محمد بن عثمان عمری (دوسرے نائبِ امام)
محمد بن عثمان عمری ؒ (دوسرے نائبِ امام)
سید مبشر مہدی اشہر
ایم فل اردو ادبیات
11 ہجری قمری میں پیغمبرِ اکرم ؐ کی وفات ِحسرت آیات کے ساتھ ہی نبوّت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد ہدایتِ انسانی کے لیے سلسلہءِ امامت کا آغاز ہوا۔جانشینِ رسول ؐ و امامِ اول حضرتِ علیؑ سے امامِ یازدھم حسن عسکری ؑ تک گیارہ آئمہ اہلبیت نے امتِ مسلمہ کی رہنمائی اور تعلیماتِ دین کی محافظت کا فریضہ سر انجام دیا ۔اسی دوران میں بنوامیّہ کی ظالم و جابر حکومت کے قیام اور زوال کے بعد بنو عباس کی حکومت قائم ہوئی۔آئمہ اہلبیت ؑ اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ برتاؤ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بنو عباس کی مخاصمت اور ظلم و جبر بنو امیّہ سے کچھ کم نہیں رہا۔
عباسی خلیفہ معتمد عباسی کے دور میں امام حسن عسکری ؑ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا ۔ بارھویں امام حضرت امام مہدی ؑ نے اپنے والدِ گرامی کے نمازِ جنازہ کی امامت کے بعد بنو عباس کی عداوت اور مکدّر سیاسی فضا کو دیکھتے ہوئے حالات ناسازگار ہونے کے باعث غیبت اختیار کر لی۔یہ 260 ہجری قمری کا زمانہ تھا۔اعیان ِ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام الناس سے پوشیدہ ہونے اور اپنے شیعوں سے براہِ راست رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے امامؑ نے اپنے والد گرامی کے محترم اصحاب میں سے ایک معتمد علیہ شخص عثمان بن سعید عَمری کو اپنا نمائندہ خاص مقرر کیا تاکہ مومنین سے بالواسطہ رابطہ برقرار رہے۔یہ غیبتِ صغریٰ کا آغاز تھا۔
آئمہ اہلبیت ؑ پر جابر حکومتوں کی کڑی نگرانی اور جاسوسی سے شیعوں کوآئمہ سے رابطہ کرنے میں مشکلات پیش آتی رہیں ۔انھی مشکلات کو دیکھتے ہوئے عوام الناس میں آئمہ اہلبیت اپنے ثقہ اور امین اصحاب میں سے نمائندے اور وکیل مقرر کرتے رہے اور یہ سلسلہ امامِ چہارم علی بن حسین ؑ زین العابدین کے دور ہی سے شروع ہو چکا تھا ۔بعد میں آنے والے آئمہ نے بھی اپنے تربیت یافتہ اور قابلِ اعتماد اصحاب میں سے وکلاء اور سفیروں کا تعین و تقرر حسب ِ سابق جاری رکھا۔ انھی وکلا اور سفرا کے ذریعے اموالِ شرعی بھی جمع کر کے امام ؑ تک پہنچائے جاتے رہے۔گیارھویں امام کے بعد تو اس چیز کی مستقل ضرورت آن پڑی تھی اس لیے 260 ہجری میں نائب کا تقرر کیا گیا۔امامِ زمانہؑ اور عوام کے درمیان نائبین کےذریعے رابطے اور غیبتِ صغریٰ کا دورانیہ تقریباً 70 برس تک جاری رہا ۔260 ہجری سے 329 ہجری تک کے اس دورانیے میں چار اشخاص بطورِ نائب گزرے ہیں انھی چاروں کو نوّاب ِ اربعہ کی اصطلاح سے موسوم کیا جاتا ہے۔ دینی امور کی انجام دہی اور امام ؑ کے وجود کو مخفی رکھتے ہوئے عوام الناس اور امام ؑ کے درمیان سفارت جیسی ذمہ داریاں ان کے کاندھوں پر تھیں۔
نواب ِ اربعہ کے متعلق معلومات سب سے پہلے شیخ صدوق ؒ کی کتاب " کمال الدین و تمام النعمۃ" میں اور بعد میں شیخ طوسیؒ کی کتاب "الغیبۃ" میں مذکور ہیں۔پہلے نائب عثمان بن سعید ؒ پانچ سال جب کہ دوسرے نائب محمد بن عثمانؒ کی مدتِ نیابت 40 سال (265ھ سے 305ھ ) ان کی وفات تک رہی۔ہرنائب اپنے بعد میں آنے والے نائب کی بحکم ِ امام ؑ تعیین کی اطلاع بوقتِ وفات دیتا رہا۔محمد بن عثمانؒ ان میں سے دوسرے فرد ہیں جو اپنے والد اور پہلے نائب عثمان بن سعیدؒ کے بعد اس منصب پر فائز ہوئے ۔ان کی کنیّت ابو جعفر جب کہ القاب میں عَمری اور زیات مشہور ہیں۔ان کی تقرری بھی امام ِ زمانہ ؑ کی طرف سے وارد شدہ ایک توقیع ہی کے ذریعے ہوئی جس میں ان سے ان کے والد کی وفات پر تعزیت بھی کی گئی ہے۔اس توقیع سے اقتباس درج ذیل ہے۔
"تمھارے والد نے نیک زندگی گزاری اور قابلِ ستائش وفات پائی ۔خدا ان پر رحمت نازل فرمائے اور ان کو اپنے دوستوں کے ساتھ ملا دے۔وہ لوگوں کے امورِ دینیہ میں کوشاں رہے۔انھوں نے ہر وہ کام کیا جس سے وہ مومنین سے نزدیکی اور خدا کا قُرب حاصل کریں ۔خدا ان کے چہرے کو روشن اور ان کی خطاؤں کو معاف فرمائے۔۔۔۔۔ یہ ان کی نیک بختی کی انتہا تھی کہ خدا نے انھیں تم سا فرزند عطا فرمایا ۔ تم ان کے خلفِ صالح ہو، ان کے قائم مقام ہو اور ان کے لیے طلبِ رحم کرنے والے ہو۔"
محمد بن عثمان ؒنے جیسے ہی اپنا منصب سنبھالا اپنے والدِ محترم کی طرح شیعان ِ اثنا عشریہ سے ان کے اموالِ شرعی زکوۃ و خمس اور ہدایا وغیرہ وصول کرنے کے لیے وکلا و سفراء مقرر کیے جو جمع شدہ اموال ِ شرعی اور خطوط کو ان تک بحفاظت پہنچاتے تھے۔دور دراز کے علاقوں کے شیعوں کے ساتھ رابطے کا ایک منظم نظام استوار کیا ۔محمد بن عثمانؒ ان اموال کو امامؑ کی رضامندی اور اجازت سے مطلوبہ مقامات پر خرچ کیا کرتے تھے۔نائبین حضرات شیعان ِ آلِ محمد کو درپیش تمام مسائل ِ شرعی ، علمی اور اعتقادی کو تحریری شکل میں امام ؑ تک پہنچاتے تھے اور امام ؑ کی طرف سے دیا گیا تحریری جواب واپس لوگوں تک پہنچانا بھی انھی کی ذمہ داری تھی۔
محمد بن عثمانؒ اور ان کے والد اصحاب ِ آئمہ میں اہم مقام کے حامل تھے۔دونوں باپ بیٹے کے متعلق شیخ طوسی کی کتاب الغیبۃ میں وارد ایک توقیع میں وارد ہے کہ
"عثمان بن سعید عمری اور ان کا بیٹا دونوں قابلِ اعتماد اور ثقہ ہیں وہ جو کچھ بھی تم تک پہنچائیں وہ میری جانب سے ہے اور جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ میری طرف سے ہے۔ان (دونوں ) کی بات سُنو اور ان کی پیروی کرو۔کیوں کہ وہ ثقہ اور امین ہیں۔"
محمد بن عثمانؒ کے امام ؑ کے نزدیک مقام و مرتبے کے حوالے سے علامہ طبرسی نے علامہ کلینی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اسحاق بن یعقوب کے خط کے جواب میں امامؑ نے ارشاد فرمایا :
"محمد بن عثمان امین اور ثقہ ہیں اور ان کی تحریر میری تحریر ہے۔"
دوسرے نائبین کی طرح محمد بن عثمانؒ بھی بغداد میں رہائش پذیر رہے جب کہ اس دور کے زیادہ تر شیعہ قم ، نیشا پور، خراسان ، ہمدان ، کوفہ ، یمن اور مصر وغیرہ میں آباد تھے۔ایسی صورتِ حال میں جب کہ عباسی حکومت بارھویں امامؑ کی تلاش میں سرگرم تھی اور حکومتی جاسوس جا بجا پھیلے ہوئے تھے۔ حکومتی دارالحکومت بغداد میں سُنّی مرکزیت کی موجودگی میں لوگوں کے درمیان غیر معروف طریقے سے تمام امور اور ذمہ داریوں کو بخیروخوبی انجام دینا اتنا آسان نہیں تھا ۔محمد بن عثمان نے حالات کا صحیح ادراک کرتے ہوئے دانش مندی سے معتدل روش کو اختیار کیا اور ہر امر میں حفاظت اور فعالیت کو مخفی رکھنا اپنی پہلی ترجیح قرار دیا۔ان کی اس عمومی روش اور محفوظ پالیسیوں کی بدولت عباسی حکومت میں اہلِ تشیّع کوبھی اہم عہدوں پر فائز رہنے کا موقع ملا ۔
نوابِ اربعہ اپنے منصب کے تقاضے کے مطابق اپنی نجی زندگی میں تقویٰ ، پرہیز گاری اور عدالت کے مرتبے پر فائز رہے ۔ مشہور دعاؤں میں سے دعائے سمات ، دعائے افتتاح اور زیارتِ آلِ یٰسین محمد بن عثمان کے توسُّط ہی سے نقل ہوئی ہیں ۔نائبِ دوّم دینی علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے۔محمد بن عثمان کی دُختر امِّ کلثوم کا بیان ہے کہ :
" میرے پدرِ بزرگوار نے کئی جلدوں پر مشتمل کتاب تصنیف کی تھی جس میں امام حسن عسکری ؑ اور اپنے پدر بزرگوار سے حاصل کیے ہوئے علوم اور احکام کو جمع کیا تھا ۔انھوں نے اپنے انتقال کے وقت وہ سارا سامان (اپنے بعد والے تیسرے نائبِ امامؑ )حسین بن رَوح ؒ کے حوالے کردیا تھا۔"
محمد بن عثمانؒ وہ خوش نصیب ہیں کہ امام ِ زمانہ کی زیارت سے شرف یاب ہوتے رہے انھی سے مروی ہے کہ امامِ زمانہ ؑ ہر سال حج میں تشریف لاتے ہیں اور لوگوں سے ملاقات بھی کرتے ہیں لیکن لوگ انھیں پہچان نہیں سکتے۔میری آخری ملاقات بھی ان سے حج کے موقع پر ہوئی تھی۔جب وہ خانہ خدا کے قریب اس دعا میں مشغول تھے۔"خدایا میرے وعدے کو پورا فرما ۔ خدایا مجھے دشمنوں سے انتقام لینے کا موقع عطا فرما۔"
دنیوی مال و دولت اور جاہ و مرتبہ کی خواہش ہمیشہ انسان کے لیے ایک آزمائش رہی ہے ۔اہلِ تشیّع میں سے بھی ہردور میں کچھ افراد اموالِ دنیوی کے لالچ میں امامِ حق سے منحرف ہوتے رہے ہیں ۔زمانہ غیبتِ امام میں تو یہ خطرہ مزید بڑھ گیا تھا کیوں کہ عوام کا امامؑ کے ساتھ براہِ راست رابطہ نہیں تھا ۔ ایسی صورتِ حال میں نواب ِ اربعہ کے لیے اموالِ دنیوی کے لالچ میں منحرف و گمراہ ہونے والےا شخاص کی نشان دہی کرنا اور عوام کو ان سے دور رہنے کی ہدایت کرنا ایک اہم ذمے داری تھی۔
پہلے نائب عثمان بن سعید ؒ کی وفات کے بعد ابنِ ہلال کرخی منحرف ہوگیا تھا اور محمد بن عثمانؒ کی جگہ نیابت کا دعویٰ کردیا ۔ تو اس شخص کی رد میں امامؑ کی طرف سے وارد شدہ توقیع کی عبارت درج ذیل تھی۔
"میں بے زار ہوں ابن ِ ہلال سے اور اُن سے جو اس سے دوری اختیار نہ کریں ۔خدا اسے نہ بخشے جو کچھ میں نے کہا ہے ۔ اس کو اسحٰق اور اس کے ہم وطنوں کو بتا دو ۔"
اس کی مثل محمد بن نصیر النمیری تھا ۔ یہ بھی امام حسن عسکری ؑ کے اصحاب میں سے تھا اس نے بھی امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ جب اس کا گمراہ کُن عقیدہ ظاہر ہوا تو دوسرے نائب محمد بن عثمانؒ نے اس سے برائت کا اظہار کیا ۔تیسرا منحرف ہونے والا شخص اصحاب ِ امام یازدھم میں سے محمد بن علی بن ہلال تھا۔اس نے منحرف ہوکے امام ؑ کے وکیل ہونے کا دعویٰ کیا اور محمد بن عثمان کی نیابت کا انکار کیا ۔ اموالِ امام میں سے خیانت کا مرتکب ہوا ۔ اس پر امام ؑ کی طرف سے لعنت اور برائت کی توقیع وارد ہوئی۔
اس کے علاوہ ان کے دور کے اہم واقعات میں سے ایک صاحب ِ زنج کا قیام تھا جو خود کو زیدی سادات سے منسوب کیا کرتا تھا۔ یہ شخص پندرہ برس تک عباسی حکومت کے لیے دردِ سر بنا رہا۔دوسرا اسماعیلیہ کی شاخ قرامطہ کا ظاہر ہونا تھا یہ فرقہ بھی عباسیوں سے برسرِ پیکار رہا۔یہ دونوں واقعات عباسی حکومت کی نظر میں اثنا عشری شیعوں کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتے تھے۔لیکن امامِ زمانہ ؑ کی رہنمائی سے محمد بن عثمان کی یہ دانش مندانہ روش رہی کہ وہ ان دونوں تحریکوں سے دُور اور لا تعلق رہے ۔امامِ زمانہؑ کی طرف سے ابوالخطاب قرامطی کی مذمت میں وارد ہونے والی توقیع کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے شیعوں کو ان غلط اور گمراہ فرقوں سے میل جول رکھنے سے منع کررہے ہیں۔
محمد بن عثمانؒ چالیس سال تک امامِ زمانہ ؑ کے نائب ِ خاص کے عہدے پر فائز رہے ۔ انھوں نے احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ۔ اپنی وفات سے دو ماہ قبل اپنی قبر کھدوائی ۔ لوگوں نے استفسار کیا تو بتایا کہ مجھے امام ؑ نے میری وفات کی خبر دی ہے اور میں اپنی تاریخ ِ وفات سے آگاہ ہوں ۔اپنے بعد بحکمِ امام تیسرے نائب حُسین بن رَوح کی تقرری کا اعلان کیا اور جمادی الاول 305 ہجری کو وفات پائی۔خدا ان پر رحم فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتابیات
الغیبۃ شیخ طُوسی
الاحتجاج علامہ طبرسی
اکمال الدین و تمام النعمۃ شیخ صدوق
نقوشِ عصمت علامہ ذیشان حیدر جوادی