علی علیہ السلام کے شیعہ کی سات نشانیاں

امام باقر علیہ السلام کی حدیث۔

إِنَّمَا شِیعَةُ عَلِیٍّ علیه السلام
امیر المومنین ع کے شیعوں کی علامات۔ [ساتھ نشانیاں ]
پہلی نشانی : الْمُتَبَاذِلُونَ فِی وَلَایَتِنَا ۔
ہمارے ولایت میں خرچ کرتے ہیں۔
ولایت کی راہ میں مال بھی خرچ کرتے ہیں۔ جان بھی خرچ کرتے ہیں۔

دوسری نشانی : الْمُتَحَابُّونَ فِی مَوَدَّتِنَا

ہماری مودت اور محبت میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
ہمیں ایک دوسرے سے محبت ہی کرنی چائیے ہمارے دشمن اور بہت ہیں۔

تیسری نشانی : الْمُتَزَاوِرُونَ لِإِحْیَاءِ أَمْرِنَا
ہمارے امر کو زندہ کرنے کےلیے ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں۔
✓ ہمارے معاشرے میں مومنین کی آپس میں زیارت متروک ہو چکی ہے۔

چوتھی نشانی : الَّذِینَ إِذَا غَضِبُوا لَمْ یَظْلِمُوا
جب انہیں غصہ آتا ہے تو اس وقت کسی پر بھی ظلم نہیں۔ کرتے۔
ان کی زندگی ظلم سے خالی ہوتی ہے۔

پانچویں نشانی : وَ إِذَا رَضُوا لَمْ یُسْرِفُوا
جب بھی خوش ہوتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے۔ اعتدال کا راستہ اپناتے ہیں۔


چھٹی نشانی : برَکَةٌ عَلَی مَنْ جَاوَرُوا
ہمسایوں کے لیے برکت کا باعث بنتا ہے۔ ہمسایوں کے ھر وقت دروازہ کھلا رکھتا ہے۔

ساتویں نشانی : سِلْمٌ لِمَنْ خَالَطُوا
جن کے ساتھ رفت و آمد رکھتا ہے ان کےکیے سکون اور آرامش کا باعث بنتا ہے۔

 گھر میں کبوتر رکھنا ؟

گھر میں کبوتر رکھنا ؟

کبوتر ایک حلال گوشت پرندہ ہے. [1] کبوتر ، پالنا ان سرگرمیوں میں سے ایک ہے جو مختلف اقوام میں بہت مقبول ہے اور انسانی فطرت اس سے ہم آہنگ ہے. لیکن دینی ابحاث میں ، کبوتر پالنے اور کبوتر بازی میں بہت فرق ہے ، اور ان کا حکم بھی متفاوت ہے ۔ کبوتر‌ بازی میں کوئی حرج نہیں اگر دوسروں کیلئے پریشانی کا باعث نہ ہو البتہ اچھا کام بھی نہیں ہے .[2]
روایات میں ذکر ہوا ہے کہ کبوتر پالنا مستحب ہے اور اس کے اثرات بھی ہیں.
یہاں ہم ایسی روایات کو ذکر کریں گے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے گھروں میں بھی کبوتر تھے۔

آئمه اطهار(علیہم السلام)کا کبوتر پالنا

1 ابو حمزه ثمالى کہتے ہیں : میرے پوتے کے چند کبوتر تھے میں نے غصے میں انہیں ذبح کر دیا. [کچھ عرصہ بعد] مکہ گیا قبل از طلوع آفتاب امام باقر(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا . جب سورج طلوع ہوا ، تو بہت سارے کبوتر وہاں دیکھے، سوچا کہ امام سے کبوتر پالنے کے مسائل پوچھوں گا اور لکھوں گا ابھی سوچ رہا تھا کہ میں نے تو کبوتروں کو ذبح کر دیا تھا اگر کبوتر پالنے میں خیر نہ ہوتا تو امام علیہ السلام کیوں پالتے، امام(ع) نے فرمایا: « تم نے سارے کبوتر ذبح کر کے اچھا کام نہیں کیا۔۔۔»۔ [3]
2 عبد الکریم بن صالح کہتا ہے : میں امام صادق(ع) کے پاس گیا ، دیکھا کہ تین سرخ کبوتر امام کے بستر پر بیٹھے ہیں اور اپنے فضلہ سے بستر کو خراب کر رہے ہیں ۔ میں نے عرض کی قربان جاؤں انہوں نے آپ کا بستر گندا کر دیا ہے ، امام علیہ السلام نے فرمایا :
«کعوئی مسئلہ نہیں ، بہتر ہے کہ گھر میں رہیں».[4]
3 محمّد بن کرامه کہتے ہیں: میں نے امام موسى بن جعفر(ع) کے گھر ایک جوڑا کبوتروں کا دیکھا جن کے پر سبز اور تھوڑے سرخ تھے ، امام ان کیلئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر رہے تھے. [5]
اس کے علاؤہ بھی کبوتر پالنے کی تاکید موجود ہے ۔
4 زید شحام نقل کرتے ہیں: امام صادق(ع) کے سامنے کبوتروں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: « گھروں میں کبوتر رکھا کرو، اچھا ہوتا ہے».[6]

گھروں میں کبوتر پالنے کے اثرات روایات میں ذکر ہوئے ہیں بطور نمونہ چند یہ ہیں

شیاطین گھر سے دور رہتے ہیں
امام صادق(ع) نے فرمایا: «کبوتر انبیاء کرام کے پرندوں میں سے ہیں جو وہ گھروں میں رکھتے تھے ، جس گھر میں کبوتر ہوں وہاں جن اہل خانہ کو نقصان نہیں پہنچاتے ؛ کیونکہ سفهاء جن گھر میں کبوتروں سے کھیلنے میں مصروف رہتے ہیں اور اہل خانہ کو تنگ نہیں کرتے».[7]
امام صادق(ع) سے ایک اور جگہ نقل ہوا ہے کبوتروں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے، شیاطین بھاگ جاتے ہیں .[8]

گھر کی حفاظت
امام صادق(ع) نے فرمایا:
«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ یَدْفَعُ بِالْحَمَامِ عَنْ هَدَّةِ الدَّار»؛[9]
خدا وند کبوتروں کے وسیلہ سے گھروں کو تباہ ہونے سے بچاتا ہے . منظور از «هَدَّةِ الدَّارِ» گھر کی تباہی کا معنی بھی اور گھر کے ضعیف افراد کو ضرر سے بچانا بھی ہے .[10]

رفع تنہائی
ایک شخص نے پیغمبر خدا (ص) سے تنہائی کے خوف کی
شکایت کی. پیغمبر(ص) نے اسے فرمایا:
«ایک جوڑا کبوتر لے لو ».[11]
امام صادق(ع) نے فرمایا:
«میرے ساتھ گھر میں کبوتر رکھو تاکہ میرے ہمدم بنیں» ۔[12]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
[1]. امام خمینی، توضیح المسائل (محشّی)، گردآورنده، بنی‌هاشمی خمینی، سید محمدحسین، ج 2، ص 594، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ هشتم، 1424ق.
[2]. برای اطلاعات بیشتر ر.ک: 12685؛ حکم کبوتر بازی
[3]. عبد الله بن بسطام، حسین بن بسطام، طبّ الأئمة(ع)‏، محقق: خرسان، محمد مهدى‏، ص 111، قم‏، دار الشریف الرضی‏، چاپ دوم‏، 1411ق‏.
[4]. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق، غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 6، ص 548، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ چهارم، 1407ق.
[5]. طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص 130، قم، شریف رضی، چاپ چهارم، 1412ق.
[6]. الکافی، ج ‏6، ص 547؛ شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعة، ج 11، ص 517، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ق.
[7]. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 60، ص 93، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ق؛ شیخ حر عاملی، هدایة الأمة إلی أحکام الأئمة(ع)، ج 5، ص 127، مشهد، مجمع البحوث الإسلامیة، چاپ اول، 1414ق.
[8]. شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، محقق، غفاری، علی اکبر، ج 3، ص 350، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ق.
[9]. الکافی، ج ‏6، ص 547.
[10].بحار الأنوار، ج ‏62، ص 19.
[11]. مکارم الأخلاق، ص 129.
[12]. الکافی، ج ‏6، ص 548؛ فیض کاشانی، محمد محسن، الوافی، ج 20، ص 857، اصفهان، کتابخانه امام أمیر المؤمنین علی(ع)، چاپ اول، 1406ق.

زندگی

ہم انسانوں کی زندگی گھر کی عمارت کی طرح ہے. جسے ہم بڑی لگن، محنت، مشقت اور جہد مسلسل سے تعمیر کرتے ہیں۔

زندگی بھر کی کمائی اس پر لگا دیتے ہیں اس کی اینٹ اینٹ بڑی احتیاط کے ساتھ جوڑتے ہیں تاکہ اس میں آرام و سکون سے رہ سکیں۔

پنکھے کولر اور اے سی لگواتے ہیں تاکہ ٹھنڈی ہوا میں سانس لے سکیں۔
ہم مختلف طریقوں سے اسے آراستہ کرتے ہیں۔ اس کی زیب و زینت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اگر بس چلے تو اس کے اندر قالین اور مرمریں فرش بچھاتے ہیں۔

اسی طرح کی ایک اور عمارت گزر ایام کے ساتھ ہمارے وجود کے اندر بھی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے۔

یہ عمارت درحقیقت زندگی کا ماحصل ہے جو شعوری یا لاشعوری طور پر کیے گئے اعمال و اطوار کا نتیجہ ہوتا ہے۔

یہ عمارت انسان کا ضمیر اخلاق اور عمل تعمیر کرتا ہے۔
آدمی اپنے اخلاق کی دولت سے دوسروں کے ساتھ رابطہ قائم کرتا ہے۔ اپنے ضمیر کی برکت سے ان روابط میں بہتری لاتا ہے۔ اپنے خلوص، وفا، سچائی اور محبت و احترام سے دوسروں کی توجہات اپنی طرف مبذول کراتا ہے۔
اپنے عزیز دوستوں کے ساتھ زندگی کے لمحے گزارتا ہے۔اپنے رجحانات کے باعث شریکہ حیات کا انتخاب کرتا ہے۔
بچوں کی تربیت کرتا ہے جو تا دم مرگ اس کے معاون و مددگار ہوتے ہیں۔
زندگی کی اصل عمارت یوں تعمیر ہوتی ہے۔
درحقیقت تعمیر زندگی کا یہ عمل شعوری سے زیادہ لاشعوری قسم کا ہے۔

ہم لوگ لاشعوری طور پر اپنے ارد گرد پھولوں کا ایک باغ لگا رہے ہوتے ہے یا پھر کانٹے دار باڑ کھینچ رہے ہوتے ہیں۔
پھر ایک دن وہ بھی آجاتا ہے جب اسی زندگی کے چرخے میں زندہ رہنا ہماری مجبوری بن جاتا ہے۔

ایک گھر کو، تعمیر ہو جانے کے بعد ہمیشہ حفاظت درکار ہوتی ہے۔
اس سے کہیں زیادہ حفاظت کی ضرورت ہماری زندگی کو ہے۔

اس زندگی میں اطمئنان یا پھر اسے لرزا دینے والے زلزلے اور طوفان ہمارے روئیے ہیں۔

اگر انسان شعوری طور پر بیدار نہ ہو تو اس کا عمل جہاں ظاہری زندگی کو متاثر کرتا ہے وہاں اس کے اندر کو بھی دیمک کی طرح چاٹ کھاتا ہے۔ جہاں اس کے دوستوں کو اس سے چھین لیتا ہے وہیں اس کے خاندانی نظام میں بھی بگاڑ پیدا کر دیتا ہے۔

اس لیے ہمیں زندگی میں اطمئنان وسکون برقرار رکھنے کےلئے اپنے رویوں پر مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے نظریات ؛ افکار ؛ رجحانات و عادات زندگی کی گاڑی کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
ان پر مسلسل نظر ثانی کرتے رہنا چاہئے تاکہ اصلاح و ارتقا کا عمل جاری و ساری رہے