قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط 7
ب۔ مکہ میں ملاقاتیں
2عبداللہ بن عمر
جب عبداللہ بن عمر کو امام حسین (ع) کے کوفہ جانے کی اطلاع ملی تو وہ امام کے پاس آیا اور کہا :
ان گمراہوں کے ساتھ کوئی سمجھوتا کرلیں اور جنگ اور مارے جانے سے بچیں .
امام علیہ السلام نے جواب دیا: کیا آپ نہیں جانتے کہ خدا کے نزدیک دنیا کی بے حرمتی کی ایک مثال یہ ہے کہ یحیی ابن زکریا کے سر کو بنی اسرائیل کی ایک شریر عورت کے تحفے کے طور پر بھیجا گیا تھا ، کیا آپ نہیں جانتے کہ بنی اسرائیل نے فجر سے شام تک خدا کے ستر انبیا کو قتل کیا اور پھر بازاروں میں بیٹھ کر ایسے کاروبار کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی غلط کام ہوا ہے ۔ خدا نے ان کی سزا میں جلدی نہیں کی اور وقت کے ساتھ ان سے بدلہ لیا۔ اے ابا عبد الرحمٰن! "خدا سے ڈرو اور میری مدد سے منہ مت موڑو۔
جالب یہ ہے کہ اسی عبداللہ نے عبد الملک مروان کے نمائندے حَجّاج کی بیعت کر لی تھی۔ لیکن اس نے امام کی بیعت کرنے سے انکار کردیا۔
لہذا اپنی موت کے وقت کہتا تھا : مجھے دنیا میں کسی بھی چیز کا افسوس نہیں ہے ، سوائے اسکے کہ میں نے باغی گروہ (معاویہ اور اہل شام) سے جنگ نہیں کی اور اس معاملے میں علی کی مدد نہیں کی۔
جب عبداللہ کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا علم ہوا تو انہوں نے یزید کو اس موضوع کے ساتھ ایک خط لکھا: "یہ ایک بہت بڑا اور عظیم حادثہ ہے اور اسلام میں اس سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ۔ "یوم حسین کی طرح کوئی دن نہیں ہے۔"
یزید نے جواب میں لکھا:
اے احمق! اگر ہم حق پر ہیں ، تو ہم نے اپنے حق کا دفاع کیا ہے اور اگر ہم حق پر نہیں ہیں تو سب سے پہلے اسکی بنیاد آپ کے والد نے رکھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚حوالہ جات
1▪️ بحار الانوار، ج 44، ص 365؛
2▪️ قصه کربلا، ص 156؛
3▪️ امالی شیخ صدوق، مجلس 30، ح 1.
4▪️ الاستیعاب، ابن عبد البر، قاهره، الفجاله، ج 3، ص 950.
5▪️ بحار الانوار، ج 45، ص 328.