حکومت امام علی ، جغرافیہ اور نمائندے (گورنر)
حکومت امام علی ، جغرافیہ اور نمائندے (گورنر)
اسد عباس اسدی
گلستان زہراء کپور والی سیالکوٹ
مقدمہ
رسول اللہ کی رحلت کے 25 سال بعد حضرت علی علیہ السلام نے اہل حجاز ، مصر، بصرہ، کوفہ اور دیگر مناطق اسلامی کے عوامی نمائندوں کے اصرارکی وجہ سے خلافت اور مسلمانوں پر حکمرانی قبول فرمائی ۔مدینہ منورہ نے 25 ذی الحجہ بروز جمعہ 35 قمری کو انتہائی خوبصورت منظر دیکھا، اس دن تمام مصری و عراقی مہاجرین، انصار، جنگجوؤں اور انقلابیوں نے بیعت کی علامت کے طور پر پیغمبر اسلام کے چچازاد بھائی اور داماد حضرت علی بن ابی طالب کی بیعت کیلئے ہاتھ بڑھایا [1]۔امام علی (ع) نے اسلامی معاشرے کی ذمہ داری اس وقت سنبھالی جب معاشرہ مناطق اسلامی کے حکمرانوں کے مظالم اور مالی بدعنوانیوں سے شدید متاثر تھا۔ اس وقت اسلامی معاشرہ خاص طور پر دو بڑے مسائل سے دوچار تھا: نمبر ایک کرپشن یعنی حکام کی مالی بدعنوانیاں ، نمبر دونالائق اور نااہل حکمرانوں کی موجودگی۔ اس لیے امام علی علیہ السلام کی حکومت کے سب سے اہم پروگرام ان دو معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف جنگ کرنا تھا۔ حضرت علی (ع) نے بیعت کے دوسرے ہی دن اپنے پہلےخطبہ میں، بیت المال کی تقسیم پر اعتراض کیا، جسے حکمرانوں اور ان کے حواریوں میں بغیر حساب کتاب کے تقسیم کیا جارہاتھا اور اس سے طبقاتی فرق پروان چڑھ رہا تھا۔
فرمایا اے لوگو! میں تمہیں پیغمبر اسلام کے بتائے ہوئے روشن راستے پر چلاؤں گا اور اپنے احکام کو برابری کی بنیادوں پر جاری کروں گا ، میں جو کہتا ہوں اسے انجام دو اور جس سے منع کرتا ہوں اس سے بچو۔ میں جب ایسے لوگوں کو جو کہ دنیا کی رنگینیوں میں کھو چکے ہیں انہیں ان کے شرعی حقوق سے آگاہ کروں تو وہ مجھ پر تنقید نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ ابو طالب کے بیٹے نےہمیں ہمارے حقوق سے محروم کر دیا ہے ۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کی وجہ سے دوسروں سے افضل ہے، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ فضیلت کا معیار کچھ اور ہے۔ افضل وہ ہے جو خدا اور رسول کی دعوت پر لبیک کہے اور اسلام قبول کرے۔ اس صورت میں تمام لوگ حقوق کے معاملے میں دوسروں کے برابر ہوں گے۔ تم خدا کے بندے ہو اور مال خدا کا مال ہے اور تم میں برابر تقسیم ہوگا ۔ کوئی بھی دوسرے سے برتر نہیں ہے۔ کل بیت المال تمہارے درمیان تقسیم ہو گا اور اس میں عرب اور عجمی برابر ہوں گے[2]۔ دوسری طرف امام علی علیہ السلام نے ایک دلیرانہ سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے حضرت عثمان کے لگائے گئے گورنروں کو برطرف کرنے کا حکم دیا اور ان کی جگہ بلاد اسلامی کی حکمرانی کے لیے صحابہ اور تابعین میں سے قابل اور ممتاز لوگوں کو مقرر کیا۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ خلافت کے آغاز سے لے کر اب تک امام کی اہم ترین حکومتی پالیسیوں میں سے ایک اسلامی حکومتی ڈھانچے میں کرپشن اور نااہل لوگوں کے خلاف جنگ تھی۔ ہم اس تحریر میں امام علیہ السلام کے کارندوں کا تعارف ، ان کی حکومت کے علاقوں کی شناخت پر بحث کریں گے اور امام علیہ السلام کی نا اہل اور ظالمین کے ساتھ مبارزہ آرای کے چند نمونے ذکر کریں گے۔
گورنر امام على(ع) کی نگاہ میں
قرآن کریم نے مختلف آیات میں امانت داری ، ہمدردی، اور اہلیت و لیاقت کو ایک حاکم (گورنر) کی خصوصیات میں سے ذکر کیا ہے[3] ، امیر المومنین نے قرآن کی تعلیمات کے عین مطابق ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جو درج بالا خصوصیات کے حامل تھے۔ امام علی علیہ السلام نے مالک اشتر کے عہد نامہ میں ایک اچھے حاکم ( گورنر) کی چند خصوصیات کی طرف اشارہ کیاہے مثلا بہترین سابقہ ، ناانصافی کا سبب نہ بننا،بہترین تجربہ ، اسلام اور اس کے مسائل میں زیادہ متقی ہونا، لالچی نہ ہونا۔ خوشامد پسند نہ ہونا وغیرہ [4]۔
امام علیؑ منصب خلافت کو فرض اور امانت سمجھتے تھے، نہ کہ اقتصادی اور سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ، نہج البلاغہ کے پانچویں خط میں آذربائیجان کےنمائندہ ( گورنر) اشعث بن قیس کو فرماتےہیں: حکومت آپ کے لیے روٹی اور پانی کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ آپ کی گردن پر امانت ہے، اور آپ کو اپنے اعلیٰ افسران کا فرمانبردار ہونا چاہیے[5]۔ سرکاری اہلکاروں کے لیے امیر المومنین کا ایک اہم ترین پروگرام، ان کے رویے اور اعمال کی مکمل اور درست نگرانی تھا۔ آپ علیہ السلام عہد نامہ مالک اشتر میں فرماتے ہیں: دیانتدار جاسوسوں کو بھیج کر کارکنوں کے کام کی نگرانی کریں، کیونکہ مسلسل اور خفیہ معائنہ انہیں قابل اعتماد ہونے اور اپنے ماتحتوں کو برداشت کرنے کی ترغیب دے گا، اپنے اعوان اور انصار پر کڑی نظر رکھیں۔ اگر ان میں سے کوئی غداری کا ارتکاب کرتا ہے اور آپ کے خفیہ ایجنٹ متفقہ طور پر رپورٹ کرتے ہیں تو اس گواہی سے مطمئن ہو جائیں اور انہیں جرم کےمطابق سزا دیں تاکہ دوسروں کے لیے مثال بن جائے[6]۔ابن ابی الحدید نہج البلاغہ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ امیر المومنین انتقادات و پیشنهادات اور شکایات کا گھر تھے اور لوگ اپنی شکایات اس گھر میں جمع کرواتے تھے [7]اس طرح تمام شعبوں میں مختلف لوگوں کی مختلف آ راء امام علیہ السلام تک پہنچتی تھیں اور آپ علیہ السلام ان کےحل کیلئے ہدایات جاری فرماتے تھے۔
حکومت امام على(ع) کی جغرافیاى حدود
اگر حکومت امام علی علیہ السلام کی جغرافیائی حدود کی بات کی جائے تو ہم اس پورے علاقہ کو پانچ اہم حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں البتہ یاد رہے کہ امام کے زمانے میں داخلی جنگوں کی وجہ سے فتوحات کا سلسلہ رک گیا تھا اور یہ جغرافیائی حدود حضرت عثمان کے دور کی ہیں :
1 ۔جزیرہ نما عرب کی ریاست۔
2 ۔ مصر۔
3 ۔عراق۔
4 ۔ ایران۔
5 ۔ شام ۔
لازم بذکر ہے کہ شام کا علاقہ معاویہ کی بغاوت و سرکشی کی وجہ سے حضرت علی کی حکومت کے علاقے میں شامل نہیں ہوا اگرچہ امام علیہ السلام نے کوشش کی اور معاویہ کے ساتھ جنگ صفین بھی لڑی لیکن شام کا علاقہ معایہ کے زیر اثر رہا اور اب ہم ان پانچ خطوں کی جغرافیائی حدود کو اختصار سے بیان کریں گے۔
شبه جزیره عربستان کا علاقہ
جزیرہ نما عرب جو کہ اسلام کی اصل ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں فتح ہوا ، عہد نبوی اور اس کے بعد کے ادوار میں اسے اسلامی حکومت کی سرزمین کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ علاقہ پانچ حصوں پر مشتمل تھا۔
ا) حجاز: حجاز کی سرزمین جزیرہ نما کے مغربی حصے میں بحیرہ احمر کے ساتھ اور یمن کے شمالی حصے اور تہامہ کے مشرق میں ہے۔ مکہ، مدینہ اور طائف اس خطے کے اہم اور قدیمی ترین شہروں میں سے ہیں۔ اس وقت بھی یہ خطہ سعودی عرب کے سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے۔
ب) تہامہ: یہ ایک نشیبی سرزمین ہے جو بحیرہ احمر کے ساحل سے شروع ہو کر نجران کی سرزمین تک پھیلی ہوئی ہے۔
ج) نجد: یہ جزیرہ نما میں ایک پہاڑی سطح مرتفع ہے جو جنوب سے یمن، شمال سے عراق، مغرب سے حجاز اور مشرق سے الاحساء تک پھیلا ہوا ہے، ریاض اسی سطح مرتفع پر واقع ہے۔
د) یمن: یہ جزیرہ نما کے جنوب مغرب میں بحیرہ احمر کے قریب ایک علاقہ ہے۔ یہ سرزمین عرب کی بہترین آب و ہوا اور سب سے زیادہ آبادی والا خطہ ہے، جس کا سب سے اہم شہر "صنعا" ہے جسے آج بھی یمن کا دارالحکومت سمجھا جاتا ہے۔
ہ) یمامہ: یہ جزیرہ نما عرب کے قلب میں ایک سرزمین ہے جسے بعض لوگ نجد کا حصہ سمجھتے ہیں۔ آج یہ سرزمین سعودی عرب میں ہے اور اسے ’’عارض‘‘ کہا جاتا ہے۔
یمامہ کے لوگوں نے 9 ہجری میں اورعام الفود میں اسلام قبول کیا لیکن پھر مسیلمیٰ کذاب کی نبوت کے دعوے کے ساتھ دین سے پھر گئے اور 12 ہجری میں خالد بن ولید نے ان سے جنگ کی اور یمامہ کو فتح کیا[8]۔
شبه جزیره عربستان میں گورنرز
ان پانچ خطوں میں سے ہر ایک ،ایک صوبہ سمجھا جاتا تھا جس کے بہت سے شہر ہوتے تھے اور ہر شہر کا ایک حاکم ہوتا تھا ، تاریخ میں تمام شہروں کے حکمرانوں کا ذکر نہیں ملتا۔ اس لیے جزیرہ نما علاقے میں امام علی کی حکومت کے تمام نمائندوں (گورنروں ) کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور صرف مکہ، مدینہ اور یمن کے شہروں کے حکمرانوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن پر ہم بحث کریں گے۔
مکه و طائف کے گورنر (نمائندے)
مکہ حجاز کا ایک مشہور اور اہم شہر ہے جو بحیرہ احمر کے قریب ہے جو جدہ کی بندرگاہ کے ذریعے اس سمندر سے جڑا ہوا ہے۔ یہ شہر اسلامی دنیا کا سب سے اہم اور مقدس ترین شہر ہے۔ اس شہر کی فتح آٹھویں ہجری میں ہوئی[9]۔ امیر المومنین کے دور خلافت میں یہ شہر ان کی حکومت کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور اس کے گورنر ابو قتادہ انصاری اور قثم بن عباس تھے[10] ۔ ہم یہاں دونوں کا مختصر تذکر ہ کرتے ہیں۔
ابوقتاده انصارى
ان کا نام حارث بن ربیع ہے لیکن تاریخ میں اپنی کنیت "ابو قتادہ" سے زیادہ مشہور ہیں۔ مورخین اور رجالیون کی نگاہ میں تاریخ کی معروف اور شاندار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ابو قتادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاص اصحاب میں سے تھے جنہوں نے رسول اللہ کے ساتھ تمام جنگوں میں حصہ لیا آپ رسول اللہ کی فوج کا جنگجو اور بہادر آدمی کہلائے جاتے تھے ۔ رحلت کے بعد امام علی علیہ السلام کے قریبی ساتھی تھے ،امام کی خلافت کے آغاز میں ابو قتادہ کو شہر مکہ کے گورنر کے عہدے پر مقرر کیا گیا تھا اور کچھ ہی عرصے کے بعد جنگ جمل کے موقع پر حضرت علی (ع) نے انہیں ان کی بے مثال بہادری کی وجہ سے جنگ میں شرکت کے لیے مکہ سے واپس بلایا اور ان کی جگہ قثم بن عباس کو بھیج دیا ۔ آپ نے تینوں جنگوں میں اپنی شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے اور امام کی مدد و نصرت میں ہمیشہ پیش پیش رہے [11]۔
قثم بن عباس
مکہ کے دوسرے اور آخری گورنر قثم بن عباس تھے، جوامام علی علیہ السلام کی شہادت تک اس منصب پر فائز رہے۔
رسول اللہ کے چچا عباس بن عبدالمطلب کے دس بیٹے تھے جن میں سے چار امام علی کے گورنر تھے۔ عبداللہ بن عباس بصرہ کا گورنر، عبیداللہ بن عباس یمن کے گورنر اور مدینہ کے گورنر تما م بن عباس اور مکہ کے گورنر قثم بن عباس۔
قثم ایک فیاض انسان تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازے اور تدفین میں شریک ہوئے ،کہتے ہیں کہ وہ آخری شخص تھا جو رسول اللہ کی قبر مبارک سے نکلا ، علماء رجال نے اسے ثقہ اور قابل اعتماد شخص کے طور پر ذکر کیا ہے، قثم بن عباس نے بخارا اور سمرقند کی فتح جو معاویہ کے دور میں ہوئی تھی میں حصہ لیا اور جنگ میں مارا گیا ، ان کی قبر سمرقند میں ہے[12]۔
مدینه میں گورنر
یثرب یا مدینہ منورہ ، مکہ کے شمال مشرق میں اور حجاز کے علاقے میں واقع ہے۔ یہ شہر عالم اسلام کے بڑے شہروں میں سے ایک اور عظمت و حرمت کے لحاظ سے دوسرا اسلامی شہر ہے۔ یہ شہر رسول اللہ کی ہجرت کے بعد 35 ہجری تک اسلامی حکومت اور خلافت کا مرکز رہا[13] ۔
اس شہر میں امام علی علیہ السلام کے گورنر یہ تھے:
1سهل بن حنیف
2 ابوحبیش تمیم بن عمرو
3 تمّام بن عباس
4 ابو ایّوب انصارى
5حارث بن ربی
مورخین اور سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ جب امام سپاہ جمل سے لڑنے عراق گئے تو آپ نے "سہل بن حنیف" کو مدینہ شہر کا گورنر مقرر کیا اور وہ جنگ صفین تک اس عہدے پر رہے[14]۔ سہل کے بعد ابو جیش تمیم بن عمرو کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا[15] ۔ بعض مورخین نے کہا ہے کہ سہل کے بعد تمام بن عباس کو مدینہ کا مقرر کیا گیا۔ "تمام" جنگ نہروان کے اختتام تک مدینہ کا گورنر تھا[16] ۔تمام کے بعد ابو ایوب مدینہ کا گورنر بنا، وہ "بُسر بن ارطات" کی لوٹ مار اور جرائم تک مدینہ کا گورنر رہا اور اس کے بعد مجبورا کوفہ جا کر مولا علی کے ساتھ جا ملا [17]۔ ابو ایوب کے بعد حارث بن ربیع کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا اور وہ امیر المومنین کی شہادت تک اس عہدے پر فائز رہے [18]۔
اب ہم مختصراً ان بزرگوں کے احوال زندگی بیان کریں گے۔
سهل بن حنیف انصارى خزرجى
سہل جس کی کنیت ابو محمد تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم اصحاب اور انصار میں سے تھے اور ایک عظیم الشان آدمی تھے۔ مورخین کے مطابق اس نے رسول خدا کے شانہ بشانہ تمام جنگوں میں حصہ لیا۔ آپ نے 12 ہجری میں عقبہ منیٰ میں پیغمبر اسلام کے دست مبارک پر بیعت کی اور اسلام قبول کیا اور "نقبہ" میں سے تھے۔ غزوہ احد میں وہ ان بزرگوں میں سے تھے جو علی (ع) کے ساتھ رہے اور رسول اللہ (ص) کو نہیں چھوڑا۔
ہجرت کے پہلے سال سہل رات کو اپنے قبیلے کے لکڑی کے بتوں کو توڑ کر ایک بیوہ انصاری عورت کے گھر لے جاتے اور کہتے: ان کو جلا دو اور استعمال کرو۔ سہل کی موت کے بعد بھی حضرت علی (ع) ان کی شجاعت و جوان مردی کو یاد کرتے رہتے تھے ۔
رحلت رسول خدا کے بعد، سہل ان لوگوں میں سے ایک تھا جو علی (ع) کے ساتھ رہے اور ان بارہ لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نےحضرت ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور ان کی خلافت کی مخالفت کی۔
وہ 36 ہجری میں جب امام عراق اور جنگ جمال کی طرف بڑھے تو مدینہ کا گورنر مقرر ہوا۔ وہ جنگ صفین تک اسی مقام پر رہے اور جنگ صفین کے دوران علی (ع) کی دعوت پر جنگ میں گئے۔ جنگ کے بعد اسے فارس کی گورنری پر مقرر کیا گیا۔لازم الذکر ہے کہ سہل اپنے بھائی عثمان بن حنیف کے ساتھ "شرطۃ الخمیس" کا حصہ تھے[19]۔
آخر کار سنہ 38 ہجری میں سہل نےشہر کوفہ میں اپنی فانی زندگی کو الوداع کیا اور اپنی موت سے علی (ع) کو بہت غمگین کر دیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے آپ کو سرخ کپڑے میں کفن دیا اور اس پر نماز پڑھی اور پچیس تکبیریں کہیں۔ تکبیروں کی کثرت سہل کی شخصیت کی عظمت کو ظاہر کرتی ہیں ۔
تمیم بن عمرو
تمیم بن عمرو، جس کی کنیت ابو حبیش یا ابوالحسن مازنی تھی ، امیر المومنین کے اصحاب میں سے تھے۔ وہ کچھ عرصہ مدینہ کی گورنر رہے۔ شیخ طوسی کہتے ہیں کہ ابو حبیش کا مدینہ کے گورنر کا زمانہ سہل بن حنیف سے پہلے کا تھا، لیکن "ابن اثیر جزری" نے ان کی حکومت کا زمانہ سہل کے بعد کا لکھا ہے[20]۔
تمّام بن عبّاس
تمام بن عباس بن عبدالمطلب رسول اللہ کے چچازاد بھائی اور جناب عباس کے دسویں اور آخری بیٹے ہیں۔ ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے۔ ابن اثیر جزری اور ابن عبد البر نے بیان کیا ہے کہ جب سہل بن حنیف کو علی (ع) نے جنگ صفین میں شرکت کے لیے بلایا تو تمام کو مدینہ کی گورنری پر مقرر کیا گیا۔ یہ روایت جزری کے الفاظ کے خلاف ہے جو سہل بن حنیف، تمیم بن عمرو کے بعد مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔ لہٰذا شیخ طوسی کی روایت کو صحیح مانتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ابو حبیش مدینہ کے پہلے گورنر تھے، اس کے بعد سہل اور پھر تمام بن عباس بالترتیب مدینہ کے دوسرے اور تیسرے گورنر تھے۔
ابوایّوب انصارى
خالد بن زید، ابو ایوب انصاری خزرجی، رسول اللہ کے عظیم اصحاب میں سے تھے۔ مدینہ میں داخل ہوتے ہی پیغمبر اسلام انہی کے گھر میں اترے ۔ ابو ایوب اہل مدینہ کے رسول اللہ کے ساتھ پیمان عقبہ میں موجود تھے، - اور نبی کریم سے بیعت کی۔ اس کے علاوہ آپ نے رسول اللہ کی تمام جنگوں میں شرکت کی۔ ابو ایوب حجۃ الوداع کے قافلے کے مسافروں میں سے تھے، جو غدیر خم میں موجود تھے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے: اس دن میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: مَن کُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِىٌ مَوْلاهُ رسول اللہ کی وفات کے بعد ابو ایوب حضرت علی کے خاص ساتھیوں میں سے ہو گئے۔ وہ ان بارہ لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی اور ان کے مخالفین میں سے تھے۔ ابو ایوب جمل، صفین اور نہروان کی لڑائیوں میں امام کے ساتھ تھے اور دشمنوں سے لڑتے رہے۔ جنگ نہروان کے بعد اسے مدینہ شہر کا گورنر مقرر کیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ ابو ایوب امیر المومنین کی شہادت کے بعد مسلمان مجاہدین کے ساتھ روم گئے اور کفار سے جنگ کی۔ ان کی وفات 51 ہجری میں قسطنطنیہ شہر کے قریب ہوئی اور ان کی لاش شہر کی فصیل کے پاس دفن ہوئی۔ ان کی قبر اب استنبول شہر میں مسلمانوں کے لیے زیارت گاہ ہے[21]۔
حارث بن ربیع انصارى
مدینہ شہر کے آخری گورنر تھے جو امام علی علیہ السلام کی شہادت تک اس عہدے پر فائز رہے۔ علامہ سید محسن امین اور علامہ مامقانی نے حارث بن ربیع کو حارث بن ربیع بن زیاد غطفانی عباسی مانتے ہیں اور اپنی سوانح عمری میں ذکر کیا ہے کہ وہ ان اولین ہجرت کرنے والوں میں سے تھے [22]۔
یمن میں نمائندے
یمن جزیرہ نما عرب کے جنوب مغرب میں اور بحیرہ احمر کے قریب ایک سرزمین ہے۔ یہ خطہ ساسانی دور سے اسلام کے عروج تک ایرانی حکومت کے تابع رہا[23]۔ یمن 10ہجری میں حضرت علی علیہ السلام نے فتح کیاتو لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور رسول اللہ کے بھیجے ہوئے نمائندہ یعنی حضرت علی (ع) کے ہاتھ پر بیعت کی[24]۔
عبیدالله بن عباس
سنہ 36 ہجری میں آپ کو علی (ع) نے یمن کے علاقے کے گورنر کے عہدے کے لیے منتخب کیا اور اس سرزمین پر بھیجا۔ آپ نے 40 ہجری میں "بصر بن ارطہ" کی لوٹ مار اور جنایت تک یہاں حکومت کی[25]۔
مصر میں نمائندے
مصر دنیا کے قدیم ترین اور مشہور خطوں میں سے ایک ہے اور اس کی تہذیب قدیم اور تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ یہ سرزمین افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ہے، جو شمال سے بحیرہ روم، مشرق سے شام اور بحیرہ احمر، جنوب سے نوبی ، سوڈان اور مغرب سے طرابلس سے جڑی ہوئی ہے۔ اس سرزمین کو عمرو بن عاص نے 21 ہجری بمطابق 17 ستمبر 642 عیسوی کو حضرت عمر کے دور خلافت میں فتح کیا اوریہ اسلامی حکومت کا علاقہ بن گیا[26]۔ سن 36 ہجری میں جب علوی حکومت کے گورنر اسلامی علاقوں اور شہروں میں بھیجے گئے تو قیس بن سعد کو مصر کی گورنری پر مقرر کیا گیا ۔ وہ جنگ صفین تک اس عہدے پر فائز رہے، یہاں تک کہ امام علیہ السلام نے نا چاہتے ہوئے بعض حواریوں کے اسرار پر اسے حکومت سے ہٹا دیا ۔ ان کے بعد محمد بن ابی بکر مصر کی گورنری پر فائز ہوئے۔ وہ بھی زیادہ عرصہ حکومت نہ کرسکے اور انتہائی دردناک طریقے سے شہید کر دیئے گئے ۔
ان کے بعد مالک اشتر نخعی کو گورنر مقرر کیا گیا تاکہ وہ بے چین اور سوگوار مصر کو پرسکون کر سکیں، لیکن مصر پہنچنے سے پہلے انہیں قلزم کے علاقے میں معاویہ نے زہر دے کر شہید کر وا دیا اور اس کے بعد مصر امام کے ہاتھ سے نکل گیا اور عمرو عاص نے معاویہ کی طرف سے اس علاقے پر قبضہ کرلیا ۔
اب ہم ان تینوں بزرگوں کامختصرزندگینامہ بیان کرتے ہیں ۔
قیس بن سعد بن عبادہ انصاری
قیس بن سعد بن عبادہ قبیلہ خزرج کا سربراہ ، رسول خدا کا صحابی اورمدنی مسلمانوں میں سے پہلے مسلمان ہیں۔ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد وہ دس سال رسول اللہ کے خادم رہے اور اس عرصے میں جب وہ جوان تھے تو ان کے پاس تعلیم پائی اور سنت نبوی سے آشنا ہوئے۔ اس نے رسول خدا کی تمام جنگوں میں شرکت کی۔
رسول اللہ کی وفات کے بعد وہ خلافت کے مخالفین میں سے تھے۔ 25 سال کی خاموشی اور صبر کے بعد، قیس نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ چونکہ قیس مصر کی فتح میں موجود تھا اور کچھ عرصے سے یمن کا رہنے والا تھا اور مصر کے حالات سے واقف تھا، اس لیے اس کے انتظام اور تعاون کی وجہ سے امام نے ماہ صفر 36 ہجری میں اسے مصر کی گورنری پر مقرر کیا۔
امیر المومنین کی خلافت میں مصر کو ایک خاص فضیلت حاصل تھی کیونکہ حضرت علی (ع) مصر پر غلبہ حاصل کرکے معاویہ کے خلاف ایک نیا محاذ کھول سکتے تھے اور اسے دو اطراف سے محاصرہ کر سکتے تھے۔ اس بنا پر معاویہ نے بھی مصر کو امام کی حکومت کی سرزمین سے آزاد کرانے کی بھرپور کوشش کی۔
معاویہ قیس کی منصوبہ بندی اور انتظام و انصرام سے بخوبی واقف تھا کیونکہ اس نے دیکھا تھا کہ وہ اپنے دور اقتدار کے اسی مختصر عرصے میں ایک پرامن اور مضبوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ شروع میں معاویہ نے قیس کو پیار اور محبت سے بھرا خط لکھا اور اس کے بعد اس سے عہدہ اور دولت کا وعدہ کیا۔ قیس اور اس کے درمیان خط و کتابت جاری رہی یہاں تک کہ آخری خط میں قیس کا واضح جواب معاویہ تک پہنچ گیا۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا:
اے بت پرست کی اولاد ! آپ چاہتے ہیں کہ میں علی سے الگ ہو جاؤں اور آپ کی اطاعت کروں! تم مجھے دھمکی دے رہے ہو کہ علی کے ساتھی اس سے منہ موڑ کر تمہاری طرف ہو گئے ہیں! قسم ہے خدا کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اگر علی کا میرے سوا کوئی مددگار باقی نہ رہے اور میرا ان کے سوا کوئی نہ ہو تو میں تم سے صلح نہیں کروں گا اور تمہاری اطاعت نہیں کروں گا اور خدا کے دشمن کو اس کے دوست پر کبھی ترجیح نہیں دوں گا[27]۔
یہ خط ملنے کے بعد معاویہ قیس سے مایوس ہوا لیکن مصر اور قیس کو یونہی چھوڑ دینا آسان نہیں تھا اس لیے کوئی اور حیلہ ڈھونڈنے لگ گیا ۔ اور وو دوسرا حیلہ امام کی نگاہ میں قیس کا مقام کم کرنا اور آئے روز جھوٹی افواہیں تھیں جیسا کہ عراق اور شام کے لوگوں میں یہ بات پھیلائی کہ قیس نے معاویہ کی بیعت کر لی ہے۔
صفین میں موجود عراقی فوج میں معاویہ اور قیس کی بیعت کی افواہ بہت تیزی سے پھیل گئی۔ ایک طرف اشعث بن قیس اور اس کے اتحادی جیسے منافق لوگ اور دوسری طرف جاہل دوستوں نے علی (ع) پر قیس کو معزول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ امام فرماتے تھے: تجھ پر افسوس! میں قیس کو تم سے بہتر جانتا ہوں۔ خدا کی قسم! اس نے خیانت نہیں کی اور یہ معاویہ کی چال ہے[28]، امام کی باتوں کا ان کے دلوں اور سطحی سوچ پر کوئی اثر نہیں ہوا اور امام اپنی باطنی خواہش کے خلاف رائے عامہ کے دباؤ کی وجہ سے قیس کو مصر کی حکومت سے برطرف کرنے پر مجبور ہوئے۔
مصر کی حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد قیس مدینہ روانہ ہوا اور سہل بن حنیف کے ساتھ صفین میں امام کے ساتھ شریک ہوا اور جنگ صفین اور اس کے بعد جنگ نہروان میں شریک رہا ۔ جنگ صفین اور نہروان میں ان کی دانائی اور شجاعت تاریخ کے سنہری صفحات پر روشن ہے۔
قیس ،شرطة الخمیس میں سے تھا اور امام حسن مجتبیٰ کی فوج کے کمانڈروں میں سے تھا۔ اسلام کی ترقی کے لیے زندگی بھر جدوجہد کی اور بالآخر 59 یا 60 قمری میں انتقال کر گئے۔
جرات و شجاعت، ایمان و یقین، عبادت و روحانیت، عدل و امانت، تقویٰ و پرہیزگاری، عفو و درگزر، تعاون و حکمت، محبت اور ولایت قیس بن سعد کی اہم خصوصیات میں سے تھیں[29]۔
محمد بن ابى بکر
محمد بن ابی بکر حضرت علی علیہ السلام کے دور میں مصر کے دوسرے گورنر تھے۔ ان کے والد ابوبکر اور والدہ اسماء بنت عمیس ہیں۔ جنگ موتہ میں جعفر بن ابی طالب کی شہادت کے بعد "اسماء" ابوبکر کی بیوی بنیں اور ہجرت کے دسویں سال محمد کی ولادت ہوئی۔ ابوبکر کی وفات کے بعد امام علی نے اسماء سے شادی کی۔ لہٰذا محمد جو کہ ایک بچہ تھے، اپنی والدہ کے ساتھ ، حضرت علی کے گھر میں داخل ہوئے اور علی (ع) کے گھر تربیت و پرورش پائی ان کا شمار خاص اصحاب اور شاگردوں میں ہوتا ہے ، بیٹے کی حیثیت سے علی کے ساتھ رہے اور جنگ جمل اور صفین میں حصہ لیا[30]۔
امیر المومنین علی علیہ السلام کو محمد بن ابی بکر سے بہت محبت تھی فرمایا : "محمد ابو بکر کے خون سے میرا بیٹا ہے"۔ چنانچہ جب محمد کی شہادت کی خبر امام تک پہنچی تو آپ بہت غمگین اور رنجیدہ ہوئے اور بصرہ کے گورنر ابن عباس کو محمد کی شہادت کے بارے میں ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اس کی تفصیل یوں بیان کی: محمد ایک مہربان بیٹا ، محنتی اور مرد میدان ہے [31]۔
محمد بھی علی (ع) سے محبت کرتے تھے۔ جنگ جمل میں امام کا ساتھ دینا اور اپنی بہن کی فوج کے ساتھ تصادم اس محبت کو ظاہر کرتا ہے[32]۔ آخر کار محمد 38ھ میں مصر میں شہید ہوئے۔
مالک اشتر
مالک بن حارث نخعی، ملقب بہ "اشتر" ، ایک بہادر عراقی عرب اور تابعین کے بزرگوں میں سے ایک ہے۔ ملک اشتر ،امیر مومنین کے خاص مددگاروں میں سے تھا جنہوں نے جمل و صفین کی لڑائیوں میں حصہ لیا اور ناکثین و قاسطین پر اپنی تلوار چلائی۔ مکتب امام کے پروردہ اور اپنے استاد کی طرح مختلف صفات کے حامل تھے۔ ہمت اور طاقت، نرمی اور رواداری،فصاحت و بلاغت،جیسی صفات ان میں عیاں تھیں۔ آپ کو عثمان نے شام جلاوطن کر دیا اور پھر 33 ہجری میں کوفہ واپس آکر قیام جرعہ شروع کیا ۔
اس کے بعد مالک اس وقت کے خلیفہ کے خلاف عوامی تحریک میں مصری انقلابیوں اور کوفی جنگجوؤں کے ساتھ مدینہ گئے اور اس تحریک میں حصہ لیا۔ حضرت علی (ع) کو خلافت ملی تومالک نے حضرت علی کی بیعت کی اور ہمیشہ علی (ع) کے ساتھ رہے اور جنگ صفین کے اختتام پر مصر کے گورنر مقرر ہوئے۔ مالک کے کردار کے بارے میں ہم صرف نہج البلاغہ کے 38ویں خط کا حوالہ دیں گے جو علی علیہ السلام نے مصر کے لوگوں کو اس وقت لکھا تھا جب وہ مصر پر حکومت کرنے گئے تھے اور یہ ان کا بہترین تعارف ہے:
"امابعد، میں نے آپ کے پاس خدا کا ایک بندہ بھیجا جو خوف کے دنوں میں نہیں سوتا اور خوف کی گھڑیوں میں دشمن سے منہ نہیں ہٹاتا۔ وہ بدکرداروں پر جلتی ہوئی آگ سے زیادہ سخت ہے۔ وہ مالک پسرحارث مذحجى ہے۔ جہاں سچ ہے وہاں اس کی سچائی سنو اور اس کی اطاعت کرو، وہ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ اس کی رفتار کم نہ ہو اور تلوار کند نہ ہو ، اگر وہ آپ کو حرکت کرنے کا حکم دے تو حرکت کریں اور اگر کھڑے ہونے کا کہے تو کھڑے ہو جائیں کیونکہ وہ میرے حکم کے سوا کچھ نہیں کرتا[33] ۔ ۔۔
آخر کار جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے مالک اشتر نخعی کو 39 ہجری میں مصر کے علاقے قلزم میں معاویہ کے کارندوں نے زہر دے کر شہید کر دیا۔
ان کی موت نے علی (ع) کو بہت غمگین کردیا حضرت نے فرمایا:
اے مالک! خدا کی قسم تمہاری موت نےایک عالم کو بوڑھا اور ایک عالم کو خوشحال کر دیا ہےیعنی مالک کی موت شیعوں کے لیے مشکل اورشامیوں کیلئے خوشی کا باعث تھی[34]۔
عراق
یہ سرزمین جنوب سے عرب اور خلیج فارس، شمال سے ترکی، مشرق سے ایران اور مغرب سے شام کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ خلافت اسلامیہ کے دور میں عراق میں خوزستان کے کچھ حصے شامل تھے۔ ظہورِ اسلام سے پہلے یہ سرزمین ایرانی حکومت کا حصہ سمجھی جاتی تھی، یہاں تک کہ سنہ 12 قمری ہجری میں مسلمانوں نے اسے فتح کرنے کے لیے کارروائی کی اور سات سال بعد 19 قمری ہجری سنہ 642 عیسوی میں اسے فتح کیا۔
سرزمین عراق تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے
الف) دریائے فرات کا مغربی علاقہ، اس علاقے کا زیادہ تر حصہ صحرائی ہے اور اس کا سب سے اہم شہر حیرہ ہے۔
ب) عراق کا مرکزی علاقہ جس میں بین النهرین کے جنوبی علاقے کی سرزمین شامل ہے اور شمال سے مدائن (تسفون) سے منسلک ہے اور موصل کے آس پاس تک پھیلا ہوا ہے۔
ج) موصل کا علاقہ اور جزیرہ۔ اس علاقے میں بین النهرین کا شمالی حصہ شامل ہے[35]۔ امام علی (ع) کے زمانے میں ان تینوں خطوں میں بہت سے اہم شہر تھے جیسے کوفہ، بصرہ، مدائن وغیرہ، ان علاقوں میں امام کے نمائندے اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔
عراق میں نمائندے
عراق کی سرزمین اسلامی حکومت کی حدود میں شمار ہوتی تھی۔ اس ریاست میں بہت سے شہر، قصبے اور اضلاع تھے، جن میں سے مشہور کوفہ - امام کی حکومت کا مرکز - بصرہ اور مدائن تھے۔ ان شہروں کے علاوہ دوسرے شہر جیسے انبار، ہیت، فرات، جزیرہ وغیرہ اس سرزمین میں واقع تھے۔
کوفه میں نمائندے
کوفہ بین النہرین کا ایک شہر ہے اور اس کے جنوب میں ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہ شہر 17 ہجری میں بصرہ شہر کے قیام کے بعد سعد بن ابی وقاص کے حکم سے تعمیر کیا گیا۔ یہ شہر 36 ہجری میں امیر المومنین کی حکومت کا مرکز بنا[36]۔ امام علیہ السلام نے عمارہ بن شہاب کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا۔ عمارہ جب کوفہ کے قریب پہنچا تو عثمانی حکمران ابو موسیٰ اشعری نے اسے شہر میں داخل نہ ہونے دیا اور وہ وہاں سے مدینہ چلا گیا[37]۔اس واقعہ کے بعد بعض بزرگوں جیسے مالک اشتر کے اصرار پر امام (ع) نے ابو موسیٰ اشعری کو کوفہ کے گورنر کے عہدے پر برقرار رکھا۔ کوفہ پر ابو موسیٰ کی حکومت زیادہ دیر قائم نہ رہی۔ آپ کو جنگ جمل سے پہلے کوفہ کے گورنر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا [38]۔ ابو موسیٰ اشعری کی برطرفی کے بعد قرظة بن کعب انصارى جو رسول اللہ ص کے اصحاب میں سے تھا، کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا[39]۔ واضح رہے کہ امام علی علیہ السلام کے 12 رجب 36 ہجری کو کوفہ پہنچنے اور اسے اسلامی حکومت کے مرکز کے طور پر منتخب کرنے کے بعد، امام نے شہر کے انتظامی امور کو سنبھال لیا اور صرف جنگ صفین اور نہروان پر جاتے وقت عقبہ بن عمرو[40] اور هانى بن هوذه [41]کو کوفہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔
ہم مختصراً ابو موسیٰ اشعری اور قرظة بن کعب انصارى کی زندگیوں کا تذکرہ کرتے ہیں، جن میں سے ہر ایک تھوڑی دیر کے لیے کوفہ کے گورنر کے عہدے پر فائز رہا۔
ابوموسى اشعرى
عبداللہ بن قیس جسے ابو موسیٰ اشعری کے نام سے جانا جاتا ہے، مکہ میں اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھا۔ اس نے جعفر بن ابی طالب کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ ہجرت نبوت کے ابتدائی سالوں میں مسلمانوں پر مشرکین کے ظلم و ستم کی وجہ سے ہوئی۔
ابو موسیٰ اشعری ہجرت کے ساتویں سال اور جنگ خیبر کے دوران حبشہ سے مسافروں اور مہاجرین کے قافلے کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔حضرت عمر کےدور میں کچھ عرصے کے لیے بصرہ کا گورنر رہا اور حضرت عثمان کے دور میں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔پھر حضرت عثمان کی خلافت کے آخر ی ایام میں سعید بن عاص کی برطرفی کے بعد ابو موسیٰ کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا اور حضرت علی علیہ السلام کی خلافت میں بعض صحابہ کے اصرار کی وجہ سے وہ مختصر عرصے کے لیے اس عہدے پر فائز رہے[42] ۔
قرظة بن کعب انصارى
قرظہ مدینہ کا رہنے والا اور رسول اللہ ص کے اصحاب میں سے تھے۔ آپ نے احد اور دیگر جنگوں میں حصہ لیا۔ رسول اللہ کے بعد، یاران علی میں شمار ہوتا تھا ۔ جمل ، صفین ،نہروان میں حصہ لیا۔ قرظ انصاری کی وفات 40 ہجری میں کوفہ میں ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا بیٹا " عمرو بن قرظه " شہدائے کربلا میں سے ہے[43]۔
بصره میں نمائندے
بصرہ شط العرب کے مغربی ساحل پر واقع ایک شہر ہے اور یہ عراق کا پہلا شہر ہے جو اسلامی دور میں حیرہ کی فتح کے بعد قمری کیلنڈر کے 15ویں سال میں عاصم بن دلف کی رہنمائی میں تعمیر کیا گیا تھا[44]۔ عثمان بن حنیف بصرہ شہر کے پہلے علوی گورنر تھے جو 36 ہجری میں امیر المومنین (ع) کے حکم سے اس شہر میں گئے لیکن کچھ عرصہ بعد انہیں طلحہ اور زیبر نے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا اور شہر سے نکال دیا[45]۔ عبداللہ بن عباس دوسرے گورنر تھے جنہیں جمل کی تاریخی جنگ کے بعد یہاں بھیجا گیا تھا[46]۔
اب ہم ان دو عظیم شخصیات کی زندگیوں پر مختصرگفتگو کریں گے۔
عثمان بن حنیف انصارى
عثمان بن حنیف قبیلہ اوس سے ہیں، سہل بن حنیف کے بھائی - مدینہ شہر کے علوی گورنر تھے۔ بعثت کے قریب مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں۔ سقیفہ میں بیعت کے دوران ابوبکر کی مخالفت کرتے ہوئے امیر المؤمنین کی خلافت کا دفاع کرتے رہے، عثمان بن حنیف ان بارہ لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر کی خلافت پر اعتراض کیا[47]۔
عثمان بن حنیف ایک ماہر اور بصیرت والا شخص تھا [48]جسے امام نے خلافت کے آغاز میں بصرہ شہر کی گورنری کے لیے مقرر کیا تھا۔ وہ حُکیم بن جبله کے ساتھ بصرہ میں داخل ہوا اور شہر کے امور کا انتظام سنبھال لیا[49]۔
ابن حنیف نے بصرہ پر تقریباً پانچ ماہ حکومت کی۔ اس کے بعد حضرت عائشہ، طلحہ اور زبیر مسلح لشکر کے ساتھ بصرہ شہر میں داخل ہوئے۔ ابن حنیف کو گرفتار کر کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے سر اور چہرے کے تمام بال نکال کر شہر سے باہر نکال دیا گیا۔ امام علی علیہ السلام کا مشہور خط عثمان بن حنیف کو بصرہ کے گورنر کے دور میں جاری کیا گیا تھا۔ عثمان نے 60 ہجری میں کوفہ میں وفات پائی[50]۔
عبدالله بن عباس
عبداللہ عباس کے دس بیٹوں میں سے ایک اور رسول خدا کے اصحاب اور امام علی کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ کو علم فقہ اور تفسیر قرآن، اور شاعری میں مہارت حاصل تھی ، ابن عباس ایک فصیح انسان تھے اور امیر المومنین کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ آپ علیہ السلام کے ساتھ جمل، صفین اور نہروان کی جنگوں میں شریک ہوئے اور جنگ جمل کے بعد آپ کو بصرہ کا گورنر منتخب کیا گیا ۔ عبداللہ بن عباس حضرت علی کے باوفا ساتھی تھے اور جنگ صفین میں حضرت کے ترجمان تھے، امیر المومنین نے ان کا تعارف قاضی اور ثالث کے طور پر کرایا، لیکن اہل عراق نے انہیں قبول نہیں کیا![51] ان کی علی (ع) سے علیحدگی اور بصرہ کے بیت المال میں خیانت کے بارے میں مورخین اور علماء کے درمیان بحث ہے۔ آیت اللہ خوئی لکھتے ہیں: عبداللہ بن عباس ایک عظیم انسان اور امیر المومنین اور حسنین علیہم السلام کے محافظ تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے: جنگ جمل میں امیر المومنین کی فتح کے بعد آپ نے عبداللہ بن عباس کو حضرت عائشہ کے پاس بھیجا کہ وہ مدینہ چلی جائیں اور بصرہ میں قیام نہ کریں۔ ابن عباس حضرت عائشہ کے پاس آئے جو اس وقت بصرہ میں بنی خلف کے محل میں تھیں۔ اس نے محل میں داخل ہونے کی اجازت مانگی، لیکن حضرت عائشہ نے اجازت نہ دی۔ عبداللہ بغیر اجازت محل میں داخل ہوا توکمرہ کو خالی پایا اور حضرت عائشہ نے خود کو پردوں کے پیچھے چھپا لیا تھا۔ابن عباس کمرے کے وسط میں بیٹھ گیا توحضرت عائشہ نے پردے کے پیچھے سے ابن عباس سے کہا:
آپ نے بغیر اجازت داخل ہو کر اور بغیر اجازت قالین پر بیٹھ کر خلاف ورزی کی ہے۔ ابن عباس نے کہا: ہم آپ سے زیادہ آداب و سنت کو جانتے ہیں، اور آپ نے ہم سے رسم و رواج سیکھے! جان لو کہ یہ تمہارا گھر نہیں ہے۔ تمہارا گھر وہ ہے جس میں پیغمبر نے تمہیں رہائش دی اور تم خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی اور جان پر ظلم کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ جب بھی آپ اس گھر میں جائیں گے تو ہم آپ کی اجازت کے بغیر وہاں داخل نہیں ہوں گے اور آپ کے گھر کے قالین پر نہیں بیٹھیں گے۔ پھر ابن عباس نے امام علی کا پیغام ان تک پہنچایا۔
مدائن میں نمائندے
مدائن، مدینہ کی جمع ہے اس سے مراد سات شہر ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں، تیسفون مدائن کا سب سے بڑا شہر اور ایران کی ساسانی حکومت کے بادشاہوں کا دارالحکومت تھا[52]۔
یہ خطہ دجلہ کے مغربی اور مشرقی ساحلوں پر واقع ہے اور امیر المومنین کے دور خلافت میں آپ کی حکومت میں تھا اور درج ذیل شخصیات نے گورنر کی حیثیت سے اس علاقے میں اپنے فرائض سرانجام دیے:
1 حذیفہ بن یمان[53]
2 یزید بن قیس ارحبى[54]
ان دونوں کے علاوہ تین اور افراد سعد بن مسعود ثقفی[55]، لام بن زیاد [56]، عدی بن حاتم کے ماموں اور ثابت بن قیس بن خطیم ظُفرى [57]بھی تاریخ میں مدائن کے گورنر بتائے گئے ہیں۔
اب ہم حذیفہ اور یزید کی زندگیوں کا مختصرذکر کریں گے۔
حُذیفة بن یمان
حذیفہ پیغمبر اسلام کے عظیم اور ممتاز اصحاب میں سے تھے حذیفہ نے اپنے والد کے ساتھ جنگ احد میں شرکت کی۔ اس جنگ میں ان کے والد شہید ہوئے۔ احد کے بعد، آپ نے رسول اللہ کے دور میں تمام اسلامی جنگوں میں حصہ لیا۔ حذیفہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ منافین کو جانتے تھے ، جب منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو قتل کرنا چاہا تو وحی الٰہی نے ان کے منصوبے کو ناکام بنا دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حذیفہ سے پوچھا: کیا تم انہیں جانتے ہو؟ عرض کی نہیں جانتا تو حضور نے حذیفہ کو ان کے نام بتائے۔ اس کے بعد حذیفہ ان منافقین کو اچھی طرح جانتا تھا جنہوں نے اپنے چہروں پر اسلام کا نقاب اوڑھ رکھا تھا۔ رسول خدا(ص) کی وفات کے بعد حذیفہ ان لوگوں میں سے تھے جو علی(ع) کے ساتھ کھڑے تھے۔ مسعودی لکھتے ہیں: سنہ 36 ہجری میں حذیفہ کوفہ یا مدائن میں بیمار ہوئے ۔ حضرت عثمان کے قتل اور لوگوں کی علی (ع) کی بیعت کی خبر ان تک پہنچی۔ حذیفہ نے کہا مجھے مسجد لے چلو اور باجماعت نماز کا اعلان کرو۔ لوگوں کے جمع ہونے کے بعد حذیفہ کو منبر پر بٹھایا گیا۔ اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
لوگو! مسلمانوں نے علی کی بیعت کی۔ اب تقویٰ اختیار کرو اور اس کی حمایت کرو۔ اس لیے کہ وہ روز اول سے حق پر تھا اور وہ نبی کے بعد قیامت تک کے لوگوں میں سب سے افضل ہے۔پھر حذیفہ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور کہا: خدایا! تم گواہ ہو کہ میں نے علی کی بیعت کی ہے ۔حضرت نے ان کو خط بھی لکھا: ۔۔۔میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ پوشیدہ اور ظاہر میں تقویٰ اختیار کرو اور ہر وقت خدا کے عذاب سے آگاہ رہو۔ اچھے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرو اور دشمنوں کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔ نرمی سے کام کرو اور لوگوں کے ساتھ دین اور انصاف کے معیار کے مطابق برتاؤ کرو کیونکہ تم خدا کے سامنے ذمہ دار ہو۔مظلوم کی مدد کریں۔ لوگوں کے دھوکہ سے بچیں۔ جب تک ہو سکے اچھا راستہ چنو کیونکہ خدا نیک لوگوں کو جزا دیتا ہے۔۔۔
حذیفہ مدائن پرکچھ عرصہ حکومت کرنے کے بعد اسی شہر میں انتقال کر گئے [58]۔
یزید بن قیس ارحبى
یزید بن قیس ہمدانی قبیلہ بنی ارہب سے تھا اور کوفہ میں رہنے والا تھا۔ یزید ہجری کی تیسری اور چوتھی دہائی میں کوفہ کے مشہور اور عظیم لوگوں میں سے اور جنگجوؤں اور اسلامی انقلابیوں میں سے تھا۔ ۔ شہر کوفہ کے ظالم حکمران ولید بن عقبہ اور سعید بن عاص کے سامنے کھڑے ہو گئے۔کچھ عرصہ جلاوطن بھی رہے ،حضرت عثمان کے قتل کے بعد یزید نے امام علی علیہ السلام کی بیعت کی اور جنگ جمل میں شرکت کی۔ جنگ جمل کے بعد اس نے مدائن کے علاقے کے گورنر کے طور پر کام شروع کیا ، اور اس کے بعد یزید نےشہر کوفہ کے پولیس کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دیں ، جنگ نہروان کے بعد اسے اصفہان، حمدان اور رے کی گورنری پر بھی مقرر کیا گیا[59]۔
جزیره میں نمائندے
جزیرہ دجلہ اور فرات کے درمیان ایک سرزمین ہے جس میں بین النہرین کا شمالی حصہ بھی شامل ہے۔ اس علاقے میں نصیبین، موصل، سنجار، آمد، ھیت اور عانات شہر واقع تھے،اس کے علاوہ قرقیسیا ، حران، رقہ اور قنسرین کے شہر بھی اسی علاقے میں واقع ہیں جو معاویہ کے زیرِ اقتدار تھے ، اس دور میں یہ علاقہ عراق اور شام کی افواج کی حملہ گاہ تھا[60]۔ ان خطوں کا پہلا علوی حکمران ملک اشتر تھا، وہ اس منصب کے لیے جنگ جمیل کے بعد منتخب ہوئے تھے، انہوں نے امیر المومنین کے گورنر کے طور پر اس علاقے میں مختصر وقت کے لیے خدمات انجام دیں[61]، ان کے بعد امام علی (ع) نے کمیل بن زیاد نخعى کو اس علاقے کا گورنر مقرر کیا [62]۔
کمیل بن زیاد نخعى
کمیل یمانى امیر المومنین کے خاص، قریبی اور وفادار پیروکاروں میں سے تھے۔ کمیل کچھ عرصے تک علی (ع) کی طرف سے "هیت" علاقے کا حکمران تھا۔ حجاج جب عراق کا گورنر بنا تو اس نے کمیل کو طلب کیا۔ کمیل کو اس کے منصوبے کا پتہ چل گیا اور وہ بھاگ گیا۔ حجاج نے بیت المال سے کمیل کےخاندان کا حصہ منقطع کر دیا۔ کمیل 83 ہجری میں نوے سال کی عمر میں حجاج کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
عراق میں دیگر نمائندے
عالى
صوبہ عالی بغداد کے مغرب میں ایک علاقہ ہے جس میں چار اضلاع شامل ہیں: انبار، بادرویا ، قصر بُلّ اور مسکن۔ اس علاقے کا مرکز انبار شہر تھا[63]۔ ابو حسن بکری صوبہ عالی میں امیر المومنین کا گورنر تھا[64] ۔
زوابی
زاوبی، زاب کی جمع، جس کا مطلب ہے پانی کی ندی، بغداد کے بالائی اور زیریں علاقوں میں پانی کی چار ندیوں کا نام تھا جہاں لوگ رہتے تھے[65]۔ اس علاقے کا گورنر سعد بن مسعود ثقفى تھا[66] ۔
کسکر
یہ عراق کا قدیم ترین عیسائی نشین شہر تھا جو کوفہ اور بصرہ کے درمیان اور دریائے دجلہ کے کنارے واقع تھا۔ عیسائی کتابوں میں اس کا ذکر" کَشکَر " کے نام سے ملتا ہے،جنگ جمل کے بعد قدامة بن عجلان کو اس شہر کا حاکم مقرر کیا گیا[67] اور اس کے بعد قعقاع بن شورکو اس جگہ بھیجا گیا[68]۔
جَبُّل
یہ کوفہ سے بغداد جاتے ہوئے نعمانیہ اور وسط کے درمیان ایک شہر تھا۔ سلیمان بن صُرد خزاعى کچھ عرصہ جَبُّل شہر کا حکمران تھا[69]۔
بهقباذات
یہ بغداد کے تین علاقوں کا نام ہے جو انوشیروان کے والد قباذ بن فیروز سے منسوب ہے۔ کوفہ میں جنگ جمل اور امیر المومنین کے قیام کے بعد " قرظة بن کعب " کو علاقہ بهقباذات کا گورنر مقرر کیا گیا[70]۔
بُهَرسِیر
بہرسیر بغداد اور مدائن کے قریب ایک علاقے کا نام ہے جو دجلہ کے مغربی علاقے میں واقع ہے اور بعض نے اسے مدائن کے سات شہروں میں سے ایک سمجھا ہے۔
جنگ جمل کے خاتمے اور امام علی (ع) کی کوفہ میں آمد کے بعد وسیع اسلامی ملک کے بعض ایسے علاقوں میں گورنر بھیجے گئے جہاں ابھی تک کوئی گورنر نہیں تھا۔ ان علاقوں میں بُهَرسِیر بھی تھا جہاں عدی بن حارث (عدی بن حاتم) کو گورنر مقرر کیا گیا تھا[71]۔
عین التمر
کوفہ کے مغربی علاقے میں انبار شہر کے قریب ایک قصبہ ہے جو 12 ہجری میں فتح ہوا تھا۔
مالک بن کعب ارحبى اس علاقے میں امام علی علیہ السلام کا نمائندہ تھا[72]۔
فرات کا علاقہ
بلاذری کہتے ہیں: عبیدہ سلمانی فرات کے علاقے میں حضرت علی کا گورنر تھا[73]۔
ایران کا علاقہ (مملکت فُرس یا فارسیان)
ایران ایک قدیم سرزمین ہے جس میں تہذیب و ثقافت اور ایک بہت ہی تاریخی پس منظر ہے۔ یہ سرزمین شمال سے دریاى خزر اور صحرائے خوارزم ، جنوب سے خلیج فارس اور بحیرہ عمان، مغرب سے زاگرس پہاڑ، مشرق سے جیہون اور مغربی علاقے میں دریائے سندھ اور پامیر سے جڑی ہوئی ہے۔ اسلامی دور میں موجودہ مقام کے علاوہ ایران میں خلیج فارس کے جنوبی جزائر اور بحیرہ عمان شامل تھے۔ عراق کی فتح کے بعد، عرب مسلم فوجوں کی طرف سے ایرانی سرزمینوں کی فتح شروع ہوئی۔ ایران میں مسلمانوں کی فتوحات کی تاریخ سنہ 19 ہجری سے شروع ہوتی ہے جس کا تعلق جنگ نهاوند سے ہے۔ یہ فتوحات 34 ہجری میں یزدگرد کی موت تک جاری رہیں۔ اسلامی دور میں ایران میں عراق کے علاقوں اور جنوبی جزائر اور خلیج فارس اور بحیرہ عمان کے ساحلوں کے علاوہ وسیع زمینیں شامل تھیں جہاں اس وقت کے اہم اور خوشحال شہر تھے: اہواز، سوس ( شش)، توسٹر (شوشتر)، ہمدان، نہاوند، فارس، اسبہان (اصفہان)، آذربائیجان، رے، خراسان، سیستان (سیستان)، طبرستان اور...[74]
امیر المومنین علیہ السلام کے دور خلافت میں یہ علاقے آپ علیہ السلام کی حکومت کا حصہ سمجھے جاتے تھے اور ان علاقوں میں آپ کے نمائندے تھے۔
ایران میں نمائندے
ایران بہت وسیع تھااس میں بہت سے شہر شامل تھے۔ اور امام کی طرف سے گورنروں کو مقرر کیا گیا اور اس کا انتظام سنبھالنے کے لیے بھیجا گیا۔ ان میں سے بہت سے عہدیداروں کے نام تاریخ میں مذکور ہیں، ذیل میں ہم صرف ان کے نام اور ان کے دور حکومت کا ذکر کریں گے اور اختصار کے پیش نظر ان کی سوانح حیات کو چھوڑ دیں گے۔
اهواز
جنگ صفین سے پہلے امیر المومنین (ع) نے " خرّیت بن راشد " کو اہواز کی امارت پر مقرر کیا۔ وہ ان علاقوں میں گیا اورمعاملات کو منظم کیا۔ جب صفین کی جنگ حکیمیت سے ختم ہوئی تو خریت کو اس کے نتیجے کا علم ہوا۔ اسے یہ بات پسند نہ آئی اور اہواز کے خزانے سے لیس لشکر کے ساتھ امام (ع) کے ساتھ جنگ کا اعلان کیا[75]۔ امام نے اپنے ایک بہادر ساتھی کو جس کا نام معقل بن قیس تھا اس کو دبانے کے لیے بھیجا اور آخر کار خریت کو قتل کر دیا گیا۔
کرمانشاہ
جب امام علی علیہ السلام 36 ہجری میں مدینہ سے عراق کے لیے روانہ ہوئے تو آپ نے "عبدالرحمن بودل بن ورقع خزاعی" کو سرزمین ماهان کی گورنری کے لیے بھیجا تھا[76]۔
اصفهان و همدان اور رى
جنگ جمل اور کوفہ میں امیر المومنین کے قیام کے بعد " مخنف بن سلیم " کو آپ علیہ السلام نے اصفہان اور ہمدان کا گورنر مقرر کیا۔ وہ تقریباً چھ ماہ تک اصفہان اور ہمدان کے حکمران رہے، جب صفین کی جنگ شروع ہوئی تو امام کی اجازت سے جنگ میں گئے۔ جب وہ عراق روانہ ہوئے تو اصفہان میں "حرث بن ربیع" اور حمدان میں "سعید بن وهب" نے جگہ لے لی[77]۔ یزید بن قیس ارحبى ، ہجری کی تیسری اور چوتھی دہائی کی ایک اور سیاسی شخصیت ہے، جو جنگ صفین کے بعد اور جنگ نہروان سے پہلے اصفہان، رے اور حمدان کی گورنری پر مقرر ہوئے۔
ابن اثیر نے الکامل میں ذکر کیا ہے: جنگ نہروان کے بعد امام علی علیہ السلام نے " حُجَیّه تیمى " کو، رے کی گورنری پر مقرر کیا تھا[78] اوریہ تقرری غالباً اس وجہ سے ہوئی تھی کہ "یزید بن قیس" کی حکومت کا علاقہ بہت وسیع تھا اور اس کی درخواست پر اس علاقے کے لیے ایک اور حاکم مقرر کیا گیا تھا۔
قزوین
ربیع بن خیثم کوفی جو بظاہر مشہد میں مدفون ہے، کچھ عرصے کے لیے قزوین کا گورنر رہا[79]۔
فارس
فارس کے گورنروں میں سے جن کا نام تاریخ میں مذکور ہے " زیاد بن ابیه " ہے۔ سنہ 39 میں اسے امام نے فارس کی گورنری پر مقرر کیا اور " بُسر " کی غارت گری تک اس سرزمین پر حکومت کی[80]۔
اس کے علاوہ بھی فارس کے شہروں میں گورنر تھے جن کے نام تاریخ میں مذکور ہیں۔ پہلا، منذر بن جارود، اصطخر فارس کا گورنر[81]، اور دوسرا اردشیر خُرّ کا گورنر "مَصقلة بن هبیره شیبانى"[82]۔
کرمان
بلاذری لکھتے ہیں: امیر المومنین نے عبدالله بن اھتم کو کرمان کی گورنری پر مقرر کیا[83]۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ تقرری جنگ جمل اور کوفہ میں امیر المومنین کے مستقر ہونے کےبعد ہوئی تھی۔
کرمان کے دوسرے گورنر زیاد بن ابیہ تھے۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ وہ 39 ہجری میں فارس اور کرمان کی گورنری پر تعینات ہوئے[84]۔
آذربائیجان
آذربائیجان میں پہلا گورنر " اشعث بن قیس " تھا۔ وہ اس علاقے میں حضرت عثمان کا گورنر تھا جسے امام نے مختصر وقت کے لیے اپنے نمائندہ کے طور پر باقی رکھا[85]۔ ان کے بعد سعید بن حارث خزاعى جو کچھ عرصے کے لیے سرکاری پولیس کے انچارج رہے، آذربائیجان کی گورنری پر تعینات ہوئے[86]۔ آذربائیجان کے ایک اور گورنر قیس بن سعد انصاری ہیں۔ مصر کی گورنری سے برطرف اور جنگ صفین میں شرکت کے بعد آذربائیجان کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے[87]۔
سجستان (سیستان)
عون بن جعدہ سیستان کے علاقے میں علی (ع) کا پہلا گورنر تھا۔ ان کے بعد ربعى بن کَأْس اس سرزمین کا گورنر بنا[88]۔
خراسان
امیرالمومنین علی علیہ السلام ، 36 ہجری میں جب عراق کے لیے روانہ ہوئے تو اپنے بھانجے" جعدة بن هبُیره " کو خراسان کی گورنری پر مقرر کیا[89] ۔خراسان کا ایک اور گورنر خُلید بن قرّه تھا[90] ۔
بحرین اور عمّان میں گورنر
بحرین خلیج فارس کا ایک جزیرہ تھا اور ایران کے ان علاقوں میں سے ایک تھا جسے ایران کی فتوحات کے دوران بغیر خون بہائے فتح کیا گیا تھا[91]۔ امام علی علیہ السلام نے 36 ہجری میں " عمر بن ابى سلمه " کو بحرین کا گورنر مقرر کیا۔
عمر بن ابى سلمه مخزومى سال دو ہجری کو حبشہ کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ ان کے والد ابو سلمہ اولین مسلمانوں میں سے تھے اور حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے تھے اور جنگ احد میں شہید ہوئے تھے۔ ابو سلمہ کی شہادت کے بعد عمر کی والدہ ام سلمہ نے رسول اللہ سے شادی کی[92]۔
عمر کے بعد نعمان بن عجلان زرقى کو بحرین کا گورنر مقرر کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ نعمان بحرین کے ساتھ ساتھ عمان کے بھی گورنر تھے[93]۔ عمان میں علی (ع) کا ایک اور گورنرحلو بن عوف ازدى تھا۔
شام
بلاد شام یا سوریه مغربی ایشیا کا ایک خطہ ہے جو بحیرہ روم کے مشرق میں ہے جو شمال سے تروس پہاڑوں، مشرق سے فرات اور جنوب سے عربستان سے جڑا ہوا ہے۔ شام میں، لبنان، فلسطین اور اردن کے علاقے شامل ہیں۔ تاریخی منابع میں "شام" کی اصطلاح سے مراد ایک وسیع خطہ ہے، جس میں سات اہم شہر تھے: فلسطین، اردن، حمص، دمشق، قنسرین، عواصم اور ثغود[94] ۔ شامات کے علاقے کی فتح کا آغاز 24 رجب 12 ہجری بمطابق 14 اکتوبر 633 عیسوی کو ہوا اور آخر کار مئی 637 عیسوی کی مناسبت سے ربیع الآخر 16 ہجری میں بیت المقدس کی فتح پر اختتام پذیر ہوا[95] ۔ امیر المومنین کے دور خلافت میں شام کا علاقہ معاویہ کے زیر تسلط تھا اور اسی وجہ سے شام کو اسلامی حکومت کی سرزمین میں واپس کرنے کے لیے جنگ صفین ہوئی۔ اپنی خلافت کے آغاز میں ماہ صفر 36 ہجری میں امیر المومنین نے " سهل بن حنیف " کو سرزمین شام کا گورنر بنا کر بھیجا، لیکن وہ شام میں داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہوئے [96]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ۔ تاریخ طبرى، ج3، ص457؛ الکامل، ج3، ص194۔
[2] ۔ شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید، ج7، ص35؛ فروغ ولایت، ص349.
[3] ۔ یوسف، 55؛ اعراف، 18؛ قصص، 26؛ بقره، 247.
[4] ۔ نهج البلاغه، ترجمه امامى و آشتیانى، ج3، ص137.
[5] ۔ همان، ص8.
[6] ۔ همان، ص147.
[7] ۔ شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید، ج17، ص87.
[8] ۔ اطلس تاریخ اسلام، ص246؛ تاریخ تحلیلى اسلام، شهیدى، ص4؛ معجم البلدان، ج2، ص159 و 252.
[9] ۔ معجم البلدان، ج5، ص210.
[10] ۔ الکامل، ج3، ص398.
[11] ۔ الاستیعاب، ج4، ص161؛ اعیان الشیعه، ج2، ص418 و ج14، ص305؛ اسد الغابه، ج6، ص250؛ الاصابه، ج4، ص158؛ قاموس الرجال، ج3، ص28.
[12] ۔ اسد الغابه، ج4، ص393؛ الاصابه، ج3، ص226؛ الاستیعاب، ج3، ص275؛ معجم رجال الحدیث، ج14، ص76؛ قاموس الرجال، ج8، ص514؛ ترجمه الغارات، ص533. مادر قُثم زنى است به نام امّ الفضل لبابه. او دومین زن مسلمان بود که در مکه اسلام آورد.
[13] ۔ معجم البلدان، ج5، ص97.
[14] ۔ الاستیعاب، ج2، ص92؛ اسد الغابه، ج2، ص470؛ الاصابه، ج2، ص87؛ انساب الاشراف، ج2، ص157؛ قاموس الرجال، ج5، ص356.
[15] ۔ اسدالغابه، ج1، ص260؛ اعیان الشیعه، ج3، ص640؛ قاموس الرجال، ج2، ص428؛ معجم رجال الحدیث، ج3، ص380.
[16] ۔ الاستیعاب، ج1، ص187؛ اسد الغابه، ج1، ص253؛ الاصابه، ج1، ص186؛ قاموس الرجال، ج2، ص418؛ اعیان الشیعه، ج3، ص637.
[17] ۔ الاستیعاب، ج1، ص187؛ اسد الغابه، ج1، ص253؛ الغارات، ج2، ص602؛ قاموس الرجال، ج2، ص429.
[18] ۔ اعیان الشیعه، ج4، ص304؛ قاموس الرجال، ج3، ص29 و ج2، ص421.
[19] ۔ الاستیعاب، ج2، ص92؛ اسد الغابه، ج2، ص470؛ الاصابه، ج2، ص87؛ طبقات، ج3، ص471؛ معجم رجال الحدیث، ج8، ص335؛ قاموس الرجال، ج5، ص353؛ اعیان الشیعه، ج7، ص320؛ منتهى الآمال، ج1، ص376.
[20] ۔ اسد الغابه، ج1، ص253؛ الاستیعاب، ج1، ص186؛ الاصابه، ج1، ص186؛ قاموس الرجال، ج2، ص418؛ اعیان الشیعه، ج3، ص637.
[21] ۔ الاستیعاب، ج1، ص403؛ اسدالغابه، ج2، ص94؛ الاصابه، ج1، ص405؛ قاموس الرجال، ج4، ص115؛ معجم رجال الحدیث، ج7، ص23.
[22] ۔ اعیان الشیعه، ج4، ص306؛ تنقیح المقال، ج1، ص244.
[23] ۔ معجم البلدان، ج5، ص511؛ فرهنگ معین، ج6، ص2339.
[24] ۔ المغازى، ج2، ص1079.
[25] ۔ الکامل، ج3، ص201؛ اعیان الشیعه، ج1، ص446.
[26] ۔ اطلس تاریخ اسلام، ص405؛ معجم البلدان، ج5، ص160؛ فرهنگ معین، ج6، ص1989.
[27] ۔ الغدیر، ج2، ص100.
[28] ۔ تاریخ طبرى، ج3، ص554؛ مختصر تاریخ دمشق، ج21، ص110؛ انساب الاشراف، ج2، ص391؛ بحارالانوار، ج33، ص538.
[29] ۔ اسد الغابه، ج4، ص424؛ طبقات ابن سعد، ج6، ص52؛ الکامل، ج3، ص266؛ قاموس الرجال، ج8، ص535؛ معجم الرجال الحدیث، ج14، ص93؛ الجمل، ص105؛ تاریخ بغداد، ج1، ص178؛ انساب الاشراف، ج2، ص408.
[30] ۔ قاموس الرجال، ج9، ص18؛ معجم رجال الحدیث، ج14، ص230؛ منتهى الآمال، ج1، ص397 ـ 398.
[31] ۔ نهج البلاغه، نامه 35، ترجمه سید جعفر شهیدى.
[32] ۔ قاموس الرجال، ج9، ص20.
[33] ۔ نهج البلاغه، نامه 38، ترجمه سید جعفر شهیدى، ص312.
[34] ۔ اعیان الشیعه، ج9، ص38؛ معجم رجال الحدیث، ج14، ص161؛ قاموس الرجال، ج8، ص643.
[35] ۔ اطلس تاریخ اسلام، ص141؛ معجم البلدان، ج4، ص105.
[36] ۔ معجم البلدان، ج4، ص557.
[37] ۔ تاریخ طبرى، ج3، ص463؛ الکامل، ج3، ص201؛ اعیان الشیعه، ج1، ص446.
[38] ۔ اسد الغابه، ج6، ص307؛ اعیان الشیعه، ج1، ص446.
[39] ۔ الکامل، ج37، ص260.
[40] ۔ وقعه صفین، ص121.
[41] ۔ الغارات، ج1، ص18.
[42] ۔ اسد الغابه، ج6، ص206.
[43] ۔ اعیان الشیعه، ج8، ص449.
[44] ۔ دائرة المعارف تشیّع، ج3، ص262؛ معجم البلدان، ج1، ص510.
[45] ۔ تاریخ طبرى، ج3، ص462؛ الکامل، ج3، ص201؛ اعیان الشیعه، ج1، ص446.
[46] ۔ اعیان الشیعه، ج8، ص56؛ قاموس الرجال، ج6، ص426؛ معجم رجال الحدیث، ج10، ص236؛ انساب الاشراف، ج2، ص169.
[47] ۔ بحارالانوار، ج28، ص189 ـ 203؛ معجم رجال الحدیث، ج11، ص107؛ تنقیح المقال، ج2، ص245؛ قاموس الرجال، ج7، ص116.
[48] ۔ الاستیعاب، ج3، ص90.
[49] ۔ الطبقات، ج5، ص48.
[50] ۔ اعیان الشیعه، ج8، ص139 ـ 141.
[51] ۔ اعیان الشیعه، ج8، ص55 ـ 57؛ منتهى الآمال، ج1، ص385؛ اسد الغابه، ج3، ص290.
[52] ۔ معجم البلدان، ج5، ص88.
[53] ۔ اعیان الشیعه، ج4، ص604.
[54] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص464؛ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357.
[55] ۔ انساب الاشراف، ج2، ص158.
[56] ۔ همان، ص296؛ الاصابه، ج3، ص501.
[57] ۔ الاصابه، ج1، ص195؛ قاموس الرجال، ج2، ص465.
[58] ۔ اعیان الشیعه، ج4، ص591 ـ 606؛ قاموس الرجال، ج3، ص141 ـ 148؛ شخصیتهاى اسلامى شیعه، ج2، ص235 ـ 284.
[59] ۔ تاریخ طبرى، ج3، ص370 ـ 375 و 494؛ الفتوح، ج2، ص170 ـ 181؛ الغدیر، ج9، ص30؛ طبقات، ج5، ص32؛ اعیان الشیعه، ج10، ص305.
[60] ۔ معجم البلدان، ج2، ص156؛ اطلس تاریخ اسلام، ص144؛ وقعه صفین، ص12.
[61] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص465؛ وقعه صفین، ص12؛ بحارالانوار، ج32، ص358.
[62] ۔ قاموس الرجال، ج8، ص600؛ معجم رجال الحدیث، ج14، ص128؛ منتهى الآمال، ج1، ص393.
[63] ۔ معجم البلدان، ج1، ص174.
[64] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص464؛ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357.
[65] ۔ معجم البلدان، ج3، ص174.
[66] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص464؛ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357.
[67] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص465؛ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357.
[68] ۔ انساب الاشراف، ج2، ص160.
[69] ۔ معجم البلدان، ج1، ص103.
[70] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص646؛ انساب الاشراف، ج2، ص165؛ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357.
[71] ۔ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357.
[72] ۔ تاریخ یعقوبى، ج2، ص195.
[73] ۔ انساب الاشراف، ج2، ص176.
[74] ۔ اطلس تاریخ اسلام، ص277؛ معجم البلدان، ج1، ص343.
[75] ۔ ترجمه الفتوح، ص735.
[76] ۔ الفتوح، ج2، ص268.
[77] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص446 و 464؛ وقعه صفین، ص11؛ بحارالانوار، ج32، ص357؛ تنقیح المقال، ج3، ص207.
[78] ۔ الکامل، ج3، ص288.
[79] ۔ قاموس الرجال، ج4، ص336.
[80] ۔ الاستیعاب، ج2، ص663؛ انساب الاشراف، ج2، ص162؛ الغارات، ج2، ص464.
[81] ۔ شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید، ج18، ص57؛ انساب الاشراف، ج2، ص163.
[82] ۔ انساب الاشراف، ج2، ص160.
[83] ۔ همان، ص176.
[84] ۔ الاستیعاب، ج2، ص663.
[85] ۔ انساب الاشراف، ج2، ص159.
[86] ۔ قاموس الرجال، ج5، ص27.
[87] ۔ انساب الاشراف، ج2، ص161 و 301.
[88] ۔ اعیان الشیعه، ج6، ص452؛ انساب الاشراف، ج2، ص176؛ وقعه صفین، ص12؛ بحارالانوار، ج32، ص357.
[89] ۔ الفتوح، ج2، ص268؛ بحارالانوار، ج32، ص357.
[90] ۔ اعیان الشیعه، ج1، ص464؛ وقعه صفین، ص12.
[91] ۔ معجم البلدان، ج1، ص411؛ فرهنگ معین، ج5، ص245.
[92] ۔ اسد الغابه، ج4، ص183؛ قاموس الرجال، ج8، ص156؛ انساب الاشراف، ج2، ص158.
[93] ۔ اسد الغابه، ج5، ص334؛ انساب الاشراف، ج2، ص158.
[94] ۔ تاریخ یعقوبى، ج2، ص195.
[95] ۔ اطلس تاریخ اسلام، ص139؛ معجم البلدان، ج3، ص353.
[96] ۔ تاریخ طبرى، ج3، ص462؛ الکامل، ج3، ص201؛ اعیان الشیعه، ج1، ص446.
+ نوشته شده در پنجشنبه دهم اسفند ۱۴۰۲ ساعت 11:44 توسط اسد عباس اسدی
|