قرآنی نقطہ نظر سے برا انجام کن لوگوں کا مقدر ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآنی نقطہ نظر سے برا انجام کن لوگوں کا مقدر ہے؟
وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (سورۃ الرعد، آیت 25)
ترجمہ: اور وہ لوگ جو اللہ کے مستحکم عہد کو توڑتے ہیں، اور ان رشتوں کو کاٹ دیتے ہیں جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ انہیں جوڑا جائے، اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن پر لعنت ہے اور ان کے لیے برا انجام ہے۔
تفسیر
اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد کو توڑتے ہیں۔ اس عہد میں بنیادی طور پر اللہ کی اطاعت، دین اسلام پر عمل پیرا ہونا، اور دیگر حقوق اللہ و حقوق العباد شامل ہیں۔
1۔عہد شکنی: اللہ نے ہر انسان کے ساتھ ایک فطری عہد لیا ہے کہ وہ اسے رب مانے اور اس کے احکام پر عمل کرے۔ اس عہد کی خلاف ورزی کرنے والے وہ ہیں جو اللہ کے احکام کو رد کرتے ہیں یا ان سے غفلت برتتے ہیں۔
2۔صلہ رحمی: اس آیت میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹ دینا ناپسندیدہ ہے۔ صلہ رحمی، یعنی رشتہ داروں سے تعلق کو جوڑ کر رکھنا، اسلام میں انتہائی اہم ہے، اور ان رشتوں کو کاٹنے کو فسادی عمل کہا گیا ہے۔
3۔فساد فی الارض: ان لوگوں کی صفات میں زمین میں فساد پھیلانا بھی شامل ہے۔ فساد پھیلانا یعنی زمین میں ایسا بگاڑ پیدا کرنا جس سے دوسروں کو نقصان ہو، معاشرتی توازن خراب ہو، یا اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی ہو۔
4۔انجام اور سزا: اس آیت میں ان لوگوں کے لیے اللہ کی طرف سے لعنت کا ذکر ہے جو اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں، رشتہ داریوں کو منقطع کرتے ہیں اور فساد پھیلاتے ہیں۔ انہیں آخرت میں "سوء الدار" یعنی برا انجام دیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے لیے آخرت کا گھر عذاب و تکلیف کا گھر ہوگا، اور انہیں اللہ کی رحمت سے دوری ملے گی۔
مفسرین نے مختلف پہلوؤں سے اس آیت کی تشریح کی ہے،یہاں چند معروف مفسرین کی آراء کا خلاصہ دیا گیا ہے:
1۔ علامہ طبری
طبری کے مطابق، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں اور معاشرتی تعلقات کو کاٹ دیتے ہیں۔
طبری کے نزدیک یہ عہد فطرتاً وہ عہد ہے جو اللہ نے انسان سے لیا ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے احکام کو مانیں گے۔ اس کے علاوہ، اللہ کے جوڑنے کے حکم کا تعلق خاص طور پر رشتہ داروں سے ہے، جسے دین اسلام میں صلہ رحمی کہا جاتا ہے۔ ایسے افراد جو ان احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں لعنت اور برا انجام مقرر ہے۔
2۔ ابن کثیر
ابن کثیر اس آیت کے تحت بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے عہد کو توڑنا، جیسے کہ ایمان کی روگردانی کرنا، اور اسلامی احکام کو ترک کرنا اللہ کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہے۔ ابن کثیر مزید فرماتے ہیں کہ اس آیت میں صلہ رحمی پر زور دیا گیا ہے اور اسے اللہ کے اہم احکام میں سے شمار کیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک، اللہ کے عہد کو توڑنے اور تعلقات کو منقطع کرنے والے افراد زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، اور ان پر اللہ کی لعنت ہے اور ان کے لیے آخرت میں برا انجام ہے۔
3۔علامہ فخر الدین رازی
علامہ رازی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ اس میں بنیادی طور پر انسان کی روحانی اور اخلاقی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اللہ نے انسان سے اس کی فطرت میں عہد لیا کہ وہ توحید اور عدل کو اپنائے گا، لیکن عہد شکنی کرنے والے اپنے نفس کی پیروی میں اللہ کے احکام کو رد کر دیتے ہیں۔ صلہ رحمی کے حکم کو منقطع کرنے کو زمین میں فساد سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ معاشرتی بگاڑ اکثر رشتوں کے بگاڑ سے ہی شروع ہوتا ہے۔
4۔علامہ قرطبی
قرطبی اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے عہد کو توڑنا دراصل اللہ کے ساتھ کیے گئے وعدے کو توڑنا ہے، جو ہر انسان سے اس کی فطرت میں لیا گیا ہے۔ قرطبی کے مطابق، صلہ رحمی یعنی رشتہ داریوں کو جوڑنا دین اسلام کا ایک اہم ستون ہے اور اس کا کاٹنا زمین میں فساد کا باعث بنتا ہے۔ ان کے مطابق، جو لوگ ان عہد و پیمان کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اللہ کی لعنت اور آخرت میں عذاب ان کے مقدر میں ہے۔
5۔علامہ طبرسی
شیعہ مفسر علامہ طبرسی اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ کا عہد، ایمان اور شرعی احکام پر عمل ہے۔ طبرسی کے مطابق، ان رشتوں کو توڑنا جنہیں جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، صرف خونی رشتے ہی نہیں بلکہ دینی بھائی چارے کو بھی شامل ہے۔ فساد فی الارض کے بارے میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایسے لوگ معاشرتی بگاڑ اور دینی ضعف کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے افراد پر اللہ کی لعنت اور آخرت میں برا انجام ہے۔
6 علامہ طباطبائی (المیزان)
علامہ طباطبائی، تفسیر المیزان میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ کے عہد کو توڑنے سے مراد اللہ کی نافرمانی اور اسلامی اصولوں سے انحراف ہے۔
علامہ طباطبائی کے نزدیک، قرآن نے رشتے ناطے کاٹنے کو بہت بڑی برائی قرار دیا ہے اور اسے اللہ کے حکم کی صریح نافرمانی کہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ کی لعنت اور آخرت میں "سوء الدار" کا ذکر ہے جو ایسے لوگوں کا انجام ہوگا۔
تونس کے مشہور مفسر علامہ محمد الطاہر ابن عاشور اپنی تفسیر "التحریر والتنویر" میں اس آیت کی تشریح میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جو اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں۔ ابن عاشور کے مطابق، اللہ کے عہد کو توڑنا دراصل فطرت میں شامل اس عہد کو توڑنا ہے جس کا تقاضا اللہ کی طرف سے کیا گیا ہے کہ وہ اس کی توحید اور اطاعت کا اقرار کریں۔
علامہ ابن عاشور اس آیت میں "ما أمر الله به أن يوصل" یعنی "جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے" کا مطلب نہ صرف خاندانی تعلقات بلکہ تمام سماجی اور دینی تعلقات سے بھی لیتے ہیں، جو اللہ کے احکامات کے تحت قائم کیے گئے ہیں۔ ان کے نزدیک، *اس میں اسلامی اخوت، سماجی انصاف، اور نیکی و احسان کے وہ تمام اصول شامل ہیں جو اسلامی معاشرت کے استحکام کے لیے ضروری ہیں۔
ابن عاشور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایسے افراد جو عہد شکنی، قطع تعلقی، اور فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں، دراصل ایک اجتماعی نقصان کا باعث بنتے ہیں اور اسلامی معاشرے کی جڑیں کمزور کرتے ہیں۔ اس کا انجام قرآن کی زبان میں "سوء الدار" یعنی آخرت میں برا ٹھکانا اور اللہ کی لعنت ہے، جو ان لوگوں کی نافرمانی کی پاداش میں ہے۔
خلاصہ
مفسرین کی آراء سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں اللہ کے عہد کو توڑنے، صلہ رحمی کو نظر انداز کرنے، اور زمین میں فساد برپا کرنے والوں کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ اس کے برعکس، ایک مومن کا فرض ہے کہ وہ اللہ کے احکام کی پابندی کرے، رشتہ داروں سے حسن سلوک رکھے، اور زمین پر امن و امان برقرار رکھے۔ اللہ کی لعنت اور برا انجام ان لوگوں کے لیے ہے جو ان احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
علمی ، فکری ، تحقیقی ، تبلیغی