شأن پیغمبر خدا ﷺ؛ سورة الضحی کی روشنی میں
شأن پیغمبر خدا ﷺ؛ سورة الضحی کی روشنی میں
ریاض حیدر علوی
مقدمہ
اللہ کریم نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا اور اپنے بندوں کو وحی کے توسط سے پیغام ہدایت نبی اور اس کی امت تک پہنچایا اسی طرح ہر مشکل وقت میں اللہ نے اپنے ان خاص بندوں کی حمایت اور مشکل کشائی فرمائی پیامبر اسلام ختمی مرتبت جس معاشرے میں مبعوث فرمائے گئے وہ عربوں کا تاریک ترین معاشرہ تھا جس میں ظلم و شرک بت پرستی و انا پرستی کے اندھیرے چھائے ھوئے تھے ایسے میں اللہ نے ہدایت کا سورج یتیم عبداللہ کی صورت میں نمودار فرمایا ۔عرب کی ایسی قوم جو انسانیت کے اعتبار سے پستی میں گری ہوی تھی اس میں پیامبر خداﷺ کا آنا اور اخلاق کا اعلی نمونہ پیش کرنا کوئی آسان بات نہ تھی ۔اسی لیے رسول عربی نے قدم قدم پر جہاں جسمانی اذیتوں کا سامنا فرمایا وہاں پر ذہنی اذیتوں کا بھی سامنا کیا لیکن اللہ رب العزت کا لطف شامل حال رہا کہ ہر ایسے موقعے پر نہ صرف اللہ نے پیغامبر اسلام ﷺ کی حمایت و نصرت فرمائی بلکہ عظمت اور شان پیامبرﷺ کو واضح اور روشن فرما دیا ۔جیسا کہ پیامبر خدا ﷺ کو شاعر کہا گیا تو اسکی نفی کے لیے وحی کو نازل فرما دیا پیامبر اسلام ﷺ کو مجنون کہا گیا تو قرآن نے آپ کی ذات کو عقل دانائی اور علم و حکمت شاہکار قراردے دیا۔ جب عرب کے معاشرے میں ابتر کا طعنہ ملا تو فورا سورہ کوثر نازل فرما کر دشمنوں کو بے نسل قرار دے دیا ۔اسی طرح وحی الہی جب کچھ دیر کے لیے موقوف ہو گئی تو اور دشمنان توحید و رسالت نے خدا کی ناراضگی کا طعنہ دیا تو اللہ تعالی نے اپنے حبیبﷺکی دلداری اور تسلی کے لیے پوری سورہ والضحی نازل فرما دی۔
فضیلت سورةالضحی
اُبی ابن کعب سے روایت ہے کہ جو بھی اس سورہ کی تلاوت کرتا ھے اللہ اس پر راضی ھوتا ھے۔ پیامبر خدا ﷺاس کی شفاعت فرمایں گے اور ھر یتیم اور سائل کے بدلے اللہ اس کو دس نیکیاں عطا فرمائے گا (ترجمہ تفسیر جوامع الجامع ج 6 ص 656)
اس سورہ کی ایک خاصیت یہ بھی ھے کہ اس کی ھر ایک آیت میں مخاطب کی ضمیر ھے جس سے یہ ظاھر ھوتا ھے اللہ نے اپنے نبی محمد ﷺکو لطف و محبت کا محور قرار دیا ہے۔
فضیلت پیامبر اکرم ﷺ اور شان نزول سورة الضحی
اس سورہ کے شان نزول کے متعلق بہت ساری روایات تفسیری کتابوں میں وارد ہوئی ہیں جن میں کچھ کا ذکر ہم یہاں کریں گے۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ جب پیامبر اسلام پر وحی کا سلسلہ 15 دنوں کے لیےمنقطع رہا تو مشرکین مکہ کہنے لگے محمدﷺکے رب نے ان کو چھوڑ دیا اور اللہ پیامبر ﷺسے ناراض ہےاور اگر وحی کا سلسلہ اللہ کی طرف سے ہوتا تو پے در پے وحی ہوتی رہتی؛ یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ نے اپنے حبیب کی حمایت فرمائی اور سورہ ضحی نازل فرمائی (تفسیر نمونہ ج 2 ص 92)
ابن جریح کہتا ہے 12 دن وحی قطع رہی مقاتل کے مطابق 40 دن تک وحی کا سلسلہ رکا رہا تو بعض مسلمانوں نے عرض کی یا رسول اللہ آپ پر وحی نازل کیوں نہیں ہو رہی تو آپ نے فرمایا کس طرح وحی نازل ہو جبکہ آپ ناخن نہیں تراشتے اور پاکیزگی اختیار نہیں کرتے۔
تب سورہ والضحی نازل ہوئی تو رسول اکرم ﷺنے جبریل سے فرمایا آپ کیوں نہیں آتے تھے میں آپ کی زیارت کا مشتاق تھا جبریل امین بولے میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں در حالانکہ میں آپ سے زیادہ آپ کی زیارت کا مشتاق تھا (مجمع البیان فی تفسیرالقرآن ج10 ص765)
ایک اور روایت کے مطابق کچھ یہودی پیامبر اسلام ﷺکی خدمت میں آئے اور حضرت ذوالقرنین ، اصحاب کہف اور روح کے متعلق سوال کیا پیامبر اسلام ﷺ نے فرمایا کل اس کا جواب دیں گے لیکن وحی نازل نہ ہوئی جس پر آپ سخت غمگین اور پریشان ہوے کیونکہ پیامبر اسلام ﷺکو دشمنان اسلام سے طعن تشنیع کا خطرہ تھا یہاں تک کہ سورہ والضحی نازل ہوئی جو کہ پیامبر اسلام ﷺکی تسلی کا موجب بنی۔ (لباب التاویل فی معانی التنزیل ج4 ص438)
ایک اور روایت کے مطابق ابولھب کی بیٹی جمیل نے پیامبراسلام ﷺکو طعنہ دیتے ہوے کہا (معاذاللہ) آپ کے شیطان نے آپ کو ترک کر دیا ہے ) اس طعنہ پر پیامبر خدا ﷺغمگین ہوے اور ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ سورہ والضحی کی صورت میں وحی نازل ھوئی اور پیامبر اسلام ﷺکی راحت اور خوشی کا باعث بنی (ابن عاشور التحریر والتنویر ج30 ص348)۔ اب ان تمام روایات کی روشنی میں یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہونا ایک مصلحت کے تحت تھا۔
الله کا اپنے حبیب ﷺکے ساتھ محبت کا اظہار
اللہ کریم نے قسم سے بات کو شروع کیا شاید یہ بیان کرنا مقصود ہو کہ اے میرے حبیب ﷺدن کی روشنی کی قسم! اور رات کے سکون کی قسم! وحی کے آنے میں جو تاخیر ہوئی ہے اس میں نہ تو وحی کی روشنی سلب کرنا مقصود ہے اور نہ ہی وحی کا سکون ختم کرنا مراد تھا۔ اے میرے حبیب ﷺتیرے خدا نے تمییں کسی مقام پر بھی تنہا نہیں چھوڑا ۔
یہ انداز گفتگو اور قرآن کا انداز بیان پیامبر خدا ﷺکے دل کو بہترین انداز سے تسلی دینے کے ساتھ ساتھ دشمنان قرآن و رسول کے لیے بھی پیغام ہے کہ خدا اپنے رسول ﷺ کو کسی مقام پر تنہا نہیں چھوڑتا۔اور آیت نمبر 4 میں فرمایا گیا اے رسول ﷺآپ دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کو خاطر میں نہ لائیں یہ تمام مشکلات اور مصائب وقتی ہیں اللہ کریم نے آپ کے لیے جو آخرت میں اجر و مقام رکھا ہے وہ دنیاوی مقام سے کہیں بلند و بالا اور زیادہ ھے۔بعض مفسرین نے اس کی تفسیر یوں بھی بیان فرمائی ہے کہ اے رسول اللہ؛ اللہ نے آپ کی زندگی کا آخری حصہ زندگی کے پہلے حصے کی نسبت آسان عظمت و شان والا رکھا ھے۔ یعنی زندگی کے پہلے حصے میں فقیری ، یتیمی، بے وطنی، ھجرت، قریبی رشتے داروں کی دشمنیاں وغیرہ یہ سخت ترین مصائب تھے ۔اور آخری زندگی میں اللہ نے اسلام کو قوت بخشی فتح مکہ ہوا ، مدینہ میں حکومت اسلامی کی تشکیل ہوئی دعوت اسلام کو پورے جہان میں پھیلایا یہ وہ نعمتیں تھیں ممکن ہیں کہ جن کو آیت نمبر 4 میں اشارتاً بیان فرمایا گیا ہو۔
مقام شفاعت پیامبر خداﷺ
جیسا کہ سورة والضحی کی آیت نمبر 5 میں ارشاد ہو رہا ہے کہ (ولسوف یعطیک ربک فترضی) اے رسول عنقریب خدا آپ کو ایسا مقام عطا فرماے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے ۔اب سوال یہ ہہے کہ اللہ نے وہ کیا مقام و مرتبہ عطا فرمایا کہ جو پیامبر اسلام ﷺکی رضایت اور خشنودی کا باعث ہو سکتا ہے ۔
اس کے متعلق مفسرین کی مختلف آراء ھیں: بعض کے نزدیک اسلام کی پیروزی ،اور پیامبر خدا ﷺکی کامیابی مراد ہے اور یہ اللہ کا ایک بہترین کرم اور خاص انعام ہے اپنے پیارے حبیب کے لیے کہ جس کے لیے فرمایا جا رہا ہے اے میرے عبد خاص آپ کو ہم وہ عطا فرمائیں گے کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔ آپ دنیا میں اپنے دشمنوں پر غلبہ پا لیں گے اور اسلام کے قوانین تمام جہان پر حاکم قرار پائیں گے اس کے ساتھ ساتھ جو آجر و مقام آخرت میں تمھیں عطا ہو گا وہ بھی خدا تعالی کے پاس محفوظ ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پیامبر اسلام ﷺ، خاتم الانبیاءکی خوشنودی کافی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ پیامبر اسلام ﷺ تب راضی اور خوش ھوں گے جب انکی امّت کے لیے آنحضرتﷺکی شفاعت قبول فرمائی جائے گی اسی وجہ سے اس آیت کے ذیل میں یہ روایات بھی نقل ھوئی ہیں جن میں اشارہ ملتا ہے کہ یہ امید بخش ترین آیت ہے کیونکہ اس آیت کی رو سے پیامبر خدا ﷺ کو حق شفاعت جیسی عظیم منزلت عطا ہوئی ہے۔ (ناصر مکارم شیرازی تفسیر نمونہ ج 27 ص )
حارث بن شریح محمد ابن علی (ابن الحنفیہ) سے روایت کرتے ہیں ۔انہوں نے فرمایا اے اہل عراق کیا تم گمان کرتے ہو کہ قرآن میں امید بخش ترین آیت یاعبادی الذین اسرافو علی انفسھم۔۔۔ یہ ہے مگر ہم خاندان رسالت اور اہلبیت کے نزدیک آمید بخش ترین آیت؛ آیت قرآنی ولسوف یعتیک ربک فترضی ہے اور خدا کی قسم اس سے مراد شفاعت اور قیامت اور روز قیامت ہے۔ (فضل بن حسن طبرسی ترجمہ و تفسیر مجمع البیان ج27 ص 141)
فخرالدین رازی اہلسنت کے مفسر کہتے ہیں جب یہ آیت رسول خدا ﷺ پر نازل ہوئی تو رسول اللہ نے فرمایا کہ جب تک میری امّت کا ایک فرد بھی آتش جھنم میں ہو گا میں راضی نہیں ہونگا ۔یہ آیت شریفہ شفاعت رسول خدا کو بیان فرما رهی ہو فخر رازی پھر اس روایت کو امام علی ؑ سے نقل کرتے ییں کہ ان هذا هو الشفاعةفي الامّة ؛مقام رضایت رسول خدا ﷺسے مراد امّت کے لیے حق شفاعت کا عطا ہونا ہے(محمد بن عمر فخر رازی التفسیر الکبیر ج 31 ص194)
پیامبر خدا ﷺ کو دو بڑی نعمتوں کی یاد آوری
جیسا کہ تاریخ کے اوراق میں واضح ہے کہ پیامبر خدا ﷺ کے والدین بچپن سے ہی اس دنیا میں نہ رہے اور آپ یتیمی کی سختی کو برداشت کرتے رہے جس کی یادآوری اللہ نے اپنے نبی کو اس آیت میں کروائی اور ساتھ میں اس نعمت کی طرف بھی اشارا فرما دیا جو اللہ نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کواس یتیمی کے بدلے میں عطا فرمایا ۔
اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ھے کہ ماں باپ اور دادا کے سایہ کے اٹھنے کے بعد اللہ نے جس پناہ کو اور گود کو رسول اللہ کے لیے پسند فرمایا وہ گود حضرت ابو طالب کی گود ھے ۔جس نے ھر لحاظ سے ایک سائبان کی طرح پیامبر خدا ﷺکی حفاظت فرمائی اور قرآن میں اللہ نےاس پناہ گاہ کو اپنی طرف نسبت دیتے ھوے فرمایا اَلَم یَجِدکَ یَتِی مًا فَاٰوٰی (۶ الضحی) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر پناہ دی؟
تفسیر آیات
آپ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شکم مادر میں چھ ماہ کے تھے۔ جب آپؐ کی ولادت ہوئی تو آپؐ کی والدہ اور آپ کے جد عبدالمطلب نے پرورش کی۔ جب آپؐ کا سن مبارک چھ سال ہو گیا تو آپؐ کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا اور آپؐ کے جد بزرگوار عبد المطلب کا انتقال ہوا تو آپ آٹھ سال کے تھے۔ اس کے بعد آپ کے مہربان چچا حضرت ابو طالب نے حضرت عبد المطلب کی وصیت کے مطابق آپ کی تربیت کی۔
روح المعانی میں آیا ہے کہ حضرت ابو طالب نے اپنے بھائی عباس سے کہا:
کیا میں محمد (ﷺ) کے بارے میں آپ کو کچھ بتاؤں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا: میں اسے اپنے پاس رکھتا ہوں۔ دن رات میں ایک گھڑی کے لیے اسے اپنے سے جدا نہیں رکھتا اور اس کے بارے میں، میں کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرتا یہاں تک کہ میں اپنے بستر پر اسے سلاتا ہوں۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کا عمل، اپنا عمل قرار دے کر فرمایا: فَاٰوٰی۔ اللہ نے انہیں پناہ دی۔ یعنی ابو طالب جیسی پناہ عنایت کی۔ والدۂ حضرت علی علیہ السلام حضرت فاطمہ بنت اسد کا اس پرورش میں اہم کردار رہا ہے۔ لفظ فَاٰوٰى، پناہ دینے کے عمل میں عبد المطلب، فاطمہ بنت اسد اور حضرت ابوطالب کی خدمات کی طرف اشارہ ہے۔(شیخ محسن نجفی تفسیر الکوثر تفسیر سوره والضحی آیت 6)
اور دوسری نعمت اللہ تعالی نے حضرت خدیجہ (س) کی صورت میں عطا فرمائی جن کی ذاتی خدمات کے ساتھ ساتھ ان کا مال فقر و تنگدستی کی صورت میں کام ایا اور اللہ نے ان کی خدمت کو ان الفاظ سے پیامبر خدا ﷺکو یادآوری کروائی وَوَجَدَكَ عَايلاً فاغنى (۸ الضحی) وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی (۷ الضحی)۔ اور اس نے آپ کو ضال و گمنام پایا تو راستہ دکھایا۔یهاں پر مهم سوال یه هے که.رسول خدا کی نسبت ( ضال ) سے کیا مراد ھے ؟
ضال کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے:
الف: غافل کے معنوں میں۔ جیسے:لَا یَضِلُّ رَبِّی وَ لَا یَنسَی (۲۰ طہ:۵۲) میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے۔
ب: ذہن سے بات نکل جانے کے معنوں میں۔ جیسے:اَن تَضِلَّ اِحدٰى ہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحدٰى ہُمَا ال اُخرٰی۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۸۲) تاکہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے۔
ج: گم اور ناپید ہونے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ قیامت کے دن مشرکوں سے کہا جائے گا: اَینَ مَا کُنتُم تَدعُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ ؕ قَالُوا ضَلُّوا۔۔۔ (اعراف:۳۷)
کہاں ہیں تمہار ے وہ (معبود) جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے تھے؟ وہ کہیں گے: وہ ہم سے غائب ہو گئے۔
لہٰذا آیت میں ضال کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپؐ کی قدر و منزلت لوگوں سے پوشیدہ تھی۔ ہم نے آپ کو پہچانوایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود مبارک اس تاریک معاشرے میں غیر معروف تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و شوکت اس غیر مہذب قوم کے درمیان پوشیدہ تھی، دنیا کو تہذیب و تمدن سے روشن کرنے والا یہ نور، بصیرت و بصارت نہ رکھنے والوں سے غائب تھا، اللہ نے اس نور کو ظاہر کیا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بتانا مقصود ہو کہ اس عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی کے راستوں کی آپ کی راہنمائی ہم نے کی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایاوَ نُیَسِّرُکَ لِلیُسرٰی (۸۷ اعلیٰ: ۸) اور ہم آپ کے لیے آسان طریقہ فراہم کریں گے۔(تفسیر الکوثر ضمن تفسیر سورہ الضحی ایت 7)
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے بہت سارے اقوال نقل کیے ھیں اور اس کا مفہوم معین کرنے کی غرض سے بڑی ٹھوکریں کھایں جیسا کہ فخر رازی نے مفاتیح الغیب میں بیس قول نقل کیے صاحب مجمع البیان نے اس کے متعلق چھ قول درج کیے ھیں ۔تمام محققین اھل اسلام اور اہل ایمان کا مسلمہ عقیدہ ھے کہ پیامبر اسلام ﷺکا دامنِ عصمت مہد سے لہد نہ فقط کفر و شرک کی آلودگی سے، بلکہ ھر قسم کے صغیرہ اور کبیرہ گناہ کی کثافت سے پاک اور صاف رھا ھے لذا اس آیت کا مفہوم واضح اور روشن کرنے کے لیے ضرورت ھے کہ ھم اس مقام پر امام رضا علیہ السلام کے فرمان پر اکتفاء کرتے ھیں جو امام علیہ السلام نے مامون عباسی کے دربار میں اس کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا؛ وجدك ضالاً فى قوم لايعرفون حَقّكَ فَهدى الناس اليك؛یعنی اللہ نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو امّت میں گم نام اور غیر معروف پایا کہ وہ آپ کی قدر و منزلت کو نہیں جانتے تھے تو اللہ نے لوگوں کی ھدایت فرمایئ کہ وہ آپ کو جان لیں۔( تفسیر فیضان الرحمان ؛ آیة الله محمد حسین نجفی ج 10 ص491)
سورہ والضحی کے آخر میں اللہ نے اپنے عبد خاص کو بعض احکام کی طرف متوجہ فرمایا جس میں یتیم کی تکریم؛ سائل کی حاجت روایی؛ اور نعمتوں کے اظہار کا دستور دیا گیا ۔ان تین آیات میں اگرچہ خطاب پیامبر خدا ﷺکی ذات سے ھے لیکن یہ احکام تمام امّت کے لیے ھیں۔
خلاصہ کلام
اس سورہ کے شروع سے ھی اللہ نے نعمتوں کو اور اپنی عنایتوں کا ذکر شروع کیا جو یتیم عبداللہ پربھیجیں مثلاً وحی کے منقطع ھونے بعد دوبارہ وحی کا آنا پیامبر خدا ﷺکے دل کو تسلی اور تسکین ؛ اسلام کی سر بلندی ؛ عہدہ رسالت ؛مقام شفاعت عطا کرنا ؛ یتیمی کی صورت میں حضرت ابو طالب کا سایہ عطا کرنا ؛ فقر و تنگدستی میں حضرت خدیجہ(س) کا مال عطا کرنا؛ گمنامی کی صورت میں پوری دنیا میں آپ ﷺکے ذکر کو عام کرنا یہ وہ تمام عنایات ھیں جن کے متعلق آخرِ سورہ میں فرمایا گیا اما بنعمت رَبّك فَحدث(۱۱ الضحی) .اے رسول ﷺآپ ان نعمتوں کا اظہار فرمائیں تاکہ جہاں پر شکر خدا بجا لایا جا سکے وہاں پر ان نعمتوں کے اظہار سے دشمنان اسلام پر اپنی برتری کا اعلان بھی ھو سکے ۔ والحمدلله رب العالمین
منابع
- ابن عاشور محمد طاھر بن محمد ، تفسیر التحریر و التنویر ، مؤسسةالتاریخ العربی ، بیروت ، 1420 ہ ۔ق
- ابن کثیر ، تفسیر القرآن دار الکتب العلمیة ، منشورات محمد علی بیضون، بیروت ، 1419 ہ۔ق
- النجفی،محمد حسین،فیضان الرحمن فی تفسیر القرآن،مصباح القرآن ،لاهور،۲۰۱۵ م
- النجفی،محسن علی،الکوثر فی تفسیر القرآن،مصباح القرآن،لاهور
- خازن ، علی بن محمد ، لباب التأویل فی معانی التنزیل ، دارالکتب العلمیة ، منشورات محمد علی بیضون ، بیروت ، 1415 ہ۔ق
- طبرسی ، فضل بن حسن ، ترجمہ تفسیر مجمع البیان ، فراھانی ، تھران ، بی تا
- فخر رازی ، محمد بن عمر ، التفسیر الکبیر ( مفاتیح الغیب ) ، دار إحیاء التراث العربی ، بیروت ، چاپ : سوم ، 1420 ہ ق
- مترجمان ، ترجمہ تفسیر جوامع الجامع ، آستان قدس رضوی ، بنیاد پژوھشھای اسلامی ، مشھد مقدس ، 1375 ہ۔ش
- مکارم شیرازی ، ناصر ، تفسیر نمونہ ، دار الکتب الإسلامیة ، تھران 1371 ہ۔ش
ریاض حیدر علوی
کارشناسی ارشد تفسیر و علوم قران
جامعه المصطفی العالمیه قم؛ایران