قیام امام حسین ع کے مقاصد قسط 17
ج۔ مکہ سے کربلا کے راستے میں ملاقاتیں
7 حر بن یزید ریاحی
امام حسین علیہ السّلام 27 ذی الحج بروز اتوار مقام «ذوحسم» پر پہنچے. اسی دن حر بن یزید ریاحی بھی ایک ہزار افراد کا لشکر لے کر امام ع کے راستے پر پہنچ گیا، حر کے سپاہی پیاسے تھے؛ امام ع نے اس کے مدنظر حر کے لشکر اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلانے کا حکم دیا، اور امام ع نے خود بھی اس کام میں حصہ لیا اور بعض افراد جیسے علی ابن طعان وغیرہ کو بھی اور ان کے گھوڑوں کو بھی پانی پلایا.
ظہر کے وقت امام ع نے ایک مختصر خطبہ دیا اور فرمایا: میں اگر تمہاری طرف آیا ہوں تو تمہارے بھیجے گئے خطوط جو مجھے ملے ہیں، اور تمہارے بھیجے گئے قاصدوں کی وجہ سے جو میرے پاس آئے ہیں، جس میں تم نے میرے آنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے . اگر تم اپنے وعدے پر قائم ہو تو میں تہمارے شہر میں آؤں گا، اور اگر میرے آنے پر خوش نہیں ہو تو میں واپس لوٹ جاؤں گا.
حر نے امام ع کے سامنے خاموشی اختیار کر لی، امام ع نے حجاج بن مسروق کو حکم دیا کہ اذان و اقامت پڑھے؛ پھر حر سے فرمایا:
تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھو گے؟ عرض کیا: نہیں، ہم آپ کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے. نماز ظہر ختم ہوئی اور ہر کوئی اپنی جگہ پر پلٹ گیا. اس کے بعد امام ع نے دوبارہ کوفیوں کی طرف سے دعوت اور ان کے خطوط کا تذکرہ کیا. حر نے جواب دیا: ہم ان خط لکھنے والوں میں سے نہ تھے اور ہمیں فقط آپ کا راستہ روکنے اور آپ کو عبید اللّہ بن زیاد کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے. خوارزمی کہتا ہے کہ امام ع نے تبسّم کیا اور فرمایا:
اَلْمَوْتُ اَدْنی اِلَیک مِنْ ذلِک ؛
اس تجویز کی نسبت موت تمہارے زیادہ قریب ہے .
پھر امام ع نے اپنے قافلے کے ساتھ واپسی کا ارادہ کیا؛ لیکن حر اور اس کے لشکر نے رکاوٹ ڈالی، تو امام ع نے فرمایا: تیری ماں تیرے غم میں روئے!
تو کیا چاہتا ہے؟ حر نے کہا: اگر آپ کے علاوہ کوئی اور ایسا کہتا، تو میں اسے کبھی معاف نہیں کرتا؛ لیکن خدا کی قسم آپ کی ماں کا نام سوائے اچھائی بیان کرنے کے، نہیں لے سکتا.
پھر کہا: مجھے جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا؛ لیکن اس بات پر مأمور ہوں کہ جب تک آپ کو کوفے نہ لے جاؤں آپ سے جدا نہ ہوں ؛ اگر آپ کوفہ آنے سے انکار کرتے ہیں تو پھر ایسا راستہ اختیار کرو کہ جو نہ کوفہ کو جائے اور نہ ہی مدینہ کو تاکہ اتنے میں ابن زیاد کا حکم نامہ پہنچ جائے. اور آپ بھی یزید کے نام خط لکھیں ہو سکتا ہے معاملہ صلح و عافیت پر ختم ہو جائے، اور میرے خیال کے مطابق بھی صلح کا راستہ آپ سے جنگ کرنے سے بہتر ہے.
ذوحسم کے مقام پر دیے گئے خطبے میں امام ع نے فرمایا:
«اَنَّهُ قَدْ نَزَلَ مِنَ الْاَمْرِ ما قَدْ تَرَوْنَ... اَلا تَرَوْنَ اَنَّ الْحَقَّ لا یعْمَلُ بِهِ وَاَنَّ الْباطِلَ لا یتَناهی عَنْهُ لِیرْغَبَ الْمُؤْمِنُ فِی لِقاءِ اللَّهِ مُحِقّاً فَاِنِّی لا اَرَی الْمَوْتَ اِلَّا شَهادَةً وَلَا الْحَیاةَ مَعَ الظَّالِمِینَ اِلَّا بَرَماً»
تم جو کچھ واقع ہونے والا ہے اسی کو دیکھ رہے ہو لیکن تم یہ نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل کو ترک نہیں کیا جا رہا؟
مومن کو چاہیے کہ وہ لقاء الہی کی طرف رغبت پیدا کرے، میری نگاہ میں موت، شہادت کے سوا کچھ نہیں، اور میں ستم گران کے ساتھ رہنے کو ذلت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا.
حر نے امام ع کو قتل ہو جانے سے ڈرایا، امام ع نے فرمایا: اَفَبِالْمَوْتِ تُخَوِّفُنِی؟ هَیهات طاشَ سَهْمُک وَخابَ ظَنُّک؛ تو مجھے موت سے ڈراتا ہے! ایسا بالکل نہیں ہے، تیرا تیرخطا ہو گیا ہے اور تیرا اندازہ غلط نکلا ہے.
اس وقت امام ع نے شہادت کی فضیلت میں اشعار پڑھے ان میں سے ایک یہ ہے:
سَاَمْضِی وَما بِالْمَوْتِ عارٌ عَلَی الْفَتی اِذا ما نَوی حَقّاً وَجاهَدَ مُسْلِماً
میں دنیا سے چلا جاؤں گا اور جوان کے لئے موت کوئی ننگ و عار نہیں، لیکن شرط یہ ہے خدا کی راہ میں اس کی خوشنودی کے لئے موت واقع ہو اور خلوص سے جہاد کرے.
البیضہ کے مقام پر بھی امام ع نے حر اور اس کے لشکر سے خطاب کیا اور فرمایا:
اَیهَا النَّاسُ اِنَّ رَسُولَ اللَّه قالَ مَنْ رَای سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلّاً لِحَرامِ اللَّهِ ناکثاً عَهْدَهُ مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ یعْمَلُ فِی عِبادِ اللَّهِ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوانِ فَلَمْ یغَیرْ عَلَیهِ بِفِعْلٍ وَلا قَوْلٍ کانَ حَقّاً عَلَی اللَّهِ اَنْ یدْخِلَهُ مُدْخَلَهُ؛
اے لوگو! رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:
جو شخص ایسے حاکم کو دیکھے کہ جو خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دے، وعدہ الہی کو توڑے، سنت رسول ص کی مخالفت کرے اور خدا کے بندوں پر ظلم روا رکھے؛ اور وہ شخص زبانی یا عملی طور اس کی مخالف میں کھڑا نہ ہو تو خدا کو حق حاصل ہے کہ اسے جہنم میں داخل کرے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚حوالہ جات
1▪️ مقتل الحسین، ج1، ص233
2▪️تاریخ طبری ،ج5،ص 403
3▪️ کامل ابن اثیر ،ج4،ص48
4▪️ قصہ کربلا ص196
5▪️ مقتل الحسین ، مقرم ، ص 184