وَ اللّٰهُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ 

وَ اللّٰهُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ

کچھ حضرات عام طور پر آئمہ اطہار ع کے رازق ہونے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰنے خود کہا ہے کہ میں رازقین میں سے بہتر ہوں جس کے لئے وہ سورہ جمعہ کی آخری آیت پیش کرتے ہیں واللہ خیر الرازقین
اور استدلال کا طریقہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ آیت میں کلمہ خیر استعمال ہوا ہے جو افعل التفضیل ہے اور رازقین ،رازق کی جمع ہے لہذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کائنات کے بہت سے رازق ہیں جن میں سے اللہ بہترین رزق دینے والا ہے جب اللہ خود اپنے علاوہ کو رازق کہہ رہا ہے اگر ہم آئمہ اطہار کو رازق کہیں تو اس میں کیا غلط ہے ؟ اسی لئے کہا جا سکتا ہے کہ آئمہ اطہار اللہ کی جانب سے مقرر ہیں کہ اس کی مخلوق میں اس کی مرضی سے رزق کو تقسیم کریں ۔
یہ تھا استدلال کا طریقہ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ استدلال کس حد تک قابل قبول ہے اور اس سے مطلوبہ نتیجہ لینے میں کیا خرابی لازم آتی ہے ۔
جواب:
صرف عربی کا ترجمہ کر دینا مسئلہ کا حل نہیں ہوتا بلکہ قرآن کی آیت سے استدلال کے لئے ادبیات کی ہر جہت کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے یہی تو ہم میں اور دیگر مسالک میں بنیادی فرق ہے کہ ہم ترجمہ میں عقلی ونقلی دلائل کو بھی مدنظر رکھتے ہیں تا کہ کوئی خرابی لازم نہ آئے اس کے لئے ایک ہی مثال کافی ہے کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ کی ذات کے لئے ” وجہ یا ید” کا لفظ آیا ہے اس سے ان کا لفظی ترجمہ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ خدا جسم وجسمانیت سے پاک ہے اس لئے ان کے کنائی معنی کئے جاتے ہیں جیسے وجہ سے مراد ذات اور ید سے مراد قدرت و طاقت لیا جاتا ہے تا کہ عقائد کے لحاظ سے بھی درست ہو جائے اور محال عقلی بھی لازم نہ آئے ۔ورنہ اگر ید اور وجہ کے حقیقی معنی مراد لئے جائیں تو یہ جسمانی اعضاء ہیں جن سے جسم کا ہونا لازم آتا ہے اور جسم زمان ومکان کا محتاج ہے جبکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں۔

لفظ خیر کی وضاحت
یہاں اس بات کی وضاحت کرنی ضروری ہے کہ ہر جگہ لفظ “خیر” تفضیل کے لئے نہیں آتا تفضیل کا معنی یہ ہوتا ہے کہ دو چیزیں بہتر ہوتی ہیں البتہ اس میں سے ایک زیادہ بہتر ہوتی ہے مثلا زید اور علی دو عالم ہوں اور علی علمی لحاظ سے زیادہ قابل ہو تو کہا جائے گا کہ علی زید سے زیادہ جاننے والا ہے ۔

عربی زبان میں کچھ کلمات تفضیل کا معنی دینے کے لئے استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ کلمہ خیر بھی ہے جو اکثر مقام پر تفضیل کا معنی دیتا ہے جب وہ "اخیر” کا مخفف ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ جہاں بھی خیر آیا ہو وہاں تفضیل کا معنی پایا جاتا ہو کہ دونوں طرف بہتری ہو اور ایک زیادہ بہتر ہو کیونکہ ہمیں ایسے مقام بھی ملتے ہیں جہاں پر خیر استعمال تو ہوا لیکن ایک طرف بہتری ہے دوسری جانب بلکل بھی نہیں ہوتی ہے ۔
جیسا کہ سورہ آل عمران کی آیت 26 میں ہے :
” وَ تُعِزُّمَنْ تَشاءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ "
ترجمہ۔ توجسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے ،تمام خوبیاں تیرے ہاتھ میں ہیں کیونکہ تو ہر چیز پر قادر ہے ۔
اس کے ترجمہ سے ہی بات واضح ہو جاتی ہے لیکن مفسرین کی آراء بھی ذکر کئے دیتے ہیں۔
اس بناء پر لفظ خیر افعل التفضیل نہیں بلکہ صفت مشبہ ہے اور اس کے اسم تفضیل نہ ہونے کی دلیل بلکہ واضح ثبوت یہ ہے کہ اسے ان موارد میں استعمال کیا جاتا ہے جہاں اس تفضیل کا معنی ہر گز نہیں پایا جاتا اس کی قرآنی مثال سورہ جمعہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
قُلْ ما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ
(ترجمہ) کہہ دیجئے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ لہوولعب سے بہتر ہے ۔
( جمعہ، آیت:11)
اس میں لہو لعب کے مقابل میں لفظ خیر کا استعمال اس امر کا ثبوت ہے کہ یہاں تقابلی برتری ملحوظ نہیں کیونکہ لہو میں خیر کا کوئی پہلو نہیں پایا جاتا کہ جس کی بنا پر تفضیل کا معنی درست ہو (کیونکہ اسم تفضیل میں قدر مشترک کا پایا جانا ضروری ہے تا کہ موازنہ و تقابل درست قرار پائے )۔۔۔ خداوندعالم خیر مطلق ہے کیونکہ ہر شی کا منتہی وہی ہے اور ہر شی کی بازگشت اسی کی طرف ہوتی ہے اور ہر چیز کا مطلوب ومقصود اسی کی ذات ہے لیکن قرآن مجید میں لفظ خیر خدا وند عالم کے دیگر اسماء کی طرح ان میں سے ایک اسم کے طور پر ذکر نہیں ہوا بلکہ اسے خدا وندعالم کی ایک صفات کے طور پر ذکر ہوا ہے چنانچہ ارشاد ہوا ہے۔
وَ اللَّهُ خَيْرٌ وَ أَبْقى‏
اللہ سب سے بہتر اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے
(سورہ طہ آیت 73)
يا صاحِبَيِ السِّجْنِ أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ ِ
"اے میرے زندان کے ساتھیو! کیا متفرق ارباب بہتر ہیں یا وہ اللہ جو یکتا ہے جو سب پر غالب ہے”
( سورہ یوسف- آیت 39)
وَ اللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقينَ
اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے
(سورہ جمعہ، آیت 11)
ان تمام موارد میں لفظ خیر میں انتخاب کا معنی ملحوظ ہو اسی لئے خیر کو خداوندعالم کے اسم کے طور پر ذکر نہیں کیا گیا تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کی مقدس ذات کا قیاس و موازنہ اس کے غیر سے ہونے لگے اور خیر مطلق کی بابت کوئی دوسرا بھی مقابل کے طور پر قرار پائے ،ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا اور اس کی ذات اس سے بلند ہے کہ اس کا موازنہ و مقائسہ کسی سے کیا جا سکے۔
(تفسیر المیزان علامہ طباطبائی ج3 ص 316 تا 319)

واللہ خیر الرازقین میں لفظ خیر کس معنی میں ہے ؟
اب دیکھتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ خیر کس معنی میں استعمال ہوا ہے
سورہ جمعہ کی آخری آیت کے ذیل میں علامہ طباطبائی لکھتے ہیں
خير مستعمل في الآية مجردا عن معنى التفضيل كما في قوله تعالى:
«أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ»:
(سورہ يوسف: آیت 39)
و هو شائع في الاستعمال.
( الميزان فى تفسير القرآن، ج‏19، ص: 275)
کہ لفظ خیر اس آیت میں تفضیل کے معنی سے خالی ہے جیسا کہ اللہ کے اس قول میں ہے
أ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ ( یوسف-39) ِ
کیا متفرق ارباب بہتر ہیں یا وہ اللہ جو یکتا ہے جو سب پر غالب ہے”
اور اس طرح کا استعمال (جہاں خیر تفضیل کے لئے نہیں آتا) عام ہے۔
اس کے علاوہ بھی دسیوں تفاسیر اس بات پر شاہد ہیں کہ واللہ خیر الرازقین میں لفظ خیر مفاضلہ کے لئے نہیں آیا تو جب یہاں تفضیل کا معنی پایا ہی نہیں جاتا تو آئمہ معصومین کو اس آیت سے رازق ثابت کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟

اصل میں اس موضوع پر بحث عبث ہے کیونکہ واجب الوجود اور ممکن الوجود میں کیسا تقابل ؟ اگر کوئی ایسا سوچے بھی تو خالصۃ جہالت ہے ۔

رازقین سے مراد
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں رازقین سے مراد کیا ہے تفاسیر اور کتب کلامیہ کے مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ رازقین سے مراد یہ ہے کہ عرب جن کو اپنا رازق وخالق مانتے تھے اللہ ان کو جواب دے رہا ہے کہ اللہ ان سے بہتر ہے جیسا کہ حضرت یوسف ع نے بھی اپنے قیدی ساتھیوں سے کہا تھا أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ ( یوسف-39) ِ
کیا متفرق ارباب بہتر ہیں یا اللہ جو واحد و قہار ہے ؟
تو یہاں حضرت یوسف ان کو یہ نہیں کہنا چاہتے کہ جن کو تم رب ،رازق وخالق مانتے ہو وہ بھی بہتر ہیں لیکن اللہ زیادہ بہتر ہے بلکہ متعدد ارباب کی نفی کر کے خدائے واحدوقہار کے لئے اس صفت کو ثابت کیا جارہا ہے ۔
نیز مفسرین یہ بات متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ اہل عرب اللہ کو مانتے تھے لیکن بتوں کو قرب الہی کا وسیلہ کہتے تھے لہذا انہوں نے زعم فاسد میں ان کو من جانب اللہ خالق ورازق سمجھتے تھے اور ان کے اسی گمان فاسد کو رد کرتے ہوئے اللہ نے خیرالرازقین فرمایا ہے کہ جن کو تم اپنے باطل گمان میں خالق سمجھتے ہو اس سے اللہ بہتر ہے ۔بلکل اسی طرح ایک مقام پر فرمایا ہے:
أَ تَدْعُونَ بَعْلاً وَ تَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخالِقينَ
(ترجمہ) کیا تم لوگ بعل (بت )کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو ۔
(سورہ الصافات آیت 125)

دوسرا معنی یہ کیا گیا ہے کہ چونکہ جو بھی کسی شی کو وجود دے وہ لغوی معنی میں خالق کہلاتا ہے البتہ یہ نسبت ان کی طرف مجازی دی جاتی ہے کونکہ خالق حقیقی اور عدم سے وجود میں لانے والی ذات صرف اللہ کی ذات ہے نیز مجازات کی دنیا بہت وسیع ہے اس کے لحاظ سے تو اسلام بھی معیار نہیں اگر کوئی غیر مسلم بھی کوئی شئی ایجاد کرتا ہے تو اس کے لئے بھی خالق بمعنی موجد استعمال ہو سکتا ہے لہذا اگر کوئی اس معنی میں ائمہ کو خالق کہنا بھی چاہے تو اس میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔نیز یہ نسبت ائمہ ع کی طرف دینی چاہئے یا نہیں اس کے لئے بعدوالی بحث کا مطالعہ کافی رہے گا۔
اور ساتھ ہی واضح کر دوں کہ اس آیت کو دلیل بنا کر معصومین ع کو رازق ثابت کرنے والے کیا کہیں سے ثابت کر سکتے ہیں کہ کسی معصوم ع نے بھی اس آیت کی وضاحت میں خود کو رازقین میں سے قرار دیا ہو ؟
کیا آئمہ اطہار ؑ کی طرف خلق ورزق کی نسبت دینا جائز ہے ؟
اس مقام پر ہم صرف علماء کی تصریحات کے بیان پر اکتفا کریں گئے ۔
شیخ طبرسی ؒ اپنی تفسیر میں سورہ فاطر کی آیت نمبر 3، هَلْ مِنْ خالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّماءِ وَ الْأَرْضِ لا إِلهَ إِلاَّ هُوَ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (اللہ کے علاوہ ایسا خالق کون ہے جو تمہیں زمین و آسمان سے رزق دے؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں الٹے پھرے کا رہے ہو ؟ ) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “ هذا استفهام تقرير لهم و معناه النفي ليقروا بأنه لا خالق إلا الله يرزق من السماء بالمطر و من الأرض بالنبات و هل يجوز إطلاق لفظ الخالق على غير الله سبحانه فيه وجهان (أحدهما) أنه لا تطلق هذه اللفظة على أحد سواه و إنما يوصف به غيره على جهة التقييد و إن جاز إطلاق لفظ الصانع و الفاعل نحوهما على غيره (و الآخر) أن المعنى لا خالق يرزق و يخلق الرزق إلا الله تعالى‏ “
(مجمع البيان فى تفسير القرآن، ج‏8، ص: 626)
یعنی یہ بظاہر استفہام جس کے معنی نفی کے ہیں (کہ اللہ کے سوا کوئی رازق نہیں )تا کہ یہ لوگ اقرار کر لیں کہ خدا کے سوا کوئی رازاق نہں جو آسمان سے بارش برسا کر اور زمین سے انگوری اگا کر رزق پہنچاتا ہے اب کیا اللہ کے علاوہ پر اس لفظ خالق کا اطلاق جائز ہے ؟ اس میں دو وجہیں ہیں ایک یہ کہ سوائے خدا کے کسی پر اس کا اطلا ق جائز نہیں ہے اللہ کے علاوہ کسی کو اس سے متصف قید کیساتھ کیا جائے گا اگرچہ لفظ صانع وفاعل وغیرہ کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر جائز ہے اور دوسری یہ کہ اس کا معنی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی نہ ہی رازق ہے جو رزق دے اور نہ ہی خالق ہے جو خلق کرے۔
علامہ مرزا محمد تنکابنی ؒ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :
اخبار بسیار ازائمہ اطہار علیھم صلوات الملک الجبار وارد یافت کہ نسبت خلق ورازق را بائمہ دادن موجب کفروضلالت است و ائمہ ازاں منع فرمودہ اند
(قصص العلماء ص 44)
آئمہ اطہار علیھم السلام سے بہت سی روایات واخبار وارد ہوئی ہیں کہ خلق و رزق کی نسبت دینا باعث کفر وگمراہی ہے آئمہ اطہار ع نے اس سے سخت ممانعت فرمائی ہے ۔
نیز نسبت مجازی کی نا جائز ہونے کے بارے میں علامہ شہر آشوب لکھتے ہیں ۔
انا لا نطلق ھذہ الصفۃ الا فیہ تعالی لان ذالک یوہم
ہم اس صفت (خالقیت)کا اطلاق صرف اللہ کی ذات پر کرتے ہیں کیونکہ (غیر خدا پر اس کا اطلاق کرنا) غلط معنوں کا وہم پیدا کرتا ہے
(متشابہ القرآن ج1ص173)

«قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلّ شَيْ‏ءٍ»: يدل هذا على عدم جواز نسبة الخلق إلى الأنبياء والأئمّة، وكذا قوله: «هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَفْعَلُ مِنْ ذَلِكُمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ» فإنّه يدل‏ على‏ عدم‏ جواز نسبة الخلق‏، والرزق‏ والإماتة والإحياء إلى غيره سبحانه وإنّه شرك.
(مفاهيم القرآن،جعفرسبحانی تبریزی ج‏1، ص: 477)
آیت اللہ جعفرسبحانی صاحب لکھتے ہیں کہ اللہ خالق کل شی یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خلق کی نسبت انبیاء اور ائمہ ع کی طرف دینا جائز نہیں ہے اسی طرح اللہ کے قول ھل من شرکائکم ۔۔۔ یہ بھی دلالت کرتا ہے کہ خلق ورزق اور موت وحیات کی نسبت اللہ کے علاوہ کی طرف دینا جائز نہیں ہے اور ایسی نسبت دینا شرک ہے ۔

نتیجہ
ہر جگہ لفظ “خیر” تفضیل کے لئے نہیں آتا اور نہ ہی اس آیت میں کسی پہلو سے اللہ کے سوا کسی کا رازق ہونا ثابت ہوتا ہے نیز ہم نے ثابت کر دیا کہ معصومین ؑ کی طرف رازقیت کی نسبت دینا جائز ہی نہیں ہے اور جو لوگ اس آیت کو بنیاد بنا کر استدلال کرتے ہیں جہالت کی عمدہ مثال ہیں جو پہلے تو اس سے تفضیل کا معنی لیتے ہیں
اور پھر رازقین سے مراد معصومین لیتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ معصومین بھی رازق تو ہیں لیکن اللہ بہترین رازق ہے اور معصومین بہتر رازق نہیں عجیب منطق ہے بہتر کے ہوتے ہوئے کسی اور سے مانگنا کون سی دانش وری ہے ؟

بہر حال ہم نے غالیوں کے اس آیت سے استدلال کو مکمل طور پر ناقص قرار دے دیا اور ثابت کیا کہ آیت سے معصومین کے رازق ہونے کا استدلا ل قرآن و حدیث نیز دلائل عقلیہ و ادبیات عربیہ سے مخالف ہے ۔

کیا یہ کائنات صرف اللہ نے بنائی ہے یا کوئی اور بھی تخلیق کائنات میں اللہ کا شریک تھا

کیا یہ کائنات صرف اللہ نے بنائی ہے یا کوئی اور بھی تخلیق کائنات میں اللہ کا شریک تھا

تخلیق میں توحید کا مفہوم

خالقیت خدا کی ایک صفت ہے مخلوق کی تخلیق میں خدا کا کوئی شریک نہیں ہے اور کائنات کا خالق خدا کے سوا کوئی نہیں ہے۔

توحید در خالقیت ، جسے بعض اوقات تخلیق میں توحید یا افعال میں توحید سے تعبیر کیا جاتا ہے، فلسفیوں کی اصطلاح میں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام نظام، سنن ، علل و معلول ، اثرات اور اسباب خدا کے افعال اور ارادہ کا نتیجہ ہیں۔ جس طرح خدا کا اپنی ذات میں کوئی شریک نہیں ہے، اسی طرح اس کے افعال میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

"لا حول ولا قوۃ الا باللہ"


قرآن کریم اس مسئلے کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟

قرآن کریم نے متعدد آیات میں دنیا کی تخلیق میں خدا کے لاشریک ہونے پر زور دیا ہے۔

بطور نمونہ چند آیات پیش خدمت ہیں:
1️⃣ قُلِ اللَّهُ خالِقُ کُلِّ شَیْ‏ءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ ۔
کہہ دیجئے کہ صرف اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے وه اکیلا ہے اور زبردست غالب ہے
(سورہ رعد، ایت 16)

2️⃣ اللَّهُ خالِقُ کُلِّ شَیْ‏ءٍ وَ هُوَ عَلى کُلِّ شَیْ‏ءٍ وَکِیلٌ ۔
اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔
(سورہ زمر، آیت 62)

3️⃣ ذلِکُمُ اللَّهُ رَبُّکُمْ خالِقُ کُلِّ شَیْ‏ءٍ لا إِلهَ إِلاَّ هُوَ ۔
وہی اللہ ہے تمہارا رب، ہر شے کا خالق ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
(سورہ مومن، آیت 62)

4️⃣ َھلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْـرُ اللّـٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ ۖ فَاَنّـٰى تُؤْفَكُـوْنَ .
بھلا اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہو ، اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ، پھر کہاں الٹے جا رہے ہو ۔
(سورہ فاطر، آیت 3)

5️⃣ رَبُّنَا الَّذِی أَعْطى کُلَّ شَیْ‏ءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى؛[9]
ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی صورت عطا کی پھر راہ دکھائی ۔
(سورہ طه، آیت 50)

روایت

امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
«لم یشرکه فی فطرتها فاطر، و لم یعنه علی خلقها قادر» چیونٹی (اور اس جیسی) چھوٹی سے چھوٹی مخلوق کی تخلیق میں بھی کوئی خدا کا شریک نہیں تھا اور اس نے کسی سے مدد نہیں لی
(نهج البلاغه، خطبه 185)

مزید فرمایا:
«و لا شریک له اعانه علی ابتداع عجائب الامور»
خدا کا کوئی شریک نہیں جو دنیا کے عجائبات پیدا کرنے میں اس کی مدد کرے۔
(نہج البلاغہ ، خطبه 91)

بدعت

بدعت

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

من غشَّ أمَّتي فعليه لعنةُ اللهِ والملائكةِ والنَّاسِ أجمعين ، قيل يا رسولَ اللهِ : وما غِشُّ أمَّتِك ؟ قال أن يبتدِعَ بِدعةً يحمِلُ النَّاسَ عليها
جو میری امت کو دھوکہ دے خدا کی اس پر لعنت ہو
پوچھا گیا:
امت کو دھوکہ دینے سے کیا مراد ہے ؟
فرمایا:
ایک بدعت ایجاد کرنا جس پر لوگ عمل کرنا شروع کر دیں۔

امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

ومَا أُحْدِثَتْ بِدْعَةٌ إِلَّا تُرِكَ بِهَا سُنَّةٌ - فَاتَّقُوا الْبِدَعَ والْزَمُوا الْمَهْيَعَ - إِنَّ عَوَازِمَ الأُمُورِ أَفْضَلُهَا - وإِنَّ مُحْدِثَاتِهَا شِرَارُهَا.

کوئی بدعت اس وقت تک ایجاد نہیں ہوتی (اور معاشرے میں نہیں پھیلتی )جب تک ایک سنت کو ترک نہ کر دیا جائے اور چھوڑ نہ دیا جائے۔لہٰذا بدعتوں سے ڈرو اور سیدھے راستہ پر قائم رہو کہ مستحکم ترین معاملات ہی بہتر ہوتے ہیں اور دین میں جدید ایجادات ہی بد ترین شے ہوتی ہے۔

إنَّ شَرَّ الناسِ عندَ اللّه ِ إمامٌ جائرٌ ضَلَّ و ضُلَّ بهِ، فَأماتَ سُنَّةً مأخوذَةً (مَعلومَةً)، و أحيا بِدعَةً مَتروكَةً .

خدا کے نزدیک بدترین انسان ظالم حکمران ہے جو خود گمراہ ہے اور دوسروں کی گمراھی کا سبب بنتا ہے ایک جاری اور معلوم سنت کو مار دیتا ہے اور ایک مردہ اور مجہول سنت کو زندہ کرتا ہے


بحوالہ

آثار الصادقین39/2
خطبہ /145
خطبه/164

حضرت امام  سجاد  علیہ السلام کی  حدیثیں

حضرت امام سجاد علیہ السلام کی حدیثیں

قالَ(عليه السلام): يَا ابْنَ آدَم، إنَّكَ لا تَزالُ بَخَيْر ما دامَ لَكَ واعِظٌ مِنْ نَفْسِكَ، وَما كانَتِ الْمُحاسَبَةُ مِنْ هَمِّكَ، وَما كانَ الْخَوْفُ لَكَ شِعاراً.

اے فرزند آدم! جب تک تم اپنے آپ کے نصیحت کرنے والے ہوگے اور تمہارا اہم و غم اپنامحاسبہ کرنا ہوگا اور تمہارا اشعار خوف و تقویٰ ہوگا تب تک خیر و عافیت میں رہو گے

قالَ(عليه السلام): طَلَبُ الْحَوائِجِ إلىَ النّاسِ مَذَلَّةٌ لِلْحَياةِ وَمَذْهَبَةٌ لِلْحَياءِ، وَاسْتِخْفافٌ بِالْوَقارِ وَهُوَ الْفَقْرُ الْحاضِرِ، وَقِلَّةُ طَلَبِ الْحَوائِجِ مِنَ النّاسِ هُوَ الْغِنَى الْحاضِر.

لوگوں سے اپنی حاجتوں کا طلب کرنا زندگی کی ذلت اور شرم و حیا کو ختم کر دیتی ہے اور انسان کا وقار جاتا رہتا ہے اور یہ موجود فقر و فاقہ ہے اور لوگوں نے اپنی ضرورتوں کا کم طلب کرنا موجود ثروت مندی ہے

قالَ(عليه السلام): سادَةُ النّاسِ فى الدُّنْيا الأَسْخِياء، وَ سادَةُ الناسِ في الآخِرَةِ الاْتْقياءِ

دنیا میں لوگوں کے سردار سخاوتمند افراد ہیں اور آخرت میں لوگوں کے سردار پرہیز گار لوگ ہیں

قالَ(عليه السلام): إنْ شَتَمَكَ رَجُلٌ عَنْ يَمينِكَ، ثُمَّ تَحَوَّلَ إلى يَسارِكَ فَاعْتَذَرَ إلَيْكَ فَاقْبَلْ مِنْهُ

اگر کوئی تمہارے داہنی طرف رخ کرکے گالیاں دے رہا ہو اور پھر بائیں طرف آکر عذر خواہی کرے تو تم اس کا عذر قبول کرلو اور اسے معاف کردو

قالَ(عليه السلام): إنَّ دينَ اللّهِ لايُصابُ بِالْعُقُولِ النّاقِصَةِ، وَالاْراءِ الْباطِلَةِ، وَالْمَقاييسِ الْفاسِدَةِ، وَلايُصابُ إلاّ بِالتَّسْليمِ، فَمَنْ ـ سَلَّمَ لَنا سَلِمَ، ومَنِ اهْتَدى بِنا هُدِىَ، وَمَنْ دانَ بِالْقِياسِ وَالرَّأْىِ هَلَكَ

خدا کا دین ناقص عقلوں، باطل را یوں، فاسد قیاسوں کے ذریعہ نہیں حاصل کیاجاسکتا صرف سر تسلیم خم کرکے ہی حاصل ہوسکتا ہے لہٰذا جو ہمارے سامنے تسلیم ہے اور ہماری ہدایتوں پر عمل کرے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جو قیاس اور رائے کا معتقد ہے وہ ہلاک ہوجائے گا

قالَ(عليه السلام): مِنْ سَعادَةِ الْمَرْءِ أنْ يَكُونَ مَتْجَرُهُ فى بِلادِهِ، وَيَكُونَ خُلَطاؤُهُ صالِحينَ، وَتَكُونَ لَهُ أوْلادٌ يَسْتَعينُ بِهِمْ

سعادتمند ہے وہ انسان جس کا کاروبار اس کے شہر میں ہو دوست صالح ہوں اور اس کی اولاد اس کے کام آتی ہو

قالَ(عليه السلام): آياتُ الْقُرْآنِ خَزائِنُ الْعِلْمِ، كُلَّما فُتِحَتْ خَزانَةٌ، فَيَنْبَغى لَكَ أنْ تَنْظُرَ ما فيها.

قرآن کی آیتیں علم کا خزانہ ہیں جب بھی کوئی خزانہ کھلے تو لازم ہے کہ دیکھو اس کے اندر کیا کیا ہے

قال(عليه السلام): يا مَعْشَرَ مَنْ لَمْ يَحِجَّ اسْتَبْشَرُوا بِالْحاجِّ إذا قَدِمُوا فَصافِحُوهُمْ وَعَظِّمُوهُمْ، فَإنَّ ذلِكَ يَجِبُ عَلَيْكُمْ تُشارِكُوهُمْ فى الاْجْرِ.

اے وہ لوگو! کہ جنھوں نے حج نہیں کیا ہے تمہیں حج سے واپس آنے والے حاجیوں کی بشارت ہو ان سے مصافحہ کرو اور ان کی تعظیم و تکریم کرو یہ تمہارے اوپر لازم ہے اس طرح تم ان کے اجر و ثواب میں شریک ہوجاوگے

قالَ(عليه السلام): مُجالَسَةُ الصَّالِحيِنَ داعِيَةٌ إلى الصَّلاحِ، وَ أَدَبُ الْعُلَماءِ زِيادَةٌ فِى الْعَقْلِ.

نیکو کاروں کی ہم نشینی نیکی کی دعوت دیتی ہے اور علماءکے ساتھ مودبانہ ہم نشینی عقل و خرد کی زیادتی کا باعث ہے

قالَ(عليه السلام): إنَّ لِسانَ ابْنَ آدَم يَشْرُفُ عَلى جَميعِ جَوارِحِهِ كُلَّ صَباح فَيَقُولُ: كَيْفَ أصْبَحْتُمْ؟ فَيَقُولُونَ: بِخَيْر إنْ تَرَكْتَنا، إنَّما نُثابُ وَ نُعاقَبُ بِكَ

فرزند آدمی کی زبان روزآنہ تمام اعضاءبدن سے احوال پرسی کرتی ہے اور کہتی ہے تم سب کیسے ہو؟ وہ سب کہتے ہیں اگر تم نے ہمیں آزاد رکھا ہو ہم سب خیریت سے ہیں کیونکہ ہمارا ثواب و عقاب تجھ سے وابستہ ہے

قالَ(عليه السلام): لَوْ يَعْلَمُ النّاسُ ما فِى طَلَبِ الْعِلْمِ لَطَلَبُوهُ وَ لَوْبِسَفْكِ الْمُهَجِ وَ خَوْضِ اللُّجَجِ

اگر لوگوں کو حصول علم کے اندر کیا کیا خوبیاں ہیں معلوم ہوجائیں تو وہ علم ضرور حاصل کرتے چاہے انہیں اپنا جون جگہ بہانا پڑتا یا بھیانک موجوں کی تہوں میں غوطہ لگانا پڑتا

قالَ(عليه السلام): إنَّ أفْضَلَ الْجِهادِ عِفَّةُ الْبَطْنِ وَالْفَرْجِ

سب سے بہترین جہاد،شکم اور شرمگاہ کی عفت اور اس کا تحفظ ہے

قالَ(عليه السلام): إيّاكَ وَمُصاحَبَةُ الْفاسِقِ، فَإنّهُ بائِعُكَ بِأكْلَة أَوْ أقَلّ مِنْ ذلِكَ وَإيّاكَ وَمُصاحَبَةُ الْقاطِعِ لِرَحِمِهِ فَإنّى وَجَدْتُهُ مَلْعُوناً فى كِتابِ اللّهِ.

فاسق کی ہمنشینی ہرگز اختیار نہ کرنا کہ وہ تمہیں ایک لقمہ یا اس سے بھی کم کے بدلے بیچ دے گا اور خبردار قاطع رحم کی بھی صحبت اختیار نہ کرنا میں نے اسے کتاب خدا (قرآن) میں لعنت شدہ پایا ہے

قالَ(عليه السلام): عَجَباً كُلّ الْعَجَبِ لِمَنْ عَمِلَ لِدارِ الْفَناءِ وَتَرَكَ دارَ الْبقاء.

بے حد تعجب ہوتا ہے اس شخص پر جو دار فانی کے لئے تو سر گرم ہے لیکن دار باقی کے لئے کچھ نہیں کرتا

قیام امام حسینؑ کا مقصد، امام (ع) کے ارشادات کی روشنی میں

قیام امام حسینؑ کا مقصد، امام (ع) کے ارشادات کی روشنی میں

عاشورا کو سمجھنے کیلئے امام حسینؑ کی حیات طیبہ اور آپ کی شخصیت و منزلت کے بارے میں کامل مطالعہ ضروری ہے ۔ پھر قیام کے دوران مختلف مقامات پر آپ کے ارشادات و بیانات کا باغور مطالعہ کرے اوراپنے قیام کے فلسفہ اور حقیقت کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے ان سے آگاہی حاصل کرے۔

امام حسین علیہ السلام کے مقصد قیام کو جاننے کے لئے سب سے بہترین اور سب سے مطمئن سند خود آپ کے یا دیگر ائمہ معصومینؑ کے ارشادات اور بیانات ہیں۔ آپ کے سارے خطبات، ارشادات، خطوط، وصیت نامے جو کہ آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کے سلسلہ میں ہیں نیز ائمہ معصومینؑ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کے لئے وارد زیارت ناموں میں بھی آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا گیا ہے ذیل میں بعض کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

1 امام حسین علیہ السلام نے مکہ مکرمہ میں عالم اسلام کے مختلف علاقوں کے علماء و دانشوروں کے اجتماع میں ایک ولولہ انگیز اور دندان شکن خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ نے اس خطبہ میں دین اور مسلمانوں کے عقائد کے تحفظ کے لئے علماء اور بزرگان شہر کی عظیم ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی نیز بنی امیہ کے مظالم کے سامنے ان کی خاموشی اور اموی حکمرانوں کی دین دشمن سیاست کے مقابلہ میں ان کے سکوت پر ان کی سرزنش اور تنقید کی۔ نیز بنی امیہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون اور صلح و مصالحت کو ناقبل بخشش گناہ قرار دیا۔
امام علیہ السلام نے ظالم نظام کے خلاف اپنے اقدامات جو کہ چند برس بعد ایک انقلاب کی شکل میں سامنے آئے، کے مقصد کا اعلان اس طرح فرماتے ہیں:

خدایا! تو جانتا ہے کہ ہم جو کچھ انجام دے رہے ہیں (جیسے اموی حکمرانوں کے خلاف خطبے اور اقدامات) یہ سب حکومت اور دنیا کی ناچیز متاع میں سبقت کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ ہم تیرے دین کی نشانی لوگوں کو دکھا دیں (برپا کریں) اور تیری سرزمین پر اصلاح کو ظاہرو آشکار کریں۔ میں چاہتا ہوں کے تیرے ستم رسیدہ بندے امن و امان میں رہیں اور تیرے احکام و قوانین پر عمل کیا جائے۔

(تحف العقول،ص ۲۳۹)

ان جملات میں غور و فکر سے یزید کے دور میں امام حسینؑ کے اقدامات کے چار اصل مقصد سامنے آتے ہیں:

الف: حقیقی اسلام کی نشانیوں کو زندہ کرنا۔

ب: اسلامی مملکت کے لوگوں کی حالت کی اصلاح و بہبودی۔

ج: ستم رسیدہ لوگوں کے لئے امن و امان کی فراہمی۔

د: احکام و واجبات الٰہی پر عمل کے لئے مناسب مواقع فراہم کرنا۔

2 امام حسینؑ نے مدینہ سے رخصتی کے وقت اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا اور اس میں اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح تحریر فرمایا:

میں نے فتنہ و فساد اور ظلم و زیادتی کی خاطر قیام نہیں کیا بلکہ میں صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں۔

میں تو امر بالمعروف، نہی عن لمنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے جد اور اپنےوالد علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں(عمل کرنا چاہتا ہوں)

(کتاب الفتوح، ابن اعثم کوفی ج۵ ص۲۱)

ایک دوسرے مقام پرفرماتے ہیں:

خدایا! مجھے معروف(نیکی) سے محبت ہے اور میں منکر (برائی) کو ناپسند کرتا ہوں۔

(مقتل الحسین، خوارزمی، ج۱،ص۱۸۶)

ائمہ معصومین علیہم السلام کی زبانی امام حسین علیہ السلام کی مختلف زیارتوں میں یہ تعبیر بکثرت مشاہدہ کی جاتی ہے :

اَشْهَدُ اَنَّکَ قَدْ اَقَمْتَ الصَّلوهَ وَآتَیْتَ الزَّکوهَ وَاَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنْ الْمُنْکَرِ۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی،نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا ۔

اس عبارت کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مندرجہ ذیل مقاصد ہو سکتے ہیں:

الف: امت رسولؐکی امور کی اصلاح

ب: امر بالمعروف

ج: نہی عن المنکر

د: رسول خدا اور امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرنا جیسے نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔

3 امام حسین علیہ السلام نے مکہ میں قیام کے دوران اہل کوفہ کے خطوط کے جواب میں جو خط تحریر فرمایا تھااس خط میں اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح تحریر فرمایاتھا:

میری جان کی قسم ! حاکم وہی ہے جو کتاب خدا پر عمل کرے ، عدل و انصاف کو قائم کرے، حق پر عقیدہ وایمان رکھے اور اپنے آپ کو راہ خدا میں وقف کر دے والسلام۔

(تاریخ طبری، ج۵،ص۳۵۳)

امام علیہ السلام اس خط میں قیام کا مقصد ایک ایسی حکومت کےقیام کے لئے کوشش قرار دیتے ہیں کہ جس کا حاکم و پیشوا مندرجہ ذیل صفات و خصوصیات کا حامل ہو:

الف: کتاب خدا کے مطابق حکومت کرے۔

ب: معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کرے۔

ج: دیندار اور دین خدا پر عقیدہ و ایمان رکھنے والاہو۔

د: اپنےاآپ کو خدا اور مقاصد الٰہیہ کے لئے وقف کر دے۔

4 امام حسینؑ نے اپنی مدد اور تعاون کی خاطر بصرہ کے بزرگوں کو ایک خط لکھا اور اسی میں اپنے قیام کا مقصد اس طرح تحریر فرمایا:

میں تمھیں کتاب خدا اور سنت رسولؐ خداکی طرف بلاتا ہوں اس لئے کہ سنت کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہےا ور بدعت کو زندہ کر دیا گیا ہے۔

(تاریخ طبری ج۵ص ۳۵۷)

امام ، عبداللہ بن مطیع کے جواب میں فرماتے ہیں:

کوفیوں نے میرے پاس خط لکھا ہے اور مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں ان کے پاس جاؤں اس لئے کہ انھیں امید ہے کہ میری قیادت میں حق کی نشانیاں زندہ اور بدعتیں نیست و نابود ہوں گی۔
(الاخبار الطوال ص ۳۶۴)

امام حسین نے بصرہ کے شیعوں کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا:

میں تمھیں حق کی نشانیوں کو زندہ کرنے اور بدعتوں کو نیست و نابود کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔
(الاخبار الطوال ص ۳۴۲)

امام نے ان خطوط اور جوابات کی روشنی میں قیام عاشورا کے مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد کا علم حاصل ہوتا ہے:

الف: خدا کی کتاب اور رسولؐخدا کی سنت کی طرف دعوت اور اس پر عمل

ب: ان بدعتوں کو نیست و نابود کرنا جو احکام الٰہی اور سنت نبوی کی جگہ بیٹھ گئی ہیں۔

ج: رسول خدا؈ کی نابود سنت کو زندہ کرنا اور حق و حقیقت کی نشانیوں کو قائم کرنا۔

5 امام حسینؑ نے منزل بیضہ میں حر بن یزید ریاحی کےلشکر سے روبرو ہونے کے بعد ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ نے اس خطبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے ارشاد کو دلیل بناتے ہوئے مقصد قیام کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

اے لوگو! جو شخص کسی ظالم حاکم کو دیکھے جو کہ حرام خدا کو حلال کر رہا ہو، خدا کے عہد و پیمان کو توڑ رہا ہو، رسول خداؐ کی سنت کی خلاف ورزی کر رہا ہو اور بندگان خدا کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتائو کر رہا ہو لیکن وہ شخص اس کے خلاف قول و فعل کے ذریعہ اٹھ کھڑا نہ ہو تو خدا پر ہے کہ اسے بھی اس ستمگر کے ٹھکانے تک پہونچا دے۔
اے لوگو! جان لو کہ ان لوگوں نے شیطان کی فرمانبرداری کو قبول کر لیا ہے اور ان فرمان الٰہی کی اطاعت سے آزاد ہو گئے ہیں ، فساد کو ظاہر کیا ہے اور حدود الٰہی کو معطل کر دیا ہے اور مسلمانوں کے بیت المال کو اپنے آپ سے مخصوص کر دیا ہے، حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام کر دیا ہےاور میں مسلمانوں کے امور میں تبدیلی لانے کے لئے سب سے لائق انسان ہوں۔

(تاریخ طبری ج ۵ص ۴۰۳)

اس خطبہ سے سید الشہداء کے قیام کا مقصد یہ سمجھا جاتا ہے کہ بنی امیہ کے حکمرانوں بالخصوص یزید ملعون نے اسلام کے خلاف قدم اٹھائے تھے او وہ مندرجہ ذیل ہیں:

الف: شیطان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور خدا کی فرمانبردار کو بالائے طاق رکھنا۔

ب: روئے زمین پر فتنہ و فساد برپا کرنا۔

ج: حدود الٰہی کو معطل کرنا۔

د: بیت المال کو اپنی جاگیر بنالینا۔

ھ: حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کرنا۔

اسی لئے ہم امام حسینؑ کی زیارت میں اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے احکام الٰہیہ اور سنت رسول خدا و امیر المومنین صلوات اللہ علیہما کو نافذ و قائم فرمایا ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام کیا۔ نماز قائم کی، زکات ادا کی، نیکیوں کا حکم دیا، برائیوں سے روکا اور مسلمانوں کو وعظ و نصیحت کے ذریعہ اپنے دین و آئین کی طرف دعوت دی۔

نیز عرض کرتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا اور مسلمانوں کو ان دونوں چیزوں کی طرف دعوت دی۔

6 امام حسینؑ نے منزل ذُو حُسَم پر اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح بیان فرمایا :

کیاتم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے روکا نہیں جا رہا ہے؟! ایسے حالات میں تو مرد مومن کو دیدار الٰہی کا خواہاں ہوناچاہئے۔ میں ایسی موت کو صرف شہادت جانتا ہوں اور ظالمین کے ساتھ زندگی کو ننگ و عار کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتا۔

امام علیہ السلام نے ذلت برداشت نہ کرنے کو قیام کے ایک دوسرے مقصد کے تحت مختلف خطبات میں بیان فرمایا ہے منجملہ جیسا عبیداللہ ابن زیاد نے امام حسینؑ کے سامنے دو راستے رکھے تھے یا شہادت یا بیعت یزید، تو آپ نے ارشاد فرمایا:
ذلت ہم سے دور ہے اور خدا، رسول خداؐ اور صاحبان ایمان نے ایسے ننگ و عار کو ہمارے لئے ذرہ برابر بھی پسند نہیں کیا ہے۔

(اثبات الوصیہ، ص ۱۶۶)

نیز فرمایا:
ذلت و رسوائی قبول کرنا ہم سے بہت دور ہے اس لئے کہ خدا و رسول نے اس سے انکار فرمایا ہے۔

(مقتل الحسینؑ خوارزمی ج۲ص۷)

اس حصہ میں قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ امام حسینؑ نے ذلت کو قبول نہ کرنے کی نسبت امر خدا، رسول اکرمؐ اور صا حبان ایمان کی جانب دی ہے اس لئے کہ حقیقی صاحب ایمان حکم خدا اور سنت نبوی ؐ کی پیروی کی بنا پر کبھی بھی ذلت قبول نہیں کرےگا۔

امام حسینؑ نے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے:

خدا کی قسم میں بیعت کے عنوان سے ذلیل و خوار آدمی کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دوں گا اور نہ ہی غلاموں کی طرح فرار اختیار کروں گا۔

(الارشاد ج۲ص۹۸)

نیزارشادفرمایا:

عزت کے ساتھ مرجانا ذلت کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے بہتر ہے۔

(مناقب ابن شہر آشوب ج۴ص ۷۵)

امام کے ان ارشادات سے ان اغراض و مقاصد کا علم ہوتا ہے:

الف: حق کو رائج کرنا اور اس پر عمل کرنا۔

ب: باطل کو رائج ہونے سے روکنا اور اس پر عمل کرنے سے بازرکھنا۔

ج: دنیا کی ذلت وخواری والی زندگی کو قبول نہ کرنا اور آخرت کی سعادت مند زندگی کو منتخب کرنا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام زیارت اربعین میں قیام حسینی کے مقصد کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:

وَبَذَلَ مُهْجَتَهُ فیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبادَکَ مِنَ الْجَهالَةِ، وَحَیْرَةِ الضَّلالَةِ۔

(تہذیب الاحکام، ج۶،ص۱۲۶)

امام حسین نے تیری راہ میں اپنی جان فدا کر دی تاکہ تیرے بندوں کو نادانی اور گمراہی کی سرگردانی و حیرانی سے نجات دلائیں۔

امام صادق کے ارشاد کی روشنی میں سید الشہداء کے مقصد قیام کو مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد میں پیش کیا جا سکتا ہے:

الف: مسلمانوں کو خدا کے احکام اور اپنے فرائض کی بے خبری سے نجات دلانا۔

ب: بندگان خدا کو گمراہی سے نجات دلانا، انھیں دین کے حقیقی رہنمائوں کی اطاعت و پیروی کے لازم ہونے سے آگاہ کرنا۔

نتیجہ

امام حسین علیہ السلام کے بیانات و ارشادات سے نکالے گئے اغراض و مقاصد میں مختصر غور وفکر کرکے یہ دیکھاجا سکتا ہے کہ آپ اپنے قیام کا مقصد اور علت اسلامی معاشرہ میں کثیر تعداد میں پھیلے منکرات اور برائیوں کا مقابلہ کرنا اور مسلمانوں کے درمیان معروف اور نیکیوں کو رائج کرنا ہے۔ لہٰذا آپ کے قیام کے اصلی فلسفہ کو ایک جامع ہدف و مقصد میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے اور وہ حقیقی اسلام کو زندہ کرنا اور اپنے جد کے دین سے بدعتوں اور تحریفوں کو نکال باہر کرنا ہے۔ البتہ امام نے اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو وسیلہ قرار دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام وصیت نامہ میں تحریر فرمایا تھا:

اُرِیْدُاَن آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ اَنْھَی عَنِ الْمُنْکَر۔

اور جیسا کہ بیان کیا گیا امام حسین علیہ السلام کی زیارتوں میں آیا ہے:

اَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنْ الْمُنْکَرِ۔

وضاحت:
اگر امام حسینؑ اپنے قیام کا مقصد وعلت بدعتوں کے رواج، کتاب خدا کی مخالفت، حلال و حرام خدا، سنت نبوی کی نابودی، شیطان کو محور بنانا اور اہلبیت کو چھوڑنا، فساد، ظلم و زیادتی، بے انصافی، اسلامی معاشرہ میں بدامنی، دور الٰہی کو معطل کرنا اور بیت المال کو اپنی ملکیت بنا لینا وغیرہ قرار دیتے ہیں تو یہ تمام چیزیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ معاشرہ میں منکرات حد سے زیادہ پھیل چکے تھے کہ آپ نے اپنا فریضہ نہی عن المنکر قرار دیا۔ نیز اگر امام حسینؑ اسلامی معاشرہ کو کتاب خدا، سنت نبوی پر عمل، حق کی نشانیوں کو زندہ کرنا، امن و امان پیدا کرنا، امت کے امور کی اصلاح کرنا وغیرہ کی جانب دعوت دیتے ہیں تو یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معروف نامی چیز سماج سے رخصت ہو گئی تھی یا کم ازکم نابود کے دہانے پر تھی۔اسی لئے اگر امام حسینؑ نے بیعت یزید سے انکار کر دیا اور آپ نے ایسا کرکے ایک طرف تو اپنے آپ کو شہادت اور حکومت یزید کے مقابلہ میں ثابت قدم رہنے کا اعلان کر دیا تو دوسری جانب یزید کی حکومت کو سرنگوں کرنے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لئے سعی و کوشش فرمائی۔

درحقیقت انکار بیعت، نہی عن المنکر، معروف کو رائج کرنے، بنی امیہ کی بدعتوں اور مظالم کے سامنے خاموشی کی حرمت کے سلسلہ میں مسلمانوں پر اتمام حجت کرنے کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ ایسی حکومت کی بیعت کرنا یا اس کے سامنے خاموشی اختیار کرنا منکر کو رائج کرنے اور معروف سے مقابلہ کرنے کے علاوہ عام لوگوں کے لئے اموی حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے عذر و بہانہ بنتا تھا۔

دوسرے لفظوں میں امام معصوم ہونے کے لحاظ سے امام حسینؑ کی سیرت میں جو بات مسلم اور ناقابل انکار نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ جیسی شخصیت اس بات کے لئے تیار نہیں تھی کہ وہ یزید جیسے آدمی کی بیعت کرے اور اس کی حکومت کو قانونی حکومت تسلیم کرے۔ اس لئے کہ آپ معاویہ کے دور حکومت اس کے بعد یزید کے دور حکومت میں امت مسلمہ کی گمراہی کی گہرائی دیکھ کر اس نتیجہ تک پہونچے تھے کہ اب وعظ و نصیحت اور پر جوش خطبوں کے ذریعہ اس انحراف و گمراہی کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے جو اسلامی معاشرہ نیز حکومت کے سیاسی اور اعتقادی بنیادوں میں رچ بس چکی ہے۔ لہٰذا اب امام کی نظرمیں امت مسلمہ کی واحد راہ علاج اور نجات ایک ہمہ گیر قیام ہے۔