برے رویے پر ناراضگی کی بجائے ہمدردی
ایک دن حکیم سقراط نے ایک مرد کو دیکھا جو بہت غصّے میں تھا۔ سقراط نے اس سے ناراضگی کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا:
میں نے راستے میں ایک واقف شخص کو دیکھا ہے، میں نے اسے سلام کیا لیکن اس نے جواب ہی نہیں دیا! اور لاپرواہی سے میرے پاس سے گزر گیا۔ مجھے اس کے اس رویے سے بہت دکھ ہوا ہے۔
سقراط نے کہا: تو اس بات کا غصّہ کیسا؟
اس مرد نے تعجب کرتے ہوئے کہا: ظاہر ہے اس قسم کا رویہ ناراضگی کا سبب تو بنتا ہے۔
سقراط نے اس سے پوچھا:
اگر تو راستے میں کسی ایسے شخص کو دیکھتا کہ جو زمین پر گرا ہوا ہوتا اور درد کی وجہ سے کروٹیں بدل رہا ہوتا! آیا تو اس کی اس حالت پر برا مناتا اور اس سے ناراض ہوتا؟
تو اس نے حکیم سے کہا ہرگز نہیں! کیونکہ ظاہر ہے کوئی بھی کسی کی بیماری پر ناراض نہیں ہوتا۔
سقراط نے سوال کیا۔ تو پھر ناراضگی کی بجائے اس مریض کے ساتھ کیسا سلوک کرتا؟
اس نے جواب دیا: اس کے ساتھ شفقت اور ہمدردی کا اظہار کرتا اور کوشش کرتا کہ اس کے لئے کسی ڈاکٹر کو بلا کے لاؤں یا کوئی دوا لاؤں۔
سقراط نے کہا: تو اس کے ساتھ اچھا سلوک اس لئے کرنا چاہتا تھا کہ وہ مریض ہے۔ آیا جس شخص کا کردار اچھا نہیں کیا وہ فکری طور پر مریض نہیں ہے؟
فکری و ذہنی بیماری کا نام غفلت ہے۔ جو شخص غافل ہے اور بدی انجام دیتا ہے تو اس کے ساتھ ناراض ہونے کی بجائے اس کے ساتھ ہمدردی کی جائے اور اس کی مدد کی جائے۔
پس کسی سے ناراض نہ ہوں اور کینے کو دل میں جگہ نہ دیں۔ جان لیں کہ جو بھی برائی کا مرتکب ہوتا ہے روحانی بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•