صدر اسلام میں معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے رسول اللہ ﷺ کے سیاسی اقدامات
صدر اسلام میں معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے رسول اللہ ﷺ کے سیاسی اقدامات
تحقیق: ممتاز حسین
خلاصہ تحقیق
پیغمبرِ اسلام ﷺ ، اللّہ تعالیٰ کا نمائندہ اور اسلامی معاشرے کا رہبر ہونے کے ناطے لوگوں کی خوشحالی اور اخروی کامیابی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے۔ جس طرح لوگوں کوعبادتِ خدا اور اخلاقِ حسنہ کو اپنانے کی ترغیب دے کر اخروی کامیابی کی راہ پر گامزن کیا اسی طرح لوگوں کی فلاح و بہبود کے کے لئے بھی بہت موثر اقدامات کیے۔ آپ ﷺ نےسب سے پہلے عبادتِ خد اکی انجام دہی اور ور لوگوں کے درمیان باہمی ارتباط قائم کرنے کے لئے مسجد بنائی اور اسلامی تہذیب وتمدن کو غلبہ دینے کے لئے اسلامی حکومت قائم کی اور پھر اسلامی حکومت کی تقویت،امن و امان کے قیام اور مسلمانوں کی حفاظت کی خاطر سپاہِ اسلام تشکیل دی۔ رسولِ خدا ﷺ نےقانون سازی اور حقو ق کے تعیّن کے ذریعے اخلاقی جرائم کا سدِّباب کیا اور محبت ودوستی، پیمان اخوت اور صلح کی ترغیب کے ساتھ معاشرے میں امن و امان قائم کیا۔ آپ ﷺ نے اسلامی حکومت کہ قدرت مند بنایا، زراعت اور تجارت کو فروغ دے کر مسلمانوں کی معاشی حالت کو بہتر کیا اور مفاداتِ عامہ، تعلیم و تربیت ، حفظانِ صحت اور لوگوں کو کاروبار کی فراہمی کے لئے بھی انتہائی مفید و موثر اقامات کئے۔
کلیدی الفاظ: پیغمبر، اسلام، اقدامات سیاسی، فلاح وبہبود، اسلامی معاشرہ۔
مقدمہ
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین و خاتم النبیین ابی القاسم محمد، وعلی آلہ الطیبین الطایرین المعصومین لاسیما بقیۃ اللہ فی الارضین روحی لہ الفداء
پیغمبر اسلام ﷺ کو ایک ایسے معاشرے کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا گیا تھا کہ جو جنگ و جدال قتل و کشتار اور مختلف قسم کے خرافات اور معاشرتی اور اخلاقی پستیوں میں گھرا ہوا تھا. معاشرے میں معاشی وسائل کا فقدان تھا، مناسب رہائش میسر نہ تھی اور ہجرت و سفر کے لئے وسائل مہیا نہ تھے. یہ تمام امور معاشرے کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھے.
پیغمبر اسلام ﷺ نے ان تمام مسائل کے حل کے لیے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھ کر اسلامی تہذیب و تمدن کو رواج دیا اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا.
آپ ﷺ نے اپنی رسالت کے 23 سالوں میں اللہ تعالی کے نجات بخش احکام کی تبلیغ کی. ہر وہ چیز جو انسان کی خوش بختی اور اسے کمال تک پہنچانے کے لئے مؤثر اور لازم تھی اس کو بیان کیا اور جو چیزیں انسان کی سعادت مندی میں رکاوٹ تھیں خواہ مادی حوالے سے ہوں یا معنوی لحاظ سے ہوں ان کو بھی واضح طور پر بیان کیا۔ انسان کو کمال تک پہنچانے کے لیے نجات کا راستہ دکھایا اور تباہی سے بچنے کے لیے راہ حل تعلیم فرمایا.
آپ ﷺنے اسلام کے نام سے موسوم ایک ایسا نظام متعارف کروایا جو عدل و انصاف، آزادی و خود مختاری، پاکیزگی اور طہارت، خوبصورتی و کمال، محبت اور دوستی، رأفت و رحمت، صداقت و امانت، استقلال و استقامت، شہامت و قدرت، اور ایثار، عشق اور شہادت جیسے فصائل کا سر چشمہ ہے. اور شرک، ہوس پرستی، استعمار، سرمایہ کاری، ذخیرہ اندوزی، ظلم، جہل اور تمام برائیوں کے خلاف قیام کی ابتدا بھی دین اسلام نے ہی کی ہے.معاشرے کی ترقی میں انسانی کردار کو اجاگر کرنا
نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے قرآنی تعلیمات کے ذریعے لوگوں پر معاشرے کی ترقی میں ان کے کردار کو اجاگر کیا. اور ان کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ معاشرے کی ترقی اور تنزلی کا اصلی عامل انسان ہے. انسان کا مقصد اور ارادہ ہی ہے کہ جو فردی یا اجتماعی تغییر و تبدل کا باعث بنتا ہے. اس نظریے کے مطابق انسان کے اوپر ہے اللّٰہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی طرف سے کچھ ذمہ داریاں ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے: «كُلُّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡ رَهِینَةٌ؛ ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے»([1])
تمدن سازی کے لیے معاشرے کو ذمہ دار اور وظیفہ شناس افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو مصمم ارادے اور عمدہ فکر کے ساتھ معاشرے کی ترقی کے لیے سرگرم عمل رہیں اور اپنے عقائد اور تفکر کو معاشرتی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ کریں اور معاشرے میں تبدیلی اور ثقافت کو وسعت دینے کے درپے ہوں.
دور جاہلیت میں ایک فرد کا عمل پورے قبیلے کا عمل تصور کیا جاتا تھا مثلا اگر کسی آدمی نے کوئی قتل یا کوئی جنایت کی ہے تو بجائے اس کے کہ فقط اس مجرم شخص کو سزا دی جاتی، پورے قبیلے کو اس کا تاوان ادا کرنا پڑتا تھا اور قبائلی تعصب کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی. یہی جاہلانہ حمیت لوگوں کی فکری ترقی اور انسانی افکار کی ایجاد میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی. ([2])
لیکن پیغمبر اسلام ﷺنے «أَلاَّ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَأُخْرَى؛کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا»([3])کی بنیاد پر اس تفکر کو ختم کیا، کیونکہ عرب قبیلوں کے نا معقول اور نامناسب کردار کا باعث یہی منفی تفکر تھا. اسی قانون کی بنیاد پر ہی آپ نے لوگوں کے ارادوں کو تبدیل کیا ان کو اپنے اصلی اور اعلی مقصد یعنی اللہ تعالی کی شناخت کرائی ۔جس کے ذریعے عرب کے اس جاہل معاشرے میں انقلاب برپا کیا اور ان جنگجو اور وحشی صفت لوگوں میں سے ایسے باایمان، باوقار اور قدرتمند لوگ پیدا کیے کہ وہ جس میدان میں بھی جاتے کامیابی ان کا مقدر بن جاتی تھی.
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے معاشرتی علوم کے ماہر «گی راچر» نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: «سوشیالوجی کی نگاہ میں وہ تبدیلی کہ جو کسی چیز کی ساخت اوربنیاد میں واقع ہوئی ہو انقلاب کے مترادف ہے»۔([4])
اسپولر برٹلڈ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: پیغمبر اسلام ﷺ نے ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی کہ جس میں میں قبیلے، عشیرہ، طائفہ اور سلطنت کی جگہ فرد، خاندان اور امت نے لے لی اور قبائلی نظام اگرچہ کلی طور پر ختم نہیں ہوا لیکن امت کے نام سے ایک بڑی اکائی میں مدغم ہو گیا کہ جو اسلام کے ماننے والوں اور اس کے پیروکاروں پر مشتمل تھی اور دینی تمایل کی وجہ سے ایک نئی پہچان دریافت کی. ([5])
فلیپ خلیل حتی نے نئے وجود میں آنے اسلامی معاشرے کی یوں تعریف کی ہے: ایسا سیاسی و سماجی نظام وجود میں آیا کہ جس کے روابط کا معیار، نسلی و خونی نسبت کی بجائے رابطہ دینی و ایمانی تھا. ([6])
مسجد کی تأسیس
رسول خدا ﷺ کا مدینہ میں ہجرت کے بعد معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے سب سے پہلا اقدام مسجد کی تعمیر اور اسے اسلامی ثقافتی مرکز قرار دینا ہے. چونکہ آپ ﷺحکومت اسلامی کی تشکیل دینا چاہتے تھے اسی لئے مدینہ میں آمد کے پہلے دن ہی مسلمانوں سے مسجد کی تعمیر کے بارے میں اپنی خواہش کا اظہار کیا. ([7])
مذہبی، اعتقادی اور معاشرتی طرز عمل کو بطور نمونہ پیش کرنے اور اس کے اثبات کے لئے سب سے اہم اور مؤثر اجتماعی عنصر، مساجد ہیں. یہ عظیم مرکز روز تاسیس سے ہی اپنے تغییر ساز اور محقق کردار کے باعث معاشرتی ترقی، شرک کے قلع قمع اور اتحاد امت کے لئے موثر ثابت ہوا اور تعلیم و تربیت کے مواقع کی فراہمی میں اور معاشرتی مسائل پر بحث کرنے کے لئے اہم مقام قرار پایا.([8])
در حقیقت پیغمبر اسلام ﷺایک ایسا مرکز قائم کرنا چاہتے تھے کہ جس میں حزب اسلامی کے تمام اراکین ہفتے میں ایک بار جمع ہوں اور اسلام و مسلمین کے مفادات کے لیے مشاورت کریں. مسجد تمام تر سیاسی، سماجی اور فوجی سرگرمیوں کا مرکز تھی. اگر پیامبر ﷺ کوئی عہد و پیمان باندھتے، اسلامی معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی بھی فیصلہ کرتے یا بعض امور کے بارے میں کوئی حکم صادر فرماتے تو اس کا اعلان مسجد میں ہوتا تھا. در اصل مسجد کو مسلمانوں کے لئے اطلاع رسانی کا ایک بہترین مرکز شمار کیا جاتا تھا. اگر کسی شخص نے پیامبر اسلام ﷺ سے کوئی سوال پوچھنا ہوتا یا اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا ، تومسجد میں آ جاتا تھا. ([9])
مسجد کی تعمیر سے مسلمانوں کے لئے ایک دوسرے سے مرتبط رہنے ، اپنی مشکلات اورمسائل پر بحث کرنے میں آسانی ہو ئی اور مشرکین کے سامنے اپنی طاقت کے اظہار میں بھی مدد ملی.اسلامی حکومت کا قیام
پیغمبر اکرم ﷺ کے لئے حکومت اسلامی کے قیام کے بغیر اپنے عظیم مقصد تک پہنچنا ممکن نہ تھا ۔اسی وجہ سے آپﷺ نے مدینہ میں ہجرت کے بعد اسلامی تہذیب و تمدن کو رائج کرنے، دین اسلام کو عالم پر غالب کرنے، معاشرے میں عدالت کے قیام اور مسلمانوں کے حقوق اور ان کی جان و مال کے تحفظ کے لیے مدینہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی. ایک ایسی حکومت کہ جس کے تمام قوانین و ضوابط، اصول وفروع اور معاشرتی، اقتصادی، نظامی، سیاسی اور مذہبی اصولوں کی بنیاد دین اسلام پر تھی، رسول اللہ ﷺ کی حکومت میں دین اسلام عملی صورت میں نظر آتا تھا. درحقیقت ان کی حکومت کا دوسرا نام دین، اور دین کا دوسرا نام ان کی حکومت تھی.([10])
جو لوگ دین کو سیاست سے جدا سمجھتے ہیں ان کے برخلاف؛ دین فقط نصیحتوں اور فردی مسائل کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور عالمی اصولوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے کہ جو انسان کی تمام زندگی اور بالخصوص معاشرتی اور سیاسی مسائل پر مشتمل ہے.
دین کا کام مستضعفین اور ستم زدہ لوگوں کو ظالموں کے چنگل سے نجات دلانا اور ستمگاروں کی حکومت کا خاتمہ ہے. پس واضح ہے کہ ان عظیم اہداف کا حصول اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں تھا. کون ہے جو اس عظیم اور مقدس ہدف کا تعاقب کرے، کون ہے جو اپنی نصیحتوں کے ذریعے عدل کا نظام کا قائم کرے، کون ہے جو قید اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے قیدیوں کے ہاتھ اور پاؤں کو آزاد کرے اور ان زنجیروں کو توڑ ے، جس جہان میں تہذیب و تمدن کی ترویج کے تمام وسائل اور ذرائع ابلاغ بد تہذیب، مفسد اور تباہ کار لوگوں کے ہاتھ میں ہوں، کون ہے جو اس صورتحال میں عدالت اور آزادی کے صحیح اصول اور تعلیم و تربیت کی درست روش کو رائج کرے اور کمالات اخلاقی کو لوگوں کے دلوں میں پروان چڑھائے. تو معلوم ہوا کہ ان تمام امور کو فقط وہی شخص انجام دے سکتا ہے جس کا انحصار تنظیم اور اقتدار پر ہو.
اگر رسول خدا ﷺ دین کو تیزی کے ساتھ عالم میں پھیلانے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے حکومت کا ابتدائی ڈھانچہ بنانے اور اس کے حصول کے بعد پہلی فرصت میں حکومت کی بنیاد رکھی اور حکومت اسلام کے اتحاد اور قدرت کے وسیلہ سے ان اہداف کا تعاقب کیا.سپاہ اسلام کا قیام
کسی بھی ملک کے سیاسی استقلال کے لیے، اس کے حاکم کی کامیابی کا اصلی عامل ایک طاقتور فوج کا قیام ہے تاکہ دشمن کے مقابلے میں اپنے ملک کی کی حدود کی حفاظت کر سکے اور اپنے ملک کے باشندوں کے لیے ایک پر اطمینان زندگی گزارنے کا ماحول پیدا کر سکے.
پیغمبر اسلام ﷺ نے اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی حکومت کی تشکیل کے بعد سپاہ اسلام قائم کی تاکہ ظالموں اور ستم گروں کے خلاف جہاد کر سکیں اور مستضعفین کو تحفظ فراہم کر سکیں.
نبی اکرم ﷺ کے لیے ان اہداف کا حصول فقط ایک منظم، مسلح اور قوی فوج کے وجود سے ہی ممکن تھا.([11])
اگرچہ اس زمانے میں پیغمبر ﷺ کے پاس ایک ہم آہنگ اور جنگی فوج موجود نہ تھی، جو لوگ بھی جنگی مہارت رکھتے تھے جنگ میں شریک ہوتے تھے. ([12])
اس کے باوجود پیغمبر ﷺ ہمیشہ اپنی فوج کو مسلح کرنے اور اسے جنگ کے لئے آمادہ کرنے کے درپے رہتے تھے اور جہاں بھی نئے اسلحے کی خبر ملتی تو اسے خریدنے کی کوشش کرتے، حتی کہ اپنی فوج کی ضروریات پورا کرنے کے لیے حکومتی اموال میں سے بھی خرچ کرتے تھے.
تاریخ یعقوبی اور سیرت ابن ہشام میں آیا ہے کہ بیت المال کی آمدنی کا کافی حصہ جنگی امور پر صرف ہوتا تھا جیسے فوج کے لیے اسلحے کی فراہمی اور ان کی خورد و نوش کے اخراجات وغیرہ۔ ([13])قانون سازی
کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی، معاشرتی برائیوں پر قابو رکھنے، اس میں رہنے والے افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایک مناسب قانون کی ضرورت ہوتی ہے. تاکہ معاشرے کے افراد اس پر عمل کرتے ہوئے ایک پرسکون زندگی گزار سکیں.
رسول خدا ﷺ کا وظیفہ انسانوں کو کمال کی آخری حد اور سعادت تک پہنچانا تھا جیسا کہ ان کے بعثت کے مقصد سے واضح ہے لہذا وہ اپنے ساتھ ایسا قانون لائے تھے کہ انسان کو کمال تک پہنچانے کے لئے جس کی اشد ضرورت تھی.
قوانین کی جو کتاب آپ ﷺ ساتھ لائے تھے اس میں انسان کے کمال اور سعادت مندی تک رسائی، اور جہالت، شرک، نفاق بے عدالتی، تفرقہ اور اس قسم کی دوسری اخلاقی پستیوں سے نجات کا مکمل راہ حل موجود تھا.
اس کتاب کی قانون سازی کرنے والی خود اللہ تعالیٰ کی علیم حکیم اور قادر ذات تھی اور اس قانون کو لوگوں تک پہنچانے اور معاشرے میں اس کا اجراء کرنے والے رسول اعظم ﷺ تھے لہذا اس پر عمل کرنا سعادت انسانی کی ضمانت تھا. اس قانون میں انسان کی زندگی کے تمام شعبہ جات، خواہ فردی ہوں یا اجتماعی، سب کو مدنظر رکھا گیا تھا. جو چیز یں انسان کی خوشبختی اور سعادت کا باعث بنتی ہیں یا انسان کی شقاوت اور بدبختی کے عوامل میں سے ہیں، سب کچھ اس کتاب میں بیان کیا گیا تھا. ([14])
صدر اسلام میں معاشرے کی ترقی و خوشحالی کے لئے حضور اکرم ﷺ کی خدمات کا اندازہ ان کی لوگوں کے باہمی روابط اور معاملات میں آسانی کے لئے وسیع قانون گذاری کرنے سے لگایا جا سکتا ہے. آپﷺ نے انصاف کی فراہمی، وکالت وضمانت، مساقات و مزارعہ، مضاربہ اور اجارہ وغیرہ اور اسی طرح مالی احکام جیسے خمس، زکات، خراج اور جزیہ وغیرہ کو اسلامی معاشرے میں رائج کیا.([15])حقوق کا تعین
پیغمبر اسلام ﷺ کا ایک اور اقدام کہ معاشرے پر جس کے حیرت انگیز اثرات مرتب ہوئے وہ معاشرتی قوانین کو وضع کرنا یا ان کی اصلاح کرنا ہے. اس دور میں خواتین معاشرے کا کمزور ترین طبقہ شمار ہوتی تھیں اور ان کے حقوق کا لحاظ نہیں کیا جاتا تھا. آپ ﷺ نے قرآن کی تعلیمات کی بنیاد پر پر جاہلانہ رسومات کے خلاف قیام کیا اور خواتین کے حقوق متعین فرمائے.
سب سے اہم مسئلہ وارثت کا تھا. عرب اپنی غلط اور غیر منصفانہ رسومات کی وجہ سے خواتین اور بچوں کو وراثت سے محروم رکھتے تھے. قرآن مجید نے اس ناجائز قانون کو باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا: لوگوں کو چاہیے کہ ان کے ماں، باپ یا قریبی رشتہ دار جو مال چھوڑ کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ان میں سے کچھ حصہ خواتین کو بھی دیں خواہ کم ہو یا زیادہ. اور اس بات کی تاکید کی کہ کسی کو دوسرے کا حصہ غصب کرنے کا حق حاصل نہیں ہے.([16])
اللہ تعالی نے بیٹوں اور بیٹیوں کی وراثت کے حکم کو بیان کرتے ہوئے سورہ نساء میں فرمایا ہے: «لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَیَیۡنِ؛ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے» اس آیت کا اشارہ فقط اس بات کی طرف نہیں ہے کہ خواتین کا وراثت حاصل کرنا مسلم حکم الہی ہے. بلکہ اس آیت میں خواتین کی وراثت کو اس قانون شرعی کی بنیاد قرار دیا گیا ہے اور مرد کی وراثت کو عورت کی وراثت کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے تاکہ مرد اپنی وراثت کی مقدار معلوم کرنے کے لیے پہلے عورت کی وراثت معلوم کرنے کے محتاج ہوں. ([17])
اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری آیات میں خواتین کے حقوق بیان ہوئے ہیں، پیامبرﷺ نے ان احکامات کو معاشرے میں جاری کیا اور جاہلانہ رسومات کا خاتمہ کیا.محبت اور دوستی کی فضا قائم کرنا
معاشرے کی خوشحالی، امن و امان کے قیام اور ترقی کے لیے محبت کا عنصر بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے. دلوں میں الفت ڈالنا اور روحوں کو آپس میں جوڑنا ایک مشکل کام ہے. بالخصوص ان افراد کے درمیان دوستی کو قائم کرنا کہ جو طویل مدت تک ایک دوسرے کے ساتھ جنگ اور قتل و کشتار میں مشغول رہے ہوں. لیکن پیغمبراسالم ﷺ نے نرمی اور شائستگی سے دلوں کو متحول کیا اور حق کی طرف مائل کیا. پیغمبرﷺ کو ایسی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا گیا تھا کہ اگر ان میں سے کسی آدمی کو کوئی ایک تھپڑ مارتا تو اس کی وجہ سے جنگ و خونریزی کا بازار گرم ہو جاتا تھا. لیکن ان کا یہ عظیم معجزہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالی پر ایمان کے باعث ان دشمنیوں کو ختم کیا اور باہمی محبت اور دوستی کو رائج کیا کیا. ([18])
اگر پیغمبر ﷺ مکہ اور مدینہ کے مسلمانوں کے درمیان محبت اور دوستی کی فضا قائم نہ کرتے تو معاشرے میں اس طرح تبدیلی واقع نہ ہوتی جس طرح آپ چاہتے تھے .
یہ رسول خدا ﷺ کی تبلیغ کا ہی نتیجہ تھا کہ اوس و خزرج کے دو قبیلے دیرینہ دشمنی، طویل اور خونی جنگوں کو بھول کر اسلامی تعلیمات اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں ایک دوسرے کے دوست بن گئے. بعض تاریخی منابع کے مطابق دونوں قبیلے بعد میں مسلمان ہوگئے اور اسلام کی خدمت میں میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتے تھے. اگر اوس قبیلہ والے دین کے لئے کوئی کام کرتے تھے تو قبیلہ خزرج کے لوگ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک اس سے بڑھ کر کوئی خدمت انجام نہ دیں.([19])
قرآن مجید میں ایک مقام پر ان دو قبیلوں کی دوستی کو یوں بیان کیا گیا ہے:
«وَ أَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَ لٰکِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَکِيمٌ؛ اور ان کے دل ایک دُوسرے کے ساتھ جوڑ دیے تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے» ۔([20])صلح کی ترغیب
پیغمبراسلام ﷺ ہمیشہ لوگوں کو باہمی اختلاف ختم کرنے اور صلح کرنے اور راہ اعتدال اختیار کرنے کی تلقین فرماتے تھے. جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو صلح کا عنصر آپ ص کی سیرت میں نمایاں نظر آتا ہے.
رسول خدا ﷺ کا ہدف کلمہ توحید کو جہان کے کونے کونے میں پہنچانا اور لوگوں کو طاغوت کے چنگل اور جہالت سے نکال کر ابدی سعادت اور کمال انسانی تک لے جانا تھااسی وجہ سے آپ ﷺ جنگ شروع ہونے سے پہلے دشمن کو اسلام کی طرف دعوت دیتے تھے اور کبھی بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ جنگ کا آغاز مسلمانوں کی طرف سے ہو.
جنگ سے پہلے اسلام کی دعوت دینا فقط ایک نظر یہ نہیں ہے بلکہ اگر تاریخ اسلام کی تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک حقیقت ہے اور پیغمبر اسلام ﷺ تمام جنگوں میں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے. ([21])
اگر جنگ کے درمیان دشمن کی طرف سے صلح اور جنگ بندی کی پیشکش ہوتی تو آپ ﷺ اللہ تعالی کے اس واضح قانون؛
«وَإِن جَنَحُوا۟ لِلسَّلۡمِ فَٱجۡنَحۡ لَهَا وَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِیعُ ٱلۡعَلِیم؛ (اور اے نبیؐ) اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقیناً وہی سننے اور جاننے والا ہے» ([22])
کی بنا پر ان کی پیشکش کو قبول کرلیتے تھے. تاریخ اسلام میں رسول خدا ﷺ کی اس سیرت حسنہ کے بے شمار نمونے موجود ہیں جیسے صلح حدیبیہ اور نجران کے نصرانیوں کے ساتھ باندھا گیا پیمان نامہ وغیرہ.امن و امان کا قیام
امن و امان کا قیام کسی بھی معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے اس کے حصول کے لیے انسان کا مسلسل جدوجہد کرنا اس کی اہمیت کی دلیل ہے ۔ امن و امان کا قیام ہر حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ امنیت کی مختلف جہات ہیں جیسے امنیت سیاسی، امنیت اقتصادی و مالی وغیرہ.
مدینہ میں وارد ہونے کے بعد پیغمبرخدا ﷺ کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے اہم مسئلہ مدینہ میں امن کا نہ ہونا ہے لہذا پآپ ﷺ کے لئے ضروری تھا کہ امن و امان کے قیام کے لیے اقدامات کریں.
رسول اللہ ﷺ نے قرآن کی تعلیمات کے زیر سایہ قانون گذاری کی، اسلامی معاشرے میں امن کے قیام کے لیے مسلمانوں کو ان احکامات کی پاپندی کرنے کا حکم دیا اور مختلف قبیلوں کے ساتھ صلح کے معاہدے کیے اور عدالت کے قیام کے ساتھ معاشرے میں افراد کی جان و مال کو تحفظ فراہم کیا اور مسلمانوں اور اسلامی حکومت کی حفاظت کے لئے سپاہ اسلامی تیار کی تاکہ مسلمان، دشمنوں کے حملے سے محفوظ رہیں اور اطمینان سے زندگی گزار سکیں.پیمان اخوت
رسول خدا ﷺ کا ایک معجزہ آسا کارنامہ اخوت و برادری قائم کرنا ہے. پیغمبرﷺ نے مہاجرین کی مالی حالت کے مدنظر انصار اور مہاجرین کے درمیان اخوت کو قائم کیا اور ایک مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنا دیا. اس پیمان میں انصار سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ اپنے مہاجر بھائی کی ہر حوالے سے مدد کرے گا. ([23])
اخوت کے عہد کے ساتھ ، مذہبی حدود نے قبائلی اور خاندانی حدود کی جگہ لے لی. ([24])
پیغمبر اکرم ﷺ کے اس مدبرانہ اور حکمت آمیز اقدام کے ذریعے سے ایک تو مہاجرین مکہ کی مشکلات کافی حد تک حل ہو گئیں اور ان کی غریت کا خاتمہ ہوا. مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کی تھی لہذا ان کے پاس مال و اسباب کچھ بھی نہیں تھا تو اس حالت میں آپ ﷺ کے اس اقدام کے ذریعے ان کو معاشی طور پر بھی مدد ملی اور کچھ عرصے کے بعد وہ اپنے لیے رہائش کی جگہ بنانے میں بھی کامیاب ہوئے. اور دوسرا یہ کہ اس عہد کے باعث مدینہ میں امن و امان اور محبت و دوستی کا ماحول وجود میں آیا جس کے نتیجے میں اسلامی تہذیب کی ترویج میں مدد ملی.
پیغمبر خدا ﷺ ایسے لوگوں کے درمیان اور ایسے معاشرے میں رہتے تھے کہ جہاں تمام گروہ، قبیلے اور قومیں ایک دوسرے کے مخالف تھیں اور قتل و غارت، جنگ و جدال اس معاشرے کا حصہ تھا ۔ بچیوں کو ننگ و عار کا باعث سمجھا جاتا تھا اور انہیں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ وہ معاشرہ اس قسم کی اور بھی بہت سی اخلاقی پستیوں میں گھرا ہوا تھا یہاں تک کہ وہ اپنی ان جنایات پر فخر و مباہات کرتے تھے لیکن رسول اکرم ﷺ نے خدا پر ایمان اور اس کی اطاعت کی بنیاد پر ایسی وحدت ایجاد کی کہ تاریخ بشریت میں اس کی مثال نہیں ملتی. تمام عالم کے دانشور حضور ﷺ کے اس اقدام کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کو ایک معجزہ شمار کرتے ہیں.
مسلمانوں نے برادری ، وحدت اور پختہ ایمان و عقیدہ کے باعث ایسی قدرت حاصل کی کہ تمام عالم کی طاقتور حکومتیں ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئیں. ([25])تعلیم و تربیت
پیغمبر اسلام ﷺ نے لوگوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ توجہ دی. آپ ﷺ کی نگاہ میں تعلیم کی جو اہمیت تھی اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ص نے جنگ بدر کے بعد جنگی قیدیوں سے فرمایا: اگر تم سے ایک شخص، دس آدمیوں کو پڑھنا لکھنا سکھائے تو اسے آزاد کر دیا جائے گا. ([26])
تعلیم و تربیت سے انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے اور وہ کمال کی راہ پر گامزن ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرہ ترقی کرتا ہے. آپ ﷺ نے دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم پر زور دیا.
رسول خدا ﷺ لوگوں کی تربیت کے لیے الہی فکر کے حامل، وظیفہ شناس، قدرتمند، تاثیرگذار اور تخلیقی ذہن رکھنے والے افراد کے انتخاب کا حکم فرماتے تھے تاکہ معاشرتی اور مادی عوامل پر قابو پا کر الہی تہذیب کو رائج کیا جا سکے. ([27])اقتصاد کو بہتر بنانے کے لئے اقدام
مکہ میں اقتصادی پابندیوں اور مشرکان کی بد رفتاری اور دیگر مختلف عوامل کی بنا پر مسلمان مالی لحاظ سے ضعیف تھے. اور پھر ہجرت کے مخفی ہونے کی وجہ سے جو کچھ مال اسباب ان کے پاس تھا وہ بھی وہیں چھوڑکے چلے آئے.
پیغمبر اسلام ﷺنے مدینہ میں نئے اسلامی معاشرے کی ضروریات کے پیش نظر، اپنی سیاسی حکمت عملی کے ذریعے اقتصادی مسائل کو حل کیا. ایک طرف سے آپ ﷺ آمدن کے نئے منابع دریافت کرنے کے درپے تھے تو دوسری طرف مسلمانوں کے فقر کو ختم کرنے، ان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے اور ان کی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے لیے کوشاں تھے.
حضور ﷺ کا مناسب حکمت عملی اور مؤثر طرز عمل کے ذریعے معاشرے سے طبقاتی فاصلوں کو ختم کرنے اور عدالت اور امنیت کے قیام جیسے بہترین اقدامات معاشرے کی تعمیر و ترقی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے کارآمد ثابت ہوئے.
پیغمبر اکرمﷺ نے مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ایسے اقدامات کئے کہ تمام مسلمان ایک مناسب آمدنی کے حامل بنے اور بعد میں اپنے ذاتی گھر اور کاروبار کے مالک بن گئے. ([28])
یہاں تک کہ سال نہم ہجری میں مسلمانوں پر خمس و زکات ادا کرنے کو لازمی قرار دیا گیا. ([29])
پیغمبرﷺ کا مواخات قائم کرنا، تجارت کو فروغ دینا اور زراعت کا پیشہ اختیار کرنے کی تلقین کرنا بھی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر ثابت ہوا.قدرت و توانائی کا حصول
زندگی کے مختلف شعبوں میں قدرت اور توانائی حاصل کرنا تمدن اسلامی کے نقطہ نگاہ سے مورد تاکید ہے.
دین اسلام نے جس قدر اپنے پیروکاروں کو زندگی کے مختلف شعبوں میں قدرت و توانائی حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے اتنی کسی اور دین نے نہیں دی. اور دین اسلام کی طرح اس مسئلے میں کسی اور دین کو اتنی کامیابی حاصل نہیں ہوئی. ([30])
صدر اسلام میں مسلمانوں نے اہل روم اور یونان سے بڑی تیزی کے ساتھ فوجی اور جنگی مہارت سے سیکھیں اور ان کے صف میں کھڑے ہو گئے اور ہر شعبے میں کامیابی حاصل کی. ([31])معیارِ زندگی کہو بحتر بنانے کے لئے اقدامات
لوگوں کے معیارِ زندگی کومعاشی استحکام یا معاشرے کی پسماندگی کی بنیادی علامت سمجھا جاتا ہے۔ معیار ِ زندگی سے مراد لوگوں کا رہن سہن، کھانا پینا ، لباس اور اس قسم کے دوسرے امور ہیں ۔ جس معاشرے میں عوام کے لئے اچھی زندگی گذارنے کی سہولیات اور اسباب موجود ہوں اسے متمدن اور مستحکم معاشرہ سمجھا جاتا ہے اور جس میں زندگی کے اسباب و امکانات کم ہوں اسے پسماندہ معاشرے کا نام دیا جاتا ہے۔
پیغمبر اکرم ﷺ نے خطّہء عرب کے لوگوں کوایک ایسے طرزِ زندگی سے متعارف کروایا اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کی کہ جس میں انسان کی تمام انفرادی اور معاشرتی ضروریات پوری ہوں ۔
رسولِ خدا ﷺ نے مسلمانوں کو مادی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے،تجارت و صنعت کے ذریعے نفع حاصل کرنے،معیشت کو بہتر بنانے اور املاک ودولت محفوظ کرنے کی دعوت دی۔[32]
مسلمانوں کے اچھے طرزِ زندگی اور معاشیات کی بہتری پر توجہ دینا اور ان کی مالی و معاشی پسماندگی اور غربت کا خاتمہ کرنا نبی اکرم ﷺ کے لئے سب سے بڑا مسئلہ تھا ۔ آپ ﷺ نےمسلمانوں کی ابتدائی ضروریات جیسے کھانا، مکان اور لباس مہیا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ [33]
پیغمبرِ اسلام ﷺ نے مدینہ میں اسلامی حکومت کے قیام کے ساتھ ایک نئے اصولوں اور نظریات پر مبنی اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔
اسلام نے تہذیب اور اجتماعی زندگی کی ترغیب دی اور قدامت پسندی سے منع فرمایا۔[34]
چونکہ اسلام نے احکام و مقرّراتِ اسلام سے دوری کی بنا پر بادیہ نشینی کی مذمّت کی ہےلہذا پیغمبر ﷺ معاشرے میں موجود افراد کے لئے شہر نشینی اختیار کرنے کی راہ ہموار کی۔ دین اسلام کے اس دستور پر عمل کرتے ہوئے بادیہ نشین عربوں نے بادیہ نشینی اور اعرابیت کوترک کر کے شہروں کا رخ کیا اور شہری باشندوں نے بھی شیری زندگی کے وسائل مہیّا کرنے کے لئے کوشسیں کیں اور ایک متمدّن معاشرہ وجود میں آیا۔ زراعت کو فروغ دینا
زراعت کا پیشہ ملکی اقتصاد کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ملک کو معاشی اور اقتصادی طور پر قوی کرنے میں زراعت کا اہم کردار ہے.
رسولاکرم ﷺ کے سیاسی اقدامات میں سے انسانی تمدن سازی کے لئے ایک اصلی عامل زراعت پر توجہ دینا بھی تھا۔([35])
خطہ عرب کی بنجر اور سخت زمین زراعت کے لیے اتنی ساز گار نہیں تھی فقط کچھ علاقوں میں زراعت ممکن تھی لیکن اس کے باوجود بھی پیغمبر اسلام ﷺ اپنی حکمت عملی کے ذریعے چوپان اور خانہ بدوش لوگوں کو زراعت کی طرف لانے میں کامیاب ہوئے.
جب پیغمبر اسلام ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت کو قائم کیا اس وقت انصار نے اپنی جائیداد کا نصف حصہ اپنے مہاجر بھائی کو دینے کا اعلان کیا لیکن پیغمبر اسلام ﷺ نے انہیں روک دیا اور انصار اور مہاجرین کے درمیان مزارعہ اور مساقات کا معاہدہ قائم کیا. حضور ﷺ اس حکمت آمیز اقدام سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ انصار کی زمین انہی کے پاس رہی اور اس کے ساتھ ساتھ مہاجرین کو بھی روزگار مل گیا. بجائے اس کے وہ انصار پر بوجھ بنتے، انہوں نے انہیں زمینوں میں مزارعہ کے طور پر کام کیا جس سے تمام مسلمانوں کو فائدہ ہوا اور مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی.حفظانِ صحت کے لئے اقدامات
علاج و معالجہ ایک معاشرتی و انسانی ضرورت اور دینی و عقلی وظیفہ ہے.
اسلام کی تاریخ میں وہ پہلا مقام کہ جس کو ہسپتال یا مریضوں کی دیکھ بھال اور زخمیوں کی مرہم پٹی کے لئے مخصوص کیا گیا تھا، وہ مسجد نبوی ص ہے. ([36])
پیغمبرِ اسلام ﷺ کا ایک اہم وظیفہ لوگوں کی سلامتی اور ان کی صحت کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنا ہے جسےجسے آج کے دور میں انشورنس کہا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے غریب اور نادار لوگوں کی فلاح کے لئے بیت المال کی آمدنی کا کچھ حصّہ مختص کیا تھا تا کہ غریب لوگ آسانی سے زندگی گذار سکیں۔[37]مفادات عامہ کے لئے خدمات
پیغمبر خدا ﷺ نے جس طرح اقتصاد کو بہتر کرنے اور امن و امان کے قیام کے لئے اقدامات کئے اسی طرح مفادات عامہ کے لیے بھی خدمات انجام دیں. آپ ﷺ نے مفاد عامہ کے کام انجام دے کر لوگوں کے درمیان محبت ایجاد کی. آپ ﷺ لوگوں کو عمومی کاموں کی ترغیب دے کر لوگوں کے دلوں سے مال و دنیا کی محبت کو ختم کر دیتے تھے اور اسی طرح نیک اعمال کا ثواب بیان فرما کر اسلامی اقدار کو لوگوں کو لوگوں کے ذہن میں بٹھا دیتے تھے.
مدینہ میں «چاہ رومہ» کے علاوہ اور کوئی کنواں نہیں تھا یہ کنواں بنی مزینہ کے ایک شخص کی ملکیت تھا.
لوگوں کے استعمال کے لیے تازہ پانی دستیاب نہیں تھا ۔لوگوں کے لیے اس کنویں سے پانی خریدنا ضروری تھا. حضورﷺ نے فرمایا: کون ہے جو «چاہ رومہ» کو خریدے تاکہ وہ خود اور دوسرے مسلمان اس سے استفادہ کر سکیں اور خدا وند جنت میں اس سے بہتر اسے عطا فرمائے گا. تو ایک مسلمان نے وہ کنواں خریدا اور تمام مسلمانوں امیر و غریب کے لیے وقف کر دیا. ([38])
مختلف قسم کے ذیلی اور بنیادی امور، جیسے مکان بنانے کے لئے لیے زمین کی تقسیم، بازار کے لیے ایک جگہ کا مختص کرنا اور عمومی حمام کی تعمیر کرانا بھی سرکاری اخراجات میں شامل تھا. ([39])بازار کا قیام
پیغمبراسلام ﷺ نے لوگوں کے لئے ایک عمومی بازار بھی قائم کیا ایک دن ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میری نظر میں بازار کے لئے ایک مناسب جگہ ہے کیا آپ اس کا مشاہدہ نہیں کریں گے آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ چل دیئے یہاں تک کہ اس مقام تک پہنچ گئے ۔ آپ ﷺ نے اس جگہ کو پسند کیا اور فرمایا : بازار کے لیے یہ جگہ بہتر ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور آپ پر کوئی ٹیکس بھی لاگو نہیں کیا جائے گا۔ ([40])
آپ ﷺ نے اجناس کی قیمتوں کو حد اعتدال پر رکھنے کے لئے خرید و فروش کے معاملے میں بعض چیزوں کی ترغیب دی جیسے بازار میں چیزیں سستی بیچنا، بغیر واسطے کے خود جا کر چیزیں خریدنا اور اجناس کو بازار میں وارد ہو جانے کے بعد خریدنا وغیرہ.([41])
آپ ﷺ خرید و فروش کے معاملات میں شائستہ امور انجام دینے والے اشخاص کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے. ایک شخص جو بازار میں جنس کو رائج قیمت سے کم پر فروخت کر رہا تھا توآپ ﷺ نے اسے فرمایا: تم مسلمانوں کے بازار میں چیزیں سستی فروخت کر رہے ہو، آیا یہ کام تم ثواب کی نیت سے اانجام دے رہے ہو؟ اس نے جواباً کہا: جی ہاں، تو پیغمبر اسلام ﷺ نے اسے خوشخبری دی کہ جو بھی کوشش کرتا ہے اور بازار کو رواج دیتا ہے، وہ اس شخص کی مانند ہےجس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو. ([42])
اور اسی طرح آپ ﷺ نے خرید و فروش کے معاملے میں بعض چیزوں سے منع فرمایا ، اور ناجائز منافع کےحصول، حرام خوری اور اجناس میں ملاوٹ وغیرہ کی مذمت کی. آپ ﷺ نے فرمایا : جو مسلمانوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت ملاوٹ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے. اللہ تعالیٰ اس کے رزق سےبرکت اٹھا لیتا ہے اور اس کے معاش کی راہ کو بند کر دیتا ہے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے.([43])نتیجه
اسلامی تہذیب ایک روحانی نقطہ نظر اور معرفت کے ساتھ ایک ایسی تبدیلی اور ترقی ہے جو انسانوں کی اندرونی اور نفسیاتی تبدیلی اور پھر سیاسی ، معاشرتی ، ثقافتی اور معاشی تبدیلیوں پر مبنی ہے۔ قرآن مجید اور سیرت نبوی ﷺ کی رو سے معاشرے میں تبدیلی اور اس کی ترقی کے لئے انسان کا اپنے ہدف کی معرفت حاصل کرنا اور اس تک پہنچنے کے لئے اپنا لائحہ عمل تیار کرنا ضروری ہے. رسول اکرم ﷺ اپنی حکمت عملی اور اسلامی تہذیب و تمدن کے ذریعے سے تھوڑے ہی عرصے میں عرب معاشرے کی حالت تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے. ایک جاہل معاشرے کو ایک مہذب معاشرے میں تبدیل کیا، ایسا معاشرہ تشکیل دیا کہ جو مرکزی حکومت، سیاسی، قانونی اور عدالتی تنظیموں ، اداروں اور فیصلہ کن قوانین کا حامل ہے.
خدا وند عالم ہم سب کو پیغمبر گرامی اسلام ﷺ کی سیرت طیبہ کے سنہرے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنی دنیوی اور اخروی زندگی کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے؛ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
حوالہ جات
([1]) سورہ مدثر، آیت38۔
([2]) عبداللہ علایلی، بر ترین ہدف در برتن نہاد، ص65۔
([3]) سوره نجم، آیت38۔
([4]) گی راچر، تغییرات اجتماعی، ص20۔
([5]) اسپولر برٹلڈ، نظام اسلام، ص98۔
([6]) فلیپ خلیل حتی، تاریخ عرب، ص153
([7]) سیرت ابن ہشام، ج2، ص138۔
([8]) عبد السلام، اذہاب الحزن و شفاء الصدر السقیم، ص45۔
([9]) تاریخ طبری، ج2، ص270۔
([10]) صحیح بخاری، ج1، باب حب الرسول۔
([11]) امامی، درس ہائی از دفاعی اسلام، ص34۔
([12]) حسن ابراہیم، تاریخ سیاسی در اسلام،ج1، ص460۔
([13]) تاریخ یعقوبی، ج2، ص62؛ سیرت ابن ہشام، ج4، ص891۔
([14]) ہادی دوست محمدی، مجلہ مکتب اسلام، ص59۔
([15]) عسکر حقوقی، تاریخ اندیشہ ہای در اسلام و ایران، ص78۔
([16]) ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج3، ص274۔
([17]) علامہ طباطبائی، تفسیر المیزان، ج4، ص207۔
([18]) طبرسی، مجمع البیان، ج4، ص854۔
([19]) ابن جریر طبری، تاریخ امم و ملوک، ج2، ص495۔
([20]) سورہ انفال، آیت63۔
([21]) محمد صالح الظالمی، فقہ سیاسی در اسلام، ص53۔
([22]) سورہ انفال، آیت61۔
([23]) سید کاظم صدر، اقتصاد صدر اسلام، ص65-66۔
([24]) نورالدین حلبی، سیرت حلبیہ، ج2، ص92۔
([25]) ہادی دوست محمدی، سیرہ سیاسی پیامبر اعظم، مجلہ مکتب اسلام، ص60۔
([26]) محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج2، ص16۔
([27]) ابن اثیر شیبانی، اسد الغابہ، ج2، ص96۔
([28]) سید کاظم صدر، اقتصاد صدر اسلام، ص33-34۔
([29]) ابن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج2، ص129۔
([30]) محمود رامیار، تاریخ قرآن، ص335۔
([31]) عبدالعلی قوام، سیاست ہای مقایسہ ای، ص791۔
[32] ۔ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص۱۶۶-۱۶۷۔
[33] ۔ محمد رضا حکیمی، الحیاۃ، ج۴، ص۱۴۰۔
[34] ۔ شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعہ، ج۵، ص۳۱۸۔
([35]) شیخ حر عامل، وسائل الشیعہ، 4، ص140۔
([36]) تقی الدین مقریزی، الخطط و الاثار، ج2، ص405۔
[37] ۔ برنامہ ریزی اقتصادی پیامبر ص ، ویکی فقہ۔
([38]) ابنِ عساکر، تاریخ مدینہ، ج2، ص104۔
([39]) حسین ابراہیمی، پژوہش و تحقیق نو در سیرہ نبی اعظم ص، ص676۔
([40]) طبرانی، معجم الکبیر، ج19، ص264۔
([41]) زکریا انصاری، فتح الوہاب، ج1ص285؛ محمد بن احمد شریینی، مغنی المحتاج، ج2، ص285؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج14، ص388۔
([42]) جلال الدین سیوطی، الجامع الصغیر، ج1، ص6390۔
([43]) شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ص286؛ حسن دیلمی، اعلام الدین، ص417۔
منابع
قرآن
مجیدابراہیمی، حسین، پژوہش و تحقیقی نو در سیرہ نبی اعظم ص، قم، انتشارات ثقلين، 1324ش.
ابراہیمی، حسین، تاریخ سیاسی اسلام، مترجم: ابو القاسم پایندہ، تہران، ناشر: بدرقہ جاویدان، 1385ش.
ابن اثیر شیبانی، علی ابن ابی الکرم، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، ناشر: دار صادر، 1399ھ.
ابنِ جریر طبری، ابو جعفر محمد، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، ناشر: دار التراث، 1387ھ.
ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، ناشر دار الکتب العلمیہ، 1410ھ.
ابن عساکر، علی ابن حسن الشافی، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، ناشر: دار الفکر، 1415ھ.
ابن ہشام، عبد الملک، السیرۃ النبویہ، مترجم: سید ہاشم رسولی، تہران، انتشارات کتابچی، 1375ش.
اسپولر برٹلڈ، جہان اسلام، مترجم: قمر آریان، تہران، انتشارات امیر کبیر، 1366ش.
امامی و دیگران، درس ہائی از نظام دفاعی اسلام، تہران، ناشر: سازمان تبلیغات اسلامی، 1367ش.
انصاري،زكريا بن محمد، فتح الوهاب بشرح منهج الطلاب، بیروت، دار الفكر للطباعة والنشر،1414ھ.
بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، قاہرہ، ناشر:لجنة إحیاء کتب السنة، قاهره، 1410ھ.
حتی، فلیپ خلیل، تاریخ عرب، مترجم: ابو القاسم پایندہ، تہران، انتشارات آگاہ، 1366ش.
حقوقی، عسکر، تاریخ اندیشہ ہای سیاسی در اسلام و ایران، تہران، انتشارات ہیر مند، 1374ش.
حکیمی، محمد رضا، الحیاۃ، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1374ش.
حلبی، علی بن ابراهیم، سیرت حلبیہ، بیروت، ناشر: دار الکتب العلمية، 1427ھ.
دوست محمدی، ہادی، سیرہ سیاسی پیامبر اعظم ص(2)، مجلہ مکتب اسلام، فروردین 1386، شمارہ1.
رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، انتشارات امیر کبیر، 1362ش.
سیوطی ، عبدالرحمن بن ابوبکر، الجامع الصغير، بیروت، دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع.
شیخ حر عاملی، محمد بن حسین، تفصیل وسائل الشیعہ إلی تحصیل مسائل الشریعہ، قم، ناشر: مؤسسہ آل البیت، 1414ھ.
شیخ صدوق، محمد بن بابویہ، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، ناشر: دار الرضی، 1406ھ.
شیخ صدوق، محمد بن بابویہ، من لا یحضرہ الفقیہ، تصحیح و تعلیق: علی اکبر غفاری، قم، انتشارات جامع مدرسین حوزہ علمیہ، 1363ش.
شیرازی، ناصر مکارم، تفسیر نمونہ، تہران، ناشر: دارالکتب الاسلامیہ، 1374ش.
صدر، سید کاظم، اقتصاد اسلام، تہران، انتشارات دانشگاہ شہید بہشتی، 1474ش.
طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی مدرسین حوزہ علمیہ، 1417ھ.
طبرانی، سلمان بن احمد، معجم الکبیر، قاہرہ، ناشر: مکتبہ ابن تیمیہ، 1404ھ.
طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تحقیق: محمد جواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، 1372ش.
طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، مترجم: ابوالقاسم پائندہ، تہران، انتشارات اساطیر، 1368ش.
الظالمی، محمد صالح، فقہ سیاسی در اسلام، مترجم: رضا رجب زادہ، تہران، ناشر: پیام آزادی، 1359ش.
عبدالسلام، مقبل مجبری، إذہاب الحزن و شفاء الصدر السقیم، قاہرہ، ناشر: دار الایمان.
علایلی، عبداللہ، برترین ہدف در برترین نہاد، مترجم: محمد مہدی جعفری، تہران، ناشر: وزارت ارشاد اسلامی، 1374ش.
قوام، عبدالعلی، سیاست ہای مقایسہ ای، تہران، انتشارات سمت، 1373ش.
گی راچر، تغییرات اجتماعی، مترجم: منصور وثوقی، تہران، نشر نی، 1370ش.
مقریزی، تقی الدین، امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال و الاموال و الحفدۃ و المتاع، بیروت، ناشر: دار الکتب العلمیہ، 1420ھ.
مقریزی، تقی الدین، احمد بن علی بن عبد القادر ، المواعظ و الاعتبار بذکر الخطط و الآثار، بیروت ناشر: دار الکتب العلمیہ، 1418ھ.
یعقوبی، احمد بن یعقوب، تاریخ یعقوبی، بیروت، ناشر: دار صادر، 1379ھ.