بسم اللہ الرحمن الرحیم

بدزبانی اورگالی گلوچ

﴿ قرآن و حدیث کی روشنی میں ﴾

بد زبانی اور گالی گلوچ باعث بنتا ہے کہ مہذب لوگ آپ سے دور ہو جائیں اور آپ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا پسند نہ کریں اور غیر مہذب افراد آپ کے گرد جمع ہو جائیں اور آپ کی تباہی کا باعث بنیں ، امام علی ؑ فرماتے ہیں:

بدزبانی اور فحش گوئی سے پرہیز کریں کیونکہ اس کی وجہ سے نامعقول اور بدتمیز افراد تمہارے گرد جمع ہو جائیں گے اور اچھے لوگ آپ سے دور بھاگیں گے۔

آج ہمارا معاشرہ جن اخلاقی مشکلات کا شکار ہے ان میں سے ایک اہم مشکل یہی بد زبانی ہے زبان کے زخم تلوار کے زخم سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں لہٰذا مومن کو چاہیے کہ وہ ایسے الفاظ اور فقرے استعمال کرنے سے گریز کرے جو گالی شمار ہوتے ہوں ۔

بہت سارے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ زبان کو قابو میں نہیں رکھ پاتے جبکہ اعضاء و جوارح میں زبان ہی ایک ایسا عضو ہے جو بہت زیادہ روکے رکھنے کا محتاج ہے ، جس طرح انسان کے اعضاء وجوارح سے سرزد ہونے والے اعمال و افعال قابل مواخذہ ہیں اسی طرح زبان سے نکلنے والے الفاظ و کلمات اور اقوال بھی قابل مواخذہ ہیں، عنداللہ انکے بارے میں بازپرس ہوگی، قرآن و سنت کے بیشمار نصوص اس پر شاہد ہیں کہ انسان اپنی زبان سے جو بات بھی نکالتا ہے اسکا معاملہ بڑا سنگین ہے، یہ الفاظ و اقوال خیر و بھلائی پر مشتمل ہوں تو انسان کبھی وہم و گمان سے بڑھ کر اجروثواب کا مستحق بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پالیتا ہے اور اگر یہ باتیں شروفساد کے حوالے سے گناہ پر مشتمل ہوں تو انسان تصور سے بڑھ کر عذاب الہٰی کا مستحق بن جاتا ہے اس لئے زبان کو قابو میں رکھنا اورکچھ بولنے سے پہلے اسکے انجام کے بارے میں ہزار بار سوچنا بہت ضروری ہے۔

زبان سے نکلی ہوئی بات واپس نہیں ہوتی ہر بات نامہ اعمال میں درج ہورہی ہے، بروز محشر انسان اپنی باتوں پر جوابدہ ہوگا۔

بد زبانی کیا ہے ؟

بد زبانی اور گالی گلوچ سے مراد فقط گندی گالیاں ہی نہیں ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات میں ہر وہ بات اس میں داخل ہے جو دوسرے کی توہین اور تحقیر یا اس کی دل آزاری کا سبب بنے ۔

بد زبانی کے اسباب

الف)غصہ : جب انسان کو غصہ آتا ہے تو وہ غصے میں حواس کھو بیٹھتا ہے اور پھر جو منہ میں آتا ہے وہی کہتا ہے ، گالیاں دیتا ہے اسی لیے کہتے ہیں کہ غصہ حرام ہے ۔

ب) عادت: جب کوئی شخص بدمعاش اور گھٹیا لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اور ان سے دوستی کرتا ہے تو آہستہ آہستہ ان کی روح، مزاج اور اظہار اس پر اثر انداز ہوتے ہیں ، چونکہ ان کی عام بول چال ایک دوسرے کے بارے میں فحاشی سے بھری ہوتی ہے، اس لیے وہ اس میں بھی سرایت کر جاتی ہے اور آہستہ آہستہ عادت بن جاتی ہے ۔

اس آفت کا علاج یہ ہے کہ :

1 ۔ انسان ایسی چیزوں سے اجتناب کرے جس کی وجہ سے کسی مومن پر غصہ کرنا پڑے

2 ۔ اپنے اعصاب پر کنٹرول رکھیں اور غصہ کو پی جائیں

3 ۔ اہل فتنہ و فساد سے پرہیز کریں تاکہ اپنی زبان کو گالی گلوچ سے محفوظ رکھ سکیں

قرآن میں بد زبانی کا بیان

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمۡ ۪ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمۡ مَّرۡجِعُہُمۡ فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۔

گالی مت دو ان کو جن کو یہ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں مبادا وہ عداوت اور نادانی میں اللہ کو برا کہنے لگیں، اس طرح ہم نے ہر قوم کے لیے ان کے اپنے کردار کو دیدہ زیب بنایا ہے، پھر انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پس وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔(انعام ، 108)

لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًا عَلِیۡمًا۔

اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی (کسی کی) برملا برائی کرے، مگر یہ کہ مظلوم واقع ہوا ہو اور اللہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔ (نساء، 148)

احادیث میں بد زبانی کا بیان

پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا :

إِنَّ الْفُحْشَ لَوْ کَانَ مِثَالًا لَکَانَ مِثَالَ سَوْء۔

اگر گالی گلوچ کی کوئی شکل ہوتی تو انتہائی بد صورت ہوتی ۔

پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا :

إِنَّ مِنْ شَرِّ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ تُکْرَهُ مُجَالَسَتُهُ لِفُحْشِه۔

خدا کے بدترین بندوں میں سے ہے وہ شخص جس کی بد زبانی کی وجہ سے لوگ اس سے دور بھاگیں ۔

پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا :

إِیَّاکُمْ وَ الْفُحْشَ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَا یُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ۔

بد زبانی سے پرہیز کریں کیونکہ خداوند متعال بدزبانی اور گالی گلوچ کو پسند نہیں کرتا ۔

پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ یُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِیءَ وَ السَّائِلَ الْمُلْحِف۔

گالی گلوچ کرنے والا اور پیشہ ور بھکاری خدا کا دشمن ہے۔

پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا :

سِبَابُ الْمُؤْمِنِ فُسُوقٌ وَ قِتَالُهُ کُفْرٌ وَ أَکْلُ لَحْمِهِ مَعْصِیَةٌ وَ حُرْمَةُ مَالِهِ کَحُرْمَةِ دَمِه ۔

مومن کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے اور اس کی غیبت کرنا گناہ ہے اور مومن کا مال اس کی جان کی طرح محترم ہے

پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا :

أَرْبَعَةٌ یَزِیدُ عَذَابُهُمْ عَلَی عَذَابِ أَهْلِ النَّارِ إِلَی أَنْ قَالَ وَرَجُلٌ یَسْتَلِذُّ الرَّفَثَ وَالْفُحْشَ فَیَسِیلُ مِنْ فِیهِ قَیْحٌ وَدَمٌ ۔

چار قسم کے لوگوں کی وجہ سے جہنمیوں کا عذاب شدید ہو جائے گا ، پہلا وہ جو بد زبان ہے

پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا :

إِنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِی تَمِیمٍ أَتَى النَّبِیَّ صلّی الله علیه وآله فَقَالَ أَوْصِنِی فَکَانَ فِیمَا أَوْصَاهُ أَنْ قَالَ لَا تَسُبُّوا النَّاسَ فَتَکْتَسِبُوا الْعَدَاوَةَ بَیْنَهُم۔

بنی تمیم کا ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی مجھے کوئی وصیت فرمائیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو گالی نہ دو تاکہ تمہارے درمیان عداوت و دشمنی نہ ہو جائے ۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا :

عَنْ أَبِی الْحَسَنِ مُوسَى علیه السلام فِی رَجُلَیْنِ یَتَسَابَّانِ فَقَالَ: الْبَادِی مِنْهُمَا أَظْلَمُ وَ وِزْرُهُ وَ وِزْرُ صَاحِبِهِ عَلَیْهِ مَا لَمْ یَتَعَدَّ الْمَظْلُوم۔

گالیاں دینے میں پہل کرنے والا زیادہ ظالم ہے وہ اپنا اور اپنے ساتھی کے گناہ کا بوجھ اٹھانے والا ہے بشرطیکہ جس پر ظلم ہوا وہ زیادتی نہ کرے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :

إِنَّ أَبْغَضَ خَلْقِ اللَّهِ عَبْدٌ اتَّقَى النَّاسُ لِسَانَہ۔

خدا کی قابل نفرت مخلوق وہ بندہ ہے جس کی زبان سے لوگ ڈریں ۔

امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ یُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ۔

بد زبان اور گالی دینے والا خدا کا دشمن ہے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :

الْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ وَ الْجَفَاءُ فِی النَّار۔

بد زبانی ظلم ہے اور ظلم جہنم میں ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :

إِنَّ الْفُحْشَ وَ الْبَذَاءَ وَ السَّلَاطَةَ مِنَ النِّفَاق۔

لعن طعن، بد زبانی اور گالی گلوچ منافقت کی نشانیاں ہیں۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا :

و قال : ... لَیْسَ مِنْ أَخْلَاقِ الْمُؤْمِنِینَ الْخَنَا وَ لَا الْفُحْشُ وَ لَا الْأَمْرُ بِه۔

بد زبانی ، گالی گلوچ اور ان کا حکم دینا مومن کا اخلاق نہیں ہے

امام علی علیہ السلام نے فرمایا :

ما أفحَشَ کَرِیمٌ قَطُّ۔

کریم انسان کبھی بھی غلط کام اور بد زبانی نہیں کرتا ۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا :

أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ علیه السلام عِنْدَ وَفَاتِهِ:کُنْ لِلَّهِ یَا بُنَیَّ عَامِلًا وَ عَنِ الْخَنَاءِ زَجُوراً۔

اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی اے بیٹے : جو بھی کام کرو اللہ کیلئے کرو اور سخت کلامی سے بچو ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :

ثَلَاثَةٌ لَا یَنْظُرُ اللَّهُ إِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ لَا یُزَکِّیهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ: الدَّیُّوثُ مِنَ الرِّجَالِ، وَ الْفَاحِشُ الْمُتَفَحِّشُ، وَ الَّذِی یَسْأَلُ النَّاسَ وَ فِی یَدِهِ ظَهْرُ غِنًى۔

تین لوگوں پر اللہ قیامت کے دن نظر کرم نہیں کرے گا اور انہیں دوزخ میں ڈالے گا ، بے غیرت مرد ، بے شرم بد زبان اور پیشہ ور بھکاری ۔

امام موسی کاظم علیہ اسلام نے فرمایا :

الْحَیَاءُ مِنَ الْإِیمَانِ وَ الْإِیمَانُ فِی الْجَنَّةِ، وَ الْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَا وَ الْجَفَا فِی النَّارِ ۔

حیا ء ایمان میں سے ہے اور ایمان جنت میں ہے اور بد زبانی بے ادبی ہے اور بے ادب جہنم میں ہے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :

ثَلَاثٌ إِذَا کُنَّ فِی الرَّجُلِ فَلَا تَجْرَحُ أَنْ تَقُولَ إِنَّهُ فِی جَهَنَّمَ الْجَفَاءُ وَ الْجُبْنُ وَ الْبُخْلُ وَ ثَلَاثٌ إِذَا کُنَّ فِی الْمَرْأَةِ فَلَا تَجْرَحُ أَنْ تَقُولَ إِنَّهَا فِی جَهَنَّمَ الْبَذَاءُ وَ الْخُیَلَاءُ وَ الْفَخرُ

جس مرد میں تین خصلتیں ہوں تو اگر اسے جہنمی بھی کہو تو مسئلہ نہیں غصہ ، بزدلى و بخل، اور تین خصلتیں جس عورت میں ہوں تو مسئلہ نہیں کہ اسے جہنمی کہا جائے بد زبانی ، تکبر ، تعصب ۔

امام سجاد علیه السلام نے فرمایا:

وَ الذُّنُوبُ الَّتِی تَرُدُّ الدُّعَاءَ ...اسْتِعْمَالُ الْبَذَاءِ وَ الْفُحْشُ فِی الْقَوْلِ۔

بد زبانی اور گالی گلوچ ان گناہوں میں سے ہیں جن کی وجہ سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :

کَانَ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام صَدِیقٌ لَا یَکَادُ یُفَارِقُهُ إِذَا ذَهَبَ مَکَاناً فَبَیْنَمَا هُوَ یَمْشِی مَعَهُ فِی الْحَذَّاءِینَ وَ مَعَهُ غُلَامٌ لَهُ سِنْدِیٌّ یَمْشِی خَلْفَهُمَا إِذَا الْتَفَتَ الرَّجُلُ یُرِیدُ غُلَامَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمْ یَرَهُ فَلَمَّا نَظَرَ فِی الرَّابِعَةِ قَالَ یَا ابْنَ الْفَاعِلَةِ أَیْنَ کُنْتَ؟ قَالَ فَرَفَعَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام یَدَهُ فَصَکَّ بِهَا جَبْهَةَ نَفْسِهِ ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ تَقْذِفُ أُمَّهُ! قَدْ کُنْتُ أَرَى أَنَّ لَکَ وَرَعاً فَإِذَا لَیْسَ لَکَ وَرَعٌ فَقَالَ: جُعِلْتُ فِدَاکَ إِنَّ أُمَّهُ سِنْدِیَّةٌ مُشْرِکَةٌ فَقَالَ: أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ لِکُلِّ أُمَّةٍ نِکَاحاً تَنَحَّ عَنِّی قَالَ فَمَا رَأَیْتُهُ یَمْشِی مَعَهُ حَتَّى فَرَّقَ الْمَوْتُ بَیْنَهُمَا . وَ فِی رِوَایَةٍ أُخْرَى: إِنَّ لِکُلِّ أُمَّةٍ نِکَاحاً یَحْتَجِزُونَ بِهِ مِنَ الزِّنَا ۔

عمرو بن نعمان جعفى کہتا ہے امام ؑ کا ایک ساتھی تھا امام ؑ جہاں بھی جاتے وہ ساتھ ہوتا ایک دن امام ؑ کے ساتھ بازار میں جا رہا تھا اور اس کا سندھی غلام بھی ساتھ تھا اچانک پیچھے دیکھتا ہے تو وہ غلام بہت پیچھے راہ گیا تھا کچھ دیر بعد جب غلام قریب آیا تو کہتا ہے اے حرام زادہ کہاں راہ گئے تھے ؟ امام ؑ نے جب یہ سنا تو اپنا ہاتھاپنی پیشانی پر مارا اور فرمایا :

سبحان اللہ اس کی ماں پر زنا کی تہمت لگا دی ؟ میرا خیال تھا کہ تو غیرت مند اور نیک ہے لیکن اب دیکھ رہا ہوں کہ تو ایسا نہیں ہے ؟

عرض کرتا ہے قربان جاؤں اس کی ماں اہل سندھ سے ہے اور مشرک ہے

امام نے فرمایا:

تم نہیں جانتے کہ ہر ملت میں شادی ہوتی ہے ، مجھ سے دور ہو جاؤ

عمرو بن نعمان (راوى حدیث) کہتا ہے، اس کے بعد ہم نے اسے امام ؑ کے ساتھ کبھی نہیں دیکھا ۔

نتیجه

یہ جاننا ضروری ہے کہ مومن کی حرمت کا ملاک انسانی وقار کا تحفظ ہے لہٰذا اگر کوئی شخص ایسے اعمال کا ارتکاب کرتا ہے جو انسانی عظمت اور اعلیٰ اقدار کے منافی ہوں تو اس کی عزت باقی نہیں رہتی اور اس کی توہین کرنا اور اس پر لعنت بھیجنا جائز ہو جاتا ہے جیسے کھلم کھلا کفر کرنے والا ، بدکاری اور ظلم و زیادتی کرنے والا، دین میں بدعت داخل کرنے والا، اور ہر وہ شخص جس میں کوئی شرم و حیا نہ ہو، چنانچہ پیغمبر گرامی اسلام ﷺ فرماتے ہیں :

میرے بعد جب بھی بدعتی لوگوں سے ملو تو ان سے برائت کرو ۔

آخر میں حضرت لقمان حکیم کی ایک حکایت پر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں ، ایک بادشاہ نے حضرت لقمان حکیم سے کہا کہ ایک بکری ذبح کرواور اس میں جو سب سے اچھی چیز ہو وہ پیش کرو۔ حضرت لقمان حکیم نے زبان اور دل لا کر پیش کر دیا، اس کے بعد بادشاہ نے کہا کہ جو سب سے بری چیز ہو وہ پیش کی جائے، تو حضرت لقمان حکیم نے پھر زبان اور دل پیش کر دیا، بادشاہ نے اس کی وجہ دریافت کی تو لقمان حکیم نے جواب دیا اگریہی زبان اور دل صحیح استعمال کیے جائیں تو یہ انسانی جسم کے سب سے بہترین اعضا ہیں اوراگر ان کا استعمال غلط ہو تو یہی انسانی جسم کے سب سے بدترین اعضا ہیں ۔