شخصیت حضرت زینب سلام اللہ علیہا
اسد عباس اسدی
assadabbas409@gmail.com
مقدمہ
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت تاریخ اسلام میں اور خصوصا نہضت کربلا میں انتہائی تاثیر گزار شخصیت ہے معاصر میں شیعہ اور سنی محققان نے حضرت زینب کی شخصیت کے مختلف پہلؤں پر قابل ذکر تحقیقات کی ہیں ، متاخرین کی تالیفات میں سے کتاب زینب کبریٰ تالیف جعفر النقدی ، ناسخ التواریخ حضرت زینب تالیف عباسقلی خان سپھر، مع بطلہ کربلا تالیف محمد جواد مغنیہ ، السیدہ زینب تالیف باقر شریف القرشی ، المراۃ العظیمہ تالیف حسن الصفار ، الخصائص الزینبیہ تالیف نور الدین الجزائری ، قابل ذکر ہیں ۔
اور سنیوں کی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت پر لکھی گئی کتابوں میں سے ، زینب بنت علی تالیف عبدالعزیز سید الاھل ، العقیلۃ الطاہرہ تالیف احمد فہمی محمد المصری ، حفیدۃ الرسول تالیف احمد الشرباصی الازہری ، بطلۃ کربلا تالیف عایشہ بنت الشاطی ، ابنۃ الزہراء بطلۃ الفداء زینب تالیف علی احمد شلبی ، السیدہ زینب تالیف موسی محمد علی ، قابل ذکر ہیں ۔
زینب بنت علیؑ
زینب (س) دختر علی بن ابی طالب (ع) اور فاطمہ زہرا (س) ، آپ کی کنیت ام کلثوم اور ام حسن [1]ہے ، آپ کا مشہور ترین لقب ، الکبری ہے ۔ الصدیقہ الصغری ، العقیلہ [2]، عقیلہ بنی ہاشم [3]، عارفہ ، کاملہ ، عالمہ اور عابدہ آل علی ، سب آپکے القاب ہیں [4] ۔ اگر نسب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو شریف ترین نسب حضرت زینب (س) کا ہے ، نانا رسول اللہ ، بابا علی ، ماں فاطمہ ، بھائی حسنین کریمینؑ
زمان ولادت
آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں آپ کی بہن ام کلثوم کی طرح قدیم منابع میں کوئی معتبر روایت نہیں ملتی ، بعض متاخر کتابوں میں ، 5 جمادی الاولیٰ سال پنجم یا ششم ہجری ، ماہ شعبان سال ششم ، اور ماہ رمضان سال نہم ہجری ذکر ہوا ہے [5]۔ سیوطی رسالہ الزینبیہ میں کہتے ہیں : زینب کبری پانچ سال قبل از رحلت رسول اللہ دنیا میں آئیں [6]۔ آپکی تاریخ ولادت میں اختلاف یہ سوال ایجاد کرتا ہے کہ آپ حضرت فاطمہ کی بڑی بیٹی ہیں یا چھوٹی ؟
سنی علماء کی نگاہ میں
اہل سنت مؤرخین اور نسب شناسان نےحضرت زینب کا سال تولد ذکر نہیں کیا ، اور یہ کہ حضرت زہراء کی کون سی بیٹی بڑی ہے بطور صریح اظہار نظر نہیں کیا ، بعض نے تو حضرت زینب کا نام جناب ام کلثوم کے بعد ذکر کیا ہے حضرت زہراء کی اولاد کی یہ ترتیب پہلی بار اپنی کتاب الطبقات الکبری ابن سعد (م 230 ) میں ذکر ہوئی ہے [7]اور اس کے بعد دیگران نے جیسے : ابن عبدالبر قرطبی ( م 463 ) اپنی کتاب استعاب میں ، ابن اثیر (م 630 ) اپنی کتاب اسد الغابہ میں ، ابن حجر عسقلانی (م852 ) اپنی کتاب الاصابہ میں اسی ترتیب سے نقل کرتے ہیں ۔
اور دوسر ی طرف مسعودی اپنی کتاب التنبیہ و الاشراف [8]میں ، ابن قتیبہ (م 282 ) المعارف [9] میں ، ابن حزم (م 456 ) جمھرہ انساب العرب [10] میں ، ابن جوزی (م597 ) المنتظم[11] میں ، الشافعی (م562) مطالب السؤول میں ، سبط ابن جوزی (م654) تذکرۃ الخواص[12] میں ، ابن ابی الحدید نہج البلاغہ کی شرح [13]میں ، حضرت زہراء ؑ کی اولاد کا ذکر کرتے وقت حضرت زینب کے حلات کا سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں[14] ۔ ابن جوزی تصریح کرتے ہیں کہ زینب ، حضرت فاطمہ کی تیسری اور ام کلثوم چوتھی بیٹی ہیں[15] ۔
شیعہ علماء کی نگاہ میں
اکثر شیعہ علماء نے حضرت فاطمہ زہراء کی اولاد کے ذکر میں حضرت زینب کو پہلے نمبر پر شمار کیا ہے [16]
حضرت علی علیہ السلام کی بیٹیوں کے ایک جیسے نام ہونے کی وجہ سے اکثر مؤرخین کو حضرت علی کی بیٹیوں کے حالات زندگی لکھنے میں مشکل کا سامنا رہا
العبیدلی (م277) ایک نسب شناس تھا کتاب اخبار الزینبیات میں حضرت علی کی بیٹیوں کو بہت واضح اور روشن انداز میں ذکر کرتا ہے ، یہ معتقد ہے کہ حضرت زہراء کی دوسری بیٹی کا نام بھی زینب تھا حضرت فاطمہ نے خود اپنی بیٹی کا نام زینب رکھا لیکں رسول اللہ نے اپنی خالہ کے ساتھ شباہت [17]کی وجہ سے اس بچی کی کنیت ام کلثوم رکھ دی[18] ۔ العبیدلی ام کلثوم کو زینب الوسطی ٰ کہتے ہیں اور زینب الصغریٰ ایک اور بیٹی کو سمجھتے ہیں کہ جس کی شادی محمد بن عقیل کے ساتھ ہوئی [19]۔ شیخ مفید حضرت زہرا کی دوسری بیٹی کو زینب صغری ٰ جانتے ہیں اور اس کی کنیت ام کلثوم ذکر کرتے ہیں ۔ مسعودی اسی کو زینب کبری ٰ کہتے ہیں ۔ الزبیری نصب شناس متقدم اپنی کتاب " نسب قریش " میں ام کلثوم کو الکبری ٰ کا لقب دیتے ہیں
اکثر شیعہ علماء کرام حضرت زینب کو حضرت زہراء کی بڑی بیٹی جانتے ہیں جیساکہ ، شیخ مفید الارشاد میں ، اربلی کشف الغمہ میں ، طبرسی اعلام الوری میں ، زینب کو الکبری اور ام کلثوم کو زینب صغری ذکر کرتے ہیں ۔ قرائن اور شواہد بھی یہی اشارہ کرتے ہیں کہ حضرت زینب بڑی بیٹی ہیں ۔
حضرت زینب کی خصوصیات
حضرت زینب بے شمار فضائل و کمالات کی مالک ہیں جن کو ایک مقالہ میں ذکر نہیں کیا جا سکتا ، بطور نمونہ چند فضیلتیں ملاحظہ فرمائیں
علم
کوفہ اور دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار حضرت زینب کا عالمانہ کلام و خطبات آپ کے علمی کمالات کا واضح ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد ماجد حضرت علیؑ اور والدہ ماجدہ حضرت زہراؑ سے احادیث بھی نقل کی ہیں.[20]
اس کے علاوہ آپ کوفہ میں حضرت علیؑ کی خلافت کے دوران خواتین کے لئے قرآن کی تفسیر کا درس بھی آپ کی علم دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے[21]۔ [16]
حضرت زينبؑ رسول اللہؐ اور علی و زہراءؑ کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسولؐ تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں[22]۔
حضرت زینبؑ نے حضرات معصومینؑ سے متعدد حدیثیں مختلف موضوعات میں نقل کی ہیں منجملہ: شیعیان آل رسولؐ کی منزلت، حب آل محمد، واقعۂ فدک، ہمسایہ، بعثت وغیرہ.
سننے والوں کیلئے آپ کے خطبات اپنے والد ماجد امیر المؤمنین حضرت علیؑ کے خطبات کی یاد تازہ کرتے تھے[23]۔ کوفہ اور یزید کے دربار میں آپ کا خطبہ نیز عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ آپ کی گفتگو اپنے والد گرامی کے خطبات نیز اپنی والدہ گرامی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدکیہ کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے[24]۔
کوفہ میں آپ کے خطبے کے دوران ایک بوڑھا شخص روتے ہوئے کہہ رہا تھا:
"میرے ماں باپ ان پر قربان ہو جائے، ان کے عمر رسیدہ افراد تمام عمر رسیدہ افراد سے بہتر، ان کے بچے تمام بچوں سے افضل اور ان کی مستورات تمام مستورات سے افضل اور ان کی نسل تمام انسانوں سے افضل اور برتر ہیں[25]۔
عبادت
حضرت زینب كبریؑ راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں آپ نے کبھی بھی نماز تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں[26]۔ آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔ فاطمہ بنت الحسینؑ کہتی ہیں:
شب عاشور پھوپھی زینبؑ مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے[27]۔
خدا کے ساتھ حضرت زینبؑ کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ حسینؑ نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا:
"یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل" ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا[28]۔
صبر و استقامت
حضرت زینبؑ صبر و استقامت میں اپنی مثال آپ تھیں۔ آپ زندگی میں اتنے مصائب سے دوچار ہوئیں کہ تاریخ میں آپ کو ام المصائب کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ کربلا میں جب اپنے بھائی حسینؑ کے خون میں غلطاں لاش پر پہونچیں تو آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کیا:
بار خدایا! تیری راہ میں ہماری اس چھوٹی قربانی کو قبول فرما[29]۔
آپ نے بارہا امام سجّادؑ کو موت کے منہ سے نکالا؛ منجملہ ان موارد میں سے ایک ابن زیاد کے دربار کا واقعہ ہے، جب امام سجّادؑ نے عبید اللہ بن زياد سے بحث کی تو اس نے آپؑ کے قتل کا حکم دیا. اس موقع پر حضرت زینبؑ نے بھتیجے کی گردن میں ہاتھ ڈال کر فرمایا: "جب تک میں زندہ ہوں انہیں قتل نہيں کرنے دونگی[30]۔
واقعۂ کربلا ، شب عاشورا
شیخ مفید امام سجاد ؑ سے یوں روایت کرتے ہیں: شب تاسوعا میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا اور پھوپھی زینب ہمارے پاس تھیں اور امام حسین میری دیکھ بھال میں مصروف تھے کہ امام حسین خیمے میں گئے جہاں ابوذر غفاری کے غلام جوین انکے ساتھ تھے۔ آپ اپنی تلوار کو تیز کرتے ہوئے یہ شعر پڑھ رہے تھے:
یا دهر افّ لک من خلیل کم لک بالاشراق والاصیل
اے دنیا! تیری دوستی پر افسوس! کتنے ایسے خلیل تمہیں پانے والے اشراق اور اصیل ہیں
من صاحب او طالب قتیل والدّہر لا یقنع بالبدیل
ان میں سے کچھ صاحب اور طالب قتیل ہیں اور زمانہ بدیل پر قناعت نہیں کرتا
پس امام حسین نے ان اشعار کی دو تین مرتبہ تکرار کی یہاں تک کہ میں نے آپ کے مقصود کو پا لیا، مجھ پر گریہ غالب ہوا لیکن میں آنسو پی گیا اور میں جان گیا مصیبت نازل ہونے والی ہے۔ میری پھوپھی رقت قلبی (جو عورتوں کی خصوصیت ہے) کی وجہ سے یہ سننے کی طاقت نہ لا سکی، جلدی سے اٹھیں اور میرے والد کے پاس پہنچیں تو مخاطب ہوئیں: واہ مصیبتا! کاش مجھے موت آ جاتی،آج میری ماں فاطمہ، باپ علی اور بھائی حسن فوت ہو گئے، اے گذشتگان کے جانشین! باقی رہ جانے والوں کی ڈھارس! یہ سننا تھا کہ امام حسین نے انکی طرف نگاہ کی اور فرمایا: اے بہن! شیطان تجھ پر غلبہ حاصل نہ کر لے، آپ نے بھری ہوئی آنکھوں سے فرمایا: اگر پرندے کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو وہ سو جائے گا۔
پس حضرت زینب ؑ نے کہا: مجھ پر وائے ہو! کیا یہ بزور شمشیر تمہاری جان لیں گے؟ ایسا ہے تو یہ مجھے اور زیادہ غمگین کر دیا اور یہ میرے لئے زیادہ ناقابل برداشت ہے یہ کہہ کر پھوپھی نے اپنا چہرہ پیٹ لیا اور گریبان پارہ پارہ کر لیا، آپ بیہوش ہو کر گر گئیں۔ پس حسین ؑ اٹھے اور پانی کے چھینٹے آپ کے چہرے مارے اور فرمایا:
اے بہن! خدا کا خوف کیجئے، صبر اور شکیبائی اختیار کیجئے! جان لیجئے کہ اہل زمین اس دنیا سے چلے گئے اور نہ ہی اہل آسمان باقی نہیں رہے گے، ہر چیز فانی ہے صرف وہ وجہ اللہ باقی رہے گا جس نے اپنی قدرت سے خلق کیا اور پھر انہیں اپنی طرف لوٹائے گا اور وہ یگانہ و یکتا ہے۔ میرے والد مجھ سے بہتر تھے اور میری والدہ مجھ سے بہتر تھی اسی طرح میرے بھائی بھی مجھ سے بہتر تھے اور رسول خدا صلّی اللّه علیہ و آلہ ہمارے اور سب مسلمانوں کیلئے نمونۂ عمل ہیں۔
امام نے ان الفاظ کے ساتھ انکی دلداری کی اور فرمایا: اے بہن! میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں تم میرے بعد اس قسم کو مت توڑنا، جب دیگران پر حزن و غم طاری ہو تو آپ میری خاطر اپنا گریبان چاک نہ کریں، چہرہ مت پیٹیں اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں۔ یہ کہہ کر حضرت زینب کو میرے پاس بٹھا دیا اور اپنے اصحاب کے پاس چلے گئے[31]۔
عصر عاشور جب سیدہ زینبؑ نے دیکھا کہ امام حسینؑ خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے مجروح جسم کو گھیرے میں لے کر آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور عمر ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:
يابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبد اللهِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَيهِ. (ترجمہ: اے سعد کے بیٹے! ابو عبد اللہ (امام حسنؑ) کو قتل کیا جارہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہو؟!)[32]۔
ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبریؑ نے بآواز بلند پکار کر کہا: "وا اَخاهُ وا سَیِّداهُ وا اَهْلِ بَیْتاهْ ، لَیْتَ السَّماءُ اِنْطَبَقَتْ عَلَی الْاَرضِ وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّهْل.(ترجمہ: آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیمبرؐ! کاش آسمان زمین پر گرتا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گرجاتے)[33]۔
حضرت زینبؑ نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا. آپ اپنے بھائی کی بالین پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: "اے میرے اللہ! یہ قربانی ہم سے قبول فرما[34]۔
محافظہ امامت
مظلوم کربلا کی شہادت کے بعد زینب کبریٰ کی اصل ذمہ داری سلسلہ امامت کو منقطع ہونے سے بچانا تھا ہمارا اعتقاد ہے کہ سلسلہ امامت کی چوتھی کڑی سید سجاد(ع) ہیں ،چنانچہ عبیداللہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو دستور دیا تھا کہ اولاد امام حسین (ع) میں سے تمام مردوں کو شہید کئے جائیں،دوسری طرف مشیت الہی یہ تھی کہ مسلمانوں کیلئے ولایت اور رہبری کایہ سلسلہ جاری رکھا جائے ، اس لئے امام سجاد (ع) بیمار رہے اور آپ کا بیمار رہنا دوطرح سے آپ کے زندہ رہنے کیلئے مدد گار ثابت ہوا۔1۔ امام وقت کا دفاع کرنا واجب تھا جو بیماری کی وجہ سے آپ سے ساقط ہوا ۔2۔ دشمنوں کے حملے اور تعرضات سے بچنے کا زمینہ فراہم کرنا تھا جو بیماری کی وجہ سے ممکن ہوا۔کہاں کہاں زینب (س) نے امام سجاد (ع)کی حفاظت کی؟جلتے ہوئے خیموں سے امام سجاد (ع) کی حفاظت تاریخ کا ایک وحشیانہ ترین واقعہ عمر سعد کا اھل بیت امام حسین (ع) کے خیموں کی طرف حملہ کر کے مال واسباب کا لوٹنا اور خیموں کو آگ لگانا تھا ۔ اس وقت اپنے وقت کے امام سید الساجدین (ع) سے حکم شرعی پوچھتی ہیں: اے امامت کے وارث اور بازماندگان کے پناہ گاہ ! ہمارے خیموں کو آگ لگائی گئی ہے ، ہمارے لئے شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا انہی خیموں میں رہ کر جلنا ہے یا بیابان کی طرف نکلنا ہے؟!امام سجاد (ع) نے فرمایا:آپ لوگ خیموں سے نکل جائیں۔ لیکن زینب کبری (س) اس صحنہ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی تھیں، بلکہ آپکا امام سجاد (ع) کی نجات کیلئے رکنا ضروری تھا۔راوی کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا تھا خیموں سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے اور ایک خاتون بیچینی کےعالم میں خیمے کے در پر کھڑی چاروں طرف دیکھ رہی تھیں، اس آس میں کہ کوئی آپ کی مدد کو آئے ۔ پھر آپ ایک خیمہ کے اندر چلی گئی ۔ اور جب باہر آئی تو میں نے پوچھا : اے خاتون !اس جلتے ہوئے خیمے میں آپ کی کونسی قیمتی چیز رکھی ہوئی ہے ؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہی ہے کہ آگ کا شعلہ بلند ہورہا ہے؟!زینب کبری (س)یہ سن کر فریاد کرنے لگیں :اس خیمے میں میرا ایک بیماربیٹا ہے جو نہ اٹھ سکتا ہے اور نہ اپنے کو آگ سے بچا سکتا ہے ؛جبکہ آگ کے شعلوں نے اسے گھیر رکھا ہے ۔آکر کار زینب کبری (س) نے امام سجاد (ع) کو خیمے سے نکال کر اپنے وقت کے امام کی جان بچائی ۔شمر کے سامنے امام سجاد(ع) کی حفاظت
امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد لشکر عمر سعد خیمہ گاہ حسینی کی طرف غارت کے لئے بڑھے ۔ایک گروہ امام سجاد (ع) کی طرف گئے ، جب کہ آپ شدید بیمار ہونے کی وجہ سے اپنی جگہ سے اٹھ نہیں سکتے تھے ۔ ایک نے اعلان کیا کہ ان کے چھوٹوں اور بڑوں میں سے کسی پربھی رحم نہ کرنا ۔دوسرے نے کہا اس بارے میں امیر عمر سعد سے مشورہ کرے ۔ شمر ملعون نے امام (ع) کو شہید کرنے کیلئے تلوار اٹھائی ۔ حمید بن مسلم کہتا ہے : سبحان اللہ ! کیا بچوں اوربیماروں کو بھی شہید کروگے؟! شمر نے کہا : عبید اللہ نے حکم دیا ہے ۔ حضرت زینب (س) نے جب یہ منظر دیکھا تو امام سجاد (ع) کے قریب آئیں اور فریاد کی: ظالمو! اسے قتل نہ کرو۔ اگرقتل کرنا ہی ہے تو مجھے پہلے قتل کرو ۔آپ کا یہ کہنا باعث بنا کہ امام (ع)کے قتل کرنے سے عمر سعد منصرف ہوگیا۔-4-امام سجاد (ع) کو تسلی دینا
جب اسیران اہل حرم کوکوفہ کی طرف روانہ کئے گئے ، تو مقتل سے گذارے گئے ، امام(ع) نے اپنے عزیزوں کو بے گور وکفن اور عمر سعد کے لشکر کے ناپاک جسموں کو مدفون پایا تو آپ پر اس قدر شاق گزری کہ جان نکلنے کے قریب تھا ۔ اس وقت زینب کبری (س) نے آپ کی دلداری کیلئے ام ایمن سے ایک حدیث نقل کی ،جس میں یہ خوش خبری تھی کہ آپ کے بابا کی قبر مطہر آیندہ عاشقان اور محبین اہلبیت کیلئےامن اورامید گاہ بنے گی۔لِمَا أَرَى مِنْهُمْ قَلَقِي فَكَادَتْ نَفْسِي تَخْرُجُ وَ تَبَيَّنَتْ ذَلِكَ مِنِّي عَمَّتِي زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيٍّ الْكُبْرَى فَقَالَتْ مَا لِي أَرَاكَ تَجُودُ بِنَفْسِكَ يَا بَقِيَّةَ جَدِّي وَ أَبِي وَ إِخْوَتِي فَقُلْتُ وَ كَيْفَ لَا أَجْزَعُ وَ أَهْلَعُ وَ قَدْ أَرَى سَيِّدِي وَ إِخْوَتِي وَ عُمُومَتِي وَ وُلْدَ عَمِّي وَ أَهْلِي مُضَرَّجِينَ بِدِمَائِهِمْ مُرَمَّلِينَ بِالْعَرَاءِ مُسَلَّبِينَ لَا يُكَفَّنُونَ وَ لَا يُوَارَوْنَ وَ لَا يُعَرِّجُ عَلَيْهِمْ أَحَدٌ وَ لَا يَقْرَبُهُمْ بَشَرٌ كَأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الدَّيْلَمِ وَ الْخَزَرِ فَقَالَتْ لَا يَجْزَعَنَّكَ مَا تَرَى فَوَ اللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَعَهْدٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى جَدِّكَ وَ أَبِيكَ وَ عَمِّكَ وَ لَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ أُنَاسٍ مِنْ هَذِه الْأُمَّةِ لَا تَعْرِفُهُمْ فَرَاعِنَةُ هَذِهِ الْأَرْضِ وَ هُمْ مَعْرُوفُونَ فِي أَهْلِ السَّمَاوَاتِ أَنَّهُمْ يَجْمَعُونَ هَذِهِ الْأَعْضَاءَ الْمُتَفَرِّقَةَ فَيُوَارُونَهَا وَ هَذِهِ الْجُسُومَ الْمُضَرَّجَةَ وَ يَنْصِبُونَ لِهَذَا الطَّفِّ عَلَماً لِقَبْرِ أَبِيكَ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ لَا يَدْرُسُ أَثَرُهُ وَ لَا يَعْفُو رَسْمُهُ عَلَى كُرُورِ اللَّيَالِي وَ الْأَيَّامِ وَ لَيَجْتَهِدَنَّ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَ أَشْيَاعُ الضَّلَالَةِ فِي مَحْوِهِ وَ تَطْمِيسِهِ فَلَا يَزْدَادُ أَثَرُهُ إِلَّا ظُهُوراً وَ أَمْرُهُ إِلَّا عُلُوّا-5- بحار ، ج۴۵، ص۱۷۹ ۱۸۰ خود امام سجاد (ع) فرماتے ہیں : کہ جب میں نے مقدس شہیدوں کے مبارک جسموں کو بے گور وکفن دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا ۔یہاں تک کہ میری جان نکلنے والی تھی ، میری پھوپھی زینب(س) نے جب میری یہ حالت دیکھی تو فرمایا: اے میرے نانا ،بابا اور بھائیوں کی نشانی ! تجھے کیا ہوگیا ہے؟ کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ تیری جان نکلنے والی ہے ۔تو میں نے جواب دیا کہ پھوپھی اماں ! میں کس طرح آہ وزاری نہ کروں ؟جب کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بابا اور عمو اور بھائیوں اور دیگر عزیزو اقرباء کو خون میں لت پت اور عریان زمین پر پڑے دیکھ رہا ہوں۔اور کوئی ان کو دفن کرنے والے نہیں ہیں۔ گویا یہ لوگ دیلم اور خزر کے خاندان والے ہیں ۔زینب (س) نے فرمایا: آپ یہ حالت دیکھ کر آہ وزاری نہ کرنا ۔خدا کی قسم ،یہ خدا کے ساتھ کیا ہوا وعدہ تھا جسے آپ کے بابا ، چچا ،بھائی اور دیگر عزیزوں نے پورا کیا ۔خدا تعالی اس امت میں سے ایک گروہ پیدا کریگا جنہیں زمانے کےکوئی بھی فرعون نہیں پہچان سکے گا ۔ لیکن آسمان والوں کے درمیان مشہور اور معروف ہونگے۔ان سے عہد لیا ہوا ہے کہ ان جدا شدہ اعضاء اور خون میں لت پت ٹکڑوں کو جمع کریں گے اور انہیں دفن کریں گے۔وہ لوگ اس سرزمین پر آپ کے بابا کی قبر کے نشانات بنائیں گےجسے رہتی دنیا تک کوئی نہیں مٹا سکے گا۔سرداران کفر والحاد اس نشانے کو مٹانے کی کوشش کریں گے، لیکن روز بہ روز ان آثار کی شان ومنزلت میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا
دربار ابن زیاد میں امام سجاد (ع) کی حفاظت
قَالَ الْمُفِيدُ فَأُدْخِلَ عِيَالُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا عَلَى ابْنِ زِيَادٍ فَدَخَلَتْ زَيْنَبُ أُخْتُ الْحُسَيْنِ ع فِي جُمْلَتِهِمْ مُتَنَكِّرَةً وَ عَلَيْهَا أَرْذَلُ ثِيَابِهَا وَ مَضَتْ حَتَّى جَلَسَتْ نَاحِيَةً وَ حَفَّتْ بِهَا إِمَاؤُهَا فَقَالَ ابْنُ زِيَادٍ مَنْ هَذِهِ الَّتِي انْحَازَتْ فَجَلَسَتْ نَاحِيَةً وَ مَعَهَا نِسَاؤُهَا فَلَمْ تُجِبْهُ زَيْنَبُ فَأَعَادَ الْقَوْلَ ثَانِيَةً وَ ثَالِثَةً يَسْأَلُ عَنْهَا فَقَالَتْ لَهُ بَعْضُ إِمَائِهَا هَذِهِ زَيْنَبُ بِنْتُ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ص فَأَقْبَلَ عَلَيْهَا ابْنُ زِيَادٍ وَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَحَكُمْ وَ قَتَلَكُمْ وَ أَكْذَبَ أُحْدُوثَتَكُمْ فَقَالَتْ زَيْنَبُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَكْرَمَنَا بِنَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ ص وَ طَهَّرَنَا مِنَ الرِّجْسِ تَطْهِيراً إِنَّمَا يَفْتَضِحُ الْفَاسِقُ ۔۔۔ ثُمَّ الْتَفَتَ ابْنُ زِيَادٍ إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقِيلَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ فَقَالَ أَ لَيْسَ قَدْ قَتَلَ اللَّهُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ فَقَالَ عَلِيٌّ قَدْ كَانَ لِي أَخٌ يُسَمَّى عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ قَتَلَهُ النَّاسُ فَقَالَ بَلِ اللَّهُ قَتَلَهُ فَقَالَ عَلِيٌّ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَ الَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَقَالَ ابْنُ زِيَادٍ وَ لَكَ جُرْأَةٌ عَلَى جَوَابِي اذْهَبُوا بِهِ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ فَسَمِعَتْ عَمَّتُهُ زَيْنَبُ فَقَالَتْ يَا ابْنَ زِيَادٍ إِنَّكَ لَمْ تُبْقِ مِنَّا أَحَداً فَإِنْ عَزَمْتَ عَلَى قَتْلِهِ فَاقْتُلْنِي مَعَهُ فَنَظَرَ ابْنُ زِيَادٍ إِلَيْهَا وَ إِلَيْهِ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ عَجَباً لِلرَّحِمِ وَ اللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّهَا وَدَّتْ أَنِّي قَتَلْتُهَا مَعَهُ دَعُوهُ فَإِنِّي أَرَاهُ لِمَا بِهِ فَقَالَ عَلِيٌّ لِعَمَّتِهِ اسْكُتِي يَا عَمَّةُ حَتَّى أُكَلِّمَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ ع فَقَالَ أَ بِالْقَتْلِ تُهَدِّدُنِي يَا ابْنَ زِيَادٍ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ الْقَتْلَ لَنَا عَادَةٌ وَ كَرَامَتَنَا الشَّهَادَة- بحار ،ج۴۵،ص۱۱۷،۱۱۸۔جب خاندان نبوت ابن زیاد کی مجلس میں داخل ہوئی ؛ زینب کبری دوسری خواتین کے درمیان میں بیٹھ گئیں ؛ تو ابن زیاد نے سوال کیا : کون ہے یہ عورت ، جو دوسری خواتین کے درمیان چھپی ہوئی ہے؟ زینب کبری نے جواب نہیں دیا ۔ تین بار یہ سوال دہرایاتو کنیزوں نے جواب دیا : اے ابن زیاد ! یہ رسول خدا (ص) کی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا (س)کی بیٹی زینب کبری (س)ہے ۔ ابن زیاد آپ کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اس خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں ذلیل و خوار کیا اور تمھارے مردوں کو قتل کیا اور جن چیزوں کا تم دعوی کرتے تھے ؛ جٹھلایا ۔ابن زیاد کی اس ناپاک عزائم کو زینب کبری (س)نے خاک میں ملاتےہوئے فرمایا:اس خدا کا شکر ہے جس نے اپنے نبی محمد مصطفیٰ (ص) کے ذریعے ہمیں عزت بخشی ۔ اورہرقسم کے رجس اور ناپاکی سے پاک کیا۔ بیشک فاسق ہی رسوا ہوجائے گا ۔جب ابن زیاد نے علی ابن الحسین (ع)کو دیکھا تو کہا یہ کون ہے؟ کسی نے کہا : یہ علی ابن الحسین (ع)ہے ۔تو اس نے کہا ؛کیا اسے خدا نے قتل نہیں کیا ؟ یہ کہہ کر وہ بنی امیہ کا عقیدہ جبر کا پرچار کرکے حاضرین کے ذہنوں کو منحرف کرنا چاہتے تھے اور اپنے جرم کو خدا کے ذمہ لگا کر خود کو بے گناہ ظاہر کرنا چاہتا تھا ۔امام سجاد (ع) جن کے بابا او ر پوراخاندان احیاء دین کیلئے مبارزہ کرتے ہوئے بدرجہ شہادت فائز ہوئے تھے اور خود امام نے ان شہداء کے پیغامات کو آنے والے نسلوں تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی تھی ، اس سے مخاطب ہوئے : میرا بھائی علی ابن الحسین (ع) تھا جسے تم لوگوں نے شہید کیا ۔ابن زیاد نے کہا : اسے خدا نے قتل کیا ہے ۔امام سجاد (ع) نے جب اس کی لجاجت اور دشمنی کو دیکھا تو فرمایا: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ -7- زمر ۴۲۔
اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلالیتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی روحوں کو بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے ۔ اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے ،اس کی روح کو روک لیتا ہے ۔ اور دوسری روحوں کو ایک مقررہ مدّت کے لئے آزاد کردیتا ہے - اس بات میں صاحبان فکر و نظر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔ابن زیاد اس محکم اور منطقی جوا ب اور استدلال سن کر لا جواب ہوا تو دوسرے ظالموں اور جابروں کی طرح تہدید پر اتر آیا اور کہنے لگا : تو نے کس طرح جرات کی میری باتوں کا جواب دے ؟! جلاد کو حکم دیا ان کا سر قلم کرو ۔ تو اس وقت زینب کبری (س) نے سید سجاد (ع)کو اپنے آغوش میں لیا اور فرمایا:اے زیاد کے بیٹے ! جتنے ہمارے عزیزوں کو جو تم نے شہید کیا ہے کیا کافی نہیں؟!خدا کی قسم میں ان سے جدا نہیں ہونگی ۔ اگر تو ان کو شہید کرنا ہی ہے تو پہلے مجھے قتل کرو۔یہاں ابن زیاد دوراہے پر رہ گیا کہ اس کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ؟ ایک طرف سے کسی ایک خاتون اوربیمار جوان کو قتل کرنا ۔ دوسرا یہ کہ زینب کبری (س)کو جواب نہ دے پانا۔ یہ دونوں غیرت عرب کا منافی تھا ۔اس وقت عمرو بن حریث نے کہا: اے امیر! عورت کی بات پر انہیں سزانہیں دی جاتی، بلکہ ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنا ہوتا ہے ۔ اس وقت ابن زیاد نے زینب کبری(س) سے کہا: خدا نے تمھارے نافرمان اور باغی خاندان کو قتل کرکے میرے دل کو چین اور سکون فراہم کیا ۔اس معلون کی اس طعنے نے زینب کبری(س) کا سخت دل دکھا یااورلادیا ۔ اس وقت فرمایا: میری جان کی قسم ! تو نے میرے بزرگوں کو شہید کیا، اور میری نسل کشی کی ، اگر یہی کام تیرے دل کا چین اور سکون کا باعث بنا ہے تو کیا تیرے لئے شفا ملی ہے ؟! ابن زیاد نے کہا : یہ ایک ایسی عورت ہے جو قیافہ کوئی اور شاعری کرتی ہے ۔ یعنی اپنی باتوں کو شعر کی شکل میں ایک ہی وزن اور آہنگ میں بیان کرتی ہے ۔ جس طرح ان کا باپ بھی اپنی شاعری دکھایا کرتا تھا ۔زینب کبری (س) نے کہا: عورت کو شاعری سے کیا سروکار؟! لیکن میرے سینے سے جو بات نکل رہی ہے وہ ہم قیافہ اور ہم وزن ہے-8-۔آخر میں مجبور ہوا کہ موضوع گفتگو تبدیل کرے اور کہا: بہت عجیب رشتہ داری ہے کہ خدا قسم ! میرا گمان ہے کہ زینب چاہتی ہے کہ میں اسے ان کے برادر زادے کے ساتھ قتل کروں؛ انہیں لے جاؤ؛ کیونکہ میں ان کی بیماری کو ان کے قتل کیلئے کافی جانتاہوں۔اس وقت امام سجاد(ع) نے فرمایا : اے زیاد کے بیٹے ! کیا تو مجھے موت سے ڈراتے ہو ؟ کیا تو نہیں جانتا ، راہ خدا میں شہید ہونا ہمارا ورثہ اور ہماری کرامت ہے ۔
فاطمہ صغریٰ کی حفاظت
دربار یزید میں ایک مرد شامی نے جسارت کے ساتھ کہا : حسین کی بیٹی فاطمہ کو ان کی کنیزی میں دے دے ۔ فاطمہ نے جب یہ بات سنی تو اپنی پھوپھی سے لپٹ کر کہا : پھوپھی اماں ! میں یتیم ہوچکی کیا اسیر بھی ہونا ہے ؟!!فَقَالَتْ عَمَّتِي لِلشَّامِيِّ كَذَبْتَ وَ اللَّهِ وَ لَوْ مِتُّ وَ اللَّهِ مَا ذَلِكَ لَكَ وَ لَا لَهُ فَغَضِبَ يَزِيدُ وَ قَالَ كَذَبْتِ وَ اللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لِي وَ لَوْ شِئْتُ أَنْ أَفْعَلَ لَفَعَلْتُ قَالَتْ كَلَّا وَ اللَّهِ مَا جَعَلَ اللَّهُ لَكَ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ تَخْرُجَ مِنْ مِلَّتِنَا وَ تَدِينَ بِغَيْرِهَا فَاسْتَطَارَ يَزِيدُ غَضَباً وَ قَالَ إِيَّايَ تَسْتَقْبِلِينَ بِهَذَا إِنَّمَا خَرَجَ مِنَ الدِّينِ أَبُوكِ وَ أَخُوكِ قَالَتْ زَيْنَبُ بِدِينِ اللَّهِ وَ دِيْنِ أ بِي وَ دِيْنِ أَخِي اهْتَدَيْتَ أَنْتَ وَ أَبُوكَ وَ جَدُّكَ إِنْ كُنْتَ مُسْلِماً قَالَ كَذَبْتِ يَا عَدُوَّةَ اللَّهِ قَالَتْ لَهُ أَنْتَ أَمِيرٌ تَشْتِمُ ظَالِماً وَ تَقْهَرُ لِسُلْطَانِكَ فَكَأَنَّهُ اسْتَحْيَا وَ سَكَتَ وَ عَادَ الشَّامِيُّ فَقَالَ هَبْ لِي هَذِهِ الْجَارِيَةَ فَقَالَ لَهُ يَزِيدُ اعْزُبْ وَهَبَ اللَّهُ لَكَ حَتْفاً قَاضِياً فَقَالَ الشَّامِيُّ مَنْ هَذِهِ الْجَارِيَةُ فَقَالَ يَزِيدُ هَذِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ الْحُسَيْنِ وَ تِلْكَ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ الشَّامِيُّ الْحُسَيْنُ ابْنُ فَاطِمَةَ وَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ الشَّامِيُّ لَعَنَكَ اللَّهُ يَايَزِيدُ تَقْتُلُ عِتْرَةَ نَبِيِّكَ وَ تَسْبِي ذُرِّيَّتَهُ وَ اللَّهِ مَا تَوَهَّمْتُ إِلَّا أَنَّهُمْ سَبْيُ الرُّومِ فَقَالَ يَزِيدُ وَ اللَّهِ لَأُلْحِقَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَضُرِبَ عُنُقُهُ-3 بحار،ج۴۵ ص ۱۳۶،۱۳۷۔زینب کبری(س) نے شہامت اور جرئت کے ساتھ مرد شامی سے مخاطب ہوکر کہا: خدا کی قسم تو غلط کہہ رہا ہے ، تمھاری کیا جرئت کہ تو میری بیٹی کو کنیز بنا سکے؟!!یزید نے جب یہ بات سنی تو غضبناک ہوا اور کہا: خدا کی قسم یہ غلط کہہ رہی ہے ۔ میں اگر چاہوں تو اس بچی کو کنیز ی میں دے سکتا ہوں۔زینب کبری (س) نے کہا : خدا کی قسم تمھیں یہ حق نہیں ہے ؛ مگر یہ کہ ہمارے دین سے خارج ہو جائے۔یہ بات سن کر یزید نے غصے میں آکر کہا : میرے ساتھ اس طرح بات کرتی ہو جبکہ تیرے بھائی اور باپ دین سے خارج ہوچکے ہیں ۔زینب کبری(س) نے کہا:اگرتو مسلمان ہو اور میرے جد اور بابا کے دین پر باقی ہو تو تواورتیرے باپ داداکو میرے باپ دادا کے ذریعے ہدایت ملی تھی۔یزید نے کہا : تو جھوٹ بولتی ہو اے دشمن خدا ۔زینب کبری(س) نے فرمایا: تو ایک ظالم انسان ہو اور اپنی ظاہری قدرت اور طاقت کی وجہ سے اپنی بات منوانا چاہتے ہو۔اس بات سے یزید سخت شرمندہ ہوا اور چپ ہوگیا۔اس وقت مرد شامی نے یزید سے دوبارہ کہا :اس بچی کو مجھے دو ۔یزید نے اس سے کہا :خاموش ہوجا !خدا تجھے نابود کر ے ۔اس شامی نے کہا: آخر یہ بچی کس کی ہے؟!یزید نے کہا: یہ حسین کی بیٹی ہے ۔ اور وہ عورت زینب بنت علی ابن ابیطالب ہے ۔اس مرد شامی نے کہا : حسین !!فاطمہ اورعلی (ع) کا بیٹا؟! جب ہاں میں جواب ملا تو کہا: اے یزید ! خدا تجھ پر لعنت کرے ! پیامبر(ص) کی اولادوں کو قتل کرکے ان کی عترت کو اسیر کرکے لے آئے ہو!خدا کی قسم میں ان کو ملک روم سے لائے ہوئے اسیر سمجھ رہا تھا ۔یزید نے کہا : خدا کی قسم ! تجھے بھی ان سے ملحق کروں گا ۔ اس وقت اس کا سر تن سے جدا کرنے کا حکم دیا ۔
بھائی کی شہادت پر رد عمل
حضرت زینبؑ بھائی امام حسینؑ کے بے جان جسم کے پاس کھڑے ہوکر مدینہ کی طرف رخ کیا اور دل گداز انداز ميں نوحہ گری کرتے ہوئے کہا:
وا محمداه بناتك سبايا و ذريتك مقتلة تسفي عليهم ريح الصبا، و هذا الحسين محزوز الرأس من القفا مسلوب العمامة و الردا، بابي من اضحي عسكره في يوم الاثنين نهبا، بابي من فسطاطه مقطع العري، بابي من لا غائب فيرتجي و لا جريح فيداوي بابي من نفسي له الفدا، بابي المهموم حتي قضي، بابي العطشان حتي مضي، بابي من شيبته تقطر بالدماء، بابي من جده محمد المصطفي، بابي من جده رسول اله السماء، بابي من هو سبط نبي الهدي، بابي محمد المصطفي، بابي خديجة الكبري بابي علي المرتضي، بابي فاطمة الزهراء سيدة النساء، بابي من ردت له الشمس حتي صلي.
ترجمہ: اے محمد یہ آپ کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہوکر جارہی ہیں. یہ آپ کے فرزند ہیں جو خون میں ڈوبے زمین پر گرے ہوئے ہیں، اور صبح کی ہوائیں ان کے جسموں پر خاک اڑا رہی ہیں! یہ حسین ہے جس کا سر پشت سے قلم کیا گیا اور ان کی دستار اور ردا کو لوٹ لیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی سپاہ کو سوموار کے دن غارت کی گئیں، میرا باپ فدا ہو اس پر جس کے خیموں کی رسیاں کاٹ دی گئیں! میرا باپ فدا ہو اس پر جو نہ سفر پر گیا ہے جہاں سے پلٹ کر آنے کی امید ہو اور نہ ہی زخمی ہے جس کا علاج کیا جاسکے! میرا باپ فدا ہو اس پر جس پر میری جان فدا ہے؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کو غم و اندوہ سے بھرے دل اور پیاس کی حالت میں قتل کیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی داڑھی سے خون ٹپک رہا تھا! میرا باپ فدا ہو جس کا نانا رسول خداؐ ہے اور وہ پیغمبر ہدایتؐ، اور خدیجۃالکبریؑ اور علی مرتضیؑ، فاطمۃالزہراؑ، سیدة نساء العالمین کا فرزند ہے، میرا باپ فدا ہو اس پر وہی جس کے لئے سورج لوٹ کے آیا حتی کہ اس نے نماز ادا کی[35]... حضرت زینبؑ کے کلام اور آہ و فریاد نے دوست اور دشمن کو متاثر و مغموم کیا اور سب کو رلا دیا[36]۔
دربار كوفہ
کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ
عاشورا کے بعد اہل بیت کے اسیروں کو بازار میں لایا گیا۔ کوفہ میں زینب بنت علی نے ایک اثردار خطبہ دیا جس نے لوگوں پر بہت زیادہ اپنا اثر چھوڑا۔
بُشر بن خُزیم اسدی حضرت زینبؑ کے خطبے کے بارے میں کہتا ہے:
اس دن میں زینب بنت علیؑ کو دیکھ رہا تھا؛ خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح فصیح و بلیغ نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی بن ابیطالبؑ کی زبان سے بول رہی تھیں۔ آپ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر ایک غضبناک لہجے میں فرمایا: "خاموش ہوجاؤ"! تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گردن میں باندھی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی[37]۔ حضرت زینب کا خطاب اختتام پذیر ہوا لیکن اس خطبے نے کوفہ میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی تھی اور لوگوں کی نفسیاتی کیفیت بدل گئی تھی۔ راوی کہتا ہے: کہ علیؑ کی بیٹی کے خطبے نے کوفیون کو حیرت زدہ کر دیا تھا اور لوگ حیرت سے انگشت بدندان تھے۔
خطبے کے بعد شہر میں [یزیدی] حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کی علامات ظاہر ہونے لگیں چنانچہ اس حکومت کے خلاف احتمالی بغاوت کے سد باب کیلئے اسیروں کو حکومت کے مرکزی مقام دار الامارہ لے جانے حکم دیا گیا[38]۔
حضرت زینبؑ دیگر اسیروں کے ہمراہ دارالامارہ میں داخل ہوئیں اور وہاں حاکم کوفہ عبید اللہ بن زياد کے ساتھ آپ نے مناظرہ کیا[39]۔
حضرت زینبؑ کی تقریر نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے اور بنو امیہ کو رسوا کردیا۔ اس کے بعد عبید اللہ بن زياد نے اسیروں کو قید کرنے کا حکم دیا. کوفہ اور دارالامارہ میں حضرت زينبؑ کے خطبات، امام سجادؑ، ام کلثوم اور فاطمہ بنت الحسین، کی گفتگو، عبداللہ بن عفیف ازدی اور زید بن ارقم کے اعتراضات نے کوفہ کے عوام میں جرأت پیدا کر دی یوں ظالم حکمران کے خلاف قیام کا راستہ ہموار ہوا؛ کیونکہ کوفہ والے حضرت زینبؑ کا خطبہ سننے کے بعد نادم و پشیمان ہوگئے اور خاندان عصمت و طہارت کے قتل کا بدنما داغ جو ان کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بن گیا تھا کو مٹانے کیلئے راہ کسی راہ حل تلاش کرنے لگے یوں ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ آخرکار مختار کی قیادت میں خون حسین ابن علی کے انتقام کیلئے قیام کیا۔
شام
واقعۂ کربلا کے بعد یزید نے ابن زیاد کو اسرائے اہل بیت کو شہیدوں کے سروں کے ہمراہ شام بھیجنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اہل بیت اطہارؑ کا یہ کاروان شام روانہ ہوا[40]۔
اسرائے اہل بیتؑ کے شام میں داخل ہوتے وقت یزید کی حکومت کی جڑیں مضبوط تھیں؛ شام کا دارلخلافہ دمشق جہاں لوگ علیؑ اور خاندان علی کا بغض اپنے سینوں میں بسائے ہوئے تھے؛ چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ لوگوں نے اہل بیت رسولؐ کی آمد کے وقت نئے کپڑے پہنے شہر کی تزئین باجے بجاتے ہوئے لوگوں پر خوشی اور شادمانی کی کیفیت طاری تھی گویا پورے شام میں عید کا سماں تھا[41]۔
لیکن اسیروں کے اس قافلے نے مختصر سے عرصے میں اس شہر کی کایہ ہی پلٹ کر رکھ دی۔ امام سجّادؑ اور حضرت زینبؑ نے خطبوں کے ذریعے صراحت و وضاحت کے ساتھ بنی امیہ کے جرائم کو بے نقاب کیا جس کے نتیجے میں ایک طرف سے شامیوں کی اہل بیت دشمنی، محبت میں بدل گئی اور دوسری طرف سے یزید کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا تب یزید کو معلوم ہوا کہ امام حسینؑ کی شہادت سے نہ صرف اس کی حکومت کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوئی بلکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہونے شروع ہو گئی تھی۔
دربار یزید
یزید نے ایک با شکوہ مجلس ترتیب دیا جس میں اشراف اور سیاسی و عسکری حکام شریک تھے[42]۔ اس مجلس میں یزید نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی[43]۔
یزید نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کے ساتھ امام حسینؑ کے مبارک لبوں کی بے حرمتی کرنا شروع کیا[44] اور رسول اکرمؐ اور آپ کی آل کے ساتھ اپنی دشمنی کو علنی کرتے ہوئے کچھ اشعار پڑھنا شروع کیا جن کا مفہوم کچھ یوں ہے:
"اے کاش میرے آباء و اجداد جو بدر میں مارے گئے زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ قبیلہ خرزج کس طرح ہماری تلواروں کی ستم کا نشانہ بنا ہے، تو وہ اس منظر کو دیکھ کر خوشی سے چیخ اٹھتے: اے یزید! تہمارے ہاتھ کبھی شل نہ ہو! ہم نے بنیہاشم کے بزرگان کو قتل کیا اور اسے جنگ بدر کے کھاتے میں ڈال دیا اور اس فتح کو جنگ بدر کی شکست کے مقابلے میں قرار دیا۔ بنی ہاشم نے سیاسی کھیل کھیلا تھا ورنہ نہ آسمان سے کوئی چیز نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی وحی اتری ہے[45]۔ میں خُندُف[46] کے نسل میں سے نہیں ہو اگر احمد(حضرت محمد) کی اولاد سے انتقام نہ لوں۔
اتنے میں مجلس کے ایک کونے سے حضرت زینبؑ اٹھی اور بلند آواز میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ یزید کے دربار میں جناب زینبؑ کے اس خطبے نے امام حسینؑ کی حقّانیت اور یزید کے باطل ہونے کو سب پر واضح اور آشکار کیا۔
خطبے کے فوری اثرات
حضرت زینبؑ کے منطقی اور اصولی خطبے نے دربار یزید میں موجود حاضرین کو اس قدر متأثر کیا خود یزید کو بھی اسرائے آل محمد کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اہل بیتؑ کے ساتھ کسی قسم کی سخت رویے سے پرہیز کرنا پڑا [47]۔
دربار میں حضرت زینبؑ کی شفاف اور دوٹوک گفتگو سے یزید کے اوسان خطا ہونے لگے اور مجبور ہو کر اس نے امام حسینؑ کی قتل کو ابن زیاد کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اسے لعن طعن کرنا شروع ہو گیا[48]۔
یزید نے اطرافیوں سے اسرائے آل محمد کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اس موقع پر اگرچہ بعض نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو بھی قتل کیا جائے لیکن نعمان بن بشیر نے اہل بیتؑ کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا مشورہ دیا[49]۔ اسی تناظر میں یزید نے اسراء اہل بیت کو شام میں کچھ ایام عزاداری کرنے کی اجازت دے دی۔ بنی امیہ کی خواتین منجملہ ہند یزید کی بیوی شام کے خرابے میں اہل بیتؑ سے ملاقات کیلئے گئیں اور رسول کی بیٹیوں کے ہاتھ پاؤں چومتی اور ان کے ساتھ گریہ و زاری شریک ہوئیں۔ تین دن تک شام کے خرابے میں حضرت زینبؑ نے اپنے بھائی کی عزاداری برگزار کی[50]۔
آخرکار اسرائے اہل بیتؑ کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ پہنچایا گیا[51]۔
حضرت زینب کے خطبہ کے چند اقتباسات :
سیدہ زينبؑ نے حمد و ثنائے الہی اور رسول و آل رسول پر درود وسلام کے بعد فرمایا:
اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا.
اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کردیئے ہیں؛ اور آل رسولؐ کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہوچکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان ومنزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کررہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خودنمایی کررہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منارہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: "بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟. آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے . اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے . اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے . کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ۔
ترجمہ: اور یہ کافر ایسا نہ سمجھیں کہ ہم جو ان کی رسی دراز رکھتے ہیں یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے ہم تو صرف اس لیے انکی رسی دراز رکھتے [اور انہیں ڈھیل دیتے] ہیں[52].
اس کے بعد فرمایا : اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے کیا یہ انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو پردے میں بٹها رکھا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے. تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی. تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر شہر پھرائے . تیرے حکم پر دشمنان خدا اہل بیت رسولؐ کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے. اور لوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے لوگ سب ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں. ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں. آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے. آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں. آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے.
اس شخص سے بھلائی کی کیا امید ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں حمزہ بن عبدالمطلبؑ کا جگر چبایا ہو. اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو. وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے.
اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ "آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں!
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علیؑ کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے!
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہوگا اور تو فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھےگا جبکہ تو نے اپنے ظلم و ستم کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندان کے ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں پر لگے زخموں کو گہرا کردیا ہے اور دین کی جڑیں کاٹنے کے لئے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے! تو نے اولاد رسول کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے ہیں.
تو نے خاندان عبد المطلب کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں.
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے. تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا.
اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا! تب انہیں معلوم ہو گا کہ کون زیادہ برا ہے مکان کے اعتبار سے اور زیادہ کمزور ہے لاؤ لشکر کے لحاظ سے؟! اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے . اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا. اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے. تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا. نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا . اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا . خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں . بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں . "اور انہیں جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں، ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ، اپنے پروردگار کے یہاں رزق پاتے ہیں".
اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے . اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے . پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعہ تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا . اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا . ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ "کیا برا بدل (انجام) ہے یہ ظالموں کے لیے" ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں.
فاتح شام کی واپسی
حضرت زینب اور امام سجاد کی تقریروں نے شام کے اوضاع و احوال کو برعلیہ یزید متحول کیا ۔ جس کے بعد یزید نے اپنا روش تبدیل کر کے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ یزید کو معلوم ہوا کہ اب اہلبیتعليهالسلام کو مزید شام میں ٹھہرانا اس کی مفاد میں نہیں، لہذااس نے اہلبیت اطہارعليهالسلام کو مدینہ واپس بھیجنے کا انتظام کیا ۔
فارسی کے اشعار میں فاتحانہ واپسی کو شاعر نے زکر کیا [53] جس کا مفہوم یہ ہے :
کہ زینب کبری (س) نے شام اور شام والوں (یزیدیوں )کوتباہ کرکے نکلیں ۔زمین کربلا سے لےکر کوفہ اور شام تک جہاں جہاں آپ نے قدم رکھا ؛ فتح کرکے نکلیں۔علی کے لب ولہجے اور دردناک فریاد میں کربلا کا الم ناک واقعہ کوفہ والوں کے سامنے تفصیل سے بیان فرما کرچلیں ۔صاف الفاظ میں کہہ دوں کہ اس دلیر اور عظیم خاتون نے اپنے بیان اور خطاب کے ذریعے اپنے دشمن کو بوکھلا کر رکھ دیں
شعلہ بیان خطبے کے ذریعے یزید اور ان جیسے ظالموں کے ایوانوں کی بنیاد یں قلع قمع کرکے نکلیں ۔ جب آپ کو اسیر بناکر شام لائی گئی تو اس وقت شام والے شراب نوشی میں مصروف اور جشن منارہے تھے ؛ لیکن جب آپ شام سے نکلنے لگیں تو اس وقت شام کو ، شام غریبان میں بدل کرنکلیں ۔
بحار الانوار میں بیان ہوا ہے کہ جب ہندہ یزید کی بیوی نے اپنا خواب اسے سنایا تو وہ بہت زیادہ مغموم ہوا ۔ اور صبح کو اہل بیت اطھارعليهالسلام کو دربار میں بلایا اور کہا : میں پشیمان ہوں ۔ ابھی آپ لوگوں کو اختیار ہے کہ اگر شام میں رہنا چاہیں تو رہائش کا بندوبست کروں گا اور اگر مدینہ جانا چاہیں تو سفر کے لئے زاد راہ اور سواری کا انتظام کروں گا ۔
اس وقت زینب کبری ٰ (س)نے یزید سے مطالبہ کیا کہ ان کو اپنے شہیدوں پر رونے کا موقع نہیں ملا ہے ، ان پر رونے کیلئے کسی مکان کا بندوبست کیا جائے ، اس طرح تین دن شام میں مجلس عزا برپا ہوئی اور اہل شام کے تمام خواتین اس مجلس میں شریک ہوگئیں ، یہا ں تک کہ ابوسفیان کے خاندان میں سے ایک عورت بھی باقی نہیں تھی جو امام حسینعليهالسلام پر رونے اور اہلبیتعليهالسلام کی استقبال کیلئے نہ آئی ہو۔[54]
جب فاتح شام کی روانگی کا وقت آیا تو زرین محمل کا انتظام کیا گیا تو شریکۃ الحسین(س) نے بشیر بن نعمان سےکہا : اجعلوھا سوداء حتی یعلم الناس انا فی مصیبۃ و عزاء لقتل اولادالزہرا(س) ۔ ان محملوں کو سیاہ پوش بنائیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہم اولاد زہرا (س)کے سوگ اور مصیبت میں ہیں ۔
جب اہلبیتعليهالسلام عراق پہنچے اور زمین کربلا میں وارد ہوئے تو دیکھا کہ جابر بن عبداللہ انصاریرحمهالله اور بنی ہاشم کے کچھ افراد سید الشہداعليهالسلام کے قبر مبارک پر زیارت کرتے ہوئے رورہے ہیں ۔ لہوف کے مطابق ۲۰ صفر کو شہدا کے سروں کو ان کے مبارک جسموں سے ملائے گئے۔[55]
زینب کبری (س) اپنے بھائی کی قبر سے لپٹ کر فریاد کرنے لگی: ہای میرا بھیا ہای میرا بھیا ! اے میری ماں کا نور نظر ! میری آنکھوں کا نور ! میں کس زبان سے وہ مصائب اور آلام تجھے بیان کروں جو کوفہ اور شام میں ہم پر گذری ؟ اور پست فطرت قوم نے کس قدر آزار پہنچائی؟ناسزا باتیں سنائی ؟
وفات حضرت زینب ؑ
کتاب اخبار الزینبیات (العبیدلی) تنہا ایسی کتاب ہے جس میں حضرت زینب ؑ کی رحلت کے زمان و مکان کو ذکر کیا گیا ہے ، اس کتاب کے مطابق حضرت زینب کی وفات 15 رجب 62 قمری کو مصر میں ہوئی ہے [56]۔ گرچہ احتمال قوی یہی ہے کہ حضرت زیہنب کی وفات 62 ہجری کو واقعہ کربلا کے کچھ عرصہ بعد ہی ہوئی ہے کیونکہ اس کے بعد تاریخ میں بی بی کے بارے میں کوئی گزارش موجود نہیں ہے لیکن العبیدلی کی خبر پر مورخین اتنا اعتماد نہیں کرتے اس لئے بی بی کے محل وفات اور مدفن میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
حضرت زینب سے منقول چند روایات
1۔ الا من مات على حب آل محمد مات شهیدا
آگاه ہو جائیں جو بھی محبت آل محمد پر مرے شہید ہے [57]
2۔ و نحن وسیلته فى خلقه و نحن خاصته و محل قدسه و نحن حجته فى غیبه و نحن ورثه انبیائه...ہم خدا اور اسکی مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں .ہم خدا کے برگزیدہ ہیں محل پاکی ، راہنماہاى روشن خداکی روشن رہنما ء اور وارث پیغمبران خدا ہیں[58] .
3۔ خَیْرٌ لِلِنّساءِ انْ لایَرَیْنَ الرِّجالَ وَلایَراهُنَّ الرِّجالُ.
عورت کی شخصیت کی حفاظت کیلئے بہترین چیز یہ ہے کہ کوئی مرد اسے نہ دیکھے اور وہ مردوں کے دیکھنے کا سبب نہ بنے[59] .
4۔ ما یَصَنَعُ الصّائِمُ بِصِیامِهِ إذا لَمْ یَصُنْ لِسانَهُ وَ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ وَ جَوارِحَهُ.
جو روزه دار اپنی زبان ، کان ، آنکھ اور اپنے دیگر اعضاء و جوارح کو کنٹرول نہیں کرتا اسکے روزہ کا کوئی فائدہ نہیں ۔ [60]
5۔ الرَّجُلُ اُحَقُّ بِصَدْرِ دابَّتِهِ، وَ صَدْرِ فِراشِهِ، وَالصَّلاهِ فی مَنْزِلِهِ إلاَّ الاْمامَ یَجْتَمِعُ النّاسُ عَلَیْهِ۔
ہر شخص اپنی سواری اور گھر کی تزیین اور اسمیں اقامہ نماز کی نسبت دوسروں پر اولویت رکھتا ہے لیکن امام جماعت کہ کس کے پیچھے لوگ نماز پڑھتے ہیں سب پر اولویت رکھتا ہے [61]۔
6۔ خابَتْ أُمَّهٌ قَتَلَتْ إبْنَ بِنْتِ نَبِیِّها.
وہ لوگ کبھی سعادت مند نہیں ہو سکتے جو اپنے نبی کی اولاد کا قتل کریں [62]
[1] انساب الطالبيين، ابن عنبه، المجدي في انساب الطالبيين، علي بن محمد العلوي، قم، مكتبة المرعشي النجفي، 1409، ص 18
[2] الاصيلي في انساب الطالبيين، ابن الطقطقي الحسني، قم مكتبة المرعشي النجفي، 1418، ص 58
[3] مقاتل الطالبيين، ابي الفرج اصفهاني، موسسه الاعلمي للمطبوعات، ص 95
[4] زينب الكبري، جعفر النقدي، نجف، مطبعة الحيدرية، ص17
[5] زينب الكبري، ص 18؛ فاطمةالزهراء بهجة قلب المصطفي، احمد الرحماني الهمداني، تهران، نشر المرضية، 1372ش، ص 634
[6] زينب(س) الكبري، جعفر النقدي، ص 28، وفيات الائمة، ص 431
[7] الطبقات الكبري، ج6، ص 19
[8] التنبيه و الاشراف، علي بن الحسين المسعودي، بيروت، دار و مكتبة الهلال، 1421، ص 274
[9] المعارف، عبدالله بن مسلم بن قتيبه، الهيئة المصرية للطباعة الكتاب، چاپ ششم، ص 211
[10] جمهرة انساب العرب، ابن حزم الاندلسي، بيروت، دارالكتب العلمية، 1422، ص 37
[11] المنتظم، ابن الجوزي، بيروت، دارالكتب العلمية، 1412، ج5، ص 69
[12] تذكرة الخواص، سبط بن الجوزي، بيروت، موسسة اهل البيت، 1401، ص288
[13] شرح نهج البلاغه، ابن ابي الحديد، ج9، ص 242
[14] جمهرة انساب العرب، ابن حزم اندلسي، بيروت، دارالكتب العلمية، 1424، 37-38
[15] تذكرة الخواص، ص 288
[16] مناقب اميرالمومنين علي بن ابيطالب، محمد بن سليمان الكوفي، قم، مجمع احياء الثقافة الاسلامية، 1423، ص 683، الهداية الكبري، حسين بن حمدان الخصيبي، (م334)، موسسه البلاغ، ص 94
[17] رحلة ابن بطوطة، ج1، ص 92
[18] اخبار الزينبيات، يحيي بن حسن العبيدلي، نشره محمد جواد مرعشي نجفي، بي جا، بي تا، ص 123-124، رحلة ابن بطوطه، محمد بن عبدالله الطنجي، ابن بطوطة، بيروت، المكتبة العصرية، 1425، ج1، ص 92
[19] اخبار الزينبيات، ص 125
[20] ابن عساکر ،اعلام النساء ، ص ۱۸۹
[21] دلائل الامامہ طبری ، ج۳ ، ص۵۷
[22] نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج۱۶ ، ص ۲۱۰
[23] احمد بہشتی ، زنان نامدار در قرآن و حدیث ، ص ۵۱
[24] سید کاظم ارفع ، حضرت زینب سیرہ عملی اہل بیت ، ص ۸۸
[25] سید ابن طاووس ، اللہوف ، ص ۱۷۹
[26] جعفر النقدی ، ص ۶۱
[27] محلاتی ، رحاحین الشریعہ ، ۱۳۴۹ ش ، ج۳ ، ص۶۲
[28] زبیح اللہ محلاتی ، ج۳ ، ص ۶۲
[29] سید علی نقی فیض الاسلام ، خاتون دوسرا ، ص ۱۸۵
[30] محمد باقر مجلسی ، بحارالانوار ، ج۴۵ ، ص۱۱۷
[31] مفید ، الارشاد ، ۱۳۷۲ ش ، ج ۲ ، ص ۹۴-۹۳
[32] علی نظری منفرد ، قصہ کربلا ، ص ۳۷۱
[33] سید ابن طاووس ، ص ۱۶۱-۱۵۹
[34] علی نقی فیض الاسلام ، ص ۱۸۵
[35] ابو مخنف ، وقعہ الطف ، ص ۲۵۹
[36] ابو مخنف ، وقعہ الطف ، ص ۲۹۵
[37] احمد صادقی اردستانی ، ص ۲۲۷ – ۲۲۸
[38] احمد صادقی اردستانی ، ص ۲۴۶
[39] ابو مخنف ، وقعہ الطف ، ص ۲۹۹
[40] شہید سید عبد الکریم ہاشمی نژاد ، ص ۳۲۶
[41] محمد محمدی اشتہاردی ، ص ۳۲۷ -۳۲۸
[42] سید عندالکریم ہاشمی نژاد ، ص ۳۳۰
[43] محمد محمدی اشتہاردی ، ص ۲۴۸
[44] حسن الہی ، زینب کبری عقیلہ بنی ہاشم ، ص ۲۰۸
[45] ابو مخنف ، وقعہ الطف ، ص ۳۰۶ – ۳۰۷
[46] یزید کی دادی
[47] مجلسی ، بحار الانوار ، ج ۴۵ ، ص ۱۳۵
[48] شیخ مفید ، الارشاد ، ص ۳۵۸
[49] مجلسی ، بحار الانوار ، ج ۴۵ ، ص ۱۳۵
[50] ابو مخنف ، وقعہ الطف ، ص ۳۱۱
[51] ابن عساکر ، اعلام النساء ، ص ۹۱
[52] سورہ آل عمران آیت ۱۷۸ ؛ اردو ترجمہ سید علی نقی نقن ؛ مجلسی ، بحار الانوار ، ص ۱۳۳
[53] سیرہ واندیشہ حضرت زینب، ص۳۱۳۔
[54] ۔ تاریخ طبری ، ج۳ ، ص۳۳۹۔
[55] ۔ ناسخ التواریخ حضرت زینب کبریٰ۔
[56] اخبار الزينبيات، ص 116
[57] اثبات الهداة، ج۲
[58] مشارق انوار الیقین، ص ۵۱
[59] بحارالأنوار: ج ۴۳، ص ۵۴، ح ۴۸
[60] مستدرک الوسائل، ج ۷، ص ۳۳۶، ح ۲
[61] مجمع الزّوائد، ج ۸، ص ۱۰۸
[62] مدینه المعاجز، ج ۳، ص ۴۳۰
+ نوشته شده در چهارشنبه سوم آذر ۱۴۰۰ ساعت 17:21 توسط اسد عباس اسدی
|
علمی ، فکری ، تحقیقی ، تبلیغی