اعمال شبِ عاشور اور روز عاشور 

اعمال شبِ عاشور اور روز عاشور

▪ گریہ وزاری کےساتھ شبِ بیداری کریں. ▪ زیارات امام حسین۴ پڑھیں.
▪ 4 رکعت نماز دو دو رکعت کر کے بجا لائیں ( نیت دو رکعت نماز شبِ عاشور پڑھتا ھوں/پڑھتی ھوں قربۃ اللہ) ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد 50 بار سورۃ اخلاص باقی نماز فجر کیطرح ھے.

▪ چار رکعت نماز دو دو رکعت کر کے بجا لائیں ( نیت اوپر درج ھے لیکن طریقہ مختلف ھے جو نیچے درج ہے.)

پہلی دو رکعت: نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد دس (10) بار آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد دس (10) بار سورۃ اخلاص.

اگلی دو رکعت: نماز کی پہلی رکعت میں الحمد کے بعد دس(10) بار سورۃ الفلق اور دوسری رکعت الحمد کےبعد دس (10) بار سورۃ الناس. باقی نماز فجر کیطرح پڑھیں.

اوپر والی نماز پڑھنے کے بعد ایک ھی جگہ پر بیٹھ کر 100 بار سورۃ اخلاص پڑھیں.

▪ جتنا زیادہ ھوسکے قاتلانِ امام حسین۴ پہ زیادہ سے زیادہ لعنتیں بھیجیں:
اللھم العن قتلۃ الحسین ۴ و اصحا بہٍ.

بحوالہ مفاتیح الجنان 523.

روز عاشورا

روز عاشورا محمد و آل محمد علیہم السلام پر مصیبت کا دن ہے. عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام نے اسلام کی بقا کی خاطر اپنا بھرا گھر اور اپنے انصار کو خدا کی راہ میں قربان کر دیا، ہمارے آئمہ معصومین علیہم السلام نے اس دن کو گریہ و زاری سے مخصوص کر دیا ہے. لہٰذا عاشور کے دن گریہ و زاری، مجلس و ماتم اور عزا کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے.

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
اگر کوئی آج کے دن زیارت امام حسین علیہ السلام بجا لائے، آپ کی مصیبت پر خوب روئے اور اپنے گھر والوں اور اعزہ واقارب کو بھی رونے کا حکم دے، اپنے گھر میں عزا برپا کرے اور آپس میں ایک دوسرے سے رو کر ملے، ایک دوسرے کو ان الفاظ میں تعزیت و تسلیت پیش کرے:
"عَظَّمَ اللّٰہُ اُجُورَنٰا بِمُصٰابِنٰا بِالحُسَینِ عَلَیہِ السَّلَام وَ جَعَلَنَا وَاِیَّاکُم مِنَ الطَّالِبِینَ بِشَارِہِ مَعَ وَلِیِّہِ الاِمَامِ المَھدِی مِن آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیہِمُ السَّلَام."
خدا وند عالم اس کو بہت زیادہ اجر عطا فرمائے گا.

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اگر کوئی عاشور کے دن ہزار مرتبہ "سورہ قل اللہ احد" پڑھے تو خدا وند عالم اس کی طرف رحمت کی نظر فرمائے گا.

روز عاشور امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر ہزار مرتبہ اس طرح لعنت بھیجنے کا بہت زیادہ ثواب ہے:
"اَللّٰھُمَّ العَن قَتَلَۃَ الحُسَینِ وَ اَصحٰابِہِ."

🔷 اعمال روز عاشورا 🔷

روز عاشورگریہ وزاری کرنا،
اور مصیبت زدوں کی طرح صورت بنانا،
ننگے سر و ننگے پیر رہنا،
آستینوں کو اوپر چڑھانا،
گریبان کو چاک کرنا،
سارے دن فاقہ سے رہنا،
عصر کے وقت فاقہ شکنی کرنا،
قاتلان امام حسین علیہ السلام پر لعنت بھیجنا،
صبح کے وقت جب کچھ دن چڑھ جائے تو صحرا یا کوٹھے پر جاکر اعمال عاشورا بجا لانے کی تاکید ہے.

🔷 سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کی مختصر زیارت پڑھے:
"اَلسَّلاَم ُعَلَیکَ یٰا اَبٰا عَبدِ اللّٰہِ. اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ یَابنَ رَسُولِ اللّٰہِ. اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم وَ رَحمَۃُ اللّٰہ وَ بَرَکٰاتُہ."

🔷اس کے بعد دو رکعت نماز زیارت عاشورا مثل نماز صبح بجا لائے.
🔷پھر دورکعت نماز زیارت امام حسین علیہ السلام اس طرح کہ قبر امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرے اور نیت کرے کہ دو رکعت نماز زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھتا ہوں قربۃ الی اللہ، نماز تمام کرنے کے بعد زیارت عاشورہ پڑھے.

🔷امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
اس دعا کو سات مرتبہ اس طرح پڑھے کہ گریہ و زاری کی حالت میں یہ دعا پڑھتا ہوا سات مرتبہ آگے بڑھے اور اسی طرح سات مرتبہ پیچھے ہٹے:
"اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّااِلَیہِ رَاجِعُونَ رِضاً بِقَضَائِہِ وَ تَسلِیماً لِاَمرِہ."

اور
🔷 امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
جو شخص عاشور کے دن دس مرتبہ اس دعا کو پڑھے تو خدا وند عالم تمام آفات وبلائے ناگہانی سے ایک سال تک محفوظ رکھتا ہے.
"اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ بِحَقِّ الحُسَینِ وَ اَخِیہِ وَ اُمِّہِ وَ اَبِیہِ وَ جَدِّہِ وَ بَنِیہِ وَ فَرِّج عَنِّی مِمَّا اَنٰا فِیہِ بِرَحمَتِکَ یٰا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ."

🔷 شیخ مفید نے روایت کی ہے کہ جب بھی عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا چاہیں تو آنحضرت کی قبر مطہر کے قریب کھڑ ے ہوں اور یہ زیارت پڑھیں:
(زیارت ناحیہ مقدسہ)

🔷 دعائے علقمہ.

🔷 عاشور کے آخروقت کی زیارت.

نوٹ:۔ عاشور کو آخری وقت پانی سے فاقہ شکنی کرے اور ایسی غذا کھائے جو مصیبت زدوں کی غذا ہو. لذیذ کھانے سے پرہیز کریں .....

کربلا میں یزیدی فوج  کی تعداد کتنی تھی؟

کربلا میں یزیدی فوج کی تعداد کتنی تھی؟
کربلا میں یزیدی فوج کی تعداد کے بارے اختلافِ رائے پایا جاتاہے۔
اختلاف کا سبب یہ ہے کہ کربلا میں اگرچہ جنگ کی اصل کمانڈ عبداللہ بن زیاد کے ہاتھ میں تھی لیکن اس نے جنگ کی سربراہی دو افراد کے سپرد کی:
عمر بن سعد اور شمر بن ذی الجوشن ؛
اور ان دونوں کی سربراہی میں مختلف کمانڈر تھے، جیسے: یزید بن رکاب کلبی، حسین بن نمیر، مغیرہ بن رحیمہ، کعب بن طلعہ، شبث بن ربعی، حجاز بن ابجد، عمر بن حجاج زبیدی، یزید بن حرث، عرزہ بن قیس (اسی طرح شبث بن عمر، مالک بن نسیر کندی، سنان بن انس، خولی بن یزید اصبحی، حرمله بن کامل اسدی، قیس بن اشعث کندی)۔
یزیدی فوج کے مذکورہ کمانڈروں میں سے ہر ایک کے دستے میں شامل سپاہیوں کی تعداد کو مؤرخین نے تفصیل سے نقل کیا ہے جن میں پانچ سو سے لے کر چار ہزار افراد تک شامل تھے۔
تاریخی کتابوں میں موجود ان تمام فوجی دستوں میں شامل سپاہیوں کی تعداد کو جمع کیا جائے تو تیس ہزار سے کچھ زیادہ تعداد بنتی ہے۔
اور چونکہ مؤرخین نے کربلا میں یزیدی لشکر کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۳۳ ہزار تک ذکر کی ہے، اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ کربلا میں یزیدی لشکر کی تعداد، ۳۳ ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔

عزاداری  امام حسین علیہ السلام ، تاریخ کے آئینہ میں

عزاداری امام حسین علیہ السلام ، تاریخ کے آئینہ میں

محرم کی عزاداری سے مراد واقعہ کربلا کی یاد میں منعقد ہونے والے خاص مراسم ہیں۔ شیعہ حضرات ہر سال محرم الحرام کے مہینے میں سنہ 61 ہجری کو کربلا میں پیش آنے والے واقعے کو یاد کر کے عزاداری مناتے ہیں جس میں امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کو یزیدی فوج نے بے دردی کے ساتھ شہید کیا تھا۔ حضرت زینب، امام سجادؑ، ام البنین اور رباب وغیرہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے امام حسینؑ پر عزاداری منعقد کی۔ اسی طرح کمیت اسدی اور دعبل خزاعی نے امام باقرؑ، امام صادقؑ اور امام رضاؑ کے زمانے میں امام حسینؑ کی مصیبت میں اشعار کہے ہیں۔ شروع میں عزاداری کی ان محفلوں میں امام حسینؑ کی مصیبت کو اشعار میں بیان کرنے کے ذریعے آپؑ پر گریہ و زاری کی جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ ان محافل میں مرثیہ سرائی، نوحہ خوانی اور سینہ زنی وغیرہ بھی انجام پانے لگے۔ ایران میں آل بویہ، صفویہ اور قاجاریہ کی حکومت کے دوران عزاداری کے مراسم پورے ملک میں پھیل گئے ۔
آئمہ اہل بیت کے دور میں عزاداری
واقعۂ عاشورا کے بعد امامؑ پر گریہ و زاری کرنے والی ہستیوں میں سب سے پہلے آپؑ کے فرزند امام زین العابدینؑ، آپؑ کی بہن زینب بنت علیؑ اور ام کلثوم تھیں۔ مقاتل کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے کہ حضرت زینبؑ جب اسیری کے وقت اپنے بھائی کی لاش کے قریب سے گزری تو بھائی کی لاش پر ان الفاظ میں نوحہ کیا جس نے دوست اور دشمن سب کو رلا کر رکھ دیا:
اے میرے نانا محمدؐ! تجھ پر آسمان کے فرشتے سلام بھیجتے ہیں یہ صحرا کی گرم ریت پر پڑا ہوا لاشہ تیرے حسینؑ کا ہے۔ اے نانا تیری بیٹیاں اسیر ہو کر شام جارہی ہیں اور ان کے چہروں پر مصیبت کے گرد و غبار آن پڑا ہے۔
ان کے علاوہ آپؑ کی بیٹیاں اور زوجۂ مکرمہ رباب بنت امرؤ القیس وغیرہ نے کربلا میں شہداء کے لاشوں پراور بعدازاں کوفہ اور پھر شام میں عزاداری اور مرثیہ سرائی کا اہتمام کیا۔ یہاں تک کہ جب اسیران کربلا کا قافلہ شام میں وارد ہوا اور امام سجادؑ اور حضرت زینب(س) کے خطبوں سے جب لوگوں پر حقیقت عیاں ہوئی اور یزید اور اس کے کارندوں کے ظلم و ستم کا پتہ چلا تو بنی امیہ کی خواتین نے بھی شہدائے کربلا پر گریہ کی اور شام میں تین دن یا 7 دن سوگ منایا گیا۔
جب اسیران کربلا کا قافلہ شام سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو امام سجادؑ کے حکم پر بشیر بن جذلم نے اشعار کے ذریعے اہل مدینہ کو اہل بیتؑ کی آمد کی خبر دی تو اہل مدینہ نے اہل بیت کی مصیبت میں گریہ و زاری کئے۔ اسی طرح مدینے میں موجود اہل بیت کی خواتین نے عزاداری برپا کر کے مدینے میں سوگ منائیں جن میں زینب بنت عقیل، ام البنین اور رباب‌ شامل ہیں۔
امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے دور امامت میں کمیت اسدی اور امام رضاؑ کے دور امامت میں دعبل خزاعی نامور شیعہ مرثیہ گو شعراء میں سے تھے جنہوں نے امام حسینؑ کی شان میں مرثیہ خوانی کی ہیں۔ اس دور میں امام حسینؑ کی مصیبت کو اشعار کی صورت میں حکایت کرنے والوں کو "مُنشِد" کہا جاتا تھا۔
عزاداری میں وسعت
آل‌بویہ کے برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت وقت کی جانب سے شیعوں پر لگائے گئے پابندیوں کا خاتمہ ہوا اور سنہ352 ق میں تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت کی جانب سے روز عاشورا کو سرکاری طور پر چھٹی اور سوگ کا اعلان کیا گیا اور اس دن خرید و فروخت پر پابندی لگا دی گئی، قصائیوں کو حکم دیا گیا کہ اس دن کے احترام میں کسی جانور کو ذبح نہ کیا جائے اور کھانے پینے کے مراکز میں کھانا وغیره تیار نہ کیا جائے اور بازاروں میں عزاداری کے خیمے نصب کئے گئے۔ آل‌بویہ کے دور میں شیعیان عزاداری کے مراسم کو "الناحیہ" یا "الرثا" کے عنوان سے منعقد کرتے تھے۔
تیموریوں کے دور میں ذاکرین کھلے عام بغیر کسی روک ٹوک کے ائمہؑ کی شان میں منقبت پڑھا کرتے تھے اور مداحی کی اصطلاح اسی زمانے سے رائج ہوئی اسی طرح روضہ خوانی کی اصطلاح بھی اس دور کے بعد سے رواج پانے لگا جس کی وجہ بھی یہ تھی کہ اسی دور میں ملا حسین واعظ کاشفی نے روضۃ الشہدا نامی کتاب تحریر کی جو ہر خاص و عام میں اس قدر مقبول ہوئی کہ عزاداری کی اکثر محفلوں میں اسی کتاب کے مطالب سے استناد کیا جانے لگا۔ یوں رفتہ رفتہ اس کتاب کے مطالب نقل کرنے والوں کو روضہ خوان کا نام دیا جانے لگا اور گذر زمان کے ساتھ امام حسینؑ کی مصیبت بیان کرنے والے ہر شخص کو اس نام سے یاد کرنے لگا۔
سلسلہ صفویہ میں شاہ اسماعیل صفوی کے حکم سے ایران کا سرکاری مذہب شیعہ قرار دینے کے بعد امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کی یاد میں عزاداری اپنے عروج پر پہنچ گئی اس دور میں باقاعدہ حکومتی پشت پناہی اور صفویہ خاندان کے بادشاہوں کی موجودگی میں نوحہ خوانی، سینہ زنی اور عزاداری کے مراسم برگزار ہونے لگے۔ اس کے بعد سے ایران میں باقاعدہ طور پر امام بارگاہوں اور عزاداری سے مربوط موقوفات تشکیل پائے۔ افشاریہ دور میں نادرشاہ نے عزاداری پر کچھ پابندیاں عاید کی۔ سلسلہ زندیہ میں پہلی بار تعزیہ اور شبیہ خوانی کے مجالس کا انعقاد ہوا۔
سلسلہ قاجاریہ میں تعزیہ خوانی کا فروغ
قاجاریہ دور میں عزاداری خاص کر تعزیہ کے مراسم اپنے عروج پر پہنچ گئے تھے۔ناصرالدین‌شاہ عزاداری کے مجالس میں تجملات اور اشرافیت کا موجب بنا اور بعض اوقات محرم کے پہلے عشرے میں وہ واعظوں اور مجالس میں شرکت کرنے والوں کی طرف مٹھی بھر بھر کر سکے پھینکتے تھے۔ قمہ زنی سمیت "شمایل‌کشی"، زنجیرزنی اور رسم 41 منبر وغیرہ ناصرالدین‌شاه کے دور میں ایجاد یا رواج پانے ہونے والے مراسمات میں سے ہیں۔
قاجاریہ دور میں عزاداری کے مراسمات میں آنے والی تبدیلوں میں سے ایک "میرزا ملکم خان" اور "میرزا فتح علی آخوندزادہ" جیسے روشنفکروں کے توسط سے عزاداری پر ہونے والے اعتراضات ہیں۔ شام غریبان کے مراسم کا رواج مظفرالدین شاہ کے دور میں ہوا۔ اس دور میں امام حسینؑ کی عزاداری محرم کے علاوہ صفر میں بھی برگزار ہونے لگی۔
رضا خان کے دور میں عزاداری
اگرچہ رضاخان اپنی اقتدار کے ابتدائی سالوں میں عزاداری کی مجالس میں شرکت کرتے تھے لیکن بعد میں روشنفکری کے نام پر آہستہ آہستہ مجالس سے دور ہونے لگے اور یہ دوری آخر کار عزاداری پر مختلف پابندیاں عاید کرنے تک جا پہنچی۔ سن 1314 ہجری شمسی کو کشف حجاب کے قانون کو لاگو کرتے ہوئے اس نے مختلف مناطق کے گورنروں کو حکم دیا کہ محرم اور صفر میں عزاداری کی جلوسیں نکالنے سے روکا جائے اور عزاداری کی مجلسوں میں لوگوں کو کرسیوں اور بینچوں پر بیٹھنے کی تشویق کی جائے۔ مشہد میں مسجد گوہرشاد کے واقعے کے بعد عزاداری کی مجالس پر پابندیوں میں اضافہ ہوا اور شہری پولیس کو عزاداری کی مجلسیں برگزار ہونے سے روکنے کی خصوصی احکامات جاری ہوئے۔ یہاں تک کہ بعض شہروں میں مجالس برپا کرنے والوں اور ان مجالس کے خطیبوں کو گرفتار کر کے قید خانوں تک پہنچایا گیا۔
رضا خان کے مذکوره اقدامات کے مقابلے میں شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے عزاداری کے مجالس کو جاری رکھنے کی بھر پور کوشش شروع کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے عزاداری کے ایام میں طلاب کو مختلف مناطق میں تبلیغ اور خطابت کیلئے بھیجنا شروع کیا۔ اسی طرح انہوں نے ان مجالس کی اصلاح کی خاطر بھی بعض اقدامات انجام دیئے۔ قم میں شبیہ‌ خوانی کی ممانعت کی اور تعزیہ خوانی کے مجالس کو روضہ‌خوانی میں تبدیل کیا۔
سنہ 1320 ہجری شمسی کو رضاخان کی سرنگونی کے بعد عزاداری کی مجالس پر عاید پابندیاں بھی رفتہ رفتہ اپنے اختتام کو پہنچیں یوں ایک دفعہ پھر قمہ‌زنی، قفل‌ بندی، زنجیرزنی، شاخ‌حسینی وغیرہ جیسے مراسم برپا ہونے لگے۔
عراق میں عزاداری
جنوبی عراق میں، ماتمی جلوس اور مجالس عزاداری جیسے مراسم ماہ محرم کے پہلے عشرے کے معمول کی خصوصیات میں شامل ہیں اور یہ مراسمات عاشورا کے دن عروج کو پہنچتے ہیں۔ لگتا ہے کہ کربلا سے دور واقع ممالک میں عاشورا کے مراسمات کی رعایت زیادہ دقیق ہے: مراسمات کی رعایت کے یہ نمونے ـ جو مرکز کی نسبت اطراف میں زیادہ قابل دید ہیں ـ وہ جانے پہچانے اور مانوس مثالیں ہیں جو بہت سے مذاہب میں دکھائی دیتے ہیں۔
انڈونیشیا میں عزاداری
انڈونیشیا میں مراسم عزاداری کا سلسلہ سترویں صدی کے وسط سے آغاز ہوا جو تابوت کے نام سے مشہور ہے اور یہ کلمہ عربی زبان کے تابوت سے ماخوذ ہے جولکڑی کے صندوق پر اطلاق کیا جاتا ہے ۔
بنکولو کے علاقے میں تابوت کی شکل میں عزاداری کا آغاز شیخ برهان الدین - جو سنگولو کے امام کے نام سے جانے جاتے ہیں - نے 1685 میلادی میں کیا تھا ۔ اگرچہ بعض مورخین کی نظر میں محکم تاریخی شواہد کے نہ ہونے کی وجہ سے عزاداری کے آغاز کے حوالے سے کسی تاریخ کا معین کرنا مشکل امر ہے لیکن قرائن سے ایسا لگتا ہے کہ تابوت کی صورت میں عزاداری کا یہ سلسلہ وہاں کے لوگوں نے ان شیعہ مومنین کی عزاداری سے متاثرہوکرکیا تھا جو مارلبورو قلعہ کی تعمیر کیلئے بنگلہ دیش اور جنوبی ہندوستان سے انگلینڈکی حکومت کے ذریعے وہاں لائے گئے تھے اور یہ شیعہ مذہب کے ماننے والے تھے ۔
عزاداری کا یہ سلسلہ رفتہ رفتہ اس علاقے کی ثقافت سےہم آہنگ ہونے کے بعد وہاں کے خاص رسومات میں شمار ہونے لگا اور بتدریج اسکا دائرہ جزیره سوماترا کے دوسرے علاقے جیسے پائینان ، پادانگ ، پاریامان ، مانینجاو ، پیدی، بندا آچه، مولابوه، و سینکیل () تک پھیلتا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہاں کے بعض علاقوں سے عزادری کا یہ سلسلہ کسی حد تک کم ہوگیا ہے لیکن بنکولو اور پاریامان میں بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے ۔
1980 کے عشرے کے بعد انڈونیشیا میں عزاداری امام حسین علیہ السلام نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے جو گزشتہ ادوار کی عزاداری سے مختلف ہے عصر حاضر میں عزاداری کا دائرہ کافی وسیع ہوچکا ہے اور اب مساجد اور امام بارگاہوں کے علاوہ لوگوں کے گھروں میں بھی عزاداری کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ انڈونیشیا کے لوگ ماہ محرم کے پہلے عشرے میں عزاداری سید الشہدا کو خاص اہتمام کے ساتھ انجام دیتے ہیں عزاداری کا یہ سلسلہ دہم محرم بروز عاشورا اپنے عروج کو پہنچتا ہے ۔
انڈونیشیا میں مکتب اہلبیت علیہم السلام کے پیروکار، شروع شروع میں تابوت کی صورت میں عزاداری کو ایک خاص طریقے سے کربلا کے شہدا ء کی یاد کو زندہ رکھنے کے غرض سے مناتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہاں کے لوگوں کا رہن سہن بھی کافی حد تک عزاداری کے عمل میں موثر ثابت ہوا ہے اسی لئے بنکولوکے علاقے میں عزاداری کیلئے سترہ تابوت کا اہتمام کیا جاتا ہے جو سترہ خاندانوں کے اس عمل کی نشاندہی کرتا ہے جن کے توسط سے پہلی بار عزاداری کا یہ عمل انجام پایا تھا ۔
چند اہم رسومات
1رسم خاک برداری: رسم خاکبرداری بنکولو کے علاقے میں یکم محرم کو نماز عشاء کے بعد تقریبا رات 8 بجے انجام پاتی ہے اور یہ کام ایسے شخص کے ذمے لگایا جاتاہے جو سفید لباس میں ملبوس ہو اور یہ امام عالی مقام کی صداقت اور پاکیزگی نفس کی علامت سمجھا جاتا ہے
2 دو دوک پِنجه : رسم دودوک پِنجه چار اور پانچ محر الحرام کو انجام پاتی ہے ؛ عام طور پرپنجہ کی ساخت وساز میں تانبا یا چاندی کو استعمال کیا جاتا ہے اور ہرتابوت کے ہمراہ ایک پنجہ ضرور ہوتاہے ۔ وہاں کے لوگوں کے مطابق پنجہ ایک مقدس وسیلہ ہے جسکی حفاظت ہرحال میں ضروری ہے اور سال میں ایک مرتبہ اسے گلاب اور لیمو کے پانی سے دھویا جاتا ہے اور اس عمل کو وہاں کے لوگ اپنی زبان میں دودوک پِنجه کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔
3کیلے کے تنے کا کاٹا جانا: یہ رسم 5 محرم الحرام کو انجام دی جاتی ہے اس عمل کو امام عالی مقام کی تلوار کی کاٹ کے مظہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے کہ گویا امام عالی مقام دشمنان اهل بیت علیہم السلام سے نبرد آزما ہونے کیلئے آمادہ ہورہے ہوں ، اس عمل کا انجام دینے والا شخص جنگی لباس میں ملبوس ہوتا ہے اور ایک ہی وار میں کیلے کے تنے کو کاٹ دیتا ہے ۔
3 سات محرم کو ماتم اور سینہ زنی: ماتم اور سینہ زنی کی صورت میں عزاداری امام مظلوم علیہ السلام 7 محرم کو تمام عزاداران نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد اپنے ساتھ پِنجه، عمامه، شمشیر وغیرہ لئے ہوے درگاہ کے اطراف میں صف بستہ ہوکر گریہ و زاری کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ اس شکل میں عزاداری کرنا امام عالی مقام کی مظلومانہ شہادت پرمغموم ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے ۔
4 کارناوال پِنجه (کاروان پنجہ ): کارناوال پِنجه کی صورت میں عزاداری آٹھ محرم الحرام کی شب تقریبا شام 7بجے سے رات 9 بجے تک علاقہ بنکولو کی تمام شاہراہوں میں انجام پاتی ہے جس میں عزاداران امام مظلوم تابوت کے اندر پنجوں کو رکھ کرجلوس عزا کی صورت میں عزاداری میں مصروف ہوتے ہیں ۔
5 کارناوال سِرابَن: شب نہم محرم الحرام شام 5 بجے سے رات 9 بجے تک عزاداران امام مظلوم علیہ السلام پنجوں کے علاوہ سفید عماموں کو چھوٹے سے تابوت میں رکھ کر پنجوں کے ساتھ گماتے ہیں اور یہ تابوت سبز اور سفید رنگ کے جھنڈوں سے مزین ہوتے ہیں ان جھنڈوں میں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے نام ہاے مبارک تحریر کیے جاتے ہیں اسطرح عزاداری کرنے کو کارناوال سِرابَن کے نام سے یاد کیا جاتاہے
6رسم سوگ اور غم: نہم محرم الحرام کے دن سوگ اور غم کے نام سے عزاداری امام حسین علیہ السلام کو ایک نیا رخ دیا جاتا ہے اور صبح 7 بجے سے شام 4 بجے تک یہ سلسلہ برقرار رہتا ہے ،سوگوار فضا کے باعث اس پوری مدت میں کسی قسم کا کوئی کام انجام نہیں پاتایہاں تک کہ تابوت سے متعلق رسم سوزخوانی کو بھی انجام نہیں دیا جاتا ۔
7رسم هایَک تابوئیک: دہم محرم روز عاشورا کے دن تابوئیک - تابوت -کو ( حقیقت جنگ کربلا ) کے عنوان سے لوگوں کیلئے نمایش کے طور پیش کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ غروب آفتاب تک جاری رہتا ہے اور غروب آفتاب کے بعد دونوں تابوئیک - تابوت -کو ساحل سمندر میں لیجاکر سمندر کے حوالے کیا جاتا ہے ۔
پاک و ہند
ہند و پاک میں عاشورا کے مراسم اور آداب میں ـ کچھ اضافات اور استثنائی آداب کے ساتھ ـ ایرانی روشوں کی پیروی کی جاتی ہے۔ تاہم دلچسپ امر یہ حقیقت ہے کہ وہاں حتی سنیوں سمیت مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو بھی عاشورا کے آداب و رسوم میں فعال کردار ادا کرتے ہیں اور ایام عزاداری میں سنی کے جداگانہ آداب و رسوم بھی ہیں۔بر صغیر پاک و ہند میں عاشورا کے نمایاں آداب و رسوم کی خصوصیات میں سے حرم امام حسینؑ کے عظیم ہنرمندانہ نمونے ہیں جو عزاداروں کے جلوس میں اٹھائے جاتے ہیں یا پھر پھیوں والے چوپایوں پر رکھے جاتے ہیں۔روز عاشورا کے آخری اوقات میں ـ یہ نمونے جنہیں اصطلاحا تعزیہ کہا جاتا ہے ـ یا مقامی قبرستان میں کربلا سے موسوم کسی مقام پر دفنائے جاتے ہیں یا پانی کے سپرد کئے جاتے ہیں۔بیان شہادت امام حسینؑ ـ جس کو ایران میں روضہ خوانی اور ہندوستان اور پاکستان میں مجلس کہا جاتا ہے ـ یا تو کھلی فضا میں انجام پاتا ہے یا خاص قسم کی عمارتوں میں، جنہیں امام باڑہ، امام بارگاہ یا عاشور خانہ اور ماتم خانہ کہا جاتا ہے۔
لاہور میں عزاداری کی تاریخ
بیسویں صدی کے ادیب، مولوی نور احمد چشتی، نے لاہور کی تہذیب کے بارے میں اپنی کتاب ”یادگارِ چشتی“ (سنِ تصنیف 1859ء) میں اس صدی کے لاہور میں عزاداری کا نقشہ بھی پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: لاہور میں عزاداری، سال 1857 اہل اسلام کا سالِ نو ماہِ غم، یعنی محرم، جس کو پنجابی زبان میں ”دہے “ کہتے ہیں، سے شروع ہوتا ہے۔ یہ مہینہ ہمارے نزدیک بہت غم و الم کا ہے کیوں کہ اس میں جناب حضرت امام حسین علیہ السلام نے مع اپنے وابستگان کے، میدان کربلا میں جام شہادت نوش کیا ۔
لاہور میں عزاداری کے واضح اور مستند شواہد حضرت داتا گنج بخش اور بیبیاں پاکدامناں کے علاوہ شاہ حسین زنجانی اور حضرت میاں میر کے عہد میں بھی ملتے ہیں اور پھر ملا احمد ٹھٹھوی اور قاضی نور اللہ شوشتری کے عہد میں بھی عزاداری پورے اہتمام سے تھی۔ محمد بلخی، جو یکم محرم 1035 ھجری/3 اکتوبر 1625ء کو لاہور پہنچا،لکھتا ہے:
”سارا شہر محرم منارہا تھا اور دسویں محرم کو تعزیے نکالے گئے،تمام دکانیں بند تھیں۔ اتنا رش تھا کہ بھگڈر مچنے سے تقریبا 50 شیعہ اور 25 ہندؤ اپنی جان گنوابیٹھے۔
لاہورمیں پرانے شہر میں اندرون موچی دروازے کا علاقہ اہمیت کا حامل ہے، جہاں کا محلہ شیعاں دنیا بھر میں عزاداری کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ موچی دروازے ہی کی نثار حویلی بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے جہاں قزلباش خاندان نے 1800 کے اوائل میں محرم کی مجالس کرنا شروع کیں اور اب ماڈل ٹاؤن کے جامعہ المنتظر اور اس سے آگے راۓ ونڈ روڈ تک پھیلی نئی آبادیوں میں قائم عزا خانوں میں سینکڑوں کی تعداد میں علم اور ماتمی جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ سر نوازش علی خان قزلباش کا انتقال 1890ء میں ہوا اور عزاداری کا کام ان کے چھوٹے بھائی نواب ناصر علی کے ذمے آیا جو 1898ء میں انتقال کر گئے، جس کے بعد یہ انتظام نواب فتح علی کے ذمے تھا۔ آج بھی لاہور میں نثار حویلی کا جلوس وقت کے اعتبار سے طویل ترین جلوس ہے جو 24 گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہنے کے بعد بھاٹی دروازے میں کربلا گامے شاہ پر ختم ہوتا ہے۔ گامے شاہ اور مائی گاماں دراصل دونوں مجذوب تھے، جو عاشور کے دن سر پر گتے کا تعزیہ رکھ کر کرشن نگر سے داتا دربار تک آتے تھے جہاں اس وقت دریائے راوی بہتا تھا اور یہاں تعزیہ ٹھنڈا کر دیتے تھے۔ یہ امام باڑہ یوں بنا کہ سنہ 1805 میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے ایک سال تعزیہ نکالنے شہر میں تعصباً تعصباً موقوف کر کے منادی کرادی کہ کرادی کہ جو کوئی تعزیہ نکالے گا سخت سزا یاب ہو گا۔ تب سید گامے شاہ نے یہاں تعزیہ بنوایا اور ماتم کرایا۔ جب رتن سنگھ گرجاکھیہ نے جو عدالتی شہر لاہور کا تھا، سنا تو اس نے اس کو گرفتار کر منگوایا اور ضرب و شلاق کرائی۔ کہتے ہیں کہ بوقت شب کو کچھ خوف آیا اور اس باعث سے اس نے اس سید کو کچھ نذر دے کر رہا کر دیا تب سے یہ مکان مشہور ہوا۔ بابا گامے کا انتقال ہوا تو اسے داتا دربار کے عقب میں دفن کیا گیا اور اس جگہ کا نام کربلا گامے شاہ پڑ گیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نواب ناصر علی خان کے علاوہ اردو ادیب اور اردو صحافت کے پہلے شہید آزادی علامہ محمد باقر دہلوی کے فرزند شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کا بھی مزار موجود ہے۔ ان کے علاوہ مفتی جعفر حسین اور علامہ مفتی کفایت حسین اور علامہ سید اظہر حسن زیدی مدفون ہیں۔
لاہور کا دوسرا بڑا تاریخی مرکز وسن پورہ میں ہے جہاں عزاداری کی بنیاد مولانا سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم نے ڈالی تھی اور انہیں کے گھر میں بعد ازاں پہلا جامعہ المنتظر کھلا تھا جو بعد میں ماڈل ٹاؤن منتقل ہو گیا۔ پرانے دریائے راوی کے کنارے سے کچھ دور آباد ہونے والی اس بستی میں لاہور کی اہل تشیع کی پہلی جامع مسجد علامہ سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم نے تعمیر کروائی تھی۔ علامہ سید علی الحائری کا خاندان عشروں تک یہاں رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب لاہور میں واحد ذوالجناح نوابین کا تھا لیکن پھر الف شاہیوں اور آغا شاہ زمان نے بھی ذوالجناح رکھنے شروع کیے اور 2008ء میں لاہور میں 60 سے زیادہ ذوالجناح تھے اور شہر میں 7 محرم کو 7 ذوالجناح نکلنے کی روایت بدستور قائم ہے۔ لاہور شہر کے طول و عرض میں 1000 سے زیادہ مقامات پر مجالس امام حسین کا سلسلہ محرم کی پہلی شب سے شروع ہو کر چہلم امام تک جاری رہتا ہے اور اسی طرح لاہور میں کربلا گامے شاہ بھی محرم کی مجالس کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔ موچی دروازہ میں مبارک اور نثار حویلی اور وسن پورہ کی مسجد علامہ حائری کے علاوہ ہزاروں عزاء خانوں میں سے چند نام اس طرح ہیں۔ رباط حیدریہ موچی دروازہ، حسینہ حال جس کا پرانا نام امام باڑہ تکیہ نتھے شاہ تھا، امام باڑہ ارسطو جاہ رجب، امام باڑہ سید واجد شاہ، امام باڑہ کشمیریاں، امام باڑہ شیر گڑھیاں، امام باڑہ غلام علی اور ڈپٹی غلام حسن، امام باڑہ رضا شاہ صفوی، امام باڑہ ایوب شاہ، امام باڑہ لال حویلی، امام باڑہ خواجگان نارووالی، امام باڑہ جعفر علی میر، امام باڑہ قصر سکندر، امام باڑہ غریب نینوا، امام باڑہ امیر پہلوان اور اکبر شاہ، امام باڑہ سیدے شاہ اور خواجہ علی محمد، امام باڑہ بازار حکیماں اور تکیہ میراثیاں، امام باڑہ مائی عیداں، حسین منزل، مبارک بیگم، کاشانہ رضویہ، گامے شاہ، ایرانیاں، حسینیہ پاک نگر، مرزا نتھا، ڈاکٹر ریاض علی شاہ (جہاں لاہور میں صبح کی سب سے پہلی مجلس ہوتی ہے) امام باڑہ علی مسجد، قصر حسن، مسجد نور، رشی بھون، شیخ سعادت علی، سید اظہر حسن زیدی، عطیہ اہلبیت، دربار حسینی، بھوگیوال، ریلوے بیرکس، بی بی پاک دامناں، قصر زہرہ، آغا شاہ زمان، امام باڑہ مظفر علی شمسی، حافظ کفایت حسین، کرنل فدا حسین، سجادیہ، خواجہ ذو الفقار علی، امامیہ ہال، خیمہ سادات، بیت السادات، باغ گل بیگم، قصر بتول، سید شوکت حسین رضوی، سادات منزل، گلستان زہرا، خانہ زینبیہ، نجف منزل، شاہ نجف گلبرگ، اسد بخاری، میڈم نور جہان، مراتب علی شاہ، علی رضا آباد، کلسی ہاؤس، زیدی ہاؤس، پانڈو اسٹریٹ، بلاک سیداں، بلتستانیہ، جامعۃ المنتظر، سیٹھ نوازش علی، کوٹھے پنڈ، مرزا محمد عباس، مومن پورہ، باٹاپور، سید حسن عباس زیدی، وجاہت عطرے، عالم شاہ، سیدن شاہ، جیا موسٰی، کٹرہ ولی شاہ، الف شاہ دلی دروازہ، سوڈیوال، شاہ خراسان، محلہ داراشکوہ، حویلی میاں خان، لال پُل مغلپورہ اور کاشانہ شیخ دولت علی۔
لاہور میں اردو مجالس کے علاوہ فارسی، عربی، پنجابی اور کشمیری مجالس کا بھی رواج رہا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ختم ہو چکا ہے یا پھر شاید کسی ایک جگہ پر جاری ہو۔ کشمیری مجالس کا رواج تو ابھی ستر کے عشرے کے آواخر تک خوب تھا اور کشمیری ذاکرین میں موسیٰ شاہ اور احمد علی کو بہت مقبولیت تھی۔ اسی طرح لاہور میں جن علماء نے اپنے علم و فضل کے چراغ روشن کیے ان میں مہدی خطائی، ملا ابراہیم، ملا معصوم، ملا فقیر اللہ، عماد الدین، راجو بن حامد، ابوالقاسم حائری، سید علی الحائری، شیخ عبدالعلی ہروی تہرانی، آغائے بارھوی، ارسطو جاہ سبزواری، شمس العلماء سید سردار حسن، علامہ ابن حسن نو نہروی، علامہ ہندی، سید کلب حسین، ضمیر الحسن نجفی، حافظ کفایت حسین اور لکھنؤ کے علامہ نقی عرف نقن میاں، حافظ ذو الفقار علی، مولانا اظہر حسن زیدی، فاتح ٹیکسلا مولانا بشیر، ابن حسن نجفی، مرزا یوسف حسین اور ضامن حسین، مولانا ظفر مہدی، حافظ سیف اللہ، اسماعیل دیوبندی، مرتضیٰ حسین فاضل، نصیر الاجتہادی، مفتی جعفر حسین، مولانا اختر عباس، علامہ طیب الجزائری، مولانا اکبر عباس اور افسر عباس، سید محمد جعفر زیدی، محبوب ہمدانی اور سید ظفر حسین کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی فہرست میں ایک نام غلام الحسنین ‘‘پنڈت نیک رام‘‘ کا ہے جو ہندو سے شیعہ ہوئے تھے اور پھر انہوں نے اپنی ساری زندگی فضائل و مصائب آل محمد بیان کرنے میں گزار دی۔
اسی طرح سے لاہور میں، ذاکرین، مرثیہ نگاروں، شعرائے اہلبیت، سلام ،سوز اور نوحہ خوانوں کی بھی ایک نہایت طویل فہرست ہے جن میں سے چند نام یہ ہیں۔ منظور حسین برا، ریاض حسین موچھ، سائیں اختر حسین، حامد علی بیلا، بشیر علی ماہی، رجب علی، سید ناصر جہان، نذر حسین، پرویز مہدی، میر ناظم حیسن ناظم، شکور بیدل، اداکار محمد علی، منظور جھلا، سید نازش رضوی، آفتاب حسین لکھنوی، فیروز علی کربلائی، مشیر کاظمی، فیروز علی کربلائی، ظہور حیدر جارچوی، کاظمی برادران، سہیل بنارسی، سید جرار حسین، سید محسن علی، امانت علی، فتح علی، پیارے خان، حسین بخش گلو، چھوٹے غلام علی، شوکت علی، غلام علی، ڈاکٹر صفدر حسین، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حکیم احمد شجاع، قیصر بارھوی، وحید الحسن ہاشمی، پروفیسر مسعود رضا خاکی، میر ناظم حسین ناظم، سیف زلفی، ظفر شارب، جعفر طاہر، جوش ملیح آبادی، وغیرہ۔
ملتان میں عزاداری کی تاریخ
قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی۔ محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران عزاداری تذکر کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔
راولپنڈی میں عزاداری
راولپنڈی میں عزاداری کے ڈانڈے کوئی پانچ سو سال قبل سید کسراں نامی گاؤں سے ملتے ہیں جس کے بعد تیلی محلے،شاہ چن چراغ، ڈھوک رتہ امرال اور متعدد دیگر عزاخانوں کے بعد اسلام آباد میں کراچی سے دارالحکومت منتقل ہونے کے ساتھ ہی عزاداری کی بنیاد پڑگئی اور آج محرم میں پچاس سے زائد مقامات پر مجالس ہوتی اور جلوس نکلتےہیں۔ یہاں کے معروف عزا خانوں میں کرنل مقبول، بوہڑ بازار، مدرسہ فاطمیہ، مبارک بانو، لڈن شاہ، زین العابدین، سید محمد آغا رضوی، بیت الکاظم، ساگری، خیام اہلبیت، قصر سجاد، قصر موصومہ قم، مریڑ چوک، جعفریہ مسلم ٹاؤن، علی مسجد سیٹلائٹ ٹاؤن، قصر ابوطالب، قصر علمدار، موہن پورہ، بارگاہ زینب، ناصر العزا، چٹی ہٹیاں، ابو محمد اور قصر الحسین کے علاوہ متعدد دیگر عزا خانے شامل ہیں۔
حیدرآباد میں عزاداری کی تاریخ
حیدرآباد تالپور حکمرانوں کا دارالخلافہ تھا اور یہ اس وقت تک رہا جب تک چارلس نپیئر نے سندھ فتح کر کے اس کا دارالحکومت کراچی منتقل نہیں کر دیا۔ تالپور خاندان کی اکثریت شیعہ مسلک سے وابستہ تھی لہذا حیدرآباد، خیرپور اور روہڑی میں عزاداری نے سرکاری سرپرستی میں فروغ پایا۔

امام حسین علیہ السلام کےبارےمیں ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات

امام حسین علیہ السلام کےبارےمیں ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات


١۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: (ان الحسین مصباح الھدی و سفینتہ النجاۃ)حسین [ع] ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے۔١
٢۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:(نظر الی الحسین فقال : یا عبرة کل مومن فقال انا یا ابتاہ قال نعم یا بنی )
امام علی علیہ السلام نے اپنے فرزند کی طرف دیکھا اور فرمایا:اے وہ جس کے نام اور یاد کی وجہ سے ہر مومن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں امام حسین علیہ السلام نے فرمایا آپ[ع] کی مراد میں ہوں؟ امام[ع] نے فرمایا :ہاں اے فرزند۔٢
٣۔حضرت زھراء[س] فرماتی ہیں:( فلما صارت الستة کنت لا احتاج فی الیلہ الظلماء الی مصباح و جعلت السمع اذا خلوت فی مصلی التسبیح و التقدیس فی بطنی)
جب امام حسین[ع] چھ ماہ میں داخل ہوئے درحالیکہ ابھی بطن میں تھے تو اندھیری رات میں مجھے کسی چراغ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اور خدا کی عبادت کے دوران ،تسبیح اور ذکر خدا کی آواز سنائی دیتی تھی۔٣
٤۔امام حسن مجتبی علیہ السلام فرماتے ہیں : (ان الذی یوتی الی ،فاقتل بہ ،و لکن لا یوم کیومک یا ابا عبد اللہ)
جو چیز میری شھادت کا باعث بنے گی وہ زہر ہے جس کے ذریعے مجھے شھید کیا جائیگا لیکن یا ابا عبد اللہ کوئی بھی دن عزا اور مصیبت میں آپ کے دن جیسانہیں ہو گا۔٤۔
٥۔امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں :( انا قتیل العبرة،لا یذکر المومن الا استعبر،)
میں وہ شہید ہوں جسے رلا رلا کر مارا گیا کوئی بھی مومن مجھے یاد نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کے آنکھوں سے اشک غم جاری ہوتے ہیں۔٥
٦۔امام سجادعلیہ السلام فرماتے ہیں: ( انا ابن من بکت علیہ ملائکتہ السماء ،انا ابن من ناحت علیہ الجن فی الارض والطیر فی الھواء)
میں اس کا بیٹا ہو جس پر آسمانی فرشتوں نے گریہ کیا اور زمین پر جنوں اور ہوامیں پرندوں نے بھی نوحہ خوانی کی ۔٦
٧۔امام باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں :( مابکت علی احد بعد یحیی بن زکریا ،الا علی الحسین بن علی فانھا بکت علیہ اربعین یوما)

حضرت یحیی بن زکریا علیہ السلام کی شہادت کے بعد آسمان نے کسی پر گریہ نہیں کیا ،مگر اما م حسین علیہ السلام کی شہادت پر آسمان نے چالیس دن تک گریہ کیا ۔٧۔
٨۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:( ان البکاء و الجزع مکروہ للعبد فی کل ما جزع،ما خلا البکاء و الجزع علی الحسین بن علی فانہ فیہ ماجور)
ہر قسم کی مشکلات و مصائب پر گریہ کرنا مکروہ ہے مگر امام حسین[ع] کی مصیبت پر گریہ وزاری کرنے کا ثواب ہے ۔٨
٩۔امام موسی کاظم علیہ السلام کی حالت امام رضا علیہ السلام کی زبانی :( کان ابی اذا دخل شھر المحرم لا یری ضاحکا و کانت الکابة تغلب علیہ،حتی یمضی منہ عشرة ایام،فاذاکان یوم العاشر کان ذالک الیوم یوم مصیبتہ و حزنہ و بکائہ و یقول ھو الیوم الذی قتل فیہ الحسین )
جب ماہ محرم شروع ہو جاتا تو میرے والد بزرگوار کے چہرے پر خوشی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور آپ[ع] حزن و ملال میں رہتے ۔یہاں تک کہ روز عاشورا انکی عزاداری اور گریہ کرنے کا دن ہوتا تھا آپ فرماتے کہ اس دن امام حسین کو شھید کر دیا گیاتھا۔٩
١٠۔امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :(ان یوم الحسین اقرح جفوننا واسبل دموعنا و اذل عزیزنا بارض کرب و بلا و اورثتنا الکرب و البلاء الی الانقضائ)
بے شک امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کے دن نے ہمارے آنکھوں کو خستہ و مجروح کر دیا ہے اور ہمارے آنسووں کو جاری کر دیا ہے ہمارےعزیزوں کو خفت اٹھانی پڑی اس دن کی مصیبت نے ہمیشہ کے لئے غمگین اور داغدار کر دیا ہے ۔١٠
١١۔امام جواد علیہ السلام فرماتے ہیں:( من زار الحسین لیلة ثلاث عشرین من شھر رمضان و ھی لیلة اللتی یرجی ان تکون لیلة القدر و فیھا یفرق کل امر حکیم صافحة اربعة و عشرون الف ملک و نبی کلھم یستاذن اللہ فی زیارة الحسین فی تلک اللیلة)
جو شخص ماہ رمضان کی تئیسویں رات کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرتا ہے تو چار ہزار فرشتے اورانبیاء اس زائر سے مصافحہ کرتے ہیں اور سب کے سب خداوند سے اس رات کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے اذن طلب کرتے ہیں ۔١١
١٢۔امام نقی علیہ السلام فرماتے ہیں:(من خرج من بیتہ یرید زیارة الحسین بن علی فصار الی لفرات فاغتسل منہ کتبہ اللہ من الفلحین فاذاسلم علی ابی عبدا للہ کتب من الفائزین،فاذافرغ من صلاتہ اتاہ ملک فقال :ان رسول اللہ یقروئک السلام و یقول لک :اما ذنوبک ،فقد غفر لک فاستانف العمل)

جو شخص بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے قصد سے اپنے گھر سے نکلے اور فرات میں غسل کرے تو خداوند عالم اسکا نام فلاح پانے والوں میں لکھتا ہے اور جب وہ امام[ع] پر سلام کرتا ہے تو اسکا نام فائزین میں لکھتا ہے اور پھر جب وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے تو ایک فرشتہ اسے کہتا ہے کہ رسول خدا نے تجھے سلام کہا ہے اور تم سے فرمایا ہے کہ تیرے سارے گناہ معاف ہوگئے ہیں لھذا تم نئے سرے سے اعمال انجام دو۔١٢

١٣۔امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں :(اللھم انی اسئلک بحق المولود فی ھذا الیوم المو عود لشادتہ قبل استھلالہ و ولادتہ ،بکتہ السماء و من فیھا والارض و من علیھا،ولما یظائلا بتیھا ،قتیل العبرة و سید الاسرة الممدود بانصرة یوم الکرة،المعوض من قتلہ ان الائمة من نسلہ و الشفاء فی تربتہ)
پروردگارا!میں تجھے اس نومولود کا واسطہ دیتا ہوں جس کی ولادت سے پہلے اسکی شھادت کا وعدہ ہوا تھا وہ جس کی مصیبت پر اہل آسمان نے آسمان پر اور زمین پر اہل زمین نے گریہ کیا حالانکہ اس نے ابھی زمین پر قدم نہیں رکھاتھا ۔وہ جس کی شھادت گریہ و زاری کا باعث ہے وہ بزرگ خاندان جو رجعت کے وقت خدا کی نصرت سے کامیاب ہو گا جس کی شہادت کو جزا کے طور پر ان کی نسل سے امامت اور ان کی تربت میں شفارکھ دی ۔١٣
١٤۔امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف فرماتے ہیں :(فلئن اخرتنی الدھور،و عاقنی عن نصرک المقدور،ولم اکن لمن حاربک و ھاربک محاربا ولمن نصب لک العداوة مناصبا فلا ندبنک صباحا و مساءا ولاءبکین علیک بدل الدموع دما)
اگرچہ میں آپ کے زمانے میں نہیں تھا اور تقدیر نے مجھے آپکی نصرت کرنے سے روکے رکھا اور آپ کے دشمنوں سے جھاد نہ کر سکا اور آپ پر اٹھتی ہوئی تلواروں کو روک نہ سکا لیکن شب و روز آپ پر آنسو بہاتا ہوں اور اشک کے بدلے خون کے آنسو روتا ہوں۔١٤

منابع:
١۔مستدرک الوسائل ، ص٣١٨ باب ٤٩
٢۔بحار الانوار،ج٤٤ص٢٨٠
٣۔بحار الانوار، ج٤٣ ،ص٢٧٣ الدمعة الساکبة ص٢٥٩
٤۔بحار الانوار ،ج٤٥ ،ص٢١٨ ۔امالی شیخ صدوق،ص١١٦
٥۔بحار الانوار ، ج ٤٤،ص٢٨٤ ۔امالی صدوق ص١٣٧
٦۔بحار الانوار،ج٥٤،ص٧٤ عوالم ج١٧،ص٤٨٥
٧۔کامل الزیارات ص ٩٠ ۔بحار الانوار ،ج٤٥ص٢١١
٨۔کامل الزیارات، ص١٠٠ ۔بحار الانوار ،ج ٤٤،ص٢٩١
٩۔امالی الصدوق،ص١٢٨بحار الانوار ، ج٤٤ ص٢٨٤
١٠ ۔امالی شیخ صدوق ص١٢٨ بحار الانوار،ج٤٤ص٢٨٤
١١۔وسائل الشیعة ،ج١٠ ص ٣٧٠ باب ٥٣
١٢۔وسائل الشیعة ج١٠ ص ٣٨٠ ابواب المزار ج١٠
١٣۔ مصباح المتہجد،ص٢٥٨۔۔بحار الانوار،ج٩٨،ص٣٤٧
١٤۔بحار الانوار،ج٩٨ ص٣٢٠۔

اصحاب امام حسین علیہ السلام کا تعارف

اصحاب امام حسین علیہ السلام کا تعارف

مقدمہ
واقعہ کربلا اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا اصحاب کی شہادت تمام انسانوں خصوصا مسلمانوں اور پیروان قرآن کے لئے انسان ساز اور مشعل راہ ہے مکتب عاشورا ہمیں درس دیتا ہے کہ راہ خدا میں قیام عزت اور سعادت ابدی ہے ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہمیشہ کی ذلت اور رسوائی ہے ؛انی لا اری الموت الا السعادہ عالیجاہ مع الظالمین الا برما ؛میں سعادت کی موت کو ذلت کی زندگی گزارنے سے بہتر سمجھتا ہوں اصحاب امام حسین علیہ السلام جنہوں نے عاشورا کے دن امام علیہ السلام کی رکاب میں جام شہادت نوش کیا ان کی تعداد بہتر ہے( 72)لیکن بعض مورخین سید بن طاووس رح نے زیادہ تعداد لکھی ہے عاشور کی رات امام حسین علیہ السلام نے جب اپنے اصحاب سے خطاب کیا تو فرمایا میں اپنے اصحاب سے زیادہ باوفا کسی صحابی کو نہیں جانتا اور جیسے اصحاب مجھے ملے ہیں ایسے کسی کو نصیب نہیں ہوئے اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کے اصحاب خدا کے نزدیک بلند مقام رکھتے تھے خدا انبیاء اور اولیاء الہی کا سلام ہو ان پر جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اس مصیبت پر صبر کیا رحمت الہی اور فوز عظیم اور ابدی سعادت کو پایا طوبی لھم و حسن مأب امام حسین علیہ السلام کے تمام اصحاب ایک بلند مقام رکھتے ہیں لیکن ان مختصر تحقیق میں سے فقط دو اصحاب کا تذکر ہ ہو گا :
1۔حبیب ابن مظاہر
نام، کنیت اور نسب
حبیب بن مُظَہَّر (یا مُظاہر) بن رئاب ابن اشتر بن حجوان بن فقعس بن طریف بن عمرو بن قیس بن حارث بن ثعلبہ بن دودان بن اسد اسدی کندی فقعسی۔ متقدم مآخذ میں ان کے والد کا نام "مظاہر" کی صورت میں اور بعض منابع میں مُظَہَّر کی صورت میں بیان ہوا ہے۔ مامقانی نے افواہ عامہ اور زیارات سے استناد کرتے ہو گیائے "مُظاہر" کو صحیح گردانا ہے۔ تاہم سید محسن امین عاملی لکھتے ہیں: زیادہ تر قدیم تاریخی اور غیر تاریخی کتب میں "مُظَہَّر بر وزنِ "مُطَہَّر" منقول ہے اور صحیح بھی یہی ہے اور یہ جو متاخرہ کتب میں "مظاہر" لکھا جاتا ہے، قدما کے ضبط و ثبت کے خلاف ہے۔
فضائل
حبیب مرد عابد و پارسا تھے، تقوی اور حدود الہیہ کی رعایت کرتے تھے، حافظ قرآن تھے، اور ہر شب عبادت و مناجات میں مصروف ہوتے تھے اور امام حسینؑ کے بقول ہر شب ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے۔ پاک و پاکیزہ اور سادہ زندگی گذارتے تھے، اس قدر دنیا سے بے رغبت تھے اور زہد کو اپنی زندگی کے لئے نمونۂ عمل بنائے ہوئے تھے کہ جس قدر بھی انہیں مال و دولت اور امان ناموں کی پیشکش ہوئی، انہوں نے قبول نہ کیا اور کہا: "اگر ہم زندہ رہیں اور امام حسینؑ کی مظلومیت کی حالت میں قتل کردیں تو رسول خداؐ کے حضور ہمارے پاس کوئی عذر نہ ہوگا (اور ہمیں معاف نہ کیا جائے گا)۔
عصر نبوی(ص)
واضح نہیں ہے کہ حبیب صحابہ میں سے ہیں یا تابعین میں سے تاہم ابن کلبی اور ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ انہیں رسول خداؐ کی صحبت کی سعادت ملی ہے۔شیخ طوسی کا کہنا ہے کہ امام علی، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے اصحاب میں سے ہیں لیکن انہوں نے صحابہ کی فہرست میں ان کا نام درج نہيں کیا ہے اور شیخ طوسی کے اس کام سے ظاہر ہوتا ہے کہ حبیب صحابہ میں سے نہیں ہیں۔ اسی طرح استیعاب اور اسد الغابہ کے مؤلفین نے بھی انہیں رسول اللہ کے صحابہ میں نہیں لکھا ہے۔
امام علیؑ کا دور
حبیب مدینہ چھوڑ کر امیرالمؤمنینؑ کے ساتھ کوفہ چلے گئے اور آپؑ کے ساتھ جہاد و کوشش میں مصروف ہوئے اور آپؑ کے اصحاب خاص کے زمرے میں قرار پائے اور آپؑ کے علوم کے حاملین میں شمار ہوئے۔ حضرت علیؑ نے انہیں علم منایا و بلایا عطا کیا تھا۔ حبیب شرطۃ الخمیس کے رکن خاص تھے اور شرطۃ الخمیس خطرات کی صورت میں فوری رد عمل کے لئے تشکیل یافتہ مسلح دستے کا نام ہے جس میں امام علیؑ کے مخلص اور مطیع ساتھی شامل تھے۔ واقعہ عاشورا سے برسوں قبل میثم تمار کا بنو اسد کی مجلس سے گذر ہوا تو دونوں نے ایک دوسرے کو شہادت کی بشارت اور شہادت کی کیفیت کی خبر دی اور اسی علم منایا کا نتیجہ تھا جو انہوں نے امیر المؤمنینؑ سے سیکھا تھا اور وہ دونوں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی خبر رکھتے تھے۔
امام حسینؑ کا دور
کوفہ میں معاویہ بن ابی سفیان کی موت (سنہ 60 ہجری) کے بعد حبیب اور کوفہ کے بعض شیعہ اکابرین ـ منجملہ سلیمان بن صُرَد، مسیب بن نَجَبَہ اور رفاعہ بن شداد بجلی نے بیعت یزید سے انکار کیا اور امام حسینؑ کو خط لکھا اور آپؑ کو امویوں کے خلاف قیام کی دعوت دی؛ اور مسلم بن عقیل کوفہ آئے تو ان افراد نے ان کی نصرت کی۔حبیب بن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ خفیہ طور پر لوگوں سے مسلم کے لئے بیعت لیتے تھے اور اس راہ میں ان دو نے کوئی قصور روا نہيں رکھا۔ ابن زیاد کوفہ آیا اور لوگوں پر دباؤ ڈالا تو انہوں نے مسلم کا ساتھ چھوڑ اور بیعت توڑ دی چنانچہ قبیلۂ بنو اسد نے حبیب اور مسلم بن عوسجہ کو پناہ دی تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے اور موقع پاکر دونوں خفیہ طور پر کوفہ سے نکل گئے۔ وہ دن کی روشنی میں ابن زياد کے جاسوسوں اور گماشتوں کی نظروں سے کہیں چھپ جاتے تھے اور راتوں کو سفر کرتے تھے حتی کہ امام حسینؑ کی لشکر گاہ تک پہنچے۔ بالآخر وہ سات محرم الحرام کو کربلا میں امام حسینؑ کے قافلے سے جاملے۔

کربلا میں
حبیب کربلا پہنچتے ہیں تو ایک بار امامؑ کی نسبت اپنی وفاداری میدان عمل میں ثابت کردی۔ جب دیکھا کہ امامؑ کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم اور آپؑ کے دشمنوں کی تعداد کثیر ہے تو امامؑ سے عرض کیا: "قریب ہی قبیلۂ بنو اسد کا مسکن ہے؛ آپ اجازت دیں تو میں جاکر آپ کی مدد کی دعوت دوں ،شاید خدا انہیں ہدایت دے دے "، امامؑ نے اجازت دی تو حبیب عجلت کے ساتھ اپنے قبیلے میں پہنچے اور ان کو موعظت و نصیحت کی لیکن عمر سعد نے ایک لشکر بھیج کر بنو اسد کو امامؑ کی طرف آنے سے روک لیا۔
عصر 9 محرم
ایک شخص اس روز عمر سعد کا ایک خط امام حسین کے لئے لایا تو حبیب بن مظاہر نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: ظلم و ستم والوں کے پاس مت جاؤ۔ 9 محرم کی عصر کو حبیب بن مظاہر نے خیام امام پر حملے کا ارادہ رکھنے والی دشمن کی سپاہ کو نصیحت کرتے ہوئے امام حسینؑ اور آپؑ کے اصحاب کے اوصاف بیان کئے اور انہیں جنگ سے پرہیز کرنے کی تلقین کی۔
شب عاشورا
شب عاشورا نافع بن ہلال نے حبیب کو اصحاب کی وفاداری اور استواری کے سلسلے میں زینب بنت علی کی فکرمندی سے آگاہ کیا تو حبیب اور ہلال مل کر اصحاب کی طرف گئے اور انہیں اکٹھا کرکے سب امام حسینؑ کی خدمت جی میں حاضر ہوئے اور اعلان کیا کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک خاندان رسولؐ کی حمایت و حفاظت کریں گے۔
روز عاشور
عاشورا کے دن امام حسینؑ نے اپنے قلیل لشکر کا میسرہ (بایاں بازو) حبیب بن مظاہر کے سپرد کیا اور میمنہ (دایاں بازو) زہیر بن قین کے حوالے کیا اور پرچم اور قلب (مرکز) کی قیادت حضرت عباس کو سونپ دی۔
امام حسینؑ نے لشکر یزید سے مخاطب ہوکر اپنا حسب و نسب بیان کیا اور اپنے فضائل گنواتے ہوئے رسول خداؐ کی حدیث هذان سيدا شباب اهل الجنة ؛یہ دو امام حسنؑ اور امام حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں)، کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا "تمہارے درمیان ایسے لوگ ہیں جنہوں نے یہ حدیث رسول اللہؐ سے سنی ہے؛ اس اثناء میں شمر بن ذی الجوشن نے کہا: "میں نے خدا کی عبادت شک و تردد کے ساتھ کی ہوگی اگر میں سمجھ لوں کہ کیا کہہ رہے ہو! حبیب بن مظاہر نے جواب دیا: اے شمر! تم ستر شکوک کے ساتھ خدا کی عبادت کرتے ہو اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم سچ کہہ رہے ہو اور تم واقعی نہیں سمجھتے ہو کہ امامؑ کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ تمہارا قلب سیاہ ہوچکا ہے اور اس پر مہر لگی ہوئی ہے۔ جنگ کے آغاز پر ـ جب عمر بن سعد بن ابی وقاص کے لشکر سے ایک ایک فرد نکل کر مبارز طلب کرتا تھا، حبیب اور بریر ہمدانی میدان میں آئے لیکن امام حسینؑ نے انہیں روکا۔
ابو ثمامہ نے امام حسینؑ کو وقت نماز کی یادآوری کرائی تو امامؑ نے فرمایا: ان (سپاہ یزید) سے کہو کہ جنگ روک لیں تاکہ ہم نماز ادا کریں۔ حصین بن نمیر (یا حصین بن تمیم) نے کہا: تمہاری نماز قبول نہیں ہوتی۔ حبیب بن مظاہر نے جواب دیا: تم سمجھتے ہو کہ آل رسولؐ کی نماز قبول نہیں ہوتی اور تمہاری نماز قبول ہوگی اے شراب خوار (اے گدھے)! اور اس پر حملہ کیا اور اپنی شمشیر پیچھے ہٹاتے ہوئے حصین کے گھوڑے کے منہ پر وار کیا، حصین گھوڑے سے گر گیا اور اشقیاء نے لپک کر اسے حبیب کے حملے سے نجات دلائی۔
مسلم بن عوسجہ لڑکر زخمی، اپنے خون میں رنگے ہوئے تھے، زندگی کے آخری لمحات گذار رہے تھے اور زمین پر گرے ہوئے تھے۔ امام حسینؑ حبیب کے ساتھ مسلم کے پاس پہنچے۔ امام حسینؑ نے فرمایا: اے مسلم! خدا تمہاری مغفرت فرمائے اور آیت قرآنی: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً؛ایمان والوں میں کچھ اشخاص ہیں جنہوں نے سچ کر دکھایا اسے جو انہوں نے اللہ سے عہد و پیمان کیا تھا تو ان میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنا وقت پورا کر لیا اور ان میں سے کچھ انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے بات میں ذرا بھی تبدیلی نہیں کی)" کی تلاوت کی؛ حبیب قریب آئے اور کہا: "تمہارا قتل ہونا، مجھ پر بہت بھاری ہے لیکن میں تمہیں جنت کی خوشخبری دیتا ہوں؛ مسلم بن عوسجہ نے کمزور سی آواز میں کہا: "خداوند متعال تمہیں خیر کی بشارت دے"؛ حبیب نے کہا: "اگر میری شہادت قریب نہ ہوتی تو میرے لئے خوشی کی بات ہوتی کہ تم مجھے وصیت کرتے اور جو کچھ تمہارے لئے اہم ہے میں تمہارے لئے انجام دیتا اور دین اور قرابتداری کے حوالے سے تمہارا حق ادا کرتا؛ مسلم نے گوشۂ چشم سے سیدالشہداؑ کی طرف اشارہ کیا اور کہا: میں تمہیں امام حسینؑ کے حق میں وصیت کرتا ہوں، خدا تم پر رحم کرے "جب تک تمہارے بدن میں جان ہے ان کا دفاع کرو اور ان کی نصرت سے ہاتھ نہ کھینچو"، حبیب بن مظاہر نے کہا: میں تمہاری وصیت پر عمل کروں گا اور عمل کرکے تمہاری آنکھیں روشن کروں گا۔
روز عاشور حبیب کی رجز خوانی
روز عاشورا حملوں کے دوران حبیب بن مظاہر کا رجز کچھ یوں تھا:
أنا حبيب و أبي مُظَهَّر فارس هيجاء وحرب تسعر
میں حبیب ہوں اور میرے والد مُظَہَّر ہیں میدان کارزار کا شہسوار ہوں اور جنگ کی بھڑکتی ہوئی آگ ہوں
وأنتم أعد عدة و أكثر ونحن أوفی منكم و أصبر
تمہیں عددی برتری حاصل ہے لیکن ہم (راہ حق میں) تم سے زیادہ وفادار اور زیادہ صابر ہیں۔
ونحن أعلی حجة وأظهر حقاً وأتقی منكم و أعذر
ہم اظہر اور اعلی حجت ہیں درحقیقت ہم تم سے زیادہ پرہیزگا اور زيادہ مقبول ہیں۔
شہادت
حبیب بن مظاہر، عمر رسیدہ ہونے کے باوجود شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے شمشیر زنی کر رہے تھے۔ انہوں نے 62 اشقیاء کو ہلاک کر ڈالا اور اسی اثناء میں بدیل بن مریم عقفانی نامی شقی نے ان پر حملہ کیا اور ان کی پیشانی کو تلوار کا نشانہ بنایا اور دوسرے تمیمی شخص نے نیزے سے حملہ کیا حتی کہ حبیب زین سے زمین پر آرہے، ان کی سفید داڑھی ان کے سر سے جاری خون سے خضاب ہوئی۔ بعد ازاں بدیل بن مریم نے ان کا سر تن سے جدا کر دیا۔ بروایت دیگر، تمیمی شخص بدیل بن مریم نے حبیب پر تلوار کا وار کیا اور دوسرے تمیمی نےنیزہ مارا جس کی وجہ سے وہ زمین پر آ گرے اور جب اٹھنا چاہا تو حصین بن نمیر نے ان کے سر کو تلوار سے زخمی کیا اور ابن صریم نے گھوڑے سے اتر کر ان کا سر تن سے جدا کیا۔ اسی اثناء میں امام حسینؑ حبیب کی بالین پر پہنچے اور فرمایا: عندالله احتسب نفسي وحماة اصحابي۔ یعنی: میں اپنی اور اپنے حامی اصحاب کی پاداش کی توقع خداوند متعال سے رکھتا ہوں۔ اور اس کے بعد مسلسل اس آیت کریمہ "إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ؛ بلاشبہ ہم اللہ کے ہیں اور بلاشبہ ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ کی تلاوت کرتے رہے۔ بعض مقاتل میں ہے کہ امام حسینؑ نے حبیب سے مخاطب ہوکر فرمایا: "لله درك يا حبيب، لقد كنت فاضلا تختم القرآن في ليلة واحدة"؛ آفرین ہو تم پر اے حبیب! تم ایک فاضل انسان تھے اور ہر شب ایک ختم قرآن کرتے تھے۔ حبیب بن مظاہر کا ایک کم سن فرزند قاسم تھا جس نے بالغ ہوکر اپنے والد کے قاتل بدیل بن مریم کو ہلاک کردیا۔
مدفن
حبیب بن مظاہر اسدی، قبیلۂ بنی اسد سے تعلق رکھتے تھے اور قبیلے میں ہر د ل عزیز اور محترم تھے چنانچہ انہوں نے حبیب کو قبر امام حسینؑ سے 10 میٹر کے فاصلے پر دفن کیا۔
زیارت نامہ
پندرہ شعبان کے لئے مخصوص زیارتِ امام حسینؑ اور آپ ؑ کے دوسرے زیارت ناموں میں حبیب بن مظاہر کا ذکر ہوا ہے اور امام زمانہؑ کی طرف سے وارد ہونے والی زیارت ناحیہ میں حبیب کو ان الفاظ سے سلام کیا گیا ہے: "السلام علی حبيب بن مظاهر الاسدی"؛ سلام ہو حبیب بن مظاہر اسدی پر۔
2۔ عبداللہ بن عمیر کلبی
تعارف
جناب وہب کا تعلق قبیلۂ بنی عُلَیم سے تھا۔ بعض منابع میں ان کانام وہب بن عبد اللہ آیا ہے بعض میں وہب بن جناب یا حباب مذکور ہے۔
کربلا پہنچنا
ابو مخنف نے نقل کیا ہے کہ نخیلہ میں لوگ جنگ کیلئے تیار ہو رہے ہیں ان سے استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا فاطمہ بنت رسول اللہ سے جنگ کیلئے تیار ہو رہے ہیں ۔انہوں نے جواب دیا :اللہ کی قسم! میں مشرکوں اور کفار سے امیدوار تھا اور اب امیدوار ہوں کہ فرزند رسول اللہ سے جنگ کرنے والوں سے بر سر پیکار ہونے کا ثواب مشرکوں سے جنگ کرنے سے کمتر ثواب کا درجہ نہیں رکھتا ہے۔اپنی بیوی کے پاس آئے اور ماجرا اور اپنے ارادے سے آگاہ کیا ۔ اس نے کہا خدا نے تمہیں نیکی کی جانب ہدایت کی ہے اسے انجام دو اور مجھے بھی ساتھ لے چلو۔
روز عاشورا
دس محرم کی صبح عمر بن سعد کے امام حسین ؑ کی جانب تیر پھینکنے سے جنگ کا آغاز ہوا۔ابتدائے جنگ میں عمر بن سعد کی جانب سے زیاد بن ابو سفیان کے آزاد کردہ غلام یسار اور عبید اللہ بن زیاد کے آزاد کردہ غلام سالم میدان میں آیا اور اس نے مبارزہ طلب کیا۔ حبیب بن مظاہر اور بریر بن خضر اپنی جگہ سےاٹھے تو حضرت امام حسین ؑ نے انہیں بیٹھنے کا حکم دیا تو اس اثنا میں قوی ہیکل جسامت کے مالک عبد اللہ بن عمیر نے امام سے اذن جہاد لیا۔ امام نے اجازت دی۔وہ وارد میدا ہوئے تو عبد اللہ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟انہوں نے اپنا تعارف کروایا۔ تو یسار نے جواب دیا ہم تمہیں نہیں جانتے ہیں۔زہیر، حبیب یا بریر ہمارے مقابلے کیلے آئیں۔ آپ نے جواب دیا: ان میں سے کوئی بھی تیرے مقابلے میں نہیں آئے گا مگر تم اس سے بہتر ہو۔یہ کہہ کر اس نے یسار پر حملہ کیا تو اسکے پاؤں اکھڑ گئے۔ اسی دوران سالم نے اس پر حملہ کیا۔اصحاب امام نے بلند آواز سے اسے اس بات کی طرف متوجہ کیا لیکن وہ متوجہ نہ ہوا۔سالم نے اس پر وار کیا۔ عبد اللہ بن عمیر اس کے وار کو بائیں ہاتھ پہ روکا جس کے نتیجے میں اس کی بائیں انگلیاں قطع ہو گئیں۔ اب عبد اللہ اس پر حملہ آور ہوئے اور ایک ضرب سے اس کا کام تمام کردیا۔ اس دوران وہ یہ رجز پڑھ رہے تھے:
إن تنكروني فأنا ابن كلب حسبي ببيتي في علیم حسبي
إني امرؤ ذو مرة و عصب و لست بالخوار عند النكب‏
إني زعيم لك أم وهب بالطعن فيهم مقدما و الضرب‏
ضرب غلام مؤمن بالرّب‏ حتي يذوق القوم مس الحرب
اگر مجھے نہیں پہچانتے ہو تو میں کلب کا بیٹا ہوں اور سمجھ دار مرد میدان ہوں اور میرے لئے یہ افتخار کافی ہے۔
میں ایک دلیر شخص ہوں مصیبت کے وقت خوار اور زبون حال نہیں ہوتا ہوں۔
اے ام وہب!میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں نیزے اور شمشیر سے جنگ کروں گا۔ ۔۔
اسی دوران اس کی بیوی ام وہب ایک لکڑی کے ہمراہ اس کی جانب بڑھی۔عبد اللہ نے اپنی بیوی کو واپس لوٹانا چاہا لیکن اس نے عبد اللہ کا لباس تھام رکھا تھااور کہہ رہی تھی :میں تجھے نہیں چھوڑوں گی یہاں تک کہ میں بھی تمہارے ساتھ شہید نہ ہو جاؤں۔ اس دوران امام حسین ؑ نے بلند آواز میں کہا :خدا اہل بیت کی جانب سے تمہیں جزائے خیر عطا کرے آؤ اور عورتوں کے پاس بیٹھ جاؤ کیونکہ خدا نے عورتوں پر جہاد واجب نہیں کیا ہے یہ سننا تھا کہ وہ واپس عورتوں کے پاس پلٹ آئی۔
ٍظہر عاشور سے پہلے لشکر کے بائیں بازو کے سپہ سالار شمر بن ذی الجوشن نے اپنے فوجیوں کے ہمراہ امام پر حملہ کیا۔اس میں ہانی بن ثبیت اور بکیر بن حی تیمی نے عبد اللہ بن عمیر پر حملہ کیا اور انہیں شہید کر دیا۔ طبری کے بقول عبد اللہ بن عمیر امام حسین ؑ کی فوج کے دوسرے شہید ہیں۔
ام وہب
عبد اللہ کی شہادت کے بعد ام وہب ان کے سرہانے پہنچی اور انکے سر و صورت کو صاف کرنا شروع کیا اور کہا :تمہیں جنت مبارک ہو ۔ اسی اثنا میں شمر نے اپنے غلام "رستم " سے کہا کہ گرز اس کے سر پر مارو۔اس نے ایسا ہی کیا اور ام وہب شہید ہو گئیں۔کہتے ہیں وہ واقعۂ کربلا کی پہلی شہید خاتون ہیں۔

حضرت عباس ابن علی ؑکے فضائل و کمالات فریقین کی  نظر میں

حضرت عباس ابن علی ؑکے فضائل و کمالات فریقین کی نظر میں

مقدمہ
جب امام حسین کے اصحاب کی زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کہ وہ آپ کے نور ہدایت سے خوب بہرہ مند ہوئے اور فضیلت و عظمت کے آسمان پر اس طرح چمکے کہ وہ لوگوں کے لئے مشعل راہ قرار پائے اور ان کے نام نیکو کاروں کی فہرست کی زینت بنے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان لکھنے سے عاجز ہو جاتا ہے دوسرے لفظوں میں اس کا قلم گونگا ہو جاتا ہے خاص کر جب حیدر کرار علی ابنِ ابی طالب کے فرزند دلاور حضرت عباسؑ کی شان میں کچھ لکھنا چاہتا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ جناب عباس ؑکے فضائل سن کر کچھ لوگ حیرت زدہ ہو جائیں کہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک شخص ایسے مقام و مرتبے پر فائز ہو جائے کہ خود معصوم امام اس کی تعظیم و احترام کریں۔ لیکن جب ہم اس نکتہ کی طرف توجہ کریں گے تو پھر شاید ہمارے لیے تعجب آور نہ ہو یا حیرت میں کمی کا باعث ہوں کہ حضرت عباسؑ مولا علی ابن ابی طالب ؑکے فرزند ہیں اور فطرت انسانی کا تقاضہ ہے کہ ہر شخص اپنے ماں باپ کی صفات کو ان سے حاصل کرتا ہے۔ بلکہ تعجب اس وقت ہوتا ہے جب معاملہ اس کے برعکس ہو یعنی اولاد شکل و شمائل اور اخلاق و کردار میں اپنے والدین سے شبہات نہ رکھتی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب عباسؑ کو شجاعت و بہادری اپنے بابا شیر خدا علی ابن ابی طالبؑ سے وراثت میں ملی ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جس طرح امیرالمومنین ؑ پیغمبر خدا ﷺ کے حامی و مددگار اور ان کی قوت بازو تھے، جناب عباس ؑ کو بھی اپنے امام وقت کے ساتھ یہی نسبت تھی۔
حضرت عباس کی فضیلت میں اگر ہمیں معصومین سے نقل شدہ کوئی روایت بھی نہ ملے تو ان کی تعریف کے لئے آیات قرآنی ہی کافی ہیں۔ آپ قرآن مجید میں بیان شدہ مومنین کی صفات کا حقیقی مصداق ہیں جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَٱلَّذِینَ ءَامَنُواوَہاجَرُوا وَجٰہدُوا فِی سَبِیلِ ٱللَّہ وَٱلَّذِینَ ءَاوَوا وَّنَصَرُوۤا أُولٰئكَ ہمُ ٱلمُؤمِنُونَ حَقّا لَّہم مَّغفِرَۃوَرِزقكَرِیم؛جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی اور جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں ان کے لیے بخشش اور بہترین رزق ہے)
ایک اور مقام پر فرمایا ہے:وَٱلَّذِینَ ہاجَرُوا فِی سَبِیلِ ٱللَّہ ثُمَّ قُتِلُوۤا أَو مَاتُوالَیَرزُقَنَّہمُ ٱللَّہ رِزقًا حَسَنا وَإِنَّ ٱللَّہ لَہوَ خَیرُ ٱلرَّ ٰزِقِینَ؛ اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، پھر قتل کر دیے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھّا رزق دے گا اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے۔
حضرت عباس نے راہ خدا میں ہجرت کی، جہاد کیا اور شہید ہوئے۔ اور باوجود اس کے کہ امام حسین کو چھوڑ کر جانا چاہتے تو جانے کا راستہ بھی ان کے لئے کھلا تھا لیکن انہوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی امام ؑ کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آئمہ معصومین کی نگاہ میں حضرت عباس ؑ کا بڑا مقام ہے، آپ ان کے نزدیک قابل ستائش ہیں، امام صادق ؑسے حضرت عباس ؑ کا پورا زیارت نامہ نقل ہوا ہے اور اس زیارت نامہ میں امام صادق ؑنے ان کے ساتھ اس طرح عقیدت کا اظہار کیا ہے کہ گویا وہ معصوم امام ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ساری زندگی پیغمبرگرامی اسلام ﷺ اور آئمہ معصومین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گزاری۔
امام صادق ع اس زیارت نامہ میں فرماتے ہیں:جِئْتُکَ یَا ابْنَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَافِدا إِلَیْکُمْ وَ قَلْبِی مُسَلِّمٌ لَکُمْ وَ تَابِعٌ وَ أَنَا لَکُمْ تَابِعٌ وَ نُصرتِی لَکُمْ مُعَدَّۃحَتَّى یَحْکُمَ اللہ وَ ہوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ فَمَعَکُمْ مَعَکُمْ لا مَعَ عَدُوِّکُمْ إِنِّی بِکُمْ وَ بِإِیَابِکُمْ [وَ بِآبَائِکُمْ‏] مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَ بِمَنْ خَالَفَکُمْ وَ قَتَلَکُمْ مِنَ الْکَافِرِینَ قَتَلَ اللہ أُمَّۃقَتَلَتْکُمْ بِالْأَیْدِی وَ الْأَلْسُنِ؛ اے امیرالمومنین(ع) کے فرزند آپ کا مہمان ہوں میرادل آپ کے حوالے اور تابع ہے اور میں آپکا پیروکارہوں میں آپکی نصرت پر آمادہ ہوں یہاں تک کہ خدا فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے آپکے ساتھ ہوں آپ کے ساتھ نہ کہ آپ کے دشمن کے ساتھ بے شک میں آپ پر اور آپکے وآپس آنے پر ایمان رکھتا ہوں اور آپکے مخالف اور آپکے قاتل سے میرا کوئی تعلق نہیں خدا قتل کرے اس گروہ کو جس نے ہاتھ اور زبان سے آپکے ساتھ جنگ کی۔
بلاشبہ حضرت عباس کا معنوی کمالات اور فضائل کے اتنے بلند مرتبہ پر فائز ہونا ان کے اعلی ترین انسانی اقدار کو اپنانے اور گناہ اور گناہ گاروں سے دوری کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالی کی مخلصانہ بندگی اولیائے اولیاء الہی یعنی آئمہ معصومین ﷩ کی اطاعت اور ان کے سامنے عاجزی و انکساری ان کی روحانی شخصیت کی نشوونما اور کمالات اور وجودی اقدار کے حصول کا باعث بنی ہے۔ حضرت عباس کی ذات ان گنت کمالات و فضائل کی حامل ہے لیکن یہاں پر ہم اس مقالہ کی کی ظرفیت اور وسعت کو مدنظر رکھتے ان کی چند نمایاں خصوصیات کا اختصار کے ساتھ ذکر کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔
تعارف
نام: عباس
والد : حضرت علی ابن ابی طالب
والدہ : فاطمہ بنت حزام جو کہ ام البنین کے کے نام سے مشہور ہیں۔
ولادت : ۴ شعبان المعظم ۲۶ ہجری
مقام ولادت: مدینہ منورہ
ازدواج: آپ نے چالیس سے پینتالیس ہجری کے درمیان عباس ابن عبدالمطلب کی اولاد میں سے لبابہ نامی خاتون سے شادی کی۔
اولاد: لبابہ سے حضرت عباس ؑ کے دو بیٹے فضل و عبید اللہ متولد ہوئے۔ بعض کتابوں حضرت عباس ؑکے اور بیٹوں کا ذکر بھی کیا اور ان کے نام حسن، قاسم اور محمد تھے اور ایک بیٹی کا ذکر بھی ہے۔
شہادت: حضرت عباس ابن علی ؑ ۶۱ ہجری دس محرم الحرام کو امام حسینؑؑ کا ساتھ دیتے ہوئے میدان کربلا میں شہید ہوئے۔
محل دفن: حضرت عباسؑ شہر کربلا میں مدفون ہیں۔ ان کا روضہء مبارک حضرت امام حسین ؑکے حرم مطہر کے شمال مشرق میں واقع ہے اور شیعیان جہان کے لئے اہم زیارت گاہ ہے۔
کنیات
ابوالفضل
جناب عباس کی مشہور ترین کنیت ابو الفضل ہے۔ یہ کنیت آپ کی بے کراں فضیلت و عظمت کی نشانی ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک آپ کی ساری زندگی مختلف فضائل اور خصوصیات کا آئینہ ہے۔ مورخین نے نقل کیا ہے کہ حضرت عباس کو ابوالفضل کہہ کر پکارنا دو وجوہات کی بنا پر ہے:
الف: ان کے بیٹے کا نام فضل تھا۔
ب: کیونکہ ان کی ساری زندگی فضیلتوں کا مجموعہ ہے اسی وجہ سے انہیں ابالفضل کہا جاتا ہے ہے۔
اور یہ دوسری وجہ زیادہ بہتر نظر آتی ہے۔ ان کی اور بھی کنیات ہیں لیکن اختصار کی خاطر اسی ایک کنیت کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔
القاب
قمر بنی ہاشم
کلباسی نے اپنی کتاب خصائص العباسیہ میں اور دیگر مصنفین نے بھی لکھا ہے حضرت عباس انتہائی حسین و جمیل تھے اسی وجہ سے انہیں قمر بنی ہاشم کہا جاتا ہے۔
باب الحوائج
حضرت عباس اپنی خدا کاری قاری اخلاص اور اعلیٰ انسانی اقدار کا حامل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی کے نزدیک ایک بلند مقام اور خاص اکرام و آبرو رکھتے ہیں۔ حضرت عباس ع باب الحوائج ہیں اور ان کے توسل سے حاجات کی برآوری ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مقام شفاعت عطا فرمایا ہے۔
طيّار
یہ ایسا لقب ہے جس کے ساتھ امام سجاد نے اپنے چچا کو پکارا ہے اور اس کے ذریعے حضرت عباس ؑکے معنوی مقام و منزلت کو لوگوں پر آشکار کیا ہے۔ امام زین العابدین فرماتے ہیں:رَحِمَ اللَّہ عَمِیَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وأَبْلی وفَدی أَخاہ بِنَفْسِہ حَتَّی قُطِعَتْ یَداہ فَأَبْدَلَہ اللَّہ عَزَّوَجَلَّ مِنْہما جِناحَیْن یَطیرُ بِہما مَعَ الْمَلائِکَۃفی‌ الْجَنَّۃکَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبی‌طالِبْ علیہ السلام؛ وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّہ تَبارَکَ وَتَعالی مَنْزِلَۃیَغبِطَہ بِہا جَمیعَ الشُّہدَاءِ یَوْمَ القِیامَۃ؛ اللہ تعالیٰ میرے چچا عباس ؑ پر رحم کرے، کہ جنہوں نے ایثار کا مظاہرہ کیا اور اپنی جان کو سختیوں میں ڈالا، اپنے بھائی پر جان قربان کر دی یہاں تک کہ اس کے دونوں بازو بدن سے جدا ہو گئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان بازؤوں کے بدلے انہیں دو پر عطاء فرمائے اور وہ بہشت میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں۔
سقّا
حضرت عباس کو سقا بھی کہا جاتا ہے۔ منصب سقایت، حج کی تاریخ میں ایک اہم اور عظیم منصب جانا جاتا ہے۔ پیاسوں کو پانی پلانا مستحبات میں سے ہے لیکن کبھی اسے واجبات دینی میں شمار کیا جاتا ہے۔ حضرت عباس ؑنے یہ لقب اپنے بابا علی ؑسے ورثے میں پایا ہے۔ انہوں نے جنگ بدر میں دشمن کی سپاہ کے قریب واقع ایک کنویں سے پانی لا کر لشکر اسلام جو سیراب کیا ۔
حضرت عباس ؑنے مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کربلا تک کاروان امام حسین ؑ کی سقّائی کے فرائض انجام دیے۔
خوارزمی نے مقتل حسین ؑ میں لکھا ہے کہ جب امام حسینؑ نے دیکھا کہ خیموں میں پانی نہیں ہے اس وقت اپنے بھائی حضرت عباس ؑ کی سربراہی میں تین سپاہیوں کا کو پانی لینے کے لئے بھیجا اور عمر سعد اور ان کے درمیان جنگ ہوئی اس کے بعد پانی کی بیس مشکیں بھرکے خیام کی طرف واپس آئے اس موقع پر امام حسین ؑ نے حضرت عباس ؑ کو سقا کا لقب عطا کیا۔
تاریخ کی کتابوں میں ان کے بیت سارے القابات درج ہیں لیکن مقالہ کی ظرفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تمام القابات کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
حضرت عباس ع کے فضائل علماءِ فریقین کی نگاہ میں
حضرت عباس کے بلند مرتبہ ہونے میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ جس طرح وہ شکل وشمائل کے لحاظ خوبصورت تھے یہاں تک کہ قمر بنی ہاشم کا لقب پایا اسی طرح وہ اخلاق حسنہ کا پیکر بھی تھے۔ ان کا وجود مبارک اقدار انسانی کا حامل تھا اور وہ خدا، رسول ؐ اور امام وقت کے مطیع فرمانبردار تھے۔ شیعہ و اہل سنت علماء نے ان کے بہت سارے فضائل بیان کیے ہیں اور ان بے شمارخصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے ہم یہاں پر اس مقالے کی ظرفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی چند نمایاں خصوصیات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کا شرف حاصل کریں گے۔
۱۔ اعلی نسب
امام حسین ؑ کے اصحاب میں سے سب سے اعلی نسب حضرت عباس ؑ کا ہے۔ آپ بنو ہاشم کے چشم و چراغ کہ جس کی عظمت و جلالت سے انکار ممکن نہیں ۔ ان کے والد ماجد رسول خدا ؐ کے وصی، ولی مومنین، امام متقین ہیں اور شجاعت میں احد، بدر، خندق و خیبر میں لشکر اسلام کو فتح دلوانے کلیدی کردار ادا کرنے والی شخصیت کا نام علی ابن ابی طالب ؑ ہے۔ تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ رسول خدا ؐکے بعد سب سے عالم، دانا اور بافضیلت شخصیت حضرت علی ؑ کی ہے۔ حضرت عباسؑ کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ امامت کے شجرہ طیبہ سے متصل ہیں اور فرزندان رسول خدا ؐ اور کے بھائی ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت حزام ہیں۔ حزام کی شرافت ، شجاعت اور سخاوت کا چرچہ زبان زد عام خاص تھا۔
تین اماموں کا تربیت یافتہ ہونا
حضرت عباس ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے تین معصوم اماموں ( حضرت علیؑ، امام حسینؑ ، امام حسن ؑ) کے زیر سایہ پروان چڑھے اور ان سے تربیت حاصل کی۔ ان سے دینی تعلیمات اور اخلاق حسنہ کی تعلیم حاصل کی اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقام عبودیت پر پہنچے۔ بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ حضرت عباسؑ عصمت میں معصومین ﷩کے برابر نہیں ہیں لیکن عصمت میں ان سے نزدیک ترین فرد ضرور ہیں۔
علم و معرفت
حضرت عباس کی ولادت باسعادت ایسے گھرانے میں ہوئی جو علم و حکمت کا خزانہ تھا، جناب عباس ؑنے حضرت علی ؑ,امام حسن ؑاور امام حسین ؑسے کسب فیض کیاہے اور بلند ترین علمی مرتبہ پر فائز ہیں۔ حضرت ابوالفضل العباسؑ، آئمہ معصومین ﷩ کی اولاد کے فقہا ء اور دانشمندوں میں سے تھے، جیسا کہ بزرگ علماء و محدثین نے ان کی شان میں بیان کیا ہے: "ہو البحر من اى النواحى اتيتہ" و یا "فلجتہ المعروف و الجواد ساحلہ"۔
مرحوم علامہ محمد باقر بيرجندى نےبھی تحریر کیا ہے:
ان العباس من اكابر الفقہا و افاضل اہل البيت، بل انہ عالم غير متعلم و ليس فى ذلك منافاہ لتعلم ابيہ اياہ؛ بیشک حضرت عباس ؑ بزرگ فقہاء اورخاندان نبوت کی نمایاں شخصیتوں میں سے تھے، بلكہ وہ عالم غیر معلم تھےاور اس کا اس بات سے کوئی ٹکراؤنہیں ہےکہ انھوں نے اپنے والد حضرت امام علی ؑسے کسب فیض کیا تھا۔
استقامت و ایمان راسخ
جب بھی استقامت کا تذکرہ ہوتا ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے بلا تردید استقامت، معرفت اور بصیرت کا نتیجہ ہے۔ اوضاع و احوال یہ تھے کہ ایک طرف سے ایک اہم ذمہ داری کو نبھانا ہے! جنگ، سخت ہے اور دشمن کے مقابلے میں تعداد انتہائی کم! حالات، حالات انتہائی سخت ہیں، گرمی، بھوک اور پیاس کی شدت! لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود آخری دم تک حضرت عباس ع کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ سخت ترین آزمائش اور مصیبت کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اپنی زمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے میں کامیاب ہوئے۔
حضرت عباس پختہ ایمان کے مالک تھے تھے اور امام حسین ؑ موامامِ برحق مانتے تھے۔ انہوں نے پوری زندگی اپنے وقت کے اماموں کی اطاعت کی اور ہر موقع پر ان کی حمایت اور مدد کرتے رہے۔امام صادق ؑ اپنے چچا حضرت عباس ؑ کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کان العباس۔۔۔ صلب الایمان؛ عباس ابن علی ؑ پختہ ایمان کے مالک تھے۔
تاریخ اور مقتل کی کتابوں میں میں میدان کربلا کا ایک واقعہ نقل ہوتا ہے کہ جب شمر ابں ذی الجوشن آیا اور پوچھا کہ میرے بھانجے عبداللہ، جعفر، عباسؑ اور عثمان کہاں ہیں؟ اس وقت وہ تمام خاموش رہے تو امام حسین ؑنے فرمایا اسے جواب دو اگرچہ وہ فاسق ہے لیکن تمہارا ماموں ہے۔ انہوں نے شمر سے مخاطب ہو کر کہا: بتا کیا کہنا چاہتا ہے؟ آپ میرے بھانجے ہیں میں آپ کے لئے امان نامہ لے کر آیا ہوں خو کو اپنے بھائی حسین ؑکے ساتھ موت کے منہ میں نہ دھکیلو اور امیر مؤمنین یزید لعنہ کی بیعت کر لو۔
حضرت عباس نے اس کے جواب میں فرمایا: خدا تیرے ہاتھ قطع کرے تیرے اس امان نامہ پر لعنت ہو اے دشمن خدا! کیا تو مجھے حکم دیتا ہے کہ میں اپنے بھائی اور اپنے سردار سردار حسین ابن فاطمہ ؑ کو چھوڑ دوں اور ملاعین ابن ملاعین کی اطاعت جر لوں۔ حضرت عباس ؑ اور ان کے بھائیوں نے شمر کو اپنے آپ سے دور بھگایا اور امان نامہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ شمر غصہ کی حالت میں اپنے لشکر کی سمت پلٹ گیا۔
بصیرت
دین کی مکمل شناخت اور اس پر پختہ یقین، اپنے وظیفہ اور ذمہ داری سے آگاہی، اپنے زمانے کے امام اور حجت الہی کی معرفت، حق و باطل کی پہچان اور دوست اور دشمن کے بارے میں علم رکھنے کا نام بصیرت ہے۔
معرکہ کربلا میں شہادت پانے والے تمام کے تمام اہل بصیرت تھے اسی لیے تو ان کے دلوں مین نہ دشمن کا خوف نہ موت کا ڈر بلکہ سب عاشقانہ طور پر جام شہادت نوش کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ امام حسینؑ ہی امام وقت ہیں انہی کی اقتدا ہی صراط مستقیم ہے اور ان کی نصرت دین الہی کی نصرت ہے خدا اور اس کے رسول ص کی نصرت ہے لہذا انہوں امام وقت کا ساتھ دیا اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گئے۔
حضرت عباس ؑ بھی صاحب بصیرت تھے امام صادق ؑ ان کی شان میں فرماتے ہیں:"كان عمنا العباس نافذا البصيرہ؛ ہمارےچچاعباس ؑ نافذ البصیرت (ذہین سمجھدار اور دقیق) تھے"
ادب و احترام
حضرت عباس کی صفات جمیلہ میں سے ادب و احترام اور عاجزی و انکساری بھی ہے وہ ادب و احترام اور حسن خلق کا پیکر کار اور عاجزی و انکساری کا بہترین نمونہ تھے۔ حضرت عباس ؑ اپنے آپ کو اپنے دونوں بھائیوں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے برابر نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہیں اپنا امام مانتے تھے اور ہمیشہ ان کے مطیع و فرمانبردار رہتے تھے۔ ہمیشہ ان سے «یابن رسول اللہ»، «یاسیدی» یا ایسے ہی دیگر القابات کے ساتھ مخاطب ہوتے تھے۔
عبادت
حقیقی عبادت و بندگی، انسان کے جسم و روح کا اللہ تعالیٰ کے حضور خشوع و خضوع کا اظہار کرنا ہے، اور اس کا سرچشمہ انسان کا ایمان ہے۔ انسان، ایمان اور معرفت کے جتنے بلند درجے پر فائز ہو گا، اس کی عبادت اتنی ہی عمیق ہوگی، عبادت کا جذبہ اتنا زیادہ اور اس کی روح کے لئے اتنی ہی لذت بخش اور آدام بخش ہوگ۔ حقیقی بندگان خدا دنیا و آخرت میں ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔ وہ آخرت میں روشن و درخشاں چہروں کے ساتھ محشور ہوں گے، اور دنیا میں عبادت و بندگی کے اثرات ان کے چہروں پر ظاہر ہوں گے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے: سیماہم فی وُجُوہہم مِنْ اَثَرِ السُّجُودِ؛ ان (یعنی بندگانِ خدا) کی علامت، ان کے چہروں پر سجدے کا نشان ہے۔
حضرت عباسؑ، اپنے پروردگار کے حقیقی عبادت گزار تھے۔ اور ان کے چہرہ مبارک پر عبادت کے آثار نمایاں تھے۔ طویل سجدوں کا اثر اس کی پیشانی پر کندہ تھا۔ یہاں تک کہ ان کا قاتل کہتا ہے کہ: وہ خوبصورت چہرے کے مالک اور ہدایت یافتہ تھے، سجدے کا نشان ان پیشانی پر چمک رہا تھا۔
حضرت عباس ؑ نے اپنی زندگی کی آخر رات، امام حسینؑ کے دیگر وفادار ساتھیوں کے سمیت، اللہ تعالیٰ کے ساتھ راز و نیاز اور عبادت میں مصروف رہے۔
اس رات کو خیمے روشنی میں ڈوبے ہوئے تھے، اور دعا کے لئے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے قنوت کی سبز راہیں آسمان سے ٹکرا رہی تھیں، عاشقانہ راز و نیاز کی دھیمی دھیمی صدائیں کربلا کی گرم ہوا میں اس طرح پھیلی ہوئی تھیں اور فضا کو دلنشین بنائے ہوئے تھیں، یہاں تک کہ بعض نے لکھا ہے کہ: اس رات دشمنوں کے لشکر میں تبدیلی رونما ہوئی، اور ان میں سے بتیس لوگ امام حسین ؑ کے ساتھ مل گئے۔
اطاعت
حضرت عباس نے اپنی پوری زندگی خدا اور اس کے رسول ص اور اپنے امام وقت کی اطاعت میں گزاری ہے۔ اور بیس سال کی مدت مدت جو امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے ساتھ گزاری ہے کسی تاریخ میں نہیں ملتا کہیں پر آپ نے اپنے وجود کا اظہار کیا ہو کہیں یہ کہا ہو کہ آپ بھی علیؑ کے بیٹے ہیں اور میں بھی انہی کا بیٹا ہوں ہو کبھی ان کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کیا نہ کوئی خطبہ دیا کچھ بھی نہیں فقط اور فقط اطاعت امام۔
ان کی اطاعت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب امام مجتبی ؑکے جنازے پر تیر برسائے گئے تو اس وقت جناب عباس ؑ کی عمر 26 یا 27 سال تھی۔آپ سوچیں کہ ایک بہادر اور طاقتور جوان کھڑا ہو اور اس کے سامنے اس کے بھائی کے جنازے پر تیر برسائے جائیں تو وہ کبھی بھی اس گستاخی کا بدلہ لئے بغیرچین سے نہیں بیٹھے گا۔ لیکن اس وقت جیسے ہی حضرت عباس ؑ نے ہاتھ قبضہ تلوار پر رکھا تو امام حسین ؑ فرمایا: اے میرے بھائی تلوار کو نیام ڈالو تو عرض کیا: جیسے آپ حکم فرمائیں اور تلوار نیام میں ڈال دی۔ تہذیب الاحکام میں حضرت عباس ؑ کی زیارت میں اس طرح نقل ہوا ہے:(اشہد) انك مضيت على بصيرۃمن امرك مقتديا بالصالحين ومتبعا للنبيين؛ میں گواہ ہوں کہ آپ نے بصیرت کے ساتھ احکام الٰہی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، نیک لوگوں کی پیروی اور پیغمبرؐ کی اتباع کرتے ہوئے زندگی گزاری۔
کامل الزیارات اور مفاتیح الجنان میں جو زیارت امام صادق ؑسے نقل ہوئی ہے اس میں امام صادق ؑنے آپ کی اطاعت کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں سلام کیا ہے: السَّلامُ عَلَیْکَ أَیُّہا الْعَبْدُ الصَّالِحُ الْمُطِیعُ للہ وَ لِرَسُولِہ وَ لِأَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ؛ سلام ہو آپ پرکہ آپ خدا کے پارسا بندے ہیں آپ اﷲ، کے اس کے رسول ص، امام علی، امام حسن اور امام حسین علیہم السّلام کے اطاعت گذار ہیں۔
حضرت عباس سپاہ امام حسین ؑ کے سپہ سالار تھے اور یہ بات امام حسینؑ کے نزدیک ان کی اہمیت و مقام و منزلت کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود حضرت عباس ؑ اپنے امام کی معرفت کے اس درجے پر تھے کہ ان کے نزدیک امام وقت کی اطاعت کے سامنے ان تمام چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ حضرت عباسؑ کے نزدیک امام کے حکم کے سامنے اگر، مگر یا تاخیر گنجائش نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ خود خود کو امام وقت کے فرمان کی اطاعت کے لیے آمادہ و تیار رکھتے۔ حکم امام کی انجام دہی میں دقت، سرعت اور استقامت ان کی اطاعت کے درجے کو بیان کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اطاعت کا وہ درجہ انہیں عطا فرمایا ہے کہ وہ حضرت علی ؑکے اس قول کے مصداق قرار پاتے ہیں۔ امام علی ؑنے فرمایا:مَنْ صَبَرَ عَلَى طَاعَۃاَللَّہ سُبْحَانَہ عَوَّضَہ اَللَّہ سُبْحَانَہ خَيْرا مِمَّا صَبَرَ عَلَيْہ؛ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے اس کے صبر سے بہتر اجر عطاء فرماتا ہے۔
امام حسین کے ساتھ انس و محبت
حضرت عباس کے علاوہ امام حسین کے اور بھائی بھی تھے جیسے محمد بن حنفیہ یا اور دوسرے بھائی کہ جو کربلا میں شہید ہوئے۔ لیکن ان سب میں سے حضرت عباسؑ کو امام حسین ؑکے ساتھ جس قدر الفت اور محبت تھی اتنی کسی اور کو نہیں تھی، اگر اس محبت کا ان کے دوسرے بھائیوں کی امام حسین ؑکے ساتھ موازنہ کیا جائے تو حضرت عباس ؑ کی محبت کا درجہ ان سے بہت بلند ہے اور اس کی وجہ سب کی معرفت ہے جس کو جتنی امام ؑ کی معرفت تھی وہ اتنا زیادہ امام ؑکے قریب تھا اور ان سے اتنی ہی زیادہ محبت اور الفت رکھتا تھا۔ جس طرح حضرت عباس ؑامام حسین ؑکے ساتھ محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے تھے تو امام حسین ؑ بھی اس کے بدلے میں بھی کے ساتھ اسی طرح محبت کرتے تھے۔ جیسا کہ ہم واقعہ کربلا میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ امام حسین ؑنے کسی اور صحابی کی شہید ہونے پر اتنے غم اور دکھ اور بے کسی کا اظہار نہیں کیا جتناحضرت عباس ؑ کی شہادت پر کیا۔ اور اس کی وجہ امام حسین ؑ کی ان کے ساتھ محبت تھی۔اور ظاہر ہے حضرت عباس ؑ تنہا وہ شہید ہیں کہ جنہوں نے شہادت کے وقت امام حسین ؑ کو اپنے سرہانے پہنچنے کے لئے بلایا۔
پرچم دار لشکر
جب امام حسین کے اصحاب کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سب کے سب بہادر اور مرد میدان تھے اور امام حسین ؑکے وفادار تھے لیکن اس کے باوجود امام حسین ؑنے پرچم حضرت عباسؑ کے ہاتھ میں تھمایا اور انہیں اپنے لشکر کا سپاہ سالار قرار دیا ۔ تاریخ اور مقاتل کی کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت امام حسینؑ جب حضرت عباس ؑ کی شہادت کے وقت ان کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا: الآن انکسر ظھری و قلت حیلتی؛ اب میری کمر ٹوٹ چکی ہے اور میں بے بس ہو گیا ہوں۔
اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ حضرت عباس ؑ ان کے لشکر سالار اور ان کا آخری سہارا تھے۔
شجاعت
شجاعت کا مطلب فقط میدان جنگ میں جا کر جنگ کرنا اور تلوار چلانا نہیں ہے بلکہ شجاعت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اپنے غصے پر قابو پانے کو بھی شجاعت کے مصادیق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اپنے غصے پر قابو پا کر اپنے مد مقابل کو معاف کر دینا بھی شجاعت کہلاتا ہے۔ رضائے الٰہی کے لئے میدان جنگ میں اپنی تلوار نیام میں ڈالنے والے کو بھی شجاع کہا جاتا ہے۔
حضرت عباس کی ایک نمایاں خصوصیت ان کی شجاعت ہے اور شجاعت بھی ایسی کہ جس کا دشمن نے بھی اعتراف کیا ہے۔ حضرت عباس ؑ نامور جنگجو اور شجاع بہادر تھے تھے انہوں نے جرآت اور شہامت کو اپنے والد حیدر کرار سے ورثے میں لیا وہ ہمیشہ میدان جنگ میں میں پرچم کو بلند رکھ بلند رکھتے اور تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر بجلی کی طرح سے لشکر اعداء پر پر حملہ کرتے تھے۔ جب انہوں نے دریائے فرات کے کنارے موجود دشمن کی فوج پر حملہ کیا تو چار ہزار کے لشکر کو راہ فرار دکھائی اور تقریباً ان میں سے اسی جفا کاروں کو جہنم واصل کیا۔

ولایت مداری
حضرت عباس کی صفات میں سے ایک صفت ولایت مداری وہ اپنے وقت کے امام کے حکم کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی یا سستی سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ پوری طاقت و توانائی کے ساتھ اس کو بجا لاتے تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی امامت کے زیر سایہ گزاری۔ ایک روایت میں راوی نقل کرتا ہے کہ میں حضرت امام جعفر صادق ؑکے ساتھ امام حسین ؑ کی زیارت کرنے کے بعد حضرت عباس ؑ کی زیارت کے لئے گیا، امام صادق ؑ حضرت عباس ؑ کی قبر مبارک پر گر گئے اور ان الفاظ کے ساتھ ان سے مخاطب ہوئے:
اے میرے چچا! میں گوہی دیتا ہوں آپ نے اپنے وقت کے امام کے سامنے سر تسلیم خم کیا، ان کی تصدیق اور تائید کی، ان کے ساتھ وفاداری کی اور ان کے خیرخواہ و جانثار تھے۔ آپ نے اپنے بھائی کے لئے جان دینے سے دریغ نہیں کیا اور ان پر اپنی جان فدا کردی۔
وفاداری
شب عاشور جب امام حسین نے اپنے تمام اصحاب سے بیعت کا حق اٹھایا اور چراغ بجھا کر ان سے فرمایا کہ رات کی تاریکی ہے جو کوئی مجھے چھوڑ کر اپنے وطن جانا چاہے چلا جائے۔ اس وقت پہلی شخصیت جس نے وفاداری اور جان نثاری کا اعلان کیا وہ حضرت عباس ؑتھے آپ نے عرض کیا: اے میرے امام! میں کیسے آپ کو چھوڑ کر چلا جاؤں؟ کیا آپ کے بغیر زندہ رہوں؟ خدا ہمیں ایسا کرنے کی طاقت نہ دے کہ ہم آپ کو دشمنوں کے سامنے تنہا چھوڑ کر چلے جائیں۔ ہم آپ کے ساتھ رہیں گے اور آخری دم تک آپ کی حمایت اور نصرت کریں گے۔
جناب زینب کبریٰ فرماتی ہیں: حضرت عباس ؑ اپنے بھائیوں کو فرما رہے تھے۔ کل جنگ کا ہونا حتمی ہے آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا ہماری بھی وہی رائے ہے جو آپ کی رائے ہے۔ اس وقت حضرت عباس ؑنے فرمایا: اگر ایسا ہے تو میری ایک وصیت ہے کہ ہم جب تک زندہ ہیں فرزند زہرا امام حسین ؑ کو کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے۔ کل اپنی جان قربان کرنا اور اپنے خون کے آخری قطرے تک امام ؑ کا دفاع کرنا۔ اگلے دن جب حضرت عباس ؑنے امام حسین ؑکے اصحاب کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا تو اپنے بھائیوں سے فرمایا :آگے بڑھو تاکہ میں دیکھ لو کے آپ نے خدا اور اس کے رسول ؐکی خوشنودی کےحصول کے لیے لئے فداکاری کی ہے یہ پھر ان کے تینوں بھائی میدان جنگ میں گئے اور شہید ہوئے اور حضرت عباس ؑان کی شہادت دیکھ رہے تھے۔
فداکاری
حضرت عباس نے روز عاشور فداکاری کی ایک مثال قائم کی آپ نے اپنے زندگی میں امام حسین ؑاور اہل بیت ﷩ کو کوئی صدمہ نہیں پہنچنے دیا۔ حضرت عباس ؑ دین کے دفاع اور اپنے امام وقت کی حمایت و نصرت کے لئے اس طرح پر عزم تھے کہ ان کے پاس جو کچھ بھی اسے قربان کرنے کے حاضر تھے۔ اور بالآخر جب خیمہ گاہ کی طرف بچوں کے لئے پانی لا رہے تھے تو دشمنان خدا کے ہاتھوں شہید ہوئے پہلے آپ کا دایاں بازو قلم ہوا تو آپ نے فرمایا: خدا کی قسم اگر تم نے میرا دایاں ہاتھ بدن سے جدا کیا ہے لیکن میں اپنے دین کا دفاع جاری رکھو گا اور اپنے امام ؑ کی حمایت کروں گا جو صاحب یقین اور رسول امینؐ کے نواسے ہیں۔
پھر کربلا کے میدان میں دیکھا گیا کہ پہلے ان کا دایاں بازو قلم ہوا پھر بایاں بازو بھی قلم ہو گیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے خیام حسینی تک پانی پہنچانے کی کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ ایک تیر مشکیزہ میں لگا اور سارا پانی بہہ گیا۔
اخوت و برادری کا عملی ثبوت
حضرت عباس کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ان کی اخوت و برادری ہے جو کہ ان کے تمام فضائل میں سے ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اس کو ان کے زیارت نامہ میں علیحدہ طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت عباس ؑ کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں: السَّلامُ عَلَی أبى الفَضلِ العَبّاسِ بنِ أمیرِ المُؤمِنینَ، المُواسى أخاہ بِنَفسِہ؛ جس کا معنا و مفہوم یہ ہے کہ آپ اچھے بھائی تھے اور آپ نے اخوت و برادری کا حق ادا کر دیا۔
جس طرح حضرت ہارون اور حضرت موسی ؑدو بھائی تھے اور ان کی اخوت و برادری بے نظیر تھی اور اس کے بعد نبی مکرم اسلام ﷺ اور حضرت ؑ اخوت و برادری کا ایک اسوہ کامل تھے اور پھر امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی برادری اور اخوت کی ایک مثال تھی اور اگر اخوت اور برادری کی چوتھی مثال دینا چاہیں تو وہ امام حسین ؑاور حضرت عباس ؑ کی ہے۔
رشک شہداء
قیامت کے دن شہداء حضرت عباس کی شہادت پر رشک کریں گے اور ان جیسا مقام حاصل کرنے کی حسرت کریں گے۔
امام سجاد سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں:و ان العباس عنداللہ تبارک و تعالی منزلۃیغبطہ علیہا جمیع الشہداء یوم القیامۃ؛ حضرت عباس ؑ کا اللہ تبارک و تعالی کے بزدیک وہ مقام و مرتبہ ہے کہ قیامت کے دن تمام شہداء اس پر رشک کریں گے۔
پیغمبر اسلام ﷺ مرتبہ شہادت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فَوْقَ كُلِّ ذِی بِرٍّ بِرٌّ حَتَّى يُقْتَلَ الرَّجُلُ فِی سَبِيلِ اللَّہ فَإِذَا قُتِلَ فِی سَبِيلِ اللَّہ فَلَيْسَ فَوْقَہ بِرٌّ۔۔۔؛ ہر نیکی سے بالاتر ایک اور نیکی ہے یہاں تک کہ انسان راہ خدا میں شہید ہو جائے اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے سے بڑھ کر کوئی اور نیکی نہیں۔
ان دو روایات کے مطابق اگر شہادت بالاترین مرتبہ اور سب سے بڑی فضیلت شمار ہوتی ہے لیکن شہداء کے مراتب برابر نہیں ہیں اور حضرت عباس ؑ ان مراتب میں سب سے بالا ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔
حضرت عباس ابن علی ابن ابی طالب کے بحر ِفضائل و کمالات سے چند فضائل بیان کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے خداوند عال بندہ حقیر کی اس عدنی سی سعی کو قبول فرمائے۔ اس ناچیز سے عمل کو سرکار باوفا حضرت عباس علمدار ؑ کی ذات مقدس کو ہدیہ کرتا ہوں۔ ذات احدیت اسے میرے لئے توشہء آخرت قرار دے۔ خداوند ذوالجلال ہمیں بھی حضرت عباس ؑ کی طرح اپنے وقت کے امام کی معرفت نصیب فرمائے اور ان کا بہترین ساتھی اور مددگار قرار دے۔

آمین !یا رب العالمین۔

یوم عاشورا کے روزے یا فاقہ کشی کی شرعی حیثیت  

یوم عاشورا کے روزے یا فاقہ کشی کی شرعی حیثیت

عاشورا کا دن اسلامی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ امام حسین (ع) نے اس دن لازوال قربانی پیش کر کے ، تمام اہل شعور کو ظلم وبربریت، بے راہ روی اور فسق و فجور کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔ تاہم یہ دن تاریخی لحاظ سے مزید کچھ پیچیدگیاں رکھتا ہے۔ ذیل میں چند ایک سوالات ہیں جس کے تحت مسئلہ کی نوعیت کا اندازہ ہو سکے گا۔

عاشورا کیا ایک مقدس و بابرکت دن ہے؟

قبل از اسلام اس دن کی کیا اہمیت تھی؟

اسلامی فقہ کی رو سے اس دن روزہ واجب ہے یا مستحب؟ یا پھر مکروہ یا حرام؟ یا پھر مباح ہے، بلکہ متروک ہے؟

1۔تاریخی پس منظر:

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہودیوں کے ہاں اس دن کا روزہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اس لیے ان کے تصورات اس دن کے حوالے سے اسلامی میراث میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ البتہ بلا شک یہودی اور اسلامی کیلنڈر جدا جدا ہیں، پھر ان کے ہاں عاشورا کی اہمیت کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر جواد علی اور دیگر مورخین کا جواب یہ ہے کہ یہودیوں کےاپنے کیلنڈر کے حساب سے پہلے مہینے کی دسویں تاریخ کی اہمیت ہے۔(المفصل فی تاریخ العرب، ج۶، ص۳۳۹)

ابوریحان بیرونی نے بھی اسی کی وضاحت میں کہا ہے کہ اس دن کے روزے کو کبور(کیپور kipur)کہا جاتا ہے۔کپور یا کبور وہی کفارہ ہی ہے، کیونکہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اس دن کا روزہ گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔حتی کہ ان کے ہاں اس روزے کو ترک کرنے کی سزا قتل بتائی گئی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ نویں تاریخ غروب سے ایک گھنٹہ پہلے سے دسویں تاریخ غروب کے آدھ گھنٹہ بعد تک روزہ رکھا جا تا تھا۔ (الآثار الباقیۃ، ص۲۷۷)

2۔من گھڑت روایات:

دوسری بات یہ ہے کہ عاشورا کے دن اسلامی تاریخ میں نہایت ہی غم و اندوہ بھری تاریخ رقم ہوئی ہے، خاندان رسالت کے افراد بے دردی سے شہید کر دیے گئے، یزیدیوں نے جشن منایا اور باقاعدہ اسرائیلی روایات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس دن کو بابرکت دن قرار دے کر اپنی تبلیغات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ چنانچہ حضرت آدم کی خلقت ، ان کا جنت میں بھیجا جانا، ان کی توبہ کا قبول ہونا، اسی طرح عرش و کرسی ، زمین و آسماں، چاند ستاروں ،سورج اور بہشت کی خلقت سب اسی دن سے منسوب ہو گئی، صرف یہی نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم خلیل ع کی ولادت، ان کا آگ سے نجات پانا، حضرت موسی ع اور ان کی قوم کا فرعون کے چنگل سے بچ نکلنا، حضرت عیسی مسیح ع کا آسمانوں پر جانا، اور ادریس کا مکان رفیع پر بلند ہونا، نوح کی کشتی کا کنارے لگنا، سلیمان کا ملک عظیم پر فائز ہونا ، یونس کا مچھلی کے شکم سے نجات پاجانا، یعقوب کی بینائی لوٹ آنا، یوسف کا کنویں سے نجات پاجانا، اور ایوب کی پریشانیاں ختم ہونا ، حتی کہ آسمان میں سب سے پہلی بارش کا نزول الغرض تاریخ انسانیت کا ہر اچھا واقعہ اسی دن پیش آیا ہے۔ (رسالۃ المسلسل الاميريہ، ص 20-۲۱)جھوٹ کے کوئی پير نہیں ہوتے، تبھی تو آسمان و زمین اور سورج ، چاند ستارے اور شمسی نظام تشکیل پانے سے پہلے عاشورا کے دن کا وجود فرض کر لیا گیا اور کسی کو اعتراض تک نہ ہوا؟ در اصل افسانوی باتیں زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہیں۔

3۔اہل بیت (ع) کے لیے یوم غم و اندوہ:

اگلی بات یہ ہے کہ یہ دن کسی اور کے لیے جتنا ہی بابرکت کیوں نہ ہو، کم از کم آل رسول ع کے لیے نہایت ہی اندوہ ناک دن ہے۔ اس لیے آل رسول نے اسے نحس دن قرار دیا ہے۔ (کافی،ج۴، ص۱۴۶)

4۔فقہی آراء اور حدیثی شواہد

اس دن کے روزہ کے حوالے سے فقہائے اہل سنت میں دو نظریات ہیں، امام ابوحنیفہ کے ہاں وجوب کا نظریہ ہے، امام شافعی سے «وجوب و عدم وجوب» دونوں نقل ہوئے ہیں، امام احمد سے بھی دونوں روایتیں ملتی ہیں، جبکہ باقی فقہاء واجب نہ ہونے کے قائل ہیں۔

بعض شیعی روایات کے مطابق عاشورہ کا روزہ ماہ رمضان المبارک کے روزوں سے پہلے موجود تھا، اس کے بعد متروک ہو گیا۔(من لا یحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۸۵) ۔

متروک ہونے سے مراد کیا ہے؟

ایک روایت کے مطابق یہاں متروک سے مراد بدعت ہونا ہے، (کافی ، ج۴، ص۱۴۶)تاہم اس کی سند صحیح نہیں ہے ۔ ایک اور روایت امالی طوسی میں ہے(اگرچہ وہ بھی مجہول السند ہے) کہ راوی امام صآدق ع سے عاشوراء کے روزے کے متعلق سوال کرتا ہے ، تو آنحضرت فرماتے ہیں کہ اگر اہل بیت کی شرمندگی کا ارادہ رکھتے ہو تو پھر روزہ رکھو۔۔۔پھر آنحضرت وضاحت کرتے ہیں کہ اس دن آل ابی سفیان نے قتل حسین ع کی خوشی میں روزہ رکھا۔۔۔

اس روایت سے عنوان ثانوی(شباہت بنی امیہ) کے تحت روزہ رکھنے سے منع کا نتیجہ ملتا ہے۔

قرآن کریم میں یوم عاشور کے روزے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بطور کلی قرآن میں ماہ رمضان کے علاوہ صرف منت اور کفارے کے روزوں کا تذکرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے روزے کا تذکرہ قرآن میں نہیں ہے۔

کچھ روایات میں اس روزے کی فضیلت بتائی گئی ہے، اسے «ایک سال کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا ہے»(یہودیوں کی طرح)،

یہ روایت شیعہ کے ہاں تہذیب و استبصار میں اور اہل سنت کی صحیح مسلم میں نہایت قریب قریب مضمون کے ساتھ موجود ہے۔ اس لیے کچھ فقہاء نے یہ تفصیل دی ہے کہ اس دن کو بابرکت قرار دیتے ہوئے، روزہ رکھنا بدعت ہے، جبکہ اہل بیت ع کے حزن و غم میں روزہ رکھنا مستحب ہے، آیت اللہ خوئی اسی نظریے کے قائل ہیں۔ اس سے پہلے ابن ادریس، محقق حلی اور صاحب جواہر نے بھی یہی رائے قائم کی ہے۔ تاہم مجلسی نے مرآۃ العقول میں اس روایت کو تقیہ پر محمول گردانا ہے،(مرآۃ العقول، ج۱۶، ص۳۶۰) جس کی کوئی خاص وجہ سامنے نہیں آ سکی۔

ایک اور بات جو ہمارے ہاں رائج ہے کہ اس دن آدھا پونا روزہ رکھا جائے، جسے فاقہ کشی کہا جاتا ہے، یعنی صبح سے لیکر عصر عاشور تک بھوکے پیاسے رہیں، اس حوالے سے ایک روایت موجود ہے ، تاہم اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ یہ روایت شیخ طوسی نے مصباح میں نقل کی ہے ۔ اور آقای خوئی کی تحقیق مطابق اس کا طريق مجہول ہے۔ لہذا یہ روایت مرسلہ کے حکم میں ہے۔ (المستند فی العروۃ الوثقی، صوم، ج۲، ص۲۰۷)

اس روایت کے مطابق امام صادق ع ، عبداللہ بن سنان کو حکم دیتے ہیں کہ روزہ رکھو تاہم (باقی روزوں کی مانند نہیں) کہ باقاعدہ سحری کے وقت اٹھ کر نیت کرو کہ روزے سے ہوں، اسی طرح افطار کرو بغیر دعا کیے، اور مکمل دن کے روزے سے پرہیز کرو، اور عصر کے تقریبا ایک گھنٹہ بعد افطار کر دو، کیونکہ اس وقت اہل بیت کے ساتھ جنگ کی آگ بجھ چکی تھی۔

( صمه من غير تبييت، و افطره من غير تشميت، و لا تجعله يوم صوم كملا، و ليكن إفطارك بعد صلاة العصر بساعة على شربة من ماء فإنّه في مثل هذا الوقت من ذلك اليوم تجلّت الهيجاء عن آل رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم(مصباح المتہجد، ج۲، ص۷۸۲)۔

5۔تجزیہ و تحلیل:

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس دن کی فضیلت ثابت نہیں ہے۔ روزہ رکھنا بھی اگر برکت وغیرہ کے حصول کی نیت سے نہ ہو تو باقی دنوں کی طرح مباح ہے، روزے کی فضیلت تبھی ثابت ہو سکتی ہیں، جب خود اس دن کو بافضیلت مانا جائے، جبکہ ایسا کوئی عندیہ ہماری روایات میں نہیں ملتا ۔ اس لیے فقط روزے کی فضیلت پر سند کی درستگی ، مسئلے کو حل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

صحیح بخاری کی روایات کے حوالے سے بھی ایک نکتہ کا بیان شاید ضروری ہو کہ اس مورد میں روایات میں تضاد پایا جاتا ہے، ایک روایت کے مطابق قریش مکہ ، جاہلیت کے زمانے میں اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور رسول خدا (ص) بھی اسی طریقہ پر کاربند تھے۔ (بخاری ، ج۱، ص ۳۴۱باب صيام عاشورا)جبکہ اسی صحیح کی دوسری روایت کے مطابق رسول خدا (ص) کو مدینہ پہنچنے تک اس روزے کے بارے میں بالکل علم ہی نہ تھا، اور یہودیوں نے آپ کو اس بارے میں بتایا ، تو پھر آپ نے روزہ رکھا، (بخاری ، ج۱، ص۳۴۱، باب صيام عاشورا)۔ اور اگر اس روزے کی اتنی ہی فضیلت ثابت تھی تو حضرت عبداللہ بن عمر رض،جن کا شمار پڑھے لکھے اور بافہم اصحاب میں ہوتا ہے، اسے کیوں مکروہ قرار دیتے تھے۔ (فتح الباری، ج۴، ص۲۸۹)

اس سے بھی زیادہ قابل غور بات ابن جوزی نے «الموضوعات» میں کی ہے، جہاں وہ من گھڑت روایات کی وجوہات پہ روشنی ڈالتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ایک اہم وجہ قصہ خوان حضرات تھے، جس طرح آجکل منبر پہ بیٹھ کر مختلف کہانیاں سنائی جاتی ہیں، اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، یہ رسم بڑی پرانی ہے۔ اس دور میں بھی قصہ خوانی کا دور دورہ تھا۔ بازاروں کے چوراہوں پر ، گلی کوچوں اور دیگر عمومی مقامات میں لوگ وعظ و نصیحت اور تبلیغ کی غرض سے مختلف باتیں سنا سنا کر لوگوں سے داد تحسین اور پیسے بٹورتے تھے۔ ابن جوزی کے کلام سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ قصہ خوان حضرات کاایک اہم موضوع عاشورا کے فضائل کا بیان تھا، وہ نقل کرتے ہیں کہ ایک قصہ خواں صاحب جب ڈھیر سارے فضائل سنا چکا ، تو اس سے پوچھا کہ یہ روایات جو تو نے فضایل عاشورا میں پڑھی ہیں، ان کی سند کیا ہے؟ کس استاد سے یہ تعلیم حاصل کی ہے؟ اس نے جواب دیا، یہ کسی نے نہیں بتائیں، بلکہ ابھی فی الفور میرے دماغ میں آئی ہیں۔ (ابن جوزی، الموضوعات، ج۱، ص۴۴)

حزن و غم میں روزہ رکھنے کی تاکید یا اس کے استحباب کا تصور بھی نہایت درجہ عجیب ہے۔ جس کی مذہبی رسوم و رواج میں مثال نہیں ملتی۔ چنانچہ بعض روایات کا یہ کہنا کہ یہ روزے کا نہیں ، بلکہ غم و اندوہ کا دن ہے،(کافی، ج۴، ص۱۴۷، ح۷) اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ روزہ غم و اندوہ سے زیادہ خوشی اور برکت کے موقع پر ہوتا ہے، چنانچہ عید غدیر کا روزہ مستحب ہے۔ حتی کہ خود عاشورا کے حوالے سے ایک روایت جس میں روزے کا حکم دیا گیا ہے، وہاں اشارہ دیا گیا ہے کہ گذشتہ دور میں یہ عید کا دن تھا، اس لیے تم بھی روزہ رکھو، (مجمع الزوائد، ج۳، ص۱۸۵)

خود امام حسین ع کی سیرت میں اس دن کا روزہ یکسر طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے، جبکہ نماز پر بڑی تاکید موجود ہے۔ اگر اس دن کے روزے کی تاکید ہوتی ، جیسا کہ بعض روایات میں عندیہ ملتا ہے کہ امام علی ع اس پر بڑی تاکید کرتے تھے،(مصنف عبدالرزاق، ح7836) تو امام حسین ع قطعا کسی نہ کسی انداز میں اپنے والد بزرگوار کے اس تاکیدی رویے کو عملی جامہ پہنا کر اس دنیا سے جاتے۔

آخری بات یہ ہے کہ غم و اندوہ اور سوگواری کی وجہ سے کھانے پینے سے اجتناب ایک فطری امر ہے، اس کے لیے کسی روایت کی ضرورت نہیں ہے۔شیخ طوسی کی مذکورہ روایت کو بھی اسی فطری امر کا بیان قرار دیا جا سکتا ہے۔