بہترین دعا

بہترین دعا

الحَمْدُ للهِ عَلَى كُلِّ نِعْمَةٍ، وَأَسْأَلُ اللهَ مِنْ كُلِّ خَيْرٍ، وَأَعُوذُ بِاللهِ مِنْ كُلِّ شَرٍّ، وَأَسْتَغْفِرُ اللهَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ.

تمام نعمتوں پر اللہ کی حمد و ثنا ہے، اور میں اللہ سے ہر قسم کی خیر کا طالب ہوں، اور ہر شر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، اور ہر گناہ کی بابت اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔

خوشحال معاشرے کے بنیادی اصول

خوشحال معاشرے کے بنیادی اصول

وَيَٰقَوۡمِ أَوۡفُواْ ٱلۡمِكۡيَالَ وَٱلۡمِيزَانَ بِٱلۡقِسۡطِۖ وَلَا تَبۡخَسُواْ ٱلنَّاسَ أَشۡيَآءَهُمۡ وَلَا تَعۡثَوۡاْ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُفۡسِدِينَ۔ (هود: 85)

اے میری قوم! ناپ اور تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرو، اور لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو، اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔"

یہ آیت حضرت شعیب علیہ السلام سے متعلق ہے، جس میں وہ اپنی قوم کو انصاف کرنے، ظلم سے بچنے اور فساد سے باز رہنے کی دعوت دیتے ہیں،اس آیت کے تین اہم نکات ہیں جو اخلاقی، سماجی اور اقتصادی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں:

1۔ اوفوا المکیال والمیزان بالقسط

حضرت شعیب علیہ السلام اپنی قوم کو تلقین کرتے ہیں کہ ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ پورا کریں۔

معاشی اور سماجی تجزیہ:

ماپ اور تول، سالم اقتصادی نظام کی علامت ہیں۔ "بالقسط" کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر لین دین میں انصاف نہ صرف ایک اخلاقی خوبی ہے بلکہ ایک سماجی فریضہ بھی ہے۔ اگر معاملات میں انصاف نہ ہو تو معاشرتی اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور اقتصادی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔

ناپ اور تول میں انصاف کرنا، انسانی معاملات میں انصاف کی علامت ہے۔ اس نصیحت سے یہ سبق ملتا ہے کہ مالی معاملات کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے تعلقات اور فیصلوں میں انصاف کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔

2۔ ولا تبخسوا الناس أشیاءهم

یہ حصہ لوگوں کے حقوق کو پامال کرنے یا ان کے مال کی قدر گھٹانے سے منع کرتا ہے۔

"تبخسوا" کا مطلب صرف کم تولنے تک محدود نہیں بلکہ ہر وہ عمل شامل ہے جس میں دوسرے کے حق کو کم یا ضائع کیا جائے، چاہے وہ مالی ہو یا غیر مالی۔

اس آیت میں دوسروں کے حقوق کا تحفظ لازمی قرار دیا گیا ہے۔

ایک پرامن اور خوشحال معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ افراد ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں اور کسی بھی طرح کے نقصان یا دھوکہ دہی سے گریز کریں۔

3۔ ولا تعثوا فی الأرض مفسدین

یہ جملہ قوم کو زمین میں فساد اور فتنے سے منع کرتا ہے۔

"عثوا" کا مطلب ایسا غیر ذمہ دارانہ اور سرکش رویہ ہے جو سماجی اور اخلاقی تباہی کا سبب بنتا ہے، اور "مفسدین" ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے اعمال سے دوسرے افراد یا معاشرتی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

فساد صرف مادی نقصان تک محدود نہیں بلکہ اخلاقی اور سماجی قدروں کو ختم کرنا بھی فساد کی شکل ہے۔

یہ نصیحت معاشرے میں امن، انصاف اور بھائی چارے کو فروغ دینے کی تاکید کرتی ہے۔

خلاصہ

آیت 85 سورہ ہود ایک جامع اصول بیان کرتی ہے۔ یہ انصاف، حقوق کی پاسداری اور معاشرتی استحکام کو فروغ دینے کی دعوت دیتی ہے۔

اس آیت سے درج ذیل نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں:

معاشی انصاف:

لین دین اور تجارت میں انصاف کو یقینی بنانا۔

دوسروں کے حقوق کا تحفظ:

کسی بھی قسم کے ظلم یا دھوکہ دہی سے پرہیز کرنا۔

فساد سے اجتناب:

ایسے اعمال سے بچنا جو معاشرتی امن کو خطرے میں ڈالیں۔

یہ پیغام صرف حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے لیے نہیں تھا بلکہ ہر دور کے انسانوں کے لیے ہے۔

ایسا معاشرہ جو ان اصولوں کی پاسداری کرے، امن، خوشحالی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

حضرت علی علیہ السلام کی وصیت

حضرت علی علیہ السلام کی وصیت

أُوصِيكُمْ بِخَمْسٍ لَوْ ضَرَبْتُمْ إِلَيْهَا آبَاطَ الْإِبِلِ لَكَانَتْ لِذَلِكَ أَهْلًا: لَا يَرْجُوَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا رَبَّهُ، وَ لَا يَخَافَنَّ إِلَّا ذَنْبَهُ، وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ، وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الشَّيْءَ أَنْ يَتَعَلَّمَهُ، وَ عَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ، فَإِنَّ الصَّبْرَ مِنَ الْإِيمَانِ كَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ، وَ لَا خَيْرَ فِي جَسَدٍ لَا رَأْسَ مَعَهُ، وَ لَا [خَيْرَ] فِي إِيمَانٍ لَا صَبْرَ مَعَهُ۔ (بحوالہ نہج البلاغہ: حکمت 82)

میں تمہیں پانچ باتوں کی نصیحت کرتا ہوں ۔ اگر انہیں سیکھنے کے لیے تمہیں طویل سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، تو یہ باتیں اس کے لائق ہیں:

1۔ تمہاری امیدیں صرف اپنے پروردگار پر ہوں۔

2۔ اپنے گناہوں کے سوا کسی اور سے نہ ڈرو،(یعنی خوف صرف اپنے گناہوں کا ہو)۔

3۔ اگر کسی چیز کے بارے میں نہیں جانتے تو یہ کہتے ہوئے مت شرمانا کہ" مجھے علم نہیں"۔

4۔ جو بات نہیں جانتے، اس کے سیکھنے میں جھجک محسوس نہ کرو۔

5۔ صبر کو لازم پکڑو، کیونکہ صبر ایمان کے لیے ایسے ہی ہے جیسے جسم کے لیے سر، اور بغیر صبر کے ایمان کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔