زکات فطرہ کے انفرادی اور معاشرتی اثرات قرآن و حدیث کی روشنی میں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
زکات فطرہ کے انفرادی اور معاشرتی اثرات قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسد عباس اسدی
مقدمه
دینِ اسلام کا کمال یہ ہے کہ یہ ایسے ارکان واحکام پر مشتمل ہے جن کا تعلق ایک طرف خالق کائنات اور دوسری جانب مخلوق کےساتھ استوار کیا گیا ہے یعنی اسلام کے ارکان میں یہ ایک ایسا رکن اور فریضہ ہے جس کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد سے ہے۔ دین فرد کی انفرادیت کا تحفظ کرتے ہوئے اجتماعی زندگی کوہر حال میں قائم رکھنے کاحکم دیتاہے۔اس کے بنیادی ارکان میں کوئی ایسا رکن نہیں جس میں انفرادیت کے ساتھ اجتماعی زندگی کو فراموش کیا گیا ہو ۔انہی بینادی ارکان میں سے ایک اہم رکن زکوٰۃ ہے۔عربی زبان میں لفظ ’’ زکو ٰۃ ‘‘ پاکیزگی ،بڑھوتری اور برکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔جبکہ شریعت میں زکو ٰۃ ایک مخصوص مال کے مخصوص حصہ کو کہا جاتا ہے جو مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے ۔اور اسے زکو ٰۃ اس لیے کہاجاتا ہے کہ اس سے دینے والے کا تزکیہ نفس ہوتا ہے اور اس کا مال پاک اور بابرکت ہوجاتا ہے۔
ادائیگی زکو ٰۃ دین اسلام کا اہم ترین حکم ہے ۔ زکو ٰۃ ادا کرنےکے بے شمار فوائد، اور ادا نہ کرنے کے نقصانات ہیں ۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں تفصیل سے اس کے احکام ومسائل بیان ہوئے ہیں ۔
جو شخص اس کی فرضیت سےانکار کرے وہ یقینا کافر ہے ۔ اور جو شخص زکات کی فرضیت کا تو قائل ہو لیکن اسے ادا نہ کرتا ہو اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا،جس کی وضاحت سورہ توبہ کی آیت 34۔35 میں موجود ہے ۔
زکوٰۃ ایک اہم ترین فریضہ ہے جسے نماز اور جہاد کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور یہ دین کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے۔
زکات کا مفہوم
زکوٰۃ لفظ "زکو" سے ماخوذ ہے اور اس کے لغوی معنی نشوونما کے ہیں[1]، تزکیہ، نیکی اور تقویٰ [2] اور حمد و ثناء ہے [3]۔
اور اس کا اصل معنی خدائی نعمتوں سے حاصل ہونے والا اضافہ ہے جو دنیاوی معاملات میں استعمال ہوتا ہے اور آخرت کا اجر رکھتا ہے [4]۔
فقہی اصطلاح میں اس سے مراد صدقہ اور ایک خدائی حق ہے جو مخصوص شرائط کے ساتھ مال کی ایک خاص مقدار تک پہنچنے پر ادا کیا جاتا ہے[5]، اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَکِّیهِمْ بِها [6]
آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں ۔
اهمیت زکات
زکوٰۃ کی اہمیت اس قدر ہے کہ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ اس کا ذکر ہے اور دعا کی قبولیت زکوٰۃ کی ادائیگی سے مشروط ہے۔
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو نماز کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور فرمایا ہے:
أَقِیمُوا الصَّلاةَ وَ آتُوا الزَّکاةَ [7]۔
پس وہ شخص جو نماز قائم کرتا ہے لیکن زکوٰۃ نہیں دیتا،گویا اس نے نماز پڑھی ہی نہیں ہے [8]۔
قرآن نے زکوٰۃ کی ادائیگی کو سعادت کا سبب اور کامیاب مومنین کی خصوصیت قرار دیا ہے:
وَ الَّذینَ هُمْ لِلزَّکاةِ فاعِلُون [9]
زکوٰۃ اللہ کی رحمت کے حصول کی بنیاد ہے، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:
وَ رَحْمَتی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ فَسَأَکْتُبُها لِلَّذینَ یَتَّقُونَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکاةَ وَ الَّذینَ هُمْ بِآیاتِنا یُؤْمِنُونَ [10]
اور میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے، اور میں اسے ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں
زکوٰۃ اسلام کے ستونوں میں سے ایک ہے، اسی لیے قرآن مشرکین کے بارے میں کہتا ہے:
فَإِنْ تابُوا وَ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّکاةَ فَإِخْوانُکُمْ فِی الدِّینِ،[11]
لیکن اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں ۔
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
بنی الاسلام علی خمسة اشیاء : علی الصلاة و الزکاة والحج والصوم والولایة[12]
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے ۔ نماز ، زکات ، حج ، روزہ اور ولایت
امیر المومنین علی علیہ السلام نے بھی زکوٰۃ کو خدا کا قرب، گناہوں کا کفارہ اور آگ سے حفاظت کا ذریعہ قرار دیا اور فرمایا:
یقیناً زکوٰۃ ادا کرنا اور نماز پڑھنا ایسے عوامل ہیں جو مسلمانوں کو خدا کے قریب کرتے ہیں، لہٰذا جو شخص اطمینان قلب کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرتا ہے، یہ اس کے گناہوں کا کفارہ اور جہنم کی آگ سے انسان کی حفاظت کرتی ہے، جو شخص خوشی سے زکوٰۃ ادا نہیں دیتا وہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل کی سنت سے غافل ہے، اس کا ثواب کم ہوگا، اس کے اعمال برباد ہوں گے اور وہ ہمیشہ پشیمان رہے گا۔[13]
زکات فطرہ کے ادا کرنے کا فلسفه
درحقیقت جن لوگوں کو روزے کی توفیق نصیب ہوئی ہے اور وہ ایک مہینے کے لیے خدا کے مہمان ہیں، وہ اس بابرکت مہینے کی کامیابی کے شکرانے کے طور پر عید الفطر کے موقع پر بندگی پروردگار کا جشن منانا چاہتے ہیں تو اس جشن میں اپنے غریب بھائیوں کو بھی شریک کریں ۔
اس لیے زکات فطرہ کی ادائیگی کی ایک اہم ترین حکمت یہ ہے کہ غریبوں، محروموں اور مظلوموں کی انتہائی احترام کے ساتھ اس طرح مدد کی جائے کہ ان کے انسانی وقار کو محفوظ رکھا جائے، تاکہ اس کے ذریعے وہ لوگ جن کی کمر مشکل معاشی حالات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، یا معذور اور بوڑھے لوگوں کی مدد کر سکیں۔
زکات فطرہ کے اثرات
الٰہی فرائض مصالح انسانی کے مطابق ہیں ، زکوٰۃ کا حکم بھی اسی طرح ہے اور زکوٰۃ کے انفرادی، سماجی اور اقتصادی اثرات اور برکات دینے والے اور لینے والے دونوں پر مرتب ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے۔
الف) انفرادی اثرات
1۔ روح کی طهارت
قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَکِّیهِمْ بِها [14]
ان کے اموال میں سے صدقہ لے لو، تاکہ تم اس سے ان کو پاک و پاکیزہ کرو ۔
رذایل نفسانی میں سے ایک، خرچ کرنے میں بخل ،اور مال جمع کرنے میں حرص ہے،قرآن نے ان برائیوں کا تذکرہ صفت «بخل» و «شُحّ» سے کیا ہے،بعض روایات کے مطابق «شحّ» بخل سے زیادہ سخت ہے۔
بخیل یہ ہے جو کچھ اپنے پاس ہے اسے روک لے،لیکن «شحّ» شخص دوسروں کے مال میں بھی بخل کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ جو کچھ لوگوں کے ہاتھ میں دیکھتا ہے حاصل کرنا چاہتا ہے،چاہے وہ حلال ہو یا ناجائز، وہ کبھی بھی اس سے مطمئن نہیں ہوتا جو خدا نے اس کے لیے دیا ہے[15]۔
زکوٰۃ کی ادائیگی انسان کو مادی لگن سے آزاد کرتی ہے اور اس کی روح کو ان برائیوں سے پاک کرتی ہے، لہٰذا، قرآن پاک ان لوگوں کو ممتاز کرتا ہے جو اپنی جائیداد میں فقیر اور محروم کے لیے ایک مخصوص حق کو پہچانتے ہیں اور ادا کرتے ہیں [16]۔
2۔ گناہوں کی بخشش
زکوٰۃ کے آثار میں سے ایک اثر یہ ہے کہ اس کے ادا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش دی جاتی ہے اور وہ گناہوں اور پلیدگیوں سے پاک ہو جاتے ہیں،جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
الزَّکَاةُ تُذْهِبُ الذُّنُوبَ [17]۔
زکات گناہوں کو ختم کر دیتی ہے
امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:
مَنْ أَعْطَاهَا طَیِّبَ النَّفْسِ بِهَا فَإِنَّهَا تُجْعَلُ لَهُ کَفَّارَةً [18]
جو شخص رضائے خدا کیلئے زکوٰۃ ادا کرے گا، اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔
3۔تقرب الهی
زکوٰۃ کی ادائیگی حکومتوں کے عائد کردہ ٹیکسوں کی طرح نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک حقیقت عبادی ہے جو ایمان اور یقین کی روح سے پیدا ہوتی ہے اور زکوٰۃ دینے والا خدا کی خوشنودی اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین علی ؑ نے زکوٰۃ کو مسلمانوں کیلئے تقرب خدا کا ذریعہ قرار دیا ہے:
إِنَّ الزَّكَاةَ جُعِلَتْ مَعَ الصَّلَاةِ قُرْبَاناً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَمَنْ أَعْطَاهَا طَيِّبَ النَّفْسِ بِهَا فَإِنَّهَا تُجْعَلُ لَهُ كَفَّارَةً وَ مِنَ النَّارِ حِجَازاً وَ وِقَايَةً؛ فَلَا يُتْبِعَنَّهَا أَحَدٌ نَفْسَهُ وَ لَا يُكْثِرَنَّ عَلَيْهَا لَهَفَهُ، فَإِنَّ مَنْ أَعْطَاهَا غَيْرَ طَيِّبِ النَّفْسِ بِهَا يَرْجُو بِهَا مَا هُوَ أَفْضَلُ مِنْهَا، فَهُوَ جَاهِلٌ بِالسُّنَّةِ، مَغْبُونُ الْأَجْرِ، ضَالُّ الْعَمَلِ، طَوِيلُ النَّدَمِ. [19]
اس نے نماز کے ساتھ زکوٰۃ کو بھی مسلمانوں کو خدا کے قریب کرنے کا ذریعہ بنایا۔ جو شخص خوشی سے اور قناعت کے ساتھ زکوٰۃ دے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہے اور اسے جہنم کی آگ سے بھی محفوظ رکھے گا۔ لہٰذا زکوٰۃ دینے والے کو ہمیشہ اس کا خیال نہیں رکھنا چاہیے اور ادا کرنے پر پشیمان نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ جو شخص زکوٰۃ دیتا ہے لیکن نیک دل اور اطمینان قلب کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ سے اس امید کے ساتھ کہ اس کو اس سے بہتر کچھ ملے گا جو اس نے دیا ہے، ایسا شخص سنت نبوی سے ناواقف ہے اور اس نے ثواب میں کمی کی ہے۔ وہ اپنا غصہ کھو دے گا اور اپنے کیے پر پشیمان ہو گا۔
4 ۔ عذاب سے استثنیٰ
امیر المومنین علی ؑ نے فرمایا:
فَمَنْ أَعْطَاهَا طَیِّبَ النَّفْسِ بِهَا فَإِنَّهَا تُجْعَلُ لَهُ کَفَّارَةً وَ مِنَ النَّارحِجَازاً وَ وِقَایَةً
جو شخص اسے خوش دلی سے رضائے پروردگار کیلئے دے گا، یہ اس کے لیے کفارہ اور آگ سے حفاظت ہے [20]
5۔ اطمینان
غربت کا شکار شخص روزی کمانے کے بارے میں بے چینی اور خوف کا شکار ہوتا ہے، بنیادی ضروریات سے محرومی عام طور پر عبادت، خدمت اورالہی فرائض کے حصول کو مشکل بنا دیتی ہے ،ایسی صورت میں زکوٰۃ ان کی مادی ضروریات کو پورا کر کے ان سے پریشانیاں اور ان کی روحانی تکالیف کو دور کر کے انہیں اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی اور اظہار تشکر کی بنیاد فراہم کرتی ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ هذَا الْبَیْتِ الَّذی أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَ آمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ [21]
وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا، اور خوف اور عدم تحفظ سے محفوظ رکھا۔
6 ۔ صحت کی ضمانت
ہمارے ہاں احادیث موجود ہیں کہ زکات فطرہ دینے سے اس سال موت سے بچا جا سکتا ہے، جیسا کہ امام جعفر صادق ؑ کی ایک روایت میں ہے:
عَنْ مُعَتِّبٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ(ع) قَالَ: اذْهَبْ فَأَعْطِ عَنْ عِیَالِنَا الْفِطْرَةَ- وَ عَنِ الرَّقِیقِ وَ اجْمَعْهُمْ وَ لَا تَدَعْ مِنْهُمْ أَحَداً- فَإِنَّکَ إِنْ تَرَکْتَ مِنْهُمْ إِنْسَاناً تَخَوَّفْتُ عَلَیْهِ الْفَوْتَ- قُلْتُ وَ مَا الْفَوْتُ قَالَ الْمَوْتُ[22]
امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ میں اپنے اہل و عیال اور رشتہ داروں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کروں اور ان سب کا خیال رکھوں اور ان میں سے کسی کو بھی نہ بھولنا کیونکہ اگر تم ان میں سے کسی کو چھوڑ دو گے تو مجھے ان کی موت کا اندیشہ ہے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے پوچھا کہ فوت سےآپ کی کیا مراد ہے ؟ آپؑ نے فرمایا: موت۔
لہٰذا زکوٰت فطرہ کی ادائیگی کی حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ صحت وسلامتی کی ضمانت ہے۔
ب. آثار اقتصادی
1. دولت میں اضافہ
اگرچہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ظاہری طور پر مال میں کمی نظر آتی ہے، لیکن مادی تصورات کے برعکس یہ دولت میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے:
وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ [23]
اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اللہ اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ایک خطبہ میں فرمایا:
فَفَرَضَ اللَّهُ الْإِیمَانَ تَطْهِیراً مِنَ الشِّرک وَ الصَّلَاةَ تَنْزِیهاً عَنِ الْکِبْرِ وَ الزَّکَاةَ زِیَادَةً فِی الرِّزْقِ [24]
اللہ تعالیٰ نے ایمان کو واجب کیا تاکہ دلوں کو شرک سے پاک کرے اور زکوٰۃ کو بیماری سے پاک کرنے کے لیے فرض کیا ہے۔
کسی نے امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا ، خدا اس چیز کو لوٹاتا ہے جو ہم خرچ کرتے ہیں؟ تو میں جو کچھ بھی خرچ کرتا ہوں اسے کیوں نہیں لوٹایا جاتا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:
کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے ؟ اس نے جواب دیا: نہیں، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: پھر ایسا کیوں ہے؟ اس آدمی نے کہا میں نہیں جانتا۔ امام ؑ نے فرمایا: "اگر تم میں سے کوئی حلال مال کمائے اور اسے حلال طریقے سے خرچ کرے تو وہ ایک درہم بھی خرچ نہیں کرتاجب تک کہ خدا اسے اس کا اجر نہ دے دے[25]۔
2۔ دولت کی ایڈجسٹمنٹ
اسلامی معاشیات کے مقاصد میں سے ایک معاشرے میں دولت کا بہاؤ اور دولت مندوں کے ہاتھوں میں اس کا ارتکاز ہے۔ زکوٰۃ کے آٹھ استعمال بتا کر قرآن کریم نے مال کی تقسیم کے لیے اپنے عملی منصوبے کی ایک خوبصورت مثال ظاہر کی ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت واضح ہو جاتا ہے جب ہم جانتے ہیں کہ زکوٰۃ کی اشیاء میں سے ایک سونے اور چاندی کے سکّے ہیں، جو معیشت اور دولت میں اثرانداز ہوتے ہیں، اور اس کے علاوہ تجارتی سرمائے پر بھی زکوٰۃ ادا کرنا مستحب ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے:
وَ الَّذینَ یَکْنِزُونَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لا یُنْفِقُونَها فی سَبیلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلیمٍ [26]
اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی نوید سنا دو ۔
3۔ غربت کا خاتمہ
بعض روایات میں زکوٰۃ کے وجوب کا مقصد غربت کا خاتمہ بتایا گیا ہے، یحیی بن سعید کہتے ہیں:
عمر بن عبدالعزیز نے مجھے زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے افریقہ بھیجا ، زکوٰۃ جمع کرنے کے بعد مجھے کوئی فقیر نہ ملا جسے میں زکات دے سکتا، اس لیے میں نے غلام خریدے اور انہیں آزاد کر دیا۔
غریبوں کی یہ کمی غربت کے خاتمے میں زکوٰۃ کے کردار کی نشاندہی کرتی ہے، امیر المومنین علی ؑ مالک اشتر کو اپنے ایک حکم نامہ میں بیت المال میں ضرورت مندوں کا حصہ یاد دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
خدارا خدارا، معاشرے کے ان نچلے اور محروم طبقوں کا خیال کریں جن کے پاس کچھ نہیں ، بے زمینوں، محتاجوں، مصیبت زدوں اور مصائب میں گھرے افراد کا خدا کیلئے خیال رکھیں ، اس محروم طبقے میں کچھ لوگ تنگ دست ہیں اورکچھ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، اس لیے خدا را ان کے حق کے محافظ بنیں جو اللہ نے اس طبقے کے لیے مقرر کیا ہے، بیت المال کا ایک حصہ اور اسلامی فتوحات کی زمینوں سے اناج کا ایک حصہ ہر شہر میں نچلے طبقے کے لیے مختص کرنا، اس لیے کہ اس میں دور کے مسلمانوں کے لیے بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا قریب کے مسلمانوں کا، اور اس کی نگہبانی کی ذمہ داری تم پر ہے [27]۔
یہ اقدام مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے، کیونکہ اسلامی معیشت کے مقاصد میں سے ایک مستقل طور پر محتاجوں حتیٰ کہ کفار کی روزی روٹی کا بندوبست کرنا ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام کا گزر ایک لاچار بوڑھے کے پاس سے ہوا جو بھیک مانگ رہا تھا،مولا نے اس کا حال پوچھا توبتایا گیا وہ عیسائی ہے، امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا:
جب جوان تھا تو کام کیا ، اب جب کہ وہ بوڑھا اور بے بس ہے تو اس کے اخراجات بیت المال سے ادا کرو۔ [28]
زکوٰۃ بھی اسی طرح ہے، کیونکہ غریب، مساکین، مسافر اور قرض دار جو قرض ادا کرنے سے عاجز ہیں وہ زکوٰۃ کے استعمال کا حصہ ہیں اور قرآن نے اسے ایک ابدی اور دائمی پروگرام قرار دیا ہے۔
4۔سرمایہ کے جمود کو روکنا
جن اشیاء پر زکوٰۃ واجب ہے ان میں سونے اور چاندی کے سکے بھی شامل ہیں جو کہ معصومین علیہم السلام کے زمانے میں رائج کرنسی تھے۔ فقہ کی کتابوں میں اس کی ایک وجہ خدا کا کلام ہے جس میں کہا گیا ہے:
وَ الَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لا یُنْفِقُونَها فِی سَبِیلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِیمٍ [29]
اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی بشارت سنا دو ۔
اس آیت میں خدا نے سونا چاندی سے ترک انفاق پر سزا کا وعدہ کیا ہے اور اس کا اطلاق صرف زکوٰۃ جیسے واجبات کو ترک کرنے پر ہوتا ہے [30]۔
ج۔ آثار نظامی
دفاعی قوت کو مضبوط کرنا
زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک کا عنوان«فی سَبِیل الّله» ذکر ہوا ہے، اس میں شک نہیں کہ جہاد «سبیل الله» کا واضح مصداق ہے، اگرچہ شیعہ علماء کے مطابق، زکات کا اطلاق تمام مسلمانوں کے مفادات پر ہوتا ہے، جیسے کہ مساجد اور پلوں کی تعمیر کے اخراجات [31] وغیرہ ۔
اہل سنت علماء نے «سبیل الله» کو صرف جہاد کے لیے سمجھا ہے اور زکوٰۃ کو عوامی مفادات پر خرچ کرنے کو جائز نہیں سمجھا ہے[32]۔ بہر صورت زکوٰۃ اسلامی معاشرے کی دفاعی قوت میں کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔
د۔ آثار اجتماعی
1۔مخالفین کو اپنی طرف متوجہ کرنا
زکوٰۃ کے مستحقین میں سے ایک وہ ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے «وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ» کے طور پر کیا ہے۔ اور «وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ» ‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو زکوٰۃ کا حصہ لے کر رفتہ رفتہ اسلام قبول کرتے ہیں یا اگر مسلمان نہیں ہوتے تو دشمن کو پسپا کرنے میں یا دینی مقاصد کی تکمیل میں مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں [33]۔
2۔ امیروں سے حسد و ناراضگی دور کرنا
معاشرے میں ایک طبقہ جو اپنی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں، بعض اوقات ان لوگوں میں ناراضگی اور حسد ،خونی تصادم کا باعث بن جاتا ہے جس کی بہت سی تاریخی مثالیں موجود ہیں۔
زکوٰۃ کا حکم اس لئے ہے تاکہ ضرورت مندوں کو یہ احساس رہے کہ امیر ان کی مشکلات سے بے خبرنہیں ہیں، اور ان کی سرگرمیوں کا ایک حصہ ضرورت مندوں سے متعلق ہے ۔
اسی مناسبت سے جب قرآن مومنین کے لیے ولایت کے تعلق کو بیان کرتا ہے اور یہ کہہ کر انتہائی یکجہتی کا اعلان کرتا ہے کہ «بَعْضُهُمْ أَوْلِیاءُ بَعْضٍ» ، ان کی صفات میں یہ بیان کرتا ہے «وَ یُقیمُونَ الصَّلاةَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکاةَ» [34] وہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔شہید مطہری لکھتے ہیں:
نماز مخلوق اور خالق کے درمیان تعلق کی ایک مثال ہے، اور زکوٰۃ مسلمانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات کی ایک مثال ہے، جو اسلامی ہمدردی کے نتیجے میں ایک دوسرے کی حمایت، تعاون اور مدد کرتے ہیں۔ یہ آیت اور کچھ دوسری آیات جن میں عمومی مثبت محبت کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ نہ صرف دلی محبت بلکہ یہ مسلمانوں کے درمیان اچھے تعلقات کے تناظر میں مسلمانوں کے لیے ایک قسم کی وابستگی اور ذمہ داری کو ثابت کرتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے ایک مشہور حدیث میں فرمایا:
مومنین کی آپس میں محبت زندہ جسم کی طرح ہے، جب ایک حصہ میں درد ہوتا ہے تو دوسرے اعضاء بھی بے تاب ہوجاتے ہیں[35]۔
زکوٰۃ الفطر کا ایک اہم استعمال یہ ہے کہ اسے غریبوں پر خرچ کیا جائے، غریب وہ ہیں جو اپنے سالانہ اخراجات پورے نہیں کر سکتے۔
[1] ۔ احمد فیّومی؛ المصباح المنیر؛ ج 1-2، ص 254۔
[2] ۔ خلیل ابن احمد فراهیدی؛ العین؛ ج 5، ص 394۔
[3] ۔ مبارک بناثیر؛ النهایه فی غریب الحدیث و الاثر؛ ج 2، ص 307۔
[4] ۔ حسین بن محمد راغب اصفهانی؛ مفردات الفاظ القرآن؛ ص380 ۔
[5] ۔ محمدحسن نجفی؛ جواهر الکلام فی شرح شرائع الإسلام؛ ج 15، ص 3۔
[6] ۔ توبه/ 103۔
[7] ۔ بقره/ 43۔
[8] ۔ محمد بن حسن حر عاملی؛ وسایل الشیعه؛ ج 9، ص 22۔
[9] ۔ مؤمنون/ 4۔
[10] ۔ ا عراف/ 156۔
[11] ۔ توبه/ 11۔
[12] ۔ محمد بن حسن حر عاملی؛ وسایل الشیعه؛ ج 1، ص 13؛ کافی ، ج ۲، کتاب الایمان والکفر، باب دعائم الاسلام، ح ۵۔
[13] ۔ محمد بن حسین شریف الرضی؛ نهجالبلاغه؛ خطبه 199۔
[14] ۔ توبه/ 103۔
[15] ۔ محمد بن حسن حر عاملی؛ وسایل الشیعه؛ ج 9، ص 38۔
[16] ۔ معارج/ 19- 25۔
[17] ۔ محمد بن یعقوب کلینی؛ الکافی؛ ج 2، ص 19۔
[18] ۔ محمد بن حسین شریف الرضی؛ نهجالبلاغه؛ خطبه 199۔
[19] ۔ ایضا ۔
[20]۔ ایضا۔
[21] ۔ قریش/ 3 و 4۔
[22] ۔ اصول کافی، ج4، ص174؛ (بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی، درس تفسیر، 9/7/1387)۔
[23] ۔ سبأ/ 39۔
[24] ۔ محمد بن علی صدوق؛ کتابُ من لایحضره الفقیه؛ ج 3، ص 568۔
[25] ۔ محمد بن یعقوب کلینی؛ الکافی؛ ج 2، ص 486۔
[26] ۔ توبه/34 ۔
[27] ۔ محمد بن حسین شریف الرضی؛ نهجالبلاغه؛ ص583۔
[28] ۔ محمد بن حسن طوسی؛ تهذیب الاحکام؛ ج 6، ص 293۔
[29] ۔ توبه/24۔
[30] ۔ حسن بن یوسف حلّی؛ تذکره الفقهاء؛ ج 5، ص 118؛ محمدحسن نجفی؛ جواهر الکلام فی شرح شرائع الإسلام؛ ج 13، ص 312؛ سید ابوالقاسم خویی؛ موسوعة الامام الخویی؛ ج 23، ص 260 و 261۔
[31] ۔ محمد بن حسن طوسی؛ التّبیان فی تفسیر القرآن؛ ج 5، ص 245۔
[32] ۔ یوسف القرضاوی؛ فقه الزّکاه؛ ج 2، ص 656۔
[33] ۔ سید محمدحسین طباطبایی؛ المیزان فی تفسیر القرآن؛ ج 9، ص 311۔
[34] ۔ توبه/ 71۔
[35] ۔ مرتضی مطهری؛ مجموعه آثار؛ ج 3، ص 265۔
علمی ، فکری ، تحقیقی ، تبلیغی