بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
جب دین اسلام جزیرۃ العرب میں ظاہر ہوا تو کفار اور مشرکین مکہ نے اس نئے دین کی بھرپور مخالفت کی کیونکہ انہوں نے جب اپنے اہداف کو خطرے میں دیکھا تو ہر حیلہ و بہانہ سے دین اسلام کے چراغ کو خاموش کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ کفار مکہ نے دین اسلام کی ترقی روکنے کے لیے ہر طرح دھمکی اور لالچ دینے والے حربوں سے استفادہ کیا۔ شہر مکہ کی اس خوف و رعب جیسی صورتحال میں حضرت محمد (ص) کے ساتھ رہنا اور انکا ساتھ دینا، یہ کسی جانی خطرے سے کم نہیں تھا، لیکن ان تمام جانی اور مالی خطرات سے بالا تر ہو کررسول خدا کی حمایت کرنے والوں میں فقط حضرت خدیجہ اور حضرت ابو طالب کا نام لیا جا سکتا ہے کہ جہنوں نے تاریخ اسلام کی گواہی کے مطابق اسلام کے نو پا شجر کی آبیاری کرنے کے لیے کسی بھی قربانی اور فدا کاری سے دریغ نہیں کیا۔ ان اسکے باوجود بھی بعض شیعہ مخالف کتب میں حضرت ابو طالب کے بارے میں بعض ایسے مطالب دیکھے جاتے ہیں کہ جن سے ان مصنفین کی تاریخ اسلام کی اس عظیم شخصیت سے دشمنی اور حسد ظاہر ہوتا ہے۔ بے شک تاریخ اسلام میں حضرت ابو طالب کے مؤمن و مسلمان ہونے کے بارے میں جو بہت سے دلائل اور شواہد ذکر کیے گئے ہیں، اگر مسلمانوں کی کسی دوسری من پسند شخصیت کے بارے میں ان دلائل کا فقط ایک حصہ بھی تاریخ کی کتب میں نقل کیا گیا ہوتا تو بلا شک وہ تاریخ اسلام کی سب سے پسندیدہ شخصیت ہوتی، لیکن اس میں کیا راز ہے کہ اتنے محکم و واضح دلائل ہونے کے باوجود بھی آج تک بعض مسلمان حضرت ابو طالب کو کافر قرار دیتے ہیں ، ایک باریک بین اور با بصیرت انسان آسانی سے یہ بات جان سکتا ہے کہ ان لوگوں کا حضرت ابو طالب کے بارے میں ایسی باتیں کرنے سے ہدف فقط انکی اولاد اور خاص طور پر امیر المؤمنین علی (ع) سے اپنے بغض و کینہ کا اظہار کرنا ہے۔
حضرت ابو طالب کی خانوادگی زندگی
نسب اور ولادت
آپ کا نسب عبد مناف بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب ہے۔ آپ اپنی کنیت ابو طالب سے مشہور تھے[1]۔ ابن عنبہ اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں جس میں آپ کو عمران کے نام سے یا کیا گیا ہے[2]۔
حضرت محمدؐ کی ولادت سے 35 سال پہلے آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کے والد عبدالمطلب جو پیغمبر اکرمؐ کے جد امجد بھی ہیں، تمام مورخین انہیں عرب قبائل کا سردار اور ادیان ابراہیمی کے مبلغ اعظم کے نام سے جانے جاتے ہیں۔آپ کی والدہ فاطمہ بنت عمرو بن عائذ مخزومی ہیں[3] ۔
ابوطالب اور پیغمبر اکرمؐ کے والد عبداللہ سگے بھائی تھے[4] ۔
زوجہ اور اولاد
حضرت ابوطالب کو الله نے ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسد کے بطن سے چار بیٹے: طالب، عقیل،‌ جعفر اور حضرت علیؑ عطا کئے۔ بعض مآخذ میں ام ہانی (فاخِتہ) اور جُمانَہ کو آپ کی بیٹی قرار دی گئی ہیں[5] ۔ بعض دیگر مآخذ میں آپ کی ایک اور بیٹی رَیطَہ (أسماء) کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ اسی طرح "طُلَیق" کے نام سے ایک اور بیٹے نیز "عَلَّہ" کے نام سے ایک اور زوجہ کا بھی نام لیا جاتا ہے[6] ۔
پیشہ اور منصب
ابو طالبؑ مکہ میں حجاج کی میزبانی اور سقّائی کے مناصب پر فائز تھے۔ وہ تجارت سے بھی منسلک تھے اور عطریات اور گندم کی خرید و فروخت کرتے تھے[7] ۔ امیرالمؤمنینؑ سے منقولہ ایک حدیث ـ نیز مؤرخین کے اقوال کے مطابق ـ حضرت ابو طالبؑ تہی دست ہونے کے باوجود قریش کے عزیز اور بزرگ تھے اور ہیبت و وقار اور حکمت کے مالک تھے[8]۔ ابو طالبؑ کی فیاضی اور جود و سخا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ "جس دن وہ لوگوں کو کھانے پر بلاتے قریش میں سے کوئی بھی کسی کو کھانے پر نہیں بلاتا تھا[9] ۔ ابو طالبؑ نے سب سے پہلے عصر جاہلیت میں حلف اور قسم کو، مقتول کے وارثوں کی شہادت میں، لازمی قرار دیا اور اسلام نے اس کی تائید و تصدیق کی[10] ۔ حلبی کہتے ہیں: ابو طالبؑ نے اپنے والد ماجد حضرت عبد المطلب بن ہاشمؑ کی مانند شراب نوشی کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا[11]۔
رسول اکرمؐ کی کفالت اور سرپرستی
ابو طالبؑ نے اپنے والد کی ہدایت پر اپنے آٹھ سالہ بھتیجے حضرت محمدؐ کی سرپرستی کا بیڑا اٹھایا [12]۔ ابن شہرآشوب کہتے ہیں: جناب عبد المطلب نے وقت وصال کے وقت ابو طالبؑ کو بلوایا اور کہا: بیٹا ! تم محمدؐ کی نسبت میری محبت کی شدت سے آگاہ ہو، اب دیکھونگا کہ ان کے حق میں میری وصیت پر کس طرح عمل کرتے ہو"۔ ابو طالبؑ نے جوابا کہا: ابا جان ! مجھے محمدؐ کے بارے میں سفارش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ میرا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے۔
ابن شہر آشوب مزید کہتے ہیں: "عبد المطلبؑ" کا انتقال ہوا تو ابو طالبؑ نے رسول خداؐ کو کھانے پینے اور لباس و پوشاک میں اپنے اہل خانہ پر مقدم رکھا[13]۔ ابن ہشام لکھتے ہیں: "ابو طالبؑ رسول خداؐ پر خاص توجہ دیتے تھے؛ اور آپؐ پر اپنے بیٹوں سے زیادہ احسان کرتے تھے، بہترین غذا آپؐ کے لئے فراہم کرتے تھے اور آپؐ کا بستر اپنے بستر کے ساتھ بچھا دیتے تھے اور ان کو ہمیشہ ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے [14]۔ ابو طالبؑ اپنے بیٹوں بیٹیوں کو کھانا کھلانے کے لئے دسترخوان بچھاکر کہا کرتے تھے کہ "رک جاؤ کہ میرا بیٹا (رسول خداؐ) آ جائے [15]۔
رسول اللہؐ کے حامی و پشت پناہ
تاریخی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو طالبؑ نے قریش کے دباؤ، سازشوں دھونس دھمکیوں اور ان کی طرف لاحق خطرات کے مقابلے میں رسول اکرمؐ کی بےشائبہ اور بےدریغ حمایت جاری رکھی۔ گوکہ ابو طالبؑ کی عمر رسول اللہؐ کی بعثت کے وقت پچھتر برس ہوچکی تھی، تاہم انہوں نے ابتداء ہی سے آپؐ کی حمایت و ہمراہی کو ثابت کر دکھایا۔ انہوں نے قریش کے عمائدین سے باضابطہ ملاقاتوں کے دوران رسول اللہؐ کی غیر مشروط اور ہمہ جہت حمایت کا اعلان کیا [16]۔ یعقوبی کے مطابق یہ حمایت اور محبت اس حد تک تھی کہ جناب ابو طالبؑ اور ان کی زوجہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت اسد(س) رسول اللہؐ کے لئے ماں باپ کی صورت اختیار کرگئے تھے[17] ۔ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت ابوطالب کی وفات کے وقت فرمایا: جب تک ابوطالب بقید حیات تھے قریش مجھ سے خوف محسوس کرتے تھے[18] ۔ شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ جس دن ابوطالب کی وفات ہوئی جبرئیل پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئے اور کہا: مکہ سے باہر نکلو کیونکہ اب اس میں آپ کا کوئی حامی اور مددگار نہیں رہا [19]۔
بیٹے کو ہدایت
جب غار حرا میں خدا کا کلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہؤا تو علی علیہ السلام آپ (ص) کے ہمراہ تھے چنانچہ آپ (ص) نے سب سے پہلے اپنے وصی و جانشین اور بھائی کو دعوت دی اور علی علیہ السلام نے لبیک کہتے ہوئے رسول اللہ (ص) کی امامت میں نماز ادا کی اور جب گھر آئے تو اپنے والد کو ماجرا کہہ سنایا اور کہا :میں رسول اللہ (ص) پر ایمان لایا ہوں تو مؤمن قریش نے ہدایت کی: بیٹا! وہ تم کو خیر و نیکی کے سوا کسی چیز کی طرف بھی نہیں بلاتے ، تم ہر حال میں آپ (ص) کے ساتھ رہو[20]۔
شریک حیات کو ہدایت
سرپرستی کا اعزاز ملا تو رسول اللہ (ص) کو گھر لے آئے اور اپنی اہلیہ کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: «یہ میرے بھائی کے فرزند ہیں جو میرے نزدیک میری جان و مال سے زیادہ عزیز ہیں؛ خیال رکھنا! مبادا کوئی ان کو کسی چیز سے منع کرے جس کی یہ خواہش کریں » اور حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا بھی ایسی ہی تھیں اور ان کو پالتی رہیں اور ان کی ہر خواہش پوری کرتی رہیں اور رسول اللہ (ص) کے لئے مادر مہربان تھیں [21]۔
کفر کے خلاف جدوجہد
وہ اپنے والد ماجد (حضرت عبدالمطلب) کی مانند یکتاپرستی کے راستے پر گامزن رہے اور کفر و شرک اور جہل کے زیر اثر نہیں آئے۔
مشرکین کے مد مقابل آہنی دیوار
مورخین نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ابوطالب (ع) رسول خدا (ص) کو بہت دوست رکھتے تھے اور اپنے بیٹوں پر بھی اتنی مہربانی روا نہیں رکھتے تھے جتنی کہ وہ رسول اللہ (ص) پر روا رکھتے تھے؛ ابوطالب (ع) رسول اللہ (ص) کے ساتھ سویا کرتے تھے اور گھر سے باہر نکلتے وقت آپ (ص) کو ساتھ لے کر جاتے تھے؛ مشرکین نے ابوطالب علیہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آزار و اذیت پہنچانے کا وہ سلسلہ شروع کیا جو حیات ابوطالب (ع) میں ان کے لئے ممکن نہ تھا، چنانچہ رسول اللہ (ص) نے خود بھی اس امر کی طرف بار بار اشارہ فرمایا ہے[22]۔
ابو طالب کی خدمت میں قریش کا آخری وفد
رسول اللہ (ص) نے شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعدپھر حسبِ معمول دعوت وتبلیغ کا کام شروع کردیا اور اب مشرکین نے اگر چہ بائیکاٹ ختم کردیا تھا لیکن وہ بھی حسب معمول مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے اور اللہ کی راہ سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے اور جہاں تک ابو طالب کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی دیرینہ روایت کے مطابق پوری جاں سپاری کے ساتھ اپنے بھتیجے کی حمایت وحفاظت میں لگے ہوئے تھے لیکن اب عمر اَسّی (80) سال سے متجاوز ہوچلی تھی۔ کئی سال سے پے در پے سنگین آلام وحوادث نے خصوصاً محصوری نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے قویٰ مضمحل ہوگئے تھے اور کمر ٹوٹ چکی تھی، چنانچہ گھاٹی سے نکلنے کے بعد چند ہی مہینے گزرے تھے کہ انہیں سخت بیماری نے آن پکڑا۔ اس موقع پر مشرکین نے سوچا کہ اگر ابوطالب کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد ہم نے اس کے بھتیجے پر کوئی زیادتی کی تو بڑی بدنامی ہوگی۔ اس لیے ابوطالب کے سامنے ہی نبی(ص) سے کوئی معاملہ طے کرلینا چاہیے۔ اس سلسلے میں وہ بعض ایسی رعائتیں بھی دینے کے لیے تیار ہوگئے جس پر اب تک راضی نہ تھے۔ چنانچہ ان کا ایک وفد ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ ان کاآخری وفد تھا۔ ابن اسحاق وغیرہ کا بیان ہے کہ جب ابوطالب بیمار پڑ گئے اور قریش کو معلوم ہوا کہ ان کی حالت غیر ہوتی جارہی ہے تو انہوں نے آپس میں کہا : دیکھو ! حمزہ اور کچھ دیگر مسلمان ہوچکے ہیں اور محمد(ص) کا دین قریش کے ہر قبیلے میں پھیل چکا ہے۔ اس لیے چلو ابو طالب کے پاس چلیں کہ وہ اپنے بھتیجے کو کسی بات کا پابند کر یں اور ہم سے بھی ان کے متعلق عہد لے لیں۔ کیونکہ واللہ! ہمیں اندیشہ ہے لوگ ہمارے قابو میں نہ رہیں گے۔ ایک روایت یہ ہے کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ بڈھا مر گیا اور محمد (ص) کے ساتھ کوئی گڑ بڑ ہوگئی تو عرب ہمیں طعنہ دیں گے۔ کہیں گے کہ انہوں نے محمد (ص) کو چھوڑے رکھا۔(اور اس کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت نہ کی) لیکن جب اس کا چچا مر گیا تو اس پر چڑھ دوڑے۔ بہرحال قریش کا یہ وفد ابوطالب کے پاس پہنچا اور ان سے گفت وشنید کی۔ وفد کے ارکان قریش کے معزز ترین افراد تھے، یعنی عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام ، امیہ بن خلف ،ابو سفیان بن حرب اور دیگر اشرافِ قریش جن کی کل تعداد تقریبا ً پچیس تھی۔
انہوں نے کہا: اے ابو طالب ! ہمارے درمیان آپ کا جو مرتبہ ومقام ہے اسے آپ بخوبی جانتے ہیں۔ اور اب آپ جس حالت سے گزر رہے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ آپ کے آخری ایام ہیں، ادھر ہمارے اور آپ کے بھتیجے کے درمیان جو معاملہ چل رہا ہے اس سے بھی آپ واقف ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ انہیں بلائیں اور ان کے بارے میں ہم سے کچھ عہد وپیمان لیں اور ہمارے بارے میں ان سے عہد وپیمان لیں، یعنی وہ ہم سے دستکش رہیں اور ہم ان سے دستکش رہیں۔ وہ ہم کو ہمارے دین پر چھوڑ دیں اور ہم ان کو ان کے دین پر چھوڑ دیں۔
اس پر ابو طالب نے آپ(ص) کو بلوایا اور آپ(ص) تشریف لائے تو کہا: بھتیجے ! یہ تمہاری قوم کے معزز لوگ ہیں، تمہارے ہی لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں کچھ عہد وپیمان دے دیں اور تم بھی انہیں کچھ عہد وپیمان دے دو۔ اس کے بعد ابوطالب نے ان کی یہ پیشکش ذکر کی کہ کوئی بھی فریق دوسرے سے تعرض نہ کر ے۔جواب میں رسول اللہ(ص) نے وفد کو مخاطب کر کے فرمایا : آپ لوگ یہ بتائیں کہ اگر میں ایک ایسی بات پیش کروں جس کے اگر آپ قائل ہوجائیں تو عرب کے بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے زیرِ نگیں آجائے توآپ کی رائے کیاہوگی ؟ بعض روایتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ(ص) نے ابو طالب کو مخاطب کرکے فرمایا: میں ان سے ایک ایسی بات چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کے تابع فرمان بن جائیں اور عجم انہیں جزیہ ادا کریں۔ ایک روایت میں یہ مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا : چچا جان ! آپ کیوں نہ انہیں ایک ایسی بات کی طرف بلائیں جو ان کے حق میں بہتر ہے۔ انہوں نے کہا: تم انہیں کس بات کی طرف بلانا چاہتے ہو ؟۔ آپ نے فرمایا: میں ایک ایسی بات کی طرف بلانا چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کا تابع فرمان بن جائے اور عجم پر ان کی بادشاہت ہوجائے...ابن اسحاق کی ایک روایت یہ ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا : آپ لوگ صرف ایک بات مان لیں جس کی بدولت آپ عرب کے بادشاہ بن جائیں گے اور عجم آپ کے زیر ِ نگیں آجائے گا۔ بہر حال جب یہ بات آپ(ص) نے کہی تو وہ لوگ کسی قدر توقف میں پڑ گئے اور سٹپٹا سے گئے۔ وہ حیران تھے کہ صرف ایک بات جو اس قدر مفید ہے اسے مسترد کیسے کر دیں ؟ آخر کار ابو جہل نے کہا : اچھا بتاؤ تو وہ بات کیا ہے ؟ تمہارے باپ کی قسم ! ایسی ایک بات کیا دس باتیں بھی پیش کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں۔ آپ(ص) نے فرمایا : آپ لوگ لا الٰہ الا اللّٰہ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔ اس پر انہوں نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر اور تالیاں بجا بجا کر کہا : محمد! (ص) تم یہ چاہتے ہو کہ سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالو ؟ واقعی تمہارا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ پھر آپس میں ایک دوسر ے سے بولے : اللہ کی قسم! یہ شخص تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔ لہٰذا چلو اور اپنے آباء واجداد کے دین پر ڈٹ جاؤ، یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس شخص کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی اپنی راہ لی[23]۔
ایمان ابو طالب پر چند دلیلیں
ایمان ابو طالب شیعہ اور اہل سنت کے درمیان ایک اہم موضوع رہا ہے ، علمائے شیعہ نے مخالفین کے دلائل کے کافی شافی جوابات دیئے ہیں ، رسول خدا(ص) اور ائمہ اہل بیت (ع) کی احادیث کی روشنی میں، ابو طالب(ع) کے ایمان پر ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، تاہم مخالفین کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے ان کے ایمان پر دلائل کافیہ اور براہین قاطعہ قائم کئے ہیں، جن میں سے بعض کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔
ابو طالب(ع) کی ذاتی روش
ہم نے دیکھا کہ ابو طالب(ع) ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے حبشہ کے بادشاہ کو اسلام کی دعوت دی، وہی جنہوں نے اپنے بیٹے کو دعوت دی اور حکم دیا کہ نماز میں اپنے چچا زاد بھائی(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے جاملیں۔ وہی جنہوں نے اپنی زوجۂ مکرمہ فاطمہ بنت اسد(س) اور اپنی اولاد کو اسلام کی دعوت دی ہے۔ اور اپنے بھائی حمزہ کو دین اسلام میں ثابت قدمی کی تلقین کی اور ان کے اسلام لانے پر سرور و شادمانی کا اظہار کیا اور اپنے بیٹے علی (ع)کی حوصلہ افزائی کی[24]۔
انہوں نے بیٹے یعنی علی(ع)کو رسول اکرم(ص) کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو انہيں منع نہيں کیا بلکہ بیٹے جعفر سے کہا کہ جاکر بائیں جانب سے ان کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور نماز ادا کریں[25]۔
انہوں نے رسول خدا(ص) کا ساتھ دیتے ہوئے تمام مصائب کو جان کی قیمت دے کر خریدا اور زندگی کے آخری لمحے تک آپ(ص) کی حمایت سے دست بردار نہ ہوئے۔ اور حتی کہ موت کے لمحات میں قریش اور بنو ہاشم کو جو وصیتیں کیں وہ ان کے ایمان کامل کا ثبوت ہیں۔
ابو طالب(ع) کی وصیت قریش کے نام
ترجمہ: جب حضرت ابو طالب(ع) کا آخری وقت ہؤا اور قریش کے عمائدین ان کے گرد جمع ہوئے تو آپ نے انہیں وصیت کی اور فرمایا: "اے گروہ قریش! تم خلق الله میں خدا کی برگزیدہ قوم ہو میں تمہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے بارے میں نیکی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ قریش کے امین اور عالم عرب میں صادق ترین (سب سے زیادہ سچے اور راست باز) فرد ہیں؛ آپ(ص) ان تمام صفات محمودہ کے حامل ہیں جن کی میں نے تمہیں تلقین کی؛ وہ ہمارے لئے ایسی چیز لائے ہیں جس کو قلب قبول کرتا ہے جبکہ دوسروں کی ملامت کے خوف سے زبان اس کا انکار کرتی ہے۔
خدا کی قسم! گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ حتی دیہاتوں اور گرد و نواح کے لوگ اور لوگوں کے پسماندہ طبقات آپ(ص) کی دعوت قبول کرتے ہیں اور آپ(ص) کے کلام کی تصدیق کرتے ہیں اور آپ(ص) کے امر (نبوت و رسالت) کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں ۔۔۔ اے گروہ قریش! آپ(ص) تمہارے باپ کے فرزند ہیں لہذا آپ(ص) کے لئے یار و یاور اور آپ(ص) کی جماعت کے لئے حامی و ناصر بنو۔
خدا کی قسم! جو بھی آپ(ص) کے راستے پر گامزن ہوگا وہ ہدایت پائے گا اور جو بھی آپ(ص) کی ہدایت قبول کرے گا، سعادت و خوشبختی پائے گا؛ اور اگر میرے اجل میں تأخیر ہوتی اور میں زندہ رہتا تو آپ (ص) کو درپیش تمام مشکلات [بدستور] جان و دل سے قبول کرتا اور بلاؤں اور مصائب کے سامنے [بدستور] آپ(ص) کا تحفظ کرتا[26]۔
ابو طالب(ع) نے بنو ہاشم سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا :
يا معشر بني هاشم! أطيعوا محمدا وصدقوه تفلحوا وترشدوا ۔
ترجمہ: اے جماعت بنی ہاشم حضرت محمد( ص) کی اطاعت کرو اور ان کی تصدیق کرو تاکہ فلاح اور بہتری اور رشد و ہدایت پاؤ[27]۔
حضرت ابو طالب(ع) کے بعض اشعار
اِن ابن آمنة النبی محمدا -- عندی یفوق منازل الاولاد۔
ترجمہ: حقیقتا فرزند آمنہ(ص) کی شان و منزلت میرے نزدیک میری اولاد پر فوقیت رکھتی ہے۔
ان کا مشہور ترین قصیدہ "قصیدہ لامیہ" کے عنوان سے مشہور ہے جس کا آغاز اس مطلع سے ہوتا ہے:
خليلي ما أذني لاول عاذل --- بصغواء في حق ولا عند باطل۔
ترجمہ: میرے ہم نشین! میں کسی صورت میں بھی ملامت کرنے والوں کی بات نہیں سنتا اور حق کی راہ میں کسی حالت میں بھی کفر اور باطل کی طرف مائل نہیں ہوتا[28]۔
علامہ امینی کہتے ہیں:
میں یہ نہ جان سکا کہ رسول خدا (ص) کی نبوت کی تصدیق اور رسالت نبی(ص) کی گواہی اور شہات کو کس طرح ہونا چاہئے کہ ابو طالب(ع) کے اشعار میں تصدیق و شہادت پر مبنی بے شمار اور مختلف النوع عبارتیں ملتی ہیں جس کو شہادت و تصدیق اور گواہی و اقرار و ایمان نہیں سمجھا جاتا؟ ان بےشمار عبارتوں میں سے صرف ایک عبارت کسی اور شخص کی شاعری یا نثر میں پائی جاتی تو سب کہہ دیتے کہ "یہ شخص مسلمان ہے لیکن منکرین کے نزدیک اتنی ساری عبارتیں ابو طالب(ع) کے اسلام و ایمان کی دلیل نہیں ہیں! اور یہ انکار حیرت اور عبرت کا سبب ہے [29]۔
ابن ابی الحدید کہتے ہیں:
ابو طالب(ع) کے یہ اشعار جداگانہ طور پر شایت قطعیت تک نہ پہنچ سکیں لیکن ان کی شاعری کی مجموعی دلالت تواتر کی حد تک پہنچ گئی ہے؛ اور ان کے اشعار ایک موضوع میں اشتراک رکھتے ہیں اور وہ مشترکہ موضوع رسول اللہ(ص) کی نبوت و رسالت کی تصدیق ہے[30]۔
ان اشعار میں سے ایک کچھ یوں ہے:
اے شاہد الہی! گواہ رہنا کہ میں پیغمبر احمد(ص)کے دین پر ہوں۔ یا دیگر اشعار میں کہتے ہیں: الله نے اپنے نبى محمد(ص)كو عزت و کرامت عطا کی ہے؛ پس باعزت ترین اور بہترین خلق خدا لوگوں کے درمیان احمد(ص)ہیں؛ وہ، وہ ہیں جو بنو ہاشم میں سے بہتر و افضل احمد(ص)ہیں جنہیں زمانۂ فترت (یعنی انبیاء کی غیر موجودگی کے زمانے) ميں اللہ تعالی نے رسول بنا کر بھیجا۔ یا پھر کہتے ہیں: میں نے اپنے پروردگار کے رسول(ص) کی مدد و حمایت کی؛ اپنی بجلی (صاعقہ) کی سی تلوار سے اللہ کے رسول(ص) کی پشت پناہی کرتا ہوں؛ اس حامی و پشت پناہ کی مانند جو اپنے نبی(ص) کا ہمدرد ہے[31]۔
سے ابوطالب علیہ السلام نے یہ اشعار کہے:
وأبیضَ یسْتَسقى الغَمامُ بِوَجْههِ - ثِمالُ الیتامى عِصْمَةٌ للأَرامِلِ
ترجمہ: وہ سفید رو جس کے نورانی چہرے کی برکت سے لوگ بارش کے بادل کی التجا کرتے ہیں وہی جو یتیموں کا سرمایۂ سرور اور بیواؤوں کی پناہگاہ ہے۔
یلوذ به الهُلاّكُ من آل هاشمٍ - فَهُمْ عِنْدَهُ فی نِعمةٍ وفواضلٍ
ترجمہ: بنوہاشم کے بے چارہ افراد اس کی پناہ لیتے ہیں اور جب تک اس کے قریب ہوتے ہیں نعمت و بخشش میں زندگی بسر کرتے ہیں[32]۔
ألم تعلموا أنا وجدنا محمدا - نبيا كموسى خط في أول الكتب
ترجمہ: كيا تم نہيں جانتے كہ ہم نے محمد(ص)کو موسي(ع) كى طرح خدا كا نبى پايا ہے؟ يہ امر تمام كتابوں كى ابتداء (یا انبیاء سلف کی کتب) میں مذكور ہے
نبي أتاه الوحي من عند ربه - ومن قال: لا، يقرع بهاسن نادم
ترجمہ: وہ پیغمبر ہیں اور وحی اللہ کی جانب سے ان پر نازل ہوتی ہے اور جو اس حقیقت کا انکار کرے ندامت کی وجہ سے انگشت بدندان رہ جائے گا
يا شاهد الله علي فاشهد - إني على دين النبي أحمد - من ضلّ فی الدّین فانّی مهتد
ترجمہ: اے اللہ کی طرف کے شاہد (اے آسمانی گواہ) تو گواہ رہ کہ بے شک میں پیغمبر خدا احمد مختار(ص) کے دین پر ہوں؛ جو دین میں گمراہ ہوا (سو ہوا لیکن)، میں ہدایت یافتہ ہوں
أنت الرسول رسول الله نعلمه - عليك نزل من ذي العزة الكتب
ترجمہ: آپ بھیجے گئے (رسول) ہیں، اللہ کے بھیجے ہوئے، ہم یقین کے ساتھ اس حقیقت کو جانتے ہیں آپ کی طرف صاحب عزت (خدا) کی طرف سے کتب نازل ہوئی ہیں
أنت النبیُّ محمّدُ - قرمٌ أغرُّ مسوَّدُ۔
ترجمہ: آپ خدا کے پیغمبر محمد(ص)ہیں اور آپ بزرگوار اور نورانی بزرگ و آقا و سید ہیں
لمسوّدینَ أكارم - طابوا وطاب المولدُ۔
ترجمہ: ان لوگوں کے لئے جو کریم ہیں اور پاک ہیں اور پاک بزرگوں کی نسل سے ہیں
نعم الاُرومةُ أصلُها - عمرو الخضمّ الأوحدُ۔
ترجمہ: آپ کی نسل اور آپ کا نسب بہترین ہے جو عمرو (ہاشم بن عبدمناف) کی طرف لوٹتا ہے جو بہت زیادہ بخشنے والے اور بےمثل و مانند تھے
أو تؤمنوا بكتاب منزل عجب - على نبي كموسى أوكذي النون۔
ترجمہ:یا ایمان لاؤ اور عجیب کتاب پر جو نازل ہوئی ایک نبی پر جو موسی یا یونس کی طرح ہیں
وظلم نبي جاء يدعو إلى الهدى - و أمر أتي من عند ذي العرش قيم۔
ترجمہ: جو نبى ہدايت كى طرف بلانے آيا اس پر ظلم ہوا ، وہ صاحب عرش كى طرف سے آنے والى گراں بہا چيز كى طرف لوگوں كو بلانے آيا تھا
لقد أكرم الله النبي محمدا - فاكرم خلق الله في الناس أحمد۔
ترجمہ: الله نے اپنے نبى محمد(ص)كو عزت و کرامت عطا کی ہے؛ پس باعزت ترین اور بہترین خلق خدا لوگوں کے درمیان احمد(ص)ہیں
وخير بني هاشم أحمد - رسول الإله على فترة۔
ترجمہ: بنو ہاشم میں سے بہتر و افضل احمد(ص)ہیں جو اللہ کے رسول(ص) ہیں زمانۂ فترت (یعنی انبیاء کی غیر موجودگی کے زمانے) ميں
والله لا أخذل النبي - ولا يخذله من بني ذوحسب۔
ترجمہ: الله كى قسم نہ ميں نبى كو بے يار ومدد گار چھوڑوں گا اور نہ ہى ميرے شريف ونجيب بيٹے آپ(ص) كو تنہا چھوڑ سكتے ہيں
أتعلم ملك الحبش أن محمدا - نبيأ كموسى والمسيح ابن مريم۔
ترجمہ: کیا جانتے ہو اے بادشاہ حبشہ! کہ بےشک محمد(ص)نبی ہیں موسی اور عیسی بن مریم(ع) کی طرح
أتى بالهدى مثل الذي أتيا به - فكل بأمر الله يهدي ويعصم۔
ترجمہ: ہدایت و کتاب لے کے آئے جس طرح کہ موسی اور عیسی کتاب لے کر آیئے تھے اور یہ سب اللہ کے حکم سے ہدایت پاتے اور گناہوں سے بچتے ہیں
وانكم تتلونه في كتابكم - بصدق حديث لا حديث الترجم۔
ترجمہ: اور تم نصاری اس خبر کو اپنی کتاب میں سچی خبر کے ساتھ پڑھتے ہو نہ ایسے کلام میں جو گمان و تخمین پر مبنی ہو
فلا تجعلوا لله ندا فاسلموا - فان طريق الحق ليس بمظلم۔
ترجمہ: پس اللہ كے ساتھ كسى كو شريك قرار نہ دو اور اسلام قبول کرو کیونکہ حق کا راستہ تاریک نہیں ہے
فصبرأ أبا يعلى على دين أحمد - وكن مظهرا للدين وفقت صابرا۔
ترجمہ: اے ابا یعلی (حمزہ)! دین احمد(ص)پر صبر و استقامت کرو اور اپنا دین آشکار کردو خدا تمہیں صبر و استقامت کی توفیق دے
وحط من أتى بالحق من عند ربه - بصدق وعزم لا تكن حمز كافرا۔
ترجمہ: جو (پیغمبر(ص)) اپنے پروردگار کی طرف حق و حقیقت کے ساتھ آئے ہیں ان کی حفاظت صدق دل اور عزم راسخ کے ساتھ کرنا اور کبھی بھی کافر نہ ہونا
فقد سرني أن قلت: انك مؤمن - فكن لرسول الله في الله ناصرا۔
ترجمہ: بےشک مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے کہا کہ تم مؤمن ہوچکے ہو پس اللہ کی راہ میں رسول اللہ(ص) کے حامی و ناصر بن کے رہنا
وباد قريشا في الذي قد أتيته - جهارا، وقل: ما كان أحمد ساحرأ۔
ترجمہ: اپنا ایمان قریش کے سامنے اپنے ایمان اور عقیدے کا کھل کر اظہار کرو اور کہہ دو کہ احمد(ص)ساحر نہیں ہیں[33]۔
حدیث قدسی
حضرت ابو طالب(ع) پر جہنم کی آگ حرام ہے:
جبرائیل رسول اللہ(ص) پر نازل ہوئے اور کہا: يا محمد إن الله جل جلاله يقرئك السلام ويقول: إني قد حرمت النار على صلب أنزلك، وبطن حملك، وحجر كفلك، فقال: يا جبرئيل بين لي ذلك، فقال: أما الصلب الذي أنزلك فعبد الله ابن عبد المطلب، وأما البطن الذي حملك فآمنة بنت وهب، وأما الحجر الذي كفلك فأبو طالب بن عبد المطلب وفاطمة بنت أسد۔
ترجمہ: بتحقیق اللہ جل جلالہ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے: میں نے آگ کو حرام قرار دیا اس صلب پر جو آپ کو دنیا میں لے کر آئی، اور اس کوکھ پر جس نے آپ کو حمل کیا اور اس آغوش پر جس نے آپ کی پرورش کی۔ میں نے کہا: یا جبرائیل! وضاحت کیجئے؛ تو جبرائیل نے کہا: جو صلب آپ کو دنیا میں لائی وہ عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں اور جس کوکھ نے آپ کو حمل کیا وہ آمنہ بنت وہب ہیں اور جس آغوش نے آپ کی پرورش کی وہ ابو طالب(ع) اور فاطمہ بنت اسد ہیں[34]۔
دوسری روایت میں ہے کہ خداوند متعال نے جبرائیل کے زبانی رسول خدا(ص) سے فرمایا: اے (محمد(ص))! خداوند متعال نے جہنم کی آگ حرام کردی اس صلب پر جس نے آپ کو منتقل کیا (یعنی آپ کے باپ دادا)، اس کوکھ پر جس میں آپ پروان چڑھے (والدہ مکرمہ)، اور اس دامن اور گود پر جس نے آپ کی پرورش کی (ابو طالب(ع) اور فاطمہ بنت اسد(س))[35]۔
احادیث معصومین(علیہم الاسلام)
رسول اللہ(ص) نے فرمایا:
وقال صلى الله عليه وآله يحشر ابو طالب يوم القيمة في زى الملوك وسيما الانبياء عليهم السلام
ترجمہ: ابو طالب(ع) قیامت کے روز بادشاہوں کے زمرے اور انبیاء علیہم السلام کی صورت میں محشور کئے جائیں گے[36]۔
رسول خدا(ص) نے ابو طالب(ع) اور خدیجہ(س) کی وفات کے موقع پر فرمایا:
اجتمعت على هذه الامة في هذه الايام مصيبتان لا أدري بأيهما أنا أشد جزعا، يعني مصيبة خديجة وأبي طالب. وروي عنه أنه قال: إن الله، عزوجل، وعدني في أربعة: في أبي وأمي وعمي وأخ كان لي في الجاهلية
ترجمہ: ان دنوں اس امت پر دو مصیبتیں اکٹھی ہوئی ہیں، نہ معلوم کہ مجھے ان دو مصیبتوں میں سے کس پر زیادہ صدمہ پہنچا ہے، خدیجہ کی مفارقت پر یا ابوطالب کی جدائی پر۔ اور مروی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: خدا نے مجھے قیامت میں چار افراد کی مغفرت کا وعدہ (یا شفاعت کا اذن) دیا ہے: میرے والد ((ع))، میری والدہ (آمنہ(ع))، میرے چچا ابو طالب(ع)، اور میرا بھائی جن کا انتقال جاہلیت کے دور میں ہوا تھا[37]۔
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
۔۔۔ اس خدا کی قسم! جس نے محمد(ص)کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے کہ اگر میرے والد روئے زمین پر تمام گنہگاروں کی شفاعت کریں تو اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائے گا؛ کیا میرے والد جہنم میں عذاب میں مبتلا ہونگے اور ان کا بیٹا قسیم الجنۃ والنار (جنت اور دوزخ کا تقسیم کرنے والا) ہوگا؟ اس خدا کی قسم! جس نے محمد(ص)کو نبی برحق بنا کر مبعوث فرمایا ہے کہ ابو طالب(ع) کا بتحقیق ابو طالب(ع) کا نور تمام خلائق کے انوار کو بجھادے گا سوائے پانچ انوار کے: محمد کا دور اور میرا نور اور فاطمہ کا نور اور حسن کا نور اور حسین کا نور اور ان کے بیٹوں کو نور جو امام ہیں، جان لو کہ ان کا نور ہمارے نور سے ہے جس کو اللہ نے خلقت آدم سے دو ہزار سال قبل خلق فرمایا تھا[38]۔
امیرالمؤمنین(ع)فرماتے ہیں:
إن أبي حين حضره الموت شهده رسول الله صلى الله عليه واله فأخبرني فيه بشئ أحب إلي من الدنيا وما فيها
ترجمہ: میرے والد حالت موت میں پہنچے تو رسول(ص) نے ان کی بالین پر حاضر ہوئے اور ان (میرے والد) کے بارے میں مجھے ایسی بشارت دی جو میرے لئے دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے[39]۔
امام سجاد(ع) نے فرمایا:
واعجبا كل العجب أيطعنون على أبي طالب أو على رسول الله صلى الله عليه وآله وقد نهاه الله أن يقر مؤمنة مع كافر في غير آية من القرآن ؟ ولا يشك أحد أن فاطمة بنت أسد رضي الله عنهما من المؤمنات السابقات فانها لم تزل تحت أبي طالب جتى مات أبو طالب رضي الله عنه
ترجمہ: کس قدر عجیب ہے اور کتنی حیرت کی بات ہے؛ کیا وہ ابو طالب(ع) پر الزام لگاتے ہیں یا وہ درحقیقت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ پر طعن و تشنیع کررہے ہیں؟ حالانکہ خداوند متعال نے اپنے رسول(ص) کو قرآن میں ایک سے زیادہ آیات میں منع کیا ہے کہ وہ مؤمن خاتون کو کافر مرد کے پاس نہ رہنے دیں؛ اور کسی کو بھی اس حقیقت میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا ان مؤمنات میں سے ہیں جو سابقین اولین کے زمرے میں آتے ہیں اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ وہ آخری لمحے تک ابو طالب(ع) کے نکاح میں رہیں[40]۔
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
لو وضع إيمان أبي طالب في كفة ميزان وإيمان هذا الخلق في الكفة الأخرى لرجح إيمانه ثم قال: ألم تعلموا أن أمير المؤمنين عليا عليه السلام كان يأمر أن يحج عن عبد الله وابنه وأبي طالب في حياته ثم أوصى في وصيته بالحج عنهم؟
ترجمہ: بے شک اگر ابوطالب (علیہ السلام) کا ایمان ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور تمام خلائق کا ایمان دوسرے پلڑے میں تو ابوطالب (علیہ السلام) کا ایمان ان سب پر بھاری ہوگا؛ اور فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ امیرالمؤمنین(ع)اپنی حیات میں حکم دیا کرتے تھے کہ (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ کے والد ماجد) عبد اللہ بن عبدالمطلب، اور ان کے فرزند، اور آپ(ص) کی والدہ (آمنہ(س) اور ابو طالب(ع) کے لئے حج بجا لایا جائے اور اپنی شہادت کے وقت اپنی وصیت میں ہدایت کی کہ ان حضرات کی جانب سے حج بجا لایا جاتا رہے[41]۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
ان أبا طالب من رفقاء النبيين والصديقين والشهداء والصالحين وحسن اولئك رفيقا
ترجمہ: بےشک ابو طالب(ع) انبیاء، صدیقین، شہدائے راہ خدا اور صالحین کے رفیق و ہم نشین ہیں اور یہ بہت ہی اچھے رفیق ہیں[42]۔
امام رضا(ع) نے فرمایا:
كان نقش خاتم أبى طالب عليه السلام: "رَضِيتُ بِاللهِ رَبّاً وَبِإِبنِ أَخِي مُحَمَّدٍ نَبِيّاً " وَبِإِبنِي عَلِيٍ لَهُ وَصِيّاً۔
ترجمہ: ابو طالب علیہ السلام کی انگشتری کا نقش یہ تھا: "میں نے اللہ کو اپنے پروردگار کے طور پر، اپنے بھتیجے محمد(ص)کو اپنے پیغمبر کے طور پر اور اپنے بیٹے علی(ع)کو آپ(ص) کے وصی کے طور پر پسند کیا [43]۔
بزرگان دین اور علماء کے اقوال
شیخ طوسی کہتے ہیں: اس حقیقت پر امامیہ کا اجماع ہے کہ ابو طالب(ع) مسلمان تھے؛ اس سلسلے میں ان کے درمیان اختلاف نہیں ہے۔ ان کے پاس یقین تک پہنچا دینے والے دلائل ہیں جو ایمان ابو طالب(ع) پر علم پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں [44]۔
امین الاسلام طبرسی کہتے ہیں: کہ اہل بیت(ع) کا اجماع ایمان ابو طالب(ع) پر مبنی ہے اور ان کا اجماع حجت ہے[45]۔
فتّال نیشابوری کہتے ہیں: شیعیان آل محمد(ص) کے مذہب برحق نے اجماع کیا ہے اس حقیقت پر کہ ابو طالب(ع)، عبد اللہ بن عبدالمطلب(ع) اور آمنہ بنت وہب سب مؤمن تھے اور یہ اجماع حجت ہے [46]۔
فخار بن معد موسوی کہتے ہیں: کہ ایمان ابو طالب(ع) کے سلسلے میں اہل بیتِ رسول خدا(ص) کا اجماع اور شیعہ علماء کا اتفاق ہمارے لئے کافی ہے اور اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے [47]۔
سید بن طاؤس کہتے ہیں: ایمان ابو طالب(ع) پر عترتِ رسول(ص) کے تمام علماء کا اتفاق ہے؛ نیز وہ کہتے ہیں: عترت (یعنی اہل بیت(ع)) ابو طالب(ع) کے باطن سے بیگانوں کی نسبت زیادہ آگاہ ہیں؛ نیز شیعیان اہل بیت(ع) نے اس موضوع پر اجماع کیا ہوا ہے اور اس بارے میں متعدد کتب تصنیف کی ہیں[48]۔
علامہ مجلسی کہتے ہیں: شیعیان اہل بیت(علیہم السلام ) کا ابو طالب(ع) کے اسلام پر اجماع ہے اور انہیں یقین ہے کہ ابو طالب(ع) نے رسول خدا(ص) کی بعثت کے آغاز میں ہی اسلام قبول کیا اور انھوں نے قبل ازاں بھی کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی، بلکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اوصیاء میں سے تھے اور یہ حقیقت اس قدر شیعیان آل رسول(ص) کے درمیان مشہور ہے کہ حتی مخالفین بھی اس کو شیعہ سے نسبت دیتے ہیں۔ ان کے ایمان پر احادیث و روایت متواترہ شیعہ اور سنی کے منابع و مصادر سے نقل ہوئی ہیں؛ اور ہمارے بہت سے علماء اور محدثین نے اس موضوع پر مستقل کتب تالیف کی ہیں تا کہ یہ حقیقت کسی سے مخفی نہ رہے[49]۔
مخالفین کے اعتراضات اور ان کے جوابات
پہلا اعتراض
سیدنا مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ : أَيْ عَمِّ، قُلْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ : يَا أَبَا طَالِبٍ، تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَالاَ يُكَلِّمَانِهِ، حَتَّى قَالَ آخِرَ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ : عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ، مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ فَنَزَلَتْ : (مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ[50]) وَنَزَلَتْ : (إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ[51])
”جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بن المغیرہ کو دیکھا تو فرمایا: اے چچا لا اله الا الله کہہ دیں کہ اس کلمے کے ذریعے اللہ کے ہاں آپ کے حق میں گواہی دے سکوں ۔ اس پر ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : اے ابوطالب ! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے منحرف ہو جائیں گے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اپنی بات ابوطالب کو پیش کرتے رہے اور بار بار یہ کہتے رہے، حتیٰ کہ ابوطالب نے اپنی آخری بات یوں کی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لا اله الا الله کہنے سے انکار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے جب تک روکا نہ گیا، اللہ تعالیٰ سے آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرما دیں :
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ [52]
نبی اور مؤمنوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے استغفار کریں، اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اس کے بعد کہ انہیں ان کے جہنمی ہونے کا واضح علم ہو جائے۔
پہلے اعتراض کا جواب
1۔اس روایت کی سند میں سعید بن مسیب وہ شخص ہے جو امیرالمؤمنین(ع)کی دشمنی کے حوالے سے جانا جاتا تھا اور علی(ع)سے اس کا انحراف واضح ہے چنانچہ کسی کے بارے میں دشمن اور معاند شخص کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
بخاری ہی نے اپنی کتاب میں برائت کے نزول کے بارے میں لکھا ہے:
عن الْبَرَاء رضى الله عنه قَالَ آخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ بَرَاءَة ۔
ترجمہ: براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت سورہ برائت ہے۔
بہرصورت تاریخ گواہ ہے کہ ابو طالب علیہ السلام نے بعثت کے دسویں سال مکہ میں وفات پائی ہے اوراس سال کو نبی اکرم(ص) نے ابو طالب(ع) اور سیدہ خدیجۃالکبری (س) کی وفات کی بنا پر عام الحزن (یا صدمے کا سال) کا نام دیا ہے جبکہ سورہ توبہ اور آیت 113 سمیت اس کی تمام آیتیں دس سال بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں اور سورہ برائت مشرکین کو پڑھ کر سنانے کے لیے علی(ع)کا مکہ روانہ کرنے کا واقعہ تاریخ کے ماتھے پر جھلک رہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں قرآن نازل کرتے ہوئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ”[53]بے شک آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے[54]۔
۔2۔ اس آیت کے شان نزول کا ایمان ابوطالب سے کوئی تعلق نہیں تفصیل کے لیے امام فخرالدین رازی کی تفسیر سے رجوع کریں۔
دلیل نمبر 3:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں :
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ: قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، قَالَ: لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي قُرَيْشٌ، يَقُولُونَ: إِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَكَ، فَأَنْزَلَ اللهُ : إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ [55]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے کہا (لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ) کہہ دیں ۔ میں قیامت کے روز اس کلمے کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا ۔ انہوں نے جواب دیا : اگر مجھے قریش یہ طعنہ نہ دیتے کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے اس بات پر آمادہ کر دیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی : إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ[56]۔یقیناً جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ، البتہ جسے اللہ چاہے ہدیات عطا فرمادیتا ہے [57]۔
رددلیل۔3۔
حضرت ابوہریرہ کا یہ واقع بیان کرنا ہی اس روایت کے ابطال کے لیے کافی و شافی ہے کیونکہ حضرت ابوھریرہ فتح مکہ کے بعد ایمان لائے اور وصال ابوطالب کے وقت ان کی موجودگی ہی بعید ازعقل ہے۔
دلیل نمبر 4 :
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :
مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : يا رسول الله، هل نفعت أبا طالب بشيء فإنه كان يحوطك ويغضب لك؟ قال: نعم، ھو فی ضحضاح من نار، لولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار
اے اللہ کے رسول ، کیا آپ نے ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا وہ تو آپ کا دفاع کیا کرتے تھے اور آپ کےلیے دوسروں سے غصے ہو جایا کر تے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ہاں ! ( میں نے اُنہیں فائُدہ پہنچایا ہے ) وہ اب با لائی طبقے میں ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہو تے[58]۔
حا فظ سہیلی رحمہ اللہ (ھ581-508) فرماتے ہیں :
وظاھر الحديث يقتضي أن عبدالمطلب مات علي الشرك
”اس حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات کے متقاضى ہیں کہ عبدالمطلب شرک پر فوت ہوئےتھے[59]۔حا فظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (733-853ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
فھذا شان من مات علي الكفر، فلو كان مات علي التوحيد لنجا من النار أصلا والاحاديث الصححة والاخبار المتكاثرة طاقحة بذلك ۔
یہ صورت حال تو اس شخص کی ہوتی ہےجو کفر پر فوت ہوا ہو۔ اگر ابوطالب توحید پر فوت ہوتے تو آگ سے مکمل طور پر نجات پا جاتے۔ لیکن بہت سی احادیث و اخبار اس (کفر ابو طالب) سے لبریز ہیں[60]۔
رد دلیل۔4۔5
اس روایت سے ایمان ابوطالب ثابت ہوتا ہے اور یہ روایت اوپر دی گئی 3 دلیلوں کو باطل کرتی ہے۔ وہ اس طرح کے خدا کے حضور کسی گناہگار کی سفارش کرنا اور اسے عذاب میں نرمی دلانا یا عذاب سے چھڑانا شفاعت کہلاتا ہے۔ اور اگر ابوطالب نعوذبااللہ مشرک تھے تو مشرک شفاعتِ رسولؐ پا ہی نہیں سکتا ۔ اور روایت چونکہ بتا رہی ہے کہ ابوطالب کے عذاب میں رسولؐ پاک کی وجہ سے کمی آئی تو ثابت ہوا کہ ابو طالب مسلمان تھے تبھی تو شفاعت ِ رسولؐ انہیں نصیب ہوئی
دلیل نمبر 5 :
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم وذكر عنده عمه فقال : ‏‏‏‏ لعله تنفعه شفاعتي يوم القيامة، ‏‏‏‏ فيجعل في ضحضاح من النار يبلغ كعبيه يغلي منه دماغه.
انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ کے چچا (ابوطالب) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”شاید کہ ان کو میری سفارش قیامت کے دن فائدہ دے اور ان کو جہنم کے بالائی طبقے میں رکھا جائے جہاں عذاب صرف ٹخنوں تک ہو اور جس سے (صرف) ان کا دماغ کھولے گا[61]۔
رد دلیل۔4۔5
اس روایت سے ایمان ابوطالب ثابت ہوتا ہے اور یہ روایت اوپر دی گئی 3 دلیلوں کو باطل کرتی ہے۔ وہ اس طرح کے خدا کے حضور کسی گناہگار کی سفارش کرنا اور اسے عذاب میں نرمی دلانا یا عذاب سے چھڑانا شفاعت کہلاتا ہے۔ اور اگر ابوطالب نعوذبااللہ مشرک تھے تو مشرک شفاعتِ رسولؐ پا ہی نہیں سکتا ۔ اور روایت چونکہ بتا رہی ہے کہ ابوطالب کے عذاب میں رسولؐ پاک کی وجہ سے کمی آئی تو ثابت ہوا کہ ابو طالب مسلمان تھے تبھی تو شفاعت ِ رسولؐ انہیں نصیب ہوئی
دلیل نمبر6 :
سیدنا عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ مُنْتَعِلٌ بِنَعْلَيْنِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ
”جہنمیو ں میں سب سے ہلکے عذاب والے شخص ابو طالب ہوں گے۔ وہ آگ کے جوتے پہنے ہوں گے جن کی وجہ سے اُن کا دماغ کھو ل رہا ہو گا[62]۔
رد دلیل۔6۔
اس حدیث یا روایت کو کتب میں حدیث ضحضاح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اولاً : حدیث ضحضاح کے بارے میں تمام منقولہ اقوال کا راوی مغیرہ بن شعبہ ہے جو بنوہاشم کے حق میں ایک بخیل (اور بقولے ظنین اور متہم) شخص ہے کیونکہ ان کے ساتھ اس کی دشمنی مشہور ہے اور وہ ان کے ساتھ دشمنی کا اظہار کرتا تھا؛ اور مروی ہے کہ ایک دفعہ اس نے شراب نوشی کی اور جب نشہ چڑھ گیا تو کسی نے پوچھا: بنو ہاشم کی امامت کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے تو اس نے کہا: خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی ہاشمی کے لیے خیر و خوبی نہیں چاہتا؛ مغیرہ علاوہ ازيں فاسق شخص تھا۔ ابن ابی الحدید کہتے ہیں: محدثین و مفسرین کا کہنا ہے کہ حدیث ضحضاح کو سب نے ایک ہی شخص سے نقل کیا ہے اور وہ شخص مغیرہ بن شعبہ ہے جس کا بغض بنو ہاشم بالخصوص علی علیہ السلام کی نسبت مشہور و معلوم ہے اور اس کا قصہ (قصۂ زنا) اور اس کا فسق ایک غیر مخفی امر ہے۔۔
ثانیاً : فرض کریں کہ اگر ابو طالب(ع) مؤمن اور مسلمان نہ ہوتے تو پھر رسول خدا(ص) کی طرف سے ان کے لیے شفاعت کی امید چہ معنی دارد؟ جب کہ شفاعت مشرک اور کافر کے شامل حال ہوتی ہی نہیں۔
دلیل نمبر 7 :
خلیفہ راشد سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ
جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ کے چچا فوت ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جا کر انہیں دفنا دیں۔ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جائیں اور انہیں دفنا دیں، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔ میں ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا [63]۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں :
إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجِئْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کے گمراہ چچا فوت ہو گئے ہیں ان کو کون دفنائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں[64] ۔
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ[65] اور امام ابنِ جارود (550ھ) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
یہ حدیث نص قطعی ہے کہ ابوطالب مسلمان نہیں تھے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی نے نماز جنازہ تک نہیں پڑھی۔
رد دلیل۔7۔
درج بالا روایت کی رد کے لیے یہی کافی ہے کہ ان 3 روایات کے راویان میں میں مجہول، کاذب اور نواصب راوی ہیں لہذا ان پہ بحث و جرح کا جواز ہی نہیں ۔ حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو رجال کشی ،رجالِ نجاشی ۔
دلیل نمبر 8:
سیدنا اُسامہ رضی اللہ عنہ کا انتہائی واضح بیان ملاحظہ ہو:
‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ [66]۔
عقیل اور طالب دونوں ابوطالب کے وارث بنے تھے، لیکن (ابو طالب کے بیٹے) سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اُن کی وراثت سے کچھ بھی نہ لیا کیونکہ وہ دونوں مسلمان تھے جبکہ عقیل اور طالب دونوں کا فر تھے [67]۔
یہ روایت بھی بین دلیل ہے کہ ابوطالب کفر کی حا لت میں فوت ہو گئے تھے۔ اسی لیے عقیل اور طالب کے برعکس سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اُن کے وارث نہیں بنے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:
لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ ۔
نہ مسلمان کافر کا وارث بن سکتا ہے نہ کافر مسلمان کا[68]۔
امام ابنِ عساکر رحمہ اللہ (499-571ھ) فرماتے ہیں:
وقيل : إنهُ أَسلَمَ وَلَا يَصِحٌ إسلامُهُ
ایک قول یہ بھی ہے کہ ابوطالب مسلمان ہو گئے تھے، لیکن ان کا مسلمان ہونا ثابت نہیں ہے[69] ۔
ابوطالب کے ایمان لائے بغیر فوت ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت صدمہ ہوا تھا۔ وہ ہقیناً پوری زندگی اسلام دوست رہے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے وہ ہمیشہ اپنے دل میں ایک نرم گو شہ رکھتے رہے لیکن اللہ کی مرضی کہ وہ اسلام کی دولت سے سرفراز نہ ہو سکے۔ اس لیے ہم اُن کے لیے اپنے دل میں نرم گو شہ رکھنے کے باوجود دُعا گو نہیں ہو سکتے۔
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (700-774ھ) ابو طالب کے کفر پر فوت ہونے کے بعد لکھتے ہیں:
وَلَوْلَا مَا نَهَانَا اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ، لَاسْتَغْفَرْنَا لابي طَالب وترحمنا عَلَيْهِ [70]۔
اگر اللہ تعالیٰ نی ہمیں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم ابوطالب کے لیے استغفار کر تے اور اُن کے لیے رحم کی دعا بھی کرتے!۔
رد دلیل۔8۔
دلیل نمبر 8 میں بیان کردہ روایات چونکہ دلیل 4 اور 5 سے متصادم ہیں لہذا نواصب حضرت ابوطالب علیہ السلام کو نعوذبااللہ کافر قرار دینے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگانے کے بعد اپنے بیانات کے تضاد کی وجہ سے اپنے عقیدہ میں باطل ہیں
وفات اور عام الحزن
ابوطالب کی تاریخ وفات کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ شیخ طوسی 26 رجب دسویں بعثت کو روز وفات سمجھتے ہیں [71]۔
یعقوبی ماہ رمضان میں حضرت خدیجہ کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت ابوطالب کی وفات کو حضرت خدیجہ کی وفات کے تیسرے دن قرار دیتے ہیں اور وفات کے وقت آپ کی عمر 86 یا 90 سال بتاتے ہیں[72]۔ بعض مورخین 1 ذی‌ القعدہ اور بعض 15 شوال کو آپ کا یوم وفات قرار دیتے ہیں[73]۔
آپ کی وفات کے دن پیغمبر اکرمؐ نے سخت گریہ فرمایا اور حضرت علیؑ کو غسل و کفن دینے کا حکم دیا اور آپؐ نے ان کے لئے طلب رحمت کی دعا کی[74]۔
آپ کے جسد خاکی کو مکہ میں آپ کے والد گرامی عبدالمطلب کے ساتھ قبرستان حُجون میں سپرد خاک گیا گیا[75]۔
پیغمبر اکرمؐ نے حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ(س) کی وفات کے سال کو عامُ الحُزْن کا نام دیا[76]۔


[1] ۔ (بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۲۸۸؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۱۲۱)
[2] ۔ (ابن عنبہ، عمده الطالب، ۱۳۸۰ق، ص۲۰)
[3] ۔ (طبری، تاریخ الطبری، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۲؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۳۸۴ق، ج۲، ص۱۱۱)
[4] ۔ (ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۹۳ )
[5] ۔ (ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ص۱۵۸-۱۶۷)
[6] ۔ (ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۱۲۱ و ۱۲۲)
[7] ۔ (تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 13؛ابن قتیبه، محمد، المعارف، ص 575)
[8] ۔ (تاریخ یعقوبی، ج2، ص14؛قمی، عباس، الکنی و الالقاب، ج1، ص108 و 109)
[9] ۔ (انساب الاشراف، ج2، ص288)
[10] ۔ (سنن نسایی، ج 8، ص 2 – 4)
[11] ۔ (سیره حلبی، ج 1، ص 184)
[12] ۔ (سیره ابن‌هشام، ج 1، ص 116، دلائل النبوه، ج 2، ص 22)
[13] ۔ (مناقب، ج 1، ص 36)
[14] ۔ ( طبقات ابن‌ سعد، ج 1، ص 119)
[15] ۔ (ابن شہر آشوب، مناقب، ج 1، ص 37)
[16] ۔ (سیره ابن هشام، ج1، ص172 و 173)
[17] ۔ (تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 14)
[18] ۔ (ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج ۶۶، ص۳۳۹؛ ابن اثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۱۶۴)
[19] ۔ (مفید، ایمان ابی طالب، ۱۴۱۴ق، ص۲۴)
[20] ۔ (امام علی صدای عدالت انسانی، ج 1.2، ص 77 . 78)
[21] ۔ ( تاريخ انبيإ، ج3، سيدہاشم رسولی محلاتی، ص 76)
[22] ۔ ( تاريخ طبری ،ج 2، ص 229)
[23] ۔ ( ابن ہشام ۱/۴۱۷ تا ۴۱۹ ، ترمذی حدیث نمبر ۳۲۳۲ (۵/۳۴۱) مسند ابی یعلیٰ حدیث نمبر ۲۵۸۳ (۴/۴۵۶ ) تفسیر ابن جریر )

[24] ۔ (الصحيح من سيرة النبي ، ج3 ص232۔شرح نهج البلاغه، ج 13، ص272)
[25] ۔ ( سیره حلبیه، ج 1، ص433۔ ابن اثير، اسدالغابة في معرفة الصحابة، ج1، ص287)
[26] ۔ (الإكتفاء بما تضمنه من مغازی رسول الله والثلاثة الخلفاء، ج1، ص295۔سبل الهدى والرشاد فی سیرة خیر العباد، ج2، ص429۔ السیرة الحلبیة، ج2، ص49۔ سمط النجوم العوالی فی أنباء الأوائل والتوالی، ج1، ص394) ۔
[27] ۔ (الغدیر، ج 7، ص367۔ "تذكرة الخواص ، ص5۔ السيوطي جلال الدين، الخصائص الكبرى ج1 ص87۔ السيرة الحلبية ج1 صص372-375، سيرة زيني دحلان هامش الحلبية 1: 92، 293 ۔ أسنى المطالب ص10۔ )
[28] ۔ (شیخ مفید، ایمان ابی طالب، ص 18)
[29] ۔ (الغدیر، ج 7، ص341)
[30] ۔ (ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج14، ص 78)
[31] ۔ (ابن ابی الحدید، وہی ماخذ)
[32] ۔ (دینوری، المجالسة وجواهر العلم، ج1 ص432۔ذهبی، تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر، ج1، ص53۔سیوطی، الخصائص الكبرى، ج1، ص146۔صالحی شامی، سبل الهدى والرشاد، ج1، ص8)
[33] ۔ (محمد بن إسحاق بن یسار، سیرة ابن إسحاق، ج2، ص 138۔امینی، عبدالحسین، الغدير ج 7 ص 382 و 383۔العاملي، السيد جعفر مرتضي، الصحيح من سيرة النبي الاعظم(ص)، ج3 ص230۔ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج14، ص 78)
[34] ۔ ( معانی الاخبار ، ص 137 )
[35] ۔ (اصول کافی /ج1/ص371 و الصحیح/ج4/ص15)
[36] ۔ (ابن بابویه قمی، الامامة والتبصرة، ص176)
[37] ۔ (تاریخ یعقوبی، ج 2، ص35)
[38] ۔ (مجلسی، بحار الانوار، ج35 ص110۔کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، ص80)
[39] ۔ ( بحارالانوار، ج35، ص113)
[40] ۔ (بحارالانوار، ج 35، ص157۔شرح نهج البلاغه، ج 14، ص69۔نجم الدین العسکری، ابوطالب حامی الرسول، صص48،49)
[41] ۔ (امینی، الغدیر، ج 7، ص380۔ ابن أبي الحديد شرح نهج البلاغه، ج14 ص68)
[42] ۔ (الكراجكى، ابي الفتح محمد بن علي، کنز الفوائد، ص80)
[43] ۔ (المدني، السيد علي ابن معصوم، الدرجات الرفيعة، ص60)
[44] ۔ (طوسی، تفسير التبیان، ج 8، ص164)
[45] ۔ (طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج 4، ص31)
[46] ۔ (نیشابوری، فتال، روضه الواعظین، ص138)
[47] ۔ (موسوی، فخار بن معد، الحجة علی الذاهب، ص64)
[48] ۔ (الطرائف، ص398)
[49] ۔ (بحارالانوار، ج 35، ص138)
[50] ۔ (التوبة : 113)
[51] ۔ (القصص : 56)
[52] ۔ (التوبة : 113)
[53] ۔ (القصص : ٥٦)
[54] ۔ ( صحیح البخاری : 3884)
[55] ۔ (28،القصص : ٥٦)
[56] ۔ (28-القصص : ٥٦)
[57] ۔ ( صحیح مسلم : 55/1، ح:25)
[58] ۔ (صحیح البخاری : 548/1، ح : 3883، صحیح المسلم : 115/1۔ ح : 209)
[59] ۔ (الروض الانف : 19/4)
[60] ۔ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 241/7)
[61] ۔ (صحیح البخاری : 548/1، ح3885، صحیح المسلم : 115/1، ح210)

[62] ۔ (صحیح المسلم : ح : 515)
[63] ۔ (مسند الطيالسي : ص : 19، ح، 120، وسنده‘ حسن متصل )
[64] ۔ ( مسند الامام احمد : 97/1، سنن ابي داؤد : 3214، سنن النسائي : 190، 2008، واللفظ لهٗ، وسندهٗ حسن )
[65] ۔ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 114/7)
[66] ۔ (صحیح بخاری 1588)
[67] ۔ (صحیح البخاری:1588،صحیح المسلم:33/2،ح:1614مختصراً)
[68] ۔ (صحیح البخاری:551/2،ح:6764، صحیح المسلم:33/2،ح:1614)
[69] ۔ (تاریح ابن عساکر:307/66)
[70] ۔ (سیرةالرسول ابن کثیر:132/2)
[71] ۔ (یوسفی غروی، موسوعة التاریخ الإسلامی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۶۴۰ )
[72] ۔ (یعقوبی، تاریخ الیعقوبی(الاعلمی)، ج۱، ص۳۵۴ )
[73] ۔ (مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج ۱، ص۴۵)
[74] ۔ (مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۳۵، ص۱۶۳، ابن جوزی، تذکرہ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج ۱، ص۱۴۵)
[75] ۔ (بلارذی، انساب الاشراف، ۱۴۲۰ق، ج ۱، ص۲۹)
[76] ۔ ( مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج ۱، ص۴۵)