زندگی

ہم انسانوں کی زندگی گھر کی عمارت کی طرح ہے. جسے ہم بڑی لگن، محنت، مشقت اور جہد مسلسل سے تعمیر کرتے ہیں۔

زندگی بھر کی کمائی اس پر لگا دیتے ہیں اس کی اینٹ اینٹ بڑی احتیاط کے ساتھ جوڑتے ہیں تاکہ اس میں آرام و سکون سے رہ سکیں۔

پنکھے کولر اور اے سی لگواتے ہیں تاکہ ٹھنڈی ہوا میں سانس لے سکیں۔
ہم مختلف طریقوں سے اسے آراستہ کرتے ہیں۔ اس کی زیب و زینت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اگر بس چلے تو اس کے اندر قالین اور مرمریں فرش بچھاتے ہیں۔

اسی طرح کی ایک اور عمارت گزر ایام کے ساتھ ہمارے وجود کے اندر بھی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے۔

یہ عمارت درحقیقت زندگی کا ماحصل ہے جو شعوری یا لاشعوری طور پر کیے گئے اعمال و اطوار کا نتیجہ ہوتا ہے۔

یہ عمارت انسان کا ضمیر اخلاق اور عمل تعمیر کرتا ہے۔
آدمی اپنے اخلاق کی دولت سے دوسروں کے ساتھ رابطہ قائم کرتا ہے۔ اپنے ضمیر کی برکت سے ان روابط میں بہتری لاتا ہے۔ اپنے خلوص، وفا، سچائی اور محبت و احترام سے دوسروں کی توجہات اپنی طرف مبذول کراتا ہے۔
اپنے عزیز دوستوں کے ساتھ زندگی کے لمحے گزارتا ہے۔اپنے رجحانات کے باعث شریکہ حیات کا انتخاب کرتا ہے۔
بچوں کی تربیت کرتا ہے جو تا دم مرگ اس کے معاون و مددگار ہوتے ہیں۔
زندگی کی اصل عمارت یوں تعمیر ہوتی ہے۔
درحقیقت تعمیر زندگی کا یہ عمل شعوری سے زیادہ لاشعوری قسم کا ہے۔

ہم لوگ لاشعوری طور پر اپنے ارد گرد پھولوں کا ایک باغ لگا رہے ہوتے ہے یا پھر کانٹے دار باڑ کھینچ رہے ہوتے ہیں۔
پھر ایک دن وہ بھی آجاتا ہے جب اسی زندگی کے چرخے میں زندہ رہنا ہماری مجبوری بن جاتا ہے۔

ایک گھر کو، تعمیر ہو جانے کے بعد ہمیشہ حفاظت درکار ہوتی ہے۔
اس سے کہیں زیادہ حفاظت کی ضرورت ہماری زندگی کو ہے۔

اس زندگی میں اطمئنان یا پھر اسے لرزا دینے والے زلزلے اور طوفان ہمارے روئیے ہیں۔

اگر انسان شعوری طور پر بیدار نہ ہو تو اس کا عمل جہاں ظاہری زندگی کو متاثر کرتا ہے وہاں اس کے اندر کو بھی دیمک کی طرح چاٹ کھاتا ہے۔ جہاں اس کے دوستوں کو اس سے چھین لیتا ہے وہیں اس کے خاندانی نظام میں بھی بگاڑ پیدا کر دیتا ہے۔

اس لیے ہمیں زندگی میں اطمئنان وسکون برقرار رکھنے کےلئے اپنے رویوں پر مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے نظریات ؛ افکار ؛ رجحانات و عادات زندگی کی گاڑی کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
ان پر مسلسل نظر ثانی کرتے رہنا چاہئے تاکہ اصلاح و ارتقا کا عمل جاری و ساری رہے