تربیت اولاد ، تعلیمات اہل بیت کی روشنی میں
تربیت اولاد ، تعلیمات اہل بیت کی روشنی میں
اسد عباس اسدی
ہرانسان کی زندگی کا ایک اہم مسئلہ بچوں کی تربیت اور ان کو ادب سکھانا ہوتا ہے اور یہ بچوں کا حق ہوتا ہے کہ جو والدین کو ادا کرنا ہوتا ہے ۔ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں اس موضوع کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے ۔ امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : جاء رجل الی النبی فقال : یا رسول اللہ ما حق ابنی ھذا قال : تحسن اسمہ و ادبہ ، وضعہ موضعا حسنا ۔ایک شخص اپنے بچے کا ہاتھ پکڑ کر رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ میرے بچے کا مجھ پر کیا حق ہے ؟تو پیغمبراکرم نے فرمایا:بچے کا اچھا نام رکھو ، اچھی تربیت کرو اور بچوں کو نیک ماحول مہیا کرو ۔
بچوں کی تربیت کا اہتمام
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : وتجب للولد علی والدہ ثلاث خصال : اختیارہ لوالدتہ و تحسن اسمہ و المباغۃ جی تادیبہ ۔
تین چیزیں والدین پر بچوں کا حق ہیں، 1 اچھا مربی, 2 اچھا نام رکھیں, 3 اوران کی تربیت کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنا۔
پیغمبراکرم فرماتے ہیں : لان یودب احدکم ولدہ خیر لہ من ان یتصدق بنصف صاع کل یوم ۔
اکر آپ میں سے ہر ایک اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرے تو یہ خدا کی راہ میں گندم اور جو کا صدقہ دینے سے بہتر ہے ۔
ایوب بن موسی پیغمبر خدا سے روایت کرتے ہیں : ما نحل والد ولدا نحلا افضل من ادب حسن
والدین کی طرف سے بچوں کے لئے نیک ادب اور اچھی تربیت سے بڑھ کرکوئی ہدیہ نہیں ہے
امام علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسین علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: والادب خیر میراث
ادب بہترین میراث ہے ( والدین کی طرف سے بچوں کے لئے )
انسان کے کمال میں تربیت کا اثر
حضرت علی علیہ السلام ، پیغمبراکرم سے نقل کرتے ہیں: یعرف المؤ من منزلتہ عنـد ربـہ بأن یربى ولدا لہ كافیا قبل الموت
خدا کی نگاہ میں مومن کی قدر و منزلت بچوں کی اچھی تربیت کرنے میں ہے تاکہ مرنے سے پہلے وہ بے فکر ہو جائے
تربیت کرنے کا مناسب ترین وقت
بچپن اورنوجوانی تربیت کے لئے مناسب ترین وقت ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کو اچھا اخلاق اور آداب اسلامی سکھائیں کیونکہ اس ٹائیم میں بچہ صرف اپنے ماں باپ اور گھر کے ماحول سے واقف ہوتا ہے یعنی اس کے کان اور آنکھیں بندھی ہوئی ہیں آپ جیسے چاہیں اس کی روحی و فکری تربیت کر سکتے ہیں اس وقت میں بچے کی روح انتہائی حساس ہوتی ہے یعنی ایک کیمرے کی مانند جو اسے دکھاتے جائیں گے وہ فلم بناتا جائے گا پھر بتدریج اس کو بڑھاتا جائے گا اگر اس دوران والدین بچے کی تربیت میں سستی کریں اور خود بچوں کے لیے نمونہ عمل نہ بنیں تو صرف روک ٹوک پر اکتفاء کریں تو بچے بجائے اچھا اثر لینے کے برا اثر لیں گے گھر سرے باہر برے اخلاق کا مظاہرہ کریں گے ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کووصیت فرماتے ہیں: وانما قلب الحدث کالارض الخالیہ ما القی فیھا من شی قبلتہ فبادرتک بالادب قبل ان یقسمو قلبک ویشتغل لبک
بےشک نوجوان کا دل خالی زمین کی طرح ہے جو آمادہ ہے کہ اس میں بیج بویا جائے پس اس میں اپنی تربیت کا بیج بوئیں قبل اس کے کہ زمین سخت ہو جائے اور اس کا ذہن دوسری چیزوں میں مشغول ہو جائے
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : یا بنی ان تادیت صغیرا انتفعت بہ کبیرا و من عنی بالادب اھتم بہ ، و من اھتم بہ تکلف علمہ و من تکلف علمہ اشتد لہ طلبہ ومن اشتد لہ طلبہ ، ادرک بہ منفعتہ فاتخذہ ، عادتہ ، و ایاک و الکسل منہ ، و الطلب بغیرہ
اے میرے بیٹے : اگر بچپن میں ادب سیکھا تو جوانی میں اس سے فائدہ اٹھاو گے ۔ اے بیٹے : جو بھی ادب و معرفت چاہتا ہے اس کی تلاش بھی کرتا ہے
بچے کے کان میں آذان و اقامت کہنے کی اہمیت و فضیلت
ایک ایسا مستحب عمل کہ جس کی پیغمبر اسلام اور آئمہ اہل بیت نے سب سے زیادہ تاکید کی ہے وہ یہ ہے کہ ماں باپ کو چاہیے بچے کی ولادت کے بعد سب سے پہلے بچے کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں کیونکہ اسکے بچے پر روحانی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو بچے کو کئی قسم کی آفات و بلییات سے محفوظ رکھتے ہیں ۔
1 شیطان بچے سے دور رہتا ہے
سکونی امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا : من ولد لہ مولود فلیوذن فی اذنہ الیمنی باذان الصلوۃ ، ولیقم فی اذنہ الیسری فانھا عصمۃ من الشیطان الرجیم[1] ۔
جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اسکو چاہیے کہ بچے کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہے کیونکہ یہ عمل بچے کو شیطاں کے شر سے محفوط رکھتا ہے ۔
ایک اور مقام پر امام علی پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں : فان ذلک عصمۃ من الشیطان الرجیم و الافزاع لہ [2] ۔
بچے کے کان میں آذان و اقامت کہنا بچے کو شیطان سے محفوظ رکھتا ہے اور بچہ خواب میں بھی نہیں ڈرتا ۔
پیغمبر اسلام حضرت علی سے فرماتے ہیں : یا علی اذا ولد لک غلام او جاریۃ فاذن فی اذنہ الیمنی و اقم فی الیسری ، فانہ لا یضرہ الشیظان ابدا[3] ۔
اے علی ۔ اگر آپ کا بیٹا یا بیٹی پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں کیونکہ اس سے شیطان کبھی بھی بچے کو نقصان نہیں پہنچا پائے گا ۔
امام حسین پیغمبر اسلام سے نقل فرماتے ہیں: من ولد لہ مولود فاذن فی اذنہ الیمنی ، واقام فی اذنہ الیسری لم تضرہ ام الصبیان[4] ۔
جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کو چاہیے کہ بچے کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہے کیونکہ یہ عمل بچے کو ام الصبیان [5] سے محفوط رکھتا ہے ۔
2 پیغمبراسلام کا امام حسن و امام حسین کے کان میں آذان دینا
ابو رافع کہتا ہے ان النبی اذن فی اذن الحسن و الحسین حین ولدا و امر بہ[6] ۔
پیغمبر اسلام نے امام حسن اور امام حسین کے کان میں آذان کہی اور ایسا کرنے کا حکم فرمایا ۔
3 امام کاظم کا اپنے بیٹے امام رضا کے کان میں آذان کہنا
علی بن میثم اپنے باپ سے نقل کرتا ہے
قال سمعت امی تقول : سمعت نجمہ ام الرضا تقول فی حدیث : لما وضعت ابنی علیا دخل الی ابوہ موسی بن جعفر فناولتہ ایاہ فی خرفۃ بیضاء فاذن فی اذنہ الیمنی ، و اقام فی الیسری ، و دعا بماء الفرات فحنکہ بہ ، ثم ردہ الی فقال : خذیہ ؛ فانہ بقیۃ اللہ فی ارضہ[7] ۔
میں نے اپنی ماں سے سنا ہے وہ کہتی ہیں : امام رضا کی والدہ نجمہ کہتی ہیں کہ جب امام رضا پیدا ہوئے ابھی سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے کہ امام کاظم کمرے میں داخل ہوئے اور اپنے بیٹے کو ہاتھوں پہ اٹھایا دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی پحر آب فرات طلب کیا اور آب فرات کی گھٹی دی اور مجھے واپس دیتے ہوئے فرمایا بقیۃ اللہ زمین پر ہیں۔
بچے کا نام رکھنے کا حکم
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا نام رکھا جاتا ہے اور یہ سنت ہے والدین کو چاہیے بچے کا اچھا نام انتخاب کریں کیونکہ ساری زندگی بچے کو اسی نام سے پکارا جانا ہے
سنت نام گذاری
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : لا یُولَد لَنا وَلَدٌ اِلّا سَمَّیناهُ مُحَمَّداً،فَاِذا مَضی سَبعَةُ اَیامٍ فَاِن شِئنا غَیِّرنا وَاِلّا تَرَکنَا [8]
ہم اپنے ہر بچے کا نام محمد رکھتے ہیں پھر ساتویں دن اگر نام تبدیل کرنا ہو تو تبدیل کرتے ہیں وگرنہ محمد ہی رہنے دیتے ہیں
اچھا نام اور حق اولاد
حق الولد علی الوالد ان یحسن اسمہ و یحسن ادبہ [9]
والد پر بچے کا حق ہے کہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : قال رسول اللہ ان اول ما ینحل احدکم ولدہ الاسم الحسن ، فلیحسن احدکم اسم ولدہ[10]
پیغمبر فرماتے ہیں بہترین ہدیہ جو آپ اپنے بچے کو دیتے ہیں وہ اچھا نام ہے پس اپنے بچوں کیلئے اچھے نام انتخاب کریں
موسی بن بکر حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں : اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن ، فلیحسن احدکم اسم ولدہ [11]
مرد کی پہلی نیکی اور احسان بچے پر یہ ہے اسکا اچھا سا نام منتخب کریں پس اپنے بچوں کے لئے بہتریں ناموں میں سے انتخاب کریں۔
قیامت کے دن اچھے نام کی تاثیر
وفی الخبر ان رجلا یؤتی فی قیامہ و اسمہ محمد ، فعقول اللہ لہ : ما استحییت ان عصیتنی و انت حبیبی ، و انا استحیی ان اعذبک و انت سمیی حبیبی [12]
روایت میں آیا ہے قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا جس کا نام محمد ہو گا اللہ تعالی کی طرف سے اسے خطاب کیا جائے گا کہ تجھے شرم نہ آئی میری معصیت کرتے ہوئے حالانکہ تو میرے حبیب کا ھم نام ہے ، مجھے شرم آتی ہے تجھے عذاب دیتے ہوئے کیونکہ تو میرے حبیب ۔ محمد مصطفی کا ہم نام ہے
امام صادق علیہ السلام اپنے اجداد سے نقل فرماتے ہیں : اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد : الا لیقم کل من اسمہ محمد ، فلیدخل الجنۃ لکرامۃ سمیہ محمد [13]
قیامت کے دن ایک ندا دی جائے گی کہ جس کا نام محمد ہے وہ محمد مصطفی کے ھم نام ہونے کے صدقے سیدھا جنت میں چلا جائے
روز قیامت انسانوں کو ان کے ناموں سے پکارا جائے گا
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: استحسنوا اسماءکم فانکم تدعون بھا یوم القیامۃ : قم یا فلاں بن فلاں الی نورک ، قم یا فلاں بن فلاں لا نور لک [14]
اپنے اچھے نام رکھو کیونکہ قیامت کے دن آپ کو اپنے ناموں سے پکارا جائے گا، کہ اے فلان بن فلاں اٹھو اور اپنے نور کی جانب چلو ۔۔۔
بیٹوں کیلئے بہترین نام
ابن عمر پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں : احب الاسماء الی اللہ عبداللہ و عبدالرحمن [15]
اللہ تعالی کے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں
ایک شخص نے اپنے بچے کے نام کے بارے میں امام صادق علیہ السلام سے مشورت کی تو امام نے اسے فرمایا : سمہ اسما من العبودیہ فقال : ای الاسماء ھو قال : عبد الرحمن [16]
خدا کی بندگی والے ناموں میں سے ایک رکھ لو تو اس نے پوچھا کون سا رکھوں تو امام نے فرمایا عبد الرحمن رکھ لو۔
پیغمبر اکرم سے روایت نقل ہے آپ نے فرمایا: من ولد لہ اربعۃ اولاد و لم یسمہ احدھم باسمی فقد جفانی [17]
جس کے چار بیٹے ہوں اور ایک کا نام بھی محمد نا ہو تو اس نے میرے حق میں جفا کی ہے ۔
ابو ہارون کہتا ہے میں مدینہ میں امام صادق علیہ السلام کا ہمنشین تھا کچھ دن امام علیہ السلام نے مجھے نہ دیکھا کچھ دن بعد جب میں امام کے پاس گیا تو امام نے فرمایا : لم ارک منذ ایام یا ابا ھارن فقلت : ولد لی غلام ۔ فقال : بارک اللہ لک ، فما سمیتہ ؟ قلت: سمیتہ محمدا۔ فأقبل بخدہ نحو الارض و ھو یقول: محمد ، محمد ، محمد حتی کان علصق خدہ بالارض ، ثم قال : بنفسی و بولدی و باھلی و بأبوی و باھل الارض کلھم جمیعا الفداء لرسول للہ ، لا تسبہ ولا تضربہ ولا تسیء الیہ ، و اعلم أنہ لیس فی الرض فیھا اسم مھمد الا و ھی تقدس کل یوم [18]
اے ابو ہارون کچھ دن سے آپ کو نہیں دیکھا میں نے عرض کی مولا خدا نے مجھے بیٹا دیا ہے ، فرمایا مبارک ہو بچے کا نام کیا رکھو گے ؟ میں نے عرض کی محمد مولا نے جیسے ہی محمد کا نام سنا تھوڑا سا جھکے اور فرمایا محمد ، محمد ، محمد پھر فرمایا میں میرے ماں باپ بیوی بچے بلکہ روئے زمین پر رہنے والے سب لوگ رسول اللہ پر قربان جائیں ، کبھی اپنے بچے کو گالی نہ دینا اور اس سے بد سلوکی بھی نہ کرنا
ابو امامہ روایت کرتے ہیں آپ (ص) نے فرمایا: من ولد لہ مولود ذکر فسمی محمدا حبا و تبرکا باسمی ، کان ھو و مولودہ فی الجنہ [19]
جس کسی کا بیٹا پیدا ہو اور وہ مجھ سے محبت اور تبرک کیلئے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بچہ دونوں جنت میں جائیں گے
جابر ،پیغمبراکرم سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا: فما من بیت فیہ اسم محمد الا اوسع اللہ علیھم الرزق ، فاذا سمیتموہ فل تضربوہ و لا تشتموہ [20]
جس گھر میں نام محمد ہو خداوند متعال اس گھر میں رزق کو بڑھا دیتا ہے پس اگر اپنے بچے کا نام محمد رکھا ہے تو اسے مارنا بھی نہیں اور اسےگالی بھی مت دینا ۔
نام محمد، خیروبرکت ہے
امام رضا فرماتے ہیں : البیت الذی فیہ محمد یصبح اھلہ بخیر و یمسون بخیر [21]
جس گھر میں محمد کا نام ہو اس گھر میں رہنے والوں پر خیر و برکت رہتی ہے
پیغمبراکرم نے فرمایا: اذاسمیتم الولد محمد فاکرموہ ، و أوسعوا لہ فی المجلس ، ولا تقبھوا لہ وجھا [22]
اگر اپنے بچے کا نام محمد رکھو تو اس کا احترام کرو اور اپنی محفلوں میں اسے جگہ دو اور اس کے کاموں کو نا پسند مت کرو
انس بن مالک نقل کرتے ہیں پیغمبر اکرم نے فرمایا : کیسے اپنے بچوں کا نام محمد رکھتے ہواور پھر انہیں نفریں کرتے ہو؟
اسحاق بن عمار کہتے ہیں میں امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی خداوند متعال نے مجھے بیٹا عطا کیا ہےتو امام علیہ السلام نے فرمایا : ألا سمیتہ محمد قلت : قد فعلت ۔ قال: فلا تضرب محمدا ولا تشتمہ جعلہ اللہ قرۃ عین لک فی حیاتک و خلف صدق بعدک [23]
کیا تم نے اپنے بچے کا نام محمد نہیں رکھا ؟ میں نے عرض کی مولا محمد ہی رکھا ہے تو مولا نے فرمایا محمد کو نہ مارنا اور نہ گالی دینا کیونکہ جب تک تم زندہ ہو خدا تیرے لیئے آنکھوں کا نور قرار دے گا اور تیرے مرنے کے بعد تیرا نیک و صادق جانشین قرار دے گا ۔
نام علی وآئمہ اہل بیت علیہم السلام
سلیمان جعفری کہتا ہے سمعت اباالحسن یقول: لا تدخل فقر بیتا فیہ اس محمد او أحمد أو علی أو الحسن أو الحسین أو جعفر أو طالب أو عبداللہ أو فاطمہ من النساء [24]
میں نے ابوالحسن سے سنا آپ نے فرمایا : جس گھر میں محمد،احمد،علی، حسن،حسین ،جعفر،طالب،عبداللہ،یا فاطمہ نام ہو اس گھر میں کبھی فقر و تنگدستی داخل نہیں ہو سکتی۔
پیغمبروں کے نام
پیغمبراکرم نے فرمایا : اذا کان اسم بعض أھل البیت اسم نبی لم تزل البرکۃ فیھم [25]
اگراہل خانہ میں سے کسی کا نام کسی نبی کے نام پر ہو تو ان میں خیر و برکت رہتی ہے ۔
اصبغ بن نباتہ امام علی سے اور امام علی رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ما من اھل بیت فیھم اسم نبی الا بعث اللہ عزوجل الیھم ملکا عقدسھم بالغداۃ والعشی [26]
جس گھر میں اہل خانہ میں سے کسی کا نام کسی نبی کے نام پر ہو گا تو خدا اس گھر پر ایک فرشتہ مقرر کر دے گا جو صبح و شام ان پر تقدیس کرے گا۔
ابو وہب جسمی پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں : تسموا بأسماء الأبیاء وأحب الأسماء الی اللہ عبداللہ و عبدالرحمن ۔۔۔ و أقبحھا حرب و مرۃ[27]
اپنے لئے پیغمبروں کے نام انتخاب کرو۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ نام عبداللہ و عبدالرحمن ہیں اور برے نام حرب و مرہ ہیں۔
فرعونوں اور بادشاہوں کے نام
عمر نقل کرتے ہیں کہ ہمسر پیغمبر اکرم جناب ام سلمی کے بھائی کا بیٹا پیدا ہوا تو اسکا نام ولید رکھا گیا جب پیغمبر اکرم کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا : سمیتموہ باسم فراعنتکم غیروا اسمہ ، فسموہ عبداللہ[28] ۔
بچے کا نام اپنے فرعونوں کے ناموں پہ رکھ دیا ہے اسکا نام چینج کرو اور عبداللہ رکھو
ابوھریرہ سے نقل ہے کہ اسی ماجرہ کے بارے میں رسول اللہ سے روایت نقل ہے آپ نے فرمایا : سمیتموہ بأسامی فراعنتکم لیکونن فی ھذہ الامۃ رجل یقال لہ الولید وھو شر علی ھذہ الأمۃ من فرعون علی قومہ[29] ۔
بچے کا نام اپنے فرعونوں کے ناموں پہ رکھ دیا ہے ، اگاہ ہو جاو اس امت میں ایک ایسا شخص آنے والا ہے جس کا نام ولید ہو گا اور اس کی برائیاں اور بدکرداریاں آپ کے فرعونوں سے کہیں زیادہ ہوں گی ۔
بچوں کے نام دشمنان اہل بیت پر رکھنے سے شیطان خوش ہوتا ہے
جابر روایت کرتا ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے ایک نوجوان سے فرمایا : مااسمک قال: محمد ۔ قال : بم تکنی قال : ابو جعفر : لقد احتظرت من الشیطان احتظارا شدیدا ۔ ان الشیطان اذا سمع منادیا ینادی : یامحمد او یا علی ذاب کما یذوب الرصاص حتی اذا سمع منادیا ینادی باسم عدو من اعدائنا ۔ اھتز و اختال [30] ۔
آپ کا نام کیا ہے ؟ کہا محمد ۔ فرمایا : آپ کی کنیت کیا ہے؟ کہا علی ۔ تو حضرت نے فرمایا : آپ نے اس کنیت سے اپنے کو شیاطین کے شر سے محفوظ کر لیا ہے ۔ جب شیطان سنتا ہے کہ محمد یا علی کا نام پکارا گیا ہے پریشان ہو جاتا ہے اور جب ہمارے دشمنوں کا نام پکارا جائے تو خوشحال ہو جاتا ہے ۔
پیغمبراکرم ناپسندیدہ ناموں کو تبدیل کرنے کا حکم فرماتے تھے
مفصلی نقل کرتا ہے بادشاہ روم کی طرف سے ایک مسیحی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو پیغمبر اکرم (ص) نے اس سے پوچھا ما اسمک فقلت: اسمی عبدالشمس ، فقال لی: بدل اسمک فأنی سمیتک عبدالوھاب[31]،
آپ کا کیا نام ہے ؟ عرض کی عبدالشمس تو آپ ص نے فرمایا : اپنا نام تبدیل کرو میں نے آپ کا نام عبدالوھاب رکھ دیا ہے۔
سھل بن سعد کہتا ہے کان رجل من اصحاب النبی اسمہ أسود ، فسماہ رسول اللہ أبیض [32]
پیغمبر کے ایک صحابی کا نام اسود (سیاہ) تھا تو آپ(ص) نے اسکا نام تبدیل کر کے ابیض (سفید) رکھ دیا ۔
عتبہ بن سلمی کہتے ہیں : کان النبی اذا أتاہ الرجل و لہ اسم لا یحبہ حولہ[33] ۔
اگر کوئی شخص پیغمبر کے پاس آتا اور آپ ص کو اس کا نام اچھا نہ لگتا تو آپ ص اس کا نام چینج کر دیتے ۔
حسین بن علوان امام صادق اور امام اپنے اجداد سے نقل فرماتے ہیں۔
ان رسول اللہ کان یغیر الاسماء القبیحہ فی الرجال و البلدان [34]
جن بچوں اور شہروں کے نام اچھے نہیں ہوتے تھے آپ (ص) انہیں چینج کر دیتےتھے ۔
شہداء کے نام اور یادیں زندہ رکھنا
ابن قداح امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے : قال جاء الرجل الی نبی فقال : ولد لی غلام فماذا أسمہ قال : أحب الاسماء الی حمزہ[35]
ایک شخص پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ میرا بیٹا ہوا ہے اس کا نام کیا رکھوں ؟ تو آپ ص نے فرمایا میرا پسندیدہ نام حمزہ ہے ۔
ختنہ کرنے کا بیان
ختنہ کرنا ایک ایسی سنت ہے جس کی تاکید پیغمبر اسلام اور تمام آئمہ نے فرمائی ہے ولادت کے ساتویں روز بچے کا ختنہ کرنا چاہیے ساتویں روز ختنہ کرنے میں بہت ساری حکمتیں پوشیدہ ہیں ۔ امام علی پیغمبر اسلام سے نقل کرتے ہیں : اختتنوا اولادکم یوم السابع فانہ اطھر و اسرع نباتا للحم و اروح للقلب [36]۔
اپنے بچوں کا ولادت کے ساتویں روز ختنہ کریں کیونکہ یہ عمل بچے کیلیے پاکیزہ تراور بچے کی جسمانی نشونما میں جلدی اور بچے کی روح کی تراوت کا سبب بنتا ہے ۔
علی علیہ السلام فرماتے ہیں : اختتنو اولادکم یوم السابع ، ولا یمنعکم حر و لا برد فانہ طھر للجسد[37] ۔
اپنے بچوں کا ولادت کے ساتویں روز ختنہ کریں اور کبھی بھی گرمی یا سردی آپ کو روکنے نہ پائے کیونکہ ختنہ جسم کی طھارت اور پاکیزگی ہے ۔
نومولود کا سر مونڈوانے کا حکم
ولادت کے ساتویں روز بچے کا سر منڈوانا سنت ہے مان باپ کو چاہیے ساتویں دن بچے کا سر منڈوائیں مرحوم شیخ حر عاملی صاحب وسائل الشیعہ نے 15 ویں جلد میں تقریبا تیس روایتیں ذکر کرتے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ساتویں روز بچے کا سر منڈوانا سنت موکد ہے ۔ امام صادق اپنے اجداد سے نقل کرتے ہیں : ان رسول اللہ امر بحلق شعر الصبی الذی یولد بہ المولود عن راسہ یوم سابعہ [38]۔
رسول اکرم نے دستور فرمایا کہ ولادت کے ساتویں روز بچے کا سر منڈوا دو ۔
علی بن جعفر کہتے ہیں میں نے اپنے بھائی امام موسی کاظم سے ساتویں دن سر منڈوانے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : اذا مضی سبعہ ایام فلیس علیہ حلق[39] ۔
اکر سات روز گزر جائیں تو پھر سر منڈوانے کا فائدہ نہیں ۔
بالوں کے برابر صدقہ دینا
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : وحلقت فاطمہ رووسھما – الحسن و الحسین – وتصدقت بوزن شعرھما فضۃ [40]۔
سیدہ فاطمہ نے اپنے دونوں بچوں – امام حسن و امام حسین – کے سر منڈوائے تو بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ دی۔
عقیقہ کرنے کا حکم
بچے کی ولادت کے ساتویں روز بچے کا سر منڈوانے کے بعد باپ خدا کی راہ میں جانور قربان کرے اور فقیروں میں اپنے دوستوں میں اور ھمسایوں میں تقسیم کرے ، اس سنت اسلامی کو عقیقہ کہتے ہیں ۔ اسلام میں عقیقہ کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اور یہ ایسا مستحب ہے کہ جو بچے کے بالغ ہونے تک باپ کے ذمہ ہے اور بالغ ہونے کے بعد خود بچے کے ذمہ باقی رہتا ہے اور یہ اتنی زیادہ تاکید ان حکمتوں کی وجہ سے ہے جو عقیقہ میں چھپی ہوئی ہیں ۔
1 بیمہ سلامتی
سمرہ ،پیغمبر اکرم سے نقل کرتا ہے ،آپ نے فرمایا : کل غلام رھینۃ بعقیقۃ[41] ۔
ہر بچہ عقیقہ سے بیمہ ہوتا ہے ۔
امام صادق رسول خدا سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا : کل مولود مرتھن بعقیقہ فکہ والداہ او ترکاہ [42] ۔
ہر مولود کی سلامتی اس کے عقیقہ کرنے میں ہے اب والدیں کے ذمہ ہے کہ وہ بچے کا عقیقہ کرتے ہیں یا نہیں ۔
2 عقیقہ روز ہفتم
امام صادق فرماتے ہیں : الغلام رھن بسابعۃ بکبش یسمی فیہ یعق عنہ [43] ۔
ھر بچے کی سلامتی جانور قربان کرنے کے ساتھہ جڑی ہے جو اس کی طرف سے عقیقہ کیا جاتا ہے ۔
پیغمبر اسلام فرماتے ہیں : اذا کان یوم سابعہ فاذبح فیہ کبشا [44] ۔
بچہ جب سات دن کا ہو جائے تو ایک کبش ذبح کریں
3 پیغمبر نے حسنین کا عقیقہ کیا
امام صادق فرماتے ہیں : سمی رسول اللہ حسنا و حسینا یوم سابعھما و شق من اسم الحسن و الحسین و عق عنھما شاۃ شاۃ [45] ۔
پیغمبر اسلام نے ساتویں روز حسن و حسین کا نام رکھا نام حسین حسن سے لیا گیا ہے اور ہر ایک کیلئے گوسفند عقیقہ کیا ۔
4 سیدہ فاطمہ نے حسنین کا عقیقہ کیا ۔
امام صادق فرماتے ہیں : عقت فاطمہ عن ابیھا صلوات اللہ علیھما و حلقت رووسھما فی الیوم السابع [46] ۔
فاطمہ الزہراء نے ساتویں روز اپنے دونوں بچوں کا عقیقہ کیا اور ان کے سر منڈوائے ۔
5 امام باقر کا اپنے بچوں کا عقیقہ کرنا
ولد لابی جعفر غلامان ، فامر زید بن علی ان یشتری لہ جزورین للعقیقہ [47]۔۔۔
امام باقر کے دو بچے ہوئے تو امام نے زید بن علی کو حکم دیا کہ دو اونٹ عقیقہ کے لیے لے آو ۔
6 امام حسن عسکری کا امام زمانہ کے لیے عقیقہ کرنا ۔
ابراھیم بن ادریس کہتا ہے وجہ الی مولای ابو محمد ۔۔۔ بکبشین و کتب : بسم اللہ الرحمن الرحیم عق ھین الکبشین عن مولاک و کل ھناک اللہ و اطعم اخوانک ففعلت[48] ۔۔۔۔۔ ،
میرے مولا امام حسن عسکری نے دو گوسفند میرے پاس بھیجے اور ساتھہ لکھہ بھیجا ، بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ دو گوسفند اپنے مولا امام زمان کے لیئے عقیقہ کرو ان کا گوشت کھاو اور اپنے بھائیوں کو بھی کھلاو تو میں نے ایسا ہی کیا ۔
7 بیٹے اور بیٹی کا عقیقہ ایک ہی ہے
پیغمبر اسلام فرماتے ہیں : العقیقۃ شاۃ من الغلام و الجاریۃ سواء [49] ۔
عقیقہ ایک گوسفند ہے اور اس میں بیٹی بیٹے کا کوئی فرق نہیں
8 عقیقہ یا اس کے برابر صدقہ دینا ۔
عبداللہ بن بکر کہتے ہیں کنت عند ابی عبداللہ فجاءہ رسول اللہ عمہ عبداللہ بن علی ، فقال: یقول لک عمک انا طلبنا العقیقہ فلم نجدھا ، فما تری نتصدق بثمنھا ؟ قال: لا ۔ ان اللہ یحب اطعام الطعام و اراقۃ الدماء [50] ۔
امام صادق کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ آپ علیہ السلام کے چچا کا قاصد آیا اور عرض کرنے لگا آپ کے چچا کہتے ہیں : میں عقیقہ کے لیے گوسفند ڈھونڈتا رہا ہوں لیکن نہیں ملا ، آپ کی کیا رائے ہے نقدی پیسے صدقہ کر دوں ؟ تو امام نے فرمایا ایسا نہ کرنا کیونکہ خدا اطعام اور خوں بھانے کو پسند کرتا ہے ۔
محمد بن مسلم کہتا ہے ولد لابی جعفر غلامان ، فامر زید بن علی ان یشتری لہ جزورین للعقیقۃ وکان رمن غلاء ۔ فاشتری لہ واحدۃ و عسرت علیہ الاخری ، فقال لابی جعفر و قد عسرت علی الاخری ، فاتصدق بثمنھا ؟ قال: لا ، اطلبھا فان عزوجل یحب اھراق الدماء و اطعام الطعام [51] ۔
امام باقر کے دو بیٹے ہوئے تو امام نے زید بن علی کو حکم فرمایا کہ عقیقہ کیلئے دو اونٹ لے آو ان دنوں روزحار زرا اطھا نہیں تھا زید بن علی صرف ایک ہی اونٹ خرید سکے ، امام سے عرض کرتا ہے دوسرا اونٹ خریدنا میرے لیے مشکل ہے کیا اونٹ کی قیمت صدقہ کرسکتا ہوں ؟ تو امام نے فرمایا کوشش کرو اونٹ خریدوکیونکہ خدا خون بھانے اور اطعام کرنے کو پسند کرتا ہے
بچے کا نام رکھنے کا حکم
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا نام رکھا جاتا ہے اور یہ سنت ہے والدین کو چاہیے بچے کا اچھا نام انتخاب کریں کیونکہ ساری زندگی بچے کو اسی نام سے پکارا جانا ہے
سنت نام گذاری
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : لا یُولَد لَنا وَلَدٌ اِلّا سَمَّیناهُ مُحَمَّداً،فَاِذا مَضی سَبعَةُ اَیامٍ فَاِن شِئنا غَیِّرنا وَاِلّا تَرَکنَا [52]
ہم اپنے ہر بچے کا نام محمد رکھتے ہیں پھر ساتویں دن اگر نام تبدیل کرنا ہو تو تبدیل کرتے ہیں وگرنہ محمد ہی رہنے دیتے ہیں
اچھا نام اور حق اولاد
حق الولد علی الوالد ان یحسن اسمہ و یحسن ادبہ [53]
والد پر بچے کا حق ہے کہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : قال رسول اللہ ان اول ما ینحل احدکم ولدہ الاسم الحسن ، فلیحسن احدکم اسم ولدہ[54]
پیغمبر فرماتے ہیں بہترین ہدیہ جو آپ اپنے بچے کو دیتے ہیں وہ اچھا نام ہے پس اپنے بچوں کیلئے اچھے نام انتخاب کریں
موسی بن بکر حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں : اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن ، فلیحسن احدکم اسم ولدہ [55]
مرد کی پہلی نیکی اور احسان بچے پر یہ ہے اسکا اچھا سا نام منتخب کریں پس اپنے بچوں کے لئے بہتریں ناموں میں سے انتخاب کریں
قیامت کے دن اچھے نام کی تاثیر
وفی الخبر ان رجلا یؤتی فی قیامہ و اسمہ محمد ، فعقول اللہ لہ : ما استحییت ان عصیتنی و انت حبیبی ، و انا استحیی ان اعذبک و انت سمیی حبیبی [56]
روایت میں آیا ہے قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا جس کا نام محمد ہو گا اللہ تعالی کی طرف سے اسے خطاب کیا جائے گا کہ تجھے شرم نہ آئی میری معصیت کرتے ہوئے حالانکہ تو میرے حبیب کا ھم نام ہے ، مجھے شرم آتی ہے تجھے عذاب دیتے ہوئے کیونکہ تو میرے حبیب ۔ محمد مصطفی کا ہم نام ہے
امام صادق اپنے اجداد سے نقل فرماتے ہیں : اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد : الا لیقم کل من اسمہ محمد ، فلیدخل الجنۃ لکرامۃ سمیہ محمد [57]
قیامت کے دن ایک ندا دی جائے گی کہ جس کا نام محمد ہے وہ محمد مصطفی کے ہم نام ہونے کے صدقے سیدھا جنت میں چلا جائے
روز قیامت انسانوں کو ان کے ناموں سے پکارا جائے گا
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: استحسنوا اسماءکم فانکم تدعون بھا یوم القیامۃ : قم یا فلاں بن فلاں الی نورک ، قم یا فلاں بن فلاں لا نور لک [58]
اپنے اچھے نام رکھو کیونکہ قیامت کے دن آپ کو اپنے ناموں سے پکارا جائے گا، کہ اے فلان بن فلاں اٹھو اور اپنے نور کی جانب چلو
بیٹوں کیلئے بہترین نام
ابن عمر پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں : احب الاسماء الی اللہ عبداللہ و عبدالرحمن [59]
اللہ تعالی کے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں
ایک شخص نے اپنے بچے کے نام کے بارے میں امام صادق علیہ السلام سے مشورت کی تو امام نے اسے فرمایا : سمہ اسما من العبودیہ فقال : ای الاسماء ھو قال : عبد الرحمن [60]
خدا کی بندگی والے ناموں میں سے ایک رکھ لو تو اس نے پوچھا کون سا رکھوں تو امام نے فرمایا عبد الرحمن رکھ لو۔
پیغمبر اکرم سے روایت نقل ہے آپ نے فرمایا: من ولد لہ اربعۃ اولاد و لم یسمہ احدھم باسمی فقد جفانی [61]
جس کے چار بیٹے ہوں اور ایک کا نام بھی محمد نا ہو تو اس نے میرے حق میں جفا کی ہے ۔
ابو ھارون کہتا ہے میں مدینہ میں امام صادق علیہ السلام کا ہمنشین تھا کچھ دن امام علیہ السلام نے مجھے نہ دیکھا کچھ دن بعد جب میں امام کے پاس گیا تو امام نے فرمایا : لم ارک منذ ایام یا ابا ھارن فقلت : ولد لی غلام ۔ فقال : بارک اللہ لک ، فما سمیتہ ؟ قلت: سمیتہ محمدا۔ فأقبل بخدہ نحو الارض و ھو یقول: محمد ، محمد ، محمد حتی کان علصق خدہ بالارض ، ثم قال : بنفسی و بولدی و باھلی و بأبوی و باھل الارض کلھم جمیعا الفداء لرسول للہ ، لا تسبہ ولا تضربہ ولا تسیء الیہ ، و اعلم أنہ لیس فی الرض فیھا اسم مھمد الا و ھی تقدس کل یوم [62]
اے ابو ھارون کچھ دن سے آپ کو نہیں دیکھا میں نے عرض کی مولا خدا نے مجھے بیٹا دیا ہے ، فرمایا مبارک ہو بچے کا نام کیا رکھو گے ؟ میں نے عرض کی محمد مولا نے جیسے ہی محمد کا نام سنا تھوڑا سا جھکے اور فرمایا محمد ، محمد ، محمد پھر فرمایا میں میرے ماں باپ بیوی بچے بلکہ روئے زمین پر رہنے والے سب لوگ رسول اللہ پر قربان جائیں ، کبھی اپنے بچے کو گالی نہ دینا اور اس سے بد سلوکی بھی نہ کرنا
ابو امامہ روایت کرتے ہیں آپ (ص) نے فرمایا: من ولد لہ مولود ذکر فسمی محمدا حبا و تبرکا باسمی ، کان ھو و مولودہ فی الجنہ [63]
جس کسی کا بیٹا پیدا ہو اور وہ مجھ سے محبت اور تبرک کیلئے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بچہ دونوں جنت میں جائیں گے
جابر پیغمبراکرم سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا: فما من بیت فیہ اسم محمد الا اوسع اللہ علیھم الرزق ، فاذا سمیتموہ فل تضربوہ و لا تشتموہ [64]
جس گھر میں نام محمد ہو خداوند متعال اس گھر میں رزق کو بڑھا دیتا ہے پس اگر اپنے بچے کا نام محمد رکھا ہے تو اسے مارنا بھی نہیں اور اسےگالی بھی مت دینا ۔
نام محمد، خیروبرکت ہے ۔
امام رضا فرماتے ہیں: البیت الذی فیہ محمد یصبح اھلہ بخیر و یمسون بخیر [65]
جس گھر میں محمد کا نام ہو اس گھر میں رہنے والوں پر خیر و برکت رہتی ہے
پیغمبراکرم نے فرمایا: اذاسمیتم الولد محمد فاکرموہ ، و أوسعوا لہ فی المجلس ، ولا تقبھوا لہ وجھا [66]
اگر اپنے بچے کا نام محمد رکھو تو اس کا احترام کرو اور اپنی محفلوں میں اسے جگہ دو اور اس کے کاموں کو نا پسند مت کرو
انس بن مالک نقل کرتے ہیں پیغمبر اکرم نے فرمایا : کیسے اپنے بچوں کا نام محمد رکھتے ہواور پھر انہیں نفریں کرتے ہو؟
اسحاق بن عمار کہتے ہیں میں امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی خداوند متعال نے مجھے بیٹا عطا کیا ہےتو امام علیہ السلام نے فرمایا : ألا سمیتہ محمد؟ قلت : قد فعلت ۔ قال: فلا تضرب محمدا ولا تشتمہ جعلہ اللہ قرۃ عین لک فی حیاتک و خلف صدق بعدک [67]
کیا تم نے اپنے بچے کا نام محمد نہیں رکھا ؟ میں نے عرض کی مولا محمد ہی رکھا ہے تو مولا نے فرمایا محمد کو نہ مارنا اور نہ گالی دینا کیونکہ جب تک تم زندہ ہو خدا تیرے لیئے آنکھوں کا نور قرار دے گا اور تیرے مرنے کے بعد تیرا نیک و صادق جانشین قرار دے گا ۔
اولاد کی شخصیت میں ماں کے دودھ کی تاثیر
ایک اہم نکتہ جس کا ماں کو خصوصی خیال رکھنا چاہیے وہ بچے کو دودھ پلانا ہے اگرچہ بعض لوگ اتنے اہم مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دیتے مگر اسلام نے اس مسئلہ کی طرف خصوصی توجہ دی ہے
بعض اوقات ماں باپ بہت ہی اچھے اور متدین ہوتے ہیں مگر اولاد منحرف ہو جاتی ہے اور جب ہم ان کے منحرف ہونے کی وجہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ ماں کا بچے کو دودھ پلانے میں بے توجہی کرنا ہے اگر ماں دودھ پلانے میں بچے پر تھوڑا زیادہ توجہ اور عنایت کرتی تو ایسا کبھی نہ ہوتا کیونکہ شیر خوارگی کے دوران بچے کی نہ صرف جسمانی گروتھ ہوتی ہے بلکہ روحانی گروتھ بھی ہوتی ہے ماں کے دودھ کے ساتھ ماں کی گفتار اور رفتار بھی بچے پر اثر انداز ہوتی ہے ۔
پیغمبر گرامی اسلام اور آئمہ اہل بیت کی روایات میں ، بچے کو دودھ پلانے کی اہمیت کے بارے میں خصوصی ہدایات ذکر ہوئی ہیں
ماں کا بچے کو دودھ پلانے کا اجر و ثواب
امام صادق ، پیغمبر گرامی اسلام سے روایت کرتے ہیں : أنما امرأۃ دفعت من بیت روجھا شیأمن موضع ترید بہ صلاحا نظراللہ الیھا و من نظراللہ الیہ لم یعذبہ ، فقالت أم سلمہ : یا رسول اللہ ذھب الرجل بکل خیر فأی شیء للنساء المساکین فقال : بلی اذا حملت المرأۃ کانت بمنزلۃ الصائم القائم المجاھد بنفسہ و مالہ و فی سبیل اللہ ، فاذا وضعت کان لھا من الاجر ما لا یدری أحد ما ھو لعظمہ فاذا ارضعت کان لھا بکل مصۃ کعدل عتق محرر من ولد اسماعیل فاذا فرغت من رضاعہ ضرب ملك کریم علی جنبھا و قال : استأنفی العمل فقد غفر لك[68] ۔
جو خاتون شوہر کا گھر مرتب کرنے کیلئے سامان اٹھاتی ہے اور گھر کو مرتب کرتی ہے تو خدا اس پر نظر کرم کرتا ہے اور جس پر خدا کی نظر کرم ہو اس کو کبھی عذاب نہیں ہو سکتا
أم سلمی نے کہا : یا رسول اللہ تمام نیکیاں تو مرد لے گئے عورتوں کے حصے میں بھی کچھ ہے ؟ تو پیغمبر نے فرمایا : ہاں عورت جب حاملہ ہوتی ہے تو وہ اس مجاھد کی مانند ہے جو دن میں روزہ رکھے راتوں کو عبادت کرے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اپنی جان و مال سب کچھ قربان کر دے ، اور جب بچہ پیدا کرتی ہے تو اسکا اتنا ثواب ہے کہ کوئی درک بھی نہیں کر سکتا اور جب بچے کو دودھ دیتی ہے تو ہر دفعہ دودھ پلانے کا ثواب اولاد اسماعیل سے غلام آزاد کرانے کے برابر ہے اور جب دودھ پلا لے تو ایک فرشتہ اس کے پہلو میں آ کے کہتا ہے خدا نے تیرے تمام گناہ معاف کر دیئے ۔
ایک اور روایت میں آپ (ص) حولاء عطارہ کو فرماتے ہیں
فاذا وضعت حملھا و أخذت فی رضاعہ فما یمص الولد مصۃ من لبن أمہ الا کان بین یدیھا نورا ساطعا یوم القیامۃ یعجب من رآھا من الاولین و الآخرین ، و کتبت صائمۃ قائمۃ ۔۔ فاذا فطمت ولدھا ، قال الحق جل ذکرہ : یا أیتھا المرأۃ : قدغفرت لك ما تقدم من الذنوب ، فاستأنفی العمل[69] ۔
پس جب ماں بچے کو جنم دیتی ہے اور اسے اپنا دودھ پلاتی ہے تو جتنی دفعہ بچہ دودھ پیتا ہے تو ہر دفعہ کے بدلے میں قیامت کے دن ایک نور پیدا ہوگا ہر آنے والوں اور گذرے ہوؤں میں سے اس نور کو دیکھے گا تو حیران رہ جائے گا اور ماں کے نامہ اعمال میں روزہ دار اور شب زندہ دار کا ثواب لکھا جائے گا ۔۔۔ اگر ماں بچے کو دوھ نہ پلائے تو خدا کی آواز آتی ہے اے خاتون اپنے بچے کو دودھ پلا میں تیرے سارے گناہ معاف کر دوں گا ۔
بہترین دودھ
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : لیس للصبی لبن خیر من لبن أمہ[70]
بچے کیلئے ماں سے بہتر اور کوئی دودھ نہیں ۔
امام صادق (ع) امیر المؤمنین سے نقل کرتے ہیں : ما من لبن رضع بہ الصبی أعظم برکۃ علیہ من لبن أمہ[71]
بچے کیلئے ماں کے دودھ سے بڑھ کر کوئی دودھ بھی با برکت نہیں ہوسکتا ۔
(جاری ہے )
[1] وسائل الشیعہ ، ج15 ، ص 136 ؛ مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 137 ۔
[2] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 138 ۔
[3] تحف العقول ، ص 14 ۔
[4] کنز العمال ، ج 16 ، ص 457 ۔
[5] یہ ایک بیماری ہے جس میں بچے کو غش پڑتے ہیں ۔ فرھنگ جامع ، ج 1 ، ص 45 ۔
[6] کنز العمال ، ج 16 ، ص 599 ۔
[7] وسائل الشیعہ ، ج15 ، ص 138 ۔
[8] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 127 ۔
[9] کنز العمال ۔ ج 16 ، ص 477 ۔
[10] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 122 ۔
[11] ھمان ، ص 126
[12] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 130 ۔
[13] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 128 ۔
[14] عدۃ الداعی ۔ ص 78 ۔
[15] کنزالعمال ، ج 16 ، ص 417 ۔
[16] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص125 ۔
[17] عدۃ الداعی ۔ ص 77 ۔
[18] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص126 ۔
[19] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص125 ۔
[20] مجموعہ ورام ، ص 26 ۔
[21] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص127 ۔
[22] ھمان ، ج 15 ص 127 ؛ کنزالعمال ، ج 16 ص 418
[23] مکارم الاخلاق ، ص 25 ۔
[24] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص129 ۔
[25] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص129
[26] وسائل الشیعہ ، ج 157 ، ص 125 ۔
[27] کنز العمال ، ج 16 ، ص 200 ۔
[28] کنز العمال ، ج 16 ، ص 592
[29] ھمان ، ج 16 ، ص 430 ۔
[30] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 126 ۔
[31] مستدر الوسائل ، ج 15 ، ص 128 ۔
[32] کنز العمال ، ج 16 ، ص 596 ۔
[33] ھمان ، ص 596 ۔
[34] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 123 ۔
[35] ھمان ، ص 129 ؛ کنز العمال ، ج 16 ، ص 423 ۔
[36] کنز العمال ، ج 167 ، ص 436 ؛ وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 165 ، تھورے فرق کے ساتھہ مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 149 ۔
[37] تحف العقول ، ص 119 ۔
[38] مستدک الوسائل ، ج 15 ، ص 142 ۔
[39] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 169 ۔
[40] ھمان ، ج 15 ، ص 159 ۔
[41] کنزالعمال ، ج 16 ، ص 431 ؛ کتاب العیال ، 1 ، ص 216 و 433 ۔
[42] مستدرک الوسائل ج 15 ، ص 140 ۔
[43] بحار الانوار ، ج 43 ، ص 256 ۔
[44] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 143 ۔
[45] بحار الانوار ، ج 43 ، ص 257 ۔
[46] ھمان ، ص 256 – 257 ۔
[47] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 146 ۔
[48] محمد جواد طبسی ، حیاۃ الامام العسکری ، ص 80 ۔
[49] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 142 ۔
[50] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 146 ۔
[51] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 146 ۔
[52] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 127 ۔
[53] کنز العمال ۔ ج 16 ، ص 477 ۔
[54] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 122 ۔
[55] ھمان ، ص 126
[56] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 130 ۔
[57] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 128 ۔
[58] عدۃ الداعی ۔ ص 78 ۔
[59] کنزالعمال ، ج 16 ، ص 417 ۔
[60] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص125 ۔
[61] عدۃ الداعی ۔ ص 77 ۔
[62] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص126 ۔
[63] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص125 ۔
[64] مجموعہ ورام ، ص 26 ۔
[65] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص127 ۔
[66] ھمان ، ج 15 ص 127 ؛ کنزالعمال ، ج 16 ص 418
[67] مکارم الاخلاق ، ص 25 ۔
[68] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 175 ۔
[69] مستدرک الوسائل م ج 15 ، ص 156 ۔
[70] ھمان ، ج 15 ، ص 1567 نقل از صحیفہ الرضا ، ص 42
[71] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 175 ۔
+ نوشته شده در پنجشنبه شانزدهم فروردین ۱۴۰۳ ساعت 12:7 توسط اسد عباس اسدی
|