آگے بڑھو اب تم اللہ کی امان میں ہو


امام جعفر صادق علیہ السلام ایک قافلے میں شامل ہو کر سفر پر جا رہے تھے کہ راستے میں قافلے والوں کو اطلاع ملی کہ اس علاقے میں ڈاکووں کا راج ہے اور عین ممکن ہے کہ اس قافلے کو بھی غارت کریں ۔ سب لوگ ڈر گئے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : کیا ہوا ہے اور لوگ ڈرے ہوئے کیوں ہیں ؟ جواب دیا : علاقہ خطرناک ہے اور ہمارے پاس مال و متاع بھی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں ہمارا مال بھی آپ اپنے پاس رکھ لیں ہو سکتا ہے آپ کے احترام کی وجہ سے آپ سے نا لیں ۔

امام نے فرمایا : کیا پتہ ہو سکتا ہے وہ صرف میرا مال ہی لے جائیں ۔
لوگوں نے کہا : اب کیا کریں ؟

امام نے فرمایا : اس کے پاس امانت رکھ دیں جو اس مال کی حفاظت کرے اور اس کا خیال رکھے بلکہ اس میں اضافہ کرے اور ایک درھم کو (اجر وثواب کے لحاظ سے) دنیا سے بھی بڑا بنا دے ۔ جب تمہیں ضرورت پڑیں تو لوٹا دے

عرض کیا: وہ کون ہے ؟

جواب دیا : رب العالمین

عرض کیا : کیسے اللہ کے حوالے کریں ؟

فرمایا : صدقہ دے دو

عرض کیا : اس بیابان میں مستحق کیسے ملے گا ؟

فرمایا: ایک تہائی مال کے صدقہ کی نیت کر لیں (جب شہر پہنچنا ادا کر دینا ) تا کہ تمہارا سب مال و متاع محفوظ رہے

لوگوں نے نیت کر لی ۔امام نے فرمایا : فَاَنْتُم فِى امانِ اللهِ فَامْضَوْا ۔۔۔ پس اب اللہ کی امان میں ہو آگے بڑھو

قافلہ تھوڑا ہی آگے بڑھا تھا کہ ڈاکووں نے قافلے کو گھیر لیا ۔سب گھبرا گئے ۔امام نے فرمایا : کیوں ڈرتے ہو ؟ اب تم اللہ کی امان میں ہو ۔

ڈاکووں نے امام علیہ السلام کو دیکھا اور امام کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور ڈاکوں کے سردار نے کہا : رات میں نے خواب میں رسول خدا کو دیکھا ہے حکم دیا کہ آپ کی خدمت میں پہنچیں اور اس خطرناک علاقے سے آپ کو صحیح سالم گزاریں تا کہ ڈاکووں کا دوسرا کوئی گروہ حملہ نا کر دے۔

امام نے فرمایا : آپ کی ضرورت نہیں ہے (کہ ہماری حفاظت کریں)جس نے آپ سے بچایا ہے وہ دوسروں سے بھی بچائے گا ۔ قافلہ شہر پہنچا ۔ قافلے والوں نے نیت کے مطابق ایک تہائی مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا ۔ باقی سے تجارت کی اور دس گنا زیادہ برکت پیدا ہوئی ۔سب نے تعجب کیا اور کہا: اتنی برکت ؟

فرمایا: اب خدا سے معاملہ کرنے کی برکت سے آگاہ ہو گئے ؟ پس اس کام کو جاری رکھو

(عیون اخبارالرضا650/1)