان میں انصار سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ اپنے مہاجر بھائی کی ہر حوالے سے مدد کرے گا. ([23])
اخوت کے عہد کے ساتھ ، مذہبی حدود نے قبائلی اور خاندانی حدود کی جگہ لے لی.  ([24])
پیغمبر اکرم ﷺ  کے اس مدبرانہ اور حکمت آمیز اقدام کے ذریعے سے ایک تو  مہاجرین مکہ کی مشکلات کافی حد تک حل ہو گئیں اور ان کی غریت کا خاتمہ ہوا. مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کی تھی لہذا ان کے پاس مال و اسباب کچھ بھی نہیں تھا تو اس حالت میں آپ ﷺ کے اس اقدام کے ذریعے ان کو معاشی طور پر بھی مدد ملی  اور کچھ عرصے کے بعد وہ اپنے لیے رہائش کی جگہ بنانے میں بھی کامیاب ہوئے. اور دوسرا یہ کہ اس عہد کے باعث مدینہ میں امن و امان اور محبت و دوستی کا ماحول وجود میں آیا جس کے نتیجے میں اسلامی تہذیب کی ترویج میں مدد ملی.
پیغمبر خدا ﷺ ایسے لوگوں کے درمیان اور ایسے معاشرے میں رہتے تھے کہ جہاں تمام گروہ، قبیلے اور قومیں ایک دوسرے کے مخالف تھیں اور قتل و غارت، جنگ و جدال اس معاشرے کا حصہ تھا ۔    بچیوں کو ننگ و عار کا باعث سمجھا جاتا تھا اور انہیں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ وہ معاشرہ  اس قسم کی اور بھی بہت سی اخلاقی پستیوں میں گھرا ہوا تھا یہاں تک کہ وہ اپنی ان جنایات پر فخر و مباہات کرتے تھے لیکن رسول اکرم ﷺ نے خدا پر ایمان اور اس کی اطاعت کی بنیاد پر ایسی وحدت ایجاد کی کہ  تاریخ بشریت میں اس کی مثال نہیں ملتی. تمام عالم کے دانشور حضور ﷺ کے اس اقدام کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کو ایک معجزہ شمار کرتے ہیں.
مسلمانوں نے   برادری  ، وحدت اور پختہ ایمان و عقیدہ کے باعث ایسی قدرت حاصل کی کہ تمام عالم کی طاقتور حکومتیں ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئیں. ([25])تعلیم و تربیت
پیغمبر اسلام ﷺ  نے لوگوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ توجہ دی. آپ ﷺ کی نگاہ میں تعلیم کی جو اہمیت تھی اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ص نے جنگ بدر کے بعد جنگی قیدیوں سے فرمایا: اگر تم سے ایک شخص، دس آدمیوں کو پڑھنا لکھنا سکھائے تو اسے آزاد کر دیا جائے گا. ([26])
تعلیم و تربیت سے انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے اور وہ کمال کی راہ پر گامزن ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرہ ترقی کرتا ہے. آپ ﷺ نے دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم پر زور دیا.
رسول خدا ﷺ لوگوں کی تربیت کے لیے الہی فکر کے حامل، وظیفہ شناس، قدرتمند، تاثیرگذار اور تخلیقی ذہن رکھنے والے افراد کے انتخاب کا حکم فرماتے تھے تاکہ معاشرتی اور مادی عوامل پر قابو پا کر الہی تہذیب کو رائج کیا جا سکے. ([27])اقتصاد کو بہتر بنانے کے لئے اقدام
مکہ میں اقتصادی پابندیوں اور مشرکان کی بد رفتاری اور دیگر مختلف عوامل کی بنا پر مسلمان مالی لحاظ سے ضعیف تھے. اور پھر ہجرت کے مخفی ہونے کی وجہ سے جو کچھ مال اسباب ان کے پاس تھا وہ بھی وہیں چھوڑکے چلے آئے.
پیغمبر اسلام ﷺنے مدینہ میں نئے اسلامی معاشرے کی ضروریات کے پیش نظر، اپنی سیاسی حکمت عملی کے ذریعے اقتصادی مسائل کو حل کیا. ایک طرف سے آپ  ﷺ آمدن کے نئے منابع دریافت کرنے کے درپے تھے تو دوسری طرف مسلمانوں کے فقر کو ختم کرنے، ان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے اور ان کی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے لیے کوشاں تھے.
 حضور ﷺ  کا مناسب حکمت عملی اور مؤثر طرز عمل کے ذریعے معاشرے  سے طبقاتی فاصلوں کو ختم کرنے اور عدالت اور امنیت کے قیام جیسے بہترین  اقدامات معاشرے کی تعمیر و ترقی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے کارآمد ثابت ہوئے.
پیغمبر اکرمﷺ  نے مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ایسے اقدامات کئے کہ تمام مسلمان ایک مناسب آمدنی کے حامل بنے اور بعد میں اپنے ذاتی گھر اور کاروبار کے مالک بن گئے. ([28])
یہاں تک کہ سال نہم ہجری میں مسلمانوں پر خمس و زکات ادا کرنے کو لازمی قرار دیا گیا.  ([29])
پیغمبرﷺ  کا مواخات قائم کرنا، تجارت کو فروغ دینا اور زراعت کا پیشہ اختیار کرنے کی تلقین کرنا بھی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر ثابت ہوا.قدرت و توانائی کا حصول
زندگی کے مختلف شعبوں میں قدرت اور توانائی حاصل کرنا تمدن اسلامی کے نقطہ نگاہ سے مورد تاکید ہے.
دین اسلام نے جس قدر اپنے پیروکاروں کو زندگی کے مختلف شعبوں میں قدرت و توانائی حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے اتنی کسی اور دین نے نہیں دی. اور دین اسلام کی طرح اس مسئلے میں کسی اور دین کو اتنی کامیابی حاصل نہیں ہوئی.   ([30])
صدر اسلام میں مسلمانوں نے اہل روم اور یونان سے بڑی تیزی کے ساتھ فوجی اور جنگی مہارت سے سیکھیں اور ان کے صف میں کھڑے ہو گئے اور ہر شعبے میں کامیابی حاصل کی. ([31])معیارِ زندگی کہو بحتر بنانے کے لئے اقدامات
لوگوں کے معیارِ زندگی  کومعاشی استحکام یا معاشرے کی پسماندگی   کی بنیادی علامت سمجھا جاتا ہے۔  معیار ِ زندگی سے مراد لوگوں  کا رہن سہن، کھانا پینا   ، لباس اور اس قسم کے دوسرے امور ہیں ۔ جس معاشرے میں عوام کے لئے اچھی  زندگی گذارنے کی سہولیات  اور اسباب موجود ہوں  اسے متمدن اور مستحکم معاشرہ سمجھا جاتا ہے اور جس میں  زندگی کے اسباب و امکانات   کم ہوں اسے پسماندہ معاشرے کا نام دیا جاتا ہے۔ 
پیغمبر اکرم ﷺ  نے  خطّہء  عرب کے لوگوں کوایک ایسے طرزِ زندگی سے متعارف کروایا اور اس  کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کی کہ جس میں انسان کی تمام انفرادی اور معاشرتی ضروریات پوری ہوں ۔
رسولِ خدا ﷺ  نے مسلمانوں کو مادی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے،تجارت و صنعت کے ذریعے نفع حاصل کرنے،معیشت کو بہتر بنانے اور املاک ودولت محفوظ کرنے کی دعوت دی۔[32]
 مسلمانوں کے اچھے طرزِ زندگی اور معاشیات کی بہتری پر توجہ دینا  اور ان کی مالی و معاشی پسماندگی اور غربت کا خاتمہ کرنا نبی اکرم ﷺ   کے لئے سب سے بڑا مسئلہ تھا ۔ آپ ﷺ   نےمسلمانوں کی ابتدائی ضروریات جیسے کھانا، مکان اور لباس مہیا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ [33]
پیغمبرِ اسلام ﷺ  نے مدینہ میں اسلامی حکومت کے قیام کے ساتھ ایک نئے اصولوں اور نظریات پر مبنی اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔
اسلام نے تہذیب اور اجتماعی زندگی کی ترغیب دی اور قدامت پسندی سے منع فرمایا۔[34]
چونکہ اسلام نے احکام و مقرّراتِ اسلام سے دوری کی بنا پر بادیہ نشینی کی مذمّت کی ہےلہذا پیغمبر ﷺ   معاشرے میں موجود افراد کے لئے شہر نشینی اختیار کرنے کی راہ ہموار کی۔ دین اسلام کے اس دستور پر عمل کرتے ہوئے بادیہ نشین عربوں نے بادیہ نشینی اور اعرابیت کوترک کر کے شہروں کا رخ کیا اور شہری باشندوں نے بھی شیری زندگی کے وسائل مہیّا کرنے کے لئے کوشسیں کیں اور ایک متمدّن معاشرہ  وجود میں آیا۔ زراعت کو فروغ دینا
زراعت کا پیشہ ملکی اقتصاد کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ملک کو معاشی اور اقتصادی طور پر قوی کرنے میں زراعت کا اہم کردار ہے.
رسولاکرم ﷺ  کے سیاسی اقدامات میں سے انسانی تمدن سازی کے لئے ایک اصلی عامل زراعت پر توجہ دینا بھی تھا۔([35])
خطہ عرب کی بنجر اور سخت زمین زراعت کے لیے اتنی ساز گار نہیں تھی فقط کچھ علاقوں میں زراعت ممکن تھی لیکن اس کے باوجود بھی پیغمبر اسلام ﷺ  اپنی حکمت عملی کے ذریعے چوپان اور خانہ بدوش لوگوں کو زراعت کی طرف لانے میں کامیاب ہوئے.
جب پیغمبر  اسلام ﷺ  نے مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت کو قائم کیا اس وقت انصار نے اپنی جائیداد کا نصف حصہ اپنے مہاجر بھائی کو دینے کا اعلان کیا لیکن پیغمبر اسلام  ﷺ نے انہیں روک دیا اور انصار اور مہاجرین کے درمیان مزارعہ اور مساقات کا معاہدہ قائم کیا. حضور ﷺ  اس حکمت آمیز اقدام سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ انصار کی زمین انہی کے پاس رہی اور اس کے ساتھ ساتھ مہاجرین کو بھی روزگار مل گیا. بجائے اس کے وہ انصار پر بوجھ بنتے، انہوں نے انہیں زمینوں میں مزارعہ کے طور پر کام کیا جس سے تمام مسلمانوں کو فائدہ ہوا اور مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی.حفظانِ صحت کے لئے اقدامات
علاج و معالجہ ایک معاشرتی و انسانی ضرورت اور دینی و عقلی وظیفہ ہے.
اسلام کی تاریخ میں وہ پہلا مقام کہ جس کو ہسپتال یا مریضوں کی دیکھ بھال اور زخمیوں کی مرہم پٹی کے لئے مخصوص کیا گیا تھا،  وہ مسجد نبوی   ص ہے.  ([36])
پیغمبرِ اسلام ﷺ  کا ایک اہم وظیفہ لوگوں کی سلامتی اور ان کی صحت کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنا ہے جسےجسے آج کے دور میں انشورنس کہا جاتا ہے۔ آپ ﷺ  نے غریب اور نادار لوگوں کی فلاح کے لئے بیت المال کی آمدنی کا کچھ حصّہ مختص کیا تھا  تا کہ غریب لوگ آسانی سے زندگی گذار سکیں۔[37]مفادات عامہ کے لئے خدمات
پیغمبر خدا ﷺ  نے جس طرح اقتصاد کو بہتر کرنے اور امن و امان کے قیام کے لئے اقدامات کئے اسی طرح مفادات عامہ کے لیے بھی خدمات انجام دیں. آپ ﷺ نے مفاد عامہ کے کام انجام دے کر لوگوں کے درمیان محبت ایجاد کی. آپ ﷺ  لوگوں کو عمومی کاموں کی ترغیب دے کر لوگوں کے دلوں سے مال و دنیا کی محبت کو ختم کر دیتے تھے اور اسی طرح نیک اعمال کا ثواب بیان فرما کر اسلامی اقدار کو لوگوں کو لوگوں کے ذہن میں بٹھا دیتے تھے.
مدینہ میں «چاہ رومہ» کے علاوہ اور کوئی کنواں نہیں تھا یہ کنواں بنی مزینہ کے ایک شخص کی ملکیت تھا.
لوگوں کے استعمال کے لیے تازہ پانی دستیاب نہیں تھا  ۔لوگوں کے لیے اس کنویں سے پانی خریدنا ضروری تھا. حضورﷺ  نے فرمایا: کون ہے جو «چاہ رومہ» کو خریدے تاکہ وہ خود اور دوسرے مسلمان اس سے استفادہ کر سکیں اور خدا وند جنت میں اس سے بہتر اسے عطا فرمائے گا. تو ایک مسلمان نے وہ کنواں خریدا اور تمام مسلمانوں امیر و غریب کے لیے وقف کر دیا. ([38])
مختلف قسم کے ذیلی اور بنیادی امور، جیسے مکان بنانے کے لئے لیے زمین کی تقسیم، بازار کے لیے ایک جگہ کا مختص کرنا اور عمومی حمام کی تعمیر کرانا بھی سرکاری اخراجات میں شامل تھا. ([39])بازار کا قیام
پیغمبراسلام ﷺ نے لوگوں کے لئے ایک عمومی   بازار بھی قائم کیا ایک دن ایک شخص  آپ ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میری نظر میں بازار کے لئے ایک مناسب جگہ ہے کیا آپ اس کا مشاہدہ نہیں کریں گے آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ چل دیئے یہاں تک کہ اس مقام تک پہنچ  گئے ۔ آپ ﷺ نے اس جگہ کو پسند کیا اور فرمایا : بازار کے لیے  یہ جگہ بہتر ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور آپ پر کوئی ٹیکس بھی لاگو نہیں کیا جائے گا۔ ([40])
آپ  ﷺ نے اجناس کی قیمتوں کو حد اعتدال پر رکھنے کے لئے خرید و فروش کے معاملے میں بعض چیزوں کی ترغیب دی جیسے بازار میں چیزیں سستی بیچنا، بغیر واسطے کے خود جا کر چیزیں خریدنا اور اجناس کو بازار میں وارد ہو جانے کے بعد خریدنا وغیرہ.([41])
آپ ﷺ خرید و فروش کے معاملات  میں شائستہ امور انجام دینے والے اشخاص کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے.  ایک شخص جو بازار میں جنس کو رائج قیمت سے کم پر فروخت کر رہا تھا  توآپ  ﷺ نے اسے  فرمایا: تم مسلمانوں کے بازار میں چیزیں سستی فروخت کر رہے ہو، آیا یہ کام تم ثواب کی نیت سے اانجام دے رہے ہو؟ اس نے جواباً کہا:  جی ہاں،  تو پیغمبر اسلام ﷺ نے اسے خوشخبری دی کہ جو بھی کوشش کرتا ہے اور بازار کو رواج دیتا ہے، وہ اس شخص  کی مانند ہےجس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو. ([42])
اور اسی طرح آپ ﷺ نے  خرید و فروش کے معاملے میں بعض چیزوں سے منع فرمایا ،  اور  ناجائز منافع کےحصول، حرام خوری اور اجناس میں ملاوٹ وغیرہ کی مذمت کی. آپ ﷺ  نے فرمایا : جو مسلمانوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت ملاوٹ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے. اللہ  تعالیٰ اس کے رزق سےبرکت اٹھا لیتا ہے اور اس کے معاش کی راہ کو  بند کر دیتا ہے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے.([43])نتیجه
اسلامی تہذیب ایک روحانی نقطہ نظر اور معرفت کے ساتھ   ایک ایسی تبدیلی اور ترقی ہے جو انسانوں کی اندرونی اور نفسیاتی تبدیلی اور پھر سیاسی ، معاشرتی ، ثقافتی اور معاشی تبدیلیوں پر مبنی ہے۔ قرآن مجید اور سیرت نبوی  ﷺ کی رو سے معاشرے میں تبدیلی اور اس کی ترقی کے لئے انسان کا اپنے ہدف کی معرفت حاصل کرنا اور اس تک پہنچنے کے لئے اپنا لائحہ عمل تیار کرنا ضروری ہے.  رسول اکرم ﷺ  اپنی حکمت عملی اور اسلامی تہذیب و تمدن کے ذریعے سے تھوڑے ہی عرصے میں عرب معاشرے کی حالت تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے. ایک جاہل معاشرے کو ایک مہذب معاشرے میں تبدیل کیا، ایسا معاشرہ تشکیل دیا کہ جو مرکزی حکومت، سیاسی، قانونی اور عدالتی تنظیموں ،  اداروں اور فیصلہ کن قوانین کا حامل ہے.
خدا وند عالم ہم سب کو  پیغمبر گرامی اسلام ﷺ کی سیرت  طیبہ کے سنہرے اصولوں پر عمل پیرا  ہو کر   اپنی دنیوی  اور اخروی زندگی کو سنوارنے  کی توفیق عطا فرمائے؛ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

  
 
 حوالہ جات
([1])  سورہ مدثر، آیت38۔
([2])  عبداللہ علایلی، بر ترین ہدف در برتن نہاد، ص65۔
([3])  سوره نجم، آیت38۔
([4])  گی راچر، تغییرات اجتماعی، ص20۔
([5])  اسپولر برٹلڈ، نظام اسلام، ص98۔
([6])  فلیپ خلیل حتی، تاریخ عرب، ص153
([7])  سیرت ابن ہشام، ج2، ص138۔
([8])  عبد السلام، اذہاب الحزن و شفاء  الصدر السقیم، ص45۔
([9])  تاریخ طبری، ج2، ص270۔
([10])  صحیح بخاری، ج1، باب حب الرسول۔
([11])  امامی، درس ہائی از دفاعی اسلام، ص34۔
([12])  حسن ابراہیم، تاریخ سیاسی در اسلام،ج1، ص460۔
([13])  تاریخ یعقوبی، ج2، ص62؛ سیرت ابن ہشام، ج4، ص891۔
([14])  ہادی دوست محمدی، مجلہ مکتب اسلام، ص59۔
([15])  عسکر حقوقی، تاریخ اندیشہ ہای در اسلام و ایران، ص78۔
([16])  ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج3، ص274۔
([17])  علامہ طباطبائی، تفسیر المیزان، ج4، ص207۔
([18])  طبرسی، مجمع البیان، ج4، ص854۔
([19])  ابن جریر طبری، تاریخ امم و ملوک، ج2، ص495۔
([20])  سورہ انفال،  آیت63۔
([21])  محمد صالح الظالمی، فقہ سیاسی در اسلام، ص53۔
([22])  سورہ انفال، آیت61۔
([23])  سید کاظم صدر، اقتصاد صدر اسلام، ص65-66۔
([24])  نورالدین حلبی، سیرت حلبیہ، ج2، ص92۔
([25])  ہادی دوست محمدی، سیرہ سیاسی پیامبر اعظم، مجلہ مکتب اسلام، ص60۔
([26])  محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج2، ص16۔
([27])  ابن اثیر شیبانی، اسد الغابہ، ج2، ص96۔
([28])  سید کاظم صدر، اقتصاد صدر اسلام، ص33-34۔
([29])  ابن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج2، ص129۔
([30])  محمود رامیار، تاریخ قرآن، ص335۔
([31])  عبدالعلی قوام، سیاست ہای مقایسہ ای، ص791۔
[32] ۔ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص۱۶۶-۱۶۷۔
[33] ۔ محمد رضا حکیمی،  الحیاۃ، ج۴، ص۱۴۰۔
[34] ۔ شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعہ، ج۵، ص۳۱۸۔
([35])  شیخ حر عامل، وسائل الشیعہ، 4، ص140۔
([36])  تقی الدین مقریزی، الخطط و الاثار، ج2، ص405۔
[37] ۔ برنامہ ریزی اقتصادی پیامبر ص ، ویکی فقہ۔
([38])  ابنِ عساکر، تاریخ مدینہ، ج2، ص104۔
([39])  حسین ابراہیمی، پژوہش و تحقیق نو در سیرہ نبی اعظم ص، ص676۔
([40])  طبرانی، معجم الکبیر، ج19، ص264۔
([41])  زکریا انصاری، فتح الوہاب، ج1ص285؛ محمد بن احمد شریینی، مغنی المحتاج، ج2، ص285؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج14، ص388۔
([42])  جلال الدین سیوطی، الجامع الصغیر، ج1، ص6390۔
([43])  شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ص286؛ حسن دیلمی، اعلام الدین، ص417۔

منابع 
قرآن

مجیدابراہیمی، حسین، پژوہش و تحقیقی نو در سیرہ نبی اعظم ص، قم، انتشارات ثقلين، 1324ش.

ابراہیمی، حسین، تاریخ سیاسی اسلام، مترجم: ابو القاسم پایندہ، تہران، ناشر: بدرقہ جاویدان، 1385ش.

ابن اثیر شیبانی، علی ابن ابی الکرم، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت،  ناشر: دار صادر، 1399ھ.

ابنِ جریر طبری، ابو جعفر محمد، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، ناشر: دار التراث، 1387ھ.

ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، ناشر دار الکتب العلمیہ، 1410ھ.

ابن عساکر، علی ابن حسن الشافی، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، ناشر: دار الفکر، 1415ھ.

ابن ہشام، عبد الملک، السیرۃ النبویہ، مترجم: سید ہاشم رسولی، تہران، انتشارات کتابچی، 1375ش.

اسپولر برٹلڈ، جہان اسلام، مترجم: قمر آریان، تہران، انتشارات امیر کبیر، 1366ش.

امامی و دیگران، درس ہائی از نظام دفاعی اسلام، تہران، ناشر: سازمان تبلیغات اسلامی، 1367ش.

انصاري،زكريا بن محمد، فتح الوهاب بشرح منهج الطلاب، بیروت، دار الفكر للطباعة والنشر،1414ھ.

بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، قاہرہ، ناشر:لجنة إحیاء کتب السنة، قاهره، 1410ھ.

حتی، فلیپ خلیل، تاریخ عرب، مترجم: ابو القاسم پایندہ، تہران، انتشارات آگاہ، 1366ش.

حقوقی، عسکر، تاریخ اندیشہ ہای سیاسی در اسلام و ایران، تہران، انتشارات ہیر مند، 1374ش.

حکیمی، محمد رضا، الحیاۃ، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1374ش.

حلبی، علی بن ابراهیم، سیرت حلبیہ، بیروت، ناشر: دار الکتب العلمية، 1427ھ.

دوست محمدی، ہادی، سیرہ سیاسی پیامبر اعظم ص(2)، مجلہ مکتب اسلام، فروردین 1386، شمارہ1.

رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، انتشارات امیر کبیر، 1362ش.

سیوطی ، عبدالرحمن بن ابوبکر، الجامع الصغير، بیروت، دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع.

شیخ حر عاملی، محمد بن حسین، تفصیل وسائل الشیعہ إلی تحصیل مسائل الشریعہ، قم، ناشر: مؤسسہ آل البیت، 1414ھ.

شیخ صدوق، محمد بن بابویہ، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، ناشر: دار الرضی، 1406ھ.

شیخ صدوق، محمد بن بابویہ، من لا یحضرہ الفقیہ، تصحیح و تعلیق: علی اکبر غفاری، قم، انتشارات جامع مدرسین حوزہ علمیہ، 1363ش.

شیرازی، ناصر مکارم، تفسیر نمونہ، تہران،  ناشر: دارالکتب الاسلامیہ، 1374ش.

صدر، سید کاظم، اقتصاد اسلام، تہران، انتشارات دانشگاہ شہید بہشتی، 1474ش.

طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی مدرسین حوزہ علمیہ، 1417ھ.

طبرانی، سلمان بن احمد، معجم الکبیر، قاہرہ، ناشر: مکتبہ ابن تیمیہ، 1404ھ.

طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تحقیق: محمد جواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، 1372ش.

طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، مترجم: ابوالقاسم پائندہ، تہران، انتشارات اساطیر، 1368ش.

الظالمی، محمد صالح، فقہ سیاسی در اسلام، مترجم: رضا رجب زادہ، تہران، ناشر: پیام آزادی، 1359ش.

عبدالسلام، مقبل مجبری، إذہاب الحزن و شفاء الصدر السقیم، قاہرہ، ناشر: دار الایمان.

علایلی، عبداللہ، برترین ہدف در برترین نہاد، مترجم: محمد مہدی جعفری، تہران، ناشر: وزارت ارشاد اسلامی، 1374ش.

قوام، عبدالعلی، سیاست ہای مقایسہ ای، تہران، انتشارات سمت، 1373ش.

گی راچر، تغییرات اجتماعی، مترجم: منصور وثوقی، تہران، نشر نی، 1370ش.

مقریزی، تقی الدین، امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال و الاموال و الحفدۃ و المتاع، بیروت، ناشر: دار الکتب العلمیہ، 1420ھ.

مقریزی، تقی الدین، احمد بن علی بن عبد القادر ، المواعظ و الاعتبار بذکر الخطط و الآثار، بیروت ناشر: دار الکتب العلمیہ، 1418ھ.

یعقوبی، احمد بن یعقوب، تاریخ یعقوبی، بیروت، ناشر: دار صادر، 1379ھ.
 

قیام امام حسین کے مقاصد  قسط 21

ج۔ مکہ سے کربلا کے راستے میں ملاقاتیں

11۔ عمر بن سعد
امام حسین علیہ السّلام نے عمر بن قرظہ نامی ایک شخص کو عمر بن سعد کے ہاں بھیجا اور اس سے رات کے وقت دونوں فوجوں کے درمیان ملاقات کی درخواست کی، عمر بن سعد نے یہ بات مان لی. رات کے وقت امام ع اپنے بیس اصحاب کے ساتھ اور عمر بن سعد اپنے بیس سپاہیوں کے ساتھ، مقررہ مقام پر پہنچے. امام حسین علیہ السّلام نے اپنے اصحاب کو واپس پلٹنے کا حکم دیا اور فقط اپنے بھائی عباس ع اور بیٹے علی اکبر ع کو اپنے ساتھ رکھا. عمر بن سعد نے بھی اپنے بیٹے حفص اور اپنے غلام کے علاوہ باقی ساتھیوں کو واپس جانے کا حکم دیا.
گفتگو کے شروع میں امام حسین علیہ السّلام نے فرمایا: اے فرزند سعد: کیا تو مجھ سے جنگ کرے گا اور اس خدا سے نہیں ڈرتا جس کے ہاں تجھے پلٹ کر جانا ہے؟
 میں کس کا بیٹا ہوں یہ تو بہتر جانتا ہے. آیا تو اس گروہ کو ترک نہیں کرنا چاہتا؟ تاکہ ہمارے ساتھ مل جائے، اور اس کے سبب قرب الہٰی حاصل کر لے. عمر بن سعد نے کہا: اگر میں اس گروہ کو چھوڑتا ہوں تو مجھے ڈر ہے کہ وہ میرے گھر کو ویران کر دیں گے! 
امام ع نے فرمایا: 
میں تیرا گھر دوبارہ بناؤں گا.
 عمر نے کہا: مجھے خوف ہے کہ میری جائیداد مجھ سے چھین لیں گے! 
امام ع نے فرمایا: سر زمین حجاز پرتیرے پاس جو اموال ہیں ان سے بہتر مال تجھے دوں گا. اور ایک اور روایت کے مطابق، 
امام ع نے فرمایا: میں «بغینجہ» تجھے دوں گا. یہ امام ع کا ایک بہت بڑا کھیت تھا جس میں بہت سے کھجوروں کے درخت اور بہت سی فصلیں تھیں. معاویہ اسے دس لاکھ دینار کے عوض خریدنے کے لئے تیار تھا لیکن امام ع نے نہیں بیجا. 
عمر بن سعد نے کہا: میں کوفہ میں موجود اپنے خاندان کے افراد کی جانوں کے بارے ابن زیاد کے غصے سے خوفزدہ ہوں. اور ڈرتا ہوں کہ کہیں ان تہہ تیغ نہ کر دے.
جب امام حسین علیہ السّلام نے دیکھا کہ عمر بن سعد اپنے ارادے سے باز نہیں آئے گا، اپنی جگہ سے اٹھے اور فرمایا:
(تجھے معلوم ہے) تیرے ساتھ کیا ہوگا! جلد ہی خدا تجھے موت دے گا، اور قیامت کے دن تیری مغفرت نہیں کرے گا، خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ عراق سے بھی تھوڑی سی مقدار میں گندم کے علاو تو کچھ نہیں کھا سکے گا (یہ جملہ کنایہ کے طور پر استعمال ہوا ہے امام اسے بتانا یہ چاہتے ہیں کہ عراق کی سر زمین سے تجھے زیادہ مال و متاع نہیں ملے گا)۔
عمر بن سعد نے مسخرہ کرتے ہوئے کہا: (گندم بھی نہ ملے) میرے لئے جو ہی کافی ہے) 
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السّلام نے عمر بن سعد کو فرمایا:
تو مجھے شہید کرے گا اور سوچ رہا ہے کہ عبیداللہ بن زیاد تجھے شہر «ری» اور «گرگان» کی حکومت دے گا! خدا کی قسم وہ کبھی تجھے نصیب نہیں ہو گی اور یہ وہ وعدہ ہے جو میرے ساتھ کیا گیا ہے اور تو ہرگز اپنی اس دیرینہ خواہش تک نہیں پہنچ سکے گا! جو کام انجام دے سکتا ہے انجام دے لے تو مجھے شہید کرنے کے بعد دنیا و آخرت میں تو کوئی خوشی نہیں دیکھ پائے. اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تیرے سر کو نیزے پر اٹھا کے کوفہ میں پھرایا جا رہا ہے اور بچے تیرے سر کا نشانہ لے کر اس کی طرف پتھر پھینک رہے ہیں.  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚حوالہ جات                                                                                 1▪️بحار الانوار، ج 44، ص 388.
2▪️سفینة البحار، ج 2، ص 270؛
3▪️ قصه کربلا، ص 235 - 236.

قیام امام حسین کے مقاصد 20

ج۔ مکہ سے کربلا کے راستے میں ملاقاتیں

10۔ عمر بن قیس
عمر بن قیس مشرقی اپنے ایک چچا زاد بھائی کے ساتھ «قصر بنی مقاتل» کے مقام پر امام حسین علیہ السّلام سے آ ملا. سلام کے بعد امام ع سے پوچھا: آپ کی ریش مبارک کی یہ جو سیاہی میں دیکھ رہا ہوں، یہ خضاب کا رنگ ہے یا آپ کے بالوں کا رنگ ہے؟. 
امام ع نے فرمایا: یہ خضاب کا رنگ ہے، بنی ہاشم کے بال جلدی سفید ہو جاتے ہیں. اس وقت امام ع نے اس سے پوچھا: کیا تو میری مدد و نصرت کے لئے آیا ہے؟.
عمر نے کہا: میں عیال دار آدمی ہوں اور بہت سے لوگوں کا مال میرے پاس «امانت» ہے اور نہیں معلوم کہ یہ کام کہاں پہ ختم ہو گا، اور میں نہیں چاہتا کہ لوگوں کی امانتیں ضایع ہو جائیں. اس کے چچا زاد بھائی نے بھی یہی جواب دیا. 
امام ع نے فرمایا: تو تم یہاں سے چلے جاؤ کیونکہ جو بھی ہمارا «اہلبیت رسول» کا استغاثہ سنے یا ہمیں «مظلومیت» کے عالم میں دیکھے اور ہماری فریاد پر لبیک نہ کہے اور «ہمارے حق میں» قیام نہ کرے. خدا نے اپنے لئے لازم قرار دیا ہے کہ اسے منہ کے بل آتش جہنم میں پھینکے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚 حوالہ جات
1▪️ مقتل الحسین، مقرّم، ص 189،
2▪️ الفتوح، ج 5، ص 131 - 133؛
3▪️ تأمّلی در نهضت عاشورا، همان، ص 89.

قیام امام حسین کے مقاصد 19


ج۔ مکہ سے کربلا کے راستے میں ملاقاتیں

9۔  عبیداللہ ابن حر
قصر بنی مقاتل کے مقام پر امام حسین علیہ السّلام نے حجاج بن مسروق کو عبیداللہ بن حر جعفی کے پاس بھیجا. 
عبیداللہ نے پوچھا: اے حجاج بن مسروق کیا پیغام لائے ہو؟ کہا: ایک تحفے اور شرف و عزت کو قبول کر! حسین بن علی علیہ  السّلام نے تجھے اپنی مدد و نصرت کے لئے بلایا ہے. اگر تو ان کی مدد کرے گا تو اجر پائے گا اور اگر (ان کی نصرت میں جنگ کرتے ہوئے) قتل ہو گیا تو شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگا. 
عبیداللہ نے کہا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک کوفہ سے باہر نہیں آیا مگر جب میں نے کثیر تعداد میں افراد کو کوفہ سے آتے ہوئے دیکھا ہے جو امام حسین علیہ السّلام کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کے شیعوں کو ان کی نصرت سے باز رکھے ہوئے ہیں، تو میں سمجھ گیا کہ حسین ع قتل ہو جائیں گے. چونکہ میں ان کی حمایت کی قدرت نہیں رکھتا اسی وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ نہ وہ مجھے دیکھیں اور نہ میں ان کو دیکھوں. 
حجاج واپس امام ع کی خدمت میں حاضر ہوا اور عبیداللہ بن حر کا جواب امام ع کے گوش گزار کیا. 
امام ع کچھ اصحاب کو ساتھ لئے عبیداللہ بن حر کے خیمے میں گئے امام ع  صدر محفل کی جگہ پر تشریف فرما ہوئے جو جگہ عبیداللہ کے لئے بنائی گئی تھی.
عبیداللہ بن حر کہتا ہے: میں نے پوری زندگی میں امام حسین علیہ السّلام جیسا شخص نہیں دیکھا. جب وہ میرے خیمے کی طرف آ رہے تھے اور میں نے انہیں دیکھا، وہ ایسا پرکشش و پر کیف منظر تھا کہ وہ کشش و جذابیت کسی اور چیز میں نہیں تھی اور اس وقت مجھ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ آج تک کسی اور کے بارے میں میرے دل میں ایسی رقت پیدا نہیں ہوئی، وہ لمحہ کہ جب میں نے دیکھا امام ع پیدل چل رہے تھے اور بچے اور جوان ان کے گرد ایسے چکر لگا رہے تھے جیسے پروانے شمع کے گرد چکر لگاتے ہیں، ان کی ریش مبارک کو دیکھا تو کوے کے پروں کی طرح سیاہ تھی. میں نے عرض کیا: آیا آپ کی ڈاڑھی کے بالوں کی سیاہی اصلی ہے یا خضاب لگایا ہوا ہے؟ تو امام ع نے فرمایا: «اے فرزند حر! اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں» تو میں سمجھ گیا کہ خضاب لگایا ہے. 
اس وقت امام ع نے فرمایا: «اے فرزند حر! تمہارے شہر کے لوگوں نے مجھے خط لکھے تھے کہ میری مدد کے لئے باہم مربوط ہیں اور خواہش کی کہ میں ان کے پاس آؤں؛ لیکن انہوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا. اور تیرے ذمے بھی کافی گناہ ہیں. 
کیا تو اپنے ان برے اعمال کو توبہ کے ذریعے مٹانا نہیں چاہتا؟
عبیداللہ نے کہا: «اے فرزند رسول ان تمام گناہوں کا کفارہ کس طرح ممکن ہے!»  امام ع نے فرمایا: «اپنے پیغمبر ص کی بیٹی کے فرزند کی نصرت کرو!»
 عبیدالله نے کہا: خدا کی قسم! میں جانتا ہوں جو آپ کی اتباع کرے گا وہ قیامت کے دن خوش نصیب ہو گا؛ لیکن دشمن کے خلاف جنگ میں میری مدد آپ کے لئے کافی نہیں ہے اور کوفہ میں آپ کا کوئی مددگار نہیں ہے اور میں بھی آپ کی مدد نہیں کرتا؛ کیونکہ میرا دل، مرنے کے لئے راضی نہیں ہے؛ 
لیکن اپنا گھوڑا جس کا نام «ملحقہ» ہے اور اپنی تلوار آپ کو دوں گا. 
امام ع نے فرمایا: 
ما جِئْناک لِفَرَسِک وَسَیفِک اِنَّما اَتَیناک لِنَسْأَلَک النُّصَرَةَ؛
 ہم تیرے گھوڑے اور تیری تلوار لینے کے لئے تیرے پاس نہیں آئے، ہم تو مدد طلب کرنے کے لئے «تجھے کامیابی اور خوشبختی کی راہ دکھانے» تیرے پاس آئے ہیں.
پھر فرمایا: اگر ایسے ہی ہے کہ تو ہماری مدد نہیں کرے گا تو ہمیں تیرے گھوڑے اور تلوار کی بھی ضرورت نہیں ہے اور ہم گمراہوں سے «اس طرح کی» مدد نہیں مانگتے؛ لیکن تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو کسی ایسی جگہ پر چلے جاؤ جہاں پر میرے استغاثے کی آواز نہ سن سکو اور ہماری جنگ نہ دیکھ سکو. میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا ہے: : مَنْ سَمِعَ واعِیةَ اَهْلَ بَیتِی وَلَمْ ینْصُرْهُمْ عَلی حَقِّهِمْ اَکبَّهُ اللَّهُ عَلی وَجْهِهِ فِی النَّارِ؛
 جو شخص میرے اہلبیت ع کی فریاد سنے اور اپنا حق حاصل کرنے میں ان کی مدد نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے منہ کے بل آتش جہنم میں پھینکے گا».
اس کے بعد عبیداللہ بن حر نے امام حسین علیہ السّلام کی مدد نہ کرنے پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے اشعار پڑھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚 حوالہ جات
1▪️وسیلة الدارین، موسوی، بیروت، ص 67
2▪️ مقتل الحسین، مقرّم، ص 3▪️ الفتوح، ج 5، ص 131 - 4▪️تأمّلی در نهضت عاشورا، همان، ص 89.

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط  18


ج۔ مکہ سے کربلا کے راستے میں ملاقاتیں
 
8 چار سواروں کی ملاقات

28 ذی الحج کو چار سوار،
1 نافع بن ہلال، 
2مجمع بن عبداللہ، 
3عمر بن خالد  
4طرماح 
 خطوط لے کر امام ع کے پاس پہنچے. حر نے کہا: یہ کوفہ کے چند لوگ ہیں میں انہیں گرفتار کروں گا یا واپس کوفہ بھیج دوں گا.
 امام حسین علیہ السّلام نے فرمایا: 
میں تجھے ہرگز ایسا کرنے کی اجازت نہیں دوں گا اور ان کی حفاظت کروں گا؛ کیونکہ یہ میرے حامی ہیں، اور (میرے لئے) انہی صحابہ کی مانند ہیں جو مدینہ سے میرے ساتھ آئے ہیں؛ اگر تو میرے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان پر باقی ہے تو انہیں رہا کر دے؛ ورنہ میں تم سے جنگ کروں گا. حر نے ان کو گرفتار کرنے سے صرف نظر کیا. 
امام حسین علیہ السّلام نے ان سے پوچھا  کہ کوفہ سے کیا خبر لائے ہو؟ مجمع بن عبداللہ نے کہا: انہوں (بنی امیہ) نے کوفہ کے رئیسوں کو بے حد رشوت دی ہے اور ان کی دولت کی پیاسی آنکھوں کو مال دنیا سے پر کر دیا ہے تا کہ ان کے دل بنی امیہ کے لئے نرم ہو جائیں اور یہ کہ زبان و دل کے ساتھ آپ سے دشمنی کریں؛ بہر حال تمام لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں لیکن کل ان کی تلواریں آپ کے خلاف بلند ہوں گی. 
امام ع اسی مقام پر قیس بن مسہر صیداوی کی شہادت سے باخبر ہوئے اور ان کی آنکھوں سے اشک جاری ہوئے اور اس آیت کی تلاوت کی؛
«فَمِنهُم مَّن قَضَىٰ نَحبَهُ؛ (اور مومنین میں سے) بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا»

اور پھر فرمایا: «اَللَّهُمَّ اجْعَلْ لَنا وَلِشِیعَتِنا مَنْزِلاً کرِیماً عِنْدَک وَاَجْمَعْ بَینَنا وَاِیاهُمْ فِی مُسْتَقَرِّ رَحْمَتِک؛ 
اے اللہ ہمارے لئے اور ہمارے پیروکاروں کے لئے اپنے قرب میں مقام کریم قرار دے اور ہمیں اور ان کو اپنی رحمت کے مقام پر جمع فرما.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚 حوالہ جات 
1▪️سوری احزاب ،23
2▪️ کامل ابن اثیر ، ج4، ص 49
3▪️الفتوح ، ج 5 ، ص 147

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط  17

ج۔ مکہ سے کربلا کے راستے میں ملاقاتیں

7 حر بن یزید ریاحی

امام حسین علیہ السّلام 27 ذی الحج بروز اتوار مقام «ذوحسم» پر پہنچے. اسی دن حر بن یزید ریاحی بھی ایک ہزار افراد کا لشکر لے کر امام ع کے راستے پر پہنچ گیا، حر کے سپاہی پیاسے تھے؛ امام ع نے اس کے مدنظر حر کے لشکر اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلانے کا حکم دیا، اور امام ع نے خود بھی اس کام میں حصہ لیا اور بعض افراد جیسے علی ابن طعان وغیرہ کو بھی اور ان کے گھوڑوں کو بھی پانی پلایا. 
ظہر کے وقت امام ع نے ایک مختصر خطبہ دیا اور فرمایا: میں اگر تمہاری طرف آیا ہوں تو تمہارے بھیجے گئے خطوط جو مجھے ملے ہیں، اور تمہارے بھیجے گئے قاصدوں کی وجہ سے جو میرے پاس آئے ہیں، جس میں تم نے میرے آنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے . اگر تم اپنے وعدے پر قائم ہو تو میں تہمارے شہر میں آؤں گا، اور اگر میرے آنے پر خوش نہیں ہو تو میں واپس لوٹ جاؤں گا. 
حر نے امام ع کے سامنے خاموشی اختیار کر لی، امام ع نے حجاج بن مسروق کو حکم دیا کہ اذان و اقامت پڑھے؛ پھر حر سے فرمایا: 
تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھو گے؟ عرض کیا: نہیں، ہم آپ کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے. نماز ظہر ختم ہوئی اور ہر کوئی اپنی جگہ پر پلٹ گیا. اس کے بعد امام ع نے دوبارہ کوفیوں کی طرف سے دعوت اور ان کے خطوط کا تذکرہ کیا. حر نے جواب دیا: ہم ان خط لکھنے والوں میں سے نہ تھے اور ہمیں فقط آپ کا راستہ روکنے اور آپ کو عبید اللّہ بن زیاد کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے. خوارزمی کہتا ہے کہ امام ع نے تبسّم کیا اور فرمایا:   
اَلْمَوْتُ اَدْنی اِلَیک مِنْ ذلِک ؛ 
اس تجویز کی نسبت  موت تمہارے زیادہ قریب ہے .
پھر امام ع نے اپنے قافلے کے ساتھ واپسی کا ارادہ کیا؛ لیکن حر اور اس کے لشکر نے رکاوٹ ڈالی، تو امام ع نے فرمایا: تیری ماں تیرے غم میں روئے!
 تو کیا چاہتا ہے؟ حر نے کہا: اگر آپ کے علاوہ کوئی اور ایسا کہتا، تو میں اسے کبھی معاف نہیں کرتا؛ لیکن خدا کی قسم آپ کی ماں کا نام سوائے اچھائی بیان کرنے کے،  نہیں لے سکتا.
پھر کہا: مجھے جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا؛ لیکن اس بات پر مأمور ہوں کہ جب تک آپ کو کوفے نہ لے جاؤں آپ سے جدا نہ ہوں ؛ اگر آپ کوفہ آنے سے انکار کرتے ہیں تو پھر ایسا راستہ اختیار کرو کہ جو نہ کوفہ کو جائے اور نہ ہی مدینہ کو تاکہ اتنے میں ابن زیاد کا حکم نامہ پہنچ جائے. اور آپ بھی یزید کے نام خط لکھیں ہو سکتا ہے معاملہ صلح و عافیت پر ختم ہو جائے، اور میرے خیال کے مطابق بھی صلح کا راستہ آپ سے جنگ کرنے سے بہتر ہے.
ذوحسم کے مقام پر دیے گئے خطبے میں امام ع نے  فرمایا: 
«اَنَّهُ قَدْ نَزَلَ مِنَ الْاَمْرِ ما قَدْ تَرَوْنَ... اَلا تَرَوْنَ اَنَّ الْحَقَّ لا یعْمَلُ بِهِ وَاَنَّ الْباطِلَ لا یتَناهی عَنْهُ لِیرْغَبَ الْمُؤْمِنُ فِی لِقاءِ اللَّهِ مُحِقّاً فَاِنِّی لا اَرَی الْمَوْتَ اِلَّا شَهادَةً وَلَا الْحَیاةَ مَعَ الظَّالِمِینَ اِلَّا بَرَماً»
تم جو کچھ واقع ہونے والا ہے اسی کو دیکھ رہے ہو لیکن تم یہ نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل کو ترک نہیں کیا جا رہا؟ 
مومن کو چاہیے کہ وہ لقاء الہی کی طرف رغبت پیدا کرے، میری نگاہ میں موت، شہادت کے سوا کچھ نہیں، اور میں ستم گران کے ساتھ رہنے کو ذلت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا.
حر نے امام ع کو قتل ہو جانے سے ڈرایا، امام ع نے فرمایا: اَفَبِالْمَوْتِ تُخَوِّفُنِی؟ هَیهات طاشَ سَهْمُک وَخابَ ظَنُّک؛ تو مجھے موت سے ڈراتا ہے! ایسا بالکل نہیں ہے، تیرا تیرخطا ہو گیا ہے اور تیرا اندازہ غلط نکلا ہے. 
اس وقت امام ع نے شہادت کی فضیلت میں اشعار پڑھے ان میں سے ایک یہ ہے:
 سَاَمْضِی وَما بِالْمَوْتِ عارٌ عَلَی الْفَتی اِذا ما نَوی حَقّاً وَجاهَدَ مُسْلِماً
میں دنیا سے چلا جاؤں گا اور جوان کے لئے موت کوئی ننگ و عار نہیں، لیکن شرط یہ ہے خدا کی راہ میں اس کی خوشنودی کے لئے موت واقع ہو اور خلوص سے جہاد کرے.
البیضہ کے مقام پر بھی امام ع نے حر اور اس کے لشکر سے خطاب کیا اور فرمایا: 
   اَیهَا النَّاسُ اِنَّ رَسُولَ اللَّه قالَ مَنْ رَای سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلّاً لِحَرامِ اللَّهِ ناکثاً عَهْدَهُ مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ یعْمَلُ فِی عِبادِ اللَّهِ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوانِ فَلَمْ یغَیرْ عَلَیهِ بِفِعْلٍ وَلا قَوْلٍ کانَ حَقّاً عَلَی اللَّهِ اَنْ یدْخِلَهُ مُدْخَلَهُ؛ 
اے لوگو! رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: 
جو شخص ایسے حاکم کو دیکھے کہ جو خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دے، وعدہ الہی کو توڑے، سنت رسول ص کی مخالفت کرے اور خدا کے بندوں پر ظلم روا رکھے؛ اور وہ شخص زبانی یا عملی طور اس کی مخالف میں کھڑا نہ ہو تو خدا کو حق حاصل ہے کہ اسے جہنم میں داخل کرے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚حوالہ جات 
1▪️ مقتل الحسین، ج1، ص233 
2▪️تاریخ طبری ،ج5،ص 403
3▪️ کامل ابن اثیر ،ج4،ص48
4▪️ قصہ کربلا ص196
5▪️ مقتل الحسین ، مقرم ، ص 184

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط  16


ج۔ مکہ سے کربلا کے راستے میں ملاقاتیں

6 ۔ مرد نصرانی

مقتل کی کچھ کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ جب امام حسین علیہ السّلام «ثعلبیہ» کے مقام پر پہنچے تو ایک نصرانی شخص اپنی والدہ کے ساتھ امام ع کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا اور امام ع کے ساتھ کربلا کی طرف روانہ ہوا. 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚 حوالہ جات 
1▪️ الامام الحسین و اصحابه، ص170.
یہ شخص شاید وہی وہب ہے کہ مقتل کی بعض کتابوں میں جس کا ذکر ہوا ہے.

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط  15


ج۔ مکہ سے کربلا کے راستے میں ملاقاتیں

5۔ زہیر بن قین

21 ذی الحج کو امام حسین علیہ السّلام «زرود» کے علاقے میں پہنچے. امام علیہ السّلام کی قیام گاہ کے قریب زہیر بن قین بجلی نے اپنا خیمہ نصب کیا ہوا تھا جو کہ اپنے خانوادہ اور  کچھ دوست و احباب کے ساتھ حج کر کے کوفہ کی طرف پلٹ رہے تھے. وہ بنی امیہ کو چاہنے والا تھا اور امام ع کے خاندان کو اچھا نہیں سمجھتا تھا. امام ع نے ایک شخص کو اس کے ہاں بھیجا لیکن وہ امام  سے ملاقات کرنے پر راضی نہیں تھا. 
اس کی بیوی دیلم یا دلہم جو کہ عمر کی بیٹی تھی، نے کہا: سبحان اللہ، فرزند پیغبر ص تجھے بلا رہے ہیں اور تو جانے سے انکار کر رہا ہے! 
زہیر اپنی جگہ سے اٹھا اور امام ع کی طرف گیا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد واپس آ گیا، (وہ اس حال میں تھا کہ) اس کا چہرہ چمک رہا تھا اور بہت خوش تھا  اور وہ اچانک تبدیل ہو چکا تھا. اس نے اپنی بیوی کا حق مہر ادا کر کے اس کے بھائی کے ساتھ بھیج دیا اور کہا:
  اِنِّی قَدْ وَطَّنْتُ نَفْسِی عَلَی الْمَوْتِ مَعَ الْحُسَین
 میں نے اپنے آپ کو امام حسین علیہ السّلام کے ساتھ شہید ہونے کے لئے آمادہ کر لیا ہے. 
اور اپنے ساتھیوں سے کہا: تم میں سے جو چاہے میرے ساتھ آ جائے ورنہ آج یہ  ہماری آخری ملاقات ہوگی اور پھر ایک حدیث نقل کی کہ جب ہم «بلنجر» کے مقام پر جنگ کر رہے تھے (بلنجر دریا خزر کے قریب واقع ایک شہر کا نام ہے) اللّٰہ تعالٰی نے ہمیں فتح عطا فرمائی اور بہت سارا مال غنیمت ہمارے ہاتھ میں آیا، سلمان فارسی نے ہم سے کہا: 
 اِذا اَدْرَکتُمْ سَید شَبابِ آلِ مُحَمَّدٍ فَکونُوا اَشَدُّ فَرَحاً بِقِتالِکمْ مِمَّا اَصَبْتُمُ الْیوْمَ مِنَ الْغَنائِمِ
جب آل محمد ص کے جوانوں کے سردار یعنی امام حسین ع کی خدمت میں حاضر ہونا تو ان کے ہمراہ جنگ کرنے ( مدد و نصرت کرنے) میں آج کے دن اس مال غنیمت کے حصول کی خوشی سے زیادہ خوشی محسوس کرنا. 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚حوالہ جات 
1▪️حیاۃ الامام الحسین ، ج3، ص66؛
2▪️ الارشاد، ج2، ص73؛
3▪️ الاستیعاب، ج2، ص632،
4▪️قصہ کربلا، ص179؛
5▪️تأملی در نہضت عاشورا، ص84-85.

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط  14

ج۔ مکہ سے کربلاء کے راستے میں ملاقاتیں

4۔ ابو ہرہ

ثعلبیہ کے علاقے میں ابو ہرہ ازدی نامی ایک شخص نے امام حسین علیہ السّلام سے ملاقات کی اور امام ع سے اس سفر کی وجہ پوچھی. امام ع نے اس کے جواب میں فرمایا: 
امویوں نے ہمارے مال پر قبضہ کیا، لیکن میں نے صبر کیا، (میرے بابا علی ع کو) انہوں نے گالیاں دیں، میں نے برداشت کیا، اب میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو میں وہاں سے چلا آیا. 
اے ہرہ! جان لے کہ میں ایک سرکش گروہ کے ہاتھوں شہید ہو جاؤں گا اور خدا ان کے جسموں پر ذلت کا لباس پہنائے گا، اور خدا ایک شمشیر بردار شخص کو ان پر حاکم مقرر کرے گا تاکہ ان کو ذلیل وخوار کرے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚حوالہ جات
1▪️ الفتوح، ج5، ص123؛
2▪️ بحار الانوار، ج44، ص368؛
3▪️ البدایہ والنہایہ، ج8، ص183.

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط  13


ج۔ مکہ سے کربلاء کے راستے میں ملاقاتیں۔ 

3۔ بشر بن غالب

امام حسین علیہ السّلام 14 ذی الحج، بروز سوموار «ذات عرق» کے مقام پر پہنچے. اور قبیلہ بنی اسد کے ایک بشر بن غالب نامی شخص سے ملاقات کی، اور اس سے کوفہ کے لوگوں کی صورتحال دریافت کی. اس نے بھی وہی جواب دیا جو شاعر فرزدق نے دیا تھا:
 یعنی ان کے دل آپ ساتھ اور تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہیں.
 امام ع نے فرمایا: 
اے اسدی برادر تم نے درست کہا ہے. 
بشر بن غالب نے امام ع سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا: 
یَومَ نَدعُوا كُلَّ أُنَاسِ بإِمَامِهِم؛ اس دن ہر شخص کو اپنے امام کے ساتھ بلایا جائے گا. 
(إسراء، آیت71)
امام نے فرمایا:
 هُمْ اِمامانِ: اِمامُ هُدیً دعا اِلی هُدیً وَاِمامُ ضَلالَةٍ دَعا اِلی ضَلالَةٍ، فهدی مَنْ اَجابَهُ الی الجنَّةِ، وَمَنْ اَجابَهُ اِلَی النّارِ؛
امام دو قسم کے ہیں: 
1️⃣ امام ہدایت ، کہ جو لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے، 
2️⃣ گمراہی کا امام ، کہ جو لوگوں کو گمراہی کی طرف دعوت دیتا ہے، جو شخص امام ہدایت کی پیروی کرے گا جنت میں جائے گا اور جو شخص گمراہی کی طرف لے جانے والے امام کی پیروی کرے گا اسے جہنم میں داخل کیا جائے گا. 
بشر بن غالب نے امام ع کی ہمراھی نہ کی. بعد میں اسے امام حسین علیہ السّلام کی قبر پر گریہ و زاری کرتے ہوئے دیکھا گیا اور وہ اس بات پر کہ اس نے امام ع کی مدد نہیں کی، بہت پشیمان تھا. 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚حوالہ جات 
1▪️ ترجمۃ الحسین، ص88؛
2▪️ مثیر الاحزان، ص42؛
3▪️ قصہ کربلا، ص170.

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط  12


ج۔ مکہ سے کربلا کے راستے میں ملاقاتیں

2 ۔ عبد اللہ بن جعفر

عبداللہ بن جعفر حاکم مکہ عمر بن سعید کے پاس گئے اور امام حسین علیہ السّلام کے لئے امان نامہ لکھوایا، اس خط کو ایک اور خط کے  ساتھ عمر بن سعید کے بھائی (یحییٰ بن سعید) کے ہاتھوں امام ع کی خدمت میں بھیجا.
عبداللہ بن جعفر نے خود بھی «ذات عرق» کے مقام پر امام حسین علیہ السّلام سے ملاقات کی اور وہ امان نامہ امام ع کی خدمت میں پیش کیا. 
امان نامہ میں تحریر تھا کہ آپ امت کے درمیان انتشار پیدا کرنا چھرڑ دیں تو میں یزید سے آپ کے لئے بیعت طلب کرتا ہوں. 
امام ع نے اس کے جواب میں لکھا: جو شخص خدا اور اعمال صالح کی طرف دعوت دے رہا ہو، اس کی یہ دعوت انتشار پھیلانے کے لیے نہیں ہے! اور بہترین تحفظ خدا کا تحفظ ہے.
امام حسین علیہ السّلام نے مکہ واپس آنے سے انکار کردیا اور فرمایا: میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو دیکھا اور انہوں نے مجھے حکم  دیا ہے کہ میں اپنے مشن کو جاری رکھوں . اور جس کام کا رسولِ خدا ص نے مجھے حکم دیا ہے میں اسی کو انجام دوں گا. 
پھر امام علیہ السّلام نے عمر بن سعید کے خط کا جواب لکھا اور عبداللہ بن جعفر اور یحییٰ بن سعید امام ع سے جدا ہو گئے؛ لیکن عبداللہ کے دو بیٹے عون و محمد، امام ع کے پاس رہے، عبداللہ نے انہیں ہمیشہ امام ع کا ساتھ دینے کی نصیحت کی لیکن خود معذرت کر کے واپس مکہ چلے گئے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚حوالہ جات
1▪️ابصار العین، ص39؛ 
2▪️الامام الحسین و اصحابه، ص64، 
3▪️قصہ کربلا، ص169.                                                                                                                                         34) 
4▪️تأمّلی در تهضت عاشورا، ص 76.
5▪️ابصار العین، محمّد سماوی، قم، بصیرتی، ص 39؛ 
6▪️الامام حسین و اصحابه، فضلعلی قزوینی، قم، باقری، ص 64؛ 
7▪️قصه کربلا، ص 169.
8▪️تأملی در نہضت عاشورا، ص76۔ 

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط  11

ج۔ مکہ سے کربلا کے راستے میں ملاقاتیں

1۔ شاعر فرزدق

مکہ سے کربلا کے راستے میں «صفاح» کے مقام پر عرب کے معروف شاعر فرزدق ابن غالب بن صعصعہ نے امام حسین علیہ السّلام سے ملاقات کی اور عرض کیا:
 جو کچھ آپ اللہ سے چاہتے ہیں، وہ تمہیں عطا کرے.
امام حسین علیہ السّلام نے فرمایا: 
مجھے اہل عراق کی صورتحال کے بارے میں بتاو! 
عرض کیا: آپ نے ایک باخبر شخص سے سوال کیا ہے.
 «قلوب الناس معك، وسيوفهم مع بني أمية» لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں. 
امام حسین علیہ السّلام نے فرمایا:
اِنَّ النّاسَ عَبيدُ الدُّنْيا وَ الدِّينُ لَعْقٌ عَلى اَلْسِنَتِهِمْ يَحوطونَهُ ما دَرَّتْمَعائِشُهُمْ فَاِذا مُحِّصوا بِالْبَلاءِ قَلَّ الدَّيّانونَ
 تمہارے سچے ہونے پر مجھے کوئی شک نہیں ہے، لوگ دنیا کے غلام ہیں دین فقط لوگوں کی زبان پر جاری ہے، لوگ اس وقت تک دین کی بات کرتے ہیں جب تک (دین کے ذریعے) ان کی معیشت کا پہیہ چلتا ہے، اور سخت حالات میں دین پر ثابت قدم رہنے والے لوگ (حقیقی دیندار) بہت کم ہیں.                                 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚حوالہ جات 
1▪️بُغیة الطالب، عمر بن احمد، بیروت، ج 6، ص 2614؛ 
2▪️تأمّلی در نهضت عاشورا، ص 78؛ 
3▪️کامل ابن اثیر، ج 4، ص 40؛ 
3▪️العقد الفرید، ج 4، ص 171.   

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط 10


ب ۔ مکہ میں ملاقاتیں

 یزید کے طرفداروں کے ایک گروہ کی امام سے ملاقات 
ایک اور گروہ امام علیہ السلام کو عراق جانے سے روکنے آیا اور در حقیقت یہ بنی امیہ  کے خفیہ ایجنٹ تھے اور انہوں نے بڑے سخت الفاظ میں امام کو عراق جانے سے روکا کہ جس کا ذکر کچھ یوں ملتا ہے 
5. ابو سعید خدری 
ابو سعید خدری نے امام حسین علیه السلام  سے کہا : 
«اِتَّقِ اللَّهَ فِی نَفْسِک وَاَلْزِمْ بَیتَک فَلا تَخْرُجُ عَلی اِمامِک؛
 خدا سے ڈرو اور صرف گھرداری تک محدود رہو اور اپنے قائد سے بغاوت نہ کرو                                                                                                                             
6. عمرہ بنت عبد الرحمٰن 
عمرہ بنت عبد الرحمن بن سعد بن زرارہ انصاری نے بھی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات کی اور کہا : جماعت کی اطاعت کریں اور اپنی مقتل گاہ کی طرف مت جائیں ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚حوالہ جات 
1▪️ترجمة الامام الحسین من تاریخ دمشق، ابن عساکر، تحقیق علّامه محمودی، بیروت، ص 57
 2▪️ همان، ص 58.

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط 9

ب۔ مکہ میں ملاقاتیں

4. یحیی بن سعید کی ایک گروہ کے ساتھ امام سے ملاقات 

عمرو بن سعید بن العاص نے اپنے بھائی یحیی بن سعید کو ایک گروہ کے ساتھ بھیجا تاکہ امام حسین علیہ السلام کو عراق جانے سے روکے۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے ، اور یہاں تک کہ بات جھگڑے تک جا پہنچی لیکن درمیان میں حضرت کے اصحاب آ گئے .
اس گروہ نے کہا: اے حسین! کیا تم تقویٰ اختیار نہیں کرتے اور جماعت کو چھوڑ کر امت کو الگ کرنا چاہتے ہو ؟
امام نے ان کے جواب میں اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: «لِی عَمَلِی وَ لَکمْ عَمَلُکمْ أَنتُم بَرِیونَ مِمَّآ أَعْمَلُ وَ أَنَا بَرِی ءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ »؛ 
"میرا عمل میرے لئے ہے اور آپ کا عمل آپکے لئے ہے آپ میرے اعمال سے بری ہو اور میں آپ کے اعمال سے بری ہوں ۔  
.....................................
📚حوالہ جات                                                                                                                       
ارشاد ،،مفید،ج2،ص69

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط 8

ب۔ مکہ میں ملاقاتیں

3. عبد اللّه بن عباس سے ملاقات 
جب امام کا مکہ سے عراق جانا حتمی ہوا  تو عبد اللہ بن عباس ، امام حسین کی ملاقات کیلئے آئے  اور امام کو مکہ میں رہنے کی قسم دی ۔ اور اہل کوفہ کی ملامت کی اور امام سے کہا: آپ ان لوگوں کے پاس جارہے ہیں جنہوں نے آپ کے والد کو شھید کیا اور آپ کے بھائی کو زخمی کیا ، اور وہ آپ کے ساتھ بھی یقینا اسی طرح کا سلوک کریں گے.
امام نے ابن عباس کو جواب دیا: «یا ابْنَ عَمّ ا ِنِّی وَاللَّهِ لَاَعْلَمُ اَنَّک ناصِحٌ مُشْفِقٌ وَلکنِّی اَزْمَعْتُ وَاَجْمَعْتُ عَلَی الْمَسِیرِ؛
 اے چچا کے بیٹے خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ آپ کی نصیحت میں خلوص ہے لیکن میں عراق جانے کا مصمم ارادہ کر چکا ہوں ۔ 
مختلف ذرائع سے امام حسین کے مختلف جوابات نقل ہوئے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں : 
1👈. یہ وہ خطوط ہیں جو اہل کوفہ نے مجھے بھیجے ہیں  ، اور یہ مسلم ابن عقیل کا خط ہے کہ اہل کوفہ نے میری بیعت کی ہے۔ 
2👈 خدا کے رسول نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں خروج کروں اور میں (خروج) کروں گا۔ 
3👈مکہ سے باہر قتل کیا جاؤں یہ بہتر ہے اس سے کہ مکہ میں مارا جاؤں ۔ 
ابن عباس نے مشورہ دیا کہ یمن چلے  جائیں ، یمن میں مضبوط قلعے ہیں اور آپ کے بابا کے شیعہ بھی ہیں۔
 لیکن امام حسین علیہ السلام اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ 
ابن عباس نے کہا: اگر آپ کا فیصلہ حتمی ہے تو ، اپنے اہل بیت اور بچوں کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ آپ کو قتل کردیں گے اور بچے اور خواتین دیکھتے رہ جائیں گے ۔ لیکن امام علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کی رضا اسی میں ہے کہ میں اھل بیت کو ساتھ لے جاؤں.
جب اس نے دیکھا کہ امام نے اس کی تجویز قبول نہیں کی تو مایوس ہو کے کہتا ہے : آپ نے ابن زبیر کی آنکھیں روشن کر دی ہیں کہ آپ خود ہی مکہ چھوڑ کر حجاز کو ابن زبیر کے حوالے کر رہے ہیں حالانکہ ابن زبیر وہ شخص ہے کہ آپ کی موجودگی میں اسکی کوئی پرواہ نہیں کرتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚 حوالہ جات                                                                                   1▪️تاریخ طبری، جریر طبری، بیروت، دار سویدان، ج 5، ص 384.

2▪️قصه کربلا، ص 15؛ 
3▪️تجارب الامم، مسکویه رازی، تهران، سروش، ج 2، ص 56.
4▪️ مقتل الحسین، خوارزمی، قم، دار انوار الهدی، ج 1، ص 192 - 193.
5▪️  معجم الکبیر، طبرانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ج 3، ص 128.

6▪️ البدایة والنهایة، ابن کثیر دمشقی، دار الکتب، 1407 ق، ج 8، ص 160؛
7▪️ تأمّلی در نهضت عاشورا، ص 75.
8▪️ تجارب الامم، ص 56؛ قصه کربلا، ص 155.

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط 7

ب۔ مکہ میں ملاقاتیں

2عبداللہ بن عمر

جب عبداللہ بن عمر کو امام حسین (ع) کے کوفہ جانے کی اطلاع ملی تو وہ امام کے پاس آیا اور کہا :
ان گمراہوں کے ساتھ کوئی سمجھوتا  کرلیں اور جنگ اور مارے جانے سے بچیں .
امام علیہ السلام نے جواب دیا:  کیا آپ نہیں جانتے کہ خدا کے نزدیک دنیا کی بے حرمتی کی ایک مثال یہ ہے کہ یحیی ابن زکریا کے سر کو بنی اسرائیل کی ایک شریر عورت کے تحفے کے طور پر بھیجا گیا تھا ، کیا آپ نہیں جانتے کہ بنی اسرائیل نے فجر سے شام تک خدا کے ستر انبیا کو قتل کیا اور پھر بازاروں میں بیٹھ کر ایسے کاروبار کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی غلط کام ہوا ہے ۔ خدا نے ان کی سزا میں جلدی نہیں کی اور وقت کے ساتھ ان سے بدلہ لیا۔ اے ابا عبد الرحمٰن! "خدا سے ڈرو اور میری مدد سے منہ مت موڑو۔ 
جالب یہ ہے کہ اسی عبداللہ نے عبد الملک مروان کے نمائندے  حَجّاج کی بیعت کر لی تھی۔ لیکن اس نے امام کی  بیعت کرنے سے انکار کردیا۔ 
لہذا اپنی موت کے وقت کہتا تھا : مجھے دنیا میں کسی بھی چیز کا افسوس نہیں ہے ، سوائے اسکے کہ میں نے باغی گروہ (معاویہ اور اہل شام) سے جنگ نہیں کی اور اس معاملے میں علی کی مدد نہیں کی۔ 
جب عبداللہ کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا علم ہوا تو انہوں نے یزید کو اس موضوع کے ساتھ ایک خط لکھا: "یہ ایک بہت بڑا اور عظیم حادثہ  ہے اور اسلام میں اس سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ۔ "یوم حسین کی طرح کوئی دن نہیں ہے۔"
یزید نے جواب میں لکھا: 
اے احمق! اگر ہم حق پر ہیں ، تو ہم نے اپنے حق کا دفاع کیا ہے  اور اگر ہم حق پر نہیں ہیں تو  سب سے پہلے اسکی بنیاد آپ کے والد نے رکھی تھی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚حوالہ جات 
1▪️  بحار الانوار، ج 44، ص 365؛
2▪️  قصه کربلا، ص 156؛
3▪️  امالی شیخ صدوق، مجلس 30، ح 1.
4▪️  الاستیعاب، ابن عبد البر، قاهره، الفجاله، ج 3، ص 950.
5▪️ بحار الانوار، ج 45، ص 328.

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط 6

ب. مکہ میں ملاقاتیں
 
امام کا قافلہ ماہ شعبان کے تیسرے جمعہ کو مکہ پہنچا۔ امام 8 ذی الحجہ تک مکہ میں رہے اس دوران آپکی متعدد ملاقاتیں ہوئیں ، جن میں سب سے اہم یہ ہیں ۔ 

1 عبد اللّه بن زبیر اور کچھ اور لوگوں کی امام سے ملاقات 

امام جیسے ہی مکہ پہنچے تو اھل مکہ اور وہ لوگ جو حج کے لئے آئے ہوئے تھے ، امام کی خدمت میں حاضر ہوئے  ، اور عبداللہ ابن زبیر بھی ، جو کعبہ کے قریب ہی رہتا تھا اور نماز ، طواف میں مشغول تھا ، ہر روز یا ہر دوسرے دن امام کے پاس آتا تھا۔ وہ بہت پریشان تھا۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ جب تک امام مکہ میں ہیں کوئی میری بیعت نہیں کرے گا۔ کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی ایک خاص معاشرتی حیثیت تھی اور لوگ امام کی زیادہ اطاعت کرتے تھے . 
 عبد اللّه بن زبیر کی دکھاوے کی عبادات کا مقصد لوگوں کو پھنسانا تھا.
 علی علیہ السلام نے اس کے بارے میں  فرمایا تھا : 
«ینْصِبُ حِبالَةَ الدِّینِ لِاصْطِفاءِ الدُّنْیا؛
  وہ دنیا کوحاصل  کرنے کیلئے دین کا جال پھیلاتا ہے »

تاہم ، ابن زبیر نے امام حسین علیہ السلام کو مکہ میں رہنے کی تجویز دی تاکہ وہ امام کی بیعت کریں اور لوگ بھی امام کی بیعت کریں۔ ابن زبیر کی امام کو مکہ میں رہنے کی پیشکش صرف اس لیئے تھی تاکہ لوگ سمجھیں کہ میں امام کا بڑا خیرخواہ ہوں .
امام نے  فرمایا : 
«یابْنَ زُبَیر لَئِنْ اُدْفَنُ بِشاطِی ء الْفُراتِ اَحَبُّ اِلَی مِنْ اَنْ اَدْفَنَ بِفِناءِ الْکعْبَةِ؛ 
اے زبیر کے بیٹے ! میرے لئے  فرات کی سر زمیں پر دفن ہونا بہتر ہے اس سے کہ میں کعبہ کے قریب دفن ہو جاؤں.»
اور پھر فرمایا :
 «اِنَّ اَبِی حَدَّثَنِی اَنَّ بِها کبْشاً یسْتَحِلُّ حُرْمَتَها فَما اُحِبُّ اَنْ اَکونَ ذلِک الْکبْشُ؛
   میرے والد نے مجھے اطلاع دی تھی کہ مکہ میں ایک مینڈھا مارا جائے گا ، جس کے ذریعہ خدا کے گھر کے تقدس کو پامال کیا جائے گا ، اور میں پںسند نہیں کرتا کہ میری وجہ سے خانہ خدا کا تقدس پامال ہو »
ایک اور روایت کے مطابق ، جب عبداللہ بن زبیر کو معلوم ہوا کہ امام حسین ع کوفہ جارہے ہیں ، تو وہ امام کے پاس آیا اور کہا: آپ کا کیا فیصلہ ہے؟ 
 خدا کی قسم خدا کے نیک بندوں پر بنی امیہ کے ظلم و ستم کے خلاف لڑائی اور جہاد نہ کرنے سے بہت ڈرتا ہوں ، اور میں خدا کے عذاب سے ڈرتا ہوں،
 امام علیہ السلام نے فرمایا: 
میں نے کوفہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ عبداللہ نے کہا ، خدا آپ کو سلامت رکھے۔ اگر میرے پاس آپ کے جیسے انصار ہوتے تو میں کوفہ جانے سے انکار نہ کرتا ۔
ابن زبیر ، اگرچہ  دل میں خوش تھا کہ امام حسین کوفہ جا رہے ہیں ۔ لیکن ظاھرا امام کا ھمدرد بننے کے لیے اور لوگوں کے اعتراضات سے بچنے کیلئے کہتا ہے :
 اگر آپ یہاں رہ کر بیعت کیلئے بلائیں تو میں اور اھل حجاز آپ کی بیعت کریں گے ۔ "کیونکہ ہم آپ کو یزید اور اسکے والد کی نسبت خلافت کے زیادہ مستحق سمجھتے ہیں ۔
شاید اس ظاہر سازی کا مقصد ، عبد اللہ ابن عباس کے الفاظ ہیں جنہوں نے ابن زبیر سے کہا: 
”اے زبیر! "آپ کیلئے میدان کھلا ہے حسین عراق چلے گئے۔
 اور پھر کہا : 
آپ نے خود کو خلافت کیلئے کیوں نامزد کیا؟
 ابن زبیر کہتا ہے : 
اپنی شرافت اور منزلت کی وجہ سے ۔ 
تو ابن عباس نے کہا: 
تم نے کیسے یہ شرافت و منزلت پیدا کر لی؟ اگر آپ کیلئے یہ اعزاز کی بات ہے توہم تو آپ سے زیادہ شرافت و منزلت رکھتے ہیں..... » 
ان ملاقاتوں نے ابن زبیر کی اصلیت کو بے نقاب کر دیا اور یہ ظاہر کر دیا کہ خلافت کی امید ، امام حسین علیہ السلام سے بیعت اور مکہ میں امام کے قیام سے مطابقت نہیں رکھتی .                                                               
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚 حوالہ جات
1▪️ ارشاد مفید، ج 2، ص 35.
2▪️حیاة الحسین علیه السلام، دمیری، قم، منشورات رضی، ج 2، ص 310؛ 
3▪️ قصّه کربلا، ص 81 
4▪️ قصّه کربلا، ص 157.
5▪️ کامل الزیارات، ابن قولویه، نجف، باب 23، ص 72.
6▪️  نفس المهموم، ص 167؛ قصه کربلا، ص 158.
7▪️ شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید، ج 20، ص 134؛ 
8▪️ قصه کربلا، ص 158؛ 
9▪️ تأمّلی در نهضت عاشورا، رسول جعفریان، نشر مورّخ، قم، 1386، ص 75.

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط 5


الف مدینہ میں ملاقاتیں 

4 عبد اللّه بن مطیع

عبداللہ بن مطیع نے مدینہ سے مکہ جاتے ہوئے امام (ع) سے ملاقات کی اور کہا: میری جان آپ پر قربان ہو ، کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ 
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا ارادہ ہے کہ مکہ جاؤں اور اللہ رب العزت سے طلب خیر کروں.
عبد اللہ نے کہا: قربان جاؤں ! میں خدا سے آپ کی خیریت چاہتا ہوں ، ایسا نہ ہو کہ آپ مکہ سے کوفہ منتقل ہو جائیں۔ کیونکہ کوفہ وہی شہر ہے جہاں آپ کے بابا شھید ہو گئے  اور آپ کے بھائی امام حسن مجتبیٰ کو دشمن کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا گیا ، انہیں دھوکہ دیا اور زخمی کردیا گیا۔ 
خدا کے گھر میں رہو۔ آپ ایک عظیم عرب ہیں اور حجاز کے لوگوں میں کوئی آپ کی برابری کا نہیں۔  مکہ میں رہو تاکہ لوگ آپ کے آس پاس جمع ہوں۔ خدا کی قسم وہ آپ کے بعد ہمیں غلام بنالیں گے .» 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                 📚 حوالہ جات 
1▪️کامل ابن اثیر، ج 4، ص 19. قابل ذکر ہے کہ شیخ مفید کہتے ہیں یہ ملاقات مکہ سے عراق کے راستے میں ہوئی ہے لیکن بعض مورخین کہتے ہیں یہ دو الگ ملاقاتیں الگ الگ افراد سے ہوئی ہیں مکہ جاتے ہوئے عبد اللّه بن مطیع اور عراق جاتے ہوئے  عبد اللّه بن ابی مطیع سے ملاقات ہوئی . 
2▪️ الامام الحسین و اصحابه، فضلعلی قزوینی، قم، باقری، ص 163.)

قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط 4  

الف مدینہ میں ملاقاتیں 

3 محمّد بن حنفیة 
محمد بن حنفیہ نے  روانگی سے قبل امام حسین علیہ السلام کے پاس آکر عرض کیا: 
اے بھائی! آپ میرے لئے سب سے زیادہ محبوب ترین  ہیں اور میں تو کسی کو بھی مشورہ دیتا ہوں پھر آپ کو کیسے نہ دوں  .. .. یزید کی بیعت سے پرہیز کرو اور شہروں میں زیادہ رہنے سے گریز کرو۔ پھر اپنے نمائندوں کو شہروں میں بھیجو اور انہیں اپنے پاس مدعو کرو۔ اور اگرآپ کی بیعت کی جائے تو ، اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرو ، اور اگر وہ کسی اور کی بیعت کریں تو ، یہ برا انتخاب کسی بھی طرح آپ کے فائدے اور مقام کو نہیں بھولے گا.... »

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:  بھائی میں کہاں جاؤں؟
محمد بن حنفیہ کہتے ہیں:  مکہ منتقل ہو جاؤ، اگر آپ کو مکہ میں رہنا مناسب لگے تو وہیں رک جانا اور اگر مکہ غیر محفوظ  لگے تو ، صحراؤں اور پہاڑوں میں چلے جانا جب تک کہ کوئی مناسب حل نہیں نکلتا.»
امام حسین نے جواب میں فرمایا:
  اے بھائی! آپ نے مجھ سے حسن سلوک کیا ہے۔ "مجھے امید ہے کہ آپ کا مشورہ  قابل قبول ہوگا. امام نے مزید فرمایا : 
یا اَخِی وَاللَّهِ لَوْلَمْ یکنْ مَلْجَاٌ وَلا ماْوی لا بایعْتُ یزِیدَ بْنَ مُعاوِیةَ؛ 
اے بھائی! "میں خدا کی قسم کھاتا ہوں ، اگر میرے لئے کوئی پناہ گاہ نہ رہی تو پھر بھی یزید کی بیعت نہیں کروں گا۔"
 محمد بن حنفیہ  رو پڑے، امام نے بھائی کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا :اے بھائی خدا آپکو جزائے خیر دے آپ نے میرے ساتھ خیر خواھی کی اور اچھا مشورہ دیا ۔ میں اپنے اھل و عیال کے ساتھ مکہ کا ارادہ رکھتا ہوں  اور بھائی آپ مدینہ میں رک سکتے ہیں اور مہم خبریں مجھے بھیجتے رہنا اور کچھ چھپانا نہیں. 
محمد بن حنفیہ نے  مکہ میں بھی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات کی ، اس دوران انہوں نے کہا: "اے بھائی! آپ کوفہ کے لوگوں کو بخوبی جانتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے والد اور بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ، اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کا انجام بھی انہی کی طرح ہی ہوگا۔ "اگر آپ مناسب  سمجھیں تو ، مکہ میں ہی قیام کریں ، یہاں آپ کی جان اور عزت دونوں محفوظ رہیں گے .
امام نے فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ یزید مجھے اچانک قتل کروا دے گا اور میری وجہ سے بیت اللہ کی حرمت پامال ہوجائے گی .
جناب حنفیہ  نے کہا :
 اطراف یمن میں چلے جاؤ وہ محفوظ علاقہ ہے۔
امام نے فرمایا: میں آپ کی بات پر غور کروں گا۔ لیکن دوسرے ہی دن امام کوفہ کی طرف چل دیئے ۔ جناب حنفیہ نے کہا : آپ کیوں جانے کی جلدی میں ہیں؟

امام نے فرمایا : تیرے جانے کے بعد میں نے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا انہوں نے فرمایا : «یا حُسَینُ اُخْرُجْ فَاِنَّ اللَّهَ قَدْ شاءَ اَنْ یراک قَتِیلاً؛
 اے حسین! باہر نکلو خدا آپ کو شھید دیکھنا چاہتا ہے .
محمد بن حنفیہ کہتے ہیں پس اگر آپ نے جانا ہی ہے تو خواتین کو اپنے ساتھ کیوں لے جاتے ہو؟

فرمایا : «اِنَّ اللَّهَ قَدْ شاءَ اَنْ یراهُنَّ سَبایا؛ خدا چاہتا ہے کہ ان کو قیدی دیکھے .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                         
📚حوالہ جات
1▪️جناب حنفیہ امام علی علیہ السلام کے بیٹے اور امام حسین کے بھائی تھے ۔ 
2▪️ ارشاد شیخ مفید، ج 2، ص 34.
3▪️ بحار الانوار، محمّدباقر مجلسی، بیروت، مؤسسة الوفاء، ج 44، ص 329.
4▪️ لهوف، سید بن طاووس، قم، انتشارات داوری، ص 27.

قیام امام حسین کے مقاصد قسط 3

الف. مدینه میں ملاقاتیں 

2. مروان بن حکم
دوسرے دن امام حسین نے مروان کو راستے میں دیکھا ۔ 
مروان کہتا ہے : میں آپ کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں بشرطہ  آپ مانیں! حضرت نے فرمایا : تیری نصیحت کیا ہے ؟
 کہتا ہے : کہ میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ امیر المؤمنین یزید کی بیعت کر لو یہ آپ کے دین اور دنیا کیلئے فائدہ ہو گا.

حضرت نے فرمایا : اِنَّ لِلَّهِ وَاِنَّا اِلَیهِ راجِعُون  اور پھر  فرمایا : عَلَی الْاِسْلامِ السَّلامُ اِذْ بُلِیتِ الْاُمَّةُ بِراعٍ مِثْلَ یزِیدَ وَیحَک یا مَرْوانَ اَتَاْمُرُنِی بِبَیعَةِ یزِیدَ وَهُوَ رَجُلٌ فاسِقٌ
 اسلام پر فاتحہ پڑھ دیں جب  امت پر یزید خلیفہ بن بیٹھے ۔  افسوس ہے تجھ پر اے مروان مجھے ایسے شخص کی بیعت کا کہتے ہو جو فاسق ہے !

پھر امام نے فرمایا: ایسی ناروا اور بیہوده بات کیوں کہتے ہو ؟ میں تیری اس بات پر تیری ملامت نہیں کروں گا کیوں کہ تو وہی ہے کہ جو ابھی باپ کے صلب میں تھا تو پیغمبر اکرم نے تجھ پر لعنت کی تھی .
پھر فرمایا دور ہٹ اے دشمن خدا! ہم اھل بیت رسول  ہیں حق ہمارے ساتھ ہے اور ہم حق کے سوا کچھ نہیں کہتے . میں نے خود پیغمبر خدا سے یہ فرماتے سنا ہے کہ «خلافت ابو سفیان کے بیٹوں اور پھر ان کے بیٹوں پر حرام ہے . 
پھر فرمایا : اگر معاویہ کو میرے ممبر پر دیکھو تو فورا اس کا پیٹ چاک کر دو.» خدا کی قسم مدینہ والوں نے معاویہ کو میرے جد کے ممبر پر دیکھا لیکن جو ان کو حکم تھا اس پر عمل نہیں کیا.
مروان یہ سب سن کر غصے میں آ گیا اور کہتا ہے : «ہرگز تجھے نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ یزید کی بیعت کر لے! تم اولاد علی کے دل میں آل سفیان کے بارے میں کینہ ہے اس لیئے تم ان سے دشمنی رکھتے ہو اور وہ تم سے.»
 امام حسین  نے اس کے جواب میں فرمایا:  دور ہو جاؤ اے  پلید ہم اھل بیت طہارت میں سے ہیں خدا نے ہمارے لئے پیغمبر اکرم پر وحی فرمائی ہے   إِنَّمَا یرِیدُ اللَّهُ لِیذْهِبَ عَنکمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَ یطَهِّرَکمْ تَطْهِیرًا 
خداوند چاہتا ہے کہ پلیدی اور گناہ کو تم اھل بیت سے دور کر دے ، اور کاملاً تمہیں پاک کر دے .
یہ سننے کے بعد پھر مذید کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی مروان کی ۔ 
امام نے فرمایا : «اے پسر زرقاء ! آپ رسول خدا کے بارے میں جس چیز کو ناپسند کرتے ہیں اس کی وجہ سے ، میں آپ کو اس دن خدا کے دردناک عذاب کا اعلان کرتا ہوں جب آپ خدا کے پاس جائیں گے ، اور میرے نانا، آپ سے میرے اور یزید کے بارے میں پوچھیں گے۔
اس ملاقات میں امام نے مروان کو اس کی اور آل سفیان کی پست حقیقت کو یاد دلایا اور اپنے مقام و منزلت کو بھی یاد دلایا امام نے مروان بن حکم کو خوب سبق سکھایا 
ان ملاقاتوں کے بعد یزید نے فورا. ولید کو مدینہ کی گورنری سے ہٹا دیا اور مروان  کو ان کی جگہ مقرر کر دیا . 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  
حوالہ جات  

                                                                                                                             1▪️احزاب/33.
2▪️ الفتوح، ابن اعثم، بیروت، دار الندوة، ج 5، ص 24؛ 
3▪️حیاة الامام الحسین، ج 2، ص 256؛ 
4▪️مناقب ابن شهر آشوب، ج 4، ص 88.
5▪️مناقب ابن شهرآشوب، ج 4، ص 88.

قیام امام حسین کے مقاصد قسط 2

 

الف. مدینه میں ملاقاتیں 

1 ولید بن عتبه سے ملاقات

 ولید بن عتبہ کے ساتھ ملاقات 
معاویہ بن سفیان کی وفات کے بعد یزید نے ولید بن عتبہ کو خط لکھا اور دستور دیا کہ حسین ابن علی اور عبداللہ بن زبیر سے بیعت لے اور اگر وہ بیعت نہ کریں تو قتل کر دو اور ان کا سر دمشق روانہ کر دو اور اسی طرح باقی  اھل مدینہ سے بیعت لو جو انکار کرے اس کا سر تن سے جدا کر دو ۔
ولید کو جب یہ خط ملا تواس نے رات کی تاریکی میں مروان بن حکم (مدینہ کا سابقہ گورنر) کو بلایا اور اس سے مشورہ کیا ۔ مروان کہتا ہے : 
ابھی ان کو بلاؤ اور بیعت لو اگر بیعت نہ کریں تو قتل کر دو۔   اس سے پہلے کہ انہیں معاویہ کی موت کی خبر ملے  اور وہ یزید کے خلاف قیام کریں ۔
ولید نے فورا عبداللہ بن عمرو بن عثمان کو بھیجا کہ حسین علیہ السلام  اور عبداللہ بن زبیر کو ابھی میرے پاس لے آؤ ، 
جب قاصد ولید کا پیغام لے کر آیا تو امام حسین اور ابن زبیر دونوں مسجد میں تشریف فرما تھے ۔ 
امام حسین فرماتے ہیں : 
لگتا ہے معاویہ فوت ہو گیا ہے (کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ معاویہ کا تخت گر گیا ہے اور اس کے گھر کو آگ لگ گئی ہے ) اور یزید ہم سے بیعت چاہتا ہے ۔
مولا حسین ، بنی ھاشم کے چند جوانوں کو ساتھ لے کر دار الامارہ مدینہ پہنچے اور جوانوں کو فرمایا : 
میں اندر جا رہا ہوں اگر آپ کو بلاؤں تو فورا آ جانا  
امام حسین اندر داخل ہوئے ، مروان بھی وہیں بیٹھا تھا ولید نے خط پڑھ کے سنایا تو امام حسین نے فرمایا : «ما کنْتُ اُبایعُ لِیزِیدَ؛ میں ہرگز یزید کی بیعت نہیں کروں گا.»

مروان نے کہا : امیر المؤمنین یزید کی بیعت کرو! امام حسین (ع) نے فرمایا : واے ہو تم پر کہ فضول باتیں کر رہے ہو! کس نے یزید کو امیر المؤمنین بنایا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 📚 حوالہ جات
 1▪️ تاریخ یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، بیروت، ج 2، ص 241؛ 
2▪️ نفس المهموم، شیخ عباس قمی، قم، بصیرتی، ص 66؛ 
3▪️ انساب الاشراف، بلاذری، بیروت، دار التعارف، ج 3، ص 155.
4▪️ مثیر الاحزان، ابن نما حلّی، قم، ص 24.
5▪️ کامل ابن اثیر، بیروت، ج 4، ص 14؛
 6▪️ مقتل الحسین، مقرّم، بیروت، ص 129.
7▪️ مناقب ابن شهر آشوب، قم، انتشارات علّامه، ج 4، ص 88؛ 
8▪️ ارشاد شیخ مفید، قم،ج 2، ص 33.

قیام امام حسین ع کے مقاصد  

 

مقدمه

  مقصد قیام امام حسین (ع) کو سمجھنا ہے تو اس کا ایک بہترین ذریعہ امام کے خطبات اور مدینہ سے کربلا تک امام  کی مختلف افراد سے گفتگو ہے امام  علیہ السلام نے اس سفر میں مختلف افراد سے گفتگو فرمائی اور اپنے قیام کے مقصد کو بیان فرمایا ہے ، 
 
امام حسین (ع) کی ملاقاتوں کو تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں 
1👈 مدینہ میں ملاقاتیں 
2👈 مکہ میں ملاقاتیں 
3👈  مکہ سے کربلا کے راستے میں ملاقاتیں 

 انشاء اللہ ہر روز امام علیہ السلام کی ایک ملاقات کو معتبر اور علمی کتابوں کے  حوالہ جات کے ساتھ بیان کریں گے۔

امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شخصیت پر ایک نظر

 

امام حسن مجتبیٰ (ع ) کی شخصیت  پر ایک نظر

تحریر: ساجد محمود

حضرت امام حسن مجتبیٰ 15 رمضان کی رات 2 ہجری جنگ احد کے سال اور ایک نقل کے مطابق 3 ہجری کو پیدا ہوئے۔صاحب کتاب کشف الغمہ کمال الدین  ابن طلحہ شافعی  سےنقل کرتے ہیں کہ امام حسن کی ولادت کے متعلق صحیح ترین قول یہ ہے کہ آپ 15 رمضان تیسری ہجری کو پیدا ہوئے۔

حضرت زہرا(س)نے  اس مبارک مولود کو ولادت کے ساتویں دن ریشمی کپڑا جو حضرت جبرائیل پیامبر اکرم (ص) کے لئےلائے تھے میں لپیٹا اور پیغمبر اکرم کی خدمت میں لے کر آئیں۔حضرت نے اس مبارک(پاک) مولود کا نام حسن رکھا۔ اور ایک بکرا آپ کے لئے  عقیقہ کیا حضرت امام حسن (ص) نے سات سال اور کچھ ماہ پیامبر اکرم کے ساتھ زندگی گزاری  اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ تیس سال اور اپنے باپ کے بعد 9 سے 10 سال اکیلے  زندگی گزاری۔ آپ کا قد بڑا اور داڑھی گھنی تھی۔ لوگوں نے آپ کے والد کی شہادت کے بعد جمعہ کے دن 21 رمضان سال 40 ہجری کو آپ کی بیعت کی آپ کے  لشکر کا سپہ سالار  عبیداللہ بن عباس اور ان کے بعد قیس بن سعد بن عبادہ تھا۔

لوگوں نے جب امام (ع) کی  بیعت کی تو اُس وقت آپ کی عمر مبارک 37 سال تھی ابھی آپ کی حکومت کے 4 ماہ اور 3 دن ہی گزرے تھے کہ سال 4 ہجری کو آپ کی معاویہ کے ساتھ صلح کا واقعہ پیش آیا اس کے بعد امام مدینہ چلے گئے اور 10 سال تک وہاں قیام پذیر رہے۔

آپ کی کنیت ابو محمد اور ابوالقاسم ہے۔ مقدس ترین القاب سید، سبط، امین، حجت، برّ، تقی، اثیر، زکی، مجتبیٰ، سبط اول اور زاہد ہے، (1)

جابر بن عبداللہ کہتے ہیں: حضرت امام حسنؑ کی ولادت کے بعد آپ کی والدہ ماجدہ حضرت زہرا (س) نے حضرت علی ؑ کو فرمایا: نئے مولود کا نام رکھیئے۔ حضرت امیرالمؤمنین ؑ نے فرمایا: ان کا نام حضرت رسول خدارکھیں گے اورپھر رسول خدا نے فرمایا کہ میں ہی منتظر ہوں کہ خداوند ان کے  نام کا حکم دے۔

خداوند متعال نے جبرائیل کو وحی کی کہ محمد کے پاس ایک بچہ پیدا ہوا ہے ابھی ان کے پاس جاؤ اور انہیں فرزند کی مبارکباد دو اور محمد کو اطلاع دو کہ علی کی نسبت تیرے ساتھ ایسی ہے جیسے ہارون کی موسیٰ سے ہے۔

اپنے نومولود کا نام ہارون کے بچوں پر رکھو۔ اس حکم کے بعد جناب جبرائیل رسول خدا کے پاس پیغام لے کر آئےاور کہا علی کے فرزند کو ہارون کے فرزند جیسا نام رکھو ۔ پیامبر نے پوچھا جناب ہارون کے بچوں کا نام کیا تھا تو جبرائیل نے عرض کی اس کے بچہ کا نام شبرتھا پیامبر نے فرمایا میری زبان عربی ہے تو جبرائیل نے عرض کی اپنے فرزند کا نام حسن رکھو(2)

شیخ مفید علیہ رحمہ نے روایت کی ہے کہ کوئی بھی امام حسن سے زیادہ پیامبر کے ہمشکل نہ تھا(3)

2- امام حسن کا مقام و منزلت

2-1 : خداوند متعال کے نزدیک امام حسن اور امام حسین علیہ  السلام کی منزلت۔

حضرت پیامبر اکرم ؐ نے ایک حدیث میں حضرت امام حسن اور حسین کے رتبہ اورمقام کے بارے میں اس طرح خبر دی۔

حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْبَزَّازِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (ع) قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص):‏ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَتَمَسَّكَ بِعُرْوَةِ اللَّهِ الْوُثْقَى الَّتِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فَلْيُوَالِ [فَلْيَتَوَلَ‏] عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ (ع) فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّهُمَا مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِ. (4)

ترجمہ: میرا باپ سعد بن عبداللہ سے وہ احمد بن محمد بن عیسیٰ سے وہ اپنے باپ سے وہ محمد بن عیسی ٰ  سےوہ عبداللہ بن مغیرہ سے وہ محمد بن سلیمان البزازسے وہ عمرو بن شمرسے وہ جابرسے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: رسول خدا نے فرمایا کہ جو چاہتا ہے کہ خدا کی رسی کہ  جس کے بارے میں خدا نے قرآن میں ذکر کیا ہے کو تھامے تو اسے چاہےکہ علی و ( اولاد علی ) حسن و حسین کو دوست رکھے چونکہ خداوند متعال کی ذات فوق عرش سے ان کو دوست رکھتی ہے۔

ایک روایت میں حضرت امام رضاؑ سے جو پیامبر کے ان دو لخت جگر کی عزت کے  بارے میں ہے نقل کیا گیا ہے کہ:

 حضرت علی بن موسیٰ الرضا نے فرمایا: ایک مرتبہ عید تھی تو امام حسن و حسین کے پاس نیا لباس نہیں تھا آپ دونوں اپنی والد ماجدہ کے پاس آئے اور کہا ہمارے علاوہ مدینہ کے تمام بچہ سنورے ہوئے ہیں آپ ہمیں کیوں نہیں سنوارتی؟ حضرت فاطمہ نے کہا آپ کے کپڑے درزی کے پاس ہیں جب کپڑے آئیں گے تو آپ کو بھی بناؤں، سنواروں گی۔ جب عید کی رات آئی تو دونوں اپنی والدہ کے پاس آئے تو لباس طلب کیا تو حضرت فاطمہ (س) رو پڑی اور پھر وہی جواب انہیں دیا جب رات تاریک ہو گئی تو کسی نے دروازہ پر دستک دی حضرت فاطمہ نے کہا کون جواب آیا رسول کی بیٹی میں درزی ہوں آپ کے بچوں کا لباس لے کر آیا ہوں حضرت زہرا(س ) نے دروازہ کھولا تو ایک مرد نہایت ہی شان وشوکت کے ساتھ ایک لفافہ آپ کو دے کر چلا گیا آپ جب دروازہ کے اندر آئی اور بند لفافہ کو کھولا تو اس میں 2 قمیضیں اور 2 شلواریں ، 2 عمامہ اور 2 سیاہ جورابیں کہ جن کی پشت سرخ چمڑہ کی تھی، کو دیکھا اور پھر امام  حسن و حسین  کو نیند سے جگایا اور انہیں وہ لباس پہنایا تو اسی حالت میں رسالت مأب ؐ داخل ہوئے اور دونوں شہزادوں کو سنورے ہوئے دیکھا تو دونوں کو بغل کیا اور چوما، حضرت زہرا(س) کو کہا: کیا درزی کو دیکھا تو آپ نے فرمایا جی ہاں یا رسول اللہ جو لباس آپ نے ہمارے لئے بھیجا تھا وہ لے کر آیا تھا تو حضرت رسول ؐ نے فرمایا: وہ درزی نہیں تھا، بلکہ”رضوان” بہشت کا خازن تھا ۔ حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا کہ یا رسول اللہ اس نے آپ کو بھی خبر کیا تو حضرت نے فرمایا وہ آسمان کی طرف نہیں گیا بلکہ پہلے میرے پاس آکر خبر دی (5)

2-1-1: جوانان جنت کے سردار

بہت سی احادیث میں پیامبر اکرم ؐ نے حضرت امام حسن و حسین کو جنت کے جوانوں کا سردار معرفی کیا ہے ہم یہاں پر دو حدیثوں کا ذکر کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْقَطَّانُ قَال‏ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ بُهْلُولٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبَانٍ عَنْ سَلَّامِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذَ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنِ الْحَسَنِ‏ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ (ع) قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (ص) يَقُولُ‏ أَنَا سَيِّدُ النَّبِيِّينَ وَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ سَيِّدُ الْوَصِيِّينَ وَ الْحَسَنُ‏ وَ الْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ الْأَئِمَّةُ بَعْدَهُمَا سَادَاتُ الْمُتَّقِينَ وَلِيُّنَا وَلِيُّ اللَّهِ وَ عَدُوُّنَا عَدُوُّ اللَّهِ وَ طَاعَتُنَا طَاعَةُ اللَّهِ وَ مَعْصِيَتُنَا مَعْصِيَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيل‏. (6)

ترجمہ: علی بن محمد بن موسیٰ اپنی اسناد کے ساتھ ابی طفیل اور وہ حضرت امام حسن علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا: میں نے رسول خدا ؐ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں جنت میں رہنے والے پیامبروں کا سردار، علی اوصیا ءکا سردار اور حسن و حسین جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے بعد والے آئمہ نیک و متقی لوگوں کے سردار ہیں ہماری مدد کرنے والا خدا کی مدد کرنے والا ہے اور ہمارا دشمن خدا کا دشمن ہے اور ہماری اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور ہمارے حق میں معصیت ،  خدا کی معصیت ہے اور ہمارے لئے بس خدا ہی کافی ہے اور وہ کتنا اچھا وکیل ہے ۔

اس بارے میں ایک اور حدیث میں حضرت ختمی مرتبت سے نقل کیا گیا ہے جسے ہم یہاں پر ذکر کرتے ہیں

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ خُشَيْشٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو ذَرٍّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا مُخَوَّلٌ قَالَ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْأَسْوَدِ- عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ): الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّة. (7)

محمد بن علی بن خشیش اپنی اسناد کے ساتھ حارث ( ابوذر) سے اور وہ حضرت علی سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا حضرت رسول خدا ؐ نے فرمایا ہے کہ حسن وحسین  اہل بہشت کے جوانوں کے دو سردار ہیں۔

2-2: قیامت کے دن امام حسن و حسین کا مقام و منزلت

حَدَّثَنَا الشَّيْخُ الْفَقِيهُ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مُوسَى بْنِ بَابَوَيْهِ الْقُمِّيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَطَّارُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْأَشْعَرِيُّ عَنْ يُوسُفَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص)‏: إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ زُيِّنَ عَرْشُ رَبِّ الْعَالَمِينَ بِكُلِّ زِينَةٍ ثُمَّ يُؤْتَى بِمِنْبَرَيْنِ مِنْ نُورٍ طُولُهُمَا مِائَةُ مِيلٍ فَيُوضَعُ أَحَدُهُمَا عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ وَ الْآخَرُ عَنْ يَسَارِ الْعَرْشِ ثُمَّ يُؤْتَى بِالْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ (ع) فَيَقُومُ الْحَسَنُ عَلَى أَحَدِهِمَا وَ الْحُسَيْنُ عَلَى الْآخَرِ يُزَيِّنُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بِهِمَا عَرْشَهُ كَمَا يُزَيِّنُ الْمَرْأَةَ قُرْطَاهَا. (8)

ابن بابویہ اپنے والد سے نقل کرتے ہوئے محمد بن یحییٰ عطار کی سند کے ساتھ ابن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا ؐ نے فرمایا : جب قیامت کا دن ہو گا تو خداوند متعال کا عرش مزین کیا جائے گا اور اس کے بعد نور کے دو منبر لائے جائیں گے جن کا طول 100 میل ہوگا ایک کو عرش الہٰی کے دائیں جانب اور دوسرا عرش الہٰی کے بائیں جانب رکھا جائے گا  اس کے بعد امام حسن و حسین کو لایا جائے گا اور امام حسن ایک پر اور امام حسین دوسرے تخت پر کھڑے ہوں گے خداوند اپنے عرش کو ان کے ساتھ اس طرح زینت دے گا  کہ جس طرح عورت دو گوشواروں سے اپنے آپ کو زینت دیتی ہے ۔

ابی بن کعب سے نقل کیا گیا ہے کہ میں ایک دن پیامبر کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک امام حسن و حسین تشریف لائے اور پیامبر پر سلام کیا، پیامبر نے سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایا، مرحبابکما یا زین العرش مرحبا بکما یا زین السماوات والارض” اے عرش الہٰی اور زمین و آسمان کو زینت دینے والے خوش آمدید۔

ابن ابی کعب نے کہا یا رسول اللہ کیا آپ کے علاوہ بھی کوئی عرش الہٰی اور زمین و آسمان کو مزین کرنے والا ہے؟ تو پیامبر نے فرمایا کہ  : ہاں یہ دونوں عرش وزمین و آسمان کو مزین کرنے والے ہیں اے  ابی کعب  قسم اس خدا کی کہ جس نے مجھے پیامبری پر مبعوث کیا ہے حسن و حسین  ہدایت کے چراغ اور نجات کی کشتی اور جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ (9)

3-2: پیامبر کے نزدیک امام حسن و حسین کی منزلت

اپنے اندر حسنین کی محبت کے بارے میں پیامبر ایک حدیث میں فرماتے ہیں :

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ الزَّيْدِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبَّاسٍ وَ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ جَمِيعاً قَالَ حَدَّثَنَا مَنْ سَمِعَ بَكْرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيَّ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) لِي يَا عِمْرَانُ إِنَّ لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ مَوْقِعاً مِنَ الْقَلْبِ وَ مَا وَقَعَ مَوْقِعَ هَذَيْنِ الْغُلَامَيْنِ مِنْ قَلْبِي شَيْ‏ءٌ قَطُّ فَقُلْتُ كُلُّ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ يَا عِمْرَانُ وَ مَا خَفِيَ عَلَيْكَ أَكْثَرُ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِحُبِّهِمَا. (10)

ترجمہ: محمد بن احمد بن ابراہیم نے حسین بن علی زید اور انہوں نے اپنے والد اور انہوں نے علی بن عباس و عبدالسلام بن حرب سے اور سب نے بکر بن عبداللہ المزنی سے اور انہوں نے عمران بن حصین سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا رسول خدا نے مجھے فرمایا اے عمران ہر چیز کی دل میں ایک جگہ ہوتی ہے لیکن ان دو بچوں کے لئے میرے دل میں ایک خاص جگہ نہیں ہے۔

عمران کہتا ہے کہ میں نے عرض کی اے رسول خدا آپ کا پورا دل ان دونوں کے لئے ہے؟ تو آپ نے فرمایا اے عمران جو تجھ پر مخفی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے کہ جس کے بارے میں تونے جانا ہے خداوند متعال نے مجھے ان کی محبت کے بارے میں حکم دیا ہے (11)

ایک طولانی حدیث ہے  کہ جس کو حضرت رسول اللہ ؐ نے اہل بیت کے بارے میں بیان فرمایا ہے:

ہم یہاں پر اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے کچھ حصہ امام حسن و حسین کے بارے میں ذکر کرتے ہیں۔

 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِيَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَلَمَةَ الْأَهْوَازِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الثَّقَفِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُوسَى ابْنِ أُخْتِ الْوَاقِدِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ الْحَرَّانِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلَاءِ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ (ص) كَانَ جَالِساً ذَاتَ يَوْمٍ وَ عِنْدَهُ عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ (علیهم السلام) فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي وَ أَكْرَمُ النَّاسِ عَلَيَّ فَأَحِبَّ مَنْ أَحَبَّهُمْ وَ أَبْغِضْ مَنْ أَبْغَضَهُمْ وَ وَالِ مَنْ وَالاهُمْ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُمْ وَ أَعِنْ مَنْ أَعَانَهُمْ وَ اجْعَلْهُمْ مُطَهَّرِينَ مِنْ كُلِّ رِجْسٍ مَعْصُومِينَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَ أَيِّدْهُمْ بِرُوحِ الْقُدُسِ مِنْكَ ثُمَّ قَالَ (ص) … وَ أَمَّا الْحَسَنُ‏ وَ الْحُسَيْنُ فَهُمَا ابْنَايَ وَ رَيْحَانَتَايَ وَ هُمَا سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيُكْرَمَا عَلَيْكَ كَسَمْعِكَ وَ بَصَرِكَ ثُمَّ رَفَعَ (ص) يَدَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنِّي مُحِبٌّ لِمَنْ أَحَبَّهُمْ وَ مُبْغِضٌ لِمَنْ أَبْغَضَهُمُ وَ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَهُمْ وَ حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَهُمْ وَ عَدُوٌّ لِمَنْ عَادَاهُمْ وَ وَلِيٌّ لِمَنْ وَالاهُمْ. (12)

ترجمہ: احمد بن زیاد بن جعفر ھمدانی ایک اسناد کے ساتھ سعید بن مسیب سے اور وہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن رسول خدا ایک مسجد میں بیٹھے تھے اور آپ کے پاس حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن و حسین بھی تشریف فرما تھے تو حضرت رسول خدا ؐ نے فرمایا خدایا تو جانتا ہے کہ یہ میرے اہل بیت اور لوگوں میں سے میرے نزدیک سب سے عزیز ترین ہیں  ۔

تو دوست رکھ، جو ان کو دوست رکھے اور بغض رکھ ،اس سے کہ جو ان سے بغض رکھتا ہے اور کامیاب فرما اسے کہ جو ان کی پیروی کرتا ہے اور دشمن رکھ ہر اس کو، جو ان سے دشمنی رکھتا ہے۔ اور مدد فرما ہر اس کی ،جو ان کی مدد کرتا ہے اور ان کو ہر پلیدگی و کثافت سے پاک و منزہ قرار دے اور انہیں تمام گناہوں سے محفوظ رکھ اور اپنی طرف سے روح القدس کے ذریعے سے ان کی تائید فرما۔۔۔ اور حسن و حسین میرے دو بیٹے اور دو باغ ہیں اور دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں تیرے نزدیک آنکھ و گوشت کی طرح عزیز ہونے چاہیے اس کے بعد آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور فرمایا خدایا گواہ رہنا میں ان کے دوست کو دوست اوران کے دشمن کو دشمن رکھتا ہوں اور جو ان کے ساتھ صلح میں ہو، اس کے ساتھ صلح  اور جو ان کے ساتھ جنگ کرے ، ان کے ساتھ جنگ میں ہوں اور جو ان کا بُرا چاہے اس کا دشمن  اور جو ان کو دوست رکھے ،اس کا دوست ہوں ۔

ایک اور حدیث میں کہ جو مرثیہ حضرت نے امام حسن و حسین کی شان میں پڑھا ہے اس طرح یاد کیا جاتا ہے کہ:

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْعَلَوِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنِي جَدِّي قَالَ حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ الزُّبَيْرِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَلِيٍّ الرَّافِعِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدَّتِهِ بِنْتِ أَبِي رَافِعٍ قَالَتْ‏ أَتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ (ص) بِابْنَيْهَا الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ (ع) إِلَى رَسُولِ اللَّهِ (ص) فِي شَكْوَاهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَانِ ابْنَاكَ فَوَرِّثْهُمَا شَيْئاً قَالَ أَمَّا الْحَسَنُ فَإِنَّ لَهُ هَيْبَتِي وَ سُؤْدُدِي وَ أَمَّا الْحُسَيْنُ فَإِنَّ لَهُ جُرْأَتِي وَ جُودِي‏. (13)

ترجمہ: ابن بابویہ نے حسن بن محمد بن یحییٰ سے ایک اسناد کے ساتھ بنت ابی رافع سے روایت نقل کی ہے کہ : پیامبر کی بیماری کی حالت میں کہ جس کے بعد آپ نے دار فانی کو وداع کیا حضرت فاطمہ (س) دختر رسول خدا ؐ نے حسن و حسین علیہ السلام کو اپنے والد گرامی کی خدمت میں لے آئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ 2 آپ کے بیٹے ہیں کوئی چیز ان کے لئے میراث میں چھوڑ کر جائیں تو رسول اللہ  نے فرمایا:میں نےاپنی ھیبت اور شرافت حسن کے لئے اور اپنی جر أت و بخشش حسین کے لئے چھوڑی ہے۔

ایک اور روایت کے مطابق اپنی سخاوت وشجاعت حسین کو دی ہے ۔

محمد بن اسحاق کہتا ہے حضرت رسول ؐ کے بعد کوئی بھی شرافت و مقام میں حسن بن علی تک نہیں پہنچا ۔

امام حسن جب بھی اپنے گھر سے باہر جاتے اور ایک جگہ تشریف فرما ہوتے تو لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہو جاتے یہاں تک کہ راستے بند ہو جاتے۔ ا س کے بعد آپ واپس اپنے گھر تشریف لے جاتے اورلوگ بکھر جاتے تھے۔

میں نے مکہ کے راستے میں انہیں دیکھا جب کہ آپ اپنی سواری سے نیچے اترے اور پیدل جا رہے تھے تو  لوگ بھی آپ کی اتباع میں پیدل چل پڑے جب کہ  سعد بن وقاص بھی آپ کی معیت میں پیدل چل رہے تھے (14)

حضرت   رسول اکرمؐ نے حسنین شریفین علیہم السلام کو اپنے دو پھول  معرفی کیا ہے۔

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص):‏ الْوَلَدُ الصَّالِحُ رَيْحَانَةٌ مِنَ اللَّهِ قَسَمَهَا بَيْنَ عِبَادِهِ وَ إِنَّ رَيْحَانَتَيَّ مِنَ الدُّنْيَا الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ سَمَّيْتُهُمَا بِاسْمِ سِبْطَيْنِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ شَبَّراً وَ شَبِيراً. (15)

 ترجمہ: علی بن ابراہیم ایک اسناد کے ساتھ حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول ؐ نے فرمایا: نیک بیٹا خدا کی جانب سے ایک پھول ہے کہ جسے خدا نے اپنے بندوں میں تقسیم کیا ہے دنیا میں میرے دو پھول حسن و حسین ہیں میں نے ان دو کا نام بنی اسرائیل کے دو بچوں کے نام شبر و شبیر پر رکھا ہے۔

ابن شھر آشوب نے کہا ہے کہ اکثر (بہت ساری )تفسیروں میں وارد ہوا ہے کہ پیامبر اکرم ؐ حسنین علیہم السلام کو دو سورتوں ” قل اعوذ برالناس اور قل اعوذ برب افلق” سے تعویذ کرتے تھے اس وجہ سے ان دو سورتوں کو معوذتین کہا جاتا ہے (16)

ایک حدیث میں پیامبر اکرم ؐ  امام حسن و حسین کے دوست کو بہشت اور آپ کے دشمن کو جہنم کا مستحق قرار دیتے ہیں

وَ قَالَ رسول الله (صلّى اللَّه عليه و آله و سلّم) مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ (علیهما السّلام) أَحْبَبْتُهُ وَ مَنْ أَحْبَبْتُهُ أَحَبَّهُ اللَّهُ وَ مَنْ أَحَبَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ وَ مَنْ أَبْغَضَهُمَا أَبْغَضْتُهُ وَ مَنْ أَبْغَضْتُهُ أَبْغَضَهُ اللَّهُ وَ مَنْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ خَلَّدَهُ فِي النَّارِ. (17)

ترجمہ: شیخ مفید نے کتاب ارشاد میں نقل کیا ہے کہ حضرت رسالت مأب ؐ نے فرمایا: جو بھی حسن و حسین کو دوست رکھے میں اس کو دوست رکھتا ہوں اور جو کوئی مجھے دوست رکھے خدا اسے دوست رکھتا ہےاور جس کو خدا دوست رکھے ، جنت میں داخل کیا جائے گا اور جو کوئی بھی انہیں دشمن رکھے میں انہیں دشمن رکھتا ہوں اور جسے میں دشمن رکھوں خداوند اسے دشمن رکھتا ہے اور جسے خدا دشمن رکھے جہنم میں ڈالا جائے گا۔

3۔ حضرت امام حسن علیہ السلام کے مختصر فضائل اور مکارم اخلاق

حضرت امام حسن مجتبیٰ لوگوں میں سب سے زیادہ عابد اور پرہیز گار تھے مناقب ابن شھر آشوب اور روضۃ الواعظین میں روایت ہوئی ہے کہ حضرت امام حسن جب بھی وضو کرتے تو آپ کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا  اور آپ کا رنگ مبارک زرد ہو جاتا امام علیہ السلام سے جب اس کی وجہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: سزاوار کہ جو کوئی اپنے خدا کی بارگاہ میں کھڑا ہو تو اس کا رنگ زرد ہو جائےاور اس کے بدن پر لرزہ و کپکپی طاری ہو۔

جب امام علیہ السلام مسجد تشریف لے جاتے جیسے ہی مسجد کے دروازہ پر پہنچتے تو اپنے سر مبارک کو آسمان کی جانب بلند کر کے فرماتے تھے «الهى ضيفك ببابك يا محسن قد اتاك المسى‏ء فتجاوز عن قبيح ما عندي بجميل ما عندك يا كريم:۔

اے میرے خدا یہ تیرا مہمان  ہےکہ جو تیر ی بارگاہ میں کھڑا ہے اے احسان کرنے والےتیرے پاس تیرا گناہ گار بندہ آیا ہے پس نا پسندیدہ اور قبیح کاموں سے در گزر کر،  اپنے پسندیدہ چیزوں کے واسطہ جو تیرے پاس ہیں۔

ہم یہاں پر امام حسن علیہ السلام کی کچھ مختصر سی اخلاقی صفات و کمالات کا ذکر کرتے ہیں۔

1-3: امام کا تواضع

ابن شھر آشوب نے کتاب مناقب میں کتاب الفنون نزھۃ الابصار سے نقل کیا ہے کہ ایک دن امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کچھ فقیر لوگوں کے قریب سے گزرے جو مٹی پر بیٹھے تھے اور روٹی کے ٹکڑے اٹھاتے اور کھاتے ، امام سے بھی کہا کہ ان کے پاس سفرہ پر آکر بیٹھیں ۔

امام علیہ السلام نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور سواری سے نیچے اترے اور فرمایا خداوند متکبر لوگوں کو دوست نہیں رکھتا اور غذا تناول کرنے میں مصروف ہو گئے پھر ان لوگوں کو اپنے گھر کھانے کی دعوت دی اور انہیں لباس و غذا عطا فرمایا( 19)

2-3: امام کا کرم و سخاوت

انس بن مالک نقل کرتے ہیں   کہ ایک کنیز نے ایک پھولوں کا دستہ امام علیہ السلام کو ھدیہ پیش کیا تو امام حسن علیہ السلام نے اسے فرمایا: “تجھے خدا کی راہ میں آزاد کیا”

تو راوی کہتا ہے کہ میں نے آنحضرت کو عرض کیا ، کیا آپ نے فقط پھولوں کے ایک گلدستہ کے بدلے اسے آزا د کر دیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا خداوند متعال نے ہماری اس طرح تربیت کی ہے۔ خداوند قرآن میں سورہ نساء کی آیت نمبر 86 میں فرماتا ہے کہ «وَ إِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها»کہ جب کوئی تمہارے ساتھ اچھائی کرے تو اس کا بڑھ  کر جواب دو یا حداقل اسی طرح جواب دو اس کے بعد فرمایا بہتر اچھائی اس کو آزاد کرنا ہی ہے(20)

آپ کریم اہل بیت علیہ السلام کے نام سے معروف ہیں چونکہ آپ نے اپنی زندگی میں کئی دفعہ اپنی تمام دولت فقراء میں مساوی طور پر تقسیم کر دی ۔

ابن شھر آشوب نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ حضرت امام حسن (ع) پچیس مرتبہ پیدل حج پر گئے اور دو مرتبہ یا ایک روایت کے مطابق تین مرتبہ اپنے مال کو خدا کے ساتھ تقسیم کیا کہ آدھا مال اپنے لئے رکھا اور آدھا مال خدا کی راہ میں فقیروں کو دیا (21)

3-3: امام حسن علیہ السلام کا حلم و صبر

بہت معروف مفکر مبّرد نے کتاب کامل میں اور دوسرے بھی روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک شامی بوڑھے شخص نے جب آپ کو سواری پر سوار دیکھا تو آپ کو گالیاں دینا شروع کر دی لیکن امام حسن نے سکوت ( خاموشی ) اختیار کی جب اس شخص کی گالیاں ختم ہوئی تو حضرت امام حسن نے گشادہ روی کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوئے جب کہ آپ مسکرا رہے تھے اس شخص پر سلام کیا اور فرمایا ” اے شخص میرے خیال میں تم مسافر ہو اور لگتا ہے کہ کچھ چیز یں تم پر مشتبہ ہو گئی ہیں اگر ہم سے مدد طلب کرتے ہو تو ہم تم سے مشکلات کو برطرف کر سکتے ہیں اور تمہیں کچھ دے سکتے ہیں اور اگر ہم سے کوئی چیز چاہتے ہو تو تمہیں دے سکتے ہیں اور اگر ہم سے راہنمائی چاہتے ہو تو تمہاری راہنمائی کر سکتے ہیں اور اگر چاہتے ہو تو تمہارا سامان اٹھاؤں تو اٹھا لوں گا  اور اگر بھوکے ہو تو تمہارا پیٹ بھر سکتے ہیں اور اگر برہنہ ہو تو تمہیں لباس دیتے ہیں اور اگر نیاز مند ہو تو تمہیں بے نیاز کر دیں گے اور اگر کسی جگہ سے بھگائے گئے ہو تو ہم تمہیں پناہ دینے کے لئے تیار ہیں اور اگر کوئی حاجت رکھتے ہو تو اسے پورا کر سکتے ہیں اور اگر ہماری طرف سفر کیا ہے تو واپس جانے  تک  ہمارے مہمان ہو  اور یہ تمہارے لئے بہتر ہے چونکہ ہمارے پاس مہمان نوازی کے لئے گھر موجود ہے۔ بہت بڑا مال و منزلت تمہارے اختیار میں ہے۔

جب اس شامی مرد نے امام حسن علیہ السلام کی اس محبت آمیز گفتار کو سنا تو رونے شروع کیا اور اس طرح دگرگون ہوا اسی لمحہ یہ کلمات جاری کئے ” الشھد انک خلیفۃ اللہ فی ارضہ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہو خداوند متعال آگاہ ہے اس سے کہ اپنی رسالت کو کس میں قرار دے۔

پھر اس کے بعد فرمایا میں سمجھ رہا تھا کہ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک دشمن ترین مخلوقات میں سے ہو لیکن اب پتہ چلا ہے کہ آپ میرے نزدیک خدا کی محبوب ترین مخلوقات میں سے ہیں  اس کے بعد اس نے اپنا سامان امام علیہ السلام کے گھر منتقل کیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ کا مہمان رہا پھر اس کے بعد شام کی طرف واپس چلا گیا جب کہ خاندان رسالت کی سچی محبت اس کے دل میں تھی اور اس کا معتقد تھا ( 22)

4-3: امام حسن کا علم

ابن شھر آشوب نے روایت کی ہے کہ ایک اعرابی (بدو) عبد اللہ بن زبیر اور عمر و بن عثمان کے پاس آیا اور ان سے کچھ مسائل کے بارے میں سوال کیا چونکہ نہیں جانتے تھے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے اور واگذار کرنے لگے۔

اعرابی نے کہا لعنت ہو تم پر میں نے تم سے ضروریات دین میں سے ایک مسالہ پوچھا ہے اور تم ایک دوسرے کی طرف واگذار کر رہے ہو دین خدا میں یہ چیز روا نہیں ہے ۔

تو انہوں نے کہا اگر چاہتے ہو اس مسالہ کو جانو تو حسن و حسین علیہ السلام کے پاس جاؤ جو دینی مسائل کے  بارے میں جانتے ہیں ۔ وہ شخص جب ان کے پاس گیا تو مسالہ کو عرض کیا اور کامل جواب حاصل کیا اور پھر عبداللہ و عمرو کو خطاب کر کے چند بیت اشعار پڑھے کہ جن میں سے ایک  کا مضمون یہ ہے: خداوند متعال نے تمہارے دو رخساروں کو حسن و حسین کی دو نعلوں  میں قرار دیا ہے (23)

پانوشتها

(1)حضرت امام حسن کا زندگی نامہ،  صفحه 142

(2) چھاردہ معصومین کا زندگی نامہ صفحه303

(3) جلاء العیون، صفحه 407 ارشاد سے نقل ،  جلد 2، صفحه 5

(4) كامل الزيارات، صفحه 51

(5) جلاء العيون، صفحه 393 مناقب ابن شھر آشوب سے منقول، جلد3، صفحه 441

(6) الأمالي( للصدوق)، صفحه 558

(7) الأمالي (للطوسي)، صفحه 312

(8) الأمالي( للصدوق)، صفحه112 – بحار الأنوار، جلد ‏43، صفحه 262 و 293

(9) أنيس المؤمنين، صفحه 86

(10) كامل الزيارات، صفحه 50

(11) كامل الزيارات، صفحه 149

(12) الأمالي( للصدوق) ، صفحه 487 – 486

(13الخصال، جلد‏1، صفحه77

(14) ترجمه إعلام الورى، صفحه 304 – منتهى الآمال، شيخ عباس قمى ، جلد ‏1، صفحه 531

(15) الكافي، جلد ‏6 ، صفحه 2

(16) منتهى الآمال، شيخ عباس قمى ، جلد ‏1، صفحه 527 مناقب شھر آشوب سے منقول، جلد 3، صفحه  436-  جلاء العيون، صفحه 391 – بحار الأنوار، جلد 43، صفحه 285، حدیث 50 مناقب شھر آشوب سے منقول۔

(17) الإرشاد، جلد ‏2 ، صفحه 28

(18) منتهى الآمال، جلد ‏1، صفحه 530

(19) سيره معصومان، جلد ‏5، صفحه 23 – 22

(20) الأنوار البهية، صفحه 122 – 121

(21) منتهى الآمال، جلد ‏1، صفحه 530 مناقب شھر آشوب سے منقول ، جلد 4، صفحه 18 – جلاء العيون، صفحه 407 – العوالم، صفحه 131- 130 و 134

(22) الأنوار البهية، صفحه 123- 122

امام حسن علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ایک پہلو

 

تحریر: تصورعباس خان

اہل بیت کا فرمان ہے پست لوگوں کو کھانا کھانے میں مزا آتا ہے جبکہ کریم لوگوں کو کھانا کھلانے میں ۔ جی ہاں ایثار ،فداکاری و سخاوت اور تعاون  ایسے اعلی مفاھیم ہیں کہ اگر معاشرے میں ان پر عمل شروع ہو جائے تو معاشرے کی تقدیر ہی بدل جائے ۔ اگرچہ آج کل بہت سی این جی اوز ، خیراتی ادارے ، مختلف فاونڈیشنز اس میدان میں کام کر رہی ہیں لیکن ان کے پشت پردہ مقاصد اور مدد کرنےکے طریقہ کار پر بہت سے سوال اٹھتے رہے ہیں اور اٹھ رہے ہیں  ، لیکن کریم لوگوں کا مقصد صرف اور صرف رضای خدا ہوتا ہے ۔وہ نا صرف اس آیت کا مصداق ہوتے ہیں کہ لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلا شُكُورًا، نا لوگوں کی جزاا کا طمع ہوتاہے اور نا شکریہ ادا کروانے کا شوق ۔بلکہ الٹا کہتے ہیں کہ ہم نے یہ احسان سائل پر نہیں کیا بلکہ سائل کا ہم پر احسان ہے کہ ہمیں اس قابل سمجھا اور ہم سے حاجت طلب کی ۔

امام حسن مجتبی علیہ السلام جنہیں کریم اہل بیت کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ، جب محفل میں آئے شخص کو دیکھا جو امام حسن علیہ السلام کے اردگرد بیٹھے زیادہ افراد کو دیکھ کر سوال کرنے سے جھجھک رہا تھا تو امام نے اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کی مشکل کو بھانپ لیا اور اشارہ کیا کہ اگر کوئی بات ہے تو لکھ کر دے دیں ۔ جب اس نے لکھ کر دی اور جاتے ہوئے لوگوں نے دیکھ لیا کہ کتنا مال لے کر جا رہا ہے تو سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ کتنی بابرکت تحریر تھی ۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : اس کی نسبت ہمارے لیے برکت زیادہ تھی کہ اس نے ہمیں اس احسان و نیکی کے قابل سمجھا اور ہم سے سوال کیا ۔۔۔۔حسن ابطحی ، امام مجتبی صفحہ ۱۸۵

سائل کی عزت نفس کو مجروح کیے بغیر عطا کر دینا کریم کی ہی صفت ہے ۔ رسول اکرم ص اور امیرالمومنین علیہ السلام کے صدقات اور موقوفات بڑا بیٹا ہونے کے ناطے سب امام حسن علیہ السلام کی زیر نگرانی چل رہے تھے اور ان سے مدینہ میں دو طرح کے انکم و راشن سپورٹ پروگرام چل رہے تھے بعض ایسے غریب ، یتیم اور بیوگان تھیں جنہیں ماہانہ کی بنیاد پر خرچ اور راشن پہنچ رہا تھا تو دوسری انفرادی مدد تھی ۔ یہ انفرادی مدد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ کریم کا لقب زبان زد عام تھا ۔اور جب لوگ آپ سے پوچھتے کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی نہیں گیا چاہے آپ پیدل ہوں یا اونٹ پر سوار ؟ تو امام علیہ السلام فرماتے : میں بھی خداوندمتعال کی بارگاہ میں سائل اور محتاج ہوں اور چاہتا ہوں کی خداوندمتعال مجھے اپنے در سے خالی نا لوٹائے ۔ اس امید کی وجہ سے میں خدا کی مخلوق کو کیسے خالی ہاتھ لوٹا  سکتا ہوں ؟خداوندمتعال نے مجھے بے پناہ نعمتیں عطا کی ہیں اور چاہتا ہے کہ میں بھی اس کی مخلوق کی مدد کروں ۔ ڈرتا ہوں کہ اگر لوگوں کی مدد نا کروں تو خداوندمتعال بھی اپنی نعمتیں روک نا دے ۔بحار الانوار جلد ۴۳صفحہ ۳۴۲      اب آج کے دور میں کتنی ایسی این جی اوز یا فاونڈیشنز ہیں جو اس مبنی اور نظریہ کے پیش نظر کام کر رہی ہوں ؟

موقوفات اور صدقات کے ساتھ ساتھ امام حسن علیہ السلام اپنے ذاتی مال کو بھی خداوندمتعال کی راہ میں خرچ کر دیتے  روایات کے مطابق امام حسن علیہ السلام نے تین مرتبہ اپنے تمام مال و اموال کر راہ خدا میں تقسیم کر دیا یہاں تک کہ جوتے ، لباس و پیسے سب میں لوگوں کو شریک کیا اور ان میں تقسیم کیا {کتاب الحیاۃ ، جلد۳ صفحہ۲۹۹)

یہ سب کچھ صرف اور صرف ایمان کی بنیاد پر ہو سکتا ہے جب خدا پر پختہ ایمان ہو کہ روزی اس کے ہاتھ میں ہے تو وہ کبھی بخل سے کام نہیں لے گا ۔ امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بخل تمام برائیوں کی جڑ ہے جو دوستی اور محبت کو دلوں سے غائب کر دیتا ہے  جی ہاں جس معاشرے میں بخل سے کام لیا جاتا ہو ایک دوسرے کی مدد نا کی جاتی ہو ایک دوسرے کا قرض اتارنے میں مدد نا ہو ، تو وہاں محبتیں غائب ہو جایا کرتی ہیں جسم تو ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے ہیں لیکن دلوں کے فاصلے کوسوں دور ہو جایا کرتے ہیں ۔ امام حسن علیہ السلام نے دوسری جگہ فرمایا : بخل یہ ہے کہ انسان خدا کی راہ میں خرچ کیے مال کو ضائع اور اکٹھے کیے گئے مال کو غنیمت شمار کرے (مصطفی موسوی ، الروائع المختارہ ، صفحہ ۱۱۶؛  باقر شریف القرشی حیاۃ الامام الحسن علیہ السلام جلد ۱ صفحہ ۳۱۹،) ، اس لیے ہم نے پہلے عرض کیا کہ انفاق خدا پر ایمان کی صورت میں ہو سکتا ہے جب انسان کو ڈر ہو کہ اگر ان پیسوں سے فلاں کی مدد کر دوں گا تو میرے پاس کچھ نہیں بچے گا پھر کہاں سے لوں گا وغیرہ وغیرہ تو یہ ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہے حالانکہ خداوندمتعال نےاپنی راہ میں خرچ کیے مال کی ایک خوبصورت مثال قرآن میں ذکر کی ہے ۔جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کردیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی۔

اعتکاف ایک عظیم عبادت کہلاتی ہے لیکن جب امام حسن علیہ السلام اعتکاف میں تھے تو ایک شخص آیا اور عرض کی سر پر قرضہ ہے اور قرضہ اتارنے کی طاقت نہیں قرض دار جیل بھیجنا چاہتا ہے تو امام علیہ السلام نے فرمایا : ایسے وقت میں آئے ہیں کہ آپ کا قرض اتارنے کےلیے پیسے نہیں ہیں ۔ تو اس نے عرض کی پھر آپ بڑی ہستی ہیں اگر آپ سفارش کر دیں گے تو قرض دار شاید مہلت دے دے ۔ تو امام علیہ السلام فورا کھڑے ہو کر اس کے ساتھ چل پڑے ۔ ساتھ بیٹھے صحابی نے عرض کی کہ کیا آپ بھول گئے ہیں کہ آپ اعتکاف میں بیٹھے ہیں ؟ تو فرمایا : بھولا نہیں ہوں میرے والد بزرگوار نے رسول اکرم سے نقل فرمایا ہے کہ جو ایک دینی بھائی کی مشکل حل کرنے میں قدم اٹھائے تو وہ ایسا ہے جس نے ہزار سال خدا کی عبادت کی ہو جس میں دن کو روزے  رکھے اور رات کو نماز میں وقت گزارے  ۔

اگرچہ کبھی سائل کو خالی نا لوٹاتے لیکن اس بات کا بھی خیال رکھتے کہ ایسا نا ہو سب گداگر بن جائیں اور مانگنے پر جٹ جائیں اس لیے فرماتے : تین مواقع کے علاوہ کسی سے سوال کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔

پہلا : سنگین اور زیادہ قرضہ جیسے دیت وغیرہ

دوسرا :غربت جو انسان کو زمین گیر کر دے

تیسرا : یکدم آنے والی پریشانیاں اور امتحانات جیسے آسمانی آفت یا بیماری کا یکدم آنا

والسلام