سلام کرنے کی فضیلت و اہمیت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلام کرنے کی فضیلت و اہمیت
قرآن اور روایات محمد و آل محمد علیہم السلام کی روشنی میں
اسلام سراپا امن وسلامتی اور عافیت کا مذہب ہے، دنیا وآخرت کی مکمل فلاح وکا مرانی اسی بابرکت دین سے وابستہ ہے ،سراپا امن وسلامتی سے عبارت اس دین برحق کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں پر کبھی شدت وتنگی اور جبروتشدد کو روا نہیں رکھتا ہے، بلکہ ہر ممکن آسانی اور سہولت کا طریقہ اپناتا ہے، چنانچہ اس نے اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق احکامات سے آگاہ کیا ہے، اسلام جہاں اپنے ماننے والوں کو اعتقادات وعبادات کی تعلیم دیتا ہے، وہیں معاملات، معاشیات اوراقتصادیات کے آداب اور طریقے بھی بتلاتا ہے، غرض کوئی گوشہ نہیں ہے جس کے متعلق اسلام کے زریں احکامات وارد نہ ہوئے ہوں، باہمی اتحاد، آپس کے میل ملاپ او رایک اچھے معاشرے کی تشکیل کیلئے باہمی رابط انتہائی ناگزیر ہے، اس لیے قرآن کریم اور روایات حضرات محمد و آل محمد ؑنے متعدد مقامات پر اس کی اہمیت پر زور دیا او رایک دوسرے سے ملتے وقت کا طریقہ ادب بھی بتلایا ہے کہ جب دو مسلمان آپس میں ملاقات کریں تو سلام کریں، یہ باہمی محبت والفت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔
ایک دوسرے کو سلام کرنا ایک اسلامی شعار ہے، جو آپس میں محبت پیدا کرکے بہت سی معاشرتی بیماریوں کو ختم کر دیتا ہے، سلام اظہار محبت و مودت اور رقت قلبی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کی وجہ سے غیظ وغضب سے بھرپور آنکھیں شرمگیں اور دشمن کا آہنی دل بہت جلد موم ہو جاتا ہے۔
مدینہ پہنچنے کے بعد آپ ﷺ نے جو سب سے پہلا خطبہ ارشاد فرمایا ، اس میں تین باتوں کا خاص اہتمام فرمایا، جن میں سب سے پہلے سلام کو رواج دینا ہے کہ جس سے بھی ملاقات ہو اس کو سلام کیا جائے، چاہے جان پہچان کا ہو یانہ ہو، ہر ایک کو سلام کرے، اس سے آپس میں محبت اور تعلق پیدا ہوتا ہےیہی وجہ ہے کہ قرآن و احادیث میں اس کی فضیلت واہمیت پر کافی روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کے رواج پر جنت میں داخلہ کی بشارت بھی سنائی گئی ہے۔
سلام کے معا نی
سلام سے مراد دراصل سلامتی ، امن اور عا فیت ہے ۔ سلامتی میں انسان کی ساری زندگی اس کے معمولات ، تجارت ، اس کی زراعت اور اس کے عزیزو اقا رب گویا معاشرتی زندگی کے سب پہلو ، دین دنیا اور آخرت شامل ہوتے ہیں ۔راغب اصفہانی نے المفردات میں لکھا ہے :
السلام التعري من الآفات الظاهرة والباطنة یعنی ظاہری اور باطنی آفات و مصائب سے محفوظ رہنا
پس جب ہم کسی کو "اسلام علیکم " کہتے ہیں تو اس کا یہ معنی ہوتا ہے کہ "تم جسمانی ، ذہنی اور روحا نی طور پر عافیت میں رہو "تمہاری دنیا اور آخرت کی زندگی کے تمام معمولات اور انجام ،امن اور عافیت والے ہوں ۔
جیسا کہ کہا گیا ہے کہ "سلام" خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور اس کا مطلب ہے عیب اور نقصان سے حفاظت، پس جو شخص سلام بھیجتا ہے وہ درحقیقت دوسرے کے عیب اور نقصان سے محفوظ رہنے کی خواہش کرتا ہے۔
سلام کرنے کے آداب
گفتگو شروع کرنے سے پہلے سلام کریں
اضافہ کے ساتھ سلام کا جواب دیں
چھوٹا بڑے کو سلام کرے ، گذرنے والا بیٹھے ہوئے کو ، سوار پیدل چلنے والے کو،پیدل چلنے والا کھڑے ہوئے کو سلام کرے
جب گھر ایسی حالت میں آئے کہ سب سو رہے ہوں تو آہستہ آواز میں اس قدر سلام کریں کہ سونے والوں کو کوئی دقت نا ہواور جاگنے والے سن بھی لیں
جب کسی کوسلام پہونچانے کی وصیت کی جائے تو وہ اس کو پورا کرو ، اور جن کو سلام کا پیغام بھیجا گیا ہو وہ اس طرح سے جواب دیں:[علیک وعلیہ السلام]اگر سلام بھجنے والی خاتون ہیں تو انہیں اس طرح جواب دیں [علیک وعلیھا السلام]
قضائے حاجت کے وقت سلام کا جواب نا دیا جائے
سلام میں پہل کرنے والا جواب دینے والے سے افضل ہے
گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت اہل خانہ کو سلام کریں
سلام کرتے اور سلام کا جواب دیتے ہوئے مسکرانا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے
یاد رہے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے جبکہ سلام کرنا سنت ہے
سلام کرنے کے فوائد
آپس میں محبت پیدا ہوگی
جنت میں داخلہ کا سبب ہے
سلام کرنا حسن تعامل کی علامت ہے اس سے لوگوں کاآپسی حق ادا ہوتا ہے
اس سے تواضع پسندی عیاں ہوتی ہے
سلام گناہوں کے بخشش کا ذریعہ ہے
قرآن کریم میں سلام کرنے کا بیان
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ [1]
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو
اذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوۡمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ [2]
جب وہ (فرشتے) اُن کے پاس آئے تو انہوں نے سلام پیش کیا، ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی (جواباً) سلام کہا، (ساتھ ہی دل میں سوچنے لگے کہ) یہ اجنبی لوگ ہیں۔
اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا [3]
انہی لوگوں کو (جنت میں) بلند ترین محلات ان کے صبر کرنے کی جزا کے طور پر بخشے جائیں گے اور وہاں دعائے خیر اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا۔
فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً [4]
جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) پر سلام کہا کرو (یہ) اللہ کی طرف سے بابرکت پاکیزہ دعا ہے ۔
وَ اِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ [5]
اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پرایمان رکھتے ہیں تو آپ (ان سے شفقتًا) فرمائیں کہ تم پر سلام ہو تمہارے رب نے اپنی ذات (کے ذمّہ کرم) پر رحمت لازم کرلی ہے
وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡھَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا [6]
اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو، یا انہی الفاظ سے جواب دو، اللہ یقینا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
فَاصۡفَحۡ عَنۡہُمۡ وَ قُلۡ سَلٰمٌ ؕ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡن [7]
پس آپ ان سے منہ پھیر لیں اور کہہ دیں ۔ ( اچھا بھائی ) سلام! انہیں عنقریب ( خود ہی ) معلوم ہو جائے گا ۔
وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ [8]
اور اپنے رب سے ڈرنے والوں کو گروہ درگروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے اور اس کے داروغے ان سے کہیں گے: تم پر سلام ہو،تم پاکیزہ رہے تو ہمیشہ رہنے کوجنت میں جاؤ۔
سَلٰمٌ ۟ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِیۡمٍ [9]
(تم پر) سلام ہو، (یہ) ربِّ رحیم کی طرف سے فرمایا جائے گا۔
سَلٰمٌ عَلٰی نُوۡحٍ فِی الۡعٰلَمِیۡنَ [10]
سلام ہو نوح پر سب جہانوں میں
قِیۡلَ یٰنُوۡحُ اہۡبِطۡ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ؕ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمۡ ثُمَّ یَمَسُّہُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ [11]
فرمایا گیا: اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (کشتی سے) اتر جاؤ جو تم پر ہیں اور ان طبقات پر ہیں جو تمہارے ساتھ ہیں، اور (آئندہ پھر) کچھ طبقے ایسے ہوں گے جنہیں ہم (دنیوی نعمتوں سے) بہرہ یاب فرمائیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب آپہنچے گا
وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا [12]
اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن، اور میری وفات کے دن، اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا
سَلَامٌ عَلٰى مُوْسٰى وَهَارُوْنَ [13]
کہ موسٰی اور ہارون پر سلام ہو۔
سَلَامٌ عَلٰٓى اِلْ يَاسِيْنَ [14]
کہ ال یاسین پر سلام ہو
وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَ [15]
اور رسولوں پر سلام ہو۔
اِنَّ اللّـٰهَ وَمَلَآئِكَـتَهٝ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا [16]
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو۔
اَلَّـذِيْنَ تَـتَوَفَّاهُـمُ الْمَلَآئِكَـةُ طَيِّبِيْنَ ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّـةَ بِمَا كُنْتُـمْ تَعْمَلُوْنَ [17]
جن کی جان فرشتے قبض کرتے ہیں ایسے حال میں کہ وہ پاک ہیں، فرشتے کہیں گے تم پر سلامتی ہو بہشت میں داخل ہوجاؤ بسبب ان کاموں کے جو تم کرتے تھے۔
قُلِ الْحَـمْدُ لِلّـٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّـذِيْنَ اصْطَفٰى ۗ آللَّـهُ خَيْـرٌ اَمَّا يُشْرِكُـوْنَ [18]
کہہ دے سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے، بھلا اللہ بہتر ہے یا جنہیں وہ شریک بناتے ہیں۔
تَحِيَّتُهُـمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهٝ سَلَامٌ ۚ وَّاَعَدَّ لَـهُـمْ اَجْرًا كَرِيْمًا [19]
جس دن وہ اس سے ملیں گے ان کے لیے سلام کا تحفہ ہوگا، اور ان کے لیے عزت کا اجر تیار کر رکھا ہے۔
روایات میں سلام کرنے کا بیان
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
فاذا دخلت بیتک فسلم علیہم یکثر خیرک [20]
جب تم اپنے گھر میں داخل ہو جاؤ تو گھر والوں پر سلام کرو تمہاری بھلائی میں اضافہ ہو گا۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
مَنْ لَقِىَ عَشَرَةً مِنَ الْمُسْلِمينَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ كَتَبَ اللّهُ لَهُ عِتْقَ رَقَبَةٍ [21]
جو شخص دس مسلمانوں سے ملے اور ان کو سلام کرے اللہ تعالیٰ اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِذا سَلَّمَ الْمُسْلِمُ عَلَى الْمُسْلِمِ فَرَدَّ عَلَيْهِ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلائِكَةُ سَبْعِينَ مَرَّةً [22]
جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو سلام کرتا ہے اور وہ جواب دیتا ہے تو فرشتے اس پر ستر مرتبہ سلام بھیجتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
وَالَّذى نَفْسى بِيَدِهِ لاتَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتّى تُؤْمِنُوا، وَلاتُؤْمِنُونَ حَتّى تَحابُّوا، اَفَلا اَدُلُّكُمْ عَلى عَمَلٍ اِذا عَمِلْتُمُوهُ تَحابَبْتُمْ؟ قالُوا: بَلى يا رَسُولَ اللّهِ، قالَ: اَفْشُوا السَّلامَ بَيْنَكُمْ [23]
اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو گے جب تک کہ تم ایمان نہ لاؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز کی طرف رہنمائی کروں کہ جب تم اسے کرو گے تو تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے؟ کہا: ہاں یا رسول اللہ ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: سلام کرنے کو آپس میں پھیلاؤ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
خَيْرُكُمْ مَنْ اَطْعَمَ الطَّعامَ، وَاَفْشَى السَّلامَ وَ صَلّى وَالنّاسُ نِيامٌ [24]
تم میں سے بہتر وہ ہے جو کھانا کھلائے، سب کو سلام کرے اور رات کو اس وقت نماز پڑھے جب لوگ آرام کر رہے ہوں (یعنی نماز شب پڑھے)۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَلسَّلامُ مِنْ اَسْماءِ اللّهِ فَاَفْشُوهُ بَيْنَكُمْ، فَاِنَّ الرَّجُلَ الْمُسْلِمَ اِذا مَرَّبِالْقَوْمِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ فَاِنْ لَمْ يَرُدُّوا عَلَيْهِ يَرُدُّ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُمْ وَاَطْيَبُ [25]
سلام خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے، لہٰذا اسے آپس میں پھیلاؤ، جب کوئی مسلمان کسی گروہ کے پاس پہنچتا ہے اور انہیں سلام کرتا ہے، اگر وہ جواب نہیں دیتے تو ان سے بہتر اور پاکیزہ (یعنی فرشتے) جواب دیتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَنَّ لِلْمُسْلِمِ عَلى اَخيهِ الْمُسْلِمِ مِنَ الْمَعْرُوفِ سِتّا يُسَلِّمُ عَلَيْهِ اِذا لَقِيَهُ۔۔۔ [26]
ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں،جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے ملاقات کے وقت اسے سلام کرے ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَلا اُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ اَخْلاقِ اَهْلِ الدُّنْيا وَالاْخِرَةِ ؟ قالُوا : بَلى يا رَسُولَ اللّهِ ، فَقالَ : اِفْشاءُ السَّلامِ فِى الْعالَمِ [27]
کیا آپ پسند کریں گے کہ میں آپ کو دنیا اور آخرت کے لوگوں کے بہترین اخلاق بتاؤں؟ کہا: ہاں یا رسول اللہﷺ ، فرمایا: ان کا بہترین اخلاق دونوں جہانوں میں سلام کو پھیلانا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِنَّ فِى الْجَنَّةِ غُرَفا يُرى ظاهِرُها مِنْ باطِنِها، وباطِنُها مِنْ ظاهِرِها، يَسْكُنُها مِنْ اُمَّتِى مَنْ اَطابَ الْكَلامَ، وَاَطْعَمَ الطَّعامَ، وَاَفْشَى السَّلامَ، وَصَلّى بِاللَّيْلِ وَالنّاسُ نِيامٌ، ثُمَّ قالَ: اِفْشاءُ السَّلامِ اَنْ لايَبْخَلَ بِالسَّلامِ عَلى اَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمينَ [28]
جنت میں ایسے محلات اور کمرے ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے نظر آتا ہے اور اندرونی حصہ باہر سے ، میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے جو پاکیزہ بات کریں گے، سلام کریں گے اور رات کو اس وقت نماز شب پڑھیں گے جب لوگ سو رہے ہوں گے۔ پھر فرمایا: سلام کرنے سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو سلام کرنے میں بخل نہیں کریں گے ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِذا تَلاقَيْتُمْ فَتَلاقُوا بِالتَّسْلِيمِ وَالتَّصافُحِ وَاِذا تَفَرَّقْتُمْ فَتَفَرَّقُوا بِالاْءسْتِغْفارِ [29]
جب تم ملو تو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور جب الگ ہو جاؤ تو ایک دوسرے کے لیے استغفار کرو۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
يا اَ نَسُ! سَلِّمْ عَلى مَنْ لَقيتَ، يَزيدُ اللّهُ فِى حَسَناتِكَ، وَ سَلِّمْ فِى بَيْتِكَ يَزيدُ اللّهُ فِى بَرَكَتِكَ [30]
اے انسان! گھر سے باہر ہر ملنے والے کو سلام کریں کیونکہ اس سے آپ کے نیک اعمال اور اجر میں اضافہ ہوگا اور جب آپ اپنے گھر میں داخل ہوں تو سب کو سلام کریں، اللہ آپ کو بھلائی اور برکت عطا کرے گا۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِذا دَخَلَ اَحَدُكُمْ بَيْتَهُ فَلْيُسَلِّمْ فَاِنَّهُ يُنْزِلُهُ الْبَرَكَةَ، وَتُؤْنِسُهُ الْمَلائِكَةَ [31]
تم میں سے ہر ایک دوسرے کو سلام کرے جب وہ اپنے گھر میں داخل ہو، کیونکہ سلام کرنے سے رحمت، مہربانی اور فرشتوں کی محبت نازل ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتَكُمْ فَسَلِّمُوا عَلى اَهْلِها فَاِنَّ الشَّيْطانَ اِذا سَلَّمَ اَحَدُكُمْ لَمْ يَدْخُلْ مَعَهُ فِى بَيْتِهِ [32]
جب تم اپنے گھروں میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو، کیونکہ ایسا کرنے سے شیطان گھر میں داخل نہیں ہوتا ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِذا قـامَ الرَّجُـلُ مِـنْ مَجْـلِسِهِ فَـليُوَدِّعْ اِخْـوانَهُ بِالسَّـلامِ، فَـاِنْ اَفاضُوا فِى خَيْرٍ كانَ شَريكَهُمْ وَاِنْ اَفاضُوا فِى باطِلٍ كانَ عَلَيْـهِمْ دُونَهُ [33]
جب کوئی کسی محفل سے اٹھے تو اپنے بھائیوں کو سلام کے ساتھ الوداع کرے کیونکہ اس صورت میں اگر انہیں خیر پہنچے گا تو وہ ان کا شریک ہو گا اور اگر نقصان پہنچے تو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
... تَحِيَّةُ اَهْلِ الْجَنَّةِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ [34]
اہل جنت کا سلام "السلام علیکم" ہے۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَطْوَعُكُمْ لِلّهِ اَلَّذى يَبْدَأُ صاحِبَهُ بِالسَّلامِ [35]
تم میں سے خدا کے نزدیک سب سے زیادہ فرمانبردار وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَلْبادى بِالسَّلامِ بَرِئٌ مِنَ الْكِبْرِ [36]
سلام کرنے میں پہل کرنے والا تکبر سے پاک ہے۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
يُسَلِّمِ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبيرِ، وَيُسَلِّمِ الْواحِدُ عَلَى الاْثْنَيْنِ، وَيُسَلِّمِ الْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ، وَيُسَلِّمِ الرَّاكِبُ عَلَى الْماشى، وَيُسَلِّمِ الْمارُّ عَلَى الْقائِمِ وَ يُسَلِّمِ الْقائِمُ عَلَى الْقاعِدِ [37]
چھوٹے کو بڑے پر سلام کرنا چاہیے۔ ایک شخص کو دو لوگوں پر سلام کرنا چاہیے۔ تھوڑے لوگوں کو زیادہ لوگوں پر سلام کرنا چاہیے۔ سوار پیدل چلنے والے پر سلام کرے ۔ راہ گیر کھڑے ہوئے شخص پر سلام کرے اور جو کھڑا ہو اسے بیٹھے ہوئے پر سلام کرنا چاہیے ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
لا غِرارَ فِى الصَّلاةِ وَلاالتَّسْليمِ [38]
نماز اور سلام کرنے میں کوئی تاخیر یا جلدبازی نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَلسِّلامُ تَطَوُّعٌ وَالرَّدُّ فَرِيضَةٌ [39]
سلام کرنا مستحب ہے اور جواب دینا واجب ہے۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِنَّ اَعْـجَزَ النّـاسِ مَـنْ عَجَـزَ مِنَ الدُّعاءِ وَاِنَّ اَبْخَلَ النّاسِ مَنْ بَخِـلَ بِالسَّـلامِ [40]
لوگوں میں سب سے زیادہ بے بس وہ ہے جو دعا کرنے سے عاجز ہو اور سب سے زیادہ کنجوس وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَلْمَلائِكَةُ تُعَجِّبُ مِنَ الْمُسْلِمِ يَمُرُّ عَلَى الْمُسْلِمِ فَلايُسَلِّمُ عَلَيْهِ [41]
جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے پاس سے گزرتا ہے اور اسے سلام نہیں کرتا تو فرشتے اس مسلمان پر تعجب کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
خمْسٌ لا اَدَعُهُنَّ حَتَّى الْمَماتِ: ... وَالتَّسْلِيمَ عَلَى الصِّبْيانِ لِتَكُونَ سُنَّةً مِنْ بَعْدِى [42]
میں آخری دم تک پانچ چیزوں کو ترک نہیں کروں گا: ... ان میں سے ایک بچوں کو سلام کرنا ہے تاکہ میرے بعد یہ سنت قائم ہو جائے ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
السَّلَامُ تَطَوُّعٌ وَ الرَّدُّ فَرِیضَۃٌ [43]
سلام کرنا مستحب ہے اور جواب واجب ہے۔
امام علی ؑ نے فرمایا :
لِلسَّلامِ سَبْعُونَ حَسَنَةٌ، تِسْعَةٌ وَ سِتُّونَ لِلْمُبْتَدى وَواحِدَةٌ لِلرّادِّ [44]
سلام کی ستر نیکیاں ہیں، ان میں سے انہتر نیکیاں سلام کرنے والے کے لیے ہیں اور صرف ایک نیکی جواب دینے والے کے لیے ہے۔
امام علی ؑ نے فرمایا :
اِذا دَخَلَ اَحَدُكُمْ مَنْزِلَهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلى اَهْلِهِ، يَقُولُ: اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ، فَاِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ اَهْلٌ فَلْيَقُل: اَلسَّلامُ عَلَيْنا مِنْ رَبِّنا [45]
جب تم میں سے کوئی اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرے اور کہے: السلام علیکم ، اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو وہ کہے: " اَلسَّلامُ عَلَيْنا مِنْ رَبِّنا " (ہم پر ہمارے رب کی طرف سے سلامتی ہو)۔
امام علی ؑ نے فرمایا :
لِكُلِّ داخِلٍ دِهْشَةٌ فَابْدَئُوا بِالسَّلامِ [46]
ہر نیا آنے والا ایک قسم کا خوف محسوس کرتا ہے، اس لیے سلام کے ساتھ ابتدا کریں۔
امام حسین ؑ نے فرمایا :
كَيْفَ اَنْتَ عافاكَ اللّهُ؟ فَقالَ عليه السلام لَهُ: اَلسَّلامُ قَبْلَ الكَلامِ عافاكَ اللّهُ، ثُمَّ قالَ عليه السلام : لاتَأذَنُوا لاِحَدٍ حتّى يُسَلِّمَ [47]
ایک شخص نے امام حسین ؑ سے کہا: اللہ آپ کو عافیت دے ، آپ کیسے ہیں؟ ۔ امام نے فرمایا: اللہ آپ کو عافیت دے پہلے سلام، پھر کلام ۔ اور فرمایا: کسی کو اس وقت تک کلام کی یا داخلہ کی اجازت نہ دیں جب تک کہ وہ سلام نہ کرے۔
امام باقر ؑ نے فرمایا :
اِنَّ اللّهَ يُحِبُّ اِطْعامَ الطَّعامِ وَاِفْشاءَ السَّلامِ [48]
خدا تعالی دوسروں کو کھانا کھلانا اور سلام کرنے کو رواج دینے کو پسند کرتا ہے۔
امام صادق ؑ نے فرمایا :
اِنَّ مِنْ مُوجِباتِ الْمَغْفِرَةِ بَذْلُ السَّلامِ وَحُسْنُ الْكَلامِ [49]
انسان کی بخشش کا باعث بننے والے عوامل میں سے ایک سلام کرنا اور اچھی گفتگو کرنا ہے۔
امام صادق ؑ نے فرمایا :
جَمَعَ رَسُولُ اللّهِ صلي الله عليه و آله بَنِى عَبْدِالْمُطَّلِبِ فَقالَ: يا بَنى عَبْدِالْمُطَّلِبِ اَفْشُوا السَّلامَ وَصِلُوا الاْرْحامَ، وَتَهَجَّدُوا وَالنّاسُ نيامٌ، وَاَطْعِموُا الطَّعامَ، وَاَطِيبُوا الْكَلامَ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلامٍ [50]
رسول اللہ ﷺ نے عبدالمطلب کے بیٹوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا: اے عبدالمطلب کے بیٹو! سلام کو عام کرو ، رشتہ داریاں قائم رکھو، اور لوگ جب سو رہے ہوں تو عبادت کرو ، انہیں کھانا کھلاؤ، پاکیزہ گفتگو کرو تو تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔
امام صادق ؑ نے فرمایا :
اَلْبادِى بِالسَّلامِ اَوْلى بِاللّهِ وَبِرَسُولِهِ [51]
سلام کی ابتدا کرنے والا خدا اور اس کے رسول سے زیادہ قریب ہے۔
امام صادق ؑ نے فرمایا :
اَذا سَلَّمَ اَحَدُكُمْ فَلْيَجْهَرْ بِسلامِهِ وَلايَقُولُ: سَلَّمْتُ فَلَمْ يَرُدُّوا عَلَىَّ وَلَعَلَّهُ يَكُونُ قَدْ سَلَّمَ وَلَمْ يُسْمِعْهُمْ، فَاِذا رَدَّ اَحَدُكُمْ فَلْيَجْهَرْ بِرَدِّهِ وَلايَقُولُ الْمُسْلِمُ: سَلَّمْتُ فَلَمْ يَرُدُّوا عَلَىَّ [52]
جب تم میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو اسے بلند آواز سے سلام کرو اور یہ نہ کہو کہ میں نے تمہیں سلام کیا اور تم نے جواب نہیں دیا۔ شاید اس نے سلام کہا لیکن سنا نہیں گیا۔ اور جب کوئی سلام کا جواب دے تو بلند آواز سے جواب دو تاکہ سلام کرنے والا یہ نہ کہے کہ میں نے تمہیں سلام کیا اور آپ نے جواب نہیں دیا۔
امام صادق ؑ نے فرمایا :
اِنَّ مِنَ التَّواضُعِ اَنْ يَرْضَى الرَّجُلُ بِالْمجْلِسِ دُونَ الْمَجْلِسِ،وَاَنْ يُسَلِّمَ عَلى مَنْ يَلْقى ... [53]
عاجزی کی ایک صورت یہ ہے کہ انسان مجلس کے آخر میں بیٹھے اور ہر آنے والے کو سلام کرے۔
امام صادق ؑ نے فرمایا :
ثَلاثَةٌ لايُسَلِّمُونَ: اَلْماشى مَعَ الْجَنازَةِ وَالْماشى اِلى الْجُمُعَةِ وَ فِى بَيْتِ حَمّامٍ [54]
تین آدمیوں کا ایک دوسرے کو سلام کرنا ضروری نہیں:
1جنازہ کے ساتھ جانے والا شخص۔
2 نماز جمعہ کے لیے جانے والا۔
3 وہ شخص جو غسل خانے میں ہے۔
امام صادق ؑ نے فرمایا :
اِذا سَلَّمَ مِنَ الْقَوْمِ واحِدٌ أَجْزَأَ عَنْهُمْ وَاِذارَدَّ واحِدٌ أَجْزَأَ عَنْهُمْ [55]
جب آپ کسی گروپ میں ہوتے ہیں تو ایک شخص کا آپ کو سلام کرنا کافی ہوتا ہے اور گروپ میں ایک شخص کا جواب دینا کافی ہوتا ہے۔
نتیجہ
یہ مذکورہ تمام وہ آداب ہیں جوروایات سے ثابت ہیں، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے آداب ہیں، سلام کرتے وقت جن کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی کام میں مشغول ہو اور یہ اندازہ ہو کہ سلام کرنے سے اس کے کام میں خلل واقع ہو گا تو ایسی صورت میں اس کو سلام کرنا درست نہیں، بلکہ اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے، مثلاً کوئی آدمی نماز میں مشغول ہے یا ذکر کر رہا ہے یا وعظ ونصحیت میں مشغول ہے یا خطبہ وتقریر سن رہا ہے یا قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہے یا اذان دے رہا ہے یا قاضی ومفتی کسی فیصلے یا مسئلہ بتانے میں مشغول ہے یا کھانے پینے میں مصروف ہے یا قضائے حاجت یا پیشاب کرنے میں مشغول ہے یا غسل خانہ میں ہے، یا وضو کر رہا ہے یا دعا مانگ رہا ہے یا اسی طرح کسی اور کام میں مصروف ہے تو ایسے آدمی کو سلام کرنا مکروہ ہے، اگر کوئی اس حالت میں ان لوگوں کو سلام کرے تو ان پر جواب دینا واجب نہیں۔
مذکورہ روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا طرز عمل تمام امت کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے، جو سلام کرنے والے کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ سلام کرتے وقت اپنے مخاطب کے حالات کی رعایت رکھنا انتہائی ضروری ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس شعار دین کو زیادہ سے زیادہ رواج دے کربار گاہ ایزدی میں تقرب حاصل کرے۔
ایک دوسرے سے ملتے وقت سلام کرنا انتہائی خوبصوت انداز ہے جس کی تعلیم دین مقدس اسلام نے دی ہے۔ معاشرے میں سلام کر پرچار کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے خصوصا آج کے معاشروں میں جہاں سلام کرنے کا رواج کم ہوتا جارہا ہے۔ سب سے بہترین طریقہ اس مورد میں خود کا سلام میں پہل کرنا اور بلند آواز سے سلام کرنا ہے، تاکہ دوسرے صرف باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے سیکھے۔
[1] ۔ نور/27
[2] ۔ الذاریات/ 25
[3] ۔ فرقان/ 75
[4] ۔ نور/61
[5] ۔ انعام/ 54
[6] ۔ نساء/ 86
[7] ۔ زخرف/ 89
[8] ۔ زمر/ 73
[9] ۔ یٰس/ 58
[10] ۔ صافات / 79
[11] ۔ هود / 48
[12] ۔ مريم / 33
[13] ۔ صافات / 120
[14] ۔ صافات/ 130
[15] ۔ صافات / 181
[16] ۔ احزاب / 56
[17] ۔ النحل/ 32
[18] ۔ ٰنمل / 59
[19] ۔ احزاب / 44
[20] ۔ عوالی للالی ۲:۱۳۵
[21] ۔ بحار ، ج 76، ص 4
[22] ۔ محجه البيضاء، ج 3، ص 382
[23] ۔ محجة البيضاء، ج 4، ص 382
[24]۔ همان، ص 3
[25] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 10
[26] ۔ همان، ص 5
[27] ۔ همان، ص 12
[28] ۔ همان، ص 2
[29] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 5
[30] ۔ همان، ص 3
[31] ۔ همان، ص 7
[32] ۔ محجّة البيضاء، ج 3، ص 382
[33] ۔ بحارالأنوار،ج76، ص9
[34] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 6
[35] ۔ ميزان الحكمة، ج 4، ص 536، شماره 8846
[36] ۔ ميزان الحكمة، ج 4، ص 536، شماره 8848
[37] ۔ ميزان الحكمة، ج 4، ص 538، شماره 8857
[38] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 6
[39] ۔ ميزان الحكمة، ج4، ص 537، شماره 8854
[40] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص4
[41] ۔ محجّة البيضاء، ج 3، ص 382
[42] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 10
[43] ۔ اصول الکافی ۲:۶۴۴
[44] ۔ همان، ص 11
[45] ۔ همان، ص 4
[46] ۔ ميزان الحكمة، ج 4، ص 526، شماره 7750
[47] ۔تحف العقول 246، موسوعة كلمات الامام الحسين عليه السلام 750/913
[48]۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 10
[49] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 11
[50] ۔ بحارالأنوار، ج 76، ص 10
[51] ۔ همان، ص 1 .
[52] ۔محجّة البيضاء، ج 3، ص 384
[53] ۔ همان، ص 6 .
[54] ۔ محجّة البيضاء، ج 3، ص 385 .
[55] ۔ محجّة البيضاء، ج 3، ص 385 .