تحریر: تصورعباس خان

اہل بیت کا فرمان ہے پست لوگوں کو کھانا کھانے میں مزا آتا ہے جبکہ کریم لوگوں کو کھانا کھلانے میں ۔ جی ہاں ایثار ،فداکاری و سخاوت اور تعاون  ایسے اعلی مفاھیم ہیں کہ اگر معاشرے میں ان پر عمل شروع ہو جائے تو معاشرے کی تقدیر ہی بدل جائے ۔ اگرچہ آج کل بہت سی این جی اوز ، خیراتی ادارے ، مختلف فاونڈیشنز اس میدان میں کام کر رہی ہیں لیکن ان کے پشت پردہ مقاصد اور مدد کرنےکے طریقہ کار پر بہت سے سوال اٹھتے رہے ہیں اور اٹھ رہے ہیں  ، لیکن کریم لوگوں کا مقصد صرف اور صرف رضای خدا ہوتا ہے ۔وہ نا صرف اس آیت کا مصداق ہوتے ہیں کہ لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلا شُكُورًا، نا لوگوں کی جزاا کا طمع ہوتاہے اور نا شکریہ ادا کروانے کا شوق ۔بلکہ الٹا کہتے ہیں کہ ہم نے یہ احسان سائل پر نہیں کیا بلکہ سائل کا ہم پر احسان ہے کہ ہمیں اس قابل سمجھا اور ہم سے حاجت طلب کی ۔

امام حسن مجتبی علیہ السلام جنہیں کریم اہل بیت کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ، جب محفل میں آئے شخص کو دیکھا جو امام حسن علیہ السلام کے اردگرد بیٹھے زیادہ افراد کو دیکھ کر سوال کرنے سے جھجھک رہا تھا تو امام نے اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کی مشکل کو بھانپ لیا اور اشارہ کیا کہ اگر کوئی بات ہے تو لکھ کر دے دیں ۔ جب اس نے لکھ کر دی اور جاتے ہوئے لوگوں نے دیکھ لیا کہ کتنا مال لے کر جا رہا ہے تو سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ کتنی بابرکت تحریر تھی ۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : اس کی نسبت ہمارے لیے برکت زیادہ تھی کہ اس نے ہمیں اس احسان و نیکی کے قابل سمجھا اور ہم سے سوال کیا ۔۔۔۔حسن ابطحی ، امام مجتبی صفحہ ۱۸۵

سائل کی عزت نفس کو مجروح کیے بغیر عطا کر دینا کریم کی ہی صفت ہے ۔ رسول اکرم ص اور امیرالمومنین علیہ السلام کے صدقات اور موقوفات بڑا بیٹا ہونے کے ناطے سب امام حسن علیہ السلام کی زیر نگرانی چل رہے تھے اور ان سے مدینہ میں دو طرح کے انکم و راشن سپورٹ پروگرام چل رہے تھے بعض ایسے غریب ، یتیم اور بیوگان تھیں جنہیں ماہانہ کی بنیاد پر خرچ اور راشن پہنچ رہا تھا تو دوسری انفرادی مدد تھی ۔ یہ انفرادی مدد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ کریم کا لقب زبان زد عام تھا ۔اور جب لوگ آپ سے پوچھتے کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی نہیں گیا چاہے آپ پیدل ہوں یا اونٹ پر سوار ؟ تو امام علیہ السلام فرماتے : میں بھی خداوندمتعال کی بارگاہ میں سائل اور محتاج ہوں اور چاہتا ہوں کی خداوندمتعال مجھے اپنے در سے خالی نا لوٹائے ۔ اس امید کی وجہ سے میں خدا کی مخلوق کو کیسے خالی ہاتھ لوٹا  سکتا ہوں ؟خداوندمتعال نے مجھے بے پناہ نعمتیں عطا کی ہیں اور چاہتا ہے کہ میں بھی اس کی مخلوق کی مدد کروں ۔ ڈرتا ہوں کہ اگر لوگوں کی مدد نا کروں تو خداوندمتعال بھی اپنی نعمتیں روک نا دے ۔بحار الانوار جلد ۴۳صفحہ ۳۴۲      اب آج کے دور میں کتنی ایسی این جی اوز یا فاونڈیشنز ہیں جو اس مبنی اور نظریہ کے پیش نظر کام کر رہی ہوں ؟

موقوفات اور صدقات کے ساتھ ساتھ امام حسن علیہ السلام اپنے ذاتی مال کو بھی خداوندمتعال کی راہ میں خرچ کر دیتے  روایات کے مطابق امام حسن علیہ السلام نے تین مرتبہ اپنے تمام مال و اموال کر راہ خدا میں تقسیم کر دیا یہاں تک کہ جوتے ، لباس و پیسے سب میں لوگوں کو شریک کیا اور ان میں تقسیم کیا {کتاب الحیاۃ ، جلد۳ صفحہ۲۹۹)

یہ سب کچھ صرف اور صرف ایمان کی بنیاد پر ہو سکتا ہے جب خدا پر پختہ ایمان ہو کہ روزی اس کے ہاتھ میں ہے تو وہ کبھی بخل سے کام نہیں لے گا ۔ امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بخل تمام برائیوں کی جڑ ہے جو دوستی اور محبت کو دلوں سے غائب کر دیتا ہے  جی ہاں جس معاشرے میں بخل سے کام لیا جاتا ہو ایک دوسرے کی مدد نا کی جاتی ہو ایک دوسرے کا قرض اتارنے میں مدد نا ہو ، تو وہاں محبتیں غائب ہو جایا کرتی ہیں جسم تو ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے ہیں لیکن دلوں کے فاصلے کوسوں دور ہو جایا کرتے ہیں ۔ امام حسن علیہ السلام نے دوسری جگہ فرمایا : بخل یہ ہے کہ انسان خدا کی راہ میں خرچ کیے مال کو ضائع اور اکٹھے کیے گئے مال کو غنیمت شمار کرے (مصطفی موسوی ، الروائع المختارہ ، صفحہ ۱۱۶؛  باقر شریف القرشی حیاۃ الامام الحسن علیہ السلام جلد ۱ صفحہ ۳۱۹،) ، اس لیے ہم نے پہلے عرض کیا کہ انفاق خدا پر ایمان کی صورت میں ہو سکتا ہے جب انسان کو ڈر ہو کہ اگر ان پیسوں سے فلاں کی مدد کر دوں گا تو میرے پاس کچھ نہیں بچے گا پھر کہاں سے لوں گا وغیرہ وغیرہ تو یہ ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہے حالانکہ خداوندمتعال نےاپنی راہ میں خرچ کیے مال کی ایک خوبصورت مثال قرآن میں ذکر کی ہے ۔جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کردیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی۔

اعتکاف ایک عظیم عبادت کہلاتی ہے لیکن جب امام حسن علیہ السلام اعتکاف میں تھے تو ایک شخص آیا اور عرض کی سر پر قرضہ ہے اور قرضہ اتارنے کی طاقت نہیں قرض دار جیل بھیجنا چاہتا ہے تو امام علیہ السلام نے فرمایا : ایسے وقت میں آئے ہیں کہ آپ کا قرض اتارنے کےلیے پیسے نہیں ہیں ۔ تو اس نے عرض کی پھر آپ بڑی ہستی ہیں اگر آپ سفارش کر دیں گے تو قرض دار شاید مہلت دے دے ۔ تو امام علیہ السلام فورا کھڑے ہو کر اس کے ساتھ چل پڑے ۔ ساتھ بیٹھے صحابی نے عرض کی کہ کیا آپ بھول گئے ہیں کہ آپ اعتکاف میں بیٹھے ہیں ؟ تو فرمایا : بھولا نہیں ہوں میرے والد بزرگوار نے رسول اکرم سے نقل فرمایا ہے کہ جو ایک دینی بھائی کی مشکل حل کرنے میں قدم اٹھائے تو وہ ایسا ہے جس نے ہزار سال خدا کی عبادت کی ہو جس میں دن کو روزے  رکھے اور رات کو نماز میں وقت گزارے  ۔

اگرچہ کبھی سائل کو خالی نا لوٹاتے لیکن اس بات کا بھی خیال رکھتے کہ ایسا نا ہو سب گداگر بن جائیں اور مانگنے پر جٹ جائیں اس لیے فرماتے : تین مواقع کے علاوہ کسی سے سوال کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔

پہلا : سنگین اور زیادہ قرضہ جیسے دیت وغیرہ

دوسرا :غربت جو انسان کو زمین گیر کر دے

تیسرا : یکدم آنے والی پریشانیاں اور امتحانات جیسے آسمانی آفت یا بیماری کا یکدم آنا

والسلام