امام رضا علیہ السلام کا غالیوں کے ساتھ طرز عمل
تحریر: اسد عباس
امام کا محمد بن بشیر و بشریہ سے مقابله
۱ محمد بن بشیر نے جن غالیانہ عقاید کی نسبت امام ظم کی طرف دی ،امام رضا نے ایک روایت میں محمد بن بشیرکے جھوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : خدا محمد بن بشیر کو جھنم کی آگ میں ڈالے[1] ۔
۲ امام رضا نے واقفیہ فرقے کا بطور جدی مقابلہ کیا ان کو کافر اور جھوٹا کہا اور فرمایا: اگر ایسا ہوتا کہ خداوند آدم کی اولاد میں سے کسی ایک کو بھی زندہ رکھتا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد مصطفی کوزندہ رکھتا[2] ۔
۳ امام رضا اپنے بھائی کہ جو عقیدہ رکھتا تھا کہ ہمارے اجداد زندہ ہیں کے عقاید کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہمارے والد اور دیگر اجداد دنیا سے چلے گئے ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرم دنیا سے رحلت فرما گئے ہیں اسی طرح ہمارے اباواجداد بھی دنیا سے چلے گئے ہیں[3] ۔
۴ ایک اور روایت میں آپ رسول خدا کی رحلت کی تاکید کرتے ہیں : باخدا میرے پدر بزرگوار دنیا سے چلے گئے ہیں اس کا مال تقسیم ہو چکا ہے اور اس کی کنیزوں نے شادیاں کر لی ہیں[4] ۔
۵ ایک اور روایت میں حضرت علی کی شھادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : جیسے علی علیہ السلام کی رحلت ہو گئی ہے اسی طرح میرے بابا امام موسی کاظم کی رحلت بھی ہو گئی ہے[5] ۔
۶ ابو جریر قمی امام رضا سے پوچھتے ہیں آیا آپ کے والد گرامی دنیا سے چلے گئے ہیں ؟ پھر پوچھتا ہے مولا آپ تقیہ تو نہیں کر رہے مجھے بتائیں آپ کے والد گرامی دنیا سے چلے گئے ہیں ؟ امام نے شدت سے تقیہ کرنے کا انکار کیا اور فرمایا: میرے والد گرامی دنیا سے چلے گئے ہیں اور میں ان کا وصی اور امام وقت ہوں[6] ۔
۷ ایک اور جگہ امام علیہ السلام احمد بن ھلال کو فرماتے ہیں : واقفیوں کو جا کے بتاو کہ میں نے خود اپنے والد گرامی کو غسل دیا ہے[7] ۔
علامہ مجلسی کہتے ہیں بہت ساری روایات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ امام رضا نے خود اپنے والد گرامی کوغسل دیا ہے[8] ۔
یونس بن ظبیان سے مقابله
جیسا کہ پہلے اشارہ کر چکے ہیں یونس بن ظبیان امام رضا کے دور کےمشہور غالیوں میں سے تھا جب امام نے اس کے غالیانہ عقاید کو سنا تو سخت ناراض ہوئے اور جو شخص یونس بن ظبیان کے عقاید کو امام کی محفل میں نقل کررہا تھا امام نے اس کو بھی محفل سے نکال دیا اور اسے کہا: خدا تجھہ پر اور جس شخص نے تجھے ایسے عقاید بیان کیے ہیں اس پر لعنت کرے خدا یونس بن ظبیان پر ھزار بار لعنت کرے اور ہر لعنت میں ہزار ہزار اور لعنتیں ہوں۔
پھر مولا فرماتے ہیں: یونس بن ظبیان اور ابوالخطاب اور ان دونوں کے یاران خدا کے بدترین عذاب میں اکٹھے ہوں گے[9] ۔
محمد بن فرات و دیگر غالیوں سے مقابله
محمد بن فرات نے نبوت و بابیت کا دعوی کیا یہ شراب خوار تھا نماز نہیں پڑھتا تھا امام نے ابتدا میں اسے بہت پیار سے سمجھایا کہ شراب پینا چھوڑ دے ، نماز پڑا کر اور غالیانہ عقید سے توبہ کر لے[10] لیکن اس نے امام کی دعوت کو قبول نہیں کیا تو پھر امام نے سخت الفاظ میں اس کی مذمت فرمائی اور کہا اس نے تو ابوالخطاب سے بھی زیادہ تکلیفیں امام صادق کو پہنچائی ہیں
1 ایک اور روایت میں امام نے بیان بن سمعان ، مغیرہ بن سعید ، ابوالخطاب اور محمد بن بشیر پر ان کے غالیانہ عقاید کی وجہ سے لعنت کی ہے اور فرمایا ہے کہ خدا ان کو جھنم کی آگ میں جلائے۔ یہ محمد بن فرات ایسا شخص تھا جس نے امام کے دور میں امام پر جھوٹ باندھے ہیں[11] ۔
2 ایک اور روایت میں امام نے غالیوں اور مفوضہ کو کافر اور مشرک کہتے ہوئے ارشاد فرمایا : جو بھی غالیوں اور مفوضہ کے ساتھہ تعلق رکھے گا ان کے ساتھہ کھائے پیئے گا ، ان کے ساتھہ رشتہ جوڑے گا یا ان کو امان دے گا یا ان کے غالیانہ عقاید کی تصدیق کرے گا تو وہ خدا کی ولایت اور ہماری ولایت سے خارج ہو جائے گا[12] ۔
3 ایک اور حدیث میں امام نے فرمایا: جو غالیوں کے ساتھہ دوستی کرتے ہیں وہ ھم اھل بیت کے ساتھہ دشمنی کرتے ہیں اور جو غالیوں کے ساتھہ رابطہ رکھتے ہیں وہ ھم اھل بیت سے قطع تعلق کرتے ہیں ، جو غالیوں سے خوبی کرتے ہیں وہ ھم اھل بیت سے بدی کرتے ہیں ، جو غالیوں کا احترام کرتے ہیں وہ ھم اھل بیت کی اھانت کرتے ہیں ، اور جو غالیوں کی رصدیق کے تو اس نے ہماری تکذیب کی ، اور پھر آخر حدیث میں فرماتے ہیں ہمارے شیعوں میں سے کوئی بھی غالیوں سے تعلق نہ رکھے[13] ۔
مقابله با افکار غالیانہ
1 تاکید بر جنبہ بشری آئمہ
امام نے ایسے افراد کی سختی سے مذمت فرمائی ہے کہ جو سمجھتے تھے لوگ آئمہ علیہ السلام کے بندے ہیں[14] ۔ امام اباصلت ھروی کو قسم کھا کر فرماتے ہیں: کہ ھم نے کھبی کوئی ایسی بات نہیں کی اگر لوگ ہمارے بندے ہیں تو پس ان کو کیسے بیچیں[15] ۔
مامون امام سے پوچھتا ہے کہ مجھہ تک یہ خبر پونچی ہے کہ لوگ آپ کے بارے میں غلو کرتے ہیں تو امام نے جواب میں رسول خدا کی ایک حدیث بیان فرمائی جس میں رسول خدا نے ارشاد فرمایا : مجھے میرے حق اور حد سے زیادہ نہ بڑھائیں کیونکہ خداوند متعال نے مجھے رسول بنانے سے پہلے اپنا بندہ بنایا ہے[16] اس کے بعد امام حضرت علی کی حدیث بیان کرتے ہیں جس میں مولا علی نے فرمایا : دو قسم کے لوگ میری وجہ سے ھلاک ہوں گے حالانکہ میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے ۱ ایسے دوست جو مبالغہ کرتے ہیں ۲ ایسے دشمن جو افراط کرتے ہیں[17] ۔
یہ دو حدیث بیان کرنے کے بعد امام فرماتے ہیں: ھم اھل بیت ان لوگوں سے بیزار ہیں جو لوگ ھمیں حد سے بڑھاتے ہیں اور ھمارے بارے غلو کرتے ہیں ،ھم غالیوں سے ایسے ہی بیزار ہیں جیسے عیسی نصارا سے[18] ۔
ایک حدیث میں امام رضا اپنے بشری ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ھم کسی کی اولاد ہیں اور کوئی ہماری اولاد ہے ،ھم مریض بھی ہوتے ہیں اور صحت مند بھی ، کھاتے بھی ہیں اور پیتے بھی ہیں ، بول بھی کرتے ہیں اور پاخانہ بھی ، نکاح بھی کرتے ہیں اور سوتے بھی ہیں ، خوش بھی ہوتے ہیں اور پریشان بھی ، زندگی بھی رکھتے ہیں اور موت بھی ، حشر و نشر سوال و جواب ھمارا بھی ہوگا[19] ۔
ایک شخص نے امام کے سامنے کہا کہ علی رب ہیں تو امام غصے کی وجہ سے کانپنے لگے اور فرمایا : کیا علی کھاتا پیتا نہیں تھا ، کیا علی نے شادی نہیں کی ، کیا وہ خدا کی عبادت نہیں کرتے تھے کیا وہ خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری نہیں کرتے تھے پھر فرمایا کیا ممکن ہے کوئی ان صفات کے باوجود خدا ہو ؟ اگر علی ان صفات کے ساتھہ خدا ہو سکتا ہے تو پھر تم سب خدا ہو[20] ۔
2 من گھڑت احادیث کا مقابله
امام کے زمانہ میں غالیوں کا ایک کام جعلی حدیثیں بنانا تھا خصوصا مغیرہ بن سعد کے زمانے میں یہ کام شروع ہوا غالی لوگ حدیثیں بناتے تھے اور اصحاب آئمہ کی کتابوں میں شامل کرتے تھے
1 ابراھیم بن ابی محمود نے جعل حدیث کے بارے میں امام سے پوچھا تو امام نے فرمایا : ہمارے مخالفین نے خصوصا ہمارے فضائل کے باب میں حدیثیں گھٹری ہیں اور انہیں تین قسم میں تقسیم کیا ہے ۱ غالیانہ اخبار ۲ اخبار تقسیر ۳ ہمارے دشمنوں پر لعن و مذمت کی تصریح کی اخبار ۔ پھر آگے امام فرماتے ہیں : جب لوگ کوئی ایسی خبر سنیں جس میں ہمارے بارے میں غلو کیا گیا ہو تو ایسی روایات اور بیان کرنے والوں کو مورد لعن قرار دیں[21] ۔
2 یونس بن عبد الرحمن نے سفر عراق میں اصحاب آئمہ کی کتابوں کو لیا اور اس کی نسخہ برداری کی جب امام کو چیک کروایا تو امام نے بہت ساری حدیثوں کو جعلی قرار دیا اور فرمایا یہ ابوالخطاب غالی کا کام ہے اس نے اپنے مکروحیلہ سے ہمارے اصاب کی کتابوں میں جعلی حدیثیں وارد کر دی ہیں خدا اس پر لعنت کرے[22] ۔
3 ایک اور روایت میں امام فرماتے ہیں ہماری وہ حدیثیں جو قرآن و سنت کے معیار کے مطابق ہیں صرف وہی قبول کریں اور باقیوں کو چھوڑ دیں وہ ہماری حدیثیں نہیں ہیں[23] ۔
4 حیسن بن خالد امام کے یاران میں سے ہے امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی لوگ شیعوں کے ساتھہ جبروتشبیہ کی نسبت دیتے ہیں ،تو امام نے اس سے پوچھا ، یہ حدیثیں آئمہ سے زیادہ نقل ہوئی یا پیغمبر سے ؟ ابن خالد کہتا ہے ، احادیث پیغمبر زیادہ ہیں لیکن لوگ کیتے ہیں پیغمبر نے کوئی ایسی نہیں فرمائی بلکہ پیغمبر کے ساتھہ بسبت دیتے ہیں ، تو امام فرماتے ہیں : میرے والدین کے بارے میں بھی اسی طرح جھوٹی نسبت دیتے ہیں یعنی میرے والدین نے ایسی کوئی حدیث نہیں فرمائی[24] ۔
5 محمد بن زرعہ حضرمی ایک جعلی روایت نقل کرتا ہے کہ امام صادق نے فرمایا: میرا بیٹا کاظم پانچ چیزوں میں انبیا کے ساتھہ شباھت رکھتا ہے ، اس کے ساتھہ حسد کیا جائے گا جیسے حضرت یوسف کے ساتھہ حسد کیا گیا اور وہ غائب ہوں گے جیسے حضرت یونس غائب ہوئے تھے وغیرہ وغیرہ ، تو امام نے محمد بن زارعی کو جھوٹا کہا اور فرمایا : امام صادق نے یہ حضرت قائم کے بارے میں فرمایا تھا نہ کہ میرے بیٹے کے بارے میں[25] ۔
6امام ایک اور جگہ فرماتے ہیں: غالی کافر ہیں اور مفوضہ مشرک ہیں[26] ۔
[1] ۔ وکان محمد بن بشیر یکذبہ علی ابی الحسن موسی فاذاقہ اللہ حر الحدید ۔ شیخ طوسی ، ھمان ، ص 302 ؛ حسن بن زین الدین ، التحریر الطاووسی ، پیشین ، ص 524 ۔
[2] شیخ طوسی ، پیشین ، ص 458 ۔
[3] کلینی ، پیشین ، ج1 ، ص 380 ۔
[4] شیخ صدوق ، کمال الدین و تمام النعمۃ ، چاپ دوم ، تھران : اسلامیہ ، 1395 ، ج1 ، ص39-40 ؛ ھمو ، عیون الرضا ، پیشین ، ج1 ، ص 106 ۔
[5] ۔ واللہ ذاق الموت کما اذاقہ علی بن ابی طالب ۔ شیخ صدوق ، عیون اخبار الرضا ، ھمان ، ج1 ، ص 234 ۔
[6] کلینی ، پیشین ، ج1 ، ص380 ۔
[7] ۔ قل لھم انی غسلۃ فقلت اقول لھم انک غسلۃ قال نعم ۔ کلینی ، پیشین ، ج1 ، ص 385 ۔
[8] ۔ اخبار کثیرہ دالہ علی حضورالرضا عندالغسل ۔ محمد باقر مجلسی ، بحارالانوار ، تھران : اسلامیہ ، 1363 ، ج 27 ، ص 289 ۔
[9] شیخ طوسی ، پیشین ، ص 232 – 233 ۔
[10] ھمان ، ص 554 ؛ سید ابوالقاسم خوئی ، پیشین ، ج18 ، ص 135 ۔
[11] شیخ طوسی ، ھمان ، ص 303 ۔
[12] شیخ صدوق م پیشین ، ج2 ،ص 203 ؛ شیخ حر عاملی ، پیشین ، ج5 ، ص 380 ۔
[13] شیخ صدوق ، ھمان ، ج1 ، ص 143 ؛ طبرسی ، پیشین ، ج2 ، ص415 ۔
[14] کلینی ، پیشین ، ج1 ، ص 187 ۔
[15] شیخ صدوق ، پیشین ، ج 2 ، ص 184 ۔
[16] شیخ صدوق ، پیشین ، ج2 ، ص 201
[17] شیخ صدوق ،پیشین ، ج 2 ، ص 201 ۔
[18] ھمان
[19] شیخ صدوق پیشین ، ج1 ، ص 214 ؛ اربلی ، پیشین ، ج 2 ، ص 812 ۔
[20] طبرسی ، پیشین ، ج2 ، ص 439 ۔
[21] شیخ صدوق ، پیشین ، ج1 ، ص 304 ؛ محمد بن جریر بن رستم طبری ، دلائل الامامہ قم : بعثت ، 1413 ، ص 24 ۔
[22] شیخ طوسی ، پیشین ، ص 224 ۔
[23] ھمان ۔
[24] شیخ صدوق ، التوحید ، پیشین ، ص 364 ؛ شیخ صدوق ، پیشین ، ج2 ، ص 130 ۔
[25] شیخ صدوق ، پیشین ، ص 477 ؛ سید ابوالقاسم خوئی ، پیشین ، ج 9 ، ص 314 ۔
[26] صدوق ، عیون الرضا ، ص 218 – 219 ؛ مجلسی ، پیشین ص 273 ۔
علمی ، فکری ، تحقیقی ، تبلیغی