صلح امام حسن علیہ السلام کے اسباب ، شرائط اور نتائج
صلح امام حسن علیہ السلام کے اسباب ، شرائط اور نتائج
مقدمہ
دور حاضر میں نئی نسل کا ہر جوان امام حسن علیہ السلام سے متعلق ایک سوال ضرور کرتا ہے وہ یہ کہ آپ علیہ السلام نے صلح کیوں کی؟ لہذا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آپ وارث قرآن و عترت تھے پھر آپ نے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی؟ آپ چاہتے تو اس کے ساتھ جنگ کرتے یہاں تک کہ شہید ہوجاتے۔ آخر وہ کونسے اسباب تھے جن کی وجہ سے آپ صلح کرنے پر مجبور ہوگئے؟ مذکورہ سوالوں کا جواب خود امام حسن علیہ السلام کے اقوال سے دیا گیا ہے ، امام حسن علیہ السلام ایک مقام پر صلح کے معترض کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: قسم ہے پالنے والے کی میں نے حکومت اس وجہ سے معاویہ کو سپرد کردی کہ میرا کوئی مددگار نہ تھا اور اگر میرے مددگار ہوتے تو اس کے خلاف شب و روز لڑتا حتی کہ خداوند متعال میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرتا ۔ ایک مقام پر وھب جھنی نے سوال کیا کہ لوگ معاویہ سے جنگ اور صلح کے درمیان مشوش ہیں آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم اگر معاویہ سے جنگ کروں گا تو یہی لوگ مجھے اسیر بنا کر اسکے سامنے پیش کردیں گے۔ ایک مقام پر حجر ابن عدی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ زیادہ تر لوگ صلح کی طرف راغب اور جنگ سے روگردان ہیں چنانچہ میں نے نہیں چاہا کہ انہیں ایسی چیز (جنگ) پر مجبور کروں جس کو وہ ناپسند کرتے ہیں، پس میں نے اسی کو مصلحت سمجھا کہ معاویہ کے ساتھ مسالمت آمیز رویہ اپناؤں اور اپنے اور اس کے درمیان جنگ کو بند کردوں؛ میں نے دیکھا کہ خون کا تحفظ خون بہانے سے بہتر ہے اور اس کام سے میرا ارادہ تمہاری خیر خواہی اور بقاء کے سوا کچھ نہ تھا۔ اے حجر جیسا تم چاہتے ہو لوگ ویسا نہیں چاہتے، میں نے یہ قدم تم جیسے شیعیوں کی حفاظت کے لئے اٹھایا ہے ۔ کسی نے گستاخانہ لہجہ اختیار کرکے امام حسن مجتبی علیہ السلام سے کہا: (اے مؤمنوں کو ذلیل کرنے والے)، تو آپ نے فرمایا: میں نہیں ہوں بلکہ (مؤمنوں کو عزت دینے والا) ہوں؛ کیونکہ جب میں نے دیکھا کہ تم (پیروان آل محمد(ص)) میں سپاہ شام کا مقابلہ کرنے کی قوت نہیں ہے تو میں نے اپنی حکومت دے دی تاکہ ہم اور تم باقی رہیں۔ ایک مقام پر آپ صلح کے معترض کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میری صلح ویسی ہی ہے جیسے رسول کی صلح، حدیبیہ میں تھی بس فرق اتنا ہے کل جن سے صلح کی گئی تھی وہ تنزیل (قرآن)کے منکر تھے اور آج جن سے صلح ہورہی ہے وہ تاویل (تفسیر ) کے منکر ہیں ۔ اسکے بعد اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر میں یہ کام نہ کرتا تو روئے زمین پر ایک شیعہ بھی زندہ نہ رہتا اور یہ (معاویہ اور اس کے حامی) سب کو (چن چن کر) قتل کرتے۔ بعض نادان (صلح کی اہمیت سے بے خبر )لوگوں کی سرزنش کرتے ہوئے آپ ارشاد فرماتے ہیں: تم لوگوں پر وائے ہو کہ، تمہیں کیا معلوم کہ میں نے کیا کیا ہے؟ خدا کی قسم میں نے جو کام انجام دیا ہے وہ ہمارے شیعیوں کے لئے ان پر سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے بھی زیادہ بہترہے ۔
صلح امام حسن علیہ السلام کے علل و اسباب
1- امام علیہ السلام کا علم
شیخ صدوق نے اپنے اسناد کے ساتھ ابی سعید عقیصا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: جب میں حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچا اور آپ سے عرض کی: اے فرزند رسول خدا جب آپ کو معلوم ہے کہ حق آپ کے ساتھ ہے ، پهر کیوں آپ نے گمراه اور ظالم کے ساتھ صلح کی ہے ، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ابو سعید! معاویہ کے ساتھ میری صلح کے علل و اسباب وہی ہیں جو رسول خدا (ص) کے مکہ والوں اور بنی ضمره کے ساتھ صلح کے تھے ، اہل مکہ کافر ہیں، تنزیل (قرآن کریم کی ظاہری آیات) کی بنا پر، اور معاویہ اور اس کے اصحاب بهی کافر ہیں تاویل (قرآن کریم کے آیات کے باطن) کی بنا پر۔ اے ابوسعید! کیا تم نے جناب خضر (ع) کے واقعہ کو نہیں سنا کہ اس لڑکے کو کشتی میں سوراخ کرنے کی وجہ سے قتل کر ڈالا، اور اس گری ہوئی دیوار کی مرمت کردی، جناب موسی علیہ السلام نے ان کے کاموں پر اعتراض کیا، کیونکہ انہیں ان کاموں کا راز معلوم نہیں تها، لیکن جس وقت ان کاموں کی علت کو سمجھ لیا تو اس پر راضی ہوگئے، اسی طرح میری صلح ہے اور چونکہ تمہیں اس کا راز معلوم نہیں ہے اس وجہ سے اس پر اعتراض کرتے ہو ۔
2- دین کا تحفظ
حضرات آئمہ علیہم السلام کے نزدیک ، دین کی حفاظت، اور اہل بیت(ع) کی تعلیمات کا زنده کرنا سب سے بنیادی عنصر ہے ، چنانچہ حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: سلامة الدین احبّ الینا من غیره ، یعنی دین کا تحفظ، ہمارے نزدیک دوسری تمام چیزوں سے زیاده محبوب ہے ۔ اس بنا پر حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی صلح کی ایک اہم علت ، دین کا تحفظ ،قرار دیا جاسکتا ہے ،کیونکہ اسلامی معاشره کے حالات اس طرح تھے کہ معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے میں اصل دین ہی ختم ہوجاتا ، اس کے علاوه اسلامی معاشره کے بیرونی حالات اس بات کی عکاسی کرر ہے تھے کہ مشرقی روم، مسلمانوں پر فوجی حملہ کرنے کے لئے تیار تها۔ دوسری طرف سے اس وقت کے مسلمان بهی ثقافتی لحاظ سے ایسے حالات میں تھے جو جنگ و خونریزی کو دین اور مقدسات کے سلسلہ میں ایک قسم کی بدبینی سمجھ ر ہے تھے ، جیسا کہ حضرت امام حسن (علیه السلام) نے اپنے چاہے والوں کے اعتراض کے جواب میں فرمایا: انّی خشیت أن یجتثّ المسلمون عن وجه الارض فاردت ان یکون للدّین ناعی، میں اس بات سے خوف زده ہوں کہ کہیں زمین سے مسلمانوں کی جڑوں کا خاتمہ نہ کردیا جائے، اور کوئی بهی مسلمان باقی نہ ر ہے ، اسی وجہ سے میں صلح کرکے دین خدا کی حفاظت کی ہے۔
3- مصالح عمومی
عام مصلحتوں کی رعایت کرنا، سب سے زیاده عقلمندی اسٹراٹیجک ہوتی ہے ، جو دلسوز اور آزادی خواه رہبروں خصوصا الہی رہبروں کی طرف سے ہوتی ہے ، چونکہ وه حضرات عام مصلحتوں کو ذاتی یا کسی خاص گروه کی مصلحتون پر قربان نہیں کرتے، حضرت امام حسن(علیہ السلام) نے بهی خونریزی سے روک تهام اور مسلمانوں کی مصلحتوں کی پیش نظر صلح کی، جیسا کہ آپ نے فرمایا: میں نے صلح قبول کی ہے تاکہ خونریزی سے روک تهام کرسکوں اور اپنی اور اپنے اہل خانہ اور اپنے اصحاب کی جان کی حفاظت کی ہے۔
آپ کو معلوم تها کہ کچھ لوگ مجھے مذل المومنین کہیں گے اور بعض لوگ آپ کی بے احترامی اور توہین کریں گے، لیکن آپ نے ان تمام سختیوں کو برداشت کیا تاکہ عام مصلحتیں خطره میں نہ پڑجائیں، کیونکہ معاویہ سے جنگ کرنا، نہ کوفیوں کے فائده میں تها، نہ شام والوں کے مفاد میں، بلکہ اس سے رومیوں کے عالم اسلام پر حملہ کا راستہ فراہم ہوتا، چنانچہ ابن واضح یعقوبی تحریر کرتے ہیں: معاویہ سن 41ہجری میں شام واپس آیا اور جب اسے معلوم ہوا کہ رومیوں کا ایک بڑا لشکر حملہ کے لئے آگے بڑھ رہا ہے ۔۔۔ تو اس نے ایک لاکھ دینار بهیج کر صلح کرلی۔ شاید اسی دلیل (عام مصلحتوں کی رعایت) کی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت امام حسن علیہ السلام کے لئے فرمایا تها: بے شک یہ میرا بیٹا مسلمانوں کا امام ہے ، امید ہے کہ خداوندعالم اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروه کے درمیان صلح کرائے گا۔ حضرت امام حسن (ع) کی صلح، حضرت حضرت امام حسین (ع) کے قیام کا راستہ ہموار کرنے والی شئی ہے ، جیسا کہ علامہ سید عبد الحسین شرف الدین صاحب تحریر کرتے ہیں: حضرت امام حسن (علیہ السلام) کو اپنی جان کی قربانی دینے سے دریغ نہیں تها، اور حضرت امام حسین (علیہ السلام) راه خدا میں آپ سے زیاده قربانی دینے والے نہیں تھے ، آپ نے اپنی جان کو خاموش اور آرام آرام جہاد کے لئے روک رکھا تها، شہادت کربلا، قبل اس کے کہ حسینی هو، حسنی ہے ، صاحب نظر دانشوروں کی نظر میں امام حسن (علیہ السلام) کا دن فداکاری کے مفہوم میں بہت زیاده آمیختہ تها روزعاشوره امام حسین علیہ السلام کے نسبت، کیونکہ حضرت امام حسن (علیہ السلام) نے اس دن، فداکاری کے موقع پر، ایک خستگی ناپذیر اور پائیدار قهرمان کے کردار کو ایک مظلومانہ صورت میں مغلوب کے انداز میں ادا کیا، شهادت عاشورا، اس دلیل کی بنا پر پهلے حسنی ہے ، اس کے بعد حسینی ہے ، کہ امام حسن (علیہ السلام) نے اس کی راه هموار کی، اس کے وسائل کو تیار کیا، امام حسن (علیہ السلام) کی مکمل کامیابی اس بات پر متوقف تهی کہ آپ اپنے حکیمانه صبر و پائیداری کی بنا پر حقیقت کو واضح کریں اور اس روشنی کی نور میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) نصرت اور پرشکوه و ابدی کامیابی کو حاصل کریں، گویا یه دونوں گوہر پاک راستہ پر چلنے کے لئے ایک زبان ہوگئے تھے ، کہ حکیمانہ پائیداری کا کردار حضرت امام حسن علیہ السلام کا ہو اور انقلابی اور شجاعانہ قیام حضرت امام حسین علیہ السلام کا ہو».
4- شیعیوں کی حفاظت
شیعوں کی حفاظت اگرچہ عام مصلحتوں میں سے ہے ، لیکن چونکہ شیعہ حضرات، دین کے محافظ و پاسدار اور اہل بیت علیہم السلام کی موالی تھے ان کی جان کی حفاظت ایک خاص اہمیت رکھتی تهی، حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے خاص شیعہ، جنگ جمل، جنگ صفین، اور جنگ نہروان میں شہید ہوگئے تھے اور ان میں سے بہت کم تعداد باقی بچی تھے اور اگر جنگ ہوجاتی، تو عراق (کوفہ) کے لوگوں کی کمزوری کی وجہ سے حضرت امام حسن (علیہ السلام) اور شیعوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا، کیونکہ اس صورت میں معاویہ ان کو نیست و نابود کردیتا۔ اسی وجہ سے حضرت امام حسن (علیہ السلام) نے صلح کی ایک وجہ اپنے شیعوں کی حفاظت قرار دیتے ہوئے فرمایا: شیعوں کی حفاظت نے مجھے صلح پر مجبور کردیا، اور اس موقع پر میں نے مناسب سمجها کہ جنگ کو کسی دوسری دن کے لئے چهوڑ دیا جائے۔
5- لوگوں کی طرف سے حمایت نہ ہونا اور سرداروں کا خیانت کرنا
حکومت کا تشکیل دینا اوراس کا دفاع کرنا، عوام کی حمایت کا محتاج ہوتا ہے ، اگر کوفه کے لوگ آپ کی حمایت کرتے اور آپ کی لشکر کے سرداران آپ کے ساتھ خیانت نہ کرتے، تو آپ کبهی صلح نہ کرتے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: «خدا کی قسم! میں نے اس وجہ سے صلح کی ہے کہ میرا کوئی مددگار نہ تها، اگر میرے مددگار ہوتے تو معاویہ سے رات و دن جنگ کرتا یہاں تک کہ خداوندعالم اس کے اور ہمارے درمیان حکم کرتا»۔
معاویہ، حضرت امام حسن (علیہ السلام) کے لشکر میں ہمیشہ مخفی طریقہ سے منافقوں سے خط و کتابت برقرار کئے ہوئے تها کہ اگر حسن بن علی (ع) کو قتل کر ڈالو تو ہر ایک کو 2 لاکھ دینار دوں گا ، اور ان کو لشکر شام کا سردار بنا دوں گا، چنانچہ اس طریقہ کار سے معاویہ نے اکثر منافقوں کو اپنی طرف متوجہ کررکھا تها یہاں تک کہ وه حضرت امام حسن علیہ السلام کو قتل کردینے کے درپہ ہوگئے تھے ۔
جنگ کے واقعہ میں بهی امام علیہ سلام نے «حکم» کو 4000 افراد کے ساتھ معاویہ کے لشکر کی طرف بهیجا اور حکم دیا کہ منزل انبار میں قیام کرنا یہاں تک کہ میرا حکم پہنچے، ادهر سے معاویہ نے بهی «حکم» کے پاس ایک ایلچی بهیجا کہ اگر تو حسن بن علی(ع) کو چهوڑ کر ادهر چلا آئے تو میں تمہیں شام کی کوئی ولایت دید ونگا اور 5 لاکھ درہم اس کو فوری دیدئے، چنانچہ وه شخص امام علیہ السلام کو چهوڑ کر اپنے قبیلہ والوں اور دوستوں میں سے 200 لوگوں کو ساتھ معاویہ سے جا ملا. اس کے بعد امام علیہ السلام نے قبیلہ بنی مراد سے ایک شخص کو 4000 افراد کے ساتھ انبار کی طرف روانہ کیا لیکن وه بهی معاویہ کا دهوکہ کھا کر اس سے ملحق ہوگیا۔
امام حسن (علیہ السلام) کے لشکر میں بعض منافقین جو خوارج میں سے تھے ، انہوں نے بعض لوگوں کو امام حسن علیہ السلام کے خلاف بھڑکا رکھا تها ، جو آپ کے خیمہ پر حملہ بول کر وہاں سب کچھ غارت کرچکے تھے ، یہاں تک کہ انہوں نے آپ کے نیچے سے جانماز بهی کھینچ لی تهی، جب امام علیہ السلام کے سامنے ایسے حالات پیش آئے، تو آپ اپنے چند باوفا اصحاب کے ساتھ مدائن کی طرف روانہ ہوگئے، رات کی تاریکی میں «جرّاح بن سنان» نامی شخص امام علیہ السلام کے پاس آیا اور آپ کے گهوڑے کی لگام کو پکڑتے ہوئے بولا: اے حسن! تم کافر ہوگئے ہو، جس طرح تمہارے باپ بهی کافر ہوگئے تھے ! اور اس نے خنجر سے آپ کی ران مبارک پر حملہ کردیا اور آپ زخمی ہوگئے۔
حضرت امام حسن (علیہ السلام) نے لوگوں کا امتحان لینے کے لئے معاویہ سے جنگ کے بارے میں فرمایا:«اگرتم لوگ جنگ کے لئے تیار ہو تو میں صلح کو قبول نہیں کرتا اور اپنی تلواروں پر بهروسہ کرتے ہوئے نتیجہ کو خدا پر چهوڑتے ہیں، لیکن اگر تم زنده رہنے کو پسند کرتے ہو تو صلح قبول کرلوں اور تمہارے لئے امان لے لوں»، اس موقع پر مسجد کے ہر گوشہ سے آواز بلند ہورہی تهی: (البقیه، البقیه) ہم باقی رہنا چاہتے ہیں، ہم باقی رہنا چاہتے ہیں،اور صلح پر دستخط کرتے ہیں،(الکامل فی التاریخ، جلد 3، صفحه 406؛ تذکرة الخواص، صفحه 199) اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: «خدا کی قسم! اگر میں معاویہ سے جنگ کروں تو یہ لوگ میری گردن پکڑ کر اسیر بنا کر معاویہ کے حوالہ کردیں گے۔»
لہذا گزشتہ مطالب کے پیش نظر یہ کہا جائے : حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی صلح، ایک شجاعانہ ورزش تاریخ تهی جو موقع و محل اور حالات کے پیش نظر وجود میں آئی۔
حضرت امام حسن (علیہ السلام) نے صلح کو اس وجہ سے قبول نہیں کی کہ آپ موت سے ڈرتے تھے یا معاویہ کے ساتھ سازباز کرنا چاہتے تھے ، چونکہ آپ اسی علی(ع) کے بیٹے تھے کہ جن کی شجاعت کی توصیف کرتے ہوئے جناب جبرئیل نے اعلان کیا: لافتی الا علی لاسیف الا ذوالفقار۔
اور اس طرح عبید الله بن زبیر کو صلح پر اعتراض کا جواب دیا: «وائے ہو تجھ پر! تو کیا کہتا ہے ؟ مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ میں جو عرب میں سب سے بہادر شخص کا بیٹا ہوں، اور فاطمہ زہرا، سیدة نساء العالمین کا لخت جگر ہوں، میں کسی سے ڈروں، وائے ہو تجھ پر! میرے اندر خوف اور ناتوانی نہیں پائی جاتی، میری صلح کی وجہ تم جیسے مددگار تھے جو مجھ سے محبت اور دوستی کا دم بهرتے تھے لیکن دل میں میری نابودی کی تمنا لئے ہوئے تھے ۔۔۔»
صلح امام حسن علیہ السلام کی شرائط
امام حسن(ع) کے صلح نامہ کی چندشرائط تھیں کہ ہر شرط کا ایک خاص پیغام تھا۔
شرط اول:
هذا ما صالح عليه الحسن بن علی بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان صالحه علي أن يسلّم إليه ولاية أمر المسلمين، علي أن يعمل فيهم بكتاب اللّه و سنّة رسوله صلي الله عليه و آله و سلم ۔
امام حسن(ع) کی ایک شرط یہ تھی کہ معاویہ قرآن اور سنت رسول کے مطابق عمل کرے گا۔ (بحار الأنوار ج 44 ص 65، الغدير ج 11 ص 6 )
اس بند کا واضح یہ معنی و پیغام ہے کہ امام حسن(ع) جانتے تھے کہ معاویہ قرآن اور سنت رسول پر عمل نہیں کرتا بلکہ اپنی مرضی کے مطابق جو دل میں آتا ہے کرتا ہے۔ اس لیے کہ معاویہ جب کوفہ میں آیا تو سب سے پہلے اس نے یہی کہا تھا کہ: إنی واللّه ما قاتلتكم لتصلّوا و لا لتصوموا و لا لتحجّوا و لا لتزكوا إنّكم لتفعلون ذلک. و إنّما قاتلتكم لأتأمّر عليكم، و قد أعطاني اللّه ذلک و أنتم كارهون ۔
میں نے اس لیے صلح نہیں کی کہ تم لوگوں سے کہوں کہ نماز پڑھو، زکات دو اور حج کرو بلکہ میں یہ چاہتا تھا کہ تم لوگوں پر سوار ہو کر تم پر حکومت کروں۔ (مقاتل الطالبين ص 45 ؛ شرح ابن ابي الحديد ج 16 ص 15)
شرط دوم:
اس صلح نامے کے مطابق معاویہ کو کوئی حق نہیں ہے کہ اپنے بعد کوئی خلیفہ اور جانشین معیّن کرے، بلکہ معاویہ کے بعد خلافت امام حن(ع) کو ملے گی لیکن تھوڑے ہی وقت کی بات تھی کہ معاویہ نے بعض کو لالچ، ڈرا دھمکا اور بعض کو قتل کر کے یزید کو لوگوں کے سروں پر سوار کر دیا۔ معاویہ نے اس کام سے عملی طور پر صلح نامے کی ایک شقّ کی خلاف ورزی کی تھی۔
شرط سوم:
معاویہ کو کوئی حق نہیں کہ علی بن ابي طالب امير المؤمنين(ع) کو سبّ و لعن کرے۔ أن يترک سبّ أمير المؤمنين و القنوت عليه بالصلاة و أن لا يذكر عليّاً إلاّ بخير۔ (مقاتل الطالبيين اصفهانی: ص 26 ؛ شرح نهج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 4 ص 15)
و قال آخرون أنه أجابه علي أنه لا يشتم علياً و هو يسمع و قال ابن الاثير: ثم لم يف به أيضا. (الامامة و السياسة - ابن قتيبة الدينوري،ج 1 ص 185) ۔
لیکن معاویہ نے اپنے پہلے ہی مدینہ کے سفر میں حضرت علی(ع) پر سبّ و لعن کرنے کا حکم صادر کیا۔
یہ روایت صحیح مسلم میں كتاب الفضائل باب فضائل علی بن ابي طالب نقل ہوئی ہے کہ معاویہ نے سعد بن أبی وقاص سے کہا کہ: مالک لا تسبّ أبا تراب۔ تم کیوں ابو تراب کو گالی نہیں دیتے؟ تو سعد بن وقاص نے کہا کہ: مجھے جب بھی علی(ع) کے بارے میں رسول خدا(ص) کا فرمان یاد آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: أنت منّي بمنزلة هارون من موسی۔ یا جب میں نے سنا کہ آیت تطہير علی(ع) کے حق میں نازل ہوئی تو رسول خدا نے علی، زہرا، حسنين(عليہم السلام) کو یمنی چادر کے نیچے جمع کیا اورکہا: هؤلاء أهل بيتی۔ بس میں اسی لیے علی(ع) کو گالی نہیں دے سکتا۔
(صحیح مسلم ج 4 ص 1871؛ سنن الترمذي ج 5 ص 301 ؛ فتح الباري ج 7 ص 60 ؛ السنن الكبري ج 5 ص 107 )
زمخشری نے ذکر کیا ہے کہ: قال الزمخشری والحافظ السيوطی: إنّه كان في أيّام بني اميّة أكثر من سبعين ألف منبر يلعن عليها عليّ بن أبي طالب بما سنّه لهم معاوية من ذلک ۔
زمخشری نے اپنی کتاب ربيع الابرار میں لکھا ہے کہ: معاویہ کے دور حکومت میں 80 ہزار منبروں سے علی(ع) پر سبّ و لعن کی جاتی تھی ۔ (ربيع الأبرار زمخشيري: 2/186؛ النصائح الكافية لمحمّد بن عقيل: 79، عن السيوطي ؛ الغدير: 2/102، 10/266 ؛ النص والاجتهاد: 496)
ابن ابی الحدید نے ذکر کیا ہے کہ: إنّ معاوية أمر الناس بالعراق و الشام و غيرهما بسب علي(ع) و البراءة منه۔ و خطب بذلک علي منابر الإسلام ، و صار ذلک سنة في أيام بني أمية إلي أن قام عمر بن عبد العزيز رضي اللّه تعالي عنه فأزاله. و ذكر شيخنا أبو عثمان الجاحظ أن معاوية كان يقول في آخر خطبة الجمعة : اللّهم إن أبا تراب الحد في دينك ، و صد عن سبيلك فالعنه لعناً و بيلا ، و عذبه عذاباً أليماً و كتب بذلك إلي الافاق ، فكانت هذه الكلمات يشاربها علي المنابر ، إلي خلافة عمر بن عبد العزيز ۔
معاویہ کے دور حکومت میں نماز جمعہ کے خطبوں میں علی(ع) پر سبّ و لعن کرنا واجبات میں سے ایک واجب شمار ہوتا تھا بلکہ اس سے بالا تر کہ یہ کام اس وقت امت اسلامی میں ایک سنت کے طور پر رائج ہو چکا تھا۔ اس سبّ و لعن کو عمر ابن عبد العزیز نے ترک کروایا تھا۔
پس صلح نامے کی اس شقّ پر بھی معاویہ نے عمل نہیں کیا اور خلاف سنت رسول اہل بیت(ع) سے اپنی دشمنی کو جاری رکھا۔
شرط چہارم:
صلح نامے میں امام حسن(ع) نے معاویہ سے کہا کہ تم تمام شیعیان کی جان، مال اور ناموس کی حفاظت کرو گے اور ان کے سارے حقوق کی رعایت کرو گے۔ اب دیکھتے ہیں کہ معاویہ نے علی(ع) کے شیعوں کے ساتھ کیا کیا ؟ ابن ابی الحديد نے کہا ہے کہ: معاویہ نے سرکاری طور پر حکم دیا کہ جہاں پر شیعہ کو دیکھو اس کو قتل کر دو۔ اگر دو بندے گواہی دیں کہ فلاں بندے کا علی سے تعلق و رابطہ ہے تو اس بندے کی جان اور مال کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ابن ابي الحديد نے ایک بہت ہی درد ناک بات لکھی ہے کہ: حتّي إنّ الرجل ليقال له زنديق أو كافر أحبّ إليه من أن يقال شيعة علی۔
اگر کسی کو کہا جاتا کہ تم زندیق یا کافر ہو تو یہ اس کے لیے بہتر تھا کہ اس کو علی(ع) کا شیعہ کہا جائے۔( اللہ اکبر) (شرح نہج البلاغة ابن أبي الحديد ج 11 ص 44 ) ۔ علی بن جہم اپنے باپ کو لعنت کرتا تھا کہ اس نے کیوں میرا نام علی رکھا ہے،كان يلعن أباه، لم سمّاه عليّاً۔ (لسان الميزان ،ج4 ، ص 210 )
ابن حجر کہتا ہے کہ: كان بنو أمية إذا سمعوا بمولود اسمه علي قتلوه، فبلغ ذلك رباحاً فقال هو علي، و كان يغضب من علي، و يحرج علي من سماه به۔ بنی امیہ جب بھی سنتے تھے کہ فلاں نو مولود بچے کا نام علی ہے تو وہ اسکو قتل کر دیتے۔ (تہذيب التہذيب ،ج 7 ، ص 281)
صلح امام حسن علیہ السلام کے نتائج
اگرچہ امام مجتبٰی علیہ السلام کی صلح سخت حالات میں حقیقی مسلمانوں کے لئے بڑی صبر آزما اور تلخ تھی لیکن اس صلح کے اپنے بہت سے فوائد اور برکات بھی عالم اسلام کو نصیب ہوئے جنہیں ہم اختصار کے ساتھ ذیل میں بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
1 ۔ اسلام کی حفاظت:
امیرالمؤمنین(ع) کی شہادت کے بعد اچانک حالات اتنے بگڑے کہ اسلام پر ایک طرف تو خارجی دشمن حملہ کردینا چاہتا تھا تو دوسری طرف خود مسلمانوں کی صفوں میں موجود منافقین کا ایک بڑا اور قوی ٹولہ تھا اور چونکہ امام معصوم کا سب سے بنیادی فریضہ اسلام کی حفاظت اور شریعیت کی پاسداری ہوتا ہے لہذا امام حسن(ع) نے پسر ہندہ سے صلح کرکے اسلام کے سر سے تمام خطرات ٹال دئیے اور اسلام کی بقا اور اس کی تحفظ کی تقدیر کو بصورت دستاویز صلح تحریرکردیا۔ اسی بنا پر خود امام حسن علیہ السلام نے صلح کرنے کے دلائل میں سے ایک اسلام کی بقا کو قرار دیا ہے: مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں روئے زمین سے سچے مسلمانوں کا خاتمہ نہ ہوجائے اور کوئی ان میں سے باقی نہ بچے ۔لہذا میں نے صلح کرکے دین خدا کو بچانے کی کوشش کی ہے۔
2 ۔ قتل و غارتگری سے سے گریز:
جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں جب کسی علاقہ میں جنگ ہوتی ہے تو وہاں کے باشندوں کو بہت سی سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پس اگر جنگ ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے ہو اور جنگ سے وہ مطلوبہ مقصد حاصل بھی ہورہا ہو تو ان تمام سختیوں اور مصائب کو برداشت کرنا اہمیت رکھتا ہے۔لیکن ایسی جنگ کہ جس سے مقصد حاصل نہ ہو اور صرف جس سے معاشرے میں مسائل و مشکلات میں اضافہ ہی ہو تو اس سے ہر سجھدار اور ہمدرد حکمراں کے لئے کنارہ کش ہونا ہی بہتر ہے اور اس زمانے میں معاویہ سے جنگ کی بھی یہی کیفیت تھی یعنی اگر معاویہ سے جنگ جاری رہتی تو اس سے مقصد کو کسی صورت حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خود امام حسن علیہ السلام معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کی غرض کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میں نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ معاویہ کے ساتھ صلح کرلوں اور جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو ٹھنڈا کردوں اور اس کا مقصد تمہاری بھلائی اور خیر خواہی کے کچھ اور نہ تھا۔
3 ۔ سرکش معاویہ کو مہار کرنا:
صلح کے تمام شرائط اس امر کے غماز تھے کہ معاویہ حکومت کرنے کے سلسلہ میں امام حسن علیہ السلام کی تأئید کا محتاج ہے اور یہ صلح معاویہ کو اس چیز کا پایبند بناتی ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کرے اور حدود الہی سے تجاوز نہ کرنے دے۔
اسی چیز کی جانب امام محمد باقر علیہ السلام اشارہ فرماتے ہیں جب آپ سے کسی صحابی نے سوال کیا: کہ کیسے امام حسن(ع) کے پاس مقام پیغمبر و علی(ع) ہے جبکہ انہوں نے خلافت کو معاویہ کے سپرد کردیا تھا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:خاموش ہوجاؤ! چونکہ امام مجتبٰی علیہ السلام خود بہتر طور پر جانتے تھے کہ کیا کرنا ہے۔اگر امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو اسلام میں بہت عظیم و خطرناک امر ظاہر ہوجاتا۔
4 ۔ لوگوں کے سامنے معاویہ کی حقیقت سے پردہ اٹھانا:
معاویہ مکر و فریب اور لوگوں کو دھوکہ دینے میں بہت ماہر تھا اور وہ اپنے مقام و مرتبہ کو لوگوں کی نگاہوں میں بلند دکھانے کے لئے کبھی اپنے کو رسول اللہ کا سالہ، کبھی شام کی حکومت کا ۲۰ برس کا تجربہ حاکم،کبھی امت کی بھلائی کا ڈھنڈورہ پیٹنے والا بنتا تھا اور ان سب چیزوں سے وہ لوگوں پر یہ عیاں کرنا چاہتا تھا کہ ہم تو پابند عہد ہیں اور صلح چاہتے ہیں اور حسن صلح سے بھاگ رہے ہیں۔لیکن جیسے ہی صلح ہوئی اور معاویہ نے اپنی اصلیت دکھانا شروع کردی اور لوگوں پر اس کی حقیقت آشکار ہوگئی۔
5 ۔ صلح ،قیام عاشورا کی تمہید:
معاویہ نے اپنے علنی اعتراف اور کردار کے ذریعہ صلح کے بہت سی شرطوں کو پیروں تلے روند دیا تھاچنانچہ معاویہ کی یہ مخالفتیں،اور لوگوں پر ظلم و تعدی سبب بنیں جن کے سبب لوگوں میں ایک بیداری کی لہر دوڑی اور انقلاب کربلا وجود میں آگیا جس کے اثرات اور برکتیں آج بھی عالم اسلام میں مشاہدہ کی جاسکتی ہیں۔
6 ۔ بنی امیہ کا تدریجی زوال:
امام حسن علیہ السلام نے صلح کے لئے وہ شرائط رکھے جن کی پابندی کرنا نسل بنی امیہ کی وبال جان بن گیا آخر کار وہ اپنی اصلی چولے سے باہر آنے لگے جس کے سبب عوام بیدار ہونے لگی اور بنی امیہ کی مکاریوں کو سمجھنے لگیں جس کے بعد بنی امیہ کی بساط لپیٹ دی گئی۔
7۔اہل بیت(ع) کی محبوبیت میں اضافہ:
امام حسن علیہ السلام نے معاویہ جسیے بد عہد کے ساتھ صلح کر کے اور اس کی پابندی کرکے اہل بیت(ع) کے درمیان مصلح اکبر اور لوگوں اور معاشرہ میں ایک خیرخواہ رہبر اور ہمدرد امام کے طور پر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی یہی وجہ ہے کہ آج بھی اہل بیت (ع) کے مکتب کو دنیا میں ہدایت و سعادت کا مکتب تصور کیا جاتا ہے جس سے دل آپ حضرات کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔چنانچہ عباسیوں نے لوگوں کے دلوں میں موجود اہل بیت عصمت و طہارت(ع) کی اسی محبت اور اہل بیت کے حق ان تک پہونچانے کا نعرہ لگاکر اپنے قیام کا آغاز کیا اور خاندان رسول اللہ(ص) کی محبوبیت کے سبب کامیاب ہوگئے۔