وحدت اسلامی کی اہمیت، سیرت امام   صادق  ‍‌‍‌ (ع)کی روشنی میں

محمد عمار رضا اعوان

مقدمہ:

موجودہ زمانے میں جہان اسلامی،  عالمی سازشوں اور استعمار کے اوچھے ہتھکنڈوں کا شکار بن چکا ہے۔اور روز بروز اسلام دشمنی اور اسلام ہراسی کی کوششوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔اسلام دشمنی کے آزمودہ اور سب سے خطرناک ترین حربوں میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں میں تفرقہ اور فرقہ واریت کو ہوا دی جائے۔اور  مسلمانوں کے چند اختلافی مسائل کو آتشین اسلحہ کے طور پر استعمال کر کے اصل اسلام کو اس صفحہ ہستی سے مٹایا جا سکے۔آج  اکثر مسلمان ممالک عموماً اور مملکت خداداد پاکستان خصوصاً فرقہ واریت اور عدم برداشت جیسی لعنت کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ان سازشوں اور دشمن کے بچھائے جالوں سے نبٹنےکا ایک ہی حل ہے کہ اسلامی وحدت،رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے۔ ماہ مبارک ربیع الاول بمناسبت میلاد مبارک حضرت رسول اکرم محمد مصطفی صلی الله علیه وآله وسلم اور رئیس مذهب جعفریه حضرت امام جعفر ابن محمد الصادق علیه السلام ،جہاں تمام مسلمانوں کے لیے عموماً اور شیعیان حیدر قرار علیہ السلام  کے لیے خصوصاً ،خوشیوں اور مسرتوں کا پیام لے کر آتا ہے  وہاں یہی ماہ ہمارے لیے اتحاد اور اسلامی رواداری کا  بھترین نمونہ بھی بن سکتا ہے۔الحمدللہ انقلاب اسلامی ایران کی بےشمار فیوض و برکات  میں  سے ایک عظیم برکت یہی اتحاد بین المسلمین کی عملى کوشش ہے کہ جس کو منظم کرنے کے لیے ہر سال ١٢ربیع الاول سے لے کر ١٧ ربیع الاول تک ہفتہ وحدت اسلامی منایا جاتا ہے،اور پوری دنیا سے تمام اسلامی فرقوں کے نمایندگان اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔لیکن اس عظیم مقصد اور ہدف کو حاصل کرنے کے لیے یہ کوششیں اس وقت تک ثمر آور نہیں ہوں گی جب تک ایک ایک مسلمان اپنے دل و جان سے اس نیک مقصد کے حصول کی کوشش نہ کرے۔وحدت اسلامی کے خواب کی تعبیر کے لیے سب سے بھترین حل یہ ہے کہ امت اسلامی کے مشترکات سے تمسک کیا جائے کہ جن میں سے سب سے عظیم القدر قرآن مجید ہے اور پھر سنت پیامبر اسلام اور سیرہ اہلبیت علیہم السلام۔انھی مشترکہ مقدسات میں سے ایک عظیم شخصیت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ہے،کہ جو تمام اسلامی فرقوں میں انتہائی اہمیت اور شان و مرتبت کے حامل ہیں،کہ جو نا صرف مکتب تشیع کے موسس ہیں بلکہ ہمارے برادران اسلامی کے موسسین اور  ائمہ کے استاد کا درجہ رکھتے ہیں ۔اس موضوع پر بحمد اللہ تمام اسلامی فرقوں کے علماء نے سیر حاصل ابحاث فرمائی ہیں۔اور مستقل کتابیں بھی تحریر کی ہیں ۔جیسے کتاب الامام الصادق و مذاہب اربعہ(جو اس موضوع پر واقعی بھترین کتاب ہے) تقبل اللہ سعیھم الجمیلہ۔یہ تحریر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ جس میں پہلے تو وحدت اسلامی کی ضرورت اور اہمیت کو  قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے اور پھر اس سلسلے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ سلام  کی کوششوں اور روشوں کی بحث کی گئی  ہے۔و من اللہ التوفیق۔

وحدت کی اہمیت اور ضرورت

اسلامی رواداری اور وحدت ،مسلمانوں کی تاریخی ،اجتماعی اور سیاسی ضروریات میں سے سب سے اہم ضرورت ہے۔مسلمانوں کی عزت اور کامیابی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔اور اس کے مقابلے میں اختلاف اور تفرقہ کا نتیجہ سوائے ذلت و خواری اور جہالت کے کچھ نہیں۔اسلامی رواداری اور وحدت کی طرف دعوت اور تفرقہ سے پرہیز کا حکم قرآن اور محمد و آل محمد علیہم السلام کے مہم ترین احکامات میں سے ہے۔قرآن نے مسلمانوں کو امت واحدہ کے نام سے پکارا ہے۔ إِنَّ هذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً واحِدَةً وَ أَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ(انبیاء٩٢) یہ تمہاری امت یقینا امت واحدہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں لہٰذا تم صرف میری عبادت کرو۔اسی طرح مومنین کو  آپس میں ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے اور آپس کے تعلقات کی اصلاح کا حکم دیا ہے۔ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (حجرات ١٠) مومنین تو بس آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا تم لوگ اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔اور تمام مسلمانوں کو تفرقہ سے پرہیز اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا امر دیا ہے۔ وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا وَ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْواناً وَ كُنْتُمْ عَلى شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ۔(آل عمران ١٠٣) اور تم سب  باهم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔اور ساتھ ہی ساتھ تفرقہ کے ممکنہ خطرات اور نتائج سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔ وَ لا تَنازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ ريحُكُمْ وَ اصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرينَ (انفال ٤٦)  اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ هے‌‎‎‎‎۔

اسی طرح اگر ہم سیرہ مطہرہ معصومین علیہم السلام کی طرف دقت کریں، تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک وحدت امت اسلامی سے بڑھ کر اور کوئی چیز محبوب اور تفرقہ سے بڑھ کر اور کوئی چیز مبغوض نہ تھی۔اور یہی وحدت اسلامی تھی کہ جس کی خاطر انہوں نے اپنے حقوق کو بھی پس پشت ڈال دیا اور اپنے مناصب چھن جانے پر بھی صبر کیا۔امام علی علیہ سلام کا 25 سالہ سکوت،صلح امام حسن علیه سلام،امام رضا علیہ السلام کی طرف سے ولایت عہدی کی قبولیت،ان کےعلاوہ سینکڑوں مثالیں اس بات کی گواہ ہیں کہ ان بزرگواران کے نزدیک وحدت امت اسلامی کا کیا مقام تھا۔

وحدت اسلامی کا مفہوم اور دائرہ کار

بعض افراد سمجھتے ہیں کہ وحدت مسلمین اور تقریب مذاہب صرف خاص حالات یا خاص اماکن تک محدود ہیں اور  وه بھی بہ امر مجبوری یا بصورت تقیہ ،وگرنہ مختلف فرقوں میں دوستانہ تعلقات اور اخلاص پر مبنی رواداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،حالانکہ ہمیں یہ امر مدنظر رکھنا چاھیے کہ کچھ مسائل میں فرقوں کا اختلاف ،اخوت اسلامی اور باھمی رواداری میں مانع و مخل نہیں ہوتا ،جب دین مبین اسلام تمام مسلمانوں کو یہ امر دیتا ہے کہ باقی ادیان آسمانی (یہودیت، مسیحیت وغیرہ) کے ساتھ عادلانہ میل جول اور مسالمت آمیز تعلقات رکھیں اور ان کے ساتھ مشترکات کی بنیاد پر معاشرے میں زندگی گزاریں، تو برادران دینی کہ ساتھ تعلقات رکھنے میں قرآن کا موقف بدرجہ اولی واضح اور روشن ہے۔قرآن میں ارشاد ہے کہ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَ لا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَ لا يَتَّخِذَ بَعْضُنا بَعْضاً أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران ٦٤) کہدیجیے:اے اہل کتاب! اس کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں، پس اگر نہ مانیں تو ان سے کہدیجیے: گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ہماری توجہ ہونی چاہئے کہ جب ہم وحدت اسلامی اور رواداری کی بات کرتے ہیں تو  ہمیں وحدت امت اسلامی اور وحدت مذاھب کے درمیان خلط اور اشتباہ                  نہیں کرنا چاھیے۔کیونکہ بعض اوقات نظریہ وحدت کی ناقص یا غلط تعبیرات کی وجہ سے افراد میں مختلف شبھات اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔وحدت اسلامی کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارے نزدیک جو قطعیات اور مسلمات مذہب ہیں، ان کو چھوڑ دیں یا ان سے دستبردار ہو جائیں،بلکہ اس کا معنا یہ ہے کہ اپنے اعتقادات اور مسلمہ نظریات پر قائم رہتے ہوے، مشترکات دینی کی بنیاد پر باہمی رواداری اور بھائی چارے کی فضا میں زندگی گزاری جائے اور ایسے اختلافی مسائل کہ جن کو زیربحث لانے سے سوائے فرقہ واریت اور نفرت کے اور کوئی نتیجہ برامد ہونے کا امکان نہ ہو ،کو زیر بحث لانے سے اجتناب کیا جائے۔البتہ جہاں علمی اور خالصتا تحقیقی فضا میسر آجائے تو دوستانہ ماحول میں بحث و تمحیص میں کوئی حرج نہیں بلکہ انہی علمی ابحاث سے استفادہ کرتے ہوئے مسائل تاریخی ،فقھی اور اعتقای کو جدال احسن کے زریعے سلجھایا جا سکے تو اس سے بڑھ کر وحدت اسلامی کی خدمت نہیں ہو سکتی،لیکن یہ مناظرانہ بلکہ جاہلانہ انداز ،گالم گلوچ،توہین ،نعرے بازی اور وال چاکنگ وغیرہ کے طریقوں سے آج تک نہ کوئی راہ راست پر آیا ہے(اور اگر آیا بھی ہے تو اس کا جو نقصان داخلی طور پر خود مذھب شیعہ کو اٹھانا پڑا ہے وہ اظہرمن الشمس ہے) اور نہ ہی یہ ہمارے مذہب کے اصولوں کے مطابق ہے۔جدال احسن اور ہمارے مروجہ مناظرے میں جو فرق ہے ارباب عقل و دانش اور اہل انصاف کے لیے واضح و روشن ہے۔

بنابر ایں وحدت اسلامی سے ہمارا مقصود یہ ہونا چاھیے کہ تمام مذاھب و مسالک اور مکاتب فکر اختلافی مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے دینی مشترکات کو اخذ کریں اور باھمی رواداری سے زندگی گزاریں ،اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ تمام مسالک میں سے کسی ایک کو چن لیا جائے اور مخالفین پر زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی جائے یا تمام مسالک کو جڑ سے ختم کر کے نئے اصول یا قوانین دینی وضع کیے جائیں کہ جو تمام مسالک اور مکاتب فکر کو قبول ہوں کیونکہ یہ امر نہ ہی ممکن ہے اور نہ ہی منطقی و عاقلانہ۔

انہی مشترکات بلکہ بین المذاھب مقدسات میں سے ایک بہت بڑا مصداق اہلبیت علیہم السلام کی شخصیات ہیں۔یہ وہ شخصیات ہیں کہ جو تمام مسالک اور مکاتب فکر کے نزدیک انتہائی قابل احترام اور مقدسات کا درجہ رکھتی ہیں۔(سوائے ناصبیوں اور تکفیریوں کے،کہ جن کو مسلمان کہنا،لفظ اسلام کے لغوی اور اصطلاحی دونوں معانی کے مخالف ہے)۔ہمیں چاہیے کہ ان حضرات کی سیرت عالیہ اور فرامین مقدسہ کو موضوع بحث بنایا جائے ۔ان کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کا مطالعہ کر کے اپنی راہوں کو متعین کیا جائے۔جو صحیح احادیث کی صورت میں ہمارے پاس ائمہ اطھار کی علمی میراث موجود ہے اس کو تمام مسالک اور مکاتب فکر کے سامنے پیش کیا جائے۔کیونکہ ممکن نہیں کہ لوگ معارف حدیثی سے آشنا ہوں اور اہلبیت علیہم السلام کے عاشق نہ ہو جائیں۔روایت هے که                  سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ عَلِيَّ بْنَ مُوسَى الرِّضَا ع يَقُولُ رَحِمَ اللَّهُ عَبْداً أَحْيَا أَمْرَنَا فَقُلْتُ لَهُ وَ كَيْفَ يُحْيِي أَمْرَكُمْ قَالَ يَتَعَلَّمُ عُلُومَنَا وَ يُعَلِّمُهَا النَّاسَ فَإِنَّ النَّاسَ لَوْ عَلِمُوا مَحَاسِنَ كَلَامِنَا لَاتَّبَعُونَا (عيون أخبار الرضا،ج١،ص٣٠٨) راوی کہتا ہے کہ میں نے سنا کہ امام فرما رہے تھے کہ خدا رحمت کرے  اس شخص پر کہ جو ہمارے امر کو زندہ کرے تو میں نے پوچھا کہ وہ کیسے آپ کے امر کو زندہ کر سکتا ہے تو امام نے فرمایا کہ ہمارے علوم اور معارف کو حاصل کرے اور لوگوں تک پہنچائے اگر لوگوں کو ہمارے کلام کی خوبصورتی اور محاسن کا علم ہو جائے تو وہ ہماری اتباع کریں۔مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ ہماری کوتاھی ہے کہ ہم اہلبیت علیہم السلام کی اس علمی میراث کی تبلیغ کا حق ادا کرنا تو دور کی بات ،خود بھی اس سے کما حقہ مطلع نہیں ہیں ۔خدا ہمیں معارف محمد و آل محمد علیہم السلام کے سمجھنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔

شخصیات اہلبیت علیہم السلام میں سے جس شخصیت مقدسہ کو سب سے زیادہ اور مختلف مسالک و مکاتب سے ارتباط اور برخورد کا موقع ملا وہ امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں کہ جن کی ولادت با سعادت کی عظیم مناسبت کے حوالے سے وحدت اسلامی اور باھمی رواداری میں ان کے عظیم کردار کے چند پہلو  قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا؛

امام صادق علیہ السلام کا  عموم اہلسنت سے ارتباط :

امام صادق علیہ سلام کا اہل سنت سے ارتباط اور تعلق باھمی رواداری اور خیرخواہانہ رویے پر مشتمل تھا۔آپ کے نزدیک تمام مسلمان، فرزندان اسلام اور  آپس میں بھائی  کا درجہ رکھتے تھے۔اگر آپ کی معاشرتی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنے دروس اور فرامین میں ،اپنے آپ کو مرجع علمی اسلام کے طور پر متعارف کروایا ، نہ کہ ایک خاص مکتب کے رئیس و امام کے حوالے سے۔امام علیہ سلام کا  مقام و منصب صرف رئیس مکتب تشیع و جعفری کا نہ تھا بلکہ آپ منبع ہدایت اور مرجع معارف اسلامی کے طور پر مانے جاتے تھے۔آپ کے مکتب کے چار ہزار شاگردان میں سے ایک بہت بڑی تعداد اہل سنت حتی ادیان دیگر کے ماننے والوں کی بھی تھی۔آپ علیہ سلام کا مدرسہ اور بیت مبارک ،تمام مسالک کے ماننے والوں کے لیے مرجع علمی اور بزرگان اہل سنت کے لیے حلال مشکلات کا مرتبہ رکھتا تھا۔

نہ صرف امام صادق علیہ السلام کا اہل سنت سے اپنا  تعامل و تعلق نیک نیتی اور اسلامی رواداری پر مشتمل تھا بلکہ آپ علیہ سلام نے ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو بھی یہی سفارش کی،چنانچہ جب آپ کے ایک صحابی نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ مولا آپ کے ماننے والوں کا اپنے غیر شیعہ رشتے داروں ،برادری والوں اور پڑوسیوں سے تعلق کیسا ہونا چاھیے تو امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ تم اپنے ائمہ اور رہبروں کی سیرت کو دیکھو کہ ان کی رفتار اور کردار کیسا تھا۔جیسے وہ رہتے ہیں ،ویسے ہی تم لوگ بھی رہو،اللہ کی قسم  تمہارے ائمہ ان کے بیماروں کی عیادت کرتے ہیں ،ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں ،ان کے بارے گواہیاں دیتے ہیں،اور ان کی امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں  کہ تمہارا رویہ ان کے ساتھ ایسا ہونا چاھیے کہ جب وہ لوگ تمہاری نیک سیرت اور اچھے کردار اور تعلقات کو دیکھیں تو کہیں کہ ایسے ہوتے ہیں صادق کے شیعہ۔اچھے کام اور تعلقات تم انجام دو گے ،اور تعریف تمہارے رھبران کی ہو گی کہ خدا رحمت کرے جعفر ابن محمد علیہم السلام پر کہ کیسے نیک شیعہ کی تربیت کی ہے۔جیسا کہ فرمان امام صادق علیہ السلام  ہے کہ  يَا زَيْدُ خَالِقُوا النَّاسَ بِأَخْلَاقِهِمْ صَلُّوا فِي مَسَاجِدِهِمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ اشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَكُونُوا الْأَئِمَّةَ وَ الْمُؤَذِّنِينَ فَافْعَلُوا فَإِنَّكُمْ إِذَا فَعَلْتُمْ ذَلِكَ قَالُوا هَؤُلَاءِ الْجَعْفَرِيَّةُ رَحِمَ اللَّهُ جَعْفَراً مَا كَانَ أَحْسَنَ مَا يُؤَدِّبُ أَصْحَابَهُ وَ إِذَا تَرَكْتُمْ ذَلِكَ قَالُوا هَؤُلَاءِ الْجَعْفَرِيَّةُ فَعَلَ اللَّهُ بِجَعْفَرٍ مَا كَانَ أَسْوَأَ مَا يُؤَدِّبُ أَصْحَابَهُ (من لا يحضره الفقيه،جلد ١،ص٣٨٣،حدیث١١٢٨) امام فرماتے ہیں کہ افراد اہل سنت کے ساتھ انہی کے مطابق پیش آو،ان کی مساجد میں نمازیں ادا کرو،ان کے مریضوں کی عیادت کرو،اگر ان میں سے کوئی فوت ہو جائے تو ان کے جنازوں اور مراسم میں شرکت کرو،اگر تمھارے لیے ممکن ہو تو ان کے پیشنمازی کرو اور ان کے موذن بنو ،ان کاموں کو انجام دو،کیونکہ اگر تم اس اخلاق سے پیش آو گے تو وہ کہیں گے کہ یہ ہوتے ہیں شیعہ اور جعفری،خدا رحمت کرے جعفر ابن محمد پر کہ کیسا عمدہ ادب سکھایا ہے اپنے شیعوں کو،اور اگر خدانخواستہ تم نے ان کاموں کو ترک کر دیا، تو لوگ کہیں گے کہ جعفر ابن محمد نے کیسی بری تربیت کی ہے اپنے ماننے والوں کی۔یعنی اگر ہمارا اخلاق اچھا ہو گا تو لوگ امام صادق علیہ السلام کی تعریف کریں گے اور اگر ہمارا اخلاق مناسب نہیں ہو گا تو ہماری وجہ سے امام صادق علیہ السلام کی توہین ہو گی۔

 اسی طرح امام صادق علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے ایک اور مہم نکتہ ملتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ہمیشہ اس بات کی طرف توجہ رکھی ہے کہ مد مقابل کی علمی اور فکری حیثیت کیا ہے،اور ہمیشہ اس فکری حیثیت کے مطابق اس شخص سے برخورد کی ہے،ہم شیعیان اور محبان کو بھی  امام صادق علیہ السلام کی اس روش کو ہمیشہ مدنظر رکھتے ہوئے دیگر مسالک کے ماننے والوں سے ارتباط رکھنا ہو گا۔ہمیں اس چیز کی طرف انتہائی توجہ دینی ہو گی کہ ہمارا مد مقابل کس فکر کا حامل ہے ؟آیا وہ جان بوجھ کر اور معاندانہ طور پر مخالف ہے یا کسی پروپیگنڈے کا شکار ہے؟آیا وہ تمام اعتقادی و     تاریخی نکات اور اختلافی مسائل کا ادراک رکھتا بھی ہے یا نہیں؟آیا آج تک کسی نے اس کو امام صادق علیہ السلام کا کما حقہ تعارف کروایا بھی ہے یا نہیں؟آیا اس شخص کو تشخیص حق کا موقع ملا بھی ہے یا نھیں؟ یا نا آگاھانہ طور پر وہ مکتب اہل بیت علیہم السلام سے دور ہو چکا ہے،ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنا وظیفہ خصوصا تولا و تبرا کے حوالے سے مشخص کرنا چاھیے۔

امام صادق علیہ السلام کا اہل سنت کے علماءاور پیشواؤں کے ساتھ رویہ:

امام صادق علیہ السلام کا علمائے اہل سنت کے ساتھ رابطہ اس نوعیت کا تھا کہ ان کو یہ محسوس نہ ہوتا تھا کہ  ہم اپنے مخالف مذھب کےرئیس کے سامنے بیٹھے ہیں۔بہت سے علمائے اہلسنت امام صادق علیہ السلام کے رفقاء اور ہمنشینان میں شمار ہونے لگے۔علمائے اہل سنت کی عالی ترین شخصیات نے اپنے عموم و فنون کا ایک معتد بہ حصہ مکتب امام باقر و صادق علیہ السلام کے مکتب سے اخذ کیا۔اور اس بات پر انہوں نے باقاعدہ طور پر فخر و مباہات کیا۔ابو زہرہ عالم مکتب اھل سنت لکھتے ہیں کہ علمائے اسلام میں سے کسی نے بھی ،کسی امر پر اس طرح اجماع نہیں کیا جس طرح امام صادق علیہ السلام کے علم و فضل پر اجماع کیا (جعفریان،حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ،ص٣٩٩)۔ ابو حنیفہ امام اہل سنت کا مشہور قول ہے کہ لولا سنتان لھلک النعمان ؛    اگر میرے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سال نہ ہوتے تو میں ھلاک ہو جاتا۔ (الجندى،الامام جعفرالصادق،ص٢٥٢)

مالک ابن انس کہ  جنہوں نے نیز امام صادق علیہ السلام کے محضر مبارک سے استفادہ کیا،کہتے ہیں کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے سنا اور نہ کسی شخص کے وہم و گمان میں آیا  وہ شخص کہ جو علم و فضل و عبادت و زہد میں امام صادق علیہ السلام سے بڑھ کر ہو۔ (ابن حجر عسقلانی،تھذیب التہذیب،ج٢،ص١٠٤)اسی طرح امام مالک ابن انس کہتے ہیں کہ بھت عرصے میں امام صادق علیہ السلام کے پاس جاتا رہا،آپ کی شخصیت خوش مزاج تھی ،ہمیشہ آپ کے لبوں پر ایک ملایم سا تبسم موجود رہتا تھا۔میں جتنے عرصے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں ان کے گھر پے حاضر ہوتا رہا ،میں نے آپ کو صرف ان تین حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں دیکھا ،یا آپ نماز کی حالت میں ہوتے،یا روزہ کی حالت میں ،یا تلاوت قرآن کی حالت میں۔میں نے نہیں دیکھا کہ امام صادق علیہ السلام نے بغیر وضو اور طہارت کے اپنے جد امجد حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی ہو۔میں نے نہیں دیکھا کہ کبھی آپ کی زبان اقدس سے کوئی فضول یا بے محل بات نکلی ہو،آپ علماء اور زہاد میں سے تھے کہ جن کے اندر خوف خدا رچا ہوا ہوتا تھا،ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور آپ علیہ السلام  نے اپنے نیچے بچھے ہوئے بچھونے کو نکال کر میرے نیچے نہ بچھا دیا ہو۔ (یحصبی،ترتيب المدارك و تقريبالمسالك،ج١،ص٥٥)

امام صادق علیہ السلام کا مقدسات اہل سنت کے بارے رویہ:

امام صادق علیہ السلام کی اپنے فکری مخالفین سے برخورد کی روش ہمیشہ منطقی ،علمی اور استدلالی رہی اور آپ کی کسی گفتگو اور جدل میں توہین مخالف کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا،آپ علیہ السلام کی گفتار اور کردار اس بات کا شاہد ہے کہ آپ مقدسات اہل سنت کے بارے نہایت حساس اور محتاط تھے اور اپنے ماننے والوں کو بھی اسی بات کی ترغیب دیتے تھے۔روایات میں بارھا تذکرہ ہوا ہے کہ  ایاکم و الخصومة فى الدین (وسائل الشیعہ،ج١٦،ص١٩٨) کہ دین کے معاملات میں دشمنی اور خصومت سے پرہیز کرو۔مشہور واقعہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام کو کسی نے بتایا کہ فلاں شخص مسجد میں آپ کے مخالفین کو برملا برا بھلا کہتا ہے تو امام نے فرمایا کہ مالہ؟ لعنہ اللہ ،یعرض بنا(اعتقادات الامامیہ،ص١٠٧)، اس کو کیا ہوا ہے ،خدا اس پر لعنت کرے ،وہ اپنے اس کام سے ہمیں متعرض ہو رہا ہے۔وہ اپنے اس کام سے باعث بن رہا ہے کہ لوگ امام اور مکتب اہل بیت کے بارے منفی نظریات رکھیں۔علماء  اور ائمہ اہل سنت کا امام صادق علیہ السلام سے ارتباط اور آنا جانا تاریخی مسلمات میں سے ہے،اگر امام صادق علیہ السلام بھی بعض عوام کی طرح صرف توہین مقدسات اور لعن طعن کرنے میں مشغول رہتے تو کیسے ممکن تھا کہ اہلسنت کے علماء بلکہ ان کی فقہ کے ائمہ امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں بارہا شرفیاب ہوتے یا امام صادق علیہ السلام کی تعریفوں میں رطب اللسان رھتے۔عمرو ابن عبید، واصل ابن عطا، حفص ابن سالم،مالک ابن انس ابو حنیفہ،یحیی ابن سعید انصاری، ابن جریح، محمد ابن اسحاق، شعبہ ابن حجاج، ایوب سجستانی و غیرہم کے امام صادق علیہ السلام کے بارے خیالات و اظہارات تاریخ کا حصہ ہیں (حسينى،سيد على،مداراى بين مذاهب،ص٥٠٦)۔

علامہ اسد حیدر صاحب کتاب الامام الصادق و مذاہب اربعہ لکھتے ہیں کہ امام صادق علیہ سلام کی اسی  رواداری اور اخلاق عالیہ کا اثر تھا کہ جب بنو عباس کے خلاف شیعوں نے بعض علاقوں میں قیام کیا جیسے قیام محمد بن عبدللہ بن حسن اور ابراہیم کا قیام تو ابو حنیفہ امام اہل سنت نے کھل کر ان کی حمایت کی (الامام الصادق والمذاهب الاربعه،ترجمہ فارسی،محمد حسین سرانجام،ج١،ص٤٦٦)۔

امام صادق علیہ السلام  اور روش احتجاج و جدال احسن:

کسی بھی مکتب فکر  کے علماءو رہبران کا اہم ترین فریضہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے مبانی اور نظریات پر دلیل اور براہین کا اقامہ کریں۔اگرچہ امام صادق علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ا کثر حصہ محاصرہ بنی عباس میں گزرا ،لیکن اس کے باوجود گمراہان اور حقیقت طلبان کی ہدایت  و رہنمائی اور معاندین مکتب توحید و اہلبیت علیہم السلام کے شبھات کا جواب دینے کے لیے امام علیہ السلام نے جدال احسن اور احتجاج مستدل کی روش کو کبھی بھی پس پشت نہیں ڈالا۔امام صادق علیہ السلام نے اپنے علمی نظریات کو یوں بیان کیا کہ نظریاتی اور فکری مخالفین کو بھی یارائے انکار نہ ہوا۔امام علیہ سلام کی روش اور طریقہ کار یہ تھا کہ مخالفین کے اعتراضات و شبھات کے جواب خود انہیں کی معتبر ادلہ سے دیتے تھے ۔جیسے کہ محمد بن عبدالرحمن ابن ابی لیلی کہ جو معروف فقیہ،محدث ،مفتی اور قاضی کوفہ تھے،جب انھوں نےامام صادق علیہ السلام کے سامنے اپنے سوالات و شبھات پیش کیے اور ان کے کافی و شافی جوابات حاصل کیے تو کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر حجت ہیں۔ (من لا یحضرہ الفقیہ، ج١، ص١٨٨، حديث٥٦٩)

امام صادق علیہ سلام کے مناظرات بھی چند خاص اصول و قواعد پر مشتمل ہوتے تھے ،ان میں سے ایک ضابطہ یہ تھا کہ امام صادق علیہ السلام مناظرے سے پہلے موضوع کو روشن کرنے کے لیے اور مدمخالف  کی علمی حیثیت کو جانچنے کے لیے مختلف طرح کے سوالات اور مثالوں سے اپنی بات کا آغاز کرتے تھے۔ان مناظروں اور علمی ابحاث کی تفصیل احتجاج طبرسی،بحارالانوار،الاختصاص وغیرہ کتابوں میں مزکورہے۔نمونہ کہ طور پر امام صادق علیہ السلام اور ابوحنیفہ امام اہلسنت کا قیاس کہ موضوع پر ایک مناظرہ پیش خدمت ہے

مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: دَخَلَ أَبُو حَنِيفَةَ عَلَى  أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ اِبْنَكَ مُوسَى يُصَلِّي وَ اَلنَّاسُ يَمُرُّونَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلاَ يَنْهَاهُمْ وَ فِيهِ مَا فِيهِ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ اُدْعُ فَلَمَّا جَاءَهُ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنَّ أَبَا حَنِيفَةَ يَذْكُرُ أَنَّكَ تُصَلِّي وَ اَلنَّاسُ يَمُرُّونَ بَيْنَ يَدَيْكَ فَلاَ تَنْهَاهُمْ قَالَ نَعَمْ يَا أَبَتِ إِنَّ اَلَّذِي كُنْتُ أُصَلِّي لَهُ كَانَ أَقْرَبَ إِلَيَّ مِنْهُمْ يَقُولُ اَللَّهُ تَعَالَى: وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ اَلْوَرِيدِ  قَالَ فَضَمَّهُ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلَى نَفْسِهِ وَ قَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا مُودَعَ اَلْأَسْرَارِ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَا أَبَا حَنِيفَةَ اَلْقَتْلُ عِنْدَكُمْ أَشَدُّ أَمِ اَلزِّنَا فَقَالَ بَلِ اَلْقَتْلُ قَالَ فَكَيْفَ أَمَرَ اَللَّهُ تَعَالَى فِي اَلْقَتْلِ بِالشَّاهِدَيْنِ وَ فِي اَلزِّنَا بِأَرْبَعَةٍ كَيْفَ يُدْرَكُ هَذَا بِالْقِيَاسِ يَا أَبَا حَنِيفَةَ تَرْكُ اَلصَّلاَةِ أَشَدُّ أَمْ تَرْكُ اَلصِّيَامِ فَقَالَ بَلْ تَرْكُ اَلصَّلاَةِ قَالَ فَكَيْفَ تَقْضِي اَلْمَرْأَةُ صِيَامَهَا وَ لاَ تَقْضِي صَلاَتَهَا كَيْفَ يُدْرَكُ هَذَا بِالْقِيَاسِ وَيْحَكَ يَا أَبَا حَنِيفَةَ اَلنِّسَاءُ أَضْعَفُ عَنِ اَلْمَكَاسِبِ أَمِ اَلرِّجَالُ فَقَالَ بَلِ اَلنِّسَاءُ قَالَ فَكَيْفَ جَعَلَ اَللَّهُ تَعَالَى لِلْمَرْأَةِ سَهْماً وَ لِلرَّجُلِ سَهْمَيْنِ كَيْفَ يُدْرَكُ هَذَا بِالْقِيَاسِ يَا أَبَا حَنِيفَةَ اَلْغَائِطُ أَقْذَرُ أَمِ اَلْمَنِيُّ قَالَ بَلِ اَلْغَائِطُ قَالَ فَكَيْفَ يُسْتَنْجَى مِنَ اَلْغَائِطِ وَ يُغْتَسَلُ مِنَ اَلْمَنِيِّ كَيْفَ يُدْرَكُ هَذَا بِالْقِيَاسِ تَقُولُ سَأُنْزِلُ مِثْلَ مَا أَنْزَلَ اَللَّهُ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَقُولَهُ قَالَ بَلَى تَقُولُهُ أَنْتَ وَ أَصْحَابُكَ مِنْ حَيْثُ لاَ تَعْلَمُونَ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ جُعِلْتُ فِدَاكَ حَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ أَرْوِيهِ عَنْكَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ اَلْحُسَيْنِ عَنْ جَدِّهِ اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ صَلَوَاتُ اَللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ إِنَّ اَللَّهَ أَخَذَ مِيثَاقَ أَهْلِ اَلْبَيْتِ مِنْ أَعْلَى عِلِّيِّينَ وَ أَخَذَ طِينَةَ شِيعَتِنَا مِنْهُ وَ لَوْ جَهَدَ أَهْلُ اَلسَّمَاءِ وَ أَهْلُ اَلْأَرْضِ أَنْ يُغَيِّرُوا مِنْ ذَلِكَ شَيْئاً مَا اِسْتَطَاعُوهُ قَالَ فَبَكَى أَبُو حَنِيفَةَ بُكَاءً شَدِيداً وَ بَكَى أَصْحَابُهُ ثُمَّ خَرَجَ وَخَرَجُوا (شيخ، مفيد، الاختصاص، ص١٨٩؛ مجلسى،  محمدباقر، بحارالانوار، ج١٠، ص٢٠٤)

ترجمہ:ایک دن ابو حنیفہ اپنے چند رفقاء کے ساتھ امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا ابن رسول اللہ،میں نے ابھی آپ کے بیٹے موسی کاظم کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ ان کے آگے سے گزر رہے تھے،اور انہوں نے ان کو منع بھی نہ کیا،حالانکہ اس آمد و رفت سے معنویت اور حضور قلب میں خلل واقع ہوتا ہے،امام علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو بلایا اور فرمایا کہ ابوحنیفہ نے آپ کے بارے یہ کہا ہے،امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ جی ایسا ہی ہوا ہے،چونکہ میں جس ذات کے مقابل کھڑا تھا ،وہ تمام لوگوں کی نسبت میرے زیادہ قریب تھی،اس لیے لوگوں کی آمد و رفت کو میں نے اپنے لیے خلل نہیں سمجھا کیونکہ خود خدا نے قرآن میں کہا ہے کہ میں تمھاری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔پھر امام صادق علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اپنی آغوش میں لے لیا اور فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہو جائیں کہ تم واقعی اسرار و علوم الہی اور امامت کے محافظ ہو۔پھر امام صادق علیہ السلام ابو حنیفہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے سوالات کا آغاز کیا اور پوچھا کہ حکم قتل شدید تر ہے یا حکم زنا؟ابو حنیفہ نے کہا کہ قتل،تو امام ع نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو خدا نے کیوں قتل کے ثبوت کے لیے دو گواہ اور زنا کے ثبوت کے لیے چار گواہ مقرر کیے،پھر امام ع نے فرمایا کہ اے ابو حنیفہ احکام دین خدا کا استنباط قیاس سے نہیں ہو سکتا،پھر امام صادق علیہ السلام نے پوچھا کہ ترک نماز زیادہ مہم امر ہے یا ترک روزہ؟ابو حنیفہ نے کہا کہ ترک نماز،امام نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ترک روزہ۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ عورتوں کے ایام مخصوصہ میں قضا شدہ نمازوں کی معافی ہے لیکن روزوں کی نہیں۔پھر امام صادق علیہ السلام نے پوچھا کہ حقوق اور معاملات کے حوالے سے عورت ضعیف ہے یا مرد،ابو حنیفہ نے کہا کہ عورت،تو امام علیہ السلام نے کہا کہ اگر ایسا ہی ہے تو مرد کا حصہ عورت کے دوبرابر کیوں ہے حالانکہ قیاس کے مطابق ضعیف کا حصہ زیادہ ہونا چاھیے۔پھر امام صادق علیہ السلام نے پوچھا کہ پاخانہ زیادہ پلید ہے یا  منی ؟ابو حنیفہ نے کہا کہ پاخانہ پلید تر ہے،امام ع نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو کیوں پاخانہ فقط استنجاء سے صاف ہو جاتا ہے جبکہ خروج منی کی صورت میں غسل واجب ہو جاتا ہے؟ تو پس کیسے دین خدا کا استنباط قیاس سے ہوگا؟ابو حنیفہ نے کہا کہ میں آپ پر قربان ہو جاوں  ،مجھے کوئی ایسی بات بتائیں کہ میں جس سے فائدہ حاصل کروں اور آپ کی طرف سے لوگوں تک پہنچاوں،امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ خداوند متعال نے ہم اہل بیت کا میثاق اور ہماری طینت کو اعلی علیین سے لیا ہے اور ہمارے شیعوں کی طینت ہم اہلبیت میں سے ہے،اور اگر تمام خلائق جمع ہو کر بھی اس میں کوئی تبدیلی لانا چاھیں تو نہیں لا سکیں گے۔راوی کہتا ہے کہ ابوحنیفہ اور ان کے رفقاء نے یہ سن کر شدید گریہ کیا اور امام سے اجازت چاہی۔

یہ گفتگو اور اس جیسے کئی دیگر مناظرے امام صادق علیہ السلام کی علمی قابلیت ،روش گفتگو،مد مقابل کے ساتھ رویہ اور خود ابو حنیفہ کی طرف سے امام صادق علیہ السلام کا احترام اور دیگر اخلاقیات کا بھترین ثبوت ہیں۔(حیدر،اسد،الامام الصادق و المذاہب الاربعہ،ترجمہ فارسی،ج١،ص٤٦٤)

 

نتیجہ

ان تمام نکات اور امام صادق علیہ السلام کی سیرت عالیہ کا مطالعہ کرنے سے بلاخوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام  اسلامی رواداری اور وحدت امت کا مصداق اتم تھے۔مجموعی طور پر آپ کا مختلف مکاتب فکر کے ساتھ رویہ احترام،نصیحت،خیرخواہی اور جدال احسن پر مشتمل ہوتا تھا۔آپ علیہ سلام کے اسی خلق عظیم اور رواداری کا نتیجہ تھا کہ بزرگان اور ائمہ اہلسنت آپ علیہ سلام کی شاگردی پر فخر و مباھات کرتے تھے۔ آج امام صادق علیہ السلام کے ماننے والوں کو بالعموم اور مبلغین مذھب حقہ کو بالخصوص وحدت امت کے حوالے سے امام علیہ السلام کی سیرت کا بغور مطالعہ کرنے کی اور عملی طور پر امام علیہ سلام کے متعین کردہ راستوں پر چلنے کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ زمانے میں تفرقہ اور مذھبی عدم برداشت جیسے مسائل کا حل نکالا جا سکے۔اور تمام اسلامی ممالک میں عموما اور وطن عزیز ،مملکت خداداد پاکستان میں باھمی رواداری ،اخوت اور بھائی چارے کی فضا قائم کی جا سکے۔ الہی آمین۔

حوالہ جات:

القرآن الکریم

الکلینی۔محمد بن یعقوب۔الکافی،۱۳۸۰،تهران،اسوه

ابن ابي الحديد،١٩٦٧ م،شرح نهج البلاغه،بيروت،دار الاحياء التراث العربي

ابن بابويه۔محمد بن علی (شیخ صدوق)۔من لا یحضرہ الفقیہ،١٤١٣ ق،تحقيق على اكبر غفاری،قم، جامعہ مدرسین

ابن بابویہ۔محمد بن علی(شیخ صدوق)۔الاعتقادات فی دین الامامیہ،١٩٩٣ م ،تحقیق اعصام عبد السید،بیروت،دارالمفید

ابن بابویہ۔محمد بن علی(شیخ صدوق)۔عیون اخبار الرضا عليه السلام،١٣٧٨،تحقيق لاجوردى،تهران،نشر جهان

ابن حجر عسقلانى،احمد بن على،١٩٦٨،تهذيب التهذيب،بيروت،دار صادر

ابن نعمان،محمد بن محمد،شیخ مفید،١٤١٣ ق،الاختصاص،قم،موسسه النشر الاسلامى

النجفی،محمد حسین،فیضان الرحمان فی تفسیر القرآن،٢٠١٥ م، لاهور، مصباح القرآن ٹرسٹ

النجفی۔ محمد حسین ۔احسن الفوائد فی شرح العقائد، ۱۹۷۱ م،سرگودها (پاکستان) مکتبه السبطین

 جعفريان،رسول،١٣٩١،حيات فكرى.سياسى امامان شيعه،تهران،علم

الجندى،عبد الحليم،١٩٧٧،الامام جعفر الصادق،قاهره.

حر عاملی،محمد بن حسن۔وسائل الشیعہ، ١٤١٤ق،قم،آل البیت لاحیاء التراث

حسینی،سید علی،مدارای بین مذاہب،١٣٨٣ ش،قم،بوستان کتاب

حیدر۔اسد۔الامام الصادق و المذاہب الاربعہ،ترجمہ فارسی محمد حسین سرانجام،١٣٩٢،قم،دانشگاہ ادیان و مذاہب

ذھبی،محمد بن احمد،سیر اعلام نبلاء،١٩٩٨،بیروت،موسسہ الرسالہ

طبرسی،ابو منصور احمد بن علی،احتجاج علی اھل اللجاج،١٤٠٣ ق،مشهد،نشر مرتضى

مجلسى،محمد باقر،١٤٠٣،بحار الانوار،بيروت،موسسه الوفاء.

ہوشنگی،حسین و یاسین شکرانی،اصول و روش ھای حاکم بر مناظرات امام صادق،١٣٩١،تهران،دانشگاہ امام صادق ع

 

 

یحصبی،قاضی ابو الفضل عیاض، ترتیب المدارک و تقریب المسالک،تصحیح احمد بکیر محمود، بیروت، منشورات دار المکتبہ الحیات

محمد عمار رضا اعوان

ایم اے  عربی، ایم فِل علوم حدیث

جامعة المصطفی العالمیہ  قم ایران