اہل سنت کے آئمہ، فقہاء اور علماء امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی میں
ساجد محمود
کارشناسی ارشد (رشتہ تفسیر)
Sajjidali3512@gmail.com
نسب
حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چھٹے جانشین اور سلسلہ عصمت کی آٹھویں کڑی ہیں آپ کے والد ماجد امام محمدباقر علیہ السلام تھے۔ آپ منصوص من اللہ معصوم تھے،علامہ ابن خلقان تحریر فرماتے ہیں کہ آپ سادات اہل بیت علیہم السلام سے تھے اورآپ کی فضیلت اور آپ کا فضل و کرم بیان کا محتاج نہیں ہے۔[1]
والدہ
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی والدہ جناب ام فروة بنت قاسم بن محمد بن ابو بكر ہیں اور جناب ام فروۃ بنت قاسم کی والدہ اسماء بنت عبد الرحمن بن ابو بكر ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک فرمان میں بھی اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ جس میں امام فرماتے ہیں: ولدني أبو بكر مرتين۔
ولادت
آپ 17 ربیع الاول 83 ھ مطابق 702ء مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کی ولادت تاریخ کو خدا نے بڑی عزت دے رکھی ہے ایک احادیث میں ہے کہ اس تاریخ کو روزہ رکھنا ایک سال کے روزہ کے برابر ہے ۔امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ میرا فرزند ان چند مخصوص افراد میں سے ہے جن کے وجود سے خدا نے بندوں پر احسان فرمایا ہے اور یہی میرے بعد میرا جانشین ہو گا۔
اسم گرامی ، کنیت اور القاب
آپ علیہ السلام کا اسم گرامی جعفر ۔ آپ کی کنیت عبد اللہ ،ابو اسماعیل ، اور آپ کے القاب صادق، صابر ،فاضل ، طاہر وغیرہ ہیں ۔علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی ظاہری زندگی میں حضرت جعفر بن محمد علیہ السلام کو صادق کے لقب سے ملقب فرمایا تھا ۔
علما ء لکھتے ہیں کہ جعفر جنت میں ایک شیریں نہر کا نام ہے اسی کی مناسبت سےآپ کا لقب جعفر رکھا گیا ہے ،کیونکہ آپ کا فیض عام جاری نہر کی طرح تھا لہذا اسی لقب سے ملقب ہوئے ۔[2]
اولاد
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی اولاد کی تعداد دس ہے کہ جن میں سے سات بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں کہ جن کے نام درج ذیل ہیں:
1: اسماعيل، 2: عبداللہ، 3:أسماء کہ جن کی کنیت ام فروة ہے۔ان کی والدہ جناب فاطمہ بنت حسين بن علی بن حسين ہیں۔
4: امام موسى كاظم علیہ السلام ، 5: محمد کہ جو( ديباج)کے نام سے معروف ہیں۔ 6: اسحاق، 7:فاطمہ كبرىٰ۔ان کی والدہ جناب حميدہ بربريہ ہیں۔
8: عباس،9:علی، 10: فاطمہ صغرىٰ۔یہ مختلف ماؤں کے بطن سے ہیں۔
بادشاہان وقت
آپ کی ولادت کے وقت عبد الملک بن مروان بادشاہ وقت تھا پھر ولید، سلیمان ،عمربن عبد العزیز بن عبد الملک ،ہشام بن عبدالملک ،ولید بن یزید بن عبد الملک ،یزید الناقص ،ابراہیم بن ولید اور مروان الحمار اسی ترتیب سے خلیفہ مقرر ہوئے مروان الحمار کےبعد سلطنت بنی امیہ کا چراغ گل ہوگیا اور بنی عباس نے حکومت پہ قبضہ کرلیا ۔بنی عباس کا پہلا بادشاہ ابو العباس ،سفاح اور دوسرا منصور دوانقی ہوا ہے ۔ اسی منصورنے اپنی حکومت کے دوسال گزرنے کہ بعد امام جعفر صادق علیہ السلام کو زہرسے شہیدکردیا۔[3]
علمی سرگرمیاں
امام صادق علیہ السلام کے دور امامت میں بنی امیہ اپنی اقتدار اور بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف تھی اسی بنا پر لوگوں خاص کر شیعوں کو کسی حد تک مذہبی آزادی نصیب ہوئی جس سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے امام علیہ السلام نے نے مختلف موضوعات پر علمی اور عقیدتی مباحث کا سلسلہ شروع فرمایا۔ اس علمی اور مذہبی آزادی جو آپ سے پہلے والے اماموں کو کمتر نصیب ہوئی تھی کی وجہ سے علم کے متلاشی آپ کے علمی جلسات اور محافل میں آزادی سے شرکت کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ، کلام اور دیگر مختلف موضوعات پر آپ سے بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں۔[4]
ایک سوال اور اس کا جواب
بسا اوقات بعض افراد کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم معصومین علیہم السلام کے فضائل بیان کرتے ہیں تو اس میں علم کی نشر و اشاعت کے بارے میں فقط امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام کا اسم مبارک دیکھنے کو ملتا ہے؟ باقی آئمہ علیہم السلام نے علمی ترقی اور علوم آل محمد کی نشر و اشاعت کے لیے اقدامات کیوں نہیں کئے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم معصومین علیہم السلام کے فضائل و مناقب کو بیان کرتے ہیں تو جو فضائل و مناقب اور صفات جمیلہ و حمیدہ ایک معصوم علیہ السلام کے لیے بیان کرتے ہیں وہ دوسرے کے لیے نہیں کرتے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صفات اور مناقب دوسرے آئمہ علیہم السلام میں نہیں پائے جاتے ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ تمام آئمہ علیہم السلام ایک ہی طرح کے فضائل اور صفات جمیلہ و حميدہ کے مالک ہیں جو صفات ایک معصوم علیہ السلام میں پائی جاتی ہیں وہی صفات تمام میں پائی جاتی ہیں کیونکہ تمام نور واحد ہیں اور معصومین علیہم السلام میں سے ہر معصوم علیہ السلام اپنے زمانے کے تمام افراد سے کمال اور فضائل کے اعتبار سے افضل و اکمل ہوتے ہیں، لیکن ہر معصوم علیہ السلام کے زمانے کے حالات اور تقاضے دوسرے معصوم علیہ السلام سے فرق کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر معصوم علیہ السلام سے ظاہر ہونے والی صفات اور کمالات دوسرے معصوم علیہ السلام سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر معصوم علیہ السلام نے اپنے زمانے میں جو موقف اختیار کیا ہے اور جس روش کو اپنایا وہ دوسرے معصوم علیہ السلام مختلف ہوتا ہے مثلاً حضرت علی علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام سے شجاعت کا ظہور باقی معصومین علیہم السلام سے ظاہر ہونے والی شجاعت کی طرح نہیں ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں مشرکین و کفار اور اپنی ظاہری خلافت کے زمانے میں باغیوں اور فتنہ گروں کے خلاف مختلف جنگوں میں اپنی شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں ایک الگ انداز سے اپنی شجاعت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جبکہ باقی معصومین علیہم السلام بھی اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے شجاع اور بہادر تھے لیکن اس کے باوجود ان کے بارے میں کسی جنگ میں شجاعت کا مظاہرہ کرنے کا کوئی واقعہ تاریخ میں نہیں ملتا کیونکہ باقی آئمہ علیہم السلام اپنے زمانے کے حالات اور تقاضوں کے مطابق صبر اور جنگ نہ کرنے کا راستہ اختیار کرنے پر مامور تھے۔
لہذا امام باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس طرح مختلف علوم کو دنیا میں پھیلایا اور ان کی نشر و اشاعت کے بارے میں اقدامات کئے اس طرح باقی آئمہ علیہم السلام نے نہیں کیا کیونکہ ان دونوں ذوات مقدسہ کو ایک ظالم حکومت کے اختتام اور دوسری حکومت کی ابتداء میں کچھ عرصہ فراہم ہوا جس میں ہر دو ظالم حکومتیں اپنے مسائل میں الجھی ہوئی تھیں لہذا امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام نے اس فرصت سے فائدہ اٹھایا اور علوم آل محمد کی نشر و اشاعت کے لیے بھر پور کوشش کی اور مختلف اقدامات کئے، جبکہ دوسرے آئمہ علیہم السلام نے اپنے زمانے کے تمام افراد سے زیادہ علم رکھنے کے باوجود ایسا نہیں کیا کیونکہ انہیں کوئی ایسا موقع فراہم نہیں ہوا جو ان دو ذوات مقدسہ کو ہوا ہے اسی لیے وہ علوم آل محمد کی نشر و اشاعت کے لیے اس طرح اقدام نہیں کر پائے۔
شاگردان
اس میں کوئی شک نہیں کہ خداوند متعال نے اہل بیت علیہم السلام کو بے مثال علوم اور معارف سے نوازا ہے ۔معصوم امام، رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جانشین ہیں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد امت کے ہادی ہیں۔ جس طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خداوند متعال نے علوم اور معارف عطا فرمائے اور ان علوم اور معارف کو سیکھنے میں وہ کسی استاد کے محتاج نہیں تھے اسی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جا نشینوں کے پاس بھی خدائی علم ہے اور وہ اس علم کو سیکھنے میں کسی استاد کے محتاج نہیں ہیں، لہذا تاریخ میں یہ ثابت کرنا ناممکن ہے کہ کوئی بشر معصومین علیہم السلام کے پاس اپنا علمی مسئلہ لے کر آیا ہو اور انہوں نے اس کی علمی مشکل حل نہ کی ہو بلکہ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو بڑے بڑے افراد یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ :لَوْ لاَ عَلِی لَھَلَکَ فَلَان...
اب ہم اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ تاریخ میں کن کن افراد نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے زانوئے ادب طے کیا اور سالہا سال امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد رہے۔ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کے مختلف علاقوں سے تقریباً چار ہزار افراد امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کسب فیض کیا یہاں تک کہ بعض حضرات امام جعفر صادق علیہ السلام کے مخالفین کے پیشوا تھے لیکن ان کے پاس جو کچھ تھا سب امام جعفر صادق علیہ السلام کا عطا کردہ تھا۔ شیخ طوسی اپنی رجال میں 3200 روایوں کا نام لیتے ہیں جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایات نقل کی ہیں۔[5] شيخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں آپ کے راویوں کی تعداد 4000 نقل کرتے ہیں۔[6] اب ہم امام جعفر صادق علیہ السلام کے چار ہزار شاگردوں میں سے فقط چند مشہور شاگردوں کا مختصر تعارف کرواتے ہیں ۔ البتہ ان چار ہزار افراد میں شیعہ بھی ہیں اور سنی بھی ہیں، اس مختصر تحقیق میں فقط اہل سنت کے آئمہ، فقہاء اور علماء کا ذکر کریں گے کہ جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے زانوئے ادب طے کیا ۔
اہل سنت کے آئمہ، فقہاء اور علماء کہ جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فيض کیا:
1۔ ابو حنیفہ
نعمان بن زوطی المعروف اہل کابل اور کوفہ میں پیدا ہوا، کوفہ میں ہی بڑا ہوا، بعد میں بغداد منتقل ہو گیا اور 150 ہجری میں فوت ہوا. وہ حنفی گروہ کا پیشوا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا اور اس بات کو اہل سنت کے معتبر علماء نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ آلوسی اہل سنت کے مشہور علماء میں سے ہیں وہ اپنی کتاب مختصر تحفۃ الاثنی عشریہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :وهذا أبو حنيفة - رضي الله تعالى عنه - وهو بين أهل السنة كان يفتخر ويقول بأفصح لسان: لولا السنتان لهلك النعمان، يريد السنتين اللتين صحب فيهما لأخذ العلم الإمام جعفر الصادق - رضي الله تعالى عنه -. وقد قال غير واحد أنه أخذ العلم والطريقة من هذا ومن أبيه الإمام محمد الباقر ومن عمه زيد بن علي بن الحسين - رضي الله تعالى عنهم؛ یہ ابو حنیفہ ہیں در حالیکہ اہل سنت کے درمیان،ہمیشہ( امام صادق علیہ السلام کی شاگردی پر) فخر کرتے تھے اورفصیح زبان میں کہتے تھے: اگردو سال (امام صادق علیہ السلام کی شاگردی کے) نہ ہوتے تو نعمان ( یعنی میں ابو حنیفہ) ہلاک ہو جاتا ۔ ابوحنیفہ کی دو سال سے مراد وہ دو سال ہیں کہ جس میں انہوں نے امام صادق (علیہ السلام) سے کسب علم کیا، اور بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نے علم و طریقت، ان (یعنی امام صادق علیہ السلام) سےاوران کے پدربزرگوار امام محمد باقر (علیہ السلام) اوران کےعم،زید بن علی بن الحسین علیہم السلام سےحاصل کیا ہے۔[7]
اور اسی شاگردی کی وجہ سے ابوحنیفہ خود اعتراف کرتا ہے : مَا رَأيتُ أفقهَ مِن جَعفَرِ بنِ مُحَمَّد ؛ میں نے جعفر بن محمد سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا۔[8]
اس کے باوجود ابو حنیفہ اس کوشش میں تھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی مخالفت کرے اور کسی علمی مسئلہ میں انہیں شکست دے وہ خود کہتا ہے : جب منصور دوانیقی نے جعفر بن محمد کو حاضر کیا تو مجھے بھی بلایا اور کہا : لوگ جعفر بن محمد کے گرویدہ ہو گئے ہیں اس کو شکست دینے کے لیے مشکل سوال تیار کر، میں نے چالیس مشکل سوال تیار کیے. ایک دن منصور نے مجھے بلایا جب مجلس میں داخل ہوا تو اچانک میری نگاہ جعفر بن محمد پر پڑی، دیکھا کہ وہ منصور کے دائیں جانب بیٹھے ہیں، جب میں نے انہیں دیکھا تو مجھ پر ان کی ہیبت اور عظمت کا ایسا رعب طاری ہوا کہ جب منصور نے میری یہ حالت دیکھی تو مجھے سے سلام نہیں لیا۔ میں نے سلام کیا اور منصور کے اشارے سے بیٹھ گیا۔منصور نے اپنا رخ امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف کیا اور کہا :یہ ابو حنیفہ ہے، انہوں نے فرمایا : اسے جانتا ہوں، پھر منصور نے اپنا رخ میری طرف کیا اور کہا : اے ابو حنیفہ اپنے سوال جعفر بن محمد کے سامنے بیان کر۔ اس کے بعد میں نے سوال کرنا شروع کئے جو سوال کرتا تھا اس کا جواب دیتے کہ اس کے بارے میں تیرا عقیدہ یہ ہے، اہل مدینہ کا عقیدہ یہ ہے اور ہمارا عقیدہ یہ ہے۔ بعض مسائل میں میرے عقیدہ کے موافق ، بعض مسائل میں اہل مدینہ کے موافق اور بعض مسائل میں دونوں کے مخالف تھے۔ اسی ترتیب سے میں نے چالیس سوال پوچھے اور انہوں نے جواب دیئے۔ جب تمام سوالوں کا جواب دے چکے ابو حنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف اشارہ کر کے کہا : اعلم النّاس اعلمهم باختلاف النّاس ۔[9]
2۔ مالک بن انس
اس کا نام مالک ہے، کنیت ابو عبداللہ، لقب امام دار الہجرہ ہے۔ سلسلۂ نسب مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر ہے۔ امام مالک 93 ہجری میں پیدا ہوا۔مدینہ میں عبداللہ بن مسعود والے گھر میں رہتا تھا ۔امام مالک خالص عرب تھے۔ بزرگوں کا وطن یمن تھا۔ اسلام کے بعد ان کے خاندان والوں نے مدینہ میں سکونت اختیار کر لی۔ اسے جعفر بن سلیمان عباسی کے زمانے میں مدینہ میں قتل کیا گیا اور تازیانے لگائے گئے اور اس کو اتنا گھسیٹا گیا کہ اس کا بازو بدن سے جدا ہو گیا اور آخر کار 179 ہجری میں فوت ہو گیا۔ یک بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا۔ اہل سنت علماء میں سے نووی اپنی کتاب تہذیب، شبلنجی اپنی کتاب نور الابصار، سبط جوزی اینی کتاب تذکرہ، امام شافعی اپنی کتاب مطالب، ابن حجر مکی اپنی کتاب صواعق، شیخ سلیمان اپنی کتاب ینابیع الموده اور ابو نعیم اپنی کتاب حلیہ میں میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مالک بن انس امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا۔[10]
وہ خود کہتا ہے : کچھ عرصہ جعفر بن محمد کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا،میں نے انہیں تین حالتوں میں دیکھا ہے: نماز پڑھ رہے ہوتے تھے یا روزے کی حالت میں ہوتے تھے یا قرآن کی تلاوت کر رہے ہوتے تھے، میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا کہ وضو کے بغیر حدیث کو نقل کیا ہو : ولایتکلّم بمالایعینه و کان من العلماء العباد و الزهاد الذین یخشون اللّه؛ جو چیز مفید نہیں ہوتی تھی اسے تکلم نہیں کرتے تھے عابد،زاہد اور خوف خدا رکھنے والے علماء میں سے تھے۔ و ما رات عین و لا سمعت اذن ولاخطر علی قلب بشرٍ افضل من جعفر بن محمد الصادق علماً و عبادةً و ورعاً؛ علم، پرہیزگاری اور عبادت میں جعفر بن محمد سے بڑھ کر نہ ہی میری آنکھ نے کسی کو دیکھا ہے اور نہ ہی میرے کان نے سنا ہے۔[11]
3۔سفیان ثوری
سفیان بن سعید بن ثوری کوفی 91 ہجری میں پیدا ہوئے، کچھ عرصہ بغداد میں رہے، بعد میں کوفہ منتقل ہو گئے اور 161 ہجرت میں انتقال کر گئے۔یہ بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔ اہل سنت علماء میں سے مختلف نے اپنی کتابوں جیسے تہذیب، نورالابصار، تذکرہ، صواعق، ینابیع الموده اور حلیہ میں اعتراف کیا ہے کہ سفیان ثوری امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔[12] اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ جس میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسے انتہائی اہم امور کے بارے میں وصیت کی اور اس نے اس کو نقل کیا۔[13]
اہل سنت عالم دین محمد بن طلحہ اپنی کتاب میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے کچھ شاگردوں کے نام ذکر کرتے ہیں کہ ان میں سے ایک سفیان ثوری بھی ہے وہ لکھتے ہیں : الإمام جعفر الصادق (عليه السلام) ... هو من عظماء أهل البيت وساداتهم (عليهم السلام) ذو علوم جمة ، وعبادة موفرة ، وأوراد متواصلة ، وزهادة بينة ، وتلاوة كثيرة ، يتتبع معاني القرآن الكريم ، ويستخرج من بحره جواهره ، ويستنتج عجائبه ، ويقسم أوقاته على أنواع الطاعات ، بحيث يحاسب عليها نفسه ، رؤيته تذكر الآخرة ، واستماع كلامه يزهد في الدنيا ، والاقتداء بهديه يورث الجنة ، نور قسماته شاهد أنه من سلالة النبوة ، وطهارة أفعاله تصدع أنه من ذرية الرسالة . نقل عنه الحديث ، واستفاد منه العلم جماعة من الأئمة وأعلامهم مثل : يحيى بن سعيد الأنصاري ، وابن جريج ، ومالك بن أنس ، والثوري ، وابن عيينة ، وشعبة ، وأيوب السجستاني ، وغيرهم (رض) وعدوا أخذهم عنه منقبة شرفوا بها وفضيلة اكتسبوها ؛ امام جعفر صادق علیہ السلام اہل بیت(علیہم السلام) کےعظیم اور بزرگ افراد میں سے ہیں- وہ کثیرالعلم،اور دائمی عبادت گزار انسان تھے اور ہمیشہ یاد خدا میں رہتے تھے ان کا زہد و تقویٰ سب پر آشکار تھا،قرآن کی کثرت سے تلاوت کرتے تھے،قرآن کے معانی و مفاہیم پر محققانہ و ماہرانہ نظر رکھتے تھے،اور قرآن کے معانی ومفاہیم کے سمندر سے جواہرات( قیمتی مطالب ومفاہیم ومعانی ) کا استخراج کرتے تھے،اور قرآن سے عجائب(نئی اور تازہ چیزیں )کا نتیجہ نکالتےتھے،انہوں نے اپنے اوقات کو اللہ کی مختلف اطاعات اور عبادات کے لئے تقسیم کر رکھا تھا اس طریقہ سےان اوقات میں اپنے محاسبہ نفس میں مشغول رہتے تھے- ان کا دیدار،آخرت کی یاد دلاتا تھا، اوران کا کلام سننا،دنیا میں زہد و تقویٰ کا باعث بنتا تھا،ان کے نقش قدم پہ چلنا جنت کا راہنما تھا،ان کے حسین وخوبصورت چہرہ کا نوراس بات کا گواہ تھا کہ وہ انبیاء کی اولاد اور ان کی نسل سے ہیں،اور ان کے اعمال وافعال کی طہارت و پاکیزگی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ رسالت و نبوت کی ذریت ہیں،ائمہ و بزرگ اساتذہ جیسے:يحيى بن سعيد انصاري،ابن جريج،مالك بن انس،(سفيان) ثوری،(سفيان) ابن عيينہ، وشعبہ،وايوب السجستانی اوران کےعلاوہ دوسرے افراد نے امام صادق علیہ السلام سے کسب علم کیا اور ان(امام صادق علیہ السلام) کی شاگردی اوران سے کسب علم کو اپنے لئے باعث فخروفضیلت سمجھتے تھے کہ جس سے وہ (ائمہ و بزرگان اہل سنت) آراستہ تھے ۔ [14]
4۔ سفيان بن عیینہ
سفیان بن عیینہ بن ابی عمران الکوفی 107 ہجری کو کوفہ میں پیدا ہوئےاور 198 ہجری کو دنیا سے انتقال کر گئے ۔ انہوں نے ابوحنیفہ کے زمانے میں اپنی نوجوانی کے ایام میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فيض کیا۔ اہل سنت کے مختلف علماء نے اپنی کتابوں جیسے تہذیب ،نورالابصار ،تذکرہ ،صواعق ،ینابیع الموده ،حلیہ اور فصول میں لکھا ہے کہ سفیان بن عیینہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔[15]
ابو المحاسن ظاہری اہل سنت کے حنفی علماء میں سے ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں بعض آئمہ اور علمائے اہل سنت کے نام ذکر کیے ہیں جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فيض کیا ہے اور انہیں میں سے سفيان بن عیینہ بھی ہے وہ لکھتے ہیں : [ما وقع من الحوادث سنة 148] وفيها توفي جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبى طالب رضي الله عنهم، الإمام السيد أبو عبد الله الهاشمي العلوي الحسيني المدني ... وكان يلقب بالصابر، والفاضل، والطاهر، وأشهر ألقابه الصادق ... وحدث عنه أبو حنيفة وابن جريج وشعبة والسفيانان ومالك وغيرهم. وعن أبي حنيفة قال: ما رأيت أفقه من جعفر بن محمد ؛ (جو واقعات سن 148 ہجری قمری میں رونما ہوئے ان کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ) اس سال ( امام) جعفر صادق (علیہ السلام) ابن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) نے وفات پائی وہ، امام و آقا تھے ابا عبداللہ ان کی کنیت تھی، اور وہ ہاشمی، علوی، حسینی اور مدنی تھے ۔ ان کو صابر، فاضل اور طاہر جیسے القاب سے پکارا جاتا تھا اور ان کا سب سے مشہور لقب صادق تھا۔ابوحنيفہ، ابن جريج، اور شعبہ اور سفيان بن عيينہ، سفيان، ثوری، مالک اور دوسرے افراد نے ان سے روایتیں نقل کی ہیں۔ ابو حنیفہ سے نقل ہوا کہ وہ کہتے تھے : میں نے جعفر بن محمد( امام صادق علیہ السلام) سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا۔[16]
5۔ابن جریح
عبد الملک بن عبد العزیز بن جریح مکی اہل سنت کے علماء میں سے ہیں اور 80 ہجری کو ظاہراً بغداد میں پیدا ہوئے اور 149 یا 150 ہجری کو دنیا سے رحلت کی۔یہ بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔شیخ صدوق نے (ما یقبل من الدعاوی بغیر بیّنۃ) کے باب میں ایک روایت نقل کی ہے کہ جس کے سلسلہ سند میں ابن جریح بھی ہے اور اسی طرح اصول کافی میں حلیت متعہ کے باب میں ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ جو افراد متعہ کے قائل ہیں ان میں سے ایک ابن جریح بھی ہے۔ جب کسی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے متعہ کے حلال ہونے کے بارے میں سوال کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا : الق عبدالملک بن جریح فاسأله عنها فانّ عنده منها علماً ؛ عبد الملک بن جریح سے ملاقات کر اور اس سے متعہ کے حلال ہونے کے بارے میں سوال کر کیونکہ اس کے پاس اس کے بارے میں علم ہے۔[17]
6۔یحیی بن سعید انصاری
یحیی بن سعید بن قیس انصاری بنی نجار قبیلے سے تھا اور 143 ہجری کو ہاشمیہ میں دنيا سے انتقال کیا۔ منصور دوانیقی کی حکومت میں مدینہ کا قاضی تھا. یہ بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا۔[18] ابن صباغ مالکی اپنی کتاب میں کچھ افراد کے نام ذکر کرتے ہیں جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے سے روایات نقل کی ہیں اور ان میں سے یحیی بن سعید انصاری بھی ہیں ہے وہ لکھتے ہیں : كان جعفر الصادق ابن محمّد بن عليّ بن الحسين عليهم السلام ... وروى عنه جماعة من أعيان الاُمّة وأعلامهم مثل : يحيى بن سعيد وابن جريج ومالك بن أنس والثوري وابن عيينة وأبو حنيفة وشعبة وأبو أيّوب السجستاني وغيرهم ؛ جعفر الصادق ابن محمد بن علي بن الحسين عليہم السلام ان سے امت کے بزرگ علماء اور اساتذہ کی جماعت جیسے : يحیی بن سعيد، ابن جريج، مالك بن انس، الثوری، ابن عيينہ اور أبو حنيفہ و شعبہ اور ابو ايّوب سجستانی اور دوسر ے لوگوں نے روایتیں نقل کی ہیں۔[19]
7۔قطان
ان کا مکمل نام یحییٰ بن سعید القطان بن فروخ تمیمی بصری ابو سعید کنیت اورنسبت القطان تمیمی تھی۔ آبائی وطن بصرہ تھا ، وہیں سنہ120ھ میں ان کی ولادت ہوئی اور 198 ہجری میں ان کی وفات ہوئی. یہ اہل سنت کے بزرگان اور محدثین میں سے ہیں اور صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہیں۔ اہل سنت علماء نے اپنی کتابوں جیسے تہذیب، ینابیع الموده اور اس کی مثل دوسری کتابوں میں تصریح کی ہے کہ قطان، امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا [20]اور شیعہ علماء میں سے شیخ نجاشی اور ابن داؤد نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا۔[21]
8۔محمد بن اسحاق
محمد بن اسحاق بن یسار صاحب مغازی مدینہ میں پیدا ہوئے۔مکہ میں رہتے تھے اور 151 ہجری میں بغداد میں انتقال کر گئے۔اہل سنت علماء میں صاحب تہذیب اور صاحب ینابیع الموده اور شیعہ علماء میں سے شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال، علامہ نے اپنی کتاب خلاصہ میں اعتراف کیا ہے کہ محمد بن اسحاق امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔[22]
9۔شعبہ بن حجاج
شعبہ نام اور ابو بسطام کنیت ہے۔ والد کا نام حجاج تھا، ان کے والد قصبہ واسط کے قریب ایک دیہات تہیمان کے رہنے والے تھے۔ 83ھ میں یہاں ہی ان کی ولادت ہوئی۔ عام تذکرہ نگار ان کی جائے پیدائش واسط کو بتاتے ہیں مگر سمعانی نے لکھا ہے کہ واسط نہیں بلکہ اس کے ایک قریہ میں ان کی ولادت ہوئی۔ شعبہ اہل سنت کے بزرگان میں سے تھے اور اہل سنت علماء اپنی کتابوں جیسے تہذیب ،صواعق ،حلیہ ،ینابیع الموده، فصول، تذکرہ میں اعتراف کرتے ہیں کہ یہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔[23]
ابن تیمیہ اپنی کتاب میں کچھ افراد کے نام ذکر کرتا ہے جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فيض کیا اور ان میں شعبہ بن حجاج کا نام بھی ذکر کرتا،وہ لکھتا ہے : فإن جعفر بن محمد لم يجيء بعد مثله وقد أخذ العلم عنه هؤلاء الأئمة كمالك وابن عيينة وشعبة والثوري وابن جريج ويحيى بن سعيد وأمثالهم من العلماء المشاهير الأعيان؛ بیشک جعفر بن محمد ( امام جعفر صادق علیہ السلام) کے بعد ان کے مثل کوئی نہیں آیا اور اہل سنت کے بہت سے ائمہ و بزرگ علماء جیسے:مالک،سفیان بن عیینہ اورشعبہ،سفیان ثوری،ابن جریج، یحیی بن سعید اور اسی طرح دوسرے مشہور و معروف بزرگ علماء نے امام صادق علیہ السلام سےعلم حاصل کیا۔[24]
10۔ ایوب سجستانی
ایوب بن ابی تمیمہ سجستانی بصری اہل سنت کے بزرگ فقہاء میں سے ہیں اور 65 سال کی عمر میں 131 ہجری میں طاعون کی بیماری سے بصرہ میں فوت ہوئے. اہل سنت علماء نے اپنی کتابوں جیسے تہذیب ،نورالابصار ،تذکرہ ،صواعق ،حلیہ اور فصول میں لکھا ہے کہ ایوب سجستانی امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا۔[25]
راويان
اہل سنت محدثین میں سے بہت سے ایسے نام دیکھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے احادیث نقل کی ہیں۔ ان میں سے بعض افراد کے نام ذکر کرتے ہیں :
1۔اسماعیل بن جعفر سے ترمذی اور نسائی میں روایات نقل کی گئی ہیں۔
2۔حاتم بن اسماعیل سے بخاری کے علاوہ صحاح میں روایات نقل کی گئی ہیں۔
3۔حسن بن صالح بن حی
4۔حسن بن عیاش سے مسلم اور نسائی نے روایات نقل کی ہیں۔
5۔حفص بن غیاث سے مسلم، ابی داؤد اور ابن ماجہ نے روایات نقل کی ہیں۔
6۔ زہیر بن محمد تمیمی
7۔زید بن سعید انماطی
8۔سعید بن سفيان اسلمی
9۔سفيان ثوری
10۔سلیمان بن بلال
11۔شعبہ بن حجاج
12۔ابو عاصم ضحاک بن مخلد نبیل
13۔سفیان بن عیینہ سے ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایات نقل کی ہیں ۔
14۔عبداللہ بن میمون قداح سے ترمذی نے روایات نقل کی ہیں ۔
15۔عبد العزیز بن عمران زہری سے ترمذی نے نقل کیا ہے ۔
16۔عبد العزیز بن محمد دراوردی سے مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایات نقل کی ہیں ۔
17۔عبد الوہاب بن عبد الحمید الثقفی سے مسلم، ترمذی، ابن داؤد اور ابن ماجہ نے روایات نقل کی ہیں ۔
18۔عثمان بن فرقد
19۔امام مالک سے ترمذی، مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایات نقل کی ہیں ۔
20۔محمد بن اسحاق بن یسار
21 ۔حمد بن ثابت بنانی صحیح ترمذی میں ۔
22۔حمد بن میمون زعفرانی صحیح ابی داود میں۔
23۔سلم بن خالد زنجی۔
24۔معاویۃ بن عمار دہنی مسند احمد و افعال العباد میں۔
25۔موسی بن عمیر قرشی۔
26۔الامام الکاظم صحیح ترمذی اور ابن ماجہ میں۔
27۔ابوحنیفہ نعمان ثابت۔
28۔وہیب بن خالد صحیح مسلم میں۔
29۔یحیی بن سعید انصاری صحیح مسلم اور نسائی میں۔
30۔حیی بن سعید قطان صحیح ابی داود اور نسائی میں۔
31۔یزید بن عبداللّه بن الهاد۔
32۔ابوجعفر رازی۔[26]
مآخذ
1۔محمد ذہبی، تذکرة الحفاظ، بیروت، داراحیاء التراث العربی۔
2۔محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1395۔
3۔الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، ط 2، بیروت، دارالکتب العربی، 1390۔
4۔ابن حجر العسقلانی، تہذیب التہذیب، بیروت، دارالفکر، 1404 ق، اول۔
5۔تہذیب الکمال، بہ نقل از دراساتٌ و بحوثٌ مؤتمر الامام جعفر بن محمد الصادق، مجمع جہانی اہل بیت، 1382 هـ.ش۔
6۔ مختصر تاریخ العرب، عفیف البعلبکی، بیروت، دارالعلم للملایین، 1967 م۔
7۔ابن تيميہ الحراني الحنبلی، ابوالعباس احمد عبد الحليم (متوفاى 728 هـ)، منہاج السنۃ النبويۃ ، مؤسسۃ قرطبۃ، الطبعۃ: الاولى، 1406ه۔
8۔الاتابكی، جمال الدين ابی المحاسن يوسف بن تغری بردى (متوفاى874هـ)، النجوم الزاہرة فی ملوك مصر والقاہرة، ناشر: وزارة الثقافۃ والارشاد القومی ۔ مصر۔
9۔الشافعی، محمد بن طلحہ(متوفاي652هـ)، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول (ع)، ص 436 ، تحقيق : ماجد ابن احمد العطيہ۔
10۔المالكی المکی، علی بن محمد بن أحمد المعروف بابن الصباغ (متوفاي885هـ)، الفصول المہمۃ فی معرفۃ الائمۃ، دار الحديث للطباعۃ والنشر مركز الطباعۃ والنشر فی دار الحديث ۔قم، الطبعۃ الاولى: 1422 – 1379 ش۔
[1] ۔دفیات الاعیان ،ج۱،ص105۔
[2] ۔ ارجح المطالب ،ص361۔
[3] ۔انوار الحسینیہ، ص 50۔
[4] ۔ زندگانی امام صادق علیہ السلام، ص 61۔
[5] ۔ اختیار معرفۃ الرجال، ج 3، ص 419۔
[6] ۔ الارشاد ،ج 2، ص 254۔
[7] ۔ مختصر تحفۃ الاثنی عشریہ۔
[8] ۔ تذکرة الحفاظ، ج1، ص 166۔
[9] ۔ اعلام الہدایہ، ج1، ص 229۔
[10] ۔ تہذیب التہذیب، ج 1، ص 88۔
[11] ۔ اعلام الہدایۃ، ج 8، ص 229 ـ 230۔
[12] ۔ اعلام الہدایہ،ج 1 ، ص 229۔
[13] ۔ اعلام الہدایہ،ج 1 ، ص 230۔
[14] ۔ مطالب السؤول في مناقب آل الرسول (ع)، ص 436۔
[15] ۔ اعلام الہدایہ،ج 1 ، ص 230۔
[16] ۔ النجوم الزاہرة في ملوك مصر والقاہرة، ج 2 ص 68۔
[17]۔ اعلام الہدایہ،ج 1 ص 230 و 231۔
[18] ۔ اعلام الہدایہ،ج 1 ص 230 و 231۔
[19] ۔ الفصول المہمۃ في معرفۃ الأئمۃ، ج 2 ص 907-908۔
[20] ۔ اعلام الہدایۃ، ج 8، ص 232۔
[21] ۔ اعلام الہدایۃ، ج 8، ص 232۔
[22] ۔ تہذیب الکمال، ج 2، ص 419۔
[23] ۔ تہذیب الکمال، ج 2، ص 419۔
[24] ۔ منہاج السنۃ النبويۃ، ج 4 ص 126۔
[25] ۔ مختصر تاریخ العرب، ص 193۔
[26] ۔ دائرة المعارف، ص 617، ج 10۔ مختصر تاریخ العرب، ص 193۔