مخلوق کا رزق اللہ کے ذمہ ، اس کے کیا معنی ہیں؟

مخلوق کا رزق اللہ کے ذمہ ، اس کے کیا معنی ہیں؟

وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي ٱلْأَرْضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ۔ (سورہ ہود: 6)

زمین میں کوئی جاندار ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا رزق اللہ پر ہے۔ اور اسے معلوم ہے کہ کس جاندار کا مستقل ٹھکانہ کہاں ہے اور عارضی جگہ کہاں ہے۔ ہر چیز واضح کتاب میں ثبت ہے۔

تفسیر

اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے۔ وہ ہر جاندار کی روزی کا ضامن ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کے رزق کا بندوبست کرتا ہے، خواہ وہ خشکی پر ہوں یا پانی میں، اور یہ رزق ان کے لیے مختلف ذرائع سے فراہم ہوتا ہے۔

"مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا" سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جاندار کی رہائش گاہ اور اس کے عارضی ٹھکانے کو جانتا ہے۔

مستقر اس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں کوئی چیز ہمیشہ کے لیے رہتی ہے، جبکہ مستودع اس عارضی جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں کوئی چیز وقتاً فوقتاً رہتی ہے۔ اس کا اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات کی زندگی، ان کی موت اور ان کی حرکت و سکون کے سب مقامات سے باخبر ہے۔

"كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ" یعنی سب کچھ ایک واضح کتاب میں درج ہے۔ اس سے مراد لوحِ محفوظ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تفصیل کو محفوظ کر رکھا ہے۔

اس میں کائنات کے ہر جاندار کی زندگی، موت، رزق، اور اس کی تقدیر لکھی ہوئی ہے، اور کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں ہے۔

یہ آیت انسان کو توکل اور اعتماد کی دعوت دیتی ہے کہ اگرچہ انسان اپنی کوشش سے رزق کماتا ہے، لیکن درحقیقت اس کا اصل ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے، جو ہر ذی روح کی ضروریات سے باخبر ہے اور اس کے وسائل زندگی فراہم کرتا ہے۔

رزق اللہ کے ذمہ ہے تو پھر محنت کیوں؟

ایک اہم سوال ہے کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ کو الرزاق (رزق دینے والا) کہا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہی اصل میں ہر مخلوق کو رزق عطا کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی، اسلام انسان کو سعی (کوشش) اور محنت کی تلقین بھی کرتا ہے۔

اس کی کیا وجہ ہے؟

انسانی کوشش بطور ذریعہ رزق

اسلام کے مطابق، اگرچہ رزق دینے والا اللہ ہے، لیکن رزق حاصل کرنے کا عمل کوشش اور جدوجہد کے ذریعے ہوتا ہے۔ قرآن میں کئی جگہ انسان کو کوشش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، مثلاً سورہ النجم میں ارشاد ہوتا ہے:

"اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی" (سورہ النجم، 53:39)۔

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں کامیابی کے لیے کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رزق اور کامیابی کو اس کے عمل کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔

امتحان اور تربیت

اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آزمائش اور تربیت کا مقام بنایا ہے۔ انسان کو محنت کرنے اور مشکلات کا سامنا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور تدبیر کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح، انسان صبر، توکل، اور مضبوط ارادے جیسے اوصاف کو حاصل کرتا ہے۔

تقدیر اور تدبیر میں توازن

اسلامی تعلیمات میں تقدیر اور تدبیر کا تصور موجود ہے۔ تقدیر کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی ایک حد مقرر کر رکھی ہے، لیکن تدبیر کے تحت انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رزق کے لیے کوشش کرے۔ گویا انسان کی کوشش اور اللہ کا رزق، دونوں آپس میں مربوط ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اللہ پر بھروسہ بھی کرنا چاہیے اور اپنی ذمہ داری کے تحت محنت بھی کرنی چاہیے۔

4۔محنت ایک عبادت ہے

رسول اکرمﷺ نے محنت اور روزی کمانے کو عبادت کا درجہ دیا ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے:

محنت سے حلال روزی کمانا فرض عبادت کے بعد سب سے بڑی عبادت ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني، حدیث نمبر 3936)۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں محنت کو خود ایک نیکی اور عبادت سمجھا گیا ہے، اور یہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔

توکل اور محنت کا تعلق

اللہ پر توکل کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان کوشش چھوڑ دے۔ توکل کا مطلب یہ ہے کہ انسان کوشش کے بعد اللہ پر بھروسہ کرے اور نتائج کو اللہ پر چھوڑ دے۔ اسلام میں توکل اور محنت کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

"اونٹ کو باندھو اور پھر اللہ پر توکل کرو" (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2517)۔

خلاصہ

اسلام میں اللہ تعالیٰ کو رزاق سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی اصل ذریعہ ہے، لیکن کوشش اور محنت انسان کے عمل کا حصہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی روزی حاصل کرنے کے لیے محنت کرے۔ لہذا، اللہ پر بھروسہ اور اس کی رضا کے لیے کوشش کرنا انسان کی ذمہ داری ہے۔

یہ قابلِ غور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تمام جانداروں کے رزق کا ذمہ خود لیا ہے، مگر اس کے باوجود چیونٹی مسلسل محنت کرتی ہے، اسے یہ خیال نہیں آتا کہ وہ فارغ بیٹھ کر بھی رزق پا لے گی۔ لیکن اشرف المخلوقات، یعنی انسان، اپنے وہم و خیالات میں الجھ کر بعض اوقات چیونٹی جیسی چھوٹی مخلوق کے عزم اور شعور کو بھی نہیں اپنا پاتا۔

دیانت داری اساسِ ایمان

دیانت داری اساسِ ایمان

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔)سورۃ التوبہ، آیت 119(

تفسیری نکات

تقویٰ اور صداقت کی اہمیت

اس آیت میں سب سے پہلے تقویٰ (اللہ کا خوف) کی تاکید کی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہر وقت اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارے اور ہر کام میں اس کی رضا کو مدنظر رکھے۔ پھر صداقت پر زور دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کو چاہیے کہ وہ صداقت پسند لوگوں کے ساتھ رہیں۔

صداقت کا مفہوم

صداقت سے مراد صرف سچ بولنا نہیں ہے، بلکہ دل، زبان، اور عمل میں ایک سچائی اور خلوص کا ہونا بھی شامل ہے۔ اس میں انسان کا اپنے وعدوں کا سچا ہونا، دینی ذمہ داریوں کا حق ادا کرنا، اور منافقت سے دور رہنا بھی شامل ہے۔

صادقین کون ہیں؟

صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان و عمل میں سچے ہیں۔

تفسیری کتب میں اس کے بارے میں کئی آراء ملتی ہیں: ائمۂ معصومین علیہم السلام: شیعہ مفسرین نے صادقین سے اہل بیت علیہم السلام مراد لیے ہے، کیوں کہ وہ دین میں کامل ترین ہستیاں ہیں۔

پیغمبر اکرم(ص) اور صالح افراد: بعض دیگر تفسیروں کے مطابق، صادقین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام و صالحین شامل ہیں ۔

معاشرہ پر اثرات

اس آیت میں مسلمانوں کو ایسی جماعت یا افراد کے ساتھ رہنے کا حکم دیا گیا ہے جو صادق ہیں، کیونکہ نیک اور سچے افراد کی صحبت سے انسان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، اور وہ گناہوں سے بچنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتا ہے۔ اس سے انسان کے اندر اللہ کی قربت اور روحانی بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔

تفسیر تسنیم (آیت اللہ جوادی آملی)

آیت اللہ جوادی آملی اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ صادقین کے ساتھ رہنا انسان کو اخلاص اور حقیقت کے قریب لے جاتا ہے۔

وہ بیان کرتے ہیں کہ سچائی اور اللہ کا خوف انسان کی شخصیت میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اور جب تک انسان صادقین کے ساتھ نہ ہو، اس میں حقیقی تقویٰ پیدا نہیں ہو سکتا۔

تفسیر 'التحریر و التنویر'

تفسیر التحریر و التنویر میں اس آیت کا مفہوم یہ بتایا گیا ہے کہ صداقت اور تقویٰ دو الگ الگ خوبیوں کے بجائے ایک ہی راہ کی طرف اشارہ ہیں، یعنی اللہ کی بندگی اور اطاعت میں اخلاص اور سچائی پیدا کرنا۔

'الکوثر' شیخ محسن نجفی

جبکہ 'الکوثر' میں شیخ محسن نجفی بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت ایمان والوں کو ایک روحانی معاشرت کی طرف بلا رہی ہے جہاں سچائی اور خلوص بنیادی عناصر ہیں۔

خلاصہ

آیت "کونوا مع الصادقین" ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمیں سچائی کے راستے پر چلنا چاہیے اور ان لوگوں کے ساتھ رہنا چاہیے جو اس راہ پر گامزن ہیں۔ یہ آیت ہماری زندگی کو روحانیت، صداقت اور تقویٰ سے مزین کرنے کی ہدایت کرتی ہے، اور ہمیں منافقت، کذب اور فریب سے بچنے کا پیغام دیتی ہے۔

قرآنی نقطہ نظر سے برا انجام کن لوگوں کا مقدر ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قرآنی نقطہ نظر سے برا انجام کن لوگوں کا مقدر ہے؟

وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (سورۃ الرعد، آیت 25)

ترجمہ: اور وہ لوگ جو اللہ کے مستحکم عہد کو توڑتے ہیں، اور ان رشتوں کو کاٹ دیتے ہیں جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ انہیں جوڑا جائے، اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن پر لعنت ہے اور ان کے لیے برا انجام ہے۔

تفسیر

اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد کو توڑتے ہیں۔ اس عہد میں بنیادی طور پر اللہ کی اطاعت، دین اسلام پر عمل پیرا ہونا، اور دیگر حقوق اللہ و حقوق العباد شامل ہیں۔

عہد شکنی: اللہ نے ہر انسان کے ساتھ ایک فطری عہد لیا ہے کہ وہ اسے رب مانے اور اس کے احکام پر عمل کرے۔ اس عہد کی خلاف ورزی کرنے والے وہ ہیں جو اللہ کے احکام کو رد کرتے ہیں یا ان سے غفلت برتتے ہیں۔

صلہ رحمی: اس آیت میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹ دینا ناپسندیدہ ہے۔ صلہ رحمی، یعنی رشتہ داروں سے تعلق کو جوڑ کر رکھنا، اسلام میں انتہائی اہم ہے، اور ان رشتوں کو کاٹنے کو فسادی عمل کہا گیا ہے۔

فساد فی الارض: ان لوگوں کی صفات میں زمین میں فساد پھیلانا بھی شامل ہے۔ فساد پھیلانا یعنی زمین میں ایسا بگاڑ پیدا کرنا جس سے دوسروں کو نقصان ہو، معاشرتی توازن خراب ہو، یا اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی ہو۔

4۔انجام اور سزا: اس آیت میں ان لوگوں کے لیے اللہ کی طرف سے لعنت کا ذکر ہے جو اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں، رشتہ داریوں کو منقطع کرتے ہیں اور فساد پھیلاتے ہیں۔ انہیں آخرت میں "سوء الدار" یعنی برا انجام دیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے لیے آخرت کا گھر عذاب و تکلیف کا گھر ہوگا، اور انہیں اللہ کی رحمت سے دوری ملے گی۔

مفسرین نے مختلف پہلوؤں سے اس آیت کی تشریح کی ہے،یہاں چند معروف مفسرین کی آراء کا خلاصہ دیا گیا ہے:

علامہ طبری

طبری کے مطابق، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں اور معاشرتی تعلقات کو کاٹ دیتے ہیں۔

طبری کے نزدیک یہ عہد فطرتاً وہ عہد ہے جو اللہ نے انسان سے لیا ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے احکام کو مانیں گے۔ اس کے علاوہ، اللہ کے جوڑنے کے حکم کا تعلق خاص طور پر رشتہ داروں سے ہے، جسے دین اسلام میں صلہ رحمی کہا جاتا ہے۔ ایسے افراد جو ان احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں لعنت اور برا انجام مقرر ہے۔

ابن کثیر

ابن کثیر اس آیت کے تحت بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے عہد کو توڑنا، جیسے کہ ایمان کی روگردانی کرنا، اور اسلامی احکام کو ترک کرنا اللہ کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہے۔ ابن کثیر مزید فرماتے ہیں کہ اس آیت میں صلہ رحمی پر زور دیا گیا ہے اور اسے اللہ کے اہم احکام میں سے شمار کیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک، اللہ کے عہد کو توڑنے اور تعلقات کو منقطع کرنے والے افراد زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، اور ان پر اللہ کی لعنت ہے اور ان کے لیے آخرت میں برا انجام ہے۔

علامہ فخر الدین رازی

علامہ رازی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ اس میں بنیادی طور پر انسان کی روحانی اور اخلاقی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اللہ نے انسان سے اس کی فطرت میں عہد لیا کہ وہ توحید اور عدل کو اپنائے گا، لیکن عہد شکنی کرنے والے اپنے نفس کی پیروی میں اللہ کے احکام کو رد کر دیتے ہیں۔ صلہ رحمی کے حکم کو منقطع کرنے کو زمین میں فساد سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ معاشرتی بگاڑ اکثر رشتوں کے بگاڑ سے ہی شروع ہوتا ہے۔

علامہ قرطبی

قرطبی اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے عہد کو توڑنا دراصل اللہ کے ساتھ کیے گئے وعدے کو توڑنا ہے، جو ہر انسان سے اس کی فطرت میں لیا گیا ہے۔ قرطبی کے مطابق، صلہ رحمی یعنی رشتہ داریوں کو جوڑنا دین اسلام کا ایک اہم ستون ہے اور اس کا کاٹنا زمین میں فساد کا باعث بنتا ہے۔ ان کے مطابق، جو لوگ ان عہد و پیمان کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اللہ کی لعنت اور آخرت میں عذاب ان کے مقدر میں ہے۔

علامہ طبرسی

شیعہ مفسر علامہ طبرسی اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ کا عہد، ایمان اور شرعی احکام پر عمل ہے۔ طبرسی کے مطابق، ان رشتوں کو توڑنا جنہیں جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، صرف خونی رشتے ہی نہیں بلکہ دینی بھائی چارے کو بھی شامل ہے۔ فساد فی الارض کے بارے میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایسے لوگ معاشرتی بگاڑ اور دینی ضعف کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے افراد پر اللہ کی لعنت اور آخرت میں برا انجام ہے۔

6 علامہ طباطبائی (المیزان)

علامہ طباطبائی، تفسیر المیزان میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ کے عہد کو توڑنے سے مراد اللہ کی نافرمانی اور اسلامی اصولوں سے انحراف ہے۔

علامہ طباطبائی کے نزدیک، قرآن نے رشتے ناطے کاٹنے کو بہت بڑی برائی قرار دیا ہے اور اسے اللہ کے حکم کی صریح نافرمانی کہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ کی لعنت اور آخرت میں "سوء الدار" کا ذکر ہے جو ایسے لوگوں کا انجام ہوگا۔

تونس کے مشہور مفسر علامہ محمد الطاہر ابن عاشور اپنی تفسیر "التحریر والتنویر" میں اس آیت کی تشریح میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جو اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں۔ ابن عاشور کے مطابق، اللہ کے عہد کو توڑنا دراصل فطرت میں شامل اس عہد کو توڑنا ہے جس کا تقاضا اللہ کی طرف سے کیا گیا ہے کہ وہ اس کی توحید اور اطاعت کا اقرار کریں۔

علامہ ابن عاشور اس آیت میں "ما أمر الله به أن يوصل" یعنی "جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے" کا مطلب نہ صرف خاندانی تعلقات بلکہ تمام سماجی اور دینی تعلقات سے بھی لیتے ہیں، جو اللہ کے احکامات کے تحت قائم کیے گئے ہیں۔ ان کے نزدیک، *اس میں اسلامی اخوت، سماجی انصاف، اور نیکی و احسان کے وہ تمام اصول شامل ہیں جو اسلامی معاشرت کے استحکام کے لیے ضروری ہیں۔

ابن عاشور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایسے افراد جو عہد شکنی، قطع تعلقی، اور فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں، دراصل ایک اجتماعی نقصان کا باعث بنتے ہیں اور اسلامی معاشرے کی جڑیں کمزور کرتے ہیں۔ اس کا انجام قرآن کی زبان میں "سوء الدار" یعنی آخرت میں برا ٹھکانا اور اللہ کی لعنت ہے، جو ان لوگوں کی نافرمانی کی پاداش میں ہے۔

خلاصہ

مفسرین کی آراء سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں اللہ کے عہد کو توڑنے، صلہ رحمی کو نظر انداز کرنے، اور زمین میں فساد برپا کرنے والوں کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ اس کے برعکس، ایک مومن کا فرض ہے کہ وہ اللہ کے احکام کی پابندی کرے، رشتہ داروں سے حسن سلوک رکھے، اور زمین پر امن و امان برقرار رکھے۔ اللہ کی لعنت اور برا انجام ان لوگوں کے لیے ہے جو ان احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

امام موسیٰ کاظم  علیہ السلام نے کتنے سال جیل میں گزارے؟

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے کتنے سال جیل میں گزارے؟

ہمارے شیعوں کے ساتویں امام موسیٰ بن جعفر ؑ کی ولادت صفر کے مہینے میں 128 ہجری ، ابووہ - مکہ اور مدینہ کے درمیان -میں ہوئی (محمد باقر مجلسی، جلاء العیون، چاپ نهم، قم، نشر سرور، 1382 ش، ص 891.) مشہور قول کے مطابق امام علیہ السلام کی 37 اولادیں تھیں (شیخ مفید، ارشاد، ج2، ترجمة سید هاشم رسولی محلاتی، چاپ 2، تهران، انتشارات علمیه اسلامیه، ص 236.) امام علیہ السلام کی شہادت 25 رجب 183 کو بغداد کی ایک جیل میں ہوئی(ابن شهر آشوب، مناقب، ج4، نجف، مطبعه الحیدریه، سال 1376، ص 349.) ۔ واضح رہے کہ امام علیہ السلام کی شہادت نوجوانی میں نہیں ہوئی شہادت کے وقت امام علیہ السلام کی عمر مبارک 55 سال تھی اور امام علیہ السلام کی مدت قید 5 یا 6 سال سے زیادہ نہیں تھی ۔ امام علیہ السلام کی زندگی کا زیادہ تر دور عباسی حکومت کے ساتھ گزرا۔ آپ علیہ السلام نے کئی عباسی خلفاء کی خلافت کو دیکھا اور ہارون الرشید عباسی کے دور میں زیادہ وقت قید میں گزارا ۔ امام علیہ السلام تقریباً 9 سال منصور عباسی کے ساتھ رہے،بظاہر منصور آپ پر معترض نہیں ہوا تھا (علامه مجلسی، پیشین، 896.) مہدی عباسی کے دور میں کچھ وقت جیل میں گزارا لیکن مہدی کو کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر امام کو رہا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا (. علامه مجلسی، بحارالانوار، جلد 48.) ہادی عباسی کے دور میں بھی امام علیہ السلام آزاد رہے، اگرچہ اس کی حکومت ایک سال سے زیادہ نہیں چل سکی ۔

امام (ع) کی قید کا سب سے طویل عرصہ ہارون الرشید کےدور میں تھا۔ سنہ 179 ہجری میں اپنی خلافت کو مضبوط کرنے کے لیے ہارون نے امام موسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرنے کے لیے حج کیا... ہارون نے فضل بن ربیع کو بھیجا اور اس نے امام علیہ السلام نماز پڑھتے ہوئےگرفتار کر لیا اور بصرہ لے جا کر قید کر دیا (علامه مجلسی، جلاء العیون، پیشین 899.) اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ امام علیہ السلام کی شہادت 183 ہجری میں ہوئی ، قید کی مدت ہارون کے دور میں چار سال سے زیادہ نہ تھی۔

زاهدی گلپایگانی لکھتے ہیں: امام موسیٰ بن جعفر (ع) چار سال قید میں رہے جس میں سے ایک سال بصرہ عیسیٰ بن جعفر کے زندان میں گزارا اور بقیہ وقت کچھ فضل بن یحییٰ برمکی کے زندان میں اور کچھ فضل بن ربیع کے زندان گزر گیا اور آخری سال سندی بن شاہک کے زندان میں۔ (زاهدی گلپایگانی، زندگانی چهارده معصوم، چاپ دوم، مشهد، کتابفروشی جعفری، 1360، ص 201)

کتاب منتخب التوارخ میں کتاب رجال کبیر سے متعدد روایات نقل کی ہیں کہ حضرت موسیٰ بن جعفر (ع) چار سال قید میں رہے۔(محمد جواد نجفی، ستارگان درخشان، جلد 9، تهران ، کتابفروشی اسلامیه، ص 58.)

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ امام علیہ السلام کی تمام اولادیں ایک ہی بیوی سے نہیں تھیں، بلکہ جیسا کہ ارشاد شیخ مفید میں ہے:

امام علیہ السلام کی اولاد میں سے ہر ایک کنیز سےیا ایک ہی کنیز سےچند اولادیں تھیں ۔ (شیخ مفید، پیشین، 236.)

نتیجہ

حضرت موسیٰ بن جعفر ؑنے چار یا پانچ سال عباسی دور خلافت میں قید میں گزارے اور باقی وقت مدینہ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارا۔

منتخب حدیثیں

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

خَيرُكُم خَيرُكُم لأَهلِهِ و َأَنَا خَيرُكُم لأَهلى ما أَكرَمَ النِّساءَ إلاّ كَريمٌ و َلا أَهانَهُنَّ إلاّ لَئيمٌ؛

تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں، کریم شخص عورت کی عزت کرتا ہے اور ذلیل شخص عورت کی توہین کرتا ہے ۔

(نهج الفصاحه ص472 ح 1520)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

الرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ فَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ بَعْلِهَا وَ وُلْدِهِ وَ هِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُم‏

مردفیملی کا سربراہ ہے اور اس سے فیملی کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی سربراہ ہے اورعورت سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔

(مجموعه ورام ج1 ، ص6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

خَيرُ الرِّجالِ مِن اُمَّتىَ الَّذينَ لا يَتَطاوَلُونَ عَلى أَهليهِم و َيَحِنُّونَ عَلَيهِم و َلا يَظلِمُونَهُم؛

میری امت کے بہترین آدمی وہ ہیں جو اپنے اہل و عیال پر سختی نہیں کرتے، ان کی توہین نہیں کرتے، ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور ان پر ظلم نہیں کرتے۔

(مكارم الأخلاق ص 216)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صادق عليه السلام نے فرمایا :

مَن حَسُنَ بِرُّهُ بِأَهلِ بَيتِهِ مُدَّ لَهُ فى عُمُرِهِ؛

جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بھلائی کرے گا اس کی عمر لمبی ہو جائے گی۔

(كافى(ط-الاسلامیه) ج2، ص105)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صادق عليه السلام نے فرمایا :

لَا يَزَالُ الْمُؤْمِنُ يُورِثُ أَهْلَ بَيْتِهِ الْعِلْمَ وَ الْأَدَبَ الصَّالِحَ حَتَّى يُدْخِلَهُمُ الْجَنَّةَ [جَمِيعاً]

ایک مومن ہمیشہ اپنی فیملی کو صحیح علم اورادب سے فائدہ پہنچاتا ہے تاکہ ان سب کو جنت میں پہنچا سکے۔

(مستدرك الوسايل و مستنبط المسایل ج12، ص201، ح13881)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

إذا أرادَ اللّه بِأهلِ بَيتٍ خَيرا فَقَّهَهُم فِى الدّينِ و َوَقَّرَ صَغيرُهُم كَبيرَهُم و َرَزَقَهُمُ الرِّفقَ فى مَعيشَتِهِم و َالقَصدَ فى نَفَقاتِهِم وَ بَصَّرَهُم عُيُوبَهُم فَيَتُوبُوا مِنها؛

اللہ تعالیٰ جب بھی کسی خاندان کے لیے بھلائی چاہتا ہے تو انہیں دین کا فہم عطا کردیتا ہے، چھوٹے اپنے بڑوں کا احترام کرتے ہیں، زندگی کے اخراجات میں اعتدال کا مظاہرہ کرتے ہیں ، اور انھیں ان کی خامیوں سے آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی اصلاح کر سکیں۔

(نهج الفصاحه ص181 ، ح 147)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

يا على، خِدمَةُ العِيالِ كَفّارَةٌ لِلكَبائِرِ و َتُطفى غَضَبَ الرَّبِّ، وَ مُهُورُ الحُورِ العينِ، و َتَزيدُ فِى الحَسَناتِ و َالدَّرَجاتِ؛

یا علی: اہل و عیال کی خدمت کبیرہ گناہوں کا کفارہ ہے اور غضب الٰہی کو بجھاتا ہے اور حر العین کا مہریہ ہے اور نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے۔

(جامع احادیث الشیعه(بروجردی) ج22 ، ص306)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

اَلمُؤمِنُ يَأكُلُ بِشَهوَةِ أَهلِهِ، اَلمُنافِقُ يَأكُلُ أَهلُهُ بِشَهوَتِهِ؛

مومن اپنے گھر والوں کی مرضی کے مطابق کھاتا ہے لیکن منافق اپنی خواہش اپنے گھر والوں پر مسلط کرتا ہے۔

(كافى(ط-الاسلامیه) ج4، ص12)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صادق عليه السلام نے فرمایا :

فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ-"قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ ناراً " كَيْفَ نَقِي أَهْلَنَا قَالَ تَأْمُرُونَهُمْ {بِما يُحِبُّ اللّه } وَ تَنْهَوْنَهُم ْ{عَمّا يَكرَهُ اللّه}.

خدا وند فرماتا ہے: "اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ"، پوچھا گیا : ہم اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے کیسے بچا سکتے ہیں؟ فرمایا: (جو اللہ کو پسند ہے) اس کا حکم دو ، اور (جو اللہ کو پسند نہیں ہے) اس سے منع کرو۔ )

(کافی(ط-الاسلامیه) ج5 ص 62)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

يا على: لا يَخدِمُ العِيالَ إلاّ صِدّيقٌ أَو شَهيدٌ أَو رَجُلٌ يُريدُ اللّه بِهِ خَيرَ الدُّنيا وَالخِرَةِ؛

اے علی،اپنے اہل و عیال کی خدمت نہیں کرتا سوائے صالح آدمی یا شہید یا ایسا شخص جس کے لیے خدا دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتا ہے۔

(جامع الاخبار (شعیری) ص103 - بحارالأنوار(بیروت) ج101، ص132)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

اَلمَرأَةُ الصّالِحَةُ أَحَدُ الكاسِبَينِ؛

ایک قابل عورت فیملی کی ترقی کے دو عوامل میں سے ایک ہے۔

(امالی(طوسی) ص614 - مستدرک الوسایل ومستنبط المسایل ج14،ص171)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام على عليه ‏السلام نے فرمایا :

حُسْنُ الْخُلْقِ فى ثَلاثٍ: اِجْتِنابُ الْمَحارِمِ وَ طَـلَبُ الْحَلالِ وَ التَّـوَسُّعُ عَلَى الْعِيالِ؛

خوش اخلاقی تین چیزوں پر مشتمل ہے: حرام سے اجتناب، حلال کمانا ، اور اپنے اہل و عیال کے لیے آرام و آسائش مہیا کرنا ۔

(مجموعه ورام ج1 ، ص90 - بحارالأنوار(ط-بیروت) ج 68، ص 394)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام على عليه ‏السلام نے فرمایا :

مَنْ ساءَ خُلْقُهُ مَلَّهُ اَهْلُهُ

جس کا اخلاق برا ہوتا ہے، اس کے گھر والے اس سے تنگ آ جاتے ہیں۔

(تحف العقول ص 214)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صادق علیه السلام نے فرمایا :

مَن حَسُنَ بِرُّهُ بِأَهلِهِ زادَ اللَّهُ في عُمرِهِ.

جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بھلائی کرے گا اللہ اس کی عمر میں اضافہ کرے گا۔

(کافی(ط-الاسلامیه) ج8 ، ص219)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام على عليه السلام نے فرمایا :

عَلِّمُوا صِبْيانَكُمُ الصَّلوةَ... .

اپنے بچوں کو نماز پڑھنا سکھائیں۔

(وسائل الشيعة، ج 3، ص 13)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

لاتَضْرِبُوا أَطْفالَكُمْ عَلى بُكآئِهِمْ ...

اپنے بچوں کو رونے پر نہ مارو۔

(وسائل الشيعة، ج 15، ص 171)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام على عليه السلام نے فرمایا :

ما مِنْ لَبَنٍ رُضِعَ بِهِ الصَّبِىُّ أَعْظَمَ بَرَكَةٍ عَلَيْهِ مِنْ لَبَنِ أُمّـِهِ.

بچے کو جو بھی دودھ پلایا جائے وہ اس کے لیے ماں کے دودھ سے زیادہ بابرکت نہیں ہو سکتا ہے۔

(وسائل الشيعة ، ج 15، ص 175 )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

مَنْ زَوَّجَ كَريمَتَهُ مِنْ فاسِقٍ فَقَدْ قَطَعَ رَحِمَهُ

جس نے اپنی بیٹی کی شادی کسی گنہگار آدمی سے کر دی تو گویا اس نے اپنی نسل کو قطع کردیا ۔

(مكارم الاخلاق، ص ۲۰۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام باقر عليه‌ السلام نے فرمایا :

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَاللّه‌ِ اَشَدُّكُمْ اِكْراما لِحَلائِـلِهِمْ

تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اپنی بیوی کی سب سے زیادہ عزت کرے۔

(وسائل الشيعه ، ج ۱۵، ص ۵۸ ، ح6 )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

اَ يُّمَا امْرَاَةٍ ماتَتْ وَ زَوْجُها عَنْها راضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ؛

ہر وہ عورت جو مر جائے اور اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں جائے گی ۔

(نهج الفصاحه، ح ۱۰۲۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

نَظَرُ الْوَلَدِ اِلى والِدَيْهِ حُبّا لَهُما عِبادَةٌ

اولاد کی ماں باپ کی طرف محبت بھری نگاہ عبادت ہے۔

(تحف العقول ، ص ۴۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

اِلا اِنَّ خَيْرَ الرِّجالِ مَنْ كان بَطى‌ءَ الْغَضَبِ سَريعَ الرِّضا وَ شَرَّ الرِّجالِمَنْ كانَ سَريعَ الْغَضَبِ بَطى‌ءَ الرِّضا

جان لو کہ بہترین لوگ وہ ہیں جو غصہ کرنے میں دیر اور راضی ہونے میں جلدی کرتے ہیں اور بدترین لوگ وہ ہیں جو غصے میں جلدی اور راضی ہونے میں دیر کرتے ہیں۔

(نهج الفصاحه ، ح ۴۶۹ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صادق عليه‌ السلام نے فرمایا:

بِرُّوا آباءَكُمْ يَبِرَّكُمْ اَبْناؤُكُمْ وَ عِفُّوا عَنْ نِساءِ النّاسِ تَعِفَّ نِساؤُكُمْ

اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، تاکہ تمہاری اولاد تمہارے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے، اور لوگوں کی عورتوں کے پاکدامنی کا خیال کرو، تاکہ تمہاری عورتیں بھی پاک دامن رہیں۔

(كافى ، ج ۵، ص ۵۵۴ ، ح5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

المسلم من سلم المسلمون من یده و لسانه۔

مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں

(دعائم‌الاسلام، ص ٢٦٨)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

شَرُّ الأَشیاءِ اَلمَرأَةُ السُّوءِ

انسان کے لیے سب سے بدترین چیز اس کی بد تمیز اور بری عورت ہے۔

(مستدرک، ج ١٤، ص ١٦٥)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صادق علیه‌السلام نے فرمایا :

اَیُّما اِمرَأَةٍ قالَت لِزَوجِها ما رَأیتُ مِنكَ خَیراً قَطُّ، فَقَد حَبِطَ عَملُها

جب بھی کوئی عورت اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ میں نے تم میں کوئی بھلائی نہیں دیکھی تو اس کی نیکیاں ضائع کر دی جاتی ہیں ۔

(مکارم‌الاخلاق، ص ٢١٥)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

خِیرُ ما یَكنِزُ المَرءُ، اَلمَرأةُ الصّالِحةُ، اذا نَظَرَ اِلیها سَرَّتهُ و اِذا أمَرَها اَطاعَتهُ و اِذا غابَ عنها حَفِظَتهُ.

مرد کے لیے بہترین خزانہ ایک نیک اور پرہیزگار عورت ہے جو جب بھی اس کی طرف دیکھے تو اسے خوش کرتی ہے، جب اس سے کچھ مانگے تو اس کی اطاعت کرتی ہے اور اس کی غیر موجودگی میں خود کی اور اس کی دوسری امانتوں کی حفاظت کرتی ہے۔

(نهج‌الفصاحه، ج ١، ص ٨٦)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

لایَحِلُّ لِلمَرأةِ أَنْ تُكلِّفَ زَوجَها فَوقَ طاقَتِهِ وَ لاتَشكوهُ الی أَحَدٍ مِن خَلقِ الله عزَّوجَّل لاقَریبٍ ولابَعیدٍ.

عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر سے اسکی استطاعت سے زیادہ کچھ مانگے اور اللہ کی مخلوق میں سے کسی کے سامنے بھی اسکی شکایت کرے، خواہ وہ قریبی ہوں یا دور کے ۔

(مستدرک، ج ١٤، ص ٢٤٢)

امام علی ؑ کی نظر میں حکومت کا معیار اور حاکم کی خصوصیات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام علی ؑ کی نظر میں حکومت کا معیار اور حاکم کی خصوصیات

اسد عباس اسدی

مقدمہ

اگرچہ پیغمبر گرامی اسلام ﷺ کی وفات کے بعد اور خلفائے راشدین کی خلافت میں امام علی ؑنے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ خلافت ان کا حق ہے لیکن مورخین کے مطابق جب حضرت عثمان کی وفات کے بعد مسلمان امام علی ؑ کے پاس آئے تو امام ؑ نے ان کی درخواست کو رد کر دیا اور فرمایا: مجھے چھوڑ دو اور کسی اور کو چن لو، میں تمہارا مشیر رہوں گا۔[1]

لیکن لوگوں نے اتنا اصرار کیا کہ امام کو خلافت قبول کرنا ہی پڑی ۔ طبری کے مطابق جملہ سات افراد کے علاوہ (سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عمر، محمد بن مسلمہ، اسامہ بن زید، نعمان بن البشیر اور زید بن ثابت ) مہاجرین اور انصار نے امام ؑ کی بیعت کی ۔[2] سب سے پہلے جس نے امامؑ کی بیعت کی وہ طلحہ بن عبداللہ اور زبیر بن العوام تھے۔ چاروں خلفاء میں سے صرف علی ؑمسلمانوں کی درخواست سے اور مہاجرین اور انصار کے عمومی ووٹ کی بنیاد پر خلیفہ منتخب ہوئے ۔

علی ؑ کو حکومت کے مسائل اور مشکلات کا علم تھا

حضرت عثمان کی وفات کے بعد جب لوگوں نے امام ؑ کی بیعت کرنا چاہی تو امام ؑ نے فرمایا: اگر تم پہلے والی روش پر چلنا چاہتے ہو تو کسی اور کو منتخب کر لو ، کیونکہ ہم اس چیز کا خیرمقدم کرتے ہیں جو مختلف جہات رکھتی ہے ۔۔۔

خلفاء ثلاثہ کے دور میں اسلام کے احکام بدلے گئے، اسی وجہ سے امام کی انقلابی اصلاحات کی مخالفت کی گئی، امام فرماتے ہیں: اس معاملے میں دل ثابت قدم اور عقلیں مستحکم نہیں رہیں، سچائی کے افق پر بدعنوانی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں، اور سیدھا راستہ کہیں گم ہے۔ محتاط رہو! اگر میں آپ کی دعوت قبول کر لوں تو میں آپ کے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو میں جانتا ہوں اور میں اس اور اس کی باتوں اور الزام لگانے والوں کی ملامتوں پر کان نہیں دھروں گا، اگر آپ مجھے چھوڑ دیں تو میں آپ میں سے ہوں، شاید میں آپ سے زیادہ امیر کا فرمانبردارر ہوں ۔ ایسے حالات میں میرے لیے تمہارا امیر بننے سے بہتر ہے کہ میں تمہارا وزیر اور مشیر بن جاؤں [3]۔

بعض مخالفین نے امامؑ کے اس قول کو عذر کے طور پر استعمال کیا ہے اور کہا ہے: اگر وہ پیغمبر اکرم ﷺ کی طرف سے خلافت پر فائز تھے تو انہیں ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی ، لیکن ان لوگوں کا جواب، شیعہ و سنی منابع میں بہت سے شواہد کے علاوہ ، امامؑ کے خطبہ میں بھی بیان ہوا ہے۔

امام ؑ بخوبی جانتے ہیں کہ مسلمانوں نے خلفائے راشدین کے دور میں بالخصوص تیسرے خلیفہ کے دور میں حقیقی اسلام سے دوری اختیار کر لی ہے۔ اسلامی حکومت کے عہدوں کو اپنی مرضی سے سونپنا اور بیت المال کی تقسیم غیر منصفانہ طور پر کرنا اور ذاتی خواہشات کے مطابق یہ عمل تیسرے خلیفہ کے زمانے میں اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اس لیے امام ؑجانتے تھے کہ اگر کوئی سنت نبوی پر عمل کرنا چاہے تو اسے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بعد کے واقعات نے بھی ثابت کیا کہ امامؑ کی پیشین گوئی درست تھی۔

اس وجہ سے جب لوگوں نے آپ سے بیعت کرنا چاہی تو علی ؑ نے فرمایا:

مجھے چھوڑ دو، کیونکہ تم میرے عدل پر عمل کرنے کی استقامت نہیں رکھتے، امیر المومنین ؑ اپنے آپ کو خلافت کے لائق سمجھتے ہیں اور رسول ﷺ کے بعد امامت کے لیے سب سے زیادہ لائق شخص ہیں، اس لیے اپنے انکار کی وجہ بیان کرتے ہوئے رکاوٹوں اور مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ حالات انتہائی انتشار کا شکار ہیں، مسلمانوں کے سامنے مزید ہنگامہ خیز مستقبل ہے، جان لو کہ اگر تم نے میری بیعت کی تو اسلامی معاشرہ کی اصلاح کے لیے تمہیں مشکل وقت سے گزرنا پڑے گا ۔

حکومت کے اولین دنوں سے علی ؑکی مخالفت

اپنی خلافت کے دوسرے ہی دن امام ؑنے اعلان فرمایا :کہ میرا طریقہ رسول اللہ ﷺکے طریقے کے مطابق ہے، کوئی بھی دوسرے سے برتر نہیں ہے ، کل کو کوئی یہ نہ کہے کہ ابو طالب کے بیٹے نے ہمیں ہمارے حقوق سے محروم کر دیا ،کیونکہ سب خدا کے بندے ہیں اور بیت المال خدا کا ہے اور سب برابر کے شریک ہیں ۔ کل سب کو آنا چاہیے تاکہ جو مال میسر ہے وہ آپس میں تقسیم ہو جائے، عربوں کو عجمیوں پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ صرف طلحہ، زبیر، عبداللہ بن عمر، سعید بن عاص اور مروان حکیم اس تقسیم سے خوش نہیں تھے ۔ جب مسلمان مسجد میں جمع تھے تو یہ چند لوگ مسجد کے کونے میں ایک دوسرے کے پاس بیٹھے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے، اس کے بعد "ولید بن عقبہ" امام ؑ کے پاس آئے اور کہا:

آپ نے بدر کے دن ہمارے قریبی رشتہ داروں کو قتل کر دیا۔ لیکن آج ہم آپ سے اس شرط پر بیعت کرتے ہیں کہ آپ ہمیں وہی رقم ادا کریں گے جو حضرت عثمان کے زمانے میں ہمیں ادا کی جاتی تھی اور عثمان کے قاتلوں کو قتل کریں گے اور اگر ہم آپ سے خوف زدہ ہوئے تو ہم شام اور معاویہ کے ساتھ مل جائیں گے!

امام ؑنے فرمایا:

بدر ایک خدائی فریضہ تھا، اور جہاں تک بیت المال کا مسئلہ ہےتو یہ میرے اختیار میں نہیں کہ میں اس میں اضافہ یا کمی کروں، میں وہی کروں گا جو اللہ نے کہا، اورباقی رہا قاتلان عثمان کا معاملہ تو اگر ممکن ہوتا تو میں اسی وقت کر لیتا، اگر تم مجھ سے ڈرتے ہو تو میں تمہیں امان دیتا ہوں ، تم کیوں ڈرو گے؟ ولید نے اپنے دوستوں کو ساری بات بتائی تو وہ افسردہ ہو کر الگ ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے امامؑ کو اطلاع دی کہ وہ لوگوں کو خفیہ طور پر دعوت دے رہے ہیں کہ آپ کو خلافت سے ہٹا دیں اور بیعت توڑ دیں۔

امام ؑ کا قرآن اور رسول اللہ ﷺکے طریقے پر پابند رہنا

اس واقعہ کے بعد امام ؑ مسجد میں تشریف لے گئے اور ممبر پر تشریف فرما ہوئے اور اعلان فرمایا :

خدا نے تقویٰ کے سوا کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دی اور اس کا اجر آخرت میں ملے گا۔

پھر فرمایا:

میں قرآن اور سنت رسولﷺ کے علاوہ کوئی طریقہ اختیار نہیں کروں گا، جو اس سے مطمئن نہیں وہ جہاں چاہے جا سکتا ہے، جو خدا کی اطاعت کرتا ہے اور اس کے فرمان کے مطابق حکومت کرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔

آپ ممبر سے اترے، دو رکعت نماز پڑھی اور پھر طلحہ اور زبیر کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا:

خدا کی قسم، کیا ایسا نہیں تھا کہ میں نے بیعت کو حقیر سمجھا اور تم نے خوشی سے بیعت کر لی؟ وہ کہنے لگے:جی ایسا ہی ہے ۔

فرمایا :

تو یہ کیا صورت حال ہے جو آپ کی طرف سے دیکھ رہا ہوں ؟

وہ کہنے لگے:

ہم نے بیعت کی کہ آپ ہم سے مشورہ کیے بغیر کچھ نہیں کریں گے اور ہمیں دوسروں پر فضیلت دیں گے، لیکن آپ نے بیت المال کو برابر تقسیم کر دیا اور ہم سے مشورہ تک نہ کیا ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

استغفار کرو (کہ میں خدا کی مرضی کے خلاف تم سے ایسی کوئی شرط قبول کروں ) ابھی بتاؤ کہ میں نے تمہاری حق تلفی کی ہے یا تم پر ظلم کیا ہے؟

کہنے لگے :معاذ الله

تو امام نے فرمایا :

کیا مسلمانوں میں سے کسی کے متعلق کوئی حکم یا کوئی حق تھا جس سے میں لاعلم تھا یا حاصل کرنے سے قاصر تھا؟

عرض کی : نہیں!

توامام نے فرمایا: پھر تم کیوں مخالفت کرتے ہو؟

وہ کہنے لگے:

اس لیے کہ آپ بیت المال کی تقسیم میں عمر بن خطاب کے خلاف جا رہے ہو اور ہمیں دوسروں کے برابر کر رہے ہو، حالانکہ غنیمت ہماری تلوار سے جیتی گئی تھی ۔

امام نے پھر فرمایا :

لیکن میں تو حکومت نہیں کرنا چاہتا تھا، آپ نے مجھے اس کی دعوت دی اور اصرار کیا، مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے انکار کیا تو جھگڑا ہو جائے گا۔ ذمہ داری قبول کرنے کے بعد میں نے خدا کی کتاب اور سنت رسول ﷺکی طرف دیکھا ، میں نے وہی کیا جو کتاب و سنت نے میری رہنمائی کی، مجھے آپ کے مشورہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ، اگر آپ سے مشورہ کی ضرورت محسوس ہوئی تو میں آپ سے مشورہ کروں گا،لیکن بیت المال مساوی تقسیم کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی حکم دیا تھا اور خدا کی کتاب بھی یہی کہتی ہے، لیکن چونکہ آپ نے کہا کہ ہم نے زیادہ محنت کی ہے، آپ جانتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے اسلام کی سب سے زیادہ مدد کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ ﷺنےبیت المال کی تقسیم میں ان میں اور دوسروں میں فرق نہیں کیا۔

امام علی ؑ کی حکومت کی بنیاد مساوات ہے

امام کے بعض اصحاب نے معاویہ کی سخاوت اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے عفو و درگزر کو دیکھ کر امام ؑسے کہا:

اے امیر المومنین! لوگ عموماً دنیا میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہیں، اگر آپ عرب اور قریش کے امرا کو بیت المال سے کچھ زیادہ دیتے تو حالات بہتر ہوتے اور تفرقہ پیدا نہ ہوتا اور آپ رعایا کے درمیان انصاف کر سکتے، آخر میں بیت المال کو برابر تقسیم کرتے !

امام ؑنے جب دیکھا کہ بیت المال کی مساوی تقسیم پر آپ کے اصحاب کے ایک گروہ نے اعتراض کیا اور اسے سیاست کے خلاف سمجھا تو فرمایا:

اتامرونی ان اطلب النصر بالجور فیمن ولیت علیه! والله لااطور به۔۔۔[4]

کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی فتح کے لیے ان سے مدد مانگوں جن پر میں حکومت کرتا ہوں؟ خدا کی قسم میں جب تک زندہ ہوں ایسا کام ہرگز نہیں کروں گا ۔۔۔

اگر مال میرا ہوتا تو میں اسے لوگوں میں برابر تقسیم کر دیتا ۔ محتاط رہو! مال دینا فضول خرچی اور اسراف ہے، اس کے کرنے والے کو دنیا میں تو فخر ہو سکتا ہے لیکن آخرت میں اس کی ذلت و رسوائی کا باعث ہو گا، جس نے اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ خرچ کیا اور اس کے اہل کے سپرد نہ کیا اللہ تعالیٰ اسے ان کی شکر گزاری سے محروم کر دے گا اور ان کی محبت کو کسی اور کی طرف موڑ دے گا ، اس لیے اگر کسی دن اس کا پاؤں پھسل جائے اور اسے ان کی مدد کی ضرورت پڑ جائے، تو وہ سب سے بُرے دوست اور سب سے زیادہ ملامت کرنے والے ہوں گے۔

بیت المال میں علی ؑکے طریقے پر سنی علماء کے بزرگوں کی تعریف

ابن ابی الحدید نے کہا ہے: حضرت عمر بن خطاب جب خلافت پر پہنچے تو انہوں نے بعض کو بعض پر ترجیح دی ، اور بیت المال کی تقسیم میں مساوات نہیں کی۔

حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں بھی حضرت عمر نے یہ تجویز پیش کی تھی لیکن حضرت ابوبکر نے اسے قبول نہیں کیا اورکہا:

خدا نے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دی۔

ابن ابی الحدید اس کے بعد حضرت عمر کے اس عمل کو درست ثابت کرنے کے لیے مزید کہتا ہے:

یہ اجتہاد ی معاملہ ہے اور مسلمانوں کا خلیفہ اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کر سکتا ہے، حالانکہ ہمارے نزدیک علی ؑ کی پیروی بہتر ہے، خاص طور سے چونکہ حضرت ابوبکر نے ایسا نہیں کیا اور اگر یہ خبر درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوںمیں برابر تقسیم کرتے تھے تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺکا قول حجت ہے[5]۔

ابن ابی الحدید نے دوسری جگہ کہا:

اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابوبکر نے بیت المال کو مساوی تقسیم کیا تو کسی نے اس پر اعتراض کیوں نہیں کیا؟ ! اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : وہ نبی کریم کے بعد تھا، اور لوگ نبی کی تقسیم کے عادی تھے، لیکن جب حضرت عمر خلافت پر آئے تو انہوں نے کچھ لوگوں کو برتری دی اور ان کے بعد حضرت عثمان نے اس برتری کو بڑھا دیا، یہ طریقہ 22 سال تک چلتا رہا اور لوگ اس کے عادی ہو گئے، اس لیے لوگوں کو اس حالت سے واپس لانے سے یہ مسائل پیدا ہوئے[6]۔

حکومت کا معیار اور امام کی خصوصیات ،علی ؑ کی نظر میں

امام ؑ کی قیادت مکتب کے اصولوں اور تقویٰ و فضیلت کے معیار اور منطقی اور انسانی طریقوں پر مبنی ہے،

امام علیہ السلام رہبری و امامت کی خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہیں:

...فهو من معادن دینه، و اوتاد ارضه قدالزم نفسه العدل، فکان اول عدله نفی الهوی عن نفسه، یصف الحق و یعمل به، لایدع للخیر غایة الا امها ولامظنة الا قصدها، قد امکن الکتاب من زمامه فهو قائده و امامه[7]...

"وہ (جو لائق امامت ہے) خدا کے خزانوں میں سے ایک ہے اور زمین کے ستونوں میں سے ایک ہے۔ اس نے اپنے آپ کو انصاف کا پابند کیا ہے اور انصاف کے راستے پر اس کا پہلا قدم ذاتی خواہشات سے بچنا ہے۔ وہ حق کا چہرہ جیسا ہے دکھاتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے، اس کے سوا کوئی نیکی نہیں ہے جس نے اس پر پختہ ارادہ کیا ہو اور جہاں اچھا خیال ہوتا ہے وہ اس کی پیروی کرتا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو خدا کی کتاب کے اختیار میں رکھا اور اسے اپنا پیشوا اور امام بنایا۔۔۔

امام ؑنہ صرف مکتب کے عالم ہیں بلکہ وہ خود مکتب کو نافذ کرنے میں سب کے پیشوا ہیں اور اقتدار حاصل کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے ذاتی انا نہیں لاتے ، مقصد کے حصول کے لیے خواہ وہ کتنا ہی مقدس اور بلند کیوں نہ ہو انصاف سے انحراف نہیں کرتے ۔ ان کے طرز قیادت اور سیاست کی تعریف کتابوں اور مکاتب سے ہوتی ہے اور وہ اس کے علاوہ کسی اور بات کو نہیں مانتے۔

امام ؑنے اسی خطبہ کے ایک اور حصے میں اس حقیقت کا تذکرہ کیا اور فرمایا:

.. فلا تقولوا بمالا تعرفون، فان اکثر الحق فیما تنکرون واعذروا من لاحجة لکم علیه - و هو انا - الم اعمل فیکم بالثقل الاکبر و اترک فیکم الثقل الاصغر، قدرکزت فیکم رایة الایمان و وقفتکم علی حدود الحلال والحرام[8]...

لہٰذا وہ بات نہ کہو جو تم نہیں جانتے، زیادہ تر حق بات اس میں ہوتی ہے جس کا تم انکار کرتے ہو، اور جس کے خلاف تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں اور وہ میں ہوں، دیکھو کیا میں تم میں سے ہوں مکتب اور آپ ﷺکی عظیم میراث - قرآن – کے مطابق عمل نہیں کیا اور آپ کو اس سے گران مایہ میراث (عترت) نہیں دی، میں نے آپ کے معاشرے کے مرکز میں ایمان کا جھنڈا بلند کیا اور آپ کو اس کے بارے میں آگاہ کیا۔ اور آپ کو حال و حرام کی حدیں بتائیں اور میں نے تم کو اپنے حکم سے عفت کا لباس پہنایا اور قول و فعل سے تم میں نیکیاں پھیلائیں اور انسانی اخلاق کے خدوخال دکھائے۔ لہٰذا، اپنے تخیل کو استعمال کریں جہاں آنکھ اس کی گہرائی کو نہ دیکھ سکے اور آپ کے دماغ میں ایسا کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔"

اس خطبہ میں امام ؑ نے ایک اور حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا اور وہ یہ ہے کہ امام ؑ کی پالیسی کا جائزہ لینے اور جانچنے میں کسی کو سیاسی نقطہ نظر کی حدود میں نہیں پھنسنا چاہیے اور وہ اپنے دورِ حکومت کو اپنی خلافت کے چند سالوں تک محدود سمجھتے تھے اور معاویہ کے دورِ حکومت سے موازنہ کرتے تھے۔اور بنی امیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ علی علیہ السلام سیاست میں مہارت نہیں رکھتے تھے، اس لیے وہ اپنے حریف سے شکست کھا گئے۔

بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف انصاری کو لکھے خط میں امام علیہ السلام نے اپنی سنگین مسئولیت کا ذکر کیا:

ااقنع من نفسی بان یقال: هذا امیرالمؤمنین ولا اشارکهم فی مکاره الدهر او اکون اسوة لهم فی جشوبة العیش[9]...

کیا میں اپنے کو قانع کروں کہ کہا جائے : میں امیر المومنین ہوں؟ لیکن کیا مجھے زمانے کی مشکلات اور تکالیف میں لوگوں کے ساتھ شریک نہیں ہونا چاہیے؟ اور زندگی کی تلخیوں میں ان کا رہبر و رہنما نہیں بننا چاہیے ؟

علی ؑ کی حکومت میں ہر چیز کی بنیاد حق پر ہے اور اصول و معیار حق پر مرکوز ہیں اور کوئی مصلحت ان کی پالیسی اور حق کی پیروی میں ذرہ برابر بھی انحراف کا باعث نہیں بن سکتی۔

فوالذی لااله الا هو انی لعلی جادة الحق و انهم لعلی مزلة الباطل [10]

اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں حق کے راستے پر ہوں اور وہ باطل کی لغزش پر ہیں۔

جی ہاں، امام کی زندگی کے تمام پہلو مکتب کے معیار پر مرتب ہوتے ہیں، اور ان کی زندگی کے کسی بھی پوشیدہ اور کھلے پہلو کو مکتب کے کردار سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔حق کی اسی مرکزیت کی وجہ سے امام علیہ السلام نے اپنے حق کے حصول کے لیے ابو سفیان کی مدد کی پیشکش کو سختی سے رد کر دیا تھا۔

علی ؑ کے نزدیک حکومت کی قبولیت کی بنیاد اور معیار

امیر المومنین علی ؑ کا ہدف عدل کی حکمرانی کو قبول کرنا اور اخلاقی اور انسانی فضائل و کمالات کو بحال کرنا ہے۔ امام کا ہدف رسول خداﷺ کا ہدف ہے، یقیناً اس عظیم مقصد میں علی علیہ السلام اور ان کا پاکیزہ خاندان ہمیشہ کامیاب و کامران رہا۔ ہمیں تنگ نظر نہیں ہونا چاہیے اور سیاسی نظریات کے اسیر نہیں ہونا چاہیے اور علی علیہ السلام کے دور حکومت کو ان کی خلافت کے پانچ سال تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے ان کی سیاست ابدی ہے۔ وہ صدیوں بعد بھی انسانیت کی دنیا پر راج کر رہے ہیں کیونکہ ایک حقیقی سیاست دان وہ ہوتا ہے جو اپنی اندرونی طاقت سے لامحدود عالمی اثر پیدا کر سکتا ہے ، ایک عظیم سیاستدان ایک نایاب وجود ہے۔


[1] ۔ تاریخ طبری، ج 3، قسمت پنجم، ص 152- حوادث سال 35۔

[2] ۔ همان 1۔

[3] ۔ نہجالبلاغه، خطبه 92۔

[4] ۔ نهج البلاغه، خطبه 126; ابن قتیبه، الامامة والسیاسه، ج 1، ص 153; تحف العقول، ص 131; فروع کافی، ج 4، ص 31; مفید، المجالس، ص 95; امالی طوسی، ج 1، ص 197.

[5] ۔ شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید، ج 8، ص 111.

[6] ۔ شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید، ج 7، صص 35-43.

[7] ۔ نهج البلاغه، خطبه 87.

[8] ۔ نهج البلاغه، خطبه 87.

[9] ۔ نهج البلاغه، نامه 45.

[10] ۔ نهج البلاغه، خطبه 197.