سیاست ابو سفیانی

📌 سیاست ابوسفیانی

◀️ ج بھی پیسہ ملے ہاں

ابوسفیان سقیفه کے آغاز میں خلافت حضرت ابوبکر کے مخالف تھے اور حضرت علی سے کہا میں آپ کی بیعت کرتا ہوں آپ ہاتھ بڑھائیں ، تو حضرت علی نے اسے فرمایا:
 « قسم باخدا!  تیری اس بیعت کے پیچھے خطرناک مقاصد ہیں تو فتنہ چاہتا ہے اسلام دشمنی ابھی تک تیرے دل سے نکلی نہیں ، ہمیں آپ کی بیعت کی ضرورت نہیں .»  
 شیخ مفید لکھتے ہیں
ابوسفیان، چونکہ حضرت علی کے اس جواب سے نا امید ہو گیا تو مسجد کی طرف چل دیا وہاں  دیکھا کہ بنی امیہ مسجد میں جمع ہیں ؛ تو انہیں بھی حضرت ابوبکر کے بارے میں بھڑکانے لگا ؛ لیکن انہوں نے بھی اسکی ایک نہ سنی 
 پھر تھوڑی دیر بعد ابو سفیان رشوت اور ولید بن عقبہ کی مدد سے خلافت حضرت ابوبکر کی حمایت میں انصار کے سامنے جا کھڑا ہوا اور حضرت ابوبکر کو رسول اللہ (ص) کا حقیقی جانشین ثابت کر دیا ۔

📚طبري، تاريخ الأمم و الملوك‏، ج3، ص209.
📚شیخ مفید، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج1، ص190.
📚جوهری بصری، السقیفه و فدک، ص37؛ 
📚ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج2، ص34.
📚زبیربن بکّار، الاخبار الموفقیات، ص583.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک عورت کا دوسری عورت کو جماعت کرانا

سوال: کیا ایک عورت دوسری عورت کو جماعت کرا سکتی ہے؟
جواب کے لئے درج ذیل روایات کی طرف توجہ کریں

1⃣  عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّه قَالَ: 
تَؤُمُّ الْمَرْأَةُ النِّسَاءَ فِي الصَّلَاةِ وَ تَقُومُ وَسَطاً مِنْهُنَّ وَ يَقُمْنَ عَنْ يَمِينِهَا وَ شِمَالِهَا تَؤُمُّهُنَّ فِي النَّافِلَةِ وَ لَا تَؤُمُّهُنَّ فِي الْمَكْتُوبَةِ.

🔸️امام صادق علیه السلام نے فرمایا: عورت دوسری عورتوں کو جماعت کرا سکتی ہے،  وه ان کے درمیان میں کھڑی ہوگی اور اس کی اقتداء میں نماز پڑھنے والی خواتین اس کے دائیں اور بائیں جانب کھڑی ہو جائیں گی اور نافلہ نمازوں میں امامت کرے گی یعنی جن کا جماعت کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے جیسے یومیہ نمازوں کے فرض۔ اور فریضہ میں امامت نہیں کرے گی یعنی وہ نمازیں جن کی امامت واجب ہے جیسے نماز جمعہ و عيدين.
📚 تهذيب الاحکام، ج3، ص268.

2⃣ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّه فِي الرَّجُلِ يَؤُمُّ الْمَرْأَةَ قَالَ نَعَمْ تَكُونُ خَلْفَهُ وَ عَنِ الْمَرْأَةِ تَؤُمُّ النِّسَاءَ قَالَ نَعَمْ وَ تَقُومُ وَسَطاً بَيْنَهُنَّ وَ لَا تَتَقَدَّمُهُنَ
🔹امام صادق علیه السلام نے ایک ایسے مرد کہ کے جو ایک عورت کو جماعت کراتا ہےکے بارے میں (سوال کے جواب) فرمایا:
جی ہاں! کرا سکتا ہے۔ جب مرد امام جماعت ہو تو عورت اس کے پیچھے کھڑی ہو گی لیکن جب عورت دوسری عورتوں کو جماعت کرائے گی تو ان کے درمیان میں کھڑی ہو گی ان سے آگے بڑھ کر کھڑی نہیں ہو گی۔
📚 تهذيب الاحکام،  ج3، ص31.

3⃣ عَنْ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَخِيهِ قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْمَرْأَةِ تَؤُمُّ النِّسَاءَ مَا حَدُّ رفع صَوْتِهَا بِالْقِرَاءَةِ وَ التَّكْبِيرِ فَقَالَ قَدْرُ مَا تَسْمَعُ.
🔸️علي بن جعفر نے امام  موسیٰ کاظم علیہ السّلام سے نقل کیا ہے: میں نے امام موسی بن جعفر علیه السّلام سے سوال کیا کہ ایک ایسی عورت جو کہ دوسری عورتوں کو جماعت کراتی ہے سورتوں کی قرائت اور تکبیر کہتے ہوئے اس آواز کس قدر بلند ہونی چاہیے۔ تو امام علیہ السّلام نے فرمایا: اتنی بلند ہو کہ وہ خود سن لے۔
📚 تهذيب الاحکام، ج3، ص278.

4⃣ عَنْ سَمَاعَةَ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ:  سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّه عَنِ الْمَرْأَةِ تَؤُمُّ النِّسَاءَ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ.
🔸️سماعہ بن مہران سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق علیه السّلام سے ایک ایسی عورت کے بارے میں سوال کیا کہ جو دوسری عورتوں کو جماعت کراتی ہے تو امام علیہ السّلام نے فرمایا: کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 
📚 تہذيب الاحکام، ج3، ص31.

5⃣ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ زِيَادٍ الصَّيْقَلِ قَالَ:
 سُئِلَ أَبُو عَبْدِ اللَّه كَيْفَ تُصَلِّي النِّسَاءُ عَلَى الْجَنَائِزِ إِذَا لَمْ يَكُنْ مَعَهُنَّ رَجُلٌ فَقَالَ يَقُمْنَ جَمِيعاً فِي صَفٍّ وَاحِدٍ وَ لَا تَتَقَدَّمُهُنَّ امْرَأَةٌ قِيلَ فَفِي صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ أَ يَؤُمُّ بَعْضُهُنَّ بَعْضاً فَقَالَ: نَعَم

🔸️ حسن بن زیاد صیقل سے روایت ہے کہ امام صادق علیه السّلام سے پوچھا گیا کہ جب کوئی مرد موجود نہ ہو تو عورتیں ایک میت پر نماز جنازہ کیسے پڑھیں؟ امام علیہ السّلام نے فرمایا: تمام ایک صف میں کھڑی ہو جائیں گی ان میں سے کوئی بھی مقدم نہیں ہوگی۔ پھر پوچھا گیا کہ آیا فریضہ نماز میں ایک عورت دوسری عورت کو جماعت کرا سکتی ہے؟ فرمایا: جی ہاں!.
📚من لا یحضرہ الفقیہ، ج1، ص166.

6⃣عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَر قَالَ: إِذَا لَمْ يَحْضُرِ الرَّجُلُ [الميت] تَقَدَّمَتِ امْرَأَةٌ [المرأة] وَسَطَهُنَّ وَ قَامَ النِّسَاءُ عَنْ يَمِينِهَا وَ شِمَالِهَا وَ هِيَ وَسَطَهُنَّ تُكَبِّرُ حَتَّى تَفْرُغَ مِنَ الصَّلَاةِ
🔸️ جابر نے امام باقر علیه السّلام سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب میت کے پاس کوئی مرد موجود نہ ہو تو وہاں پر موجود عورتوں میں سے ایک عورت آگے بڑھے گی اور دوسری عورتیں اس کے دائیں اور بائیں جانب کھڑی ہوں گی وہ ان کے درمیان سے تکبیر کہے گی یہاں تک کہ نماز مکمل ہو جائے۔ 
📚 الكافی، ج3، ص179.

‼️اکثر اہل سنّت کی نگاہ میں عورت کا فریضہ نماز میں دوسری عورتوں کو جماعت کرانا حرام یا مکروہ سمجھا جاتا ہے۔ اور وہ چند روایات جو ظاہری طور پر  فرض نمازوں میں خواتین کی امامت کو ممنوع قرار دیتی ہیں وہ اہل سنّت کی اکثریت سے متفق ہیں۔
️ 🔸 موجودہ روایات میں عورتوں کے لئے  فقط عورتوں کی امامت جائز ہے اور عورت کو مرد کی امامت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
🔸 مذکورہ بالا اور دیگر روایات میں نماز جمعہ اور عید کی نماز کہ جن کی جماعت فرض ہے ان میں عورت کو امامت کی اجازت نہیں ہے۔
🔸 جیسا کہ مذکورہ روایتوں میں ہے کہ نماز جماعت کے لئے تمام عورتیں ایک صف میں کھڑی ہوں گی  ان کی جماعت کی امام آگے نہیں بڑھتی بلکہ اسی صف میں ان کے درمیان کھڑی ہوتی ہے اور اس کی اقتداء میں نماز پڑھنے والی خواتین اس کے دائیں اور بائیں طرف کھڑی ہوتی ہیں۔
🔸 ظاہر ہے کہ اہل بیت (ع) نے جماعت کے امام کے لئے جو شرائط لازم قرار دی ہیں وہ اس عورت کے لئے بھی ضروری ہیں جو عورتوں کی امامت کرنا چاہتی ہو۔