اسلام میں شجر کاری کی اہمیت
اسلام میں شجر کاری کی اہمیت
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو - سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
تحریر:اسد عباس اسدی
مقدمہ
اسلام مکمل ضابطۂ حیات اور دینِ فطرت ہے۔ قرآن مجید کا بنیادی موضوع انسان ہے۔ اللہ نے انسان کو غور و فکر اور تدبّر سے کام لینے کی ہدایت کی ہے۔ اسلام رُوحانیت کا سرچشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ہماری مادّی فلاح اور بدنی صحت کے لئے بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اس پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف ہم اخلاقی و رُوحانی اور سیاسی و معاشی زندگی میں عروج حاصل کر سکتے ہیں بلکہ جسمانی سطح پر صحت و توانائی کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ دینی تعلیمات اور جدید علمی تحقیقات کی روشنی میں فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی جو اہمیت اور افادیت بیان ہوئی ہے اس کی رُو سے جب ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم انفرادی طور پر اور بحیثیت قوم بھی فطرت کے زریں اُصولوں سے متصادم ہیں ،حالانکہ فطرت کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ گرد و پیش کے ماحول کے بارے میں فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے صاف رکھا جائے اور اس میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو روکا جائے۔ ماحول سے مراد انسان کا اِردگرد کا ماحول ہے۔ ہم جہاں رہتے ہیں، یہ کچھ چیزوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ہمارے گھر کے ساتھ دُوسرے گھر ہیں۔ راستے، کھیت، پہاڑ، میدان، فضا، دریا، ڈیم اور سمندر۔ یہ سب چیزیں مل کر ماحول تشکیل دیتی ہیں۔ اس ماحول میں جب کوئی خرابی آ جائے تو ہم اسے آلودگی کا نام دیتے ہیں۔ ماحول کو محفوظ رکھنا ہمارے لئے بے حد ضروری ہے، ایک صحت مند ماحول ہی میں صحت مند معاشرہ فروغ پا سکتا ہے۔ ماحولیاتی صفائی کا اسلامی تصور اس لحاظ سے دیگر تصورات سے مختلف ہے کہ اس تصور میں ہماری زندگی کے تمام اجزاء شامل ہیں۔
اگر ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالیں تو صفائی اور پاکیزگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمیں اس وقت آلودگی اور فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ماحول میں بگاڑ آلودگی کا سبب ہے۔ اس کے لئے آج کے دور میں حفظانِ صحت و ماحولیاتی تحفظ کے لئے شجرکاری ضروری ہوگئی ہے۔ اگر درخت لگائیں گے تو وہ پوری انسانیت ہی نہیں، بلکہ تمام ذی رُوح کو اس سے فائدہ پہنچے گا، درخت انسان کے دوست ہیں۔
اسلام نے جہاں دُنیا کے دُوسرے مسائل اور چیلنجز کا حل اور تجزیہ پیش کیا، وہیں اس نے درختوں کی اہمیت و افادیت اور ضرورت و احتیاج کو بھی اپنی تعلیمات کی روشنی میں واضح کیا ہے، چناںچہ قرآن میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اُگائی۔ (سورۃ الحجر)
اللہ کے رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات میں درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت آئی ہے حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے تاآنکہ وہ دشمن کے لیے فائدہ مند نہ ہو جائیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں ۔
موجودہ سائنس شجرکاری کی جس اہمیت و افادیت کی تحقیق کر رہی ہے، قرآن و احادیث نے چودہ سو سال قبل ہی آگاہ کر دیا تھا۔ قرآن کریم میں مختلف حوالے سے شجر (درخت) کا ذکر آیا ہے۔
احادیث مبارکہ میں شجرکاری کے حوالے سے صریح ہدایات موجود ہیں۔ یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے حالتِ جنگ میں بھی درختوں کے کاٹنے کو ممنوع قرار دیا ہے۔ شجرکاری نا صرف سنتِ رسولؐ ہے، بلکہ ماحول کو خوبصورت اور دلکش بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
قرآن کریم میں درختوں کا ذکر
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے متعدد مقامات پر اور مختلف انداز میں درختوں کا ذکر فرما کر انسانوں کو درختوں کی اہمیت اور ان کی ضرورت کی طرف متوجہ کیا ہے ، ہم یہاں بطور مثال ان آیات کو ذکر کرتے ہیں کہ جن میں درخت اور درخت کاری کو ذکر کیا گیا ہے
آیت نمبر ۱
اور ہم نے کہا کہ اے آدم علیہ السّلام ! اب تم اپنی زوجہ کے ساتھ جنّت میں ساکن ہوجاؤ اور جہاں چاہو آرام سے کھاؤ صرف اس درخت کے قریب نہ جانا کہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں میں سے ہوجاؤگے [1]۔
آیت نمبر ۲
خدا ہی وہ ہے جو گٹھلی اور دانے کا شگافتہ کرنے والا ہے وہ مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے۔ یہی تمہارا خدا ہے تو تم کدھر بہکے جارہے ہو[2] ۔
آیت نمبر ۳
اور اے آدم علیہ السّلام تم اور تمہاری زوجہ دونوں جنّت میں داخل ہوجاؤ اور جہاں جو چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا کہ ظلم کرنے والوں میں شمار ہوجاؤ گے [3]۔
پھر شیطان نے ان دونوں میں وسوسہ پیدا کرایا کہ جن شرم کے مقامات کو چھپا رکھا ہے وہ نمایاں ہوجائیں اور کہنے لگا کہ تمہارے پروردگار نے تمہیں اس درخت سے صرف اس لئے روکا ہے کہ تم فرشتے ہوجاؤ گے یا تم ہمیشہ رہنے والو میں سے ہوجاؤ گے ۔[4]
آیت نمبر ۴
اور جب ہم نے کہہ دیا کہ آپ کا پروردگار تمام لوگوں کے حالات سے باخبر ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے اور ہم لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لیکن ان کی سرکشی بڑھتی ہی جارہی ہے[5]۔
آیت نمبر ۵
اور انہیں دو شخصوں کی مثال سنا دو ان دونوں میں سے ایک کے لیے ہم نے انگور کے دو باغ تیار کیے اور ان کے گرد کھجوریں لگائیں اوران دونوں کے درمیان کھیتی بھی لگا رکھی تھی[6]۔
آیت نمبر ۶
پھر اسے دردِ زہ ایک کھجور کی جڑ میں لے آیا، کہا اے افسوس میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور میں بھولی بھلائی ہوتی[7]۔
آیت نمبر ۷
پھر شیطان نے اس کے دل میں خیال ڈالا کہا اے آدم کیا میں تجھے ہمیشگی کا درخت بتاؤں اور ایسی بادشاہی جس میں ضعف نہ آئے[8]۔
پھر دونوں نے اس درخت سے کھایا تب ان پر ان کی برہنگی ظاہر ہوگئی اور اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے، اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی پھر بھٹک گیا[9] ۔
آیت نمبر ۸
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چارپائے اور بہت سے آدمی اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں، اور بہت سے ہیں کہ جن پر عذاب مقرر ہو چکا ہے، اور جسے اللہ ذلیل کرتا ہے پھر اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا، بے شک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے[10]۔
آیت نمبر ۹
پھر ہم نے اس سے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ اگا دیے، جن میں تمہارے بہت سے میوے ہیں اور انہی میں سے کھاتے ہو[11]۔
اور وہ درخت جو طور سینا سے نکلتا ہے جو کھانے والوں کے لیے روغن اور سالن لے کر اگتا ہے[12]۔
آیت نمبر ۱۰
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے، قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارا ہے زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو، روشنی پر روشنی ہے، اللہ جسے چاہتا ہے اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے[13]۔
آیت نمبر۱۱
بھلا کس نے آسمان اور زمین بنائے اور تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس سے رونق والے باغ اگائے، تمہارا کام نہ تھا کہ ان کے درخت اگاتے، کیا اللہ تعالٰی کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے، بلکہ یہ لوگ کج روی کر رہے ہیں[14]۔
آیت نمبر ۱۲
پھر جب اس کے پاس پہنچا تو میدان کے داہنے کنارے سے برکت والی جگہ میں ایک درخت سے آواز آئی کہ اے موسیٰ! میں اللہ جہان کا رب ہوں[15]۔
آیت نمبر ۱۳
اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ سب قلم ہوجائیں اور دریا سیاہی اس کے بعد اس دریا میں سات اور دریا سیاہی کے آ ملیں تو بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں، بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے[16]۔
آیت نمبر ۱۴
وہ ان پر سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار چلتی رہی (اگر تو موجود ہوتا)، اس قوم کو اس طرح گرا ہوا دیکھتا کہ گویا کہ گھری ہوئی کھجوروں کے تنے ہیں[17]۔
آیت نمبر ۱۵
انجیر اور زیتون کی قسم ہے[18]۔
آیت نمبر ۱۶
کیا یہ اچھی مہمانی ہے یا تھوہر کا درخت[19]۔
بے شک وہ ایک درخت ہے جو دوزخ کی جڑ میں اگتا[20] ہے۔
آیت نمبر ۱۷
بے شک تھوہر کا درخت[21]۔
آیت نمبر ۱۸
بے شک اللہ مسلمانوں سے راضی ہوا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پھر اس نے جان لیا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا پس اس نے ان پر اطمینان نازل کر دیا اور انہیں جلد ہی فتح دے دی[22]۔
آیت نمبر ۱۹
اس میں میوے اور غلافوں والی کھجوریں ہیں[23]۔
اور بھوسے دار اناج اور پھول خوشبو دار ہیں[24]۔
جن میں بہت سی شاخیں ہوں گی[25]۔
آیت نمبر ۲۰
(مسلمانو!) تم نے جو کھجور کا پیڑ کاٹ ڈالا یا اس کو اس کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا یہ سب اللہ کے حکم سے ہوا اور تاکہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے[26]۔
احادیث میں درختوں کا ذکر
اگر ہم احادیث کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ شجر کاری کی جتنی اہمیت قرآن کریم نے ذکر کی ہے اس سے کہیں زیادہ شجر کاری کی اہمیت اور اس کے فائدے احادیث میں ذکر ہوئے ہیں خصوصا آئمہ اہل بیت نے شجر کاری کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے ، بطور نمونہ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔
حدیث نمبر 1
رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو شخص پودا لگاتا ہے اور اس میں سے کوئی انسان یا اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی مخلوق کھاتی ہے تو وہ اس (پودا لگانے والے) کے لئے صدقہ ہوتا ہے[27]۔
حدیث نمبر 2
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ( دوسری سند ) اور مجھ سے عبدالرحمن بن مبارک نے بیان کیا ان سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے مسلم نے بیان کیا کہ ہم سے ابان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، اور ان سے انس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے[28]۔
حدیث نمبر 3
حضور اکرمﷺ نے فرمایا : جس کے پاس زمین ہو، اسے اس میں کاشتکاری کرنی چاہیے، اگر وہ اس میں خود کاشت نہ کرسکتا ہو، تو وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو دے دے، تاکہ وہ اس میں کاشت کرسکے[29]۔
حدیث نمبر 4
حضوراکرمﷺ نے فرمایا : اگر قیامت برپا ہورہی ہو، اور تمہیں درخت لگانے کی نیکی کا موقعہ مل جائے، تو فوراً نیکی کر ڈالو[30] ،
حدیث نمبر 5
آپ ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے اور اس میں پرندے، انسان اور جانور کھا لیں تو وہ اس کے لئے صدقہ ہے[31]۔
حدیث نمبر 6
آپﷺ نے فرمایا: جومسلمان بھی پودا لگائے گا، اور اس سے کچھ کھالیاجائے گا، وہ اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا اور جو چوری کرلیاجائے، وہ قیامت تک کے لئے اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا[32]۔
حدیث نمبر 7
جو مسلمان پودا لگائے گا یا کھیتی کرے گا اور اس سے کوئی پرندہ، انسان یا چوپایہ کھالے گا، وہ اس کے لئے صدقہ بن جائے گا[33]۔
حدیث نمبر 8
جو شخص پودا لگائے گا، اس کے لئے اس پودے سے نکلنے والے پھل کے بقدر ثواب لکھاجائے گا[34]۔
حدیث نمبر9
جو کسی بیری کے درخت کو کاٹے گا، اللہ تعالیٰ جہنم میں اس کے سر کو اوندھا کردے گا[35]۔
حدیث نمبر 10
سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لعنت کا سبب بننے والی تین جگہوں سے بچو (۱) پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے (۲) راستہ میں پاخانہ کرنے سے (۳) سایہ دارجگہوں میں پاخانہ کرنے سے[36]۔
حدیث نمبر 11
رسول خدا ﷺ نے فرمایا: جو بھی ایک درخت لگائے گا جب تک لوگ اس سے استفاہ کرتے رہیں گے لگانے والے کو اسکا ثواب ملتا رہے گا [37]۔
حدیث نمبر 12
امام صادق (ع) نے فرمایا : خداوند متعال نے اپنے انبیا ءاور رسولوں کے لیے شجر کاری کا کام انتخاب کیا تاکہ لوگ بارش سے نا خوش نا ہوں بلکہ باران رحمت کے منتظر رہیں [38]۔
حدیث نمبر 13
حضرت علی بن الحسین (ع) نے فرمایا : شجر کاری بہترین اعمال میں سے ہے درخت لگائیں ،زراعت کریں تاکہ اس سے خدا کے بندے ، چرند اور پرند استفادہ کریں [39]۔
حدیث نمبر 14
امام صادق (ع) نے فرمایا : درخت لگاؤ اور زراعت کرو خدا کی قسم لوگوں کے کاموں میں سے اس سے زیادہ پاکیزہ اور حلال تر کوئی دوسرا عمل نہیں ہے [40]۔
حدیث نمبر 15
امام صادق (ع) نے فرمایا: پھل دار درختوں کو مت کاٹیں ایسا نہ ہو کہ خدا کا عذاب تم پر نازل ہوجائے [41]۔
حدیث نمبر16
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا : اگر کوئی گھر بنائے بغیر کسی پر ظلم و زیادتی کیے اور اس میں درخت لگایے تو جب تک بندگان خدا اس سے مستفید ہوتے رہیں گے اسکے نامہ اعمال میں ثواب درج ہوتا رہے گا [42]۔
حدیث نمبر 17
رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں : کوئی بھی اسوقت تک درخت نہیں لگا سکتا جب تک کہ خداوند متعال اس کے نامہ اعمال میں اس کا اجر و ثواب لکھ نہ دیے[43] ۔
حدیث نمبر 18
رسول اکرم (ص)نے فرمایا : جو مسلمان بھی درخت اگاتا ہے یا زراعت کرتا ہے تو اسکا ثواب خدا کی راہ میں صدقیہ دینے جتنا ہے [44]۔
حدیث نمبر 19
حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا : جو کوئی بھی درخت لگاتا ہے تو اسکو اس درخت پر لگنے والے پھلوں کے برابر اجرو ثواب ملتا ہے [45]۔
حدیث نمبر 20
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی درخت لگائے اور پھر اس کے جوان ہونے تک اسکی دیکھ بھال کرے یہاں تک کہ اس درخت پر پھل لگنے لگیں تو جو جو اس درخت سے یا اس کے پھل سے استفادہ کرے گا خداوند متعا ل لگانے والے کے نامہ اعمال میں صدقہ کا ثواب لکھ دے گا [46]۔
حدیث نمبر 21
امام صادق (ع) نے فرمایا : میں اپنے باغوں میں اتنی محنت کرتا ہوں کہ پسینے سے شرابور ہو جاتا ہوں حالانکہ کام کرنے والے موجود ہوتے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں خدا کی بارگاہ میں خود محنت و زحمت کر کے رزق حلال طلب کروں [47] ۔
حدیث نمبر 22
حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی بھی کجھور یا بیری کے درخت کو پانی دے گا گویا اس نے ایک پیاسے کو پانی پلایا [48]۔
حدیث نمبر 23
امام باقر (ع) امیرالمومنین سے نقل کرتے ہیں : جس شخص کے پاس زمین اور پانی موجود ہو اور وہ کاشت کاری نہ کرے اور فقیر ہو جایے تو خداوند متعال ایسے شخص کو اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے [49]۔
حدیث نمبر 24
امام صادق (ع) نے فرمایا : درخت انسان کیلیے خلق کیے گئے ہیں پس انسان کی ذمہ داری ہے کہ درخت لگائے اور ان کو پانی دے اور ان کی حفاظت کرے [50]۔
حدیث نمبر 25
رسول خدا ﷺ فرماتے ہیں : یا علی ! آپ کے ہوتے ہوے کاشتکاروں پر ظلم نہیں ہونا چاہیے اور ان کی زمین سے مالیات بھی نہیں لینی چاہیں[51] ۔
حدیث نمبر 26
امام سجاد (ع) فرماتے ہیں : میں ذخیرہ اندوزی کیلئے کاشت نہیں کرتا بلکہ اس لیے کاشتکاری کرتا ہوں تاکہ اس سے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہو[52] ۔
حدیث نمبر 27
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خدا نے جب رزق کو خلق فرمایا تو برکت کو کاشتکاری میں قرار دیا [53]۔
حدیث نمبر 28
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : جان لو کہ پہاڑوں اور بیابانوں میں اگنے والے درختوں کی لکڑیاں دوسرے درختوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہوتی ہے [54] ۔
حدیث نمبر 29
حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رزق و روزی کو زمین کے سینے میں تلاش کریں [55]۔
حدیث نمبر 30
امام باقر (ع) نے فرمایا : ایک شخص نے حضرت علی کو دیکھا کہ آپ کھجور کی گٹھلیوں سے بھری بوری پر بیٹھے ہیں ، عرض کی مولا یہ کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا یہ ایک لاکھ کھجور کے درخت ہیں ، حضرت علی نے وہ سب گٹھلیاں کاشت کیں اور ایک بھی نہیں چھوڑی [56] ۔
حدیث نمبر 31
حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سبزہ کی طرف دیکھنا آنکھوں کی تقویت کا باعث بنتا ہے [57]۔
حدیث نمبر 32
حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دنیا فنا ہونے لگے اور قیامت ہونے والی ہو اور آپ کے پاس صرف ایک درخت لگانے جتنی فرصت ہو تو اس فرصت سے استفادہ کریں اور درخت لگا دیں [58]۔
درختوں کے فایدے
درختوں کے بے شمار فائدے ہیں قرآن و حدیث اور آج کی جدید سائنس نے درختوں کے بے شمار فائدے ذکر کئے ہیں درخت انسان کی زندگی کے لیئے جتنا ضروری ہے اس لحاظ سے درختوں کے فائدے ذکر کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے لیکن ہم مختصرا کچھ فائدوں کو ذیل میں ذکر کرتے ہیں ۔
1 ۔درخت خوبصورتی کا سبب ہیں
طبیعت درختوں کے بغیر ممکن نہیں ، درختوں اور جنگلوں کا وجود انسان کی زندگی میں خوبصورتی اور زیبایی کا باعث بنتا ہے۔
2 ۔درخت زمین کی نبض اور مایہ حیات انسان و حیوان ہیں
درخت زہریلی گیسوں اپنے اندر جذب کرتے ہیں اور انسان کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں ۔
3۔درختوں کے پتے حیوانوں اور بعض حشرات کو غذا فراہم کرتے ہیں اور درختوں پر لگنے والے پھل فروٹ انسانوں کو غذا فراہم کرتے ہیں اور انسانوں کو مختلف قسم کے وٹامن فراہم کرتے ہیں ۔
4۔درخت کی لکڑی انسان کی بہت ساری ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔
5۔درخت زمیں کی حفاظت کرتے ہیں اور زمین کو سیلاب کے نقصانات سے بچاتے ہیں ۔
6۔درخت موسموں کی تبدیلی میں بڑا عمل دخل رکھتے ہیں اور ہواؤں کو چلاتے ہیں ۔
7۔درختوں کا سایہ اور جڑیں ان جڑی بوٹیوں کو غذا فراہم کرتے ہیں جو جڑی بوٹیاں خود زمین کی گہرای سے غذا حاصل نہیں کر سکتے ۔
8 ۔موسم خزاں میں لوگ درختوں کے پتوں سے استفادہ حاصل کرتے ہیں ۔
9 ۔بہت سارے درخت ایسے ہیں جو زمانہ قدیم سے علم طب میں استعمال ہوتے ہیں اور انسان کی طبی ضرورتیں پوری کرتے ہیں ۔
10۔ صوتی آلودگی میں کمی
کیا آپ جانتے ہیں درخت شور کی آلودگی میں بھی کمی کرتے ہیں؟ یہ کسی جگہ پر موجود پرشور آوازوں کو بھی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں صرف درخت ہی نہیں بلکہ اس کی شاخیں اور پتے بھی یہ کام کرتے ہیں۔
11۔درخت انسان کو اچھی تفریح گاہ محیا کرتے ہیں ۔
12۔لینڈ سلائیڈنگ سے تحفظ
درخت کی جڑیں زمین کی مٹی کو روک کر رکھتی ہیں جس کی وجہ سے زمین کا کٹاؤ یا لینڈ سلائیڈنگ نہیں ہونے پاتی۔
13۔درخت ہوا میں لطافت پیدا کرتے ہیں
14 ۔ درخت پانی کی گردش کا سبب بنتے ہیں
15۔ قحط سے بچاؤ
جس طرح درخت سیلابوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں اسی طرح یہ قحط اور خشک سالی سے بھی بچاتے ہیں۔
16۔ سیلاب سے بچاؤ
جن علاقوں میں بڑی تعداد میں درخت موجود ہوتے ہیں اس علاقے کو سیلاب کا خطرہ بے حد کم ہوتا ہے۔
17۔درخت گرد و غبار کو جذب کر تے ہیں ۔
18 ۔درخت زمیں کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرتے ہیں ۔
19۔ لوگوں کی خوشگوار صحت
شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جس مقام پر زیادہ درخت موجود ہوتے ہیں وہاں کے لوگ زیادہ صحت مند رہتے ہیں۔
20 ۔ درخت انسان کی اقتصاد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
درختوں کی موجودگی تناؤ اور ڈپریشن کو کم کرکے لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند بناتی ہے جبکہ درختوں کے درمیان رہنے سے ان کی تخلیقی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
نتیجہ
موجودہ دور میں جانداروں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ درختوں اور پودوں کی بے جا کٹائی ہے۔ درخت جتنے زیادہ ہوں گے، ماحول اتنا ہی صاف ستھرا ہو گا۔ ہمارا مذہب اسلام بھی درختوں کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور درخت لگانے کو صدقہِ جاریہ قرار دیتا ہے۔ درخت نہ صرف سایہ دیتے ہیں بلکہ پھل اور جانوروں کے لیے چارہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ درخت آکسیجن خارج کرتے ہیں جس کے بغیر ہمارا زندہ رہنا ممکن نہیں۔ درختوں سے قیمتی لکڑی اور ادویات بھی حاصل ہوتی ہیں۔ درخت زمین کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں اور زمین کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں۔
درخت زمین کا زیور ہیں۔ درخت تیز آندھیوں کو روکتے ہیں اور بارش کا سبب بنتے ہیں۔ درختوں پر ریشم کے کیڑے پلتے ہیں جن سے قیمتی ریشم تیار ہوتا ہے۔ الغرض درخت زمین کا حسن اور ہماری بنیادی ضرورت ہیں۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر اس زمین اور اپنے ملک کو شاداب بنانا چاہیے۔
www.bri.com.pk
[1] سورۃ البقرہ آیت نمبر ۳۵،
وَ قُلْنَا يَا آدَمُ اسْکُنْ أَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَ کُلاَ مِنْهَا رَغَداً حَيْثُ شِئْتُمَا وَ لاَ تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
[2] سورۃ الانعام آیت نمبر ۹۵
إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوَى يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذٰلِکُمُ اللَّهُ فَأَنَّى تُؤْفَکُونَ
[3] سورہ الاعراف آیت نمبر ۱۹،
وَ يَا آدَمُ اسْکُنْ أَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّةَ فَکُلاَ مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَ لاَ تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
[4] سورہ الاعراف آیت نمبر ۲۰
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهَاکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلاَّ أَنْ تَکُونَا مَلَکَيْنِ أَوْ تَکُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ
[5] سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ۶۰
وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي القُرْآنِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلاَّ طُغْيَانًا كَبِيرًا
[6] سورۃ الکھف آیت نمبر ۳۲،
وَاضْرِبْ لَـهُـمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّـتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَّّجَعَلْنَا بَيْنَـهُمَا زَرْعًا
[7] سورۃ مریم آیت نمبر ۲۳
فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَـةِۚ قَالَتْ يَا لَيْتَنِىْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَّنْسِيًّا
[8] سورۃ طہ آیت نمبر ۱۲۰،
فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَآ اٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْـدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى
[9] سورۃ طہ آیت نمبر ،۱۲۱
فَاَكَلَا مِنْـهَا فَبَدَتْ لَـهُمَا سَوْاٰتُـهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْـهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّـةِ ۚ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٝ فَغَوٰى
[10] سورۃ الحج آیت نمبر ۱۸
اَلَمْ تَـرَ اَنَّ اللّـٰهَ يَسْجُدُ لَـهٝ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِى الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَكَثِيْـرٌ مِّنَ النَّاسِ ۖ وَكَثِيْـرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۗ وَمَنْ يُّهِنِ اللّـٰهُ فَمَا لَـهٝ مِنْ مُّكْرِمٍ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ
[11] سورۃ المومنون آیت نمبر ۱۹
فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنَّاتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّّاَعْنَابٍۘ لَّكُمْ فِيْـهَا فَوَاكِهُ كَثِيْـرَةٌ وَّّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ
[12] سورۃ المومنون آیت نمبر ،۲۰
وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَيْنَـآءَ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْـغٍ لِّلْاٰكِلِـيْـنَ
[13] سورۃ النور آیت نمبر ۳۵،
اَللّهُ نُـوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُـوْرِهٖ كَمِشْكَاةٍ فِيْـهَا مِصْبَاحٌ ۖ اَلْمِصْبَاحُ فِىْ زُجَاجَةٍ ۖ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّـهَا كَوْكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُـوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَكَادُ زَيْتُـهَا يُضِيٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّوْرٌ عَلٰى نُـوْرٍ ۗ يَـهْدِى اللّـٰهُ لِنُـوْرِهٖ مَنْ يَّشَآءُ وَيَضْرِبُ اللّـٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ
[14] سورۃ النمل آیت نمبر ،۶۰
اَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْبَتْنَا بِهٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍۚ مَّا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْبِتُـوْا شَجَرَهَا ۗ ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللّـٰهِ ۚ بَلْ هُـمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ
[15] سورۃ القصص آیت نمبر ۳۰
فَلَمَّآ اَتَاهَا نُـوْدِىَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَيْمَنِ فِى الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ يَّا مُوْسٰٓى اِنِّـىٓ اَنَا اللّـٰهُ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ
[16] سورۃ االقمٰن آیت نمبر ۲۷
وَلَوْ اَنَّمَا فِى الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّّالْبَحْرُ يَمُدُّهٝ مِنْ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللّـٰهِ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ عَزِيْزٌ حَكِـيْمٌ
[17] سورۃ الحاقہ ایت نمبر ۷،
سَخَّرَهَا عَلَيْـهِـمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَّّثَمَانِيَةَ اَيَّامٍۙ حُسُوْمًا فَتَـرَى الْقَوْمَ فِيْـهَا صَرْعٰى كَاَنَّـهُـمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ
[18] سورۃ التین آیت نمبر ۱
وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ
[19] سورۃ الصفٰت آیت نمبر ۶۲
اَذٰلِكَ خَيْـرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ
[20] سورۃ الصفٰت آیت نمبر ،۶۴
اِنَّـهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِىٓ اَصْلِ الْجَحِـيْمِ
[21] سورۃ الدخان آیت نمبر ۴۳
اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّـوْمِ
[22] سورۃ الفتح آیت نمبر ۱۸،
لَّـقَدْ رَضِىَ اللّـٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَـعَلِمَ مَا فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ فَاَنْزَلَ السَّكِـيْنَةَ عَلَيْـهِـمْ وَاَثَابَـهُـمْ فَتْحًا قَرِيْبًا
[23] سورۃ الرحمن آیت نمبر ،۱۱،
فِـيْـهَا فَاكِهَةٌ وَّّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَكْمَامِ
[24] سورۃ الرحمن آیت نمبر ،۱۲
وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ
[25] سورۃ الرحمن آیت نمبر ،۴۸
ذَوَاتَـآ اَفْنَانٍ
[26] سورۃ الحشر آیت نمبر ۵
مَا قَطَعْتُـمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَـرَكْـتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰٓى اُصُوْلِـهَا فَبِاِذْنِ اللّـٰهِ وَلِيُخْزِىَ الْفَاسِقِيْنَ
[27] مسند احمد
[28] بخاری
[29] صحیح مسلم
[30] مسند احمد
[31] صحیح بخاری
[32] (صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۵۵۱)
[33] بخاری شریف حدیث نمبر ۰۲۳۲، ۲۱۰۶
[34] مسند احمد، حدیث نمبر۰۲۵۳۲
[35] سنن ابی داؤد، حدیث نمبر ۹۳۲۵
[36] سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۶۲
[37] نهج الفصاحه صفحه 597
[38] وسائل الشیعه جلد 12 ، میزان الحکمه جلد 4 صفحه 214 نقل از وسایل جلد 12 صفحه 192
[39] الحیاة صفحه 345
الحیاة صفحه 345 [40]
[41] میزان الحکمه حدیث شماره 1955
[42] جلد 5 الحیاة نقل از مستدرک الوسائل جلد 2 صفحه 501
[43] کنزالعمال جلد 3 صفحه 896
[44] مستدرک الوسائل جلد 13 صفحه 46
[45] نهج الفصاحه
[46] میزان الحکمه حدیث شماره 9143
[47] وسائل الشیعه جلد 12
[48] کتاب الحیاة جلد 5 صفحه 344 ، وسائل الشیعه جلد 12 صفحه 25
[49] وسائل الشیعه جلد 4 ، جلد 4 صفحه 213 میزان الحکمه نقل از بحارالانوار جلد 103 صفحه 65 قرب الاسناد صفحه 55
[50] الحیاة جلد 5 صفحه 347 ، بحارالانوار جلد 3 صفحه 82و83
[51] وسائل جلد 13 صفحه 216
[52] کتاب الحیاة جلد 5 صفحه 347 ۔
[53] کنزل العمال جلد 4 صفحه 32 ۔
[54] نهج البلاغه
[55] کنزالعمال جلد 4 صفحه 21
[56] وسائل الشیعه جلد 6 صفحه 25
[57] نهج الفصاحه
[58] مستدرک الوسائل جلد 2 صفحه 501 ، الحیاة جلد 5 صفحه 344
+ نوشته شده در پنجشنبه چهارم آبان ۱۴۰۲ ساعت 9:37 توسط اسد عباس اسدی
|