امام سجاد علیہ السلام کی اخلاقی سیرت

امام سجاد علیہ السلام کی اخلاقی سیرت

مقدمہ

قرآن و حدیث کی تعلیمات میں اخلاق و کردار پر بہت زیادہ دیاگیا ہے اور اسلام کے تمام پیروکاروں کو اخلاقیات سے مزین ہونے کی تاکید کی گئی ہے ، اس لئے کہ یہ جہاں انسان کی شخصیت کو نکھارتا ہے وہیں معاشرے کو خوبصورت اور حسین بناتا ہے،اسی اخلاق سے اقوام و ملل کی کامیابی و کامرانی وابستہ رہی ہے ۔

اخلاق و کردر کی اہمیت و عظمت کو پیش نظر رکھتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد ہی اتمام و اکمال اخلاق قرار دیاہے ؛ قرآن مجید اسی مقصد کی حکایت کرتے ہوئے فرماتاہے :"انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق"۔ (۱)رسول اکرم ؐ نے اسی اخلاقی سیرت کی وجہ سے کچھ ہی دنوں میں جاہل عرب بدوؤں کے دلوں کو رام کیا اور انہیں اسلام کے آفاقی آئین و تعلیمات سے بہرہ مند فرمایا۔

یہ صرف رسول اکرم ؐ کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ آپ کے تمام جانشینوں نے دین اسلام کی تعلیمات کی ترویج و اشاعت میں اپنی اخلاقی سیرت سے بہت زیادہ استفادہ کیاہے ، انہوں نے پہلے اپنے اخلاق و کردار سے لوگوں کے قلوب میں جگہ بنائی اس کے بعد اسلام کی تعلیمات اور احکام و قوانین کو پیش کیا ۔

امام سجاد علیہ السلام کی سیرت و زندگی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ، حالانکہ بعض لوگوں نے اس عظیم ہستی کو بیمار کے لقب سے یاد کیاہے جب کہ آپ کی بیماری واقعۂ عاشورہ کے چند دنوں تک محدود تھی اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا تھا ، تقریباًسبھی لوگ اپنی عمر کے ایک حصہ میں بیمار ہوتے ہیں ، ہم سب جانتے ہیں کہ امام سجاد علیہ السلام کی اس بیماری میں الٰہی حکمت و مصلحت کار فرماتھی ، در اصل خداوندعالم ان دنوں آپ کے کاندھے سے جہاد و دفاع کی ذمہ داری اٹھا لینا چاہتاتھا تاکہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد آپ کے کاندھے پر امامت و امانت کی ذمہ داری ڈالی جاسکے اور اپنے والد گرامی کے بعد چونتیس یا پینتیس برس تک زندہ رہ کر نہایت سخت اور پر آشوب دور طے کرسکیں ۔

امام سجاد علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے وفات پدر کے بعد کی ذمہ داریوں کو اور اسلام کے واقعی چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے جہاں اپنی دلیری و شجاعت کا مظاہرہ فرمایا، اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا وہیں، دعا و مناجات اور اپنی اخلاقی سیرت سے بھی بھرپور سہارا لیاہے ۔اسی لئے یہاں امام سجاد علیہ السلام کی اخلاقی سیرت اور آپ کے برجستہ صفات کے کچھ نمونے پیش کئے جارہے ہیں تاکہ ان سے ہم اپنی زندگی میں استفادہ کرکے اپنی دنیا و آخرت کو سنوار سکیں ۔

1۔ کثرت عبادت

امام علیہ السلام کی عبادت و ریاضت کے بارے میں کچھ بیان کرنا ، سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ،اس لئے کہ امام صرف عبادت گزار نہیں تھے بلکہ ایسے عبادت گزار تھے جن پر دنیا کے تمام عبادت گزاروں کو افتخار تھا ، آپ کو عبادت گزاروں کی زینت کہاگیا ہے،آپ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ آپ کا لقب ہی "زین العابدین" پڑ گیا۔جب آپ عبادت کے لئے خداوندعالم کی بارگاہ میں کھڑے ہوتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ایک انتہائی معمولی غلام ، عظیم بادشاہ کے سامنے کھڑا ہے ؛ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : میرے والد جس وقت نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو ایسا معلوم ہوتاہے تھا کہ ایک معمولی سا غلام ایک عظیم ترین بادشاہ کے سامنے کھڑا ہے ، خوف خدا سے سارا بدن لرزنے لگتا تھا ، چہرۂ مبارک زرد ہو جاتا تھا اور اس طرح سے نماز بجا لاتے تھے کہ گویا یہی زندگی کی آخری نماز ہے ۔ (۲)

امام علیہ السلام کی عبادت کا امتیاز یہ ہے کہ آپ کی عبادت و ریاضت کو دیکھ کر لوگوں کے دل میں خدا کی عبادت کرنے کا جذبہ بیدار ہوتاتھا اور لوگ خداوندعالم کی عبادت کے سلسلے میں اپنی رغبت کا مظاہرہ کرتے تھے ؛ شیخ مفید رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام کے ایک بھانجے کا بیان ہے کہ میری والدہ ہمیشہ مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے ماموں جان کے پاس گزارا کرو۔قسم خدا کی !میں جب بھی امام کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا بلکہ علم و دانش اوراخلاق و فضیلت کے گوہر آبدار لے کر آتاتھا ، امام علیہ السلام جس وقت بارگاہ خداوندی میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو امام کی حالت دیکھ کر خدا کی عظمت و بزرگی میری نظروں کے سامنے مجسم ہو جایا کرتی تھی ۔ (۳)

2۔ عفو و بخشش

عام طور سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کو معاف کردینا عفو و بخشش ہے چاہے وہ معاف کرنے کی قدرت رکھتے ہوں یا نہیں ؛ حالانکہ عفو کا مفہوم اس وقت صادق آتا ہے جب انسان کے پاس معاف کرنے کی قدرت ہو ۔ائمہ طاہرین علیہم السلام کی بخشش کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ آپ حضرات نے اس وقت بخشش کا بھرپور مظاہرہ فرمایا جب ان کے پاس انتقام لینے کے سارے ذرائع موجود تھے ؛ امام سجاد علیہ السلام نے بھی اس وقت معاف کیا جب وہ اپنے دشمن سے بھرپور انتقام لے سکتے تھے ۔

مروی ہے کہ امام علیہ السلام کا ایک رشتہ دار آپ کی خدمت میں آیا ، اس وقت شمع امامت کے پروانے امام کے ارد گرد موجود تھے ۔ وہ شخص جیسے ہی امام کی خدمت میں پہونچا ، حضرت کو برا بھلا کہنے لگے اور تھوڑی دیر تک دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد چلا گیا ۔سارے اصحاب امام کے ایک جنبش لب کے منتظر تھے ، امام حکم دیں اور اس کو اس کے کئے کی سزا دی جائے ۔

امام نے تھوڑی دیر بعد فرمایا : تم لوگوں نے اس کی ساری باتیں سنیں ، اب میرے ہمراہ اس کے گھر چلو ۔

تمام اصحاب نے سوچا کہ امام اس سے اس کے کئے کا بدلہ لینے جا رہے ہیں ، اسی لئے ایک صحابی نے کہا : آقا ! جب وہ موجود تھا اسی وقت اس کا جواب دینا چاہئے تھا ، آپ صرف ایک اشارہ کردیتے ، ہم آپ کے اشارے کے منتظر تھے ۔

امام نے مسکرا کر آیۂ مبارکہ کی تلاوت فرمائی :[وَ الْكاظِمينَ الْغَيْظَ وَ الْعافينَ عَنِ النَّاسِ وَ اللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنين]" مومنین وہ ہیں جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا تو احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے"۔ (۴)

اصحاب نے امام کی مبارک زبان سے یہ آیۂ کریمہ سنی تو سمجھ گئے کہ امام بدلہ لینے نہیں بلکہ اپنے لطف و کرم کا مظاہرہ کرنے کے لئے تشریف لے جارہے ہیں ۔امام اس شخص کے گھر پہونچے ، آپ نے کہلوایا کہ اس سے کہہ دو کہ میں علی بن الحسین آیا ہوں ۔ وہ شخص امام کی آواز کر یہ سمجھا کہ وہ بدلہ لینے کے لئے آئے ہیں اسی لئے وہ جنگ کرنے کی نیت سے اسلحہ وغیرہ لے کر باہر نکلالیکن امام نے اس کی فکر کے برخلاف انتہائی نرم لہجہ میں فرمایا :

"بھائی !ابھی تھوڑی دیر پہلے جو کچھ تم نے میرے بارے میں کہا ہے اگر وہ باتیں میرے اندر پائی جاتی ہیں تو خدا مجھے معاف کرے اور اگر میری ذات میں وہ چیزیں نہیں ہیں تو میں خدا کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ خدا تمہیں معاف کرے"۔

یہ نرم و نازک لہجہ اور ملائمت سے بھرپور انداز گفتگو دیکھ کر وہ شخص شرم سے پانی پانی ہوگیا ، پھر امام کے پاس آکر ان کی پیشانی کا بوسہ دیا اور شرمندہ لہجے میں کہنے لگا : آقا! جو کچھ کہا تھا اس کا شائبہ تک آپ کی ذات میں ہے ، آپ کی ذات والاصفات ان باتوں سے کہیں بلند و برتر ہے ۔ (۵)

امام علیہ السلام کی بخشش سے متعلق صرف یہی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے ڈھیروں واقعات تاریخ میں ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ امام قدرت رکھنے کے باوجود انتقام کے بجائے انہیں معاف کردیتے تھے ۔امام کے اس طرز زندگی سے یہ درس ملتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لئے عفو و بخشش کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے ، اس سے جہاں قلبی سکون ملتا ہے وہیں لوگوں کی قربت و محبت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔

3۔ احسان و مروت

ایک دن امام علیہ السلام کی ایک کنیز آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہی تھی ، اچانک اس کے ہاتھوں سے پانی کا ظرف گر کر امام کے سر مبارک پر لگا اور وہ مجروح ہوگیا ۔ امام علیہ السلام نے اپناچہرہ کنیز کی جانب گھمایا ، کنیز بہت گھبرائی ہوئی تھی ، اس کی سمجھ میں نہیں آ رہاتھا کہ کیا کرے ، جیسے ہی امام نے اپنا چہرہ گھمایا اس نے فوراً آیۂ کریمہ کی تلاوت کی :

[والکاظمین الغیظ]"مومنین " اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں "۔

امام نے فرمایا : میں نے اپنے غصہ کو پی لیا۔

کنیز نے آیۂ مبارکہ کے اگلے حصے کی تلاوت کی : [والعافین عن الناس]"اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں "۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : میں نے تمہیں معاف کیا ۔

کنیز نے آیت کے آخری حصے کی تلاوت کی : [واللہ یحب المحسنین ]" اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

امام نے کنیز پر احسان کرتے ہوئے فرمایا : جا ؤ میں نے تمہیں راہ خدا میں آزاد کیا ۔ (۶)

امام علیہ السلام کے احسان اور مروت کے دوسرے واقعات بھی ہیں جنہیں بحار الانوار کی ۴۶ویں جلد میں ملاحظہ کیا جاسکتاہے ۔

ارباب نظر جانتے ہیں کہ امام علیہ السلام غلاموں اور کنیزوں کو خریدتے تھے اور پھر انہیں ایک مدت کے بعد آزاد کردیتے تھے ، لیکن جتنے دنوں تک انہیں اپنے پاس رکھتے تھے ، ان سے خدمت لینے سے زیادہ ان کی اسلامی تربیت فرماتے تھے جب ان کی تربیت مکمل ہوجاتی تھی تو آزاد کردیتے تھے تاکہ وہ اپنے اپنے علاقوں اور شہروں میں جاکرحقیقی اسلام کی تبلیغ کریں۔اگر کنیز کی آزادی کے سلسلے میں یہ سوال کیاجائے کہ امام نے اسے کیوں آزاد کیا تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جب امام عام غلاموں اور کنیزوں کودین کی تبلیغ کے لئے آزاد کردیتے تھےتویہ کنیزتو قرآنی بصیرت کی حامل تھی، اسے فوراً آزاد کرنا زیادہ ضروری تھا تاکہ وہ اپنے شہر میں جاکر حقیقی اسلام کے ساتھ ساتھ قرآنی تعلیمات کی بھی ترویج و اشاعت کرے ۔

4۔ دوستوں کے ساتھ حسن سلوک

امام سجاد علیہ السلام اپنےاصحاب و انصار اور چاہنے والوں کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھتے تھے ، امام کا کردار صداقت و امانت ، مہر و محبت ، سخاوت و بردباری سے مملو تھا ، آپ اپنے دوستوں اور چاہنےو الوں سے ملتے وقت تمام تر اخلاقی صفات کا مظاہرہ فرماتے تھے ۔

مروی ہے کہ زید بن اسامہ بستر مرگ پر زندگی کے آخری لمحات گزار رہے تھے ، امام علیہ السلام عیادت کے لئے تشریف لائے اور سرہانے بیٹھ گئے ، آپ نے دیکھا کہ زید کی آنکھوں میں آنسو ہیں ۔ امام نے دریافت کیاکہ رونے کا سبب کیاہے ؟ زید نے کہا : مولا!پندرہ ہزار دینار کا مقروض ہوں لیکن میرے پاس نہیں کہ میں انہیں ادا کرکے خدا کی بارگاہ میں جاؤں۔امام نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا:رونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ، تمہارا قرض میرے ذمہ ، میں سب ادا کردوں گا ۔ (۷)

لیکن امام علیہ السلام کے حسن سلوک کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ جن دوستوں اور چاہنے والوں کو پہچانتے تھے ان کے علاوہ ان چاہنے والوں کا بھی احترام کرتے تھے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے جو آپ سے آشنائی نہیں رکھتے تھےاور حضرت کی شخصیت ان کے لئے نامعلوم تھی ۔

طاوؤس کا بیان ہے کہ میں نے ایک سال حج کے دوران صفا میں ایک جوان کو دیکھا جس کے چہرے پر ہیبت و جلالت تھی لیکن جسمانی اعتبار سے وہ لاغر اور ضعیف تھا ، جسم پر بہت اچھا لباس بھی نہیں تھا ، اس کا سر آسمان کی طرف تھا اور وہ یہی کہہ رہاتھا :

عریان کما تری جائع کما تری ، فما تری فیما تری یا من یری و لا یریٰ" میں برہنہ ہوں جیسا کہ تو دیکھ رہاہے ، بھوکا ہوں جیسا کہ تو مشاہدہ کررہاہے ، پس تو اپنے مشاہدے میں کیا دیکھ رہاہے ، اے وہ جو سب کچھ دیکھ سکتا ہے لیکن اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا"۔

میں خداوندعالم کے ساتھ اس نامعلوم شخص کی گفتگو کو سن کر متحول ہوا ، اچانک میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک طبق آیا جو ایک یمانی چادر سے ڈھکا ہواتھا ، اس وقت انہوں نے میری جانب ایک محبت آمیز نگاہ ڈال کر فرمایا :اے طاوؤ س ۔

میں نے کہا : جی فرمائیے ۔مجھے اس بات سے بہت حیرت تھی کہ وہ مجھے کیسے پہنچانتے ہیں حالانکہ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھاتھا۔

انہوں نے فرمایا : کیا تمہیں بھی ایسے طبق کی ضرورت ہے ؟

انہوں نے اس طبق سے پردہ ہٹا یا ، اس میں لباس وغیرہ موجود تھے ، میں نے کہا : نہیں ،مجھے لباس وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس طبق کے وسط میں جو چیز ہے اس میں سے تھوڑا سا مجھے عنایت کردیجئے ۔انہوں نے اس میں سے تھوڑا سا دیا ۔

پھر ہم وہاں سے "مروہ" پہونچے ، وہاں لوگ کی بھیڑ میں نظروں سے غائب ہوگئے ، میں سوچ رہاتھا کہ وہ فرشتہ تھا یا پھر کوئی ولی خدا ؟ اچانک ایک آواز آئی : اے طاوؤ س ! تم پر افسوس ہے ، تم نے اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا ، وہ جن و انسان کے امام ہیں ، وہی سید الساجدین ، امام زین العابدین ہیں ۔

یہ سنتے ہی میں امام کے پیچھے دوڑا ، ایک جگہ انہیں دیکھ کر ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور پھر اس وقت تک ان سے جدا نہیں ہوا جب تک میں نے ان سے بھرپور دنیاو ی و اخروی فائدہ نہ حاصل کرلیا۔ (۸)

5۔دشمنوں کے ساتھ بہترین برتاؤ

ہمارا یہ دستور ہے کہ جب ہمارا کوئی دشمن مصیبت میں گرفتارہوتاہے تو مدد کرنے کی بات تو دور ، اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی مصیبت کی سختی کو بڑھا دیتے ہیں اور چند لوگوں کو جمع کرکے اس کی حالت کا مضحکہ اڑاتے ہیں ؛ لیکن ائمہ طاہرین ؑ کی سیرت کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی بہترین سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں ؛ امام علی علیہ السلام نے ضربت لگنے کے بعد اس وقت اپنے قاتل کو دودھ کا پیالہ دیاجب اسے گرفتار کرکے لایاگیا اور امام کا یہ سلوک دیکھ کر دشمن بھی رونے لگا ۔

امام سجاد علیہ السلام نے بھی اپنے اب و جد کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے صرف دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اپنے دشمنوں کو بھی پناہ دی اور ان کے ساتھ بہترین برتاؤ روا رکھا ۔مروان بن حکم کی ذات شیعوں کے لئے نامعلوم نہیں ہے ، اس نے خاندان عصمت و طہارت کے ساتھ جو برتاؤ کیا ہے اسے تاریخ بھلا نہیں سکتی ، لیکن اس کے ساتھ بھی آپ کا سلوک حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے ۔ تاریخ کا بیان ہے کہ اہل مدینہ نے حکومت یزید سے اظہار نفرت کے لئے شورش برپا کی تو مروان کی تمام تر جمع پونجی معرض خطر میں آگئی اور اسے خاندان کے تحفظ کی فکر ہوئی ، اس نے اس وقت اہل مدینہ میں سے جس کی جانب بھی رجوع کیا ، سبھی نے تحفظ دینے سے انکار کردیا ، کوئی شخص اس کے گھر والوں کو اپنے پاس رکھنے کے لئے راضی نہیں تھا ۔ مروان بہت پریشان تھا ، وہ خوب جانتا تھا کہ اگر لشکر شام اور لشکر اہل مدینہ میں تصادم ہوا تو ہر صورت میں بنی امیہ اور خصوصاًاس کے خاندان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا ، اگر لشکر یزید کو فتح ہوئی تو اہل مدینہ انتقاماًبنی امیہ کو جو ان کی دسترس میں ہیں ، زندہ نہ چھوڑیں گے اور اگر اہل مدینہ کے لشکر کو فتح ہوئی تو اس کے فوجی فتح کے بعد اپنے مخالفین کو تہہ تیغ کرنے سے باز نہیں آئیں گے اور بنی امیہ کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں گے ، اس طرح نجات کا کوئی راستہ نظر نہ آرہاتھا۔

اس اضطراب اور پریشانی کے عام میں اسے امام زین العابدین ؑکا نام یاد آیا اور امید کی ایک کرن نظر آئی ، سوچا کہ امام اپنے زمانہ کے ایک عظیم ترین انسان ہیں ، زہد و تقویٰ ، عصمت و عفت کے معدن ہیں ، مگر کیا وہ یہ عنایت کریں ، وہ ہمیں پناہ دیں گے ؟ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس نے امام کے خاندان سے کتنی بدسلوکیاں کی ہیں ؟ کیا امام ان سب کو بھول جائیں گے ۔ وہ اسی امید و بیم کی کیفیت میں امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : میرے گھر والوں کو براہ کرم آپ اپنی پناہ میں لے لیں ۔ امام نے کسی تامل کے بغیر قبول کرلیا ۔ (۹)

اصل میں امام علیہ السلام اپنے اقدام سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مروان بدترین انسان ہے لیکن میں بہترین انسان ہوں ، اس لئے میرے چاہنے والوں کو بھی ایسے سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔

6۔ جانوروں کے ساتھ سلوک

امام علیہ السلام انسانوں کے ساتھ ساتھ بے زبان جانوروں کےساتھ بھی بہترین سلوک کا مظاہرہ کرتے تھے ، مروی ہے کہ امام جب حج کی غرض سے مکہ کا سفر کرتے تھے تو کبھی اپنے اونٹ کو تازیانہ نہیں مارتے تھے بلکہ جب دیکھتے تھے کہ یہ تھک گیاہے تو اسے تھوڑی دیر کے چھوڑ دیتے تھے تاکہ وہ اپنی تھکن دور کرلے۔ (۱۰)

آپ جانوروں پر بہت زیادہ مہربان رہتے تھے ؛ ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ ا لسلام سے مروی ہے کہ میں کچھ لوگوں کے ہمراہ اپنے والد امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھے اسی وقت ایک ہرن آئی والد ماجدکے نزدیک آکر گریہ کرنے لگی۔

اصحاب نے سوال کیا : مولا یہ کیا کہہ رہی ہے ؟

فرمایا : یہ کہہ رہی ہے کہ میرے بچے کو فلاں شکاری نے قید کرلیا ہے ، کل اس نے دودھ نہیں پیا ہے ، اسے میرے پاس بلا دیجئے تاکہ میں اسے دود پلا سکوں ۔

امام نے ایک شخص کو اس شکار ی کے پاس بھیجا کہ اس بچہ کو لے آئے ، جب وہ لے آیا تو وہ ہرن بیتابی کا مظاہرہ کرنے لگی اور بچے کو اپنے سینے سے لگا کر دودھ پلانے لگی ۔ امام نے شکاری سے کہا کہ اسے آزاد کردو ، شکاری نے امام کی خاطر اسے آزاد کردیا ، امام نے بچے کو اس کے ماں کے حوالے کردیا ۔ ہرن بلند آواز سے کچھ کہہ کر صحرا کی جانب چلی گئی ۔

لوگوں کے پوچھنے پر امام نے بتایا کہ وہ شکاری کے لئے خدا کی بارگاہ میں دعا کرتے ہوئے گئی ہے ۔ (۱۱)

7۔ غریبوں کی امداد و نصرت

امام علیہ السلام اپنی دولت و ثروت کا زیادہ تر حصہ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کردیاکرتے تھے ، آپ کے حالات زندگی میں یہ بات مرقوم ہے کہ آپ راتوں کو بھیس بدل کر غذا اور طعام کے تھیلے نیز درہم و دینار اپنے دوش پر رکھ کر مفلسوں اور حاجتمندوں کے گھر پہونچایا کرتے۔ (۱۲) اکثر اوقات تو کسی کو اپنے ہمراہ مدد کے لئے بھی نہیں لیتے تھے ، آپ نہیں چاہتے تھے کہ اپنے خدمت گاروں سے مدد لیں اور آپ کا یہ عمل لوگوں میں مشہو رہو اور اس طرح وہ بے چارہ مفلس و حاجتمند اپنے مددگاروں کو پہچان لے اور شرمندہ ہو ۔ آپ کے اس عمل نے مدینہ میں پوشیدہ خیرات کرنے کا طریقہ رائج کردیا ۔ کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ خیرات و صدقہ دینے والا کون ہے ، آپ خود فرماتے ہیں کہ پوشیدہ خیرات سے جہنم کے شعلے بجھ جاتے ہیں ۔

بعض لوگ امام کی گوشہ نشینی کو دیکھتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ آپ حاجتمندوں اور فقراء کی مدد کیوں نہیں کرتے حالانکہ سارا مدینہ جانتا تھا کہ یہاں کوئی مرد نیکوکار ایسا ہے جو شب کی تاریکیوں میں فقراء و مساکین کو ان کے اخراجات اور سامان پہونچایا کرتا ہے ۔ امام نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ خود کو ظاہر کریں اور بتائیں کہ یہ پوشیدہ خیرات و امداد کرنے والے وہ خود ہیں تاکہ جن لوگوں کی مدد کی جارہی ہے وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ فلاں شخص ہماری مدد کررہاہے اور پھر شرمندہ ہوں یا وہ لوگ جو آپ کو ملامت کرتے ہیں وہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں ۔ آپ خود فرماتے تھے کہ جب میری آنکھ بند ہو گی تب اہل مدینہ کو معلوم ہوگا کہ یہ کون شخص تھا جو فقراء کی مدد کرتاتھا ۔ ہاں ! آپ کے انتقال کے بعد جب غسل دیا جانے لگا تو آپ کے دوش مبارک پر سیاہ گھٹے کا نشان لوگوں نے دیکھا اور سمجھ گئے کہ فقراء کےآذوقہ کی جو بوریاں آپ اپنے کاندھے پر لے جاتے تھے یہ اسی کا نشان ہے ۔ (۱۳)

اس کے علاوہ فریقین کی معتبر کتابوں میں لکھاہے کہ امام علیہ السلام مدینہ کے سو غریب خانوادے کا آذوقہ فراہم کرتے تھے ۔

امام علیہ السلام کی بخشش و خیرات اور غریبوں کی امداد کی عظمت و اہمیت اس وقت اور زیادہ روشن و آشکار ہوگی جب اس وقت کے مدینہ کے حالات کو پیش نظر رکھا جائے گا ، ارباب نظر جانتے ہیں کہ عمال یزید کے وحشیانہ حملے اور لوٹ مار کے بعد اہل مدینہ کے افلاس اور ان کی اقتصادی حالت انتہائی نا گفتہ بہ تھی ، ایسے میں کھلے ہاتھ ہر شخص کی مدد کرنا حیرت انگیز ہے۔ ہمارا لاکھوں سلام ہو اس منفرد عطا و بخشش پر ۔

8۔ عذاب قیامت کا خوف

امام علیہ السلام نے اپنی شہادت کے کچھ لمحے قبل بھی لوگوں کو اخلاق کا درس دیتے ہوئے قیامت کی یاد تازہ رکھنے اور عذاب قیامت سے ڈرنے کی تاکید فرمائی ہے ، حالانکہ آپ معصوم تھے ، آپ کے سلسلے میں گناہوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن پھر بھی آخری لمحے آُ کے لبوں پر عجیب و غریب فقرے تھے ؛ ملاحظہ فرمائیے :

آپ نے بستر شہادت پر اپنے فرزند امام باقر علیہ السلام سے فرمایا :بیٹا ! میں نے اپنے اونٹ پر سوار ہوکر بیس مرتبہ خانۂ خدا کی زیارت کی ہے اور ایک مرتبہ بھی اسے تازیانہ نہیں مارا ہے ۔

پھر اس کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا : قیامت کے دن قصاص اتنا سخت ہوگا کہ میں نے اس کے خوف سے ایک مرتبہ بھی اپنے اونٹ کو تازیانہ نہیں مارا۔

چنانچہ اسی مہربانی کی وجہ سے جب امام کی شہادت ہوئی تو وہی اونٹ تین دنوں تک امام کی قبر مبارک پر سر پٹکتا رہا اور بالآخر غم و اندوہ سے وہیں پر جان دے دی ۔ (۱۴)

آئیے ! خداوندعالم کی بارگاہ میں دعا کریں : معبود ! ہمیں اپنی زندگی میں امام علیہ السلام کی اخلاقی سیرت کی تاسّی کرنے کی توفیق عطا فرما تاکہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور سکے ؛ آمین یا رب العالمین۔

حوالہ جات :

۱۔قلم/۴

۲ ۔ خصال ، شیخ صدوق ؒ ص ۵۱۷

۳ ۔ ارشاد شیخ مفید ، ص ۲۳۸

۴ ۔آل عمران /۱۳۴

۵۔ارشاد ، شیخ مفید ، ص۲۴۰

۶ ۔ الارشاد شیخ مفید ، ج۲ ص ۱۴۶؛ بحار الانوار ج۴۶ ص ۵۶

۷۔ الارشاد ، شیخ مفید ، ص ۲۴۲

۸۔ معاجز الولایہ ، کاظمینی بروجردی ص ۱۷۵

۹ ۔ منتہی الآمال ، شیخ عباس قمی ، ص ۴۰۲ ، امام سجاد کے حالات کے ذیل میں

۱۰۔ بحار الانوار ، علامہ مجلسی ج۴۶ ص ۱۴۸

۱۱۔ بحار الانوار ، علامہ مجلسی ، ج۴۵ ص ۳۶

۱۲۔ مناقب آل ابی طالب ، ابن شہر آشوب ، ج۴ ص ۱۵۴ پر زہری کا بیان نقل کیاہے کہ میں نے رات میں امام سجاد کو دیکھا کہ وہ اپنے کاندھے پر ایک تھیلا لے کر مدینہ میں گشت کررہے ہیں ؛ نیز ملاحظہ فرمائیے : ابو نعیم اصفہانی ، حلیۃ الاولیاء ج۳ ص ۱۳۶؛ بحار الانوار ج۴۶ ص ۸۸؛ طبقات کبری ، ابن سعد ج۵ ص ۲۲؛

۱۳۔ حلیۃ الاولیاء ، ابو نعیم اصفہانی ج۳ ص ۱۴۰؛ بحار الانوار ، علامہ ج۴۶ ص ۸۸

۱۴۔تذکرہ الخواص ، سبط ابن جوزی ص ۳۲۷؛ مناقب ابن شہر آشوب ج۴ ص ۱۵۴؛ علامہ مجلسی ج۴۶ ص ۸۸

۱۵ ۔بحار الانوار ، علامہ مجلسی ، ج۴۶ ص ۱۴۸

پیغمبر اکرم ﷺ کےالقاب

پیغمبرگرامی اسلام کےالقاب
پیغمبر اسلام کے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں جن میں سے ہم بعض القاب کا ذکر کرتے ہوئے ان کی مختصر وضاحت کریں گے ۔
۱۔ احمد
قرآن مجید نے پیغمبر کو اس لقب سے یاد کیا ہے اور اسی سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ حضرت کو اسی لقب سے "انجیل "میں بھی یاد کیا گیا ہے ۔
ارشاد ہوتاہے : "و مبشراً برسولٍ يأتي من بعدي اسمه احمد" میں اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہے۔
احمد کے معنی ہیں "حمد کرنے والا"اور چونکہ رسول اکرم پروردگار کی حمد کیا کرتے تھے یعنی حقیقی حمد و شکر کو انجام دیتے تھے لہذا انہیں احمد کہا گیا ہے ،روایات میں ہے کہ لوگ آپ کی کثرت عبادت کی وجہ سے آپ پر اعتراض کیا کرتے تھے تو آپ فرماتے تھے : الم اکن عبداً شکوراً ؟ آیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟
۲۔محمود
آپ کا ایک لقب محمود بھی ہے چنانچہ آپ کا اسم گرامی قرآن مجید میں محمد ہے اور آپ کو محمد اور محمود کہا گیا ہے کیوں کہ آپ کی تمام صفات لائق تعریف ہیں قرآن مجید فرماتا ہے : ’’انك لعلیٰ خلق عظيم‘‘ اور آپ اخلاق کے بلند ترین درجے پر فائز ہیں
۳۔ امی
یعنی"جس سے کسی سے تعلیم حاصل نہ کی ہو" چنانچہ قرآن مجید کا ارشاد گرامی ہے :’’ وما كنت تتلوا من قبله من كتابٍ ولا تخطّه بيمينك اذاً لارتاب المبطلون‘‘
اور اے پیغمبر ! آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی قرآن پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ یہ اہل باطل شبہہ میں پڑ جاتے۔
لیکن تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود قرآن جیسی کتاب لانا اہل باطل کے شک کو بالکل مسترد کر دیتا ہے ۔چنانچہ پہلے بھی ہم اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ خود آپ کا امی ہونا ہی آپ کے معجزات میں سے ہے ۔ ایسا انسان جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان پڑھ ہے اور وہ ایسی کتاب لے آئے جس میں تمام علوم موجود ہوں ،یہ کتاب اپنے آپ کو کتاب ہدایت کے ذریعہ پہچنواتی ہے اور ہدایت کے معنی راستہ بتانے اور مقصد تک پہنچانے کے ہیں اسی وجہ سے بہت سی آیات میں فلسفی دلیلوں کو بطور مختصر اور قابل فہم بیان کیا گیا ہے قرآن کوئی فقہ کی کتاب نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ایسے ایسے قوانین اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے کہ جس کے سامنے بشریت آج بھی سر تعظیم خم کئے ہوئے ہے ۔کیا کسی میں جرأت ہے کہ وہ قرآنی قوانین کے مانند عبادی ،سیاسی،معاشرتی ،اور جزا اور سزا سے متعلق قوانین لے آئے ؟’’ قل لئن اجتمعت الانس والجن علي ان ياتوا بمثل هذا القرآن لايأتون بمثله ولو كان بعضهم لبعضٍ ظهيراً‘‘ آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لا سکتے ،چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔
۴۔ کریم
یہ لقب قرآن کریم سے لیا گیا ہے:’’اِنَّهُ لَقَولُ رَسُولٍ كَرِيمٍ‘‘بے شک یہ ایک معزز فرشتے کا بیان ہے
آپ نے اپنی مکی زندگی میں زیادہ مصیبتوں کا سامنا کیا حتیٰ کہ آپ کو پتھر مارےگیا اور آپ پہاڑوں میں پناہ لیتے تھے لیکن جب حضرت خدیجہ (س) اور امیرالمومنین علیہ السلام آپ کے پاس پہونچتے تو آپ کو یہی کہتے ہوئے پاتے تھے"اَللَّهُمَّ اَهْدِ قَوميِ فَاِنَّهُمْ لايَعْلَمُونَ" پروردگار میری قوم کی ہدایت فرما یہ نادان ہیں ۔
جس روز آپ ۱۲ ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ میں وارد ہوئے اور اپنے کسی صحابی کو یہ کہتے سنا کہ "الیوم یوم الملحمہ" آج جنگ کا دن ہے تو آپ نے امیرالمومنین علیہ السلام کو بھیجا اور یہ کہلوایا کہ لوگوں کے درمیان یہ اعلان کر دیں کہ "الیوم یوم المرحمۃ" آج کا دن مرحمت اور عفو کا دن ہے ۔
۵۔ رحمت
یہ لقب بھی قرآن کریم نے آپ کو دیا ہے : ’’وما ارسلناك الا رحمة للعالمين‘‘اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔
حضرت ختمی مرتبت کی رأفت و رحمت و مہربانی کو دیکھتے ہوئے قرآن مجید کا ارشاد گرامی ہے :’’فلعلَّك باخع نفسك علي آثارهم ان لم يؤمنوا بهذا الحديث اسفا ‘‘تو کیا آپ شدت افسوس سے ان کے پیچھے اپنی جان خطرہ میں ڈال دیں گے ، اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے ؟
آپ کے حاالات سے یہ بتہ چلتا ہے کہ آپ کی زندگی میں افسوس بھی تھا ،آپ کا شیوہ راز و نیاز تھا ،صبر تھا نیز رنج و مصیبت بھی ۔
’’لقد جائكم رسول من انفسكم عزيز عليه ماعنتم حريص عليكم بالمؤمنين رئوف رحيم‘‘
یقیناً تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم میں سے ہے ،اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے ،وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مؤمنین کے حال پر شفیق و مہربان ہے ۔
۶۔ متوکل
آپ کے القاب میں سے ایک لقب متوکل ہے جس کے معنی خود کو چھوڑ کر پروردگار پر بھروسہ رکھنے والے کے ہیں ۔
آپ سے جو دعائیں ماثور ہیں ان میں اس طرح وارد ہوا ہے : ’’اللهم لاتكلني الي نفسي طرفة عين ابداً‘‘
پروردگار مجھے ایک لمحہ کے لئے میرے حال پر نہ چھوڑنا ،کہا جاتا ہے کہ ایک دشمن نے آپ کو ایک جنگ میں تنہا سوتا دیکھ کر فوراً تلوار نکالی اور آپ سرہانے آکھڑا ہوا اور کہنے لگا : اے محمد اب تمہیں کون مجھ سے بچا سکتا ہے ؟ فرمایا: خدا ،یہ جملہ اتنا سخت تھا کہ وہ شخص لرزنے لگا اور تلوار نیچے لاتے وقت اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی ۔حضرت اٹھے اور تلوار اٹھائی اور تلوار اس کے سر پر کھینچ کر پوچھا : کون ہے جو تجھے بچا سکے ؟ کہنے لگا : آپ کا رحم وکرم ،یہ سنتے ہی حضرت نے اسے معاف کر دیا ۔آپ ایسے کام جن کا پورا ہونا لوگوں کی نظروں میں ناممکن ہوتا ہے ،اسے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے کر گزرتے تھے ۔
اسی توکل کا نتیجہ تھا کہ آپ کے پاس سب کچھ موجود تھا ۔آپ دنیا کو چھوڑ کر خدا پر بھروسہ رکھتے تھے ،اسی لئے آپ کی نظر میں دنیا کی کوئی اہمیت نہ تھی ،منقول ہے کہ آپ فرماتے تھے :دنیا کی مثال اس درخت کے سایے کے مانند ہے جس کے نیچے آدمی تھوڑی دیر آرام کرتا ہے ۔مختصر یہ ہے کہ آنحضرت متوکل تھے یعنی آپ اپنے اوپر نہیں ،خدا پر بھروسہ رکھتے تھے ،نہ ہی دوسروں پر ،اور نہ ہی دنیا پر بھروسہ رکھتے تھے ۔
۷۔ امین
آنحضرت کے دیگر القاب میں سے ایک لقب امین ہے ۔یہ ایسا لقب ہے جس کے ذریعہ عرب اسلام سے قبل حضرت کو مخاطب کیا کرتے تھے ۔تاریخ بتاتی ہے کہ قبل از بعثت آپ کے اندر غیرمعمولی کمالات موجود تھے منجملہ عفت ،صداقت ،محروموں کی امداد، اچھے معاشرتی آداب و رسوم کی رعایت ،خصوصاً صفائی اور امانتداری ،یہ ایسے صفات ہیں جنکی وجہ سے آپ عرب میں مشہور ہو گئے تھے ،جناب ابوطالب فرماتے ہیں : میں نے حضرت کو کبھی برہنہ نہیں دیکھا ،حتیٰ کہا جاتا ہے کہ کسی نے آنحضرت کو قضائے حاجت کی حالت میں نہیں دیکھا ۔
جس روز آپ کو یہ حکم ملا کہ آپ اپنی تبلیغ علانیہ شروع کردیں ،آپ نے قریش کے بزرگوں کو جمع کیا تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دیں اور سب سےپہلے جو چیز ان سے پوچھا وہ یہی تھی کہ : تم لوگوں نے مجھ کو کیسا پایا؟ سب نے جواب دیا : بے شک آپ صادق اور امین ہیں ۔
عبداللہ بن جزعان نامی شخص جو فقیر تھا اور اسے گھر کی ضرورت تھی جبکہ آنحضرت کی عمر اس وقت صرف سات سال تھی لیکن آپ بچوں کو جمع کرتے تھے اور گھر بنوانے میں اس کی مدد کرتے تھے ۔یہاں تک کہ اس کے گھر کا نام ہی "دار النصرہ " رکھ دیا اور کچھ لوگوں کو مظلوموں کی مدد کرنے کے لئے معین کر دیا ۔
آنحضرت نہایت مودب طریقہ سے چلتے تھے ،ادب سے بیٹھتے تھے اور ادب سے بات کرتے تھے ،ہمیشہ مسکرایا کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ کو "ضحوک" کہا جانے لگا ۔
آپ شیرین کلام اور فصیح تھے اور کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے ،جہاں تک ممکن ہوتا لوگوں سے لطف و مہربانی سے پیش آتے تھے اور یہ ایسی چیزیں ہیں جو تاریخ کی رو سے مسلم اور یقینی ہیں ۔
۸۔عبداللہ
یہ لقب بھی قرآن کا دیا ہوا ہے ۔سبحان الذي اسري بعبده ليلا من المسجد الحرام الي المسجد الأقصي الّذي باركنا حوله لنريه من آياتنا انه هو السميع البصير پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک ،بے شک وہ ذات سمیع و بصیر ہے
یوں کہنا بہتر ہوگا کہ یہ لقب آنحضرت کے بہترین القاب میں سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ تشہد میں رسالت سے پہلے اس کا ذکر ہے ، عبودیت کے چند مراتب ہیں جس میں سب سے اونچا مرتبہ لقاء اللہ ہے جسے قرآن مجید نے متعدد مقامات پر بیان کیا ہے ،چنانچہ یہ ایک ایسا مرتبہ ہے جہاں دل صرف اپنے پروردگار کی طرف جھکتا ہے"لاتلهيهم تجارة ولا بيع عن ذكر الله" تجارت اور خرید و فروش انہیں خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتی ہے۔
یہ وہ مرتبہ ہے جہاں دل عشق پروردگار سے لبریز ہو جاتا ہے ،اور پھر انسان اپنی زندگی میں کسی بھی ہم و غم کو نہیں آنے دیتا یعنی اس کی نظر میں خدا رہتا ہے صرف خدا ۔۔۔ اور اس کا دل اطمینان و وقار سے بھر جاتا ہے :" الا بذكر الله تطمئن القلوب"پھر انسان کی زندگی میں اضطراب کی کیفیت کا بالکل خاتمہ ہوجاتا ہے ،" الا انَّ اولياء الله لا خوف عليهم ولاهم يحزنون"
بے شک اولیاء خدا کے لئے نہ کوئی خوف ہے نہ حزن و اندوہ آنحضرت معصوم تو تھے ہی ساتھ ہی ساتھ دوسروں کا گناہ بھی آپ کو رنجیدہ خاطر کرتا تھا ۔عبادت میں آپ کو بہت لطف آتا تھا بلکہ کثرت عبادت سے آپ کے پیروں میں ورم آجاتا تھا اس لئے سورۂ طٰہ نازل ہوا اور آپ کو کثرت عبادت سے منع کیا ۔
۹۔ مصطفیٰ
یہ لقب امت اسلامیہ کے لئے باعث افتخار ہے اسکے معنی "منتخب"کے ہیں خدا نے آپ کو تمام موجودات کے درمیان سے چنا اور کیوں نہ منتخب قرار پائیں ؟
آپ مختلف ابعاد کے مالک تھے ،آپ کو مقام جمع الجمعیٰ حاصل تھا ،جس جگہ عفو و رحمت اور ایثار و فداکاری کی بات آتی آپ کا نام سر فہرست ملتا ہے ،جس وقت حاتم طائی کی بیٹی مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر کر کے لائی گئی اور اسلام قبول کر لیا تو آپ نے اسے اس کے بھائی عدی بن حاتم کے پاس بھیج دیا،عدی نے اپنی بہن سے باتیں سننے کے بعد رسول اسلام سے ملاقات کا ارادہ کیا تاکہ نزدیک سے اسلام کا مشاہدہ کرے اور اس سے آشنا ہو سکے اور اسلام کو سمجھ کر اسے قبول کرے ،ان کا بیان ہے کہ : میں پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ گھر جا رہا تھا کہ ایک عورت نے راستے میں رسول سے کچھ کہنا چاہا ،چنانچہ حضرت رکے اور اس کی باتوں کو سنا اور نہایت ہی لطف اورمہربانی کا مظاہرہ کیا اس نے حضرت کو بہت زیادہ دیر کھڑے رہنے پر مجبور کیا لیکن اس کے باوجود آپ نے اس کی بات نہیں کاٹی بلکہ آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا۔
عدی کہتے ہیں : اس بات کی وجہ سے آنحضرت کی رسالت مجھ پر روشن ہو گئی جب میں گھر پہنچا تو وہاں انداز زندگی بالکل سادہ تھا ،گھر کا فرش بھیڑ کی کھال سے بنا ہوا تھا ،کھانے میں جو کی روٹی اور نمک تھا جس کی وجہ سے میرے سامنے آپ کے نبوت کی دوسری دلیل بھی ظاہر ہوگئی ۔جو انسان اتنی قدرت اور تمکنت رکھتا ہو ،اس کے اس قدر مرید اور چاہنے والے ہوں اس کی زندگی اس قدر سادہ ہے ؟اور آخر کار آپ کا معجزہ دیکھ کر میں آپ پر ایمان لے آیا اور مسلمان ہو گیا
حضرت نے مجھ سے فرمایا : تم تو دین اور عقیدے کے اعتبار سے ٹیکس کو حرام جانتے ہو کیوں لوگوں سے ٹیکس وصول کرتے ہو ؟ اس بات سے آنحضرت کی نبوت میرے سامنے ظاہر ہو گئی ۔
وہ پیغمبر جس کی رقت قلب کا یہ عالم ہے کہ جب اس بچے کے رونے کی آواز سنتے جس کی ماں نماز میں مشغول ہے تو اپنی نماز جلد ختم کر دیتے ہیں،یہی پیغمبر جب اس بچی کو دیکھتے ہیں جس نے اپنا پیسہ گم کر دیا ہے تو اس کو پیسا دیتے ہیں اور اس کی سفارش کیلئے اس کے گھر تک جاتے ہیں اور یہی پیغمبر جب یہ دیکھتےہیں کہ دھوکے باز یہودی سازش اور پیمان شکنی کے ذریعہ اسلام کی ترقی کی راہ میں حائل ہو رہے ہیں تو ان کے سات سو افراد کے قتل کا حکم دے دیتے ہیں اور اسی کو مقام جمع الجمعیٰ یا مختلف ابعاد کا مالک کہتے ہیں۔
عموماً اگر انسان زہد ،عبادت اور ریاضت نفس کا راستہ اختیار کر لے تو لوگوں سے اس کے تعلقات سرد ہو جاتے ہیں اور معاشرے میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں رہ جاتی اور اس طرح وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت نہیں کر پاتا کیوں کہ اس کا اخلاقی پہلو ضعیف ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود پیغمبر کا اخلاقی کردار نہایت قوی یا بلند تھا ،بعثت سے قبل غار حرا آپ کی عبادت گاہ تھی ،آپ عبودیت کی معراج پر فائز تھے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود قرآن آپ کے اخلاق حسنہ کی گواہی دیتا ہے اور لوگوں کے سامنے آپ کی ملنساری پر مہر تصدیق لگاتا ہے ۔ "فبما رحمۃٍ من اللہ لنت لھم ولو کنتَ فظاً غلیظ القلب لانفضوا من حولک"یعنی اے پیغمبر آپ گفتار ، رفتار ،زبان ،عمل کے ذریعہ لوگوں کو اپنے اطراف سے بھگاتے نہیں بلکہ انہیں چیزوں کے ذریعہ لوگ آپ کے چاروں طرف پروانوں کی طرح چکر لگا رہے ہیں اور اگر کوئی آپ کی اتباع کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ رقیق القلب بنے قسی القلب نہ ہو
مختصر یہ کہ آپ کی ذات گرامی تمام صفات کمالیہ کی مالک تھی حالانکہ ان صفات کو اپنے اندر جمع کرنا بہت مشکل اور دشوار امر ہے ،آپ عالم، عاشق خدا ،عارف ،دشمنوں کے لئے سخت ،شجاع،خوشرو،عاقل ،آخرت کو اہمیت دینے والے بلکہ دنیا کو بھی اہمیت دینے والے تھے ،ساتھ ہی ساتھ زاہد ،سرگرم عمل اور ثبات قدم کے مالک تھے ۔
آپ کے القاب بہت زیادہ ہیں جس طرح آپ کے صفات کمالیہ بے شمار ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر ہم فقط انہیں چند القاب کے بیان پر اکتفاء کر رہے ہیں ۔


بلغ العلیٰ بکمالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صلّوا علیہ و آلہ