انسان اور اس کی وابستگیاں
انسان اور اس کی وابستگیاں
ایک ایرانی فلاسفر آقائے دینانی کا جملہ مجھے بہت پسند آیا کہ «انسان ہونا سب سے بڑی ذمہ داری ہے»۔ ہم قبل اس کے کہ کوئی دوسرا عنوان اپنے ساتھ لگائیں، ایک انسان ہیں۔
ہم انسان پیدا ہوتے ہیں۔ فکر، ثقافت اور سیاست اس سے اگلا مرحلہ ہے۔
یوں انسان ہونے کے ناطے فردی اور سماجی سطح پر زندگی جینے کے بنیادی اصول، اور طریقے سیکھنا ہمارا فرض ہے۔
ان بنیادی طریقوں میں ایک یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو برابر کا انسان سمجھیں، انہیں جینے کا پورا حق دیں، انہیں مکمل احترام دیں۔
ہم جس نبی (ع) کے «امتی» ہیں وہ «انسان کامل» تھے۔ یعنی ان کی انسانیت اعلی درجے کی تھی، پھر اس اخلاقی و انسانی کمال کی بنیاد پر انہیں نبوت و امامت کا منصب بھی ملا۔
ہمارے سماج کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم کسی بھی طرز فکر سے وابستہ ہوجاتے ہیں تو اس میں اتنی حد تک شدت اختیار کر جاتے ہیں کہ انسان کے بنیادی حقوق پر بھی کمپرومائز (سودا)کر لیتے ہیں۔
جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ہمارے لبرلز، ملحد، مذہبی، انقلابی، اصلاحی، محافظہ کار، دائیں طرف والے، بائیں طرف والے سب اس روئیے میں برابرنظر آتے ہیں۔
عام طور پر اہل مذہب کو انسان ہونے کا سبق دیا جاتا ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ اہل مذہب سب سے زیادہ اس لائق ہیں کہ وہ اجتماعی اخلاقیات کا پاس رکھیں۔
لیکن سماجی اخلاقیات کا پاس نہ رکھنے میں صرف مذہبی پرچارک طبقہ ہی نہیں بلکہ سماج کے تمام چھوٹے بڑے افراد اور طبقات برابر کے شریک ہیں۔
سب ہی ایک دوسرے کے بنیادی حقوق کی پامالی میں کوئی کسر نہیں اٹھاتے۔ گویا اخلاقیات کی پاسداری تو انسان کی بنیادی ذمہ داریوں سے نکل چکی ہے۔
آج ہمارے ادارہ جات، تعلیمی و تربیتی نظآم، ریاستی و غیر ریاستی اداروں کے عہدہ داران، سب کو ایک دوسرے کو برابر احترام دینے کا اصول سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
ہمیں گھریلو ماحول میں بچپن ہی سے برابر احترام کی فضا درکار ہے۔
ہمارے خاندانی اقدار میں بچوں کو بڑوں کے جیسا برابر احترام درکار ہے۔
شاگرد کو استاد کی طرف سے احترام درکار ہے۔ سب سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کے ملازمین کی طرف سے عام آدمی کو احترام درکار ہے۔
ہمارے مذہبی مکاتب فکر کو ایک دوسرے سے احترام درکار ہے۔
ہمارے اقلیتی گروہوں کو اکثریت سے احترام درکار ہے۔
احترام کا مطلب حرمت کی پاسداری ہے۔ جس میں جان، مال اور عزت کی پاسداری شامل ہے۔ صرف زبانی مٹھاس تو منافقت بھی ہو سکتی ہے۔
حرمت اور شرافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بڑپن اور بزرگواری کی شروعات اعلی سے ادنی ، بڑے سے چھوٹے اور طاقتور سے کمزور کی جانب ہوتی ہیں۔
ہمیں واحد نصاب (single curriculum)سے بھی زیادہ ایک مربوط تربیتی نظام کی ضرورت ہے جو پورے ملک میں سب علمی و تربیتی مراکز میں رائج کیا جائے۔
جب یہ احترام کی فضا بنے گی تو پھر ہم مذہبی یا سیکولر اقدار پرکھلے ذہن سے بات کر سکتے ہیں۔
اس وقت یہ بات بھی کی جا سکتی ہے کہ کونسا نظریہ انقلاب کے لیے زیادہ کارآمد ہے؟
کس نظریئے میں اصلاح کی طاقت زیادہ ہے؟ کس مکتبہ فکر کے پاس کتنے کچھ مثبت نکات ہیں؟ کونسا مکتبہ فکر اسلام کی ترجمانی میں کہاں پر کھڑا ہے؟
یہ تب ہوگا جب ہم انسان ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ (منقول)