مخلوق کا رزق اللہ کے ذمہ ، اس کے کیا معنی ہیں؟

وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي ٱلْأَرْضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ۔ (سورہ ہود: 6)

زمین میں کوئی جاندار ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا رزق اللہ پر ہے۔ اور اسے معلوم ہے کہ کس جاندار کا مستقل ٹھکانہ کہاں ہے اور عارضی جگہ کہاں ہے۔ ہر چیز واضح کتاب میں ثبت ہے۔

تفسیر

اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے۔ وہ ہر جاندار کی روزی کا ضامن ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کے رزق کا بندوبست کرتا ہے، خواہ وہ خشکی پر ہوں یا پانی میں، اور یہ رزق ان کے لیے مختلف ذرائع سے فراہم ہوتا ہے۔

"مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا" سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جاندار کی رہائش گاہ اور اس کے عارضی ٹھکانے کو جانتا ہے۔

مستقر اس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں کوئی چیز ہمیشہ کے لیے رہتی ہے، جبکہ مستودع اس عارضی جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں کوئی چیز وقتاً فوقتاً رہتی ہے۔ اس کا اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات کی زندگی، ان کی موت اور ان کی حرکت و سکون کے سب مقامات سے باخبر ہے۔

"كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ" یعنی سب کچھ ایک واضح کتاب میں درج ہے۔ اس سے مراد لوحِ محفوظ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تفصیل کو محفوظ کر رکھا ہے۔

اس میں کائنات کے ہر جاندار کی زندگی، موت، رزق، اور اس کی تقدیر لکھی ہوئی ہے، اور کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں ہے۔

یہ آیت انسان کو توکل اور اعتماد کی دعوت دیتی ہے کہ اگرچہ انسان اپنی کوشش سے رزق کماتا ہے، لیکن درحقیقت اس کا اصل ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے، جو ہر ذی روح کی ضروریات سے باخبر ہے اور اس کے وسائل زندگی فراہم کرتا ہے۔

رزق اللہ کے ذمہ ہے تو پھر محنت کیوں؟

ایک اہم سوال ہے کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ کو الرزاق (رزق دینے والا) کہا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہی اصل میں ہر مخلوق کو رزق عطا کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی، اسلام انسان کو سعی (کوشش) اور محنت کی تلقین بھی کرتا ہے۔

اس کی کیا وجہ ہے؟

انسانی کوشش بطور ذریعہ رزق

اسلام کے مطابق، اگرچہ رزق دینے والا اللہ ہے، لیکن رزق حاصل کرنے کا عمل کوشش اور جدوجہد کے ذریعے ہوتا ہے۔ قرآن میں کئی جگہ انسان کو کوشش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، مثلاً سورہ النجم میں ارشاد ہوتا ہے:

"اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی" (سورہ النجم، 53:39)۔

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں کامیابی کے لیے کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رزق اور کامیابی کو اس کے عمل کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔

امتحان اور تربیت

اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آزمائش اور تربیت کا مقام بنایا ہے۔ انسان کو محنت کرنے اور مشکلات کا سامنا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور تدبیر کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح، انسان صبر، توکل، اور مضبوط ارادے جیسے اوصاف کو حاصل کرتا ہے۔

تقدیر اور تدبیر میں توازن

اسلامی تعلیمات میں تقدیر اور تدبیر کا تصور موجود ہے۔ تقدیر کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی ایک حد مقرر کر رکھی ہے، لیکن تدبیر کے تحت انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رزق کے لیے کوشش کرے۔ گویا انسان کی کوشش اور اللہ کا رزق، دونوں آپس میں مربوط ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اللہ پر بھروسہ بھی کرنا چاہیے اور اپنی ذمہ داری کے تحت محنت بھی کرنی چاہیے۔

4۔محنت ایک عبادت ہے

رسول اکرمﷺ نے محنت اور روزی کمانے کو عبادت کا درجہ دیا ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے:

محنت سے حلال روزی کمانا فرض عبادت کے بعد سب سے بڑی عبادت ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني، حدیث نمبر 3936)۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں محنت کو خود ایک نیکی اور عبادت سمجھا گیا ہے، اور یہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔

توکل اور محنت کا تعلق

اللہ پر توکل کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان کوشش چھوڑ دے۔ توکل کا مطلب یہ ہے کہ انسان کوشش کے بعد اللہ پر بھروسہ کرے اور نتائج کو اللہ پر چھوڑ دے۔ اسلام میں توکل اور محنت کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

"اونٹ کو باندھو اور پھر اللہ پر توکل کرو" (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2517)۔

خلاصہ

اسلام میں اللہ تعالیٰ کو رزاق سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی اصل ذریعہ ہے، لیکن کوشش اور محنت انسان کے عمل کا حصہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی روزی حاصل کرنے کے لیے محنت کرے۔ لہذا، اللہ پر بھروسہ اور اس کی رضا کے لیے کوشش کرنا انسان کی ذمہ داری ہے۔

یہ قابلِ غور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تمام جانداروں کے رزق کا ذمہ خود لیا ہے، مگر اس کے باوجود چیونٹی مسلسل محنت کرتی ہے، اسے یہ خیال نہیں آتا کہ وہ فارغ بیٹھ کر بھی رزق پا لے گی۔ لیکن اشرف المخلوقات، یعنی انسان، اپنے وہم و خیالات میں الجھ کر بعض اوقات چیونٹی جیسی چھوٹی مخلوق کے عزم اور شعور کو بھی نہیں اپنا پاتا۔