غربت

غربت

روایات میں غریبی کی شدت سے مذمت کی گئی ہے ، بطور نمونه چند مذمتیں پیش خدمت ہیں ۔

1- غریبی کفر ہے

قال رسول اللَّه صلی الله علیه و آله:

کادَ الْفَقْرُ انْ یکونَ کفْراً۔

غربت کفر کے قریب ہے۔

بحار الانوار- جلد 72- صفحه 30.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2- غریبی موت ہے

قال علی علیه السلام:

الْفَقْرُ الْمَوْتُ الْاکبَرُ

غربت بہت بڑی موت ہے۔

نهج البلاغه- حكمت 159

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3- غریبی قتل سے بدتر ہے

قال رسول اللَّه صلی الله علیه و آله:

الْفَقْرُ اشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ غربت

قتل سے بھی بدتر ہے۔

بحار الانوار- جلد 72- صفحه 47.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4- غریبی سے بہتر موت ہے

قال علی علیہ السلام :

الْقَبْرُ خَیرٌ مِنَ الْفَقْرِ

غریب سے بہتر موت ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

5- غربت مایوسی لاتی ہے

امام علی (ع) نے اپنے فرزند محمد حنفیہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

یا بُنَی، انّی اخافُ عَلَیک الْفَقْرَ، فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْهُ، فَانَّ الْفَقْرَ مَنْقَصَةٌ لِلدّینِ، مَدْهَشَةٌ لِلْعَقْلِ، داعِیةٌ لِلْمَقْتِ

میرے بیٹے ، مجھے تمہارے بارے میں غربت کا خوف ہے۔ غربت سے خدا کی پناہ مانگو کیونکہ غربت انسان کے دین کو ادھورا کردیتی ہے، انسان کی عقل و فکر کو خلط ملط کردیتی ہے اور لوگوں کو ایک دوسروں کی نسبت بد بین کردیتی ہے۔

نهج البلاغه- حكمت 311

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

6- غربت زبان میں لڑکھڑاہٹ لاتی ہے

قال علی علیه السلام:

الْفَقْرُ یخْرِسُ الفَطِنَ عَنْ حُجَّتِهِ

غربت ایک پڑھے لکھے سمجھدار انسان کو بھی اپنی دلیل بیان کرنے کے لیے گونگا بنا دیتی ہے۔

نهج البلاغه- حكمت 3.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

7- غریب اپنے ہی ملک میں اجنبی بنا دیتی ہے

قال علی علیه السلام:

الْغِنی فِی الْغُرْبَةِ وَطَنٌ وَ الْفَقْرُ فِی الْوَطَنِ غُرْبَةٌ

دولت پردیس میں بھی وطن بنا دیتی ہئ اور غربت اپنے ہی وطن میں انسان کو اجنبی بنا دیتی ہے

بحار الانوار- جلد 72- صفحه 194.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

8- غربت انسان کی ہیبت ختم کر دیتی ہے

قال الصادق علیه السلام:

الْهَیبَةُ مِنَ الْفَقیرِ مُحالٌ

غربت انسان کی عزت و وقار کو تباہ کر دیتی ہے۔

بحار الانوار- جلد 72- صفحه 194

دعا عرفہ / اردو ترجمہ

امام سجاد علیہ السلام کی احادیث

عَجَباً کُلّ الْعَجَبِ لِمَنْ عَمِلَ لِدارِ الْفَناءِ وَتَرَکَ دارَ الْبقاء

مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو دارِ فنا کے لئے تو (خوب) عمل کرتا ہے، مگر دارِ بقا کو چھوڑ دیتا ہے۔

(بحارالأنوار: ج 73، ص 127، ح 128)

نَظَرُ الْمُؤْمِنِ فِى وَجْهِ أخِیهِ الْمُؤْمِنِ لِلْمَوَدَّهِ وَالْمَحَبَّهِ لَهُ عِبادَه

اپنے برادرِ مومن کے چہرے پر محبت و الفت بھری نگاہ ڈالنا عبادت ہے۔

(تحف العقول، ص 204، /بحارالأنوار، ج 78، ص 140، ح 3)

إنَّ أفْضَلَ الْجِهادِ عِفَّهُ الْبَطْنِ وَالْفَرْج

با فضیلت ترین جہاد اپنے شکم اور شرمگاہ کی حفاظت ہے۔

(مشکاۃ الأنوار، ص 157، س 20)

لَوْ یَعْلَمُ النّاسُ ما فِى طَلَبِ الْعِلْمِ لَطَلَبُوهُ وَ لَوْبِسَفْکِ الْمُهَجِ وَ خَوْضِ اللُّجَجِ

اگر لوگ طلب علم کی فضیلت سے آگاہ ہو جاتے تو پھر وہ اسکی طلب میں خون بہانے اور گہرے سمندروں میں غوطہ لگانے پر بھی تیار ہو جاتے۔

(اصول کافى، ج 1، ص 35، /بحارالأنوار، ج 1، ص 185، ح 109)

مَنْ زَوَّجَ لِلّهِ، وَوَصَلَ الرَّحِمَ تَوَّجَهُ اللّهُ بتَاجِ الْمَلَکِ یَوْمَ الْقِیامَهِ

جو شخص خوشنودیٔ خدا کے لئے شادی کرے اور اپنے عزیز رشتہ داروں کے ساتھ ناتہ جوڑے رکھے تو خداوند عالم روز قیامت اُسے تاج ملک سے نوازے گا۔

(مشکاه الأنوار، ص 166)

اَلْخَیْرُ کُلُّهُ صِیانَهُ الاْنْسانِ نَفْسَهُ

تمام خیر و سعادت اس بات میں ہے کہ انسان اپنے اوپر قابو رکھے۔

(تحف العقول، ص201، /بحارالأنوار، ج 75، ص 136، ح 3)

سادَةُ النّاسِ فی الدُّنْیا الاَسْخِیاء، وَ سادَةُ الناسِ فی الاخِرَةِ الاَتْقیاء

سخی افراد دنیا میں اور تقی (با تقوا) افراد آخرت میں لوگوں کے سید و سردار ہیں۔

(مشکاة الا نوار، ص 232، س 20، /بحارالا نوار، ج 78، ص 50، ح 77)

کانَ [رسولُ الله] إذا أوَى إلىَ مَنزِلِهِ، جَزَّءَ دُخُولَهُ ثَلاثَةَ أجزَاءٍ: جُزءاً لِلَّهِ، وَجُزءاً لِأهلِهِ، وَجُزءاً لِنَفسِهِ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشار فرماتے ہیں:

اپنے وقت کو تین حصوں میں تقسیم کرو؛ ایک حصہ اپنے پروردگار کے لئے، ایک حصہ اپنے بال بچوں کے لئے اور ایک حصہ خود اپنے لئے۔

(مکارم الأخلاق، ج 1، ص 44)

مَا مِن قَطرَةٍ أَحَبُّ إِلَی الله عَزَّوَجَل مِن قَطرَةِ دَمٍ فِی سَبِیلِ الله و قَطرَةِ دَمعَةٍ فِی سَوادِ اللَّیل

خداوند عالم دو قطروں کو خوب پسند کرتا ہے: ایک راہ خدا میں بہنے والا خون کا قطرہ اور ایک شب کی تاریکی میں آنکھوں سے بہنے والے آنسو کا قطرہ۔

(خصائل الصدوق، ص 50)

مَن عَمِلَ بما افتَرَضَ اللهُ عَلَیهِ فَهُوَ مِن خَیر النَّاس

جو شخص واجبات خدا پر عمل کرتا ہو، وہ سب سے بہتر و بالاتر شخص ہے۔

(جهاد النفس ح 237)

الدُّعاءُ یَدفَعُ البَلاءَ النّازِلَ وَما لَم یَنزِلْ

دعا سے نازل ہو چکی اور نازل ہونے والی، دونوں بلائیں دور ہوتی ہیں۔

(الکافی، ج 2 ، ص 469 ح 5،/میزان الحکمة، ج 2 ، ص 870)

الذُّنُوبُ الّتى تُنزِلُ النِّقَمَ عِصیانُ العارِفِ بِالبَغىِ وَ التَطاوُلُ عَلَى النّاسِ وَ الاِستِهزاءُ بهِم وَ السُّخریَّةُ مِنهُم

تین گناہ ہیں جو نزول عذاب کا باعث بنتے ہیں: شعور و آگاہی کے ساتھ کسی پر ستم کرنا، دوسروں کے حقوق پامال کرنا اور دوسروں کا مذاق اڑانا۔

(معانى الاخبار ، ص 270)

آیاتُ الْقُرْآنِ خَزائِنُ الْعِلْمِ، کُلَّما فُتِحَتْ خَزانَةٌ، فَیَنْبَغی لَکَ أنْ تَنْظُرَ ما فیها

قرآنی آیات علوم کا خزانہ ہیں، جب کبھی کوئی خزینہ کھولا جائے تو اسے خود اچھی طرح ٹٹولا کرو۔

(مستدرک الوسائل، ج 4، ص 238، ح 3)

إیّاکَ وَمُصاحَبَةُ الْفاسِقِ، فَإنّهُ بائِعُکَ بِأَکْلَةٍ أوْ أَقَلّ مِنْ ذلِکَ وَإیّاکَ وَمُصاحَبَةُ الْقاطِعِ لِرَحِمِهِ فَإنّى وَجَدْتُهُ مَلْعُونا فى کِتاب ِاللّهِ

فاسق و فاجر شخص کے ساتھ دوستی کرنے سے بچو، کیوں کہ وہ تمہیں چند لقموں حتیٰ ایک لقمے کے عوض فروخت کر دے گا۔اسی طرح عزیز رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والے کی دوستی سے بھی پرہیز کرو، کیوں کہ میں نے کتابِ خدا میں اُسے ملعون پایا ہے۔

(تحف العقول ص 202، /بحارالا نوارف ج 74، ص 196، ح 26)

سلام کرنے کی فضیلت و اہمیت  


بسم اللہ الرحمن الرحیم

سلام کرنے کی فضیلت و اہمیت

قرآن اور روایات محمد و آل محمد علیہم السلام کی روشنی میں

اسلام سراپا امن وسلامتی اور عافیت کا مذہب ہے، دنیا وآخرت کی مکمل فلاح وکا مرانی اسی بابرکت دین سے وابستہ ہے ،سراپا امن وسلامتی سے عبارت اس دین برحق کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں پر کبھی شدت وتنگی اور جبروتشدد کو روا نہیں رکھتا ہے، بلکہ ہر ممکن آسانی اور سہولت کا طریقہ اپناتا ہے، چنانچہ اس نے اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق احکامات سے آگاہ کیا ہے، اسلام جہاں اپنے ماننے والوں کو اعتقادات وعبادات کی تعلیم دیتا ہے، وہیں معاملات، معاشیات اوراقتصادیات کے آداب اور طریقے بھی بتلاتا ہے، غرض کوئی گوشہ نہیں ہے جس کے متعلق اسلام کے زریں احکامات وارد نہ ہوئے ہوں، باہمی اتحاد، آپس کے میل ملاپ او رایک اچھے معاشرے کی تشکیل کیلئے باہمی رابط انتہائی ناگزیر ہے، اس لیے قرآن کریم اور روایات حضرات محمد و آل محمد ؑنے متعدد مقامات پر اس کی اہمیت پر زور دیا او رایک دوسرے سے ملتے وقت کا طریقہ ادب بھی بتلایا ہے کہ جب دو مسلمان آپس میں ملاقات کریں تو سلام کریں، یہ باہمی محبت والفت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔

ایک دوسرے کو سلام کرنا ایک اسلامی شعار ہے، جو آپس میں محبت پیدا کرکے بہت سی معاشرتی بیماریوں کو ختم کر دیتا ہے، سلام اظہار محبت و مودت اور رقت قلبی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کی وجہ سے غیظ وغضب سے بھرپور آنکھیں شرمگیں اور دشمن کا آہنی دل بہت جلد موم ہو جاتا ہے۔

مدینہ پہنچنے کے بعد آپ ﷺ نے جو سب سے پہلا خطبہ ارشاد فرمایا ، اس میں تین باتوں کا خاص اہتمام فرمایا، جن میں سب سے پہلے سلام کو رواج دینا ہے کہ جس سے بھی ملاقات ہو اس کو سلام کیا جائے، چاہے جان پہچان کا ہو یانہ ہو، ہر ایک کو سلام کرے، اس سے آپس میں محبت اور تعلق پیدا ہوتا ہےیہی وجہ ہے کہ قرآن و احادیث میں اس کی فضیلت واہمیت پر کافی روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کے رواج پر جنت میں داخلہ کی بشارت بھی سنائی گئی ہے۔

سلام کے معا نی

سلام سے مراد دراصل سلامتی ، امن اور عا فیت ہے ۔ سلامتی میں انسان کی ساری زندگی اس کے معمولات ، تجارت ، اس کی زراعت اور اس کے عزیزو اقا رب گویا معاشرتی زندگی کے سب پہلو ، دین دنیا اور آخرت شامل ہوتے ہیں ۔راغب اصفہانی نے المفردات میں لکھا ہے :

السلام التعري من الآفات الظاهرة والباطنة یعنی ظاہری اور باطنی آفات و مصائب سے محفوظ رہنا

پس جب ہم کسی کو "اسلام علیکم " کہتے ہیں تو اس کا یہ معنی ہوتا ہے کہ "تم جسمانی ، ذہنی اور روحا نی طور پر عافیت میں رہو "تمہاری دنیا اور آخرت کی زندگی کے تمام معمولات اور انجام ،امن اور عافیت والے ہوں ۔

جیسا کہ کہا گیا ہے کہ "سلام" خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور اس کا مطلب ہے عیب اور نقصان سے حفاظت، پس جو شخص سلام بھیجتا ہے وہ درحقیقت دوسرے کے عیب اور نقصان سے محفوظ رہنے کی خواہش کرتا ہے۔

سلام کرنے کے آداب​

گفتگو شروع کرنے سے پہلے سلام کریں

اضافہ کے ساتھ سلام کا جواب دیں

چھوٹا بڑے کو سلام کرے ، گذرنے والا بیٹھے ہوئے کو ، سوار پیدل چلنے والے کو،پیدل چلنے والا کھڑے ہوئے کو سلام کرے

جب گھر ایسی حالت میں آئے کہ سب سو رہے ہوں تو آہستہ آواز میں اس قدر سلام کریں کہ سونے والوں کو کوئی دقت نا ہواور جاگنے والے سن بھی لیں

جب کسی کوسلام پہونچانے کی وصیت کی جائے تو وہ اس کو پورا کرو ، اور جن کو سلام کا پیغام بھیجا گیا ہو وہ اس طرح سے جواب دیں:[علیک وعلیہ السلام]اگر سلام بھجنے والی خاتون ہیں تو انہیں اس طرح جواب دیں [علیک وعلیھا السلام]

قضائے حاجت کے وقت سلام کا جواب نا دیا جائے

سلام میں پہل کرنے والا جواب دینے والے سے افضل ہے

گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت اہل خانہ کو سلام کریں

سلام کرتے اور سلام کا جواب دیتے ہوئے مسکرانا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے

یاد رہے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے جبکہ سلام کرنا سنت ہے

سلام کرنے کے فوائد​

آپس میں محبت پیدا ہوگی

جنت میں داخلہ کا سبب ہے

سلام کرنا حسن تعامل کی علامت ہے اس سے لوگوں کاآپسی حق ادا ہوتا ہے

اس سے تواضع پسندی عیاں ہوتی ہے

سلام گناہوں کے بخشش کا ذریعہ ہے

قرآن کریم میں سلام کرنے کا بیان

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ [1]
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو

اذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوۡمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ [2]
جب وہ (فرشتے) اُن کے پاس آئے تو انہوں نے سلام پیش کیا، ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی (جواباً) سلام کہا، (ساتھ ہی دل میں سوچنے لگے کہ) یہ اجنبی لوگ ہیں۔

اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا [3]
انہی لوگوں کو (جنت میں) بلند ترین محلات ان کے صبر کرنے کی جزا کے طور پر بخشے جائیں گے اور وہاں دعائے خیر اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا۔

فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً [4]
جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) پر سلام کہا کرو (یہ) اللہ کی طرف سے بابرکت پاکیزہ دعا ہے ۔

وَ اِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ [5]
اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پرایمان رکھتے ہیں تو آپ (ان سے شفقتًا) فرمائیں کہ تم پر سلام ہو تمہارے رب نے اپنی ذات (کے ذمّہ کرم) پر رحمت لازم کرلی ہے

وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡھَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا [6]
اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو، یا انہی الفاظ سے جواب دو، اللہ یقینا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔

فَاصۡفَحۡ عَنۡہُمۡ وَ قُلۡ سَلٰمٌ ؕ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡن [7]
پس آپ ان سے منہ پھیر لیں اور کہہ دیں ۔ ( اچھا بھائی ) سلام! انہیں عنقریب ( خود ہی ) معلوم ہو جائے گا ۔

وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ [8]
اور اپنے رب سے ڈرنے والوں کو گروہ درگروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے اور اس کے داروغے ان سے کہیں گے: تم پر سلام ہو،تم پاکیزہ رہے تو ہمیشہ رہنے کوجنت میں جاؤ۔

سَلٰمٌ ۟ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِیۡمٍ [9]
(تم پر) سلام ہو، (یہ) ربِّ رحیم کی طرف سے فرمایا جائے گا۔

سَلٰمٌ عَلٰی نُوۡحٍ فِی الۡعٰلَمِیۡنَ [10]
سلام ہو نوح پر سب جہانوں میں

قِیۡلَ یٰنُوۡحُ اہۡبِطۡ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ؕ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمۡ ثُمَّ یَمَسُّہُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ [11]
فرمایا گیا: اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (کشتی سے) اتر جاؤ جو تم پر ہیں اور ان طبقات پر ہیں جو تمہارے ساتھ ہیں، اور (آئندہ پھر) کچھ طبقے ایسے ہوں گے جنہیں ہم (دنیوی نعمتوں سے) بہرہ یاب فرمائیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب آپہنچے گا

وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا [12]
اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن، اور میری وفات کے دن، اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا

سَلَامٌ عَلٰى مُوْسٰى وَهَارُوْنَ [13]
کہ موسٰی اور ہارون پر سلام ہو۔

سَلَامٌ عَلٰٓى اِلْ يَاسِيْنَ [14]
کہ ال یاسین پر سلام ہو

وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَ [15]
اور رسولوں پر سلام ہو۔

اِنَّ اللّـٰهَ وَمَلَآئِكَـتَهٝ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا [16]
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو۔

اَلَّـذِيْنَ تَـتَوَفَّاهُـمُ الْمَلَآئِكَـةُ طَيِّبِيْنَ ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّـةَ بِمَا كُنْتُـمْ تَعْمَلُوْنَ [17]
جن کی جان فرشتے قبض کرتے ہیں ایسے حال میں کہ وہ پاک ہیں، فرشتے کہیں گے تم پر سلامتی ہو بہشت میں داخل ہوجاؤ بسبب ان کاموں کے جو تم کرتے تھے۔

قُلِ الْحَـمْدُ لِلّـٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّـذِيْنَ اصْطَفٰى ۗ آللَّـهُ خَيْـرٌ اَمَّا يُشْرِكُـوْنَ [18]
کہہ دے سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے، بھلا اللہ بہتر ہے یا جنہیں وہ شریک بناتے ہیں۔

تَحِيَّتُهُـمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهٝ سَلَامٌ ۚ وَّاَعَدَّ لَـهُـمْ اَجْرًا كَرِيْمًا [19]
جس دن وہ اس سے ملیں گے ان کے لیے سلام کا تحفہ ہوگا، اور ان کے لیے عزت کا اجر تیار کر رکھا ہے۔

روایات میں سلام کرنے کا بیان

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
فاذا دخلت بیتک فسلم علیہم یکثر خیرک [20]
جب تم اپنے گھر میں داخل ہو جاؤ تو گھر والوں پر سلام کرو تمہاری بھلائی میں اضافہ ہو گا۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
مَنْ لَقِىَ عَشَرَةً مِنَ الْمُسْلِمينَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ كَتَبَ اللّهُ لَهُ عِتْقَ رَقَبَةٍ [21]
جو شخص دس مسلمانوں سے ملے اور ان کو سلام کرے اللہ تعالیٰ اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِذا سَلَّمَ الْمُسْلِمُ عَلَى الْمُسْلِمِ فَرَدَّ عَلَيْهِ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلائِكَةُ سَبْعِينَ مَرَّةً [22]
جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو سلام کرتا ہے اور وہ جواب دیتا ہے تو فرشتے اس پر ستر مرتبہ سلام بھیجتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
وَالَّذى نَفْسى بِيَدِهِ لاتَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتّى تُؤْمِنُوا، وَلاتُؤْمِنُونَ حَتّى تَحابُّوا، اَفَلا اَدُلُّكُمْ عَلى عَمَلٍ اِذا عَمِلْتُمُوهُ تَحابَبْتُمْ؟ قالُوا: بَلى يا رَسُولَ اللّهِ، قالَ: اَفْشُوا السَّلامَ بَيْنَكُمْ [23]
اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو گے جب تک کہ تم ایمان نہ لاؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز کی طرف رہنمائی کروں کہ جب تم اسے کرو گے تو تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے؟ کہا: ہاں یا رسول اللہ ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: سلام کرنے کو آپس میں پھیلاؤ۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
خَيْرُكُمْ مَنْ اَطْعَمَ الطَّعامَ، وَاَفْشَى السَّلامَ وَ صَلّى وَالنّاسُ نِيامٌ [24]
تم میں سے بہتر وہ ہے جو کھانا کھلائے، سب کو سلام کرے اور رات کو اس وقت نماز پڑھے جب لوگ آرام کر رہے ہوں (یعنی نماز شب پڑھے)۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَلسَّلامُ مِنْ اَسْماءِ اللّهِ فَاَفْشُوهُ بَيْنَكُمْ، فَاِنَّ الرَّجُلَ الْمُسْلِمَ اِذا مَرَّبِالْقَوْمِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ فَاِنْ لَمْ يَرُدُّوا عَلَيْهِ يَرُدُّ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُمْ وَاَطْيَبُ [25]
سلام خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے، لہٰذا اسے آپس میں پھیلاؤ، جب کوئی مسلمان کسی گروہ کے پاس پہنچتا ہے اور انہیں سلام کرتا ہے، اگر وہ جواب نہیں دیتے تو ان سے بہتر اور پاکیزہ (یعنی فرشتے) جواب دیتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَنَّ لِلْمُسْلِمِ عَلى اَخيهِ الْمُسْلِمِ مِنَ الْمَعْرُوفِ سِتّا يُسَلِّمُ عَلَيْهِ اِذا لَقِيَهُ۔۔۔ [26]
ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں،جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے ملاقات کے وقت اسے سلام کرے ۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَلا اُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ اَخْلاقِ اَهْلِ الدُّنْيا وَالاْخِرَةِ ؟ قالُوا : بَلى يا رَسُولَ اللّهِ ، فَقالَ : اِفْشاءُ السَّلامِ فِى الْعالَمِ [27]
کیا آپ پسند کریں گے کہ میں آپ کو دنیا اور آخرت کے لوگوں کے بہترین اخلاق بتاؤں؟ کہا: ہاں یا رسول اللہﷺ ، فرمایا: ان کا بہترین اخلاق دونوں جہانوں میں سلام کو پھیلانا ہے۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِنَّ فِى الْجَنَّةِ غُرَفا يُرى ظاهِرُها مِنْ باطِنِها، وباطِنُها مِنْ ظاهِرِها، يَسْكُنُها مِنْ اُمَّتِى مَنْ اَطابَ الْكَلامَ، وَاَطْعَمَ الطَّعامَ، وَاَفْشَى السَّلامَ، وَصَلّى بِاللَّيْلِ وَالنّاسُ نِيامٌ، ثُمَّ قالَ: اِفْشاءُ السَّلامِ اَنْ لايَبْخَلَ بِالسَّلامِ عَلى اَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمينَ [28]
جنت میں ایسے محلات اور کمرے ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے نظر آتا ہے اور اندرونی حصہ باہر سے ، میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے جو پاکیزہ بات کریں گے، سلام کریں گے اور رات کو اس وقت نماز شب پڑھیں گے جب لوگ سو رہے ہوں گے۔ پھر فرمایا: سلام کرنے سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو سلام کرنے میں بخل نہیں کریں گے ۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِذا تَلاقَيْتُمْ فَتَلاقُوا بِالتَّسْلِيمِ وَالتَّصافُحِ وَاِذا تَفَرَّقْتُمْ فَتَفَرَّقُوا بِالاْءسْتِغْفارِ [29]
جب تم ملو تو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور جب الگ ہو جاؤ تو ایک دوسرے کے لیے استغفار کرو۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
يا اَ نَسُ! سَلِّمْ عَلى مَنْ لَقيتَ، يَزيدُ اللّهُ فِى حَسَناتِكَ، وَ سَلِّمْ فِى بَيْتِكَ يَزيدُ اللّهُ فِى بَرَكَتِكَ [30]
اے انسان! گھر سے باہر ہر ملنے والے کو سلام کریں کیونکہ اس سے آپ کے نیک اعمال اور اجر میں اضافہ ہوگا اور جب آپ اپنے گھر میں داخل ہوں تو سب کو سلام کریں، اللہ آپ کو بھلائی اور برکت عطا کرے گا۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِذا دَخَلَ اَحَدُكُمْ بَيْتَهُ فَلْيُسَلِّمْ فَاِنَّهُ يُنْزِلُهُ الْبَرَكَةَ، وَتُؤْنِسُهُ الْمَلائِكَةَ [31]
تم میں سے ہر ایک دوسرے کو سلام کرے جب وہ اپنے گھر میں داخل ہو، کیونکہ سلام کرنے سے رحمت، مہربانی اور فرشتوں کی محبت نازل ہوتی ہے۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتَكُمْ فَسَلِّمُوا عَلى اَهْلِها فَاِنَّ الشَّيْطانَ اِذا سَلَّمَ اَحَدُكُمْ لَمْ يَدْخُلْ مَعَهُ فِى بَيْتِهِ [32]
جب تم اپنے گھروں میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو، کیونکہ ایسا کرنے سے شیطان گھر میں داخل نہیں ہوتا ۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِذا قـامَ الرَّجُـلُ مِـنْ مَجْـلِسِهِ فَـليُوَدِّعْ اِخْـوانَهُ بِالسَّـلامِ، فَـاِنْ اَفاضُوا فِى خَيْرٍ كانَ شَريكَهُمْ وَاِنْ اَفاضُوا فِى باطِلٍ كانَ عَلَيْـهِمْ دُونَهُ [33]
جب کوئی کسی محفل سے اٹھے تو اپنے بھائیوں کو سلام کے ساتھ الوداع کرے کیونکہ اس صورت میں اگر انہیں خیر پہنچے گا تو وہ ان کا شریک ہو گا اور اگر نقصان پہنچے تو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
... تَحِيَّةُ اَهْلِ الْجَنَّةِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ [34]
اہل جنت کا سلام "السلام علیکم" ہے۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَطْوَعُكُمْ لِلّهِ اَلَّذى يَبْدَأُ صاحِبَهُ بِالسَّلامِ [35]
تم میں سے خدا کے نزدیک سب سے زیادہ فرمانبردار وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَلْبادى بِالسَّلامِ بَرِئٌ مِنَ الْكِبْرِ [36]
سلام کرنے میں پہل کرنے والا تکبر سے پاک ہے۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
يُسَلِّمِ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبيرِ، وَيُسَلِّمِ الْواحِدُ عَلَى الاْثْنَيْنِ، وَيُسَلِّمِ الْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ، وَيُسَلِّمِ الرَّاكِبُ عَلَى الْماشى، وَيُسَلِّمِ الْمارُّ عَلَى الْقائِمِ وَ يُسَلِّمِ الْقائِمُ عَلَى الْقاعِدِ [37]
چھوٹے کو بڑے پر سلام کرنا چاہیے۔ ایک شخص کو دو لوگوں پر سلام کرنا چاہیے۔ تھوڑے لوگوں کو زیادہ لوگوں پر سلام کرنا چاہیے۔ سوار پیدل چلنے والے پر سلام کرے ۔ راہ گیر کھڑے ہوئے شخص پر سلام کرے اور جو کھڑا ہو اسے بیٹھے ہوئے پر سلام کرنا چاہیے ۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
لا غِرارَ فِى الصَّلاةِ وَلاالتَّسْليمِ [38]
نماز اور سلام کرنے میں کوئی تاخیر یا جلدبازی نہیں ہے۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَلسِّلامُ تَطَوُّعٌ وَالرَّدُّ فَرِيضَةٌ [39]
سلام کرنا مستحب ہے اور جواب دینا واجب ہے۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِنَّ اَعْـجَزَ النّـاسِ مَـنْ عَجَـزَ مِنَ الدُّعاءِ وَاِنَّ اَبْخَلَ النّاسِ مَنْ بَخِـلَ بِالسَّـلامِ [40]
لوگوں میں سب سے زیادہ بے بس وہ ہے جو دعا کرنے سے عاجز ہو اور سب سے زیادہ کنجوس وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَلْمَلائِكَةُ تُعَجِّبُ مِنَ الْمُسْلِمِ يَمُرُّ عَلَى الْمُسْلِمِ فَلايُسَلِّمُ عَلَيْهِ [41]
جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے پاس سے گزرتا ہے اور اسے سلام نہیں کرتا تو فرشتے اس مسلمان پر تعجب کرتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
خمْسٌ لا اَدَعُهُنَّ حَتَّى الْمَماتِ: ... وَالتَّسْلِيمَ عَلَى الصِّبْيانِ لِتَكُونَ سُنَّةً مِنْ بَعْدِى [42]
میں آخری دم تک پانچ چیزوں کو ترک نہیں کروں گا: ... ان میں سے ایک بچوں کو سلام کرنا ہے تاکہ میرے بعد یہ سنت قائم ہو جائے ۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
السَّلَامُ تَطَوُّعٌ وَ الرَّدُّ فَرِیضَۃٌ [43]
سلام کرنا مستحب ہے اور جواب واجب ہے۔

امام علی ؑ نے فرمایا :
لِلسَّلامِ سَبْعُونَ حَسَنَةٌ، تِسْعَةٌ وَ سِتُّونَ لِلْمُبْتَدى وَواحِدَةٌ لِلرّادِّ [44]
سلام کی ستر نیکیاں ہیں، ان میں سے انہتر نیکیاں سلام کرنے والے کے لیے ہیں اور صرف ایک نیکی جواب دینے والے کے لیے ہے۔

امام علی ؑ نے فرمایا :
اِذا دَخَلَ اَحَدُكُمْ مَنْزِلَهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلى اَهْلِهِ، يَقُولُ: اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ، فَاِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ اَهْلٌ فَلْيَقُل: اَلسَّلامُ عَلَيْنا مِنْ رَبِّنا [45]
جب تم میں سے کوئی اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرے اور کہے: السلام علیکم ، اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو وہ کہے: " اَلسَّلامُ عَلَيْنا مِنْ رَبِّنا " (ہم پر ہمارے رب کی طرف سے سلامتی ہو)۔

امام علی ؑ نے فرمایا :
لِكُلِّ داخِلٍ دِهْشَةٌ فَابْدَئُوا بِالسَّلامِ [46]
ہر نیا آنے والا ایک قسم کا خوف محسوس کرتا ہے، اس لیے سلام کے ساتھ ابتدا کریں۔

امام حسین ؑ نے فرمایا :
كَيْفَ اَنْتَ عافاكَ اللّهُ؟ فَقالَ عليه السلام لَهُ: اَلسَّلامُ قَبْلَ الكَلامِ عافاكَ اللّهُ، ثُمَّ قالَ عليه السلام : لاتَأذَنُوا لاِحَدٍ حتّى يُسَلِّمَ [47]
ایک شخص نے امام حسین ؑ سے کہا: اللہ آپ کو عافیت دے ، آپ کیسے ہیں؟ ۔ امام نے فرمایا: اللہ آپ کو عافیت دے پہلے سلام، پھر کلام ۔ اور فرمایا: کسی کو اس وقت تک کلام کی یا داخلہ کی اجازت نہ دیں جب تک کہ وہ سلام نہ کرے۔

امام باقر ؑ نے فرمایا :
اِنَّ اللّهَ يُحِبُّ اِطْعامَ الطَّعامِ وَاِفْشاءَ السَّلامِ [48]
خدا تعالی دوسروں کو کھانا کھلانا اور سلام کرنے کو رواج دینے کو پسند کرتا ہے۔

امام صادق ؑ نے فرمایا :
اِنَّ مِنْ مُوجِباتِ الْمَغْفِرَةِ بَذْلُ السَّلامِ وَحُسْنُ الْكَلامِ [49]
انسان کی بخشش کا باعث بننے والے عوامل میں سے ایک سلام کرنا اور اچھی گفتگو کرنا ہے۔

امام صادق ؑ نے فرمایا :
جَمَعَ رَسُولُ اللّهِ صلي الله عليه و آله بَنِى عَبْدِالْمُطَّلِبِ فَقالَ: يا بَنى عَبْدِالْمُطَّلِبِ اَفْشُوا السَّلامَ وَصِلُوا الاْرْحامَ، وَتَهَجَّدُوا وَالنّاسُ نيامٌ، وَاَطْعِموُا الطَّعامَ، وَاَطِيبُوا الْكَلامَ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلامٍ [50]
رسول اللہ ﷺ نے عبدالمطلب کے بیٹوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا: اے عبدالمطلب کے بیٹو! سلام کو عام کرو ، رشتہ داریاں قائم رکھو، اور لوگ جب سو رہے ہوں تو عبادت کرو ، انہیں کھانا کھلاؤ، پاکیزہ گفتگو کرو تو تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔

امام صادق ؑ نے فرمایا :
اَلْبادِى بِالسَّلامِ اَوْلى بِاللّهِ وَبِرَسُولِهِ [51]
سلام کی ابتدا کرنے والا خدا اور اس کے رسول سے زیادہ قریب ہے۔

امام صادق ؑ نے فرمایا :
اَذا سَلَّمَ اَحَدُكُمْ فَلْيَجْهَرْ بِسلامِهِ وَلايَقُولُ: سَلَّمْتُ فَلَمْ يَرُدُّوا عَلَىَّ وَلَعَلَّهُ يَكُونُ قَدْ سَلَّمَ وَلَمْ يُسْمِعْهُمْ، فَاِذا رَدَّ اَحَدُكُمْ فَلْيَجْهَرْ بِرَدِّهِ وَلايَقُولُ الْمُسْلِمُ: سَلَّمْتُ فَلَمْ يَرُدُّوا عَلَىَّ [52]
جب تم میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو اسے بلند آواز سے سلام کرو اور یہ نہ کہو کہ میں نے تمہیں سلام کیا اور تم نے جواب نہیں دیا۔ شاید اس نے سلام کہا لیکن سنا نہیں گیا۔ اور جب کوئی سلام کا جواب دے تو بلند آواز سے جواب دو تاکہ سلام کرنے والا یہ نہ کہے کہ میں نے تمہیں سلام کیا اور آپ نے جواب نہیں دیا۔

امام صادق ؑ نے فرمایا :
اِنَّ مِنَ التَّواضُعِ اَنْ يَرْضَى الرَّجُلُ بِالْمجْلِسِ دُونَ الْمَجْلِسِ،وَاَنْ يُسَلِّمَ عَلى مَنْ يَلْقى ... [53]
عاجزی کی ایک صورت یہ ہے کہ انسان مجلس کے آخر میں بیٹھے اور ہر آنے والے کو سلام کرے۔

امام صادق ؑ نے فرمایا :
ثَلاثَةٌ لايُسَلِّمُونَ: اَلْماشى مَعَ الْجَنازَةِ وَالْماشى اِلى الْجُمُعَةِ وَ فِى بَيْتِ حَمّامٍ [54]
تین آدمیوں کا ایک دوسرے کو سلام کرنا ضروری نہیں:
1جنازہ کے ساتھ جانے والا شخص۔
2 نماز جمعہ کے لیے جانے والا۔
3 وہ شخص جو غسل خانے میں ہے۔

امام صادق ؑ نے فرمایا :
اِذا سَلَّمَ مِنَ الْقَوْمِ واحِدٌ أَجْزَأَ عَنْهُمْ وَاِذارَدَّ واحِدٌ أَجْزَأَ عَنْهُمْ [55]
جب آپ کسی گروپ میں ہوتے ہیں تو ایک شخص کا آپ کو سلام کرنا کافی ہوتا ہے اور گروپ میں ایک شخص کا جواب دینا کافی ہوتا ہے۔

نتیجہ
یہ مذکورہ تمام وہ آداب ہیں جوروایات سے ثابت ہیں، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے آداب ہیں، سلام کرتے وقت جن کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی کام میں مشغول ہو اور یہ اندازہ ہو کہ سلام کرنے سے اس کے کام میں خلل واقع ہو گا تو ایسی صورت میں اس کو سلام کرنا درست نہیں، بلکہ اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے، مثلاً کوئی آدمی نماز میں مشغول ہے یا ذکر کر رہا ہے یا وعظ ونصحیت میں مشغول ہے یا خطبہ وتقریر سن رہا ہے یا قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہے یا اذان دے رہا ہے یا قاضی ومفتی کسی فیصلے یا مسئلہ بتانے میں مشغول ہے یا کھانے پینے میں مصروف ہے یا قضائے حاجت یا پیشاب کرنے میں مشغول ہے یا غسل خانہ میں ہے، یا وضو کر رہا ہے یا دعا مانگ رہا ہے یا اسی طرح کسی اور کام میں مصروف ہے تو ایسے آدمی کو سلام کرنا مکروہ ہے، اگر کوئی اس حالت میں ان لوگوں کو سلام کرے تو ان پر جواب دینا واجب نہیں۔
مذکورہ روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا طرز عمل تمام امت کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے، جو سلام کرنے والے کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ سلام کرتے وقت اپنے مخاطب کے حالات کی رعایت رکھنا انتہائی ضروری ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس شعار دین کو زیادہ سے زیادہ رواج دے کربار گاہ ایزدی میں تقرب حاصل کرے۔
ایک دوسرے سے ملتے وقت سلام کرنا انتہائی خوبصوت انداز ہے جس کی تعلیم دین مقدس اسلام نے دی ہے۔ معاشرے میں سلام کر پرچار کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے خصوصا آج کے معاشروں میں جہاں سلام کرنے کا رواج کم ہوتا جارہا ہے۔ سب سے بہترین طریقہ اس مورد میں خود کا سلام میں پہل کرنا اور بلند آواز سے سلام کرنا ہے، تاکہ دوسرے صرف باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے سیکھے۔

[1] ۔ نور/27
[2] ۔ الذاریات/ 25
[3] ۔ فرقان/ 75
[4] ۔ نور/61
[5] ۔ انعام/ 54
[6] ۔ نساء/ 86
[7] ۔ زخرف/ 89
[8] ۔ زمر/ 73
[9] ۔ یٰس/ 58
[10] ۔ صافات / 79
[11] ۔ هود / 48
[12] ۔ مريم / 33
[13] ۔ صافات / 120
[14] ۔ صافات/ 130
[15] ۔ صافات / 181
[16] ۔ احزاب / 56
[17] ۔ النحل/ 32
[18] ۔ ٰنمل / 59
[19] ۔ احزاب / 44
[20] ۔ عوالی للالی ۲:۱۳۵
[21] ۔ بحار ، ج 76، ص 4
[22] ۔ محجه البيضاء، ج 3، ص 382
[23] ۔ محجة البيضاء، ج 4، ص 382
[24]۔ همان، ص 3
[25] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 10
[26] ۔ همان، ص 5
[27] ۔ همان، ص 12
[28] ۔ همان، ص 2
[29] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 5
[30] ۔ همان، ص 3
[31] ۔ همان، ص 7
[32] ۔ محجّة البيضاء، ج 3، ص 382
[33] ۔ بحارالأنوار،ج76، ص9
[34] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 6
[35] ۔ ميزان الحكمة، ج 4، ص 536، شماره 8846
[36] ۔ ميزان الحكمة، ج 4، ص 536، شماره 8848
[37] ۔ ميزان الحكمة، ج 4، ص 538، شماره 8857
[38] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 6
[39] ۔ ميزان الحكمة، ج4، ص 537، شماره 8854
[40] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص4
[41] ۔ محجّة البيضاء، ج 3، ص 382
[42] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 10
[43] ۔ اصول الکافی ۲:۶۴۴
[44] ۔ همان، ص 11
[45] ۔ همان، ص 4
[46] ۔ ميزان الحكمة، ج 4، ص 526، شماره 7750
[47] ۔تحف العقول 246، موسوعة كلمات الامام الحسين عليه السلام 750/913
[48]۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 10
[49] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 11
[50] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 10
[51] ۔ همان، ص 1 .
[52] ۔محجّة البيضاء، ج 3، ص 384
[53] ۔ همان، ص 6 .
[54] ۔ محجّة البيضاء، ج 3، ص 385 .
[55] ۔ محجّة البيضاء، ج 3، ص 385 .

ماہ رمضان کی فضیلت کے بارے میں مولا علی ؑ کا خطبہ

امیرالمومنین علی علیہ السلام نے یکم ماہ مبارک رمضان کو مسجد کوفہ میں خطبہ دیا اور اللہ تعالی کی افضل ترین اور شریف ترین اور بلیغ ترین حمد اوربہترین ثنا کے بعد اور اس کے نبی محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر صلوات بھیجنے کے بعد فرمایا: خَطَبَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع فِي أَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ بِأَفْضَلِ الْحَمْدِ وَ أَشْرَفِهَا وَ أَبْلَغِهَا وَ أَثْنَى عَلَيْهِ بِأَحْسَنِ الثَّنَاءِ وَ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ نَبِيِّهِ ص ثُمَّ قَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ شَهْرٌ فَضَّلَهُ اللَّهُ عَلَى سَائِرِ الشُّهُورِ كَفَضْلِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ عَلَى سَائِرِ النَّاسِ وَ هُوَ شَهْرٌ يُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ وَ يُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ النِّيرَانِ وَ هُوَ شَهْرٌ يُسْمَعُ فِيهِ النِّدَاءُ وَ يُسْتَجَابُ فِيهِ الدُّعَاءُ وَ يُرْحَمُ فِيهِ الْبُكَاءُ وَ هُوَ شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ نَزَلَتِ الْمَلَائِكَةُ فِيهَا مِنَ السَّمَاءِ فَتُسَلِّمُ عَلَى الصَّائِمِينَ وَ الصَّائِمَاتِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى مَطْلَعِ الْفَجْرِ وَ هِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ قُدِّرَ فِيهَا وَلَايَتِي قَبْلَ أَنْ خُلِقَ آدَمُ ع بِأَلْفَيْ عَامٍ صِيَامُ يَوْمِهَا أَفْضَلُ مِنْ صِيَامِ أَلْفِ شَهْرٍ وَ الْعَمَلُ فِيهَا أَفْضَلُ مِنَ الْعَمَلِ فِي أَلْفِ شَهْرٍ اے لوگو! بیشک یہ مہینہ، ایسا مہینہ ہے جسے اللہ نے دوسرے مہینوں پر فضیلت دی ہے، جیسے ہم اہل بیت کی دیگر لوگوں پر فضیلت ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں آسمان کے دروازے اور رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس میں آگ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں فریاد سنی جاتی ہے اور اس میں دعا مستجاب ہوتی ہے اور اس میں گریہ پر رحم کیا جاتا ہے اور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں ایسی رات ہے جس رات میں فرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں، پس روزہ دار مردوں اور عورتوں پر اپنے پروردگار کے اذن سے فجر کے طلوع تک سلام بھیجتے ہیں اور وہ ، شب قدر ہے۔اور یہ وہی رات ہے جس میں میری ولایت کو آدم (علیہ السلام) کے خلق ہونے سے دو ہزار سال پہلے، مقدر کیا گیا۔ اس کے دن میں روزہ رکھنا ہزار مہینوں کی روزہ داری سے افضل ہے اور اس میں عمل کرنا، ہزار مہینوں کے عمل سے افضل ہے أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ شُمُوسَ شَهْرِ رَمَضَانَ لَتَطْلَعُ عَلَى الصَّائِمِينَ وَ الصَّائِمَاتِ وَ إِنَّ أَقْمَارَهُ لَيَطْلَعُ عَلَيْهِمْ بِالرَّحْمَةِ وَ مَا مِنْ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ مِنَ الشَّهْرِ إِلَّا وَ الْبِرُّ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى يَتَنَاثَرُ مِنَ السَّمَاءِ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ فَمَنْ ظَفِرَ مِنْ نِثَارِ اللَّهِ بَدْرَةً كَرُمَ عَلَى اللَّهِ يَوْمَ يَلْقَاهَا وَ مَا كَرُمَ عَبْدٌ عَلَى اللَّهِ إِلَّا جَعَلَ الْجَنَّةَ مَثْوَاهُ عِبَادَ اللَّهِ ۔ إِنَّ شَهْرَكُمْ لَيْسَ كَالشُّهُورِ أَيَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَيَّامِ وَ لَيَالِيهِ أَفْضَلُ اللَّيَالِي وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَاتِ هُوَ شَهْرٌ الشَّيَاطِينُ فِيهِ مَغْلُولَةٌ مَحْبُوسَهٌ هُوَ شَهْرٌ يَزِيدُ اللَّهُ فِيهِ الْأَرْزَاقَ وَ الْآجَالَ وَ يُكْتَبُ فِيهِ وَفْدُ بَيْتِهِ وَ هُوَ شَهْرٌ يُقْبَلُ أَهْلُ الْإِيمَانِ بِالْمَغْفِرَةِ وَ الرِّضْوَانِ وَ الرَّوْحِ وَ الرَّيْحَانِ وَ مَرْضَاةِ الْمَلِكِ الدَّيَّانِ اے لوگو! ماہ رمضان کے ہر دن کا سورج (اللہ کی) رحمتوں کے ساتھ روزہ دار مردوں اور عورتوں پر طلوع کرتا ہے جس طرح اس مہینے کا رحمتوں اور برکتوں بھرا چاند ان پر طلوع ہوتا ہے اور اس مہینے کے ہر دن اور رات میں اللہ تعالی کی طرف سے آسمان سے نیکی اور احسان اس امت پر نچھاور کی جاتی ہے پس جو شخص نعمت الہی کے نچھاور ہونے سے ذرہ برابر بھی بہرہ مند ہوجائے تو اللہ سے ملاقات (یعنی قیامت) کے دن اللہ کی بارگاہ میں صاحب عزت و مقام ہوگا اور جو بندہ اللہ کی بارگاہ میں صاحب حیثیت بن جائے تو اللہ تعالی جنت کو اس کا ٹھکانہ بنادیتا ہے۔ خدا کے بندو! تمہارا یہ مہینہ، دوسرے مہینوں کی طرح نہیں ہونا چاہیےاس کے دن سب دنوں سے افضل اور اس کی راتیں سب راتوں سے افضل اور اس کی گھڑیاں سب گھڑیوں سے افضل ہیں ایسا مہینہ ہے جس میں شیاطین جکڑے ہوئے اور قید میں ہیں ایسا مہینہ ہے جس میں خداوندمتعال رزق اور لوگوں کی زندگیوں کو بڑھا دیتا ہے۔ اور اپنے بندوں کو اپنے گھر کا مہمان شمار کرتا ہے اور ایسا مہینہ ہے کہ اہل ایمان کو مغفرت ، اپنی رضا اور خوشنودی، روح و ریحان کے ساتھ اپنی بارگاہ میں شرف حضور بخشتا ہے ۔ أَيُّهَا الصَّائِمُ تَدَبَّرْ أَمْرَكَ فَإِنَّكَ فِي شَهْرِكَ هَذَا ضَيْفُ رَبِّكَ انْظُرْ كَيْفَ تَكُونُ فِي لَيْلِكَ وَ نَهَارِكَ وَ كَيْفَ تَحْفَظُ جَوَارِحَكَ عَنْ مَعَاصِي رَبِّكَ انْظُرْ أَنْ لَا تَكُونَ بِاللَّيْلِ نَائِماً وَ بِالنَّهَارِ غَافِلًا فَيَنْقَضِيَ شَهْرُكَ وَ قَدْ بَقِيَ عَلَيْكَ وِزْرُكَ فَتَكُونَ عِنْدَ اسْتِيفَاءِ الصَّائِمِينَ أُجُورَهُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ وَ عِنْدَ فَوْزِهِمْ بِكَرَامَةِ مَلِيكِهِمْ مِنَ الْمَحْرُومِينَ وَ عِنْدَ سَعَادَتِهِمْ بِمُجَاوَرَةِ رَبِّهِمْ مِنَ الْمَطْرُودِينَ ۔ أَيُّهَا الصَّائِمُ إِنْ طُرِدْتَ عَنْ بَابِ مَلِيكِكَ فَأَيَّ بَابٍ تَقْصِدُ وَ إِنْ حَرَمَكَ رَبُّكَ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَرْزُقُكَ وَ إِنْ أَهَانَكَ فَمَنْ ذَا الَّذِي يُكْرِمُكَ وَ إِنْ أَذَلَّكَ فَمَنْ ذَا الَّذِي يُعِزُّكَ وَ إِنْ خَذَلَكَ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكَ وَ إِنْ لَمْ يَقْبَلْكَ‏ فِي زُمْرَةِ عَبِيدِهِ فَإِلَى مَنْ تُرْجَعُ بِعُبُودِيَّتِكَ وَ إِنْ لَمْ يُقِلْكَ عَثْرَتُكَ فَمَنْ تَرْجُو لِغُفْرَانِ ذُنُوبِكَ وَ إِنْ طَالَبَكَ بِحَقِّهِ فَمَا ذَا يَكُونُ حُجَّتُكَ اے روزہ دار! اپنے کاموں میں غور و فکر سے کام لو کہ تم اس مہینے میں اپنے پروردگار کے مہمان ہو سوچو کہ اپنے دن رات کو کیسے گزار رہے ہو؟ اور کس طرح اپنے اعضا و جوارح کو اپنےپروردگار کی نافرمانی سے بچاتے ہو پس دیکھو ! ایسا نہ ہو کہ رات کو نیند میں رہو اور دن کو غفلت میں،اور تمہارا (یہ با برکت ) مہینہ گزر جائے اور (تمہارے گناہوں کا) بوجھ تمہارے ذمہ رہ جائے ( خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر ) جب روزہ دار اپنا اجر و ثواب لے رہے ہوں گے تو تم نقصان اٹھانے والوں میں سے شمار ہو گے اور جب وہ اپنی کرامت کی حکمرانی پر فائز ہوں گے تو تم محروم لوگوں کی صف میں کھڑے ہو گے اور جب وہ اپنے پروردگار کی ہمسائیگی میں سعادتمند ہوں گے تو تم ان میں سے ہو گے جنہیں دور کر دیا جائے گا! اے روزہ دار! اگر تجھے اپنے مالک کے دروازے سے دور کردیا گیا تو کس دروازے پر جاوگے؟ اور اگر تمہارے پروردگار نے تمہیں محروم کردیا تو کون ہے جو تمہیں رزق دے گا؟ اور اگر اس نے تمہیں خوار کردیا تو کون ہے جو تمہارا اکرام کرے گا؟ اور اگر اس نے تمہیں ذلیل کردیا تو کون ہے جو تمہیں عزت عطا کرے گا؟ اور اگر اس نے تمہیں چھوڑدیا تو کون ہے جو تمہاری مدد کرے گا؟ اور اگر اس نے تمہیں اپنے بندوں کے زمرے میں قبول نہ کیا تو تم اپنی بندگی کو کس کے پاس لے جاوگے؟ اور اگر اس نے تمہاری خطاوں کو معاف نہ کیا تو تم اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے کس پر امید رکھوگے؟ اور اگر اس نے اپنا حق تم سے مانگا تو تمہاری حجت اور تمہارا جواب کیا ہوگا؟ أَيُّهَا الصَّائِمُ تَقَرَّبْ إِلَى اللَّهِ بِتِلَاوَةِ كِتَابِهِ فِي لَيْلِكَ وَ نَهَارِكَ فَإِنَّ كِتَابَ اللَّهِ شَافِعٌ مُشَفَّعٌ يَشْفَعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِأَهْلِ تِلَاوَتِهِ فَيَعْلُونَ دَرَجَاتِ الْجَنَّةِ بِقِرَاءَةِ آيَاتِهِ بَشِّرْ أَيُّهَا الصَّائِمُ فَإِنَّكَ فِي شَهْرٍ صِيَامُكَ فِيهِ مَفْرُوضٌ وَ نَفَسُكَ فِيهِ تَسْبِيحٌ وَ نَوْمُكَ فِيهِ عِبَادَةٌ وَ طَاعَتُكَ فِيهِ مَقْبُولَةٌ وَ ذُنُوبُكَ فِيهِ مَغْفُورَةٌ وَ أَصْوَاتُكَ فِيهِ مَسْمُوعَةٌ وَ مُنَاجَاتُكَ فِيهِ مَرْحُومَةٌ وَ لَقَدْ سَمِعْتُ حَبِيبِي رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ إِنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى عِنْدَ فِطْرِ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ عُتَقَاءَ مِنَ النَّارِ لَا يَعْلَمُ عَدَدَهُمْ إِلَّا اللَّهُ هُوَ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَهُ فَإِذَا كَانَ آخِرُ لَيْلَةٍ مِنْهُ أُعْتِقَ فِيهَا مِثْلُ مَا أُعْتِقَ فِي جَمِيعِهِ اے روزہ دار! اپنے دن اور رات میں ؛ قرآن مجید کی تلاوت کے ذریعے اللہ کی قربت حاصل کرو کہ بیشک اللہ کی کتاب ایسی شفاعت کرنے والی ہے کہ قیامت کے دن قاری کے حق میں اس کی شفاعت حتما قبول ہو گی ۔ پس تلاوت کرنے والے اس کی آیات کو پڑھنے سے جنت کے درجات پر اوپر جائیں گے۔ اے روزہ دار ! تمہیں خوشخبری ہو کہ تم ایسے مہینے میں ہو کہ جس میں روزہ تم پر فرض کیا گیا ہے اور اس میں تمہارا سانس لینا، تسبیح شمار ہوتا ہے اور اس میں تمہاری نیند، عبادت ہے اور اس میں تمہاری اطاعت قبول ہے اور اس میں تمہارے گناہ معاف ہیں اور تمہاری آوازیں اس میں سنی جاتی ہیں اور تمہاری مناجات پر اس میں رحم کیا جاتا ہے اور یقینا میں نے اپنے حبیب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا کہ آپ فرماتے تھے: بیشک ماہ رمضان کی ہر رات کو افطار کے وقت اللہ تبارک و تعالی کی آگ سے کچھ آزاد کیے گئے (افراد) ہیں جن کی تعداد کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ ان کی تعداد، اس کی بارگاہ میں علم غیب میں ہے (یعنی روزانہ افطار کے وقت اتنی کثرت سے لوگ بخشے جاتے ہیں) ۔ پس جب اس مہینہ کی آخری رات آتی ہے تو اللہ اس رات میں اس سارے مہینہ میں آزاد کی ہوئی تعداد کے برابر، لوگوں کو آزاد کرتا ہے۔ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ هَمْدَانَ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ زِدْنَا مِمَّا حَدَّثَكَ بِهِ حَبِيبُكَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ نَعَمْ سَمِعْتُ أَخِي وَ ابْنَ عَمِّي رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ مَنْ صَامَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَحَفِظَ فِيهِ نَفْسَهُ مِنَ الْمَحَارِمِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ الْهَمْدَانِيُّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ زِدْنَا مِمَّا حَدَّثَكَ بِهِ أَخُوكَ وَ ابْنُ عَمِّكَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ قَالَ نَعَمْ سَمِعْتُ خَلِيلِي رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ‏ إِيمَاناً وَ احْتِسَاباً دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ الْهَمْدَانِيُّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ زِدْنَا مِمَّا حَدَّثَكَ بِهِ خَلِيلُكَ فِي هَذَا الشَّهْرِ فَقَالَ نَعَمْ سَمِعْتُ سَيِّدَ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُفْطِرْ فِي شَيْ‏ءٍ مِنْ لَيَالِيهِ عَلَى حَرَامٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ فَقَالَ الْهَمْدَانِيُّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ زِدْنَا مِمَّا حَدَّثَكَ بِهِ سَيِّدُ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ فِي هَذَا الشَّهْرِ فَقَالَ نَعَمْ سَمِعْتُ أَفْضَلَ الْأَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِينَ وَ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ يَقُولُ إِنَّ سَيِّدَ الْوَصِيِّينَ يُقْتَلُ فِي سَيِّدِ الشُّهُورِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا سَيِّدُ الشُّهُورِ وَ مَنْ سَيِّدُ الْوَصِيِّينَ قَالَ أَمَّا سَيِّدُ الشُّهُورِ فَشَهْرُ رَمَضَانَ وَ أَمَّا سَيِّدُ الْوَصِيِّينَ فَأَنْتَ‏ يَا عَلِيُّ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ قَالَ إِي وَ رَبِّي إِنَّهُ يَنْبَعِثُ أَشْقَى أُمَّتِي شَقِيقُ عَاقِرِ نَاقَةِ ثَمُودَ ثُمَّ يَضْرِبُكَ ضَرْبَةً عَلَى فَرْقِكَ تُخْضَبُ مِنْهَا لِحْيَتُكَ فَأَخَذَ النَّاسُ بِالْبُكَاءِ وَ النَّحِيبِ فَقَطَعَ ع خُطْبَتَهُ وَ نَزَلَ‏. ھمدان قبیلے کا ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا : اے امیرالمومنین ! رسول اکرم نے اس مہینے کے بارے میں کچھ اور فرمایا ہو تو ہمیں بتائیے امیرالمومنین نے فرمایا : ہاں ؛ میں نے اپنے چچا زاد بھائی رسول خدا سے سنا کہ فرمایا : جو بھی شخص اس مہینے میں روزے رکھے اور خود کو حرام سے بچائے تو وہ جنت میں داخل ہو گا اس ھمدانی شخص نے پھر مزید احادیث کا تقاضا کیا تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا : میں نے رسول خدا سے سنا ہے کہ جو اللہ پر ایمان اور اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے اس مہینے میں روزہ رکھے تو جنت اس کا ٹھکانہ ہو گا اس شخص نے پھر مزید کا تقاضا کیا تو امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: اولین و آخرین انبیاء کے سردار سے میں نے سنا کہ فرمایا: جو بھی روزہ رکھے اور رات کو حرام کھانے سے پرہیز کرے تو جنت میں داخل ہو گا اس نے پھر مزید احادیث کا تقاضا کیا تو فرمایا : انبیاء اور رسل اور مقرب فرشتوں سے افضل ھستی رسول خدا نے اس ماہ رمضان کے بارے میں فرمایا : جان لو ! تمام اوصیاء کا سردار افضل ترین مہینے میں شھید ہو گا میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! اوصیاء کے سردار اور افضل ترین مہینے سے کون مراد ہیں ؟ فرمایا : افضل ترین مہینہ ماہ مبارک رمضان ہے اور اوصیاء کے سردار آپ ہیں یا علی مزید فرمایا : یا علی میری امت کا بدبخت اور شقی ترین شخص کھڑا ہو گا اور آپ کے سر مبارک پر وار کرے گا اور آپ کے خون سے آپ کا چہرہ رنگین ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔ اس وقت مسجد میں لوگوں کے نالہ و شیون کی صدائیں اتنی بلند ہوئیں کہ آپ کو خطبہ ختم کرنا پڑا ۔۔۔ الخصال شیخ صدوق 207/1

 زکات فطرہ کے انفرادی اور معاشرتی اثرات قرآن و حدیث کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

زکات فطرہ کے انفرادی اور معاشرتی اثرات قرآن و حدیث کی روشنی میں

اسد عباس اسدی

مقدمه

دینِ اسلام کا کمال یہ ہے کہ یہ ایسے ارکان واحکام پر مشتمل ہے جن کا تعلق ایک طرف خالق کائنات اور دوسری جانب مخلوق کےساتھ استوار کیا گیا ہے یعنی اسلام کے ارکان میں یہ ایک ایسا رکن اور فریضہ ہے جس کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد سے ہے۔ دین فرد کی انفرادیت کا تحفظ کرتے ہوئے اجتماعی زندگی کوہر حال میں قائم رکھنے کاحکم دیتاہے۔اس کے بنیادی ارکان میں کوئی ایسا رکن نہیں جس میں انفرادیت کے ساتھ اجتماعی زندگی کو فراموش کیا گیا ہو ۔انہی بینادی ارکان میں سے ایک اہم رکن زکوٰۃ ہے۔عربی زبان میں لفظ ’’ زکو ٰۃ ‘‘ پاکیزگی ،بڑھوتری اور برکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔جبکہ شریعت میں زکو ٰۃ ایک مخصوص مال کے مخصوص حصہ کو کہا جاتا ہے جو مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے ۔اور اسے زکو ٰۃ اس لیے کہاجاتا ہے کہ اس سے دینے والے کا تزکیہ نفس ہوتا ہے اور اس کا مال پاک اور بابرکت ہوجاتا ہے۔

ادائیگی زکو ٰۃ دین اسلام کا اہم ترین حکم ہے ۔ زکو ٰۃ ادا کرنےکے بے شمار فوائد، اور ادا نہ کرنے کے نقصانات ہیں ۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں تفصیل سے اس کے احکام ومسائل بیان ہوئے ہیں ۔

جو شخص اس کی فرضیت سےانکار کرے وہ یقینا کافر ہے ۔ اور جو شخص زکات کی فرضیت کا تو قائل ہو لیکن اسے ادا نہ کرتا ہو اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا،جس کی وضاحت سورہ توبہ کی آیت 34۔35 میں موجود ہے ۔

زکوٰۃ ایک اہم ترین فریضہ ہے جسے نماز اور جہاد کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور یہ دین کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے۔

زکات کا مفہوم

زکوٰۃ لفظ "زکو" سے ماخوذ ہے اور اس کے لغوی معنی نشوونما کے ہیں[1]، تزکیہ، نیکی اور تقویٰ [2] اور حمد و ثناء ہے [3]۔

اور اس کا اصل معنی خدائی نعمتوں سے حاصل ہونے والا اضافہ ہے جو دنیاوی معاملات میں استعمال ہوتا ہے اور آخرت کا اجر رکھتا ہے [4]۔

فقہی اصطلاح میں اس سے مراد صدقہ اور ایک خدائی حق ہے جو مخصوص شرائط کے ساتھ مال کی ایک خاص مقدار تک پہنچنے پر ادا کیا جاتا ہے[5]، اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ‏ وَ تُزَکِّیهِمْ بِها [6]

آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں ۔

اهمیت زکات

زکوٰۃ کی اہمیت اس قدر ہے کہ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ اس کا ذکر ہے اور دعا کی قبولیت زکوٰۃ کی ادائیگی سے مشروط ہے۔

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو نماز کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور فرمایا ہے:

‌أَقِیمُوا الصَّلاةَ وَ آتُوا الزَّکاةَ‌‌ [7]۔

پس وہ شخص جو نماز قائم کرتا ہے لیکن زکوٰۃ نہیں دیتا،گویا اس نے نماز پڑھی ہی نہیں ہے [8]۔

قرآن نے زکوٰۃ کی ادائیگی کو سعادت کا سبب اور کامیاب مومنین کی خصوصیت قرار دیا ہے:

وَ الَّذینَ هُمْ لِلزَّکاةِ فاعِلُون [9]

زکوٰۃ اللہ کی رحمت کے حصول کی بنیاد ہے، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

وَ رَحْمَتی‏ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ‏ءٍ فَسَأَکْتُبُها لِلَّذینَ یَتَّقُونَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکاةَ وَ الَّذینَ هُمْ بِآیاتِنا یُؤْمِنُونَ [10]

اور میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے، اور میں اسے ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں

زکوٰۃ اسلام کے ستونوں میں سے ایک ہے، اسی لیے قرآن مشرکین کے بارے میں کہتا ہے:

فَإِنْ تابُوا وَ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّکاةَ فَإِخْوانُکُمْ فِی الدِّینِ،[11]

لیکن اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں ۔

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:

بنی الاسلام علی خمسة اشیاء : علی الصلاة و الزکاة والحج والصوم والولایة[12]

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے ۔ نماز ، زکات ، حج ، روزہ اور ولایت

امیر المومنین علی علیہ السلام نے بھی زکوٰۃ کو خدا کا قرب، گناہوں کا کفارہ اور آگ سے حفاظت کا ذریعہ قرار دیا اور فرمایا:

یقیناً زکوٰۃ ادا کرنا اور نماز پڑھنا ایسے عوامل ہیں جو مسلمانوں کو خدا کے قریب کرتے ہیں، لہٰذا جو شخص اطمینان قلب کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرتا ہے، یہ اس کے گناہوں کا کفارہ اور جہنم کی آگ سے انسان کی حفاظت کرتی ہے، جو شخص خوشی سے زکوٰۃ ادا نہیں دیتا وہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل کی سنت سے غافل ہے، اس کا ثواب کم ہوگا، اس کے اعمال برباد ہوں گے اور وہ ہمیشہ پشیمان رہے گا۔[13]

زکات فطرہ کے ادا کرنے کا فلسفه

درحقیقت جن لوگوں کو روزے کی توفیق نصیب ہوئی ہے اور وہ ایک مہینے کے لیے خدا کے مہمان ہیں، وہ اس بابرکت مہینے کی کامیابی کے شکرانے کے طور پر عید الفطر کے موقع پر بندگی پروردگار کا جشن منانا چاہتے ہیں تو اس جشن میں اپنے غریب بھائیوں کو بھی شریک کریں ۔

اس لیے زکات فطرہ کی ادائیگی کی ایک اہم ترین حکمت یہ ہے کہ غریبوں، محروموں اور مظلوموں کی انتہائی احترام کے ساتھ اس طرح مدد کی جائے کہ ان کے انسانی وقار کو محفوظ رکھا جائے، تاکہ اس کے ذریعے وہ لوگ جن کی کمر مشکل معاشی حالات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، یا معذور اور بوڑھے لوگوں کی مدد کر سکیں۔

زکات فطرہ کے اثرات

الٰہی فرائض مصالح انسانی کے مطابق ہیں ، زکوٰۃ کا حکم بھی اسی طرح ہے اور زکوٰۃ کے انفرادی، سماجی اور اقتصادی اثرات اور برکات دینے والے اور لینے والے دونوں پر مرتب ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے۔

الف) انفرادی اثرات

1۔ روح کی طهارت

قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَکِّیهِمْ بِها [14]

ان کے اموال میں سے صدقہ لے لو، تاکہ تم اس سے ان کو پاک و پاکیزہ کرو ۔

رذایل نفسانی میں سے ایک، خرچ کرنے میں بخل ،اور مال جمع کرنے میں حرص ہے،قرآن نے ان برائیوں کا تذکرہ صفت «بخل» و «شُحّ» سے کیا ہے،بعض روایات کے مطابق «شحّ» بخل سے زیادہ سخت ہے۔

بخیل یہ ہے جو کچھ اپنے پاس ہے اسے روک لے،لیکن «شحّ» شخص دوسروں کے مال میں بھی بخل کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ جو کچھ لوگوں کے ہاتھ میں دیکھتا ہے حاصل کرنا چاہتا ہے،چاہے وہ حلال ہو یا ناجائز، وہ کبھی بھی اس سے مطمئن نہیں ہوتا جو خدا نے اس کے لیے دیا ہے[15]۔

زکوٰۃ کی ادائیگی انسان کو مادی لگن سے آزاد کرتی ہے اور اس کی روح کو ان برائیوں سے پاک کرتی ہے، لہٰذا، قرآن پاک ان لوگوں کو ممتاز کرتا ہے جو اپنی جائیداد میں فقیر اور محروم کے لیے ایک مخصوص حق کو پہچانتے ہیں اور ادا کرتے ہیں [16]۔

گناہوں کی بخشش

زکوٰۃ کے آثار میں سے ایک اثر یہ ہے کہ اس کے ادا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش دی جاتی ہے اور وہ گناہوں اور پلیدگیوں سے پاک ہو جاتے ہیں،جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

الزَّکَاةُ تُذْهِبُ الذُّنُوبَ [17]۔

زکات گناہوں کو ختم کر دیتی ہے

امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ أَعْطَاهَا طَیِّبَ النَّفْسِ بِهَا فَإِنَّهَا تُجْعَلُ لَهُ کَفَّارَةً [18]

جو شخص رضائے خدا کیلئے زکوٰۃ ادا کرے گا، اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔

3۔تقرب الهی

زکوٰۃ کی ادائیگی حکومتوں کے عائد کردہ ٹیکسوں کی طرح نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک حقیقت عبادی ہے جو ایمان اور یقین کی روح سے پیدا ہوتی ہے اور زکوٰۃ دینے والا خدا کی خوشنودی اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین علی ؑ نے زکوٰۃ کو مسلمانوں کیلئے تقرب خدا کا ذریعہ قرار دیا ہے:

إِنَّ الزَّكَاةَ جُعِلَتْ مَعَ الصَّلَاةِ قُرْبَاناً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَمَنْ أَعْطَاهَا طَيِّبَ النَّفْسِ بِهَا فَإِنَّهَا تُجْعَلُ لَهُ كَفَّارَةً وَ مِنَ النَّارِ حِجَازاً وَ وِقَايَةً؛ فَلَا يُتْبِعَنَّهَا أَحَدٌ نَفْسَهُ وَ لَا يُكْثِرَنَّ عَلَيْهَا لَهَفَهُ، فَإِنَّ مَنْ أَعْطَاهَا غَيْرَ طَيِّبِ النَّفْسِ بِهَا يَرْجُو بِهَا مَا هُوَ أَفْضَلُ مِنْهَا، فَهُوَ جَاهِلٌ بِالسُّنَّةِ، مَغْبُونُ الْأَجْرِ، ضَالُّ الْعَمَلِ، طَوِيلُ النَّدَمِ. [19]

اس نے نماز کے ساتھ زکوٰۃ کو بھی مسلمانوں کو خدا کے قریب کرنے کا ذریعہ بنایا۔ جو شخص خوشی سے اور قناعت کے ساتھ زکوٰۃ دے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہے اور اسے جہنم کی آگ سے بھی محفوظ رکھے گا۔ لہٰذا زکوٰۃ دینے والے کو ہمیشہ اس کا خیال نہیں رکھنا چاہیے اور ادا کرنے پر پشیمان نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ جو شخص زکوٰۃ دیتا ہے لیکن نیک دل اور اطمینان قلب کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ سے اس امید کے ساتھ کہ اس کو اس سے بہتر کچھ ملے گا جو اس نے دیا ہے، ایسا شخص سنت نبوی سے ناواقف ہے اور اس نے ثواب میں کمی کی ہے۔ وہ اپنا غصہ کھو دے گا اور اپنے کیے پر پشیمان ہو گا۔

4 ۔ عذاب سے استثنیٰ

امیر المومنین علی ؑ نے فرمایا:

فَمَنْ أَعْطَاهَا طَیِّبَ النَّفْسِ بِهَا فَإِنَّهَا تُجْعَلُ لَهُ کَفَّارَةً وَ مِنَ النَّارحِجَازاً وَ وِقَایَةً

جو شخص اسے خوش دلی سے رضائے پروردگار کیلئے دے گا، یہ اس کے لیے کفارہ اور آگ سے حفاظت ہے [20]

اطمینان

غربت کا شکار شخص روزی کمانے کے بارے میں بے چینی اور خوف کا شکار ہوتا ہے، بنیادی ضروریات سے محرومی عام طور پر عبادت، خدمت اورالہی فرائض کے حصول کو مشکل بنا دیتی ہے ،ایسی صورت میں زکوٰۃ ان کی مادی ضروریات کو پورا کر کے ان سے پریشانیاں اور ان کی روحانی تکالیف کو دور کر کے انہیں اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی اور اظہار تشکر کی بنیاد فراہم کرتی ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:

فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ هذَا الْبَیْتِ الَّذی أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَ آمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ [21]

وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا، اور خوف اور عدم تحفظ سے محفوظ رکھا۔

6 ۔ صحت کی ضمانت

ہمارے ہاں احادیث موجود ہیں کہ زکات فطرہ دینے سے اس سال موت سے بچا جا سکتا ہے، جیسا کہ امام جعفر صادق ؑ کی ایک روایت میں ہے:

عَنْ مُعَتِّبٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ(ع) قَالَ: اذْهَبْ فَأَعْطِ عَنْ عِیَالِنَا الْفِطْرَةَ- وَ عَنِ الرَّقِیقِ وَ اجْمَعْهُمْ وَ لَا تَدَعْ مِنْهُمْ أَحَداً- فَإِنَّکَ إِنْ تَرَکْتَ مِنْهُمْ إِنْسَاناً تَخَوَّفْتُ عَلَیْهِ الْفَوْتَ- قُلْتُ وَ مَا الْفَوْتُ قَالَ الْمَوْتُ[22]

امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ میں اپنے اہل و عیال اور رشتہ داروں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کروں اور ان سب کا خیال رکھوں اور ان میں سے کسی کو بھی نہ بھولنا کیونکہ اگر تم ان میں سے کسی کو چھوڑ دو گے تو مجھے ان کی موت کا اندیشہ ہے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے پوچھا کہ فوت سےآپ کی کیا مراد ہے ؟ آپؑ نے فرمایا: موت۔

لہٰذا زکوٰت فطرہ کی ادائیگی کی حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ صحت وسلامتی کی ضمانت ہے۔

ب. آثار اقتصادی

1. دولت میں اضافہ

اگرچہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ظاہری طور پر مال میں کمی نظر آتی ہے، لیکن مادی تصورات کے برعکس یہ دولت میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے:

وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ [23]

اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اللہ اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ایک خطبہ میں فرمایا:

‌فَفَرَضَ اللَّهُ الْإِیمَانَ تَطْهِیراً مِنَ الشِّرک وَ الصَّلَاةَ تَنْزِیهاً عَنِ الْکِبْرِ وَ الزَّکَاةَ زِیَادَةً فِی الرِّزْقِ [24]

اللہ تعالیٰ نے ایمان کو واجب کیا تاکہ دلوں کو شرک سے پاک کرے اور زکوٰۃ کو بیماری سے پاک کرنے کے لیے فرض کیا ہے۔

کسی نے امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا ، خدا اس چیز کو لوٹاتا ہے جو ہم خرچ کرتے ہیں؟ تو میں جو کچھ بھی خرچ کرتا ہوں اسے کیوں نہیں لوٹایا جاتا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:

کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے ؟ اس نے جواب دیا: نہیں، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: پھر ایسا کیوں ہے؟ اس آدمی نے کہا میں نہیں جانتا۔ امام ؑ نے فرمایا: "اگر تم میں سے کوئی حلال مال کمائے اور اسے حلال طریقے سے خرچ کرے تو وہ ایک درہم بھی خرچ نہیں کرتاجب تک کہ خدا اسے اس کا اجر نہ دے دے[25]۔

دولت کی ایڈجسٹمنٹ

اسلامی معاشیات کے مقاصد میں سے ایک معاشرے میں دولت کا بہاؤ اور دولت مندوں کے ہاتھوں میں اس کا ارتکاز ہے۔ زکوٰۃ کے آٹھ استعمال بتا کر قرآن کریم نے مال کی تقسیم کے لیے اپنے عملی منصوبے کی ایک خوبصورت مثال ظاہر کی ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت واضح ہو جاتا ہے جب ہم جانتے ہیں کہ زکوٰۃ کی اشیاء میں سے ایک سونے اور چاندی کے سکّے ہیں، جو معیشت اور دولت میں اثرانداز ہوتے ہیں، اور اس کے علاوہ تجارتی سرمائے پر بھی زکوٰۃ ادا کرنا مستحب ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے:

وَ الَّذینَ یَکْنِزُونَ‏ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لا یُنْفِقُونَها فی‏ سَبیلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلیمٍ [26]

اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی نوید سنا دو ۔

غربت کا خاتمہ

بعض روایات میں زکوٰۃ کے وجوب کا مقصد غربت کا خاتمہ بتایا گیا ہے، یحیی بن سعید کہتے ہیں:

عمر بن عبدالعزیز نے مجھے زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے افریقہ بھیجا ، زکوٰۃ جمع کرنے کے بعد مجھے کوئی فقیر نہ ملا جسے میں زکات دے سکتا، اس لیے میں نے غلام خریدے اور انہیں آزاد کر دیا۔

غریبوں کی یہ کمی غربت کے خاتمے میں زکوٰۃ کے کردار کی نشاندہی کرتی ہے، امیر المومنین علی ؑ مالک اشتر کو اپنے ایک حکم نامہ میں بیت المال میں ضرورت مندوں کا حصہ یاد دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

خدارا خدارا، معاشرے کے ان نچلے اور محروم طبقوں کا خیال کریں جن کے پاس کچھ نہیں ، بے زمینوں، محتاجوں، مصیبت زدوں اور مصائب میں گھرے افراد کا خدا کیلئے خیال رکھیں ، اس محروم طبقے میں کچھ لوگ تنگ دست ہیں اورکچھ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، اس لیے خدا را ان کے حق کے محافظ بنیں جو اللہ نے اس طبقے کے لیے مقرر کیا ہے، بیت المال کا ایک حصہ اور اسلامی فتوحات کی زمینوں سے اناج کا ایک حصہ ہر شہر میں نچلے طبقے کے لیے مختص کرنا، اس لیے کہ اس میں دور کے مسلمانوں کے لیے بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا قریب کے مسلمانوں کا، اور اس کی نگہبانی کی ذمہ داری تم پر ہے [27]۔

یہ اقدام مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے، کیونکہ اسلامی معیشت کے مقاصد میں سے ایک مستقل طور پر محتاجوں حتیٰ کہ کفار کی روزی روٹی کا بندوبست کرنا ہے۔

امیر المومنین علیہ السلام کا گزر ایک لاچار بوڑھے کے پاس سے ہوا جو بھیک مانگ رہا تھا،مولا نے اس کا حال پوچھا توبتایا گیا وہ عیسائی ہے، امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا:

جب جوان تھا تو کام کیا ، اب جب کہ وہ بوڑھا اور بے بس ہے تو اس کے اخراجات بیت المال سے ادا کرو۔ [28]

زکوٰۃ بھی اسی طرح ہے، کیونکہ غریب، مساکین، مسافر اور قرض دار جو قرض ادا کرنے سے عاجز ہیں وہ زکوٰۃ کے استعمال کا حصہ ہیں اور قرآن نے اسے ایک ابدی اور دائمی پروگرام قرار دیا ہے۔

سرمایہ کے جمود کو روکنا

جن اشیاء پر زکوٰۃ واجب ہے ان میں سونے اور چاندی کے سکے بھی شامل ہیں جو کہ معصومین علیہم السلام کے زمانے میں رائج کرنسی تھے۔ فقہ کی کتابوں میں اس کی ایک وجہ خدا کا کلام ہے جس میں کہا گیا ہے:

وَ الَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لا یُنْفِقُونَها فِی سَبِیلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِیمٍ [29]

اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی بشارت سنا دو ۔

اس آیت میں خدا نے سونا چاندی سے ترک انفاق پر سزا کا وعدہ کیا ہے اور اس کا اطلاق صرف زکوٰۃ جیسے واجبات کو ترک کرنے پر ہوتا ہے [30]۔

ج۔ آثار نظامی

دفاعی قوت کو مضبوط کرنا

زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک کا عنوان«فی سَبِیل الّله» ذکر ہوا ہے، اس میں شک نہیں کہ جہاد «سبیل الله» کا واضح مصداق ہے، اگرچہ شیعہ علماء کے مطابق، زکات کا اطلاق تمام مسلمانوں کے مفادات پر ہوتا ہے، جیسے کہ مساجد اور پلوں کی تعمیر کے اخراجات [31] وغیرہ ۔

اہل سنت علماء نے «سبیل الله» کو صرف جہاد کے لیے سمجھا ہے اور زکوٰۃ کو عوامی مفادات پر خرچ کرنے کو جائز نہیں سمجھا ہے[32]۔ بہر صورت زکوٰۃ اسلامی معاشرے کی دفاعی قوت میں کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔

د۔ آثار اجتماعی

مخالفین کو اپنی طرف متوجہ کرنا

زکوٰۃ کے مستحقین میں سے ایک وہ ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے «وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ» کے طور پر کیا ہے۔ اور «وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ» ‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو زکوٰۃ کا حصہ لے کر رفتہ رفتہ اسلام قبول کرتے ہیں یا اگر مسلمان نہیں ہوتے تو دشمن کو پسپا کرنے میں یا دینی مقاصد کی تکمیل میں مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں [33]۔

امیروں سے حسد و ناراضگی دور کرنا

معاشرے میں ایک طبقہ جو اپنی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں، بعض اوقات ان لوگوں میں ناراضگی اور حسد ،خونی تصادم کا باعث بن جاتا ہے جس کی بہت سی تاریخی مثالیں موجود ہیں۔

زکوٰۃ کا حکم اس لئے ہے تاکہ ضرورت مندوں کو یہ احساس رہے کہ امیر ان کی مشکلات سے بے خبرنہیں ہیں، اور ان کی سرگرمیوں کا ایک حصہ ضرورت مندوں سے متعلق ہے ۔

اسی مناسبت سے جب قرآن مومنین کے لیے ولایت کے تعلق کو بیان کرتا ہے اور یہ کہہ کر انتہائی یکجہتی کا اعلان کرتا ہے کہ «بَعْضُهُمْ أَوْلِیاءُ بَعْضٍ» ، ان کی صفات میں یہ بیان کرتا ہے «وَ یُقیمُونَ الصَّلاةَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکاةَ» [34] وہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔شہید مطہری لکھتے ہیں:

نماز مخلوق اور خالق کے درمیان تعلق کی ایک مثال ہے، اور زکوٰۃ مسلمانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات کی ایک مثال ہے، جو اسلامی ہمدردی کے نتیجے میں ایک دوسرے کی حمایت، تعاون اور مدد کرتے ہیں۔ یہ آیت اور کچھ دوسری آیات جن میں عمومی مثبت محبت کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ نہ صرف دلی محبت بلکہ یہ مسلمانوں کے درمیان اچھے تعلقات کے تناظر میں مسلمانوں کے لیے ایک قسم کی وابستگی اور ذمہ داری کو ثابت کرتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے ایک مشہور حدیث میں فرمایا:

مومنین کی آپس میں محبت زندہ جسم کی طرح ہے، جب ایک حصہ میں درد ہوتا ہے تو دوسرے اعضاء بھی بے تاب ہوجاتے ہیں[35]۔

زکوٰۃ الفطر کا ایک اہم استعمال یہ ہے کہ اسے غریبوں پر خرچ کیا جائے، غریب وہ ہیں جو اپنے سالانہ اخراجات پورے نہیں کر سکتے۔


[1] ۔ احمد فیّومی؛ المصباح المنیر؛ ج 1-2، ص 254‌۔

[2] ۔ خلیل ابن احمد فراهیدی؛ العین؛ ج ‏5، ص 394‌۔

[3] ۔ مبارک بن‌اثیر؛ النهایه فی غریب الحدیث و الاثر؛ ج 2، ص 307‌۔

[4] ۔ حسین بن محمد راغب اصفهانی؛ مفردات الفاظ القرآن؛ ص380‌ ۔

[5] ۔ محمد‌حسن نجفی؛ جواهر الکلام فی شرح شرائع الإسلام؛ ج ‌15، ص 3‌۔

[6] ۔ توبه/ 103۔

[7] ۔ بقره/ 43۔

[8] ۔ محمد بن حسن حر عاملی؛ وسایل الشیعه‌؛ ج 9، ص 22۔

[9] ۔ مؤمنون‌/ 4‌۔

[10] ۔ ا عراف/ 156۔

[11] ۔ توبه/ 11۔

[12] ۔ محمد بن حسن حر عاملی؛ وسایل الشیعه‌؛ ج 1، ص 13؛ کافی ، ج ۲، کتاب الایمان والکفر، باب دعائم الاسلام، ح ۵۔

[13] ۔ محمد بن حسین شریف الرضی؛ نهج‌البلاغه؛ خطبه 199۔

[14] ۔ توبه/ 103۔

[15] ۔ محمد بن حسن حر عاملی؛ وسایل الشیعه؛ ج 9، ص 38۔

[16] ۔ معارج/ 19- 25۔

[17] ۔ محمد بن یعقوب کلینی؛ الکافی؛ ج 2، ص 19۔

[18] ۔ محمد بن حسین شریف الرضی؛ نهج‌البلاغه؛ خطبه 199۔

[19] ۔ ایضا ۔

[20]۔ ایضا۔

[21] ۔ قریش/ 3 و 4۔

[22] ۔ اصول کافی، ج4، ص174؛ (بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی، درس تفسیر، 9/7/1387)۔

[23] ۔ سبأ/ 39۔

[24] ۔ محمد بن علی صدوق؛ کتابُ من لایحضره الفقیه؛ ج ‌3، ص 568۔

[25] ۔ محمد بن یعقوب کلینی؛ الکافی؛ ج 2، ص 486۔

[26] ۔ توبه/34 ۔

[27] ۔ محمد بن حسین شریف الرضی؛ نهج‌البلاغه‌؛ ص583۔

[28] ۔ محمد بن حسن طوسی؛ تهذیب الاحکام؛ ج 6، ص 293۔

[29] ۔ توبه/24۔

[30] ۔ حسن بن یوسف حلّی؛ تذکره الفقهاء؛ ج 5، ص 118؛ محمد‌حسن نجفی؛ جواهر الکلام فی شرح شرائع الإسلام؛ ج 13، ص 312؛ سید ابوالقاسم خویی؛ موسوعة الامام الخویی؛ ج 23، ص 260 و 261۔

[31] ۔ محمد بن حسن طوسی؛ التّبیان فی تفسیر القرآن؛ ج 5، ص 245۔

[32] ۔ یوسف القرضاوی؛ فقه الزّکاه؛ ج 2، ص 656۔

[33] ۔ سید محمدحسین طباطبایی؛ المیزان فی تفسیر القرآن؛ ج 9، ص 311۔

[34] ۔ توبه/ 71۔

[35] ۔ مرتضی مطهری؛ مجموعه آثار؛ ج 3، ص 265۔

حضرت علی علیہ السلام کی وصیت

حضرت علی علیہ السلام کی وصیت

أُوصِيكُمْ بِخَمْسٍ لَوْ ضَرَبْتُمْ إِلَيْهَا آبَاطَ الْإِبِلِ لَكَانَتْ لِذَلِكَ أَهْلًا: لَا يَرْجُوَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا رَبَّهُ، وَ لَا يَخَافَنَّ إِلَّا ذَنْبَهُ، وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ، وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الشَّيْءَ أَنْ يَتَعَلَّمَهُ، وَ عَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ، فَإِنَّ الصَّبْرَ مِنَ الْإِيمَانِ كَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ، وَ لَا خَيْرَ فِي جَسَدٍ لَا رَأْسَ مَعَهُ، وَ لَا [خَيْرَ] فِي إِيمَانٍ لَا صَبْرَ مَعَهُ۔ (بحوالہ نہج البلاغہ: حکمت 82)

میں تمہیں پانچ باتوں کی نصیحت کرتا ہوں ۔ اگر انہیں سیکھنے کے لیے تمہیں طویل سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، تو یہ باتیں اس کے لائق ہیں:

1۔ تمہاری امیدیں صرف اپنے پروردگار پر ہوں۔

2۔ اپنے گناہوں کے سوا کسی اور سے نہ ڈرو،(یعنی خوف صرف اپنے گناہوں کا ہو)۔

3۔ اگر کسی چیز کے بارے میں نہیں جانتے تو یہ کہتے ہوئے مت شرمانا کہ" مجھے علم نہیں"۔

4۔ جو بات نہیں جانتے، اس کے سیکھنے میں جھجک محسوس نہ کرو۔

5۔ صبر کو لازم پکڑو، کیونکہ صبر ایمان کے لیے ایسے ہی ہے جیسے جسم کے لیے سر، اور بغیر صبر کے ایمان کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔

منتخب حدیثیں

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

خَيرُكُم خَيرُكُم لأَهلِهِ و َأَنَا خَيرُكُم لأَهلى ما أَكرَمَ النِّساءَ إلاّ كَريمٌ و َلا أَهانَهُنَّ إلاّ لَئيمٌ؛

تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں، کریم شخص عورت کی عزت کرتا ہے اور ذلیل شخص عورت کی توہین کرتا ہے ۔

(نهج الفصاحه ص472 ح 1520)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

الرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ فَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ بَعْلِهَا وَ وُلْدِهِ وَ هِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُم‏

مردفیملی کا سربراہ ہے اور اس سے فیملی کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی سربراہ ہے اورعورت سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔

(مجموعه ورام ج1 ، ص6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

خَيرُ الرِّجالِ مِن اُمَّتىَ الَّذينَ لا يَتَطاوَلُونَ عَلى أَهليهِم و َيَحِنُّونَ عَلَيهِم و َلا يَظلِمُونَهُم؛

میری امت کے بہترین آدمی وہ ہیں جو اپنے اہل و عیال پر سختی نہیں کرتے، ان کی توہین نہیں کرتے، ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور ان پر ظلم نہیں کرتے۔

(مكارم الأخلاق ص 216)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صادق عليه السلام نے فرمایا :

مَن حَسُنَ بِرُّهُ بِأَهلِ بَيتِهِ مُدَّ لَهُ فى عُمُرِهِ؛

جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بھلائی کرے گا اس کی عمر لمبی ہو جائے گی۔

(كافى(ط-الاسلامیه) ج2، ص105)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صادق عليه السلام نے فرمایا :

لَا يَزَالُ الْمُؤْمِنُ يُورِثُ أَهْلَ بَيْتِهِ الْعِلْمَ وَ الْأَدَبَ الصَّالِحَ حَتَّى يُدْخِلَهُمُ الْجَنَّةَ [جَمِيعاً]

ایک مومن ہمیشہ اپنی فیملی کو صحیح علم اورادب سے فائدہ پہنچاتا ہے تاکہ ان سب کو جنت میں پہنچا سکے۔

(مستدرك الوسايل و مستنبط المسایل ج12، ص201، ح13881)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

إذا أرادَ اللّه بِأهلِ بَيتٍ خَيرا فَقَّهَهُم فِى الدّينِ و َوَقَّرَ صَغيرُهُم كَبيرَهُم و َرَزَقَهُمُ الرِّفقَ فى مَعيشَتِهِم و َالقَصدَ فى نَفَقاتِهِم وَ بَصَّرَهُم عُيُوبَهُم فَيَتُوبُوا مِنها؛

اللہ تعالیٰ جب بھی کسی خاندان کے لیے بھلائی چاہتا ہے تو انہیں دین کا فہم عطا کردیتا ہے، چھوٹے اپنے بڑوں کا احترام کرتے ہیں، زندگی کے اخراجات میں اعتدال کا مظاہرہ کرتے ہیں ، اور انھیں ان کی خامیوں سے آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی اصلاح کر سکیں۔

(نهج الفصاحه ص181 ، ح 147)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

يا على، خِدمَةُ العِيالِ كَفّارَةٌ لِلكَبائِرِ و َتُطفى غَضَبَ الرَّبِّ، وَ مُهُورُ الحُورِ العينِ، و َتَزيدُ فِى الحَسَناتِ و َالدَّرَجاتِ؛

یا علی: اہل و عیال کی خدمت کبیرہ گناہوں کا کفارہ ہے اور غضب الٰہی کو بجھاتا ہے اور حر العین کا مہریہ ہے اور نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے۔

(جامع احادیث الشیعه(بروجردی) ج22 ، ص306)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

اَلمُؤمِنُ يَأكُلُ بِشَهوَةِ أَهلِهِ، اَلمُنافِقُ يَأكُلُ أَهلُهُ بِشَهوَتِهِ؛

مومن اپنے گھر والوں کی مرضی کے مطابق کھاتا ہے لیکن منافق اپنی خواہش اپنے گھر والوں پر مسلط کرتا ہے۔

(كافى(ط-الاسلامیه) ج4، ص12)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صادق عليه السلام نے فرمایا :

فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ-"قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ ناراً " كَيْفَ نَقِي أَهْلَنَا قَالَ تَأْمُرُونَهُمْ {بِما يُحِبُّ اللّه } وَ تَنْهَوْنَهُم ْ{عَمّا يَكرَهُ اللّه}.

خدا وند فرماتا ہے: "اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ"، پوچھا گیا : ہم اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے کیسے بچا سکتے ہیں؟ فرمایا: (جو اللہ کو پسند ہے) اس کا حکم دو ، اور (جو اللہ کو پسند نہیں ہے) اس سے منع کرو۔ )

(کافی(ط-الاسلامیه) ج5 ص 62)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

يا على: لا يَخدِمُ العِيالَ إلاّ صِدّيقٌ أَو شَهيدٌ أَو رَجُلٌ يُريدُ اللّه بِهِ خَيرَ الدُّنيا وَالخِرَةِ؛

اے علی،اپنے اہل و عیال کی خدمت نہیں کرتا سوائے صالح آدمی یا شہید یا ایسا شخص جس کے لیے خدا دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتا ہے۔

(جامع الاخبار (شعیری) ص103 - بحارالأنوار(بیروت) ج101، ص132)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

اَلمَرأَةُ الصّالِحَةُ أَحَدُ الكاسِبَينِ؛

ایک قابل عورت فیملی کی ترقی کے دو عوامل میں سے ایک ہے۔

(امالی(طوسی) ص614 - مستدرک الوسایل ومستنبط المسایل ج14،ص171)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام على عليه ‏السلام نے فرمایا :

حُسْنُ الْخُلْقِ فى ثَلاثٍ: اِجْتِنابُ الْمَحارِمِ وَ طَـلَبُ الْحَلالِ وَ التَّـوَسُّعُ عَلَى الْعِيالِ؛

خوش اخلاقی تین چیزوں پر مشتمل ہے: حرام سے اجتناب، حلال کمانا ، اور اپنے اہل و عیال کے لیے آرام و آسائش مہیا کرنا ۔

(مجموعه ورام ج1 ، ص90 - بحارالأنوار(ط-بیروت) ج 68، ص 394)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام على عليه ‏السلام نے فرمایا :

مَنْ ساءَ خُلْقُهُ مَلَّهُ اَهْلُهُ

جس کا اخلاق برا ہوتا ہے، اس کے گھر والے اس سے تنگ آ جاتے ہیں۔

(تحف العقول ص 214)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صادق علیه السلام نے فرمایا :

مَن حَسُنَ بِرُّهُ بِأَهلِهِ زادَ اللَّهُ في عُمرِهِ.

جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بھلائی کرے گا اللہ اس کی عمر میں اضافہ کرے گا۔

(کافی(ط-الاسلامیه) ج8 ، ص219)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام على عليه السلام نے فرمایا :

عَلِّمُوا صِبْيانَكُمُ الصَّلوةَ... .

اپنے بچوں کو نماز پڑھنا سکھائیں۔

(وسائل الشيعة، ج 3، ص 13)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

لاتَضْرِبُوا أَطْفالَكُمْ عَلى بُكآئِهِمْ ...

اپنے بچوں کو رونے پر نہ مارو۔

(وسائل الشيعة، ج 15، ص 171)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام على عليه السلام نے فرمایا :

ما مِنْ لَبَنٍ رُضِعَ بِهِ الصَّبِىُّ أَعْظَمَ بَرَكَةٍ عَلَيْهِ مِنْ لَبَنِ أُمّـِهِ.

بچے کو جو بھی دودھ پلایا جائے وہ اس کے لیے ماں کے دودھ سے زیادہ بابرکت نہیں ہو سکتا ہے۔

(وسائل الشيعة ، ج 15، ص 175 )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

مَنْ زَوَّجَ كَريمَتَهُ مِنْ فاسِقٍ فَقَدْ قَطَعَ رَحِمَهُ

جس نے اپنی بیٹی کی شادی کسی گنہگار آدمی سے کر دی تو گویا اس نے اپنی نسل کو قطع کردیا ۔

(مكارم الاخلاق، ص ۲۰۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام باقر عليه‌ السلام نے فرمایا :

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَاللّه‌ِ اَشَدُّكُمْ اِكْراما لِحَلائِـلِهِمْ

تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اپنی بیوی کی سب سے زیادہ عزت کرے۔

(وسائل الشيعه ، ج ۱۵، ص ۵۸ ، ح6 )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

اَ يُّمَا امْرَاَةٍ ماتَتْ وَ زَوْجُها عَنْها راضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ؛

ہر وہ عورت جو مر جائے اور اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں جائے گی ۔

(نهج الفصاحه، ح ۱۰۲۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

نَظَرُ الْوَلَدِ اِلى والِدَيْهِ حُبّا لَهُما عِبادَةٌ

اولاد کی ماں باپ کی طرف محبت بھری نگاہ عبادت ہے۔

(تحف العقول ، ص ۴۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

اِلا اِنَّ خَيْرَ الرِّجالِ مَنْ كان بَطى‌ءَ الْغَضَبِ سَريعَ الرِّضا وَ شَرَّ الرِّجالِمَنْ كانَ سَريعَ الْغَضَبِ بَطى‌ءَ الرِّضا

جان لو کہ بہترین لوگ وہ ہیں جو غصہ کرنے میں دیر اور راضی ہونے میں جلدی کرتے ہیں اور بدترین لوگ وہ ہیں جو غصے میں جلدی اور راضی ہونے میں دیر کرتے ہیں۔

(نهج الفصاحه ، ح ۴۶۹ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صادق عليه‌ السلام نے فرمایا:

بِرُّوا آباءَكُمْ يَبِرَّكُمْ اَبْناؤُكُمْ وَ عِفُّوا عَنْ نِساءِ النّاسِ تَعِفَّ نِساؤُكُمْ

اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، تاکہ تمہاری اولاد تمہارے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے، اور لوگوں کی عورتوں کے پاکدامنی کا خیال کرو، تاکہ تمہاری عورتیں بھی پاک دامن رہیں۔

(كافى ، ج ۵، ص ۵۵۴ ، ح5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

المسلم من سلم المسلمون من یده و لسانه۔

مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں

(دعائم‌الاسلام، ص ٢٦٨)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

شَرُّ الأَشیاءِ اَلمَرأَةُ السُّوءِ

انسان کے لیے سب سے بدترین چیز اس کی بد تمیز اور بری عورت ہے۔

(مستدرک، ج ١٤، ص ١٦٥)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صادق علیه‌السلام نے فرمایا :

اَیُّما اِمرَأَةٍ قالَت لِزَوجِها ما رَأیتُ مِنكَ خَیراً قَطُّ، فَقَد حَبِطَ عَملُها

جب بھی کوئی عورت اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ میں نے تم میں کوئی بھلائی نہیں دیکھی تو اس کی نیکیاں ضائع کر دی جاتی ہیں ۔

(مکارم‌الاخلاق، ص ٢١٥)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

خِیرُ ما یَكنِزُ المَرءُ، اَلمَرأةُ الصّالِحةُ، اذا نَظَرَ اِلیها سَرَّتهُ و اِذا أمَرَها اَطاعَتهُ و اِذا غابَ عنها حَفِظَتهُ.

مرد کے لیے بہترین خزانہ ایک نیک اور پرہیزگار عورت ہے جو جب بھی اس کی طرف دیکھے تو اسے خوش کرتی ہے، جب اس سے کچھ مانگے تو اس کی اطاعت کرتی ہے اور اس کی غیر موجودگی میں خود کی اور اس کی دوسری امانتوں کی حفاظت کرتی ہے۔

(نهج‌الفصاحه، ج ١، ص ٨٦)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اكرم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمایا :

لایَحِلُّ لِلمَرأةِ أَنْ تُكلِّفَ زَوجَها فَوقَ طاقَتِهِ وَ لاتَشكوهُ الی أَحَدٍ مِن خَلقِ الله عزَّوجَّل لاقَریبٍ ولابَعیدٍ.

عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر سے اسکی استطاعت سے زیادہ کچھ مانگے اور اللہ کی مخلوق میں سے کسی کے سامنے بھی اسکی شکایت کرے، خواہ وہ قریبی ہوں یا دور کے ۔

(مستدرک، ج ١٤، ص ٢٤٢)

بدعت

بدعت

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

من غشَّ أمَّتي فعليه لعنةُ اللهِ والملائكةِ والنَّاسِ أجمعين ، قيل يا رسولَ اللهِ : وما غِشُّ أمَّتِك ؟ قال أن يبتدِعَ بِدعةً يحمِلُ النَّاسَ عليها
جو میری امت کو دھوکہ دے خدا کی اس پر لعنت ہو
پوچھا گیا:
امت کو دھوکہ دینے سے کیا مراد ہے ؟
فرمایا:
ایک بدعت ایجاد کرنا جس پر لوگ عمل کرنا شروع کر دیں۔

امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

ومَا أُحْدِثَتْ بِدْعَةٌ إِلَّا تُرِكَ بِهَا سُنَّةٌ - فَاتَّقُوا الْبِدَعَ والْزَمُوا الْمَهْيَعَ - إِنَّ عَوَازِمَ الأُمُورِ أَفْضَلُهَا - وإِنَّ مُحْدِثَاتِهَا شِرَارُهَا.

کوئی بدعت اس وقت تک ایجاد نہیں ہوتی (اور معاشرے میں نہیں پھیلتی )جب تک ایک سنت کو ترک نہ کر دیا جائے اور چھوڑ نہ دیا جائے۔لہٰذا بدعتوں سے ڈرو اور سیدھے راستہ پر قائم رہو کہ مستحکم ترین معاملات ہی بہتر ہوتے ہیں اور دین میں جدید ایجادات ہی بد ترین شے ہوتی ہے۔

إنَّ شَرَّ الناسِ عندَ اللّه ِ إمامٌ جائرٌ ضَلَّ و ضُلَّ بهِ، فَأماتَ سُنَّةً مأخوذَةً (مَعلومَةً)، و أحيا بِدعَةً مَتروكَةً .

خدا کے نزدیک بدترین انسان ظالم حکمران ہے جو خود گمراہ ہے اور دوسروں کی گمراھی کا سبب بنتا ہے ایک جاری اور معلوم سنت کو مار دیتا ہے اور ایک مردہ اور مجہول سنت کو زندہ کرتا ہے


بحوالہ

آثار الصادقین39/2
خطبہ /145
خطبه/164

حضرت امام  سجاد  علیہ السلام کی  حدیثیں

حضرت امام سجاد علیہ السلام کی حدیثیں

قالَ(عليه السلام): يَا ابْنَ آدَم، إنَّكَ لا تَزالُ بَخَيْر ما دامَ لَكَ واعِظٌ مِنْ نَفْسِكَ، وَما كانَتِ الْمُحاسَبَةُ مِنْ هَمِّكَ، وَما كانَ الْخَوْفُ لَكَ شِعاراً.

اے فرزند آدم! جب تک تم اپنے آپ کے نصیحت کرنے والے ہوگے اور تمہارا اہم و غم اپنامحاسبہ کرنا ہوگا اور تمہارا اشعار خوف و تقویٰ ہوگا تب تک خیر و عافیت میں رہو گے

قالَ(عليه السلام): طَلَبُ الْحَوائِجِ إلىَ النّاسِ مَذَلَّةٌ لِلْحَياةِ وَمَذْهَبَةٌ لِلْحَياءِ، وَاسْتِخْفافٌ بِالْوَقارِ وَهُوَ الْفَقْرُ الْحاضِرِ، وَقِلَّةُ طَلَبِ الْحَوائِجِ مِنَ النّاسِ هُوَ الْغِنَى الْحاضِر.

لوگوں سے اپنی حاجتوں کا طلب کرنا زندگی کی ذلت اور شرم و حیا کو ختم کر دیتی ہے اور انسان کا وقار جاتا رہتا ہے اور یہ موجود فقر و فاقہ ہے اور لوگوں نے اپنی ضرورتوں کا کم طلب کرنا موجود ثروت مندی ہے

قالَ(عليه السلام): سادَةُ النّاسِ فى الدُّنْيا الأَسْخِياء، وَ سادَةُ الناسِ في الآخِرَةِ الاْتْقياءِ

دنیا میں لوگوں کے سردار سخاوتمند افراد ہیں اور آخرت میں لوگوں کے سردار پرہیز گار لوگ ہیں

قالَ(عليه السلام): إنْ شَتَمَكَ رَجُلٌ عَنْ يَمينِكَ، ثُمَّ تَحَوَّلَ إلى يَسارِكَ فَاعْتَذَرَ إلَيْكَ فَاقْبَلْ مِنْهُ

اگر کوئی تمہارے داہنی طرف رخ کرکے گالیاں دے رہا ہو اور پھر بائیں طرف آکر عذر خواہی کرے تو تم اس کا عذر قبول کرلو اور اسے معاف کردو

قالَ(عليه السلام): إنَّ دينَ اللّهِ لايُصابُ بِالْعُقُولِ النّاقِصَةِ، وَالاْراءِ الْباطِلَةِ، وَالْمَقاييسِ الْفاسِدَةِ، وَلايُصابُ إلاّ بِالتَّسْليمِ، فَمَنْ ـ سَلَّمَ لَنا سَلِمَ، ومَنِ اهْتَدى بِنا هُدِىَ، وَمَنْ دانَ بِالْقِياسِ وَالرَّأْىِ هَلَكَ

خدا کا دین ناقص عقلوں، باطل را یوں، فاسد قیاسوں کے ذریعہ نہیں حاصل کیاجاسکتا صرف سر تسلیم خم کرکے ہی حاصل ہوسکتا ہے لہٰذا جو ہمارے سامنے تسلیم ہے اور ہماری ہدایتوں پر عمل کرے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جو قیاس اور رائے کا معتقد ہے وہ ہلاک ہوجائے گا

قالَ(عليه السلام): مِنْ سَعادَةِ الْمَرْءِ أنْ يَكُونَ مَتْجَرُهُ فى بِلادِهِ، وَيَكُونَ خُلَطاؤُهُ صالِحينَ، وَتَكُونَ لَهُ أوْلادٌ يَسْتَعينُ بِهِمْ

سعادتمند ہے وہ انسان جس کا کاروبار اس کے شہر میں ہو دوست صالح ہوں اور اس کی اولاد اس کے کام آتی ہو

قالَ(عليه السلام): آياتُ الْقُرْآنِ خَزائِنُ الْعِلْمِ، كُلَّما فُتِحَتْ خَزانَةٌ، فَيَنْبَغى لَكَ أنْ تَنْظُرَ ما فيها.

قرآن کی آیتیں علم کا خزانہ ہیں جب بھی کوئی خزانہ کھلے تو لازم ہے کہ دیکھو اس کے اندر کیا کیا ہے

قال(عليه السلام): يا مَعْشَرَ مَنْ لَمْ يَحِجَّ اسْتَبْشَرُوا بِالْحاجِّ إذا قَدِمُوا فَصافِحُوهُمْ وَعَظِّمُوهُمْ، فَإنَّ ذلِكَ يَجِبُ عَلَيْكُمْ تُشارِكُوهُمْ فى الاْجْرِ.

اے وہ لوگو! کہ جنھوں نے حج نہیں کیا ہے تمہیں حج سے واپس آنے والے حاجیوں کی بشارت ہو ان سے مصافحہ کرو اور ان کی تعظیم و تکریم کرو یہ تمہارے اوپر لازم ہے اس طرح تم ان کے اجر و ثواب میں شریک ہوجاوگے

قالَ(عليه السلام): مُجالَسَةُ الصَّالِحيِنَ داعِيَةٌ إلى الصَّلاحِ، وَ أَدَبُ الْعُلَماءِ زِيادَةٌ فِى الْعَقْلِ.

نیکو کاروں کی ہم نشینی نیکی کی دعوت دیتی ہے اور علماءکے ساتھ مودبانہ ہم نشینی عقل و خرد کی زیادتی کا باعث ہے

قالَ(عليه السلام): إنَّ لِسانَ ابْنَ آدَم يَشْرُفُ عَلى جَميعِ جَوارِحِهِ كُلَّ صَباح فَيَقُولُ: كَيْفَ أصْبَحْتُمْ؟ فَيَقُولُونَ: بِخَيْر إنْ تَرَكْتَنا، إنَّما نُثابُ وَ نُعاقَبُ بِكَ

فرزند آدمی کی زبان روزآنہ تمام اعضاءبدن سے احوال پرسی کرتی ہے اور کہتی ہے تم سب کیسے ہو؟ وہ سب کہتے ہیں اگر تم نے ہمیں آزاد رکھا ہو ہم سب خیریت سے ہیں کیونکہ ہمارا ثواب و عقاب تجھ سے وابستہ ہے

قالَ(عليه السلام): لَوْ يَعْلَمُ النّاسُ ما فِى طَلَبِ الْعِلْمِ لَطَلَبُوهُ وَ لَوْبِسَفْكِ الْمُهَجِ وَ خَوْضِ اللُّجَجِ

اگر لوگوں کو حصول علم کے اندر کیا کیا خوبیاں ہیں معلوم ہوجائیں تو وہ علم ضرور حاصل کرتے چاہے انہیں اپنا جون جگہ بہانا پڑتا یا بھیانک موجوں کی تہوں میں غوطہ لگانا پڑتا

قالَ(عليه السلام): إنَّ أفْضَلَ الْجِهادِ عِفَّةُ الْبَطْنِ وَالْفَرْجِ

سب سے بہترین جہاد،شکم اور شرمگاہ کی عفت اور اس کا تحفظ ہے

قالَ(عليه السلام): إيّاكَ وَمُصاحَبَةُ الْفاسِقِ، فَإنّهُ بائِعُكَ بِأكْلَة أَوْ أقَلّ مِنْ ذلِكَ وَإيّاكَ وَمُصاحَبَةُ الْقاطِعِ لِرَحِمِهِ فَإنّى وَجَدْتُهُ مَلْعُوناً فى كِتابِ اللّهِ.

فاسق کی ہمنشینی ہرگز اختیار نہ کرنا کہ وہ تمہیں ایک لقمہ یا اس سے بھی کم کے بدلے بیچ دے گا اور خبردار قاطع رحم کی بھی صحبت اختیار نہ کرنا میں نے اسے کتاب خدا (قرآن) میں لعنت شدہ پایا ہے

قالَ(عليه السلام): عَجَباً كُلّ الْعَجَبِ لِمَنْ عَمِلَ لِدارِ الْفَناءِ وَتَرَكَ دارَ الْبقاء.

بے حد تعجب ہوتا ہے اس شخص پر جو دار فانی کے لئے تو سر گرم ہے لیکن دار باقی کے لئے کچھ نہیں کرتا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام حسین علیہ السلام کی چالیس احادیث

1 ۔ خداوند عالم کی معرفت اوراسکی عبادت

اَيّهَا النّاسُ! إِنّ اللّهَ جَلّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلاّ لِيَعْرِفُوهُ، فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَا سِوَاهُ ۔

اے لوگو! خداوندعالم نےبندوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ اس کی معرفت حاصل کریں اور جب معرفت حاصل کرلیں تو اس کی عبادت کریں جب اس کے عبادت گذار ہوجائیں گےتو اس کے علاوہ اس کےغیر کی عبادت سےبےنیاز ہو جائیں گے ۔ (بحار الانوار، ج ۵ ص ۳۱۲ ح۱)

2۔ خداوندعالم کو پالینا

مَاذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَكَ وَ مَا الّذِى فَقَدَ مَنْ وَجَدَكَ۔

اے میرےپروردگار! جو تجھےنہیں پاسکااسے کیا ملا ،اورجس نے تجھے پالیا اس نے کیا کھویا ۔ (بحار الانوار، ج ۹۵ ص ۲۲۶ ح۳)

3۔ خداکی انسان‏ پر نظارت

عَمِيَتْ عَيْنٌ لاَ تَرَاكَ عَلَيْهَا رَقِيباً.

اندھی ہے وہ آنکھ جو تجھے نہ دیکھے جب کہ تو اس پر ناظر اور نگراں ہے۔(بحار الانوار، ج ۹۵ ص ۲۲۶ ح۳)

4۔ عبادت تجار، بندگان و آزادگان‏

إِنّ قَوْماً عَبَدُوا اللّهَ رَغْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ التّجّارِ وَ إِنّ قَوْمَاً عَبَدُوا اللّهَ رَهْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الْعَبِيدِ وَ إِنّ قَوْمَاً عَبَدُوا اللّهَ شُكْراً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الاَحْرَارِ وَ هِىَ اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ.

ایک جماعت خدا کی عبادت لالچ میں کرتی ہےیہ تاجروں کی عبادت ہے ایک جماعت خدا کی عبادت خوف کی وجہ سے کرتی ہےیہ غلاموں کی عبادت ہے ایک جماعت خدا کا شکر بجالانے کے لیے اس کی عبادت کرتی ہے یہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے ۔ (تحف العقول، ص ۲۷۹ ح۴)

5۔ خداکی سچی عبادت کااجر و ثواب

مَنْ عَبَدَ اللّهَ حَقّ عِبَادَتِهِ آتاهُ اللّهُ فَوْقَ اَمَانِيهِ وَ كِفَايَتِهِ .

جو خدا کی سچی عبادت کرتا ہے خدا اس کی امید سے زیادہ اجرو ثواب دیتا ہے ۔(بحار الانوار، ج ۶۸ ص ۱۸۴ ح۴۴)

6 ۔ گھاٹا اٹھانے والا

لَقَدْ خَابَ مَنْ رَضِىَ دُونَكَ بَدَلاً .

جو تیرے بدلے کسی اورپر راضی ہو جائے وہ گھاٹا اٹھانےوالوں میں سےہوگا ۔ (بحار الانوار، ج ۹۵ ص ۲۱۶ ح۳ )

7 ۔ خداوندعالم کی حمد و ثنا

مَا خَلَقَ اللّهُ مِنْ شَىْ‏ءٍ إِلا وَ لَهُ تَسْبِيحٌ يَحْمَدُ بِهِ رَبّهُ ۔

خداوندعالم نےاپنی ہر مخلوق کے لیےایک تسبیح قرار دی ہےجس سے وہ اپنےخالق کی حمد وثنا کرتاہے ۔( بحار الانوار، ج ۶۱ ص۲۹ح ۸)

8۔ خداسےدوستى انسان‏ کا سرمايہ ہے

خَسِرَتْ صَفْقَةُ عَبْدٍ لَمْ تَجْعَلْ لَهُ مِنْ حُبّكَ نَصِيباً ۔

اے میرے پروردگار! جسے تونے اپنی محبت سے محروم کردیا وہ گھاٹے میں ہے۔(بحار الانوار، ج ۹۵ ص ۲۲۶ ح۳ )

9 ۔ رحمت الہی

بُكَاءُ الْعُيُونِ وَ خَشْيَةُ الْقُلُوبِ رَحْمَةٌ مِنَ اللّهِ ۔

آنکھوں کارونااوردل کاخوفزدہ ہونارحمت الہی کی علامت ہے ۔(مستدرك الوسائل، ج ۱۱ ص ۲۴۵ ح۳۵)

10۔ اهل بيت (ع) سے محبت

إِنّ حُبّنَا لَتُسَاقِطُ الذّنُوبَ كَمَا تُسَاقِطُ الرّيحُ الْوَرَقَ ۔

ہم اهل بيت (ع) کی محبت گناہوں کو ایسےمٹادیتی ہےجیسےہوا سوکھے پتوں کو گرادیتی ہے۔ (حياة الامام الحسين، ج ۱ ص۱۵۶)

11۔ اهل بيت(ع)، ملائكه‏ کے استاد

اَىّ شَىْ‏ءٍ كُنْتُمْ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ اللّهُ عَزّوَجَلّ آدَمَ (ع)؟ قَالَ كُنّا اَشْبَاحَ نُورٍ نَدُورُ حَوْلَ عَرْشِ الرّحْمنِ فَنُعَلّمُ لِلْمَلاَئِكَةِ التّسْبِيحَ وَ التّهْلِيلَ وَ التّحْمِيدَ ۔

امام حسين (ع) سےدریافت کیا گیا کہ خداوندعالم کی ذریعہ جناب آدم کی تخلییق سے پہلےآپ کیا تھے؟ آپ نےفرمایا: ہم نور کی صورت میں عرش الہی کا طواف کرتے تھےاور ملائکہ کو تسبیح و تہلیل اور حمدوثنا کا طریقہ سکھاتے تھے ۔( بحار الانوار، ج ۵۷ ص ۳۱۱ ح۱)

12۔ اهل ‏بيت(ع) خداکے رازدار

نَحْنُ الّذِينَ عِنْدَنَا عِلْمُ الْكِتَابِ وَ بَيَانُ مَا فِيهِ وَ لَيْسَ عِنْدَ اَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ مَا عِنْدَنَا لاَِنّا اَهْلُ سِرّ اللّهِ.

ہم وہ لوگ ہیں جن کے پاس قرآن مجید کا علم اور ان سب چیزوں کی وضاحت ہے جو اس میں ہے اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ ہمارے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہے اس لیے کہ ہم خدا وند عالم کے رازدار ہیں ۔ (بحار الانوار، ج ۴۴ ص ۱۸۴ ح۱۱)

13۔ تمام مخلوق ہم اهل بيت(ع)کی اطاعت پر مامور ہے

وَاللّهِ مَا خَلَقَ اللّهُ شَيْئاً إِلا وَ قَدْ اَمَرَهُ بِالطّاعَةِ لَنَا ۔

خدا کی قسم خدا نے کسی بھی مخلوق کو پیدا نہیں کیا مگریہ کہ اسے ہم اہل بیت (ع) کی اطاعت کا حکم دیا ۔ (بحار الانوار، ج ۴۴ص ۱۸۱ ح۱)

14۔ اهل بيت (عليهم السلام) سے محبت

مَنْ اَحَبّنَا كَانَ مِنّا اَهْلَ الْبَيتِ ۔

جو شخص ہم اہل بیت (ع) سےمحبت كرےگاوه ہم میں سے ہوگا ۔(نزهة النّاظر و تنبيه الخاطر، ص ۸۵ ح۱۹)

15۔ غربت اور شیعوں کا مارا جانا

وَ اللّهِ الْبَلاَءُ وَ الْفَقْرُ وَ الْقَتْلُ اَسْرَعُ إِلَى مَنْ اَحَبّنَا مِنْ رَكْضِ الْبَرَاذِينِ، وَ مِنَ السّيْلِ إِلىَ صِمْرِهِ ۔

خداکی قسم بلا فقر وتنگدستی اورقتل ہمارے چاہنے والوں کی طرف تیزدوڑنے والے گھوڑوں اورسیلاب کے پانی سے بھی زیادہ تیز رفتار کے ساتھ آتے ہیں ۔(بحار الانوار، ج ۶۴ ص ۲۴۹ ح۸۵)

16۔ خيانت اورمكروفریب سے پرہیز

إِنّ شِيعَتَنَا مَنْ سَلِمَتْ قُلُوبُهمْ مِنْ كُلّ غِشّ وَغَلّ وَدَغَلٍ ۔

ہمارے شیعہ وہ ہیں جن کے دل ہر طرح کے مکروفریب سے پاک ہوں ۔ (بحار الانوار، ج ۶۵ ص ۱۵۶ ح۱۰)

17۔ امام حسين(ع) اورامام زمانہ (عج)

لَوْ اَدْرَكْتُهُ لَخَدَمْتُهُ اَيّامَ حَيَاتِى ۔

اگرمیں حضرت امام مهدى عج کےزمانے میں ہوتا تو پوری زندگی ان کی خدمت کرتا ۔ (عقد الدّرر، ص‏۱۶۰)

18۔ امام حسين(ع) مقتول اشک

اَنَا قَتِيلُ الْعَبْرَةِ،لا يَذْكُرُنِى مُؤْمِنٌ إِلا بَكَى۔

امام حسين (ع) نے فرمایا: میں وہ مقتول ہوں جسے رلا رلاکرقتل کیا گیا جو مومن بھی مجھے یاد کرتا ہے وہ مجھ پر گریہ ضرورکرتا ہے۔(كامل الزيارات، ص ۱۱۷ ح۶)

19 ۔ پاداش زائر امام حسين(ع)

مَنْ زَارَنِى بَعْدَ مَوْتِى زُرْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ لَوْ لَمْ يَكُنْ إِلا فِى النّارِ لاَخْرَجْتُهُ۔

امام حسين (ع) نےفرمایا: جو میری شہادت کےبعد میری زیارت کرے گا وہ اگر جہنمی ہو تو میں اسے جہنم سے نکال لوں گا۔ (المنتخب للطريحى، ص۶۹)

20۔ خوش ا‏خلاقى اورخاموشی

اَلْخُلْقُ الْحَسَنُ عِبَادَةٌ وَ الصّمْتُ زَيْنٌ۔

خوش اخلاقی عبادت ہےاور خاموش انسان کی زینت ہے۔(تاريخ اليعقوبى، ج ۲ ص۲۶۴)

21۔ صلہ رحم‏ سے موت میں تاخیراور روزی میں اضافہ

مَنْ سَرّهُ اَنْ يُنْسَاَ فِى اَجَلِهِ وَ يُزَادَ فِى رِزْقِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ ۔

جوچاہتا ہے كہ کی موت کو فراموش کردیا جائے اور اس کی روزی میں اضافہ ہو اسے چاہئے کہ صلہ رحم کرے۔ (بحار الانوار، ج ۷۱ ص ۹۱ ح۵)

22 ۔ خداکی بارگاہ میں اعمال کا پیش ہونا

إِنّ اَعْمَالَ هَذِهِ الاُمّةِ مَا مِنْ صَبَاحٍ إِلا وَ تُعْرَضُ عَلَى اللّهِ عَزّوَجَلّ ۔

امت کے اعمال روزانہ صبح کے وقّت خدا کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔( بحار الانوار، ج ۷۰ ص ۳۵۳ ح۵۴ )

23۔ لوگوں کی خوشی کے لیے خدا کو ناراض کرنا

مَنْ طَلَبَ رِضَى النّاسِ بِسَخَطِ اللّهِ وَكَلَهُ اللّهُ إِلىَ النّاسِ .

جو لوگوں کو راضی کرنے كے لئے خدا کو ناراض کرے خدا اسے لوگوں کے ہی حوالہ کردیتا ہے ۔ ( بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۲۶ ح۸)

24۔ طاقت رکھتے ہوئےمعاف کرنا

إِنّ اَعْفَى النّاسِ مَنْ عَفَا عَنْ قُدْرَةٍ ۔

سب سے بڑا معاف کرنے والا وہ ہے جو طاقت کے باوجود معاف کردیتا ہے ۔( بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۲۱ ح۴)

25۔ اہمیت کم کرنے والی گفتگو

لاَ تَقُولُوا بِاَلْسِنَتِكُمْ مَا يَنْقُصُ عَنْ قَدْرِكُمْ ۔

زبان سے ایسی بات نہ نکالو جوتمھاری اہمیت کم کردے۔(جلاء العيون، ج ۲ ص۲۰۵)

26۔ تنگ‏دستى، بيمارى اور موت

لَوْلاَ ثَلاَثَةٌ مَا وَضَعَ ابْنُ آدَمَ رَأسَهُ لِشَىْ‏ءٍ اَلْفَقْرُ وَ الْمَرَضُ وَ الْمَوتُ ۔

اگرتین چيزیں نہ ہوتیں تو انسان کسی کے سامنے سر نہ جھکاتا غریبی، بیماری اورموت ۔ (نزهة الناظر و تنبيه الخاطر، ص ۸۵ ح۴)

27۔ اپنے گناه سےغفلت

إِيّاك اَنْ تَكُونَ مِمّنْ يَخَافُ عَلَى الْعِبَادِ مِنْ ذُنُوبِهِمْ وَيَاْمَنُ الْعُقُوبَةَ مِنْ ذَنْبِهِ .

ہرگز ان لوگوں میں سےنہ ہوناجودوسروں کے گناہوں پر خوفزدہ اور اپنے گناہوں سے غافل ہوتے ہیں۔ (تحف العقول، ص۲۷۳ )

28۔ مؤمن‏ کی پریشانی کو دور کرنا

مَنْ نَفّسَ كُرْبَةَ مُؤْمِنٍ فَرّجَ اللّهُ عَنْهُ كُرَبَ الدّنيَا وَ الاخِرَةِ ۔

جو کسی مومن کی پریشانی دور کرے خداوند عالم اس کی دنیا وآخرت کی پریشانوں کو دور کردےگا۔(بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۲۲ ح۵)

29۔ عزّت کی موت اورذلّت‏ کی زندگی

مَوْتٌ فِى عِزّ خَيْرٌ مِنْ حَيَاةٍ فِى ذُلّ .

عزت کی موت ذلت کی زندگى سے بہتر ہے ۔(بحار الانوار، ج ۴۴ ص ۱۹۲ ح۴)

30۔ قول و عمل‏ میں ہماہنگی

إِنّ الْكَريِمَ إِذَا تَكَلّمَ بِكَلاَمٍ، يَنْبَغِى اَنْ يُصَدّقَهُ بِالْفِعْلِ ۔

باعزت انسان جب گفتگو کرتا ہے تو اس کاعمل اس کی زبان کی تصدیق کرتا ہے۔ (مستدرك الوسائل، ج ۷ ص ۱۹۳ ح۶)

31۔ حضرت على(ع) سے نفاق‏ کی نشانی ہے

مَا كُنّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللّهِ (ص) إِلا بِبُغْضِهِمْ عَلِيّاً وَ وُلْدَهُ

رسول اسلام (ص)کے دورحیات میں ہم منافقین کوحضرت علی (ع) اور ان کی اولاد کی دشمنی سے پہچانتے تھے ۔(عيون أخبار الرّضا، ج ۲ ص ۷۲ ص۳۰۵)

32۔ ہدیہ قبول کرنے کا اثر

مَنْ قَبِلَ عَطَاءَكَ، فَقَدْ اَعَانَكَ عَلَى الْكَرَمِ

جوتمہاری عطا کی ہوئی چیز کو قبول کرلے وہ نیکیوں پر تمہاری مدد لرنے والا ہے ۔(بحار الانوار، ج ۶۸ ص ۳۵۷ ح۲۱)

33۔ خوف خدا میں گریہ

اَلْبُكَاءُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ نَجَاةٌ مِنَ النّارِ ۔

خوف خدا میں گريه جهنّم سےنجات کا ذریعہ ہے۔ (مستدرك الوسائل، ج ۱۱ ص ۲۴۵ ح۳۵)

34۔ عقلمندی اور موت کے یقین کا اثر

لَوْ عَقَلَ النّاسُ وَ تَصَوّرُوا الْمَوْتَ لَخَرِبَتِ الدّنيَا

اگر لوگ عقلمند ہوتےاور موت کا یقین کرلیتے تو دنیا ویران دکھائی دیتی۔ (إحقاق الحق، ج ۱۱ ص۵۹۲)

35۔ گناہ بہتر ازمعذرت

رُبّ ذَنْبٍ اَحْسَنُ مِنَ الاِعْتِذَارِ مِنْهُ۔

بہت سے گناہ ہیں جومعذرت کرنے سے بہترہیں۔(بحار الانوار، ج ۵۷ ص ۱۲۸ ح۱۱)

36۔ غيبت، دوزخ‏ کے کتوں کی غذا ہے

كُفّ عَنِ الْغَيْبَةِ فَإِنّهَا إِدَامُ كِلابِ النّارِ ۔

غيبت سے بپرهيزكرویہ دوزخ کے کتوں کا کھانا ہے ۔(بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۱۷ ح۲)

37۔ نهى عن المنكر

لا يَنْبَغِى لِنَفْسٍ مُؤْمِنَةٍ تَرَى مَنْ يَعْصِى اللّهَ فَلا تُنْكِرُ عَلَيْهِ .

مومن کے لیے یہ مناسب نہیں ہےکہ وہ کسی کو خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھے اور اسے ناپسند کرتے ہوئے منع نہ کرے ۔(كنز العمّال، ج ۳ ص ۸۵ ح۵۶۱۴)

38۔ خدا کی نا فرمانی کا اثر

مَنْ حَاوَلَ اَمْراً بِمَعْصِيَةِ اللّهِ كَانَ اَفْوَتَ لِمَا يَرْجُوا وَ اَسْرَعَ لِمَا يَحْذَرُ.

جو خدا کی نافرمانی کی کوشش کرے اس سے وہ چیزیں دور ہوجائیں گی جنھیں وہ چاہتا ہے اور وہ چیزیں اس سے قریب ہو جاتی ہیں جن سے وہ نفرت کرتا ہے ۔(بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۲ ح۱۹)

39۔ خیر کثیر ہے

خَمْسٌ مَنْ لَمْ تَكُنْ فِيهِ لَمْ يَكُنْ فِيهِ كَثِيرُ مُسْتَمْتِعٍ: اَلْعَقْلُ، وَ الدّينُ وَ الاَدَبُ، وَ الْحَيَاءُ وَ حُسْنُ الْخُلْقِ ۔

جس میں پانچ چيزیں نہ ہوں اس میں کوئی خیر نہیں پایا جائے گا عقل، دين، ادب، حيا اور خوش‏ اخلاقی۔ (حياة الامام الحسين(ع)، ج ۱ ص۱۸۱)

40۔ حق کی پيروى اور كمال عقل‏

لا يَكْمُلُ الْعَقْلُ إِلا بِاتّبَاعِ الْحَقّ

عقل کی حق پیروی کے بغیركامل نہیں ہوتی ۔(أعلام الدين، ص۲۹۸)

علی علیہ السلام کے شیعہ کی سات نشانیاں

امام باقر علیہ السلام کی حدیث۔

إِنَّمَا شِیعَةُ عَلِیٍّ علیه السلام
امیر المومنین ع کے شیعوں کی علامات۔ [ساتھ نشانیاں ]
پہلی نشانی : الْمُتَبَاذِلُونَ فِی وَلَایَتِنَا ۔
ہمارے ولایت میں خرچ کرتے ہیں۔
ولایت کی راہ میں مال بھی خرچ کرتے ہیں۔ جان بھی خرچ کرتے ہیں۔

دوسری نشانی : الْمُتَحَابُّونَ فِی مَوَدَّتِنَا

ہماری مودت اور محبت میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
ہمیں ایک دوسرے سے محبت ہی کرنی چائیے ہمارے دشمن اور بہت ہیں۔

تیسری نشانی : الْمُتَزَاوِرُونَ لِإِحْیَاءِ أَمْرِنَا
ہمارے امر کو زندہ کرنے کےلیے ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں۔
✓ ہمارے معاشرے میں مومنین کی آپس میں زیارت متروک ہو چکی ہے۔

چوتھی نشانی : الَّذِینَ إِذَا غَضِبُوا لَمْ یَظْلِمُوا
جب انہیں غصہ آتا ہے تو اس وقت کسی پر بھی ظلم نہیں۔ کرتے۔
ان کی زندگی ظلم سے خالی ہوتی ہے۔

پانچویں نشانی : وَ إِذَا رَضُوا لَمْ یُسْرِفُوا
جب بھی خوش ہوتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے۔ اعتدال کا راستہ اپناتے ہیں۔


چھٹی نشانی : برَکَةٌ عَلَی مَنْ جَاوَرُوا
ہمسایوں کے لیے برکت کا باعث بنتا ہے۔ ہمسایوں کے ھر وقت دروازہ کھلا رکھتا ہے۔

ساتویں نشانی : سِلْمٌ لِمَنْ خَالَطُوا
جن کے ساتھ رفت و آمد رکھتا ہے ان کےکیے سکون اور آرامش کا باعث بنتا ہے۔

 گھر میں کبوتر رکھنا ؟

گھر میں کبوتر رکھنا ؟

کبوتر ایک حلال گوشت پرندہ ہے. [1] کبوتر ، پالنا ان سرگرمیوں میں سے ایک ہے جو مختلف اقوام میں بہت مقبول ہے اور انسانی فطرت اس سے ہم آہنگ ہے. لیکن دینی ابحاث میں ، کبوتر پالنے اور کبوتر بازی میں بہت فرق ہے ، اور ان کا حکم بھی متفاوت ہے ۔ کبوتر‌ بازی میں کوئی حرج نہیں اگر دوسروں کیلئے پریشانی کا باعث نہ ہو البتہ اچھا کام بھی نہیں ہے .[2]
روایات میں ذکر ہوا ہے کہ کبوتر پالنا مستحب ہے اور اس کے اثرات بھی ہیں.
یہاں ہم ایسی روایات کو ذکر کریں گے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے گھروں میں بھی کبوتر تھے۔

آئمه اطهار(علیہم السلام)کا کبوتر پالنا

1 ابو حمزه ثمالى کہتے ہیں : میرے پوتے کے چند کبوتر تھے میں نے غصے میں انہیں ذبح کر دیا. [کچھ عرصہ بعد] مکہ گیا قبل از طلوع آفتاب امام باقر(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا . جب سورج طلوع ہوا ، تو بہت سارے کبوتر وہاں دیکھے، سوچا کہ امام سے کبوتر پالنے کے مسائل پوچھوں گا اور لکھوں گا ابھی سوچ رہا تھا کہ میں نے تو کبوتروں کو ذبح کر دیا تھا اگر کبوتر پالنے میں خیر نہ ہوتا تو امام علیہ السلام کیوں پالتے، امام(ع) نے فرمایا: « تم نے سارے کبوتر ذبح کر کے اچھا کام نہیں کیا۔۔۔»۔ [3]
2 عبد الکریم بن صالح کہتا ہے : میں امام صادق(ع) کے پاس گیا ، دیکھا کہ تین سرخ کبوتر امام کے بستر پر بیٹھے ہیں اور اپنے فضلہ سے بستر کو خراب کر رہے ہیں ۔ میں نے عرض کی قربان جاؤں انہوں نے آپ کا بستر گندا کر دیا ہے ، امام علیہ السلام نے فرمایا :
«کعوئی مسئلہ نہیں ، بہتر ہے کہ گھر میں رہیں».[4]
3 محمّد بن کرامه کہتے ہیں: میں نے امام موسى بن جعفر(ع) کے گھر ایک جوڑا کبوتروں کا دیکھا جن کے پر سبز اور تھوڑے سرخ تھے ، امام ان کیلئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر رہے تھے. [5]
اس کے علاؤہ بھی کبوتر پالنے کی تاکید موجود ہے ۔
4 زید شحام نقل کرتے ہیں: امام صادق(ع) کے سامنے کبوتروں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: « گھروں میں کبوتر رکھا کرو، اچھا ہوتا ہے».[6]

گھروں میں کبوتر پالنے کے اثرات روایات میں ذکر ہوئے ہیں بطور نمونہ چند یہ ہیں

شیاطین گھر سے دور رہتے ہیں
امام صادق(ع) نے فرمایا: «کبوتر انبیاء کرام کے پرندوں میں سے ہیں جو وہ گھروں میں رکھتے تھے ، جس گھر میں کبوتر ہوں وہاں جن اہل خانہ کو نقصان نہیں پہنچاتے ؛ کیونکہ سفهاء جن گھر میں کبوتروں سے کھیلنے میں مصروف رہتے ہیں اور اہل خانہ کو تنگ نہیں کرتے».[7]
امام صادق(ع) سے ایک اور جگہ نقل ہوا ہے کبوتروں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے، شیاطین بھاگ جاتے ہیں .[8]

گھر کی حفاظت
امام صادق(ع) نے فرمایا:
«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ یَدْفَعُ بِالْحَمَامِ عَنْ هَدَّةِ الدَّار»؛[9]
خدا وند کبوتروں کے وسیلہ سے گھروں کو تباہ ہونے سے بچاتا ہے . منظور از «هَدَّةِ الدَّارِ» گھر کی تباہی کا معنی بھی اور گھر کے ضعیف افراد کو ضرر سے بچانا بھی ہے .[10]

رفع تنہائی
ایک شخص نے پیغمبر خدا (ص) سے تنہائی کے خوف کی
شکایت کی. پیغمبر(ص) نے اسے فرمایا:
«ایک جوڑا کبوتر لے لو ».[11]
امام صادق(ع) نے فرمایا:
«میرے ساتھ گھر میں کبوتر رکھو تاکہ میرے ہمدم بنیں» ۔[12]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
[1]. امام خمینی، توضیح المسائل (محشّی)، گردآورنده، بنی‌هاشمی خمینی، سید محمدحسین، ج 2، ص 594، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ هشتم، 1424ق.
[2]. برای اطلاعات بیشتر ر.ک: 12685؛ حکم کبوتر بازی
[3]. عبد الله بن بسطام، حسین بن بسطام، طبّ الأئمة(ع)‏، محقق: خرسان، محمد مهدى‏، ص 111، قم‏، دار الشریف الرضی‏، چاپ دوم‏، 1411ق‏.
[4]. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق، غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 6، ص 548، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ چهارم، 1407ق.
[5]. طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص 130، قم، شریف رضی، چاپ چهارم، 1412ق.
[6]. الکافی، ج ‏6، ص 547؛ شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعة، ج 11، ص 517، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ق.
[7]. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 60، ص 93، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ق؛ شیخ حر عاملی، هدایة الأمة إلی أحکام الأئمة(ع)، ج 5، ص 127، مشهد، مجمع البحوث الإسلامیة، چاپ اول، 1414ق.
[8]. شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، محقق، غفاری، علی اکبر، ج 3، ص 350، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ق.
[9]. الکافی، ج ‏6، ص 547.
[10].بحار الأنوار، ج ‏62، ص 19.
[11]. مکارم الأخلاق، ص 129.
[12]. الکافی، ج ‏6، ص 548؛ فیض کاشانی، محمد محسن، الوافی، ج 20، ص 857، اصفهان، کتابخانه امام أمیر المؤمنین علی(ع)، چاپ اول، 1406ق.

اہل بیت

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

لا تَدْعُوا الْعَمَلَ الصّالِحَ وَ الاِْجْتِهادَ فِى الْعِبادَةِ إِتِّكالاً عَلى حُبِّ آلِ مُحَمَّد(عليهم السلام) وَ لا تَدْعُوا حُبَّ آلِ مُحَمَّد(عليهم السلام)لاَِمْرِهِمْ إِتِّكالاً عَلَى الْعِبادَةِ فَإِنَّهُ لا يُقْبَلُ أَحَدُهُما دُونَ الاْخَرِ


ایسا نا ہو کہ آل محمد علیہم السلام کی محبت کا دم بھرتے ہوئے نیک اعمال اور عبادت کرنے کی کوشش کو ترک کر دو
اور نا عبادت (کا غرور اور اس) پر بھروسہ کرتے ہوئے محبت آل محمد علیہم السلام کو چھوڑ دینا
کیونکہ
یہ دونوں تنہا (اور ایک دوسرے کے بغیر) قابل قبول نہیں ہوں گی

(بحار الانوار 347/75)

آگے بڑھو اب تم اللہ کی امان میں ہو

آگے بڑھو اب تم اللہ کی امان میں ہو


امام جعفر صادق علیہ السلام ایک قافلے میں شامل ہو کر سفر پر جا رہے تھے کہ راستے میں قافلے والوں کو اطلاع ملی کہ اس علاقے میں ڈاکووں کا راج ہے اور عین ممکن ہے کہ اس قافلے کو بھی غارت کریں ۔ سب لوگ ڈر گئے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : کیا ہوا ہے اور لوگ ڈرے ہوئے کیوں ہیں ؟ جواب دیا : علاقہ خطرناک ہے اور ہمارے پاس مال و متاع بھی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں ہمارا مال بھی آپ اپنے پاس رکھ لیں ہو سکتا ہے آپ کے احترام کی وجہ سے آپ سے نا لیں ۔

امام نے فرمایا : کیا پتہ ہو سکتا ہے وہ صرف میرا مال ہی لے جائیں ۔
لوگوں نے کہا : اب کیا کریں ؟

امام نے فرمایا : اس کے پاس امانت رکھ دیں جو اس مال کی حفاظت کرے اور اس کا خیال رکھے بلکہ اس میں اضافہ کرے اور ایک درھم کو (اجر وثواب کے لحاظ سے) دنیا سے بھی بڑا بنا دے ۔ جب تمہیں ضرورت پڑیں تو لوٹا دے

عرض کیا: وہ کون ہے ؟

جواب دیا : رب العالمین

عرض کیا : کیسے اللہ کے حوالے کریں ؟

فرمایا : صدقہ دے دو

عرض کیا : اس بیابان میں مستحق کیسے ملے گا ؟

فرمایا: ایک تہائی مال کے صدقہ کی نیت کر لیں (جب شہر پہنچنا ادا کر دینا ) تا کہ تمہارا سب مال و متاع محفوظ رہے

لوگوں نے نیت کر لی ۔امام نے فرمایا : فَاَنْتُم فِى امانِ اللهِ فَامْضَوْا ۔۔۔ پس اب اللہ کی امان میں ہو آگے بڑھو

قافلہ تھوڑا ہی آگے بڑھا تھا کہ ڈاکووں نے قافلے کو گھیر لیا ۔سب گھبرا گئے ۔امام نے فرمایا : کیوں ڈرتے ہو ؟ اب تم اللہ کی امان میں ہو ۔

ڈاکووں نے امام علیہ السلام کو دیکھا اور امام کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور ڈاکوں کے سردار نے کہا : رات میں نے خواب میں رسول خدا کو دیکھا ہے حکم دیا کہ آپ کی خدمت میں پہنچیں اور اس خطرناک علاقے سے آپ کو صحیح سالم گزاریں تا کہ ڈاکووں کا دوسرا کوئی گروہ حملہ نا کر دے۔

امام نے فرمایا : آپ کی ضرورت نہیں ہے (کہ ہماری حفاظت کریں)جس نے آپ سے بچایا ہے وہ دوسروں سے بھی بچائے گا ۔ قافلہ شہر پہنچا ۔ قافلے والوں نے نیت کے مطابق ایک تہائی مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا ۔ باقی سے تجارت کی اور دس گنا زیادہ برکت پیدا ہوئی ۔سب نے تعجب کیا اور کہا: اتنی برکت ؟

فرمایا: اب خدا سے معاملہ کرنے کی برکت سے آگاہ ہو گئے ؟ پس اس کام کو جاری رکھو

(عیون اخبارالرضا650/1)

مسجد جانے کی اہمیت

امام صادق عليه السلام نے فرمایا:

علَيكُم بِإتيانِ المَساجِدِ؛ فإنّها بُيوتُ اللّه ِ في الأرضِ، و مَن أتاها مُتَطَهِّرا طَهَّرَهُ اللّه ُ مِن ذُنوبِهِ و كُتِبَ مِن زُوّارِهِ فَأكثِرُوا فيها مِن الصَّلاةِ و الدُّعاءِ

تم پر ہے کہ تم مساجد میں جاو کیونکہ مساجد زمین پر خدا کے گھر ہیں۔جو بھی پاک و پاکیزہ ہو کر مسجد جائے خدا اس کے گناہ معاف کر دے گا اور ان افراد کو اپنے زائرین میں لکھے گا۔پس تم مساجد میں جاو اور زیادہ نماز ادا کرو اور دعا کرو۔

( الأمالي للصدوق : ۴۴۰/۵۸۴ )

عید فطر احادیث کی روشنی میں

عید فطر احادیث کی روشنی میں
1۔ عید کی شب بیداری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
"
مَن أحیا لَیلةَ العِیدِ ولَیلةَ النِّصفِ مِن‌شَعبانَ، لَم یمُتْ قَلبُهُ یومَ تَموتُ القُلوبُ‘‘
’’
جو بھی عید (فطر و ضحیٰ) اور نصف شعبان کی راتوں کو شب بیداری کرے اس کا دل اس دن مُردگی کا شکار نہیں ہوگا جب لوگوں کے دل مر جاتے ہیں‘‘۔
(ثواب الاعمال، ج1، ص102، ح2)
2
۔ عبادات مقبولہ کی عید
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
"
إنَّما هُوَ عِیدٌ لِمَن قَبِلَ اللَّهُ صِیامَهُ وشَكَرَ قِیامَهُ وكُلُّ یومٍ لا یُعصَى اللَّهُ فیهِ فهُوَ عیدٌ‘‘
’’
آج صرف ان لوگوں کی عید ہے جن کے روزوں کو اللہ نے قبول فرمایا ہو، اور اس کی شب زندہ داریوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور ہر وہ دن عید ہے جب اللہ کی نافرمانی انجام نہ پائے”۔
(نہج البلاغہ دشتی، حکمت 428)
3
۔ یہ تمہارے لئے عید ہے اور تو اس کے اہل ہو
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
"
ألا وإنَّ هذا الیومَ یومٌ جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُم عِیداً وجَعَلَكُم لَهُ أهلاً، فَاذكُرُوا اللَّهَ یذكُركُم وَادْعُوهُ یستَجِب لَكُم‘‘
’’
جان لو کہ اللہ نے آج کے دن کو تمہارے لئے عید قرار دیا اور تمہیں اس کا اہل قرار دیا، تو اللہ کو یاد کرو، تاکہ وہ بھی تمہیں یاد کرے اور کی بارگاہ میں دعا کرو تا کہ وہ استجابت فرمائے”۔
(من لایحضره الفقیه، ج1، ص517)
4
۔ زکوۃ فطرہ کا دن
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
"
مَن أدّى‌ زكاةَ الفِطرَةِ تَمَّمَ اللَّهُ لَهُ بها ما نَقَصَ مِن زكاةِ مالِهِ‘‘
’’
جو بھی زکوۃ فطرہ دیدے، خداوند متعال اس کی برکت سے اس کمی کو پورا کرتا ہے جو زکوۃ دینے کے بموجب اس کے مال میں واقع ہوئی ہے”۔
( وسائل الشیعہ، ج6، ص220، ح4)
5
۔ عید فطر کی دعا
امام علی بن الحسین السجاد علیہ السلام نے فرمایا:
"
اللَّهُمَّ إِنَّا نَتُوبُ إِلَيْكَ فِي يَوْمِ فِطْرِنَا الَّذِي جَعَلْتَهُ‌ لِلْمُؤْمِنِينَ‌ عِيداً وَ سُرُوراً وَلِأَهْلِ مِلَّتِكَ مَجْمَعاً وَ مُحْتَشَداً‘‘
’’
بار پروردگارا! ہم تیری طرف پلٹ آتے اپنے فطر کے دن، جسے تو نے عید اور شادمانی قرار دیا ہے، اور اپنی ملت (امت مسلمہ) کے لئے اجتماع اور باہمی تعاون کا دن”۔
(صحیفہ سجادیہ، دعاء نمبر 45)
6
۔ عید فطر انعامات وصول کرنے کا دن
"عن جابر عن أبي جعفر (عليه السلام) قال: قَالَ النَّبيُّ (صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ) إذا كانَ أَوَلَ يَوْمٍ مِنْ شَوَّالٍ نادَی مُنادٍ: أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ اغْدُوا إِلَی جَوَائِزِكُمْ ثُمَّ قَالَ يَا جَابِرُ جَوَائِزُ اللَّهِ لَيْسَتْ بِجَوَائِزِ هَؤُلَاءِ الْمُلُوكِ ثُمَّ قَالَ هُوَ يَوْمُ الْجَوَائِز‘‘
جابر امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
’’
جب شوال کی پہلی تاریخ (عید فطر) آ پہنچتی ہے تو منادی اللہ کی طرف سے ندا دیتا ہے کہ "اے مؤمنو! صبح کو اپنے انعامات لینے نکلے، (جو اللہ کی طرف سے روزہ دار مؤمنین کے لئے فراہم کئے گئے ہیں)” اور پھر فرمایا: "اے جابر! اللہ کے انعامات ان دنیاوی بادشاہوں کے انعامات جیسے (مادی اور فانی) نہیں ہیں”! (بلکہ ہی عمدہ اور ناقابل بیان اور نہایت عظیم ہیں)! اور پھر فرمایا: اور پھر فرمایا: "آج انعامات وصول کرنے کا دن ہے”۔
(وسائل‌الشیعۃ، ج5، ص140)
7
۔ زکوۃ فطرہ روزے کی تکمیل
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"
إِنَّ مِنْ تَمَامِ اَلصَّوْمِ إِعْطَاءُ اَلزَّكَاةِ يَعْنِي اَلْفِطْرَةَ كَمَا أَنَّ اَلصَّلاَةَ عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ مِنْ تَمَامِ اَلصَّلاَةِ لِأَنَّهُ مَنْ صَامَ وَلَمْ يُؤَدِّ اَلزَّكَاةَ فَلاَ صَوْمَ لَهُ إِذَا تَرَكَهَا مُتَعَمِّداً وَلاَ صَلاَةَ لَهُ إِذَا تَرَكَ اَلصَّلاَةَ عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ‘‘
’’
روزے کی تکمیل زکوۃ فطرہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ پر صلوات بھیجنا نماز کی تکمیل ہے؛ کیونکہ جو روزہ رکھے اور زکوۃ فطرہ کی ادائیگی کو جان کر ترک کرے تو گویا کہ اس کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں ہے؛ جیسا کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ پر درود و سلام ترک کردے، تو اس کی نماز کا کوئی فائدہ نہیں ہے”۔
( وسائل الشیعہ، ج6، ص221)
8
۔ سیاسی، سماجی اور انفرادی عبادات کا دن
امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا:
"
انّما جُعِلَ یَوْمُ الفِطْر العیدُ، لِیكُونَ لِلمُسلِمینَ مُجْتمعاً یَجْتَمِعُونَ فیه و یَبْرُزُونَ لِلّهِ عزّوجلّ فَیُمجّدونَهُ عَلى‌ ما مَنَّ عَلیهم، فَیَكُونُ یَومَ عیدٍ ویَومَ اجتماعٍ وَ یَوْمَ زكاةٍ وَ یَوْمَ رَغْبةٍ و یَوْمَ تَضَرُّعٍ وَلأَنَّهُ اَوَّلُ یَوْمٍ مِنَ السَّنَةِ یَحِلُّ فِيهِ الاَكلُ وَالشُّرْبُ لاَنَّ اَوَّلَ شُهُورِ السَّنَةِ عِنْدَ اَهْلِ الْحَقِّ شَهْرُ رَمَضانَ فَأَحَبَّ اللّه ُ عَزَّوَجَلَّ اَنْ يَكُونَ لَهُمْ في ذلِكَ مَجْمَعٌ يَحْمِدُونَهُ فِيهِ وَيُقَدِّسُونَهُ‘‘
’’
فطر کے دن کو عید قرار دیا گیا تا کہ مسلمانوں کے لئے اجتماع کا دن ہو جس میں وہ اجتماع کرتے ہیں اور اللہ کے سامنے نمایاں ہوتے ہیں اور اس کی تمجید کریں ان احسانات پر جن سے اللہ نے انہیں نوازا ہے؛ تو یہ عید کا دن ہے، اور اجتماع کا دن ہے، اور زکوۃ کا دن ہے اور (اللہ اور اس کی بیان کردہ نیکیوں کی طرف) رغبت کا دن ہے، اور درگاہ رب کریم میں گڑگڑانے کا دن ہے؛ اور اس لئے کہ یہ دن پہلا دن ہے جب کھانا پینا جائز ہوجاتا ہے، کیونکہ اہل حق کے ہاں سال کا پہلا مہینہ رمضان ہے، پس اللہ دوست رکھتا ہے کہ مسلمان اس دن کو اجتماع منعقد کریں، اور اس دن اس کی حمد و ثناء کریں اور اس کی تقدیس کریں”۔
(عیون اخبار الرضا علیہ السلام، ج1، ص122، من لایحضره الفقیہ، ج1، ص522، وسائل الشیعۃ، ج‌7، ص‌481، ح‌4)
9
۔ تکبیر و تکریم کا دن
امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا:
"
فَإِنْ قَالَ (قائلٌ) فَلِمَ جُعِلَ التَّكْبِيرُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْهُ فِي غَيْرِهَا مِنَ الصَّلَاةِ قِيلَ لِأَّنَّ التَّكْبِيرَ إِنَّمَا هُوَ تَكْبِيرٌ لِلَّهِ وَ تَمْجِيدٌ عَلَى مَا هَدَى وَ عَافَى‘‘
’’
اگر کسی کہنے والے نے کہا کہ عید کے دن تکبیریں دوسرے دنوں کی نسبت کیوں زیادہ قرار دی گئی ہیں تو کہا جائے گا کہ تکبیر، بےشک اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور تعظیم وتکریم ہے اس کی ہدایتوں اور نعمتوں پر”۔
(عیون اخبار الرضا علیہ السلام، ج1، ص122 ، من لایحضره الفقیہ، ج1، ص522،وسائل الشیعۃ، ج‌7، ص‌481، ح‌4)

تربیت اولاد ، تعلیمات اہل بیت کی روشنی میں




تربیت اولاد ، تعلیمات اہل بیت کی روشنی میں



اسد عباس اسدی

ہرانسان کی زندگی کا ایک اہم مسئلہ بچوں کی تربیت اور ان کو ادب سکھانا ہوتا ہے اور یہ بچوں کا حق ہوتا ہے کہ جو والدین کو ادا کرنا ہوتا ہے ۔ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں اس موضوع کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے ۔ امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : جاء رجل الی النبی فقال : یا رسول اللہ ما حق ابنی ھذا قال : تحسن اسمہ و ادبہ ، وضعہ موضعا حسنا ۔ایک شخص اپنے بچے کا ہاتھ پکڑ کر رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ میرے بچے کا مجھ پر کیا حق ہے ؟تو پیغمبراکرم نے فرمایا:بچے کا اچھا نام رکھو ، اچھی تربیت کرو اور بچوں کو نیک ماحول مہیا کرو ۔

بچوں کی تربیت کا اہتمام

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : وتجب للولد علی والدہ ثلاث خصال : اختیارہ لوالدتہ و تحسن اسمہ و المباغۃ جی تادیبہ ۔

تین چیزیں والدین پر بچوں کا حق ہیں، 1 اچھا مربی, 2 اچھا نام رکھیں, 3 اوران کی تربیت کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنا۔

پیغمبراکرم فرماتے ہیں : لان یودب احدکم ولدہ خیر لہ من ان یتصدق بنصف صاع کل یوم ۔

اکر آپ میں سے ہر ایک اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرے تو یہ خدا کی راہ میں گندم اور جو کا صدقہ دینے سے بہتر ہے ۔

ایوب بن موسی پیغمبر خدا سے روایت کرتے ہیں : ما نحل والد ولدا نحلا افضل من ادب حسن

والدین کی طرف سے بچوں کے لئے نیک ادب اور اچھی تربیت سے بڑھ کرکوئی ہدیہ نہیں ہے

امام علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسین علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: والادب خیر میراث

ادب بہترین میراث ہے ( والدین کی طرف سے بچوں کے لئے )

انسان کے کمال میں تربیت کا اثر

حضرت علی علیہ السلام ، پیغمبراکرم سے نقل کرتے ہیں: یعرف المؤ من منزلتہ عنـد ربـہ بأن یربى ولدا لہ كافیا قبل الموت

خدا کی نگاہ میں مومن کی قدر و منزلت بچوں کی اچھی تربیت کرنے میں ہے تاکہ مرنے سے پہلے وہ بے فکر ہو جائے

تربیت کرنے کا مناسب ترین وقت

بچپن اورنوجوانی تربیت کے لئے مناسب ترین وقت ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کو اچھا اخلاق اور آداب اسلامی سکھائیں کیونکہ اس ٹائیم میں بچہ صرف اپنے ماں باپ اور گھر کے ماحول سے واقف ہوتا ہے یعنی اس کے کان اور آنکھیں بندھی ہوئی ہیں آپ جیسے چاہیں اس کی روحی و فکری تربیت کر سکتے ہیں اس وقت میں بچے کی روح انتہائی حساس ہوتی ہے یعنی ایک کیمرے کی مانند جو اسے دکھاتے جائیں گے وہ فلم بناتا جائے گا پھر بتدریج اس کو بڑھاتا جائے گا اگر اس دوران والدین بچے کی تربیت میں سستی کریں اور خود بچوں کے لیے نمونہ عمل نہ بنیں تو صرف روک ٹوک پر اکتفاء کریں تو بچے بجائے اچھا اثر لینے کے برا اثر لیں گے گھر سرے باہر برے اخلاق کا مظاہرہ کریں گے ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کووصیت فرماتے ہیں: وانما قلب الحدث کالارض الخالیہ ما القی فیھا من شی قبلتہ فبادرتک بالادب قبل ان یقسمو قلبک ویشتغل لبک

بےشک نوجوان کا دل خالی زمین کی طرح ہے جو آمادہ ہے کہ اس میں بیج بویا جائے پس اس میں اپنی تربیت کا بیج بوئیں قبل اس کے کہ زمین سخت ہو جائے اور اس کا ذہن دوسری چیزوں میں مشغول ہو جائے

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : یا بنی ان تادیت صغیرا انتفعت بہ کبیرا و من عنی بالادب اھتم بہ ، و من اھتم بہ تکلف علمہ و من تکلف علمہ اشتد لہ طلبہ ومن اشتد لہ طلبہ ، ادرک بہ منفعتہ فاتخذہ ، عادتہ ، و ایاک و الکسل منہ ، و الطلب بغیرہ

اے میرے بیٹے : اگر بچپن میں ادب سیکھا تو جوانی میں اس سے فائدہ اٹھاو گے ۔ اے بیٹے : جو بھی ادب و معرفت چاہتا ہے اس کی تلاش بھی کرتا ہے

بچے کے کان میں آذان و اقامت کہنے کی اہمیت و فضیلت

ایک ایسا مستحب عمل کہ جس کی پیغمبر اسلام اور آئمہ اہل بیت نے سب سے زیادہ تاکید کی ہے وہ یہ ہے کہ ماں باپ کو چاہیے بچے کی ولادت کے بعد سب سے پہلے بچے کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں کیونکہ اسکے بچے پر روحانی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو بچے کو کئی قسم کی آفات و بلییات سے محفوظ رکھتے ہیں ۔

1 شیطان بچے سے دور رہتا ہے

سکونی امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا : من ولد لہ مولود فلیوذن فی اذنہ الیمنی باذان الصلوۃ ، ولیقم فی اذنہ الیسری فانھا عصمۃ من الشیطان الرجیم[1] ۔

جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اسکو چاہیے کہ بچے کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہے کیونکہ یہ عمل بچے کو شیطاں کے شر سے محفوط رکھتا ہے ۔

ایک اور مقام پر امام علی پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں : فان ذلک عصمۃ من الشیطان الرجیم و الافزاع لہ [2] ۔

بچے کے کان میں آذان و اقامت کہنا بچے کو شیطان سے محفوظ رکھتا ہے اور بچہ خواب میں بھی نہیں ڈرتا ۔

پیغمبر اسلام حضرت علی سے فرماتے ہیں : یا علی اذا ولد لک غلام او جاریۃ فاذن فی اذنہ الیمنی و اقم فی الیسری ، فانہ لا یضرہ الشیظان ابدا[3] ۔

اے علی ۔ اگر آپ کا بیٹا یا بیٹی پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں کیونکہ اس سے شیطان کبھی بھی بچے کو نقصان نہیں پہنچا پائے گا ۔

امام حسین پیغمبر اسلام سے نقل فرماتے ہیں: من ولد لہ مولود فاذن فی اذنہ الیمنی ، واقام فی اذنہ الیسری لم تضرہ ام الصبیان[4] ۔

جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کو چاہیے کہ بچے کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہے کیونکہ یہ عمل بچے کو ام الصبیان [5] سے محفوط رکھتا ہے ۔

2 پیغمبراسلام کا امام حسن و امام حسین کے کان میں آذان دینا

ابو رافع کہتا ہے ان النبی اذن فی اذن الحسن و الحسین حین ولدا و امر بہ[6] ۔

پیغمبر اسلام نے امام حسن اور امام حسین کے کان میں آذان کہی اور ایسا کرنے کا حکم فرمایا ۔

3 امام کاظم کا اپنے بیٹے امام رضا کے کان میں آذان کہنا

علی بن میثم اپنے باپ سے نقل کرتا ہے

قال سمعت امی تقول : سمعت نجمہ ام الرضا تقول فی حدیث : لما وضعت ابنی علیا دخل الی ابوہ موسی بن جعفر فناولتہ ایاہ فی خرفۃ بیضاء فاذن فی اذنہ الیمنی ، و اقام فی الیسری ، و دعا بماء الفرات فحنکہ بہ ، ثم ردہ الی فقال : خذیہ ؛ فانہ بقیۃ اللہ فی ارضہ[7] ۔

میں نے اپنی ماں سے سنا ہے وہ کہتی ہیں : امام رضا کی والدہ نجمہ کہتی ہیں کہ جب امام رضا پیدا ہوئے ابھی سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے کہ امام کاظم کمرے میں داخل ہوئے اور اپنے بیٹے کو ہاتھوں پہ اٹھایا دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی پحر آب فرات طلب کیا اور آب فرات کی گھٹی دی اور مجھے واپس دیتے ہوئے فرمایا بقیۃ اللہ زمین پر ہیں۔

بچے کا نام رکھنے کا حکم

جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا نام رکھا جاتا ہے اور یہ سنت ہے والدین کو چاہیے بچے کا اچھا نام انتخاب کریں کیونکہ ساری زندگی بچے کو اسی نام سے پکارا جانا ہے

سنت نام گذاری

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : لا یُولَد لَنا وَلَدٌ اِلّا سَمَّیناهُ مُحَمَّداً،فَاِذا مَضی سَبعَةُ اَیامٍ فَاِن شِئنا غَیِّرنا وَاِلّا تَرَکنَا [8]

ہم اپنے ہر بچے کا نام محمد رکھتے ہیں پھر ساتویں دن اگر نام تبدیل کرنا ہو تو تبدیل کرتے ہیں وگرنہ محمد ہی رہنے دیتے ہیں

اچھا نام اور حق اولاد

حق الولد علی الوالد ان یحسن اسمہ و یحسن ادبہ [9]

والد پر بچے کا حق ہے کہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : قال رسول اللہ ان اول ما ینحل احدکم ولدہ الاسم الحسن ، فلیحسن احدکم اسم ولدہ[10]

پیغمبر فرماتے ہیں بہترین ہدیہ جو آپ اپنے بچے کو دیتے ہیں وہ اچھا نام ہے پس اپنے بچوں کیلئے اچھے نام انتخاب کریں

موسی بن بکر حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں : اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن ، فلیحسن احدکم اسم ولدہ [11]

مرد کی پہلی نیکی اور احسان بچے پر یہ ہے اسکا اچھا سا نام منتخب کریں پس اپنے بچوں کے لئے بہتریں ناموں میں سے انتخاب کریں۔

قیامت کے دن اچھے نام کی تاثیر

وفی الخبر ان رجلا یؤتی فی قیامہ و اسمہ محمد ، فعقول اللہ لہ : ما استحییت ان عصیتنی و انت حبیبی ، و انا استحیی ان اعذبک و انت سمیی حبیبی [12]

روایت میں آیا ہے قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا جس کا نام محمد ہو گا اللہ تعالی کی طرف سے اسے خطاب کیا جائے گا کہ تجھے شرم نہ آئی میری معصیت کرتے ہوئے حالانکہ تو میرے حبیب کا ھم نام ہے ، مجھے شرم آتی ہے تجھے عذاب دیتے ہوئے کیونکہ تو میرے حبیب ۔ محمد مصطفی کا ہم نام ہے

امام صادق علیہ السلام اپنے اجداد سے نقل فرماتے ہیں : اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد : الا لیقم کل من اسمہ محمد ، فلیدخل الجنۃ لکرامۃ سمیہ محمد [13]

قیامت کے دن ایک ندا دی جائے گی کہ جس کا نام محمد ہے وہ محمد مصطفی کے ھم نام ہونے کے صدقے سیدھا جنت میں چلا جائے

روز قیامت انسانوں کو ان کے ناموں سے پکارا جائے گا

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: استحسنوا اسماءکم فانکم تدعون بھا یوم القیامۃ : قم یا فلاں بن فلاں الی نورک ، قم یا فلاں بن فلاں لا نور لک [14]

اپنے اچھے نام رکھو کیونکہ قیامت کے دن آپ کو اپنے ناموں سے پکارا جائے گا، کہ اے فلان بن فلاں اٹھو اور اپنے نور کی جانب چلو ۔۔۔

بیٹوں کیلئے بہترین نام

ابن عمر پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں : احب الاسماء الی اللہ عبداللہ و عبدالرحمن [15]

اللہ تعالی کے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں

ایک شخص نے اپنے بچے کے نام کے بارے میں امام صادق علیہ السلام سے مشورت کی تو امام نے اسے فرمایا : سمہ اسما من العبودیہ فقال : ای الاسماء ھو قال : عبد الرحمن [16]

خدا کی بندگی والے ناموں میں سے ایک رکھ لو تو اس نے پوچھا کون سا رکھوں تو امام نے فرمایا عبد الرحمن رکھ لو۔

پیغمبر اکرم سے روایت نقل ہے آپ نے فرمایا: من ولد لہ اربعۃ اولاد و لم یسمہ احدھم باسمی فقد جفانی [17]

جس کے چار بیٹے ہوں اور ایک کا نام بھی محمد نا ہو تو اس نے میرے حق میں جفا کی ہے ۔

ابو ہارون کہتا ہے میں مدینہ میں امام صادق علیہ السلام کا ہمنشین تھا کچھ دن امام علیہ السلام نے مجھے نہ دیکھا کچھ دن بعد جب میں امام کے پاس گیا تو امام نے فرمایا : لم ارک منذ ایام یا ابا ھارن فقلت : ولد لی غلام ۔ فقال : بارک اللہ لک ، فما سمیتہ ؟ قلت: سمیتہ محمدا۔ فأقبل بخدہ نحو الارض و ھو یقول: محمد ، محمد ، محمد حتی کان علصق خدہ بالارض ، ثم قال : بنفسی و بولدی و باھلی و بأبوی و باھل الارض کلھم جمیعا الفداء لرسول للہ ، لا تسبہ ولا تضربہ ولا تسیء الیہ ، و اعلم أنہ لیس فی الرض فیھا اسم مھمد الا و ھی تقدس کل یوم [18]

اے ابو ہارون کچھ دن سے آپ کو نہیں دیکھا میں نے عرض کی مولا خدا نے مجھے بیٹا دیا ہے ، فرمایا مبارک ہو بچے کا نام کیا رکھو گے ؟ میں نے عرض کی محمد مولا نے جیسے ہی محمد کا نام سنا تھوڑا سا جھکے اور فرمایا محمد ، محمد ، محمد پھر فرمایا میں میرے ماں باپ بیوی بچے بلکہ روئے زمین پر رہنے والے سب لوگ رسول اللہ پر قربان جائیں ، کبھی اپنے بچے کو گالی نہ دینا اور اس سے بد سلوکی بھی نہ کرنا

ابو امامہ روایت کرتے ہیں آپ (ص) نے فرمایا: من ولد لہ مولود ذکر فسمی محمدا حبا و تبرکا باسمی ، کان ھو و مولودہ فی الجنہ [19]

جس کسی کا بیٹا پیدا ہو اور وہ مجھ سے محبت اور تبرک کیلئے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بچہ دونوں جنت میں جائیں گے

جابر ،پیغمبراکرم سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا: فما من بیت فیہ اسم محمد الا اوسع اللہ علیھم الرزق ، فاذا سمیتموہ فل تضربوہ و لا تشتموہ [20]

جس گھر میں نام محمد ہو خداوند متعال اس گھر میں رزق کو بڑھا دیتا ہے پس اگر اپنے بچے کا نام محمد رکھا ہے تو اسے مارنا بھی نہیں اور اسےگالی بھی مت دینا ۔

نام محمد، خیروبرکت ہے

امام رضا فرماتے ہیں : البیت الذی فیہ محمد یصبح اھلہ بخیر و یمسون بخیر [21]

جس گھر میں محمد کا نام ہو اس گھر میں رہنے والوں پر خیر و برکت رہتی ہے

پیغمبراکرم نے فرمایا: اذاسمیتم الولد محمد فاکرموہ ، و أوسعوا لہ فی المجلس ، ولا تقبھوا لہ وجھا [22]

اگر اپنے بچے کا نام محمد رکھو تو اس کا احترام کرو اور اپنی محفلوں میں اسے جگہ دو اور اس کے کاموں کو نا پسند مت کرو

انس بن مالک نقل کرتے ہیں پیغمبر اکرم نے فرمایا : کیسے اپنے بچوں کا نام محمد رکھتے ہواور پھر انہیں نفریں کرتے ہو؟

اسحاق بن عمار کہتے ہیں میں امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی خداوند متعال نے مجھے بیٹا عطا کیا ہےتو امام علیہ السلام نے فرمایا : ألا سمیتہ محمد قلت : قد فعلت ۔ قال: فلا تضرب محمدا ولا تشتمہ جعلہ اللہ قرۃ عین لک فی حیاتک و خلف صدق بعدک [23]

کیا تم نے اپنے بچے کا نام محمد نہیں رکھا ؟ میں نے عرض کی مولا محمد ہی رکھا ہے تو مولا نے فرمایا محمد کو نہ مارنا اور نہ گالی دینا کیونکہ جب تک تم زندہ ہو خدا تیرے لیئے آنکھوں کا نور قرار دے گا اور تیرے مرنے کے بعد تیرا نیک و صادق جانشین قرار دے گا ۔

نام علی وآئمہ اہل بیت علیہم السلام

سلیمان جعفری کہتا ہے سمعت اباالحسن یقول: لا تدخل فقر بیتا فیہ اس محمد او أحمد أو علی أو الحسن أو الحسین أو جعفر أو طالب أو عبداللہ أو فاطمہ من النساء [24]

میں نے ابوالحسن سے سنا آپ نے فرمایا : جس گھر میں محمد،احمد،علی، حسن،حسین ،جعفر،طالب،عبداللہ،یا فاطمہ نام ہو اس گھر میں کبھی فقر و تنگدستی داخل نہیں ہو سکتی۔

پیغمبروں کے نام

پیغمبراکرم نے فرمایا : اذا کان اسم بعض أھل البیت اسم نبی لم تزل البرکۃ فیھم [25]

اگراہل خانہ میں سے کسی کا نام کسی نبی کے نام پر ہو تو ان میں خیر و برکت رہتی ہے ۔

اصبغ بن نباتہ امام علی سے اور امام علی رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ما من اھل بیت فیھم اسم نبی الا بعث اللہ عزوجل الیھم ملکا عقدسھم بالغداۃ والعشی [26]

جس گھر میں اہل خانہ میں سے کسی کا نام کسی نبی کے نام پر ہو گا تو خدا اس گھر پر ایک فرشتہ مقرر کر دے گا جو صبح و شام ان پر تقدیس کرے گا۔

ابو وہب جسمی پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں : تسموا بأسماء الأبیاء وأحب الأسماء الی اللہ عبداللہ و عبدالرحمن ۔۔۔ و أقبحھا حرب و مرۃ[27]

اپنے لئے پیغمبروں کے نام انتخاب کرو۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ نام عبداللہ و عبدالرحمن ہیں اور برے نام حرب و مرہ ہیں۔

فرعونوں اور بادشاہوں کے نام

عمر نقل کرتے ہیں کہ ہمسر پیغمبر اکرم جناب ام سلمی کے بھائی کا بیٹا پیدا ہوا تو اسکا نام ولید رکھا گیا جب پیغمبر اکرم کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا : سمیتموہ باسم فراعنتکم غیروا اسمہ ، فسموہ عبداللہ[28] ۔

بچے کا نام اپنے فرعونوں کے ناموں پہ رکھ دیا ہے اسکا نام چینج کرو اور عبداللہ رکھو

ابوھریرہ سے نقل ہے کہ اسی ماجرہ کے بارے میں رسول اللہ سے روایت نقل ہے آپ نے فرمایا : سمیتموہ بأسامی فراعنتکم لیکونن فی ھذہ الامۃ رجل یقال لہ الولید وھو شر علی ھذہ الأمۃ من فرعون علی قومہ[29] ۔

بچے کا نام اپنے فرعونوں کے ناموں پہ رکھ دیا ہے ، اگاہ ہو جاو اس امت میں ایک ایسا شخص آنے والا ہے جس کا نام ولید ہو گا اور اس کی برائیاں اور بدکرداریاں آپ کے فرعونوں سے کہیں زیادہ ہوں گی ۔

بچوں کے نام دشمنان اہل بیت پر رکھنے سے شیطان خوش ہوتا ہے

جابر روایت کرتا ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے ایک نوجوان سے فرمایا : مااسمک قال: محمد ۔ قال : بم تکنی قال : ابو جعفر : لقد احتظرت من الشیطان احتظارا شدیدا ۔ ان الشیطان اذا سمع منادیا ینادی : یامحمد او یا علی ذاب کما یذوب الرصاص حتی اذا سمع منادیا ینادی باسم عدو من اعدائنا ۔ اھتز و اختال [30] ۔

آپ کا نام کیا ہے ؟ کہا محمد ۔ فرمایا : آپ کی کنیت کیا ہے؟ کہا علی ۔ تو حضرت نے فرمایا : آپ نے اس کنیت سے اپنے کو شیاطین کے شر سے محفوظ کر لیا ہے ۔ جب شیطان سنتا ہے کہ محمد یا علی کا نام پکارا گیا ہے پریشان ہو جاتا ہے اور جب ہمارے دشمنوں کا نام پکارا جائے تو خوشحال ہو جاتا ہے ۔

پیغمبراکرم ناپسندیدہ ناموں کو تبدیل کرنے کا حکم فرماتے تھے

مفصلی نقل کرتا ہے بادشاہ روم کی طرف سے ایک مسیحی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو پیغمبر اکرم (ص) نے اس سے پوچھا ما اسمک فقلت: اسمی عبدالشمس ، فقال لی: بدل اسمک فأنی سمیتک عبدالوھاب[31]،

آپ کا کیا نام ہے ؟ عرض کی عبدالشمس تو آپ ص نے فرمایا : اپنا نام تبدیل کرو میں نے آپ کا نام عبدالوھاب رکھ دیا ہے۔

سھل بن سعد کہتا ہے کان رجل من اصحاب النبی اسمہ أسود ، فسماہ رسول اللہ أبیض [32]

پیغمبر کے ایک صحابی کا نام اسود (سیاہ) تھا تو آپ(ص) نے اسکا نام تبدیل کر کے ابیض (سفید) رکھ دیا ۔

عتبہ بن سلمی کہتے ہیں : کان النبی اذا أتاہ الرجل و لہ اسم لا یحبہ حولہ[33] ۔

اگر کوئی شخص پیغمبر کے پاس آتا اور آپ ص کو اس کا نام اچھا نہ لگتا تو آپ ص اس کا نام چینج کر دیتے ۔

حسین بن علوان امام صادق اور امام اپنے اجداد سے نقل فرماتے ہیں۔

ان رسول اللہ کان یغیر الاسماء القبیحہ فی الرجال و البلدان [34]

جن بچوں اور شہروں کے نام اچھے نہیں ہوتے تھے آپ (ص) انہیں چینج کر دیتےتھے ۔

شہداء کے نام اور یادیں زندہ رکھنا

ابن قداح امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے : قال جاء الرجل الی نبی فقال : ولد لی غلام فماذا أسمہ قال : أحب الاسماء الی حمزہ[35]

ایک شخص پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ میرا بیٹا ہوا ہے اس کا نام کیا رکھوں ؟ تو آپ ص نے فرمایا میرا پسندیدہ نام حمزہ ہے ۔

ختنہ کرنے کا بیان

ختنہ کرنا ایک ایسی سنت ہے جس کی تاکید پیغمبر اسلام اور تمام آئمہ نے فرمائی ہے ولادت کے ساتویں روز بچے کا ختنہ کرنا چاہیے ساتویں روز ختنہ کرنے میں بہت ساری حکمتیں پوشیدہ ہیں ۔ امام علی پیغمبر اسلام سے نقل کرتے ہیں : اختتنوا اولادکم یوم السابع فانہ اطھر و اسرع نباتا للحم و اروح للقلب [36]۔

اپنے بچوں کا ولادت کے ساتویں روز ختنہ کریں کیونکہ یہ عمل بچے کیلیے پاکیزہ تراور بچے کی جسمانی نشونما میں جلدی اور بچے کی روح کی تراوت کا سبب بنتا ہے ۔

علی علیہ السلام فرماتے ہیں : اختتنو اولادکم یوم السابع ، ولا یمنعکم حر و لا برد فانہ طھر للجسد[37] ۔

اپنے بچوں کا ولادت کے ساتویں روز ختنہ کریں اور کبھی بھی گرمی یا سردی آپ کو روکنے نہ پائے کیونکہ ختنہ جسم کی طھارت اور پاکیزگی ہے ۔

نومولود کا سر مونڈوانے کا حکم

ولادت کے ساتویں روز بچے کا سر منڈوانا سنت ہے مان باپ کو چاہیے ساتویں دن بچے کا سر منڈوائیں مرحوم شیخ حر عاملی صاحب وسائل الشیعہ نے 15 ویں جلد میں تقریبا تیس روایتیں ذکر کرتے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ساتویں روز بچے کا سر منڈوانا سنت موکد ہے ۔ امام صادق اپنے اجداد سے نقل کرتے ہیں : ان رسول اللہ امر بحلق شعر الصبی الذی یولد بہ المولود عن راسہ یوم سابعہ [38]۔

رسول اکرم نے دستور فرمایا کہ ولادت کے ساتویں روز بچے کا سر منڈوا دو ۔

علی بن جعفر کہتے ہیں میں نے اپنے بھائی امام موسی کاظم سے ساتویں دن سر منڈوانے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : اذا مضی سبعہ ایام فلیس علیہ حلق[39] ۔

اکر سات روز گزر جائیں تو پھر سر منڈوانے کا فائدہ نہیں ۔

بالوں کے برابر صدقہ دینا

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : وحلقت فاطمہ رووسھما – الحسن و الحسین – وتصدقت بوزن شعرھما فضۃ [40]۔

سیدہ فاطمہ نے اپنے دونوں بچوں – امام حسن و امام حسین – کے سر منڈوائے تو بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ دی۔

عقیقہ کرنے کا حکم

بچے کی ولادت کے ساتویں روز بچے کا سر منڈوانے کے بعد باپ خدا کی راہ میں جانور قربان کرے اور فقیروں میں اپنے دوستوں میں اور ھمسایوں میں تقسیم کرے ، اس سنت اسلامی کو عقیقہ کہتے ہیں ۔ اسلام میں عقیقہ کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اور یہ ایسا مستحب ہے کہ جو بچے کے بالغ ہونے تک باپ کے ذمہ ہے اور بالغ ہونے کے بعد خود بچے کے ذمہ باقی رہتا ہے اور یہ اتنی زیادہ تاکید ان حکمتوں کی وجہ سے ہے جو عقیقہ میں چھپی ہوئی ہیں ۔

1 بیمہ سلامتی

سمرہ ،پیغمبر اکرم سے نقل کرتا ہے ،آپ نے فرمایا : کل غلام رھینۃ بعقیقۃ[41] ۔

ہر بچہ عقیقہ سے بیمہ ہوتا ہے ۔

امام صادق رسول خدا سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا : کل مولود مرتھن بعقیقہ فکہ والداہ او ترکاہ [42] ۔

ہر مولود کی سلامتی اس کے عقیقہ کرنے میں ہے اب والدیں کے ذمہ ہے کہ وہ بچے کا عقیقہ کرتے ہیں یا نہیں ۔

2 عقیقہ روز ہفتم

امام صادق فرماتے ہیں : الغلام رھن بسابعۃ بکبش یسمی فیہ یعق عنہ [43] ۔

ھر بچے کی سلامتی جانور قربان کرنے کے ساتھہ جڑی ہے جو اس کی طرف سے عقیقہ کیا جاتا ہے ۔

پیغمبر اسلام فرماتے ہیں : اذا کان یوم سابعہ فاذبح فیہ کبشا [44] ۔

بچہ جب سات دن کا ہو جائے تو ایک کبش ذبح کریں

3 پیغمبر نے حسنین کا عقیقہ کیا

امام صادق فرماتے ہیں : سمی رسول اللہ حسنا و حسینا یوم سابعھما و شق من اسم الحسن و الحسین و عق عنھما شاۃ شاۃ [45] ۔

پیغمبر اسلام نے ساتویں روز حسن و حسین کا نام رکھا نام حسین حسن سے لیا گیا ہے اور ہر ایک کیلئے گوسفند عقیقہ کیا ۔

4 سیدہ فاطمہ نے حسنین کا عقیقہ کیا ۔

امام صادق فرماتے ہیں : عقت فاطمہ عن ابیھا صلوات اللہ علیھما و حلقت رووسھما فی الیوم السابع [46] ۔

فاطمہ الزہراء نے ساتویں روز اپنے دونوں بچوں کا عقیقہ کیا اور ان کے سر منڈوائے ۔

5 امام باقر کا اپنے بچوں کا عقیقہ کرنا

ولد لابی جعفر غلامان ، فامر زید بن علی ان یشتری لہ جزورین للعقیقہ [47]۔۔۔

امام باقر کے دو بچے ہوئے تو امام نے زید بن علی کو حکم دیا کہ دو اونٹ عقیقہ کے لیے لے آو ۔

6 امام حسن عسکری کا امام زمانہ کے لیے عقیقہ کرنا ۔

ابراھیم بن ادریس کہتا ہے وجہ الی مولای ابو محمد ۔۔۔ بکبشین و کتب : بسم اللہ الرحمن الرحیم عق ھین الکبشین عن مولاک و کل ھناک اللہ و اطعم اخوانک ففعلت[48] ۔۔۔۔۔ ،

میرے مولا امام حسن عسکری نے دو گوسفند میرے پاس بھیجے اور ساتھہ لکھہ بھیجا ، بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ دو گوسفند اپنے مولا امام زمان کے لیئے عقیقہ کرو ان کا گوشت کھاو اور اپنے بھائیوں کو بھی کھلاو تو میں نے ایسا ہی کیا ۔

7 بیٹے اور بیٹی کا عقیقہ ایک ہی ہے

پیغمبر اسلام فرماتے ہیں : العقیقۃ شاۃ من الغلام و الجاریۃ سواء [49] ۔

عقیقہ ایک گوسفند ہے اور اس میں بیٹی بیٹے کا کوئی فرق نہیں

8 عقیقہ یا اس کے برابر صدقہ دینا ۔

عبداللہ بن بکر کہتے ہیں کنت عند ابی عبداللہ فجاءہ رسول اللہ عمہ عبداللہ بن علی ، فقال: یقول لک عمک انا طلبنا العقیقہ فلم نجدھا ، فما تری نتصدق بثمنھا ؟ قال: لا ۔ ان اللہ یحب اطعام الطعام و اراقۃ الدماء [50] ۔

امام صادق کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ آپ علیہ السلام کے چچا کا قاصد آیا اور عرض کرنے لگا آپ کے چچا کہتے ہیں : میں عقیقہ کے لیے گوسفند ڈھونڈتا رہا ہوں لیکن نہیں ملا ، آپ کی کیا رائے ہے نقدی پیسے صدقہ کر دوں ؟ تو امام نے فرمایا ایسا نہ کرنا کیونکہ خدا اطعام اور خوں بھانے کو پسند کرتا ہے ۔

محمد بن مسلم کہتا ہے ولد لابی جعفر غلامان ، فامر زید بن علی ان یشتری لہ جزورین للعقیقۃ وکان رمن غلاء ۔ فاشتری لہ واحدۃ و عسرت علیہ الاخری ، فقال لابی جعفر و قد عسرت علی الاخری ، فاتصدق بثمنھا ؟ قال: لا ، اطلبھا فان عزوجل یحب اھراق الدماء و اطعام الطعام [51] ۔

امام باقر کے دو بیٹے ہوئے تو امام نے زید بن علی کو حکم فرمایا کہ عقیقہ کیلئے دو اونٹ لے آو ان دنوں روزحار زرا اطھا نہیں تھا زید بن علی صرف ایک ہی اونٹ خرید سکے ، امام سے عرض کرتا ہے دوسرا اونٹ خریدنا میرے لیے مشکل ہے کیا اونٹ کی قیمت صدقہ کرسکتا ہوں ؟ تو امام نے فرمایا کوشش کرو اونٹ خریدوکیونکہ خدا خون بھانے اور اطعام کرنے کو پسند کرتا ہے

بچے کا نام رکھنے کا حکم

جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا نام رکھا جاتا ہے اور یہ سنت ہے والدین کو چاہیے بچے کا اچھا نام انتخاب کریں کیونکہ ساری زندگی بچے کو اسی نام سے پکارا جانا ہے

سنت نام گذاری

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : لا یُولَد لَنا وَلَدٌ اِلّا سَمَّیناهُ مُحَمَّداً،فَاِذا مَضی سَبعَةُ اَیامٍ فَاِن شِئنا غَیِّرنا وَاِلّا تَرَکنَا [52]

ہم اپنے ہر بچے کا نام محمد رکھتے ہیں پھر ساتویں دن اگر نام تبدیل کرنا ہو تو تبدیل کرتے ہیں وگرنہ محمد ہی رہنے دیتے ہیں

اچھا نام اور حق اولاد

حق الولد علی الوالد ان یحسن اسمہ و یحسن ادبہ [53]

والد پر بچے کا حق ہے کہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : قال رسول اللہ ان اول ما ینحل احدکم ولدہ الاسم الحسن ، فلیحسن احدکم اسم ولدہ[54]

پیغمبر فرماتے ہیں بہترین ہدیہ جو آپ اپنے بچے کو دیتے ہیں وہ اچھا نام ہے پس اپنے بچوں کیلئے اچھے نام انتخاب کریں

موسی بن بکر حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں : اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن ، فلیحسن احدکم اسم ولدہ [55]

مرد کی پہلی نیکی اور احسان بچے پر یہ ہے اسکا اچھا سا نام منتخب کریں پس اپنے بچوں کے لئے بہتریں ناموں میں سے انتخاب کریں

قیامت کے دن اچھے نام کی تاثیر

وفی الخبر ان رجلا یؤتی فی قیامہ و اسمہ محمد ، فعقول اللہ لہ : ما استحییت ان عصیتنی و انت حبیبی ، و انا استحیی ان اعذبک و انت سمیی حبیبی [56]

روایت میں آیا ہے قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا جس کا نام محمد ہو گا اللہ تعالی کی طرف سے اسے خطاب کیا جائے گا کہ تجھے شرم نہ آئی میری معصیت کرتے ہوئے حالانکہ تو میرے حبیب کا ھم نام ہے ، مجھے شرم آتی ہے تجھے عذاب دیتے ہوئے کیونکہ تو میرے حبیب ۔ محمد مصطفی کا ہم نام ہے

امام صادق اپنے اجداد سے نقل فرماتے ہیں : اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد : الا لیقم کل من اسمہ محمد ، فلیدخل الجنۃ لکرامۃ سمیہ محمد [57]

قیامت کے دن ایک ندا دی جائے گی کہ جس کا نام محمد ہے وہ محمد مصطفی کے ہم نام ہونے کے صدقے سیدھا جنت میں چلا جائے

روز قیامت انسانوں کو ان کے ناموں سے پکارا جائے گا

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: استحسنوا اسماءکم فانکم تدعون بھا یوم القیامۃ : قم یا فلاں بن فلاں الی نورک ، قم یا فلاں بن فلاں لا نور لک [58]

اپنے اچھے نام رکھو کیونکہ قیامت کے دن آپ کو اپنے ناموں سے پکارا جائے گا، کہ اے فلان بن فلاں اٹھو اور اپنے نور کی جانب چلو

بیٹوں کیلئے بہترین نام

ابن عمر پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں : احب الاسماء الی اللہ عبداللہ و عبدالرحمن [59]

اللہ تعالی کے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں

ایک شخص نے اپنے بچے کے نام کے بارے میں امام صادق علیہ السلام سے مشورت کی تو امام نے اسے فرمایا : سمہ اسما من العبودیہ فقال : ای الاسماء ھو قال : عبد الرحمن [60]

خدا کی بندگی والے ناموں میں سے ایک رکھ لو تو اس نے پوچھا کون سا رکھوں تو امام نے فرمایا عبد الرحمن رکھ لو۔

پیغمبر اکرم سے روایت نقل ہے آپ نے فرمایا: من ولد لہ اربعۃ اولاد و لم یسمہ احدھم باسمی فقد جفانی [61]

جس کے چار بیٹے ہوں اور ایک کا نام بھی محمد نا ہو تو اس نے میرے حق میں جفا کی ہے ۔

ابو ھارون کہتا ہے میں مدینہ میں امام صادق علیہ السلام کا ہمنشین تھا کچھ دن امام علیہ السلام نے مجھے نہ دیکھا کچھ دن بعد جب میں امام کے پاس گیا تو امام نے فرمایا : لم ارک منذ ایام یا ابا ھارن فقلت : ولد لی غلام ۔ فقال : بارک اللہ لک ، فما سمیتہ ؟ قلت: سمیتہ محمدا۔ فأقبل بخدہ نحو الارض و ھو یقول: محمد ، محمد ، محمد حتی کان علصق خدہ بالارض ، ثم قال : بنفسی و بولدی و باھلی و بأبوی و باھل الارض کلھم جمیعا الفداء لرسول للہ ، لا تسبہ ولا تضربہ ولا تسیء الیہ ، و اعلم أنہ لیس فی الرض فیھا اسم مھمد الا و ھی تقدس کل یوم [62]

اے ابو ھارون کچھ دن سے آپ کو نہیں دیکھا میں نے عرض کی مولا خدا نے مجھے بیٹا دیا ہے ، فرمایا مبارک ہو بچے کا نام کیا رکھو گے ؟ میں نے عرض کی محمد مولا نے جیسے ہی محمد کا نام سنا تھوڑا سا جھکے اور فرمایا محمد ، محمد ، محمد پھر فرمایا میں میرے ماں باپ بیوی بچے بلکہ روئے زمین پر رہنے والے سب لوگ رسول اللہ پر قربان جائیں ، کبھی اپنے بچے کو گالی نہ دینا اور اس سے بد سلوکی بھی نہ کرنا

ابو امامہ روایت کرتے ہیں آپ (ص) نے فرمایا: من ولد لہ مولود ذکر فسمی محمدا حبا و تبرکا باسمی ، کان ھو و مولودہ فی الجنہ [63]

جس کسی کا بیٹا پیدا ہو اور وہ مجھ سے محبت اور تبرک کیلئے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بچہ دونوں جنت میں جائیں گے

جابر پیغمبراکرم سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا: فما من بیت فیہ اسم محمد الا اوسع اللہ علیھم الرزق ، فاذا سمیتموہ فل تضربوہ و لا تشتموہ [64]

جس گھر میں نام محمد ہو خداوند متعال اس گھر میں رزق کو بڑھا دیتا ہے پس اگر اپنے بچے کا نام محمد رکھا ہے تو اسے مارنا بھی نہیں اور اسےگالی بھی مت دینا ۔

نام محمد، خیروبرکت ہے ۔

امام رضا فرماتے ہیں: البیت الذی فیہ محمد یصبح اھلہ بخیر و یمسون بخیر [65]

جس گھر میں محمد کا نام ہو اس گھر میں رہنے والوں پر خیر و برکت رہتی ہے

پیغمبراکرم نے فرمایا: اذاسمیتم الولد محمد فاکرموہ ، و أوسعوا لہ فی المجلس ، ولا تقبھوا لہ وجھا [66]

اگر اپنے بچے کا نام محمد رکھو تو اس کا احترام کرو اور اپنی محفلوں میں اسے جگہ دو اور اس کے کاموں کو نا پسند مت کرو

انس بن مالک نقل کرتے ہیں پیغمبر اکرم نے فرمایا : کیسے اپنے بچوں کا نام محمد رکھتے ہواور پھر انہیں نفریں کرتے ہو؟

اسحاق بن عمار کہتے ہیں میں امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی خداوند متعال نے مجھے بیٹا عطا کیا ہےتو امام علیہ السلام نے فرمایا : ألا سمیتہ محمد؟ قلت : قد فعلت ۔ قال: فلا تضرب محمدا ولا تشتمہ جعلہ اللہ قرۃ عین لک فی حیاتک و خلف صدق بعدک [67]

کیا تم نے اپنے بچے کا نام محمد نہیں رکھا ؟ میں نے عرض کی مولا محمد ہی رکھا ہے تو مولا نے فرمایا محمد کو نہ مارنا اور نہ گالی دینا کیونکہ جب تک تم زندہ ہو خدا تیرے لیئے آنکھوں کا نور قرار دے گا اور تیرے مرنے کے بعد تیرا نیک و صادق جانشین قرار دے گا ۔

اولاد کی شخصیت میں ماں کے دودھ کی تاثیر

ایک اہم نکتہ جس کا ماں کو خصوصی خیال رکھنا چاہیے وہ بچے کو دودھ پلانا ہے اگرچہ بعض لوگ اتنے اہم مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دیتے مگر اسلام نے اس مسئلہ کی طرف خصوصی توجہ دی ہے

بعض اوقات ماں باپ بہت ہی اچھے اور متدین ہوتے ہیں مگر اولاد منحرف ہو جاتی ہے اور جب ہم ان کے منحرف ہونے کی وجہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ ماں کا بچے کو دودھ پلانے میں بے توجہی کرنا ہے اگر ماں دودھ پلانے میں بچے پر تھوڑا زیادہ توجہ اور عنایت کرتی تو ایسا کبھی نہ ہوتا کیونکہ شیر خوارگی کے دوران بچے کی نہ صرف جسمانی گروتھ ہوتی ہے بلکہ روحانی گروتھ بھی ہوتی ہے ماں کے دودھ کے ساتھ ماں کی گفتار اور رفتار بھی بچے پر اثر انداز ہوتی ہے ۔

پیغمبر گرامی اسلام اور آئمہ اہل بیت کی روایات میں ، بچے کو دودھ پلانے کی اہمیت کے بارے میں خصوصی ہدایات ذکر ہوئی ہیں

ماں کا بچے کو دودھ پلانے کا اجر و ثواب

امام صادق ، پیغمبر گرامی اسلام سے روایت کرتے ہیں : أنما امرأۃ دفعت من بیت روجھا شیأمن موضع ترید بہ صلاحا نظراللہ الیھا و من نظراللہ الیہ لم یعذبہ ، فقالت أم سلمہ : یا رسول اللہ ذھب الرجل بکل خیر فأی شیء للنساء المساکین فقال : بلی اذا حملت المرأۃ کانت بمنزلۃ الصائم القائم المجاھد بنفسہ و مالہ و فی سبیل اللہ ، فاذا وضعت کان لھا من الاجر ما لا یدری أحد ما ھو لعظمہ فاذا ارضعت کان لھا بکل مصۃ کعدل عتق محرر من ولد اسماعیل فاذا فرغت من رضاعہ ضرب ملك کریم علی جنبھا و قال : استأنفی العمل فقد غفر لك[68] ۔

جو خاتون شوہر کا گھر مرتب کرنے کیلئے سامان اٹھاتی ہے اور گھر کو مرتب کرتی ہے تو خدا اس پر نظر کرم کرتا ہے اور جس پر خدا کی نظر کرم ہو اس کو کبھی عذاب نہیں ہو سکتا

أم سلمی نے کہا : یا رسول اللہ تمام نیکیاں تو مرد لے گئے عورتوں کے حصے میں بھی کچھ ہے ؟ تو پیغمبر نے فرمایا : ہاں عورت جب حاملہ ہوتی ہے تو وہ اس مجاھد کی مانند ہے جو دن میں روزہ رکھے راتوں کو عبادت کرے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اپنی جان و مال سب کچھ قربان کر دے ، اور جب بچہ پیدا کرتی ہے تو اسکا اتنا ثواب ہے کہ کوئی درک بھی نہیں کر سکتا اور جب بچے کو دودھ دیتی ہے تو ہر دفعہ دودھ پلانے کا ثواب اولاد اسماعیل سے غلام آزاد کرانے کے برابر ہے اور جب دودھ پلا لے تو ایک فرشتہ اس کے پہلو میں آ کے کہتا ہے خدا نے تیرے تمام گناہ معاف کر دیئے ۔

ایک اور روایت میں آپ (ص) حولاء عطارہ کو فرماتے ہیں

فاذا وضعت حملھا و أخذت فی رضاعہ فما یمص الولد مصۃ من لبن أمہ الا کان بین یدیھا نورا ساطعا یوم القیامۃ یعجب من رآھا من الاولین و الآخرین ، و کتبت صائمۃ قائمۃ ۔۔ فاذا فطمت ولدھا ، قال الحق جل ذکرہ : یا أیتھا المرأۃ : قدغفرت لك ما تقدم من الذنوب ، فاستأنفی العمل[69] ۔

پس جب ماں بچے کو جنم دیتی ہے اور اسے اپنا دودھ پلاتی ہے تو جتنی دفعہ بچہ دودھ پیتا ہے تو ہر دفعہ کے بدلے میں قیامت کے دن ایک نور پیدا ہوگا ہر آنے والوں اور گذرے ہوؤں میں سے اس نور کو دیکھے گا تو حیران رہ جائے گا اور ماں کے نامہ اعمال میں روزہ دار اور شب زندہ دار کا ثواب لکھا جائے گا ۔۔۔ اگر ماں بچے کو دوھ نہ پلائے تو خدا کی آواز آتی ہے اے خاتون اپنے بچے کو دودھ پلا میں تیرے سارے گناہ معاف کر دوں گا ۔

بہترین دودھ

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : لیس للصبی لبن خیر من لبن أمہ[70]

بچے کیلئے ماں سے بہتر اور کوئی دودھ نہیں ۔

امام صادق (ع) امیر المؤمنین سے نقل کرتے ہیں : ما من لبن رضع بہ الصبی أعظم برکۃ علیہ من لبن أمہ[71]

بچے کیلئے ماں کے دودھ سے بڑھ کر کوئی دودھ بھی با برکت نہیں ہوسکتا ۔

(جاری ہے )



[1] وسائل الشیعہ ، ج15 ، ص 136 ؛ مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 137 ۔

[2] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 138 ۔

[3] تحف العقول ، ص 14 ۔

[4] کنز العمال ، ج 16 ، ص 457 ۔

[5] یہ ایک بیماری ہے جس میں بچے کو غش پڑتے ہیں ۔ فرھنگ جامع ، ج 1 ، ص 45 ۔

[6] کنز العمال ، ج 16 ، ص 599 ۔

[7] وسائل الشیعہ ، ج15 ، ص 138 ۔

[8] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 127 ۔

[9] کنز العمال ۔ ج 16 ، ص 477 ۔

[10] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 122 ۔

[11] ھمان ، ص 126

[12] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 130 ۔

[13] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 128 ۔

[14] عدۃ الداعی ۔ ص 78 ۔

[15] کنزالعمال ، ج 16 ، ص 417 ۔

[16] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص125 ۔

[17] عدۃ الداعی ۔ ص 77 ۔

[18] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص126 ۔

[19] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص125 ۔

[20] مجموعہ ورام ، ص 26 ۔

[21] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص127 ۔

[22] ھمان ، ج 15 ص 127 ؛ کنزالعمال ، ج 16 ص 418

[23] مکارم الاخلاق ، ص 25 ۔

[24] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص129 ۔

[25] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص129

[26] وسائل الشیعہ ، ج 157 ، ص 125 ۔

[27] کنز العمال ، ج 16 ، ص 200 ۔

[28] کنز العمال ، ج 16 ، ص 592

[29] ھمان ، ج 16 ، ص 430 ۔

[30] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 126 ۔

[31] مستدر الوسائل ، ج 15 ، ص 128 ۔

[32] کنز العمال ، ج 16 ، ص 596 ۔

[33] ھمان ، ص 596 ۔

[34] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 123 ۔

[35] ھمان ، ص 129 ؛ کنز العمال ، ج 16 ، ص 423 ۔

[36] کنز العمال ، ج 167 ، ص 436 ؛ وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 165 ، تھورے فرق کے ساتھہ مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 149 ۔

[37] تحف العقول ، ص 119 ۔

[38] مستدک الوسائل ، ج 15 ، ص 142 ۔

[39] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 169 ۔

[40] ھمان ، ج 15 ، ص 159 ۔

[41] کنزالعمال ، ج 16 ، ص 431 ؛ کتاب العیال ، 1 ، ص 216 و 433 ۔

[42] مستدرک الوسائل ج 15 ، ص 140 ۔

[43] بحار الانوار ، ج 43 ، ص 256 ۔

[44] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 143 ۔

[45] بحار الانوار ، ج 43 ، ص 257 ۔

[46] ھمان ، ص 256 – 257 ۔

[47] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 146 ۔

[48] محمد جواد طبسی ، حیاۃ الامام العسکری ، ص 80 ۔

[49] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 142 ۔

[50] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 146 ۔

[51] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 146 ۔

[52] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 127 ۔

[53] کنز العمال ۔ ج 16 ، ص 477 ۔

[54] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 122 ۔

[55] ھمان ، ص 126

[56] مستدرک الوسائل ، ج 15 ، ص 130 ۔

[57] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 128 ۔

[58] عدۃ الداعی ۔ ص 78 ۔

[59] کنزالعمال ، ج 16 ، ص 417 ۔

[60] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص125 ۔

[61] عدۃ الداعی ۔ ص 77 ۔

[62] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص126 ۔

[63] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص125 ۔

[64] مجموعہ ورام ، ص 26 ۔

[65] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص127 ۔

[66] ھمان ، ج 15 ص 127 ؛ کنزالعمال ، ج 16 ص 418

[67] مکارم الاخلاق ، ص 25 ۔

[68] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 175 ۔

[69] مستدرک الوسائل م ج 15 ، ص 156 ۔

[70] ھمان ، ج 15 ، ص 1567 نقل از صحیفہ الرضا ، ص 42

[71] وسائل الشیعہ ، ج 15 ، ص 175 ۔




قرآن کے بارے میں چالیس حدیثیں

قرآن کے بارے میں چالیس حدیثیں

1۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام إِنَّ الْعَزِيزَ الْجَبَّارَ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ كِتَابَهُ وَ هُوَ الصَّادِقُ الْبَارُّ فِيهِ خَبَرُكُمْ وَ خَبَرُ مَنْ قَبْلَكُمْ وَ خَبَرُ مَنْ بَعْدَكُمْ وَ خَبَرُ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ وَ لَوْ أَتَاكُمْ مَنْ يُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ لَتَعَجَّبْتُمْ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عزیز و جبار نے تم پر اپنی کتاب نازل فرمائی؛ جبکہ وہ (اللہ) صادق اور نیک خواہ اور نیکی کرنے والا ہے؛ اس کتاب میں تمہاری خبر بھی ہے اور تم سے پہلے گذرنے والوں کی خبر بھی ہے اور بعد میں آنے والوں کی خبر بھی ہے؛ اور اس میں آسمان و زمیں کی خبر بھی ہے تاہم اگر کوئی تمہارے پاس آکر ان چیزوں کی خبر دے تو تم تعجب کرتے ہو۔

2۔ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ عليه السلام قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم أَنَا أَوَّلُ وَافِدٍ عَلَى الْعَزِيزِ الْجَبَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ كِتَابُهُ وَ أَهْلُ بَيْتِي ثُمَّ أُمَّتِي ثُمَّ أَسْأَلُهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ وَ بِأَهْلِ بَيْتِي۔

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: میں سب سے پہلا فرد ہوں کہ روز قیامت خدائی عزیز و جبار کی بارگاہ میں حاضر ہونگا اور اس کی بعد خدا کی کتاب اور میری اہل بیت علیہم السلام ہونگی اور اس کی بعد میری امت حاضر ہوجائی گی اور میں ان سے پوچھ لونگا کہ "تم نے کتاب خدا اور میری اہل بیت علیہم السلام کی ساتھ کیسا سلوک روا رکھا"۔

3۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ فِيهِ مَنَارُ الْهُدَى وَ مَصَابِيحُ الدُّجَى فَلْيَجْلُ جَالٍ بَصَرَهُ وَ يَفْتَحُ لِلضِّيَاءِ نَظَرَهُ فَإِنَّ التَّفَكُّرَ حَيَاةُ قَلْبِ الْبَصِيرِ كَمَا يَمْشِي الْمُسْتَنِيرُ فِي الظُّلُمَاتِ بِالنُّورِ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: بی شک یہ قرآن (ایسی کتاب) ہی جس میں ہدایت کی میںار، شب دیجور کے (لئے درکار) چراغ، ہیں پس انسان کو تیزبین اور زیرک ہونا چاہئے کہ اس میں غور کرے اور اس کی روشنی کی کرنوں کے لئے اپنی آنکھیں کھول دے کیونکہ غور و تفکر بصیر دلوں کی حیات ہے گویا کہ وہ دلِ بینا نور کے ذریعے تاریکیوں میں راہ پیمائی کرتا ہے۔

4۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام كَانَ فِي وَصِيَّةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام أَصْحَابَهُ اعْلَمُوا أَنَّ الْقُرْآنَ هُدَى النَّهَارِ وَ نُورُ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ جَهْدٍ وَ فَاقَةٍ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: جان لو کہ قرآن دن کے وقت ہدایت اور اندھیری راتوں کی روشنی ہے خواہ (اس کی روشنی ڈھونڈنے والا اور اس سے راہنمائی حاصل کرنے والا) شخص مشقت اور ناداری کا شکار ہو (کیونکہ غربت و مشقت اس شخص کو قرآن سے باز نہیں رکھتی بلکہ اس کی رغبت میں اضافہ کرتی ہے)۔

5۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ آبَائِهِ عليه السلام قَالَ شَكَا رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلی الله علیه و آله وَجَعاً فِي صَدْرِهِ فَقَالَ صلی الله علیه و آله ‍ اسْتَشْفِ بِالْقُرْآنِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ يَقُولُ وَ شِف اءٌ لِم ا فِي الصُّدُورِ۔

امام صادق علیہ السلام اپنے آباء طاہرین سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سینے کے درد کی شکایت کی تو آپ صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: قرآن سے شفاء حاصل کرو کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے: "یہ قرآن شفاء ہے ان دکھوں کے لئے جو سینوں میں ہیں"۔(سورہ يونس آيت 57)۔

6۔ عن ابي بصير قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَقُولُ إِنَّ الْقُرْآنَ زَاجِرٌ وَ آمِرٌ يَأْمُرُ بِالْجَنَّةِ وَ يَزْجُرُ عَنِ النَّارِ۔

ابوبصير کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک قرآن باز رکھنے والا اور فرمان دینے والا ہے؛ جنت کا فرمان دیتا ہے اور دوزخ سے باز رکھتا ہے۔

7۔ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ عليه السلام لَوْ مَاتَ مَنْ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ أَنْ يَكُونَ الْقُرْآنُ مَعِي وَ كَانَ عليه السلام إِذَا قَرَأَ م الِكِ يَوْمِ الدِّينِ يُكَرِّرُهَا حَتَّى كَادَ أَنْ يَمُوتَ۔

زھری کہتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: اگر مشرق اور مغرب کے مابین رہنے والے تمام لوگ مر جائیں میں تنہائی سے ہراساں نہیں ہونگا جب کہ قرآن مجید میرے پاس ہو؛ اور حضرت سجاد عليہ السلام کا شيوہ تھا کہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت جب سورہ فاتحہ کی آیت "مالك يوم الدين" پر پہنچتے تو اسے اس قدر زیادہ دہراتے کہ موت کے قریب پہنچ جاتے۔

8۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم إِنَّ أَهْلَ الْقُرْآنِ فِي أَعْلَى دَرَجَةٍ مِنَ الْآدَمِيِّينَ مَا خَلَا النَّبِيِّينَ وَ الْمُرْسَلِينَ فَلَا تَسْتَضْعِفُوا أَهْلَ الْقُرْآنِ حُقُوقَهُمْ فَإِنَّ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْجَبَّارِ لَمَكَاناً عَلِيّاً۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: بے شک قرآن والے انسانوں کے بلندترین درجات پر فائز ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کے؛ پس قرآن والوں کے حقوق کو کم اور ناچیز مت سمجھو کیونکہ خدائے عزیز و جبار کی کی بارگاہ میں بہت اونچے مقام پر فائز ہیں۔

9۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ الْحَافِظُ لِلْقُرْآنِ الْعَامِلُ بِهِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: قرآن پر عمل پیرا حافظین قرآن ان فرشتوں کے ہم نشین ہیں جو خدا کے سفیر اور عزت دار اور نیک کردار ہیں۔

10۔ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَهُوَ غَنِيٌّ وَ لَا فَقْرَ بَعْدَهُ وَ إِلَّا مَا بِهِ غِنًى۔

معاويہ بن عمار کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: جو شخص قرآن پڑھے وہ بےنیاز اور غنی ہوجاتا ہے اور جس کو قرآن بے نیاز اور غنی نہ کرے کوئی بھی چیز اسے بے نیاز نہیں کرسکے گی۔

11۔ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم‍ يَا مَعَاشِرَ قُرَّاءِ الْقُرْآنِ اتَّقُوا اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فِيمَا حَمَّلَكُمْ مِنْ كِتَابِهِ فَإِنِّي مَسْئُولٌ وَ إِنَّكُمْ مَسْئُولُونَ إِنِّي مَسْئُولٌ عَنْ تَبْلِيغِ الرِّسَالَةِ وَ أَمَّا أَنْتُمْ فَتُسْأَلُونَ عَمَّا حُمِّلْتُمْ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَ سُنَّتِي۔

حضرت باقر عليہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: اے قرآن کے قاریو! خدائے عز و جل سے ڈرو ان چیزوں کے حوالے سے جو اس نے اپنی کتاب میں سے تمہیں عطا کی ہیں کیونکہ مجھ سے بھی سوال ہوگا اور تم سے بھی سوال ہوگا؛ مجھ سے اپنی رسالت و تبلیغ کا سوال ہوگا اور تم سے سوال ہوگا ان چیزوں کے حوالے سے جو قرآن و سنت میں سے تمہارے پاس ہے۔

12۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم حَمَلَةُ الْقُرْآنِ عُرَفَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ الْمُجْتَهِدُونَ قُوَّادُ أَهْلِ الْجَنَّةَ وَ الرُّسُلُ سَادَةُ أَهْلِ الْجَنَّةَ۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: قرآن کے حامل افراد جنت والوں کے نمائندے اور ان کے سرپرست ہیں اور مجتہدین جنت والوں کے راہنما ہیں اور اانبیاء اور رسل علیہم السلام جنت والوں کے سردار ہیں۔

13۔ عَنِ الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ الَّذِي يُعَالِجُ الْقُرْآنَ وَ يَحْفَظُهُ بِمَشَقَّةٍ مِنْهُ وَ قِلَّةِ حِفْظٍ لَهُ أَجْرَانِ۔

فضيل بن يسار کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ: جو شخص قرآن کے سلسلے میں رنج و مشقت برداشت کرے اور حافظے کی کمزوری کے باوجود اسے حفظ کرے اس کے لئے دو اجر ہیں۔

14۔ عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ سَيَابَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَقُولُ مَنْ شُدِّدَ عَلَيْهِ فِي الْقُرْآنِ كَانَ لَهُ أَجْرَانِ وَ مَنْ يُسِّرَ عَلَيْهِ كَانَ مَعَ الْأَوَّلِينَ۔

صباح بن سيابہ کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ: جو شخص قرآن کو سختی کے ساتھ سیکھے اس کے لئے دو اجر ہیں اور جو شخص آسانی سے سیکھ لے وہ اولین کا ہم نشین ہے۔

توضيح : علامه مجلسى (رح) لکهتے ہیں: شايد اولین سے مراد وہ لوگ ہوں جو خدا اور رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم پر ایمان لانے میں سبقت لے گئے ہیں۔

15۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ لَا يَمُوتَ حَتَّى يَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ أَوْ يَكُونَ فِي تَعْلِيمِهِ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مؤمن کے لئے ضروری ہے کہ قرآن سیکھنے یا سکھانے سے قبل دنیا سے رخصت نہ ہو۔ (یعنی انسان کو مرنے سے قبل قرآن سیکھنا چاہئے یا قرآن سکھاتا ہوا دنیا سے رخصت ہو)۔

16۔ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام مَنْ نَسِيَ سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ مُثِّلَتْ لَهُ فِي صُورَةٍ حَسَنَةٍ وَ دَرَجَةٍ رَفِيعَةٍ فِي الْجَنَّةِ فَإِذَا رَآهَا قَالَ مَا أَنْتِ مَا أَحْسَنَكِ لَيْتَكِ لِي فَيَقُولُ أَ مَا تَعْرِفُنِي أَنَا سُورَةُ كَذَا وَ كَذَا وَ لَوْ لَمْ تَنْسَنِي رَفَعْتُكَ إِلَى هَذَا۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص (قرآن کی سورتیں حفظ کرکے) کوئی سورت بھول جائے وہ سورت قیامت کے روز اس کے سامنے نہایت حسین و جمیل صورت اور نہایت اونچے مرتبے میں نمودار ہوتی ہے؛ جب وہ شخص اس سورت کو اس حالت میں دیکھتا ہے تو پوچھتا ہے تو کون ہے! تو کتنی حسین و جمیل ہے! کاش تو میرے لئے ہوتی! سورت جواب دے گی: کیا تو مجھے نہیں پہچانتا؟ میں فلان سورت ہوں؛ تو اگر مجھے نہ بھولتا تو میں تجھے اسی مقام تک پہنچا دیتی۔

17۔ عَنْ يَعْقُوبَ الْأَحْمَرِ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام إِنَّ عَلَيَّ دَيْناً كَثِيراً وَ قَدْ دَخَلَنِي مَا كَانَ الْقُرْآنُ يَتَفَلَّتُ مِنِّي فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام الْقُرْآنَ الْقُرْآنَ إِنَّ الْآيَةَ مِنَ الْقُرْآنِ وَ السُّورَةَ لَتَجِي ءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى تَصْعَدَ أَلْفَ دَرَجَةٍ يَعْنِي فِي الْجَنَّةِ فَتَقُولُ لَوْ حَفِظْتَنِي لَبَلَغْتُ بِكَ هَاهُنَا۔

يعقوب احمر کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق عليہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: میں بہت زیادہ مقروض ہوں اور اس قدر رنج و مشقت میں مبتلا ہوں یہاں تک کہ رنج و غم کی وجہ سے قرآن میرے ذہن سے نکل گیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: قرآن، قرآن، بے شک قرآن کی ایک آیت اور اس کی ایک سورت قیامت کے روز آئے گی ہزار درجے اونچائی پر صعود کرے گی یعنی جنت میں، اور کہے گی: اگر تم مجھے حفظ کرتے تو میں تمہیں اس مقام پر پہنچاتی۔

18۔ عَنْ أَبِي كَهْمَسٍ الْهَيْثَمِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام عَنْ رَجُلٍ قَرَأَ الْقُرْآنَ ثُمَّ نَسِيَهُ فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ ثَلَاثاً أَ عَلَيْهِ فِيهِ حَرَجٌ قَالَ لَا۔

ابو كہمس کہتے ہیں: میں نے امام صادق عليہ السلام سے اس مرد کے بارے میں پوچھا جس نے قرآن پڑہا ہے اور پھر اسے بھول گیا ہے؛ اور میں نے تین مرتبہ دریافت کیا کہ کیا اس شخص پر کوئی حرج اور کوئی عیب ہے؟ اور امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: نہیں۔

19۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ الْقُرْآنُ عَهْدُ اللَّهِ إِلَى خَلْقِهِ فَقَدْ يَنْبَغِي لِلْمَرْءِ الْمُسْلِمِ أَنْ يَنْظُرَ فِي عَهْدِهِ وَ أَنْ يَقْرَأَ مِنْهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ خَمْسِينَ آيَةً۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: قرآن مخلوقات کے ساتھ اللہ تعالی کا عہد و پیمان اور اس کا فرمان ہے پس مسلمان کے لئے ضروری ہے خدا کے ساتھ اپنے اس عہد و پیمان پرغور کرے اور ہر روز اس کی 50 آیتوں کی تلاوت کرے۔

20۔ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ عليه السلام يَقُولُ آيَاتُ الْقُرْآنِ خَزَائِنُ فَكُلَّمَا فُتِحَتْ خِزَانَةٌ يَنْبَغِي لَكَ أَنْ تَنْظُرَ مَا فِيهَا۔

زہرى کہتے ہیں: میں نے حضرت على بن الحسين زین العابدین علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: قرآن کی آیتین خزانے ہیں پس ضرورت اس امر کی ہے کہ جب تم ایک خزانے کا دروازہ کھولتے ہو تو اس پر نظر ڈالو اور اس میں غور کریں۔

21۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ إِنَّ الْبَيْتَ إِذَا كَانَ فِيهِ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ يَتْلُو الْقُرْآنَ يَتَرَاءَاهُ أَهْلُ السَّمَاءِ كَمَا يَتَرَاءَى أَهْلُ الدُّنْيَا الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ فِي السَّمَاءِ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جس گھر میں ایک مسلمان شخص قرآن کی تلاوت کرتا ہے آسمان والے اس گھر پر نظر رکھتے ہیں جس طرح کہ زمیں والے آسمان میں موجود چمکتے ستارے کی طرف دیکھتے ہیں۔

22۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ مَا يَمْنَعُ التَّاجِرَ مِنْكُمُ الْمَشْغُولَ فِي سُوقِهِ إِذَا رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ أَنْ لَا يَنَامَ حَتَّى يَقْرَأَ سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ فَتُكْتَبَ لَهُ مَكَانَ كُلِّ آيَةٍ يَقْرَؤُهَا عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَ يُمْحَى عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: وہ کونسی چیز ہی جو بازار میں مصروف تاجر کو گھر لوٹنے کے بعد سونے سے باز رکھ سکے حتی کہ وہ قرآن کی ایک سورت کی تلاوت کرے؟ پس ہر آیت کے بدلے اس کے لئے دس حسنات لکھے جائیں اور دس گناہ اس کے عمل نامے سے مٹا دیئے جائیں؟

23۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ سَمِعْتُ أَبِي عليه السلام يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم خَتْمُ الْقُرْآنِ إِلَى حَيْثُ تَعْلَمُ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: میں نے اپنے والد ماجد (امام محمد باقر علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ختم قرآن اسی مقام تک ہے جو تم خود جانتے ہو۔

وضاحت:

يعنی ختم قرآن اسی مقام تک ہے جہاں تک تم تلاوت کرسکتے ہو اور جتنا تم نے قرآن سیکھ لیا ہے۔ اور ممکن ہے کہ مراد یہ ہو کہ قرآن صرف یہی نہیں ہے جو تم سیکھ لیتے ہو اور اس کے مفاہیم و معانی کثیر ہیں لیکن تمہیں ختم قرآن کا اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ تم نے سیکھ لیا ہے اور جتنی دانش تم نے قرآن سے حاصل کی ہے۔

24۔ عن أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي الْمُصْحَفِ مُتِّعَ بِبَصَرِهِ وَ خُفِّفَ عَنْ وَالِدَيْهِ وَ إِنْ كَانَا كَافِرَيْنِ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص قرآن مجید کو سامنے رکھ کر اس کی تلاوت کرے وہ اپنی آنکھوں سے بہرہ مند ہوگا اور اس کی قرأت اس کے والدین کے عذاب میں کمی کا باعث ہوگی خواہ وہ (والدین) کافر ہی کیوں نہ ہوں۔

25۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ إِنَّهُ لَيُعْجِبُنِي أَنْ يَكُونَ فِي الْبَيْتِ مُصْحَفٌ يَطْرُدُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ بِهِ الشَّيَاطِينَ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مجھے بہت پسند ہے کہ ہر گھر میں ایک قرآن ہوتا کہ خداوند عز و جل اس کے وسیلے سے شیاطین کو اس گھر سے دور کردے۔

26۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ ثَلَاثَةٌ يَشْكُونَ إِلَى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ مَسْجِدٌ خَرَابٌ لَا يُصَلِّي فِيهِ أَهْلُهُ وَ عَالِمٌ بَيْنَ جُهَّالٍ وَ مُصْحَفٌ مُعَلَّقٌ قَدْ وَقَعَ عَلَيْهِ الْغُبَارُ لَا يُقْرَأُ فِيهِ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: تین چیزیں ہیں جو خداوند متعال کی بارگاہ میں شکایت کرتے ہیں: وہ ویراں مسجد جس کے اہالیان اس میں نماز ادا نہیں کرتے؛ وہ عالم و دانشور جو نادانوں اور جاہلوں میں گھرا ہوا ہو اور قرآن جس پر گرد بیٹھی رہتی ہو اور کوئی اسے پڑھتا نہیں ہو۔

27۔ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ مُحْرِزٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عليه السلام يَقُولُ مَنْ لَمْ يُبْرِئْهُ الْحَمْدُ لَمْ يُبْرِئْهُ شَيْءٌ۔

سلمة بن محرز کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ: جس شخص کو سورہ فاتحہ بہتری (بیماریوں، پلیدیوں، قباحتوں اور برائیوں سے) پاک اور دور نہ کردے کوئی چیز بھی اس کو پاک نہیں کرسکے گی۔

28۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي أَحْفَظُ الْقُرْآنَ عَلَى ظَهْرِ قَلْبِي فَأَقْرَؤُهُ عَلَى ظَهْرِ قَلْبِي أَفْضَلُ أَوْ أَنْظُرُ فِي الْمُصْحَفِ قَالَ فَقَالَ لِي بَلِ اقْرَأْهُ وَ انْظُرْ فِي الْمُصْحَفِ فَهُوَ أَفْضَلُ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ النَّظَرَ فِي الْمُصْحَفِ عِبَادَةٌ۔

اسحاق بن عمار کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق عليہ السلام سے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں میں حافظ قرآن ہوں (آپ فرمائیں کہ) میں اسے ازبر پڑھوں بہتر ہے یا قرآن مجید کو سامنے رکھ کر تلاوت کروں تو بہتر ہے؟

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: قرآن کی تلاوت کرو اور قرآن کو سامنے رکھ کر اسے دیکھا کرو؛ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ قرآن کی طرف دیکھنا عبادت ہے؟

29۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه و آله ‍ صَلَّى عَلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَقَالَ لَقَدْ وَافَى مِنَ الْمَلَائِكَةِ سَبْعُونَ أَلْفاً وَ فِيهِمْ جَبْرَئِيلُ عليه السلام يُصَلُّونَ عَلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ يَا جَبْرَئِيلُ بِمَا يَسْتَحِقُّ صَلَاتَكُمْ عَلَيْهِ فَقَالَ بِقِرَاءَتِهِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ قَائِماً وَ قَاعِداً وَ رَاكِباً وَ مَاشِياً وَ ذَاهِباً وَ جَائِياً۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (جنگ خندق میں زخمی ہونے اور بنو قریظہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے شہید) معاذ بن جبل کی میت پر نماز ادا کی؛ اور فرمایا: ستر ہزار فرشتے بھی آئے تھے جنہوں نے سعد کی نماز جنازہ میں شرکت کی؛ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے کہا: اے جبرائیل سعد بن معاذ کس عمل کی وجہ سے تم (فرشتوں) کی نماز کے مستحق ٹہرے؟

جبرائیل علیہ السلام نے کہا: (وہ فرشتوں کی نماز کے لائق ٹہرے کیونکہ) وہ ہر حال میں سورہ اخلاص (قل ہو اللّہ احد ۔۔۔) کی تلاوت کرتے رہتے تھے اٹھک بیٹھک میں بھی سواری کے وقت بھی اور چلنے پھرنے کی حالت میں بھی۔

30۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام قَالَ كَانَ أَبِي علیه السلام ‍ يَقُولُ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ثُلُثُ الْقُرْآنِ وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ رُبُعُ الْقُرْآنِ۔

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد ماجد فرمایا کرتے تھے: "قل ہو اللّہ احد" قرآن کا ایک تہائی حصہ ہے اور "قل يا ايہا الكافرون" ایک چوتھائی قرآن ہے۔

31۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام قَالَ مَنْ مَضَى بِهِ يَوْمٌ وَاحِدٌ فَصَلَّى فِيهِ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ وَ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ قِيلَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ لَسْتَ مِنَ الْمُصَلِّينَ.

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر ایک شخص پر پورا دن گذر جائی اور وہ نمازہائی پنجگانہ ادا کری اور وہ کسی نماز میں بہی سورہ "قل ہو اللہ احد" نہ پرہی اس سے کہا جاتا ہی: ای بندہ خدا! تم نمازگزارون کی زمری سے خارج ہو۔

32۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَدَعْ أَنْ يَقْرَأَ فِي دُبُرِ الْفَرِيضَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَإِنَّهُ مَنْ قَرَأَهَا جَمَعَ اللَّهُ لَهُ خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ غَفَرَ لَهُ وَ لِوَالِدَيْهِ وَ مَا وَلَدَا۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص خدا اور روز جزا پر ایمان رکھتا ہے وہ ہر نماز کے بعد سورہ قل ہو اللہ احد کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ کیونکہ جو شخص ہر نماز کے بعد قل ہواللہ احد پڑھے گا خداوند دنیا اور آخرت کی خیر و خوبیاں اس کے لئے فراہم کرتا ہے اور اس کے والدین اور اس کے بھائیوں اور بہنوں کی مغفرت فرمائے گا۔

33۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه و آله لِكُلِّ شَيْءٍ حِلْيَةٌ وَ حِلْيَةُ الْقُرْآنِ الصَّوْتُ الْحَسَنُ۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہر چیز کے لئے زینت ہے اور قرآن کی زینت اچھی آواز ہے۔

34۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ علیه السلام قَالَ قُلْتُ لَهُ إِنَّ أَبِي سَأَلَ جَدَّكَ عَنْ خَتْمِ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ فَقَالَ لَهُ جَدُّكَ كُلَّ لَيْلَةٍ فَقَالَ لَهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ لَهُ جَدُّكَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ لَهُ أَبِي نَعَمْ مَا اسْتَطَعْتُ فَكَانَ أَبِي يَخْتِمُهُ أَرْبَعِينَ خَتْمَةً فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثُمَّ خَتَمْتُهُ بَعْدَ أَبِي فَرُبَّمَا زِدْتُ وَ رُبَّمَا نَقَصْتُ عَلَى قَدْرِ فَرَاغِي وَ شُغُلِي وَ نَشَاطِي وَ كَسَلِي فَإِذَا كَانَ فِي يَوْمِ الْفِطْرِ جَعَلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم خَتْمَةً وَ لِعَلِيٍّ علیه السلام أُخْرَى وَ لِفَاطِمَةَ علیها السلام أُخْرَى ثُمَّ لِلْأَئِمَّةِ علیهم السلام حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَيْكَ فَصَيَّرْتُ لَكَ وَاحِدَةً مُنْذُ صِرْتُ فِي هَذَا الْحَالِ فَأَيُّ شَيْءٍ لِي بِذَلِكَ قَالَ لَكَ بِذَلِكَ أَنْ تَكُونَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قُلْتُ اللَّهُ أَكْبَرُ فَلِي بِذَلِكَ قَالَ نَعَمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔

على بن مغيرہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوالحسن (امام موسی كاظم) عليہ السلام سے عرض كیا: میرے والد نے آپ کے جد بزرگوار سے ہر شب ختم قرآن کے بارے میں پوچھا تھا اور آپ کے جد بزرگوار نے سوال فرمایا تھا: کہ ماہ رمضان میں؟

میرے والد نے عرض کیا تھا: ہاں! ماہ مبارک رمضان میں؛ مجھ میں جتنی طاقت و توانائی ہو قرآن کی تلاوت کروں؛ اور میرے والد ماہ مبارک رمضان میں 40 بار ختم قرآن کیا کرتے تھے اور میں بھی والد کے بعد اتنی ہی مقدار میں ختم قرآن کرتا ہوں؛ کبھی زیادہ اور کام کاج سے فراغت اور نشاط و سستی کے مطابق کبھی کم؛ اور جب عید فطر کا دن آن پہنچتا ہے میں ایک ختم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کرتا ہوں، ایک کو علی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتا ہوں؛ ایک کو سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور ہر امام معصوم علیہ السلام کی خدمت میں ایک ختم ہدیہ کے طور پر پیش کرتا ہوں حتی کہ یہ سلسلہ آپ تک آپہنچتا ہے اور میں اس حال تک پہنچتے پہنچتے اس روش پر عمل پیرا رہا ہوں؛ آپ فرمائیں کہ میرے لئے اس عمل کی کوئی پاداش و ثواب ہے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: تمہاری پاداش قیامت کے روز ان کے ساتھ ہم نشینی ہے۔

میں نے تین مرتبہ عرض کیا: اللہ اکبر! کیا میری پاداش یہ ہے؟ اور امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں۔

35۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ كَانَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ صلی الله علیه و آله أَحْسَنَ النَّاسِ صَوْتاً بِالْقُرْآنِ وَ كَانَ السَّقَّاءُونَ يَمُرُّونَ فَيَقِفُونَ بِبَابِهِ يَسْمَعُونَ قِرَاءَتَهُ وَ كَانَ أَبُو جَعْفَرٍ عليه السلام أَحْسَنَ النَّاسِ صَوْتاً۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: على بن الحسين زین العابدین علیہ السلام قرآن مجید کی تلاوت میں خوش صدا ترین تھے اور جب بہشتی (پانی دینے والے سقے) آپ علیہ السلام کے گھر کے دروازے کے سامنے سے گذرتے تو وہیں رک جاتے اور آپ کی تلاوت سنا کرتے تھے اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بھی خوش صدا ترین تھے۔

36۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يُكْرَهُ أَنْ يُقْرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ بِنَفَسٍ وَاحِدٍ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مكروہ ہے كہ سورہ "قل ہو اللّہ احد" کو ایک ہی سانس میں پڑھنا مکروہ ہے۔

37۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام أَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي لَيْلَةٍ قَالَ لَا يُعْجِبُنِي أَنْ تَقْرَأَهُ فِي أَقَلَّ مِنْ شَهْرٍ۔

راوی محمد بن عبداللّہ میں کہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا: کیا میں قرآن مجید کی تلاوت (ختم قرآن) ایک ہی رات میں مکمل کیا کروں؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: میں پسند نہیں کرتا کہ تم ختم قرآن ایک مہینے سے کم مدت میں مکمل کرلو۔

38۔ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قُلْتُ لَهُ فِي كَمْ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ اقْرَأْهُ أَخْمَاساً اقْرَأْهُ أَسْبَاعاً أَمَا إِنَّ عِنْدِي مُصْحَفاً مُجَزًّى أَرْبَعَةَ عَشَرَ جُزْءاً۔

حسين بن خالد کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا: کتنے عرصے میں قرآن کی تلاوت مکمل کیا کروں؟

فرمایا: قرآن کی تلاوت پانچ حصوں میں کیا کرنا؛ (یعنی پانچ دنوں میں اور ہر روز چھ پاروں کی تلاوت کرنا) اور سات حصوں میں تلاوت کرنا (یعنی سات دنوں میں)؛ اور میرے پاس ایک مصجف (قرآن) ہے جس کے 14 حصے ہیں (یعنی اس کی تلاوت چودہ دنوں میں مکمل ہوتی ہے)۔

39۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه و آله إِنَّ الرَّجُلَ الْأَعْجَمِيَّ مِنْ أُمَّتِي لَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ بِعَجَمِيَّةٍ فَتَرْفَعُهُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى عَرَبِيَّةٍ۔

امام صادق علیہ السلام فرماتی ہیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میری امت کے عجمی (غیر عرب) لوگ قرآن کی تلاوت عجمی لہجے میں کرتے ہیں (یعنی قواعد و تجوید اور قرأت کی خوبصوتیوں سے واقف نہیں ہیں یا شاید وہ اعراب تک کو درست نہ پڑھ سکتے ہوں لیکن) اللہ کے فرشتے ان کی تلاوت عربی لہجے میں اوپر کی جانب لے کر جاتے ہیں۔

40۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیه السلام يَقُولُ مَنْ قَرَأَ الْمُسَبِّحَاتِ كُلَّهَا قَبْلَ أَنْ يَنَامَ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يُدْرِكَ الْقَائِمَ وَ إِنْ مَاتَ كَانَ فِي جِوَارِ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ ص۔

جابر کہتے ہیں: میں امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ: جو شخص سونے سے قبل مسبحات کی سورتوں (جن کی ابتدا میں سَبّحَ یا یُسَبِحُ ہے) کی تلاوت کرے وہ نہیں مرے گا حتی کہ ہمارے قائم (امام مہدی) علیہ السلام کا دور دیکھ لے اور اگر (ظہور سے قبل) مر جائے تو نبی اللہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہم نشین ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مأخذ:

اصول کافی جلد چهارم ـ كِتَابُ فَضْلِ الْقُرْآنِ۔

1۔ ص 399 حدیث 3۔

2۔ ص 400 حدیث 4۔

3۔ ص 400 حدیث 5۔

4۔ ص 400 حدیث 6۔

5۔ ص 400 حدیث 7۔

6۔ ص 401 حدیث9۔

7۔ ص 403 حدیث 13۔

8۔ ص 404 حدیث 1۔

9۔ ص 405 حدیث 2۔

10۔ ص 408 حدیث 8۔

11۔ ص 408 حدیث 9۔

12۔ ص 409 حدیث 11۔

13۔ ص 409 حدیث 1۔

14۔ ص 409 حدیث 2۔

15۔ ص 409 حدیث 3۔

16۔ ص 410 حدیث 2۔

17۔ ص 411 حدیث 3۔

18۔ ص 411 حدیث 5۔

19۔ ص 412 حدیث 1۔

20۔ ص 412 حدیث 2۔

21۔ ص 413 حدیث 2۔

22۔ ص 414 حدیث 2۔

23۔ ص 417 حدیث 7۔

24۔ ص 417 حدیث 1۔

25۔ ص 417 حدیث 2۔

26۔ ص 417 حدیث 3۔

27۔ ص 434 حدیث 22۔

28۔ ص 418 حدیث 5۔

29۔ ص 429 حدیث 13۔

30۔ ص 427 حدیث 7۔

31۔ ص 428 حدیث 10۔

32۔ ص 428 حدیث 11

33۔ ص 422 حدیث 4۔

34۔ ص 420 حدیث 10۔

35۔ ص 420 حدیث 11۔

36۔ ص 420 حدیث 12۔

37۔ ص 422 حدیث 1۔

38۔ ص 422 حدیث 3۔

39۔ ص 424 حدیث 1۔

40۔ ص 426 حدیث 3۔

چالیس حدیثیں   (میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

چالیس حدیثیں

میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق



ترجمہ و ترتیب: اسد عباس اسدی



میاں بیوی کے درمیان عشق و محبت پیدا کرنے والے عوامل میں سے ایک مہم عامل اظہار محبت ہے ہو سکتا ہے وہ لوگ جن کے دل میں اپنی شریک حیات کے لیے بے پناہ محبت ہو لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کر پاتے۔ سورہ روم کی آیت نمبر 21 میں اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان محبت اور باہمی الفت کے اصول کا تذکرہ کیا ہے

وَمِنْ اٰيَاتِهٓ ٖ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُـوٓا اِلَيْـهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْـمَةً ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ۔

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تمہارے لیے تمہیں میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ ان کے پاس چین سے رہو اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی، جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔

میاں بیوی کا ایک دوسرے کیلئے پیار بھرے جملات کا اظہار بہت سارے شکوک و شبہات کو ختم کرتا ہے اور ان کے درمیان محبت کو بڑھاتا ہے آئمہ معصومین علیہم السلام نے بھی میاں بیوی کےایک دوسرے سے محبت کے اظہار پر تاکید کی ہےاور آپ علیہم السلام کی سیرت میں ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی اپنی بیوی کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کی بیوی اس کی طرف پیار کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آج اکثر فیملیوں کی سب سے بڑی مشکل ان کی زندگیوں میں صحیح مدیریت کا نہ ہونا ہے ، بہت سےتنازعات اور چیلنجز جو کہ خاندانوں کے ٹوٹنے کا سبب بنتے ہیں ، گھرداری میں آئیڈیل نمونہ نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں،اس لئے مناسب سمجھا کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں گھرداری کے چند اصول قارئین کی خدمت میں پیش کریں ۔

واضح رہے کہ پہلی 20 احادیث "شوہر کا بیوی کے ساتھ اخلاق" سے متعلق ہیں اور آخری 20 احادیث "بیوی کا ساتھ شوہر کے ساتھ اخلاق" سے متعلق ہیں۔



شوہر کا بیوی کے ساتھ اخلاق

زیادہ اظهار محبت (زیادہ ایمان)

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

کُلَّ مَا ازدادَ العَبدُ إیمانَاً اِزدادَ حُبّاً لِلنِّسآءِ [1]

جس قدر بندے کا ایمان بڑھتا ہے اتنا ہی اس کی عورتوں سے محبت بڑھتی جاتی ہے۔



اہل بیت علیہم السلام سے محبت کرنے والا اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے

امام جعفر صادق علیه السلام نے فرمایا:

کُلُّ مَنِ اشتَدَّ لَنا حُبّاً اشتَدَّ لِلنِّساءِ حُبّاً [2]

جو ہم سے جتنی زیادہ محبت کرتا ہے (اہل بیت علیہم السلام)، وہ اپنی عورتوں (اپنی بیوی) سے بھی اتنی زیادہ محبت کرتا ہے۔



زندگی کی پاکیزگی یہاں ہے

امیرالمؤمنین حضرت علی علیه السلام نے فرمایا:

فَدارِها عَلی کُلِّ حالٍ وَ أحسِنِ الصُّحبَةَ لَها فَیَصفُو عَیشُکَ [3]

اپنی بیوی کے ساتھ ہمیشہ تسامح کرو، اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرو تاکہ تمہاری زندگی پاکیزہ ہو۔



تکبر اور غصہ سے پرہیز کریں

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

خَیرُ الرِّجالِ مَن اُمَّتِی اَلَّذِینَ لایَتطاوَلُونَ عَلی أهلِیهِم وَ یحنُونَ عَلَیهِم وَ لا یَظلِمُونَهُم [4]

میری امت کے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ سختی اور تکبر نہیں کرتے اور ان پر رحم کرتے ہیں اور ان کی پرواہ

کرتے ہیں اور انہیں تکلیف نہیں دیتے ہیں۔



تھپڑ، کبھی نہیں!

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

فَأیُّ رَجُلٍ لَطَمَ امرَأَتَهُ لَطمَةً، أمَرَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ مالِکَ خازِنَ النِّیرانِ فَیَلطِمُهُ عَلی حَرَّ وَجهِهِ سَبعِینَ لَطمَةً فِی نارِ جَهَنَّمَ [5]

جو اپنی بیوی کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے، اللہ تعالیٰ جہنم کے دربان کو حکم دیتا ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں اس کے منہ پر ستر مرتبہ تھپڑ مارے۔



میں تم سے پیار کرتا ہوں

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

قَولُ الرَّجُلِ لِلمَرأَةِ إنِّی اُحِبُّکَ لا یَذهَبُ مِن قَلبِها أبَداً [6]

ایک مرد کا اپنی بیوی کو یہ کہنا "میں تم سے پیار کرتا ہوں" عورت کے دل سے کبھی نہیں نکلتا ۔



بیوی کی دینی اور دنیاوی خوشی فراہم کرنا

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

لِلمَرأَةِ عَلی زَوجِها أن یُشبِعَ بَطنَها، وَ یَکسُو ظَهرَها، وَ یُعَلِّمهَا الصَّلاةَ وَ الصَّومَ وَ الزَّکاةَ إن کانَ فِی مالِها حَقٌّ، وَ لاتُخالِفَهُ فِی ذلِکَ [7]

عورت کا اپنے شوہر پر حق یہ ہے کہ وہ اسے کھانا کھلائے، لباس پہنائے، اسے نماز، روزہ اور زکوٰۃ سکھائے، اگر عورت کے مال میں زکوٰۃ کا حق ہے تو عورت بھی ان چیزوں میں مرد کی مخالفت نہ کرے۔



یہ خدا کی راہ میں جہاد ہے

امام رضا علیه السلام نے فرمایا :

اَلکآدُّ عَلی عِیالِهِ مِن حِلٍّ کَالمُجاهِدِ فِی سَبِیلِ اللهِ [8]

جو شخص حلال ذرائع سے اپنے گھر والوں کی بھلائی کے لیے کوشش کرتا ہے وہ اس مجاہد کی طرح ہے جو خدا کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔



کیا آپ بھی تحائف خریدتے ہیں؟

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

مَن دَخَلَ السُّوقَ فَاشتَرَی تُحفَةً فَحَمَلَها إلَی عِیالِهِ کانَ کَحامِلِ صَدَقَةٍ إلَی قَومٍ مَحاوِیجَ وَ لیَبدَأ بِالإناثِ قَبلَ الذُّکُورِ فَإنَّ مَن فَرَّحَ اِبنَتَهُ فَکَأنَّما اعتَقَ رَقَبَةً مِن وُلدِ إسماعِیلَ وَ مِن اَقَرَّ بِعَینِ ابنٍ فَکَاَنَّما بَکَی مِن خَشیَةِ اللهِ وَ مَن بَکَی مِن خَشیَةِ اللهِ أدخَلَهُ اللهُ جَنّاتِ النَّعِیمِ [9]

جو بازار جا کر اپنے اہل و عیال کے لیے تحفہ خرید کر لے جاتا ہے تو اس کا ثواب اس شخص کی طرح ہے جو مسکین کو صدقہ کرتا ہے۔ اور جب وہ تحفہ گھر لے جائےتو لڑکوں سے پہلے لڑکیوں کو دے کیونکہ اپنی بیٹی کو خوش کرنے والا ایسا ہے جس نے بنی اسماعیل میں سے ایک غلام آزاد کیا۔ اور جو شخص بیٹے کو گفٹ دے کر اسے خوش کر دے تو گویا وہ خوف خدا سے رویا اور جو شخص خوف خدا سے روئے تو خدا اسے جنت کی نعمتوں میں داخل فرمائے گا ۔



بازار اور گوشت کی خریداری

امام سجاد علیه السلام نے فرمایا :

لِان اَدخُلُ السُّوقَ وَ مَعِی دِرهَمٌ اَبتاعُ بِهِ لَحماً لِعِیالِی وَ قَد قرمُوا إلَیهِ أحَبُّ إلَیَّ مِن أن اَعتِق نَسَمَةً [10]

میرےنزدیک بازار جا کر اپنے گھر والوں کے لیے ایک درہم کا گوشت خریدنا، جو گوشت کی خواہش رکھتے ہیں، غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔



سوغات مت بھولیں

امام صادق علیه السلام نے فرمایا :

اِذا سافَرَ اَحَدُکُم فَقَدِمَ مِن سَفَرِهِ فَلیَأتِ اَهلَهُ بِما تَیَسَّرَ [11]

جب بھی تم میں سے کوئی سفر پر جائے توواپسی پر اپنے گھر والوں کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق تحائف لے کر آئے۔



کیا آپ اس کے لیے میک اپ کرتے ہیں؟

امام باقر علیه السلام نے فرمایا :

النِّسآءُ یُحبِبنَ اَن یَرَینَ الرَّجُلَ فِی مِثلِ ما یُحِبُّ الرَّجُلُ اَن یَرَی فِیهِ النِّسآءَ مِنَ الزِّینَةِ [12]

جس طرح مرد اپنی عورتوں میں زینت اور میک اپ دیکھنا پسند کرتے ہیں اسی طرح عورتیں بھی اپنے مردوں میں زیب و زینت دیکھنا پسند کرتی ہیں۔



گھر کو گرم رکھیں

امام رضا علیه السلام نے فرمایا :

بَنبَغِی لِلمُؤمِنِ اَن یَنقُصَ مِن قُوتِ عِیالِهِ فِی الشِّتآءِ وَ یَزِیدَ فِی وقُودِهِم [13]

مومن کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ سردیوں میں اپنے اہل و عیال کے اخراجات کو کم کرے اور ان کے سردی سے بچنے کا سازوسامان خریدے ۔



عید بیاہ پر فیملی کو خوش رکھنا

راوی کہتا ہے میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا: عورت کا خاوند پر کیا حق ہے؟

تو حضرت نے فرمایا:

وَ لاتَکُونُ فاکِهَةٌ عامَّةٌ اِلّا اَطعَمَ عِیالَهُ مِنها وَ لایَدَعُ اَن یَکُونَ لِلعِیدِ عِندَهُم فَضلٌ فِی الطَّعامِ وَ اَن یسنی لَهُم فِی ذلِکَ شَیءٌ ما لَم یسن لَهُم فِی سآئِرِ الاَیّامِ ۔ [14]

ہر وہ پھل جسے تمام لوگ کھائیں، مرد کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر والوں کو کھلائے اور عید کے دنوں میں عام روٹین سے اضافی اہتمام کرے، اور وہ چیزیں مہیا کرے جو عام دنوں میں نہیں دیتا تھا۔



تہمت اور بدگمانی کبھی نہیں

امام صادق علیه السلام نے فرمایا :

لا تَقذِفُوا نِسآءَکُم فَاِنَّ فِی قَذفِهِنَّ ندامَةً طَوِیلَةً وَ عُقُوبَةً شَدِیدَةً [15]

اپنی بیویوں پر تہمت مت لگائیں ، کیونکہ ایسا کرنے سے (تمہارے لیے) طویل پشیمانی اور سخت عذاب ہو گا۔



خدا کرے آپ آئیں

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

هَلَکَ بِذِی المُرُوَّةِ اَن یَبِیتَ الرَّجُلُ عَن مَنزِلِهِ بِالمِصرِ الَّذِی فِیهِ اَهلُهُ [16]

یہ مرد کی جوان مردی سے بعید ہے کہ وہ اسی شہر میں ہو جہاں اس کی فیملی ہے اور وہ فیملی کو چھوڑ کر کہیں اور جا سوئے۔



گھر میں داخل ہونے کے آداب

امام صادق علیه السلام نے فرمایا :

یُسَلِّمُ الرَّجُلُ اِذا دَخَلَ عَلی اَهلِهِ وَ اِذا دَخَلَ یَضرِبُ بِنَعلَیهِ وَ یَتَنَحنَحُ یَصنَعُ ذلِکَ حَتَّی یُؤذِنهُم اَنَّهُ قَد جآءَ حَتَّی لا یَرَی شَیئاً یَکرَهُهُ [17]

جب آدمی اپنے گھر والوں سے ملے تو اسے سلام کرنا چاہیے اور جب گھر میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں کو اپنے جوتوں کی آواز سے اور کھانستے ہوئے اطلاع دے، تاکہ اسے کوئی ایسی چیز نظر نہ آئے جو اسے ناگوار گزرے۔



بیوی کے پاس بیٹھنا

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

جُلُوسُ المَرءِ عِندَ عِیالِهِ اَحَبُّ اِلَی اللهِ تَعالی مِن اعتِکافٍ فِی مَسجِدِی هذا [18]

ایک آدمی کا اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھنا اللہ کو میری اس مسجد میں اعتکاف بیٹھنے سے زیادہ محبوب ہے۔



کبھی اس کے منہ میں نوالہ دیا ہے؟

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

اِنَّ الرَّجُلَ لَیُؤجَرُ فِی رَفعِ اللُّقمَةِ اِلی فِیِّ اِمرَاَتِهِ [19]

مرد کو اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنے کا ثواب ملتا ہے۔



نہ تھپڑ ماریں اور نہ چیخیں چلائیں!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شوہر پر عورت کے حق کے بارے میں فرمایا:

حَقُّکِ عَلَیهِ اَن یُطعِمُکِ مِمّا یَأکُلُ وَ یَکسُوکِ مِمّا یَلبَسُ وَ لایَلطِمُ وَ لایَصِیحُ فِی وَجهِکِ [20]

تیرےشوہر پر تیرا حق یہ ہے کہ وہ جو کھائے اس میں سے تجھے بھی کھلائے، اور جو پہنتا ہے اس سے تجھے بھی پہنائے ، اور نہ تھپڑ مارے اور نہ چیخے چلائے۔



عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ اخلاق

اطاعت کا زیور گردن میں ڈالے

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

اِنَّ لِلرَّجُلِ حَقّاً عَلَی امرَأَتِهِ اِذا دَعاها تُرضِیهِ وَ اِذا أمَرَها [21] لاتَعصِیهِ وَ لاتُجاوِبهُ بِالخلافِ و لاتُخالِفهُ [22]

مرد کا اپنی بیوی پر حق ہے کہ اگر وہ اسے پکارے تو جواب دے اور جب وہ اسے کوئی حکم دے تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے اور اس کی مخالفت نہ کرے۔



باران عشق و محبت

امام رضا علیه السلام نے فرمایا :

اِعلَم اَنَّ النِّسآءَ شَتّی فَمِنهُنَّ الغَنِیمَة وَالغَرامَة وَ هِیَ المُتَحَبِّبَةُ لِزَوجِها وَالعاشِقَةُ لَهُ ...[23]

جان لو کہ عورتوں کی مختلف قسمیں ہیں، ان میں سے بعض بہت قیمتی سرمایہ اور انعام ہیں اور یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے شوہروں سے محبت کرتی ہیں اور ان سے عشق کرتی ہیں ۔



رضایت و شفاعت

امام باقر علیه السلام نے فرمایا:

لا شَفِیعَ لِلمَرأةِ أنجَحُ عِندَ رَبِّها مِن رِضا زَوجِها [24]

عورت کے لیے اس کے رب کے ہاں کوئی سفارشی اس کے شوہر کی رضا سے زیادہ فائدہ مند نہیں۔



پیار کی خوشبو

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

لِلرَّجُلِ عَلَی المَرأةِ أن تَلزِمَ بَیتَهُ وَتُوَدِّدَهُ وَتُحِبَّهُ وَتُشفِقَهُ وَتَجتَنِبَ سَخَطَهُ وَتَتَبَّعَ مَرضاتَهُ وَتُوفِیَ بِعَهدِهِ وَوَعدِهِ [25]

عورت پر مرد کا حق یہ ہے کہ عورت مرد کا گھر سنبھالے ، اپنے شوہر سے دوستی، محبت اور ہمدردی کا مظاہرہ کرے، اس کے غصے سے بچے، اور وہ کرے جو اسے پسند ہو، اور اس کے عہد اور وعدے کی وفادار ہو۔



امام صادق علیه السلام نے فرمایا :

أیُّمَا امرَأَةٍ قالَت لِزَوجِها: ما رَأَیتُ قَطُّ مِن وَجهِکَ خَیراً فَقَد حَبِطَ عَمَلُها [26]

اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے کہے: میں نے تم سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی تو اس کے کام کا سارا اجر ضائع ہو جائے گا۔



بہترین بیویاں

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

خَیرُ نِسائِکُم اَلوَدُودُ الوَلُودُ المُؤاتِیَةُ وَ شَرُّها اللَّجُوجُ [27]

تمہاری عورتوں میں سب سے اچھی عورت وہ ہے جو محبت کرنے والی، بچہ پیدا کرنے والی اور موافقت کرنے والی ہو اور سب سے بری عورت وہ ہے جوضد کرنے والی ہو۔



شوہر کو کبھی ناراض نہ کریں۔

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

طُوبَی لِاِمرَأةٍ رَضِیَ عَنها زَوجُها [28]

خوش نصیب ہے وہ عورت جس کا شوہر اس سے خوش ہو۔



تکلیف نہ دیں

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

مَن کانَ لَهُ اِمرأَةٌ تُؤذِیهِ لَم یَقبَلِ اللهُ صَلاتَها وَلا حَسَنَةً مِن عَمَلِها حَتّی تُعِینَهُ وَتُرضِیَهُ وَاِن صامَتِ الدَّهرَ وَقامَت وَاَعتَقَتِ الرِّقابَ وَاَنفَقَتِ الاَموالَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَکانَت اَوَّل مَن تَرِدُ النّارَ ثُمَّ قالَ: وَعَلَی الرَّجُلِ مِثلَ ذلِکَ الوِزرُ وَالعَذابُ اِذا کانَ لَها مُؤذِیاً ظالِماً [29]

جس شخص کی بیوی ایسی ہو جو اسے تکلیف پہنچاتی ہو، اللہ تعالیٰ اس عورت کی دعائیں اور نیکیاں اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ مرد کی مدد نہ کرے اور اسے راضی نہ کرے، خواہ یہ عورت ساری عمر روزے رکھے اور نماز پڑھے اورغلام آزاد کرے ۔یہ عورت جہنم کی آگ میں داخل ہونے والی پہلی ہوگی ۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مرد پر بھی اتنا ہی گناہ اور سزا ہے اگر وہ اپنی بیوی کو تکلیف دے اور اس پر ظلم کرے۔



تم اسے اداس کیسے دیکھ سکتے ہو؟

امام صادق علیه السلام نے فرمایا :

سَعِیدةٌ سَعِیدَةٌ اِمرَأَةٌ تُکرِمُ زَوجَها وَلا تُؤذِیهِ وَتُطِیعُهُ فِی جَمِیعِ اَحوالِهِ [30]

مبارک ہے وہ عورت جو اپنے شوہر کی عزت کرتی ہے اور اسے نقصان نہیں پہنچاتی اور ہمیشہ اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے۔



معقول ممکن توقعات

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

لا یَحِلُّ لِلمَرأَةِ اَن تُکَلِّفَ زَوجَها فَوقَ طاقَتِهِ [31]

عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کو اس کی استطاعت سے زیادہ کرنے پر مجبور کرے۔



مہمان، شوہر کی اجازت سے

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

اَیُّهَا النّاسُ اِنَّ لِنِسآئِکُم عَلَیکُم حَقّاً وَلَکُم عَلَیهِنَّ حَقّاً حَقُّکُم عَلَیهِنَّ [اَن] لا یُدخِلنَ اَحَداً تَکرَهُونَهُ بُیُوتَکُم اِلاّ بِاِذنِکُم [32]

لوگو! تمہاری بیویوں کا تم پر حق ہے اور تمہارا بھی ان پر حق ہے۔ ان پر آپ کا حق یہ ہے کہ آپ جس کے آنے سے راضی نہیں انہیں اپنے گھر میں داخل نہ ہونے دے۔



خوش آمدیدبھی کہیں اور رخصت بھی کریں

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

جاءَ رَجُلٌ اِلی رَسُولِ اللهِ (ص) فَقالَ: اِنَّ زَوجَةً لِی اِذا دَخَلتُ تَلَقَّتنِی وَ اِذا خَرَجتُ شَیَّعَتنِی وَ اِذا رَأَتنِی مَهمُوماَ قالَت لِی: وَ مایُهِمُّکَ؟ اِن کُنتَ تَهتَمُّ لِرِزقِکَ فَقَد تَکَفَّلَ لَکَ بِهِ غَیرُکَ، وَ اِن کُنتَ تَهتَمّ لِاَمرِ آخِرَتِکَ فَزادَکَ اللهُ هَمَّاً. فَقالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله علیه و آله: اِنَّ لِلّهِ عُمّالاً وَ هذِهِ مِن عُمّالِهِ لَها نِصفُ أَجرِ الشَّهِیدِ [33]

ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میری ایک بیوی ہے جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو وہ مجھے سلام کرتی ہے اور جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو وہ مجھے خدا حافظ کہتی ہے اور جب مجھے پریشان دیکھتی ہےتو کہتی ہے: اگر آپ رزق کے لیے پریشان ہیں تو جان لیں کہ اللہ نے اس کا وعدہ لیا ہے اور اگر آپ اپنی آخرت کے لیے پریشان ہیں تو اللہ آپ کو مزید توفیق دے [اور آخرت کے بارے میں مزید سوچیں] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا:ان لله عمالا و هذه من عماله لها نصف اجر الشهید۔ (زمین پر)خدا کے نمائندے ہیں اور یہ عورت خدا کے نمائندوں میں سے ہے جس کا اجر شہید کے نصف اجر کے برابر ہے ۔



ایسے کاموں میں مدد

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

اَیُّمَا امرَأَةٍ اَعانَت زَوجَها عَلَی الحَجِّ وَالجهادِ اَو طَلَبِ العِلمِ اَعطاهَا اللهُ مِنَ الثَّوابِ ما یُعطَی امرَاَةُ اَیُّوبَ علیه السلام [34]

جو عورت حج، جہاد اور حصول علم میں اپنے شوہر کی مدد کرے گی، اللہ تعالیٰ اسے بھی وہی اجر دے گا جو حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی کو دیا تھا۔



بهشت خدا میں ایک شہر

امام صادق علیه السلام نے فرمایا :

ما مِن اِمرَأَةٍ تَسقِی زَوجَها شَربَةً مِن مآءٍ اِلّا کانَ خَیراً لَها مِن عِبادَةِ سَنَةٍ صِیامٌ نَهارُها وَقِیامٌ لَیلُها وَ یَبنِی اللهُ لَها بِکُلِّ شَربَةٍ تَسقِی زَوجَها مَدِینَةً فِی الجَنَّةِ وغَفَرَ لَها سِتِّینَ خَطِیئَةً [35]

جو عورت اپنے شوہر کو پانی پلائے وہ اس کے لیے سال بھر کی عبادت سے بہتر ہے ایسی عبادت کہ دنوں میں روزے رکھے اور راتوں میں عبادت کرے۔ اور اس کا شوہر جتنا پانی پیتا ہے اس کے بدلے خدا اسے جنت میں ایک شہر بنائے گا اور اس کے ساٹھ گناہ معاف کر دے گا۔



شریک حیات کی نفسیاتی حفاظت کو یقینی بنانا

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

حَقُّ الرَّجُلِ عَلَی المَراة اِنارَةُ السِّراجِ وَاِصلاحُ الطَّعامِ وَاَن تَستَقبِلَهُ عِندَ بابِ بَیتِها فَتُرَحِّبَ وَاَن تُقَدِّمَ اِلَیهِ الطَّستَ وَالمِندِیلَ وَاَن تُوَضِّئَهُ وَاَن لاتَمنَعَهُ نَفسَهآ اِلّا مِن عِلَّةٍ [36]

عورت پر مرد کا حق یہ ہے کہ وہ اس کے گھر کو روشن کرے، اچھا کھانا بنائے اورمرد جب باہر سے آئے تو اسے دروازے پر جا کر سلام کرے۔ اور اس کے لیے پانی کا ایک برتن اور ایک تولیہ لا کر اس کے ہاتھ دھلائے ۔ اور شوہر کو بلاوجہ اپنے سے نہ روکے۔



خدا کی رحمت ان خواتین پر

امام صادق علیه السلام ،پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم سے روایت کرتے ہیں :

اَیُّمَا امرَأَةٍ دَفَعَت مِن بَیتِ زَوجِها شَیئاً مِن مَوضِعٍ اِلی مَوضِعٍ تُرِیدُ بِهِ صَلاحاً نَظَرَ اللهُ اِلَیها وَمَن نَظَرَ اللهُ اِلَیهِ لَم یُعَذِّبهُ

جو عورت اپنے شوہر کے گھر کو منظم کرنے کے لیے اور بہتر کرنے کیلئے سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھتی ہے، خداوند متعال اس پر رحمت کی نظر کرے گا اور جس پر خدا نظر کرم کرتا ہے اسے سزا نہیں دیتا۔



اچھی خوشبو ، خوبصورت لباس، بہترین زیور

پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا:

عَلَیها اَن تُطَیِّبَ بِاَطیَبَ طِیبِها وَتَلبِسَ احسَنَ ثِیابِها وَتَزَیَّنَ بِاحسَنِ زِینَتِها [37]

عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کے لیے بہترین خوشبو لگائے ، خوبصورت کپڑے پہنے، اور خوبصورت زیورات کا استعمال کرے۔



مثالی بیوی

امام صادق علیه السلام نے فرمایا :

خَیرُ نِسآئِکُم الطَیِّبَةُ الرِّیحُ الطَیِّبَةُ الطَبِیخُ الَّتِی اِذا اَنفَقَت اَنفَقَتْ بِمَعرُوفٍ وَاِن اَمسَکَتْ اَمسَکَت بِمَعرُوفٍ فَتِلکَ عامِلٌ مِن عُمّالِ اللهِ وَ عامِلُ اللهِ لایَخِیبُ وَلایَندُمُ [38]

آپ کی بہترین خواتین وہ ہیں جو اچھی خوشبو لگائیں، بہترین کھانا پکانے کی مہارت رکھتی ہوں اور جب خرچ کریں تو صحیح خرچ کریں اور جب خرچ نہ کریں توبھی صحیح خرچ نہ کریں ۔ ایسی عورت خدا کے نمائندوں میں سے ہے اور خدا کے نمائندے نہ مایوس ہوتے ہیں اور نہ ہی پشیمان ہوتے ہیں



پیغمبر گرامی اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا :

اِنَّ مِن خَیرِ نِسآئِکُم . . . المُتَبَرِّجَةُ مِن زَوجِها الحِصانُ عَن غَیرِهِ [39]

تمہاری عورتوں میں سب سے بہتر وہ عورت ہے جو اپنے شوہر کے لیے بناؤ سنگھار کرتی ہے لیکن دوسروں سے اپنے آپ کو چھپاتی ہے۔



امام صادق علیه السلام نے فرمایا :

خَیرُ نِسائِکُمُ الَّتِی اِن اُعطِیَتْ شَکَرَتْ وَاِن مُنِعَتْ رَضِیَتْ [40]

تمہاری عورتوں میں سے بہترین عورت وہ ہے جو کچھ ملنےپر شکر گزار ہو اور نہ ملنے پر راضی ہو۔



وما علینا الا البلاغ المبین













[1] ۔ بحار الانوار، ج 103، ص 228

[2] ۔ همان، ج 103، ص 227

[3] ۔ مکارم الاخلاق، ص 218

[4] ۔ همان، ص 216

[5] ۔ مستدرک الوسائل، ج 14، ص 250

[6] ۔ وسائل الشیعة، ج 14، ص 10

[7] ۔ مستدرک الوسائل، ج 14، ص 243

[8] ۔ بحارالانوار، ج 104، ص 72

[9] ۔ وسائل الشیعة، ج 15، ص 227

[10] ۔ همان، ج 15، ص 251

[11] ۔ همان، ج 8، ص 337

[12] ۔ مکارم الاخلاق، ص 80

[13] ۔ وسائل الشیعة، ج 15، ص 249

[14] ۔ همان، ج 15، ص 227

[15] ۔ بحارالانوار، ج 103، ص 249

[16] ۔ وسائل الشیعة، ج 14، ص 122

[17] ۔ بحارالانوار، ج 76، ص 11

[18] ۔ میزان الحکمة، ج 4، ص 287

[19] ۔ المحجة البیضاء، ج 3، ص 70

[20] ۔ مکارم الاخلاق، ص 218

[21] ۔ البتہ شوہر کا حکم اسلام کے منافی نہ ہو

[22] ۔ مستدرک الوسائل، ج 14، ص 243

[23] ۔ همان، ج 14، ص 161

[24] ۔ سفینة البحار، ج 1، ص 561

[25] ۔ مستدرک الوسائل، ج 14، ص 244

[26] ۔ وسائل الشیعة، ج 14، ص 115

[27] ۔ مستدرک الوسائل، ج 14، ص 162

[28] ۔ وسائل الشیعة، ج 14، ص 155

[29] ۔ همان، ج 14، ص 116

[30] ۔ بحارالانوار، ج 103، ص 252

[31] ۔ مستدرک الوسائل، ج 14، ص 242

[32] ۔ بحارالانوار، ج 76، ص 348

[33] ۔ وسائل الشیعه، ج 14، ص 17

[34] ۔ همان، ص 201

[35] ۔ وسائل الشیعة، ج 14، ص 123

[36] ۔ مستدرک الوسائل، ج 14، ص 254

[37] ۔ وسائل الشیعة، ج 15، ص 175

[38] ۔ الکافی، ج 5، ص 508 .

[39] ۔ وسائل الشیعة، ج 14، ص 15

[40] ۔ بحارالانوار، ج 103، ص 235

خطبہ شعبانیہ 

خطبہ شعبانیہ

عَنِ الرِّضَا عَنْ آبَائِهِ عَنْ عَلِیٍّ علیه السلام قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله خَطَبَنَا ذَاتَ یَوْمٍ فَقَالَ

امام علیؑ سے منقول ہے کہ شعبان المعظم کے مہینے کے آخری دنوں میں پیغمبر خدا ۖ نے صحابہ کے اجتماع سے خطاب کیا اور فرمایا۔

أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَیْكُمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَیَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَیَّامِ وَ لَیَالِیهِ أَفْضَلُ اللَّیَالِی وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَاتِ.

اے لوگو خدا کا برکت ، رحمت اور مغفرت سے بھرپور مہینہ آرہا ہے ، یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو تمام مہینوں سے بہتر ہے اس کے دن تمام دنوں سے بہتر اور اس کی راتیں تمام راتوں سے بہتر ہیں اس کے ساعات ولحظات تمام ساعات ولحظات سے افضل ہیں ۔

هُوَ شَهْرٌ دُعِیتُمْ فِیهِ إِلَى ضِیَافَةِ اللَّهِ وَ جُعِلْتُمْ فِیهِ مِنْ أَهْلِ كَرَامَةِ اللَّهِ أَنْفَاسُكُمْ فِیهِ تَسْبِیحٌ وَ نَوْمُكُمْ فِیهِ عِبَادَةٌ وَ عَمَلُكُمْ فِیهِ مَقْبُولٌ وَ دُعَاؤُكُمْ فِیهِ مُسْتَجَابٌ فَاسْأَلُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ بِنِیَّاتٍ صَادِقَةٍ وَ قُلُوبٍ طَاهِرَةٍ أَنْ یُوَفِّقَكُمْ لِصِیَامِهِ وَ تِلَاوَةِ كِتَابِهِ فَإِنَّ الشَّقِیَّ مَنْ حُرِمَ غُفْرَانَ اللَّهِ فِی هَذَا الشَّهْرِ الْعَظِیمِ

یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں اللہ کے یہاں دعوت دی گئی ہے اور تم لوگ کرامت خدا کے مہمان قرار پائے ہو، اس مہینے میں تمہارا سانس لیناتسبیح اور سونا عبادت ہے اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں ۔ لہذا تم سب کو اس مہینے میں نیک اور سچی نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ اللہ سے سوال کرنا چاہئے کہ تمہیں اس مہینے کے روزہ رکھنے اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی توفیق عنایت کرے ، کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس بابرکت مہینے میں غفران الہیٰ سے محروم رہا ۔

وَ اذْكُرُوا بِجُوعِكُمْ وَ عَطَشِكُمْ فِیهِ جُوعَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَ عَطَشَهُ وَ تَصَدَّقُوا عَلَى فُقَرَائِكُمْ وَ مَسَاكِینِكُمْ وَ وَقِّرُوا كِبَارَكُمْ وَارْحَمُواصِغَارَكُمْ وَ صِلُوا أَرْحَامَكُمْ واحْفَظُوا أَلْسِنَتَكُمْ وَ غُضُّوا عَمَّا لَا یَحِلُّ النَّظَرُ إِلَیْهِ أَبْصَارَكُمْ وَ عَمَّا لَا یَحِلُّ الِاسْتِمَاعُ إِلَیْهِ أَسْمَاعَكُمْ وَ تَحَنَّنُوا عَلَى أَیْتَامِ النَّاسِ یُتَحَنَّنْ عَلَى أَیْتَامِكُمْ

اس مہینے میں روزے کی وجہ سے جو تمہیں پیاس اور بھوک لگتی ہے ، اس سے قیامت کے دن کی پیاس اور بھوک کو یاد کرو ، غریب اور تنگ دست لوگوں کو صدقہ دو بزرگوں کا احترام کرو، چھوٹوں پر رحم کرو اور رشتہ داروں سے صلہ رحم کرو، اپنی زبانوں کو ہر قسم کی برائی سے بچاؤ اور اپنی نگاہوں کو ان چیزوںکی طرف دیکھنے سے بچاؤ جنہیں دیکھنا جائز نہیں ( حرام ہے ) اور اپنے کانوں کو ایسی آوازوں سے بچاؤکہ جنہیں سننا حرام ہے، اور لوگوں کے یتیم بچوں سے ہمدردی اور مہربانی کا برتاؤ کرو، جس طرح تم اپنے یتیموں کے لئے مہربانی چاہتے ہو۔

وَ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَ ارْفَعُوا إِلَیْهِ أَیْدِیَكُمْ بِالدُّعَاءِ فِی أَوْقَاتِ صَلَاتِكُمْ‏فَإِنَّهَا أَفْضَلُ السَّاعَاتِ یَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِیهَا بِالرَّحْمَةِ إِلَى عِبَادِهِ یُجِیبُهُمْ إِذَا نَاجَوْهُ وَ یُلَبِّیهِمْ إِذَا نَادَوْهُ وَ یُعْطِیهِمْ إِذَا سَأَلُوهُ وَ یَسْتَجِیبُ لَهُمْ إِذَا دَعَوْهُ أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَنْفُسَكُمْ مَرْهُونَةٌ بِأَعْمَالِكُمْ فَفُكُّوهَا بِاسْتِغْفَارِكُمْ وَ ظُهُورَكُمْ ثَقِیلَةٌ مِنْ أَوْزَارِكُمْ فَخَفِّفُوا عَنْهَا بِطُولِ سُجُودِكُمْ وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ أَقْسَمَ بِعِزَّتِهِ أَنْ لَا یُعَذِّبَ الْمُصَلِّینَ وَ السَّاجِدِینَ وَ أَنْ لَا یُرَوِّعَهُمْ بِالنَّارِ یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ.

اپنے گناہوں سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو اور اوقات نماز میں اپنے ہاتھوں کو اللہ کی طرف بلند کرو کیونکہ اوقات نماز بہترین اوقات ہیں کہ جس میں خدا وندعالم اپنے بندوں کی طر ف خاص رحمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اُس سے مناجات کریں تو جواب دیتا ہے اور اسے پکارے تو لبیک کہتا ہے اورجب اس سے کوئی چیز مانگیں اور دعا کریں تو اجابت کرتا ہے۔ اے لوگو، بے شک تمہارے نفس تمہارے اعمال کے گرو میں ہے ، تو اس کو استغفار اور طلب بخشش کے ذریعے رہائی دلاو ، اور تمہارے پشتیں گناہوں کے بار کی وجہ سے سنگین ہیں ، پس لمبے سجدوں کے ذریعے اس بار کو ہلکا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت وجلالت کی قسم کھائی ہے کہ وہ نمازی اور سجدہ کرنے والے کو عذاب نہ کرے اور آتش جہنم سے نہ ڈرائے جس دن سب کے سب اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے ( قیامت کے دن)۔

أَیُّهَا النَّاسُ مَنْ فَطَّرَ مِنْكُمْ صَائِماً مُؤْمِناً فِی هَذَا الشَّهْرِ كَانَ لَهُ بِذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ عِتْقُ نَسَمَةٍ وَ مَغْفِرَةٌ لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ، قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَیْسَ كُلُّنَا یَقْدِرُ عَلَى ذَلِكَ فَقَالَ ص اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشَرْبَةٍ مِنْ مَاء

اے لوگو! اگر تم میں سے کوئی اس مہینے میں کسی مؤمن روزہ دار کو افطار دے تو خدا وند اس کو اپنی راہ میں ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب دیتا ہے اور اس کے تمام گذشتہ گناہوں کو بخش دیتا ہے ( اس وقت آپ سے کہا گیا: یارسول اللہ ۖ ہم سب تو اس عمل کو انجام دینے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں تو رسول خدا ۖ نے فرمایا : اپنے کو آتش جہنم سے بچاؤ گرچہ نصف خرماسے ہی کیوں نہ ہو، اپنے کو جہنم کی آگ سے نجات دو گرچہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ ہو۔

أَیُّهَا النَّاسُ مَنْ حَسَّنَ مِنْكُمْ فِی هَذَا الشَّهْرِ خُلُقَهُ كَانَ لَهُ جَوَازاً عَلَى الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِیهِ الْأَقْدَامُ وَ مَنْ خَفَّفَ فِی هَذَا الشَّهْرِ عَمَّا مَلَكَتْ یَمِینُهُ خَفَّفَ اللَّهُ عَلَیْهِ حِسَابَهُ وَ مَنْ كَفَّ فِیهِ شَرَّهُ كَفَّ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ یَوْمَ یَلْقَاهُ وَ مَنْ أَكْرَمَ فِیهِ یَتِیماً أَكْرَمَهُ اللَّهُ یَوْمَ یَلْقَاهُ وَ مَنْ وَصَلَ فِیهِ رَحِمَهُ وَصَلَهُ اللَّهُ بِرَحْمَتِهِ یَوْمَ یَلْقَاهُ وَ مَنْ قَطَعَ فِیهِ رَحِمَهُ قَطَعَ اللَّهُ عَنْهُ رَحْمَتَهُ یَوْمَ یَلْقَاهُ

اے لوگو! تم میں سے جو کوئی اس مہینے میں اپنے اخلاق کو اچھا اور نیک کرے گا تو وہ آسانی سے پل صراط عبور کرے گا کہ جس دن لوگوں کے قدم میں لغزش ہوگی اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے ماتحت سے مدارا اور نرمی کرے گا تو خدا وند قیامت کے دن اس کے حساب میں نرمی کرے گا اوراگر کوئی اس مہینے میں دوسروں کو اپنی اذیت سے بچاتا رہے گا تو قیامت کے دن خدا اس کو اپنے غیض وغضب سے محفوظ رکھے گا۔ اور اگر کوئی اس مہینے میں کسی یتیم پر احسان کرے گا تو خدا وند قیامت کے دن اس پر احسان کرے گا اور کوئی اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحم کرے گا تو خداوند قیامت کے دن اس کو اپنی رحمت سے متصل کرے گا اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے قطع رابطہ کرے گا خداوند قیامت کے دن اس سے اپنی رحمت کو قطع کرے گا۔

وَ مَنْ تَطَوَّعَ فِیهِ بِصَلَاةٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بَرَاءَةً مِنَ النَّارِ وَ مَنْ أَدَّى فِیهِ فَرْضاً كَانَ لَهُ ثَوَابُ مَنْ أَدَّى سَبْعِینَ فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاهُ مِنَ الشُّهُورِ وَ مَنْ أَكْثَرَ فِیهِ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَیَّ ثَقَّلَ اللَّهُ مِیزَانَهُ یَوْمَ تَخِفُّ الْمَوَازِینُ وَ مَنْ تَلَا فِیهِ آیَةً مِنَ الْقُرْآنِ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِی غَیْرِهِ مِنَ الشُّهُورِ.

جو کوئی اس مہینے میں مستحب نماز بجالائے گا تو خداوند اس کو جہنم سے نجات دے گا اور جو کوئی اس مہینے میں ایک واجب نماز پڑھے گا تو اس کے لئے دوسرے مہینوں میں سترنمازیں پڑھنے کا ثواب دے گا اور جوکوئی اس مہینے میں مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجے گا خدا وند قیامت کے دن کہ جس دن لوگوں کے اعمال کا پلڑا بلکا ہوگا اس کے نیک اعمال کے پلڑے کو سنگین کرے گا اور جو کوئی اس مہینے میں قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا، اس کو دوسرے مہینوں میں ختم قرآن کرنے کا ثواب ملے گا ۔

أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَبْوَابَ الْجِنَانِ فِی هَذَا الشَّهْرِ مُفَتَّحَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا یُغَلِّقَهَا عَنْكُمْ وَ أَبْوَابَ النِّیرَانِ مُغَلَّقَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا یُفَتِّحَهَا عَلَیْكُمْ وَالشَّیَاطِینَ مَغْلُولَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا یُسَلِّطَهَا عَلَیْكُمْ.

اے لوگو یقینا اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دئے گئے ہیں اپنے پرودگار سے درخواست کرو کہ اس کو تمہارے اوپر بند نہ کرے اور جہنم کے دروازے اس مہینے میں بند کردئے گئے ہیں اپنے پرودگار سے درخواست کرو کہ تمہارے لئے ان کو نہ کھولے اور شیاطین اس مہینے میں باندھے گئے ہیں اپنے رب سے درخواست کرو کہ ان کو تمہارے اوپر مسلط نہ کرے ۔

قَالَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ علیه السلام فَقُمْتُ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِی هَذَا الشَّهْرِ؟ فَقَالَ یَا أَبَا الْحَسَنِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِی هَذَا الشَّهْرِ الْوَرَعُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ.

امیر المؤمنین علی ـ فرماتے ہیں : پس میں کھڑا ہوا اور عرض کیا یارسول للہ ۖ اس مہینے میں سب سے بہترین عمل کیا ہے ؟ فرمایا: اے ابوالحسن اس مہینے میں بہترین عمل محرمات الہی سے پرہیز کرنا ہے ۔

ثمّ بَکَی، فَقلتُ: یا رسولَ¬اللهِ ما یَبکِیکَ؟فقالَ یا علیّ، أبکی لِما یَستحلّ مِنک فی هذا الشّهر.کأنّی بِکَ وَ أنتَ تُصلّی لِرَبّکَ وَ قد انبَعَثَ أشقَی الأولینَ شَقیقَ عاقِرِ ناقَهِ ثمود، فَضَرَبَکَ ضربَةً علَی قَرَنِکَ فَخَضّبَ منها لِحیتَکَ، قالَ امیرُالمؤمنینَ علیه السّلام: فَقلتُ: یا رسولَ اللهِ، و ذلکَ فی سَلامَةٍ مِن دِینی؟فقال صلی الله علیه و آله: فی سلامة من دینک.

اس کے بعد پیامبر(ص) گریہ کرنے لگے میںنے عرض کیا یارسول اللہ ۖ کس چیز نے آپ کو رلایا؟ فرمایا: اے علی میں اس لئے رو رہا ہوں کیوں کہ اس مہینے میں تمہارا خون بہایا جائے گا ( اس مہینے آپ کو شہید کردیا جائے گا) گویا میں تمہاری شہادت کے منظر کو دیکھ رہا ہوں ، درحالیکہ تم اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھنے میں مشغول ہوں گے ، اس وقت شقی اولین وآخرین قاتل ناقہ صالح ، تمہارے فرق پر ایک وار کریگا جس سے تمہاری ریش اور چہرہ خون سے ترہوں جائے گا ۔ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ کیا اس وقت میرا دین ثابت وسالم ہوگا؟ فرمایا : ہاں اس وقت تمہار دین سالم ہوگا۔

ثمّ قالَ صلّی الله علیه و آله: یا علیّ، مَن قَتلکَ فَقد قَتلَنِی،و مَن أبغَضَکَ فَقَد أبغَضَنی،و مَن سَبّکَ فَقَد سَبّنِی، لأنّکَ مِنّی کَنَفسِی، روحُکَ مِن روحی، و طِینتُکَ مِن طینتِی، إنّ الله تبارک و تعالی خَلقنِی و ایّاکَ،و أصطَفانِی وَ ایّاکَ،و أختارَنی للنبوّة، وَ أختارَکَ لِلإمامَةِ،و مَن أنکَرَ امامَتَکَ فَقَد أنکَرَ نُبُوّتِی».

اس کے بعد پیامبر(ص)نے فرمایا: اے علی جس نے تمہیں قتل کیا گویا اس نے مجھے قتل کیا اور جس نے تمہارے ساتھ بغض ودشمنی کی درحقیقت اس نے مجھ سے دشمنی کی ہے اور جو کوئی تمہیں ناسزا کہے گویا اس نے مجھے ناسزا کہا ہے کیونکہ تم مجھ سے ہو اور میرے نفس کی مانند ہو تمہاری روح میری روح سے ہے اور تمہاری طینت وفطرت میری فطرت سے ہے یقینا خدا نے ہم دونوں کو خلق کیا اور ہم دونوں کو انتخاب کیا، مجھے نبوت کے لئے انتخاب کیا اور تمہیں امامت کے لئے انتخاب کیا اگر کوئی تمہاری امامت سے انکار کرے تو اس نے میری نبوت سے انکار کیاہے ۔

یا عَلِی أَنْتَ وَصِیی وَ أَبُو وُلْدِی وَ زَوْجُ ابْنَتِی وَ خَلِیفَتِی عَلَی أُمَّتِی فِی حَیاتِی وَ بَعْدَ مَوْتِی أَمْرُک أَمْرِی وَ نَهْیک نَهْیی

اے علی تم میرے جانشین وخلیفہ ہو اور تم میرے بچوں کے باپ اور میری بیٹی کے شوہر ہو اور تم میری زندگی میں بھی اور میرے مرنے کے بعد بھی میری امت پر میرے جانشین اور خلیفہ ہو تمہارا حکم میرا حکم ہے اور تمہاری نہی میری نہیں ہے ۔

أُقْسِمُ بِالَّذِی بَعَثَنِی بِالنُّبُوَّةِ وَ جَعَلَنِی خَیرَ الْبَرِیةِ إِنَّک لَحُجَّةُ اللَّهِ عَلَی خَلْقِهِ وَ أَمِینُهُ عَلَی سِرِّهِ وَ خَلِیفَتُهُ عَلَی عِبَادِه

ذات خدا کی قسم کہ جس نے مجھے نبوت پر مبعوث کیا اور مجھے انسانوں میں سے سب سے بہترقرار دیا یقینا تم مخلوقات پر خدا کی حجت ہو اور خدا کے اسرار کا امین ہو اور اس کے بندوں پر خلیفہ ہو۔

مختصر تعارف گلستان زہراء

(تعارف، اہداف ،کارکردگی اور آینده پروگراموں کا ایک مختصر جائزہ)

گلستان زہراء،ایک خالص دینی،علمی اورتبلیغی پلیٹ فارم ہے کہ جس کی تشکیل کا مقصد مومنین و مومنات خصوصاً نوجوان نسل کی دینی و فکری تربیت انجام دینا ہے۔ایسی تربیت کہ جس کی بنیاد علم اور تقویٰ پر ہو۔اور جس کی عمارت محکم دلیلوں پر قائم ہو۔اور آج کی نسل جدید ،اسلامی تعلیمات کو اس کے اصلی اور حقیقی منابع سے ،بغیر کسی ملاوٹ اور تحریف کے،حاصل کر سکے۔اور دین مبین اسلام کے خلاف ہونے والی اندرونی اور بیرونی سازشوں کے خلاف فرنٹ لائن کا کردار ادا کر سکیں، تاکہ آج کی نئی نسل اس آیت کا مصداق بن سکے

كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ۔ (العمران ،۱۱۰)

تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اہداف اور مقاصد

1. اسلامی معارف و مبانی کی تعلیم و ترویج کےلیے تعلیم اور تبلیغ کے میدان میں ایک منظم تحریک شروع کرنا ۔

2. احیاء عزاداری سید الشہدا اور مقصد قیام امام حسین علیہ السلام ۔

3. خرافات، بدعات اور انحرافات سے پاک معتبر اسلامی معارف کی ترویج ۔

4. مومنین کو صحیح اعتقادات کے مبانی اور معارف سے آگاہ کرنا ۔

5. فکری اور ثقافتی انحرافات کا مقابلہ کرنے کےلیے صحیح اسلامی تعلیمات کی ترویج اور اصلاح معاشرہ کےلیے اقدامات۔

7. ایسے نوجوانوں کی تحقیق کے میدان میں رہنمائی و حوصلہ افزائی جو صحیح اسلامی نقطہ نظر کو جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں ۔

8. جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا سے بھرپور استفادہ کرنا ۔

9. طلباء و طالبات کے درمیان مختلف موضوعات کے علمی مقابلوں کا انعقاد ۔

10. ، اسلامی دروس اور لیکچرز کی ریکارڈنگ اور مختلف میڈیا پلیٹ فارمز پر ان کی نشر و اشاعت۔

فعالیت

1۔جامعہ مسجد امام علی علیہ السلام ، جس میں نماز پنجگاہ کے علاوہ ، دعا و مناجات اور ہر روز کا درس اخلاق اور نماز جمعہ کا مرکزی اجتماع شامل ہیں ۔

2۔قدیمی امام بارگاہ جس میں عشرہ محرم کے علاوہ مختلف مناسبات کی سالانہ مجالس عزاء برپا ہوتی ہیں ۔

3۔ فلٹر پلانٹ ، جس سے ہر روز اہل علاقہ مستفید ہوتے ہیں ۔

4 ۔ قرآن و دینیات سینٹر

5 ۔ عید الاضحی کے موقع پر اجتماعی قربانی کا اہتمام

6 ۔ ماہ مبارک رمضان میں تقسیم راشن و عیدی

7 ۔ مختلف دینی موضوعات پر علمی و تربیتی مقابلوں کا انعقاد

8۔ گلستان زہراء یوٹیوب چینل کا قیام

9۔فیس بک پر ایک علمی اورتبلیغی پیج کا قیام کہ جس پر ہر روز آیات قرآنیہ،احادیث معصومین، ؑ معتبر تاریخی واقعات،اور اخلاق پر مبنی پوسٹس ۔

10۔واٹس ایپ پر مومنین کرام کی علمی اور فکری تربیت اور اخلاقی ارتقاء کے پیش نظر گروپ کا قیام،کہ جس میں ہر روز بلا ناغہ روایات معتبرہ، اخلاقی واقعات،مختلف مناسبتوں کے حوالے سے پوسٹس شئیر کی جاتی ہیں۔

11۔ مختلف مقامات پر ،تعطیلات کے ایام میں ورکشاپس کا انعقاد اور کالج اور یونیورسٹی کے طلاب کے لیے مختصر ایام میں معارف دینی سے آشنائی کا بہترین موقع۔کہ جس میں نوجوانان ملت کی علمی،فکری اور اخلاقی تربیت کا انتظام کیا جائے گا۔

12 ۔ ضرورت مندوں کی حاجت روائی۔

گلستان زہراء ، کپورو والی ، سیالکوٹ

رابطہ: 03006151465 - 03192437646

حق کی پيروى اور كمال عقل‏

حق کی پيروى اور كمال عقل‏

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

لا يَكْمُلُ الْعَقْلُ إِلا بِاتّبَاعِ الْحَقّ

عقل کی حق پیروی کے بغیركامل نہیں ہوتی ۔

(أعلام الدين، ص۲۹۸)

خیر کثیر ہے

خیر کثیر ہے

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

خَمْسٌ مَنْ لَمْ تَكُنْ فِيهِ لَمْ يَكُنْ فِيهِ كَثِيرُ مُسْتَمْتِعٍ: اَلْعَقْلُ، وَ الدّينُ وَ الاَدَبُ، وَ الْحَيَاءُ وَ حُسْنُ الْخُلْقِ ۔

جس میں پانچ چيزیں نہ ہوں اس میں کوئی خیر نہیں پایا جائے گا عقل، دين، ادب، حيا اور خوش‏ اخلاقی۔

(حياة الامام الحسين(ع)، ج ۱ ص۱۸۱)

خدا کی نا فرمانی کا اثر

خدا کی نا فرمانی کا اثر

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

مَنْ حَاوَلَ اَمْراً بِمَعْصِيَةِ اللّهِ كَانَ اَفْوَتَ لِمَا يَرْجُوا وَ اَسْرَعَ لِمَا يَحْذَرُ.

جو خدا کی نافرمانی کی کوشش کرے اس سے وہ چیزیں دور ہوجائیں گی جنھیں وہ چاہتا ہے اور وہ چیزیں اس سے قریب ہو جاتی ہیں جن سے وہ نفرت کرتا ہے ۔

(بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۲ ح۱۹)

نهى عن المنكر

نهى عن المنكر

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

لا يَنْبَغِى لِنَفْسٍ مُؤْمِنَةٍ تَرَى مَنْ يَعْصِى اللّهَ فَلا تُنْكِرُ عَلَيْهِ .

مومن کے لیے یہ مناسب نہیں ہےکہ وہ کسی کو خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھے اور اسے ناپسند کرتے ہوئے منع نہ کرے ۔

(كنز العمّال، ج ۳ ص ۸۵ ح۵۶۱۴)

غيبت، دوزخ‏ کے کتوں کی غذا ہے

غيبت، دوزخ‏ کے کتوں کی غذا ہے

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

كُفّ عَنِ الْغَيْبَةِ فَإِنّهَا إِدَامُ كِلابِ النّارِ ۔

غيبت سے بپرهيزكرویہ دوزخ کے کتوں کا کھانا ہے ۔

(بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۱۷ ح۲)

گناہ بہتر ازمعذرت

گناہ بہتر ازمعذرت

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

رُبّ ذَنْبٍ اَحْسَنُ مِنَ الاِعْتِذَارِ مِنْهُ۔

بہت سے گناہ ہیں جومعذرت کرنے سے بہترہیں۔

(بحار الانوار، ج ۵۷ ص ۱۲۸ ح۱۱)

عقلمندی اور موت کے یقین کا اثر

عقلمندی اور موت کے یقین کا اثر

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

لَوْ عَقَلَ النّاسُ وَ تَصَوّرُوا الْمَوْتَ لَخَرِبَتِ الدّنيَا

اگر لوگ عقلمند ہوتےاور موت کا یقین کرلیتے تو دنیا ویران دکھائی دیتی۔

(إحقاق الحق، ج ۱۱ ص۵۹۲)

خوف خدا میں گریہ

خوف خدا میں گریہ

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

اَلْبُكَاءُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ نَجَاةٌ مِنَ النّارِ ۔

خوف خدا میں گريه جهنّم سےنجات کا ذریعہ ہے۔

(مستدرك الوسائل، ج ۱۱ ص ۲۴۵ ح۳۵)

ہدیہ قبول کرنے کا اثر

ہدیہ قبول کرنے کا اثر

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

مَنْ قَبِلَ عَطَاءَكَ، فَقَدْ اَعَانَكَ عَلَى الْكَرَمِ

جوتمہاری عطا کی ہوئی چیز کو قبول کرلے وہ نیکیوں پر تمہاری مدد لرنے والا ہے ۔

(بحار الانوار، ج ۶۸ ص ۳۵۷ ح۲۱)