حضرت عباس ابن علی ؑکے فضائل و کمالات فریقین کی نظر میں

مقدمہ
جب امام حسین کے اصحاب کی زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کہ وہ آپ کے نور ہدایت سے خوب بہرہ مند ہوئے اور فضیلت و عظمت کے آسمان پر اس طرح چمکے کہ وہ لوگوں کے لئے مشعل راہ قرار پائے اور ان کے نام نیکو کاروں کی فہرست کی زینت بنے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان لکھنے سے عاجز ہو جاتا ہے دوسرے لفظوں میں اس کا قلم گونگا ہو جاتا ہے خاص کر جب حیدر کرار علی ابنِ ابی طالب کے فرزند دلاور حضرت عباسؑ کی شان میں کچھ لکھنا چاہتا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ جناب عباس ؑکے فضائل سن کر کچھ لوگ حیرت زدہ ہو جائیں کہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک شخص ایسے مقام و مرتبے پر فائز ہو جائے کہ خود معصوم امام اس کی تعظیم و احترام کریں۔ لیکن جب ہم اس نکتہ کی طرف توجہ کریں گے تو پھر شاید ہمارے لیے تعجب آور نہ ہو یا حیرت میں کمی کا باعث ہوں کہ حضرت عباسؑ مولا علی ابن ابی طالب ؑکے فرزند ہیں اور فطرت انسانی کا تقاضہ ہے کہ ہر شخص اپنے ماں باپ کی صفات کو ان سے حاصل کرتا ہے۔ بلکہ تعجب اس وقت ہوتا ہے جب معاملہ اس کے برعکس ہو یعنی اولاد شکل و شمائل اور اخلاق و کردار میں اپنے والدین سے شبہات نہ رکھتی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب عباسؑ کو شجاعت و بہادری اپنے بابا شیر خدا علی ابن ابی طالبؑ سے وراثت میں ملی ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جس طرح امیرالمومنین ؑ پیغمبر خدا ﷺ کے حامی و مددگار اور ان کی قوت بازو تھے، جناب عباس ؑ کو بھی اپنے امام وقت کے ساتھ یہی نسبت تھی۔
حضرت عباس کی فضیلت میں اگر ہمیں معصومین سے نقل شدہ کوئی روایت بھی نہ ملے تو ان کی تعریف کے لئے آیات قرآنی ہی کافی ہیں۔ آپ قرآن مجید میں بیان شدہ مومنین کی صفات کا حقیقی مصداق ہیں جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَٱلَّذِینَ ءَامَنُواوَہاجَرُوا وَجٰہدُوا فِی سَبِیلِ ٱللَّہ وَٱلَّذِینَ ءَاوَوا وَّنَصَرُوۤا أُولٰئكَ ہمُ ٱلمُؤمِنُونَ حَقّا لَّہم مَّغفِرَۃوَرِزقكَرِیم؛جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی اور جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں ان کے لیے بخشش اور بہترین رزق ہے)
ایک اور مقام پر فرمایا ہے:وَٱلَّذِینَ ہاجَرُوا فِی سَبِیلِ ٱللَّہ ثُمَّ قُتِلُوۤا أَو مَاتُوالَیَرزُقَنَّہمُ ٱللَّہ رِزقًا حَسَنا وَإِنَّ ٱللَّہ لَہوَ خَیرُ ٱلرَّ ٰزِقِینَ؛ اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، پھر قتل کر دیے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھّا رزق دے گا اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے۔
حضرت عباس نے راہ خدا میں ہجرت کی، جہاد کیا اور شہید ہوئے۔ اور باوجود اس کے کہ امام حسین کو چھوڑ کر جانا چاہتے تو جانے کا راستہ بھی ان کے لئے کھلا تھا لیکن انہوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی امام ؑ کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آئمہ معصومین کی نگاہ میں حضرت عباس ؑ کا بڑا مقام ہے، آپ ان کے نزدیک قابل ستائش ہیں، امام صادق ؑسے حضرت عباس ؑ کا پورا زیارت نامہ نقل ہوا ہے اور اس زیارت نامہ میں امام صادق ؑنے ان کے ساتھ اس طرح عقیدت کا اظہار کیا ہے کہ گویا وہ معصوم امام ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ساری زندگی پیغمبرگرامی اسلام ﷺ اور آئمہ معصومین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گزاری۔
امام صادق ع اس زیارت نامہ میں فرماتے ہیں:جِئْتُکَ یَا ابْنَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَافِدا إِلَیْکُمْ وَ قَلْبِی مُسَلِّمٌ لَکُمْ وَ تَابِعٌ وَ أَنَا لَکُمْ تَابِعٌ وَ نُصرتِی لَکُمْ مُعَدَّۃحَتَّى یَحْکُمَ اللہ وَ ہوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ فَمَعَکُمْ مَعَکُمْ لا مَعَ عَدُوِّکُمْ إِنِّی بِکُمْ وَ بِإِیَابِکُمْ [وَ بِآبَائِکُمْ‏] مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَ بِمَنْ خَالَفَکُمْ وَ قَتَلَکُمْ مِنَ الْکَافِرِینَ قَتَلَ اللہ أُمَّۃقَتَلَتْکُمْ بِالْأَیْدِی وَ الْأَلْسُنِ؛ اے امیرالمومنین(ع) کے فرزند آپ کا مہمان ہوں میرادل آپ کے حوالے اور تابع ہے اور میں آپکا پیروکارہوں میں آپکی نصرت پر آمادہ ہوں یہاں تک کہ خدا فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے آپکے ساتھ ہوں آپ کے ساتھ نہ کہ آپ کے دشمن کے ساتھ بے شک میں آپ پر اور آپکے وآپس آنے پر ایمان رکھتا ہوں اور آپکے مخالف اور آپکے قاتل سے میرا کوئی تعلق نہیں خدا قتل کرے اس گروہ کو جس نے ہاتھ اور زبان سے آپکے ساتھ جنگ کی۔
بلاشبہ حضرت عباس کا معنوی کمالات اور فضائل کے اتنے بلند مرتبہ پر فائز ہونا ان کے اعلی ترین انسانی اقدار کو اپنانے اور گناہ اور گناہ گاروں سے دوری کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالی کی مخلصانہ بندگی اولیائے اولیاء الہی یعنی آئمہ معصومین ﷩ کی اطاعت اور ان کے سامنے عاجزی و انکساری ان کی روحانی شخصیت کی نشوونما اور کمالات اور وجودی اقدار کے حصول کا باعث بنی ہے۔ حضرت عباس کی ذات ان گنت کمالات و فضائل کی حامل ہے لیکن یہاں پر ہم اس مقالہ کی کی ظرفیت اور وسعت کو مدنظر رکھتے ان کی چند نمایاں خصوصیات کا اختصار کے ساتھ ذکر کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔
تعارف
نام: عباس
والد : حضرت علی ابن ابی طالب
والدہ : فاطمہ بنت حزام جو کہ ام البنین کے کے نام سے مشہور ہیں۔
ولادت : ۴ شعبان المعظم ۲۶ ہجری
مقام ولادت: مدینہ منورہ
ازدواج: آپ نے چالیس سے پینتالیس ہجری کے درمیان عباس ابن عبدالمطلب کی اولاد میں سے لبابہ نامی خاتون سے شادی کی۔
اولاد: لبابہ سے حضرت عباس ؑ کے دو بیٹے فضل و عبید اللہ متولد ہوئے۔ بعض کتابوں حضرت عباس ؑکے اور بیٹوں کا ذکر بھی کیا اور ان کے نام حسن، قاسم اور محمد تھے اور ایک بیٹی کا ذکر بھی ہے۔
شہادت: حضرت عباس ابن علی ؑ ۶۱ ہجری دس محرم الحرام کو امام حسینؑؑ کا ساتھ دیتے ہوئے میدان کربلا میں شہید ہوئے۔
محل دفن: حضرت عباسؑ شہر کربلا میں مدفون ہیں۔ ان کا روضہء مبارک حضرت امام حسین ؑکے حرم مطہر کے شمال مشرق میں واقع ہے اور شیعیان جہان کے لئے اہم زیارت گاہ ہے۔
کنیات
ابوالفضل
جناب عباس کی مشہور ترین کنیت ابو الفضل ہے۔ یہ کنیت آپ کی بے کراں فضیلت و عظمت کی نشانی ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک آپ کی ساری زندگی مختلف فضائل اور خصوصیات کا آئینہ ہے۔ مورخین نے نقل کیا ہے کہ حضرت عباس کو ابوالفضل کہہ کر پکارنا دو وجوہات کی بنا پر ہے:
الف: ان کے بیٹے کا نام فضل تھا۔
ب: کیونکہ ان کی ساری زندگی فضیلتوں کا مجموعہ ہے اسی وجہ سے انہیں ابالفضل کہا جاتا ہے ہے۔
اور یہ دوسری وجہ زیادہ بہتر نظر آتی ہے۔ ان کی اور بھی کنیات ہیں لیکن اختصار کی خاطر اسی ایک کنیت کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔
القاب
قمر بنی ہاشم
کلباسی نے اپنی کتاب خصائص العباسیہ میں اور دیگر مصنفین نے بھی لکھا ہے حضرت عباس انتہائی حسین و جمیل تھے اسی وجہ سے انہیں قمر بنی ہاشم کہا جاتا ہے۔
باب الحوائج
حضرت عباس اپنی خدا کاری قاری اخلاص اور اعلیٰ انسانی اقدار کا حامل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی کے نزدیک ایک بلند مقام اور خاص اکرام و آبرو رکھتے ہیں۔ حضرت عباس ع باب الحوائج ہیں اور ان کے توسل سے حاجات کی برآوری ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مقام شفاعت عطا فرمایا ہے۔
طيّار
یہ ایسا لقب ہے جس کے ساتھ امام سجاد نے اپنے چچا کو پکارا ہے اور اس کے ذریعے حضرت عباس ؑکے معنوی مقام و منزلت کو لوگوں پر آشکار کیا ہے۔ امام زین العابدین فرماتے ہیں:رَحِمَ اللَّہ عَمِیَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وأَبْلی وفَدی أَخاہ بِنَفْسِہ حَتَّی قُطِعَتْ یَداہ فَأَبْدَلَہ اللَّہ عَزَّوَجَلَّ مِنْہما جِناحَیْن یَطیرُ بِہما مَعَ الْمَلائِکَۃفی‌ الْجَنَّۃکَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبی‌طالِبْ علیہ السلام؛ وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّہ تَبارَکَ وَتَعالی مَنْزِلَۃیَغبِطَہ بِہا جَمیعَ الشُّہدَاءِ یَوْمَ القِیامَۃ؛ اللہ تعالیٰ میرے چچا عباس ؑ پر رحم کرے، کہ جنہوں نے ایثار کا مظاہرہ کیا اور اپنی جان کو سختیوں میں ڈالا، اپنے بھائی پر جان قربان کر دی یہاں تک کہ اس کے دونوں بازو بدن سے جدا ہو گئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان بازؤوں کے بدلے انہیں دو پر عطاء فرمائے اور وہ بہشت میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں۔
سقّا
حضرت عباس کو سقا بھی کہا جاتا ہے۔ منصب سقایت، حج کی تاریخ میں ایک اہم اور عظیم منصب جانا جاتا ہے۔ پیاسوں کو پانی پلانا مستحبات میں سے ہے لیکن کبھی اسے واجبات دینی میں شمار کیا جاتا ہے۔ حضرت عباس ؑنے یہ لقب اپنے بابا علی ؑسے ورثے میں پایا ہے۔ انہوں نے جنگ بدر میں دشمن کی سپاہ کے قریب واقع ایک کنویں سے پانی لا کر لشکر اسلام جو سیراب کیا ۔
حضرت عباس ؑنے مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کربلا تک کاروان امام حسین ؑ کی سقّائی کے فرائض انجام دیے۔
خوارزمی نے مقتل حسین ؑ میں لکھا ہے کہ جب امام حسینؑ نے دیکھا کہ خیموں میں پانی نہیں ہے اس وقت اپنے بھائی حضرت عباس ؑ کی سربراہی میں تین سپاہیوں کا کو پانی لینے کے لئے بھیجا اور عمر سعد اور ان کے درمیان جنگ ہوئی اس کے بعد پانی کی بیس مشکیں بھرکے خیام کی طرف واپس آئے اس موقع پر امام حسین ؑ نے حضرت عباس ؑ کو سقا کا لقب عطا کیا۔
تاریخ کی کتابوں میں ان کے بیت سارے القابات درج ہیں لیکن مقالہ کی ظرفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تمام القابات کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
حضرت عباس ع کے فضائل علماءِ فریقین کی نگاہ میں
حضرت عباس کے بلند مرتبہ ہونے میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ جس طرح وہ شکل وشمائل کے لحاظ خوبصورت تھے یہاں تک کہ قمر بنی ہاشم کا لقب پایا اسی طرح وہ اخلاق حسنہ کا پیکر بھی تھے۔ ان کا وجود مبارک اقدار انسانی کا حامل تھا اور وہ خدا، رسول ؐ اور امام وقت کے مطیع فرمانبردار تھے۔ شیعہ و اہل سنت علماء نے ان کے بہت سارے فضائل بیان کیے ہیں اور ان بے شمارخصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے ہم یہاں پر اس مقالے کی ظرفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی چند نمایاں خصوصیات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کا شرف حاصل کریں گے۔
۱۔ اعلی نسب
امام حسین ؑ کے اصحاب میں سے سب سے اعلی نسب حضرت عباس ؑ کا ہے۔ آپ بنو ہاشم کے چشم و چراغ کہ جس کی عظمت و جلالت سے انکار ممکن نہیں ۔ ان کے والد ماجد رسول خدا ؐ کے وصی، ولی مومنین، امام متقین ہیں اور شجاعت میں احد، بدر، خندق و خیبر میں لشکر اسلام کو فتح دلوانے کلیدی کردار ادا کرنے والی شخصیت کا نام علی ابن ابی طالب ؑ ہے۔ تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ رسول خدا ؐکے بعد سب سے عالم، دانا اور بافضیلت شخصیت حضرت علی ؑ کی ہے۔ حضرت عباسؑ کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ امامت کے شجرہ طیبہ سے متصل ہیں اور فرزندان رسول خدا ؐ اور کے بھائی ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت حزام ہیں۔ حزام کی شرافت ، شجاعت اور سخاوت کا چرچہ زبان زد عام خاص تھا۔
تین اماموں کا تربیت یافتہ ہونا
حضرت عباس ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے تین معصوم اماموں ( حضرت علیؑ، امام حسینؑ ، امام حسن ؑ) کے زیر سایہ پروان چڑھے اور ان سے تربیت حاصل کی۔ ان سے دینی تعلیمات اور اخلاق حسنہ کی تعلیم حاصل کی اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقام عبودیت پر پہنچے۔ بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ حضرت عباسؑ عصمت میں معصومین ﷩کے برابر نہیں ہیں لیکن عصمت میں ان سے نزدیک ترین فرد ضرور ہیں۔
علم و معرفت
حضرت عباس کی ولادت باسعادت ایسے گھرانے میں ہوئی جو علم و حکمت کا خزانہ تھا، جناب عباس ؑنے حضرت علی ؑ,امام حسن ؑاور امام حسین ؑسے کسب فیض کیاہے اور بلند ترین علمی مرتبہ پر فائز ہیں۔ حضرت ابوالفضل العباسؑ، آئمہ معصومین ﷩ کی اولاد کے فقہا ء اور دانشمندوں میں سے تھے، جیسا کہ بزرگ علماء و محدثین نے ان کی شان میں بیان کیا ہے: "ہو البحر من اى النواحى اتيتہ" و یا "فلجتہ المعروف و الجواد ساحلہ"۔
مرحوم علامہ محمد باقر بيرجندى نےبھی تحریر کیا ہے:
ان العباس من اكابر الفقہا و افاضل اہل البيت، بل انہ عالم غير متعلم و ليس فى ذلك منافاہ لتعلم ابيہ اياہ؛ بیشک حضرت عباس ؑ بزرگ فقہاء اورخاندان نبوت کی نمایاں شخصیتوں میں سے تھے، بلكہ وہ عالم غیر معلم تھےاور اس کا اس بات سے کوئی ٹکراؤنہیں ہےکہ انھوں نے اپنے والد حضرت امام علی ؑسے کسب فیض کیا تھا۔
استقامت و ایمان راسخ
جب بھی استقامت کا تذکرہ ہوتا ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے بلا تردید استقامت، معرفت اور بصیرت کا نتیجہ ہے۔ اوضاع و احوال یہ تھے کہ ایک طرف سے ایک اہم ذمہ داری کو نبھانا ہے! جنگ، سخت ہے اور دشمن کے مقابلے میں تعداد انتہائی کم! حالات، حالات انتہائی سخت ہیں، گرمی، بھوک اور پیاس کی شدت! لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود آخری دم تک حضرت عباس ع کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ سخت ترین آزمائش اور مصیبت کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اپنی زمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے میں کامیاب ہوئے۔
حضرت عباس پختہ ایمان کے مالک تھے تھے اور امام حسین ؑ موامامِ برحق مانتے تھے۔ انہوں نے پوری زندگی اپنے وقت کے اماموں کی اطاعت کی اور ہر موقع پر ان کی حمایت اور مدد کرتے رہے۔امام صادق ؑ اپنے چچا حضرت عباس ؑ کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کان العباس۔۔۔ صلب الایمان؛ عباس ابن علی ؑ پختہ ایمان کے مالک تھے۔
تاریخ اور مقتل کی کتابوں میں میں میدان کربلا کا ایک واقعہ نقل ہوتا ہے کہ جب شمر ابں ذی الجوشن آیا اور پوچھا کہ میرے بھانجے عبداللہ، جعفر، عباسؑ اور عثمان کہاں ہیں؟ اس وقت وہ تمام خاموش رہے تو امام حسین ؑنے فرمایا اسے جواب دو اگرچہ وہ فاسق ہے لیکن تمہارا ماموں ہے۔ انہوں نے شمر سے مخاطب ہو کر کہا: بتا کیا کہنا چاہتا ہے؟ آپ میرے بھانجے ہیں میں آپ کے لئے امان نامہ لے کر آیا ہوں خو کو اپنے بھائی حسین ؑکے ساتھ موت کے منہ میں نہ دھکیلو اور امیر مؤمنین یزید لعنہ کی بیعت کر لو۔
حضرت عباس نے اس کے جواب میں فرمایا: خدا تیرے ہاتھ قطع کرے تیرے اس امان نامہ پر لعنت ہو اے دشمن خدا! کیا تو مجھے حکم دیتا ہے کہ میں اپنے بھائی اور اپنے سردار سردار حسین ابن فاطمہ ؑ کو چھوڑ دوں اور ملاعین ابن ملاعین کی اطاعت جر لوں۔ حضرت عباس ؑ اور ان کے بھائیوں نے شمر کو اپنے آپ سے دور بھگایا اور امان نامہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ شمر غصہ کی حالت میں اپنے لشکر کی سمت پلٹ گیا۔
بصیرت
دین کی مکمل شناخت اور اس پر پختہ یقین، اپنے وظیفہ اور ذمہ داری سے آگاہی، اپنے زمانے کے امام اور حجت الہی کی معرفت، حق و باطل کی پہچان اور دوست اور دشمن کے بارے میں علم رکھنے کا نام بصیرت ہے۔
معرکہ کربلا میں شہادت پانے والے تمام کے تمام اہل بصیرت تھے اسی لیے تو ان کے دلوں مین نہ دشمن کا خوف نہ موت کا ڈر بلکہ سب عاشقانہ طور پر جام شہادت نوش کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ امام حسینؑ ہی امام وقت ہیں انہی کی اقتدا ہی صراط مستقیم ہے اور ان کی نصرت دین الہی کی نصرت ہے خدا اور اس کے رسول ص کی نصرت ہے لہذا انہوں امام وقت کا ساتھ دیا اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گئے۔
حضرت عباس ؑ بھی صاحب بصیرت تھے امام صادق ؑ ان کی شان میں فرماتے ہیں:"كان عمنا العباس نافذا البصيرہ؛ ہمارےچچاعباس ؑ نافذ البصیرت (ذہین سمجھدار اور دقیق) تھے"
ادب و احترام
حضرت عباس کی صفات جمیلہ میں سے ادب و احترام اور عاجزی و انکساری بھی ہے وہ ادب و احترام اور حسن خلق کا پیکر کار اور عاجزی و انکساری کا بہترین نمونہ تھے۔ حضرت عباس ؑ اپنے آپ کو اپنے دونوں بھائیوں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے برابر نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہیں اپنا امام مانتے تھے اور ہمیشہ ان کے مطیع و فرمانبردار رہتے تھے۔ ہمیشہ ان سے «یابن رسول اللہ»، «یاسیدی» یا ایسے ہی دیگر القابات کے ساتھ مخاطب ہوتے تھے۔
عبادت
حقیقی عبادت و بندگی، انسان کے جسم و روح کا اللہ تعالیٰ کے حضور خشوع و خضوع کا اظہار کرنا ہے، اور اس کا سرچشمہ انسان کا ایمان ہے۔ انسان، ایمان اور معرفت کے جتنے بلند درجے پر فائز ہو گا، اس کی عبادت اتنی ہی عمیق ہوگی، عبادت کا جذبہ اتنا زیادہ اور اس کی روح کے لئے اتنی ہی لذت بخش اور آدام بخش ہوگ۔ حقیقی بندگان خدا دنیا و آخرت میں ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔ وہ آخرت میں روشن و درخشاں چہروں کے ساتھ محشور ہوں گے، اور دنیا میں عبادت و بندگی کے اثرات ان کے چہروں پر ظاہر ہوں گے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے: سیماہم فی وُجُوہہم مِنْ اَثَرِ السُّجُودِ؛ ان (یعنی بندگانِ خدا) کی علامت، ان کے چہروں پر سجدے کا نشان ہے۔
حضرت عباسؑ، اپنے پروردگار کے حقیقی عبادت گزار تھے۔ اور ان کے چہرہ مبارک پر عبادت کے آثار نمایاں تھے۔ طویل سجدوں کا اثر اس کی پیشانی پر کندہ تھا۔ یہاں تک کہ ان کا قاتل کہتا ہے کہ: وہ خوبصورت چہرے کے مالک اور ہدایت یافتہ تھے، سجدے کا نشان ان پیشانی پر چمک رہا تھا۔
حضرت عباس ؑ نے اپنی زندگی کی آخر رات، امام حسینؑ کے دیگر وفادار ساتھیوں کے سمیت، اللہ تعالیٰ کے ساتھ راز و نیاز اور عبادت میں مصروف رہے۔
اس رات کو خیمے روشنی میں ڈوبے ہوئے تھے، اور دعا کے لئے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے قنوت کی سبز راہیں آسمان سے ٹکرا رہی تھیں، عاشقانہ راز و نیاز کی دھیمی دھیمی صدائیں کربلا کی گرم ہوا میں اس طرح پھیلی ہوئی تھیں اور فضا کو دلنشین بنائے ہوئے تھیں، یہاں تک کہ بعض نے لکھا ہے کہ: اس رات دشمنوں کے لشکر میں تبدیلی رونما ہوئی، اور ان میں سے بتیس لوگ امام حسین ؑ کے ساتھ مل گئے۔
اطاعت
حضرت عباس نے اپنی پوری زندگی خدا اور اس کے رسول ص اور اپنے امام وقت کی اطاعت میں گزاری ہے۔ اور بیس سال کی مدت مدت جو امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے ساتھ گزاری ہے کسی تاریخ میں نہیں ملتا کہیں پر آپ نے اپنے وجود کا اظہار کیا ہو کہیں یہ کہا ہو کہ آپ بھی علیؑ کے بیٹے ہیں اور میں بھی انہی کا بیٹا ہوں ہو کبھی ان کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کیا نہ کوئی خطبہ دیا کچھ بھی نہیں فقط اور فقط اطاعت امام۔
ان کی اطاعت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب امام مجتبی ؑکے جنازے پر تیر برسائے گئے تو اس وقت جناب عباس ؑ کی عمر 26 یا 27 سال تھی۔آپ سوچیں کہ ایک بہادر اور طاقتور جوان کھڑا ہو اور اس کے سامنے اس کے بھائی کے جنازے پر تیر برسائے جائیں تو وہ کبھی بھی اس گستاخی کا بدلہ لئے بغیرچین سے نہیں بیٹھے گا۔ لیکن اس وقت جیسے ہی حضرت عباس ؑ نے ہاتھ قبضہ تلوار پر رکھا تو امام حسین ؑ فرمایا: اے میرے بھائی تلوار کو نیام ڈالو تو عرض کیا: جیسے آپ حکم فرمائیں اور تلوار نیام میں ڈال دی۔ تہذیب الاحکام میں حضرت عباس ؑ کی زیارت میں اس طرح نقل ہوا ہے:(اشہد) انك مضيت على بصيرۃمن امرك مقتديا بالصالحين ومتبعا للنبيين؛ میں گواہ ہوں کہ آپ نے بصیرت کے ساتھ احکام الٰہی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، نیک لوگوں کی پیروی اور پیغمبرؐ کی اتباع کرتے ہوئے زندگی گزاری۔
کامل الزیارات اور مفاتیح الجنان میں جو زیارت امام صادق ؑسے نقل ہوئی ہے اس میں امام صادق ؑنے آپ کی اطاعت کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں سلام کیا ہے: السَّلامُ عَلَیْکَ أَیُّہا الْعَبْدُ الصَّالِحُ الْمُطِیعُ للہ وَ لِرَسُولِہ وَ لِأَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ؛ سلام ہو آپ پرکہ آپ خدا کے پارسا بندے ہیں آپ اﷲ، کے اس کے رسول ص، امام علی، امام حسن اور امام حسین علیہم السّلام کے اطاعت گذار ہیں۔
حضرت عباس سپاہ امام حسین ؑ کے سپہ سالار تھے اور یہ بات امام حسینؑ کے نزدیک ان کی اہمیت و مقام و منزلت کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود حضرت عباس ؑ اپنے امام کی معرفت کے اس درجے پر تھے کہ ان کے نزدیک امام وقت کی اطاعت کے سامنے ان تمام چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ حضرت عباسؑ کے نزدیک امام کے حکم کے سامنے اگر، مگر یا تاخیر گنجائش نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ خود خود کو امام وقت کے فرمان کی اطاعت کے لیے آمادہ و تیار رکھتے۔ حکم امام کی انجام دہی میں دقت، سرعت اور استقامت ان کی اطاعت کے درجے کو بیان کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اطاعت کا وہ درجہ انہیں عطا فرمایا ہے کہ وہ حضرت علی ؑکے اس قول کے مصداق قرار پاتے ہیں۔ امام علی ؑنے فرمایا:مَنْ صَبَرَ عَلَى طَاعَۃاَللَّہ سُبْحَانَہ عَوَّضَہ اَللَّہ سُبْحَانَہ خَيْرا مِمَّا صَبَرَ عَلَيْہ؛ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے اس کے صبر سے بہتر اجر عطاء فرماتا ہے۔
امام حسین کے ساتھ انس و محبت
حضرت عباس کے علاوہ امام حسین کے اور بھائی بھی تھے جیسے محمد بن حنفیہ یا اور دوسرے بھائی کہ جو کربلا میں شہید ہوئے۔ لیکن ان سب میں سے حضرت عباسؑ کو امام حسین ؑکے ساتھ جس قدر الفت اور محبت تھی اتنی کسی اور کو نہیں تھی، اگر اس محبت کا ان کے دوسرے بھائیوں کی امام حسین ؑکے ساتھ موازنہ کیا جائے تو حضرت عباس ؑ کی محبت کا درجہ ان سے بہت بلند ہے اور اس کی وجہ سب کی معرفت ہے جس کو جتنی امام ؑ کی معرفت تھی وہ اتنا زیادہ امام ؑکے قریب تھا اور ان سے اتنی ہی زیادہ محبت اور الفت رکھتا تھا۔ جس طرح حضرت عباس ؑامام حسین ؑکے ساتھ محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے تھے تو امام حسین ؑ بھی اس کے بدلے میں بھی کے ساتھ اسی طرح محبت کرتے تھے۔ جیسا کہ ہم واقعہ کربلا میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ امام حسین ؑنے کسی اور صحابی کی شہید ہونے پر اتنے غم اور دکھ اور بے کسی کا اظہار نہیں کیا جتناحضرت عباس ؑ کی شہادت پر کیا۔ اور اس کی وجہ امام حسین ؑ کی ان کے ساتھ محبت تھی۔اور ظاہر ہے حضرت عباس ؑ تنہا وہ شہید ہیں کہ جنہوں نے شہادت کے وقت امام حسین ؑ کو اپنے سرہانے پہنچنے کے لئے بلایا۔
پرچم دار لشکر
جب امام حسین کے اصحاب کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سب کے سب بہادر اور مرد میدان تھے اور امام حسین ؑکے وفادار تھے لیکن اس کے باوجود امام حسین ؑنے پرچم حضرت عباسؑ کے ہاتھ میں تھمایا اور انہیں اپنے لشکر کا سپاہ سالار قرار دیا ۔ تاریخ اور مقاتل کی کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت امام حسینؑ جب حضرت عباس ؑ کی شہادت کے وقت ان کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا: الآن انکسر ظھری و قلت حیلتی؛ اب میری کمر ٹوٹ چکی ہے اور میں بے بس ہو گیا ہوں۔
اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ حضرت عباس ؑ ان کے لشکر سالار اور ان کا آخری سہارا تھے۔
شجاعت
شجاعت کا مطلب فقط میدان جنگ میں جا کر جنگ کرنا اور تلوار چلانا نہیں ہے بلکہ شجاعت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اپنے غصے پر قابو پانے کو بھی شجاعت کے مصادیق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اپنے غصے پر قابو پا کر اپنے مد مقابل کو معاف کر دینا بھی شجاعت کہلاتا ہے۔ رضائے الٰہی کے لئے میدان جنگ میں اپنی تلوار نیام میں ڈالنے والے کو بھی شجاع کہا جاتا ہے۔
حضرت عباس کی ایک نمایاں خصوصیت ان کی شجاعت ہے اور شجاعت بھی ایسی کہ جس کا دشمن نے بھی اعتراف کیا ہے۔ حضرت عباس ؑ نامور جنگجو اور شجاع بہادر تھے تھے انہوں نے جرآت اور شہامت کو اپنے والد حیدر کرار سے ورثے میں لیا وہ ہمیشہ میدان جنگ میں میں پرچم کو بلند رکھ بلند رکھتے اور تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر بجلی کی طرح سے لشکر اعداء پر پر حملہ کرتے تھے۔ جب انہوں نے دریائے فرات کے کنارے موجود دشمن کی فوج پر حملہ کیا تو چار ہزار کے لشکر کو راہ فرار دکھائی اور تقریباً ان میں سے اسی جفا کاروں کو جہنم واصل کیا۔

ولایت مداری
حضرت عباس کی صفات میں سے ایک صفت ولایت مداری وہ اپنے وقت کے امام کے حکم کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی یا سستی سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ پوری طاقت و توانائی کے ساتھ اس کو بجا لاتے تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی امامت کے زیر سایہ گزاری۔ ایک روایت میں راوی نقل کرتا ہے کہ میں حضرت امام جعفر صادق ؑکے ساتھ امام حسین ؑ کی زیارت کرنے کے بعد حضرت عباس ؑ کی زیارت کے لئے گیا، امام صادق ؑ حضرت عباس ؑ کی قبر مبارک پر گر گئے اور ان الفاظ کے ساتھ ان سے مخاطب ہوئے:
اے میرے چچا! میں گوہی دیتا ہوں آپ نے اپنے وقت کے امام کے سامنے سر تسلیم خم کیا، ان کی تصدیق اور تائید کی، ان کے ساتھ وفاداری کی اور ان کے خیرخواہ و جانثار تھے۔ آپ نے اپنے بھائی کے لئے جان دینے سے دریغ نہیں کیا اور ان پر اپنی جان فدا کردی۔
وفاداری
شب عاشور جب امام حسین نے اپنے تمام اصحاب سے بیعت کا حق اٹھایا اور چراغ بجھا کر ان سے فرمایا کہ رات کی تاریکی ہے جو کوئی مجھے چھوڑ کر اپنے وطن جانا چاہے چلا جائے۔ اس وقت پہلی شخصیت جس نے وفاداری اور جان نثاری کا اعلان کیا وہ حضرت عباس ؑتھے آپ نے عرض کیا: اے میرے امام! میں کیسے آپ کو چھوڑ کر چلا جاؤں؟ کیا آپ کے بغیر زندہ رہوں؟ خدا ہمیں ایسا کرنے کی طاقت نہ دے کہ ہم آپ کو دشمنوں کے سامنے تنہا چھوڑ کر چلے جائیں۔ ہم آپ کے ساتھ رہیں گے اور آخری دم تک آپ کی حمایت اور نصرت کریں گے۔
جناب زینب کبریٰ فرماتی ہیں: حضرت عباس ؑ اپنے بھائیوں کو فرما رہے تھے۔ کل جنگ کا ہونا حتمی ہے آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا ہماری بھی وہی رائے ہے جو آپ کی رائے ہے۔ اس وقت حضرت عباس ؑنے فرمایا: اگر ایسا ہے تو میری ایک وصیت ہے کہ ہم جب تک زندہ ہیں فرزند زہرا امام حسین ؑ کو کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے۔ کل اپنی جان قربان کرنا اور اپنے خون کے آخری قطرے تک امام ؑ کا دفاع کرنا۔ اگلے دن جب حضرت عباس ؑنے امام حسین ؑکے اصحاب کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا تو اپنے بھائیوں سے فرمایا :آگے بڑھو تاکہ میں دیکھ لو کے آپ نے خدا اور اس کے رسول ؐکی خوشنودی کےحصول کے لیے لئے فداکاری کی ہے یہ پھر ان کے تینوں بھائی میدان جنگ میں گئے اور شہید ہوئے اور حضرت عباس ؑان کی شہادت دیکھ رہے تھے۔
فداکاری
حضرت عباس نے روز عاشور فداکاری کی ایک مثال قائم کی آپ نے اپنے زندگی میں امام حسین ؑاور اہل بیت ﷩ کو کوئی صدمہ نہیں پہنچنے دیا۔ حضرت عباس ؑ دین کے دفاع اور اپنے امام وقت کی حمایت و نصرت کے لئے اس طرح پر عزم تھے کہ ان کے پاس جو کچھ بھی اسے قربان کرنے کے حاضر تھے۔ اور بالآخر جب خیمہ گاہ کی طرف بچوں کے لئے پانی لا رہے تھے تو دشمنان خدا کے ہاتھوں شہید ہوئے پہلے آپ کا دایاں بازو قلم ہوا تو آپ نے فرمایا: خدا کی قسم اگر تم نے میرا دایاں ہاتھ بدن سے جدا کیا ہے لیکن میں اپنے دین کا دفاع جاری رکھو گا اور اپنے امام ؑ کی حمایت کروں گا جو صاحب یقین اور رسول امینؐ کے نواسے ہیں۔
پھر کربلا کے میدان میں دیکھا گیا کہ پہلے ان کا دایاں بازو قلم ہوا پھر بایاں بازو بھی قلم ہو گیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے خیام حسینی تک پانی پہنچانے کی کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ ایک تیر مشکیزہ میں لگا اور سارا پانی بہہ گیا۔
اخوت و برادری کا عملی ثبوت
حضرت عباس کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ان کی اخوت و برادری ہے جو کہ ان کے تمام فضائل میں سے ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اس کو ان کے زیارت نامہ میں علیحدہ طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت عباس ؑ کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں: السَّلامُ عَلَی أبى الفَضلِ العَبّاسِ بنِ أمیرِ المُؤمِنینَ، المُواسى أخاہ بِنَفسِہ؛ جس کا معنا و مفہوم یہ ہے کہ آپ اچھے بھائی تھے اور آپ نے اخوت و برادری کا حق ادا کر دیا۔
جس طرح حضرت ہارون اور حضرت موسی ؑدو بھائی تھے اور ان کی اخوت و برادری بے نظیر تھی اور اس کے بعد نبی مکرم اسلام ﷺ اور حضرت ؑ اخوت و برادری کا ایک اسوہ کامل تھے اور پھر امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی برادری اور اخوت کی ایک مثال تھی اور اگر اخوت اور برادری کی چوتھی مثال دینا چاہیں تو وہ امام حسین ؑاور حضرت عباس ؑ کی ہے۔
رشک شہداء
قیامت کے دن شہداء حضرت عباس کی شہادت پر رشک کریں گے اور ان جیسا مقام حاصل کرنے کی حسرت کریں گے۔
امام سجاد سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں:و ان العباس عنداللہ تبارک و تعالی منزلۃیغبطہ علیہا جمیع الشہداء یوم القیامۃ؛ حضرت عباس ؑ کا اللہ تبارک و تعالی کے بزدیک وہ مقام و مرتبہ ہے کہ قیامت کے دن تمام شہداء اس پر رشک کریں گے۔
پیغمبر اسلام ﷺ مرتبہ شہادت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فَوْقَ كُلِّ ذِی بِرٍّ بِرٌّ حَتَّى يُقْتَلَ الرَّجُلُ فِی سَبِيلِ اللَّہ فَإِذَا قُتِلَ فِی سَبِيلِ اللَّہ فَلَيْسَ فَوْقَہ بِرٌّ۔۔۔؛ ہر نیکی سے بالاتر ایک اور نیکی ہے یہاں تک کہ انسان راہ خدا میں شہید ہو جائے اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے سے بڑھ کر کوئی اور نیکی نہیں۔
ان دو روایات کے مطابق اگر شہادت بالاترین مرتبہ اور سب سے بڑی فضیلت شمار ہوتی ہے لیکن شہداء کے مراتب برابر نہیں ہیں اور حضرت عباس ؑ ان مراتب میں سب سے بالا ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔
حضرت عباس ابن علی ابن ابی طالب کے بحر ِفضائل و کمالات سے چند فضائل بیان کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے خداوند عال بندہ حقیر کی اس عدنی سی سعی کو قبول فرمائے۔ اس ناچیز سے عمل کو سرکار باوفا حضرت عباس علمدار ؑ کی ذات مقدس کو ہدیہ کرتا ہوں۔ ذات احدیت اسے میرے لئے توشہء آخرت قرار دے۔ خداوند ذوالجلال ہمیں بھی حضرت عباس ؑ کی طرح اپنے وقت کے امام کی معرفت نصیب فرمائے اور ان کا بہترین ساتھی اور مددگار قرار دے۔

آمین !یا رب العالمین۔