تحریفات عاشورا 

تحریفات عاشورا

مقدمہ
پچھلے کچھ عرصے سے ،کہ جب سے مجالس یا بعض مدارس کے جلسوں میں شرکت کرنے ،پڑھنے یا سننے کا موقع ملا ،اور خصوصا سوشل میڈیا میں مختلف مقررین خصوصا پنجابی یا سرائیکی خطباء کے ویڈیو کلپس وغیرہ سننے کا اتفاق ہوا (یہاں پر جاہل ذاکرین یا گلوکاروں کی بات نہیں ہو رہی بلکہ وہ خطباء کہ جو اپنے آپ کو مصلحین و ناصحین ملت سمجھتے ہیں اور تبلیغ دین کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں)،تو ایک افسوس ناک نکتہ کی طرف متوجہ ہوا کہ اگرچہ یہ خطباء اور منبری حضرات تبلیغ بھی فرماتے ہیں،اصلاحی گفتگو بھی کرتے ہیں، غالی ذاکرین وغیرہ کی مذمت بھی کرتے ہیں لیکن ان کی ساری محنت و زحمت اور تبلیغ دین اس وقت برباد ہو جاتی ہے کہ جب وہی خطیب صاحب مصائب اور ذکر امام حسین ع کرتے ہوئے انتہائی ضعیف بلکہ جعلی واقعات پڑھنا شروع کرتا ہے اور آگے بیٹھے ہوئے سادہ لوح مومنین یہ سمجھ کر کہ چونکہ خطیب صاحب نے اپنی تقریر میں بھرپور تبلیغ کی ہے اور بار بار بزرگ علمائے کرام کا حوالہ بھی دیا ہے لہذا اس کی ہر بات مستند ہے اور آواز بھی کافی رقت آمیز ہے تو بس بغیر سوچے سمجھے اس کی ہر بات اور واقعہ قبول کر لیتے ہیں۔اور پھر بھرپور انداز میں گریہ ہوتا ہے اور خطیب صاحب کی اگلی کئی مجالس و محافل کی تاریخیں ایڈوانس بک ہو جاتی ہیں۔خطیب صاحب اس بات پر مطمئن ہوتے ہیں کہ اگلے کئی پروگرام مل گئے ،بانی کی واہ واہ ہو جاتی ہے کہ اتنے زبردست اور اصلاحی مبلغ اسلام کو دعوت دی اور سامعین بے چارے اپنی سادہ لوحی اور عدم مطالعہ کی بنیاد پر ،اس جھوٹ اور ضعف پر مشتمل مصائب سن کر ،گریہ فرما کر ،اس کو عین عبادت سمجھتے ہوئے ،اپنے آپ کو اجز عظیم کا مستحق سمجھ لیتے ہیں
ابھی کچھ دن پہلے ایک خطیب صاحب کا مصائب کسی نے کلپ کی صورت میں مجھے بھیجا اور اس کی حقیقت اور اعتبار جاننے کے لیے مجھ سے کچھ سوالات بلکہ اعتراضات کیے ،پہلے پہل تو بندہ حقیر نے یہی عرض کیا کہ جن کی ویڈیو ہے،آپ انہی سے پوچھیں کہ انہوں نے کہاں سے اس واقعہ کو لیا ہے لیکن معترض نے کہا کہ وہ یہ سوال ان خطیب صاحب سے کر چکے ہیں لیکن انہوں نے شاید مصروفیت کی بنا پر جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔اب وہ واقعہ کیا تھا ،اس کی تفصیل لکھنا تو یہاں ممکن نہیں،لیکن عنوان مضمون ، کربلا سے مخدرات عصمت و طہارت سلام اللہ علیہا کا کوفہ و شام کا سفر، تھا کہ جس میں موصوف نے فرمایا تھا کہ کربلا سے کوفہ،پھر شام تک 21 راتوں کا سفر تھا اور شمر ملعون نے کسی کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ ان کو سونے نہیں دینا اور پھر 21 راتوں تک یہ مخدرات عصمت و طہارت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوئیں،اور پھر چند ایک اور واقعات ،اب ایک لمحے کو یہی خیال آتا ہے کہ فوج یزید ملعون سے یہ بعید نہیں کہ وہ ایسا حکم دیں،کیونکہ وہ درندہ صفت ملعونین،ظلم کی ہر انتہا تک جا سکتے تھے اور یقینا گئے بھی تھے۔لیکن کیا اس فارمولے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی طرف سے تاریخ گھڑنا جائز ہو جائے گا،یقینا کربلا میں مصائب کی انتہاء ہو گئی لیکن ہم مجبور ہیں کہ وہی واقعات بیان کریں کہ جو مستند اور معتبر کتب تاریخی میں موجود ہیں۔وگرنہ ان مبلغین و ناصحین اور جاہل ذاکرین میں کیا فرق رہ جائے گا،وہ بھی تو یہی بہانہ تراش کر جھوٹے،جعلی اور ضعیف روایت مصائب پڑھتے ہیں کہ رونا اور رلانا مقصد ہے ،چاہے جھوٹ کے ذریعے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔بندہ نے اس واقعے کی تلاش میں ،اپنی لائبریری میں موجود کتب میں سرچ شروع کی تو کچھ نہیں ملا،بلکہ معتبر ترین کتب تاریخ کربلا میں تو سرے سے منازل سفر کا تذکرہ موجود ہی نہیں اور جن میں ہے ان میں بھی نہایت مختصر طریقے سے،لیکن اس مذکورہ بالا واقعہ کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔اسی طرح ایک اور خطیب صاحب کو بندہ نے خود سنا کہ وہ ذکر مصائب میں کسی شیریں نامی خاتون کے حوالے سے بڑی طویل و عریض کہانی سنا رہے تھے لیکن جب کتب مستند کی ورق گردانی کی تو ایسا کوئی واقعہ نہیں ملا،البتہ ملا کاشفی اور آقا دربندی کی داستانوں میں اس جیسے کئی واقعات بھرے پڑے ہیں۔ایسے ہی ایک اور خطیب صاحب کو ایک علمی جلسے میں یہ فرماتے سنا کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹیوں کی غربت کی یہ حالت تھی کہ ان کے پاس ایک چادر تھی جس سے وہ باری باری نماز ادا کرتی تھیں۔لا حول و لا قوہ الا باللہ۔اب کہاں تک ایسے واقعات گنوائے جائیں ،لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ جب ان فاضل شخصیات (کہ جن کے ناموں کے ساتھ حجت الاسلام و المسلمین،علامہ،بحر المصائب،مفسر تاریخ کربلاء،مقرر شعلہ بیان،مبلغ اسلام،مفکر اسلام ۔۔۔اور پتا نہیں کیا کیا القاب لگائے جاتے ہیں)کو دوسروں پر تنقید کا موقع ملے تو اس کو دائرہ اسلام سے بھی خارج کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور جب کوئی سننے والا ،ان سے کسی واقعہ کی سند مانگ لے تو جاہل،حاسد،دشمن عزاء،لا علم وغیرہ وغیرہ القاب سے یاد کرتے ہیں۔
انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ اب موجودہ منبر کی صورتحال ،آہستہ آہستہ پھر انہی حالات کی طرف پلٹ رہی ہے کہ جن حالات سے آیت اللہ العظمی الشیخ محمد حسین النجفی رحمت اللہ علیہ نے ساری زندگی مقابلہ کر کے ،اصلاح کی کوشش کی تھی۔فرق اتنا ہے کہ پہلے مدمقابل شہباز پاکستان،سلطان پاکستان،شہنشاہ مصائب،وغیرہ وغیرہ تھے،اب مقابلہ میں حجت الاسلام و المسلمین،علامہ،مولانا ،مفکر،مبلغ وغیرہ وغیرہ ہیں۔
اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ان موجودہ اکثر واعظین کی حالت ان گزشتہ ان پڑھ ذاکرین سے بھی بدتر ہے۔وہ بےچارے تو ان پڑھ تھے،جاہل تھے،سنی سنائی روایات پر یقین کر کے آگے بیان کر دیتے تھے،نا کوئی تحقیق کا ملکہ اور نا مطالعہ کی جستجو لیکن موجودہ خطبا ،نجف و قم کے فارغ التحصیل،سلطان الافاضل کی اسناد کے حامل،لیکن منبر کے حالات پہلے سے بدتر۔وہی اخلاقی بیماریاں جو پہلے جاہل ذاکرین میں تھیں کہ جن کی نشاندہی ایت اللہ العظمی نجفی نے اصلاح المجالس و المحافل میں کی تھی،اب وہی بیماریاں موجودہ واعظین و خطباء میں بدرجہ اتم موجود ہیں،فیسوں کا مک مکاء،جھوٹی روایات ،ضعیف مصائب،تفویض و غلو سے بھرپور افکار،بدخلقی،نمود و نمائش،لابی سسٹم،گروپ بندی،غرور و تکبر وغیرہ وغیرہ
ان خطبائ کرام اور واعظین کی خدمت میں کہ جو اپنے آپ کو مدارس دینیہ اور علماء و بزرگان سے منسلک سمجھتے ہیں، گزارش ہے کہ آپ میں اور دیگران میں کچھ فرق ہونا چاھیے،اگر ایک سادہ ذاکر یا پیشنماز یا ابتدائی قسم کا خطیب کسی بھی سادہ سی کتاب کو حوالہ بنا کر مصائب یا فضائل بیان کرے تو شاید اس کی طرف سے تو قابل قبول ہو،لیکن حوزہ علمیہ سے فارغ التحصیل فاضل شخصیت اگر کسی فقیہ و مجتہد کا بھی حوالہ کسی تاریخی واقعے میں بیان کرے تو قابل قبول نہیں ہے کیونکہ تاریخ و بیان روایات میں تقلید نہیں ،تحقیق ہے۔تاریخی واقعات میں سند ،مورخ و کتب تاریخ ہوتی ہیں،خصوصا تاریخ اسلام وتاریخ تشیع اور واقعہ کربلا،کہ جہاں معاملہ مزید سخت اور حساس ہے کیونکہ یہاں پر صرف بیان تاریخ نہیں بلکہ نسبت بہ نبی اکرم ص اور آئمہ اطہار ع بھی ہے۔اور چھوٹی سی لغزش بھی خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔
اس تحریر کے اختتام میں اساتذہ تاریخ ،متخصصین تاریخ تشیع،متخصصین علوم رجال الحدیث اور کتب علوم تاریخ سے ماخوذ کچھ نکات تاریخ کربلا اور مقتل شناسی کے حوالے سے پیش خدمت ہیں
1۔واقعات تاریخی میں کربلا اور عاشورا حسینی ع تاریخ بشریت کا اہم ترین اور پر اثر ترین واقعہ ہے جس کی نظیر ملنا ناممکن ہے۔یہ واقعہ نا صرف اپنی مظلومیت و ظالمین کی بربریت بلکہ قیامت تک آنے والے ہر انسان کی زندگی میں تاثیر گزار ہونے کے لحاظ سے بھی بے مثال ہے۔
2۔اس واقعہ کو زندہ رکھنے میں جہاں دیگر عوامل دخیل ہیں ،وہیں سب سے بڑا عامل اور سبب عزاداری سید الشہداء ع ہے۔
3۔ہر عظیم واقعہ جہاں اپنے اندر بے شمار نتائج و اثرات رکھتا ہے وہیں ہمیشہ سے کچھ مفاد پرست عناصر ،دنیوی مفادات حاصل کرنے کے لیے یا سادہ لوح اور لاعلم افراد اپنی عقیدت کی پیاس بجھانے کے لیے ،یا مخالفین ،اس واقعہ کی تاثیر مثبت کو کم کرنے کے لیے تحریف کا سہارا لیتے ہیں۔واقعہ کربلا اس حوالے سے بھی کم نظیر ہے کہ جتنی تحریف و تغیر تبدل کرنے کی کوشش ،چاہے وہ عقیدت کی بنیاد پر ہو،مخالفت کی بنیاد پر ہو یا مفاد پرستی کی بنیاد پر ہو ،اس واقعے میں کی گئی ہے اور کی جا رہی ہے ،اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
4۔واقعہ کربلا اور عاشورا حسینی ع میں جہاں معنوی تحریف کی گئی ہے وہیں پر لفظی تحریف کی بھی بھرمار ہے ،اگر یوں کہا جائے کہ آج جو کربلا بیان کی جا رہی ہے ،اور اصل کربلاء جو مورخین اور علمائ بزرگ کی کتابوں میں موجود ہے ،ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے تو یہ عین حقیقت ہے۔
5۔جو نقصان آج مفاد پرست افراد ، مشن و ہدف کربلاء و عاشورا کو پہنچا رہے ہیں،یہ اس نقصان سے کئی گنا بڑا ہے کہ جو امام عالی مقام ع کی ذات اور ان کی آل پاک اور اصحاب علیہم السلام کے ابدان کو پہنچایا گیا تھا۔
6۔اس سے مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ شہادت امام حسین ع کا جو فائدہ ان کے قاتلین ملعونین اٹھانا چاھتے تھے ،وہ تو نا اٹھا سکے کیونکہ عاشورہ کے بعد سیدہ زینب سلام اللہ علیہا،امام سید الساجدین ع ،سیدہ ام کلثوم ع،سیدہ فاطمہ بنت الحسین کے خطبات نے یزیدی مشن کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں پھر جب تک منبر علماء و فقہاء و اہل علم و تقوی کے پاس رہا تو حقیقی واقعات بھی بیان ہوتے رہے اور مشن حسینی ع بھی نسل در نسل منتقل ہوتا رہا ۔لیکن جب منبر ،نا اہل افراد اور مفاد پرستوں کے ہاتھ آیا تو انہوں نے اسی مشن کو برباد کرنا شروع کر دیا کہ جس کی حفاظت سیدہ زینب و امام سجاد علیہم السلام کرتے رہے۔منبر سے کربلاء کا وہ چہرہ دکھایا جانے لگا کہ جو بالکل حقیقت کے برعکس تھا۔عاشورا کا مقصد گریہ اور بکا کو قرار دیا جانے لگا۔اور عاشورہ کا صرف مظلومانہ پہلو ہی عوام الناس تک پہنچایا جانے لگا۔
7۔جب عاشورا کا مقصد اصلی ہی گریہ و ماتم و عزاء و بکاء کو قرار دیا گیا تو شعراء و مصنفین بھی میدان میں آئے اور اسی مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے دھڑادھڑ کتب مقاتل و مرثیہ لکھنا شروع کر دیں۔خصوصا آٹھویں یا نویں صدی سے لے کر چودھویں صدی تک جو کتب لکھی گئیں ان میں سے غالب کتب اسی مقصد کو لے کر لکھی گئیں۔اور آہستہ آہستہ یہ نظریہ پروان چڑھایا گیا کہ کربلاء کا مقصد گریہ و ماتم و عزاداری ہے اور اس مقصد کے لیے چاہے جھوٹ اور ضعیف روایات کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
8۔تاریخ اسلام بالعموم اور عاشورا و کربلا شناسی بالخصوص ،متخصصین علماء تاریخ و رجال شناسان و محدثین کرام کا موضوع ہے اور اس حوالے سے انہی کی بیان کردہ روایات تاریخی مورد قبول ہوں گی۔اور اس میں واقعہ کی سند،متن،دیگر قرائن کو مد نظر رکھا جائے گا،مسائل تاریخی و روائی میں خوابوں ،خیالوں،شعراء کے مرثیوں ،خطیبوں کے خطابات،مصائب خوانوں کے مصائب وغیرہ کی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں ہو گی جب تک ان کا استناد کسی معتبر ذریعہ پر نہیں ہو گا۔
9۔تاریخ عاشورہ و کربلاء میں علماء علم تاریخ کے اقوال کے مطابق،اگر کوئی واقعہ ،معتبر کتب تاریخ کہ جو چھٹی یا حد اکثر ساتویں صدی ہجری تک کے زمانہ میں لکھا گیا ہو اور کامل اسناد بھی موجود ہوں اور ان علماء و بزرگان نے ان پر اعتماد کیا ہو تو وہ قابل قبول ہو گا اور اگر ایسا نہ ہو،اور ساتویں یا آٹھویں صدی ھجری کے بعد والی کتب میں لکھا گیا ہو اور پچھلی کتابوں سے مختلف ہو اور سند کے بغیر لکھا گیا ہو تو ان کی کوئی حیثیت نہیں چاہے لکھنے والا اپنے وقت کا فقیہ اعظم ہی کیوں نا ہو۔کیونکہ قبول قول تاریخی کا معیار اور ہے اور فقہ و کلام وغیرہ کے معیارات اور ہیں۔ان کو مخلوط نہیں کرنا چاہیے۔
10۔جن کتب کو علماء علم تاریخ غیر معتبر اور ضعیف قرار دیں ،ان سے نقل قول سے سخت پرہیز کیا جانا چاہیے۔اور کوشش کی جانی چاہیے کہ انہی کتب سے روایت کو اخذ کیا جانا چاہیے کہ جن پر علماء تاریخ اعتماد کرتے ہوں
ذیل میں(شعبہ علوم تاریخ کے اساتذہ کے مطابق) کچھ کتب معتبرہ و غیر معتبرہ کے اسماء بیان کیے جاتے ہیں۔
چند کتب معتبرہ
1۔ وقعة الطف / اصل مقتل ابی مخنف (تحقیق شدہ از استاد محمد هادی یوسفی غروی و ماخوذ از تاریخ طبری و دیگر کتب معتبرہ، نہ کہ عام کتب خانوں اور دکانوں میں موجود ضعیف روایات پر مشتمل مقتل ابی مخنف)
2۔الارشاد شیخ مفید
3۔تاریخ طبری کی روایات کربلاء
4۔لہوف یا ملہوف سید ابن طاووس
5۔مقتل الحسین ع خوارزمی
6۔مقاتل الطالبین ابو الفرج اصفہانی
7۔الفتوح ابن اعثم کوفی
8۔تاریخ یعقوبی احمد بن ابی یعقوب
9۔اخبار الطوال ابو حنفیہ دینوری
10۔مثیر الاحزان و منیر سبل الاشجان ابن نما حلی
11۔نفس المہموم شیخ عباس قمی
12۔منتہی الآمال شیخ عباس قمی
13۔حماسہ حسینی شہید مرتضی مطہری
14۔شہید انسانیت علامہ علی نقی نقن
15۔مجاہد اعظم ظفر امروہی
16۔سعادت الدارین فی مقتل الحسین ایت اللہ محمد حسین النجفی
17۔ تاریخ قیام و مقتل جامع سید الشہداء گروہ تاریخ قم و آقای مہدی پیشوائی
18۔عاشورہ آثارھا و پیامد ھا۔آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
19۔عاشورہ شناسی و حقیقت عاشورہ از آقای اسفندیاری
20۔الصحیح من مقتل سید الشہداء و اصحابہ ع از گروہ دارالحدیث با رہنمائی استاد آقای محمد محمدی ری شہری
21۔تاملی در نہضت عاشورہ رسول جعفریان
22۔لؤلؤ و مرجان از محدث نوری

کچھ کتب ضعیف و غیر معتبرہ کے نام
1۔نور العین فی مشہد الحسین ع
2۔روضہ الشہداء کاشفی
3۔المنتخب طریحی
4۔محرق القلوب
5۔اسرار الشہادہ ،مقتل دربندی
6۔ناسخ التواریخ
7۔الدمعہ الساکبہ
8۔تظلم الزهراء محمد تقی سپہر
9۔معالی السبطین محمد مہدی حائری
وغیرہ
نوٹ، مندرجہ بالا کتب معتبرہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان میں جو کچھ درج ہے وہ من وعن درست ہے خصوصا کتب معاصر۔بلکہ ان میں چونکہ بیان شدہ اکثر واقعات قدیم اور معتبر کتب سے ماخوذ ہیں لذا ان کو زیر مطالعہ رکھنے میں حرج نہیں لیکن اس کے باوجود شرائط قبول روایات تاریخی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔اسی طرح کتب غیر معتبرہ یا ضعیفہ کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کتب صد در صد جھوٹ پر مبنی ہیں بلکہ ان میں موجود اکثر مواد ضعیف اور مجعول ہے لذا ان سے پرہیز بہتر ہے۔اور ان کتب سے نقل قول یا نقل روایت احتیاط کے خلاف ہے۔
لذا کم از کم ہمارے وہ خطباء جو مدارس اور علماء بزرگ سے مربوط ہیں،ان کو چاہیے کہ مصائب کربلاء،روایات تاریخی ،واقعات آئمہ اطہار ع میں کمال احتیاط کا مظاہرہ فرمائیں۔اور صرف کتب معتبرہ سے ہی مصائب و دیگر واقعات اخذ کریں۔اور کتب ضعیفہ یا واقعات ضعیفہ و مجعولہ سے اپنے اور اپنے سننے والوں کے دامن کو بچائیں۔
اگلی اقساط میں ان شاءاللہ کوشش کی جائے گی کہ تحریفات عاشورا کے عنوان سے تفصیل سے ان ضعیف و مجعول واقعات کو بیان کیا جائے کہ جو اکثر و بیشتر ہمارے منبروں سے بیان ہوتے ہیں اور ان کے بارے تفصیلی تحقیق سندی و محتوائی بیان کی جائے تاکہ کربلاء کے عظیم واقعہ میں ہونے والی تحریفات کی پہچان ہو جائے اور ان کے آگے بند باندھنے کا انتظام ہو سکے۔ جاری ہے۔۔۔۔۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام حسین علیہ السلام کی چالیس احادیث

1 ۔ خداوند عالم کی معرفت اوراسکی عبادت

اَيّهَا النّاسُ! إِنّ اللّهَ جَلّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلاّ لِيَعْرِفُوهُ، فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَا سِوَاهُ ۔

اے لوگو! خداوندعالم نےبندوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ اس کی معرفت حاصل کریں اور جب معرفت حاصل کرلیں تو اس کی عبادت کریں جب اس کے عبادت گذار ہوجائیں گےتو اس کے علاوہ اس کےغیر کی عبادت سےبےنیاز ہو جائیں گے ۔ (بحار الانوار، ج ۵ ص ۳۱۲ ح۱)

2۔ خداوندعالم کو پالینا

مَاذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَكَ وَ مَا الّذِى فَقَدَ مَنْ وَجَدَكَ۔

اے میرےپروردگار! جو تجھےنہیں پاسکااسے کیا ملا ،اورجس نے تجھے پالیا اس نے کیا کھویا ۔ (بحار الانوار، ج ۹۵ ص ۲۲۶ ح۳)

3۔ خداکی انسان‏ پر نظارت

عَمِيَتْ عَيْنٌ لاَ تَرَاكَ عَلَيْهَا رَقِيباً.

اندھی ہے وہ آنکھ جو تجھے نہ دیکھے جب کہ تو اس پر ناظر اور نگراں ہے۔(بحار الانوار، ج ۹۵ ص ۲۲۶ ح۳)

4۔ عبادت تجار، بندگان و آزادگان‏

إِنّ قَوْماً عَبَدُوا اللّهَ رَغْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ التّجّارِ وَ إِنّ قَوْمَاً عَبَدُوا اللّهَ رَهْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الْعَبِيدِ وَ إِنّ قَوْمَاً عَبَدُوا اللّهَ شُكْراً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الاَحْرَارِ وَ هِىَ اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ.

ایک جماعت خدا کی عبادت لالچ میں کرتی ہےیہ تاجروں کی عبادت ہے ایک جماعت خدا کی عبادت خوف کی وجہ سے کرتی ہےیہ غلاموں کی عبادت ہے ایک جماعت خدا کا شکر بجالانے کے لیے اس کی عبادت کرتی ہے یہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے ۔ (تحف العقول، ص ۲۷۹ ح۴)

5۔ خداکی سچی عبادت کااجر و ثواب

مَنْ عَبَدَ اللّهَ حَقّ عِبَادَتِهِ آتاهُ اللّهُ فَوْقَ اَمَانِيهِ وَ كِفَايَتِهِ .

جو خدا کی سچی عبادت کرتا ہے خدا اس کی امید سے زیادہ اجرو ثواب دیتا ہے ۔(بحار الانوار، ج ۶۸ ص ۱۸۴ ح۴۴)

6 ۔ گھاٹا اٹھانے والا

لَقَدْ خَابَ مَنْ رَضِىَ دُونَكَ بَدَلاً .

جو تیرے بدلے کسی اورپر راضی ہو جائے وہ گھاٹا اٹھانےوالوں میں سےہوگا ۔ (بحار الانوار، ج ۹۵ ص ۲۱۶ ح۳ )

7 ۔ خداوندعالم کی حمد و ثنا

مَا خَلَقَ اللّهُ مِنْ شَىْ‏ءٍ إِلا وَ لَهُ تَسْبِيحٌ يَحْمَدُ بِهِ رَبّهُ ۔

خداوندعالم نےاپنی ہر مخلوق کے لیےایک تسبیح قرار دی ہےجس سے وہ اپنےخالق کی حمد وثنا کرتاہے ۔( بحار الانوار، ج ۶۱ ص۲۹ح ۸)

8۔ خداسےدوستى انسان‏ کا سرمايہ ہے

خَسِرَتْ صَفْقَةُ عَبْدٍ لَمْ تَجْعَلْ لَهُ مِنْ حُبّكَ نَصِيباً ۔

اے میرے پروردگار! جسے تونے اپنی محبت سے محروم کردیا وہ گھاٹے میں ہے۔(بحار الانوار، ج ۹۵ ص ۲۲۶ ح۳ )

9 ۔ رحمت الہی

بُكَاءُ الْعُيُونِ وَ خَشْيَةُ الْقُلُوبِ رَحْمَةٌ مِنَ اللّهِ ۔

آنکھوں کارونااوردل کاخوفزدہ ہونارحمت الہی کی علامت ہے ۔(مستدرك الوسائل، ج ۱۱ ص ۲۴۵ ح۳۵)

10۔ اهل بيت (ع) سے محبت

إِنّ حُبّنَا لَتُسَاقِطُ الذّنُوبَ كَمَا تُسَاقِطُ الرّيحُ الْوَرَقَ ۔

ہم اهل بيت (ع) کی محبت گناہوں کو ایسےمٹادیتی ہےجیسےہوا سوکھے پتوں کو گرادیتی ہے۔ (حياة الامام الحسين، ج ۱ ص۱۵۶)

11۔ اهل بيت(ع)، ملائكه‏ کے استاد

اَىّ شَىْ‏ءٍ كُنْتُمْ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ اللّهُ عَزّوَجَلّ آدَمَ (ع)؟ قَالَ كُنّا اَشْبَاحَ نُورٍ نَدُورُ حَوْلَ عَرْشِ الرّحْمنِ فَنُعَلّمُ لِلْمَلاَئِكَةِ التّسْبِيحَ وَ التّهْلِيلَ وَ التّحْمِيدَ ۔

امام حسين (ع) سےدریافت کیا گیا کہ خداوندعالم کی ذریعہ جناب آدم کی تخلییق سے پہلےآپ کیا تھے؟ آپ نےفرمایا: ہم نور کی صورت میں عرش الہی کا طواف کرتے تھےاور ملائکہ کو تسبیح و تہلیل اور حمدوثنا کا طریقہ سکھاتے تھے ۔( بحار الانوار، ج ۵۷ ص ۳۱۱ ح۱)

12۔ اهل ‏بيت(ع) خداکے رازدار

نَحْنُ الّذِينَ عِنْدَنَا عِلْمُ الْكِتَابِ وَ بَيَانُ مَا فِيهِ وَ لَيْسَ عِنْدَ اَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ مَا عِنْدَنَا لاَِنّا اَهْلُ سِرّ اللّهِ.

ہم وہ لوگ ہیں جن کے پاس قرآن مجید کا علم اور ان سب چیزوں کی وضاحت ہے جو اس میں ہے اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ ہمارے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہے اس لیے کہ ہم خدا وند عالم کے رازدار ہیں ۔ (بحار الانوار، ج ۴۴ ص ۱۸۴ ح۱۱)

13۔ تمام مخلوق ہم اهل بيت(ع)کی اطاعت پر مامور ہے

وَاللّهِ مَا خَلَقَ اللّهُ شَيْئاً إِلا وَ قَدْ اَمَرَهُ بِالطّاعَةِ لَنَا ۔

خدا کی قسم خدا نے کسی بھی مخلوق کو پیدا نہیں کیا مگریہ کہ اسے ہم اہل بیت (ع) کی اطاعت کا حکم دیا ۔ (بحار الانوار، ج ۴۴ص ۱۸۱ ح۱)

14۔ اهل بيت (عليهم السلام) سے محبت

مَنْ اَحَبّنَا كَانَ مِنّا اَهْلَ الْبَيتِ ۔

جو شخص ہم اہل بیت (ع) سےمحبت كرےگاوه ہم میں سے ہوگا ۔(نزهة النّاظر و تنبيه الخاطر، ص ۸۵ ح۱۹)

15۔ غربت اور شیعوں کا مارا جانا

وَ اللّهِ الْبَلاَءُ وَ الْفَقْرُ وَ الْقَتْلُ اَسْرَعُ إِلَى مَنْ اَحَبّنَا مِنْ رَكْضِ الْبَرَاذِينِ، وَ مِنَ السّيْلِ إِلىَ صِمْرِهِ ۔

خداکی قسم بلا فقر وتنگدستی اورقتل ہمارے چاہنے والوں کی طرف تیزدوڑنے والے گھوڑوں اورسیلاب کے پانی سے بھی زیادہ تیز رفتار کے ساتھ آتے ہیں ۔(بحار الانوار، ج ۶۴ ص ۲۴۹ ح۸۵)

16۔ خيانت اورمكروفریب سے پرہیز

إِنّ شِيعَتَنَا مَنْ سَلِمَتْ قُلُوبُهمْ مِنْ كُلّ غِشّ وَغَلّ وَدَغَلٍ ۔

ہمارے شیعہ وہ ہیں جن کے دل ہر طرح کے مکروفریب سے پاک ہوں ۔ (بحار الانوار، ج ۶۵ ص ۱۵۶ ح۱۰)

17۔ امام حسين(ع) اورامام زمانہ (عج)

لَوْ اَدْرَكْتُهُ لَخَدَمْتُهُ اَيّامَ حَيَاتِى ۔

اگرمیں حضرت امام مهدى عج کےزمانے میں ہوتا تو پوری زندگی ان کی خدمت کرتا ۔ (عقد الدّرر، ص‏۱۶۰)

18۔ امام حسين(ع) مقتول اشک

اَنَا قَتِيلُ الْعَبْرَةِ،لا يَذْكُرُنِى مُؤْمِنٌ إِلا بَكَى۔

امام حسين (ع) نے فرمایا: میں وہ مقتول ہوں جسے رلا رلاکرقتل کیا گیا جو مومن بھی مجھے یاد کرتا ہے وہ مجھ پر گریہ ضرورکرتا ہے۔(كامل الزيارات، ص ۱۱۷ ح۶)

19 ۔ پاداش زائر امام حسين(ع)

مَنْ زَارَنِى بَعْدَ مَوْتِى زُرْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ لَوْ لَمْ يَكُنْ إِلا فِى النّارِ لاَخْرَجْتُهُ۔

امام حسين (ع) نےفرمایا: جو میری شہادت کےبعد میری زیارت کرے گا وہ اگر جہنمی ہو تو میں اسے جہنم سے نکال لوں گا۔ (المنتخب للطريحى، ص۶۹)

20۔ خوش ا‏خلاقى اورخاموشی

اَلْخُلْقُ الْحَسَنُ عِبَادَةٌ وَ الصّمْتُ زَيْنٌ۔

خوش اخلاقی عبادت ہےاور خاموش انسان کی زینت ہے۔(تاريخ اليعقوبى، ج ۲ ص۲۶۴)

21۔ صلہ رحم‏ سے موت میں تاخیراور روزی میں اضافہ

مَنْ سَرّهُ اَنْ يُنْسَاَ فِى اَجَلِهِ وَ يُزَادَ فِى رِزْقِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ ۔

جوچاہتا ہے كہ کی موت کو فراموش کردیا جائے اور اس کی روزی میں اضافہ ہو اسے چاہئے کہ صلہ رحم کرے۔ (بحار الانوار، ج ۷۱ ص ۹۱ ح۵)

22 ۔ خداکی بارگاہ میں اعمال کا پیش ہونا

إِنّ اَعْمَالَ هَذِهِ الاُمّةِ مَا مِنْ صَبَاحٍ إِلا وَ تُعْرَضُ عَلَى اللّهِ عَزّوَجَلّ ۔

امت کے اعمال روزانہ صبح کے وقّت خدا کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔( بحار الانوار، ج ۷۰ ص ۳۵۳ ح۵۴ )

23۔ لوگوں کی خوشی کے لیے خدا کو ناراض کرنا

مَنْ طَلَبَ رِضَى النّاسِ بِسَخَطِ اللّهِ وَكَلَهُ اللّهُ إِلىَ النّاسِ .

جو لوگوں کو راضی کرنے كے لئے خدا کو ناراض کرے خدا اسے لوگوں کے ہی حوالہ کردیتا ہے ۔ ( بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۲۶ ح۸)

24۔ طاقت رکھتے ہوئےمعاف کرنا

إِنّ اَعْفَى النّاسِ مَنْ عَفَا عَنْ قُدْرَةٍ ۔

سب سے بڑا معاف کرنے والا وہ ہے جو طاقت کے باوجود معاف کردیتا ہے ۔( بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۲۱ ح۴)

25۔ اہمیت کم کرنے والی گفتگو

لاَ تَقُولُوا بِاَلْسِنَتِكُمْ مَا يَنْقُصُ عَنْ قَدْرِكُمْ ۔

زبان سے ایسی بات نہ نکالو جوتمھاری اہمیت کم کردے۔(جلاء العيون، ج ۲ ص۲۰۵)

26۔ تنگ‏دستى، بيمارى اور موت

لَوْلاَ ثَلاَثَةٌ مَا وَضَعَ ابْنُ آدَمَ رَأسَهُ لِشَىْ‏ءٍ اَلْفَقْرُ وَ الْمَرَضُ وَ الْمَوتُ ۔

اگرتین چيزیں نہ ہوتیں تو انسان کسی کے سامنے سر نہ جھکاتا غریبی، بیماری اورموت ۔ (نزهة الناظر و تنبيه الخاطر، ص ۸۵ ح۴)

27۔ اپنے گناه سےغفلت

إِيّاك اَنْ تَكُونَ مِمّنْ يَخَافُ عَلَى الْعِبَادِ مِنْ ذُنُوبِهِمْ وَيَاْمَنُ الْعُقُوبَةَ مِنْ ذَنْبِهِ .

ہرگز ان لوگوں میں سےنہ ہوناجودوسروں کے گناہوں پر خوفزدہ اور اپنے گناہوں سے غافل ہوتے ہیں۔ (تحف العقول، ص۲۷۳ )

28۔ مؤمن‏ کی پریشانی کو دور کرنا

مَنْ نَفّسَ كُرْبَةَ مُؤْمِنٍ فَرّجَ اللّهُ عَنْهُ كُرَبَ الدّنيَا وَ الاخِرَةِ ۔

جو کسی مومن کی پریشانی دور کرے خداوند عالم اس کی دنیا وآخرت کی پریشانوں کو دور کردےگا۔(بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۲۲ ح۵)

29۔ عزّت کی موت اورذلّت‏ کی زندگی

مَوْتٌ فِى عِزّ خَيْرٌ مِنْ حَيَاةٍ فِى ذُلّ .

عزت کی موت ذلت کی زندگى سے بہتر ہے ۔(بحار الانوار، ج ۴۴ ص ۱۹۲ ح۴)

30۔ قول و عمل‏ میں ہماہنگی

إِنّ الْكَريِمَ إِذَا تَكَلّمَ بِكَلاَمٍ، يَنْبَغِى اَنْ يُصَدّقَهُ بِالْفِعْلِ ۔

باعزت انسان جب گفتگو کرتا ہے تو اس کاعمل اس کی زبان کی تصدیق کرتا ہے۔ (مستدرك الوسائل، ج ۷ ص ۱۹۳ ح۶)

31۔ حضرت على(ع) سے نفاق‏ کی نشانی ہے

مَا كُنّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللّهِ (ص) إِلا بِبُغْضِهِمْ عَلِيّاً وَ وُلْدَهُ

رسول اسلام (ص)کے دورحیات میں ہم منافقین کوحضرت علی (ع) اور ان کی اولاد کی دشمنی سے پہچانتے تھے ۔(عيون أخبار الرّضا، ج ۲ ص ۷۲ ص۳۰۵)

32۔ ہدیہ قبول کرنے کا اثر

مَنْ قَبِلَ عَطَاءَكَ، فَقَدْ اَعَانَكَ عَلَى الْكَرَمِ

جوتمہاری عطا کی ہوئی چیز کو قبول کرلے وہ نیکیوں پر تمہاری مدد لرنے والا ہے ۔(بحار الانوار، ج ۶۸ ص ۳۵۷ ح۲۱)

33۔ خوف خدا میں گریہ

اَلْبُكَاءُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ نَجَاةٌ مِنَ النّارِ ۔

خوف خدا میں گريه جهنّم سےنجات کا ذریعہ ہے۔ (مستدرك الوسائل، ج ۱۱ ص ۲۴۵ ح۳۵)

34۔ عقلمندی اور موت کے یقین کا اثر

لَوْ عَقَلَ النّاسُ وَ تَصَوّرُوا الْمَوْتَ لَخَرِبَتِ الدّنيَا

اگر لوگ عقلمند ہوتےاور موت کا یقین کرلیتے تو دنیا ویران دکھائی دیتی۔ (إحقاق الحق، ج ۱۱ ص۵۹۲)

35۔ گناہ بہتر ازمعذرت

رُبّ ذَنْبٍ اَحْسَنُ مِنَ الاِعْتِذَارِ مِنْهُ۔

بہت سے گناہ ہیں جومعذرت کرنے سے بہترہیں۔(بحار الانوار، ج ۵۷ ص ۱۲۸ ح۱۱)

36۔ غيبت، دوزخ‏ کے کتوں کی غذا ہے

كُفّ عَنِ الْغَيْبَةِ فَإِنّهَا إِدَامُ كِلابِ النّارِ ۔

غيبت سے بپرهيزكرویہ دوزخ کے کتوں کا کھانا ہے ۔(بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۱۷ ح۲)

37۔ نهى عن المنكر

لا يَنْبَغِى لِنَفْسٍ مُؤْمِنَةٍ تَرَى مَنْ يَعْصِى اللّهَ فَلا تُنْكِرُ عَلَيْهِ .

مومن کے لیے یہ مناسب نہیں ہےکہ وہ کسی کو خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھے اور اسے ناپسند کرتے ہوئے منع نہ کرے ۔(كنز العمّال، ج ۳ ص ۸۵ ح۵۶۱۴)

38۔ خدا کی نا فرمانی کا اثر

مَنْ حَاوَلَ اَمْراً بِمَعْصِيَةِ اللّهِ كَانَ اَفْوَتَ لِمَا يَرْجُوا وَ اَسْرَعَ لِمَا يَحْذَرُ.

جو خدا کی نافرمانی کی کوشش کرے اس سے وہ چیزیں دور ہوجائیں گی جنھیں وہ چاہتا ہے اور وہ چیزیں اس سے قریب ہو جاتی ہیں جن سے وہ نفرت کرتا ہے ۔(بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۲ ح۱۹)

39۔ خیر کثیر ہے

خَمْسٌ مَنْ لَمْ تَكُنْ فِيهِ لَمْ يَكُنْ فِيهِ كَثِيرُ مُسْتَمْتِعٍ: اَلْعَقْلُ، وَ الدّينُ وَ الاَدَبُ، وَ الْحَيَاءُ وَ حُسْنُ الْخُلْقِ ۔

جس میں پانچ چيزیں نہ ہوں اس میں کوئی خیر نہیں پایا جائے گا عقل، دين، ادب، حيا اور خوش‏ اخلاقی۔ (حياة الامام الحسين(ع)، ج ۱ ص۱۸۱)

40۔ حق کی پيروى اور كمال عقل‏

لا يَكْمُلُ الْعَقْلُ إِلا بِاتّبَاعِ الْحَقّ

عقل کی حق پیروی کے بغیركامل نہیں ہوتی ۔(أعلام الدين، ص۲۹۸)