عید فطر احادیث کی روشنی میں
عید فطر احادیث کی روشنی میں
1۔ عید کی شب بیداری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
"مَن أحیا لَیلةَ العِیدِ ولَیلةَ النِّصفِ مِنشَعبانَ، لَم یمُتْ قَلبُهُ یومَ تَموتُ القُلوبُ‘‘
’’جو بھی عید (فطر و ضحیٰ) اور نصف شعبان کی راتوں کو شب بیداری کرے اس کا دل اس دن مُردگی کا شکار نہیں ہوگا جب لوگوں کے دل مر جاتے ہیں‘‘۔
(ثواب الاعمال، ج1، ص102، ح2)
2۔ عبادات مقبولہ کی عید
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
"إنَّما هُوَ عِیدٌ لِمَن قَبِلَ اللَّهُ صِیامَهُ وشَكَرَ قِیامَهُ وكُلُّ یومٍ لا یُعصَى اللَّهُ فیهِ فهُوَ عیدٌ‘‘
’’آج صرف ان لوگوں کی عید ہے جن کے روزوں کو اللہ نے قبول فرمایا ہو، اور اس کی شب زندہ داریوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور ہر وہ دن عید ہے جب اللہ کی نافرمانی انجام نہ پائے”۔
(نہج البلاغہ دشتی، حکمت 428)
3۔ یہ تمہارے لئے عید ہے اور تو اس کے اہل ہو
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
"ألا وإنَّ هذا الیومَ یومٌ جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُم عِیداً وجَعَلَكُم لَهُ أهلاً، فَاذكُرُوا اللَّهَ یذكُركُم وَادْعُوهُ یستَجِب لَكُم‘‘
’’جان لو کہ اللہ نے آج کے دن کو تمہارے لئے عید قرار دیا اور تمہیں اس کا اہل قرار دیا، تو اللہ کو یاد کرو، تاکہ وہ بھی تمہیں یاد کرے اور کی بارگاہ میں دعا کرو تا کہ وہ استجابت فرمائے”۔
(من لایحضره الفقیه، ج1، ص517)
4۔ زکوۃ فطرہ کا دن
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
"مَن أدّى زكاةَ الفِطرَةِ تَمَّمَ اللَّهُ لَهُ بها ما نَقَصَ مِن زكاةِ مالِهِ‘‘
’’جو بھی زکوۃ فطرہ دیدے، خداوند متعال اس کی برکت سے اس کمی کو پورا کرتا ہے جو زکوۃ دینے کے بموجب اس کے مال میں واقع ہوئی ہے”۔
( وسائل الشیعہ، ج6، ص220، ح4)
5۔ عید فطر کی دعا
امام علی بن الحسین السجاد علیہ السلام نے فرمایا:
"اللَّهُمَّ إِنَّا نَتُوبُ إِلَيْكَ فِي يَوْمِ فِطْرِنَا الَّذِي جَعَلْتَهُ لِلْمُؤْمِنِينَ عِيداً وَ سُرُوراً وَلِأَهْلِ مِلَّتِكَ مَجْمَعاً وَ مُحْتَشَداً‘‘
’’بار پروردگارا! ہم تیری طرف پلٹ آتے اپنے فطر کے دن، جسے تو نے عید اور شادمانی قرار دیا ہے، اور اپنی ملت (امت مسلمہ) کے لئے اجتماع اور باہمی تعاون کا دن”۔
(صحیفہ سجادیہ، دعاء نمبر 45)
6۔ عید فطر انعامات وصول کرنے کا دن
"عن جابر عن أبي جعفر (عليه السلام) قال: قَالَ النَّبيُّ (صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ) إذا كانَ أَوَلَ يَوْمٍ مِنْ شَوَّالٍ نادَی مُنادٍ: أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ اغْدُوا إِلَی جَوَائِزِكُمْ ثُمَّ قَالَ يَا جَابِرُ جَوَائِزُ اللَّهِ لَيْسَتْ بِجَوَائِزِ هَؤُلَاءِ الْمُلُوكِ ثُمَّ قَالَ هُوَ يَوْمُ الْجَوَائِز‘‘
جابر امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
’’جب شوال کی پہلی تاریخ (عید فطر) آ پہنچتی ہے تو منادی اللہ کی طرف سے ندا دیتا ہے کہ "اے مؤمنو! صبح کو اپنے انعامات لینے نکلے، (جو اللہ کی طرف سے روزہ دار مؤمنین کے لئے فراہم کئے گئے ہیں)” اور پھر فرمایا: "اے جابر! اللہ کے انعامات ان دنیاوی بادشاہوں کے انعامات جیسے (مادی اور فانی) نہیں ہیں”! (بلکہ ہی عمدہ اور ناقابل بیان اور نہایت عظیم ہیں)! اور پھر فرمایا: اور پھر فرمایا: "آج انعامات وصول کرنے کا دن ہے”۔
(وسائلالشیعۃ، ج5، ص140)
7۔ زکوۃ فطرہ روزے کی تکمیل
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"إِنَّ مِنْ تَمَامِ اَلصَّوْمِ إِعْطَاءُ اَلزَّكَاةِ يَعْنِي اَلْفِطْرَةَ كَمَا أَنَّ اَلصَّلاَةَ عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ مِنْ تَمَامِ اَلصَّلاَةِ لِأَنَّهُ مَنْ صَامَ وَلَمْ يُؤَدِّ اَلزَّكَاةَ فَلاَ صَوْمَ لَهُ إِذَا تَرَكَهَا مُتَعَمِّداً وَلاَ صَلاَةَ لَهُ إِذَا تَرَكَ اَلصَّلاَةَ عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ‘‘
’’روزے کی تکمیل زکوۃ فطرہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ پر صلوات بھیجنا نماز کی تکمیل ہے؛ کیونکہ جو روزہ رکھے اور زکوۃ فطرہ کی ادائیگی کو جان کر ترک کرے تو گویا کہ اس کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں ہے؛ جیسا کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ پر درود و سلام ترک کردے، تو اس کی نماز کا کوئی فائدہ نہیں ہے”۔
( وسائل الشیعہ، ج6، ص221)
8۔ سیاسی، سماجی اور انفرادی عبادات کا دن
امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا:
"انّما جُعِلَ یَوْمُ الفِطْر العیدُ، لِیكُونَ لِلمُسلِمینَ مُجْتمعاً یَجْتَمِعُونَ فیه و یَبْرُزُونَ لِلّهِ عزّوجلّ فَیُمجّدونَهُ عَلى ما مَنَّ عَلیهم، فَیَكُونُ یَومَ عیدٍ ویَومَ اجتماعٍ وَ یَوْمَ زكاةٍ وَ یَوْمَ رَغْبةٍ و یَوْمَ تَضَرُّعٍ وَلأَنَّهُ اَوَّلُ یَوْمٍ مِنَ السَّنَةِ یَحِلُّ فِيهِ الاَكلُ وَالشُّرْبُ لاَنَّ اَوَّلَ شُهُورِ السَّنَةِ عِنْدَ اَهْلِ الْحَقِّ شَهْرُ رَمَضانَ فَأَحَبَّ اللّه ُ عَزَّوَجَلَّ اَنْ يَكُونَ لَهُمْ في ذلِكَ مَجْمَعٌ يَحْمِدُونَهُ فِيهِ وَيُقَدِّسُونَهُ‘‘
’’فطر کے دن کو عید قرار دیا گیا تا کہ مسلمانوں کے لئے اجتماع کا دن ہو جس میں وہ اجتماع کرتے ہیں اور اللہ کے سامنے نمایاں ہوتے ہیں اور اس کی تمجید کریں ان احسانات پر جن سے اللہ نے انہیں نوازا ہے؛ تو یہ عید کا دن ہے، اور اجتماع کا دن ہے، اور زکوۃ کا دن ہے اور (اللہ اور اس کی بیان کردہ نیکیوں کی طرف) رغبت کا دن ہے، اور درگاہ رب کریم میں گڑگڑانے کا دن ہے؛ اور اس لئے کہ یہ دن پہلا دن ہے جب کھانا پینا جائز ہوجاتا ہے، کیونکہ اہل حق کے ہاں سال کا پہلا مہینہ رمضان ہے، پس اللہ دوست رکھتا ہے کہ مسلمان اس دن کو اجتماع منعقد کریں، اور اس دن اس کی حمد و ثناء کریں اور اس کی تقدیس کریں”۔
(عیون اخبار الرضا علیہ السلام، ج1، ص122، من لایحضره الفقیہ، ج1، ص522، وسائل الشیعۃ، ج7، ص481، ح4)
9۔ تکبیر و تکریم کا دن
امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا:
"فَإِنْ قَالَ (قائلٌ) فَلِمَ جُعِلَ التَّكْبِيرُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْهُ فِي غَيْرِهَا مِنَ الصَّلَاةِ قِيلَ لِأَّنَّ التَّكْبِيرَ إِنَّمَا هُوَ تَكْبِيرٌ لِلَّهِ وَ تَمْجِيدٌ عَلَى مَا هَدَى وَ عَافَى‘‘
’’اگر کسی کہنے والے نے کہا کہ عید کے دن تکبیریں دوسرے دنوں کی نسبت کیوں زیادہ قرار دی گئی ہیں تو کہا جائے گا کہ تکبیر، بےشک اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور تعظیم وتکریم ہے اس کی ہدایتوں اور نعمتوں پر”۔
(عیون اخبار الرضا علیہ السلام، ج1، ص122 ، من لایحضره الفقیہ، ج1، ص522،وسائل الشیعۃ، ج7، ص481، ح4)